مضمون اور اندازِ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ بھی مکۂ معظمہ کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی ہے۔ مگر اس کا نزول اُس زمانے میں ہوا ہے جب مکّہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مخالفت خوب زور پکڑ چکی تھی۔
اِس کا موضوع نیکی اور بدی کا فرق سمجھانا اور اُن لوگوں کو بُرے انجام سے ڈرانا ہے جو اس فرق کو سمجھنے سے انکار اور بدی کی راہ چلنے پر اصرار کرتے ہیں۔
مضمون کے لحاظ سے یہ سورۃ دو حصّوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصّہ سورۃ کے آغاز سے شروع ہو کر آیت ۱۰ پر ختم ہوتا ہے، اور دوسرا حصّہ آیت ۱۱ سے آخر تک چلتا ہے۔ پہلے حصّہ میں تین باتیں سمجھائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ جس طرح سورج اور چاند، دن اور رات، زمین اور آسمان ایک دوسرے سے مختلف اور اپنے آثار و نتائج میں متضاد ہیں، اسی طرح نیکی اور بدی بھی ایک دوسرے سے مختلف اور اپنے آثار و نتائج میں متضاد ہیں۔ یہ دونوں نہ اپنی شکل میں یکساں ہیں اور نہ ان کے نتائج یکساں ہو سکتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ نے نفسِ انسانی کو جسم، حواس اور ذہن کی قوتیں دے کر دنیا میں بالکل بے خبر نہیں چھوڑ دیا ہے بلکہ ایک فطری الہام کے ذریعہ سے اُس کے لاشعور میں نیکی اور بدی کا فرق، بھلے اور بُرے کا امتیاز، اور خیر کے خیر اور شر کے شر ہونے کا احساس اُتار دیا ہے۔ تیسرے یہ کہ انسان کے مستقبل کا انحصار اِس پر ہے کہ اس کے اندر تمیز، ارادے اور فیصلے کی جو قوتیں اللہ نے رکھ دی ہیں ان کو استعمال کر کے وہ اپنے نفس کے اچھے اور بُرے رُجحانات میں سے کس کو ابھارتا اور کس کو دباتا ہے۔ اگر وہ اچھے رُجحانات کو ابھارے اور بُرے رُجحانات سے اپنے نفس کو پاک کرے تو فلاح پائے گا۔ اور اس کے برعکس اگر وہ نفس کی اچھائی کو دبائے اور بُرائی کو اُبھارے تو نامراد ہو گا۔
دوسرے حصّے میں قومِ ثمود کی تاریخی نظیر کو پیش کرتے ہوئے رسالت کی اہمیت سمجھائی گئی ہے۔ رسول دنیا میں اس لیے بھیجا جاتا ہے کہ بھلائی اور بُرائی کا جو الہامی علم اللہ نے انسان کی فطرت میں رکھ دیا ہے وہ بجائے خود انسان کی ہدایت کے لیے کافی نہیں ہے، بلکہ اس کو پوری طرح نہ سمجھنے کی وجہ سے ہی انسان خیر و شر کے غلط فلسفے اور معیار تجویز کر کر کے گمراہ ہوتا رہا ہے۔ اس بنا پر اللہ تعالیٰ نے اُس فطری الہام کی مدد کے لیے انبیاء علیہم السلام پر واضح اور صاف صاف وحی نازل فرمائی تاکہ وہ لوگوں کو کھول کر بتائیں کہ نیکی کیا ہے اور بدی کیا ہے۔ ایسے ہی ایک نبی حضرت صالح علیہ السلام قومِ ثمود کی طرف بھیجے گئے تھے۔ مگر وہ اپنے نفس کی بُرائی میں غرق ہو کر اتنی سرکش ہو گئی تھی کہ اُس نے اُن کو جھُٹلا دیا، اور اُس کا منہ مانگا معجزہ جب اُنہوں نے ایک اونٹنی کی شکل میں پیش کیا تو اُن کی تنبیہ کے باوجود اُس قوم کے ایک شریر ترین آدمی نے ساری قوم کی خواہش اور طلب کے مطابق اسے بھی قتل کر دیا۔ اِس کا نتیجہ آخر کار یہ ہوا کہ پوری قوم تباہ کر کے رکھ دی گئی۔
ثمود کا یہ قصہ پیش کرتے ہوئے پوری سورہ میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اے قومِ قریش، اگر تم ثمود کی طرح اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جھٹلاؤ گے تو وہی انجام دیکھو گے جو ثمود نے دیکھا ہے۔ مکّہ میں اُس وقت حالات وہی موجود تھے جو صالح علیہ السلام کے مقابلہ میں قومِ ثمود کے اشرار نے پیدا کر رکھے تھے۔ اس لیے اُن حالات میں یہ قصہ سنا دینا بجائے خود اہلِ مکّہ کو یہ سمجھا دینے کے لیے کافی تھا کہ ثمود کی یہ تاریخی نظیر اُن پر کس طرح چسپاں ہو رہی ہے۔
1: اصل میں لفظ ضُحٰیاستعمال کیا گیا ہے جو سورج کی روشنی اور اس کی حرارت، دونوں پر دلالت کرتا ہے۔ اگرچہ عربی زبان میں اس کے معروف معنی چاشت کے وقت کے ہیں جبکہ سورج طلوع ہونے کے بعد خاصا بلند ہو جاتا ہے۔ لیکن جب سورج چڑھتا ہے تو صرف روشنی ہی نہیں دیتا بلکہ گرمی بھی دیتا ہے، اس لیے ضُحیٰ کا لفظ جب سورج کی طرف منسوب ہو تو اس کا پورا مفہوم اُس کی روشنی، یا اُس کی بدولت نکلنے والے دن کے بجائے اُس کی دھُوپ ہی سے زیادہ صحیح طور پر ادا ہوتا ہے۔
2: یعنی رات کی آمد پر سُورج چھُپ جاتا ہے اور اُس کی روشنی رات بھر غائب رہتی ہے۔ اس کیفیت کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ رات سورج کو ڈھانک لیتی ہے، کیونکہ رات کی اصل حقیقت سورج کا افق سے نیچے اُتر جانا ہے، جس کی وجہ سے اُس کی روشنی زمین کے اُس حصّے تک نہیں پہنچ سکتی جہاں رات طاری ہو گئی ہو۔
3: یعنی چھت کی طرح اُسے زمین پر اٹھا کھڑا کیا۔ اِس آیت اور اس کے بعد کی دو آیتوں میں مَا کا لفظ استعمال ہوا ہے یعنی مَا بَنٰھَا، اور مَا طَحٰھَا اور مَا سَوّٰ ھَا۔ اِس لفظ مَا کو مفسّرین کے ایک گروہ نے مصدری معنوں میں لیا ہے اور وہ اِن آیتوں کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ آسمان اور اس کے قائم کیے جانے کی قسم، زمین اور اس کے بچھائے جانے کی قسم، اور نفس اور اس کے ہموار کیے جانے کی قسم۔ لیکن یہ معنی اس لیے درست نہیں ہیں کہ ان تین فقروں کے بعد یہ فقرہ کہ’’ پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیزگاری اُس پر الہام کر دی‘‘ اِس سلسلۂ کلام کے ساتھ ٹھیک نہیں بیٹھتا۔ دوسرے مفسّرین نے یہاں مَا کو مَنْ یا الذّی کے معنی میں لیا ہے، اور وہ اِن فقروں کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ جس نے آسمان کو قائم کیا، جس نے زمین کو بچھایا اور جن نے نفس کو ہموار کیا۔ یہی دوسرا مطلب ہمارے نزدیک صحیح ہے، اور اس پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ مَا عربی زبان میں بے جان اشیاء اور بے عقل مخلوقات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ خود قرآن میں اِس کی بکثرت مثالیں موجود ہیں کہ مَا کو مَنْ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ مثلاً وَلَآ اَنْتُمْ عَابِدُوْنَ مَآ اَعْبُدُ ( اور نہ تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں )۔ فَا نْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ ( پس عورتوں میں جو تمہیں پسند آئیں ان سے نکاح کر لو)۔ وَلَا تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اٰ بَآ ؤُ کُمْ مِّنَ النِّسَآ ءِ ( اور جن عورتوں سے تمہارے باپوں نے نکاح کیا ہو ان سے نکاح نہ کرو)۔
4: ہموار کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کو ایسا جسم عطا کیا جو اپنے قامتِ راست اور اپنے ہاتھ پاؤں ، اور اپنے دماغ کے اعتبار سے انسان کی سی زندگی بسر کرنے کے لیے موزوں ترین تھا۔ اُس کو دیکھنے، سننے، چھونے، چکھنے اور سونگھنے کے ایسے حواس عطا کیے جو اپنے تناسب اور اپنی خصوصیات کی بنا پر اس کے لیے بہترین ذریعۂ علم بن سکتے تھے۔ اس کو قوتِ عقل و فکر، قوتِ استدلال و استنباط، قوتِ خیال، قوتِ حافظہ، قوتِ تمیز، قوتِ فیصلہ، قوتِ ارادی اور دوسری ایسی ذہنی قوتیں عطا کیں جن کی بدولت وہ دنیا میں اُس کام کے قابل ہوا جو انسان کے کرنے کا ہے۔ اس کے علاوہ ہموار کرنے میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ اُسے پیدائشی گناہ گار اور جِبِلّی بدمعاش بنا کر نہیں بلکہ راست اور سیدھی فطرت پر پیدا کیا اور اس کی ساخت میں کوئی خِلقی کجی نہیں رکھ دی کہ وہ سیدھی راہ اختیار کرنا چاہے بھی تو نہ کر سکے۔ یہی بات ہے جسے سورۂ روم میں بایں الفاظ بیان کیا گیا ہے کہ فِطْرَتَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا، ’’قائم ہو جاؤ اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے ‘‘(آیت ۳۰)۔ اور اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا ہے کہ ’’کوئی بچہ ایسانہیں ہے جو فطرت کے سوا کسی اور چیز پر پیدا ہوتا ہو، پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے جانور کے پیٹ سے پورا کا پورا صحیح و سالم بچہ پیدا ہوتا ہے۔ کیا تم ان میں کسی کا کان کٹا ہو ا پاتے ہوں ؟‘‘(بخاری و مسلم) یعنی یہ مشرکین ہیں جو بعد میں اپنے اوہام جاہلیت کی بنا پر جانوروں کے کان کاٹتے ہیں ، ورنہ خدا کسی جانور کو ماں کے پیٹ سے کٹے ہوئے کان لے کر پیدا نہیں کرتا۔ ایک اور حدیث میں حضور ؐ کا ارشاد ہے ’’ میرا ربّ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف (صحیح الفطرت) پیدا کیا تھا، پھر شیاطین نے آ کر ان کو ان کے دین( یعنی ان کے فطری دین) سے گمراہ کر دیا اور ان پر وہ چیزیں حرام کر دیں جو میں نے ان کے لیے حلال کی تھیں اور ان کو حکم دیا کہ میرے ساتھ اُن کو شریک کریں جن کے شریک ہو نے پر میں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی‘‘(مُسند احمد۔ مسلم نے بھی اِس سے ملتے جُلتے الفاظ میں حضور ؐ کا یہ ارشاد نقل کیا ہے )۔
5: الہام کا لفظ لَہْم سے ہے جس کے معنی نگلنے کے ہیں۔ لَھَمَ الشَّیَٔ وَ الْتَھَمَہٗ کے معنی ہیں فلاں شخص نے اس چیز کو نگل لیا۔ اور اَلْھَمْتُہُ الشَّیْءَ کے معنی ہیں میں نے فلاں چیز اُس کو نگلوا دی یا اس کے حلق سے اتار دی۔ اسی بنیادی مفہوم کے لحاظ سے الہام کا لفظ اصطلاحاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی تصور یا کسی خیال کو غیر شعوری طور پر بندے کے دل و دماغ میں اتار دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نفسِ انسانی پر اس کی بدی اور اس کی نیکی و پرہیز گاری الہام کر دینے کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ اس کے اندر خالق نے نیکی اور بدی دونوں کے رجحانات و میلانات رکھ دیے ہیں، اور یہ وہ چیز ہے جس کو ہر شخص اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کے لاشعور میں اللہ تعالیٰ نے یہ تصورات ودیعت کر دیے ہیں کہ اخلاق میں کوئی چیز بھلائی ہے اور کوئی چیز بُرائی، اچھے ا خلاق و اعمال اور بُرے اخلاق و اعمال یکساں نہیں ہیں، فجور (بدکرداری) ایک قبیح چیز ہے اور تقویٰ (بُرائیوں سے اجتناب) ایک اچھی چیز۔ یہ تصورات انسان کے لیے اجنبی نہیں ہیں بلکہ اُس کی فطرت اِن سے آشنا ہے اور خالق نے برے اور بھلے کی تمیز پیدائشی طور پر اُس کو عطا کر دی ہے۔ یہی بات سُورۂ بَلَد میں فرمائی گئی ہے کہ وَھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِ۔’’ اور ہم نے اس کو خیر و شر کے دونوں نمایاں راستے دکھا دیے ‘‘ (آیت۱۰)۔ اِسی کو سورۂ دَھر میں یوں بیان فرمایا گیا ہے اِنَّا ھَدَیْنٰہْ السَّبِیْلَ اِمَّا شَا کِراً وَّاِمَّا کَفُوْ راً۔’’ہم نے اس کو راستہ دکھا دیا خواہ شاکر بن کر رہے یا کفار‘‘(آیت۳)۔ اور اسی بات سورۂ قیامہ میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے کہ انسان کے اندر ایک نفس لوّامہ (ضمیر) موجود ہے ے جو برائی کرنے پر اسے ملامت کرتا ہے (آیت ۲) اور ہر انسان خواہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے مگر وہ اپنے آپ کو خوب جانتا ہے کہ وہ کیا ہے (آیات ۱۴ تا ۱۵)۔ اِس جگہ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینے چاہیے کہ فطری الہام اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق پر اُس کی حیثیت اور نوعیت کے لحاظ سے کیا ہے، جیسا کہ سُورۂ طٰہٰ میں ارشاد ہوا ہے کہاَلَّذِیْٓ اَعْطیٰ کُلَّ شَیْءٍ خَلْقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی۔ ’’جس نے ہر چیز کو اُس کی ساخت عطا کر پھر راہ دکھائی‘‘(آیت ۵۰)۔ مثلاً حیوانات کی ہر نوع کو اس کی ضروریات کے مطابق الہامی عالم دیا گیا ہے جس کی بنا پر مچھلی کو آپ سے آپ تیرنا، پرندے کو اُڑنا، شہد کی مکھی کو چھتّہ بنایا اور بئے کو گھونسلا تیار کرنا آ جاتا ہے۔ انسان کو بھی اُس کی مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے الگ الگ قسم کے الہامی علوم دیے گئے ہیں انسان کی ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک حیوانی وجود ہے اور اِس حیثیت سے جو الہامی علم اُس کو دیا گیا ہے اُس کی ایک نمایاں ترین مثال بچے کا پیدا ہوتے ہی ماں کا دُودھ چُوسنا ہے جس کی تعلیم اگر خدا نے فطری طور پر اسے نہ دی ہوتی تو کوئی اسے یہ فن نہ سکھا سکتا تھا۔ اُس کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک عقلی وجود ہے۔ اِس حیثیت سے خدا نے انسان کی آفرینش کے آغاز سے مسلسل اُس کو الہامی رہنمائی دی ہے جس کی بدولت وہ پے درپے اکتشافات اور ایجادات کر کے تمدّن میں ترقی کرتا رہا ہے۔ اِن ایجادات و اکتشافات کی تاریخ کا جو شخص بھی مطالعہ کرے گا وہ محسوس کرے گا کہ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسی ہو جو محض انسانی فکر و کاوش کا نتیجہ ہو، ورنہ ہر ایک ابتدا اِسی طرح ہوتی ہے کہ یکایک کسی شخص کے ذہن میں ایک بات آ گئی اور اُس کی بدولت اُس نے کسی چیز کا اکتشاف کیا یا کوئی چیز ایجاد کر لی۔ ان دونوں حیثیتوں کے علاوہ انسان کی ایک اور حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک اخلاقی وجود ہے، اور اِس ی حیثیت سے بھی اللہ تعالیٰ نے اسے خیر و شر کا امتیاز، اور خیر کے خیر اور شر کے شر ہونے کا احساس الہامی طور پر عطا کیا ہے۔ یہ امتیاز و احساس ایک عالمگیر حقیقت ہے جس کی بنا پر دنیا میں کبھی کوئی انسانی معاشرہ خیر و شر کے تصورات سے خالی نہیں رہا ہے، اور کوئی ایسا معاشرہ نہ تاریخ میں کبھی پایا گیا ہے نہ اب پایا جاتا ہے جس کے نظام میں بھلائی اور بُرائی پر جزا اور سزا کی کوئی نہ کوئی صورت اختیار نہ کی گئی ہو۔ اِس چیز کا ہر زمانے ہر جگہ اور ہر مرحلۂ تہذیب و تمدن میں پایا جانا اِس کے فطری ہونے کا صریح ثبوت ہے اور مزید براں یہ اِس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ایک خالقِ حکیم و د انا نے اِسے انسان کی فطرت میں ودیعت کیا ہے، کیونکہ جن اجزاء سے انسان مرکب ہے اور جن قوانین کے تحت دنیا کا مادّی نظام چل رہا ہے اُن کے اندر کہیں اخلاق کے ماخذ کی نشان دہی نہیں کی جا سکین۔
6: یہ ہے وہ بات جس پر اُن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے جو اوپر کی آیات میں مذکور ہوئی ہیں ۔ اب غور کیجیے کہ وہ چیزیں اِس پر کس طرح دلالت کرتی ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ کا قاعدہ یہ ہے کہ جن حقائق کو وہ انسان کے ذہن نشین کرا نا چاہتا ہے، اُن کی شہادت میں وہ سامنے کی چند ایسی نمایاں ترین چیزوں کو پیش کرتا ہے جو ہر آدمی کو اپنے گرد و پیش کی دنیا میں ، یا خود اپنے وجود میں نظر آتی ہیں۔ اِسی قاعدے کے مطابق یہاں دو دو چیزوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے جو ایک دوسرے سے متضاد ہیں اس لیے اُن کے آثار اور نتائج بھی یکساں نہیں ہیں بلکہ لازماً ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ایک طرف سورج ہے اور دوسری طرف چاند۔ سورج کی روشنی نہایت تیز ہے اور اس میں گرمی بھی ہے۔ اس کے مقابلہ میں چاند اپنی کوئی روشنی نہیں رکھتا۔ سورج کی موجودگی میں وہ آسمان پر موجود ہ بھی ہو تو بے نُور ہوتا ہے۔ وہ اُس وقت چمکتا ہے جب سُورج چھُپ جائے اور اُس وقت بھی اس کی روشنی نہ اتنی تیز ہوتی ہے کہ رات کو دِن بنا دے، نہ اُس میں کوئی گرمی ہوتی ہے کہ وہ کام کر سکے جو سورج کی گرمی کرتی ہے۔ لیکن اُس کے اپنے کچھ اثرات ہیں جو سورج کے اثرات سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک طرف دن ہے اور دوسری طرف رات۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ دونوں کے اثرات اور نتائج باہم اس قدر مختلف ہیں کہ کوئی اُن کو یکساں نہیں کہہ سکتا حتیٰ کہ ایک بے وقوف سے بے وقوف آدمی کے لیے بھی یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ رات ہوئی تو کیا اور دن ہوا تو کیا، کسی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح ایک طرف آسمان ہے جسے خالق نے بلند اٹھایا ہے اور دوسری طرح زمین ہے جسے پیدا کرنے والے نے آسمان کے نیچے فرش کی طرح بچھا دیا ہے۔ دونوں اگرچہ ایک ہی کائنات اور اس کے نظام اور اس کی مصلحتوں کی خدمت کر رہے ہیں ، لیکن دونوں کے کام اور ان کے اثرات و نتائج میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اِن آفاقی شہادتوں کو پیش کرنے کے بعد خود انسان کے اپنے نفس کو لیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اسے اعضا اور حواس اور ذہنی قوتوں کے متناسب امتزاج سے ہموار کر کے خالق نے اس کے اندر بھلائی اور بڑائی، دونوں کے میلانات، رُجحانات اور محرکات رکھ دیے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں اور الہامی طور پر اسے اِن دونوں کا فرق سمجھا دیا ہے کہ ایک فجور ہے اور وہ بُری چیز ہے، اور دوسرا تقویٰ ہے، اور وہ اچھی چیز۔ اب اگر سورج اور چاند، دن اور رات، زمین اور آسمان یکساں نہیں ہیں بلکہ ان کے اثرات اور نتائج ایک دوسرے سے لازماً مختلف ہیں، تو نفس کا فجور اور تقویٰ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہونے کے باوجود یکساں کیسے ہو سکتے ہیں۔ انسان خود اِس دنیا میں بھی نیکی اور بدی کو یکساں نہیں سمجھتا اور نہیں مانتا۔ خواہ اس نے اپنے بنائے ہوئے فلسفوں کی رو سے خیر و شر کیے کچھ بھی معیار تجویز کر لیے ہوں ، بہر حال جس چیز کو بھی وہ نیکی سمجھتا ہے اس کے متعلق وہ یہ رائے رکھتا ہے کہ وہ قابل قدر ہے، تعریف اور صلے اور انعام کی مستحق ہے۔ بخلاف اِس کے جس چیز کو بھی وہ بدی سمجھتا ہے، اس کے بارے میں اس کی اپنی بے لاگ رائے یہ ہے کہ وہ مذمت اور سزا کی مستحق ہے۔ لیکن اصل فیصلہ انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ اُس خالق کے ہاتھ میں ہے جس نے انسانن کا فجور اور تقویٰ اُس پر الہام کیا ہے۔ فجور وہی ہے جو خالق کے نزدیک فجور ہے اور تقویٰ وہی ہے جو اس کے نزدیک تقویٰ ہے۔ اور خالق کے ہاں اِن دونوں کے دو الگ نتائج ہیں۔ ایک کا نتیجہ یہ ہے کہ جو اپنے نفس کا تزکیہ کرے وہ فلاح پائے، اور دوسرے کا نتیجہ یہ ہے کہ جو اپنے نفس کو دبا دے وہ نامراد ہو۔ تزکیہ کے معنی ہیں پاک کرنا ابھارنا اور نشو نما دینا۔ سیاق و سباق سے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو اپنے نفس کو فجور سے پا ک کرے، اس کو اُبھار کر تقویٰ کی بلندی پر لے جائے اور اُس کے اندر بھلائی کو نشو و نما دے وہ فلاح پائے گا۔ اس کے مقابلہ میں دَسّٰھَا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کا مصدر تَدْسِیَہ ہے۔ تدسیہ کے معنی دبانے، چھُپانے، اِغوا کرنے اور گمراہ کر دینے کے ہیں۔ سیاق و سباق سے اس کا مطلب بھی واضح ہو جاتا ہے کہ وہ شخص نامراد ہو گا جو اپنے نفس کے اندر پائے جانے والے نیکی کے رجحانات کو ابھارنے اور نشو و نما دینے کے بجائے اُن کو دبا دے، اُس کو بہکا کر برائی کے رجحانات کی طرف لے جائے، اور فجور کو اُس پر اتنا غالب کر دے کہ تقویٰ اس کے نیچے اِس طرح چھپ کر رہ جائے جیسے ایک لاش قبر پر مٹی ڈال دینے کے بعد چھپ جاتی ہے۔ بعض مفسّرین نے اس آیت کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکَّی اللہُ نَفْسَہٗ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّی اللہُ نَفْسَہٗ، یعنی فلاح پا گیا وہ جس کے نفس کو اللہ نے پاک کر دیا اور نا مراد ہوا وہ جس کے نفس کو اللہ نے دبا دیا۔ لیکن یہ تفسیر اول تو زبان کے لحاظ سے قرآن کے طرزِ بیان کے خلاف ہے، کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کو یہی بات کہنی مقصود ہوتی تو وہ یوں فرماتا کہ قَدْ اَفْلَحَتْ مَنْ زَکّٰھَا اللہُ وَقَدْ خَابَتْ مَنْ دَسّٰھَاللہُ (فلاح پا گیا وہ نفس جس کو اللہ نے پاک کر دیا اور نامراد ہو گیا وہ نفس جو اللہ نے دبا دیا)۔ دوسرے یہ تفسیر اِسی موضوع پر قرآن کے دوسرے بیانات سے ٹکراتی ہے۔ سورۂ اعلیٰ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی، ’’فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی‘‘(آیت ۱۴)۔ سورۂ عَبَسَ میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کر کے فرمایا وَمَا عَلَیْکَ اِلَّا یَزَّکّٰی، ’’اور تم پر کیا ذمہ داری ہے اگر وہ پاکیزگی نہ اختیار کرے ‘‘۔ اِن دونوں آیتوں میں انسان کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ مثلاً سُورۂ دہر میں فرمایا ’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تا کہ اس کی آزمائش کریں اِسی لیے اُسے ہم نے سمیع و بصیر بنایا‘‘(آیت۲)۔ اور سُورۂ مُلک میں فرمایا’’ جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تا کہ تمہیں آزمائے کون تم میں بہتر عمل کر نے والا ہے ‘‘(آیت ۲)۔ اب یہ ظاہر ہے کہ امتحان سرے سے ہی بے معنی ہو جاتا ہے اگر امتحان لینے والا پہلے ہی ایک امیدوار کو ابھار دے اور دوسرے کو دبا دے۔ اس لیے صحیح تفسیر وہی ہے کہ جو قَتَادَہ، عِکْرِمَہ مجاہد اور سعید بن جُبَیر نے بیان کی ہے کہ زَکّٰھَا اور دَسّٰھَا کا فاعل بندہ ہے نہ کہ خدا۔ رہی وہ حدیث جو ابن ابی حاتم نے عن جُوَیْبِر بن سعید عن الضحّاک عن ابن عباس کی سند سے نقل کی ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس آیت کا مطلب یہ بیان فرمایا کہ اَفْلَحَتْ نَفْسٌ زَکَّا ھَا اللہُ عَزَّ وَجَلَّ ( فلاح پا گیا وہ نفس جس کو اللہ عز و جل نے پاک کر دیا، تو یہ ارشاد در حقیقت حضور سے ثابت نہیں ہے کیونکہ اس کی سند میں جُوَ یبِر متروک الحدیث ہے اور ابن عباس سے ضحّاک کی ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ البتہ وہ حدیث صحیح ہے جو امام احمد، مسلم، نَسائی اور ابن ابی شَیْبَہ نے حضرت زید بن اَرقم سے روایت کی ہے کہ حضور ؐ یہ دُعا مانگا کرتے تھے کہ الّٰہمّ اٰتِ نفسی تقواھا و زَکّھِا انتَ خیر من زکّاھا، انت ولیّھُا و مَولا ھا۔ ’’خدایا میرے نفس کو اُس کا تقویٰ عطا کر اور اس کو پاکیزہ کر، تو ہی وہ بہتر ہستی ہے جس اس کو پاکیزہ کر ے، تو ہی اُس کا سرپرست اور مولیٰ ہے ‘‘۔ اِسی سے ملتے جلتے الفاظ میں حضور ؐ کی یہ دعا حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ طَبَرانی، ابن مَرْدُوْیَہ اور ابن المُنْذِر نے اور حضرت عائشہ ؓ سے امام احمد نے نقل کی ہے۔ اس کا مطلب درحقیقت یہ ہے کہ بندہ تو صرف تقویٰ اور تزکیہ کی خواہش اور طلب ہی کر سکتا ہے، رہا اس کا نصیب ہو جانا، تو وہ بہر حال اللہ ہی کی توفیق پر منحصر ہے۔ اور یہی حال تَدْسیہ کا بھی ہے کہ اللہ زبردستی کسی کے نفس کو نہیں دباتا، مگر جب بندہ اُس پر تُل جائے تو اللہ تعالیٰ اُسے تقویٰ اور تزکیہ کی توفیق سے محروم کر دیتا ہے اور اُسے چھوڑ دیتا ہے کہ اپنے نفس کو جس گندگی کے ڈھیر میں دبانا چاہے دبا دے۔
7: اوپر کی آیات میں جن باتوں کو اصولاً بیان کیا گیا ہے اب انہی کی وضاحت ایک تاریخی نظیر سے کی جا رہی ہے۔ یہ کس بات کی نظیر ہے اور اوپر کے بیان سے اس کا کیا تعلق ہے، اس کو سمجھنے کے لیے قرآن مجید کے دوسرے بیانات کی روشنی میں اُن دو بنیادی حقیقتوں پر اچھی طرح غور کرنا چاہیے جو آیات ۷ تا ۱۰ میں بیان کی گئی ہیں۔ اولاً ان میں فرمایا گیا ہے کہ نفس انسانی کو ایک ہموار و مستقیم فطرت پر پیدا کر کے اللہ تعالیٰ نے اُس کا فجور اور اُس کا تقویٰ اُس پر الہام کر دیا۔ قرآن مجید اِس حقیقت کو بیان کرنے کے ساتھ یہ بھی واضح کرتا ہے کہ فجور و تقویٰ کا یہ الہامی علم اِس بات کے لیے کافی نہیں ہے کہ ہر شخص خود ہی اُس سے تفصیلی ہدایت حاصل کر لے، بلکہ اِس غرض کے لیے اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے انبیاء علیہم السلام کو مفصّل ہدایت دی جس میں وضاحت کے ساتھ یہ بتا دیا گیا کہ فجور کا اطلاق کن کن چیزوں پر ہوتا ہے جن سے بچنا چاہیے اور تقویٰ کس چیز کا نام ہے اور وہ کیسے حاصل ہوتا ہے۔ اگر انسان وحی کے ذریعہ سے آنے والی اِس واضح ہدایت کو قبول نہ کرے تو وہ نہ فجور سے بچ سکتا ہے نہ تقویٰ کا راستہ پا سکتا ہے۔ ثانیاً اِن آیات میں فرمایا گیا ہے کہ جزا اور سزا وہ لازمی نتائج ہیں جو فجور اور تقویٰ میں سے کسی ایک کے اختیار کرنے پر مترتب ہوتے ہیں۔ نفس کو فجور سے پاک کرنے اور تقویٰ سے ترقی دینے کا نتیجہ فلاح ہے، اور اس کے اچھے رجحانات کو دبا کر فجور میں غرق کر دینے کا نتیجہ نا مرادی اور ہلاکت و بربادی۔ اسی بات کو سمجھانے کے لیے ایک تاریخی نظیر پیش کی جا رہی ہے اور اس کے لیے ثمود کی قوم کو بطور نمونہ لیا گیا ہے، کیونکہ پچھلی تباہ شدہ قوموں میں سے جس قوم کا علاقہ اہلِ مکّہ سے قریب ترین تھا وہ یہی تھی۔ شمالی حجاز میں اُس کے تاریخی آثار موجود تھے جن سے اہلِ مکّہ شام کی طرف اپنے تجارتی سفروں میں ہمیشہ گزرتے رہتے تھے، اور جاہلیت کے اشعار میں جس طرح اس قوم کا ذکر کثرت سے آیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ عرب میں اس کی تباہی کا چرچا عام تھا۔
8: یعنی حضرت صالح علیہ السلام کی نبوت کو جھُٹلا دیا جو اُن کی ہدایت کے لیے بھیجے گئے تھے، اور اِس جھُٹلانے کی وجہ اُن کی یہ سرکشی تھی کہ وہ اُس فجور کو چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے جس میں وہ مبتلا ہو چکے تھے اور اُس تقویٰ کو قبول کرنا انہیں گوارا نہ تھا جس کی طرف حضرت صالح انہیں دعوت دے رہے تھے۔ اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، آیات ۷۳ تا ۷۶۔ ہود، آیات ۶۲-۶۱۔ الشُّعراء، آیات ۱۴۱ تا ۱۵۳۔ النمل، آیات ۴۵ تا ۴۹۔ القمر، آیات ۲۳ تا ۲۵۔
9: قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اس کی تفصیل یہ بتائی گئی ہے کہ ثمود کے لوگوں نے حضرت صالح کو چیلنج دیا تھا کہ اگر تم سچّے ہو تو کوئی نشانی (معجزہ) پیش کرو۔ اس پر حضرت صالح نے ایک اونٹنی کو معجزے کے طور پر ان کے سامنے حاضر کر دیا اور اُن سے کہا کہ یہ اللہ کی اونٹنی ہے، یہ زمین میں جہاں چاہے گی چرتی پھرے گی، ایک دن سارا پانی اس کے لیے مخصوص ہو گا اور دوسرا دن تم سب کے لیے اور تمہارے جانوروں کے لیے رہے گا، اگر تم نے اس کو ہاتھ لگایا تو یاد رکھو کہ تم پر سخت عذاب نازل ہو جائے گا۔ اِ س پر وہ کچھ مدّت تک ڈرتے رہے۔ پھر انہوں نے اپنے اس سب سے زیادہ شریر اور سرکش سردار کو پکارا کہ اس اونٹنی کا قصہ تمام کر دے اور وہ اس کام کا ذمہ لے کر اٹھ کھڑا ہوا (الاعراف، آیت ۷۳، الشعراء، آیات ۱۵۴ تا ۱۵۶۔ القمر، آیت ۲۹)۔
10: سورۂ اعراف میں ہے کہ اونٹنی کو مارنے کے بعد ثمود کے لوگوں نے حضرت صالح سے کہا اب لے آؤ وہ عذاب جس سے تم ہمیں ڈراتے تھے (آیت ۷۷)۔ اور سورۂ ہود میں ہے کہ حضرت صالح ؑ نے اُن سے کہا تین دن اپنے گھروں میں اور مزے کر لو، اِس کے بعد عذاب آ جائے گا اور یہ ایسی تنبیہ ہے جو جھوٹی ثابت نہ ہو گی(آیت ۶۵)۔
11: یعنی اللہ دنیا کے بادشاہوں اور یہاں کی حکومتوں کے فرمانرواؤں کی طرح نہیں ہے کہ وہ کسی قوم کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کے وقت یہ سوچنے پر مجبور ہو تے ہیں کہ اِس اقدام کے نتائج کیا ہوں گے۔ اُس کا اقتدار سب سے بالاتر ہے۔ اُسے اس امر کا کوئی اندیشہ نہیں تھا کہ ثمود کی حامی کوئی ایسی طاقت ہے جو اس سے بدلہ لینے کے لیے آئے گی۔