اس کا مضمون خود یہ بتا رہا ہے کہ یہ سورۃ مکہ معظمہ کے اس دور میں نازل ہوئی ہے جب ظلم و ستم پوری شدت کے ساتھ برپا تھا اور کفار مکہ مسلمانوں کو سخت سے سخت عذاب دے کر ایمان سے پھیر دینے کی کوشش کر رہے تھے۔
اس کا موضوع کفار کو اس ظلم و ستم کے بُرے انجام سے خبر دار کرنا ہے جو وہ ایمان لانے والوں پر توڑ رہے تھے، اور اہلِ ایمان کو یہ تسلی دینا ہے کہ اگر وہ ان مظالم کے مقابلے میں ثابت قدم رہیں گے تو ان کو اس کا بہترین اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ ظالموں سے بدلہ لے گا۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے اصحاب الاُخدود کا قصہ سنایا گیا ہے جنہوں نے ایمان لانے والوں کو آگے سے بھرے ہوئے گڑھوں میں پھینک پھینک کر جلا دیا تھا۔ اور اس قصے کے پیرا ے میں چند باتیں مومنوں اور کافروں کے ذہن نشین کرائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ جس طرح اصحاب الاُخدود خدا کی لعنت اور اس کی مار کے مستحق ہوئے اسی طرح سردارانِ مکہ بھی اس کے مستحق بن رہے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جس طرح ایمان لانے والوں نے اس وقت آگ کے گڑھوں میں گر کر جان دے دینا قبول کر لیا تھا اور ایمان سے پھرنا قبول نہیں کیا تھا، اسی طرح اب بھی اہلِ ایمان کو چاہیے کہ ہر سخت سے سخت عذاب بھگت لیں مگر ایمان کی راہ سے نہ ہٹیں ۔ تیسرے یہ کہ جس خدا کے ماننے پر کافر بگڑتے اور اہلِ ایمان اصرار کرتے ہیں وہ سب پر غالب ہے، زمین و آسمان کی سلطنت کا مالک ہے، اپنی ذات میں آپ حمد کا مستحق ہے، اور وہ دونوں گروہوں کے حال کو دیکھ رہا ہے، اس لیے یہ عمل یقینی ہے کہ کافروں کو نہ صرف ان کے کفر کی سزا جہنم کی صورت میں ملے، بلکہ اس پر مزید ان کے ظلم کی سزا بھی ان کو آگ کے چَرکے دینے کی شکل میں بھگتنی پڑے۔ اسی طرح یہ امر بھی یقینی ہے کہ ایمان لا کر نیک عمل کرنے والے جنت میں جائیں ، اور یہی بڑی کامیابی ہے۔ پھر کفار کو خبر دار کیا گیا ہے کہ خدا کی پکڑ بڑی سخت ہے، اگر تم اپنے جتّھے کی طاقت کے زعم میں مبتلا ہو تو تم سے بڑے جتھے فرعون اور ثمود کے پاس تھے، ان کے لشکروں کا جو انجام ہوا ان سے سبق حاصل کرو۔ خدا کی قدرت تم پر اس طرح محیط ہے کہ اُس کے گھیرے سے تم نکل نہیں سکتے، اور قرآن، جس کی تکذیب پر تم تُلے ہوئے ہو، اس کی ہر بات اٹل ہے، وہ اس لوحِ محفوظ میں ثَبْت ہے، جس کا لکھا کسی کے بدلے نہیں بدل سکتا۔
1: اصل الفاظ ہیں ذَاتِ الْبُرُوْج، یعنی بُرجوں والے آسمان کی۔ مفسرین میں سے بعض نے اس سے مراد قدیم علم ہئیت کے مطابق آسمان کے ۱۲ بُرج لیے ہیں۔ اور ابن عباس، مجاہد، قتادہ، حسن بصری، ضحاک اور سُدِّی کے نزدیک اس سے مراد آسمان کے عظیم الشان تارے اور ستارے ہیں۔
3: دیکھنے والے اور دیکھی جانے والی چیز کے بارے میں مفسرین کے بہت سے اقوال ہیں، مگر ہمارے نزدیک سلسلہ کلام سے جو بات مناسبت رکھتی ہے وہ یہ ہے کہ دیکھنے والے سے مراد ہر وہ شخص ہے جو قیامت کے روز حاضر ہو گا اور دیکھی جانے والی چیز سے مراد خود قیامت ہے جس کے ہولناک احوال کو سب دیکھنے والے دیکھیں گے۔ یہ مجاہد، عِکْرمہ، ضحاک، ابن نجیح اور بعض دوسرے مفسرین کا قول ہے۔
4: گڑھے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے بڑے بڑے گڑھوں میں آگ بھڑکا کر ایمان لانے والے لوگوں کو ان میں پھینکا اور اپنی آنکھوں سے ان کے جلنے کا تماشا دیکھا تھا۔ مارے گئے کا مطلب یہ ہے کہ ان پر خدا کی لعنت پڑی اور وہ عذاب الٰہی کے مستحق ہو گئے۔ اور اس بات پر تین چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے۔ ایک بُرجوں والے آسمان کی۔ دوسرے، روز قیامت کی جس کا وعدہ کیا گیا ہے تیسرے، قیا مت کے ہولناک مناظر کی اور اس ساری مخلوق کی جو ان مناظر کو دیکھے گی۔ پہلی چیز اس بات پر شہادت دے رہی ہے کہ جو قادر مطلق ہستی کا ئنات کے عظیم الشان ستاروں اور سیّاروں پر حکمرانی کر رہی ہے اس کی گرفت سے یہ حقیر و ذلیل انسان کہاں بچ کر جا سکتے ہیں۔ دوسری چیز کی قسم اس بنا پر کھائی گئی ہے کہ دنیا میں ان لوگوں نے جو ظلم کرنا چاہا کر لیا، مگر وہ دن بہر حال آنے والا ہے جس سے انسانوں کو خبر دار کیا جا چکا ہے کہ اس میں ہر مضمون کی داد رسی اور ہر ظالم کی پکڑ ہو گی۔ تیسری چیز کی قسم اس لیے کھائی گئی ہے کہ جس طرح ان ظالموں نے ان بے بس اہلِ ایمان کو جلنے کا تماشا دیکھا اسی طرح قیامت کے روز ساری خلق دیکھے گی کہ ان کی خبر کس طرح لی جاتی ہے۔ گڑھوں میں آگ جلا کر ایمان والوں کو ان میں پھینکنے کے متعدد واقعات روایات میں بیان ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کئی مرتبہ اس طرح کے مظالم کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ حضرت صُہیب رومی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کیا ہے کہ ایک بادشا ہ کے پاس ایک ساحر تھا۔ اُس نے اپنے بڑھاپے میں بادشاہ سے کہا کہ کوئی لڑکا ایسا مامور کر دیں جو مجھ سے سحر سیکھ لے۔ بادشاہ نے ایک لڑکے کر مقرر کر دیا مگر وہ لڑکا گھر کے پاس آتے جاتے ایک راہب سے بھی( جو غالباً پیروان مسیح علیہ السلام میں سے تھا) ملنے لگا اور اس کی باتوں سے متاثر ہو کر ایمان لے آیا حتیٰ کہ اس کی تربیت سے صاحب کرامت ہو گیا اور اندھوں کو بینا اور کوڑھیوں کو تندرست کرنے لگا بادشاہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ یہ لڑکا توحید پر ایمان لے آیا ہے تو اس نے پہلے تو راہب کو قتل کیا، پھر اس لڑکے کو قتل کرنا چاہا، مگر کوئی ہتھیار اور کوئی حربہ اس پر کار گر نہ ہوا۔ آخر کار لڑکے نے کہا اگر تو مجھے قتل کرنا ہی چاہتا ہے تو مجمع عام میں بِاسْمِ رَبِّ الْغُلَامِ (اس لڑکے کے رب کے نام پر کہہ کر مجھے تیر مار میں مر جاؤں گا۔ چنانچہ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور لڑکا مر گیا۔ اس لوگ پکار اٹھے کہ ہم اس لڑکے کے رب پر ایمان لے آئے۔ بادشاہ کے مصاحبوں نے اس سے کہا کہ یہ تو وہی کچھ ہو گیا جس سے آپ بچنا چاہتے تھے۔ لوگ آپ کے دین کو چھوڑ کر اس لڑکے کے دین کو مان گئے۔ بادشاہ کی حالت دیکھ کر غصہ میں بھر گیا۔ اس نے سڑکوں کے کنارے گڑھے کھدوائے، ان میں آگ بھروائی، اور جس جس نے ایمان سے پھرنا قبول کیا اس کو آگ میں پھکوا دیا( احمد، مسلم، نسائی، ترمذی، ابن جریر، عبد الرزاق، ابن ابی شیْبہ، طَبرانی، عبد بن حُمید)۔ دوسرا واقعہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایران کے ایک بادشاہ نے شراب پی کر اپنی بہن سے زناہ کر ارتکاب کیا اور دونوں کے درمیان ناجائز تعلقات استوار ہو گئے۔ بات کھلی تو بادشاہ نے لوگوں میں اعلان کرایا کہ خدا نے بہن سے نکاح حلال کر دیا ہے۔ لوگوں نے اسے قبول نہ کیا تو اس نے طرح طرح کے عذاب دے کر عوام کو یہ بات ماننے پر مجبور کیا، یہاں تک کہ وہ آگ سے بھرے گڑھوں میں ہر اس شخص کو پھکواتا چلا گیا جس نے اسے ماننے سے انکار کیا۔ حضرت علی کا بیان ہے کہ اسی وقت سے مجوسیوں میں محرّمات سے نکاح کا طریقہ رائج ہوا ہے (ابن جریر)۔ تیسرا واقعہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غالباً اسرائیلی روایات سے نقل کیا ہے کہ بابل والوں نے بنی اسرائیل کو دین موسیٰ علیہ السلام سے پھیر جانے پر مجبور کیا تھا یہاں تک کہ انہوں نے آگے سے بھرے ہوئے گڑھوں میں ان کو پھینک دیا جو اس سے انکار کرتے تھے۔ (ابن جریر، عبد بن حمید)۔ سب سے مشہور واقعہ نَجْران کا ہے جسے ابن ہشام، طَبری، ابن خُلدون اور صاحب مُعْجمَ البُلْدان وغیرہ اسلامی مورخین نے بیان کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حمیر(یمن) کا بادشاہ تُبان اسعد ابو کرب ایک مرتبہ یثرب گیا جہاں یہودیوں سے متاثر ہو کر اس نے دین یہود قبول کر لیا اور بنی قُریظہ کے دو یہودیوں عالموں کو اپنے ساتھ یمن لے گیا۔ وہاں اس نے بڑے پیمانے پر یہودیت کی اشاعت کی۔ اس کا بیٹا ذونو اس اس کا جا نشین ہوا اور اس نے نجران پر، جو جنوبی عرب میں عیسائیوں کا گڑھ تھا، حملہ کیا تا کہ وہاں سے عیسائیت کا خاتمہ کر دے اور اس کے باشندوں کو یہودیت اختیار کرنے پر مجبور کر ے۔ (ابن ہشام کہتا ہے کہ یہ لوگ حضرت عیسیٰ کے اصل دین پر قائم تھے )۔نجران پہنچ کر اس نے لوگوں کو دین یہود قبول کرنے کی دعوت دی مگر انہوں نے انکار کیا۔ اس پر اس نے بکثرت لوگوں کو آگ سے بھرے ہوئے گڑھوں میں پھینک کر جلوا دیا اور بہت سوں کو قتل کر دیا، یہاں تک کہ مجموعی طور پر بیس ہزار آدمی مارے گئے۔ اہلِ نجران میں سے ایک شخص دَوس ذُ و ثَعلَبان بھاگ نکلا اور ایک روایت کی رو سے اس نے قیصر روم کے پاس جا کر، اور دوسری روایت کی رو سے حبش کے بادشاہ نجاشی کے ہاں جا کر اس ظلم کی شکایت کی پہلی روایت کی رو سے قیصر نے حبش کے بادشاہ کو دیکھا، اور دوسری روایت کی رو سے نجاشی نے قیصر سے بہری بیڑا فراہم کرنے کی درخواست کی۔ بہر حال آخر کار حبش کی ستر ہزار فوج اَریا ط نامی ایک جنرل کی قیادت میں یمن پر حملہ آور ہوئی، ذونواس مارا گیا، یہودی حکومت کا خاتمہ ہو گیا ، اور یمن حبش کی عیسائی سلطنت کا ایک حصہ بن گیا۔ اسلامی مورخین کے بیانات کی نہ صرف تصدیق دوسرے تاریخی زرائع سے ہوتی ہے بلکہ ان سے بہت سی مزید تفصیلات کا بھی پتہ چلتا ہے۔ یمن پر سب سے پہلے عیسائی حبشیوں کا قبضہ سن ۳۴۰ میں ہوا تھا اور ۳۷۸ تک جاری رہا تھا۔ اُس زمانے میں عیسائی مشنری یمن میں داخل ہونے شروع ہوئے۔ اُسی کے قریب دور میں ایک زاہد و مجاہد اور صاحبِ کشف و کرامت عیسائی سیاح فیمیون(Faymiyun ) نامی نجران پہنچا اور اس نے وہاں کے لوگوں کو بت پرستی کی برائی سمجھائی اور اس کی تبلیغ سے اہلِ نجران عیسائی ہو گئے۔ ان لوگوں کا نظام تین سردار چلاتے تھے۔ ایک سید، جو قبائلی شیوخ کی طرح بڑا سردار اور خارجی معاملات، معاہدات اور فوجوں کی قیادت کا ذمہ دار تھا۔ دوسرا عاقبِ، جو داخلی معاملات کا نگراں تھا۔ اور تیسرا اُسْقُف (بِشپ) جو مذہبی پیشوا ہوتا تھا۔ جنوبی عرب میں نجران کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ یہ ایک بڑا تجارتی اور صنعتی مرکز تھا۔ ٹسر، چمڑے اور اسلحہ کی صنعتین یہاں چل رہی تھی۔ مشہور حُلّہ یمانی بھی یہیں تیار ہوتا تھا۔ اِسی بنا پر محض مذہبی وجود ہی سے نہیں بلکہ سیاسی اور معاشی وجوہ سے بھی ذونواس نے اس اہم مقام پر حملہ کیا۔ نجران کے سید حارثہ کو جسے سُریانی مورخین Arethas لکھتے ہیں، قتل کیا، اس کی بیوی رومہ کے سامنے اس کی دوبیٹیوں کو مار ڈالا اور اسے ان کا خون پینے پر مجبور کیا، پھر اسے بھی قتل کر دیا۔ اُسقف پال (paul ) کی ہڈیاں قبر سے نکال کر جلا دیں۔ اور آگ سے بھر ے ہوئے گڑھوں میں عورت، مرد، بچے، بوڑھے، پادری، راہب سب کو پھکوا دیا۔ مجموعی طور پر ۲۰ سے چالیس ہزار تک مقتولنر کی تعداد بیان کی جاتی ہے۔ یہ واقعہ اکتوبر ۵۲۳ میں پیش آیا تھا۔ آخر کار ۵۲۵ میں حبشیوں نے یمن پر حملہ کر کے ذونواس اور اُس کی حمیری سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ اس کی تصدیق حِصْن غُراب کے کتبے سے ہوتی ہے جو یمن موجودہ زمانہ کے محققینِ آثار قدیمہ کو ملا ہے۔ چھٹی صدی عیسوی کی متعدد عیسائی تحریرات میں اصحاب الاخدود کے اِس واقعہ کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں جن میں سے بعض عین زمانہ حادثہ کی لکھی ہوئی ہیں اور عینی شاہدوں سے سن کر لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے تین کتابوں کے مصنف اس واقعہ کے ہم عصر ہیں۔ ایک پرو کو پیوس۔ دوسرا کوسما س اِنڈیکو پلیوسِٹس(Cosmos Indicopleustis ) جو نجاشی ایلیسبو عان (Elesboan ) کے حکم سے اس زمانے میں بطلیموس کو یونانی کتابوں کا ترجمہ کر رہا تھا اور حبش کے ساحلی شہر اَدُولیس(Adolis ) میں مقیم تھا۔ تیسرا یو حنس ملالا( Johannes Malala ) جس سے بعد کے متعدد مورخین نے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔ اس کے بعد یوحنس افسوسی( Johannes Ofephesus ) متوفی ۵۸۵ میں اپنی تاریخ کہنیسہ میں نصاری ٰ نجران کی تعذیب کا قصہ اس واقعہ کے معاصر راوی اُسقُف مار شمعون(Simeon ) کے ایک خط سے نقل کیا ہے جو اس نے دیرجبلہ کے رئیس(Abbot von gabula ) کے نام لکھا تھا، اور مار شمعون نے اپنے خط میں یہ واقعہ ان اہل یمن آنکھو ں دیکھے بیان سے روایت کیا ہے جو اس موقع پر موجود تھے۔ یہ خط ۱۸۸۱ میں روم سے اور ۱۸۹۰ میں شہدائے مسیحیت کے حالات کے سلسلے میں شائع ہوا ہے۔ یعقوبی طریق ڈایو نیسیوس (Patriarch Dionysius ) اور زکریا مدللی (Zacharia of Mitylene ) نے اپنی سریانی تاریخوں میں بھی اس واقعہ کو نقل کی اہے۔ یعقوب سَرُوجی کی کتاب دربابِ نصاریٰ نجران میں بھِی یہ ذکر موجود ہے۔ الّرھا(Edessa ) کے اسقف پولس(Pulus ) نے نجران کے ہلاک شدگان کا مرثیہ لکھا جواب بھی دستیاب ہے۔ سریانی زبان کی تصنیف کتاب الحِمیرَ یین کا انگریزی ترجمہ( Book of the Himyarites ) ۱۹۲۴ میں لندن سے شائع ہوا ہے اور وہ مسلمان مورخین کے بیان کی تصدیق کرتا ہے۔ برٹش میوزیم میں اُس عہد اوراس سے قریبی عہد کے کچھ حبشی مخطوطات بھی موجود ہیں جو اِس قصے کی تائید کرتے ہیں۔ ظِبی نے اپنے سفرنامے (Highlands Arabian ) میں لکھا ہے کہ نجران کے لوگو ں میں اب تک وہ جگہ معروف ہے جہاں اصحاب الاخدود کا واقعہ پیش آیا تھا۔ اُمِّ خَرق کے پاس ایک جگہ چٹانوں میں کھدی ہوئی کچھ تصویریں بھی پائی جاتی ہیں۔ اور کعبہ نجران جس جگہ واقع تھا اس کو بھی آج کل کے اہل نجران جانتے ہیں۔ حبشی عیسائیوں نے نجران پر قبضہ کرنے کے بعد یہاں کعبہ کی شکل کی ایک عمارت بنائی تھی جسے وہ مکہ کے کعبہ کی جگہ مرکزی حیثیت دینا چاہتے تھے۔ اس کے اَساقفہ عمامے باندھتے تھے اور اُس کو حرم قرار دیا گیا تھا۔ رومی سلطنت بھی اس کعبہ کے لیے مالی اعانت بھیجی تھی۔ اِسی کعبہ نجران کے پادری اپنے سید اور عاقب اور اُسقف کی قیادت میں مناظرے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور مُباہلہ کا وہ مشہور واقعہ پیش آیا تھا جس کا ذکر سورہ آل عمران آیت ۶۱ میں کیا گیا ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، آل عمران حاشیہ۲۹، حاشیہ۵۵)۔
5: ان آیات میں اللہ تعالیٰ کے اُن اوصاف کا ذکر کیا گیا ہے جن کی بنا پر وہی اس کا مستحق ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے، اور وہ لوگ ظالم ہیں جو اِس بات پر بگڑتے ہیں کہ کوئی اس پر ایمان لائے۔
6: جہنم کے عذاب سے الگ جلائے جانے کی سزا کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ اُنہوں نے مظلوم لوگوں کو آگ کے گڑھے میں پھینک کر زندہ جلا یا تھا۔ غالباً یہ جہنم کی عام آگ سے مختلف اور اس سے زیادہ سخت کوئی اور آگ ہو گی جس سے وہ جلائے جائیں گے۔
7: ’’بخشنے والا ہے ‘‘ کہہ کر یہ امید دلائی گئی ہے کہ کوئی اگر اپنے گناہوں سے باز آ کر تو بہ کر لے تو اس کے دامنِ رحمت میں جگہ پا سکتا ہے۔ ’’محبت کرنے والا‘‘ کہہ کر یہ بتایا گیا ہے کہ اس کو اپنی خلق سے عداوت نہیں ہے کہ خواہ مخواہ اس کو مبتلائے عذاب کرے، بلکہ جس مخلوق کو اس نے پیدا کیا ہے اُس سے وہ محبت رکھتا ہے اور سزا صرف اُس وقت دیتا ہے جب وہ سر کشی سے باز ہی نہ آئے۔ ’’مالک عرش‘‘ کہہ کر انسان کو یہ احساس دلا یا گیا ہے کہ سلطنتِ کائنات کا فرمانروا وہی ہے، اُس سے سرکشی کرنے والا اس کی پکڑ سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتا۔’’بزرگ و برتر‘‘ کہہ کر انسان کو اِس کمینہ پن پر متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایسی ہستی کے مقابلہ میں گستاخی کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ اور آخری صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ’’جو کچھ چاہے کر ڈالنے ولا ہے ‘‘، یعنی پوری کائنات میں کسی کی بھی یہ طاقت نہیں ہے کہ اللہ جس کام کا ارادہ کرے اس میں وہ مانع و مزاحم ہو سکے۔
8: روئے سخن ان لوگوں کی طرف ہے جو اپنے طاقتور جتھوں کے زعم میں خدا کی سر زمین پر سرکشیاں کر رہے ہیں۔ ان سے فرمایا جا رہا ہے کہ کچھ تمہیں خبر بھی ہے کہ اس سے پہلے جن لوگوں نے اپنے جتھّوں کی طاقت کے بل پر یہی سرکشیاں کی تھیں، وہ کس انجام سے دوچار ہو چکے ہیں۔
9: مطلب یہ ہے کہ اس قرآن کا لکھا اَمِٹ ہے، اٹل ہے، خدا کی اُس لوحِ محفوظ میں ثبت ہے جس کے اندر کوئی رد و بدل نہیں ہو سکتا، جو بات اِس میں لکھ دی گئی ہے وہ پوری ہو کر رہنے والی ہے، تمام دنیا مل کر بھی اسے باطل کرنا چاہے تو نہیں کر سکتی۔