پہلی ہی آیت سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلیٰ کے لفظ اَلْاَعْلیٰ کو اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔ زمانۂ نزول اِس کے مضمون سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے، اور آیت نمبر ۶ کے یہ الفاظ بھی کہ ’’ ہم تمہیں پڑھوا دیں گے، پھر تم نہیں بھُولو گے ‘‘ یہ بتاتے ہیں کہ یہ اُس زمانے میں نازل ہوئی تھی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ابھی وحی اخذ کرنے کی اچھی طرح مشق نہیں ہوئی تھی اور نزولِ وحی کے وقت آپ کو اندیشہ ہوتا تھا کہ کہیں میں اُس کے الفاظ بھول نہ جاؤں۔ اِس آیت کے ساتھ اگر سورۂ طٰہٰ کی آیت ۱۱۴، اور سورۂ قیامہ کی آیات ۱۹-۱۶ کو ملا کر دیکھا جائے، اور تینوں آیتوں کے اندازِ بیان اور موقع و محل پر بھی غور کیا جائے تو واقعات کی ترتیب یہ معلوم ہوتی ہے کہ سب سے پہلے اِس سُورہ میں حضور ؐ کو اطمینان دلایا گیا کہ آپ فکر نہ کریں، ہم یہ کلام آپ کو پڑھوا دیں گے اور آپ اِسے نہ بھولیں گے۔ پھر ایک مدت کے بعد، دوسرے موقع پر جب سورۂ قیامہ نازل ہو رہی تھی، حضور بے اختیار الفاظِ وحی کو دُہرانے لگے۔ اُس وقت فرمایا گیا کہ ’’ اے نبی، اِس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو، اِس کو یاد کر ا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمّہ ہے، لہٰذا جب ہم اِسے پڑھ رہے ہوں اُس وقت تم اِس کی قرأت کو غور سے سنتے رہو، پھر اِس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمّہ ہے۔ ‘‘ آخری مرتبہ سورۂ طٰہٰ کے نزول کے موقع پر حضور کو پھر بتقاضائے بشریت اندیشہ لاحق ہوا کہ یہ ۱۱۳ آیتیں جو متواتر نازل ہوئی ہیں اِن میں سے کوئی چیز میرے حافظے سے نکل نہ جائے اور آپ اُن کو یاد کرنے کی کوشش کرنے لگے۔ اس پر فرمایا گیا ’’ اور قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک تمہاری طرف اس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے۔ ‘‘ اِس کے بعد پھر کبھی اِس کی نوبت نہیں آئی کہ حضور ؐ کو ایسا کوئی خطرہ لاحق ہوتا، کیونکہ اِن تین مقامات کے سوا کوئی چوتھا مقام قرآن میں ایسا نہیں ہے جہاں اِس معاملہ کی طرف کوئی اشارہ پایا جاتا ہو۔موضوع اور مضمون اِس چھوٹی سی سورۃ کے تین موضوع ہیں۔ توحید۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایات۔ اور آخرت۔
پہلی آیت میں توحید کی تعلیم کو اِس ایک فقرے میں سمیٹ دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کی تسبیح کی جائے، یعنی اُس کو کسی ایسے نام سے یا د نہ کیا جائے جو اپنے اندر کسی قسم کے نقص، عیب، کمزوری یا مخلوقات سے تشبیہ کا کوئی پہلو رکھتا ہو۔ کیونکہ دنیا میں جتنے بھی فاسد عقائد پیدا ہوئے ہیں اُن سب کی جڑ اللہ تعالیٰ کے متعلق کوئی نہ کوئی غلط تصور ہے جس نے اُس ذاتِ پاک کے لیے کسی غلط نام کی شکل اختیار کی ہے۔ لہٰذا عقیدے کی تصحیح کے لیے سب سے مقدم یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کو صرف اُن اسماء حسنیٰ ہی سے یا د کیا جائے جو اُس کے لیے موزوں اور مناسب ہیں۔
اِس کے بعد تین آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ تمہارا رب، جس کے نام کی تسبیح کا حکم دیا جا رہا ہے، وہ ہے جس نے کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا، اُس کا تناسب قائم کیا، اُس کی تقدیر بنائی، اُسے وہ کام انجام دینے کی راہ بتائی جس کے لیے وہ پیدا کی گئی ہے، اور تم اپنی آنکھوں سے اُس کی قدرت کا یہ کرشمہ دیکھ رہے ہو کہ وہ زمین پر نباتات کو پیدا بھی کرتا ہے اور پھر انہیں خس و خاشاک بھی بنا دیتا ہے۔ کوئی ہستی نہ بَہار لانے پر قادر ہے نہ خزاں کو آنے سے روک سکتی ہے۔
پھر دو آیتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہدایت فرمائی گئی ہے کہ آپ اِس فکر میں نہ پڑیں کہ یہ قرآن جو اپ پر نازل کیا جا رہا ہے، یہ لفظ بلفظ آپ کو یاد کیسے رہے گا۔ اس کو آپ کے حافظے میں محفوظ کر دینا ہمارا کام ہے، اور اس کا محفوظ رہنا آپ کے کسی ذاتی کمال کا نتیجہ نہیں بلکہ ہمارے فضل کا نتیجہ ہے، ورنہ ہم چاہیں تو اسے بھُلا دیں۔
اِس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فرمایا گیا ہے کہ آپ کے سپرد ہر ایک کو راہِ راست پر لے آنے کا کام نہیں کیا گیا ہے بلکہ آپ کا کام بس حق کی تبلیغ کر دینا ہے، اور تبلیغ کا سیدھا سادھا طریقہ یہ ہے کہ جو نصیحت سننے اور قبول کر نے کے لیے تیار ہوا اُسے نصیحت کی جائے اور جو اُس کے لیے تیار نہ ہو اُس کے پیچھے نہ پڑا جائے۔ جس کے دل میں گمراہی کے انجامِ بد کا خوف ہو گا وہ حق بات کو سن کر قبول کر لے گا اور جو بدبخت اُسے سننے اور قبول کرنے سے گریز کرے گا وہ اپنا بُرا انجام خود دیکھ لے گا۔
آخر میں کلام کو اِس بات پر ختم کیا گیا ہے کہ فلاح صرف اُن لوگوں کے لیے ہے جو عقائد، اخلاق اور اعمال کی پاکیزگی اختیار کریں اور اپنے رب کا نام یاد کر کے نماز پڑھیں۔ لیکن لوگوں کا حال یہ ہے کہ انہیں ساری فکر بس اِسی دنیا کے آرام و آسائش اور فائدوں اور لذتوں کی ہے، حالانکہ اصل فکر آخرت کی ہونی چاہیے، کیونکہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی، اور دنیا کی نعمتوں سے آخرت کی نعمتیں بدرجہا بڑھ کر ہیں۔ یہ حقیقت صرف قرآن ہی میں نہیں بتائی جا رہی ہے، بلکہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کے صحیفوں میں بھی انسان کو اِسی حقیقت سے آگاہ کیا گیا تھا۔
1: لفظی ترجمہ ہو گا ’’اپنے ربِّ برتر کے نام کو پاک کرو۔‘‘ اِس کے کئی مفہوم ہو سکتے ہیں اور وہ سب ہی مراد ہیں۔ (۱) اللہ تعالیٰ کو اُن ناموں سے یا د کیا جائے جو اُس کے لائق ہیں اور ایسے نام اُن کی ذاتِ برتر کے لیے استعمال نہ کیے جائیں جو اپنے معنی اور مفہوم کے لحاظ سے اُس کے لیے موزوں نہیں ہیں، یا جن میں اس کے لیے نقص یا گستاخی یا شرک کا کوئی پہلو نکلتا ہے، یا جن میں اُس کی ذات یا صفات یا افعال کے بارے میں کوئی غلط عقیدہ پایا جاتا ہے۔ اِس غرض کے لیے محفوظ ترین صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے وہی نام استعمال کیے جائیں جو اس نے خود قرآن مجید میں بیان فرمائے ہیں ، یا جو دوسری زبان میں اُن کا صحیح ترجمہ ہوں۔ (۲) اللہ کے لیے مخلوقات کے سے نام، یا مخلوقات کے لیے اللہ کے ناموں جیسے نام استعمال نہ کیے جائیں۔ اور اگر کچھ صفاتی نام ایسے ہوں جو اللہ تعالیٰ کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ بندوں کے لیے بھی ان کا استعمال جائز ہے، مثلاً رؤف، رحیم، کریم، سمیع، بصیر وغیرہ، تو ان میں یہ احتیاط ملحوظ رہنی چاہیے کہ بندے کے لیے ان کا استعمال اُس طریقے پر نہ ہو جس طرح اللہ کے لیے ہوتا ہے۔ (۳) اللہ کا نام ادب اور احترام کے ساتھ لیا جائے کسی ایسے طریقے پر یا ایسی حالت میں نہ لیا جائے جو اس کے احترام کے منافی ہو، مثلاً ہنسی مذاق میں یا بیت الخلاء میں یا کوئی گناہ کرتے ہوئے اس کا نام لینا، یا ایسے لوگوں کے سامنے اس کا ذکر کرنا جو اسے سن کر گستاخی پر اُتر آئیں، یا ایسی مجلسوں میں اُ س کا نام لینا جہاں لوگ بیہودگیوں میں مشغول ہوں اور اس کا ذکر سن کر مذاق میں اڑا دیں، یا ایسے موقع پر اس کا نام پاک زبان پر لانا جہاں اندیشہ ہو کہ سننے والا اسے ناگواری کے ساتھ سنے گا۔ امام مالک کے حالات میں منقول ہے کہ جب کوئی سائل ان سے کچھ مانگتا اور وہ اس وقت اُسے کچھ نہ دے سکتے تو عام لوگوں کی طرح اللہ دے گا نہ کہتے بلکہ کسی اور طرح معذرت کر دیتے تھے۔ لوگوں نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ سائل کو جب کچھ نہ دیا جائے اور اس سے معذرت کر دی جائے تو لامحالہ اسے ناگوار ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر میں اللہ کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص اسے ناگواری کے ساتھ سُنے۔ احادیث میں حضرت عقبہ بن عامر جُہَنِی سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ پڑھنے کا حکم اِسی آیت کی بنا پر دیا تھا، اور رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم پڑھنے کا جو طریقہ حضور ؐ نے مقرر فرمایا تھا وہ سورۂ واقعہ کی آخری آیت فَسَبِّحْ بِا سْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ پر مبنی تھا( مسند احمد، ابو داؤد، ابن ماجہ، ابن حِبّان، حاکم، ابن المنذِر)
2: یعنی زمین سے آسمانوں تک کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا، اور جو چیز بھی پیدا کی اُسے بالکل راست اور درست بنایا، اس کا توازُن اور تناسُب ٹھک ٹھیک قائم کیا، اُس کو ایسی صورت پر پیدا کیا کہ اُس جیسی چیز کے لیے اُس سے بہتر صورت کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ یہی بات ہے جو سورۂ سَجدہ میں یوں فرمائی گئی ہے کہ اَلَّذِیْٓ اَحْسَنَ کُلَّ شَیْءٍ خَلَقَہٗ (آیت۷)۔’’جس نے ہر چیز جو بنائی خوب ہی بنائی۔‘‘ اِس طرح دنیا کی تمام اشیاء کا موزوں اور متناسِب پیدا ہونا خود اس امر کی صریح علامت ہے کہ کوئی صانِع حکیم اِن سب کا خالق ہے۔ کسی اتفاقی حادثے سے، یا بہت سے خالقوں کے عمل سے کائنات کے اِن بے شمار اجزاء کی تخلیق میں یہ سلیقہ، اور مجموعی طور پر ان سب اجزاء کے اجتماع سے کائنات میں یہ حسن و جمال پیدا نہ ہو سکتا تھا۔
3: یعنی ہر چیز کے پیدا کرنے سے پہلے یہ طے کر دیا کہ اسے دنیا میں کیا کام کرنا ہے اور اُس کام کے لیے اُس کی مِقدار کیا ہو، اُس کی شکل کیا ہو، اس کی صفات کیا ہوں، اس کا مقام کس جگہ ہو، اس کے لیے بقاء اور قیام اور فعل کے لیے کیا مواقع اور ذرائع فراہم کیے جائیں، کسی وقت وہ وجود میں آئے، کب تک اپنے حصے کا کام کرے اور کب کس طرح ختم ہو جائے۔ اِس پوری اسکیم کا مجموعی نام اُس کی ’’تقدیر‘‘ ہے، اور یہ تقدیر اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز کے لیے اور مجموعی طور پر پوری کائنات کے لیے بنائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تخلیق کسی پیشگی منصوبے کے بغیر کچھ یونہی الل ٹپ نہیں ہو گئی ہے بلہ اس کے لیے ایک پورا منصوبہ خالق کے پیش نظر تھا اور سب کچھ اس منصوبے کے مطابق ہو رہا ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، الِحجر، حواشی ۱۴-۱۳۔ جلد سوم، الفرقان، حاشیہ۸۔ جلد پنجم، القمر، حاشیہ ۲۵۔ جلد ششم، عبس، حاشیہ ۱۲)۔
4: یعنی کسی چیز کو بھی محض پیدا کر کے چھوڑ نہیں دیا، بلکہ جو چیز بھی جس کام کے لیے پیدا کی اُسے اُس کام کے انجام دینے کا طریقہ بتایا۔ بالفاظ دیگر وہ محض خالق ہی نہیں ہے، ھادی بھی ہے۔ اس نے یہ ذمّہ لیا ہے کہ جو چیز جس حیثیت میں اُس نے پیدا کی ہے اس کو ویسی ہی ہدایت دے جس کے وہ لائق ہے اور اُسی طریقہ سے ہدایت دے جو اُس کے لیے موزوں ہے۔ ایک قسم کی ہدایت زمین اور چاند اور سورج اور تاروں اور سیّاروں کے لیے ہے جس پر وہ سب چل رہے ہیں اور اپنے حصے کا کام انجام دے رہے ہیں۔ ایک اور قسم کی ہدایت پانی اور ہوا اور روشنی اور جمادات و معدنیات کے لیے جس کے مطابق وہ ٹھیک ٹھیک وہی خدمات بجا لا رہے ہیں جن کے لیے انہیں پیدا کیا گیا ہے۔ ایک اور قسم کی ہدایت نباتات کے لیے ہے جس کی پیروی میں وہ زمین کے اندر اپنی جڑیں نکالتے اور پھیلاتے ہیں ، اس کی تہوں سے پھوٹ کر نکلتے ہیں، جہاں جہاں اللہ نے ان کے لیے غذا پیدا کی ہے وہاں سے اس کو حاصل کرتے ہیں ، تنے، شاخیں، پتّیاں، پھل پھول لاتے ہیں اور وہ کام پورا کرتے ہیں جو ان میں سے ہر ایک کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے۔ ایک اور قسم کی ہدایت خشکی، تری اور ہوا کے حیوانات کی بے شمار انواع اور ان کے ہر فرد کے لیے جس کے حیرت انگیز مظاہر جانوروں کی زندگی اور اُن کے کاموں میں عَلانیہ نظر آتے ہیں، حتیٰ کہ ایک دہریہ بھی یہ ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ مختلف قسم کے جانوروں کو کوئی ایسا الہامی علم حاصل ہے جو انسان کو اپنے حواس تو درکنار، اپنے آلات کے ذریعہ سے بھی حاصل نہیں ہوتا۔ پھر انسان کے لیے دو الگ الگ نوعیتوں کی ہدایتیں ہیں جو اس کی دو الگ حیثیتوں سے مطابقت رکھتی ہیں۔ ایک وہ ہدایت جو اس کی حیوانی زندگی کے لیے ہے، جس کی بدولت ہر بچہ پیدا ہوتے ہی دودھ پینا سیکھ لیتا ہے، جس کے مطابق انسان کی آنکھ، ناک، کان، دل، دماغ، پھیپھڑے، گردے، جگر، معدہ، آنتیں، اعصاب، رگیں اور شریانیں، سب اپنا اپنا کام کیے جا رہے ہیں بغیر اس کے کہ انسان کو اُس کا شعور ہو یا اس کے ارادے کا اِن اعضاء کے کاموں میں کوئی دخل ہو۔ یہی ہدایت ہے جس کے تحت انسان کے اندر بچپن، بلوغ، جوانی، کہولت اور بڑھاپے کے وہ سب جسمانی اور ذہنی تغیّرات ہوتے چلے جاتے ہیں جو اس کے ارادے اور مرضی، بلکہ شعور کے بھی محتاج نہیں ہیں۔ دوسری ہدایت انسان کی عقلی اور شعوری زندگی کے لیے ہے جس کی نوعیت غیر شعوری زندگی کی ہدایت سے قطعا! مختلف ہے، کیونکہ اِس شعبۂ حیات میں انسان کی طرف ایک قسم کا اختیار منتقل کیا گیا ہے جس کے لیے ہدایت کا وہ طریقہ موزوں نہیں ہے جو بے اختیارانہ زندگی کے لیے موزوں ہے۔ انسان اِ س آخری قسم کی ہدایت سے منہ موڑنے کے لیے خواہ کتنی ہی حجّت بازیاں کرے، لیکن یہ بات ماننے کے لائق نہیں ہے کہ جس خالق نے اِس ساری کائنات میں ہر چیز کے لیے اس کی ساخت اور حیثیت کے مطابق ہدایت کا انتظام کیا ہے اُس نے انسان کے لیے یہ تقدیر تو بنا دی ہو گی کہ وہ اس کی دنیا میں اپنے اختیار سے تصرُّفات کرے مگر اس کو یہ بتانے کا کوئی انتظام نہ کیا ہو گا کہ اس اختیار کے استعمال کی صحیح صورت کیا ہے اور غلط صورت کیا (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، النحل، حواشی ۵۶- ۱۴-۱۰-۹۔ جلد سوم، طٰہٰ، حاشیہ ۲۳۔ جلد پنجم، الرحمٰن، حواشی ۳-۲۔ جلد ششم، الدھر، حاشیہ۵)۔
5: اصل میں لفظ مَرْعیٰ استعمال ہوا ہے جو جانوروں کے چارے کے لیے بولا جاتا ہے، لیکن سیاقِ عبارت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں صرف چارہ مراد نہیں ہے بلکہ ہر قسم کی نباتات مراد ہیں جو زمین سے اُگتی ہیں۔
6: یعنی وہ صرف بہا رہی لانے والا نہیں ہے، خزاں بھی لانے والا ہے۔ تمہاری آنکھیں اس کی قدرت کے دونوں کرشمے دیکھ رہی ہیں۔ ایک طرف وہ ایسی ہری بھری نباتات اُگاتا ہے جن کی تازگی و شادابی دیکھ کر دل خوش ہو جاتے ہیں، اور دوسری طرف اُسی نباتات کو وہ زرد، خُشک اور سیاہ کر کے ایسا کوڑا کرکٹ بنا دیتا ہے جسے ہوائیں اڑاتی پھرتی ہیں اور سیلاب خس و خاشاک کی صورت میں بہا لے جاتے ہیں۔ اس لیے کسی کو بھی یہاں اِس غلط فہمی میں نہ رہنا چاہیے کہ وہ دنیا میں صرف بہار ہی دیکھے گا خزاں سے اس کو سابقہ پیش نہیں آئے گا۔ یہی مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر دوسرے انداز میں بیان ہوا ہے۔ مثلاً ملاحظہ ہو سورۂ یونس، آیت ۲۴۔ سورۂ کہف، آیت ۴۵۔ سورۂ حدید، آیت ۲۰۔
7: حاکم نے حضرت سعد ؓ بن ابی وقاص سے اور ابن مَرْ دُوْیَہ نے حضرت عبداللہ ؓ بن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قرآن کے الفاظ کو اِس خوف سے دہراتے جاتے تھے کہ کہیں بھول نہ جائیں۔ مجاہد اور کَلْبی کہتے ہیں کہ جبریل وحی سنا کر فارغ نہ ہوتے تھے کہ حضور ؐ بھول جانے کے اندیشے سے ابتدائی حصہ دُہرانے لگتے تھے۔ اِسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ اطمینان دلایا کہ وحی کے نزول کے وقت آپ خاموشی سے سُنتے رہیں، ہم آپ کو اُسے پڑھوا دیں گے اور وہ ہمیشہ کے لیے آپ کو یاد ہو جائے گی، اِس بات کا کوئی اندیشہ آپ نہ کریں کہ اس کا کوئی لفظ بھی آپ بھول جائیں گے۔ یہ تیسرا موقع ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وحی اخذ کرنے کا طریقہ سکھایا گیا ہے۔ اس سے پہلے دو مواقع سورۂ طٰہٰ آیت ۱۱۴، اور سورۂ قیامہ آیات ۱۶ تا ۱۹ میں گزر چکے ہیں۔ اِس آیت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قرآن جس طرح معجزے کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل کیا گیا تھا اُسی طرح معجزے کے طور پر ہی اس کا لفظ لفظ آپ کے حافظے میں بھی محفوظ کر دیا گیا تھا اور اس بات کا کوئی امکان باقی نہیں رہنے دیا گیا تھا کہ آپ اس میں سے کوئی چیز بھول جائیں، یا اس کے کسی لفظ کی جگہ کوئی دوسرا ہم معنی لفظ آپ کی زبان مبارک سے ادا ہو جائے۔
8: اس فقرے کے د و مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ پورے قرآن کا لفظ بلفظ آپ کے حافظے میں محفوظ ہو جانا آپ کی اپنی قوّت کا کرشمہ نہیں ہے بلکہ اللہ کے فضل اور اس کی توفیق کا نتیجہ ہے، ورنہ اللہ چاہے تو اسے بھُلا سکتا ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جو دوسری جگہ قرآن مجید میں یوں بیان کیا گیا ہے : وَلَئِنْ شِئْنَا لَنَذْھَبَنَّ بِا لَّذِیْٓ اَوْ حَیْنَآ اِلَیْکَ (بنی اسرائیل، ۸۶)۔ ’’اگر ہم چاہیں تو وہ سب کچھ تم سے چھین لیں جو ہم نے وحی کے ذریعہ سے تمہیں عطا کیا ہے۔ ‘‘ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کبھی وقتی طور پر آپ کو نسسیان لاحق ہو جانا اور آپ کا کسی آیت یا لفظ کو کسی وقت بھول جانا اس وعدے سے مستثنیٰ ہے۔ وعدہ جس بات کا کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ مستقل طور پر قرآن کے کسی لفظ کو نہیں بھول جائیں گے۔ اِس مفہوم کی تائید صحیح بخاری کی اِس روایت سے ہوتی ہے کہ ایک مرتبہ صبح کی نماز پڑھاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قرأت کے دوران میں ایک آیت چھوڑ گئے۔ نماز کے بعد حضرت اُبَیّ بن کَعب نے پوچھا کیا یہ آیت منسوخ ہو چکی ہے ؟ حضور ؐ نے فرمایا نہیں، میں بھول گیا تھا۔
9: ویسے تو یہ الفاظ عام ہیں اور ان کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ہر چیز کو جانتا ہے خواہ وہ ظاہر ہو یا مخفی۔ لیکن جس سلسلۂ کلام میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو اس کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ جو قرآن کو جبریل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ پڑھتے جا رہے ہیں اِس کا بھی اللہ کو علم ہے، اور بھول جانے کے جس خوف کی بنا پر آپ ایسا کر رہے ہیں وہ بھی اللہ کے علم میں ہے۔ اس لیے آپ کو یہ اطمینان دلایا جا رہا ہے کہ آپ اسے بھولیں گے نہیں۔
10: عام طور پر مفسّرین نے اِن دو فقروں کو الگ الگ سمجھا ہے۔ پہلے فقرے کا مطلب انہوں نے یہ لیا ہے کہ ہم تمہیں ایک آسان شریعت دے رہے ہیں جس پر عمل کرنا سہل ہے، اور دوسرے فقرے کا یہ مطلب لیا ہے کہ نصیحت کرو اگر وہ نافع ہو۔ لیکن ہمارے نزدیک فَذَکِّرْ کا لفظ دونوں فقروں کو باہم مربوط کرتا ہے اور بعد کے فقرے کا مضمون پہلے فقرے کے مضمون پر مترتّب ہوتا ہے۔ اس لیے ہم اس ارشاد الٰہی کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اے نبی ؐ ہم تبلیغِ دین کے معاملہ میں تم کو کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے کہ تم بہروں کو سناؤ اور اندھوں کو راہ دکھاؤ، بلکہ ایک آسان طریقہ تمہارے لیے میسّر کیے دیتے ہیں ، اور وہ یہ ہے کہ نصیحت کرو جہاں تمہیں یہ محسوس ہو کہ کوئی اُس سے فائدہ اُٹھا نے کے لیے تیار ہے۔ اب رہی یہ بات کہ کون اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہے اور کون نہیں ہے، تو ظاہر ہے کہ ا س کا پتہ تبلیغِ عام ہی سے چل سکتا ہے۔ اس لیے عام تبلیغ تو جاری رکھنی چاہیے، مگر اس سے تمہارا مقصود یہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے بندوں میں سے اُن لوگوں کو تلاش کرو جو اس سے فائدہ اٹھا کر راہِ راست اختیار کر لیں۔ یہی لوگ تمہاری نگاہِ التفات کے مستحق ہیں اور انہی کی تعلیم و تربیت پر تمہیں توجہ صرف کرنا چاہیے۔ اِن کو چھوڑ کر ایسے لوگوں کے پیچھے پڑنے کے تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے جن کے متعلق تجربے سے تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ کوئی نصیحت قبول نہیں کرنا چاہتے۔ یہ قریب قریب وہی مضمون ہے جو سورۂ عَبَس میں دوسرے طریقے سے یوں بیان فرمایا گیا ہے کہ ’’جو شخص بے پروائی برتتا ہے اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو، حالانکہ اگر وہ نہ سُدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمّہ داری ہے ؟ اور جو خود تمہارے پاس دوڑا آتا ہے اور وہ ڈر رہا ہوتا ہے اُس سے تم بے رخی برتتے ہو۔ ہر گز نہیں۔ یہ تو ایک نصیحت ہے، جس کا جی چاہے اسے قبول کرے۔ ‘‘(آیات ۵ تا ۱۲)۔
11: یعنی جس شخص کے دل میں خدا کا خوف اور انجامِ بد کا اندیشہ ہو گا اُسی کو یہ فکر ہو گی کہ کہیں میں غلط راستے پر تو نہیں جا رہا ہوں، اور وہی اللہ کے اُس بندے کی نصیحت کو توجہ سے سُنے گا جو اسے ہدایت اور گمراہی کا فرق اور فلاح و سعادت کا راستہ بتا رہا ہو۔
12: یعنی نہ اُسے موت ہی آئے گی کہ عذاب سے چھوٹ جائے اور نہ جینے کی طرح جیے گا کہ زندگی کا کوئی لطف اسے حاصل ہو۔ یہ سزا اُن لوگوں کے لیے ہے جو سِرے سے اللہ اور اس کے رسول ؐ کی نصیحت کو قبول ہی نہ کریں اور مرتے دم تک کفر و شرک یا دہریت پر قائم رہیں۔ رہے وہ لوگ جو دل میں ایمان رکھتے ہوں مگر اپنے برے اعمال کی بنا پر جہنم میں ڈالے جائیں تو ان کے متعلق احادیث میں آیا ہے کہ جب وہ اپنی سزا بھگت لیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں موت دے دے گا، پھر ان کے حق میں شفاعت قبول کی جائے گی اور ان کی جلی ہوئی لاشیں جنت کی لہروں پر لا کر ڈالی جائیں گی اور اہلِ جنت سے کہا جائے گا کہ ان پر پانی ڈالو اور اس پانی سے وہ اس طرح جی اُٹھیں گے جیسے نباتات پانی پڑ نے سے اُگ جاتی ہیں۔ یہ مضمون رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مسلم میں حضرت ابو سعید خُدری اور بَزّار میں حضرت ابو ہریرہ کے حوالہ سے منقول ہوا ہے۔
13: پاکیزگی سے مراد ہے کفر و شرک چھوڑ کر ایمان لانا، برے اخلاق چھوڑ کر اچھے اخلاق اختیار کرنا اور برے اعمال چھوڑ کر نیک اعمال کرنا۔ فلاح سے مراد دنیوی خوشحالی نہیں ہے بلکہ حقیقی کامیابی ہے، خواہ دنیا کی خوشحالی اس کے ساتھ میسّر ہو یا نہ ہو(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، یونس، حاشیہ نمبر۲۳۔ جلد سوم، المومنون، حواشی نمبر ۵۰-۱۱-۱۔ جلد چہارم، لقمان، حاشیہ نمبر ۴)۔
14: یاد سے مراد دل میں بھی اللہ کو یاد کرنا اور زبان سے اس کا ذکر کرنا ہے۔ دونوں چیزیں ذکرِ الٰہی کی تعریف میں آتی ہیں۔
15: یعنی صرف یاد کر کے نہیں رہ گیا بلکہ نماز کی پابندی اختیار کر کے اس نے ثابت کر دیا کہ جس خدا کو وہ اپنا خدا مان رہا ہے، اس کی اطاعت کے لئے وہ عملاً تیار ہے۔ اور اس کو ہمیشہ یاد کرتے رہنے کا اہتمام کر رہا ہے۔ اس آیت میں علی الترتیب دو باتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ پہلے اللہ کو یاد کرنا، پھر نماز پڑھنا۔ اسی کے مطابق یہ طریقہ مقرر کیا گیا ہے کہ اللہ اکبر کہہ کر نماز کی ابتدا کی جائے۔ یہ من جملہ ان شواہد کے ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز کا جو طریقہ رسول الہ صلی اللہ و علیہ و سلم نے بتایا ہے، اُس کے تمام اجزاء قرآنی اشارات پر مبنی ہیں۔ مگر اللہ کے رسول کے سوا اِن اشارات کو جمع کر کے کوئی شخص بھی نماز کی یہ ہیئت ترتیب نہیں دے سکتا تھا۔
16: یعنی تم لوگوں کی ساری فکر بس دنیا اور اس کی راحت و آسائش اور اس کے فائدوں اور لذّتوں کے لیے ہے۔ یہاں جو کچھ حاصل ہو جائے تم سمجھتے ہو کہ بس وہی اصل فائدہ ہے جو تمہیں حاصل ہو گیا، اور یہاں جس چیز سے محروم رہے تمہارا خیال ہے کہ بس وہی اصل نقصان ہے جو تمہیں پہنچ گیا۔
17۔ یعنی آخرت دو حیثیتوں سے دنیا کے مقابلے میں قابلِ ترجیح ہے۔ ایک یہ کہ اس کی راحتیں اور لذتیں دنیا کی نعمتوں سے بڑھ کر ہیں، اور دوسرے یہ کہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی۔
18: یہ دوسرا مقام ہے جہاں قرآن میں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کے صحیفوں کی تعلیم کا حوالہ دیا گیا ہے۔ اس سے پہلے سورۂ نجم رکوع۳ میں ایک حوالہ گزر چکا ہے۔