تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الکَوثَر

۱ ۔۔۔      "کوثر" کے معنی "خیر کثیر" کے ہیں ۔ یعنی بہت زیادہ بھلائی اور بہتری، یہاں اس سے کیا چیز مراد ہے۔ " البحرالمحیط" میں اس کے متعلق چھبیس اقوال ذکر کئے گئے ہیں اور اخیر میں اس کو ترجیح دی ہے کہ اس لفظ کے تحت میں ہر قسم کی دینی و دنیاوی دولتیں اور حسی و معنوی نعمتیں داخل ہیں ۔ جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو، یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے طفیل میں امتِ مرحومہ کو ملنے والی تھیں ۔ ان نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت وہ "حوض کوثر" بھی ہے جو اسی نام سے مسلمانوں میں مشہور ہے اور جس کے پانی سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی امت کو محشر میں سیراب فرمائیں گے۔ اے ارحم الراحمین! تو اس خطا کارو سیاہ کو بھی اس سے سیراب کیجئے) (تنبیہ) "حوض کوثر" کا ثبوت بعض محدثین کے نزدیک حدِ تواتر تک پہنچ چکا ہے ہر مسلمان کو اس پر اعتقاد رکھنا لازم ہے۔ احادیث میں اس کی عجیب و غریب خوبیاں بیان ہوئی ہیں ۔ بعض روایات سے اس کا محشر میں ہونا اور اکثر سے جنت میں ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اکثر علماء نے تطبیق یوں دی ہے کہ اصل نہر جنت میں ہو گی اور اسی کا پانی میدان حشر میں لا کر کسی حوض میں جمع کر دیا جائے گا۔ دونوں کو "کوثر" ہی کہتے ہوں گے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔

۲ ۔۔۔      یعنی اتنے بڑے انعام و احسان کا شکر بھی بہت بڑا ہونا چاہئے۔ تو چاہیے کہ آپ اپنی روح، بدن اور مال سے برابر اپنے رب کی عبادت میں لگے رہیں ، بدنی و روحی عبادات میں سب سے بڑی چیز نماز ہے۔ اور مالی عبادات میں قربانی ایک ممتاز حیثیت رکھتی ہے کیونکہ قربانی کی اصل حقیقت جان کا قربان کرنا تھا۔ جانور کی قربانی کو بعض حکمتوں اور مصلحتوں کی بناء پر اس کے قائم مقام کر دیا گیا۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کے قصہ سے ظاہر ہے اسی لئے قرآن میں دوسری جگہ بھی نماز اور قربانی کا ذکر ساتھ ساتھ کیا ہے۔ قل ان صلاتی و نسکی و محیای وممتی للہ رب العلمین لا شریک لہ و بذلک امرت وانا اول المسلمین (انعام۔ رکوع۲۰) (تنبیہ) بعض روایات میں "وانحر" کے معنی سینہ پر ہاتھ باندھنے کے آئے ہیں ۔ مگر ابن کیثر رحمۃ اللہ نے ان روایات میں کلام کیا ہے۔ اور ترجیح اس قول کو دی ہے کہ "نحر" کے معنی قربان کرنے کے ہیں گویا اس میں مشرکین پر تعریض ہوئی کہ وہ نماز اور قربانی بتوں کے لئے کرتے تھے۔ مسلمانوں کو یہ کام خالص خدائے واحد کے لئے کرنے چاہیں ۔

۳ ۔۔۔      بعض کفار حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں کہتے تھے۔ کہ اس شخص کے کوئی بیٹا نہیں ۔ بس زندگی تک اس کا نام ہے پیچھے کون نام لے گا۔ ایسے شخص کو ان کے محاورات میں "ابتر" کہتے تھے۔ "ابتر" اصل میں دم کٹے جانور کو کہتے ہیں ۔ جس کے پیچھے کوئی نام لینے والا نہ رہے، گویا اس کی دم کٹ گئی۔ قرآن نے بتلایا کہ جس شخص کو اللہ خیر کثیر عنایت فرمائے اور ابدالآباد تک نام روشن کرے اسے "ابتر" کہنا پرلے درجہ کی حماقت ہے۔ حقیقت میں "ابتر" وہ ہے جو ایسی مقدس و مقبول ہستی سے بغض و عناد اور عداوت رکھے اور اپنے پیچھے کوئی ذکرِ خیر اور اثرِ نیک نہ چھوڑے۔ آج ساڑھے تیرہ سو برس کے بعد ماشاء اللہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی روحانی اولاد سے دنیا پٹی پڑی ہے اور جسمانی دختری اولاد بھی بکثرت ملکوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے آثار صالحہ عالم میں چمک رہے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی یاد نیک نامی اور محبت و عقیدت کے ساتھ کروڑوں انسانوں کے دلوں کو گرما رہی ہے۔ دوست دشمن سب آپ کے اصلاحی کارناموں کا صدق دل سے اعتراف کر رہے ہیں ۔ پھر دنیا سے گزر کر آخرت میں جس مقام محمود پر۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہوں گے اور جو مقبولیت و متبوعیت عامہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو علیٰ روس الاشہاد حاصل ہو گی وہ الگ رہی۔ کیا ایسی دائم البرکۃ ہستی کو (العیاذ باللہ) "ابتر" کہا جا سکتا ہے؟ اس کے مقابل اس گستاخ کو خیال کرو جس نے یہ کلمہ زبان سے نکالا تھا۔ اس کا نام و نشان کہیں باقی نہیں ۔ نہ آج بھلائی کے ساتھ اسے کوئی یاد کرنے والا ہے۔ یہ ہی حال ان تمام گستاخوں کا ہوا جنہوں نے کسی زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بغض و عداوت پر کمر باندھی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شان مبارک میں گستاخی کی اور اسی طرح آئندہ ہوتا رہے گا۔