خزائن العرفان

سُوۡرَةُ المطفّفِین

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ مطفّفّین ایک قول میں مکّیہ ہے اور ایک میں مدنیّہ، اور ایک قول یہ ہے کہ زمانۂ ہجرت میں مکّہ مکرّمہ و مدینہ طیّبہ کے درمیان نازل ہوئی۔ اس سورت میں ایک ۱ رکوع، چھتّیس ۳۶ آیتیں، ایک سو انہتّر۱۶۹ کلمے اور سات سو تیس۷۳۰ حرف ہیں۔ شانِ نزول : رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم جب مدینہ طیّبہ تشریف فرما ہوئے تو یہاں کے لوگ پیمانہ میں خیانت کرتے تھے، بالخصوص ایک شخص ابوجہینہ ایسا تھا کہ وہ دو پیمانے رکھتا تھا لینے کا اور دینے کا، اور ان لوگوں کے حق میں یہ آیتیں نازل ہوئیں اور انہیں پیمانے میں عدل کرنے کا حکم دیا گیا۔

(۱)  کم تولنے  والوں کی خرابی ہے۔

(۲) وہ کہ جب اوروں سے  ناپ لیں پورا لیں۔

(۳) اور جب انہیں ناپ تول کر دی کم کر دیں۔

(۴) کیا ان لوگوں کو گمان نہیں کہ انہیں اٹھنا ہے۔

(۵) ایک عظمت والے  دن کے  لیے  (ف ۲)

۲                 یعنی روزِ قیامت۔ اس روز ذرّہ ذرّہ کا حساب کیا جائے گا۔

(۶) جس دن سب لوگ (ف ۳) رب العالمین کے  حضور کھڑے  ہوں گے۔

۳                 اپنی قبروں سے اٹھ کر۔

(۷)  بیشک کافروں کی لکھت (ف ۴) سب سے  نیچی جگہ سجین میں ہے  (ف ۵)

۴                 یعنی ان کے اعمال نامے۔

۵                 سجّین ساتویں زمین کے اسفل میں ایک مقام ہے جو ابلیس اور اس کے لشکروں کا محل ہے۔

(۸) اور تو کیا جانے  سجین کیسی ہے  (ف ۶)

۶                 یعنی وہ نہایت ہی ہول و ہیبت کا مقام ہے۔

(۹) وہ لکھت ایک مہر کیا نوشتہ ہے  (ف ۷)

۷                 جو نہ مٹ سکتا ہے، نہ بدل سکتا ہے۔

(۱۰)  اس دن (ف ۸) جھٹلانے  والوں کی خرابی ہے۔

۸                 جب کہ وہ نوشتہ نکالا جائے گا۔

(۱۱) جو انصاف کے  دن کو جھٹلاتے  ہیں (ف ۹)

۹                 اور روزِ جزا یعنی قیامت کے منکِر ہیں۔

(۱۲) اور اسے  نہ جھٹلائے  گا مگر ہر سرکش (ف ۱۰)

۱۰               حد سے گزرنے والا۔

(۱۳) جب اس پر ہماری آیتیں پڑھی جائیں کہے  (ف ۱۱) اگلوں کی کہانیاں ہیں۔

۱۱               ان کی نسبت کہ یہ۔

(۱۴) کوئی نہیں (ف ۱۲) بلکہ ان کے  دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے  ان کی کمائیوں نے  (ف ۱۳)

۱۲               اس کا کہنا غلط ہے۔

۱۳               ان معاصی اور گناہوں نے جو وہ کرتے ہیں یعنی اپنے اعمالِ بد کی شامت سے ان کے دل زنگ خوردہ اور سیاہ ہو گئے۔ حدیث شریف میں ہے کہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا جب بندہ کوئی گناہ کرتا ہے اس کے دل میں ایک نقطۂ سیاہ پیدا ہوتا ہے، جب اس گناہ سے باز آتا ہے اور توبہ و استغفار کرتا ہے تو دل صاف ہو جاتا ہے اور اگر پھر گناہ کرتا ہے تو وہ نقطہ بڑھتا ہے یہاں تک کہ تمام قلب سیاہ ہو جاتا ہے اور یہی رَین یعنی وہ زنگ ہے جس کا آیت میں ذکر ہوا۔ (ترمذی)

(۱۵) ہاں ہاں بیشک وہ اس دن (ف ۱۴) اپنے  رب کے  دیدار سے  محروم ہیں (ف ۱۵)

۱۴               یعنی روزِ قیامت۔

۱۵               جیسا کہ دنیا میں اس کی توحید سے محروم رہے۔ مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ مومنین کو آخرت میں دیدارِ الٰہی کی نعمت میسّر آئے گی کیونکہ محرومی دیدار سے کفّار کی وعید میں ذکر کی گئی اور جو چیز کفّار کے لئے وعید و تہدید ہو وہ مسلمان کے حق میں ثابت ہو نہیں سکتی تو لازم آیا کہ مومنین کے حق میں یہ محرومی ثابت نہ ہو، حضرت امام مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جب اس نے اپنے دشمنوں کو اپنے دیدار سے محروم کیا تو دوستوں کو اپنی تجلّی سے نوازے گا اور اپنے دیدار سے سرفراز فرمائے گا۔

(۱۶) پھر بیشک انہیں جہنم میں داخل ہونا۔

(۱۷)  پھر کہا جائے  گا، یہ ہے  وہ (ف ۱۶) جسے  تم جھٹلاتے  تھے  (ف ۱۷)

۱۶               عذاب۔

۱۷               دنیا میں۔

(۱۸) ہاں ہاں بیشک نیکوں کی لکھت (ف ۱۸) سب سے  اونچا محل علیین میں ہے  (ف ۱۹)

۱۸               یعنی مومنینِ صادقین کے اعمال نامے۔

۱۹               علیّین ساتویں آسمان میں زیرِ عرش ہے۔

(۱۹) اور تو کیا جانے  علیین کیسی ہے  (ف ۲۰)

۲۰               یعنی اس کی شان عجیب عظمت والی ہے۔

(۲۰) وہ لکھت ایک مہر کیا نوشتہ ہے  (ف ۲۱)

۲۱               علیّین میں، اس میں ان کے اعمال لکھے ہیں۔

(۲۱) کہ مقرب (ف ۲۲) جس کی زیارت کرتے  ہیں۔

۲۲               فرشتے۔

(۲۲) بیشک نیکوکار ضرور چین میں ہیں۔

(۲۳) تختوں پر دیکھتے  ہیں (ف ۲۳)

۲۳               اللہ تعالیٰ کے اکرام اور اس کی نعمتوں کو جو اس نے انہیں عطا فرمائیں اور اپنے دشمنوں کو جو طرح طرح کے عذاب میں گرفتار ہیں۔

(۲۴) تو ان کے  چہروں میں چین کی تازگی پہنچانے  (ف ۲۴)

۲۴               کہ وہ خوشی سے چمکتے دمکتے ہوں گے اور سرورِ قلب کے آثار ان چہروں پر نمایاں ہوں گے۔

(۲۵) نتھری شراب پلائے  جائیں گے  جو مُہر کی ہوئی رکھی ہے  (ف ۲۵)

۲۵               کہ ابرار ہی اس کی مُہر توڑیں گے۔

(۲۶)  اس کی مہُر مشک پر ہے، اور اسی پر چاہیے  کہ للچائیں للچانے  والے  (ف ۲۶)

۲۶               طاعات کی طرف سبقت کر کے اور برائیوں سے باز رہ کر۔

(۲۷) اور اس کی ملونی تسنیم سے  ہے  (ف ۲۷)

۲۷               جو جنّت کی شرابوں میں اعلیٰ ہے۔

(۲۸) وہ چشمہ جس سے  مقربانِ بارگاہ  پیتے  ہیں (ف ۲۸)

۲۸               یعنی مقرّبین خالص شرابِ تسنیم پیتے ہیں اور باقی جنّتیوں کی شرابوں میں شرابِ تسنیم ملائی جاتی ہے۔

(۲۹) بیشک مجرم لوگ (ف ۲۹) ایمان والوں سے  (ف ۳۰) ہنسا کرتے  تھے۔

۲۹               مثل ابوجہل اور ولید بن مغیرہ اور عاص بن وائل وغیرہ رؤساء کفّار کے۔

۳۰               مثل حضرت عمّار و خبّاب و صہیب و بلال وغیرہ فقرائے مومنین کے۔

(۳۰) اور جب وہ (ف ۳۱) ان پر گزرتے  تو یہ آپس میں ان پر آنکھوں سے  اشارے  کرتے  (ف ۳۲)

۳۱               مومنین۔

۳۲               بطریقِ طعن و عیب کے۔ شانِ نزول : منقول ہے کہ حضرت علیِ مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کی ایک جماعت میں تشریف لے جا رہے تھے، منافقین نے انہیں دیکھ کر آنکھوں سے اشارے کئے اور مسخرگی سے ہنسے اور آپس میں ان حضرات کے حق میں بے ہودہ کلمات کہے تو اس سے پہلے کہ علیِ مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں پہنچیں یہ آیتیں نازل ہوئیں۔

(۳۱) اور جب (ف ۹۳۳ اپنے  گھر پلٹتے  خوشیاں کرتے  پلٹتے  (ف ۳۴)

۳۳               کفّار۔

۳۴               یعنی مسلمانوں کو بُرا کہہ کر آپس میں ان کی ہنسی بناتے اور خوش ہوتے ہوئے۔

(۳۲) اور جب مسلمانوں کو دیکھتے  کہتے  بیشک یہ لوگ بہکے  ہوئے  ہیں (ف ۳۵)

۳۵               کہ سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر ایمان لائے اور دنیا کی لذّتوں کو آخرت کی امیدوں پر چھوڑ دیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

(۳۳) اور یہ (ف ۳۶) کچھ ان پر نگہبان بنا کر نہ بھیجے  گئے  (ف ۳۷)

۳۶               کفّار۔

۳۷               کہ ان کے احوال و اعمال پر گرفت کریں بلکہ انہیں اپنی اصلاح کا حکم دیا گیا ہے وہ اپنا حال درست کریں، دوسروں کو بے وقوف بتانے اور انکی ہنسی اڑانے سے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

(۳۴) تو آج (ف ۳۸) ایمان والے  کافروں سے  ہنستے  ہیں (ف ۳۹)

۳۸               یعنی روزِ قیامت۔

۳۹               جیسا کافر دنیا میں مسلمانوں کی غربت و محنت پر ہنستے تھے، یہاں معاملہ برعکس ہے مومن دائمی عیش و راحت میں ہیں اور کافر ذلّت و خواری کے دائمی عذاب میں، جہنّم کا دروازہ کھولا جاتا ہے، کافر اس سے نکلنے کے لئے دروازے کی طرف دوڑتے ہیں، جب دروازہ کے قریب پہنچتے ہیں دروازہ بند ہو جاتا ہے، بار بار ایسا ہی ہوتا ہے، کافروں کی یہ حالت دیکھ کر مسلمان ان سے ہنسی کرتے ہیں اور مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ جنّت میں جواہرات کے۔

(۳۵) تختوں پر بیٹھے   دیکھتے  ہیں (ف ۴۰)

۴۰               کفّار کی ذلّت و رسوائی اور شدّتِ عذاب کو اور اس پر ہنستے ہیں۔

(۳۶)  کیوں کچھ بدلا ملا کافروں کو اپنے  کیے  کا (ف ۴۱)

۴۱               یعنی ان اعمال کا جو انہوں نے دنیا میں کئے تھے۔