تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الاٴعلی

۱ ۔۔۔       حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "اجعلوھا فی سجودکم " (اس کو اپنے سجود میں رکھو) اسی لئے سجدہ کی حالت میں " سبحان ربی الاعلیٰ " کہا جاتا ہے۔

۲ ۔۔۔    یعنی جو چیز بنائی عین حکمت کے موافق بہت ٹھیک بنائی اور باعتبار خواص و صفات اور ان کے فائدوں کے جو اس چیز سے مقصود ہیں اس کی پیدائش کو درجہ کمال تک پہنچایا اور ایسا معتدل مزاج عطا کیا جس سے وہ منافع و فوائد اس پر مرتب ہو سکیں ۔

۳ ۔۔۔       حضرت شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں " یعنی اول تقدیر لکھی پھر اسی کے موافق دنیا میں لایا"۔ گویا دنیا میں آنے کی راہ بتا دی۔ اور حضرت شاہ عبدالعزیز تحریر فرماتے ہیں کہ " ہر شخص کے لئے ایک کمال کا اندازہ ٹھہرایا۔ پھر اس کو وہ کمال حاصل کرنے کی راہ بتلا دی۔ " و فیہ اقوال اخر الانطول بذکرھا۔

۵ ۔۔۔      یعنی اول نہایت سبز و خوشنما گھاس چارہ زمین سے پیدا کیا پھر آہستہ آہستہ اس کو خشک و سیاہ کر ڈالا تاکہ خشک ہو کر ایک مدت تک جانوروں کے لئے ذخیرہ کیا جا سکے اور خشک کھیتی کٹ کر کام میں آئے۔

۷ ۔۔۔     ۱: یعنی جس طرح ہم نے اپنی تربیت سے ہر چیز کو بتدریج اس کے کمال مطلب تک پہنچایا ہے تم کو بھی آہستہ آہستہ کامل قرآن پڑھا دیں گے اور ایسا یاد کرادیں گے کہ اس کا کوئی حصہ بھولنے نہ پاؤ گے بجز ان آیتوں کے جن کا بالکل بھلا دینا ہی مقصود ہو گا کہ وہ بھی ایک قسم نسخ کی ہے۔

۲:  یعنی وہ تمہاری مخفی استعداد اور ظاہری اعمال و احوال کو جانتا ہے اسی کے موافق تم سے معاملہ کرے گا۔ نیز یہ شبہ نہ کیا جائے کہ جو آیات ایک مرتبہ نازل کر دی گئیں ، پھر ان کو منسوخ کرنے اور بھلا دینے کے کیا معنی۔ اس کی حکمتوں کا احاطہ کرنا اسی کی شان ہے جو تمام کھلی چھپی چیزوں کا جاننے والا ہے اسی کو معلوم ہے کہ کونسی چیز ہمیشہ باقی رہنی چاہئے۔ اور کس کو ایک مخصوص مدت کے بعد اٹھا لینا چاہیے کیونکہ اب اس کا باقی رکھنا ضروری نہیں ہے۔

۸ ۔۔۔      یعنی وحی کو یاد رکھنا آسان ہو جائے گا اور اللہ کی معرفت و عبادت اور ملک و ملت کی سیاست کے طریقے سب سہل کر دیے جائیں گے اور کامیابی کے راستہ سے تمام مشکلات ہٹا دی جائیں گی۔

۹ ۔۔۔    یعنی اللہ نے جب آپ پر ایسے انعام فرمائے، آپ دوسروں کو فیض پہنچائیے اور اپنے کمال سے دوسروں کی تکمیل کیجئے (تنبیہ) "ان نفعت الذکری" کی شرط اس لئے لگائی کہ تذکیر و وعظ اس وقت لازم ہے جب مخاطب کی طرف سے اس کا قبول کرنا مظنون ہو۔ اور منصب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا، وعظ و تذکیر ہر شخص کے لئے نہیں ۔ ہاں تبلیغ وانذار (یعنی حکم الٰہی کا پہنچانا اور اللہ کے عذاب سے ڈرانا) تاکہ بندوں پر حجت قائم ہو اور عذر جہل و نادانی کا نہ رہے اتنا باعتبار ہر شخص کے ضرور ہے۔ اس کو عرف میں تذکیر و وعظ نہیں کہتے۔ شاید اسی لئے بعض مفسرین نے زیادہ واضح الفاظ میں آیت کے معنی یوں کئے ہیں کہ بار بار نصیحت کر (اگر ایک بار کی نصیحت نے نفع نہ کیا ہو) اور ہو سکتا ہے کہ "ان نفعت الذکری" کی شرط محض تذکیر کی تاکید کے لئے ہو یعنی اگر کسی کو تذکیر نفع دے تو تجھ کو تذکیر کرنا چاہیے اور یقین بات ہے کہ تذکیر عالم میں کسی نہ کسی کو ضرور نفع دے گی گوہر کسی کو نہ دے۔ کما قال تعالیٰ "وذکرفان الذکری تنفع المومنین"۔ پس ایک امر کا ایسی چیز پر معلق کرنا جس کا وقوع ضوری ہے اس امر کی تاکید کا موجب ہوا۔

۱۰ ۔۔۔      سمجھانے سے وہ ہی سمجھتا ہے اور نصیحت سے وہ ہی فائدہ اٹھاتا ہے، جس کے دل میں تھوڑا بہت خدا کا ڈر اور اپنے انجام کی فکر ہو۔

۱۲ ۔۔۔  یعنی جس بد قسمت کے نصیب میں دوزخ کی آگ لکھی ہے وہ کہاں سمجھتا ہے۔ اسے خدا کا اور اپنے انجام کا ڈر ہی نہیں جو نصیحت کی طرف متوجہ ہو اور ٹھیک بات سمجھنے کی کوشش کرے۔

۱۳ ۔۔۔       یعنی نہ موت ہی آئے گی کہ تکلیفوں کا خاتمہ کر دے اور نہ آرام کی زندگی ہی نصیب ہو گی۔ ہاں ایسی زندگی ہو گی جس کے مقابلہ میں موت کی تمنا کرے گا۔ العیاذ باللہ۔

۱ ۴ ۔۔۔    یعنی ظاہری و باطنی، حسی و معنوی نجاستوں سے پاک ہو اور اپنے قلب و قالب کو عقائدِ صحیحہ، اخلاقِ فاضلہ اور اعمالِ صالحہ سے آراستہ کیا۔

۱۵ ۔۔۔        یعنی پاک و صاف ہو کر تکبیرِ تحریمہ میں اپنے رب کا نام لیا۔ پھر نماز پڑھی۔ اور بعض سلف نے کہا کہ "تزکی" زکوٰۃ سے ہے جس سے مراد یہاں " صدقۃ الفطر" ہے، اور " ذکر اسم ربہ" سے تکبیراتِ عید مراد ہیں ۔ اور "فصلی" پھر تکبیریں ، پھر نماز، والظاھر ھو الاول۔ (تنبیہ) حنفیہ نے پہلی تفسیر کے موافق اس آیت سے دو مسئلے نکالے ہیں ۔ اول یہ کہ تحریمہ میں خاص لفظ" اللہ اکبر " کہنا فرض نہیں ، مطلق ذکر اسم رب کافی ہے جو مشعر تعظیم ہو اور اپنی غرض و حاجت پر مشتمل نہ ہو۔ ہاں " اللہ اکبر" کہنا احادیث صحیحہ کی بناء پر سنت یا واجب قرار پائے گا دوسرے تکبیر تحریمہ نماز کے لئے شرط ہے رکن نہیں ۔ کیونکہ " فصلی کا "ذکر اسم ربہ" پر عطف کرنا معطوف و معطوف علیہ کی مغائرت پر دال ہے۔ واللہ اعلم۔

۱۷ ۔۔۔  یعنی یہ بھلائی تم کو کیسے حاصل ہو جب کہ آخرت کی فکر ہی نہیں بلکہ دنیا کی زندگی اور یہاں کے عیش و آرام کو اعتقاد اً یا عملاً آخرت پر ترجیح دیتے ہو۔ حالانکہ دنیا حقیر و فانی اور آخرت اس سے کہیں بہتر اور پائیدار ہے۔ پھر تعجب ہے کہ جو چیز کماً و کیفاً ہر طرح افضل ہو اسے چھڑ کر مفضول کو اختیار کیا جائے۔

۱۹ ۔۔۔       یعنی یہ مضمون ("قد افلح من تزکی" سے یہاں تک) اگلی کتابوں میں بھی مذکور ہے۔ جو کسی وقت منسوخ نہیں ہوا، نہ بدلہ گیا، اس اعتبار سے اور زیادہ مؤکدہ ہو گیا۔ (تنبیہ) بعض روایات ضعیفہ میں ہے کہ ابراہیم علیہ السلام پر دس صحیفے اور موسیٰ علیہ السلام پر "تورات" کے علاوہ دس صحیفے نازل ہوئے تھے خدا جانے کہاں تک صحیح ہے۔