دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الکَوثَر

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

پہلی ہی آیت میں  کوثر (خیر کثیر) کے عطا کیے جانے کی خوش خبری دی گئی ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام اََْلکوْثَر ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

 مکی ہے اور مضمون سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مکہ کے آخری دور میں  نازل ہوئی ہو گی جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مخالفتوں  کے طوفان سے گزر رہے تھے اور آپؐ کے دشمن آپؐ کوبد نام کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے۔

 

مرکزی مضمون

 

یہ سورہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے عظیم بشارت اور آپؐ کے حق میں  فضل خاص کا اعلان ہے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ میں  آپؐ کو خیر کثیر عطا کیے جانے کی خوش خبری دی گئی ہے۔ آیت ۲ میں اس کے شکر کے طور پر نماز اور قربانی کا اہمتام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

 

آیت ۳ میں  آپؐ کو تسلی دی گئی ہے کہ جو لوگ آپؐ کی دشمنی پر تلے ہوۓ ہیں  وہ آپؐ کا کچھ بگاڑ نہ سکیں  گے البتہ اپنے کو بہت بڑے خیر سے ضرور محروم کر لیں  گے۔

ترجمہ

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم ۱*  نے تمہیں  ۲*  کوثر عطا کیا ۳*  

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ پس تم اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو ۴*  

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ بے شک تمہارا دشمن ہی خیر سے محروم ہے ۵*

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ شاہانہ طرز کلام ہے جس میں  واحد کی بجاۓ جمع کی ضمیر اِنَّا (ہم نے ) استعمال کی گئی ہے اور مقصود اس شان کا اظہار ہے جس کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو کوثر کا بابرکت عطیہ دربار خداوندی سے عنایت ہوا ہے۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ خطاب براہ راست نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ کوثر کے معنی خیر کثیر کے ہیں  (النہایۃ ج ۴ ص ۳۷ ، لسان العرب ج ۵ ص ۱۳۳) اور اسی مناسبت سے یہ جنت کی اس نہر کا نام ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو آخرت میں  عطا کی جاۓ گی مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس نے کوثر سے خیر کثیر مراد لیا ہے جس میں  جنت کی نہر بھی شامل ہے چنانچہ بخاری کی روایت ہے کہ :

 

عن سعید بن جُبُیْر عبابن عباسؓ انہ قال فِی الکوثر ھُوالخَیْرُ الذی اَعطاہُ اللہُ ایَّاہُ۔ قالَ ابو بشرْ قُلتُ لِسعید بن جُبَیْرٍ فاِنّ النَاسَ یَزْ عَمُوْ نَ اَنَّہُ نَھْرٌ  فِی الجَنّۃِ۔ فقالَ سَعیدٌ اَلنَّھْرُالَّذِی فِی الجَنَّۃِ مِنَ الخَیْرِ الَّذِی اَعْطَاہُ اللُ اِیَّاہُ۔  (بخاری کتابُ التفسیر )

 

’’سعید بن جُبیر ابن عباس سے روایت کرتے ہیں  کہ انہوں  نے فرمایا کوثر وہ خیر ہے جو اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو عطا فرمایا۔ ابو بشر (راوی) کہتے ہیں  کہ میں  نے سعید بن جُبیر سے کہا : لوگوں  کا خیال ہے کہ وہ جنت کی ایک نہر ہے۔ سعید  نے جواب دیا کہ جنت کی نہر اسی خیر میں  سے ہے جو اللہ نے آپؐ کو عطا فرمایا ہے ‘‘

 

اسی طرح اس کے مفہوم میں وہ حوض بھی شامل ہے جو قیامت کے دن میدان حشر میں  آپ کو عطا کیا جاۓ گا جس کا پانی آپؐ اپنے مخلص پیروؤں  کو پلائیں  گے۔ حدیث میں  اس حوض پربھی کوثر کا اطلاق کیا گیا ہے۔ صحیح مسلم میں  حضرت انس کی روایت ہے کہ آپؐ نے کوثر کی تشریح کرتے ہوۓ فرمایا :

 

ھُو حوضٌ ترِدُ عَلَیہِ اُمَّتِی یَومَ القیامۃِ۔ (مسلم کتابُ الصلاۃ)

 

’’وہ ایک حوض ہے جس پر قیامت کے دن میری امت پہنچے گی۔ ‘‘

 

گویا جس خیر کثیر سے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو نوازا ہے اس میں  یہ دو نعمتیں  خاص طور سے قابل ذکر ہیں  کیوں کہ یہ عظیم الشان اور گراں  قدر ہونے کے علاوہ آپؐ کے مخصوص فضائل میں  شامل ہیں  اور آیت کا اشارہ جس کو حدیث نبوی نے کھول دیا ہے خاص طور سے ان دو عطیات خداوندی کی طرف ہے۔ اور جس بخشش کا وعدہ اللہ تعالیٰ فرماۓ اس کا ملنا چونکہ یقینی ہے اس لیے اس کو ماضی کے صیغہ میں  اَعْطَیْنَا (ہم نے عطا کیا) بیان فرمایا جو اس کی قطعیت کو ظاہر کرتا ہے۔

 

یہ بہت بڑی بشارت ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو اس وقت دی گئی جب کہ مشرکین مکہ آپؐ کے دشمن ہو گۓ تھے اور انہوں  نے آپؐ کو اذیت دینے میں  کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی اس موقع پر یہ بشارت آپؐ کی تسلی کا باعث تھی نیز اس سے مخالفین پر یہ واضح کرنا مقصود تھا کہ تم جس ہستی کو اذیت پہنچا رہے ہو وہ خدا کے نزدیک کیسی عظیم المرتبت ہستی ہے جس پر خیر و برکت کی مسلسل بارش ہو رہی ہے اور اس خیر و برکت کا ظہور کس طرح حوض کوثر اور  نہر کوثر کی شکل میں  ہونے والا ہے۔ اس کے باوجود اگر تم اس کی شان میں  گستاخی کرنا چاہتے ہو تو کرو آسمان کو تو تم اس پر پھول نچھاور کرنے سے نہیں  روک سکتے !

 

نہر کوثر اور حوض کوثر کے سلسلہ میں جو بہ کثرت صحیح اور صریح حدیثیں  وارد ہوئی ہیں  ان سب کو بیان کرنا تو طوالت کا باعث ہو گا اس لیے ہم چند حدیثیں  ذیل میں  نقل کرتے ہیں  :

 

نہر کوثر کا مشاہدہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو معراج کے موقع پر کرایا گیا تھا۔ حضرت انس کی روایت ہے کہ : لَمَّا عُرِجَ بِا لنَّبِیِّ صَلَّی اللہ علیہ و سلم اِلَی السَّماءِ قَالَاَتَیْتُ عَلی نَھْرٍ حَافّتَاہُ قِبَابُ للُؤ لُو مُجَوّفٌ   ، فَقُلْتُماھٰذَا یَاجِبْرِیلُ ؟ قَالَ ھٰذَا الْکَوثَرُ۔ (بخاری کتابُ التفسیر)

 

’’نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب معراج کے لیے آسمان پر تشریف لے گۓ تو (وہاں  جو کچھ مشاہدہ کیا اس کا ذکر کرتے ہوۓ ) آپؐ نے فرمایا : میں  ایک نہر پر آیا جس کے دونوں  کناروں  پر مُجوّف (اندر سے خالی ) موتیوں  کے قبے بنے ہوۓ تھے میں  نے پوچھا جبرئیل یہ کیا ہے ؟  فرمایا یہ کوثر ہے ‘‘۔

 

اور بخاری ہی کی دوسری روایت میں  یہ الفاظ ہیں  : ھٰذا الکوثر الذی اعطاکَ رَبُّکَ۔ بخاری کتاب الرقاق) ’’یہ وہ کوثر ہے جو آپؐ کے رب نے آپؐ کو عطا کیا ہے ‘‘

 

اور عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : اَلکَوثَرُ نَھْرٌ فِی الجَنَّۃِ حَافَتَاہُ مِنْ ذَھَبٍ وَمَجْراہُ عَلی الدُّرِّ وَالْیَاقُوتِ ، تُرْبَتُہُ اَطْیَبُ مِنَ الْمِسْکِ وَمَا ؤُ ہٗ  اَحْلیٰ مِنَ الْعَسَلِ وَاَبْیَضُ مِنَ الثَّلجِ۔ ( ترمذی ابوابُالتفسیر) ’’ کوثر جنت میں  ایک نہر ہے جس کے کنارے سونے کے ہیں  اور وہ یاقوت پر بہتی ہے ، اس کی مٹی مشک سے زیادہ خوشبو دار ہے اور اس کا پانی شہد سے زیادہ شیریں  اور برف سے زیادہ سفید ہے ‘‘۔

 

اور حوض کوثر کے بارے میں  حضرت سہل بن سعد کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :

 

اِنّی فَرَطُکُمْ عَلیٰ الحَوْضِ منْ مَرَّ عَلَیَّ شَرِبَ ، وَمَنْ شَرِبَ لَم یَظْ مَأ اَبَداً۔ (بخاری کتاب الرقاق)۔ ’’ میں  تم سے پہلے حوض پر پہنچوں  گا۔ جو میرے پاس آۓ گا اس کا پانی پیۓ گا اور جو کوئی اس کا پانی پیۓ گا  اسے پھر کبھی پیاس محسوس نہ ہو گی ‘‘۔

 

عبد اللہ بن عمرو کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا : حَوضِی مَسِیْرۃُ شَھْرٍ مَاؤُ ہٗ اَبْیَضُ مِنَ اللَّبَنِ وَرِیْحُہٗ  اَطْیَبُ مِنَ المِسْکِ وَکِیْزَانُہٗ کَنُجُوْمِ السَّمَاءَ مَنْ شَرِبَ مِنْھَا فَلَایَطْمَاُ اَبَداً۔ ( بخاری کتاب الرقاق)۔ ’’ میرے حوض کا طول (یا عرض) ایک ماہ کی مسافت کے بقدر ہو گا۔ اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور اس کی خوشبو مشک سے بھی زیادہ عمدہ اور اس کے کوزے آسمان کے تاروں  کی طرح بہ کثرت ہوں  گے جو اس کا پانی پیے گا اس کو پھر کبھی پیاس نہ لگے گی۔ ‘‘

 

عقبہ بن عامر کہتے ہیں  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک روز ممبر پر چڑھ کر فرمایا: اِنّی فَرَطٌ لَکُمْ وَ اَنَا شَھِیْدٌ  عَلَیْکُمْ وَاِنّی وَاللہ لَاَنْظُرُ اِلٰی حَوْضِیْ الْآ نَ۔ (مسلم کتابُ الفضائل )۔ ’’میں  تم سے پہلے (حوض پر ) پہنچنے والا ہوں  اور تم پر گواہ ہوں  گا۔ قسم بخدا میں  اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں۔ ‘‘

 

انس بن مالک کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : لَیَرِدَنَّ عَلَیَّ الحَوْضَ رِجَالٌ  مِمَّنْ صَاحَبَنِی حَتَّی اِذارَأ یتُھُمْ و رُفِعُو اَ اِلَیّ اتُلِجُوْا دُوْنِی فَلَاَقُولَنَّ اَیْ رَبِّ اَصَیْحَابِیْ اُصَیْحَابِیْ فَلیُقَا لَنَّ لِی أِ  نَّکَ لَا تَدْرِیْ مَا اَحْدَثُوا بَعْدَکَ۔ (مسلم کتابُ الفضائل)۔ ’’ میرے حوض پر کچھ ایسے لوگ بھی آئیں  گے جو میرے ساتھ رہے ہیں۔ میں  جب انہیں  دیکھ لوں  گا اور وہ میرے پاس لاۓ جائیں  گے تو انہیں  میرے پاس سے ہٹا دیا جاۓ گا۔ میں  کہوں  گا کہ اے رب یہ میرے ساتھی ہیں۔ یہ میرے ساتھی ہیں۔ لیکن مجھ سے کہا جاۓ گا کہ آپ کو نہیں  معلوم کہ آپ کے بعد انہوں  نے کیا کیا‘‘۔

 

اس طرح کی بہ کثرت حدیثیں  جو حوض کے بارے میں  وارد ہوئی ہیں  اس بات کی صراحت کرتی ہیں  کہ آپ کے اس حوض پر آپ کی امت وارد ہو گی۔ البتہ اس سے سیراب ہونے کا موقع ان ہی لوگوں  کو دیا جاۓ گا جو آپ کے مخلص پیرو ہوں  گے اور جنہوں  نے آپ کے طریقہ (سنت) میں  کوئی تبدیلی نہیں کی ہو گی۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی اس گراں  قدر عطیہ سے نوازے جانے پر تم اپنے رب کا شکر ادا کرو اور اس کی شکر گزاری کا طریقہ نماز اور قربانی ہے۔ گویا یہ عبارتیں  شکر کا بہترین مظہر ہیں اور خدا کے تقرب کا بہترین ذریعہ بھی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو نماز سے جو شغف تھا اس کا اندازہ اس بات سے ہوگا کہ آپؐ رات کو اٹھ کر دیر تک نماز میں  مشغول رہتے یہاں  تک کہ آپؐ نے فرمایا کیا میں  اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بن جاؤں  ( بخاری مسلم)۔ اسی طرح قربانی کے حکم کی تعمیل بھی آپ بڑی رغبت سے کرتے رہے۔ مدینہ میں  عید الضحیٰ کے موقع پر قربانی کرنا آپؐ کا معمول رہا اور حجۃ الوداع کے موقع پر تو آپؐ نے اپنے ہاتھ سے ۶۳ اونٹ ذبح کیے۔

 

متن میں  لفظ وَانْحَرْ  استعمال ہوا ہے جو اصلاً اونٹ کی قربانی کے لیے بولا جاتا ہے اور یہاں  اس سے مقصود ملت ابراہیمی کی طرف اشارہ کرنا ہے جس میں  اونٹ کی قربانی ایک شعار کے طور پر تھی بخلاف اس کے یہود اونٹ کی قربانی کو جائز نہیں  سمجھتے تھے۔ اس شعار کو زندہ کرنے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا گیا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں  ہے کہ لازماً اونٹ ہی کی قربانی کی جاۓ ورنہ قربانی نہیں  ہو گی بلکہ جیسا کہ آپؐ کے قول و عمل ے ثابت ہے کہ قربانی دوسرے جانوروں  کی بھی کی جا سکتی ہے اس لیے یہاں  حکم کا اصل منشاء قربانی پر زور دینا ہے خواہ وہ ان جانوروں  میں  سے کسی جانور کی ہو جن کی قربانی مشروع ہے۔ حدیث میں  نحر کا لفظ گاۓ کی قربانی کے لیے بھی استعمال ہوا ہے : عَنْ جَا بِرٍ قَالَ نَحَرْنَا مَعَ َرسولِ اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عاَ الحُدَیبِیّۃِ اِلبَقَرَۃَ عن سبعۃ والبدنۃ عن سبعۃٍ : جابر کہتے ہیں  کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حدیبیہ کے سال قربانی کی، گاۓ سات افراد کی طرف سے اور اونٹ سات افراد کی طرف سے ‘‘۔

 

نماز اور قربانی کا جو حکم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا گیا ہے وہ آپ کے توسط سے پوری امت کے لیے ہے جس طرح یہ امت کوثر کے عطیہ میں  آپؐ کی شریک ہے کہ قیامت کے دن حوض کوثر سے فیض حاصل کرے گی اسی طرح وہ نماز اور قربانی کے حکم میں  بھی جو آپؐ کو دیا گیا ہے آپؐ کی شریک و سہیم ہے۔ موقع و محل کے لحاظ سے اس حکم کا یہ پہلو بھی یہاں  واضح ہو رہا ہے کہ سورہ ماعون میں  مشرکین کی جس نماز کو بے حقیقت قرار دیا گیا ہے اس کے مقابلہ میں  تمہاری نماز خالصۃً اللہ کے لیے ہونی چاہیے جیسا کہ دوسری جگہ زیادہ وضاحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے : قُلْ انّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ العٰلَمِیْنَ۔ لَا شرِیْکَ لَہٗ۔ (الانعام۔ ۱۶۲)۔ ’’ کہو میری نماز ، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں  ‘‘۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ مشرکین کی ان گستاخیوں  کے جواب میں  ہے جو آپؐ کی شان میں  وہ کرتے تھے۔ وہ توہین آمیز کلمات کے ساتھ آپؐ کے خلاف پروپگنڈہ کرتے تھے کہ آپؐ کا تعلق شرک اور بت پرستی کی مخالفت کی وجہ سے قوم سے منقطع ہو گیا ہے۔ قریش کو دنیا میں  جو قوت و اقتدار اور عزت و سرفرازی حاصل ہے اس سے آپؐ بالکل محروم ہو گۓ ہیں  اور اب آپؐ کی حیثیت ایک بے یارو مدد گار شخص کی ہو کر رہ گئی ہے۔ اس کے جواب میں  فرمایا گیا کہ آپؐ کے مخالفین ہر طرح کے خیر سے محروم ہیں  اور ابد تک ان کے لیے محرومی لکھ دی گئی ہے۔

 

یہ در حقیقت ایک پیشین گوئی تھی جو بالکل صحیح ثابت ہوئی۔ دشمنان رسول اس طرح ذلیل و خوار اور تباہ و برباد ہوۓ کہ ان کا نام و نشان بالکل مٹ گیا اور اللہ کے رسول کو ایسی عزت و سرفرازی حاصل ہوئی کہ کروڑ ہا لوگ آپؐ پر درود و سلام بھیجتے ہیں  اور قیامت تک بھیجتے رہیں  گے۔

 

واضح رہے کہ اس پیشین گوئی کا تعلق صرف اس زمانہ کے دشمنان رسول ہی سے نہیں  تھا بلکہ ہر زمانہ میں  پیدا ہونے والے دشمنان رسول سے ہے۔ جو بھی آپؐ کی شان میں  گستاخی کرے گا یا آپؐ کی مخالفت کرے گا اس کے لیے خیر سے محرومی مقدر ہے اور وہ ذلیل ہو کر رہے گا۔