تفسیر مدنی

سورة البَقَرَة

(سورہ نمبر ۲ ۔ تعداد آیات ۲۸۶)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم والا ہے ۔

ترجمہ

۱۔۔ الم

۲۔۔ یہ ایسی (عظیم الشان) کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں، سراسر ہدایت ہے، ان پرہیزگاروں کے لئے،

۳۔۔ جو بن دیکھے (سچا پکا) ایمان رکھتے ہیں (غیبی حقائق پر) اور وہ قائم کرتے ہیں نماز کو اور خرچ کرتے ہیں (ہماری رضا کے لئے) اس میں سے جو کہ ہم نے ان کو دیا (بخشا) ہوتا ہے

۴۔۔ اور جو ایمان رکھتے ہیں اس (کتاب) پر جو اتاری گئی آپ کی طرف (اے پیغمبر) اور ان (سب کتابوں) پر بھی جن کو اتارا گیا آپ سے پہلے اور وہ (سچے دل) سے یقین رکھتے ہیں آخرت پر،

۵۔۔  یہی لوگ ہیں جو اپنے رب کی طرف سے (ملنے والی) سیدھی راہ پر ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو (حقیقی معنوں میں) کامیاب ہونے والے (اور فلاح پانے والے) ہیں،

۶۔۔ (اس کے برعکس) جو لوگ اڑ گئے اپنے کفر (و باطل) پر (اپنے عناد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے) بے شک ان کے حق میں برابر ہے کہ آپ انہیں خبردار کریں یا نہ کریں، انہوں نے (بہر حال) ایمان نہیں لانا

۷۔۔ اللہ نے مہر لگا دی ان کے دلوں پر اور (ڈاٹ لگا دیئے) ان کے کانوں پر (ان کی اپنی بدنیتی اور سوء اختیار کی بنیاد پر) ان کی آنکھوں پر ایک (سخت قسم کا) پردہ ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے

۸۔۔ اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو (زبان سے تو) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور قیامت کے دن پر مگر وہ ایمان دار ہیں نہیں

۹۔۔ وہ (اس طرح) دھوکہ دیتے ہیں اللہ کو اور ان لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں حالانکہ (حقیقت میں) وہ دھوکہ خود اپنے آپ کو ہی دے رہے ہیں، مگر وہ شعور نہیں رکھتے

۱۰۔۔ ان کے دلوں میں ایک بڑی (خطرناک) بیماری ہے ۔ پھر اللہ کی طرف سے (ملنے والی مہلت کے باعث) ان کی یہ بیماری اور بڑھ گئی اور ان کے لئے بڑا ہی دردناک عذاب ہے ان کے اس جھوٹ کی بنا پر جو یہ لوگ بولتے تھے (پوری ڈھٹائی کے ساتھ)

۱۱۔۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ فساد مت مچاؤ تم لوگ (اللہ کی) اس زمین میں تو یہ لوگ کہتے ہیں (کہ نہیں صاحب) ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں

۱۲۔۔ اور (ان کے دھوکے میں نہیں آنا) یقیناً یہی لوگ فساد مچانے والے ہیں لیکن یہ اس کا شعور نہیں رکھتے

۱۳۔۔ اور (اسی طرح) ان سے کہا جاتا ہے کہ تم لوگ (سچے دل سے) ایمان لے آؤ جس طرح کہ یہ دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ ہم اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح کے بیوقوف لوگ ایمان لائے ہیں آگاہ رہو کہ بیوقوف یہ خود ہیں  لیکن یہ جانتے نہیں

۱۴۔۔ اور جب یہ (بد بخت) ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں مگر جب یہ تنہائی میں اپنے شیطانوں کے پاس پہنچتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تو (دل و جان سے) تمہارے ساتھ ہیں (ان لوگوں سے تو) ہم بس مذاق کر رہے تھے

۱۵۔۔ حالانکہ مذاق (حقیقت میں) اللہ کی طرف سے خود ان کا اڑایا جا رہا ہے وہ (اپنے حلم اور کرم بے پایاں سے) ان کی رسی دراز کیے جا رہا ہے، جس سے یہ لوگ اپنی سرکشی میں (پڑے) بھٹک رہے ہیں

۱۶۔۔ یہ وہ (بد بخت) لوگ ہیں جنہوں نے گمراہی کو اپنایا ہدایت کے بدلے میں پس نہ ان کو نفع دیا ان کی اس تجارت نے اور نہ ہی یہ ہدایت پانے والے ہیں،

۱۷۔۔ ان کی مثال (ان کی محرومی اور بدنصیبی میں) ایسی ہے جیسے کسی نے آگ جلائی ہو مگر جب اس آگ نے روشن کر دیا اس کے آس پاس کو تو اللہ نے سلب کر دیا ان کی روشنی کو اور ان کو (بھٹکتا) چھوڑ دیا ایسے اندھیروں میں کہ ان کو کچھ سوجھتا ہی نہیں

۱۵۔۔ یہ بہرے گونگے اور اندھے ہیں پس یہ نہیں لوٹیں گے

۱۹۔۔ یا (ان کی مثال ایسے ہے) جیسے آسمان سے اترنے والی زور دار بارش ہو، جس میں اندھیرے بھی ہوں اور (زور کی) گرج اور چمک بھی یہ لوگ بجلی کی کڑک کی (ہولناک) آوازوں کی بنا پر موت کے ڈر کے مارے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ٹھونسے جا رہے ہوں، اور اللہ نے پوری طرح گھیرے میں لے رکھا ہے ایسے تمام کافروں کو

۲۰۔۔ قریب ہے کہ وہ بجلی آ چک لے ان کی آنکھوں کو جب وہ ان کے لئے چمکتی ہے تو یہ اس (کی روشنی) میں چل پڑتے ہیں لیکن جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو یہ (حیران و پریشان) کھڑے رہ جاتے ہیں اور اگر اللہ چاہتا تو لے جاتا ان کے کان، اور چھین لیتا (ان سے) ان کی آنکھیں بے شک اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے

۲۱۔۔  اے لوگوں بندگی کرو تم سب اپنے اس رب (وحدہٗ لاشریک) کی جس نے پیدا فرمایا تم سب کو بھی (اپنی قدرت بے نہایت اور رحمت بے غایت سے) اور ان کو بھی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں  تاکہ تم پرہیزگار بن سکو،

۲۲۔۔  جس نے بنا دیا تمہارے لیے اس زمین کو ایک عظیم الشان بچھونا اور آسمان کو ایک عظیم الشان چھت، اور اس نے اتارا آسمان سے پانی (ایک نہایت ہی پر حکمت نظام کے تحت) پھر اس نے نکالیں اس کے ذریعے طرح طرح کی پیداواریں (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے) تمہاری روزی رسانی کے لئے پس تم لوگ اللہ کے لئے شریک مت بناؤ درآنحالیکہ تم لوگ خود جانتے ہو

۲۳۔۔ اور اگر تمہیں شک ہو اس (کتاب) کے بارے میں جس کو ہم نے اتارا ہے اپنے بندہ پر تو تم اس جیسی ایک (چھوٹی سے چھوٹی) سورت ہی بنا لاؤ اور بلا لو تم اس (غرض کے لئے) اپنے تمام حمایتیوں کو سوائے اللہ (پاک سبحانہ و تعالی) کے اگر تم سچے ہو

۲۴۔۔ پس اگر تم لوگ (ہمارے اس کھلے چیلنج کے با وجود) ایسا نہ کر سکے اور ہرگز بھی نہیں کر سکو گے تو پھر بچو تم (دوزخ کی) اس (ہولناک) آگ سے جس کا ایندھن لوگ ہوں گے اور پتھر (اور) جو تیار کی گئی ہے کافروں کے لئے

۲۵۔۔ اور خوشخبری سنا دو تم ان (خوش نصیبوں) کو جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے کہ ان کے لئے ایسی عظیم الشان جنتیں ہیں جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی عظیم الشان نہریں  جب بھی ان کو وہاں کوئی پھل کھانے کو ملے گا تو وہ کہیں گے کہ یہ تو وہی ہے جو ہمیں اس سے پہلے ملا تھا اور انہیں دئیے بھی جائیں گے باہم ملتے جلتے اور ان کے لئے وہاں ایسی بیویاں ہوں گی (جنہیں ہر طرح کے ظاہری و باطنی عیوب و نقائص سے) پاک کر دیا گیا ہو گا   اور ان (خوش نصیبوں) کو ان (جنتوں اور انکی نعمتوں) میں ہمیشہ رہنا نصیب ہو گا

۲۶۔۔ بے شک اللہ (پاک سبحانہ و تعالی) شرماتا نہیں اس بات سے کہ وہ بیان فرمائے کوئی مثال (حقیقت حال کی توضیح کے لئے) مچھر کی یا اس سے بھی بڑھ کر کسی چیز کی   سو جو لوگ ایمان (کا نور) رکھتے ہیں وہ یقین جانتے ہیں کہ یہ (تمثیل) قطعی طور پر حق ہے ان کے رب کی طرف سے مگر جو لوگ کفر (کی ظلمت) والے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ کو کیا لگے اس طرح کی مثالوں سے اللہ اس سے بہتوں کو گمراہی کی (دلدل) میں ڈالتا ہے اور بہتوں کو ہدایت (کی عظیم الشان دولت) سے نوازتا ہے اور وہ اس سے گمراہ نہیں کرتا مگر ان ہی بدکاروں کو

۲۷۔۔ جو توڑتے ہیں اللہ کے عہد کو اس کے پختہ کرنے کے بعد اور جو قطع کرتے ہیں ان (تعلقات اور رشتوں) کو جن کو جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور وہ فساد پھیلاتے ہیں (اللہ کی) زمین میں یہی لوگ ہیں خسارے والے

۲۸۔۔ تم کیسے کفر کرتے ہو اللہ کے ساتھ (اے منکرو!) حالانکہ تم بے جان تھے تو اس نے تمہیں زندگی (کی یہ عظیم الشان نعمت) بخشی پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے (اور دے گا) اور وہی تمہیں زندگی بخشتا ہے (اور بخشے گا)  پھر اسی کی طرف تم لوٹائے جاتے ہو (اور لوٹائے جاؤ گے)

۲۹۔۔  وہ (اللہ) وہی تو ہے جس نے پیدا فرمایا تمہارے لئے (اپنی قدرت کاملہ حکمت بالغہ اور رحمت شاملہ سے) وہ سب کچھ جو کہ زمین میں سے ہے، پھر اس نے توجہ فرمائی آسمان کی طرف تو برابر کر دیا ان کو سات آسمانوں کی صورت میں بے شک وہ ہر چیز کو پوری طرح جاننے والا ہے

۳۰۔۔ اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب فرمایا تمہارے رب نے فرشتوں سے کہ (اے فرشتو!) بے شک میں بنانے والا ہوں زمین میں (اپنا) ایک خلیفہ تو فرشتوں نے عرض کیا کہ (مالک) کیا آپ زمین میں ایسے شخص کو (اپنا خلیفہ) بنائیں گے جو اس میں فساد مچائے اور خون ریزی کرے حالانکہ ہم برابر تسبیح کرتے ہیں آپ کی حمد (و ثنا) کے ساتھ اور ہم آپ کی تقدیس کرنے میں لگے ہوئے ہیں  فرمایا میں پوری طرح جانتا ہوں وہ کچھ جو تم نہیں جانتے

۳۱۔۔ اور سکھائے اللہ نے (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے) آدم کو نام سب چیزوں کے پھر اس نے پیش فرمایا ان سب کو فرشتوں کے سامنے پھر فرمایا (ان سے) کہ بتاؤ مجھے نام ان چیزوں کے اگر تم سچے ہو

۳۲۔۔ انہوں نے عرض کیا کہ (مالک) ہم تو بس وہی کچھ جانتے ہیں جو آپ نے ہمیں سکھایا ہے بے شک آپ ہی ہیں سب کچھ جانتے نہایت حکمتوں والے

۳۳۔۔ تب اللہ نے فرمایا (آدم سے) کہ اے آدم بتاؤ ان کو نام ان چیزوں کے سو جب بتا دئیے آدم نے ان کو نام ان سب چیزوں کے تو فرمایا (تمہارے رب نے فرشتوں سے کہ) کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ بے شک میں جانتا ہوں سب چھپی باتیں آسمانوں کی اور زمین کی اور میں جانتا ہوں وہ سب کچھ جو کہ تم ظاہر کرتے ہو اور وہ سب کچھ بھی جسے تم چھپاتے ہو

۳۴۔۔ اور (وہ بھی یاد کرو) کہ جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم سجدہ کرو آدم کو تو وہ سب سجدے میں گر پڑے بجز ابلیس کے کہ اس نے انکار کیا اور وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہوا اور وہ (علم الہی میں) پہلے سے ہی کافروں میں سے تھا

۳۵۔۔ اور ہم نے کہا (آدم سے کہ) اے آدم رہو تم بھی اور تمہاری بیوی بھی جنت میں اور کھاؤ (پیو) تم اس میں بفراغت جہاں سے چاہو مگر اس درخت کے قریب بھی مت پھٹکنا ورنہ تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے

۳۶۔۔ مگر آخر شیطان نے پھسلا دیا ان دونوں کو اسی درخت کی بنا پر اور اس نے نکال دیا ان دونوں کو ان نعمتوں سے جن میں وہ (رہ رہے) تھے اور حکم دیا ہم نے (آدم اور حوا کو) کہ اتر جاؤ تم اس حال میں کہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہوؤ گے اور تمہارے لئے زمین میں ٹھکانا ہے اور برتنے (استعمال کرنے) کا سامان ایک (مقرر) وقت تک

۳۷۔۔ پھر سیکھ لئے آدم نے کچھ کلمے اپنے رب کی طرف سے تب اس (کے رب) نے اس کی توبہ قبول فرما لی بے شک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا اور نہایت ہی مہربان ہے

۳۸۔۔ ہم نے کہا تم اتر جاؤ یہاں سے سب کے سب پھر اگر آئے تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت تو جس نے (صدق دل سے) پیروی کی میری ہدایت کی تو ایسے لوگوں پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے

۳۹۔۔ اور اس کے (برعکس) جن لوگوں نے کفر کیا اور جھٹلایا میری آیتوں کو تو وہ ساتھی (اور یار) ہوں گے دوزخ کے جس میں ان کو ہمیشہ رہنا ہو گا

۴۰۔۔ اے بنی اسرائیل یاد کرو تم میرے طرح طرح کے ان احسانوں کو جو میں نے تم پر کئے ہیں اور پورا کرو تم میرے عہد کو میں پورا کروں گا تمہارے عہد کو اور تم خاص مجھ ہی سے ڈرو

۴۱۔۔ اور ایمان لاؤ تم لوگ اس کتاب پر جو میں نے (اپنی کامل اور آخری کتاب کی شکل میں اب) اتاری ہے جو تصدیق کرنے والی ہے اس کتاب کی جو تمہارے پاس ہے اور تم اس کے پہلے منکر مت بنو اور مت لو تم لوگ میری آیتوں کے بدلے میں (دنیائے دوں کا) گھٹیا مول اور تم خاص مجھ ہی سے ڈرو

۴۲۔۔ اور نہ ملاؤ تم حق کو باطل کے ساتھ اور نہ چھپاؤ تم (نور) حق کو جانتے بوجھتے

۴۳۔۔ اور قائم کرو تم نماز کو ایمان (لا کر) اور ادا کرو زکوٰۃ (طیب خاطر) کے ساتھ اور (دل و جان سے) جھک جاؤ تم اپنے (مالک حقیقی کے حضور) دوسرے جھکنے والوں کے ساتھ

۴۴۔۔ کیا تم لوگ دوسروں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور بھولتے ہو خود اپنے آپ کو (اور غفلت برتتے ہو تم اپنے بھلے سے) درانحالیکہ تم خود کتاب پڑھتے ہو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ہو

۴۵۔۔ اور مدد مانگو تم اپنے (رب سے) صبر اور نماز کے ذریعے  بے شک یہ نماز بڑی بھاری ہے مگر ان عاجزی کرنے والوں پر

۴۶۔۔ جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ انہیں ملنا ہے بہرحال اپنے رب سے (اور اس کے حضور پیش ہونا ہے) اور انہیں (ہر صورت میں) آخرکار اسی کے حضور لوٹ کر جانا ہے،

۴۷۔۔ اے بنی اسرائیل یاد کرو تم میرے احسانوں کو جو میں نے (طرح طرح سے) تم پر کئے ہیں، اور (خاص کر میرے احسان کو کہ) میں نے تم کو فضیلت دی تمام جہانوں پر

۴۸۔۔، اور ڈرو تم لوگ اس ہولناک دن سے جس میں نہ کوئی شخص کسی شخص کے کچھ کام آ سکے گا، نہ اس سے کوئی سفارش قبول کی جائے گی، نہ اس سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا، اور نہ ہی ان لوگوں کی (کہیں سے) کوئی مدد کی جائے گی،

۴۹۔۔ اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب ہم نے نجات دی تم کو (اپنی رحمت و عنایت سے) فرعون والوں سے، جو کہ چکھاتے تھے تم لوگوں کو (طرح طرح کے) برے عذاب، تمہارے بیٹوں کو وہ چن چن کر ذبح کرتے، اور تمہاری بیٹیوں کو وہ (اپنی اغراض کے لئے) زندہ رکھ چھوڑتے، اور اس میں بڑی آزمائش تھی تمہارے رب کی جانب سے  

۵۰۔۔، اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب ہم نے پھاڑا سمندر کو تمہارے لئے راستہ بنانے کو، اور (پھر اسی میں) غرق کر دیا ہم نے (فرعون کو اور) فرعون والوں کو، جب کہ تم لوگ خود (اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے

۵۱۔۔ اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب ہم نے موسیٰ سے وعدہ کیا،چالیس راتوں کا (تو رات عطا کرنے کے لئے) پھر تم نے ٹھہرا لیا اس (بے جان اور بے حقیقت) بچھڑے کو (اپنا معبود) اس کے بعد، اور تم ہو ہی ظالم لوگ

۵۲۔۔  پھر اس (ہولناک اور سنگین جرم) کے بعد بھی، ہم نے تم سے درگزر ہی کیا، تاکہ تم لوگ احسان مانو (اور اپنے منعم حقیقی کا شکر بجا لاؤ)

۵۳۔۔ اور (ہمارا احسان بھی یاد کرو کہ) جب ہم نے موسیٰ کو وہ (عظیم الشان) کتاب (یعنی توراۃ) دی، اور (حق و باطل کے درمیان) فیصلے کا سامان بھی، تاکہ تم لوگوں کو راستہ مل سکے

۵۴۔۔ اور (وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب موسیٰ نے (دکھ اور درد بھرے انداز میں) اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم (کے لوگو!) بے شک تم نے بڑا ظلم ڈھایا ہے اپنی جانوں پر اس بچھڑے کو (اپنا معبود) ٹھہرا کر، سو تم لوگ فوراً سچی توبہ کے ساتھ رجوع کرو اپنے پیدا کرنے والے (رب) کے حضور، اور قتل کرو اپنے آپ کو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے تمہارے پیدا کرنے والے کے ہاں، پھر اس نے (اپنے فضل و کرم سے) تمہاری توبہ قبول فرما لی، بے شک وہ بڑا ہی قبول کرنے والا، نہایت مہربان ہے،

۵۵۔۔ اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب تم لوگوں نے (اپنے پیغمبر سے) کہا کہ اے موسیٰ ہم ہرگز تمہارے کہنے پر یقین نہ کریں گے، یہاں تک کہ ہم اللہ کو خود اپنی آنکھوں سے کھلم کھلا نہ دیکھ لیں، تو (اس گستاخی پر) تم کو آ پکڑا بجلی کے ایک کڑکے نے تمہارے دیکھتے ہی دیکھتے، (جس کے نتیجے میں تم سب ڈھیر ہو کر رہ گئے )

۵۶۔۔ پھر ہم نے اٹھا کھڑا کیا تم سب کو (اپنی رحمت و عنایت سے) تمہارے مر چکنے کے بعد، تاکہ تم لوگ احسان مانو (اور اپنے منعم حقیقی کا) شکر بجا لاؤ،

۵۷۔۔ اور (مزید کرم یہ کہ) ہم نے تم پر (میدان تیہ میں) بادلوں کا سایہ کیا، اور تم پر من و سلویٰ اتارا (اور تم سے کہا کہ) کھاؤ (پیو) تم لوگ ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے تمہیں بخشی ہیں، اور انہوں نے (حکم عدولی کر کے) ہمارا کچھ بگاڑا بلکہ وہ خود اپنی ہی جانوں پر ظلم کر رہے تھے

۵۸۔۔  اور (وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب ہم نے (تم سے) کہا کہ داخل ہو جاؤ تم اس بستی میں، اور وہاں تم لوگ کھاؤ (پیو فراغت اور) بے تکلفی کے ساتھ جہاں سے چاہو، اور داخل ہونا اس کے دروازے سے جھکے ہوئے، اور (زبان سے) کہتے جانا حطۃ  (ہماری توبہ) تو ہم بخش دیں گے تمہاری خطاؤں کو، اور مزید (عنایتوں سے) نوازیں گے نیکو کاروں کو،

۵۹۔۔ مگر بدل دیا ان ظالموں نے اس کو ایک اور ہی بات سے، اس کے خلاف جو کہی گئی تھی، جس کے نتیجے میں ہم نے اتارا ان ظالموں پر ایک بڑا ہی سخت (اور ہولناک) عذاب آسمان سے، ان کی ان نافرمانیوں (اور حکم عدولیوں) کی بنا پر جو کہ یہ لوگ کرتے چلے آ رہے تھے

۶۰۔۔  اور (وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب موسیٰ نے اپنی قوم کیلئے (ہم سے) پانی کی درخواست کی، تو ہم نے ان سے کہا کہ مارو تم اپنی لاٹھی کو فلاں پتھر پر، پس (لاٹھی کا مارنا تھا کہ) اس سے پھٹ پڑے بارہ چشمے (اور بنی اسرائیل کے بارہ قبائل میں سے) ہر گروہ نے اچھی طرح (دیکھ اور) پہچان لیا اپنے گھاٹ کو، (اور ہم نے ان سے کہا کہ) کھاؤ پیو تم لوگ اللہ کے دئیے ہوئے میں سے، اور مت پھرو تم اس زمین میں فساد مچاتے

۶۱۔۔ اور  (وہ بھی یاد کرو کہ) جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ ہم ہرگز صبر نہیں کر سکتے ایک ہی طرح کے کھانے پر، پس آپ ہمارے لئے درخواست کریں اپنے رب سے، کہ وہ ہمارے لئے نکالے ان چیزوں میں سے جن کو زمین اگاتی ہے، جیسے ساگ، (کھیرے) ککڑی، گیہوں، مسور، اور پیاز، (وغیرہ) تو موسیٰ نے فرمایا کہ کیا تم لوگ ادنیٰ چیز کو لینا چاہتے ہو، اس کے بدلے میں، جو کہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے ؟  اچھا تو اتر جاؤ تم لوگ کسی شہر میں، وہاں تمہیں وہ سب کچھ مل جائے گا جو تم نے مانگا ہے، اور (آخر کار نوبت یہاں تک پہنچی کہ) چپکا دی گئی ان پر ذلت (و خواری) اور پستی (و بدحالی) اور لوٹے یہ لوگ اللہ کی طرف سے (آنے والے) ایک بڑے ہی ہولناک غضب کے ساتھ، یہ اس لئے کہ یہ لوگ کفر کرتے تھے اللہ (پاک) کی آیتوں کے ساتھ، اور قتل کرتے تھے (اس کے) نبیوں کو ناحق طور پر، (اور) یہ اس لئے کہ یہ لوگ نافرمانی کرتے تھے (اپنے رب کی) اور یہ لوگ تجاوز کرتے تھے، (اس کی مقرر کردہ حدوں سے)

۶۲۔۔ بے شک (اللہ کے قانون عدل و انصاف کے مطابق) جو لوگ ایمان لائے، جو یہودی بن گئے، اور نصرانی اور صابی (ان میں سے) جو کوئی بھی (سچے دل سے) ایمان لایا اللہ پر اور روز آخر پر، تو ایسوں کیلئے (بلا فرق و تمیز) ان کا اجر ہے ان کے رب کے یہاں، اور ان پر نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے

۶۳۔۔ اور (وہ بھی یاد کر لیا کرو کہ) جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا تھا، اور تم پر اٹھا دیا تھا کوہ طور کو، (اور تم سے کہا تھا) کہ مضبوطی سے تھام لو تم اس چیز کو جو ہم نے تمہیں دی ہے، (یعنی توراۃ) اور یاد کرو تم ان (احکام و ہدایات) کو جو کے اس کے اندر (موجود و مندرج) ہیں تاکہ تم بچ سکو،

۶۴۔۔ پھر اس کے بعد بھی تم لوگ پھر گئے (اپنے اس پختہ قول و قرار سے) سو اگر نہ ہوتی تم لوگوں پر اللہ کی مہربانی اور اس کی رحمت (و عنایت) تو یقیناً تم لوگ ہو جاتے خسارہ اٹھانے والوں میں سے،

۶۵۔۔ اور تم اپنی قوم کے ان لوگوں (کے حال و مال) کو بھی اچھی طرح جانتے ہو، جنہوں نے (قانون) سبت کے بارے میں تجاوز کیا تو ہم نے ان سے کہا (اپنے حکم قہری اور تکوینی طور پر) کہ ہو جاؤ تم بندر ذلیل (و خوار)

۶۶۔۔ سو (اس طرح) ہم نے اس (قصہ) کو سامان عبرت بنا دیا اس زمانے کے لوگوں کیلئے، اور اس کے بعد آنے والی نسلوں کے لئے بھی، اور ایک عظیم الشان نصیحت پرہیزگاروں کیلئے

۶۷۔۔ اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب موسیٰ نے کہا اپنی قوم سے کی اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم ذبح کرو ایک گائے کو، تو انہوں نے کہا کیا آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں ؟  موسیٰ نے کہا میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں ہو جاؤں جاہلوں میں سے

۶۸۔۔ تو انہوں نے کہا کہ اچھا تو پھر آپ اپنے رب سے یہ درخواست کرو، کہ وہ ہمارے لئے بیان کرے کہ گائے کیسی ہو؟ تو موسیٰ نے کہا کہ وہ فرماتا ہے کہ وہ گائے نہ تو (بہت) بوڑھی ہو، اور نہ (بالکل) بچھیا، (بلکہ) اس کے درمیان اوسط عمر کی ہو، پس تم لوگ کر گزرو وہ کام جس کا حکم تمہیں دیا جا رہا ہے

۶۹۔۔ (مگر) انہوں نے پھر بھی موسیٰ سے کہا کہ آپ اپنے رب سے درخواست کرو کہ وہ ہمیں بتائے کہ اس کا رنگ کیسا ہو؟موسیٰ، نے کہا وہ فرماتا ہے کہ وہ زرد رنگ کی ہونی چاہیے، جس کا رنگ ایسا شوخ (اور تیز) ہو کہ وہ بھاتی ہو دیکھنے والوں کے دلوں کو

۷۰۔۔ انہوں نے پھر کہا کہ آپ اپنے رب سے پھر درخواست کریں، کہ وہ گائے کس طرح کی ہو، کیونکہ گایوں کا معاملہ ہم پر سخت مشتبہ ہو رہا ہے، اور ہم اگر اللہ نے چاہا تو ضرور (حقیقت کی) راہ پا لیں گے

۷۱۔۔ تو موسیٰ نے کہا کہ بے شک میرا رب فرماتا ہے کہ وہ گائے ایسی ہو کہ نہ اس سے خدمت لی جاتی ہو، نہ اس کو ہل چلانے میں جوتا جاتا ہو، اور نہ ہی وہ کھیتی کو پانی دیتی ہو، صحیح سالم اور بے داغ ہو کہنے لگے اب آپ نے حق (اور پوری) بات کہی تب انہوں نے اس کو ذبح کر دیا (مگر) وہ لگتے نہ تھے کہ ایسا کریں گے

۷۲۔۔ اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب تم نے ایک شخص کو (ناحق طور پر) قتل کر دیا، پھر تم اس کا الزام ایک دوسرے کو دینے لگے، اور اللہ نکال باہر کرنے والا ہے، ان چیزوں کو جن کو تم لوگ چھپاتے تھے،

۷۳۔۔ تو ہم نے کہا اس (مقتول کی لاش) کو اس (گائے) کے ایک حصے سے ضرب لگاؤ، (چنانچہ ایسا کرنے سے وہ خود ہی زندہ ہو کر بول پڑا) اسی طرح اللہ زندگی بخشتا ہے (اور زندگی بخشے گا) مردوں کو (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے) اور وہ دکھاتا ہے تمہیں اپنی نشانیاں، تاکہ تم لوگ عقل سے کام لو

۷۴۔۔ مگر تمہارے دل اس کے بعد بھی سخت ہو کر پتھروں کی طرح ہو گئے، بلکہ وہ سختی میں ان سے بھی کہیں بڑھ گئے، کیونکہ پتھروں میں بھی کچھ ایسے ہیں جن سے پھوٹ نکلتی ہیں طرح طرح کی نہریں، اور کچھ ایسے ہیں جو پھٹ پڑتے ہیں اور ان سے پانی نکل آتا ہے، اور کچھ ایسے ہیں جو گر پڑتے ہیں اللہ کے خوف سے (لرز کر ) اور (یاد رکھو کہ) اللہ بے خبر نہیں ان کاموں سے جو تم لوگ کر رہے ہو،

۷۵۔۔ کیا پھر بھی تم (اے مسلمانو! ایسے لوگوں سے) یہ توقع رکھتے ہو کہ وہ تمہارے کہنے سے ایمان لے آئیں گے ؟ حالانکہ ان (کی جسارت و بے باکی کا عالم یہ ہے کہ ان) میں ایک گروہ ایسے لوگوں کا ہے جو سنتے ہیں اللہ کے کلام کو، پھر اس کو بدل دیتے ہیں (اپنی اہواء و اغراض کے مطابق) اس کے بعد کہ وہ اس کو سمجھ چکے ہوتے ہیں، جانتے بوجھتے

۷۶۔۔ اور (ان کا حال یہ ہے کہ) جب یہ ملتے ہیں ایمان والوں سے، تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے، مگر جب یہ تنہائی میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ کیا تم ان (مسلمانوں) کو وہ باتیں بتاتے ہو، جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں، تاکہ اس طرح وہ تمہارے خلاف حجت قائم کریں، تمہارے رب کے یہاں ؟ کیا تم لوگ سمجھتے نہیں ہو؟

۷۷۔۔ کیا یہ (احمق) لوگ اتنا بھی نہیں جانتے کہ اللہ پوری طرح (اور ایک برابر) جانتا ہے ان باتوں کو بھی جن کو یہ لوگ چھپاتے ہیں اور ان کو بھی جن کو یہ ظاہر کرتے ہیں،

۷۸۔۔ اور ان میں سے کچھ ایسے امی (اور ان پڑھ) ہیں جو کتاب کو نہیں جانتے سوائے کچھ (بے بنیاد) امیدوں (اور آرزووں) کے، اور یہ لوگ محض ظن (و تخمین) پر چلے جا رہے ہیں،

۷۹۔۔ سو بڑی خرابی ہے، ان لوگوں کیلئے جو لکھتے ہیں کتاب کو اپنے ہاتھوں سے، (اپنے خود ساختہ اضافوں کے ساتھ) پھر کہتے ہیں کہ یہ (سب کچھ) اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس طرح وہ (اپنی جسارت کے عوض دنیا دوں کا) کچھ گھٹیا مول حاصل کر سکیں، سو بڑی خرابی ہے ان کے لئے ان کے اپنے ہاتھوں کے اس لکھے کی بناء پر، اور بڑی خرابی ہے ان کے لئے ان کی اپنی اس کمائی کی بناء پر،

۸۰۔۔ جو یہ لوگ (اس طرح) کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ ہمیں دوزخ کی آگ چھوئے گی بھی نہیں، بجز گنتی کے کچھ دنوں کے، (ان سے) پوچھو کہ کیا تم نے (اس پر) اللہ کے یہاں کوئی عہد لے رکھا ہے ؟ کہ وہ اپنے عہد کی خلاف ورزی نہیں کرے گا، یا تم لوگ یونہی اللہ کے ذمے ایسی بات لگاتے ہو، جس (کی خطورت و سنگینی) کو تم جانتے نہیں ؟

۸۱۔۔ (اور دوزخ کی آگ تمہیں چھوئے گی) کیوں نہیں ؟ (جب کہ قانون عام یہ ہے کہ) جس کسی نے بھی برائی کمائی اور (یہاں تک کمائی کہ) گھیر لیا اس کو اس کی خطا کاریوں نے، تو ایسے لوگ (یقیناً) دوزخی ہیں، جہاں انہیں ہمیشہ رہنا ہو گا

۸۲۔۔ اور (اس کے برعکس) جو لاگ ایمان لائے، اور انہوں نے کام بھی نیک کئے، وہ جنتی ہوں گے جہاں انہیں ہمیشہ رہنا نصیب ہو گا،

۸۳۔۔ اور (وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا کہ تم نے بندگی نہیں کرنی مگر صرف اللہ کی، اور تم نے اچھا سلوک کرنا ہے اپنے ماں باپ کے ساتھ، اور اپنے رشتہ داروں، یتیموں، اور مسکینوں کے ساتھ، اور عام لوگوں سے بھلی بات ہی کرنی ہے، اور یہ کہ تم لوگ نماز قائم رکھنا، اور زکوٰۃ ادا کرتے رہنا، پھر تم لوگ پھر گئے، بجز تم میں سے بہت تھوڑے سے لوگوں کے، اور تم لوگ تو ہو ہی پھرنے والے

۸۴۔۔  اور (وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا کہ تم نے آپس میں خونریزی نہیں کرنی، اور نہ ایک دوسرے کو اپنے گھروں سے نکالنا ہے، پھر تم خود (اس عہد کا) اقرار بھی کیا، اور تم خود اس پر شہادت (اور گواہی) بھی دیتے ہو،

۸۵۔۔ پھر تم وہی لوگ ہو، جو (اس پختہ قول و قرار اور صریح شہادت کے باوجود) آپس میں ایک دوسرے کو قتل بھی کرتے ہو، اور اپنے میں سے ایک گروہ کو تم ان کے گھروں سے نکال باہر بھی کرتے ہو، ان کے خلاف چڑھائی کرتے ہوئے گناہ اور ظلم کے ساتھ، اور اگر وہ قیدی بن کر تمہارے پاس آ جائیں، تو تم فدیہ دے کر چھڑا لیتے ہو،  حالانکہ ان کو (گھروں سے) نکالنا ہی سرے سے تم پر حرام تھا، تو کیا تم لوگ کتاب کے کچھ حصوں کو مانتے ہو اور کچھ کو نہیں مانتے ؟ سو کیا جزاء ہو سکتی ہے اس شخص کی جو تم میں سے ایسا کرے بجز اس کے کہ اس کے لئے ایک بڑی رسوائی ہو دنیاوی زندگی میں، اور قیامت کے دن ایسے لوگوں کو لوٹایا جائے گا سخت ترین عذاب کی طرف، اور اللہ غافل (و بے خبر) نہیں، تمہارے ان کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو،

۸۶۔۔ یہ وہ (بد بخت) لوگ ہیں جنہوں نے اپنا لیا دنیا کی (عارضی و فانی) زندگی کو، بدلے میں آخرت (کی حقیقی اور ابدی زندگی) کے، سو نہ تو (کسی طرح) ہلکا کیا جائے گا ان سے ان کا عذاب، اور نہ ہی ان کی (کہیں سے کوئی) مدد کی جائے گی،

۸۷۔۔ اور بلاشبہ ہم ہی نے موسیٰ کو بھی کتاب (ہدایت) عطا کی، اور ہم ہی نے ان کے بعد پے درپے (مختلف) رسول بھیجے، اور ہم ہی نے عیسیٰ بیٹے مریم کو بھی (حق و صداقت کے) کھلے دلائل دئیے، اور ان کو قوت بخشی روح القدس کے ذریعے، تو پھر (تمہاری یہ کیا روش رہی کہ) جب بھی تمہارے پاس کوئی پیغمبر وہ کچھ لے کر آیا، جو تمہارے نفسوں کو نہیں بھایا تو تم لوگ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا ہو گئے، (اور تم نے سرکشی کی) جس کی بناء پر تم نے (حضرات انبیاء کرام کے) ایک گروہ کو جھٹلایا، اور ایک کے تم نے قتل کا ارتکاب کیا،

۸۸۔۔ اور کہتے ہیں کہ ہمارے دل بند ہیں (نہیں) بلکہ ان پر اللہ کی پھٹکار ہے ان کے کفر کی بناء پر پس یہ لوگ کم ہی ایمان لاتے ہیں،

۸۹۔۔ اور جب آ  پہنچی ان کے پاس ایک ایسی عظیم الشان کتاب، اللہ کے یہاں سے، جو کہ تصدیق کرنے والی ہے، اس (کتاب) کی جو کہ ان کے پاس ہے، درآنحالیکہ اس سے پہلے یہ لوگ کافروں کے مقابلے میں فتح (و نصرت) کی دعائیں مانگا کرتے تھے،  مگر جب پہنچ گیا ان کے پاس وہ کچھ جس کو انہوں نے (اچھی طرح) پہچان بھی لیا، تو یہ (پوری ڈھٹائی سے) اس کے منکر و گئے، پس لعنت (و پھٹکار) ہے ایسے کافروں پر،

۹۰۔۔ بڑی ہی بری ہے وہ چیز جس کے عوض انہوں نے سودا کیا اپنی جانوں کا، کہ یہ کفر کریں اس کا، جسے اللہ نے نازل فرمایا ہے، محض اس حسد (و عناد) کی وجہ ہے کہ اللہ اپنی مہربانی سے (اپنی رحمت) اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے نازل فرماتا ہے، سو مستحق ہو گئے یہ لوگ غضب بالائے غضب کے، اور ان کے لئے ایک بڑا ہی رسوا کن عذاب ہے،

۹۱۔۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ تم اس (کتاب کامل) پر، جسے اللہ نے (اب) نازل فرمایا ہے، تو یہ کہتے ہیں کہ ہم بس اسی پر ایمان لائیں گے جسے (براہ راست) ہم پر اتارا گیا ہے، اور اس کے سوا سب کا وہ انکار کرتے ہیں حالانکہ وہ سراسر حق ہے، تصدیق کرنے والی کتاب کی، جو کہ ان کے پاس ہے، کہو کہ (اچھا تو) پھر تم اس سے پہلے اللہ کے نبیوں کو کیوں قتل کرتے رہے، اگر تم واقعی ایماندار ہو؟

۹۲۔۔ اور بلاشبہ موسیٰ بھی تمہارے پاس آئے کھلے دلائل کے ساتھ،   پھر تم نے ان کے (کوہ طور چلے جانے کے) بعد (اپنا معبود) ٹھہرا لیا اس بچھڑے کو، اور (امر واقعہ یہ ہے کہ) تم لوگ ظالم ہو،

۹۳۔۔ اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب ہم نے تم سے پختہ عہد لیا، اور کوہ طور کو تمہارے اوپر اٹھا (کر ایک سایہ بان کی طرح معلق کر) دیا (اور تم سے کہا کہ) مضبوطی سے تھام لو تم لوگ اس چیز کو جو ہم نے تمہیں دی، اور سنو،  تو انہوں نے کہا ہم نے سن تولیا مگر (دل سے) مانا نہیں، اور (بات دراصل یہ تھی کہ) ان کے دلوں میں رچ بس گئی تھی محبت اس بچھڑے کی، ان کے اپنے (اختیار کردہ) کفر کی بنا پر (ان سے) کہو کہ بڑی ہی بری ہے وہ چیز جس کا حکم تمہیں تمہارا ایمان دے رہا ہے، اگر تم (واقعی) ایماندار ہو،

۹۴۔۔ (ان سے) کہو کہ اگر آخرت کا وہ (بے مثل) گھر خالص تمہارے ہی لئے ہے، دوسرے سب لوگوں کو چھوڑ کر، تو پھر تم تمنا کرو موت کی، اگر واقعی تم سچے ہو (اپنے دعویٰ میں)

۹۵۔۔ مگر (یاد رکھو کہ) یہ لوگ کبھی بھی اس کی تمنا نہیں کریں گے، اپنی اس کمائی کی بنا پر، جو انہوں نے خود اپنے ہاتھوں آگے بھیج رکھی ہے، اور اللہ (پاک و سبحانہ و تعالیٰ) خوب (خوب) جانتا ہے ایسے ظالموں کو،

۹۶۔۔ اور تم ان کو سب لوگوں سے بڑھ کر زندگی کا حریص پاؤ گے، حتیٰ کہ ان لوگوں سے بھی جو کہ کھلے شرک پر ہیں، ان میں سے ایک ایک یہ ہوس رکھتا ہے کہ (کسی نہ کسی طرح) اسے ایک ہزار برس کی عمر مل جائے، حالانکہ اتنی عمر کا مل جانا بھی ایسے کسی شخص کو عذاب سے نہیں بچا سکتا (جو ان کے لئے بحالت موجودہ مقدر ہے) اور اللہ پوری طرح دیکھ رہا ہے (اپنی قدرت کاملہ سے) ان سب کاموں کو جو یہ لوگ کر رہے ہیں،

۹۷۔۔ (ان سے) کہو کہ جو کوئی دشمن ہو گا جبرائیل کا، سو (وہ پرلے درجے کا احمق ہے کیونکہ) بے شک جبرائیل نے اس (قرآن کریم) کو اتارا ہے، آپ کے قلب (مبارک) پر، اللہ ہی کے اذن (و ارشاد) سے،  اس حال میں کہ یہ تصدیق کرنے والا ہے ان (آسمانی کتابوں) کی جو آ چکی ہیں اس سے پہلے، اور یہ سراسر ہدایت اور عظیم الشان خوشخبری ہے، ایمان والوں کے لئے

۹۸۔۔ (اور یاد رکھو کہ) جو کوئی دشمن ہو گا اللہ (پاک سبحانہ و تعالیٰ) کا، اور رسولوں، اور (خاص کر) جبرائیل اور میکائیل کا، تو یقیناً (وہ اپنی ہی تباہی کا سامان کرے گا کہ بے شک) اللہ دشمن ہے ایسے کافروں کا

۹۹۔۔ اور بلاشبہ ہم نے اتاریں آپ کی طرف (اے پیغمبر) روشن آیتیں، اور ان کا انکار نہیں کرتے مگر وہی لوگ جو کہ فاسق (و بدکار) ہیں،

۱۰۰۔۔ کیا (یہ لوگ اپنے اس فسق کا انکار کریں گے) جب کہ ان کی روش ہمیشہ یہی رہی کہ جب بھی انہوں نے کوئی عہد کیا تو ان میں سے ایک گروہ نے اس کو پھینک دیا، بلکہ ان میں سے اکثر ایمان نہیں رکھتے،

۱۰۱۔۔ اور (اس کا ایک زندہ ثبوت یہ ہے کہ) جب آگیا ان کے پاس ایک ایسا عظیم الشان رسول اللہ کی طرف سے، جو کہ تصدیق کرنے والا ہے اس (کتاب) کی جو ان کے پاس ہے، تو ان لوگوں کے ایک گروہ نے جن کو کتاب دی گئی تھی پھینک دیا گیا اللہ کی کتاب کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے، (اور ایسا کہ) گویا کہ یہ جانتے ہی نہیں

۱۰۲۔۔ اور (حق سے منہ موڑ کر) یہ لوگ پیچھے لگ گئے ان چیزوں کے جو کہ شیطان سکھاتے (پڑھاتے) تھے لوگوں کو سلیمان کی بادشاہی کے نام پر، اور سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا مگر یہ شیطان ہی تھے جو کفر کرتے، اور سکھاتے تھے لوگوں کو جادوگری،  نیز (یہ پیچھے ہو لئے اس کے) جو کچھ کہ اتارا گیا بابل میں ہاروت ماروت (نامی) دو فرشتوں پر،  حالانکہ وہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے، جب تک کہ (صاف طور پر اس سے) یہ نہ کہہ دیتے کہ (دیکھو بھئی) ہم تو محض ایک آزمائش ہیں، پس تم کہیں کفر میں نہ پڑ جانا،  پھر بھی وہ لوگ ان دونوں سے وہ کچھ سیکھتے، جس کے ذریعے وہ تفریق کرتے میاں بیوی کے درمیان، حالانکہ اس (جادوگری) کے ذریعے وہ کسی کو بھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے، مگر اللہ کی اجازت (اور اس کی مشیت) سے اور یہ لوگ وہ کچھ سیکھتے جو خود ان کو نقصان پہنچانے کا باعث تو تھا (دنیا و آخرت میں) مگر ان کو نفع نہیں دے سکتا، حالانکہ خود ان کو بھی یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ جس نے بھی اس کو خریدا، اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں، اور بڑی ہی بری ہے وہ چیز جس کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کا سودا کیا، کاش کہ یہ لوگ جان لیتے (حق اور حقیقت کو)

۱۰۳۔۔ اور اگر یہ لوگ (سچے دل سے) ایمان لے آتے، اور تقوی (و پرہیز گاری) کا طریقہ اپناتے، تو یقیناً اللہ (تعالیٰ) کے یہاں سے ملنے والا اجر (و ثواب خود انکے لئے) کہیں بہتر ہوتا، کاش کہ یہ لوگ جان لیتے،

۱۰۴۔۔ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو تم (اپنے پیغمبر کو خطاب کرتے وقت) راعنا مت کہو بلکہ (اس کی بجائے) انظرنا کہا کرو، اور (یوں تم غور سے) سنا کرو، اور کافروں کیلئے ایک بڑا ہی دردناک (اور ہولناک) عذاب ہے

۱۰۵۔۔ کافر لوگ خواہ وہ اہل کتاب میں سے ہوں، یا دوسرے کھلے مشرکوں میں سے، وہ ہرگز یہ نہیں چاہتے کہ تم پر کوئی بھی بھلائی اتاری جائے تمہارے رب کی جانب سے، مگر اللہ (جو کہ مالک مطلق اور مختار کل ہے وہ نوازتا اور) مختص فرماتا ہے اپنی رحمت سے جس کو چاہتا ہے، اور اللہ بڑے ہی (اور لامتناہی) فضل والا ہے،

۱۰۶۔۔ جو بھی کوئی آیت ہم منسوخ کرتے ہیں، یا اسے (ذہنوں سے) بھلا دیتے ہیں، تو ہم لے آتے ہیں اس سے کوئی بہتر آیت، یا اسی جیسی، بے شک اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے،

۱۰۷۔۔ کیا تم جانتے نہیں (اے مخاطب) کہ بے شک اللہ ہی کیلئے ہے بادشاہی آسمانوں کی اور زمین کی؟ اور تمہارے لئے اللہ کے سوا نہ کوئی حمایتی ہے، نہ مددگار،

۱۰۸۔۔ کیا تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ تم بھی اپنے رسول سے ویسے ہی سوالات کرو جیسے کہ اس سے پہلے (حضرت) موسیٰ سے کئے جا چکے ہیں، اور (یاد رکھو کہ) جو بھی کوئی اپنائے گا کفر کو بدلے میں ایمان کے، تو یقیناً وہ بھٹک گیا سیدھی راہ سے،

۱۰۹۔۔ اور چاہتے ہیں بہت سے اہل کتاب کہ کسی طرح وہ تم کو بھی تمہارے ایمان سے پھیر کر کافر بنا دیں، محض اپنے حسد (اور جلن) کی بناء پر، اس کے بعد کہ حق ان کیلئے پوری طرح واضح ہو گیا، سو (اس کے جواب میں) تم لوگ عفو درگزر سے ہی کام لیتے رہو، یہاں تک کہ اللہ نافذ فرما دے اپنا حکم، بے شک اللہ (تعالیٰ) ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے،

۱۱۰۔۔ اور قائم رکھو تم لوگ نماز کو، اور ادا کرتے رہو زکوٰۃ، اور (یاد رکھو کہ) جو بھی کوئی بھلائی تم لوگ اپنے لئے آگے بھیجو گے، اسے اللہ (تعالیٰ) کے یہاں (موجود و محفوظ) پاؤ گے، بے شک اللہ (تعالیٰ) پوری طرح دیکھ رہا ہے ان سب کاموں کو، جو تم لوگ کر رہے ہو،

۱۱۱۔۔ اور کہتے ہیں کہ جنت میں کوئی نہیں جائے گا مگر وہی جو کہ یہودی ہو، یا نصرانی، یہ ان کی اپنی (خود ساختہ) آرزوئیں ہیں، (ان سے) کہو، کہ اچھا تو لاؤ تم لوگ اپنی دلیل اگر تم سچے ہو (اپنے دعوے میں)

۱۱۲۔۔ کیوں نہیں (جب کہ ضابطہ عام یہ ہے کہ) جس نے بھی (صدق دل سے) اللہ کے سپرد کر دیا، اپنی ذات کو بشرطیکہ وہ نیکو کار بھی ہو، تو اس کے لئے اس کا اجر ہے، اس کے رب کے یہاں، اور ایسوں پر نہ (آئندہ کے بارے میں) کوئی خوف ہو گا، اور نہ ہی وہ (گزشتہ کے بارے میں) غمگین ہوں گے،

۱۱۳۔۔ اور یہود نے کہا کہ نصاریٰ (کا دین مذہب) کسی بنیاد پر نہیں، اور نصاریٰ نے کہا کہ یہود (کا دین مذہب) کسی بنیاد پر نہیں، حالانکہ یہ دونوں (گروہ اللہ کی) کتاب پڑھتے ہیں، اسی طرح ان ہی کے قول کے مانند کہا ان لوگوں نے جو (کسی کتاب وغیرہ کا) علم نہیں رکھتے، سو اللہ ہی (آخری اور عملی) فیصلہ فرما دے گا ان سب کے درمیان، ان تمام باتوں کا جن کے بارے میں یہ لوگ اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں،

۱۱۴۔۔ اور اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام (پاک) کے ذکر سے روکے، اور ان کی ویرانی کی کوشش کرے ؟ ایسوں کو تو ان (پاکیزہ مقامات) میں داخل ہونے ہی کا حق نہیں الا یہ کہ یہ لوگ ان میں داخل ہوں (اس کی عظمت و کبریائی سے) ڈرتے (اور کانپتے) ہوئے، ان کے لئے دنیا میں بڑی رسوائی ہے، اور آخرت میں بہت بڑا (اور ہولناک) عذاب

۱۱۵۔۔ اور اللہ (وحدہٗ لاشریک) ہی کے لئے ہے مشرق بھی، اور مغرب بھی، سو تم جدھر بھی رخ کرو گے وہاں اللہ کی ذات (اقدس و اعلیٰ) کو پاؤ گے، بے شک اللہ (پاک سبحانہ و تعالیٰ) بڑی وسعت والا، نہایت ہی علم والا ہے،

۱۱۶۔۔ اور (اس سب کے باوجود یہ لوگ) کہتے ہیں کہ اللہ (تعالیٰ) نے اولاد ٹھہرائی ہے، پاک ہے وہ (ایسی تمام شرکیات سے، اس کی کوئی اولاد نہیں) بلکہ اسی کا ہے وہ کچھ جو کہ آسمانوں اور زمین (کی اس پوری کائنات) میں ہے، سب کے سب (طوعاً و کرہاً) اسی کے (مطیع و) فرمان بردار ہیں،

۱۱۷۔۔ (وہ بلا شرکت غیرے) موجد ہے آسمانوں اور زمین (کی حیرت انگیز اور وسیع و عریض کائنات) کا، اور (اس کی عظمت شان کا یہ عالم ہے کہ) جب وہ کسی چیز کا ہونا طے کر لیتا ہے، تو (اس کے لئے) صرف اتنا فرماتا ہے کہ ہو جا تو وہ (فوراً موجود اور) ہو چکی ہوتی ہے،

۱۱۸۔۔ اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (حق اور حقیقت کا) ان کا کہنا ہے کہ اللہ (تعالیٰ) ہم سے (براہ راست) کلام کیوں نہیں کرتا، یا ہمارے پاس کوئی خاص نشانی کیوں نہیں آ جاتی، اسی طرح انہی لوگوں کی بات جیسی بات ان لوگوں نے کہی جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں، ان سب (اگلوں پچھلوں) کے دل آپس میں ایک جیسے ہیں، بے شک ہم نے کھول کر بیان کر دی ہیں اپنی نشانیاں، ان لوگوں کے لئے جو (ایمان و) یقین (کی روشنی) رکھتے ہیں،

۱۱۹۔۔ بے شک ہم نے بھیجا آپ کو (پیغمبر!) حق کے ساتھ، خوشخبری سنانے والا، اور خبردار کرنے والا بنا کر، اور آپ سے پوچھ نہیں ہو گی دوزخیوں کے بارے میں،

۱۲۰۔۔ اور (یاد رکھو کہ) ہرگز راضی نہیں ہوں گے تم سے یہود اور نہ ہی نصاریٰ، یہاں تک کہ تم پیروی کرنے لگو ان کے مذہب کی، (جو کہ ناممکن ہے) فرما دیجیے بے شک ہدایت تو اللہ ہی کی ہدایت ہے اور اگر (بفرض محال) تم نے پیروی کر لی ان کی خواہشات کی، اس علم کے بعد جو کہ پہنچ چکا ہے تمہارے پاس تو تمہارے لئے اللہ (کی گرفت) سے چھڑانے کے لئے نہ کوئی یار ہو گا نہ مددگار،

۱۲۱۔۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی (اور) وہ اس کو ایسے پڑھتے ہیں جیسا کہ اس کے پڑھنے کا حق ہے،  تو یہی لوگ ہیں جو (درحقیقت) اس پر ایمان رکھتے ہیں، اور جس نے اس کا انکار کیا تو ایسے ہی لوگ ہیں خسارے والے،

۱۲۲۔۔ اے بنی اسرائیل یاد کرو تم لوگ میری ان نعمتوں کو جن سے میں نے تم کو (طرح طرح سے) نوازا، اور (خاص کر میری اس نعمت کو کہ) میں نے تم کو فضیلت (و بزرگی) بخشی سب (دنیا) جہاں والوں پر،

۱۲۳۔۔ اور ڈرو تم (اے لوگو!) اس (ہولناک) دن سے جس میں نہ کوئی شخص کسی شخص کے کچھ کام آ سکے گا، نہ ہی ان لوگوں کی (کہیں سے) کوئی مدد کی جائے گی،

۱۲۴۔۔ اور (وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب آزمایا ابراہیم کو ان کے رب نے چند باتوں کے ذریعے، تو ابراہیم ان کو بتمام (و کمال) بجا لائے،  تب اللہ (تعالیٰ) نے فرمایا کہ میں تمہیں سب لوگوں کا پیشوا بناتا ہوں،  ابراہیم نے عرض کیا، اور (کیا) میری اولاد سے بھی (یہی وعدہ ہے ؟) فرمایا میرا عہد (و پیمان) نہیں پہنچتا ظالموں کو،

۱۲۵۔۔ اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب ہم نے اس (عظیم الشان) گھر (خانہ کعبہ) کو سب لوگوں کیلئے ایک (عظیم الشان اور بے مثل) مرکز اور امن (و سکون کا گہوارہ) بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) تم لوگ مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنا لو، اور ہم نے تاکید کی تھی ابراہیم اور اسماعیل کو (اس بات کی) کہ پاک رکھنا تم میرے گھر کو، طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں، اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے

۱۲۶۔۔ اور (وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب تو اس (مقام) کو ایک امن والا شہر بنا دے،  اور اس کے باشندوں کو طرح طرح کے پھلوں (اور پیداواروں) سے روزی عطا فرما، ان میں سے ان لوگوں کو جو ایمان لائیں اللہ پر، اور قیامت کے دن پر، رب نے فرمایا، اور جس نے کفر کیا تو (دنیاوی زندگی کا) چند روزہ سامان تو میں اس کو بھی پوری طرح دوں گا (مگر) پھر اس کو میں کشاں کشاں لے جاؤں گا دوزخ کے عذاب کی طرف، اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے وہ،

۱۲۷۔۔ اور (وہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب ابراہیم بنیا دیں اٹھا رہے تھے (اللہ کے) اس گھر کی، اور اسماعیل بھی، (اور غایت درجہ عجز و انکساری سے یہ بھی کہتے جا رہے تھے کہ) اے ہمارے رب (اپنے کرم سے) قبول فرما لے ہم سے، (ہماری یہ محنت) بے شک تو ہی سننے والا، جاننے والا،

۱۲۸۔۔ اے ہمارے پروردگار، بنا دے ہمیں اپنی فرمانبرداری کرنے والے، اور ہماری نسل میں سے بھی (پیدا فرما) ایک ایسی امت، جو تیری فرمانبردار ہو، اور ہمیں دکھا (اور سکھا) دے طریقے ہماری عبادت کے، اور توجہ فرما ہم پر، بے شک تو ہی ہم سب کی توبہ قبول کرنے والا بڑا ہی مہربان،

۱۲۹۔۔ اے ہمارے پروردگار، اور اٹھا ان کے اندر ایک ایسا عظیم الشان پیغمبر (ان کی ہدایت و راہنمائی کے لئے) جو انہی میں سے ہو  جو ان کو پڑھ (پڑھ) کر سنائے تیری آیتیں، اور سکھائے انکو کتاب و حکمت (کے علوم و معارف) اور پاک (و صاف) کرے ان کے باطن کو، بے شک تو ہی ہے (اے ہمارے مالک!) زبردست، نہایت ہی حکمت والا،

۱۳۰۔۔ اور کون ہے جو رو گردانی کرے ملت ابراہیمی سے ؟ بجز اس کے جس نے حماقت میں مبتلا کر دیا ہو،  اپنے آپ کو، اور بلاشبہ ہم ہی نے ان کو چنا (اپنے علم و اختیار کامل کہ بناء پر) دنیا میں، اور بلاشبہ وہ آخرت میں (ہمارے قرب خاص کے) سزاواروں میں ہے،

۱۳۱۔۔ (یاد کرو اس کہ شان عبدیت کو کہ) جب کہا اس سے اس کے رب نے حوالے کر دو تم (اپنے آپ کو اپنے رب کے) تو اس نے (فوراً) عرض کیا کہ میں نے سپرد کر دیا اپنے آپ کو پروردگار عالم کے،

۱۳۲۔۔ اور اسی کی وصیت (و تاکید) کی ابراہیم نے اپنے بیٹوں کو، اور یعقوب نے بھی، کہ اے میرے بیٹو! بے شک اللہ نے چن لیا ہے تمہارے لئے اس دین (حق) کو، پس تم جان نہیں دینا مگر اسلام ہی کی حالت میں،

۱۳۳۔۔ کیا تم لوگ اس وقت موجود تھے جب کہ یعقوب پر موت کا وقت قریب آیا؟ جب کہ انہوں نے کہا اپنے بیٹوں سے کہ تم کس کہ بندگی کرو گے میرے بعد؟ تو ان سب نے (بالاتفاق) کہا کہ ہم اسی (معبود برحق) کی بندگی کریں گے، جو کہ معبود ہے آپ کا اور آپ کے باپ دادا، ابراہیم، اسماعیل، اور اسحاق کا، جو کہ ایک ہی معبود (برحق) ہے، اور ہم سب اسی کے فرمانبردار ہیں،

۱۳۴۔۔  یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی، ان کیلئے ہے وہ کچھ جو انہوں نے کمایا (اپنی زندگی میں) اور تمہارے لئے ہے وہ کچھ جو تم نے خود کمایا، اور تم سے کوئی پوچھ نہ ہو گی ان کاموں کے بارے میں جو وہ کرتے رہے تھے،

۱۳۵۔۔ مگر (اس سب کے باوجود) یہ لوگ کہتے ہیں کہ تم لوگ یہودی بن جاؤ، یا نصرانی، تو ہدایت پا جاؤ گے، کہو (نہیں) بلکہ ملت ابراہیمی کو اپناؤ جو کہ یکسو (ہو کر ایک اللہ کا ہو گیا) تھا اور اس کا مشرکوں سے کوئی لگاؤ نہیں تھا

۱۳۶۔۔ کہو (تم مانو یا نہ مانو تمہاری مرضی) ہم تو بہرحال ایمان لائے اللہ پر اور اس (وحی) پر جو اتاری گئی ہماری طرف، اور اس پر بھی جسے اتارا گیا ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، اور ان کی اولاد کی طرف، اور جو کچھ کہ دیا گیا موسیٰ اور عیسیٰ کو، اور اس سب پر بھی جو کہ دیا گیا دوسرے تمام انبیاء کرام کو، ان کے رب کی جانب سے، ہم ان کے درمیان کسی بھی طرح کی کوئی تفریق نہیں کرتے، اور ہم بہرحال اسی (وحدہٗ لاشریک) کے فرمانبردار ہیں،

۱۳۷۔۔ پس اگر یہ لوگ اسی طرح کا ایمان لے آئیں جس طرح کا تم لائے ہو، تو یقیناً یہ ہدایت پا گئے، اور اگر یہ (اس کے بعد بھی) پھرے ہی رہے، تو یقیناً یہ ضد (اور ہٹ دھرمی کی دلدل) میں پڑے ہوئے ہیں، سو اللہ کافی ہے آپ کو ان سب کے مقابلے میں، اور وہی ہے سننے والا، جاننے والا،

۱۳۸۔۔ (کہو رنگ اپنانا ہے تو) اللہ کا (معنوی اور ایمان و یقین والا) رنگ اپناؤ، اس سے بڑھ کر اچھا رنگ اور کون سا ہو سکتا ہے ؟ اور ہم بہرحال اسی (وحدہٗ لاشریک) کے عبادت گزار ہیں،

۱۳۹۔۔ کہو کیا تم لوگ ہم سے جھگڑا کرتے ہو اللہ کے بارے میں، حالانکہ وہی رب ہے ہمارا بھی، اور تمہارا بھی، اور ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں، اور ہم اس کیلئے خالص کرنے والے ہیں، (اپنی عبادت و بندگی کو)

۱۴۰۔۔ کیا تم لوگ یہ کہتے ہو کہ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، اور یعقوب، اور ان کی اولاد، یہودی، یا نصرانی تھے ؟ کہو کیا تم لوگ زیادہ جانتے ہو، یا اللہ؟ اور اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو چھپائے اس گواہی کو جو خود اس کے پاس موجود ہو اللہ کی طرف سے ؟ اور اللہ بے خبر نہیں ان کاموں سے جو تم لوگ کر رہے ہو،

۱۴۱۔۔  یہ ایک جماعت تھی جو گزر چکی، ان کے لئے ہے انکی وہ کمائی جو انہوں نے کی، اور تمہارے لئے ہے وہ کمائی جو تم نے کی، اور تم سے پوچھ نہیں ہو گی ان کاموں کے بارے میں جو وہ لوگ کرتے رہے تھے

۱۴۲۔۔ بیوقوف لوگ ضرور کہیں گے کس چیز نے پھیر دیا ان (مسلمانوں) کو ان کے اس قبلے سے جس پر یہ لوگ (اس سے پہلے) تھے  کہو اللہ ہی کے لئے ہے مشرق بھی، اور مغرب بھی، وہ جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ (کی توفیق) سے نوازتا ہے،

۱۴۳۔۔ اور اسی طرح ہم نے تمہیں ایک توسط (و اعتدال) والی امت بنایا،  تاکہ تم باقی لوگوں پر گواہ ہوؤ، اور (تمہارے) رسول تم پر گواہ ہوں، اور ہم نے نہیں بنایا اس قبلہ کو (آپ کا قبلہ اے پیغمبر!) جس پر آپ (اس سے کچھ عرصہ کے لئے) تھے، مگر (اس لئے کہ) تاکہ ہم دیکھیں کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے، اور کون (اس راہ سے) الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، اور بے شک (تحویل قبلہ کا) یہ معاملہ بڑا ہی بھاری ہے، مگر ان لوگوں پر، جن کو اللہ نے ہدایت (کے اطمینان بخش نور) سے نوازا ہوتا ہے، اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع کر دے تمہارے ایمان کو بے شک اللہ (تعالیٰ) لوگوں پر بڑا ہی شفقت فرمانے والا، نہایت ہی مہربان ہے،

۱۴۴۔۔ بے شک ہم دیکھ رہے ہیں آپ کے چہرے کا بار بار اٹھنا آسمان کی طرف، (وحی کے انتظار میں اے پیغمبر) سو ہم ضرور پھیر دیں گے آپ کو اس قبلے کی طرف جو آپ کو پسند ہے، پس آپ پھیر دو اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف، اور تم بھی (اے مسلمانو!) جہاں کہیں بھی ہوؤ، پھیر دو اپنے چہروں کو اسی طرف،  اور بے شک وہ لوگ جن کو دی گئی (آسمانی) کتاب، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ (تحویل قبلہ کا) یہ حکم قطعی طور پر حق ہے ان کے رب کی طرف سے (مگر ضد اور عناد کی وجہ سے وہ مانتے نہیں) اور اللہ بے خبر نہیں ان کے ان کاموں سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں،

۱۴۵۔۔ اور (ان کی ضد اور ہٹ دھرمی کا یہ عالم ہے کہ) اگر آپ ان کو ہر نشانی بھی لا کر دے دیں، تو بھی انہوں نے آپ کے قبلے کی پیروی نہیں کرنی،  اور نہ ہی آپ پیروی کر سکتے ہیں ان کے قبلے کی (کسی بھی قیمت پر)  اور نہ ہی یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے قبلے کی پیروی کرنے والے ہیں، اور اگر آپ نے (بفرض محال) پیروی کر لی ان کی خواہشات کی، بعد اس علم کے جو کہ آگیا آپ کے پاس (آپ کے رب کی جانب سے) تو یقیناً اس صورت میں آپ ہو جائیں گے ظالموں میں سے

۱۴۶۔۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی، وہ اس (پیغمبر) کو ایسے پہچانتے ہیں  جیسے اپنے بیٹوں کو پہچانتے ہیں، اور ان میں ایک گروہ ایسے لوگوں کا بھی ہے جو کہ (طرح طرح سے) چھپاتا ہے حق کو، حالانکہ وہ (اچھی اور) پوری طرح جان رہے ہوتے ہیں،

۱۴۷۔۔ بہر کیف یہ امر حق قطعی طور پر تمہارے رب کی جانب سے ہے، پس تم نہیں ہو جانا شک کرنے والوں میں سے،

۱۴۸۔۔ اور ہر کسی کیلئے ایک جہت رہی ہے، جدھر وہ اپنا منہ موڑتا ہے، پس تم لوگ (فضول بحثوں میں پڑنے کی بجائے) نیکیوں میں آگے بڑھنے کی کوشش کرو، اور جہاں کہیں بھی تم ہوؤ گے اللہ تم سب کو لے آئے گا اکٹھا کر کے (اپنی قدرت کاملہ سے) بے شک اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے،  

۱۴۹۔۔ اور جہاں سے بھی تم نکلو گے (نماز کے موقع پر) تو پھیر دو اپنے چہرے کو مسجد حرام کی طرف، اور بے شک یہ قطعی طور پر حق ہے تمہارے رب کی جانب سے، اور اللہ بے خبر نہیں ہے ان کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو،

۱۵۰۔۔ اور جہاں سے بھی تم نکلو سو پھیر دو اپنے چہرے کو مسجد حرام کی طرف، اور جہاں بھی تم ہوؤ (اے مسلمانو!) تم پھیر دو اپنے چہروں کو اسی طرف،  تاکہ باقی نہ رہے تمہارے خلاف لوگوں کی کوئی حجت،  بجز ان میں کے ان لوگوں کے جو ظلم ہی پر کمر بستہ ہیں، (کہ ایسوں کی زبان تو کسی طرح بند نہ ہو گی) پس تم لوگ مت ڈرو ان (کی گیدڑ بھبکیوں سے) اور تم خاص مجھ ہی سے ڈرو، اور (یہ اس لئے کہ) تاکہ میں پورا کروں تم پر اپنے انعام کو، اور تاکہ تم راہ پا سکو،

۱۵۱۔۔ جیسا کہ ہم نے (تم لوگوں پر یہ عظیم الشان احسان کیا، ایسے ہی ہم نے) تمہارے اندر ایک ایسا عظیم الشان رسول بھیجا، خود تم ہی میں سے،  جو تم لوگوں کو پڑھ (پڑھ) کر سناتا ہے ہماری آیتیں اور وہ (نکھارتا) سنوارتا ہے تمہارے باطن کو، اور سکھاتا (پڑھاتا) ہے تمہیں کتاب و حکمت (کے اسرار و رموز) اور وہ سکھاتا ہے تمہیں وہ کچھ جو تم نہیں جانتے تھے،

۱۵۲۔۔ پس تم لوگ مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا، اور تم میرا شکر ادا کرو اور میری ناشکری نہیں کرنا،

۱۵۳۔۔ اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، مدد حاصل کرو تم (اللہ سے) صبر اور نماز کے ذریعے، بے شک اللہ ساتھ ہے صبر کرنے والوں کے،

۱۵۴۔۔ اور مت کہو تم ان لوگوں کے بارے میں جو مارے جائیں اللہ کی راہ میں، کہ وہ مردہ ہیں، (کہ ایسے لوگ حقیقت میں مردہ نہیں) بلکہ وہ زندہ ہیں، مگر تم لوگ (ان کی اس زندگی کا) شعور نہیں رکھتے،  

۱۵۵۔۔ اور (کھرے کھوٹے کی تمیز و نکھار کیلئے) ہم نے ضرور تمہاری آزمائش کرنی ہے، کسی قدر خوف، بھوک، اور جان و مال کے نقصان، اور پھلوں (اور آمدنیوں) کے گھاٹے کے ذریعے، اور خوشخبری سنا دو، ان صبر کرنے والوں کو،

۱۵۶۔۔ جن (کی شان یہ ہوتی ہے کہ جب ان) کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ ہم سب تو اللہ ہی کا مال ہیں،  اور ہمیں بہرحال اسی کے یہاں لوٹ کر جانا ہے،

۱۵۷۔۔ ایسے لوگوں پر خاص عنایات ہیں ان کے رب کی جانب سے، اور عظیم الشان رحمت بھی، اور یہی لوگ ہیں (صدق و صواب اور فوز و فلاح کی) راہ پر،

۱۵۸۔۔ بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں، پس جو کوئی بیت اللہ کا حج کرے، یا عمرہ، تو اس پر اس بارے کوئی گناہ نہیں، کہ وہ ان دونوں کے درمیان سعی کرے، اور جو کوئی خوشی سے کوئی نیکی کرے گا تو یقیناً (وہ اس کا بدلہ پائے گا کہ) اللہ بڑا ہی قدردان، سب کچھ جاننے والا ہے،

۱۵۹۔۔ بے شک جو لوگ چھپاتے ہیں ہماری نازل کردہ روشن تعلیمات اور کھلی ہدایات کو، اس کے بعد کہ ہم نے انہیں کھول کر بیان کر دیا لوگوں کے لئے اپنی کتاب میں، تو ایسوں پر لعنت کرتا ہے اللہ بھی، اور سب لعنت کرنے والے بھی،

۱۶۰۔۔ بجز ان لوگوں کے جنہوں نے توبہ کر لی، (حق پوشی کے اس جرم میں) اور انہوں نے اصلاح کر لی (اپنے فساد و بگاڑ کی) اور انہوں نے بیان کر دیا (چھپائے گئے حق کو) تو ایسوں کی توبہ میں (اپنے فضل و کرم سے) قبول کر لوں گا، اور میں بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا، انتہائی مہربان ہوں،  

۱۶۱۔۔ (اور اس کے برعکس) جن لوگوں نے کفر ہی کو اپنائے رکھا، اور کفر ہی کی حالت میں انہوں نے جان دی، تو ایسوں پر یقیناً لعنت ہے اللہ کی، اس کے فرشتوں کی، اور لوگوں کی، سب کی،

۱۶۲۔۔ جس میں ان کو ہمیشہ رہنا ہو گا، نہ ان سے ان کے عذاب میں کوئی تخفیف ہو گی، اور نہ ہی ان کو (وہاں) کوئی مہلت دی جائے گی۔

۱۶۳۔۔ اور معبود حقیقی تم سب کا اے لوگوں بہرحال ایک ہی معبود ہے کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں سوائے اس وحدہٗ لاشریک کے جو کہ بڑا ہی مہربان نہایت ہی رحم والا ہے

۱۶۴۔۔ بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں  اور ان کشتیوں اور جہازوں میں جو کہ رواں دواں ہیں سمندروں میں طرح طرح کے ایسے سامانوں کے ساتھ  جو کہ فائدہ پہنچاتے ہیں لوگوں کو اور بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اتارتا ہے آسمان سے پھر اس کے ذریعے وہ زندگی بخشتا ہے زمین کو اس کے بعد کہ وہ مر چکی ہوتی ہے  اور طرح طرح کے ان جانوروں میں  جن کو اس نے پھیلا رکھا ہے زمین میں اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے اور ہواؤں کی گردش میں اور ان بھاری بھر کم بادلوں میں جن کو مسخر اور معلق کر رکھا ہے اس نے آسمان اور زمین کے درمیان میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے صحیح طور پر کام لیتے ہیں  

۱۶۵۔۔ مگر اس سب کے باوجود کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ کے سوا اوروں کو اس وحدہٗ لاشریک کا ہمسر ٹھہرا رکھا ہے وہ ان سے ایسی ہی محبت کرتا ہیں جیسی محبت کہ اللہ سے کرنی چاہیے اور جو لوگ ایمان صادق کا شرف و نور رکھتے ہیں وہ سب سے زیادہ محبت اللہ ہی سے کرتے ہیں اور اگر دیکھ لیتے یہ ظالم لوگ آنے والے اس وقت کو کہ جب یہ اس عذاب کو خود دیکھیں گے اور پوری طرح کھل جائے گی ان کے سامنے یہ حقیقت کہ قوت سب کی سب اللہ ہی کے لئے ہے اور یہ کہ اللہ بڑا ہی سخت عذاب دینے والا ہے

۱۶۶۔۔ تو ان لوگوں کی حالت قطعاً دگرگوں ہوتی جب کہ براءت و بیزاری کا اعلان کر کے الگ ہو جائیں وہ پیشوا جن کی دنیا میں پیروی کی جاتی تھی اپنے ان پیروکاروں سے جو ان کی پیروی کرتے تھے اور جبکہ دیکھیں گے عذاب اور کٹ جائیں گے وہ تمام رشتے جو کہ ان کے درمیان قائم تھے ۔

۱۶۷۔۔ اور اس وقت وہ پیروکار نہایت یاس و حسرت کے ساتھ کہیں گے کہ کاش ہمیں ایک مرتبہ پھر دنیا میں لوٹ جانے کا موقع مل جائے تو ہم بھی ان سے ایسے ہی کٹ کر الگ ہو جائیں جس طرح کے یہ لوگ ہم سے الگ ہو گئے ہیں سو اسی طرح اللہ دکھائے گا ان کو ان کے اعمال ان پر حسرتیں بنا کر اور یہ لوگ دوزخ کی اس آگ سے کبھی نکل نہ سکیں گے

۱۶۸۔۔ اے لوگوں کھاؤ پیو تم ان چیزوں میں سے جو زمین میں ہیں اس شرط پر کے ساتھ کہ وہ حلال اور پاکیزہ ہوں اور شیطان کے نقش قدم پر نہیں چلنا کہ بے شک وہ تمہارا کھلم کھلا دشمن ہے

۱۶۹۔۔ وہ تو تمہیں برائی اور بے حیائی ہی سکھائے گا، اور یہ کہ تم لوگ اللہ کے ذمے وہ باتیں لگاؤ جنہیں تم نہیں جانتے

۱۷۰۔۔ مگر اس سب کے باوجود ان کا یہ حال ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم پیروی کرو اس دین حق کی جسے اتارا ہے اللہ نے تو یہ کہتے ہیں کہ نہیں جی ہم تو بس اسی کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے پایا ہے اپنے باپ دادا کو کیا یہ لوگ باپ دادا کے طریقے پر ہی چلتے رہیں گے اگرچہ وہ نہ کچھ سمجھتے ہوں اور نہ ہی انہوں نے سیدھی راہ پائی ہو

۱۷۱۔۔ اور مثال ان لوگوں کی جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر و باطل پر ایسے ہے جیسے کوئی پکارتا ہو کسی ایسی چیز کو جو کچھ نہ سنتی سمجھتی ہو بجز پکارو آواز کے یہ لوگ بہرے ہیں سماع حق سے گونگے ہیں حق بات کہنے سے اندھے ہیں راہ حق کو دیکھنے پہچاننے سے پس یہ کچھ نہیں سمجھتے

۱۷۲۔۔ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو کھاؤ پیو تم ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے اپنے کرم بے پایاں سے تم کو عطاء کی ہیں اور دل و جان سے شکر بجا لاؤ تم لوگ اللہ کا اگر تم واقعی اسی کی عبادت و بندگی کرتے ہو

۱۷۳۔۔ سوائے اس کے نہیں کہ اس نے تم پر تمہارے ہی بھلے کے لیے حرام فرمایا ہے مردار، خون، اور خنزیر کے گوشت کو اور ہر ایسی چیز کو جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اور اسے اس سے نامزد کیا گیا ہو پھر اس میں بھی اتنی چھوٹ ہے کہ جو کوئی لاچار ہو جائے اور اس بناء پر وہ ان میں سے کچھ کھا لے بشرط کہ نہ تو وہ لذت کا طالب ہو اور نہ ہی حد ضرورت سے تجاوز کرنے والا تو ایسے شخص پر کوئی گناہ نہیں بے شک اللہ بڑا بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے

۱۷۴۔۔ بے شک جو لوگ چھپاتے ہیں اس کتاب کے مضامین کو جسے اللہ نے اتارا ہے اور اس کے بدلے میں وہ اپناتے ہیں دنیا کا فانی اور گھٹیا مول تو ایسے لوگ نہیں بھرتے اپنے پیٹوں میں مگر دوزخ کی ہولناک آگ اور اللہ قیامت کے روز نہ ان سے کلام فرمائے گا اور نہ ہی وہ ان کو پاک فرمائے گا، اور ان کے لئے وہاں پر ایک بڑا ہی دردناک عذاب ہے

۱۷۵۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنایا گمراہی کے اندھیروں کو بدلے میں ہدایت کے نور عظیم کے اور عذاب کو بدلے میں بخشش کے سو کس قدر صبر اور حوصلہ رکھتے ہیں یہ لوگ یہ (دوزخ کی اس ہولناک) آگ پر

۱۷۶۔۔ اس لئے کہ بے شک اللہ نے اتارا کتاب کو حق کے ساتھ تاکہ دنیا نور حق سے فیض یاب ہو مگر انہوں نے دنیاوی مفادات کی خاطر اسے الٹا گمراہی کا ذریعہ بنا دیا اور بے شک جن لوگوں نے اختلاف کیا کتاب میں وہ یقیناً بہت دور جا پڑے ضد میں حق کے راستے سے

۱۷۷۔۔ نیکی یہ نہیں کہ تم لوگ اپنے چہرے پھیر لو مشرق یا مغرب کی طرف اور بس بلکہ نیکی تو دراصل یہ ہے کہ آدمی سچے دل سے ایمان لے آئے اللہ پر قیامت کے دن پر فرشتوں پر اللہ کی نازل کردہ کتابوں اور اس کے پیغمبروں پر اور وہ اپنا مال خرچ کرے اس کی محبت پر رشتہ داروں یتیموں مسکینوں مسافروں اور سوال کرنے والوں کی حاجتوں اور ضرورتوں میں اور گردنوں کے چھڑانے میں اور وہ نماز قائم کرے پابندی کے ساتھ اور زکوٰۃ ادا کرے صحیح طریقے سے اور جو پورا کرتے ہیں اپنے باندھے ہوئے عہد کو جب وہ کوئی عہد کر لیں اور خاص کر وہ لوگ جو صبر و برداشت سے کام لیں سختی اور تکلیف میں اور حالت جنگ میں یہی لوگ ہیں جو سچے ہیں اپنے قول و فعل میں اور یہی ہیں متقی و پرہیزگار

۱۷۸۔۔ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو تم پر قصاص فرض کر دیا گیا ہے مقتولوں کے بارے میں یعنی قاتل کو قتل کیا جائے گا مقتول کے بدلے میں خواہ وہ کوئی بھی کیوں نہ ہو اور کیسا ہی کیوں نہ ہو  آزاد بدلے آزاد کے اور غلام بدلے غلام کے اور عورت بدلے عورت کے پھر جس کو معاف کر دیا جائے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ بھی تو قاتل سے خون بہا کا مطالبہ کرنا ہے دستور کے مطابق اور پہنچا دینا ہے خون بہا کے اس مال کو اس کے حقدار کے پاس خوبی اور بھلائی کے ساتھ یہ تحفے ہے تمہارے رب مہربان کی جانب سے اور ایک رحمت و مہربانی  پھر جس نے زیادتی کی اس کے بعد تو اس کے لئے ایک بڑا اور دردناک عذاب ہے

۱۷۹۔۔ اور تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے اے عقل مندو تاکہ تم بچو خونریزی اور اس کے بھیانک انجام سے

۱۸۰۔۔ تم پر فرض کر دیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ پہنچے اگر اس نے کچھ مال چھوڑا ہو کہ وہ وصیت کر جائے اپنے ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں کے لئے دستور کے مطابق مناسب طور پر یہ حق ہے پرہیزگاروں کے ذمے

۱۸۱۔۔ پھر جس نے اس کو بدل دیا بعد اس کے کہ اس نے اس کو سن لیا تو اس کا گناہ انہی لوگوں کے ذمے ہو گا جو اس کو بدل دیں گے بے شک اللہ سب کچھ سننے جاننے والا ہے

۱۸۲۔۔ البتہ جس کسی کو اندیشہ و خوف ہو وصیت کرنے والے کی جانب سے کسی طرف داری یا گناہ کا اور اس بناء پر وہ ان کے درمیان صلح صفائی کروا دے تو ایسے شخص پر کوئی گناہ نہیں  بے شک اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے

۱۸۳۔۔ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو فرض کر دیا گیا تم پر روزہ رکھنا جس طرح کہ وہ فرض کیا گیا تھا ان لوگوں پر جو گزر چکے ہیں تم سے پہلے تاکہ تم لوگ متقی اور پرہیزگار بن جاؤ

۱۸۴۔۔ گنتی کے کچھ دن پھر اس میں بھی یہ رعایت کہ تم میں سے جو کوئی بیمار ہو یا وہ کسی سفر پر ہو تو وہ اتنے ہی دنوں کی گنتی پوری کر کے بعد میں اسی قدر روزے رکھ لے  اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں اور نہ رکھیں تو ان کے ذمہ فدیہ ہے یعنی ایک مسکین کا کھانا مگر جو کوئی اپنی خوشی سے نیکی کرے تو وہ بہرحال خود اسی کے لئے بہتر ہو گی اور تمہارا روزہ رکھنا بہرحال تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو

۱۸۵۔۔ رمضان کا مہینہ وہ عظیم الشان مہینہ ہے جس میں اتارا گیا قرآن حکیم جیسے کلام معجز نظام کو جو کہ سراسر ہدایت ہے لوگوں کے لئے اور جو مشتمل ہے ہدایت کے روشن دلائل اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ٹھوس تعلیمات پر  پس تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو پائے وہ اس کے روزے رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا کسی سفر پر ہو تو اس کے ذمے اتنے ہی دنوں کی گنتی ہے دوسرے دنوں سے اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے وہ تم سے سختی نہیں کرنا چاہتا اور یہ حکم اس لیے دیا جا رہا ہے کہ تاکہ تم لوگ پورا کر سکو روزوں کی گنتی کو اور تاکہ تم بڑائی بیان کرو اللہ کی اس عظیم الشان کرم و احسان پر کہ اس نے تم کو نوازا ہدایت کی دولت بے مثال سے اور تاکہ تم لوگ شکر بجا لاؤ اس واہب مطلق کا

۱۸۶۔۔ اور جب پوچھیں آپ سے اے پیغمبر میرے بندے میرے بارے میں تو واضح رہے کہ میں بہت ہی قریب ہوں  سنتا اور قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی پکار کو جب کہ وہ مجھے پکارتا ہے پس ان کو چاہیے کہ یہ میرا حکم بجا لائیں اور مجھ پر ایمان رکھیں تاکہ یہ راہ رشد و صواب پا سکیں

۱۸۷۔۔ حلال کر دیا گیا تمہارے لئے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا وہ ایک عظیم الشان لباس ہیں تمہارے لئے اور تم ایک عظیم الشان لباس ہو ان کے لئے اللہ کے علم میں ہے کہ تم لوگ خیانت کرتے تھے اپنی جانوں سے مگر اس نے اپنے کرم کی بناء پر تم پر عنایت فرما دی اور تم سے درگزر فرما لیا سو اب تم ان سے شب باشی کرو اور حاصل و طلب کرو وہ کچھ جو اللہ نے لکھ دیا تمہارے لئے اور تم کھاؤ پیو یہاں تک کہ اچھی طرح ظاہر ہو جائے تمہارے لئے سپیدہ صبح کی سفید دھاری تاریکی شب کی سیاہ دھاری سے  پھر تم لوگ پورا کرو اپنے روزوں کو رات کی آمد تک اور تم اپنی بیویوں سے مباشرت نہیں کرنا ایسی حالت میں جبکہ تم اعتکاف میں بیٹھے ہو اپنی مسجدوں میں یہ احکام اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں پس تم ان کے قریب بھی نہ پھٹکنا اسی طرح اللہ کھول کر بیان فرماتا ہے اپنے احکام لوگوں کے لئے تاکہ وہ بچ سکیں

۱۸۸۔۔ اور مت کھاؤ تم لوگ اپنے مال آپس میں ناجائز طریقوں سے اور نہ ہی تم انہیں لے جاؤ حاکموں کے پاس تاکہ اس طرح تم ہتھیا سکو کچھ حصہ دوسروں کے مالوں کے گناہ کے ساتھ حالانکہ تم خود لوگ جانتے ہو

۱۸۹۔۔ پوچھتے ہیں آپ سے یہ لوگ اے پیغمبر چاند کی گھٹتی بڑھتی صورتوں کے بارے میں کہ ایسے کیوں ہوتا ہے تو کہو کہ یہ لوگوں کے لئے تاریخوں کے تعین اور خاص کر حج کے اوقات و تواریخ کی علامتیں ہیں  اور نیکی یہ نہیں ہے کہ تم لوگ آؤ اپنے گھروں میں ان کے پیچھے کی طرف سے بلکہ نیکی تو دراصل یہ ہے کہ انسان بچے اپنے خالق و مالک کی نافرمانی و ناراضگی سے لہذا تم لوگ آؤ اپنے گھروں میں سیدھے طریقے سے یعنی انکے دروازوں سے اور ہمیشہ ڈرتے رہا کرو تم لوگ اللہ سے تاکہ تم فلاح پا سکو

۱۹۰۔۔ اور لڑو تم اللہ کی راہ میں ان لوگوں سے جو تم سے لڑتے ہیں، مگر زیادتی نہ کرنا  کہ بے شک اللہ پسند نہیں فرماتا زیادتی کرنے والوں کو

۱۹۱۔۔ اور قتل کرو تم ان عہد شکن ظالموں کو جہاں بھی تم انہیں پاؤ اور نکال باہر کرو ان کو جہاں سے انہوں نے نکالا ہے تم کو ظلم و زیادتی کے ساتھ اور فتنہ قتل سے بھی کہیں بڑھ کر ہے  البتہ ان سے مسجد حرام کے قریب نہیں لڑنا یہاں تک کہ وہ خود تم لوگوں سے لڑیں پس اگر یہ وہاں بھی تم سے لڑنے سے نہ چوکیں تو تمہیں بھی اجازت ہے کہ تم ان کو قتل کرو اور حدود حرم کو ان سے پاک کرو یہی سزا ہے ایسے کافروں کی جو حرمت حرم کا بھی لحاظ نہ کریں

۱۹۲۔۔ پھر اگر وہ باز آ جائیں اپنے کفر و باطل اور اپنی شر انگیزیوں سے تو ان سے کوئی مواخذہ نہیں کہ بے شک اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے

۱۹۳۔۔ اور لڑو تم ان سے یہاں تک کہ فتنہ و فساد باقی نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ ہی کا  ہو جائے پھر اگر یہ لوگ باز آ جائیں اپنے کفر و شرک اور فتنہ و فساد سے تو پھر ان پر کوئی دست درازی نہ کی جائے کہ دست درازی روا نہیں مگر ظالموں پر

۱۹۴۔۔ حرمت والا مہینہ بدلے میں حرمت والے مہینے کے اور حرمت والی سب چیزیں قصاص اور بدلے کی چیزیں ہیں پس جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس پر ویسی ہی زیادتی کرو، جیسی کہ اس نے تم پر کی  اور اللہ سے ڈرتے رہو اور یقین جانو کہ اللہ ساتھ ہے پرہیزگاروں کے

۱۹۵۔۔ اور خرچ کرو تم لوگ اللہ کی راہ میں اور مت ڈالو تم لوگ اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت و تباہی کے گڑھے میں اور نیکی کرتے رہو بے شک اللہ محبت فرماتا ہے نیکوکاروں سے

۱۹۶۔۔ اور پورا کرو تم حج و عمرہ کو اللہ کیلئے پھر اگر تم روک دیے جاؤ تو جو قربانی میسر ہو اسے اس کی بارگاہ اقدس میں پیش کر دو اور اپنے سر منڈاؤ تم لوگ یہاں تک کہ پہنچ جائے وہ قربانی اپنی جگہ پھر  اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو جائے یا اس کے سر میں کوئی تکلیف ہو جس کی بناء پر اس کو وقت سے پہلے ہی سر منڈوانا پڑھ جائے تو اس کے ذمے فدیہ و بدلہ ہے روزوں یا صدقہ یا قربانی کی صورت میں تمہیں امن و سکون کی دولت نصیب ہو جائے تو جو کوئی فائدہ اٹھانا چاہے عمرے کو حج کے ساتھ ملا کر تو وہ ان دونوں عبادتوں کے جمع کرنے کے شکرانے کے طور پر جو قربانی اس سے ہو سکے ادا کرے مگر جس کو قربانی میسر نہ آئے تو وہ روزے رکھے تین حج کے دوران اور سات جب کہ تم لوٹ آؤ اپنے گھروں کو یہ پورے دس دن ہو گئے  یہ رعایت و اجازت صرف ایسے لوگوں کے لئے ہے جو مسجد حرام کے آس پاس اور اس کے قرب و جوار کے رہنے والے نہ ہوں  اور اللہ سے ڈرتے رہو ہر حال میں اور یقین جانو کہ اللہ بڑا ہی سخت عذاب دینے والا ہے

۱۹۷۔۔ حج کے چند مہینے ہیں معلوم و مقرر پس جس شخص نے ان مہینوں میں حج کا ارادہ و التزام کر لیا تو وہ دوران حج نہ کسی شہوانی فعل کا ارتکاب کرے نہ کسی گناہ کا اور نہ کسی طرح کے لڑائی جھگڑے کا اور جو بھی کوئی نیکی تم لوگ کرو گے خواہ وہ کیسی ہی کیوں نہ ہو اللہ اس کو جانتا ہے  اور تقویٰ کا زاد سفر اپنایا کرو کہ بے شک سب سے بہتر زاد سفر تقویٰ و پرہیز گاری ہی کا ہے، اور خاص مجھ ہی سے ڈرتے رہا کرو اے عقل سلیم رکھنے والو  

۱۹۸۔۔ تم لوگوں پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ تم زمانہ حج میں اپنے رب کا فضل تلاش کرو پھر جب تم لوگ کوچ کرو عرفات کے میدان سے تو خوب خوب یاد کرو اللہ کو مشعر حرام کے پاس یعنی مزدلفہ میں  اور اس کو اسی طرح یاد کرو جس طرح کہ اس نے تم کو ہدایت اور تعلیم دی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس نور ہدایت سے پہلے تم لوگ پرلے درجے کے گمراہوں میں سے تھے،

۱۹۹۔۔ پھر تم بھی وہیں سے پلٹو جہاں سے اور لوگ پلٹ آتے ہیں اور معافی مانگو تم اللہ سے بے شک اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے

۲۰۰۔۔ پھر جب تم پورے کر چکو اپنے حج کے ارکان تو قیام منیٰ کے دوران اپنے باپ دادوں کے مفاخر و مآثر بیان کرنے کے بجائے تم لوگ یاد کرو اپنے اللہ کو جیسا کہ تم نے یاد کیا کرتے تھے اپنے باپ دادا کے مفاخر کو بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر یاد کرو اس وحدہٗ لا شریک کو مگر کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنی کوتاہ نظری سے دنیائے فانی کا ہی سوال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم کو دنیا میں ہی دے دے جو کچھ دینا ہے ایسوں کو دنیا میں تو اس کی حکمت و مشیت کے مطابق جو کچھ ملنا ہوا مل جائے گا مگر ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہو گا

۲۰۱۔۔ اور اس کے برعکس کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں بچا لے دوزخ کی اس آگ کے عذاب سے

۲۰۲۔۔ سو ایسوں کے لئے بڑا حصہ ہے ان کی کمائی میں سے اور اللہ بڑا ہی جلد حساب لینے والا ہے

۲۰۳۔۔ اور یاد کرو تم لوگ اللہ کو گنتی کے ان چند دنوں میں  پھر جس نے جلدی سے کام لیکر دو دنوں میں ہی کوچ کر لیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جس نے تاخیر سے کام لیا اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ہر ایسے شخص کے لئے جو ڈرتا ہو اپنے رب سے اور ڈرتے رہا کرو تم لوگ اللہ سے اور یقین جانو کہ تمہیں بہرحال اسی کے حضور اکٹھے ہو کر جانا ہے

۲۰۴۔۔ اور کچھ لوگ ایسے ہیں کہ اچھی لگتی ہیں آپ کو ان کی چکنی چپڑی باتیں دنیاوی زندگی کے بارے میں  اور وہ اپنی نیک نیتی پر گواہ بناتا ہے اللہ کو حالانکہ وہ پرلے درجے کا دشمن ہے حق اور اہل حق کا

۲۰۵۔۔ اور جب وہ پیٹھ پھیرتا ہے تو اس دوڑ دھوپ میں لگ جاتا ہے کہ فساد مچائے زمین میں اور ہلاک و تباہ کر ڈالے کھیتی اور نسل کو اور اللہ جس کو ایسا شخص اپنی نیک نیتی پر گواہ بناتا ہے وہ کبھی پسند نہیں فرماتا فساد کو

۲۰۶۔۔ اور اس کے تکبر کا عالم یہ ہے کہ جب اس سے کہا جاتا کہ تو ڈر اللہ سے تو آ پکڑتی ہے اس کو اس کی نخوت گناہ کے ساتھ اور وہ مزید بگڑ جاتا ہے سو کافی ہے اس کو جہنم اور بڑا ہی برا ٹھکانا ہے

۲۰۷۔۔ وہ اور دوسری طرف کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ اللہ کی رضا کی طلب میں اپنی جان عزیز کو بھی بیچ دیتے ہیں اور اللہ بڑا ہی مہربان ہے اپنے بندوں پر

۲۰۸۔۔ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو داخل ہو جاؤ تم اسلام کے حظیرہ قدس میں پورے کے پورے اور خبردار شیطان کی پیروی نہیں کرنا کہ بے شک وہ تمہارا دشمن ہے کھلم کھلا

۲۰۹۔۔ پس اگر تم لوگ پھسل گئے راہ حق و صواب سے ان کھلی نشانیوں کے بعد جو کہ پہنچ چکیں تمہارے پاس تو تم یقین جان لو کہ تمہیں اللہ کی پکڑ سے کوئی ہیں چھڑا سکے گا کہ بے شک اللہ بڑا ہی زبردست نہایت ہی حکمت والا ہے

۲۱۰۔۔ تو کیا اب یہ لوگ اسی آخری انجام کے منتظر ہیں کہ آ جائے ان کے پاس اللہ بادلوں کے سایہ بانوں میں اور اس کے فرشتے بھی اور تمام کر دیا جائے سارا معاملہ اپنی آخری شکل میں  اور اللہ ہی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں سب معاملات

۲۱۱۔۔ پوچھو بنی اسرائیل سے کہ ہم نے کتنی ہی کھلی نشانیاں عطا کیں ان ناشکرے بے انصافوں کو اور جو کوئی اللہ کی نعمت کو بدلے گا بعد اس کے کہ وہ اس کے پاس پہنچ گئی تو اسے اس کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہو گا کہ بے شک اللہ بڑا ہی سخت عذاب دینے والا ہے

۲۱۲۔۔ خوشنما بنا دیا گیا دنیا کی زندگی اور اس کے متاع فانی و زائل کو ان بدنصیب لوگوں کے لئے جو اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر و باطل پر  اور وہ مذاق اڑاتے ہیں ان خوش نصیب لوگوں کا جو اپنے سینوں میں ایمان و یقین کا نور رکھتے ہیں حالانکہ جن لوگوں نے تقویٰ و پرہیز گاری کو اپنایا ہو گا وہ قیامت کے اس ابدی فیصلے کے دن ان کافروں سے کہیں بالا و برتر ہوں گے اپنے مراتب و درجات کے اعتبار سے اور اللہ جس کو چاہتا ہے روزی دیتا ہے بغیر کسی حساب کے

۲۱۳۔۔ سب لوگ شروع شروع میں ایک ہی طریقے پر تھے  پھر ان میں اختلاف پڑنے پر اللہ نے اپنے پیغمبروں کو بھیجا خوشخبری دینے والے اور خبردار کرنے والے بنا کر اور ان کے ساتھ اپنی کتابیں بھی اتاریں حق کے ساتھ تاکہ اس طرح وہ فیصلہ فرمائے لوگوں کے درمیان ان تمام باتوں کے بارے میں جن میں وہ اختلاف میں پڑے ہوئے تھے اور اس میں اختلاف نہیں کیا مگر انہی لوگوں نے جن کو وہ کتاب حق دی گئی تھی اس کے بعد کہ آ چکیں تھیں ان کے پاس حق و ہدایت کی کھلی نشانیاں محض آپس کی ضد کی وجہ سے سو اللہ نے ہدایت سے سرفراز فرما دیا ان لوگوں کو جو ایمان کی روشنی رکھتے تھے اس حق و صواب کے لئے جس کے بارہ میں یہ لوگ اختلاف میں پڑے ہوئے تھے اپنے اذن سے اور اللہ اپنے کمال علم و حکمت کی بناء پر جس کو چاہتا ہے نوازتا ہے ہدایت کے نور سے سیدھے راستے کی طرف

۲۱۴۔۔ کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم لوگ یونہی بغیر کسی محنت و مشقت کے جنت میں داخل ہو جاؤ گے حالانکہ تم پر ابھی تک ان حالات کا گزر نہیں ہوا جو پہنچے ان لوگوں کو جو گزر چکے تم سے پہلے ان پر ایسی ایسی سختیاں آئیں مصیبتیں گزریں اور ان کو اس طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا گیا کہ ان کے پیغمبر اور جو لوگ ان کے ساتھ ایمان لائے تھے چیخ اٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد تب ان کو تسلی دی گئی کہ بے شک اللہ کی مدد قریب ہے

۲۱۵۔۔ پوچھتے ہیں آپ سے اے پیغمبر کہ کیا خرچ کریں تو کہو کہ جو بھی مال تمہیں خرچ کرنا ہو تو وہ حق ہے تمہارے ماں باپ رشتہ داروں یتیموں مسکینوں اور مسافروں کا  اور یاد رکھو اور مطمئن رہو کہ جو بھی کوئی بھلائی تم لوگ صدق و اخلاص سے کرو گے تو اس کا اجرو ثواب تم یقیناً پاؤ گے کہ بے شک اللہ اس کو پوری طرح جانتا ہے

۲۱۶۔۔ تم لوگوں پر فرض کر دیا گیا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا جو کہ تمہیں طبعاً ناگوار ہے لیکن عین ممکن ہے کی ایک چیز تمہیں ناگوار ہو مگر حقیقت میں وہی تمہارے لئے بہتر ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو مگر حقیقت کے اعتبار سے وہی تمہارے لئے بری ہو اللہ جانتا ہے سب کچھ اور تم لوگ نہیں جانتے

۲۱۷۔۔ پوچھتے ہو یہ لوگ آپ سے اے پیغمبر حرمت والے مہینے میں لڑائی کے بارے میں تو ان سے کہو کی اس میں لڑنا بہت برا ہے مگر اللہ کی راہ سے روکنا اور اس کے ساتھ کفر و شرک کا ارتکاب کرنا مسجد حرام کا راستہ خدا پرستوں پر بند کرنا اور جو لوگ مسجد حرام کے حقیقی اہل اور حق دار ہیں ان کو وہاں سے نکالنا اللہ کے نزدیک اس سے بھی کہیں بڑھ کر برا ہے اور فتنہ و فساد تو قتل سے بھی بڑھ کر جرم ہے  اور یہ لوگ تم سے لڑتے ہی رہیں گے اے مسلمانو یہاں تک کے تم کو تمہارے دین سے ہی پھیر دیں اگر ان کا بس چلے  مگر اچھی طرح یاد رکھنا کہ تم میں سے جو بھی خدانخواستہ پھر گیا اپنے دین سے اور اس نے کفر ہی کی حالت میں جان دے دی تو اکارت چلے گئے ایسے لوگوں کے سب اعمال دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور یہ لوگ یار ہیں دوزخ کے جہاں انہیں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہو گا

۲۱۸۔۔ اس کے برعکس جو لوگ ایمان لائے سچے دل سے اور انہوں نے ہجرت کی اللہ کی رضا کے اور اپنے دین کی خاطر اور جہاد کیا اللہ کی راہ میں تو یقیناً ایسے لوگ امید رکھ سکتے ہیں اللہ کی رضا و رحمت کی اور اللہ بڑا ہی بخشنے والا نہایت مہربان ہے

۲۱۹۔۔ پوچھتے ہیں آپ سے اے پیغمبر شراب اور جوئے کے بارے میں تو انہیں بتا دو کہ ان دونوں چیزوں میں بڑا گناہ بھی ہے اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی  مگر ان کا گناہ ان کے فائدوں سے کہیں بڑھ کر ہے اور پوچھتے ہیں آپ سے کہ کیا خرچ کریں تو کہو کہ جو زیادہ ہو تمہاری ضرورتوں سے اللہ اسی طرح کھول کر بیان فرماتا ہے تمہارے لیے اپنے احکام تاکہ تم لوگ غور و فکر سے کام لو

۲۲۰۔۔ اپنی دنیا و آخرت کے بارے میں اور پوچھتے ہیں آپ سے یتیموں کے بارے میں  تو کہو کہ ان کے لئے اصلاح والا طریقہ اپنانا ہی بہتر ہے اور اگر تم انہیں کھانے پینے اور رہن سہن میں اپنے ساتھ شریک کر لو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ وہ تمہارے بھائی ہیں دینی اور نسبی اعتبار سے اور اللہ خوب جانتا ہے بگاڑنے والے کو اصلاح کرنے والے سے اور اگر اللہ چاہتا تو تم لوگوں کو سخت مشقت میں ڈال دیتا بے شک اللہ بڑا ہی زبردست نہایت ہی حکمت والا ہے ۔

۲۲۱۔۔ اور تم لوگ اے ایمان والو! مشرک عورتوں سے نکاح مت کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں ور ایک ایماندار باندی ایک مشرق عورت سے بہرحال کہیں بہتر ہے اگرچہ وہ مشرک عورت تم کو اچھی لگتی ہو اور تم اپنی عورتوں کو مشرک مردوں کے نکاح میں مت دو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں اور ایک ایماندار غلام ایک کافر و مشرک آزاد شخص سے یقیناً کہیں بہتر ہے اگرچہ وہ کافر مشرک تم کو اچھا لگتا ہو کیونکہ یہ کافر و مشرک لوگ بلاتے ہیں دوزخ کی ہولناک آگ کی طرف جب کہ اللہ بلاتا ہے اپنی رحمت و عنایت کی بناء پر جنت اور بخشش کی طرف اپنے اذن سے اور وہ کھول کر بیان فرماتا ہے اپنے احکام لوگوں کے لیے تاکہ وہ نصیحت حاصل کرے

۲۲۲۔۔ اور پوچھتے ہیں آپ سے حیض کے بارے میں تو کہو کہ وہ ایک گندگی ہے پس تم لوگ دور رہو اپنی عورتوں کی صحبت سے حیض کی حالت میں اور ان کے قریب بھی نہ جاؤ یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں  پس جب وہ اچھی طرح سے پاک ہو جائیں تو تم ان کے پاس آؤ جہاں سے اﷲ نے تم کو حکم دیا ہے، (ان کے پاس آنے کا) بے شک اللہ پسند فرماتا ہے ان لوگوں کو جو (ہمیشہ) توبہ کرتے رہتے ہیں، اور وہ ناپسند فرماتا ہے ان لوگوں کو جو پاک صاف رہتے ہیں،

۲۲۳۔۔  تمہاری بیویاں عظیم الشان کھیتیاں ہیں تمہارے (نفع اور بھلے) کے لئے، پس  اور (ہمیشہ اور ہر حال میں) ڈرتے رہا کرو تم اللہ سے، اور یقین جانو کہ تمہیں بہرحال اس سے ملنا ہے اور خوشخبری سنا دو ایمانداروں کو،

۲۲۴۔۔  اور مت بناؤ تم لوگ اللہ (کے پاک نام) کو آڑ، اپنی قسموں کے لئے، کہ (اس کی نام کی قسم کھا رک تم رک جاؤ اس سے کہ) تم نیکی کرو، پرہیز گاری کو اپناؤ، اور لوگوں کے درمیان صلح کراؤ، اور اللہ (سب کچھ) سنتا جانتا ہے،

۲۲۵۔۔ اللہ تمہارے گرفت نہیں فرماتا تمہاری بے مقصد (و بے ارادہ) قسموں پر، مگر وہ تمہاری گرفت ضرور فرمائے گا، جو تم نے دل کے ارادے سے کھائی ہوں،  اور اللہ ہی بڑا بخشنے والا، نہایت ہی بردبار ہے ۔

۲۲۶۔۔ جو لوگ اپنی بیویوں کے پاس جانے سے قسم کھا بیٹھتے ہیں، ان کے لئے مہلت ہے چار مہینے کی، سو اگر انہوں نے (اس مدت کے اندر) رجوع کر لیا تو (ان کا نکاح باقی، قسم توڑنے کا کفارہ لازم، اور گناہ معاف، کہ) بے شک اللہ بڑا ہی بخشنے ولا نہایت ہی مہربان ہے،

۲۲۷۔۔  اور اگر انہوں نے طلاق ہی کی ٹھان لی، تو (یاد رکھیں کہ یہ مدت گزرتے ہی قطعی طلاق پڑ جائے گی کہ) بے شک اللہ (سب کچھ) سنتا جانتا ہے

۲۲۸۔۔ اور طلاق یافتہ عورتیں روکے رکھیں اپنے آپ کو تین حیضوں تک،  اور ان کے لئے یہ بات جائز نہیں کہ وہ چھپائیں اس چیز کو جو کہ اللہ نے پیدا فرمائی، ان کے رحموں کے اندر، اگر یہ (سچے دل سے اور صحیح معنوں میں) ایمان اور رکھتی ہیں اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور ان مطلقہ عورتوں کے شوہر اس مدت عدت کے دوران ان کو اپنی زوجیت میں واپس لانے کا پورا حق رکھتے ہیں بشرطیکہ طلاق رجعی ہو اگر ان کا ارادہ اصلاح کا  ہو اور عورتوں کے لیے مردوں کے ذمے ویسے ہی حقوق ہیں جیسا کہ ان کے ذمے مردوں کے حقوق ہیں دستور کے مطابق البتہ مردوں کو مرد ہونے کے اعتبار سے ان پر ایک خاص درجہ اور فوقیت حاصل ہے  اور اللہ بڑا ہی زبردست نہایت ہی حکمت والا ہے

۲۲۹۔۔ طلاق جس کے بعد رجوع ہو سکتا ہے دو ہی مرتبہ ہے  پھر یا تو رجوع کر کے اس دستور کے مطابق روک لیا جائے یا بھلے طریقے کے ساتھ چھوڑ دیا جائے اور تمہارے لئے یہ بات جائز نہیں کہ تم چھوڑنے کہ صورت میں اس مال میں سے کچھ واپس لے لو جو کہ تم نے نکاح کہ بنا پر ان کو دیا تھا مگر یہ کہ ان دونوں کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ زوجیت کی بقاء کی صورت میں وہ دونوں اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے سو اگر تمہیں یہ اندیشہ ہو کہ واقعی اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو ان دونوں پر اس بات میں کو یہ گناہ نہیں کہ وہ عورت کچھ مال دے کر اپنی جان چھڑا لے یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں پس تم ان سے آگے نہیں بڑھنا اور جو بھی کوئی اللہ کی حدوں سے آگے بڑھا تو اس نے یقیناً اپنا ہی نقصان کیا کی ایسے لوگ سراسر ظالم ہیں

۲۳۰۔۔ پھر اگر اس شخص نے ان دو کے بعد اس کو تیسری طلاق بھی دے دی تو اب وہ عورت اس کے لئے حلال نہ ہو گی یہاں تک کی وہ نکاح کر لے کسی اور خاوند سے پھر وہ شخص اگر اپنی مرضی سے کبھی اس کو طلاق دے دے اور اب ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کی وہ عدت گزرنے پر آپس میں رجوع کر لیں اگر ان دونوں کو اس بات کا گمان غالب ہو کہ وہ قائم رکھ سکیں گے اللہ کی مقرر کردہ حدوں کو اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جن کو وہ کھول کر بیان فرماتا ہے ان کو لوگوں کے لئے جو علم رکھتے ہیں

۲۳۱۔۔ اور جب تم طلاق دے دو اپنی عورتوں کو پھر وہ پہنچ جائیں اپنی عدت کے خاتمے کو تو پھر یا تو تم ان کو روک رکھو اپنے نکاح میں دستور کے مطابق یا انہیں چھوڑ دو بھلے طریقے کے ساتھ اور تم انہیں مت روکو نقصان پہنچانے کی غرض سے کہ اس طرح تم ظلم اور زیادتی کا ارتکاب کرو گے اور جس کسی نے ایسے کیا تو اس نے یقیناً خود اپنی جان ہی پر ظلم کیا  اور مت ٹھہراؤ تم لوگ اللہ کی آیتوں کو کھیل اور تماشہ اور یاد کرو تم اللہ لے اس عظیم الشان احسان کو جو اس نے تم پر فرمایا اور کتاب و حکمت کی اس بے مثل دولت کو جو اس نے تم پر نازل فرمائی وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے اس خزانہ علم و حکمت کے ذریعے اور ڈرتے رہا کرو تم لوگ اللہ سے اور یقین جانو کہ اللہ ہر چیز کو پوری طرح جانتا ہے

۲۳۲۔۔ اور جب تم طلاق دے دو اپنی عورتوں کو پھر وہ پورا کر لیں اپنی عدت کو تو تم ان کو مت روکو اس بات سے کہ وہ نکاح کریں اپنے تجویز کردہ شوہروں سے جب کہ وہ آپس میں نکاح کرنے پر راضی ہو جائیں دستور کے مطابق  اس مضمون کی نصیحت کی جاتی ہے تم میں سے پر اس شخص کو جو ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور قیامت کے دن پر یہ تمہارے لئے نہایت پاکیزہ اور بڑی صفائی کی بات ہے اور اللہ پاک سبحانہ، و تعالیٰ جانتا ہے تم نہیں جانتے ۔

۲۳۳۔۔ اور مائیں دودھ پلائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال جو پورا کرنا چاہیں دودھ پلانے کی مدت کو  اور باپ جس کے لئے دراصل وہ بچہ جنا گیا ان کے ذمے ہے ان دودھ پلانے والیوں کے کھانے اور کپڑے کا بندوبست کرنا دستور کے مطابق کسی کو تکلیف نہیں دی جاتی مگر اسی قدر جتنا کہ اس کے بس اور اختیار میں ہو سو نہ تو کسی ماں کو تکلیف میں ڈالا جائے اس کے بچے کی بناء پر اور نہ ہی کسی باپ کو تکلیف میں ڈالا جائے اس کے بچے کی وجہ سے اور باپ کے زندہ نہ ہونے کی صورت میں اس کے وارث پر بھی ایسا ہی حق ہے پھر اگر وہ دونوں باہمی رضامندی اور مشورہ سے دو سال کی اس مدت کی تکمیل سے پہلے ہی دودھ چھڑانا چاہیں تو اس میں بھی تم پر کوئی گناہ نہیں  جب کہ تم ادا کر دو وہ معاوضہ جس کا دینا تم نے طے کیا ہو دستور کے مطابق اور ہمیشہ ڈرتے رہا کرو اللہ سے اور یقین جانو کی اللہ پوری طرح دیکھ رہا ہے تمہارے ان کاموں کو جو تم لوگ کر رہے ہو

۲۳۴۔۔ اور تم میں سے جو وفات پا جائیں اور وہ اپنے پیچھے چھوڑ جائیں بیویاں تو ان بیواؤں کو چاہیے کہ انتظار میں رکھیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن پھر جب وہ پورا کر لیں اپنی عدت کی مدت کو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ان کے ان کاموں کی بنا پر جو وہ خود کریں اپنی جانوں کے حق میں دستور کے مطابق اور اللہ پوری طرح باخبر ہے تمہارے ان سب کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو

۲۳۵۔۔ اور تم پر اس اشارہ و کنایہ میں بھی کوئی گناہ نہیں جس سے تم نے عدت کے دوران ان عورتوں کی منگنی سے متعلق کام لیا ہو خواہ تم نے اس کو ظاہر کیا ہو یا اسے چھپائے رکھا ہو اپنے دلوں میں اللہ کو خوب معلوم ہے کہ تم عنقریب ہی عدت کے بعد ان کو یاد کرو گے  مگر یاد رکھنا کہ کہیں ان سے خفیہ عہد و پیمان نہ کر لینا مگر یہ کہ تم کہو کوئی بھلی بات دستور کے مطابق اور تم ان سے عقد نکاح کا قصد اور پختہ ارادہ بھی نہ کرنا یہاں تک کہ میعاد نوشت پوری ہو جائے اور یقین جانو کہ اللہ خوب جانتا ہے وہ سب کچھ کو کہ تمہارے دلوں میں ہے  پس تم ہمیشہ اور ہر حال میں ڈرتے رہا کرو اس وحدہٗ لاشریک سے اور یہ بھی یقین جانو اللہ بڑا ہی بخشنے والا ہی بردبار ہے

۲۳۶۔۔ تم پر اس بات میں بھی کوئی گناہ نہیں کہ تم طلاق دے دو اپنی عورتوں کو قبل اس سے کہ تم نے ان کو ہاتھ لگایا ہو یا ان کے لئے کوئی مہر مقرر کیا ہو اور ایسی صورت میں تم ان کو کچھ سامان دے دیا کرو خوشحال پر اس کی حیثیت کے مطابق اور تنگ دست پر اس کی حیثیت کے مطابق اور تنگ دست پر اس کی حیثیت کے مطابق فائدہ پہنچانا ہے خوش اسلوبی کے ساتھ حق ہے نیکوکاروں کے ذمے،

۲۳۷۔۔ اور اگر تم ان کو طلاق دے دو اس سے کہ تم نے ان کو ہاتھ لگایا ہو جب کہ تم ان کے لئے کوئی مہر مقرر کر چکے تھے تو ایسی صورت میں تم کو اپنے مقرر کردہ مہر کا آدھا حصہ دینا ہو گا مگر یہ عورتیں معاف کر دیں یا وہ شخص معاف کر دے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے اور تمہارا معاف کر دینا اے مسلمانو ! تقویٰ و پرہیز گاری کے زیادہ قریب ہے اور آپس کے معاملات میں تم لوگ احسان اور مہربانی کرنے کو نہ بھولو بے شک اللہ پوری طرح دیکھ رہا ہے ان کاموں کو جو تم لوگ کرتے ہو

۲۳۸۔۔ حفاظت کرو تم لوگ اپنی نمازوں کی اور خاص کر درمیانی نماز کی اور کھڑے رہا کرو تم لوگ اللہ کے حضور عاجزانہ طور پر

۲۳۹۔۔ پھر اگر تمہیں کبھی دشمن وغیرہ کا خوف ہو تو پیادہ یا سواری پر جیسے بھی ہو سکے نماز پڑھ لیا کرو پھر جب تمہیں امن میسر آ جائے تو یاد کرو تم اللہ کو جیسا کہ اس نے سکھایا ہے تمہیں وہ کچھ جو تم لوگ نہیں جانتے تھے

۲۴۰۔۔ اور جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور وہ اپنے پیچھے بیویاں چھوڑ جائیں تو انہیں چاہیے کہ وہ وصیت کر جائیں اپنی بیویوں کے لئے سال بھر کے نان و نفقہ کی گھر سے نکالے بغیر پھر اگر وہ خود نکل جائیں تو تم پر اے وارثو اس کا کوئی گناہ نہیں جو کچھ کہ وہ خود اپنی جانوں کے بارے میں کریں بھلائی میں سے اور اللہ بڑا ہی زبردست نہایت ہی حکمت والا ہے

۲۴۱۔۔ اور طلاق والی عورتوں کو کچھ نہ کچھ سامان دینا ہے دستور کے مطابق بطور حق لازم کے پرہیزگاروں کے ذمے

۲۴۲۔۔ اسی طرح اللہ بیان فرماتا ہے تمہارے بھلے کے لئے اپنے احکام تاکہ لوگ عقل سے کام لو

۲۴۳۔۔ کیا تم نے ان لوگوں کی طرف بنظر غور و فکر نہیں دیکھا جو کہ نکل پڑے تھے اپنے گھروں سے جب کہ وہ ہزاروں کی تعداد میں تھے موت کے ڈر سے تو اللہ نے ان سے اپنے حکم تکوینی کے اعتبار سے فرمایا کہ مر جاؤ تم سب سو وہ مر گئے  پھر اللہ نے ان کو زندہ فرما دیا بے شک اللہ بڑا ہی فضل و کرم والا ہے لوگوں پر مگر اکثر لوگ ایسے ہیں کہ وہ شکر ادا نہیں کرتے

۲۴۴۔۔ اور لڑو تم اللہ کی راہ میں اے مسلمانو ! اور یقین جانو کہ اللہ سب کچھ سنتا جانتا ہے

۲۴۵۔۔ کون ہے جو قرض دے اللہ کو اچھا قرض پھر اللہ اس کو بڑھا کر لوٹائے گا اس کے کئی گنا کے اضافوں کے ساتھ اور اللہ ہی اپنی حکمت و مشیت سے تنگی بھی کرتا ہے اور فراخی بھی عطا کرتا ہے اور اسی کی طرف بہرحال لوٹ کر جانا ہے تم سب کو

۲۴۶۔۔ کیا تم نے غور نہیں کیا بنی اسرائیل کے ایک گروہ کے قصہ کے بارے میں جو کہ حضرت موسیٰ کے ایک زمانہ بعد پیش آیا جب کہ انہوں نے اپنے زمانے کے نبی سے کہا کہ ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دیجئے تاکہ ہم اس کے جھنڈے تلے لڑیں اللہ کی راہ میں تب ان کے نبی نے ان سے فرمایا کہ کہیں ایسا تو نہیں ہو گا کہ تم پر جہاد فرض کر دیا جائے پھر تم نہ لڑو تو انہوں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں نہ لڑیں جب کہ ہمیں نکال باہر کیا گیا ہے اپنے گھروں سے اور جدا کر دیا گیا اپنے بیٹوں سے مگر اس سب کے باوجود جب ان پر جہاد فرض کر دیا گیا تو وہ سب پھر گئے بجز ان کی ایک تھوڑی سی تعداد کے اور اللہ خوب جانتا ہے ظالموں کو

۲۴۷۔۔ اور ان کے نبی نے ان سے فرمایا کہ دیکھو بے شک اللہ نے مقرر فرما دیا ہے تمہارے لئے طالوت بادشاہ  تو اس پر ان لوگوں نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ان کو ہم پر بادشاہی کیسے مل سکتی ہے جب کہ ہم ان کے مقابلے میں بادشاہی کے زیادہ حقدار ہیں اور ان کو تو مال کی فراخی بھی عطا نہیں فرمائی گئی  ان کے پیغمبر نے ان لوگوں کے ان اعتراضات کے جواب میں فرماتا کہ حقیقت بہرحال یہی ہے کہ اللہ نے اس کو تم پر چن لیا ہے اور دنیاوی مال و دولت کے بجائے ان کو اللہ نے علم اور جسم کی قوتوں میں فراخی اور فراوانی عطا فرمائی ہے اور اللہ اپنی بادشاہی جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑا ہی وسعت والا نہایت ہی علم والا ہے

۲۴۸۔۔ اور ان کے نبی نے ان سے یہ بھی فرمایا کہ ان کی بادشاہی کی نشانی یہ ہو گی کہ تمہارے پاس وہ صندوق واپس آ جائے گا جو تم سے چھین لیا گیا تھا اور جس میں تمہارے لئے سکون قلب کا سامان ہے تمہارے رب کی جانب سے اور کچھ باقی ماندہ اشیاء ان چیزوں میں سے جن کو چھوڑا ہے آل موسیٰ اور آل ہارون نے اٹھا لائیں گے اس کو فرشتے  بے شک اس میں بڑی بھاری نشانی ہے تمہارے لیے اگر تم واقعی ایماندار ہو

۲۴۹۔۔ پھر جب طالوت لشکر لے کر روانہ ہونے لگے تو ان سے کہا کہ دیکھو اللہ کہ طرف سے تمہاری آزمائش ہونے والی ہے ایک نہر کے پانی سے سو یاد رکھو کہ جس نے اس سے پانی پی لیا وہ میرا ساتھی نہیں اور جس نے اس سے چکھا بھی نہ اصل میں وہی میرا ساتھی ہے ہاں جس نے ایک آدھ چلو بھر لیا تو وہ اسے معاف ہے مگر اس سب کے باوجود ان لوگوں نے اس دریا سے سیر ہو کر پانی پیا بجز ان میں کے تھوڑے سے لوگوں کے پھر اس کا نتیجہ  یہ ہوا کہ جب طالوت اور ان کے ساتھ والے اہل ایمان نے اس دریا کو پار کیا تو انہوں نے ہمت ہار کر صاف کہہ دیا کہ ہمارے اندر جالوت اور اس کے لشکروں سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں  اس پر ان لوگوں نے جو اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ انہوں نے بہرحال اللہ سے ملنا ہے ان سے کہا کی دیکھو کتنی ہی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک چھوٹی جماعت بڑی جماعت پر غالب آ گئی اللہ کے اذن و حکم سے  پس تم گھبراؤ نہیں اور اللہ ساتھ ہے صبر کرنے والوں کے

۲۵۰۔۔ اور جب وہ قوت ایمان و یقین سے معمور و سرشار مجاہد میدان کارزار میں نکلے تو انہوں نے ظاہری اسباب و وسائل کے فرق و تفاوت سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور عرض کیا اے ہمارے رب اپنے خاص کرم اور عنایت سے ہم پر فیضان فرما دے صبر اور استقامت کا ہمیں نواز دے ثابت قدمی کے جوہر سے اور ہماری مدد فرما ان کافر لوگوں کے مقابلے میں

۲۵۱۔۔ سو اس کے نتیجے میں انہوں نے شکست دے دی ان کافروں کو اللہ کے اذن سے اور قتل کر دیا داؤد نے جالوت کو اور اللہ نے نواز دیا ان کو بادشاہی اور حکمت کی دولت سے اور ان کو سکھا دیا وہ کچھ جو وہ چاہتا تھا اور اگر اللہ اسی طرح لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے ہٹاتا اور مٹاتا نہ رہتا تو یقیناً زمین بھر جاتی فتنہ و فساد سے مگر اللہ بڑا ہی فضل والا اور مہربان ہے تمام لوگوں پر

۲۵۲۔۔ یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم پڑھ کر سناتے ہیں آپ کو اے پیغمبر حق کے ساتھ اور بے شک آپ رسولوں میں سے ہیں ۔  

۲۵۳۔۔ یہ سب رسول (جن کا ذکر ابھی ہوا) ایسے ہیں کہ ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی، ان میں سے بعض ایسے ہیں جن سے اللہ نے کلام فرمایا، اور بعض ایسے ہیں جن کو اس نے (دوسری حیثیتوں) سے بلند درجے عطا فرمائے، اور ہم نے عیسیٰ بیٹے مریم کو کھلی نشانیاں عطا کی تھیں، اور روح القدس کے ذریعے ان کی تائید (و تقویت) کا سامان کیا تھا اور اگر اللہ چاہتا تو وہ لوگ آپس میں کبھی نہ لڑتے، جو ان (انبیائے کرام صلی اللہ علیہ و سلم) کے بعد آئے، اس کے بعد کہ آ چکیں ان کے پاس کھلی (اور روشن) دلیلیں، مگر یہ لوگ (اس کے باوجود) اختلاف ہی میں پڑے رہے، سو کوئی ان میں سے ایمان لایا اور کوئی اپنے کفر ہی پر اڑا رہا، اور اگر اللہ چاہتا تو یہ لوگ آپس میں کبھی نہ لڑتے، مگر اللہ اپنی (حکمت بے پایاں اور مشیت مطلقہ سے) جو چاہتا ہے کرتا ہے

۲۵۴۔۔ اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو تم خرچ کرو (ہماری راہ میں اور ہماری رضا جوئی کیلئے) اس (مال و متاع) میں سے جو ہم نے تم کو بخشا ہے، اس سے پہلے کہ آ پہنچے ایک ایسا ہولناک دن جس میں نہ کوئی خرید و فروخت ممکن ہو گی، اور نہ ہی دوستی کام آ سکے گی، نہ سفارش، اور کافر لوگ ہی (اصل) ظالم ہیں،

۲۵۵۔۔ اللہ وہ ذات ہے جسکے سوا کوئی معبود (برحق) نہیں، جو ہمیشہ زندہ، اور (ساری کائنات) تھامنے والا ہے، نہ اس کو اونگھ آتی ہے نہ نیند،   اسی کا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے، اور وہ سب کچھ جو کہ زمین میں ہے، کون ہے جو اس کی جناب (اقدس و اعلیٰ) میں کوئی سفارش کر سکے، مگر اسی کے اذن سے وہ (پوری طرح) جانتا ہے وہ سب کچھ جو ان (لوگوں) کے سامنے ہے، اور وہ سب کچھ بھی جو کہ ان کے پیچھے ہے،  جب کہ یہ لوگ اس کی معلومات میں سے کسی (معمولی) چیز کے علم کا احاطہ نہیں کر سکتے، مگر جتنا کہ وہ چاہے چھائی ہوئی ہے اس کی کرسی آسمانوں اور زمین (کی اس وسیع و عریض کائنات) پر، اور اس کے لئے کچھ گرانی نہیں ان دونوں کی حفاظت میں، اور وہی ہے سب سے برتر، نہایت ہی عظمت والا

۲۵۶۔۔ کوئی (زور و) زبردستی نہیں دین (کے معاملے) میں، یقیناً رشد (و ہدایت کی روشنی) پوری طرح واضح (ہو کر الگ) ہو چکی ہے گمراہی سے،  سو جو کوئی انکار کرے گا طاغوت کا، اور ایمان لائے گا اللہ پر، تو اس نے تھام لیا ایک ایسا مضبوط سہارا جس نے کبھی ٹوٹنا نہیں،  اور اللہ (جس کا سہارا ایسے شخص نے تھام لیا ہے) بڑا ہی سننے والا ہے، سب کچھ جاننے والا ہے،

۲۵۷۔۔ اللہ کارساز (اور مددگار) ہے ان لوگوں کا جو (سچے دل سے) ایمان لائے، وہ ان کو اندھیروں سے نکال کر لاتا ہے روشنی کی طرف، اور اس کے برعکس جو لوگ اڑے ہوئے ہیں اپنے کفر و باطل پر، ان کے حامی و دوست طاغوت ہیں، جو ان کو (ہدایت و ایمان کے) نور سے نکال کر لے جاتے ہیں (کفرو شرک، اور شکوک شبہات کے گھٹا ٹوپ) اندھیروں کی طرف، ایسے لوگ ساتھی، (اور دوست) ہیں (دوزخ کی اس ہولناک) آگ کے، اور ان (بد بختوں) کو اس میں ہمیشہ رہنا ہو گا،

۲۵۸۔۔ کیا تم نے غور نہیں کیا اس شخص کے حال پر جس نے جھگڑا کیا ابراہیم سے اس کے رب کے بارہ میں، اس بناء پر کہ اللہ نے اس کو عطا فرما رکھی تھی بادشاہی، جب کہ ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندگی بخشتا ہے اور موت دیتا ہے ، تو اس نے (پوری ڈھٹائی سے) کہا کہ میں، بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں، تب ابراہیم نے کہا کہ بے شک اللہ لاتا ہے سورج کو مشرق سے، پس تو اس کو لا دکھا مغرب سے، تو اس پر مبہوت (و ششدر) ہو کر رہ گیا وہ کافر، اور اللہ ہدایت (کے نور) سے نہیں نوازتا ایسے (ضدی اور ہٹ دھرم) کافر لوگوں کو،

۲۵۹۔۔ یا (تم نے غور نہیں کیا) اس شخص کے بارے میں جس کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا جو گری پڑی تھی اپنی چھتوں پر، تو اس نے کہا کہ اللہ کیونکر زندہ کرے گا اس بستی کو اس کے مر چکنے کے بعد؟ تو اللہ نے اس پر موت طاری کر کے اس کو سو سال تک موت کی ایسی ہی نیند سلا دیا، پھر اس نے اس کو (زندہ کر کے) اٹھایا اور اس سے پوچھا، تم کتنا عرصہ (اس حال) میں پڑے رہے ؟ تو اس نے کہا کہ ایک دن، یا دن کا بھی کچھ حصہ، تو فرمایا (نہیں) بلکہ تم تو پڑے رہے ہو اس حالت میں پورے ایک سو سال (کی طویل مدت)  سو اب دیکھو اپنے کھانے پینے (کے سامان) کی طرف، کہ اس میں کوئی تغیر نہیں آیا، اور دوسری طرف اپنے گدھے کو بھی دیکھ لو (کہ اس کی ہڈیاں بھی بوسیدہ ہو چکی ہیں) اور (ہم نے یہ سب کچھ اس لئے کیا کہ) تاکہ ہم تم کو بنا دیں ایک عظیم الشان نشانی لوگوں کے لئے،  اور (اپنے گدھے کی) ان (بوسیدہ) ہڈیوں کو بھی دیکھو، کہ ہم (اپنی قدرت سے) کس طرح ان کو اٹھا کر جوڑتے ہیں، پھر ان پر ہم گوشت چڑھاتے ہیں، سو (اس طرح) جب حقیقت حال اس شخص کے سامنے پوری طرح واضح ہو گئی، تو اس نے کہا کہ میں (یقین) جانتا ہوں کہ بے شک اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے،

۲۶۰۔۔ اور (واقعہ بھی یاد کرنے کے لائق ہے کہ) جب ابراہیم نے اپنے رب کے حضور عرض کیا کہ اے میرے رب (اپنے کرم سے) مجھے دکھا دے کہ تو کس طرح زندہ فرمائے گا مردوں کو؟ تو اس پر رب نے ان سے فرمایا کہ تم ایمان نہیں رکھتے ؟ عرض کیا کیوں نہیں، مگر (یہ درخواست اس لئے پیش کی کہ) تاکہ میرا دل (اور زیادہ) مطمئن ہو جائے، ارشاد ہوا۔ اچھا تو تم چار پرندے لے لو، پھر ان کو اپنے سے اچھی (طرح مانوس) کر لو، پھر ان کا ایک ایک جزو ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو، پھر ان کو پکارو، وہ چلے آئیں گے تمہارے پاس دوڑتے ہوئے، اور یقین جانو کہ اللہ بڑا ہی زبردست، نہایت ہی حکمت والا ہے،

۲۶۱۔۔ مثال ان لوگوں کی جو خرچ کرتے ہیں اپنا مال اللہ کی راہ میں، ایسی ہے جیسے ایک دانہ (زمین میں بویا جائے) جو اگائے سات با لیں، ہر بال میں ہوں سو دانے، اور اللہ (اس سے بھی کہیں زیادہ) بڑھا چڑھا کر دیتا ہے جس کے لئے چاہتا ہے، (اس کے صدق و اخلاق کے مطابق) اور اللہ بڑا ہی وسعت والا، نہایت ہی علم والا ہے،

۲۶۲۔۔ جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کی راہ میں، پھر وہ اپنے خرچ کے پیچھے نہ کوئی احسان جتلاتے ہیں، اور نہ دکھ دیتے ہیں، تو ان کیلئے ان کا اجر ہے ان کے رب کے یہاں، نہ ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے،

۲۶۳۔۔ بھلی بات (کہہ دینا) اور (کسی ناگواری کی صورت میں) درگزر کر لینا، کہیں بہتر (اور بڑھ کر) ہے ایسے صدقہ (و خیرات) سے، جس کے بعد ستایا جائے، اور اللہ بڑا ہی بے نیاز، نہایت ہی بردبار ہے،

۲۶۴۔۔  اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو، اکارت (اور ضائع) مت کرو تم لوگ اپنے صدقات (و خیرات) کو، احسان جتلا کر، اور ایذاء پہنچا کر، اس شخص کی طرح جو خرچ کرتا ہے اپنا مال لوگوں کو دکھلاوے کے لئے، اور وہ ایمان نہیں رکھتا اللہ پر، اور قیامت کے دن پر،  سو اس کی مثال ایسے ہے، جیسے کسی چٹان پر کچھ مٹی پڑی ہو، پھر زور کی بارش پڑ کر اس کو بالکل صاف کر دے،  ایسے لوگوں کو اپنی کمائی میں سے کچھ بھی ہاتھ نہ لگ سکے گا، اور اللہ ہدایت (کی دولت) سے نہیں نوازتا ایسے ظالم لوگوں کو، (ان کی اپنی بدنیتی اور سوء اختیار کی بناء پر)

۲۶۵۔۔ اور (اس کے برعکس) مثال ان لوگوں کی جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کی رضا (و خوشنودی) کی طلب میں، اور اپنے دلوں کو مضبوطی (و پختگی) کی بناء پر، (سو ان کی مثال ان کے اجر و ثواب کے اعتبار سے ایسے ہے) جیسے کہ ایک باغ ہو جو بلندی پر واقع ہو، کہ اگر اس پر زور کی بارش پڑے تو وہ کئی گنا پھل لائے، اور اگر زور کی بارش نہ ہو تو ہلکی پھوار ہی (اس کے لئے کافی ہو جائے ) اور اللہ پوری طرح دیکھنے والا ہے تمہارے ان کاموں کو جو تم لوگ کرتے ہو،

۲۶۶۔۔ کیا تم میں سے کوئی شخص (اپنے لئے) یہ بات پسند کرے گا کہ اس کے لئے ایک ایسا (عمدہ اور ہرا بھرا) باغ کھجوروں اور انگوروں کا، کہ اس کے نیچے سے بہہ رہی ہوں نہریں، اور اس کے لئے اس میں ہر قسم کے پھل ہوں، اور آ پہنچے اس کو بڑھاپا (اپنی بیماریوں اور کمزوریوں کے ساتھ) اور اس کی ضعیف (و ناتواں) اولاد بھی ہو، ایسے میں آ پہنچے اس باغ کو ایک ایسا بگولہ جس میں آگ ہو، جس سے وہ باغ جل کر (راکھ ہو) جائے، اللہ اسی طرح کھول کر بیان فرماتا ہے تمہارے لئے اپنی آیتوں کو، تاکہ تم لوگ غور و فکر سے کام لو،

۲۶۷۔۔ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو، خرچ کرو تم (اللہ کی راہ میں) ان پاکیزہ چیزوں میں سے بھی جو تم نے کمائی ہیں اور ان میں سے بھی جو ہم نے (اپنی رحمت و عنایت سے) تمہارے لئے نکالی ہیں زمین سے  اور ان میں سے ایسی ردی (اور بیکار) چیزوں کو (اللہ کی راہ) خرچ کرنے کو مت چھانٹو (جن کو تمہیں خود لینا گوارہ نہ ہو) مگر یہ کہ تم اس میں چشم پوشی سے کام لو اور یقین جانو کہ اللہ بڑا ہی بے نیاز، نہایت ہی خوبیوں والا ہے

۲۶۸۔۔ شیطان تم کو ڈراتا دھمکاتا ہے فقر (و محتاجی کے خوف) سے اور وہ سکھاتا ہے تم لوگوں کو (بے ہودگی و) بے حیائی  جب کہ اللہ تم سی وعدہ فرماتا ہے اپنی طرف سی عظیم الشان بخشش اور مہربانی کا، اور اللہ بڑا ہی وسعت والا نہایت ہی علم والا ہے

۲۶۹۔۔ وہ حکمت عطا فرماتا ہے جس کو چاہتا ہے اور جس کو حکمت (کی دولت) مل گئی، اس کو یقیناً بہت بڑی بھلائی مل گئی  اور نصیحت قبول نہیں کرتے مگر وہی لوگ جو عقل خالص رکھتے ہیں

۲۷۰۔۔ اور (یاد رکھو کہ) جو بھی کوئی خرچہ تم لوگ کرتے ہو اور جو بھی کوئی نذر تم مانتے ہو، تو (یقیناً اس کا پھل تمہیں ملے گا کہ) بے شک اللہ اس کو پوری طرح جانتا ہے، اور (یاد رکھو کہ) ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں،

۲۷۱۔۔  اگر تم اپنے صدقات ظاہر کر کے دو تو یہ بھی ایک اچھی بات ہے، اور اگر تم ان کو پوشیدہ رکھو اور محتاجوں کو دے دو، تو یہ تمہارے لئے اور بھی زیادہ اچھا ہے، اور (اس طرح ان صدقات و خیرات کی بنا پر) اللہ مٹا دے گا تم سے تمہارے کچھ گناہ، اور اللہ پوری طرح باخبر ہے تمہارے ان کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو،

۲۷۲۔۔ آپ کے ذمے (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم!) یہ بات نہیں ہے کہ آپ ان کو راہ راست پر لے آئیں، بلکہ اللہ (ہی کی یہ شان ہے کہ وہ) جس کو چاہے راہ راست پر لے آئے، اور (یاد رکھو اے مسلمانو! کہ) تم جو بھی کچھ خرچ کرو گے وہ تمہارے اپنے ہی بھلے کے لئے ہے،  اور تم جو بھی کچھ خرچ کرتے ہو (وہ خرچ نہیں کرتے) مگر اللہ کی رضا (اور اس کی خوشنودی) کے لیے، اور جو بھی کوئی مال تم لوگ (اس راہ میں) خرچ کرو گے، اس کا پورا بدلہ (اور اجر و صلہ) تم کو دیا جائے گا، اور تمہاری کوئی بھی (اور کسی بھی طرح کی) حق تلفی نہ ہو گی،

۲۷۳۔۔ (یہ صدقات و خیرات دراصل) حق ہیں ان محتاج (اور ضرورت مند) لوگوں کا، جن کو پابند کر دیا گیا ہو اللہ کی راہ میں، (جس کے باعث) وہ لوگ (کسب معاش کے لئے) زمین میں چل پھر نہیں سکتے  ۔ نادان شخص ان کو غنی (اور مالدار) سمجھتا ہے ان کی خود داری کی بنا پر، تم ان کو (اور ان کی اندرونی کیفیت کو) پہچان سکتے ہو ان کے چہروں مہروں کے ذریعے، وہ لوگوں سے لگ لپٹ کر نہیں مانگتے، اور (یاد رکھو تم اے مسلمانو! کہ) جو بھی کچھ تم خرچ کرو گے تو (وہ یقیناً ضائع نہیں ہو جائے گا کہ) بے شک اللہ اس کو پوری طرح جانتا ہے،

۲۷۴۔۔ جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مال رات (کے اندھیرے) میں بھی، اور دن (کے اجالے) میں بھی، پوشیدہ بھی، اور ظاہری طور پر بھی تو ان کے لئے ان کا اجر ہے ان کے رب کے یہاں، نہ ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے،

۲۷۵۔۔ (اس کے برعکس) جو لوگ سود کھاتے ہیں (ان کا حال کل قیامت کے روز یہ ہو گا کہ) وہ کھڑے نہیں ہو سکیں گے مگر اس شخص کی طرح جس کو حواس باختہ کر دیا ہو شیطان نے چھو کر، یہ اس وجہ سے ہو گا کہ ان لوگوں نے (حب دنیا کے خبط میں پڑ کر بے باکانہ) کہا کہ سوداگری بھی تو سود ہی کی طرح ہے، حالانکہ سوداگری کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام، پس جس شخص کے پاس آ گئی نصیحت اس کے رب کی جانب سے، اور وہ رک گیا (حرام خوری سے) تو اس کے لئے ہے جو کچھ کہ وہ اس سے پہلے لے چکا، اور اس (کے باطن) کا معاملہ اللہ ہی کے حوالے ہے، مگر جو اس کے لئے ہے جو کچھ کہ وہ اس سے پہلے لے چکا، اور اس (کے باطن) کا معاملہ اللہ ہی کے حوالے ہے، مگر جو اس کے بعد بھی لوٹا (سود خوری کی طرف) تو ایسے لوگ یار ہیں دوزخ کے، جس میں ان کو ہمیشہ رہنا ہو گا،

۲۷۶۔۔ اللہ مٹاتا ہے سود کو، اور بڑھاتا ہے صدقات کو، اور اللہ پسند نہیں کرتا کسی بھی ناشکرے بدکار کو،

۲۷۷۔۔ بے شک جو لوگ ایمان لائے (صدق دل سے) اور انہوں نے کام بھی نیک کئے، اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی تو ان کیلئے ان کا اجر ہے ان کے رب کے یہاں، نہ ان پر کوئی خوف (و اندیشہ) ہو گا، اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے،

۲۷۸۔۔ اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، ڈرو تم اللہ سے، اور چھوڑ دو تم لوگ اس کو جو کچھ کہ باقی رہ گیا ہے سود میں سے، اگر (واقعی) تم لوگ ایماندار ہو،

۲۷۹۔۔ پس اگر تم نے ایسے نہ کیا تو تمہارے لئے ہیں تمہارے اصل مال، نہ تم (کسی پر) ظلم (و زیادتی) کرو، نہ تم پر کوئی ظلم (و زیادتی) کی جائے،

۲۸۰۔۔ اور اگر وہ شخص (یعنی تمہارا قرض دار) تنگ دست ہو تو تم اس کو مہلت دو (اس کی کشائش و) فراخ دستی تک، اور اگر تم (اس کو بالکل ہی) معاف کر دو، تو یہ تمہارے لئے اور بھی زیادہ بہتر ہے اگر تم جانتے ہو

۲۸۱۔۔ اور ڈرو تم اس عظیم الشان (اور ہولناک) دن سے جس میں تم سب کو بہرحال لوٹ کر جانا ہے اللہ کے پاس،  پھر وہاں پورا بدلہ ملے گا ہر شخص کو اس کی زندگی بھر کی کمائی کا، اور ان پر کوئی ظلم نہیں ہو گا،

۲۸۲۔۔ اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو، جب تم آپس میں (قرض و ادھار کا) کوئی لین دین کرو کسی مقررہ مدت تک، تو اس کو تم لکھ لیا کرو، اور تمہارے درمیان (ایسی دستاویز) لکھنے والا شخص عدل (و انصاف) کے ساتھ لکھے، اور لکھنے والا لکھنے سے انکار نہ کرے، جیسا کہ اللہ نے اس کو سکھایا ہے سو وہ لکھے، اور (اس دستاویز و وثیقہ کا) املاء وہ شخص کرائے جس کے ذمے حق ہے، اور اس کو چاہیے کہ وہ ڈرتا رہے اللہ سے، جو کہ اس کا رب ہے، اور اس میں وہ کوئی کمی (بیشی) نہ کرے ۔ پھر اگر وہ شخص کہ جس کے ذمے حق ہے، بے سمجھ، یا کمزور ہو، یا وہ (کسی عذر کی بناء پر) املاء نہ کرا سکتا ہو، تو اس کا مختار (و کار گزار) املاء کرائے، عدل (و انصاف) کے ساتھ، اور (اس پر) تم دو گواہ رکھ لیا کرو اپنے مردوں میں سے،   پھر اگر دو مرد نہ مل سکیں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہی کافی ہیں، ان لوگوں میں سے جن کو تم پسند کرو گواہی کے لئے، (اور ایک مرد کی جگہ دو عورتوں کو اس لئے تجویز کیا گیا کہ) تاکہ اگر ان میں سے ایک بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلا دے، اور گواہ انکار کریں، (نہ گواہ بننے سے، اور نہ گواہی کی ادائیگی سے) جب کہ ان کو بلایا جائے (اس غرض کے لئے)  اور تم لوگ اکتایا نہ کرو لکھنے سے، خواہ وہ معاملہ چھوٹا یا بڑا، اس کی میعاد تک، یہ طریقہ اللہ کے نزدیک زیادہ قائم رکھنے والا ہے انصاف کو، اور زیادہ سیدھا (اور درست) رکھنے والا ہے گواہی کو، اور زیادہ نزدیک ہے اس بات کے کہ تم لوگ (باہمی معاملات میں) شک میں نہ پڑو، مگر یہ کہ نقدا نقدی کا کوئی ایسا سودا ہو، جو تم (دست بدست) آپس میں کرتے ہو، تو نہ اس کے نہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں، اور تم گواہ مقرر کر لیا کرو جب تم باہم خریدو فروخت کا کوئی معاملہ کرو، اور کسی طرح کا نقصان نہ پہنچایا جائے، نہ لکھنے میں کوئی حرج نہیں، اور تم گواہ مقرر کر لیا کرو جب تم باہم خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کرو، اور کسی طرح کا نقصان نہ پہنچایا جائے، نہ لکھنے والے کو اور نہ گواہی دینے والے کو، اور اگر تم لوگ ایسا کرو گے تو یقیناً (تم گناہ کا ارتکاب کرو گے، کہ) یہ تمہارے لئے اللہ کی اطاعت سے نکلنا ہو گا، اور (ہمیشہ اور ہر حال میں) ڈرتے رہا کرو تم اللہ سے، اور اللہ تم کو سکھاتا ہے (وہ کچھ جس میں تمہاری دنیا و آخرت کی بھلائی ہے) اور اللہ ہر شے کو جاننے والا ہے

۲۸۳۔۔ اور اگر تم (کہیں) سفر پر ہوا کرو اور تمہیں (تحریر معاملہ کے لئے) کوئی کاتب نہ مل سکے، تو کوئی ایسی چیز رہن میں رکھ دیا کرو جو کہ اس کے قبضے میں دے دی جائے،   اور اگر تمہیں آپس میں ایک دوسرے پر اعتبار ہے (جس کے باعث رہن رکھنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے) تو اس آدمی کو کہ جس پر اعتبار کیا گیا ہے چاہیے کہ وہ (ٹھیک ٹھیک اور پورا پورا) ادا کر دے اپنی امانت کو، اور وہ ڈرتا رہے اللہ سے جو کہ اس کا رب ہے، اور تم مت چھپاؤ گواہی کو، اور (یاد رکھو کہ) جس نے چھپایا اس کو، تو بے شک گناہ گار ہے اس کا دل، اور اللہ پوری طرح جانتا ہے ان سب کاموں کو جو تم لوگ کرتے ہو،

۲۸۴۔۔ اللہ ہی کا ہے وہ سب کچھ جو آسمانوں میں ہے، اور وہ سب کچھ بھی جو زمین میں ہے، اور اگر تم لوگ ظاہر کرو اس کو جو کہ تمہارے دلوں کے اندر ہے، یا اسے پوشیدہ رکھو، اللہ بہرحال تم سے اس کا حساب لے گا، مگر جس کو چاہے گا بخش دے گا اور جس کو چاہے گا عذاب دے گا، اور اللہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے،

۲۸۵۔۔ ایمان لائے رسول صلی اللہ علیہ و سلم اس (ہدایت) پر جو کہ اتاری گئی ان کی طرف، ان کے رب کی جانب سے، اور سارے مسلمان بھی، (یعنی وہ) سب بھی ایمان لائے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اور اس کے رسولوں پر، (اس بنیاد پر کہ) ہم اس کے رسولوں میں کسی بھی طرح کی کوئی تفریق نہیں کرتے، اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے سن لیا (اپنے رب کے اوامر و ارشادات کو) اور مان لیا (صدق دل سے اس کے فرامین کو) ہم تیری بخشش چاہتے ہیں اے ہمارے رب، اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہے (سب کو )

۲۸۶۔۔ اللہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا مگر اس کی (طاقت و) گنجائش کے مطابق، ہر شخص کو پھل ملے گا اس کی اس نیکی کا جو اس نے کمائی، اور اسی پر پڑے گا وبال اس کی اس برائی کا جو اس نے سمیٹی، (ایمان والو! اپنی تقصیرات کو پیش نظر رکھ کر اس طرح دعا مانگا کرو کہ) اے ہمارے رب، ہماری گرفت نہیں فرمانا اس بھول یا چوک پر، جو ہم سے سرزد ہو جائے، اے ہمارے رب، ہم پر ایسا بھاری بوجھ نہیں ڈالنا، جیسا کہ تو نے ان لوگوں پر ڈالا ہے جو گزر چکے ہیں ہم سے پہلے (ان کے تمرد اور سرکشی کی بناء پر)  اے ہمارے رب ہم سے بوجھ نہیں اٹھوانا جن (کے اٹھانے) کی ہمیں طاقت نہیں، ہمیں معاف فرما دے، ہماری بخشش فرما دے، اور ہم پر رحم فرما، کہ تو ہی ہے ہمارا مالک (اور کارساز) پس مدد فرما ہماری کافر لوگوں کے مقابلے میں،

تفسیر

۲۔۔ یعنی اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں، پس اگر کوئی اپنے زیغ طبع اور عناد و ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس میں شک کرے، تو علیحدہ بات ہے۔ ورنہ حق اور حقیقت یہی ہے کہ اس کتابِ حکیم کی صداقت و حقانیت اور اس کے منجانب اللہ ہونے میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں۔

۲۔ یعنی یہاں پر ہادی نہیں ہُدًی فرمایا گیا ہے جو کہ مصدر ہے جس کا اطلاق زیْدَ عَدْلُ کی طرح مبالغے کے لئے ہوتا ہے، اسی مفہوم کے اظہار کے لئے ہم نے اس کا ترجمہ سراسر ہدایت سے کیا ہے، والحمد للہ، سو اس کتاب حکیم کو جس پہلو اور جس نقطہ نگاہ سے بھی دیکھا جائے، یہ ہدایت و راہنمائی ہی سے نوازے گی، لیکن یہ ہدایت انہی لوگوں کو نصیب ہو سکتی ہے اور انہی کو نصیب ہوتی ہے جو صدقِ دل سے اس کی طرف رجوع کریں۔ اور اس سے ہدایت و راہنمائی لینا چاہیں، اسی لئے ارشاد فرمایا گیا کہ یہ سراسر ہدایت و راہنمائی ہے ان پرہیزگاروں کے لئے جن کی یہ اور یہ صفات ہوں۔ اور یہ ایک طبعی اور فطری بات ہے کیونکہ ڈاکٹر کی دوائی سے فائدہ اسی کو ہو سکتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔ اور اس کی دوائی کو اس کی ہدایت کے مطابق استعمال کرے، ورنہ اس کے لئے ظاہر ہے کہ محرومی ہی ہے۔ العیاذ باللہ جل وعلا۔

۳۔۔ سو نماز قائم کرنا، اور اللہ کے دیئے بخشے میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا، دین حنیف کے مطالب عظیمۃ میں سے دو اہم عظیم الشان اور بنیادی مطلب ہیں، نماز قائم کرنے سے انسان کا تعلق اس کے خالق و مالک سے صحیح طور پر استوار ہوتا ہے۔ اور اس کے نور باطن میں اضافہ ہوتا اور اس کو قوت ملتی ہے، اور انفاق فی سبیل اللہ سے ایک طرف تو اس کا دل دنیا کی محبت سے پاک ہوتا ہے، دوسری طرف اس سے اس کا تعلق خلق خدا سے صحیح بنیادوں پر قائم ہوتا ہے۔ اور تیسری طرف اس سے اس کے مال میں پاکیزگی آتی ہے اور اس کو خیر و برکت نصیب ہوتی ہے، اور چوتھی طرف اس سے معاشرے کی بہتری ہوتی ہے سو نماز اور زکوٰۃ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے دو اہم رکن ہیں انفاق فی سبیل اللہ کی اہم شرائط اور اس سلسلے میں دوسرے اہم امور کے بارے میں ہماری تفسیر عمدۃ البیان، کی طرف رجوع کریں۔ جہاں ہم نے اس بارے کافی تفصیل سے لکھا ہے۔ والحمد للہ جل وعلا

۴۔۔ سو عقیدہ آخرت ایک اہم اور انقلاب آفریں بنیادی عقیدہ ہے۔ اس کے بغیر انسان ایک لایعنی، بے مقصد، اور لا اُ بالی مخلوق بن کر رہ جاتا ہے، والعیاذ باللہ، اور اس کی زندگی عَبَث و بیکار ہو کر رہ جاتی ہے۔ اور وہ ایسے ہولناک خسارے میں مبتلا ہو جاتا ہے جس کی پھر تلافی بھی ممکن نہیں رہتی۔ اور اس کے نتیجے میں وہ خود اپنے لئے بھی عذاب بن جاتا ہے۔ اور دوسروں کے لئے بھی، اسی لئے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَاِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ عَنِ الصِّرَاطِ لَنَاکِبُوْنَ (المومنون۔۷۴) یعنی جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ قطعی اور یقینی طور پر سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں، اور ظاہر ہے کہ جب وہ سیدھی راہ سے بھٹک گئے تو پھر ان کا سارا نظام حیات ہی غلط ہو گیا۔ والعیاذ باللہ العظیم من کل زیغ و ضلال، وسوءٍ و انحراف، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی مرضیات پر چلنا نصیب فرمائے، اور راہ حق و ہدایت پر ثابت و مستقیم رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین

۵۔۔  سو یہی لوگ یعنی جن کے عقیدے بھی صحیح ہیں، اور ان کے عمل بھی درست ہیں، یہی ہیں فلاح یعنی اصل اور حقیقی کامیابی سے سرفراز ہونے والے کہ اس سے ان کو اس دنیا میں بھی حیاتِ طیبہ (پاکیزہ زندگی) نصیب ہوتی ہے، اور آخرت میں بھی ان کو ابدی سعادت اور کامیابی سے سرفرازی نصیب ہو گی۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے کہ جس نے نیک عمل کیا، خواہ وہ کوئی مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو، تو اس کو ہم دنیا میں بھی ایک عمدہ اور پاکیزہ زندگی سے نوازیں گے۔ اور ان کو آخرت میں ان کا اجر ان کے اعمال کے بہترین پیمانے پر دیں گے۔ (النحل۔٩۷) سو مدارِ نجات انسان کا اپنا ایمان و عمل، اور عقیدہ و کردار ہے نہ کہ حسب و نسب وغیرہ کے وہ مصنوعی فوارق و امتیازات، جو لوگوں نے اپنی طرف سے، اور از خود اپنے طور پر گھڑ رکھے ہیں۔ اور جیسا کہ بہت سے ابنائے دنیا اور بر خود غلط قسم کے لوگوں نے سمجھ رکھا ہے، سو یہ سب کچھ دھوکے سامان، اور ابلیسی جال ہیں والعیاذ باللہ العظیم۔

۶۔۔  سو عناد اور ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں اور یہ چیز محرومی کی جڑ بنیاد ہے۔ والعیاذُ باللہ، کَفَرُوْا کا جو ترجمہ ہم نے کیا۔ یعنی جو لوگ اڑ گئے اپنے کفر و باطل پر، تو اس پر اس طرح کا کوئی اعتراض وارد نہیں ہو سکتا جو کہ اس کے عمومی ظاہری ترجمے پر وارد ہوتا ہے۔ اور جس کے جواب کے لئے حضرات علماء کرام کو لمبی جوڑی بحثیں کرنی پڑتی ہیں، سو ہمارے اس ترجمے پر نہ ایسا کوئی اعتراض وارد ہو سکتا ہے اور نہ اس کے جواب کی ضرورت ہی پیش آ سکتی ہے، و الحمد للہ جل وعلا بکل حال،

۸۔۔  سو ایمان صرف زبانی کلامی دعووں کا نام نہیں بلکہ اس کے لئے تصدیق قلبی کا پایا جانا ضروری ہے، اور زبانی کلامی دعووں سے عام لوگوں کو اگرچہ دھوکہ دیا جا سکتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں پہ دھوکہ نہیں چل سکتا کہ وہ دلوں کے بھیدوں کو جاننے والا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ

۱۰۔۔  سو اس سے جھوٹ کی قباحت و  شناعت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسی کو یہاں پر ان لوگوں کے عذاب کا سبب اور باعث قرار دیا گیا ہے سو جھوٹ بیماریوں اور جہالت و فساد کی بنیاد ہے۔ اسی لیے صحیح حدیث میں ارشاد فرمایا گیا کہ مومن اور تو سب کچھ ہو سکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ سو جھوٹ اور ایمان یکجا نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ حضور سے جب پوچھا گیا کہ کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں، اور جب پوچھا گیا کہ کیا مومن بخیل ہو سکتا ہے؟ تو فرمایا ہاں، لیکن جب پوچھا گیا کہ کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے؟ تو ارشاد فرمایا نہیں، یعنی نہیں مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا، لیکن افسوس کہ جھوٹ کی جس لعنت کو دین و ایمان اور اس کے تقاضوں کے خلاف قرار دیا گیا وہ آج نہ صرف یہ کہ مسلم معاشرے کے اندر موجود ہے بلکہ اس کا کاروبار زوروں پر ہے، اور یہاں تک کہ کتنے ہی بدبخت ایسے ہیں جو اس کو سیاست اور اس کا لازمہ قرار دیتے ہیں، والعیاذ باللہ جل وعلا، والیہ المشتکیٰ وہو المستعان

۱۳۔۔   سو یہاں پر اَلَا کے حرفِ تنبیہ و تحضیض اور اَدَواتِ حَصْر و قَصْر کے ساتھ تاکیدی انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ احمق اور بیوقوف دراصل یہی لوگ ہیں مگر یہ جانتے نہیں، سو اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ حق والوں کو بیوقوف کہنے اور ماننے والے خود ہی احمق اور پرلے درجے کے محروم اور بیوقوف ہوتے ہیں مگر ان کو اس کا علم و شعوری نہیں ہوتا۔ والعیاذ باللہ العظیم اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں، اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب، اور ہر قسم کے زیغ و ضلال سے محفوظ رکھے، آمین ثم آمین

۱۴۔۔  سو اس سے منافقوں کی دو رُخی منافقانہ پالیسی کو بیان فرمایا گیا ہے۔ کہ ایسے لوگ جب اہل ایمان سے ملتے ہیں تو ایک منہ سے ملتے ہیں، اور کچھ اور کہتے ہیں، لیکن جب یہ اپنے بڑوں اور کھڑپنچوں سے ملتے ہیں تو بالکل دوسرے منہ سے ملتے، اور اپنی پہلی باتوں کے برعکس دوسری باتیں کرتے ہیں۔ یہاں پر ان کے ان بڑوں اور کھڑپنچوں کے لئے شیاطین کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے، جس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ ایسے لوگ جو دوسروں کو راہِ حق و ہدایت سے موڑنے اور پھسلانے کی کوشش کرتے ہیں وہ دراصل شیطان ہوتے ہیں اگرچہ وہ انسانی شکل میں ہوں۔ اسی لئے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا شیاطین الانس والجن، نیز فرمایا گیا مِنَ الجِنَّۃِ وَالنَّاسِ، جس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ شیطان جنوں میں سے بھی ہوتے ہیں اور انسانوں میں سے بھی، اس لئے کہا گیا اے بسا ابلیس کہ آدم روہست، یعنی بہت سے ابلیس ایسے ہوتے ہیں جو انسانی شکل میں ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہر قسم کے شیاطین سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ خواہ وہ جنوں میں سے ہوں، یا انسانوں میں سے، آمین ثم آمین۔

۱۵۔۔  سو یہ ایسے منافقوں کے لئے ایک نقد سزا ہے جو ان کے کفر و نفاق کے نتیجے میں ان کو برابر ملتی رہتی ہے، یہ ایسے لوگ نورِ ایمان و یقین کی دولت سے محروم ہو کر کفر و نفاق کے اندھیروں میں بھٹکتے رہتے ہیں، سکونِ قلب کی دولت سے محروم، تذبذب کی کیفیت سے دو چار، اپنے انجام سے بے خبر و لا پرواہ اور اپنی اس محرومی اور نقصان کے احساس و شعور اور علم و ادراک سے بھی عاری اور بے خبر ہوتے ہیں سو ایمان و یقین کی دولت سے محرومی ہر چیز سے محرومی ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔

۱۷۔۔  سو حضرتِ حق جَلَّ مَجْدُہ، نے ایک طرف تو اپنی فیاضیوں سے ان لوگوں کو اس نور فطرت سے نوازا، جو وہ اپنے کرم بے پایاں سے ہر بچے کی فطرت میں ودیعت فرماتا ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے، اور پھر کرم بالائے کرم کے طور پر اس نے ان کو اپنے پیغمبر کے ذریعے نور وحی سے نوازنے اور سر فراز فرمانے کا انتظام و اہتمام فرمایا، جس کو اپنا کر یہ نور علی نور کا مصداق بن سکتے تھے، اور دنیا و آخرت کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز ہو سکتے تھے، مگر انہوں نے اس کے برعکس اعراض و انکار سے کام لیکر گھٹا ٹوپ اندھیروں کو اپنایا۔ اور خسارے پر خسارے میں مبتلا ہوئے۔ اور یہ ایسا ہولناک خسارہ ہے جس جیسا دوسرا کوئی خسارہ نہیں ہو سکتا۔ مگر ان کی بدبختی اور محرومی کا عالم یہ ہے کہ ان کو اس شعور کا احساس بھی نہیں، والعیاذ باللہ العظیم

۱۸۔۔  سو کان آنکھ اور زبان کے جن عظیم الشان قوائے علم و ادراک سے قدرت نے اپنی فیاضیوں سے ان کو نوازا تھا۔ تاکہ ان سے صحیح طور پر کام لیکر یہ نور حق و ہدایت سے سرفراز ہوں۔ اور اپنے لئے سعادت دارین سے سرفرازی کا سامان کریں۔ ان کو انہوں نے ماؤف کر دیا۔ اور ایسا کہ ان کو دولت حق سے سرفرازی کے قابل ہی نہیں چھوڑا، بلکہ یہ سماع حق اور قبول حق کی صلاحیتوں ہی سے محروم ہو گئے اور اندھے بہرے اور گونگے بن کر رہ گئے، تو ایسے میں یہ حق کی طرف کیسے لوٹ سکتے ہیں، سو یہ خساروں کا خسارہ ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔

۱۹۔۔   سو کافر لوگ اللہ تعالیٰ کے احاطہ میں ہیں، یعنی اس کے علم اور قدرت کے اعتبار سے، پس یہ نہ اس کے احاطہ علم سے باہر ہو سکتے ہیں اور نہ اس کے دائرہ قدرت سے نکل سکتے ہیں، اس لئے یہ اپنے کئے کرائے کا بھگتان بہرحال بھگت کر رہیں گے اس سے کبھی بچ نہیں سکتے، پس ایسوں کو اپنے بارے میں خود دیکھ اور سوچ لینا چاہئے۔ اور جو ڈھیل اور مہلت قدرت نے انکو اپنی رحمت و عنایت سے دے رکھی ہے، اس سے یہ کبھی دھوکے میں نہ پڑیں، کہ اس نے بہرحال ختم ہو جانا ہے،

۲۱۔۔  اور جب خلق و ایجاد کی اس صفت میں اس کا کوئی شریک و سہیم نہیں، تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک و سہیم کس طرح ہو سکتا ہے؟ پس معبود برحق وہی اور صرف وہی وحدہٗ لاشریک ہے اور ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی کا اور صرف اسی کا حق ہے، اس میں کسی بھی اور ہستی کو شریک ماننا شرک ہو گا جو کہ ظلم عظیم ہے۔ والعیاذ باللہ،

۲۲۔۔  یعنی جب تم لوگ یہ بات جانتے اور مانتے ہو کہ زمین کے اس عظیم الشان بچھونے کے بچھانے اور آسمان کی اس عظیم الشان اور بے مثال چھت کے قائم کرنے میں، اور آسمان سے اس نہایت ہی پُر حکمت طریقے سے پانی کے اتارنے، اور اس کے ذریعے زمین سے طرح طرح کی پیداواریں نکالنے میں، اس وحدہٗ لاشریک کا کوئی بھی شریک نہیں، تو پھر اس کی عبادت و بندگی کے حق میں کوئی آخر کس طرح شریک ہو سکتا ہے؟ سو انسان کی اپنی تخلیق اور اس کا اپنا وجود اور کائنات کے اس حکمتوں بھرے نظام کی ایک ایک چیز اپنی زبان حال سے پکار پکار کر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی یکتائی کا اعلان کرتی ہے سبحانہ و تعالیٰ۔

۲۳۔۔  یعنی اگر تم لوگ سچے ہو اپنے اس دعوے میں کہ یہ قرآن اللہ کا کلام نہیں، بلکہ انسان کا بنایا ہوا کلام ہے، تو پھر تم اس جیسی ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت ہی بنا لاؤ، اور سب مل کر اس کے لئے زور لگاؤ، اور کوشش کر کے دیکھ لو، لیکن اگر تم سب مل کر بھی اس جیسی ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت بھی بنا کر نہیں لا سکتے، اور اپنی تمام تر فصاحت و بلاغت کے باوجود تم اس سے عاجز ہو، اور یقیناً عاجز ہو، تو یہ اس بات کا بَیِّن اور واضح ثبوت ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے نہ کہ کسی بشر کا اور جس طرح اللہ تعالیٰ خود یکتا و بے مثال ہے اسی طرح اس کا اتارا ہوا کلام بھی یکتا اور بے مثال ہے۔ پس عقل و نقل دونوں کا تقاضا اور واضح اور بدیہی تقاضا ہے کہ تم لوگ اس کی عظمتوں کے آگے صدق دل سے جھک جاؤ اور اس پر، اور اس کے لانے والے پیغمبر پر صدق دل سے ایمان لے آؤ، اور اس طرح اپنے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا سامان کرو، ورنہ تمہارے لئے انتہائی ہولناک خسارہ ہے، والعیاذ باللہ العظیم

۲۵۔۔ سو جنت کی وہ نہریں ایسی عظیم الشان ہونگی کہ اس دنیا میں ان کی کوئی نظیر و مثال ممکن ہی نہیں، سو وہ نہریں جیسا کہ سورہ محمد کی آیت نمبر۱۵ میں تصریح فرمائی گئی ہے ایسے عظیم الشان پانی کی ہونگی جو کبھی خراب نہ ہو۔ اور ایسے عظیم الشان اور بے مثال دودھ کی ہونگی جس کا مزہ کبھی تبدیل نہ ہو، اور ایسی عظیم الشان اور بے مثال شراب کی ہونگی جو سراسر لذت ہو گی پینے والوں کیلئے، اور وہ نہریں ہونگی ایسے عظیم الشان شہد کی جس کو ہر طرح سے صاف کر دیا گیا ہو گا۔ اللہ نصیب فرمائے۔ اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے۔ اور زندگی کا ایک ایک لمحہ اپنی رضا  و خوشنودی کی راہوں میں صرف کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین، اور جنت کی ان عظیم الشان بے مثال اور اَبَدی نعمتوں سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ یہی کتاب حکیم قرآن مجید ہے، پس اس پر صدق دل سے ایمان لانا، اور اس کی تعلیمات مقدسہ کو صدق دل سے اپنانا دارین کی سعادت و سرخروئی کا ذریعہ و وسیلہ ہے ورنہ محرومی ہی محرومی ہے، والعیاذ باللہ العظیم

۲۔  ۔ سو خلود و دوام جنت کی ایک ایسی منفرد نعمت ہے جس کا اس دنیا میں پایا جانا ممکن ہی نہیں، وہاں پر یہ نعمت ہر جنتی کو نصیب ہو گی، کہ وہاں پر نہ ان کے لئے فناء ہو گی، اور نہ زوال، کہ یہ انعام ہو گا حضرت رب العالمین کی طرف سے، جو کہ اکرم الاکرمین اور ارحم الراحمین ہے، سبحانہ و تعالیٰ اللہ نصیب فرمائے۔ اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔

۲۶۔۔  اس ارشاد سے منکرین کے اس اعتراض کا جواب دیا گیا ہے کہ اللہ کو کیا لگے کہ وہ مکھی مکڑی اور مچھر جیسی حقیر چیزوں کا ذکر کرے۔ حالانکہ یہ اعتراض خود ان منکرین کی مت ماری کا ثبوت ہے، کیونکہ تمثیل سے اصل مقصود ممثل لہ، کی توضیح اور اس کی اصل حقیقت کو اجاگر کرنا ہوتا ہے، اس لئے کسی حقیر چیز کی توضیح و تحقیر کے لئے کسی حقیر چیز ہی کی مثال دینا ہی تقاضائے عقل و نقل ہے۔ اور پھر مکھی، مکڑی، اور مچھر جیسی چیزوں کو حقیر سمجھنا بھی ان لوگوں کی بھول اور ان کی مت ماری کا ثبوت ہے۔ کیونکہ اللہ کی مخلوق ہونے میں یہ لوگ اور یہ سب چیزیں باہم برابر ہیں تو پھر کسی ایک مخلوق کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ کسی دوسری مخلوق کو اپنے سے حقیر سمجھے؟ اور پھر ان چھوٹی چھوٹی مخلوقات میں قدرت کے جو عجائبات پائے جاتے ہیں ان میں غور کرنے سے انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے جیسا کہ علم الحیوانات کے ماہرین کی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے، اور مکھی وغیرہ کی یہ ننھی منی مخلوقات جو کام کرتی ہیں، وہ انسان اپنے تمام تر دعووں اور بڑھکوں کے باوجود نہ آج تک کر سکا ہے اور نہ قیامت تک کبھی کر سکے گا۔ مثلاً مکھی بیٹھتی ہے شیر کی آنکھ اور بادشاہ کی ناک پر تو کیا کوئی انسان کبھی اس کی جرأت کر سکتا ہے؟ اور پھر مکھی مچھر وغیرہ کی ان ننھی منی مخلوقات سے حساب کتاب اور جنت دوزخ کا کوئی سوال نہیں۔ جبکہ انسان نے اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا، اور اس کا بھرپور پھل پانا ہے۔ یا جنت کی اَبَدی نعمتوں کی شکل میں یا دوزخ کے اَبَدی عذاب کی صورت میں۔ والعیاذ باللہ العظیم، تو پھر ایسی صورت میں انسان کا ان چیزوں کو حقیر سمجھنا آخر کس طرح درست ہو سکتا ہے؟ سو ان معترضین کی مت ماری کا ثبوت ہے، والعیاذ باللہ

 ۲۔  کیونکہ ایسے فاسق اور بدکار لوگ ایمان جب لانا اور راہ حق و ہدایت کو اپنانا چاہتے ہی نہیں تو پھر ان کی ایمان سے سرفرازی آخر کیسے اور کیونکہ ممکن ہو سکتی ہے؟ جبکہ ایمان سے سرفرازی کے لئے اولین شرط طلب صادق ہے؟سو اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کے بناؤ بگاڑ کا اصل تعلق اس کے اپنے قلب و باطن سے ہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید،

۲۸۔۔  سو انسان کا خود اپنا وجود حضرت خالق جَلَّ مَجْدُہ، کی قدرت مطلقہ حکمت بالغہ اور اس کی رحمت شاملہ کا ایک عظیم الشان شاہکار ہے انسان اگر خود اپنے آپ ہی کو دیکھ لے، اور خود اپنے وجود ہی میں صحیح طریقے سے غور و فکر سے کام لے۔ تو اس کے لئے کفر و انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی اس لئے یہاں پر انسان کو خود اپنے آپ میں غور و فکر کی دعوت دی گئی کہ جس قادر مطلق نے تم لوگوں کو نیست سے ہست کیا، عدم سے وجود بخشا، پھر وہی تم کو موت دیتا ہے اور دیگا، اور وہی تم کو پھر زندہ کر کے اٹھائے گا۔ اور آخرکار بہرحال تم سب کو لوٹ کر اسی کے حضور جانا ہے، جہاں تم کو اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا صلہ و بدلہ پانا ہے تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہوں، مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ہماری بڑی تفسیرعمدۃ البیان فی مطالب القرآن والحمد للہ جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ

۳۰۔۔  زمین کا اصل حکمران چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے، اس لئے زمین کی اصلاح اور بہتری اس میں ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ ہی کا حکم اور قانون چلے، یہی خیر کی راہ، اور عقلِ سلیم اور فطرتِ مستقیم کا تقاضا ہے، انسان کی حیثیت اس میں حاکم کی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے نائب اور اس کے خلیفہ کی ہے، جس کا اصل کام اور ذمہ داری خداوندِ قدوس کے احکام کی تنفیذ ہے اس لئے زمین کا امن اور اس کی سلامتی اس میں ہے کہ اس کے ہر گوشے میں اللہ تعالیٰ ہی کا قانون چلے اور اسی کی حکمرانی رہے، بس اگر زمین کے کسی حصے میں اللہ تعالیٰ کی حکمرانی نہ رہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ زمین کے اس حصے میں بغاوت پھوٹ پڑی ہے، اور یہ چیز پوری زمین کے لئے خطرے کا الارم ہے، والعیاذُ باللہ، اور اس فساد فی الارض کا لازمی نتیجہ اور طبعی تقاضا سنگ دماء یعنی خونریزی ہے کیونکہ جب خداوند قدوس کا قانون عدل و قسط باقی نہیں رہے گا تو لازماً اس کی جگہ انسانوں کی خواہشات کا تسلط، اور ان کی حکمرانی ہو گی جس کے نتیجے میں جس کی لاٹھی اسی کی بھینس والا معاملہ ہو جائیگا، اور اس صورت میں کسی بھی انسان کی جان و مال اور اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی، سو قرآن حکیم کی اصطلاح میں فساد فی الارض کا مفہوم یہ ہے کہ زمین کا نظم و نسق اللہ تعالیٰ کے احکام و قوانین کے بجائے من مانے اور خود ساختہ احکام و قوانین کے مطابق چلایا جائے، اور خداوند قدوس کی ہدایات و تعلیمات کے بجائے اپنی اہواء و اغراض کی پیروی کی جائے، خواہ یہ زور زبردستی اور ظلم و عدوان کی صورت میں ہو، یا کسی خود ساختہ اور من گھڑت فکر و فلسفہ کی پیروی کی صورت میں، حاکم حقیقی یعنی اللہ وحدہٗ لاشریک کے احکام و قوانین سے اعراض و رُوگردانی بہرحال بغاوت اور فساد فی الارض ہے، والعیاذُ باللہ، اور فرشتوں نے اپنے اس اندیشے کا اظہار انسان کے خلیفہ ہونے کی بناء پر کیا، کیونکہ خلیفہ کے لفظ اور اس کے مفہوم کے اندر یہ چیز مخفی ہے کہ اس کو ایک حد تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے اختیارات تفویض کئے جائینگے، تو فرشتوں نے محسوس کیا کہ اختیارات کو صحیح طور پر اور اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا کوئی آسان کام نہیں، انسان اس اختیار کو پا کر بہک سکتا ہے، اور اس بہکنے کا نتیجہ زمین میں بدامنی و فساد اور سفک دماء و خوشنودی کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے، جبکہ ہم آپکی تسبیح و تقدیس کے لئے موجود ہیں تو ایسی صورت میں اس خلیفہ کو پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے، اور فرشتوں کا اس سے مقصد اعتراض کرنا نہیں تھا، بلکہ اس کی حکمت اور مصلحت معلوم کرنا تھا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم و ارشاد پر اعتراض کرنا ان کی سرشت ہی میں نہیں، کہ ان کی فطرت و شان یَفْعَلُوْنَ مَایُؤْمَرُوْنَ کی شان ہے، یعنی یہ کہ ان کو حضرتِ حق جَلَّ مَجْدُہ، کی طرف سے جو بھی حکم ملے ان کو پورے صدق و اخلاص کے ساتھ بجا لانا ہے، خواہ کوئی بھی اور کیسا بھی حکم و ارشاد ہو،

۳۶۔۔  یعنی دنیا میں تم لوگوں نے ہمیشہ کے لئے نہیں رہنا بلکہ ایک خاص مدت تک ہی رہنا ہے جو کہ تم لوگوں کو دراصل ابتلاء و آزمائش کے طور پر اور اختیار و امتحان کی غرض سے دی جائیگی۔ اگر اس میں تم لوگ کامیاب اُترے تو تمہیں پھر جنت کی اَبَدی اور سدا بہار نعمتوں سے نوازا جائے گا۔ اور جو اس امتحان میں ناکام رہے۔ والعیاذُ باللہ۔ تو ان کو پھر دوزخ کا ہولناک عذاب بھگتنا پڑے گا والعیاذُ باللہ

۳۷۔۔  ان کلمات سے مراد حضرت آدم کی وہ دعاء ہے جو رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا الخ کے کلمات کے ساتھ سورہ اعراف کی آیت نمبر۲۳ میں ذکر فرمائی گئی ہے، جو حضرت آدم کو حق تعالیٰ شانہ کی فیاضیوں سے بطور القاء و الہام تعلیم و تلقین فرمائی گئی تھی، جس میں ایک طرف تو اپنے جرم و قصور کا اقرار و اعتراف ہے، جس کو ظلم سے تعبیر فرمایا گیا ہے، اور دوسری طرف نہایت الحاح و زاری کے ساتھ مغفرت و رحمت کی دعاء و درخواست ہے۔ سو حضرتِ حق جَلَّ مَجْدُہ، نے حضرت آدم کی اس دعاء و درخواست کو شرفِ قبولیت سے نوازتے ہوئے آنجناب کی اس خطاء کو معاف فرما دیا۔ کہ وہ بڑا ہی توّاب اور مہربان ہے، سبحانہ و تعالیٰ۔

۳۹۔۔  سو اس سے حضرتِ آدم اور ان کی اولاد کے لئے دو راستوں کی نشاندہی فرما دی گئی ہے جن میں سے ایک اتباعِ ہُدی یعنی ہدایت خداوندی کی پیروی کا راستہ ہے جو کہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والا راستہ ہے، اور ایسے لوگوں کے لئے واضح فرما دیا گیا کہ ان پر نہ ماضی کا کوئی غم ہو گا، اور نہ مستقبل کا کوئی خوف و اندیشہ، جبکہ دوسرا راستہ جو کہ تکذیب و انکار حق کا راستہ ہے۔ وہ ہُدی کے بالمقابل ہَویٰ یعنی خواہشاتِ نفس کی پیروی کا راستہ ہے، اس کا نتیجہ و انجام دوزخ کی دہکتی بھڑکتی آگ ہو گا۔ جس میں ایسے لوگوں کو داخل ہونا ہو گا والعیاذُ باللہ جل وعلا

۴۰۔۔  سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ڈرنا صرف اللہ ہی سے چاہئیے، کہ ہر قسم کے نفع و نقصان کا مالک وہی وحدہٗ لاشریک ہے، پس اس کے سوا کسی اور کے ڈر کی وجہ سے یا کسی دنیاوی خوف و لالچ وغیرہ کی بناء راہ حق و ہدایت سے منہ موڑنا بڑے خسارے کا سودا ہے۔ اس لئے ایسے کسی خوف یا لالچ کی وجہ سے راہ حق سے ہٹنے کے بجائے، اللہ پر بھروسہ کر کے اسی پر ثابت قدم رہنا چاہیئے،

۴۲۔۔   سو دنیائے دُوں کے متاعِ فانی کی بناء پر نور حق و ہدایت سے منہ موڑنا اور اِعراض و روگردانی برتنا بڑے ہی خسارے کا سودا ہے۔ اور دولت حق و ہدایت کے مقابلے میں اور حق فروشی کے عوض دنیا ساری کی دولت بھی ہیچ اور صفر ہے۔ سو جو لوگ حق کے مقابلے میں دنیائے دُوں کے ثمن قلیل کو اپناتے ہیں وہ بڑے ہی خسارے کا سودا کرتے ہیں والعیاذ باللہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، اور نفس و شیطان ہر مکر و فریب سے محفوظ، اور ہمیشہ راہِ حق پر مستقیم و ثابت قدم رکھے، آمین

۴۳۔۔   سو اس سے نماز اور زکوٰۃ کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے کہ یہ دونوں عظیم الشان عبادتیں ہیں نماز جو کہ بدنی عبادات میں سب سے اہم ہے، اس سے بندے کا اپنے رب کے ساتھ صحیح تعلق قائم ہوتا ہے، اور اس سے اس کو وہ روحانی قوت ملتی ہے جس سے وہ راہ حق میں صبر و استقامت سے سرفراز ہوتا ہے۔ اور زکوٰۃ جو کہ مالی عبادات میں سب سے بڑی عبادت ہے، اس سے ایک طرف تو بندے کا قلب و باطن مال کی محبت سے پاک ہوتا ہے۔ اور اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص رحمتیں اور برکتیں نصیب ہوتی ہیں اور دوسری طرف اس سے خلق خدا کے ساتھ اس کا تعلق صحیح بنیادوں پر استوار ہوتا ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید، بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الْاَحوال، وَفِی کُلِّ مَوْطِنٍ مِّنَ المواطن فی الحیاۃ

۴۴۔۔  یعنی تم لوگوں کو عقل سے کام لینا اور اپنے نفع اور بھلے کے لئے سوچنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو عقل کی اس دولتِ بے مثال سے نوازا ہی اسی لئے ہے، بس تم نے اگر نورِ حق سے منہ موڑ کر جوہرِ عقل کو بطن و فرج کی خواہشات کی تحصیل و تکمیل میں لگا دیا تو تم بڑے ہی ہولناک خسارے میں پڑ جاؤ گے، کہ نور حق و ہدایت سے محرومی بڑی ہی ہولناک محرومی ہے والعیاذُ باللہ، مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہماری تفسیر المدنی الکبیر۔

۴۵۔۔  سو مدد تو ہمیشہ اور ہر حال میں اللہ ہی سے مانگنی چاہیے کہ مدد دینا اسی کا کام اور اسی کی شان ہے، اور حاجت روا اور مشکل کشا سب کا وہی وحدہٗ لاشریک ہے، سبحانہ و تعالیٰ، البتہ اس سے مدد مانگنے کے یہ دو بڑے ذریعے ہیں، یعنی صبر اور صلوٰۃ، پس تم لوگ ان دونوں کے ذریعے اس سے اس کی مدد مانگو۔ اس بارے میں مزید ضروری بحث کے لئے ہماری بڑی تفسیر کی طرف رجوع کیا جائے کہ وہ بڑی اہم ہے، والحمد للہ

۴۶۔۔  اور وہاں پہنچ کر ہم نے اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا، اور اس کا پھل پانا ہے۔ سو ایسے لوگوں کے لئے نماز بھاری نہیں ہوتی، بلکہ وہ ان کے لئے دلوں کے سکون کا ذریعہ اور آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان ہوتی ہے۔ سو عقیدہ آخرت ایک بڑا ہی روح پرور زندگی بخش۔ اور انقلاب آفریں عقیدہ ہے، والحمد للہ جل وعلا

۴۷۔۔  یعنی تمہارے اپنے دور میں، کہ اس دور میں عقیدہ توحید کے حامل اور علمبردار یہی لوگ تھے۔ اور امامت و پیشوائی کے منصب پر یہی لوگ فائز تھے۔ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ہماری بڑی تفسیر۔

۴۸۔۔   یعنی اس روز بچنے کی کوئی بھی صورت ممکن نہ ہو گی۔ کیونکہ کسی دوسرے کے کام آنے اور اس کی گلو خلاصی کے بالعموم یہی چار طریقے ہو سکتے ہیں، کہ یا تو انسان دوسرے کی جگہ اپنی جان پیش کر دے، یا کوئی سفارش کر کے اس کو چھڑا دے، یا اس کے لئے کوئی فدیہ اور معاوضہ پیش کرے، اور یا اپنے لشکر وغیرہ کے زور سے اس کو رہائی دلا دے۔ سو یہاں پر ان چاروں صورتوں کی نفی فرما دی گئی کہ ان میں سے کوئی بھی صورت اس دن کام نہیں دے سکے گی وہاں پر ہر کسی کو اس کا اپنا ایمان و عمل اور عقیدہ و کردار کام آئے گا اور بس، وباللہ التوفیق

۴۹۔۔   سو اس آیت کریمہ میں نَجَّیْنٰکُمْ کے ارشاد سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ نجات دھندہ اور حاجت روا و مشکل کشا سب کا اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے۔ حضرت موسیٰ جیسے جلیل القدر پیغمبر اور ان کی قوم بھی اللہ تعالیٰ ہی کی حاجت روائی و مشکل کشائی کے محتاج تھے۔ اور جب حضرت موسیٰ جیسے جلیل القدر پیغمبر اور ان کے ساتھی بھی حاجت روا و مشکل کشا نہیں، تو پھر اور کون ایسا ہو سکتا ہے؟ پس غلط کہتے اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں وہ لوگ جو اللہ کی عاجز مخلوق میں سے مختلف قسم کے حاجت روا اور مشکل کشا مان کر ان کو پوجتے پکارتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ بہر کیف اس سے بنی اسرائیل کو اس ہولناک عذاب اور اس سے رہائی کی یاد دہانی کرائی گئی، جو فرعون کی شکل میں، اور اس کی طرف سے ان پر مسلط تھا۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو نجات دلائی جو کہ ایک بڑا ہی ہولناک عذاب تھا،

۵۰۔۔  سو اس طرح اس ایک ہی واقعہ میں بنی اسرائیل کو کئی عظیم الشان انعامات سے نوازا گیا ایک یہ کہ خرقِ عادت کے طور پر ان کے لئے سمندر کو پھاڑ دیا گیا، جس سے ان کے لئے اس کے اندر خشک راستے نکل آئے۔ جس سے یہ آرام و سکون کے ساتھ پار ہو گئے۔ دوسرے یہ کہ وہی خشک راستے جو ان کی نجات کا ذریعہ بنے تھے فرعون کے لئے غرقابی کا باعث بن گئے۔ اور تیسرے یہ کہ فرعون جیسا دشمن اپنے لاؤ لشکر سمیت ان کے دیکھتے دیکھتے اور ان کی آنکھوں کے سامنے غرقاب ہوا۔ مگر اس سب کے باوجود یہ لوگ ناشکرے ہی رہے۔ والعیاذ باللہ العظیم

۵۱۔۔  کہ تم نے توحید سے آگہی اور عقیدہ توحید سے سرفرازی کے باوجود گوسالہ پرستی کے اس ہولناک جرم کا ارتکاب کیا، جو کہ جرم بالائے جرم، اور ظلم پر ظلم ہے۔ اس طرح تم لوگوں نے اپنے خالق و مالک کے حکم و ارشاد کی خلاف ورزی کر کے، اور توحید کے بجائے شرک کو اپنا کر اس کے حق میں ظلم کا ارتکاب کیا۔ اور تم نے اپنے پیغمبر کی واضح اور بالمشافہ تعلیم و تبلیغ کے باوجود شرک کا ارتکاب کر کے ان کے حق میں ظلم کیا۔ اور تم نے توحید کے بجائے شرک کو اپنا کر اور اپنے آپ کو جنت کی راہ سے محروم کر کے دوزخ کی راہ پر ڈال کر، خود اپنی جانوں کے حق میں ظلم کیا۔ سو تم لوگوں نے ظلم پر ظلم کا ارتکاب کیا، واقعی تم بڑے ظالم ہو العیاذُ باللہ۔

۵۲۔۔  یعنی تمہارے اس ہولناک جرم و قصور کے باوجود ہم نے تم سے عفو و درگزر ہی سے کام لیا۔ سو اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ تم لوگ اپنے خالق و مالک کے لئے سراپا شکر و سپاس بن جاتے۔ مگر تم لوگ ہو کہ پھر بھی اکڑے اور بگڑے ہی رہے، اور تم نے شکر و سپاس کے بجائے کفر و ناشکری ہی سے کام لیا۔ والعیاذ باللہ العظیم۔

۵۳۔۔  یعنی حق و ہدایت کا وہ راستہ جس پر چل کر تم لوگ دارین کی سعادت وسرخروئی سے بہرہ مند و سرفراز ہو سکو، کہ یہی چیز اصل مقصود ہے، ورنہ انسان اور حیوان کے درمیان کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ بلکہ نورِ حق و ہدایت سے محرومی کے بعد انسان شَرُّ الْبَرْیَۃَ یعنی بدترین مخلوق بن جاتا ہے۔ پس حق و ہدایت کی معنوی نعمت دوسری تمام ظاہری اور مادی نعمتوں سے کہیں بڑھ کر عظیم الشان نعمت ہے، سو اس سے واضح فرمایا گیا کہ ہم نے تم لوگوں کو اس سے بھی سرفراز کیا۔ مگر تم لوگ پھر بھی ناشکرے کے ناشکرے ہی رہے والعیاذُ باللہ۔

۵۴۔۔  پس اتنا بڑا تَوّاب اور مہربان کہ اس کی رحمت و عنایت کا کوئی کنارہ نہیں۔ سبحانہ و تعالیٰ، پس سچی توبہ پر وہ سب ہی گناہوں کو یکسر معاف فرما دیتا ہے۔ سو ہم نے تمہارے لئے توبہ اور مغفرت سیآت کا سامان کر دیا۔ تاکہ اس طرح تمہارا معاملہ یہیں صاف ہو جائے۔ اور تم آخرت کے عذاب سے بچ سکو۔

۵۵۔۔   تمہارے اپنے اس بیہودہ سوال اور مطالبے کی بناء پر، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں اور ان ظاہری اور مادی آنکھوں کے ساتھ دیکھنا کسی کے لئے ممکن نہیں، اس لئے کہ مخلوق کی ان مادی اور عاجز و محدود آنکھوں سے کسی مخلوق ہی کو دیکھا جا سکتا ہے اور بس، جبکہ حضرتِ خالق جَلَّ مَجْدُہ، کی ذات اقدس و اعلیٰ اس سے پاک اور دائرہ مخلوق سے وراء الواراء ہے، سبحانہ و تعالیٰ، اس کو صرف دل کی اور باطنی آنکھوں ہی سے دیکھا جا سکتا ہے، اور اس کو جاننے اور ماننے کا طریقہ وہی اور صرف وہی ہو سکتا ہے جو اس کے پیغمبر بتائیں جن کے پاس اس کی طرف سے وحی آتی ہے۔

۵۶۔۔   کہ شکر نعمت ایک حق واجب ہے۔ جو انسان پر اس کے منعم کے لئے طبعی تقاضا کے طور پر عائد ہوتا ہے۔ اور اسی میں بندے کا بھلا ہے، دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی۔ اور آخرت کے اس حقیقی اور اَبَدی جہاں میں بھی۔ اور اسی سے نعمت میں اضافہ ہوتا۔ اور اس کو دوام ملتا ہے۔ جبکہ کفرانِ نعمت باعث محرومی، اور موجب نکال اور عذاب شدید ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔

۵۷۔۔  سو حضرتِ خالق جَلَّ مَجْدُہ، کے حکم و ارشاد سے منہ موڑنے اور اس سے اعراض و روگردانی برتنے سے حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کا کچھ نہیں بگڑتا، کہ وہ ایسے تمام شوائب سے پاک اور اعلیٰ و بالا ہے۔ بلکہ اس کا نقصان خود اعراض کرنے والوں کو پہنچتا ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ والعیاذ باللہ العظیم، سو وہ جو کچھ فرماتا ہے وہ بندوں ہی کے بھلے کے لئے فرماتا ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ

۵۸۔۔  سو حِطّہ کا لفظ ان کے یہاں توبہ کے لئے استعمال ہوتا تھا اور سُجَّداً جو ساجد کی جمع ہے۔ اس سے یہاں پر مراد حقیقی سجدہ نہیں، کیونکہ حقیقی سجدے کی حالت میں دروازے میں داخل ہونا متعذّر ہوتا ہے، پس سجدے سے یہاں پر مراد ہے کہ جھکے ہوئے داخل ہونا، یا یہ حال مقدرہ کے قبیل سے ہے یعنی داخل ہونے پر سجدہ ریز ہو جانا ہم نے ترجمہ کے اندر پہلے قول و احتمال کا لحاظ کیا ہے۔ بہر کیف اس میں شکرِ نعمت کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے۔ یعنی زبان سے بھی اللہ تعالیٰ کے شکر کا اظہار ہو، اور عمل سے بھی، کہ شکرِ نعمت تقاضائے عقل و فطرت بھی ہے۔ اور عنایاتِ خداوندی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ بھی، وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ و یرید وعلی ما یحب و یرید۔

۵۹۔۔  سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ معاصی و ذنوب کی پوری سزا اگرچہ آخرت ہی میں ملے گی۔ کہ دارالجزء وہی ہے اور یہ دنیا دار العمل، اور دارالابتلاء ہے، لیکن ان کی کچھ نہ کچھ سزا اس دنیا میں بھی انسان کو ملتی ہے۔ جیسا کہ نیکیوں کا پورا صلہ و بدلہ انسان کو آخرت ہی میں ملے گا، اور وہیں مل سکتا ہے، لیکن ان کا کچھ نہ کچھ صلہ و بدلہ کسی نہ کسی شکل میں اس دنیا میں بھی ملتا ہے، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اعمالِ صالحہ اور خیر ہی کی توفیق بخشے، اور ہر قسم کے معاصی و ذنوب سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین، یہاں پر مِنَ السَّمَآءِ (آسمان سے) کی قید سے اس عذاب کی بے پناہی کی طرف اشارہ فرما دیا گیا ہے کہ اس عذاب کو روکنا اور اس کو ٹالنا کسی کے بس میں نہیں تھا۔ والعیاذ باللہ جل وعلا

۶۰۔۔  یعنی کفر و شرک کے ارتکاب سے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کر کے، کیونکہ کفر و شرک کا ارتکاب اور معاصی و ذنوب دراصل فساد فی الارض ہیں، پس صحت و سلامتی کی راہ اور زمین کی صلاح و اصلاح عقیدہ توحید اور ایمان و اطاعت خداوندی ہی میں ہے اور بس، پس جو لوگ ایمان و یقین کی دعوت اور عقیدہ توحید کی تعلیم و تبلیغ کے لئے کام کرتے ہیں، حقیقت میں وہی ہیں مصلح اور انسانیت کے سچے اور حقیقی خیر خواہ وباللّٰہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید،

۶۱۔۔ یعنی من وسلویٰ کی وہ آسمانی خوراک جو تم لوگوں کو براہ راست حضرتِ حق جَلَّ مَجْدَہ، کی طرف سے ملتی ہے کہ وہ نہایت پاکیزہ بھی ہے، اور اس میں بڑی عزت و اکرام بھی ہے، کہ وہ تم لوگوں کو رب العالمین کی طرف سے ایک عظیم الشان خوان شاہی کے طور پر ملتی ہے سو اس سے منہ موڑ کر دال ساگ اور کھیرے ککڑیوں جیسی زمینی خوراک کا مطالبہ کرنا، کتنے گھٹیا پن کا مظاہرہ اور کس قدر خسارے کا سودا، اور کیسی بڑی ناشکری ہے، والعیاذ باللّٰہ جل وعلا مِنْ کُلِّ زَیْغٍ

۲۔ یعنی وہ حق و ہدایت سے سرفرازی کے ایسے منہل صافی پر پہنچے تھے کہ اگر راہ حق و ہدایت کو اپناتے تو دارین کی سعادت و سرخروئی، سے بہر مند و سرفراز ہوتے، اور اَبَدی بادشاہی کے حقدار قرار پاتے۔ مگر انہوں نے اسی کے برعکس اعراض و روگردانی سے کام لیکر، اور راہِ حق و ہدایت سے منہ موڑ کر اپنے لئے ہولناک ذلت و رسوائی کا سامان کیا، اور اللہ تعالیٰ کے بڑے ہی ہولناک غضب کے ساتھ لوٹے۔ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ اور زیغ و ضلال کی ہر شکل سے اپنے حفظ و امان میں رکھے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے محفوظ، اور صراطِ مستقیم پر ثابت قدم رکھے، آمین ثم آمین

۳۔ اور اللہ کے نبیوں کو قتل کرنا ایک نہایت ہی سنگین اور انتہائی ہولناک جرم ہے، کیونکہ حضرات انبیائے کرام کا وجود قدرت کی ایک عظیم الشان رحمت و عنایت کا مظہر ہوتا ہے، اور وہ خلق خدا کے لئے مینارہ رُشد و ہدایت ہوتے ہیں اس لئے ان کو قتل کرنا اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان رحمت و عنایت کی انتہائی بے قدری اور ناشکری بھی ہے اور خلق خدا کو نور حق و ہدایت سے محروم کر کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں دھکیلنے کے جرم کا ارتکاب بھی۔ اور ظاہر ہے کہ اس اعتبار سے قتل انبیاء کے اس جرم کی سنگینی کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اسی لئے صحیح حدیث میں وارد ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے روز سب سے زیادہ عذاب اس شخص کو ہو گا جس نے کسی نبی کو قتل کیا ہو یا جو کسی نبی کے ہاتھوں قتل ہوا ہو، والعیاذُ باللہ العظیم۔

۴۔  سو اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ چھوٹے گناہوں کا ارتکاب شدہ شدہ انسان کو بڑے مہالک تک پہنچا دیتا ہے، والعیاذ باللہ، چنانچہ یہاں پر یہود کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا، کہ یہ لوگ نافرمانی کرتے اور رب کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرتے تھے۔ جس کے نتیجے میں یہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرنے لگے، اور اللہ کے نبیوں کو ناحق طور پر قتل کرنے کے انتہائی سنگین جرم کے مرتکب ہوئے، اور بالآخر ان پر ہمیشہ کے لئے ذلت و رسوائی کا ٹھپہ لگا دیا گیا، اور یہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رسوا اور ذلیل و خوار ہو گئے اسی لئے حضرات علماء کرام فرماتے ہیں المعاصی بَرِیْدُ الکفر کہ گناہ کفر کا راستہ ہیں، والعیاذ باللہ جَلَّ وَعَلَا۔

۶۲۔۔  سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں قبولیت کا مدار حسب و نسب وغیرہ جیسے کسی خود ساختہ معیار پر نہیں، جیسا کہ بہت سے گمراہ لوگوں کا کہنا رہا ہے۔ پہلے بھی تھا، اور اب بھی ہے۔ اور جس کے نمونے جا بجا اور طرح طرح سے پائے گئے ہیں، اور پائے جاتے ہیں، چنانچہ یہود و نصاریٰ کا کہنا تھا نَحْنُ اَبْنَاءُ اللّٰہِ وَاَحِبَّاءُ ، یعنی ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں، پس ہم جو چاہیں کریں، ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ جنت میں ہمارے سوا کوئی داخل ہو ہی نہیں سکے گا، لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلاَّ مَنْ کَانَ ہُوْدًا اَوْنَصَاریٰ، سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اس طرح کا کوئی بھی معیار و مدار نہ معتبر ہے نہ ہو سکتا ہے۔ بلکہ وہاں کا معاملہ انسان کے اپنے ایمان و عمل پر ہے، سو جو بھی کوئی سچے دل سے ایمان لائے گا وہ اپنے رب کے یہاں اس کا صلہ و بدلہ پائے گا۔ خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کہیں کا بھی ہو۔ اسی لئے قرآن صاف طور پر کہتا ہے مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَآءَ فَعَلَیْہَا، یعنی جس نے نیک کام کیا اس نے اپنے ہی لئے کیا اور جس نے برائی کی اس کا وبال بھی خود اسی پر پڑے گا۔ والعیاذ باللہ العظیم، پس انسان کی نجات اور اس کی فوز و فلاح کا مدار و انحصار اس کے اپنے ایمان و عمل میں ہے،

۶۵۔۔  یعنی حسی اور ظاہری طور پر تم لوگ ایسے بن جاؤ یا معنوی اور باطنی طور پر دونوں ہی قول و احتمال موجود ہیں ہم نے اپنی تفسیر عمدۃ البیان المعروف تفسیر المدنی الکبیر میں اس بارے ضروری تفصیل پیش کر دی ہے۔ اس کے لئے اسی کی طرف رجوع کریں۔ اللہ تعالیٰ ہر قسم کے زیغ و ضلال سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین

۶۶۔۔   کیونکہ سبق ہمیشہ ایسے ہی لوگ لیتے ہیں جو اپنے اندر خدا کا خوف رکھتے ہیں۔ ورنہ جو لاپروا اور بے فکر ہوتے ہیں، ان کے لئے کسی بھی چیز میں نہ کوئی درس ہوتا ہے نہ عبرت، پس خوفِ خدا رکھنے والوں اور عبرت پکڑنے والوں کے لئے ان لوگوں کے اس قصے میں بڑا سامان عبرت و بصیرت تھا اور ہے کہ اللہ کے قانون کو توڑنے والوں اور اس کی مقرر کردہ حدود سے تجاوز کرنے والوں کا انجام کتنا بھیانک اور کس قدر ہولناک ہوتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین

۶۷۔۔  سو یہ بدبختی اور فقدانِ ایمان کا نتیجہ و ثمرہ ہے کہ پیغمبر کے حکم و ارشاد کے جواب میں انہوں نے ان سے اس طرح کہا کہ آپ ہم سے مذاق کرتے ہیں، حالانکہ پیغمبر کی شان اس سے بہت اعلیٰ و ارفع ہوتی ہے کہ وہ اس طرح کے کسی سنجیدہ سوال کے جواب میں مذاق اڑائے، اور بات کو اس طرح ٹال کر آئی گئی کر دے۔ ان کا تو ہر قول و فعل کانٹے کے قول پر تُلا ہوا ہوتا ہے، اور ان کا کام اور ان کی شان ہر موقع پر اور ہر حال میں راہ حق و ہدایت کی راہنمائی کرنا ہوتا ہے۔ اسی لئے ان لوگوں کی اس بات کے جواب میں حضرت موسیٰ نے ان سے فرمایا کہ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں جاہلوں میں سے ہوں جاؤں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔

۶۸۔۔  سو ایمان و یقین کی قلت اور اس کے فقدان کی بناء پر ان لوگوں نے پھر بھی پیغمبر کے حکم و ارشاد پر عمل کرنے کے بجائے قیل و قال اور حیل و حجت ہی سے کام لینا شروع کر دیا۔ بہرکیف پیغمبر نے ان کے اس سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا کہ وہ گائے نہ بہت بوڑھی ہو، اور نہ بالکل بچھیا، بلکہ ان دونوں کے درمیان اوسط عمر کی ہو، پس تم لوگ قیل و قال اور حیل و حجت کے بجائے وہ کام کرو جو تمہارے کرنے کا ہے، اور جس کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے۔ کہ یہی تقاضا ہوتا ہے ایمان کا، اور پیغمبر سے پوچھنے اور سوال کرنے کا، اور پیغمبر کے حکم و ارشاد کی اطاعت و اتباع ہی میں بھلا اور فائدہ ہوتا ہے ہر کسی کا، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید،

۶۹۔۔  یعنی انہوں نے اپنے پیغمبر کی اس تنبیہ و توجیہ کے باوجود آنجناب کے حکم ارشاد پر عمل کرنے کے بجائے اس گائے کے رنگ کے بارے میں مزید سوال کیا۔ اور اس طرح انہوں نے اپنے دائرہ آزادی کو مزید تنگ کر دیا، اور یہی نتیجہ ہوتا ہے بے مقصد اور لایعنی سوالات کا، اسی لئے قرآن مجید میں دوسرے مقام پر ایسے لایعنی اور بے مقصد سوال کرنے سے منع فرمایا گیا، ارشاد ہوتا ہے، اور ایمان والوں کو خطاب کر کے ارشاد ہوتا ہے، یَااَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْالَاتَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآءَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ الایۃ (المائدہ، ۱۰۱) سو اس آیت کریمہ میں ایمان والوں کو ایسے بے مقصد اور غیر ضروری سوالات سے صاف اور صریح طور پر منع فرما دیا گیا، والعیاذ باللہ، اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین

۷۱۔۔  بہرکیف ان کے اس سوال پر پیغمبر نے ان کو اس گائے کا رنگ بھی بتا دیا جو کہ ان لوگوں کے یہاں گائے کا سب سے عمدہ رنگ سمجھا جاتا تھا۔ سو ایمان و یقین کی قوت اور اس کی روشنی سے محرومی کے باعث ان لوگوں نے پیغمبر کی بات پر عمل کرنے کے بجائے پھر ان سے کہا کہ گایوں کا معاملہ چونکہ ہم پر مشتبہ ہو رہا ہے اس لئے ان لوگوں کو اس گائے کی کچھ اور صفات بتا دیں۔ اور اس طرح انہوں نے اپنی قیل و قال سے اپنے لئے دائرہ اور تنگ کر دیا، کیونکہ ایسی اور ایسی صفات کی گائے کا ان کے لئے ملنا مشکل ہو گیا، حدیث شریف میں وارد ہے کہ اگر وہ لوگ اپنے پیغمبر کے قول و ارشاد کے مطابق کوئی بھی گائے لیکر ذبح کر دیتے تو ان کا کام بن جاتا۔ مگر انہوں نے اپنی قیل و قال سے اپنا دائرہ خود تنگ کیا سو آخرکار انہوں نے اس طرح کی ایک گائے کو تلاش بسیار کے بعد حاصل کر کے ذبح کر دیا۔ اور ان کے دل و دماغ میں قیام مصر کے دوران مصری مشرکوں کے میل جول سے گائے کے بارے میں تقدس اور اس کی پوجا سے متعلق جو جراثیم پیدا ہو گئے تھے، ان کو ختم کرنے کے لئے گائے کو خود ان کے ہاتھوں سے ذبح کرایا گیا۔ کہ جس کو وہ معبود مانتے۔ اور اس کو مقدس جانتے تھے۔ بس تو خود اپنے ہاتھوں ذبح کر دیا۔

۷۳۔۔  یعنی تم لوگوں کو عقل سے کام لینا چاہیے تاکہ تم قدرت کی ان نشانیوں سے سبق لے سکو، اور ان میں غور و فکر سے کام لیکر تم راہ حق و ہدایت کو اپنا سکو۔ اور اس کے نتیجے میں تم لوگ دارین کی سعادت و سرخروئی سے فیض یاب و سرفراز ہو سکو، سو اس میں سراسر تمہارا اپنا ہی بھلا و فائدہ ہے۔

۷۴۔۔  جس کے نتیجے میں ان میں حق و ہدایت کی کسی صدا و پکار کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا۔ سو قسوتِ قلوب یعنی دلوں کی سختی بیماریوں کی بیماری اور محرومیوں کی محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ محفوظ رکھے۔ آمین

۲۔  سو پتھروں کے اندر بھی تاثر اور اثر پذیری کی یہ مختلف صورتیں ظاہر ہوتی ہیں، کہیں ان سے پھٹ کر نہریں نکلتی ہیں، جن سے دنیا طرح طرح سے مستفید و فیض یاب ہوتی ہے۔ اور کہیں ان کے پھٹنے سے چھوٹے پیمانے پر پانی نکلتا ہے، جس سے لوگ مختلف قسم کے فائدے اٹھاتے ہیں اور کہیں یہ اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں، اور اس طرح یہ اپنی زبانِ حال سے اپنے خالق و مالک کے حضور جھکنے اور سجدہ ریز ہونے کا درس دیتے ہیں، مگر تم لوگ ہو کہ تمہارے دل ان پتھروں سے بھی زیادہ سخت ہو گئے نہ وہ کسی طرح پسیجتے ہیں، اور نہ ان میں حق و صداقت اور خیر و اصلاح کی کسی بات کا کوئی اثر ہوتا ہے۔ والعیاذ باللہ جل وعلا

۳۔  سو اللہ غافل و بے خبر نہیں تمہارے ان کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو۔ بلکہ وہ سب کچھ اس کے سامنے ہے جو لوگ کرتے ہو۔ پس وہ اگر اپنے حِلمْ و کرم کی بناء پر تم لوگوں کو فوراً پکڑتا نہیں، تو اس سے تمہیں کبھی دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیئے، کہ یہ بہرحال ایک ڈھیل ہے جو اس کی طرف سے تم لوگوں کو مل رہی ہے، جس نے بالآخر ختم ہو جانا ہے۔ اور آخرکار تم لوگوں کو اپنے کئے کرائے کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہے۔ اس سے تم کبھی بچ نہیں سکو گے، اس لئے تم لوگ ہوش کے ناخن لو۔ قبل اس سے کہ اس کا موقع تمہارے ہاتھ سے نکل جائے۔ اور تمہیں ہمیشہ کے لئے پچھتانا پڑے۔ والعیاذ باللہ،جَلَّ وَعَلَا بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الاحوال

۷۵۔۔   یعنی ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ اللہ کے اس کلام کا اصل اور صحیح مطلب کیا ہے نیز یہ بھی کہ جو مطلب یہ لوگ اس کا بتا رہے ہیں وہ اس کے خلاف اور غلط ہے، اور یہ وہ بھی جانتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بدلنا اور جان بوجھ کر بدلنا کتنا بڑا جرم ہے، مگر اس سب کے باوجود یہ لوگ اس سنگین جرم کا ارتکاب کرتے ہیں، تو پھر ایسوں سے کسی خیر کی کوئی توقع آخر کس طرح رکھی جا سکتی ہے؟ تو پھر تم لوگ اے ایمان والو ! ان سے ایمان کی توقع کیسے اور کیونکر رکھتے ہو؟ یعنی ان سے کسی خیر کی اور خاص کر ایمان لانے کی توقع رکھنا عبث اور بےسود و لاحاصل ہے، والعیاذ باللہ جل وعلا

۷۶۔۔   سو اس سے ان لوگوں کی حماقت اور مت ماری کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ کہ یہ لوگ اپنے لوگوں سے کہتے ہیں کہ کیا تم لوگ ایمان والوں کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تاکہ اس بنا پر وہ تمہارے خلاف تمہارے رب کے یہاں حجت قائم کریں؟ یعنی تم ایسا نہ کرو۔ تاکہ اس طرح یہ تمہارے خلاف تمہارے رب کے یہاں حجت نہ قائم کر سکیں، والعیاذ باللہ

۷۷۔۔  سو جب اللہ تمہاری ظاہر کردہ اور پوشیدہ باتوں کو ایک برابر جانتا ہے تو پھر اس سے تمہارا اپنی کسی بھی بات کو کسی بھی طرح چھپانا آخر کیونکر ممکن ہو سکتا ہے؟ اور تم لوگ اسطرح کے خبط اور گمراہ کن خیال میں آخر کیوں مبتلا ہو۔ تمہاری مت کہاں اور کیوں ماری گئی۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم، بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الاحوال

۷۹۔۔  اور جب اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا ساری کی حیثیت بھی مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں جیسا کہ صحیح حدیث میں حضرت نبی معصوم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مروی و منقول ہے، کہ اگر اللہ تعالیٰ کے یہاں دنیا ساری کی حیثیت مچھر کے ایک پرکے برابر بھی ہوتی، تو اللہ تعالیٰ کسی کافر کو پانی کا ایک گھونٹ بھی نہ پلاتا۔ تو پھر اس میں سے کچھ ٹکوں کی حیثیت کیا ہو سکتی ہے؟ اور وہ بھی حق فروشی کے عوض اور اس کے بدلے میں؟ سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جو لوگ دنیائے دُوں کے کچھ ٹکوں کے عوض حق فروشی کے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں وہ اپنے لئے کس قدر ہولناک خسارے کا سامان کرتے ہیں۔ العیاذُ باللہ العظیم۔

۸۰۔۔  سو اللہ تعالیٰ کے ذمے ایسی بے بنیاد بات لگانا جو اس نے فرمائی نہ ہو، بڑا ہی سنگین جرم، اور انتہائی ہولناک خسارے کا باعث ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے امن و امان میں رکھے، اور ہمیشہ اور ہر حال میں راہِ حق و صواب پر مستقیم و ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشے، آمین ثم آمین

۸۲۔۔  سو اس ضابطہ عام اور قاعدہ کلیہ سے واضح فرما دیا گیا کہ آخرت میں نجات اور نعیم جنت سے سرفرازی کا مدار و انحصار حسب و نسب جیسی کسی غیر اختیاری چیز پر نہیں، بلکہ انسان کے اپنے ایمان و عمل اور عقیدہ و کردار پر ہو گا، جو لوگ ایمان صادق اور عمل صالح کی دولت رکھتے ہونگے وہ جنت کی سدا بہار نعمتوں سے بہرہ مند و سرفراز ہونگے۔ خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں کے بھی ہوں، اور کسی بھی قوم قبیلے اور رنگ ونسل سے تعلق رکھتے ہوں، اور ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وہاں رہنا نصیب ہو گا۔ اور جو اس دولت سے محروم رہے ہونگے، والعیاذ باللہ ان کا ٹھکانا دوزخ ہو گا جس میں ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہنا پڑے گا، خواہ وہ کوئی بھی ہوں، اور کہیں کے بھی ہوں، والعیاذ باللہ جل وعلا بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ

۸۳۔۔  سو بنی اسرائیل سے لئے گئے اس عہد میں سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حق کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ سب سے پہلا سب سے بڑا اور سب سے مقدم حق اسی وحدہٗ لاشریک کا ہے کہ وہ اس ساری کائنات کا بلا شرکت غیرے خالق و مالک بھی ہے اور اس میں حاکم و متصرف بھی، اور اسی کا حق ہے اس کی عبادت و بندگی اور اس کی اطاعت مطلقہ اس کے بعد مخلوق میں سب سے پہلا اور بڑا حق والدین کا بیان فرمایا گیا ہے کہ انسان کے اس دنیا میں وجود و بروز کا ذریعہ و وسیلہ وہی ہیں۔ اور اس کی پرورش بھی ان ہی کے ذریعے ہوتی ہے اور ان کی محبت و شفقت بھی ایسی کامل اور بے مثال ہوتی ہے جو اور کسی میں نہیں ہو سکتی، اسی لئے قرآن حکیم میں کئی جگہ اللہ تعالیٰ کے حق کے متصل باپ کا حق ذکر فرمایا گیا ہے جس سے اس کی اہمیت اور عظمت واضح ہو جاتی ہے، اور ان کا حق حسن سلوک ہے۔ مگر بنی اسرائیل نے اس کے باوجود اس عہد خداوندی کی خلاف ورزی کی۔ کہ ان کی عادت اور وطیرہ ہی یہی ہے۔ اور اس کا بھگتان کو بھگتنا پڑا۔ اور بڑے ذلت آمیز اور رسوا کن انداز میں بھگتنا پڑا۔ سو اللہ تعالیٰ سے باندھے ہوئے عہد و پیماں کو توڑنے کا نتیجہ و انجام بڑا ہولناک ہوتا ہے۔ والعیاذ باللہ جل وعلا۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین

۸۴۔۔  اسلام سے پہلے مدینہ منورہ میں اوس و خزرج کے دو عرب قبیلے آباد تھے، جو آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے، اور ان کے درمیان جنگ و جدال کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا تھا۔ ادھر یہود کے بھی وہاں پر تین قبیلے آباد تھے بنو قینقاع بنو قریظہ، اور بنو نضیر، اور ان میں سے یہود بنو قینقاع قبیلہ اوس کے حلیف تھے، اور اپنے بھائیوں یعنی بنو قریظہ کے دشمن، اور یہود بنو نضیر عربوں کے قبیلہ خزرج کے حلیف تھے اور اپنے بھائیوں کے دشمن سو جب اوس اور خزرج کی آپس میں جنگ ہوتی تو یہودی بھی اپنے اپنے حلیفوں کے ساتھ شامل ہو کر اپنے یہودی بھائیوں کے خلاف لڑتے، اور اس طرح وہ اپنے قومی بھائیوں کے قتل و خونریزی کے مرتکب ہوتے، اور جب ان کے پاس اپنے دوسرے بھائیوں کے کچھ لوگ قیدی ہو کر آتے تو یہ ان کو فدیہ دے کر چھڑاتے، اور کہتے کہ اپنے بھائیوں کو قید سے چھڑانا ہم پر ضروری اور لازم ہے، حالانکہ ان سے جو عہد لیا گیا تھا اس کے بموجب ان کو ان کے گھروں سے نکالنا ہی سرے سے ان پر حرام تھا۔ سو یہاں ان کے اسی رویے پر تبصرہ فرمایا گیا ہے۔ اور ان کی اس پر سرزنش فرمائی گئی۔

۸۵۔۔ یعنی جو بات تمہاری مرضی اور خواہش کے مطابق ہوئی اس کو تو مان لیا، اور جو اس کے خلاف ہوئی اس کو نہ مانا۔ سو یہ حق اور ہدایت کی پیروی نہ ہوئی بلکہ اپنی مرضی اور خواہش کی پیروی ہوئی۔ اور حق و ہدایت کے مقابلے میں اپنی مرضی اور خواہش کی پیروی ایمان نہیں کفر ہے اور یہ حق پرستی نہیں بلکہ خواہش پرستی ہے افسوس کہ یہ مرض آج بہت سے مسلمانوں کے اندر بھی موجود ہے، بلکہ نام کے مسلمانوں کی اکثریت اس کے اندر مبتلا ہے، والعیاذ باللہ جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال۔ 

۲۔  سو اس سے اس اصولی اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ دین کے کچھ حصوں کو ماننا اور کچھ کا انکار کرنا کفر ہے۔ اور ایسے لوگوں کے لئے اس دنیا میں بھی بڑی رسوائی ہے۔ اور آخرت میں ایسوں کو سخت ترین عذاب کی طرف لوٹایا جائے گا۔ والعیاذ باللہ۔ افسوس کہ یہودی کفر و انکار کا یہ نمونہ آج کے مسلمانوں کے اندر بھی نہ صرف موجود ہے، بلکہ پوری طرح موجود ہے۔ دین حنیف کے کتنے ہی ایسے اصولی اور بنیادی احکام و ارشادات اور صریح اور واضح تعلیمات ہیں جن کی علی الاعلان اور کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے، اللہ کے سوا کسی اور کی پوجا و بندگی حرام ہے۔ مگر آج کے مسلم معاشرے میں جگہ جگہ غیر اللہ کے آگے سجدہ کئے جا رہے ہیں۔ آستانوں اور جبوں قبوں کے گرد طواف کئے جا رہے ہیں، اور پھیرے مانے جا رہے ہیں، غیر اللہ کے نام کی نذریں اور نیازیں مانی اور دی جا رہی ہیں، خلافِ اسباب غیر اللہ کو حاجت روائی و مشکل کشائی کے لئے پکارنا نصوص صریحہ کے ذریعہ ممنوع اور حرام ہے، مگر یہ کام دھڑے سے کیا جا رہا ہے اور اٹھتے بیٹھتے طرح طرح کے ناموں سے غیر اللہ کو پوجا پکارا جا رہا ہے۔ سود جوا اور سٹے بازی نصوص صریحہ کے ذریعے ممنوع و حرام ہے۔ مگر اس کے باوجود یہ سب کام اعلیٰ الاعلان ہو رہے ہیں غیر محرم عورتوں کو دیکھنا اور دکھانا حرام ہے۔ مگر ایسے سب کام پورے عروج پر ہیں وغیرہ وغیرہ والعیاذ باللہ۔ اور حق بات کو سننے ماننے کے بجائے الٹا ان لوگوں کو کوسا جا رہا ہے جو ان طرح طرح کی محرمات سے روکتے اور ان سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ فالی اللہ المشتکی۔ وہو المستعان۔

۸۸۔۔  سو اس سے یہود بے بہبود کے اصل روگ اور اس کی علت کو واضح فرما دیا گیا، سو ان کی محرومی کا اصل سبب اور ان کا روگ اور بیماری تھی ان کا عجب و استکبار، اور عناد و ہٹ دھرمی، یعنی یہ لوگ اس زعم اور گھمنڈ میں مبتلا تھے کہ ہم کوئی بڑی چیز ہیں ہمیں کسی کی ہدایت و راہنمائی کی ضرورت نہیں، اسی لئے ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دل بند ہیں۔ پس ان میں کسی کی کوئی بات اثر نہیں کر سکتی اور ہمیں کسی کی بات سننے اور ماننے کی کوئی ضرورت نہیں، غُلْف کے لفظ کے معنی و مطلب میں دو احتمال ہیں ایک یہ کہ یہ اَغْلَف کی جمع ہو، جیسے اَحْمَر کی جمع حُمْر، سو اوپر والا معنی و مطلب جس کو ترجمہ کے اندر بھی اختیار کیا گیا ہے۔ اسی قول و احتمال پر مبنی ہے، جبکہ دوسرا احتمال اس میں یہ بھی ہے کہ یہ غِلاف کی جمع ہو جیسے کتاب کی جمع کُتُب سو اس صورت میں اس کا معنی و مطلب ہو گا کہ ہمارے دل علم سے بھرے ہوئے ہیں، ہمیں کسی اور کی بات سننے اور ماننے کی ضرورت نہیں، سو ان دونوں ہی صورتوں میں ان کے عجب و استکبار اور عناد و ہٹ دھرمی کا پتہ چلتا ہے اور یہی چیز ان کی محرومی کا باعث ہے والعیاذُ باللہ العظیم۔

۸۹۔۔ یعنی یہ لوگ اس طرح کی دعائیں مانگا کرتے تھے کہ وہ نبی آخر الزمان تشریف لائیں، تو ہم ان کے جھنڈے تلے جمع ہو کر کفار و مشرکین سے لڑیں۔ اور ان سے اپنا انتقام اور بدلہ لیں۔ چنانچہ حضرت قتادہ اس سے متعلق کہتے ہیں کہ یہ لوگ کہا کرتے تھے اِنَّہ، سَیَأتِیْ نَبِیٌّ یعنی وہ نبی موعود ومُنْتَظَر عنقریب ہی آنے والے ہیں اور اسی بناء پر یہ لوگ مشرکوں سے کہا کرتے تھے قَدْ اَظَلَّ زَمَانُہ، یَقْتُلُکمْ قَتْلَ عَادٍ وَّاَرِمِ یعنی اس نبی آخر الزمان کی بعثت و تشریف آوری کا زمانہ قریب ہی آ لگا ہے، وہ آکر تم لوگوں کا اس طرح صفایا کر دیں گے، جس طرح عاد اور آدم کا صفایا کیا گیا ہے۔ لیکن جب وہ پیغمبر تشریف لائے تو یہ لوگ ان کے منکر ہو گئے (ابن کثیر، مراغی، وغیرہ) اس کی مزید تفصیل جاننے کے لئے ہماری بڑی تفسیر تفسیر المدنی الکبیر کی طرف رجوع کریں۔

 ۲۔ کہ انہوں نے حق کو پہچاننے اور اس کے واضح ہو جانے کے باوجود اس کا انکار کیا اور ایمان کے بجائے کفر کو اپنایا اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ رات کے اندھیرے میں کوئی اگر ٹھوکر کھائے تو اس کے لئے تو عذر اور معذوری کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن جو دن کے اجالے اور کھلی روشنی میں جانتے بوجھتے ہلاکت و تباہی کے کسی کھڈے میں گرے اس کے لئے کسی عذر و معذرت کی کوئی گنجائش آخر کس طرح ہو سکتی ہے؟ سو ان لوگوں کی مثال ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی دن کی روشنی میں ہلاکت کے گہرے کھڈے میں چھلانگ لگائے ۔، والعیاذ باللہ العظیم

۹۰۔۔  اور یہ اس لئے کہ ان کافروں نے اپنے عجب و استکبار اور کبر و غرور کی بناء پر حق سے روگردانی برتی اس لئے ان کو ان کے کبر و غرور کی پاداش میں ذلت و رسوائی کا عذاب بھگتنا پڑے گا کہ جزاء جنس عمل سے ہوتی ہے العیاذ باللہ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت میں رکھے۔ سو عُجْب واستکبار یعنی اپنی بڑائی کا زعم و گھمنڈ محرومیوں کی محرومی، اور ہلاکت و تباہی کا باعث ہے، اس کے برعکس عبدیت وا نابت، اور سمع و طاعت کی خو وسیلہ سرفرازی ہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ

۹۱۔۔  سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ تم لوگ اپنے ایمان کے دعوے میں سچے نہیں ہو، بلکہ تم اس میں بالکل جھوٹے ہو۔ ورنہ تم اللہ کے نبیوں کو اس طرح قتل نہ کرتے، سو تمہارا عمل و کردار تمہارے دعوی ایمان کی تردید کا کھلا ثبوت ہے والعیاذ باللہ۔

۹۲۔۔ یعنی ایسے کھلے اور واضح دلائل کے ساتھ جن سے حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا پوری طرح واضح ہو جاتا تھا۔ اور حق کے بارے میں کسی شک و شبہہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی تھی لیکن تم لوگوں نے اپنی بدبختی کی بنا پر اس کے باوجود گوسالہ پرستی کے ظلم عظیم کا ارتکاب کیا۔ 

۲۔ کہ تم نے حق کے پوری طرح واضح ہو جانے کے باوجود شرک کے ظلم عظیم کا ارتکاب کیا۔ اور اس طرح تم نے خود اپنی ہلاکت و تباہی کا سامان کیا، کیونکہ اسطرح تمہارا جرم دوہرا اور ڈبل ہو جاتا ہے، اس لئے کہ تم نے حق کے واضح ہو جانے کے باوجود اس کی خلاف ورزی کی، اور شرک جیسے سنگین اور ہولناک جرم کا ارتکاب کیا، سو ان وجوہ سے تمہارے جرم کی سنگینی کہیں بڑھ جاتی ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔

۹۳۔۔ یعنی پیغام حق و ہدایت کو صدق دل سے اپناؤ جو کچھ تم لوگوں کو تمہارے رب کی طرف سے کہا جا رہا ہے اس کو غور سے سنو تاکہ خود تمہارا بھلا ہو سکے۔ دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور اَبَدی جہاں میں بھی۔ پس اس سے اِعراض اور رُوگردانی میں خود تمہارا اپنا ہی خسارہ اور نقصان ہو گا، والعیاذ باللہ العظیم

۲۔ اور جب دل میں کفر کی میل جم جائے تو پھر حق بات کو سننے اور ماننے کی کوئی توقع کس طرح کی جا سکتی ہے؟ اس لئے ان لوگوں سے جب اتنا مضبوط اور پختہ عہد لیا گیا تو انہوں نے زبان سے تو کہہ دیا کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا۔ لیکن عملی طور پر انہوں نے اس کی نافرمانی کی۔ اور اس طرح انہوں نے اپنی محرومی اور بدبختی کے داغ کو اور پکا کر دیا۔ اور یہی نتیجہ ہوتا ہے عناد و استکبار اور ضد و ہٹ دھرمی کا۔ والعیاذُ باللہ اللہ تعالیٰ زیغ و ضلال کی ہر صورت سے محفوظ ہمیشہ محفوظ رکھے اور ہمیشہ اور ہر حال میں راہِ حق و صواب پر مستقیم و ثابت قدم رہنے کی توفیق بخشے، آمین ثم آمین

۹۴۔۔   یعنی اپنے اس دعوے میں کہ تم لوگ اللہ کے پیارے ہو اور جنت تمہارے ہی لئے ہے۔ تمہارے سوا کوئی اس میں جا ہی نہیں سکے گا سو اگر تم لوگ اپنے ان دعووں میں سچے ہو تو تم موت کی تمنا کرو۔ تاکہ تم جلد جنت میں پہنچ جاؤ۔ اور تمہاری سب تمنائیں اور آرزوئیں بھی پوری ہو جائیں۔ اور تمہارے ایسے تمام دعووں کی حقیقت بھی سب کے سامنے واضح ہو جائے۔ اور اگر تم اس کے باوجود موت کی تمنائیں نہیں کرتے تو تم نے اپنے دعووں میں جھوٹے ہیں،

۹۵۔۔  سو ایسے لوگ دنیا والوں کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دینا کسی بھی طرح ممکن نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ ان کے ظاہر و باطن کو پوری طرح اور ایک برابر جانتا ہے۔ سو اس سے قرآن حکیم کا ایک معجزہ سامنے آتا ہے کہ قرآن حکیم نے اس قدر زور اور قوت کے ساتھ اس کا اعلان و اظہار فرمایا کہ یہ لوگ خود اپنے ہاتھوں سے کی گئی اپنی کمائی کے نتیجے میں موت کی تمنا کبھی بھی نہیں کرینگے، سو ایسے ہی ہوا۔ اور یہود کبھی اپنی موت کی تمنا نہیں کر سکے۔ حالانکہ ان کے لئے اس کا موقع تھا کہ وہ قرآن حکیم کے اس کھلے اور واضح چیلنج کے جواب میں اور اس اعلان کی تکذیب کے مقصد سے اس طرح کی کوئی تمنا کر دکھاتے۔ مگر کہاں؟ سو اس سے ان دعووں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ والحمد للہ جل وعلا، اللہ تعالیٰ مکر و فریب کے ہر شائیبے سے ہمیشہ محفوظ رکھے اور ہمیشہ راہ حق و صواب پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین

۹۶۔۔  ان کا کوئی قول و فعل اور حرکت و سکون اس سے مخفی اور اوجھل نہیں ہو سکتا، سو ان کو اپنے سب کئے کرائے کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہے، اس سلسلہ میں ان کو جو ڈھیل مل رہی ہے اس سے ان کو کبھی دھوکے میں نہیں پڑنا چاہیے کہ وہ بہرحال ایک ڈھیل ہے جس نے بالآخر اور بہر طور ختم ہو کر رہنا ہے۔

۹۷۔۔ سو جب جبرائیل امین مامور مِنَ اللہ اور اللہ تعالیٰ کے حکم و ارشاد کے پابند ہیں۔ اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم و ارشاد کے مطابق قرآن حکیم جیسی اس عظیم الشان اور بے مثال نعمت کو پیغمبر کے دل پر اتارا۔ اور اس کو دنیا تک پہنچایا جو کہ انسان کے لئے دارین کی سعادت وسرخروئی سے سرفراز کرنے والی نعمت ہے، اور جو فلاح و نجات اور حقیقی کامیابی سے سرفرازی کا واحد ذریعہ و وسیلہ ہے تو پھر ایسی صورت میں حضرت جبرائیل امین سے عداوت و دشمنی رکھنے سے بڑھ کر حماقت و محرومی اور کیا ہو سکتی ہے؟ والعیاذُ باللہ العظیم، یہاں سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جب بدبختوں نے حضرت جبرائیل امین جیسی پاکیزہ اور مقدس ہستیوں کو بھی معاف نہیں کیا، تو وہ اور کس کو معاف کرینگے، اور ایسوں کی دشمنی اور طعن و تشنیع سے کوئی کس طرح بچ سکتا ہے؟ پس کوئی ایسا کبھی یہ نہ سوچے کہ مجھے سب اچھا کہیں، کہ ایسا نہ کبھی ہوا ہے، اور نہ ہو سکتا ہے، بلکہ اصل کوشش اس امر کی ہونی چاہیے کہ ہم ہمیشہ راہِ حق ہی پر گامزن رہیں، ہمارا رب ہم سے راضی ہو، اور اس کے ساتھ ہمارا معاملہ صحیح رہے، اس کے بعد دنیا کیا کہتی ہے، اس کی کوئی پرواہ نہیں ہونی چاہیئے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید، بکل حالٍ من الاحوال

۲۔  سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ہدایت قرآن سے سرفرازی کے لئے اولین شرط ایمان ہے، پس جو لوگ اس کتاب حکیم پر صدق دل سے ایمان رکھتے ہیں۔ ان کے لئے یہ سراسر ہدایت ہے، ان کو یہ زندگی کے ہر مرحلے پر۔ اور ہر اعتبار سے ہدایت و راہنمائی کرتی ہے، اور ان کو یہ ان طریقوں اور راستوں سے آگہی بخشتی ہے جو ان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز و بہرہ ور کرتے ہیں، اور ان کو یہ ابدی سعادت و کامرانی اور جنت کی ابدی نعمتوں۔ اور وہاں کی ابدی اور حقیقی بادشاہی کی عظیم الشان اور بے مثال خوشخبری سے نوازتی ہے وباللہ التوفیق لما یحب و یرید۔

۱۰۰۔۔  سو اکثریت ہمیشہ بے ایمانوں ہی کی رہی کل بھی یہی تھا۔ اور آج بھی یہی ہے۔ پس عوام کالانعام کی اکثریت کی تائید یا تردید کو معیار حق و صدق نہیں قرار دیا جا سکتا۔ جس طرح کہ مغربی جمہوریت کے پرستاروں کا کہنا اور ماننا ہے۔ اور جس طرح کہ ہمارے یہاں کے اہل بدعت کا کہنا ہے کہ فلاں فلاں کام چونکہ عوام الناس میں رائج اور ان کے یہاں پسندیدہ ہیں لہٰذا وہ درست ہیں، سو ایسے جاہلوں کا اس طرح کہنا سراسر غلط ہے۔ کیونکہ دین حق میں عوام الناس کی تائید یا تردید معیار حق و صدق ہو ہی نہیں سکتی۔ کہ عوام الناس کی اکثریت ہمیشہ جاہل اور بے ایمان ہی رہی ہے۔ کل بھی یہی تھا۔ اور آج بھی یہی ہے، پس حق و صدق وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول کے ارشادات سے حق ثابت ہو۔ اور باطل وہی ہے جو ان کی روشنی میں باطل قرار پائے، اور بس، والعیاذ باللہ جل وعلا

۱۰۲۔۔ سو یہ حق سے اعراض و رو گردانی کی ایک نقد سزا ہے جو ایسے لوگوں کو قدرت کی طرف سے ملتی ہے جو دین حق کی تعلیماتِ مقدسہ سے منہ موڑتے ہیں کہ وہ حق کی روشنی اور اس کے راستے سے محروم ہو کر اسی طرح کے سفلی کاموں میں لگ جاتے ہیں اور قسما قسم کے گورکھ دھندوں اور خود ساختہ جالوں میں الجھ کر اور پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ اور ایسے اور اس حد تک کہ ان کو پھر حق کی طرف لوٹنے کی توفیق ہی نہیں ملتی، جو کہ محرومیوں کی محرومی اور ہولناک خسارہ ہے والعیاذ باللہ العظیم بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ 

۲۔  ان دونوں فرشتوں پر جو کچھ اتارا گیا تھا اس کے بارے میں مفسرین کرام کے مختلف اقوال ہیں ان میں سے بعض تو بالکل غلط اور فرشتوں کی شان اور ان کی معصومیت کے خلاف ہیں، اور بعض دوسری نوعیت کے ہیں دل لگتی بات وہ ہے جو بعض اہل علم نے اس بارے میں اس طرح کہی ہے کہ اس سے مراد حضرات مختلف اشیاء اور کلمات کے خواص سے متعلق وہ علم ہے جو ان دونوں کو قدرت کی طرف سے بذریعہ القاء و الہام عطاء فرمایا گیا تھا، تاکہ اس کے ذریعے وہ لوگ جادو کے اثرات سے بچنے اور اپنی حفاظت و دفاع کا کام لے سکیں، اور اسطرح وہ جادوگروں کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔ سو یہ قدرت کی ایک خاص عنایت تھی جس سے خلق خدا کی نفع رسانی کے لئے ان دونوں حضرات کو بطور خاص نوازا گیا تھا، والعلم عند اللہ سبحانہ و تعالیٰ

۳۔  یعنی وہ دونوں فرشتے جس کسی کو بھی خواص کلمات سے متعلق وہ علم سکھاتے تو وہ سکھانے سے قبل اس کو اس بارے تنبیہ کرتے کہ خبردار ہم جو کچھ تمہیں سکھا رہے ہیں، اس سے اصل مقصود صرف اپنا بچاؤ اور دفاع ہے، پس کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اس علم کو سیکھ کر آگے اسی طرح کا کوئی کالا دھندا شروع کر دو۔ جس طرح کا دھندہ یہ لوگ کر رہے ہیں۔ اور اس طرح الٹا تم خود بھی فتنے میں پڑ جاؤ اور دوسروں کے لئے فتنے بن جاؤ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا

۴۔ سو نفع و نقصان اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، اس کی مشیئت سب پر حاوی و محیط ہے۔ اس کی کائنات میں وہی کچھ ہوتا ہے جو اس کی مشیت کے تابع ہے، البتہ اس نے ابتلاء و آزمائش کے تقاضوں کے مطابق لوگوں کو ارادہ و اختیار کی آزادی دے رکھی ہے تاکہ اس طرح کھرا کھوٹا واضح ہو جائے۔ اور ہر چیز سامنے آ جائے

۵۔ یہاں سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ جس علم کے مطابق آدمی کا عمل نہ ہو۔ وہ علم کالعدم اور نہ ہونے کے برابر ہے، چنانچہ یہاں پر پہلے ارشاد فرمایا گیا کہ انہوں نے یقیناً اس حقیقت کو جان لیا کہ جس نے اس کاروبار سحر و کفر کو اپنایا اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ لیکن آیت کریمہ کے خاتمے پر ارشاد فرمایا گیا کہ کاش کہ یہ لوگ جان لیتے۔ یعنی جب ان کا عمل ان کے اپنے اس علم کے خلاف اور اس کے برعکس ہے تو ان کا جاننا نہ جاننے کے برابر۔ بلکہ اس سے بھی برا ہے۔ اسی لئے حدیث میں اس علم سے پناہ مانگی گئی جو نفع نہ دے (وَمِنْ عِلْمٍ لَایَنْفَعُ) والعیاذ باللہ

۱۰۳۔۔   یعنی اگر یہ لوگ اس اہم اور بنیادی حقیقت کو جان لیتے۔ اور اس کے نتیجے میں یہ صدق دل سے ایمان لے آتے۔ اور تقوی و پرہیز گاری کو اپناتے۔ تو خود انہی کا بھلا ہوتا، کہ اس کے نتیجے میں ملنے والے اجر و ثواب سے ان کا دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی بھلا ہوتا۔ اور آخرت کے اس حقیقی اور اَبَدی جہاں میں بھی سو علم حق سعادت دارین سے سرفرازی کی اساس ہے۔

۱۰۴۔۔   یعنی ان کے جرم کفر و انکار کی بناء پر کیونکہ کفر و انکار کا یہ جرم تمام جرائم کی جڑ بنیاد ہے، والعیاذ باللہ،۔ سو اس ارشاد ربانی سے یہ اہم اور اصولی تعلیم دی گئی ہے کہ جن الفاظ و کلمات سے غلط معانی و مطالب کا ایہام ہوتا ہو۔ ان کو ترک کر کے ان کی جگہ ایسے دوسرے الفاظ و کلمات استعمال کئے جائیں جن میں ایسے غلط معانی کے ایہام کی گنجائش نہ ہو۔ چنانچہ راعنا کا لفظ اپنے اصل اور حقیقی معنی و مفہوم کے اعتبار سے بالکل درست ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے ہماری رعایت کیجئے۔ اور ہمارا خیال رکھیے وغیرہ مگر یہود وغیرہ دشمنان اسلام جب اس سے اپنے خبث باطن کی بناء پر اس لفظ کو دبا کر کہتے تو یہ راعینا بن جاتا۔ جس کے معنی ہو جاتے، اے ہمارے چروا ہے، تو اس پر یہ لوگ اپنے طور پر خوش ہوتے اور بغلیں بجاتے کہ ہم نے کیسا تیر مار دیا، اس لئے اہل ایمان کو یہ ہدایت فرمائی گئی کہ اس لفظ کے بجائے تم لوگ اُنْظُرْنَا کہا کرو۔ جس میں ایسا ایہام پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ اور اصل مقصد بھی واضح ہو جاتا ہے۔ والحمد للہ جل وعلا

۱۰۵۔۔  اور اتنے بڑے اور اس قدر عظیم الشان فضل و کرم والا کہ اس کے فضل و کرم کی نہ کوئی حد ہے نہ انتہاء اور اس کا کام اور اس کی شان ہی نوازنا اور کرم فرمانا ہے، اور برابر اور لگاتار نوازنا۔ اور طرح طرح سے نوازنا اور کرم فرمانا، اسی لئے اس نے تم لوگوں کو قرآن حکیم جیسی نعمت عظمیٰ سے نوازا۔ پس حاسدوں کے حسد سے اس میں کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔ بلکہ اس سے خود ان لوگوں کی اپنی حماقت اور تنگ ظرفی کا اظہار ہوتا ہے کہ اس طرح یہ دراصل اللہ پر اعتراض کرنے کی جسارت کا ارتکاب کرتے ہیں، جو کہ جرم عظیم ہے والعیاذ باللہ العظیم۔

۱۰۶۔۔  پس وہ قادر مطلق اپنی قدرتِ مطلقہ اور حکمتِ بالغہ سے جو چاہے اور جیسا چاہے کرے۔ نسخ کے معنی اصل میں ازالہ کرنے اور ہٹا اور مٹا دینے کے آتے ہیں، چنانچہ عربی محاورہ میں کہتے ہیں نَسْخَتِ الشَّمْسُ الظِلَّ یعنی سورج نے سائے کو مٹا دیا، اسی لئے شریعت میں اس کا اطلاق کسی حکم کے بدل دینے کے لئے ہوتا ہے، جس کی حکمت کا علم حضرت شارع حکیم ہی کو ہو سکتا ہے، یعنی اللہ جَلَّ جَلَالُہ، کو، جس کا علم کامل بھی ہے اور محیط بھی، سبحانہ و تعالیٰ، اور سو اللہ تعالیٰ جن احکام کو تبدیل فرماتا ہے اس میں اس کے بندوں ہی کا بھلا مقصود ہوتا ہے پس بلا تشبیہ یہ ایسے ہی ہے جیسا کہ ایک ماہر ڈاکٹر اپنے مریض کی حالت کے مطابق وقتاً فوقتاً اس کو دی جانے والی دواؤں میں تبدیلی کرتا رہتا ہے مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ہماری مفصل تفسیر۔

۱۰۸۔۔  سو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری گئی آیات ہدایت سے روگردانی کر کے من مانے معجزات کا مطالبہ کرنا دراصل ایمان کے بدلے میں کفر کو اپنانا اور اختیار کرنا ہے (تفسیر المراغی وغیرہ) اور ظاہر ہے کہ ایسا کرنا خود اپنی ہلاکت و تباہی کا سامان کرنا ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔

۱۰۹۔۔  سو وہ قادر مطلق جو چاہے اور جیسا چاہے کرے۔ اس لئے تم لوگ اے ایمان والو! اسی کے فیصلے اور مدد کی انتظار کرو۔ اور اس وقت تک عفو و درگزر جیسے محاسن اخلاق ہی سے کام لو، وہ جو بھی کچھ کرے گا اور جیسا بھی کرے گا اپنے کمال علم و حکمت، اور اپنی شان رحمت و عنایت کے تقاضوں کے مطابق ہی کریگا، سبحانہ و تعالیٰ

۱۱۰۔۔   سو اقامت صلوٰۃ اور ایتاء زکوٰۃ جیسی عظیم الشان عبادات کے اہتمام سے ایک طرف تو تم لوگوں کو مشکلات و مصائب کے تحمل و برداشت میں مدد ملے گی۔ کہ انہی سے مومن صادق کو اصل اور حقیقی قوت نصیب ہوتی ہے۔ اور دوسری طرف اس سے تم اپنی آخرت کے لئے توشہ جمع کر سکو گے۔ جو کہ اصل اور حقیقی مقصود ہے، اور اس کے حصول اور اس سے سرفرازی کا موقع یہی دنیاوی زندگی ہے اور بس۔ اس کے بعد آخرت کے لئے کمائی کی کوئی صورت ممکن نہیں ہو گی۔ بلکہ اس کے بعد حساب کتاب ہو گا۔ اور اس کے مطابق آخری اور دائمی فیصلہ ہو گا، جس کے نتیجے میں کچھ خوش نصیب جنت کی سدا بہار نعمتوں اور وہاں کی ابدی بادشاہی سے سرفراز ہونگے۔ جَعَلَنَا اللّٰہُ مِنْہُمْ۔ اور کچھ بدبختوں کو دوزخ کی دہکتی بھڑکتی آگ میں گھسنا ہو گا۔ والعیاذُ باللہ باللہ العظیم۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا فَرِیْقٌ فِی الْجَنّۃِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْر۔ سو اس اعتبار سے دنیاوی زندگی کی نعمت ایک عظیم الشان اور بے مثال نعمت ہے۔ کہ اسی میں انسان آخرت کی اس حقیقی اور اَبَدی بادشاہی کے حصول، اور اس سے سرفرازی کا سامان کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ایک ایک لمحے کو اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں میں صرف کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین، یا رب العالمین

۱۱۱۔۔  سو یہ ان لوگوں کا بے بنیاد زعم اور گھمنڈ تھا جس نے ان کو راہ حق و ہدایت سے محروم کر دیا، اور ان کا بیڑا غرق کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ ہم حضرات انبیاء ورسل کی اولاد ہیں، اس لئے ہمارا خاص مرتبہ و مقام، اور خاص حقوق ہیں اور یہاں تک کہ انہوں نے اپنے اس زعم اور گھمنڈ میں ترقی کرتے ہوئے اپنے آپ کو خدا کے بیٹے اور محبوب قرار دے دیا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ان کے اس زعم اور گھمنڈ کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے وَقَالَتِ الْیَہُوْدُ وَالنَّصَارَی نَحْنُ اَبْنَاءُ اللّٰہُ وَاَحِبَّاءُ ہ، الایٰۃ (المائدۃ۔٨٨) یعنی یہود اور نصاریٰ نے کہا کہ ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ اور جب اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب و پیارے ہو گئے تو پھر ان کو کسی عمل کی ضرورت ہی کیا؟ سو اس جھوٹے زعم اور بے بنیاد اور من گھڑت گھمنڈ نے ان لوگوں کا راستہ ہی غلط کر دیا، اور ان کی مت ایسی مار کر رکھ دی کہ ان کا سارا زاویہ نگاہ ہی غلط ہو گیا، اور یہ لوگ حق و ہدایت کی صراط مستقیم سے محروم ہو کر ہاویہ جہنم کی راہ پر چل پڑے، جو کہ محرومیوں کی محرومی اور ہلاکتوں کی ہلاکت ہے، والعیاذ باللہ العظیم۔

۱۱۲۔۔  کیونکہ انہوں نے کسی خود ساختہ اور من گھڑت زعم اور گھمنڈ میں مبتلا ہونے کے بجائے حق و ہدایت کی اس صراط مستقیم کو اپنایا جو کہ عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا مقتضیٰ ہے اور جس کے مطابق انہوں نے انقیاد و اطاعت کی راہ کو اپنایا۔ اپنے آپ کو اپنے خالق و مالک کے آگے ڈال دیا اور اس کے ہر حکم و ارشاد پر سر تسلیم خم ہو گئے۔ جس کے نتیجے میں یہ ابدی فوز و فلاح اور حقیقی بادشاہی سے سرفراز ہو گئے اور یہی ہے اصل اور حقیقی کامیابی وَذَالِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمَ۔ اللہ نصیب فرمائے، آمین ثم آمین

۱۱۳۔۔  یعنی آخری اور عملی طور پر جس کے مطابق ہر کوئی اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا صلہ اور بدلہ پائے گا۔ پھر کوئی تو جنت کی ابدی نعمتوں اور حقیقی بادشاہی سے سرفراز ہونگے۔ جَعَلَنَا اللّٰہُ مِنْہُمْ۔ اور کوئی ہاویہ جہنم میں گر کر، اور وہاں کے ہولناک عذابوں میں گھر کر رہیں گے۔ اور یہ ایسا ہولناک خسارہ ہو گا کہ اس کی تلافی و تدارک کی پھر کوئی صورت ممکن نہ ہو گی، سو عقل و نقل کا تقاضا ہے کہ اس یوم حساب اور اس کے تقاضوں کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھا جائے، کہ وہاں کی ناکامی بڑی ہی ہولناک اور ناقابل تلافی ہو گی، والعیاذُ باللہ العظیم۔

۱۱۴۔۔  سو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کے ذکر سے روکنا اور ان کی خرابی اور ویرانی کی کوشش کرنا بڑا ہی سنگین جرم، اور سب سے بڑا ظلم ہے، پس ایسے ظالموں اور بدبختوں کے لئے دنیاوی زندگی میں بڑی رسوائی ہے اور قیامت کے روز ایسوں کے لئے بہت بڑا عذاب۔ مگر افسوس کہ بدبختوں نے اس ہولناک جرم کا ارتکاب ہمیشہ کیا۔ تاریخ ان کے تذکروں سے بھری پڑی ہے، اس ظلم عظیم کا ارتکاب کل بھی کیا گیا، اور آج بھی کیا جا رہا ہے اور جگہ جگہ اور طرح طرح سے کیا جا رہا ہے مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو ہماری بڑی تفسیر، وہاں یہ ہم نے اس بارے خاصی تفصیل سے لکھا ہے، والحمد للہ جل وعلا، اللہ تعالیٰ زیغ و ضلال کے ہر شائیبے سے محفوظ اور ہمیشہ راہ حق و صواب پر مستقیم اور گامزن رہنے کی توفیق بخشے، اور ظالموں کے ظلم اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین یا رب العالمین

۱۱۶۔۔  چنانچہ یہود نے کہا کہ عزیر اللہ کے بیٹے ہیں، اور نصاریٰ نے کہا کہ حضرت مسیح اللہ کے بیٹے ہیں، اور مشرکین نے کہا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں جیسا کہ قرآن حکیم میں دوسرے مختلف مقامات پر اس کی مختلف اسالیب سے تصریح فرمائی گئی ہے، سو یہ سب کچھ ان لوگوں نے محض اپنے ان من گھڑت ڈھکوسلوں کی بناء پر کیا، جن کی نہ کوئی اساس ہے، نہ بنیاد، بلکہ محض ان لوگوں کے خود ساختہ اور من گھڑت مفروضے ہیں، اللہ تعالیٰ ایسے تمام تصورات اور اس طرح کے ہر شائیبے سے پاک ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ

۲۔  پس اس کی نہ کوئی اولاد ہے نہ ہو سکتی ہے اور نہ ہی وہ اس کا محتاج اور ضرورت مند ہے۔ زمین و آسمان کی اس پوری کائنات میں جو بھی کچھ ہے وہ سب کا سب اس کا مخلوق و مملوک اور اسی کے زیر تصرف ہے، دائرہ تخلیق و تکوین میں ہر چیز اسی کی فرمانبردار اور اس کے حکم و ارشاد کے آگے سرنگوں ہے، سرِمو اس سے تجاوز و انحراف نہیں کر سکتی، سبحانہ و تعالیٰ

۱۱۷۔۔  اور جس وحدہٗ لاشریک کی شان یہ ہو اس کو کسی اولاد وغیرہ کی ضرورت ہی کیا ہو سکتی ہے؟ سو وہ ایسے تمام تصورات سے پاک اور ان سے اعلیٰ و بالا ہے پس اس کی کوئی اولاد نہ ہے، نہ ہو سکتی ہے۔ اس کی شان لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ کی شان ہے سبحانہ و تعالیٰ۔

۱۱۸۔۔  یعنی نشانیاں ہم نے آپ کو ایک نہیں کئی دی ہیں، اور ایسی روشن اور واضح نشانیاں دی ہیں، جن سے حق پوری طرح واضح ہو جاتا ہے۔ مگر ان سے مستفیدو فیضیاب وہی لوگ ہو سکتے ہیں جن کے باطن پاک اور صاف ہوں۔ اور وہ عناد و ہٹ دھرمی کی کدورات سے محفوظ ہوں، اور وہ علم اور یقین سے سرفراز ہونا چاہتے ہوں، ورنہ جو عناد اور ہٹ دھرمی کے مارے ہوئے ہوں ان کے لئے اس طرح کی واضح نشانیوں میں بھی کوئی درس نہیں، والعیاذُ باللہ

۱۱۹۔۔   سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر کا اصل کام انذار و تبشیر ہے یعنی لوگوں کو ان کے انجام اور ان کی آخرت کے بارے میں خبردار کرنا، پس جو لوگ ان کے انذار پر کان دھریں گے اور ان کی دعوت کو صدقِ دل سے قبول کریں گے ان کے لئے دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کی بشارت ہے۔ پس پیغمبر کا اصل کام یہی ہے، یعنی انذار اور تبشیر، اس کے بعد ان کا ذمہ فارغ۔ آگے دعوتِ حق کو منوا لینا اور لوگوں کو راہ حق پر ڈال دینا نہ ان کے ذمے ہے اور نہ ہی ان کے بس میں، اس کے بعد کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلَاغُ وَعَلَیْنَا الْحِسَابِ (الرعد ۴۱)

۱۲۰۔۔   سو اس آیت کریمہ سے ایک بات تو یہ واضح فرما دی گئی کہ یہود و نصاریٰ بحیثیت مجموعی اور مِنْ حَیْثُ القوم کبھی بھی آپ سے راضی نہیں ہونگے۔ یہاں تک کہ آپ ان کے دین کی پیروی کرنے لگیں جو کہ ناممکن و محال ہے، لہٰذا ان لوگوں کا مِنْ حَیْثُ المجموع آپ سے راضی ہونا ناممکن و محال ہے اور دوسری بات یہ کہ کوئی مانے یا نہ مانے حق اور حقیقت بہرحال یہی ہے کہ ہدایت بہرحال اللہ ہی کی ہدایت ہے، باقی سب دھوکے کے سامان ہیں۔ اور تیسری بات یہ کہ اہل باطل جس کی دین کے نام سے پیروی کرتے ہیں وہ سب دراصل ان کی خواہشات کا پلندہ ہے جس کو یہ لوگ دین کے نام سے موسوم کرتے ہیں، اسی لئے یہاں پر ان کے دین کو اَہْوَاءِ کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے دین حق اسلام اور صرف اسلام ہے۔ اور چوتھی بات یہ واضح فرما دی گئی کہ جو کوئی ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی کریگا۔ وہ بڑا ہی محروم اور بدبخت ہو گا، اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے یہاں نہ کوئی یار ہو گا نہ مددگار والعیاذ باللہ العظیم بکل حال من الاحوال

۱۲۱۔۔  یعنی وہ اس کی عظمت و احترام کا بھی لحاظ کرتے ہیں اور اس کے الفاظ و کلمات کا بھی حق ادا کرتے ہیں یعنی اپنی اس کتاب کا جو ہم نے ان کو دی گی۔ سو ایسے ہی اہل کتاب اس کتاب حق و ہدایت پر ایمان لاتے ہیں جو اب ہم نے آپ پر اتاری (اے پیغمبر!) یعنی قرآن حکیم جیسے حضرت عبد اللہ بن سلام وغیرہ حضرات جو اس پر ایمان لائے، سو اپنی کتاب پر سچے ایمان و عقیدہ اور اس کے اکرام و احترام کی برکت سے ان کو قرآن حکیم پر ایمان کی توفیق و سعادت بھی نصیب ہو گئی۔ اور وہ سعادت دارین سے سرفراز و سرخرو ہو گئے (المرغی وغیرہ) پس جب انسان کی بنیاد اور اس کا راستہ صحیح ہوتا ہے اس کو اس کے نتیجے میں نور حق و ہدایت سے سرفرازی نصیب ہوتی ہے لیکن جب بنیاد ہی غلط اور راستہ یہ ٹیڑھا ہو، اور مزید یہ کہ طلب صادق کے بجائے اس میں عناد و ہٹ دھرمی کی مہلک بیماری بھی موجود ہو تو پھر اس کو نور حق و ہدایت کی دولت آخر کیسے نصیب ہو سکتی ہے؟ والعیاذ باللہ العظیم

۲۔  یعنی جنہوں نے قرآن حکیم کا انکار کیا وہی خسارے والے ہیں کہ وہ نور حق و ہدایت سے محروم ہو کر طرح طرح کے اندھیروں میں ڈوب کر اور گھر کر رہ گئے جس کے نتیجے میں وہ خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْاٰخَرِۃَکا مصداق بن گئے۔ اور یہی ہے سب سے بڑا خسارہ۔ العیاذُ باللہ العظیم۔

۱۲۲۔۔  یعنی تمہارے اپنے دور میں کہ اس وقت نور حق و ہدایت اور توحید خداوندی کے علمبردار تم ہی لوگ تھے۔ سو تم لوگ میرے ان طرح طرح کے انعامات اور احسانات کو یاد کرو جو میں نے تم پر کئے۔ اور ان کا شکر بجا لاؤ۔ جس کا سب سے بڑا اور اصل طریقہ یہی ہے کہ تم میری اس کتاب حکیم پر ایمان لاؤ۔ جس کو میں نے اب اتارا ہے تاکہ تم لوگ نور حق و ہدایت سے سرفراز ہو سکو اور اس طرح تمہارا بھلا ہو سکے۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، کیونکہ اب حق و ہدایت کا منبع و مصدر یہی کتاب حکیم ہے، جس کو قیامت تک کی سب دنیا کے لئے کامل ہدایت نامہ بنا کر بھیجا گیا ہے، اور اسی کتاب حکیم نے ملت ابراہیمی کو اپنی اصل حقیقی شکل میں دنیا کے سامنے پیش فرمایا ہے اس کے بغیر ملت ابراہیمی سے سرفرازی ممکن نہیں، جو کہ دین فطرت کی اصل اور اساس ہے۔

۱۲۴۔۔  اور اس طرح حضرت ابراہیم اس ابتلاء و آزمائش میں پورے اترے۔ اور کامیاب ثابت ہوئے، اسی لئے قرآن حکیم میں دوسرے مقام پر آنجناب کی اس طرح تعریف فرمائی گئی ہے وَاِبْرَاہِیْمَ الَّذِیْ وَفّیٰ (النجم۔۳۷) یعنی ابراہیم نے وفاء کا حق ادا کر دیا۔ سو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے رب کی رضا کی خاطر اپنے مشرک باپ اپنے قوم قبیلے اور ملک وغیرہ سب کو چھوڑا اور ان تمام دنیاوی فوائد و منافع پر لات مار دی، جو کفر و شرک کے اس ماحول میں ان کو میسر تھے، علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام، مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہماری تفسیر عمدۃ البیان۔

۲۔  اور اسی انعام و احسانِ خداوندی کا نتیجہ ہے کہ حضرت ابراہیم کی امامت و پیشوائی پر سب ہی متفق ہیں یہود و نصاریٰ بھی آنجناب کو اپنا امام و پیشوا مانتے ہیں اور مشرکین بھی بلکہ مشرکین کا تو سرمایہ افتخار ہی یہ تھا کہ ہم حضرت ابراہیم کی ذریت و اولاد۔ اور ان کے وارث و جانشین ہیں۔ اور مسلمان تو ہیں ہی ملت (ابراہیمی) پر اور ان کے دین و شریعت کا مدار بھی ملت ابراہیمی ہی پر ہے۔ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام۔ سو اس سے ایک طرف تو حضرت ابراہیم کی عظمت شان، اور آپ کا بے مثال مرتبہ و مقام بھی واضح ہو جاتا ہے۔ اور دوسری طرف حضرت حق جَلّ مَجْدُہ، کی شان بخشش وعطاء کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ جب نوازتا ہے تو کس عظمت شان کے ساتھ نوازتا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔ اور تیسری طرف یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اس کی عطاء و بخشش سے سرفرازی کا مدار و انحصار صدق و اخلاص پر ہے۔ نہ کہ محض ظواہر اور شکلیات پر۔ وباللہ التوفیق لما یحب ورید، وعلی ما یحب و یرید، بکل حال من الاحوال

۱۲۶۔۔  یعنی اس وادی کو امن و امان کا ایسا مرکز اور گہوارہ بنا دے کہ نہ اس پر جابر اور ظالم حکمرانوں میں سے کسی کا جبر و تسلط قائم ہونے پائے، اور نہ ہی اس پر خسف و غرق اور زلزلہ وغیرہ کا کوئی ایسا عذاب آئے جو دوسرے ملکوں اور شہروں پر آتے رہتے ہیں، (المراغی وغیرہ) سو اللہ تعالیٰ نے حضرتِ ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کو بے مثال قبولیت سے نوازا چنانچہ اس بلد امین پر ایسا کوئی جابر و ظالم حکمران آج تک کبھی مسلط ہو سکا ہے جو اس کے امن و امان کے لئے خطرہ بن سکے اور نہ ہی اس پر کسی آسمانی آفت کا کوئی عذاب آیا۔ بلکہ یہ آج تک مَنْ دَخَلَہ، کَانَ اٰمِنًا کا مصداق اور ہر لحاظ سے امن و امان کا ایک بے مثل گہوارہ بنا ہوا ہے۔ والحمد للہ۔

۲۔  سو دنیا فانی کا متاع فانی اور حطام زائل تو سب کے لئے عام ہے لیکن جنہوں نے زندگی کفر کے ساتھ گزاری ہو گی ان کے لئے آخرت میں دوزخ کی ہولناک آگ ہے جس میں ان کو ہمیشہ کے لئے رہنا ہو گا۔ اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے والعیاذ باللہ العظیم۔

۱۲۹۔۔  یعنی وہ رسول انہی کی جنس اور قوم میں سے ہو۔ تاکہ ان کو وہ انہی کی لغت اور زبان میں دین حق کی تعلیم و تلقین کر سکے، اور زندگی کے ہر دائرہ میں ان کے سامنے عملی نمونہ پیش کر سکے، اور اس کی اطاعت و اتباع سے سرفراز ہو سکیں، سو پیغمبر کا انسان اور بشر ہونا ایک مستقل انعام و احسان خداوندی ہے۔ اسی لئے قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر مختلف الفاظ و کلمات سے اس کی تصریح فرمائی گئی ہے، کہیں مِنْہُمْ مِنْکُمْ مِنْ اَنْفُسِہِمْ، مِنْ اَنْفُسِکُمْ، جیسے کلمات کریمہ سے فرمائی گئی ہے، اور کہیں اَخَاھمْ جیسے الفاظ سے کہ پیغمبر کی اطاعت و اتباع کا تقاضا یہی ہے، کیونکہ بشر ہی کے اتباع کر سکتا ہے، جیسا کہ ہمارے حضور نے زندگی کے ہر دائرے میں امت کے لئے اپنے عمل و کردار کا واضح اور پاکیزہ نمونہ چھوڑا ہے، آج پوری امت اسی کی اتباع کرتی ہے، اور قیامت تک کرتی رہیگی، اور یہی تقاضا ہے دین فطرت اور اس کی عظمت و جامعیت کا ورنہ بشر کیسے کسی فرشتے کی اتباع کر سکتا ہے، ممکن نہیں۔ اور اسی حقیقت کی تصریح سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ٩۵ میں فرمائی گئی ہے فالحمد للہ رب العالمین

۱۳۰۔۔  کیونکہ ملت ابراہیمی تقاضائے عقل و فطرت اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے تو اس سے اعراض و روگردانی تقاضائے عقل و فطرت سے انحراف اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے محرومی کی راہ کو اپنانا ہے تو پھر اس سے بڑھ کر حماقت اور محرومی اور کیا ہو سکتی ہے العیاذ باللہ۔

۲۔ سو اس سے حضرت ابراہیم خلیل کی عظمت شان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آنجناب کو حضرت حق جَلّ مَجْدُہ، نے دنیا میں نبوت و رسالت اور امامت و پیشوائی کے شرف و امتیاز سے نواز کر ایک عظیم الشان اور بے مثال درجہ و مرتبہ پر فائز فرما دیا۔ یہاں تک کہ آنجناب کے بعد نبوت و رسالت کے شرف کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اولاد ہی میں رکھ دیا گیا۔ اور آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جن درجات و مراتب سے سرفراز فرمایا جائے گا ان کا اندازہ ہی کون کر سکتا ہے۔ تو پھر ایسے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ملت سے اعراض و روگردانی سے بڑھ کر محرومی اور بدبختی اور کیا ہو سکتی ہے؟ والعیاذ باللہ۔ پس صدق و اخلاص کے ساتھ اپنے خالق و مالک کے حضور جھک جاتا اور اس کے ساتھ اپنے تعلق اطاعت و انابت، اور عبدیت و عبادت کو صحیح رکھنا دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے۔ اور بدرجہ تمام و کمال نصیب فرمائے۔ اور ہمیشہ اور ہر حال میں اپنا ہی بنائے رکھے۔ اور نیت و ارادہ۔ اور عمل و کردار ہر اعتبار سے ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین

۱۳۲۔۔  یعنی فَـلَا تَمُوْتُنَّ میں نہی موت سے نہیں، کہ وہ تو انسان کے بس میں نہیں، اور جو چیز انسان کے بس اور اختیار میں نہ ہو، اس سے روکنے اور منع کرنے کا کوئی معنی اور مطلب ہی نہیں بنتا۔ سو اس میں نہی موت سے نہیں، بلکہ یہ ایک نہایت ہی موثر اور بلیغ انداز میں اسلام پر قائم رہنے کی تعلیم و تلقین ہے، یعنی تم لوگ ہمیشہ اسلام پر قائم رہو، تاکہ جب بھی تمہاری موت آئے تو اسلام ہی پر آئے، کہ یہی راہ ہے حق و صواب کی اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں اور ہر لحاظ سے اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں ہی پر چلنا نصیب فرمائے۔ ثم آمین یا ربَّ العالمین

۱۳۳۔۔  سو معبود برحق ایک اور صرف ایک ہے یعنی اللہ وحدہٗ لاشریک جو کہ اس ساری کائنات کا خالق و مالک بھی ہے، اور اس میں حاکم و متصرف بھی، پس ہر قسم کی عبادت و بندگی اور عبادت و بندگی کی ہر قسم اور ہر شکل سے وحدہٗ لاشریک کا حق، اور اسی کا اختصاص ہے، تمام انبیاء ورسل نے ہمیشہ اسی کی عبادت کی، اور اسی کی عبادت کی سب کو دعوت دی۔ سو دین حق ایک اور صرف ایک ہے، یعنی اسلام اور یہی دین اس پوری کائنات کا دین ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَقولَہ، اَسْلَمَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ طَوْعًا وَ کَرْہًا وَّ اِلَیْہِ یُرْجَعُوْنَ (اٰل عمران۔ ٨۳) یعنی اسی کے حضور سرنگوں ہیں وہ سب جو کہ آسمانوں اور زمین کی اس پوری کائنات میں ہیں، خواہ خوشی سے ہو خواہ مجبوری سے، اور سب نے بہرحال اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے سبحانہ و تعالیٰ۔

۱۳۴۔۔  سو اصل چیز حسب و نسب وغیرہ جیسے غیر اختیاری امور نہیں، بلکہ خود اپنا ایمان و عقیدہ اور اپنا ہی عمل و کردار ہے۔ خواہ وہ جیسا بھی ہو، سو تمہارے بڑے اپنی کمائی اپنے ساتھ لے گئے۔ اور تم لوگوں کو وہی کچھ کام آ سکے گا جس کی کمائی تم خود کرو گے۔ پس جس طرح بیٹا محض ماں باپ کے کھانے سے سیر نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ خود نہ کھائے۔ اور وہ ان کے پینے سے سیراب نہیں ہو سکتا، جب تک کہ وہ خود نہ پئے۔ ایسے ہی کسی اولاد کے لئے اس کے ماں باپ کی کمائی کام نہیں آ سکتی جب تک وہ خود عمل نہ کرے۔ سو محض حسب و نسب کے سہاروں پر جینے والے بڑے خسارے میں ہیں، اسی لئے حدیث میں وارد ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے خاندان یعنی بنو ہاشم کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا یا بنی ہاشم لایاتینی الناس باعمالہم وتأتونی بأحسابکم (تفسیرالمراغی وغیرہ) اپنی یعنی (بنی ہاشم) کہیں ایسا نہ ہو کہ کل روز حساب میں دوسرے لوگ تو میرے پاس اپنے اعمال لے کر آئیں، اور تم لوگ محض حسب و نسب کے دعوے لے کر آؤ۔

۱۳۵۔۔  سو حضرت ابراہیم جب خالص توحید والے، اور حنفیت کے علمبردار و پاسدار تھے۔ تو یہود و نصاریٰ اور مشرکین میں سے کسی کو بھی ان سے انتساب کے دعوی اور زعم کا حق نہیں پہنچتا۔ کہ یہ سب کے سب شرک کی غلاظتوں اور آلائشوں سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ یہود نے عزیر کو اللہ کا بیٹا قرار دیا۔ اور نصاریٰ نے حضرت مسیح کو اللہ کا بیٹا مانا۔ اور مشرکین نے تو حضرت ابراہیم کے تعمیر کردہ اس خانہ خدا کو اپنے خود ساختہ بتوں کی نجاستوں سے بھر دیا تھا جس کو حضرت ابراہیم نے صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کی عبادت و بندگی کے لئے تعمیر کیا تھا۔ تو پھر ایسے میں شرک کی نجاست و غلاظت سے لتھڑے ہوئے ان لوگوں کو حضرت ابراہیم سے انتساب کا کوئی حق آخر کس طرح پہنچ سکتا ہے؟ والعیاذُ باللہ العظیم

۱۳۶۔۔  سو ہماری دعوت اور ہمارا ایمان یہود و نصاریٰ کی طرح کسی خاص گروہ بندی اور کسی خود ساختہ پگڈنڈی کے لئے نہیں، بلکہ اس دین حقِ اور اس صراطِ مستقیم کے لئے ہے جو تمام انبیاء ورسل کی مشترکہ متاع رہی ہے، اور جو عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا مقتضیٰ ہے اور جو سعادتِ دارین سے سرفراز کرنے والی واحد راہ ہے۔ اور جس کی اساس و بنیاد کسی گروہ بندی اور عصبیت پر نہیں، بلکہ خالص صدق و اخلاص اور انابت و رجوع الی اللہ پر ہے۔ اسی لئے ہم اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسولوں کے درمیان کسی طرح کی کوئی تفریق نہیں کرتے، اور ہم اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کے اطاعت گزار و فرمانبردار، اور اسی کے حضور سرتسلیم خم کئے ہوئے ہیں، کہ ہر قسم کی عبادت و بندگی اور اطاعت مطلقہ کا حقدار وہی وحدہٗ لاشریک ہے، سو اس کے باوجود جو لوگ اس دعوت حق و ہدایت سے منہ موڑتے، اور اس سے اعراض و روگردانی برتتے ہیں وہ کتنے بے انصاف اور کس قدر محروم و بدبخت ہیں والعیاذ باللہ جل وعلا

۱۳۷۔۔ پس وہ ہر کسی کی سنتا ہے، اور ہر حال میں اس کو جانتا ہے، اور وہ انسان کو اس کے ظاہر و باطن پر اعتبار سے جانتا ہے اور پوری طرح جانتا ہے، اس سے انسان کے ظاہر و باطن کے کوئی بھی حالت و کیفیت مخفی و مستور نہیں رہ سکتی، پس جو صدق و اخلاص کے ساتھ اس کی راہ میں قربانیاں دیتے اور محنتیں اور مشقتیں برداشت کرتے ہیں، ان کی جانفشانیاں بھی اس سے مخفی نہیں ہیں، اور جو ان کی راہوں میں رکاوٹیں ڈالتے، اور کانٹے بکھیرتے ہیں، ان کی شر انگیزیاں بھی اس سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، سو وہ ہر کسی کو اس کے زندگی بھر کے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ و بدلہ دیگا۔ اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق دیگا۔ پس اصل چیز اس کے ساتھ اپنا تعلق و معاملہ صحیح رکھنے کی ضرورت ہے نیز اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اس سمیع و علیم اور حکیم و خبیر کو دنیاوی بادشاہوں پر قیاس کر کے اس کے لئے طرح طرح کے خود ساختہ اور من گھڑت وسیلے اور واسطے گھڑنا جس طرح کہ بہت سے زائغین کا طریقہ ہے غلط اور بے بنیاد ہے وہ ایسے تمام امور اور اس طرح کے جملہ تصورات سے پاک ہے سبحانہ و تعالیٰ۔

۱۳۸۔۔  سو اصل چیز نیلے پیلے وغیرہ ان ظاہری اور حسی رنگوں کا اہتمام نہیں جو دنیا کے مختلف گروہوں اور فرقوں وغیرہ میں پایا جاتا ہے، پہلے بھی پایا جاتا تھا، اور آج بھی پایا جاتا ہے، اور جگہ جگہ اور طرح طرح سے پایا جاتا ہے، اور جس کے مختلف نمونے آج بھی جگہ جگہ اور طرح طرح سے پائے جاتے ہیں، اور جس کو ایسے لوگ بہت کچھ بلکہ سب کچھ سمجھتے ہیں اور وہ انہی کے پیچھے لگے رہتے ہیں سو اصل چیز یہ نہیں بلکہ اصل چیز اللہ کا وہ باطنی اور معنوی رنگ ہے جو قلب و باطن کی دنیا پر چڑھتا ہے اور اس کے آثار و انوار ان کے چہروں اور ظواہر پر نمایاں ہوتے ہیں، اور جس سے راہ حق و ہدایت روشن و منور ہو جاتی ہے اور انسان دارین کی سعادت و سروخروئی اور حقیقی فوز و فلاح سے سرشار و سرفراز ہو جاتا ہے اور باطن کا یہ معنوی اور مقدس رنگ چڑھتا ہے، صدق و اخلاص اور ایمان و یقین سے پس اصل فکر اسی کی کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس کے حصول اور اس سے سرفرازی کا موقع اسی دنیاوی زندگی میں ہے جو کہ آخرت کے لئے تزرعہ یعنی ایک عظیم الشان کھیتی ہے وباللہ التوفیق لما یحب و یرید،

۱۴۰۔۔  سو وہاں پر تم لوگوں کو اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہو گا۔ پس تم اپنی اصلاح کر لو۔ قبل اس سے اس کی فرصت و مہلت تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور تمہیں ہمیشہ کے بھگتان کے لئے دھر لیا جائے اور پھر تمہارے لئے نجات و فلاح کی کوئی صورت ممکن نہ رہے۔ والعیاذ باللہ الذی لا الہ الا ہو۔

۱۴۲۔۔  یعنی بیت المقدس جس کی طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کچھ عرصہ تک رُخ کیا تھا پھر جب آپ کو بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم و ارشاد فرمایا گیا تو اس پر یہود نے یہ اعتراض کیا کہ ان لوگوں کو ان کے اس سابقہ قبلہ سے کس چیز نے پھیر دیا؟ سو ان کے اعتراض کے نقل کرنے سے متعلق اس ارشاد ربانی سے دو اہم اور بنیادی باتیں مستفاد ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم و ارشاد پر لبیک کہنے کے بجائے اس پر سوال و اعتراض کرنے والے احمق اور بیوقوف ہوتے ہیں، کیونکہ یہاں پر ایسے لوگوں کو سفہاء کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ جو کہ جمع ہے سفیہہ کی، اور اس کے معنی کم عقل اور بیوقوف کے آتے ہیں، سو ایسے لوگ بڑے کم عقل اور بیوقوف ہیں، ورنہ وہ حضرتِ حق جَلَّ مَجْدُہ، کے کسی حکم و ارشاد سے متعلق اس طرح کا کوئی سوال و اعتراض کیونکر کرتے؟ والعیاذُ باللہ، اور دوسری طرف اس سے قرآنِ حکیم کی ایک پیشین گوئی بھی سامنے آتی ہے۔ اور اس کی صداقت و حقانیت کا ایک ثبوت بھی ملتا ہے، کیونکہ قرآنِ حکیم نے پیشگی خبر دی تھی کہ بیوقوف اور کم عقل لوگ اس طرح کہیں گے، اور انہوں نے ایسے کہا، ورنہ ان کے لئے یہ موقع تھا کہ وہ اپنے اندرونی بغض و عناد اور کینہ کی بناء پر قرآنی دعوے کی تکذیب و تغلیظ کے لئے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے، اور ایسی کوئی بات نہ کہتے، مگر انہوں نے اس سب کے باوجود ایسے کہا۔ جس سے قرآنی دعوے اور پیشین گوئی کی تصدیق ہو گئی، فالحمد للہ۔ 

۲۔  سو اصل چیز مشرق یا مغرب کی کوئی خاص جہت نہیں، بلکہ اصل چیز اللہ تعالیٰ کے اس حکم خاص کی اطاعت و پیروی ہے جس سے اس کے بندوں کی بہتری اور ان کی فلاح وابستہ ہے، سبحانہ و تعالیٰ

۱۴۳۔۔  یعنی ایسی امت جو افراط و تفریط کی دونوں انتہاؤں سے بچ کر توسط و اعتدال کی راہ پر چلتی ہے۔ اسلام سے پہلے لوگ دو قسموں پر تھے، اور اب بھی اس کے نمونے جا بجا موجود ہیں، ایک وہ جن کے نزدیک جسم اور اس کی مادی اور حسی لذتیں ہی سب کچھ تھیں، وہ انہی کے لئے جیتے اور مرتے تھے، روحانی تقاضوں کو انہوں نے یکسر نظر انداز کر دیا تھا، حلال و حرام، اور جائز و ناجائز، کی ان کے یہاں کوئی تفریق و تمیز نہیں تھی، اس طریقہ پر یہود و مشرکین اور ان کے ہم مشرب لوگ چلتے تھے، جبکہ اس کے بالکل برعکس دوسری قسم ان لوگوں کی تھی جنہوں نے مادی تقاضوں اور جسمانی آسائش کی جائز صورتوں کو بھی ترک کر کے روحانیت کی ترقی کے نام سے اپنے آپ کو ترکِ دنیا اور رہبانیت و جوگی پنے کی طرح طرح کی اور لرزہ خیز مشقتوں میں ڈال دیا تھا، اور اس طرح انہوں نے روحانیت کے نام سے اپنے آپ کو طرح طرح کے خود اختیار کردہ عذابوں میں ڈال دیا تھا۔ جیسے رہبانیت کے علمبردار و نصاریٰ اور ہندو جوگی وغیرہ، اسلام نے فطرت کے تقاضوں کے مطابق، ان دونوں کے برعکس۔ اور ان سے بچا کر انسان کو توسط و اعتدال کی اس راہ پر ڈالا جو کہ فطرت اور صحت و سلامتی کی راہ ہے اور جس میں جسم و روح دونوں کے تقاضوں کا پورا پورا لحاظ رکھا گیا والحمد للہ جل وعلا بکل حال من الاحوال

۲۔ اس لئے وہ تم کو ایسے احکام و قوانین سے نوازتا ہے جو عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق اور اس کی رحمت و رافت کے عکاس و آئینہ دار ہیں، اور انہی کو اپنانے میں تم لوگوں کا بھلا ہے دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس ابدی جہاں میں بھی۔ جبکہ ان سے اعراض و رُوگردانی دارین کی ہلاکت و تباہی کا راستہ ہے، والعیاذ باللہ جل وعلا

۱۴۴۔۔  کہ یہی قبلہ ابراہیمی ہے اور یہی اصل اور حقیقی قبلہ ہے اور یہی شرق و غرب سب مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ اور ہمیشہ یہی قبلہ رہے گا پس تم لوگ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنا رخ اسی کی طرف کیا کرو۔ وباللہ التوفیق 

۲۔  کیونکہ وہ ان کے ظاہر و باطن سب سے پوری طرح اور ایک برابر واقف و آگاہ ہے، ان کا کوئی قول و فعل اور حرکت و سکون اس سے مخفی نہیں، پس وقت آنے پر ان کو اپنے کئے کرائے کا بھگتان پوری طرح بھگتنا پڑے گا اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق بھگتنا پڑے گا، پس ان کو حیوانوں کی طرح نچنت اور بے فکر رہنے کے بجائے، اپنے اس انجام اور اس کے تقاضوں کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہیے، وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ و یرید

۱۴۵۔۔   اور جن کے عناد و ہٹ دھرمی کا عالم یہ ہو ان سے قبول حق کی یا کسی خیر کی کوئی توقع آخر کس طرح کی جا سکتی ہے؟سو ان کا تحویل قبلہ پر اعتراض کسی شک و شبہہ کی بناء پر نہیں، بلکہ محض بغض وحسد اور عناد وہٹ دھرمی کی بناء پر ہے تو پھر ان سے خیر کی کوئی توقع کس طرح کی جا سکتی ہے؟ سو عناد وہٹ دھرمی محرومی کی جڑ بنیاد ہے، والعیاذ باللہ العظیم

۲ ۔  کہ ان کا قبلہ منسوخ ہو چکا ہے اور آپ کے پاس ناسخ آ چکا ہے تو پھر آپ سے ان کے قبلہ کی طرف منہ کرنا کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ کہ ناسخ کے ہوتے ہوئے منسوخ کی پیروی جائز نہیں، بلکہ ناسخ ہی کو اپنانا ضروری ہوتا ہے۔

۳ ۔  اس ارشاد ربانی سے ایک تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ جس چیز کی پیروی یہ لوگ دین کے نام سے کرتے ہیں وہ درحقیقت دین نہیں بلکہ ان کی خواہشات کا پلندہ ہے، جس کو یہ دین کے نام سے اپنائے ہوئے ہیں، اسی لئے اس کو یہاں پر دین کے لفظ سے تعبیر نہیں فرمایا گیا، بلکہ اَہْوَاء کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ اور دوسری اہم حقیقت اس سے یہ واضح فرما دی گئی کہ علم حق کی روشنی سے سرفراز ہو جانے کے بعد دوسروں کے خود ساختہ دینوں اور ان کی خواہشات کی پیروی کرنا ظلم ہے والعیاذ باللہ۔ یہاں پر خطاب اگرچہ بظاہر پیغمبر سے ہے لیکن اس کا رخ اور عتاب دوسروں پر ہے۔ جو کہ بلاغت کا ایک معروف اسلوب ہے، کیونکہ اس میں یہ درس پایا جاتا ہے کہ دین حق سے منہ موڑ کر محض خواہشات نفس کرنے والے ایسے لوگ اس قابل نہیں کہ ان سے براہ راست خطاب کیا جائے بلکہ ان سے منہ موڑ کر ان کو بالواسطہ یہ حکم فرمایا گیا ہے۔

۱۴۶۔۔  سو جس طرح کسی کو اپنے بیٹے کی معرفت اور پہچان کرنے میں کوئی دقت اور دشواری نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح ان لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو پہچاننے میں کوئی دقت اور دشواری نہیں ہوتی، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جن صفات و خصال کا ذکر و بیان ان کی کتابوں میں موجود تھا ان کی بناء پر یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پوری طرح جانتے اور پہچانتے ہیں۔ اسی لئے دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا الَّذِیْ یَجِدُوْنَہ مَکْتُوْبًا عِنْدَہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ، یعنی جس کو یہ اپنے یہاں تورات کے اندر لکھا ہوا پاتے ہیں، سو یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو جانتے تھے، اور پورے یقین و وثوق سے جانتے تھے کہ یہ وہی نبی بر حق ہیں جن کا ذکر ان کی کتابوں میں آیا ہے لیکن عناد و ہٹ دھرمی اور کینہ و حسد کی بناء پر پھر بھی یہ مانتے نہیں تھے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔

۱۴۸۔۔   اور اس قادر مطلق کے حضور آخر کار تم سب کو بہرحال حاضر ہونا اور اپنے زندگی بھر کے کئے کراتے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے، سو اس کا تقاضا یہ ہے کہ تم لوگ فضول باتوں اور بے کار کاموں میں الجھنے اور ان میں اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے نیکیوں میں آگے بڑھنے اور سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ قبل اس سے کہ عمر رواں کی یہ فرصت محدود تمہارے ہاتھوں سے نکل جائے اور تمہیں ہمیشہ کے لئے پچھتانا پڑے۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔ کہ یہی اصل مقصد اور کرنے کا کام ہے۔ اور اس کے کرنے کا موقع اسی دنیاوی زندگی میں ہے اور بس سو اس سے غیر ضروری اور بے مقصد کاموں سے احتراز و اجتناب کا درس ملتا ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید۔ وعلی ما یحب و یرید۔ بکل حالٍ من الاحوال۔ وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ

۱۵۰۔۔  سو مسجد حرام کی طرف رُخ کرنے کے حکم کو تیسری مرتبہ پھر دوہرا گیا جس سے ایک طرف تو اس کی عظمت و اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔ اور دوسری طرف اس پر ان تین حِکمَ و منافع کو مرتب فرمایا گیا ہے جن کا ذکر اس کے بعد آگے آتا ہے۔ جو کہ عظیم الشان ہیں۔

۲۔  یعنی یہ حجت کہ سابقہ آسمانی کتابوں کی پیشین گوئیوں میں مذکور تھا کہ نبی آخر الزمان کا قبلہ بیت اللہ ہو گا۔ اب اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے بیت اللہ کو قبلہ نہ قرار دیا جاتا تو یہ لوگ کہتے کہ یہ وہ پیغمبر نہیں ہیں جن کا ذکر ان کتابوں کی پیشین گوئیوں میں فرمایا گیا ہے، سو اب تحویل قبلہ کے اس حکم و ارشاد کے بعد ایسے لوگوں کے لئے اس طرح کی کسی حجت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔ سوائے ان کے جو اپنے ظلم پر اڑے ہوئے ہیں، کہ ایسے لوگ اپنی حجت بازی کے لئے کوئی اور بات نکال لیں گے۔ کہ ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں۔ سو ایسے لوگوں سے نہ تم لوگ ڈرو۔ اور نہ ان کی پرواہ کرو، کہ یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے کہ تم بہرحال حق پر ہو، والحمد للہ

۱۵۱۔۔  یعنی تمہاری جنس سے، سو وہ تمہاری ہی طرح ایک بشر اور جملہ بشری تقاضے رکھنے والا رسولِ عظیم ہے تاکہ وہ تم لوگوں کو زندگی کے تمام دوائر اور جملہ بشری تقاضوں میں عمدہ اور عملی نمونے کی تعلیم دے سکے، تاکہ تم ان کی اتباع کر سکو۔

 ۲۔  تاکہ اس طرح تم لوگ اپنے ظاہر و باطن دونوں کے اعتبار سے پاکیزہ انسان بن سکو۔ اور تم کتاب و حکمت کے علوم و معارف سے بہرہ مند و سرفراز اور حق اور حقیقت کے علم کے نور سے مالا مال ہو سکو۔ اور اس کے نتیجے میں تم دنیا میں حیاتِ طیبہ یعنی ایک عمدہ اور پاکیزہ زندگی سے بہرہ مند ہو سکو، اور آخرت میں جنت کی نعیم مقیم اور وہاں کی اَبَدی بادشاہی سے بہرہ مند و سرفراز ہو سکو اور یہی ہے حقیقی کامیابی، اللہ نصیب فرمائے آمین ثم آمین

۱۵۳۔۔  سو مدد تو بہرحال اللہ تعالیٰ ہی سے مانگنی ہے کہ مدد دینے والا وہی وحدہٗ لاشریک ہے، سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ البتہ اس کی مدد مانگنے اور اس سے سرفراز ہونے کے دو بڑے اور اہم ذریعے صبر و صلوٰۃ ہیں۔ پس تم لوگ انہی دو ذریعوں اور وسیلوں سے اپنے اس خالق و مالک سے مدد و نصرت مانگو۔ بیشک اللہ ساتھ ہے صبر کرنے والوں کے یعنی اپنی نصرت اور مدد کے ذریعے سو یہ اس کی معیت خاصہ ہے جو ایسے صابرین کے لئے ہے۔ ورنہ اس کی معیت عامہ جو کہ کنایہ ہے اس کے علم و آگہی سے وہ عام اور اس کی سب ہی مخلوق کو شامل اور محیط ہے سبحانہ و تعالیٰ۔ پس اس کی نصرت و امداد سے سرفرازی کے لئے تم لوگ ہمیشہ صبر و صلوٰۃ سے کام لو،

۱۵۴۔۔  سو شہداء کرام دنیا کے اعتبار سے اگرچہ موت سے ہمکنار ہو جاتے ہیں، ان کی روحیں ان کے ابدان سے علیحدہ اور جدا ہو جاتی ہیں، ان پر نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔ اور ان کو دوسرے مُردوں کی طرح قبروں میں دفن بھی کر دیا جاتا ہے۔ ان کی بیویاں بیوہ ہو جاتی ہیں، ان کے دوسرے شوہروں سے نکاح بھی کر دیئے جاتے ہیں، ان کے بچے یتیم قرار پاتے ہیں، اور ان کی میراثیں بھی تقسیم کر دی جاتی ہیں وغیرہ وغیرہ یعنی دوسرے عام مردوں کے تمام احکام ان پر بھی جاری ہوتے ہیں۔ لیکن وہ عالم برزخ میں ایک ایسی امتیازی حیات سے بہرہ مند اور سرفراز ہوتے ہیں جو اور کسی کو نصیب نہیں ہو سکتی۔ اور جس کی اصل حقیقت کا شعور و ادراک بھی یہاں کس کو نہیں ہو سکتا۔ سو اپنی اسی امتیازی شان کی برزخی زندگی کی بناء پر وہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایات سے بہرہ مند وسرفراز ہوتی ہیں، پس تم لوگ ان کو مردہ مت کہو، اور نہ ان کو عام مُردوں کی طرح مردہ سمجھو۔

۱۵۶۔۔   کہ ہم سب اسی کی مخلوق اور اسی کے مملوک اور بندے ہیں، وہ ہمارا خالق بھی ہے اور مالک بھی پس وہ ہمارے بارے میں جو تصرف چاہے فرمائے اس کو اس کا پورا حق ہے کہ جب ایک عام مالک کو بھی اپنی ملکیت میں ہر طرح کے تصرف کا حق حاصل ہوتا ہے، تو پھر ایسے مالک کے حق تصرف کے بارے میں کہنے ہی کیا۔ جو کہ صرف مالک نہیں بلکہ خالق بھی ہے اور وہ چونکہ رؤف و رحیم اور رحمان وکریم بھی ہے اس لئے اس کے ہر تصرف میں خیر اور بھلائی ہی ہوتی ہے۔ خواہ ہمیں سمجھ آئے، یا نہ آئے سو اس احساس و شعور کے نتیجے میں ان سچے اہل ایمان سے مصیبت کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ اور ایسوں کے لئے ان کی مصیبت بھی نعمت اور رحمت بن جاتی ہے۔ والحمد للہ جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال

۲ ۔  سو جب ہمیں بہرحال اسی کے حضور لوٹ کر جانا اور حاضر ہونا ہے۔ تو پھر کسی جزع و فزع اور سوال و اعتراض کی کیا گنجائش؟ اور صحیح مسلم وغیرہ میں ام المومنین حضرت ام سلمہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس کسی کو کوئی مصیبت پیش آئے تو وہ اس پر اس طرح کہے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ اللّٰہُمَّ أَجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَیْ وَ اَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا۔ یعنی اے اللہ تو مجھے اس مصیبت میں اجر بھی دے، اور اس سے بہتر بدلہ بھی عطاء فرما، تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کا اجر و ثواب بھی عطاء فرماتا ہے۔ اور اس سے بہتر بدلہ بھی، تو پھر مومن صادق کے لئے کسی مصیبت میں کیا خسارہ؟ خسارہ تو اس کو ہوتا ہے جس کو کوئی اجر و ثواب نہ ملے، اسی لئے کہا جاتا ہے اِنَّمَا اَلْمُصَابُ مَنْ حُرم الثَّوَابَ یعنی مصیبت والا تو وہ ہے جو اجر و ثواب سے محروم رہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔

۱۵۷۔۔  یعنی حق و ہدایت کی اس راہ پر جو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، اور جس سے سرفرازی کے بعد انسان کے لئے مصیبت بھی نعمت اور رحمت بن جاتی ہے والحمد للہ۔

۱۵۸۔۔ اس لئے وہ کسی کی نیکی کی بے قدری نہیں کرتا بلکہ اس پر اس کو عظیم الشان اجر و ثواب سے نوازتا ہے بشرطیکہ وہ نیکی صحیح طریقے سے اور پورے صدق و اخلاص کے ساتھ اور نیک نیتی سے کی گئی ہو، کہ وہ شاکر کے ساتھ ساتھ علیم بھی ہے، اس لئے وہ انسان کے ظاہر و باطن اور اس کی نیتوں اور ارادوں سے بھی پوری طرح واقف ہے، پس فکر و کوشش ہمیشہ اس امر کی ہونی چاہیے کہ اپنے اس خالق و مالک کے ساتھ ہمارا معاملہ صحیح رہے اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے صحیح رہے، سبحانہ و تعالیٰ فَبِاللّٰہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید، بِکُلِّ حَالٍ من الاحوال۔

۱۵۹۔۔ سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کتمان حق یعنی حق کو چھپانے کا جرم کس قدر ہولناک اور کتنا سنگین جرم ہے۔ اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ کتمان حق کے اس جرم کے مرتکب لوگ خلق خدا کو نور حق و ہدایت سے محروم کر کے ان کو گھٹا ٹوپ اندھیروں کے حوالے کرتے ہیں جس کا نتیجہ و انجام ہولناک ہلاکت و تباہی ہونا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم، بکل حالٍ من الاحوال

۱۶۰۔۔ پس سچی توبہ کرنے والوں کے لئے معافی اور عفو و درگزر کا مژدہ جانفزا ہے بشرطیکہ وہ اپنے بگاڑ کی اصلاح بھی کر دیں۔ اور جس حق کو انہوں نے چھپایا تھا اس کو ظاہر بھی کرلیں۔ سو ایسوں کا جرم و قصور معاف، کہ وہ خالق و مالک جَلَّ جَلَالُہ، بڑا ہی درگزر کرنے والا، اور معاف فرمانے والا ہے، سبحانہ و تعالیٰ

۱۶۲۔۔  سو جن بدبختوں نے توبہ و اصلاح کا راستہ اپنانے کے بجائے اپنے کفر و انکار ہی پر اصرار کیا۔ اور وہ اپنے اس جرم پر قائم اور اس پر اڑے ہی رہے وہ اللہ اس کے فرشتوں اور عام لوگوں کی لعنت و پھٹکار میں پھنسے اور جکڑے ہی رہے۔ یہاں تک کہ اس کے نتیجے میں وہ دوزخ کے دائمی عذاب میں مبتلا ہو کر رہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۱۶۳۔۔  پس قولی و فعلی اور بدنی و مال ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی کا اور صرف اسی وحدہٗ لاشریک حق اور اسی کا اختصاص ہے۔ اس کے اس حق میں کسی بھی اور کو اس کا کسی بھی درجے میں حصے دار ماننا شرک ہو گا۔ جو کہ ظلم ہے والعیاذ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال

۱۶۴۔۔ کہ رات اور دن کے ان دونوں عظیم الشان نشانوں میں سے ایک آ رہا ہے۔ اور ایک جا رہا ہے، اور جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی گوناگوں مخلوق اور خاص کر انسانوں کے عظیم الشان فوائد و منافع اور طرح طرح کے مصالح وابستہ ہیں، سو دن کے اجالے میں یہ لوگ اپنے رزق روزی کی طلب و تلاش میں نکلتے ہیں، اور رات کے پُر کیف و پُرسکون سناٹے میں یہ آرام و راحت سے لطف اندوز ہوتے، اور ایسی گہری اور نفع بخش نیند سوتے ہیں کہ دن بھر کی سب تھکان دور ہو جاتی ہے، نیز ان دونوں میں سے ہر ایک کا گھٹنا بڑھنا کہ کبھی رات چھوٹی اور دن بڑا، اور کبھی اس کے برعکس اور نہایت ہی پُر حکمت طریقے سے، اور منٹوں اور سیکنڈوں کے حساب سے نہایت پابندی کے ساتھ ان کا اس طرح گھٹتے بڑھتے رہنا قدرت کی رحمت و عنایت کا کس قدر عظیم الشان اور محیر العقول نمونہ و مظہر، ہے سبحانہ و تعالیٰ، فلہ الحمد ولہ الشکر

۲۔  جن سے لوگوں کے طرح طرح کے عظیم الشان فوائد و منافع اور رزق و روزی کے اسباب و وسائل وابستہ ہیں، سو یہ اس کی رحمت کا ایک اور عظیم الشان مظہر ہے

۳۔  اور جو زندہ ہو کر طرح طرح کی انگوریاں اور نباتات اُگاتی ہے، اور گل و گلزار بن جاتی ہے جس سے خلق خدا اور خاص کر مخدوم کائنات یہ انسان طرح طرح کے فائدے اٹھاتا اور مستفید و فیضیاب ہوتا ہے، اور ہمیشہ ہوتا ہے، فالحمد للہ جل وعلا 

۴۔  جن سے انسان بالواسطہ اور بلا واسطہ طور پر طرح طرح کے فائدے اٹھاتا اور منافع حاصل کرتا ہے، اور دن رات اور مسلسل و لگاتار حاصل کرتا ہے۔

۵۔    سو ان تمام چیزوں میں عظیم الشان نشانیاں اور دلائل ہیں جو حضرت حق جَلّ مَجْدُہ، کے وجود باوجود اس کی وحدانیت و یکتائی، اس کی قدرتِ مطلقہ حکمت بالغہ اور رحمت شاملہ پر دلالت کرتے ہیں، نیز ان سے یہ ثبوت بھی ملتا ہے اور یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جس انسان کے لئے قدرت نے یہ عظیم الشان اور پُر حکمت اسباب معیشت و معاش پیدا فرمائے نہیں ممکن ہیں کہ اس کی زندگی عَبَث و بیکار ہو، اور وہ زندگی بھر ان تمام سے مسلسل و لگاتار فائدے اٹھاتا رہے، اور پھر مر کھپ کر یونہی ختم ہو جائے، یہ پُر حکمت نظام کائنات اپنی زبانِ حال سے اور صاف و صریح طور پر اس تصور کی نفی کرتا ہے، اور تقاضا کرتا ہے کہ اس دنیا کے بعد ایک ایسا یوم حساب آئے جس میں سب کی جانچ پرکھ اور چھانٹ پھٹک ہو۔ تاکہ ان لوگوں کو اپنی جانفشانیوں کا صلہ بدلہ ملے جنہوں نے اپنے رب کی بخشی ہوئی ان عظیم الشان اور گوناگوں نعمتوں کی قدر پہچانی اور انہوں نے ذکر و شکر اور اپنے خالق و مالک کی اطاعت و بندگی کی زندگی گزاری، اور اس کے برعکس ان لوگوں کو اپنے زندگی بھر کے لئے کرائے کی سزا ملے جنہوں نے ان عظیم الشان نعمتوں کی ناشکری و بے قدری کی، اور معصیت و نافرمانی کی زندگی گزاری۔ والعیاذُ باللہ، تاکہ اس طرح عدل و انصاف کا تحقق ہو سکے اور بدرجہ تمام و کمال ہو سکے، سو وہی دن قیامت کا دن ہے جو کہ حساب اور بدلے کا دن ہے۔ سو اس نے لازما آ کر اور واقع ہو کر رہنا ہے ورنہ یہ سارا کارخانہ قدرت عبث و بیکار قرار پائے گا۔ جو کہ حضرتِ خالق حکیم جَلّ مَجْدُہ، کی حکمت بے پایاں کے تقاضوں کے خلاف ہے سبحانہ و تعالیٰ۔

۱۶۷۔۔  اپنے اس کفر و انکار کی پاداش میں جس کو انہوں نے زندگی بھر اپنائے رکھا، اور وہاں پر یہ لوگ دوزخ کی اس انتہائی ہولناک اور حسی اور ظاہری آگ کے ساتھ ساتھ حسرتوں کی اس معنوی اور باطنی آگ سے بھی جلیں گے، جو ان کو وہاں پر اپنے ان گرووں کے اعلان براءت و بیزاری سے لاحق ہو گی۔ والعیاذ باللہ العظیم، بکل حالٍ من الاحوال

۱۶۸۔۔  اور تمہارے اس کھلے دشمن اور عدو مبین نے اپنی اس کھلی دشمنی اور عداوت کا علی الاعلان اظہار کیا ہے، پس تم لوگ کہیں اس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان حلال اور پاکیزہ چیزوں میں سے کسی کو اپنے اوپر حرام نہیں ٹھہرا لینا جو تمہارے خالق و مالک نے تمہارے فائدے اور بھلے کے لئے زمین میں اپنے کرم بے پایاں سے پیدا فرمائی ہیں پس تم لوگ ان کو کھا کر اور ان سے طرح طرح کے فائدے اٹھا کر اپنے اس خالق و مالک کا شکر ادا کرو۔ اسی میں تمہارا بھلا ہے دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور اَبَدی جہاں میں بھی جو اس کے بعد آنے والا ہے، اور اگر تم نے کہیں ان میں سے کچھ چیزوں کو شیطان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے اُوپر حرام قرار دے دیا، تو یہ خود تمہاری اپنی محرومی کے علاوہ اپنے رب کی ناراضگی کا باعث بھی ہو گا والعیاذ باللہ، ابن عباس کہتے ہیں کہ یہ آیت کریمہ بنو ثقیف اور بنو عامر وغیرہ قبیلوں کے ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئیں جنہوں نے اپنی کھیتیوں اور اپنے جانوروں وغیرہ کو بحائر و سوائب اور وصائل وغیرہ کے مختلف ناموں سے اپنے اوپر حرام کر دیا تھا (المرغی وغیرہ) والعیاذ باللہ جل وعلا

۱۷۰۔۔  یعنی ایک طرف تو وہ نور حق و ہدایت ہے جس کو اللہ نے اپنے بندوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے اتارا ہے، اور دوسری طرف ان کے آباء و اجداد کی وہ من گھڑت اور اندھی بہری عادات اور تقالید ہیں، جن کی نہ کوئی اساس ہے نہ بنیاد، جن کے لئے یہ لوگ نہ عقل سے کام لیتے ہیں، اور نہ ان کے پاس نقل اور ہدایت کی کوئی روشنی ہے تو ایسے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہوئی ہدایت سے منہ موڑ کر باپ دادا کی بے بنیاد عادات و تقالید کو اپنانا کتنی بڑی حماقت اور کس قدر ظلم و بے انصافی اور محرومی و بد بختی ہے والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے اور ہر قدم اپنی رضا وخوشنودی کی راہوں پر ہی اٹھانے کی توفیق بخشے، آمین

۱۷۱۔۔  سو آنکھ کان اور زبان وغیرہ اللہ تعالیٰ کے دیئے بخشے ہوئے عظیم الشان ذرائع علم و ادراک ہیں، جن کو صحیح طور پر استعمال کر کے اور ان سے صحیح طور پر کام لے کر انسان دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ ور و سرفراز ہو سکتا ہے، لیکن جو لوگ اپنی بد بختی سے ان کو ماؤف کر دیتے ہیں۔ اور وہ الٹا ان کو حق کے خلاف استعمال کرتے ہیں، تو وہ سنت خداوندی کی زد میں آ کر اندھے بہرے اور گونگے بن کر رہ جاتے ہیں۔ جو کہ بڑا ہی ہولناک خسارہ ہے۔ مگر ان کو اس کا کوئی احساس ہی نہیں ہوتا، جو کہ خساروں کا خسارہ ہے۔ وائے ناکامی کہ انسان سے احساس زیاں جاتا رہا۔ اللہ تعالیٰ ہر خسارے سے محفوظ اور اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ اور ہمیشہ اور ہر حال میں اپنا ہی بنائے رکھے، نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین یا ربَّ العالمین

۱۷۲۔۔  کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و بندگی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ، اور اس کی دی بخشی نعمتوں کو کھائے پئے۔ اور ان سے فائدہ اٹھا کر اللہ کا شکر ادا کرے۔ تاکہ اس طرح وہ اس کے لئے ذریعہ خیر بن جائیں۔ لیکن وہ اگر الٹا ان کو اپنے توہمات اور من گھڑت خیالات کی بناء پر اپنے اوپر حرام ٹھہرا لے، تو یہ تقاضائے عبدیت و بندگی کے خلاف اور بغاوت کے زمرے میں آتا ہے، کہ تحلیل و تحریم کا اختیار اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا اور اسی کو نہیں۔ سبحانہ و تعالیٰ

۱۷۳۔۔  اس آیت کریمہ میں اِنَّما کے کلمہ حصر کے ساتھ جن محرمات کا ذکر فرمایا گیا ہے اس سے مراد حصر حقیقی نہیں بلکہ اضافی ہے، کیونکہ اسلام میں حرام صرف یہی چار چیزیں نہیں ہیں، بلکہ اور بھی بہت سی چیزیں ہیں۔ سو یہاں پر اس حصر سے مقصود و مراد مشرکین کی ان خود ساختہ اور من گھڑت تحریمات کا رد ہے جو انہوں نے مختلف ناموں سے اپنا رکھی تھیں، اور جن کا اصل تعلق چوپایہ جانوروں ہی سے تھا، سو ان کی تردید کے سلسلہ میں اِنَّمَا کے کلمہ حصر سے ارشاد فرمایا گیا کہ حرام وہ نہیں جن کو تم لوگوں نے از خود اور مختلف ناموں سے حرام قرار دے رکھا ہے بلکہ حرام چیزیں یہ اور یہ ہیں جن کو اللہ نے حرام فرمایا ہے کہ وہ تمہارے لئے مضر اور نقصان دہ ہیں حسی اور ظاہری اعتبار سے بھی اور معنوی و باطنی اعتبار سے بھی دنیا کی اس عارضی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس ابدی جہاں میں بھی جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے پس تم لوگ ہمیشہ ان سے بچو، کہ اس میں خود تمہارا اپنا بھلا ہے۔ ہاں مجبوری کی حالت میں تمہارے لئے اس کی گنجائش ہے جبکہ دو شرطیں پائی جائیں۔ ایک یہ کہ ایسا شخص لذت کا طالب نہ ہو، اور دوسری یہ کہ وہ حد ضرورت سے تجاوز کرنے والا نہ ہو۔ والعیاذُ باللہ جل وعلا۔

۱۷۴۔۔  سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب کو چھپانا اور اس کے بدلے میں دنیائے دُوں کے گھٹیا مول کو اپنانا کس قدر سنگین جرم ہے، اور اس کا نتیجہ و انجام کس قدر ہولناک ہے والعیاذ باللہ العظیم۔

۱۷۵۔۔  سو یہ ان لوگوں کے حال پر اظہار تعجب ہے کہ ان کا یہ طرز عمل کس قدر قابل تعجب و افسوس ہے کہ یہ ہدایت کہ بدلے میں گمراہی کو اپناتے ہیں۔ اور بخشش کے مقابلے میں عذاب کو اختیار کرتے ہیں، اور اس ہولناک سودے اور اس کے ہولناک نتیجہ و انجام کے بارے میں یہ لوگ نچنت و بے فکر ہیں۔ سو یہ کیسی مت ماری ہے؟ کہ یہ لوگ اس قدر سخت ہولناک خسارے پر بھی بے فکر و لا پروا ہیں، جس کا بھگتان ان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بھگتنا ہو گا اور جس کی تلافی و تدارک کی پھر کوئی صورت ان کے لئے ممکن نہ ہو گی، والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ زیغ و ضلال کی ہر شکل اور الحاد و انحراف کی ہر قسم سے ہمیشہ محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھتے آمین۔

۱۷۶۔۔  اتنے دور کہ وہاں سے اب ان کا راہ حق و ہدایت کی طرف لوٹنا اور واپس آنا قریب المحال ہو گیا ہے، کہ نور حق و ہدایت سے سرفرازی کی اساس و بنیاد طلب صادق اور صدق نیت ہے۔ اور اس سے یہ لوگ دور و نفور اور محروم ہیں، تو پھر ان کو نور حق و ہدایت کی دولت ملے تو کیسے اور کیونکر؟ والعیاذ باللہ جل وعلا۔ اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کے بناؤ بگاڑ کا اصل تعلق اس کے اپنے قلب و باطن سے ہے۔ اللہ تعالیٰ دل کی دنیا کو صحیح رکھنے کی توفیق بخشے۔ اور ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا ربَّ العالمین

۱۷۷۔۔  یہاں پر حصر و قَصْر کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہی لوگ ہیں متقی و پرہیزگار، یعنی جن کی یہ اور یہ صفتیں ہوں، سو تقویٰ و پرہیز گاری کسی بناوٹ رنگ و نسل یا ظاہرداری کا نام نہیں، بلکہ یہ عبارت ہے ایمان و عقیدہ عمل و کردار، اور عمدہ اخلاق و صفات سے پس جن لوگوں کے اندر یہ اور یہ صفات ہوں گی وہی متقی و پرہیزگار ہوں گے، خواہ وہ کوئی بھی ہوں، اور کہیں کے بھی ہوں، اور ان کا تعلق کسی بھی صنعت و حرفت سے ہو۔ اور جتنا کوئی ان صفات کے اندر اپنا کمال پیدا کریگا۔ اتنا ہی وہ تقویٰ و پرہیز گاری کے کمال سے سرفراز ہو گا۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید۔ وعلی ما یحب و یرید بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الاحوال۔

۱۷۸۔۔  سو اس طرح نہیں جس طرح کہ دنیا کے ظالم معاشروں میں ہوتا ہے کہ کرتا کوئی ہے اور بھرتا کوئی اور جرم کوئی کرتا ہے اور بدلہ و انتقام کسی اور سے لیا جاتا ہے۔ امیر خاندان کے کسی ایک فرد کے قتل کے بدلے میں غریب خاندان کے کئی افراد کو قتل کیا جاتا ہے۔ اور امیر خاندان کے کسی معمولی انسان کے قتل پر غریب خاندان کے کسی بڑے اور سردار کو قتل کیا جاتا اگرچہ اس کا اس جرم قتل سے دور کا بھی کوئی تعلق اور واسطہ نہ ہو سو لینے اور دینے کے دو الگ الگ باٹوں کا یہ ظالمانہ نظام پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے، پس دین حنیف نے اس کے برعکس عدل و انصاف پر مبنی یہ رحمتوں بھری تعلیم دی کہ قتل اسی کو کیا جائے گا جس نے جریمہ قتل کا ارتکاب کیا ہو خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی حیثیت کا مالک ہو۔ کہ یہی تقاضائے عدل ہے۔

۲۔  کہ اس طرح قاتل اور جانی کی جان بخشی بھی ہو گئی۔ ورنہ ورثائے مقتول کو قصاص میں اس کی جان کا مطالبہ کرنے کا حق تھا اور مقتول کے ورثاء کی مدد و معاونت کی صورت بھی نکل آئی، سو تم لوگوں کو اپنے رب رحمان و رحیم کی اس رحمت و عنایت اور تخفیف و تسہیل کی دل و جان سے قدر کرنی چاہیے اور بدل صلح کو صدق دل سے ادا کرنا چاہئے۔

۱۷۹۔۔  کہ قاتل اور جانی کی ایک جان کے قتل و قصاص سے دوسری جانوں کی حفاظت ہوتی ہے، کیونکہ جب معاشرے کے ہر شخص کو اس بات کا یقین ہو گا کہ قتل کے نتیجے میں اس کی جان بھی جائے گی تو یقیناً وہ اقدام قتل سے باز رہیگا، اور اس طرح اس کے نتیجے میں سب کی جانیں محفوظ ہونگی، اور معاشرہ امن و استقرار سے سرفراز و مالا مال ہو گا۔ اور ہر کوئی دوسروں کی دست درازی سے محفوظ اور امن و امان میں رہیگا، سو تم لوگ اے عقول سلیمہ رکھنے والو! غور و فکر سے کام لو اور اپنے خالق و مالک کی طرف سے ملنے والے ان رحمتوں اور برکتوں بھرے احکام و ارشادات کو صدق دل سے اپناؤ۔ تاکہ خود تمہارا ہی بھلا ہو۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اور یہ شان اس وحدہٗ لاشریک کے احکام کے سوا اور کسی کے احکام کی نہ ہے۔ نہ ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ابنائے دنیا کی رسائی صرف دنیا ہی تک ہے۔ اور اس کے بھی محض ظاہری اور مادی پہلو تک، اور بس مادی ظواہر و مظاہر کے پس پردہ جو اصل حقائق کار فرما ہیں، ان تک ان کی رسائی نہ ہے نہ ہو سکتی ہے۔ اس لئے اہل دنیا کے احکام و قوانین اس شان کے ہو سکتے ہی نہیں کہ وہ انسان کے لئے حقیقی فوز وفلاح کے ضامن بن سکیں یہ شان حضرت خالق جَلّ مَجْدُہ، ہی کے احکام کی ہو سکتی ہے سبحانہ و تعالیٰ

۱۸۰۔۔  سو یہ تقاضا ہے ان کے تقوے کا، لیکن اس سلسلہ میں دو اہم اور بنیادی باتوں کا ملحوظ رکھنا ضروری ہے، ایک یہ کہ یہ وصیت ان وارثوں میں سے کسی کے لئے نہ ہو جن کے حصے میراث میں شریعت مقدمہ کی طرف سے مقرر فرما دیئے گئے ہیں، کیونکہ ایسے لوگوں میں سے کسی کے لئے وصیت کرنے سے صحیح حدیث میں منع فرما دیا گیا ہے، اور صاف اور صریح طور پر منع فرما دیا گیا ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں حضرت نبی معصوم علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مروی و منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ اِنَّ اللّٰہَ اَعْطیٰ کُلَّ ذِیْ حَقٍّ حَقَّہ،۔ فَلاَ وَصَیَّۃَ لِوَارثٍ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر حق والے کو اس کا حق دیدیا ہے پس اب کسی وارث کے لئے کوئی وصیت جائز نہیں، اور دوسری بات اس بارے میں یہ ملحوظ خاطر رکھنے کی ہے کہ یہ وصیت کل ترکہ کے ایک ثلث کے اندر ہو اس سے زیادہ نہ ہو۔ کیونکہ ثلث سے زیادہ کی وصیت جائز نہیں۔

۱۸۲۔۔  یعنی اگر کبھی موصی یعنی وصیت کرنے والے نے کسی طرف داری سے کام لیکر کسی کو اس کے حق اور استحقاق سے زیادہ دے دیا یا کسی کے حق میں ظلم و زیادتی کا ارتکاب کر کے اس کے حصے میں کمی کر دی جس کے نتیجے میں نزاع اور جدال کی صورت پیدا ہو گئی تو ایسے میں اگر کوئی مصلح اور منصف مزاج شخص نزاع و جدال کے خاتمے کے لئے اور اصلاح احوال کی غرض سے اس وصیت میں کسی طرح کی کوئی تبدیلی اور کمی بیشی کر دے تو اس میں اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا، کیونکہ یہ تبدیلی فساد کے لئے نہیں، بلکہ اصلاح احوال اور رفع نزاع و جدال کے لئے ہے جو کہ ایک اہم اور اصل مطلب ہے۔

۱۸۳۔۔  یعنی تاکہ اس طرح تم لوگوں کو حلال اور مباح چیزوں کو چھوڑنے کی عادت پڑے۔ تمہارے ارادہ و عزیمت میں قوت اور مضبوطی آئے۔ تمہیں خواہشات نفس پر کنٹرول کرنے کی تربیت حاصل ہو۔ تاکہ اس طرح تم نفس کو ناجائز خواہشات سے روک سکو۔ اور اپنے آپ کو مرضیات خداوندی کے مطابق ڈھالنے کا عادی بنا سکو، اور اس طرح بالآخر تم دوزخ کی ہولناکیوں سے بچ سکو۔ اور جنت کی سدا بہار نعمتوں سے بہرہ مند اور سرفراز ہو سکو، وباللہ التوفیق۔ لما یُحِبُّ و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید، بکل حالٍ من الاحوال وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ،

۱۸۴۔۔  سو اس میں روزے کے لئے کئی ترغیبات کا ذکر فرمایا گیا ہے، تاکہ اس طرح اہل ایمان خوشی بخوشی اور پورے شوق و رغبت سے اس عظیم الشان عبادت کی پابندی کریں اور اس طرح خود ان کا بھلا ہو، سو اس سلسلہ میں اول یہ بات ارشاد فرمائی گئی کہ روزے کوئی پہلی مرتبہ اور صرف تم ہی لوگوں پر فرض نہیں کئے گئے بلکہ تم سے بھی پہلے لوگوں اور پہلی امتوں پر بھی فرض کئے گئے۔ چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ پہلے زمانوں کی مختلف امتوں پر بھی اپنے اپنے زمانوں میں روزے فرض کئے جاتے رہے، اور دوسری بات یہ فرمائی گئی کہ اس کا بھلا اور فائدہ بھی خود تم ہی لوگوں کے لئے ہے، کہ اس سے تمہیں تقویٰ پرہیزگاری نصیب ہو، اور اس کے نتیجے میں بالآخر تم لوگ دوزخ کے انتہائی ہولناک عذاب سے بچ کر جنت کی سدا بہار نعمتوں سے سرفراز ہو سکو، جو کہ اصل اور حقیقی کامیابی ہے، اور تیسری بات اس سلسلے میں یہ ارشاد فرمائی گئی کہ یہ ہیں بھی گنتی کے کچھ دن یعنی صرف تیس یا انتیس دن، اور اس میں بھی یہ رعایت ہے کہ بیماروں اور مسافروں کے لئے قضاء کی اجازت ہے۔ سو احکام خداوندی کی تعمیل میں سراسر بندوں ہی کا بھلا اور فائدہ ہے، پس ان کی صدق دل سے تعمیل کرنی چاہیے وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید، بِکُلِّ حالٍ من الاحوال، وفِی کُلِّ مَوْطِنٍ مِّنَ المواطن فی الحیاۃ

۱۸۵۔۔  سو ان تعلیمات مقدسہ کے ذریعے حق اور باطل کے درمیان فرق اس طرح واضح ہو جاتا ہے کہ کسی طرح کا کوئی اشتباہ باقی نہیں رہتا۔ اور انسان پوری روشنی میں راہ حق و صواب پر گامزن ہو جاتا ہے، اور وہ اندہیروں سے نکل کر روشنی میں آ جاتا ہے، اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والی شاہراہ پر چل پڑتا ہے۔ والحمد للہ جل وعلا۔

۲۔  اس کی ان عظیم الشان نعمتوں پر جن سے اس نے تم لوگوں کو نوازا ہے، اور محض اپنے فضل و کرم سے نوازا ہے، کہ یہ اس واہب مطلق کا تم لوگوں پر حق بھی ہے، اور اسی میں خود تمہارا بھلا بھی ہے کہ شکر نعمت سے نعمت محفوظ رہتی ہے، اور اس میں خیر و برکت آتی ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید، بکل حال من الاحوال وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ

۱۸۶۔۔   روایات میں وارد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ کیا ہمارا رب ہمارے قریب ہے کہ ہم اس کو آہستہ سے پکاریں یا دُور ہے کہ ہم اسے زور سے پکاریں؟ (اَرَبُّنَا قَرِیْبٌ فَنْنَاجِیْہِ اَمْ بَعِیْدٌ فَنْنَادِیْہ؟) تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس سے واضح فرما دیا گیا کہ رب اپنے بندوں سے قریب، اور نہایت ہی قریب ہے، (اتنا کہ اس سے زیادہ قرب متصور ہی نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا کہ ہم انسان کے اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں، نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلٍ الْوَرِیْد (ق۔ ۱۶) نیز دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا کہ وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں بھی تم ہوؤ گے ہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَاکُنْتُمْ الایٰۃ (الحدید۔ ۴) اور اس قرب اور معیت سے مراد ہے وہ قرب اور معیت جو اس کے علم اور قدرت کے اعتبار سے ہوتا ہے، نہ کہ جسم اور جسمانیات کے اعتبار سے، کہ ایسے تمام شوائب سے وہ پاک ہے، سبحانہ و تعالیٰ، سو جس خدائے پاک کے قرب اور اس کی قدرت کی شان یہ ہو اس کو دنیاوی بادشاہوں اور فانی مخلوق پر قیاس کر کے اس کے لئے خود ساختہ اور من گھڑت واسطے اور وسیلے ڈھونڈنا جس طرح کہ اہل شرک و بدعت کرتے ہیں، کتنا غلط اور کس قدر ٹیڑھی منطق ہے والعیاذُ باللہ العظیم، سو اللہ تعالیٰ ایسے تمام شوائب اور تصورات سے پاک اور اعلیٰ و بالا ہے۔ اسی لئے اس کے لئے اپنے طور پر مثالیں گھڑنا اور اس کو دنیاوی بادشاہوں اور حاکموں پر قیاس کر کے من گھڑت وسیلے اور واسطے مقرر کرنا منع ہے، چنانچہ دوسرے مقام پر اس بارے صاف و صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا، فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الاَمْثَالِ الایٰۃ (النحل) یعنی تم لوگ اللہ کے لئے اپنے طور مثالیں مت گھڑو۔ اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ انسان اپنے طور پر جو بھی مثال بیان کرے گا وہ کسی مخلوق ہی کی، اور اسی کی شان کے لائق ہو گی، کہ انسان کی کھوپڑی بہرحال مخلوق، اور اس کی رسائی محدود ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ خالق، اور مخلوق کے دائرے سے وراء الوراء ہے۔ پس اس کو ویسے ہی مانا جائے جیسا کہ وہ اپنے بارے میں خود بتائے یا اس کا رسول بتائے سبحانہ و تعالیٰ یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب حکیم۔ اور رسول اللہ کی سنت مطہرہ سے ثابت ہو، یہی صحت وسلامتی کی راہ ہے، اور یہی تقاضا ہے عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا، جبکہ اس کے برعکس محض عقل دوڑائے، اور اس کے بارے میں من گھڑت تصورات قائم کرے، زیغ وضلال اور انحراف و شرک کے دروازے کھلتے ہیں، والعیاذ باللہ، پس وہ ایسا ہے جیسا کہ کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ سبحانہ وتعالیٰ، الذی لیس کمثلہ شی وہوالسمیع العلیم۔

۱۸۷۔۔  سو مِنَ الْفَجْرِ الْخَیْطُ الْأبْیَضُ کا، یعنی یہاں پر خیط ابیض سے یہاں پر اس کے ظاہری اور لغوی معنی مراد نہیں۔ بلکہ اس سے مراد دن کی وہ روشنی ہے جو اس کو رات کے اندھیرے سے جدا کرتی ہے سو اس توضیحی بیان کے نزول سے پہلے لوگ خیط ابیض اور خیط اسود کے لفظوں سے ان کے معروف لغوی معنی ہی مراد لیتے تھے چنانچہ صحیح روایات کے مطابق کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو سیاہ اور سفید رنگ کے دو دھاگے باندھ لیتے اور جب تک ان کا باہمی فرق واضح نہ ہوتا وہ کھاتے پیتے رہتے۔ یہاں تک کہ مِنَ الْفَجْرِ کا یہ توضیحی بیان نازل ہوا۔ اور ان سے اصل مقصود و مراد کو واضح فرما دیا گیا۔ (بخاری کتاب التفسیر اور مسلم کتاب الصیام وغیرہ) سو اس سے اصل حقیقت واضح ہو گئی۔

۲۔ یعنی تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ ان احکام اور اس کی مقرر فرمودہ ان حدود و قیود کی پابندی کر کے اس کی معصیت و نافرمانی سے بچ جائیں، اور اس کے نتیجے میں وہ دنیا میں فساد و مار سے بچ سکیں، اور آخرت میں دوزخ کے عذاب الیم سے بچ سکیں۔ سو اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام و قوانین اور اس کی مقرر فرمودہ حدود و قیود کی پابندی و پاسداری میں خود بندوں ہی کا بھلا اور فائدہ ہے، دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور اَبَدی جہاں میں بھی، جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے، اور جہاں کی زندگی اصل اور حقیقی زندگی ہے وباللّٰہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید۔

۱۸۹۔۔  سو یہ قدرت کی طرف سے لوگوں کی ہدایت و راہنمائی کے لئے ایک عظیم الشان عالمی جنتری ہے جس کی دوسری کوئی نظیر و مثال ممکن نہیں، اس میں تم لوگوں کے لئے اور ساری دنیا کے لوگوں کے لئے ہدایت و راہنمائی کے گوناگوں اور عظیم الشان پہلو ہیں، اگر لوگ اس میں صحیح طریقے سے غور و فکر سے کام لیں، تو اپنے اس خالق و مالک کی عظمتوں اور اس کے احسانات کے آگے دل و جان سے جھک جھک جائیں اور اس طرح دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ مند و سرفراز ہو جائیں۔ کہ جس خالق و مالک نے ہمیں ان عظیم الشان نعمتوں سے نوازا ہے وہی معبود بر حق ہے، سبحانہ و تعالیٰ

۱۹۰۔۔  سو حقیقی کامیابی اور فوز و فلاح سے بہرہ مندی اور سرفرازی کا طریقہ اور ذریعہ یہی ہے کہ انسان تقوی اور پرہیزگاری کی راہ کو اپنائے۔ اور جس کا حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ انسان ہمیشہ اور ہر موقع پر اور ہر حال میں اس اصولی بات اور بنیادی نقطے کو اپنے پیش نظر اور اپنی نگاہوں کے سامنے رکھے کہ میرا رب مجھ سے راضی رہے کہ سب سے پہلا اور سب سے بڑا اور مقدم و فائق حق مجھ پر اسی وحدہٗ لاشریک کا عائد ہوتا ہے، کہ اسی نے مجھے پیدا فرمایا اور وجود بخشا، اور اسی کی رحمت و عنایت اور اسی کے کرم و ربوبیت کے سہارے میں جی رہا ہوں۔ پس وہ ہر کام کے موقع پر اور ہر قدم اٹھاتے وقت سب سے پہلے یہ دیکھے کہ اس سے میرا رب اور میرا وہ خالق و مالک مجھ سے راضی ہو گا یا ناراض؟ اگر وہ اس سے راضی ہوتا ہے تو میں یہ کام کروں گا، نہیں تو نہیں کروں گا۔ پس اسی ایک نقطے پر اگر توجہ مرکوز رکھی جائے تو سب بگڑی بن جائے گی اور زندگی میں انقلاب آ جائے گا، اللہ توفیق بخشے اور ہمیشہ اپنا ہی بنائے رکھے۔ اٰمین ثم اٰمین، سو اس سے ایک مرتبہ پھر یہ حقیقت آشکارا و عیاں ہو جاتی ہے کہ انسان کے صلاح وفساد اور اس کے بناؤ بگاڑ کا اصل تعلق اس کے اپنے قلب و باطن سے ہے، پس انسان ہمیشہ اور ہر حال میں اپنے دل میں جھانک کر دیکھے کہ میرا تعلق میرے رب کے ساتھ کیسا ہے، اسی کو حدیث میں فرمایا گیا اِسْتَفتِ قَلْبَکَ، یعنی فتوی اپنے دل سے پوچھو، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید

۱۹۱۔۔  فتنہ سے مراد ابتلاء و آزمائش ہے (محاسن وغیرہ) سو ابتلاء و آزمائش اور ظلم و زیادتی کے ساتھ کسی کو دین حق سے پھیرنا قتل سے بھی کہیں بڑھ کر سخت اور بُرا ہے، کیونکہ قتل سے تو انسان کی صرف جان جاتی ہے نہ کہ ایمان اور ایمان کی سلامتی کے ساتھ اگر جان چلی بھی جائے تو بھی کوئی خسارہ نہیں، کہ ایسی صورت میں انسان شہید ہو کر نعیم جنت سے سرفراز ہو جاتا ہے، لیکن اگر خدا نخواستہ ایمان چلا جائے، تو پھر جان بچ بھی گئی تو کس کام کی؟ کہ اس کا انجام اور ٹھکانا تو دائمی دوزخ ہے، والعیاذُ باللہ، سو اصل چیز جسم و جان نہیں، بلکہ عقیدہ و ایمان ہے، اور فتنہ و آزمائش چونکہ دولت ایمان و عقیدہ سے محروم کر دینے کا باعث ہے اس لئے فتنہ قتل سے بھی کہیں بڑھ کر سخت اور باعث محرومی ہے والعیاذُ باللہ العظیم۔

۱۹۳۔۔  سو اس ارشاد سے جہاد فی سبیل اللہ کی اہمیت اور اس کی غرض و غایت واضح فرما دی گئی، کہ اس سے اصل مقصود فتنہ و فساد کا قلع قمع اور دین حق کی سربلندی کا راستہ صاف کرنا ہوتا ہے، تاکہ اس طرح حق کا بول بالا ہو، اور اس طرح عباد و بلاد دونوں کا بھلا ہو۔ سو جہاد اسلامی سے مقصود و مراد حکومت و کشور کشائی اور دنیاوی مال و دولت کا حصول نہیں، بلکہ اس سے مقصود و مراد دین حق کی عظمت و سربلندی ہوتا ہے جیسا کہ صحیح حدیث میں ارشاد فرمایا گیا لِتَکُوْنَ کَلِمَۃُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلْیَا یعنی جہاد کا حکم ارشاد اس لئے فرمایا گیا کہ تاکہ اللہ کا کلمہ ہی بلند ہو۔ والحمد للہ

۱۹۴۔۔  زیادتی کا بدلہ زیادتی نہیں ہوتا بلکہ وہ اصل میں ظلم اور زیادتی کا بدلہ ہوتا ہے جو کہ جائز ہے، مگر دونوں کی ظاہری شکل چونکہ ایک ہی ہوتی ہے، اس لئے اس کو مشاکلت یعنی ہم شکل ہونے کی بناء پر زیادتی کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے، اسی لئے بلاغت کی زبان میں اس کو صنعت مشاکلت کہا جاتا ہے، سو زیادتی کے مرتکب کو اس کی زیادتی کی سزا دینے، اور اس سے بدلہ لینے کی اجازت دی گئی ہے، مگر اس میں بھی یہ ہدایت فرمائی گئی ہے کہ بدلہ برابر سراسر ہو، نہ کہ زیادہ کہ ظلم کے بدلے میں ظلم، اور زیادتی کے بدلے میں زیادتی کی اجازت نہیں کہ اس طرح مظلوم ظالم بن جائے گا، جو کہ جائز نہیں، والعیاذ باللہ العظیم 

۲۔  سو اس سے واضح فرما دیا گیا اور ادوات تاکید کے ساتھ واضح فرما دیا گیا کہ تم لوگ یقین جانو کہ اللہ ساتھ ہے متقی اور پرہیزگار لوگوں کے، یعنی اپنی نصرت و امداد اور تائید و تقویت کے اعتبار سے ہی یعنی اس معیت سے یہاں پر مراد خاص معیت ہے۔ ورنہ اس کی معیت عامہ جو کہ عبارت ہے اس کی قدرت مطلقہ اور کمال علم و آگہی احاطہ و شمول سے، وہ عام اور سب کے ساتھ ہے، پس تم لوگ تقوی و پرہیزگاری کو ہمیشہ اپنائے رکھنا۔ اور اس کا خاص اہتمام کرنا۔ تاکہ اسطرح تم اللہ تعالیٰ کی معیت خاصہ تم لوگوں کو حاصل رہے۔ اور اس کی نصرت و امداد سے تم سرشار رہو کہ یہی تمہارا امتیاز اور تمہارا اصل سرمایہ ہے اس لئے ہمیشہ اسی چیز کو اپنے پیش نظر رکھا کرو، وباللہ التوفیق، لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید، بکل حال من الاحوال

۱۹۵۔۔  سو صفت احسان ایسی عظیم الشان صفت ہے جو انسان کو محبت خداوندی سے سرشار و سرفراز کرتی اور اس کو محبوب خدا بناتی ہے پس تم لوگ ہمیشہ اس کو اپنے اندر پیدا کرنے کی فکر و کوشش کرو کہ ہر کام کے سلسلہ میں تمہاری نیت و ارادہ بھی صحیح ہو۔ اور کام کا طریقہ بھی صحیح اور درست ہو۔ یعنی وہ اللہ اور اس کے رسول کے ارشادات و فرمودات کے مطابق ہو۔ اور اسی ذیل و ضمن میں یہ بھی ایک اہم مطلب اور بنیادی تقاضا ہے کہ تم لوگ اپنے مال راہ حق میں اور رضائے خداوندی کے لئے کے لئے خرچ کرو۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید،

۱۹۶۔۔  سو اس میں اِحْصَار کا حکم بیان فرمایا گیا ہے، یعنی جب کسی کو احرام باندھنے کے بعد بیت اللہ تک پہنچنے اور وہاں پر حج یا عمرہ کو مکمل کرنے سے روک دیا جائے، تو وہ کیا کرے؟ خواہ یہ اِحْصَار یعنی روکنا کسی دشمن کی طرف سے ہو، یا کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے، سو ایسا شخص قربانی کا جانور قربان گاہ کی طرف بھیج دے۔ اور جب وہ جانور اپنے مَحِلّ یعنی قربان گاہ کو پہنچ جائے اور وہاں پر اس کی قربانی کر دی جائے تو اس وقت یہ شخص حلق یا قصر کے ذریعے اپنا احرام کھول دے، اور مَحِلّ یعنی قربان گاہ سے یہاں پر مراد حرم ہے۔ کیونکہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ھَدْیاً بٰلِغَ الْکَعْبَۃِ الْایَٰۃِ (المائدہ۔٩۵) اور یہی حضرات اہل علم کے ایک گروہ کا قول ہے۔ جبکہ اس کے برعکس کچھ دوسرے حضرات اہل علم کا کہنا ہے کہ اس سے مراد وہی مقام ہے جس پر محرم کا اِحْصَار واقع ہوا ہو، کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیبیہ ہی کے مقام پر قربانی کر کے اپنا احرام کھول دیا تھا۔ جس کے جواب میں پہلی رائے والے حضرات کا کہنا ہے کہ حدیبیہ کا کچھ حصہ حدود حرم میں واقع ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی قربانی اسی حصے میں فرمائی تھی۔ علیہ الصلوٰۃ والسلام بہر کیف اس سے احصار کا حکم بیان فرما دیا گیا، والحمد للہ

۲ ۔  سو ان دس روزوں میں سے تین تو وہ چھٹی ساتویں اور آٹھویں ذوالحجہ کو رکھے۔ اور باقی سات سفر حج سے واپسی پر رکھنے ہوں گے،

  ۳۔  یعنی قِران اور تمتع کی یہ اجازت آفاقی لوگوں کے لئے ہے، کیونکہ ان کے لئے ان دونوں نسکوں میں سے ہر ایک کے لئے الگ الگ سفر کر کے آنا مشکل ہوتا ہے جبکہ مکہ والوں کے لئے ایسی کوئی مشکل نہیں اس لئے یہ حکم صرف آفاقی لوگوں کے لئے ہے، تاکہ وہ ان دنوں کے اندر یہ دونوں نسک ادا کر سکیں، سو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت و عنایت کا ایک نمونہ ومظہر ہے سبحانہ و تعالیٰ۔

۱۹۷۔۔  اور جب اللہ ہر نیکی اور خیر کو جانتا ہے تو پھر تم لوگوں کو اور کیا چاہیے؟ پس نیکیاں کئے جاؤ کہ اللہ ان سب کو جانتا ہے، اور وہ تم کو ان کے اجر و ثواب سے نوازے گا۔ اور تمہارا کوئی عمل ضائع نہیں جائے گا، اور نیکیوں کی کمائی کا موقع یہی دنیاوی زندگی ہے، اور بس، پس اصل فکر و کوشش ذخیرہ اعمال کو جوڑنے جمع کرنے ہی کے لئے کرنی چاہیے۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید۔

۲۔  سو جس طرح انسان کو دنیاوی سفر کے دوران کھانے پینے وغیرہ کے سامان کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اس کے لئے فکر و کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح بلکہ اس سے بھی کہیں زیادہ اس کو اپنے سفر آخرت کے لئے زاد سفر کے لئے فکر و کوشش کی ضرورت ہے، کہ یہ سفر لگاتار جاری ہے۔ اور اس کی منزل دائمی اور ابدی ہے۔ اور آخرت کے اس سفر میں کام آنے والا زاد راہ تقوی و پرہیزگاری ہے اس لئے ہمیشہ اسی کو اپنانے اور اختیار کرنے کے لئے کوشاں اور فکر مند رہنا چاہیے کہ یہی تقاضا ہے عقل و نقل دونوں کا، وباللہ التوفیق، لما یحب و یرید

۳ ۔   کہ عقل سلیم اور طبع مستقیم کا تقاضا یہی ہے کہ ہمیشہ اور ہر حال میں اللہ ہی سے ڈرا جائے۔ کہ اس کا حق سب سے بڑا اور سب سے مقدم و فائق ہے، اور اسی پر صلاح و فلاح کا مدار و انحصار ہے وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، اور اس کے برعکس جن لوگوں کی عقلیں میلی ہو گئیں۔ اور ان پر کفر و شرک اور مادیت و مادہ پرستی کی میل جم گئی، اور ان پر اس کا زنگ لگ گیا، وہ ماؤف و بیکار ہو گئیں، جس کے نتیجے میں وہ اصل حقیقت کو سمجھنے اپنانے اور اس کے فہم و ادراک سے قاصر ہو گئیں اس لئے ایسی عقلیں عقول سلیمہ نہیں، بلکہ عقول مریضہ بن گئیں اور ایسے لوگ اولو الالباب نہیں رہے۔ اور اس کے نتیجے میں وہ مادہ ومعدہ کے تقاضوں اور خواہشات بطن و فرج کے غلام بن گئے۔ والعیاذ باللہ جل وعلا

۱۹۸۔۔  کہ وہ بھی عبادت اور ذکر خداوندی کے خاص مقامات میں سے ایک اہم مقام ہے۔ لہٰذا تم لوگ اس میں تلبیہ تہلیل، تکبیر وتحمید، اور ثناء و دعاء، وغیرہ کے ذریعے اپنے اللہ کو خوب خوب یاد کرو۔ اور اس خاص وقت اور خاص موقع سے تم لوگ خوب خوب فائدہ اٹھاؤ۔ کہ یہ کسب وعمل کے خاص مواقع ہیں۔

۲۔  اور تم لوگ نور حق و ہدایت سے محروم طرح طرح کے اندہیروں میں بھٹکتے اور دھکے کھا رہے تھے، تو اس مالک الملک نے اپنے خاص کرم و احسان سے تم لوگوں کو حق و ہدایت کے اس عظیم الشان نور سے نوازا، اور سرفراز فرمایا، سو اس کے حق شکر کے طور پر تم لوگ ہمیشہ اس کو یاد کرو۔ یہ اس کا تم لوگوں پر حق بھی ہے، اور اسی میں خود تمہارا بھلا بھی ہے دنیا کی اسی عارضی اور فانی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی، جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے۔ اور اس کو یاد بھی ویسے ہی کرو جیسا کہ اس نے تم کو ہدایت فرمائی ہے سو وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ہَدَاکُمْ کا یہ مختصر مگر جامع جملہ جو اس خاص سیاق و سباق میں ارشاد فرمایا گیا ہے، اس کے ذریعے ایک بڑی اہم جامع اور اصولی تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کا ذکر ویسے ہی ہونا چاہیے جیسا کہ اس نے ہدایت فرمائی ہے، پس اس سے ان تمام بدعی طریقوں کی بیخ کنی ہو جاتی ہے، اور ان کی جڑ نکل جاتی ہے، جو اہل بدعت کے مختلف گروہوں نے مختلف ناموں سے از خود اور اپنے طور پر اختراع و ایجاد کر رکھے ہیں، سو ایسے بدعی اذکار و اور طور طریقے اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول نہیں ہونگے۔ بلکہ وہ مردود ہیں کیونکہ ہر بدعت صریح نصوص کی روشنی میں مردود ہے والعیاذُ باللہ، من کل زیغ وضلال

۲۰۰۔۔  بلکہ وہاں ان کے لئے محرومی ہی محرومی ہو گی۔ کیونکہ انہوں نے آخرت کی بھلائی مانگی ہی نہیں تھی۔ سو ایسے لوگ بڑے بدبخت اور سب سے بڑے محروم ہیں کہ آخرت کی وہ محرومی بڑی ہی ہولناک محرومی اور محرمیوں کی محرومی ہو گی والعیاذُ باللہ العظیم بکل حال

۲۰۱۔۔  سو یہ ایک عظیم الشان اور بڑی جامع دعا ہے جو دنیا و آخرت دونوں کی خیر کو شامل اور اس کے لئے جامع ہے اسی لئے حضرت انس فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اکثر یہی دعاء فرمایا کرتے تھے اور خود حضرت انس بھی اکثر و بیشتر یہی دعا کیا کرتے تھے (مسند امام احمد ومسلم کتاب الذکر و الدعاء، وابن کثیر، و محاسن التاویل، وغیرہ) وباللہ التوفیق سبحانہ و تعالیٰ

۲۰۳۔۔  یعنی ایام تشریق جن کے بارے میں حضرت نبیشہ الہذلی سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ایام تشریق کے یہ دن اکل و شرب اور ذکر اللہ کے دن ہیں (مسلم کتاب الصیام) اور حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان دنوں کے اندر تکبیر کہا کرتے تھے، اپنی نمازوں کے بعد، اپنے بستر پر، اپنے خیمے کے اندر، اپنی مجلس میں، اور اپنے چلنے پھرنے کے دوران، (بخاری کتاب العیدین، باب التکبیر ایام منیٰ) اور ایک روایت کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے قبے میں تکبیر کہتے تو اس کو سن کر مسجد والے اور بازار والے سب تکبیر کہتے یہاں تک کہ پورا منیٰ تکبیر کی آواز سے گونج اٹھتا (اخرجہ البخاری تعلیقا) اور ان دنوں کے اسی ذکر میں سے وہ تکبیرات بھی ہیں جو رمی جمار کے موقع پر کہی جاتی ہیں چنانچہ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہا کرتے تھے۔ (بخاری کتاب الحج) سو اللہ تعالیٰ کی یاد دلشان، اور اس کی تکبیر و بڑائی دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، وباللہ التوفیق

۲۔  جہاں پہنچ کر تم نے اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے۔ سو کوئی مانے یا نہ مانے، اور چاہے یا نہ چاہے، ایسا بہرحال ہو کر رہیگا۔ تاکہ ہر کوئی اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا پھل پائے، اور اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہوں، پس اس یوم حساب اور اس کے تقاضوں کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا۔ ان کو کبھی فراموش نہیں کرنا۔ ورنہ زندگی کا تمام زاویہ نگاہ غلط ہو جائے گا۔ والعیاذُ باللہ جل وعلا بکل حال من الاحوال

۲۰۴۔۔   کہ ایسے لوگ دنیاوی زندگی کے لئے بڑے بڑے منصوبے بناتے اور ان کو بڑے مرصع اور خوبصورت انداز میں پیش کرتے ہیں کہ ان کا اصل مقصد اور ان کا اوڑھنا بچھونا اسی دنیاوی زندگی کا متاع فانی اور اسی کا حُطامِ زائل ہوتا ہے اور بس یہ اسی کے لئے جیتے اور اسی کے لئے مرتے ہیں، جیسا کہ دوسرے مقام پر ایسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا وَلَمْ یُرِدْ اِلاَّ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا o ذَالِکَ مَبْلَغُہُمْ مِّنَ الْعِلْمِ الایٰۃ (النجم۲٨۔۲٩) نیز ایسے لوگوں کی ایسی مرصع تقریریں اسی دنیاوی زندگی میں چل سکیں گی اور بس کہ یہاں کا معاملہ ظواہر ہی پر ہے، لیکن آخرت میں ان کی نیتیں اور ارادے سب کچھ سامنے آ جائے گا۔ وہاں پر انکی بولتی بند ہو کر رہ جائیگی تب ان کو پتہ چل جائیگا،

۲۰۵۔۔  سو ایسے لوگوں کا کہنا کچھ ہوتا ہے اور کرنا کچھ اور دعوی تو یہ کرتے ہیں اصلاح اور خیر خواہی کا لیکن عمل ان کا ہوتا ہے شر و فساد اور بگاڑ وخرابی کا باتوں اور مجلسوں میں ایسے دعوے کرنے کے بعد جب یہ وہاں سے پھرتے ہیں اور جب عمل و کردار کی باری آتی ہے یا جب ان کو کوئی عہدہ و اقتدار ملتا ہے تو یہ اللہ کی زمین میں فساد مچاتے شر پھیلاتے اور حرث و نسل کی ہلاکت و تباہی کا سامان کرتے ہیں حالانکہ حرث و نسل اور ان کی اصلاح معاشرے کی اصلاح اور بہتری کی دو اہم بنیادیں ہیں تو پھر ایسے فسادی عناصر مصلح اور اللہ کے محبوب کس طرح ہو سکتے ہیں؟ والعیاذُ باللہ العظیم، بکل حال من الاحوال

۲۰۶۔۔  سو ایسے مفسد لوگ اگر حیات دنیا کی اس عارضی فانی اور محدود فرصت میں اپنے کئے کرائے کا بھگتان بھگتنے سے بچ بھی گئے تو ان کے لئے جہنم کافی ہے۔ جس میں سب کون کسر نکل جائیگی اور یہ اپنے انجام کو پہنچ کر رہیں گے والعیاذ باللہ جل وعلا

۲۰۷۔۔ سو اس سے عمل و کردار کا دوسرا نمونہ پیش فرمایا گیا ہے پہلے ان مفسدین اور اشرار وفجار کا نمونہ پیش فرمایا گیا جن کا کام شر اور فساد پھیلانا ہے جس کے نتیجے میں ان کو آتش دوزخ کا ایندھن بننا ہو گا۔ والعیاذُ باللہ، اس کے برعکس اس سے ان اخیار کا نمونہ پیش فرمایا گیا ہے جن کا اصل مقصد اور نصب العین رضاء خداوندی کا حصول اور خلق خداوندی کی حقیقی اصلاح و خیر خواہی ہونا ہے سو ایسے لوگ اپنے رب کی رضا کے لئے اپنی جانوں کا بھی سودا کر دیتے ہیں، اس لئے سو ایسوں کو وہ ضرور اپنی خاص عنایات سے نوازے گا کہ وہ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ پس نہ تو وہ ان کے بس اور طاقت سے بڑھ کر ان کو کسی بات کا مکلف بناتا ہے۔ اور نہ ہی ان کی کسی قربانی کی ناقدری کرتا ہے بلکہ وہ ان کو ان کے تھوڑے عمل اور معمولی قربانی پر بھی ایسے اجر و ثواب سے نوازتا ہے جو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا، کہ اس کا تو کام ہی نوازنا، اور کرم فرمانا ہے۔ اور ہمیشہ اور ہر طرح سے نوازنا اور کرم فرمانا۔ سبحانہ و تعالیٰ، مالک الملک! ہمیشہ ہم سے اپنے فضل و کرم ہی کا معاملہ فرما، اور ایک ایک قدم اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر اٹھانے کی توفیق عطا فرما، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھ، آمین ثم آمین

۲۱۰۔۔  یعنی حق کی توضیح میں اب کوئی کسر باقی نہیں رہ گئی بلکہ حق کو پوری طرح اور ہر لحاظ سے واضح فرما دیا گیا۔ سو اب بھی جو لوگ حق کو نہیں مانتے، تو ان کا کوئی علاج نہیں۔ اب تو یہی مرحلہ باقی رہ گیا کہ قیامت آ جائے؟ اور یہ لوگ اپنے آخری انجام کو پہنچ کر رہیں، اس وقت یہ خود مانیں گے اور خوب مانیں گے، اور چیخ چیخ کر مانیں گے، مگر اس وقت کے اس ماننے کا ان کو کوئی فائدہ بہرحال نہیں ہو گا، سوائے ان کی آتش یاس و حسرت میں اضافے اور ہمیشہ کے خسارے کے والعیاذ باللہ العظیم۔

۲۱۱۔۔  سو وہ ایسے ناشکرے بدبختوں کو ان کے کفر و انکار کی سخت سزا دیگا۔ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے آ جانے کے بعد ان کی قدر کرنے اور ان پر ایمان لانے کے بجائے ان کا کفر کیا۔ پس ایسوں کو اپنے کفر و انکار کا بھگتان بہرحال بھگتنا ہو گا کہ یہ بھی اس رب رحمان کے عدل و انصاف کا تقاضا ہے۔ سو یہ ایسے ہی ہے جیسے سورہ ابراہیم میں کفار قریش کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کیا انہوں نے اللہ کی نعمت کو کفر سے بدلا جس کے نتیجے میں انہوں نے اپنی قوم کو ہلاکت وتباہی کے انتہائی ہولناک اور دائمی گڑھے میں اتار دیا، یعنی جہنم میں جو کہ بڑا ہی بُرا ٹھکانا ہے (ابراہیم ۲٨۔۲٩) والعیاذ باللہ، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین

۲۱۲۔۔  سو اس سے ایسے بدبختوں کی محرومی اور ہلاکت کے اصل سبب اور باعث کی نشاندہی فرما دی گئی کہ ان لوگوں کے نزدیک دنیاوی زندگی کی زیب و زینت اور اس کا مال و متاع ہی سب کچھ ہے، یہ اسی کے لئے جیتے اور اسی کے لئے مرتے ہیں، اس سے آگے کسی چیز کی طرف یہ سر اٹھا کر دیکھتے ہی نہیں، تو پھر ان کو حق و ہدایت کا نور ملے تو کیسے اور کیونکر؟ کہ نور حق و ہدایت سے سرفرازی کے لئے اولین شرط طلب صادق ہے،

۲۱۳۔۔  یعنی عقیدہ توحید پر جو کہ فطرت انسانی میں مرکوز و پیوست ہے، پھر بعد میں مختلف عوامل و محرکات کی بناء پر ان کے اندر شرک کے جراثیم پیدا ہوئے اور وہ طرح طرح کی شرکیات میں ملوث و مبتلا ہوئے سو عقیدہ توحید ارتقاء انسانی کا نتیجہ نہیں جس طرح کہ کچھ گمراہ مفکرین و منکرین کا کہنا ہے بلکہ یہ جبلت انسانی اور فطرت بشری کی پکار ہے جیسا کہ مختلف نصوص کریمہ میں اس حقیقت کو طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے اور سورہ روم کی آیت نمبر۳ میں اس کو صاف و صریح طور پر فطرت کی پکار قرار دیا گیا ہے۔ جس کو اپنانا اور اختیار کرنا عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا تقاضا ہے ارشاد ہوتا ہے فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا لَا تَبْدِیْلَ لِکَلِمَاتِ اللّٰہِ۔ الایۃ، یعنی تم لوگ اللہ کی اس فطرت کو اختیار کرو اور اپناؤ جس پر اس نے سب لوگوں کو پیدا فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ کے کلمات و ارشادات میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ سبحانہ و تعالیٰ، سو عقیدہ توحید فطرتِ انسانی میں مرکوز و پیوست ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ہر بچہ اسی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر آگے اس کو جیسا ماحول ملے گا وہ ویسا ہی بن جائے گا۔ ماں باپ اگر یہودی ہونگے تو اس کو یہودی بنا دیں گے۔ نصرانی ہونگے تو اس کو نصرانی بنا دیں گے۔ اور اگر وہ مجوسی ہونگے تو اس کو مجوسی بنا دیں گے۔ سو انسان کے اندر جو بھی فساد و بگاڑ پیدا ہوتا ہے وہ خارجی اثرات ہی سے پیدا ہوتا ہے، ورنہ اس کی اصل فطرت عقیدہ توحید ہی پر ہے۔

۲۔  کیونکہ ہدایت اور صراط مستقیم سے سرفرازی کا اصل مدار و انحصار انسان کی، اپنی نیت اور اس کے ارادہ و چاہت پر ہے، پس جو صدق دل سے دولت ہدایت اور نور حق کا طالب ہو گا اس کو اللہ پاک اس سے نوازے گا، مگر جو چاہتا ہی نہ ہو تو اس کو اس سے سرفرازی نصیب نہیں ہو سکتی کیونکہ طلب و تلاش کے بغیر جب دنیا کی کوئی عام اور معمولی نعمت بھی نہیں مل سکتی، تو پھر حق و ہدایت کی نعمت جو کہ اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے، وہ طلب و تلاش کے بغیر کس طرح اور کیونکہ مل سکتی ہے؟ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے میں ارشاد فرمایا گیا اَنُلْزِمُکُمُوْہَا وَاَنْتُمْ لَہَا کَارِہُوْنَ (ہود۔ ۲٨) یعنی کیا ہم اس کو تم لوگوں پر چپکا دیں گے۔ جبکہ تم اس کو ناپسند کرتے ہوؤ گے؟ اور استفہام یہاں پر ظاہر ہے کہ انکاری ہے یعنی ایسے نہیں ہو سکتا کہ تم لوگ اس کو چاہتے ہی نہ ہو اور ہم اس کو یونہی تم پر چپکا دیں اور نیتوں اور چاہتوں کا تعلق چونکہ انسانوں کے قلوب و بواطن سے ہے جن کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو نہیں ہو سکتا۔ وہی وحدہٗ لاشریک جانتا ہے اور جان سکتا ہے کہ کس کے باطن کی کیفیت کیا ہے۔ اسی کے مطابق وہ اس سے معاملہ فرماتا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔

۲۱۴۔۔  یعنی اللہ تمہارے دشمنوں کے مقابلے میں تمہاری مدد فرمائے گا۔ اہل شر و فساد سے تمہاری حفاظت فرمائیگا۔ اور کلمہ حق و ہدایت کو سربلند رکھے گا پس تم مطمئن رہو اور اپنے رب کی نصرت و امداد کی امید رکھو، اور اس کے ساتھ اپنا معاملہ صحیح رکھو،

۲۱۵۔۔  سو جواب میں مَا اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ سے واضح فرما دیا گیا کہ خرچہ جو بھی اور جتنا بھی تم سے ہو سکے کرو، کیونکہ نفلی صدقات میں کوئی حد مقرر نہیں ہوتی، البتہ تم لوگوں کو اصل فکر و اہتمام اس امر کا کرنے کی ضرورت ہے کہ جو بھی کچھ تم خرچ کرو وہ اس کے صحیح مصرف میں لگے۔ سو یہ جواب علی اسلوب الحکیم کے قبیل سے ہے کہ سائل کو اس کے سوال کے جواب میں اس بات کی بھی ہدایت و راہنمائی کی جائے جو اس کے لئے ضروری ہو، اگرچہ سوال میں اس کا ذکر کیا گیا ہو، تاکہ اسطرح اس کا بھلا ہو، سو یہ بھی حق تعالیٰ کی رحمت و عنایت کا ایک واضح مظہر ہے فلہ الحمد و الشکر

۲۔  اور جب وہ جانتا ہے اور پوری طرح جانتا ہے تو پھر تم لوگوں کو کسی چیز کی کیا پرواہ ہو سکتی ہے کیونکہ اللہ جب تمہارے دیئے بخشے سب کو جانتا ہے تو تم لوگوں کو اس کا اجر و ثواب ضرور ملے گا۔ پس تم لوگ نیکیاں کئے جاؤ، اور جتنا ہو سکے اس کے نام پر، اور اس کی رضا کے لئے خرچ کئے جاؤ کہ وہ بہرحال محفوظ ہو گا اور اس کا اجر و ثواب تم کو ملے گا، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید

۲۱۶۔۔  سو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور بدرجہ تمام و کمال جانتا ہے کہ تمہاری بہتری کس میں ہے اور جبکہ وہ رحمان و رحیم بھی ہے تو اس کی طرف سے جو بھی حکم و ارشاد ہو گا اس میں تمہارا ہی بھلا ہو گا دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور اَبْدی جہان میں بھی جو کہ اس کے بعد آنے والا ہے۔ پس تم لوگوں کو اس کے ہر حکم و ارشاد پر صدق دل سے سر تسلیم خم کر دینا چاہیے اور اس پر پوری طرح مطمئن رہنا چاہیے، کہ اس کے نام پر اور اس کی رضا کے لئے کی جانے والی کوئی بھی نیکی کبھی ضائع نہیں جائیگی، بلکہ پوری طرح محفوظ رہیگی، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید وعلی ما یحب و یرید۔ بکل حالٍ من الاحوال وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ،

۲۱۷۔۔  روایات میں وارد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوہ بدر سے دو ماہ قبل اٹھارہ افراد پر مشتمل ایک سریہ طائف کی طرف بھیجا، اور ان پر اپنے پھوپھی زاد بھائی حضرت عبد اللہ بن جحش کو امیر مقرر فرمایا، اور ان کے ذمے یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ قریش کے ایک قافلے کا تعاقب کریں جس میں عمرو بن عبد اللہ الحضرمی بھی تھا، اور اس کے ساتھ تین اور آدمی بھی تو انہوں نے عمرو بن عبد اللہ کو قتل کر دیا۔ اور اس کے دونوں ساتھیوں کو قیدی بنا دیا۔ اور ان کے سامان تجارت پر بھی قبضہ کر لیا، اور یہ واقعہ جس دن پیش آیا اس دن رجب کی پہلی تاریخ تھی جبکہ ان حضرات کے خیال میں یہ جمادی الاخری کا آخری دن تھا سو اس غلط فہمی کی بناء پر ان سے یہ حادثہ سرزد ہو گیا، تو اس پر قریش نے شور مچانا شروع کر دیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور ان کے ساتھیوں نے شہر حرام کی حرمت کو پامال کر دیا وغیرہ وغیرہ تو اس موقع پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ سو اس میں اعتراض کرنے والے ان مشرکین کے قلوب پر دستک دی گئی اور ان کو جھنجھوڑا گیا کہ حرمت والے مہینے میں اس حادثے کا وقوع تو قصداً اور دانستہ نہیں تھا۔ بلکہ غلط فہمی سے ہو گیا۔ لیکن تم لوگ جن جرائم کا ارتکاب قصداً کرتے ہو ان کو نہیں دیکھتے کہ وہ کتنے بڑے اور کس قدر سنگین جرم ہیں کہ وہ تو ایک سے بڑھ کر ایک سنگین جرم ہے، پس تم کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔

۲۔  پس تم لوگ اے ایمان والو! ان سے محتاط اور بچ کر رہنا۔ اور اپنی متاع ایمان کی ہمیشہ فکر کرنا۔

۳۔  کیونکہ جن کی موت کفر پر آئیگی۔ والعیاذ باللہ۔ انہوں نے ہمیشہ دوزخ ہی میں رہنا ہے، وہ کبھی اس سے نکل نہیں سکیں گے اور ان بدبختوں کے لئے دوسرے مختلف مقامات کی طرح یہاں بھی اَہْلُ النَّار انہیں فرمایا گیا بلکہ اَصْحَابُ النَّار فرمایا گیا ہے۔ اور اصحاب جمع ہے صاحب کی جس کے معنی ساتھی اور دوست کے آتے ہیں، یعنی یہ لوگ دوزخ کی اس دہکتی بھڑکتی ہولناک آگ کے ساتھی اور دوست ہوں گے، سو جس طرح ساتھی اور دوست اپنے ساتھی اور دوست سے الگ نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اس کے ساتھ ساتھ ہی رہتا ہے، اسی طرح یہ بھی اس آگ کے ساتھ اور اسی کے اندر رہیں گے، نہ دوزخ کی وہ ہولناک آگ ان کو چھوڑے گی اور نہ یہ اس سے کسی طرح علیحدہ ہو سکیں گے بلکہ ہمیشہ اسی میں جلتے بھنتے رہیں گے والعیاذُ باللہ العظیم۔

۲۱۹۔۔  یعنی کچھ مادی اور دنیاوی فوائد و منافع، جو ابنائے دنیا اور مادہ پرست لوگوں کے یہاں بڑی چیز سمجھے جاتے ہیں کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے سو وہ لوگ کہا کرتے تھے کہ شراب اور جوئے کے اس کاروبار سے کئی لوگوں کے روزگار وابستہ ہیں، اور ان کے لئے روزی روٹی کا مسئلہ حل ہوتا ہے، شرابی لوگ شراب پی کر مستی اور نشے کے عالم میں اپنی دولت خوب لٹاتے ہیں، جس سے غریبوں کا فائدہ ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ سو مادہ پرست لوگ شراب خانہ خراب کے ان وقتی اور مادہ فائدوں کو بڑی اہمیت دیتے اور یہی حال مادہ پرست لوگوں کا ہمیشہ رہا ہے، کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے ایسے لوگ چند ٹکوں کے مادی فوائد کے عوض اور ان کے مقابلے میں دین و ایمان کے تقاضوں کو قربان کر دیتے ہیں، والعیاذ باللہ العظیم، جبکہ ایمان والوں کے نزدیک اصل چیز حلال اور حرام کے درمیان فرق و تمیز ہے۔ جو چیز حلال ہو گی اس کو اپنائیں گے، اور اختیار کریں گے اور جو حرام ہو گی اس سے اجتناب برتیں گے، خواہ وہ کثیر ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ حلال پر اکتفا کرنا جنت سے سرفرازی کا ذریعہ ہے اور حرام دوزخ کا باعث، والعیاذ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال

۲۲۰۔۔  کہ دنیا اور اس کی لذتیں اور اس کے فوائد و منافع سب کچھ عارضی اور فانی ہے، اور آخرت اور وہاں کی نعمتیں اصل حقیقی اور اَبَدی ہیں، سو دنیا کی ان عارضی اور فانی لذتوں اور وقتی فوائد و منافع کی بناء پر اور ان کے حصول کی غرض سے آخرت کو بھول جانا، اور اس کے تقاضوں کو پس پشت ڈال دینا، عقل و نقل کے دونوں کے تقاضوں کے خلاف، اور بڑا ہی ہولناک خسارہ ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔

 ۲۔  روایات میں وارد ہے کہ جب یتیموں کے بارے میں مختلف اور سخت تنبیہات والی آیتیں نازل ہوئیں، جیسے سورہ انعام کی آیت وَلَا تَقَرَبُوْا مَالَ الْیَتِیمْ اِلاَّ بِالَّتِیْ ھیَ اَحْسَنُ الایٰۃ (الانعام۔۱۵۲) اور سورہ نساء کی آیت اِنَّ الَّذِیْنَ یَاکُلُوْنَ اَمْوَالَ الیَتَامَی ظُلْمًا الایٰۃ (النساء۔۱٠) تو جن لوگوں کے پاس کوئی یتیم تھا وہ سخت پریشان ہو گئے انہوں نے یتیموں کا کھانا پینا وغیرہ سب کچھ الگ کر دیا۔ اور یہاں تک کہ اگر ان کے کھانے میں سے کچھ بچ جاتا تو وہ اس کو بھی نہ کھاتے۔ یہاں تک کہ وہ گل سڑ کر خراب ہو جاتا۔ پھر انہوں نے اس صورت حال کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا۔ اور اس بارے میں آپ سے پوچھا تو اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی (ابو داؤد کتاب الوصایا، اور نسائی کتاب الوصایا) سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اصل چیز جو مقصود ہے وہ ہے یتیموں کے ساتھ حسن معاملہ اور ان کے ساتھ اصلاح اور بہتری کی رَوَش کو اپنانا آگے اس کی جو بھی شکل مناسب ہو وہ اپنائی اور اختیار کی جائے۔ اللہ نیتوں کو جانتا ہے، اور وہ تم لوگوں کو مشقت میں نہیں ڈالنا چاہتا، سبحانہ و تعالیٰ

۲۲۱۔۔  اور وہ اپنے نفع و نقصان سے متعلق آگہی حاصل کر لیں، اور اس حقیقت کو جان لیں کہ اصل دولت ایمان و یقین کی دولت ہے، کہ یہی دولت انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے بہرہ مند و سرفراز کرنے والی واحد دولت ہے، اس لئے اس کی عظمت و اہمیت اور اس کی حفاظت و بقاء کی فکر کریں، اور اسی کو اولیت و فوقیت دیں۔ اور حرام اور خاص کر ترویج حرام اور اس کی ہر قسم اور شکل سے دور و نفور رہیں کہ اس کا نتیجہ و انجام دوزخ ہے۔ والعیاذ باللہ اس سے متعلق خود رقم آثم کا ایک بڑا عبرت انگیز اور سبق آموز قصہ بھی ہے جو راقم آثم کے قیام دبی کے دوران پیش آیا، اور جس میں راقم نے اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت سے ایک خاص اور تاریخی نوعیت کا کردار ادا کیا۔ والحمد للہ جل وعلا نے جو راقم نے اپنی بڑی تفسیر میں اس موقع پر ذکر کیا ہے اسی کی طرف رجوع کیا جائے۔ کہ بڑا اہم اور سبق آموز ہے۔  اسلام سے پہلے حائضہ عورت کے بارے میں بھی دوسرے مختلف امور کی طرح لوگ افراط و تفریط میں مبتلا تھے۔ یہود کے یہاں اس حالت میں عورت کے ساتھ کھانا پینا اور رہنا سہنا بھی جائز نہیں تھا اور وہ لوگ ایسی حالت میں عورت کے گھر کے اندر رہنے سہنے کے بھی روا دار نہیں تھے سو افراط و تفریط کی اس صورت حال میں بعض صحابہ کرام نے اس بارے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا تو اس پر آیت کریمہ نازل ہوئی (صحیح مسلم کتاب الحیض، بروایت انس جبکہ اس کے برعکس نصاریٰ کے یہاں اس سے مباشرت اور وطی بھی جائز تھی سو اسلام نے اس بارے عدل و انصاف پر مبنی توسط و اعتدال کی تعلیم دی۔ کہ ایسی حالت میں عورت کے ساتھ وطی و مباشرت تو جائز نہیں۔ لیکن اس کے سوا باقی سب تعلقات درست ہیں۔ چنانچہ صحیح مسلم کی مذکورہ بالا روایت میں ارشاد فرمایا گیا۔ اِصْنَعُوْا کُلَّ شَیْءٍ اِلاَّ النَّکَاحَ یعنی اس کے ساتھ وطی کے سوا باقی سب کام جائز ہیں۔

۲ ۔  یعنی وہ محبت کرتا، اور پسند فرماتا ہے ان لوگوں کو جو توبہ کے ذریعے اللہ کی طرف رجوع کرتے رہتے ہیں، وہ معاصی پر اصرار نہیں کرتے، اور وہ فواحش و اقذار سے بچتے رہتے ہیں، سو اس میں فواحش و منکرات سے بچنے اور توبہ و انابت کی راہ کو اپنانے کے لئے تحریض و ترغیب ہے وباللہ التوفیق لما یحب و یرید۔ وعلی ما یحب و یرید۔ سبحانہ و تعالیٰ۔

۲۲۳۔۔  سو ازواج کے لئے حرث (کھیتی) کے لفظ کے استعمال اور اس تعبیر میں بڑی بلاغت، اور بڑے عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت ہیں مثلاً یہ کہ یہ ایک عظیم الشان اور بے مثال کھیتی ہے جس کی دوسری کوئی نظیر و مثال نہیں پائی جا سکتی کہ اس کھیتی سے انسان کو اولاد کا وہ عظیم الشان اور بے مثال پھل ملتا ہے جس جیسا دوسرا کوئی پھل ہو ہی نہیں سکتا۔ جو انسان کو زندگی میں اور زندگی کے بعد اور دنیا و آخرت دونوں میں اس کو کام آنے والا پھل ہے۔ پھر اس میں یہ درس بھی ہے کہ اپنی کھیتی کو انسان اجاڑتا نہیں بلکہ اس کی حفاظت و نگرانی کرتا ہے۔ نیز انسان اپنی کھیتی کو دیکھ کر وہ خوش ہوتا ہے، اور اس میں چل پھر کر اور اس کو دیکھ کر وہ اپنے قلب و نظر کے سرور و سکون کا سامان کرتا ہے، اور کھیتی میں وہ اس طرح آتا ہے جس طرح کہ اس کی بہتری ہو۔ اور اس کی سرسبزی و شادابی میں اضافہ ہو۔ وغیرہ وغیرہ سو حرث کے اس لفظ اور اس استعارے میں یہ سب ہی معانی و مفاہیم مراد و مطلوب ہیں، کہ یہ سب ہی بڑے اہم اور نہایت وقیع ہیں، والحمد للہ جل وعلا۔

۲۲۵۔۔  یمین لغو اس قسم کو کہا جاتا ہے جو حلف و قسم کے قصد و ارادہ کے بغیر یونہی کھا لی جائے، جیسا کہ عرب اپنی عام گفتگو میں کہا کرتے تھے۔ اور اب بھی کہتے ہیں لَا وَاللّٰہِ اور بَلیٰ واللہ وغیرہ، سو ایسی قسموں میں چونکہ قسم کا ارادہ نہیں ہوتا اس لئے ان پر کوئی مواخذہ نہیں۔ کہ ان میں حلف و قسم مراد ہی نہیں ہوتا۔ البتہ جو قسم دل کے ارادہ و نیت سے کھائی جائیگی۔ اس کو پورا کرنا ضروری ہو گا۔

۲۲۸۔۔  سو طلاق یافتہ عورتوں کو تین ماہ تک عدت گزارنا۔ اور انتظار کرنا ہو گا اس دوران وہ اپنے متوفی خاوند کے گھر ہی میں رہیں گی، اور زیب و زینت سے بھی پرہیز کریں گی۔ اس عدت کے بعد وہ اگر چاہیں تو کسی اور سے نکاح کر سکتی ہیں۔ لیکن اس بارے میں یہ امر واضح رہنا چاہیے کہ مطلقات سے مراد وہ عورتیں ہیں جن سے خلوت صحیحہ ہو چکی ہو اور جن سے خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو۔ ان پر سرے سے کوئی عدت ہے ہی نہیں جیسا کہ سورہ احزاب کی آیت نمبر۴٩ میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ نیز ان مطلقات سے مراد وہ عورتیں ہیں جن کو حیض آتا ہو۔ اور جن کو حیض نہ آتا ہو ان کی عدت تین ماہ ہے جیسا کہ سورہ طلاق کی چوتھی آیت میں اس کی تصریح فرما دی گئی ہے۔ سو یہ عدت صرف ان مطلقہ عورتوں کے لئے ہے جو حاملہ نہ ہوں کیونکہ حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے، جیسا کہ سورہ طلاق کی چوتھی آیت میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ بہر کیف اس ارشاد سے ان طلاق یافتہ عورتوں کی عدت کو واضح فرما دیا گیا جن کو حیض آتا ہو کہ ان کی عدت حیض ہے، اور ان کے بارے میں اس حقیقت کی بھی تصریح فرما دی گئی کہ وہ اس چیز کو نہ چھپائیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے رحموں کے اندر پیدا فرمائی ہے۔ اگر وہ ایمان رکھتی ہوں اللہ پر اور قیامت کے دن پر، یعنی یہ ان کے ایمان و یقین کا تقاضا ہے، کہ وہ اپنے رحموں کے اندر کی حالت کے بارے میں صحیح صحیح بات بتا دیں، کیونکہ انقضاء عدت اور اس سے متعلق دوسرے امور کا دارو مدار اسی چیز پر ہے۔

۲۔ یعنی ان کے شوہروں کو ان سے رجوع کا حق اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ وہ ان کے ساتھ اچھائی اور بھلائی کا سلوک کرنا چاہیں۔ ان کو نقصان اور تکلیف پہنچانے کی نیت نہ رکھتے ہوں، فِیْ ذَالِکَ کی قید سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ مطلقہ عورتوں کے ان شوہروں کو ان سے رجوع کا یہ حق صرف مدت عدت کے دوران ہے۔ اس کے بعد وہ اپنے معاملے کی خود ذمہ دار اور خود مختار ہوں گی۔ ان کے ان سابقہ شوہروں کا اس کے بعد ان پر کسی طرح کا کوئی حق نہیں ہو گا۔

۳۔  اور یہ درجہ ان کی قوّامیّت اور فوقیت کے اعتبار سے ہے جو کہ فطرت کا تقاضا ہے، اور جو حضرت فاطر فطرت نے اپنی قدرت و حکمت، اور رحمت و عنایت سے مردوں کے اندر رکھا ہے، اور جو خاندان کے نظام کو قائم رکھنے اور چلانے کے لئے ضروری ہے۔ جیسا کہ سورہ نسا کی آیت نمبر۳۴ میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے اور مرد کی حاکمیت اور قوّامیّت کی اس امتیازی صفت کی سورہ نساء کی اس آیت کریمہ میں دو وجہیں بیان فرمائی گئی ہیں ایک یہ کہ مرد کی فطری خصوصیات اور اس کی جبلی صفات کا تقاضا یہی ہے کہ اس کو حضرت فاطر نے پیدا ہی ایسا فرمایا ہے کہ وہ ہر لحاظ سے عورت پر فطری اور طبعی فضیلت اور فوقیت رکھتا ہے اور جو خاندانی نظام کو چلانے کے لئے ایک اہم اور بنیادی عنصر ہے اور دوسرے اس لئے کہ مرد اپنی کمائی اور اپنے مال سے خرچ کرتا ہے، کیونکہ گھر کا نظام چلانے اور عورت کے اخراجات کو پورا کرنے کی اصل ذمہ داری اسی پر ہے۔

۲۲۹۔۔  اسلام سے پہلے یہ رواج تھا کہ کوئی شخص اگر اپنی بیوی کو سو طلاق دے دیتا تو بھی وہ جب چاہتا اس سے رجوع کر لیتا، اور اس طرح عورت مسکین مسلسل و لگاتار ظلم میں مبتلا رہتی، تاآنکہ اسلام کی رحمتوں بھری تعلیمات نے اس سے اس ظلم و زیادتی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا اور واضح فرما دیا کہ مرد کو صرف تین طلاقوں کا حق ہے اور بس اس کے بعد وہ عورت اس کے لئے ہمیشہ کے لئے حرام ہو جائیگی، اور اس کو اس سے رجوع کا کوئی حق نہیں ہو گا۔ یہاں پر مَرّتَانِ کے لفظ سے یہ بھی واضح فرما دیا گیا کہ یہ دونوں طلاقیں بھی ایک ساتھ نہیں، دے دینی چاہئیں، بلکہ یکے بعد دیگرے وقفے کے ساتھ دی جانے چاہئیں۔ کہ اس صورت میں مرد کے لئے یہ موقع باقی اور موجود رہتا ہے کہ ایک طلاق کے بعد وہ اگر چاہے تو اس سے رجوع کر لے، اور اپنے معاملے میں صحیح طریقے سے غور و فکر کرے، تاکہ اس کا بھلا ہو۔

۲۔  اس ارشاد سے ایک تو اس اہم حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے احکام و ارشادات دراصل اس کی مقرر فرمودہ حدود ہیں۔ پس ان کے التزام اور پابندی ہی میں سب لوگوں کا اور پورے معاشرے کا بھلا اور بہتری ہے۔ دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی اور آخرت کے اس حقیقی اور اَبَدی جہان میں بھی جو کہ اس دنیا کے بعد آنے والا ہے۔ اور دوسری اہم حقیقت اس سے یہ واضح فرما دی گئی کہ جو لوگ اللہ کے حکموں کو توڑتے اور اس کی مقررہ کردہ حدود کو پھلانگتے ہیں، والعیاذ باللہ، وہ ظالم ہیں سو وہ ظالم ہیں اللہ کے حق میں کہ انہوں نے اس کے حق اطاعت و عبودیت کی خلاف ورزی کی، اور یہ ظالم ہیں اس کے رسول کے حق میں کہ انہوں نے اس کے حق اطاعت و اتباع سے منہ موڑا، نیز ایسے لوگ ظالم ہیں خود اپنی جانوں کے حق میں کہ انہوں نے خدا و رسول کی اطاعت سے منہ موڑ کر خود اپنے آپ کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے محروم کیا؟ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ظلم اور عدو ان کے ہر شائبے سے محفوظ رکھے۔ اور ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین

۲۳۰۔۔  یعنی جو علم رکھتے ہیں حق اور حقیقت کا اور ان کو اس حقیقت کا احساس و ادراک ہوتا ہے کہ وہ اپنے خالق اور مالک کے بندے، اور اس کے یہاں جوابدہ ہیں، اور اس کا حق سب سے مقدم اور سب پر فائق ہے، سو جو لوگ اس اہم اور بنیادی حقیقت کا احساس و ادراک رکھتے ہیں، یا رکھنا چاہتے ہیں وہی خداوند قدوس کی مقرر کردہ اور نازل فرمودہ ان حدود و قیود کی پابندی کرتے۔ اور ان کے انوار و برکات سے مستفید و فیضیاب ہوتے ہیں، رہ گئے وہ لوگ جو حق اور حقیقت کے اس بنیادی علم و ادراک سے محروم و بے بہرہ ہیں وہ ان سے استفادہ سے محروم ہیں اگرچہ دنیاوی علوم اور مادہ اور معدہ سے متعلق معلومات کے بارے میں وہ کتنی ہی ڈگریاں اور ڈپلومے کیوں نہ رکھتے ہوں۔ کہ ان کی ساری تگ و دو کا محور و مدار صرف مادہ و معدہ اور اس کے تقاضے ہوتے اس سے آگے سوچنے کے لئے وہ تیار ہی نہیں ہوتے، جس سے وہ اِنْ ہُمْ اِلاَّ کَالْاَلْعَامَ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ کا مصداق بن کر رہ جاتے ہیں، جو کہ محرومیوں کی محرومی اور خرابیوں کی خرابی ہے والعیاذ باللہ العظیم۔

۲۳۱۔۔  کہ ایسے لوگ دوسروں کی لعنت و ملامت اور ان کی تحقیرو تذلیل کا بھی مورد بنتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے یہاں کے عتاب و عذاب کے بھی سو دوسروں پر ظلم کرنا دراصل خود اپنی جان پر ظلم کرنا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں، اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین

۲ ۔  سو جب وہ ہر چیز کو جانتا ہے اور پوری طرح جانتا ہے تو اس کا ہر حکم و ارشاد سو فیصد اور بدرجہ تمام و کمال حق و انصاف پر مبنی ہے۔ اور جب وہ علیم کے ساتھ ساتھ رحمان و رحیم بھی ہے تو اس کا ہر حکم و ارشاد سو فیصد صحیح اور بدرجہ تمام و کمال اس کی رحمت و عنایت پر مبنی و مشتمل ہے اور جب یہ شان اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی کی نہ ہے نہ ہو سکتی ہے، تو پھر اس کے کسی بھی حکم و ارشاد کا کوئی بدیل اور متبادل کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ پس جس طرح وہ خود بے مثل اور بے مثال ہے اسی طرح اس کا ہر حکم و ارشاد بھی بے مثل اور بے مثال ہے سبحانہ و تعالیٰ۔ پس اطاعت مطلقہ بھی اسی کا اور صرف اسی وحدہٗ لاشریک کا حق ہے اور اس سے اس کی اطاعت سرفرازی دارین کی سعادت وسرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ اور واحد ذریعہ و وسیلہ ہے۔ اور اس سے اعراض و رُوگردانی والعیاذ باللہ۔ دنیا و آخرت کی ہر خیر سے محرومی کا سبب اور باعث ہے والعیاذ باللہ العظیم۔

۲۳۲۔۔  سو عدت کے پورا ہو جانے کے بعد ایسی عورتوں کو ان کی اپنی مرضی کے اور اپنے تجویز کردہ شوہروں سے نکاح سے روکنا اور منع کرنا جائز نہیں کہ یہ ان کا حق ہے، بشرطیکہ یہ نکاح دستور کے مطابق ہو، کہ نہ اس میں کسی حکم شرعی کی کوئی خلاف ورزی پائی جاتی ہو، اور نہ معروف و دستور کے کسی ایسے طریقے کی خلاف ورزی ہو جو ان کے خاندانوں کے شرف و وقار کے خلاف ہو۔ یہاں پر بلوغ اجل کا ذکر جو ان دونوں آیات کریمات میں آیا ہے، سیاق کلام دلالت کرتا ہے کہ ان دونوں کا مفہوم الگ الگ ہے۔ اوپر والی آیت کریمہ میں وارد لفظ بلوغ مشارفت اور قرب کے معنی میں ہے، جبکہ اس آیت کریمہ میں یہ لفظ اپنے اصل اور حقیقی معنی و مفہوم میں ہے، یعنی پہنچ جانا (المحاسن وغیرہ) ہم نے اپنے ترجمہ کے اندر بین القوسین کے الفاظ سے اس فرق کو واضح کر دیا ہے والحمدللّٰہ جَل وعلا، بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الاحوال، فانہ ہو الاہل للحمد فی الاولیٰ والأخرۃ، جَلّ جَلَاَلُہ، وَعَمَّ نوالہ،

۲۳۳۔۔  سو بچے کو دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے، یعنی زیادہ سے زیادہ دو سال۔ اس سے اوپر اس کو ماں کا دودھ پلانا جائز نہیں۔ البتہ اس مدت سے کم کیا جا سکتا ہے، اگر والدین باہمی مشورہ سے طے کریں، کہ والدہ کی صحت کی بناء پر، یا کسی اور وجہ سے اس کو دودھ جھڑا دیا جائے تو وہ ایسا کر سکتے ہیں۔ یہ معاملہ ان کی رائے اور مشورے پر منحصر ہے، اور ارضاع یعنی دودھ پلانے کے حکم کو یہاں پر والدات یعنی ماؤں کی طرف منسوب فرمایا گیا ہے اور یہ اس لئے کہ ان کا دودھ بچے کے لئے سب سے بہتر اور عمدہ غذا ہے تمام اطباء اور ڈاکٹروں کا اس پر اتفاق ہے کیونکہ بچہ حمل کے دوران اسی کے خون کی غذاء پر پلتا ہے اور وضع حمل کے بعد اس کا وہی خون قدرت کی بے پایاں رحمت و عنایت اور اس کی قدرت کاملہ، اور حکمت بالغہ سے اس کے لئے دودھ بن جاتا ہے۔ جو اس کی طبیعت کے عین مطابق ہوتا ہے اور جو اس کے نمود اور ترقی کے مطابق بدلتا اور متغیر ہوتا جاتا ہے سو ماں کا دودھ بچے کی ایسی عظیم الشان اور بے مثال قدرتی غذا ہے جس کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا۔ پس ماؤں کو ان کی مدت رضاعت کے دوران اپنے بچوں کو اپنا دودھ پلانا چاہیے۔ یہی ان کی امومت یعنی ممتا کا تقاضا ہے اور اسی میں سب کی اور بہتری اور بھلا ہے۔

۲ ۔  کہ اس کا معاملہ بنیادی طور پر انہی کے حوالے اور ان ہی کی صوابدید پر ہے، پس وہ اگر چاہیں تو دو سال کی مدت رضاعت کو پورا کریں اور اگر وہ دیکھیں کہ ماں کی صحت یا کسی اور وجہ سے اس سے پہلے ہی دودھ چھڑا دینا چاہیے، تو ان کو اس کا بھی اختیار ہے سو اس سے گھریلو امور اور خاندانی معاملات میں باہمی صلاح مشورے کی اہمیت بھی واضح ہو جاتی ہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید۔

۳۔  پس تم لوگوں کو ہمیشہ اور ہر موقع پر اس بات کا پاس و احساس ہونا اور رہنا چاہیے کہ ہمارا معاملہ اللہ وحدہٗ لاشریک کے ساتھ صحیح اور درست رہے۔ کہ وہی ہمارا خالق و مالک اور رب بھی ہے جس کا حق سب سے بڑا، سب پر مقدم اور سب پر فائق ہے اور اسی کی یہ شان ہے کہ وہ ہمیں ہمیشہ اور ہر حال میں دیکھتا ہے۔ اور اسی کے حضور حاضر ہو کر ہمیں اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا جواب دینا اور اس کا صلہ و بدلہ پانا ہے۔ سو تقویٰ و پرہیزگاری اور خوف و خشیت خداوندی اصلاح احوال کی اصل اساس و بنیاد ہے اللہ نصیب فرمائے۔ اور ہمیشہ اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے۔ اٰمین ثم اٰمین۔ بہر کیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ اس وحدہٗ لاشریک، خالق کل اور مالک مطلق سے تمہارا کوئی بھی کام اور کوئی بھی قول و فعل کسی بھی حال میں مخفی و مستور نہیں رہ سکتا۔ اس لئے اس کے اوامر و ارشادات، اور احکام و فرامین کو دنیاوی احکام و فرامین کی طرح نہیں سمجھ لینا جہاں محض دکھلاوے اور ظاہرداری کا معاملہ چل جاتا ہے، کہ وہاں ایسے نہیں ہو سکتا، بلکہ وہاں پر ظاہر سے پہلے باطن کا معاملہ صاف اور درست رکھنے کی ضرورت ہے وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید، سو مومن کا عمل ظاہر اور باطن ہر اعتبار سے صحیح اور درست ہونا چاہیے، باطن کی اصلاح کا مدار و انحصار صدق و اخلاص پر ہے، اور ظاہر کا مدار اتباع سنت پر اس لئے مومن صادق کی نظر ہمیشہ اسی امر نقطہ پر مرکوز رہنی چاہیے کہ اس کا ہر عمل انہی دو بنیادوں پر استوار ہو، یعنی صدق و اخلاص، اور اطاعت و اتباع پر، و باللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید

۲۳۵۔۔  سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ عدت کے دوران ایسی عورتوں سے اشارہ و کنایہ میں نکاح کا پیغام دینے میں کوئی حرج نہیں، مثلاً یہ کہے کہ مجھے اپنے گھر سنبھالنے کے لئے ایک شریف عورت کی ضرورت ہے، یا یہ کہ آپ جیسی کوئی اچھی خاتون مجھے مل جاتی تو میرے گھر کا نظام بہت اچھی طرح چلتا، یا یہ کہ مجھے کسی وفا شعار شریک حیات کی ضرورت ہے، وغیرہ وغیرہ، سو اصل تو یہی ہے کہ دوران عدت اس طرح کے کسی اشارہ و کنایہ کی بھی اجازت نہ ہوتی، لیکن انسانی فطرت، اور اس کے طبعی میلان کی رعایت میں اس کی اجازت دے دی گئی اسی لئے ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ تم لوگ ان عورتوں کو یاد کرو گے اس لئے تمہارے اس فطری میلان و رجحان کی بناء پر تم کو اس کی اجازت دے دی گئی، لیکن بات صرف اشارہ و کنایہ ہی کی حد تک رہے۔ اس سے آگے بڑھ کر کہیں ان سے کوئی خفیہ عہد و پیمان نہ کر لینا کہ اس سے آگے کئی طرح فتنے جنم لے سکتے ہیں اور مختلف قسم کی خرابیاں پیدا ہو سکتی ہیں، والعیاذ باللہ العظیم، خطبہ کا لفظ جب حرف خاء کے پیش کے ساتھ ہو تو اس کے معنی خطاب کے آتے ہیں جیسا کہ جمعے کا خطبہ وغیرہ اور جب یہ اس کے زیر کے ساتھ ہو جیسا کہ یہاں ہے تو اس کے معنی منگنی کے آتے ہیں۔

۲۔  اس لئے اس کے یہاں صرف ظاہرداری سے کام نہیں چل سکتا۔ بلکہ وہاں پر دلوں کے ارادوں اور نیتوں کو درست رکھنا بھی ضروری ہے۔ اس لئے اس کے ساتھ اپنے دلوں کے ارادوں کو بھی درست رکھنا۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید

۲۳۶۔۔  سو عورت کو جب طلاق ایسی صورت میں دی جائے کہ اس کے لئے مہر بھی مقرر ہو۔ اور خلوت صحیحہ بھی ہو چکی ہو تو اس کو پورا مہر دیا جائے گا۔ اور اگر مہر تو مقرر ہو لیکن خلوت صحیحہ نہ ہوئی ہو تو ایسی صورت میں اس کو مہر مقرر کا آدھا حصہ دیا جائے گا۔ اور اگر خلوتِ صحیحہ تو ہوئی ہو لیکن اس کے لئے کوئی مہر نہیں مقرر کیا گیا تھا تو اس کو مہر مثل دیا جائے گا۔ اور اگر خلوت صحیحہ بھی نہیں ہوئی۔ اور کوئی مہر بھی مقرر نہیں تھا تو اس کو متعہ یعنی کچھ سامان دیا جائے گا۔ اور یہی تقاضا ہے عدل و انصاف اور عقل و نقل کا، کیونکہ جب اس کے لئے کوئی مہر بھی مقرر نہیں تھا۔ اور اس کے شوہر نے اس سے کوئی استمتاع بھی نہیں کیا، یعنی اس نے اس سے خلوت صحیحہ کا فائدہ بھی نہیں اٹھایا، تو اس کو کسی مہر کا حق نہیں پہنچتا۔ دوسری طرف جب اس کو خاوند سے داغ مفارقت اٹھانا پڑا تو اس کی تلافی اور مدارات کے لئے اس کو متعہ یعنی کچھ سامان دینا ضروری ہے روایات میں وارد ہے کہ جب حضرت حسن بن علی نے اپنی ایک بیوی کو طلاق دی تو اس کو بیس ہزار درہم متاع طلاق کے طور پر دیئے۔ تو اس پر اس مطلقہ خاتون نے کہا متاع قَلِیْلٌ عَنْ حَبِیْبٍ مُفَارِقٍ یعنی جس محبوب سے دارغ مقارفت برداشت کرنا پڑا اس کے مقابلے میں یہ سامان بہت تھوڑا ہے۔ آگے متعہ طلاق کے بارے میں واضح فرما دیا گیا کہ اس کی کوئی حد مقرر نہیں، بلکہ اس کا مدار و انحصار طلاق دینے والے کی حیثیت پر ہے، خوشحال شخص پر اس کی حیثیت کے مطابق اور ننگ دست پر اس کی حیثیت کے مطابق۔ البتہ جو لوگ اپنی زندگی بنانے اور سنوارنے کے خواہشمند ہوں اور وہ اہل احسان کے زمرے میں شامل ہونا چاہتے ہوں۔ ان پر یہ ایک حق کے طور پر واجب و لازم ہے۔ وباللہ التوفیق

۲۳۷۔۔  سو اس وحدہٗ لاشریک سے تمہارا کوئی بھی قول و فعل مخفی اور مستور نہیں رہ سکتا۔ پس تم لوگ ہمیشہ اور ہر حال میں اس اہم اور بنیادی بات کو اپنے پیش نظر رکھو کہ اس سے ہمارا معاملہ بہرحال صحیح اور درست رہے۔ یہاں پر وَلَاتَنْسَوُالْفَضْلَ بَیْنَکُمْ (تم لوگ آپس میں احسان کرنے کو نہ بھولو) اگرچہ خاص سیاق و سباق میں وارد ہوا ہے، لیکن اپنے الفاظ و کلمات کے عموم کے اعتبار سے یہ ارشاد عام ہے۔ اور ایسا کہ زندگی کے ہر دائرے کو شامل اور محیط ہے، سو آج کے معاشرے میں اگر اسی ایک مختصر سے جملے پر صحیح طور سے عمل کیا جائے۔ تو معاشرے کا بگاڑ بڑی حد تک ختم ہو سکتا ہے۔ کیونکہ عدل اور فضل دو لفظ بڑے اہم لفظ ہیں جن میں سے پہلے یعنی عدل کا معنی و مفہوم ہے یہ کہ جس کا جو حق بنتا ہو وہ اس کو برابر سرابر اور پورے کا پورا ادا کر دیا جائے، اس میں کوئی کمی اور کوتاہی ہی نہ کی جائے۔ جبکہ دوسرے لفظ یعنی فضل کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ دوسرے کو اس کے حق سے بھی کچھ زیادہ بطور احسان دیا جائے آج کے معاشرے میں جو فساد بپا ہے اس کی ایک بڑی اور بنیادی وجہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے اور ان کے حق میں تقصیر اور کوتاہی سے کام لیا جاتا ہے جس کی بناء پر تناؤ اور کشمکش کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ اور طرح طرح کے جھگڑے اور تنازعات جنم لیتے ہیں۔ سو اس کے برعکس اگر قرآن حکیم کے اس ارشاد عالی کی روشنی میں اور اس کی ہدایت کے مطابق اس طریقے کو اپنایا جائے کہ دوسرے کے حق کو نہ صرف یہ کہ پورا پورا ادا کیا جائے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اس کے ساتھ فضل و احسان کا معاملہ کیا جائے تو پھر کوئی جھگڑا پیدا ہی کیوں ہو گا؟ پھر تو امن و امان صلح و صفائی اور مہر و محبت کا دور دورہ ہو گا، سو قرآنی تعلیمات پر اگر صدق دل سے عمل کیا جائے تو یہ مختصر سا جملہ بھی سارے فساد کو ختم کرنے کے لئے کافی ہے۔ مگر مشکل اور مشکلوں کی مشکل یہ ہے کہ مسلمان اپنے دین کو جانتا ہی نہیں اِلاَّ مَاشَاءَ اللّٰہ۔ اور جب جانتا ہی نہیں، تو پھر ان پر عمل کیونکر ممکن ہو سکتا ہے؟ سو مسلمان معاشرے کے فساد اور اس کے بگاڑ کا اصل سبب اور باعث مسلمانوں کی غفلت و لاپرواہی اور اپنے دین سے ان کی دوری اور بے خبری ہے، پس مسلمان کے اس فساد و بگاڑ کا علاج قرآن و سنت کے علوم سے آگہی، اور ان کی اتباع و پیروی ہے، وباللہ التوفیق

۲۳۸۔۔  جیسا کہ اس معبود برحق کی عبادت و بندگی اور اس کے حضور خشوع و خضوع کا تقاضا ہے، صلوٰۃ وسطی سے مراد جمہور اہل علم کے نزدیک نماز عصر ہے کہ یہ اول نہار کی دو نمازوں یعنی فجر اور ظہر اور آخر نہار کی دو نمازوں یعنی مغرب اور عشاء کے درمیان واقع ہے۔ نیز اس حدیث کی بناء پر جو کہ غزوہ احزاب سے متعلق حضرت علی سے صحین وغیرہ میں مروی ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا مَلَاَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ وَبُیُوْتَہِمْ نَارًا کَمَا اغْفَلُوْنَا عن الصلوٰۃ الوسطی حتی غابت الشمس، یعنی اللہ ان کافروں کے دلوں اور ان کے گھروں کو آگ سے بھر دے کہ انہوں نے ہمیں صلوٰۃ وسطی سے مشغول کر دیا۔ یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا۔ (بخاری کتاب الجہاد باب الدعاء علی المشرکین بالہزیمۃ والزلزلۃ)

۲۴۱۔۔  یعنی ان کے تقوے کا تقاضا ہے کہ وہ ایسی عورتوں کو متعہ یعنی کچھ نہ کچھ سامان ضرور دیں سو اس میں ادائیگی متعہ کے لئے ترغیب و تحریض ہے۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے ہر مطلقہ کے لئے متعہ کو ضروری اور لازم قرار دیا انہوں نے اسی آیت سے استدلال کیا ہے کہ یہاں پر ارشاد فرمایا گیا کہ یہ حق لازم ہے متقی و پرہیزگار لوگوں پر اور اُوپر ارشاد فرمایا گیا تھا کہ یہ حق واجب ہے، متقی اور پرہیزگار لوگوں پر سو اس سے احسان اور تقوی کے تقاضوں کو واضح فرما دیا گیا، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید

۲۴۳۔۔  سو وہ لوگ موت کے خوف سے بھاگے تھے۔ مگر موت نے پھر بھی ان کو آ پکڑا، پس اس سے یہ درس عظیم دیا گیا کہ موت سے ڈرنا اور بھاگنا بےسود و لاحاصل ہے رہ گئی یہ بات کہ یہ لوگ کون تھے؟ تو اس بارے میں مختلف روایات ہیں۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر کا تعلق اسرائیلیات سے ہے جن کی صحت اور عدم صحت کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اور جب قرآن حکیم نے ان کے بارے میں اس طرح کی کوئی تفصیل بیان نہیں فرمائی تو ہمیں بھی خواہ مخواہ ان کے بارے میں کھود کرید کرنے اور عقلی گھوڑے دوڑانے کی ضرورت نہیں، بلکہ جیسا کہ علامہ ابن کثیر نے فرمایا کہ اَبْہِمُوْ مَا اَبْہَمَہُ القرآن کے ضابطہ عام کے مطابق اس کو مبہم ہی رہنے دیا جائے کیونکہ درس عبرت کے اعتبار سے اگر اس کا ذکر و بیان ضروری ہوتا تو قرآن حکیم میں اس کا ذکر ضرور کر دیا جاتا بہر کیف وہ کچھ لوگ تھے جو موت کے ڈر سے بھاگے تھے، مگر موت نے پھر بھی ان کو آ پکڑا۔ پس موت سے بھاگنا بےسود و لاحاصل ہے اس نے اپنے وقت پر بہرحال آ کر رہنا ہے، اس سے بچنے اور بھاگ نکلنے کی کوئی صورت ممکن نہیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اَیْنَمَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکُکُّمُ الْمَوْتَ وَلَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُشَیِّدَۃٍ الایٰۃ یعنی تم لوگ جہاں کہیں بھی ہوؤ گے تم کو موت آ کر رہیگی اگرچہ تم مضبوط قلعوں کے اندر محفوظ ہوؤ۔

۲۴۴۔۔  یعنی جب موت سے ڈرنے اور بھاگنے کا کوئی فائدہ نہیں تو پھر تم لوگ اللہ کی راہ میں لڑو۔ اور جہاد کرو اور بے خوف و خطر لڑو اور جہاد کرو۔ اور تمہارا یہ لڑنا اور جہاد کرنا اللہ کی راہ میں اور بے دریغ و بے خوف ہو۔ یعنی اسی کی رضاء و خوشنودی کے لئے ہونا چاہیے نہ کہ ریا وسمعہ وغیرہ یا کسی اور غرض کے لئے اور یاد رکھو کہ اللہ تمہاری باتوں کو بھی سنتا ہے اور تمہارے دلوں کی نیتوں کو بھی جانتا ہے اس لئے تم ہمیشہ اس سے اپنا معاملہ صاف اور صحیح رکھو۔ تاکہ تم اس کے یہاں سے پورے پورے اجر و ثواب سے سرفراز ہو سکو وباللہ التوفیق۔ لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید

۲۴۵۔۔  اور وہاں پہنچ کر تم نے اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا، اور اس کا پھل پانا ہے۔ خواہ اچھا ہو یا برا، پس اصل کامیابی یا ناکامی وہی اور وہیں کی ہے تم لوگ ہمیشہ اسی حقیقت کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھو دنیاوی مال و دولت کا کم یا زیادہ ہو جانا معیار رد و قبول نہیں بلکہ اصل چیز ہے ایمان و عقیدہ اور صدق و اخلاص، پس ہمیشہ اسی کی فکر کرو۔ وباللہ التوفیق، لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید،

۲۴۶۔۔  سو اصل چیز زبانی کلامی دعوے نہیں بلکہ اپنے دعوے کا عمل سے ثبوت دینا ہے بس جو لوگ زبانی طور پر دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن عمل سے اپنے دعووں کی صداقت کا ثبوت نہیں دیتے وہ ظالم ہیں، اور ایسے ظالموں کا معاملہ لوگوں سے مخفی اور پوشیدہ بھی رہے تو بھی کیا ہوا۔ کہ اللہ سے تو ایسے لوگ بہرحال نہیں چھپ سکتے اس کے یہاں انہوں نے اپنے کئے کرائے کا پھل بہرحال پانا ہے۔ سو اپنے ایمان کے ثبوت کے لئے صرف زبانی کلامی دعووں سے کام نہیں چلے گا۔ بلکہ اس کے لئے عملی ثبوت پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے دو اہم مظہر ہیں۔ ایک مال کی قربانی۔ اور دوسرا جان کی قربانی۔ اس لئے اوپر مال کی قربانی کا حکم و ارشاد فرمایا گیا اور یہاں پر جان کی قربانی کا۔ کہ جہاد بالمال اور جہاد بالنفس، یہ دونوں چیزیں صدق ایمان و یقین کے دو اہم مظہر ہیں۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید

۲۴۷۔۔  پس تم لوگ ان کی سربراہی میں جہاد کے لئے تیاری کرو۔ اور ان کے ہر حکم و ارشاد کے آگے سر تسلیم خم ہو جاؤ، کہ سمع و طاعت نظم و ضبط کے قیام، اور جہاد فی سبیل اللہ میں کامیابی سے سرفرازی کے لئے دو اہم اور بنیادی مطلب ہیں، لفظ طالوت کے بارے میں کچھ اہل لغت کا کہنا ہے کہ یہ عجمی لفظ ہے۔ جیسے داؤد اسی لئے یہ غیر منصرف ہے، جبکہ کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ یہ طول سے ماخوذ و مشتق ہے۔ لیکن چونکہ یہ ابنیہ عرب میں سے نہیں ہے اس لئے یہ غیر منصرف ہے عَلَمِیّت اور شبہ العجمۃ کی بناء پر اور اہل کتاب کا کہنا ہے کہ یہ وہی صاحب ہیں جو ان کے یہاں شاؤل کے نام سے مشہور ہیں (محاسن التاویل وغیرہ) بہر کیف طالوت کا تعلق چونکہ اس سبط (خاندان) سے تھا جس میں بادشاہی نہیں تھی۔ اس لئے ان لوگوں نے ان کے امیر اور بادشاہ مقرر کئے جانے پر اعتراض کیا۔ اور ان کے مقابلے میں اپنے آپ کو حکومت و بادشاہی کا زیادہ حقدار قرار دیا۔

۲۔  سو ان لوگوں کے نزدیک طالوت کے انتخاب میں دو مانع تھے، ایک یہ کہ ان کا تعلق جس خاندان سے تھا اس میں بادشاہی نہیں تھی اور دوسرا مانع ان کے نزدیک یہ تھا کہ ان کے پاس دنیاوی مال و دولت کی کوئی فراوانی نہیں ہے، اور ابنائے دنیا کی محدود اور مادہ پرست نگاہوں میں ہمیشہ اصل قدر و قیمت ایسی ہی چیزوں کی رہی کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے اِلاَّ ماشاء اللّٰہ

۳۔  سو وہ اپنے کمال علم اور اپنی بے پایاں وسعت سے جس کو چاہے نوازے۔ اور جس قدر چاہے نوازے، وہ سراسر حق اور صدق ہے، اس پر نہ کسی سوال و اعتراض کی کوئی اجازت ہو سکتی ہے، نہ گنجائش کہ اس کا انتخاب بہرحال حق اور صدق ہے پس تم لوگوں کی بہتری اسی میں ہے کہ تم حضرت طالوت کی امارت اور انکی بادشاہی پر صدق دل سے راضی، اور مطمئن ہو جاؤ۔ اور ان کو اپنا امیر اور قائد مان لو۔

۲۴۸۔۔  یہ تابوت جو تابوتِ سکینہ کہلاتا تھا، اس کی بنی اسرائیل کے یہاں خاص عظمت و اہمیت تھی، یہ ان سے اس کے دشمنوں نے چھین لیا تھا، جس سے ان لوگوں کی ہمتیں ٹوٹ گئی تھیں اور ان کے حوصلے پست ہو گئے تھے سو اس موقع پر ان کے پیغمبر نے ان کو یہ خوشخبری سنائی کہ حضرت طالوت کے انتخاب کی صداقت و حقانیت کی ایک دلیل اور نشانی یہ ظاہر ہو گی کہ تم سے چھینا ہوا تمہارا وہ تابوت سکینت دوبارہ تمہارے پاس آ جائے گا جس کو فرشتے اٹھا کر لائیں گے روایات کے مطابق یہ تابوت جس کو عمالقہ ان لوگوں سے چھین لیکر لے گئے تھے اس پر بڑا عرصہ گزر گیا تھا جس کی واپسی کی بظاہر کوئی صورت ممکن نہ تھی لیکن جب قدرت کے یہاں اس کی واپسی مقدر ہو گئی، تو قدرت کے غیبی ہاتھوں نے اس کی تدبیر اس طرح فرمائی کہ فلسطین میں جہاں یہ تابوت رکھا ہوا تھا وہاں مختلف بیماریاں اور مصیبتیں آنا شروع ہو گئیں چنانچہ ان لوگوں کو بواسیر کی بیماری لگنے لگی، اور ان کی کھیتیوں میں چوہے پھیلنا شروع ہو گئے جس سے ان لوگوں کے اندر ایک عمومی خوف و ہراس پھیل گیا اور ان کو یہ یقین ہو گیا کہ بنی اسرائیل کا خدا ان سے ناراض ہو گیا ہے۔ اس لئے اب وہ ان سے انتقام لینے لگا ہے۔ اس لئے انہوں نے اس صندوق کو بنی اسرائیل کی طرف واپس لوٹانے کے لئے یہ تدبیر اختیار کی کہ اس کو ایک بیل گاڑی میں رکھا اور اس کے آگے دو بیلوں کو جوت کر ان کو بنی اسرائیل کے علاقے کی طرف ہانک دیا اور وہ دونوں قدرت کی طرف سے ملنے والے الہام و ہدایت کے مطابق اس کو لیکر سیدھے بنی اسرائیل کے پاس پہنچ گئے اور عام قاعدہ اور دستور یہی ہے کہ جو کوئی اچھی چیز ظاہری اسباب کے بغیر تکمیل پذیر ہوتی ہے اس کو فرشتوں کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے اس لئے یہاں پر ارشاد فرمایا گیا کہ اس کو فرشتے اٹھا کر لائیں گے۔

۲۴۹۔۔  کہ انہوں نے اپنے نفسوں اور اپنی خواہشات پر کنٹرول رکھا اور اپنے قائد مُلْہِمَ کی ہدایت پر عمل کیا سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ راہ حق و ہدایت پر قائم اور ثابت قدم رہنے والے کم ہی لوگ ہوتے ہیں اکثریت انہی کی ہوتی ہے جو خواہشات نفس کے پیرو اور ان کے غلام ہوتے ہیں والعیاذ باللہ پس عوام کی اکثریت کی رائے حجت اور دلیل نہیں بن سکتی۔ جس طرح کہ مغربی جمہوریت کے پجاریوں کا کہنا ماننا ہے اور جس طرح کہ ہمارے یہاں کے اہل بدعت کا کہنا ہے، کہ فلاں فلاں بدعتیں چونکہ عوام کالانعام کے اندر مروّج و موجود ہیں لہٰذا وہ سب درست ہیں سو ایسا کہنا اور ماننا عقل و نقل دونوں کے خلاف اور محض ابلیسی دھوکہ ہے۔ والعیاذ باللہ حق و صدق بہرحال وہی اور صرف وہی ہے جس کا حق ہونا، اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات مقدسہ سے ثابت ہو اور بس۔

۲۔  سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ معاصی و ذنوب کے ارتکاب سے انسان کے باطن کی قوت کمزور ہو جاتی ہے، اور اس کا حوصلہ جواب دے جاتا ہے والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر لحاظ سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین

۳۔  سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ آخرت کا ایمان و یقین انسان کی قوت و ہمت کو ناقابل شکست بنا دیتا ہے اور وہ اس کو فولادی عزم و ہمت سے سرشار کر دیتا ہے، اور اس کے مظاہر آج کے اس مادی اور لادینی دور میں بھی ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور جا بجا دیکھتے ہیں، کہ گنتی کے کچھ بے سروسامان مجاہدین اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس کی توفیق و عنایت سے بڑی بڑی مادی اور کافر قوتوں کو للکارتے ہیں اللہ ان کی مدد فرمائے، اور ان کو کامیابیوں پر کامیابی نصیب فرمائے، آمین ثم آمین

۲۵۰۔۔  سو یہ ہے مجاہدین فی سبیل اللہ کی قوت اور ان کے عزم و ہمت کا اصل راز کہ ان کا رجوع ہر حال میں اور ہر اعتبار سے اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کی طرف ہوتا ہے، جو کہ اس ساری کائنات کا خالق و مالک اور اس میں حاکم و متصرف ہے اور سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے، سبحانہ و تعالیٰ، اور جب اس کی مدد اور معیت نصیب ہو جائے تو پھر اور کیا چاہئے، لیکن افسوس کہ آج کا جاہل مسلمان مشکلات کے ایسے مواقع پر اس خالق و مالک کے سوا اس کی عاجز مخلوق ہی میں سے کسی کو پکارتا اور اس پر بھروسہ و اعتماد کرتا ہے کہیں وہ کہتا ہے یا علی مدد۔ کہیں یا پیر دستگیر اور کہیں یا حسین، وغیرہ وغیرہ، حالانکہ یہ سب پاکیزہ ہستیاں خود اللہ ہی کو پکارتی اور زندگی بھر اسی وحدہٗ لاشریک کو پکارنے کا درس دیتی رہیں۔ فالی اِللّٰہ المشتکیٰ وہو المستعان

۲۵۱۔۔  اسی لئے وہ اپنے فضل و کرم اور اپنی قدرت و حکمت سے ظالموں کو ہٹانے اور مٹانے کا انتظام اپنے دست غیب سے فرماتا رہتا ہے تاکہ اس کے بندے ظلم کے ہولناک اندھیروں سے نجات پا سکیں۔ اور عباد و بلاد دونوں کا بھلا ہو سکے، ورنہ ظالم لوگ سب کچھ تہس نہس کر کے رکھ دیں، والعیاذ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال

۲۵۲۔۔   یعنی یہ امر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت اور آپ کی صداقت و حقانیت کا ایک واضح اور بین ثبوت ہے، کہ آپ ان گزشتہ قوموں اور ان کے رسولوں کے حالات اس قدر صحت و صفائی کے ساتھ سناتے ہیں، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس علم کے معروف ذرائع میں سے کوئی بھی موجود نہیں سو آپ صلی اللہ علیہ و سلم یہ سب کچھ وحی کے ذریعے ہی سناتے ہیں اور آپ قطعی طور پر اللہ کے رسول ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی کے ذریعے ان علوم سے نوازا اور سرفراز فرمایا جاتا ہے، ورنہ آپ نہ ان لوگوں کے پاس اور ان کے دور میں موجود تھے، اور نہ لکھنا پڑھنا جانتے تھے، علیہ الصلوٰۃ والسلام

۲۵۳۔۔ سو یہ سب قدسی صفت حضرات اللہ تعالیٰ کے انتخاب اور اس کے چناؤ کے فضل میں شریک ہونے کے باوجود درجات و مراتب کے اعتبار سے باہم مختلف تھے۔

۲۔ یعنی بغیر کسی سفیر اور واسطہ کے جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسیٰ تَکْلِیْمًا۔ نیز ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَلَمَّا جَاءَ مُوْسیٰ لِمِیْقَاتِنَا وَکَلَّمَہ، رَبُّہ،۔ نیز ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا یَامُوْسیٰ اِنِّیْ اصْطَفَیْتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسَالَاتِیْ وَبِکَلَامِیْ۔ اور جیسا کہ حضرت امام الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم سے اللہ تعالیٰ نے شب معراج میں بلا واسطہ کلام فرمایا۔ علیہ الصلوٰۃ والسلام۔

۳۔ یعنی ایسے عظیم الشان درجات کہ جن کی عظمت کا اندازہ کرنا بھی کسی انسان کے بس میں نہیں اور اس سے مراد جیسا کہ ابن جریر نے مجاہد سے نقل کیا ہے امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم ہیں۔ اور سیاق بھی اسی بات کی تائید کرتا ہے کیونکہ یہاں پر سلسلہ کلام ان انبیاء ورسلِ کرام کے بارے میں چل رہا ہے جن کے پیرو دنیا میں موجود ہیں اور اس ذیل میں انہی لوگوں کی تشنیع فرمائی جا رہی ہے جو ان حضرات انبیاء ورسل کے پیرو ہونے کے باوجود آپس میں قتل و قتال کا ارتکاب کرتے ہیں خلاصہ کلام یہ کہ ان کے انبیاء ورسل ایک ہی دین کے ساتھ مبعوث ہوئے تھے۔ اور ان کے پیروکاروں میں سے دنیا میں یہی تین امتیں موجود ہیں یعنی یہود نصاریٰ اور مسلمان اس لئے یہاں پر انہی تین کے رسولوں کا ذکر فرمایا گیا ہے سب سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا اور سب سے آخر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اور ان دونوں کے درمیان حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا جس میں یہ اشارہ اور اِشعار بھی پایا جاتا ہے کہ آپ کی شریعت اور آپ کی امت وسط ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو جن مختلف مراتب و درجات سے نوازا گیا، وہ بہت عظیم الشان ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو قرآن حکیم کے جس معجزہ کبریٰ سے نوازا گیا وہ معجزوں کا معجزہ ہے اور ایسا کہ اس کی کوئی نظیر و مثال نہ اس سے پہلے کبھی پائی گئی ہے، اور نہ آئندہ کبھی پائی جانی ممکن ہے اور اس کے علاوہ بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کئی عظیم الشان معجزات اور مراتب و درجات سے نوازا گیا۔ 

۴۔ سو اس نے ان کو ارادہ و اختیار کی آزادی دی اور جبر کو پسند نہیں فرمایا۔ کہ جبر کا ایمان اور جبری اطاعت نہ منظور ہے اور نہ مفید، کہ اس سے ابتلاء و اختیار کے تقاضے پورے نہیں ہو سکتے، ورنہ اللہ تعالیٰ اگر صرف ارادہ و اشارہ ہی فرما دیتا تو یہ سب کے سب ایک ہی راہ پر آ جاتے۔ سو مطلوب و مقصود وہ ایمان و اطاعت اور تسلیم و انقیاد ہے جو اپنے ارادہ و اختیار سے ہو۔

۲۵۴۔۔ سو کافر لوگ ظالم ہیں اپنے خالق و مالک کے حق میں اس کے حق ایمان و اطاعت کا انکار کر کے، نیز یہ ظالم ہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں ان کے حق ایمان و اتباع کا انکار کر کے نیز یہ یہ ظالم ہیں خود اپنی جانوں کے حق میں ان کو نور حق و ہدایت سے محروم کر کے، سو دین حق کا انکار ظلم در ظلم ہے، اور محرومی در محرومی ہے، والعیاذ باللہ العظیم

۲۵۵۔۔ سو جب زندہ بھی وہی ہے کہ اس کی زندگی حقیقی کامل اور ازلی و اَبَدی ہے کہ نہ وہاں عدم سابق اور نہ عدم لاحق۔ اور اس پوری کائنات کا قیوم اور اس کو تھامنے والا بھی وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ اور وہی ہے جس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند، تو معبود برحق بھی وہی ہے، سو یہیں سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ جو غالی قسم کے بدعتی لوگ اپنے بعض بزرگوں کو قَیَّومِ زمان اور قَیَّومِ دوران جیسے القاب سے نوازتے ہیں اور ان کے لئے اس طرح کے الفاظ استعمال کرتے ہیں وہ غلط کہتے، اور شرکیہ باتوں کا ارتکاب کرتے ہیں والعیاذ باللہ، کیونکہ قیوم صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کی صفت ہے اور بس سبحانہ و تعالیٰ

۲۔ سامنے اور پیچھے عام ہے ظرف زمان کے اعتبار سے بھی، اور ظرف مکان کے اعتبار سے بھی سو وہ ہر اعتبار سے لوگوں کے حال کو پوری طرح جانتا ہے۔ اور وہی جانتا ہے کہ کس کا جرم کیسا ہے؟ کون سفارش کے قابل ہے اور کون نہیں؟ اس لئے وہ جس کو چاہے گا اور جس کے لئے چاہے گا وہی سفارش کر سکے گا، اور اسی کے لئے کر سکے گا جس کے لئے اس کو اجازت ملے گی سو اس سے اس مشرکانہ تصور شفاعت کی جڑ نکال دی گئی جو مشرک لوگوں نے اپنا رکھا تھا۔ اور اپنا رکھا ہے کہ ہمارے فلاں حضرت اڑ کے بیٹھیں گے اور منوا کر چھوڑیں گے پس اس طرح کے کسی مشرکانہ تصور شفاعت کی وہاں پر کوئی گنجائش نہیں اس کی جناب اقدس و اعلیٰ ایسے تمام تصورات سے پاک اور ان سے کہیں اعلیٰ وبالا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ

۲۵۶۔۔ سو جب راہ حق پوری طرح واضح ہو گئی تو اب اسلام میں داخلے کے لئے جبر و اکراہ کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ اس کا کوئی سوال، بلکہ معاملہ ہر کسی کی اپنی پسند و اختیار۔ اور اس کی اپنی صوابدید پر ہے کہ اس کا نفع و نقصان خود اسی کے لئے ہو گا۔ جو کہ نتیجہ اور تقاضا ہے آزادی ارادہ و اختیار کا۔

 ۲۔ سو طاغوت کے کفر و انکار اور اللہ پر ایمان و یقین سے حاصل ہونے والا یہ سہارا سب سے بڑا مضبوط اور نہایت قوی و مضبوط سہارا ہے جو انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرنے والا واحد سہارا ہے وباللہ التوفیق، لما یحب و یرید

۲۵۷۔۔ کیونکہ یہ لوگ ایمان کی روشنی سے محروم اور کفر و باطل کی ظلمتوں میں ڈوبے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے، اور ایسے لوگوں کا انجام یہی ہوتا ہے یہ کبھی دوزخ کے اس ہولناک عذاب سے نکل نہیں سکیں گے اور یہی ہے سب سے بڑا اور انتہائی ہولناک خسارہ والعیاذُ باللہ العظیم بکل حالٍ

۲۵۸۔۔ یعنی اس شخص کا معاملہ بھی بڑا عجیب اور انتہائی حیرت انگیز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو اس کو حکومت و بادشاہی سے نوازا۔ جس کا تقاضا یہ تھا کہ یہ دل و جان سے اپنے اس خالق و مالک کے آگے جھک جاتا، جس نے اس کو ایسی عظیم الشان نعمتوں سے نوازا تھا۔ اور محض اپنے فضل و کرم سے نوازا تھا۔ لیکن یہ الٹا کبر و غرور میں مبتلا ہو گیا۔ اور اپنی خدائی کا دعویدار بن گیا، اور اس طرح وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مردود و مطرود ہو گیا۔ والعیاذ باللہ جل وعلا

۲ ۔ یعنی وہی معدوم سے موجود اور نیست سے ہست کرتا ہے اور کائنات پوری میں جو بھی زندہ مخلوق ہے وہ سب اسی کی قدرت و عنایت سے زندہ و موجود ہے اور وہی ہر کسی کو موت دیتا ہے سو زندگی و موت کا معاملہ اسی وحدہٗ لاشریک کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے پس معبود برحق وہی وحدہٗ لاشریک ہے سبحانہ و تعالیٰ۔ اور عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی وحدہٗ لاشریک کا حق اور اسی کی صفت و شان ہے، اس کے سوا اور کسی کے لئے بھی عبادت کی کوئی بھی شکل بجا لانا شرک ہو گا، جو کہ ظلم عظیم ہے، والعیاذ باللہ العظیم

۳ ۔ چنانچہ اس کے ثبوت کے طور پر اس نے ایک بری و بے گناہ شخص کی گردن اتروا دی۔ اور ایک پھانسی کے مستحق شخص کو رہا کر دیا، اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے کہا کہ دیکھو میں بھی زندہ کرتا، اور موت دیتا ہوں۔ حالانکہ یہ اس بدبخت کی سراسر حماقت تھی۔ کیونکہ یہ اماتت و احیاء نہیں ہے کیونکہ احیاء کا مطلب ہے معدوم سے موجود کرنا اور اماتت کا مطلب ہے زندہ شخص جوں کا توں موجود ہو مگر اس کے اندر سے روح نکال دی جائے۔ جبکہ اس کے اس فعل سے اماتت نفس نہیں بلکہ تفویت محل کا عمل پایا گیا۔ اسی لئے یہ جرم قتل بنتا ہے۔ والعیاذ باللہ۔ سو تفویت محل کے بغیر جسم کے اندر سے روح نکال دینا کسی کے لئے بھی ممکن نہیں سوائے حضرت خالق جل جلالہ، کے پس احیاء و اماتت اسی کی صفت و شان اور اسی کا اختصاص ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ

۴۔ یعنی میرے رب نے اس ساری کائنات کو پیدا فرمایا اور وہی ایک نہایت ہی حکمتوں بھرے نظام کے تحت اس کو چلا رہا ہے۔ جس کا ایک بڑا عظیم الشان اور واضح نشان سورج کا یہ چمکتا دمکتا کُرہ ہے، جو روزانہ پوری پابندی کے ساتھ مشرق سے طلوع کرتا ہے پس تُو اگر اس میں کوئی تبدیلی کر سکتا ہے تو اس کو مشرق کے بجائے مغرب کی طرف سے لا کر دکھا۔ تو اس پر وہ کافر مبہوت اور ششدر ہو کر رہ گیا۔ اور اس کی حماقت و بلادت سب کے سامنے آشکارا ہو گی، والحمد للہ جل وعلا ۔

۵ ۔ کیونکہ ایسے لوگ ہدایت چاہتے ہی نہیں جبکہ نور حق و ہدایت سے سرفرازی کے لئے اولین شرط اور بنیادی تقاضا ہے طلب صادق تو پھر ایسے ظالم لوگ نور حق و ہدایت سے کس طرح سرفراز ہو سکتے ہیں؟ ہدایت کوئی ایسی چیز نہیں جو کسی کے نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر مڑھ دی جائے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا۔ اور استفہام انکاری کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا۔ اَنُلْزِمُکُمُوْہَا وَاَنْتُمْ لَہَا کَارِہُوْنَ (ہود۔ ۲٨) یعنی کیا ہم اس کو تم پر مڑھ دیں گے۔ جبکہ تم لوگ اس کو ناپسند سمجھتے ہو؟ یعنی ایسا نہیں ہو سکتا، سو ظالموں اور منکروں کے لئے محرومی ہی محرومی ہے جس کا سبب اور باعث خود ان کا اپنا قلب و باطن اور ارادہ و اختیار ہوتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔

۲۵۹۔۔ سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ موت کے بعد کسی کو دنیا کے بارے میں کچھ پتہ نہیں ہوتا۔ یہ صاحب جن کا یہاں ذکر فرمایا گیا ہے مشہور قول کے مطابق حضرت عزیر علیہ السلام تھے، اور اس بستی سے مراد بیت المقدس ہے جس کو بخت نصر نے اپنے حملوں کے دوران تخت و تاراج کر دیا تھا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجوا دی تھی تو ایسی حالت میں جب حضرت عزیر علیہ السلام کا اس پر سے گزر ہوا تو آپ نے اس کے بارے میں بطور تعجب اس طرح فرمایا کہ اس قدر تباہ شدہ اس بستی کو اللہ دوبارہ کس طرح زندہ کریگا؟ تو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر موت طاری کر دی گئی، اور ایک سو سال تک اسی حالت میں رکھنے کے بعد جب اللہ تعالیٰ ان کو دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا اور ان سے پوچھا کہ تم اس حال میں کتنا عرصہ رہے ہو؟ تو انہوں نے اس کے جواب میں کہا کہ ایک دن یا دن کا بھی کچھ حصہ حالانکہ وہ پورے ایک سو سال تک اس حالت میں رہے تھے، تو جب ان کو اتنا بھی معلوم نہیں تھا حالانکہ ان کی وہ موت بھی عارضی اور خاص مدت تک کے لئے تھی، تو پھر جو ہمیشہ کی، اور حقیقی موت سے دو چار ہو جاتے ہیں ان کو دنیا کے احوال کے بارے میں کس طرح کوئی آگاہی ہو سکتی ہے؟ سو کس قدر گمراہ اور موت کے مارے ہوئے ہیں وہ لوگ جو اس سب کے باوجود مُردوں کو سنتا جاننا قرار دے کر اور ان کو حاجت روا و مشکل کشا سمجھ کر اپنی حاجت روائی کے لئے و مشکل کشائی کے لئے بلاتے، اور ان کو پوجتے پکارتے ہیں اور اس کے لئے وہ طرح طرح کے جھوٹے قصے پھیلاتے، اور من گھڑت افسانے پیش کرتے ہیں۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ 

۲۔ یعنی ایسی عظیم الشان نشانی جس سے لوگ دیکھ اور جان سکیں کہ اللہ تعالیٰ موت کے بعد دوبارہ زندہ کر سکتا ہے اور یہ چیز اس قادر مطلق کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں، وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے سبحانہ و تعالیٰ۔ بہر کیف عام قاعدہ اور اصولی بات یہی ہے کہ مردے دنیا اور اہل دنیا کے بارے میں کچھ سنتے جانتے نہیں، ہاں جس کو اللہ تعالیٰ استثنائی طور پر کچھ سنا اور بتا دے تو وہ الگ بات ہے کہ وہ علی کل شی قدیر ہے سبحانہ و تعالیٰ، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اِنَّ اللّٰہ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَاءُ وَمَا اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقّبُوْرِ(فاطر۔۳۲) 

 ۳۔ یعنی جب انہوں نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ اور خود اپنی ذات میں دیکھ لیا تو ان کے سامنے یہ حقیقت پوری طرح اور عملی طور پر واضح ہو گئی کہ اللہ یقیناً ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔ وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے۔ سو وہ جب چاہے گا ان کو زندہ کر دے گا اور اس کو اس میں کچھ بھی مشکل پیش نہیں آئیگی، سبحانہ و تعالیٰ۔

۲۶۰۔۔ کہ مشاہدہ کے بعد طبعی طور پر انسان کا یقین بڑھ جاتا ہے اور وہ علم الیقین سے عین الیقین کی طرف ترقی کر جاتا ہے، سو حضرت ابراہیم کو احیاء موتیٰ کے بارے میں کسی طرح کا کوئی شک نہیں تھا، بلکہ یہ انسانی فطرت کا ایک طبعی اور جبلی تقاضا ہے کہ وہ آگے بڑھنے اور مزید ترقی کرنے کا جذبہ اپنے اندر رکھتا ہے۔ جیسے مادی ترقی اور لاسلکی کے اس دور میں کتنے ہی حقائق ایسے ہیں، جو آج کے انسان کے سامنے ہیں لیکن وہ اسرارِ کائنات کے جاننے کے لئے اور اس سلسلہ میں مزید از مزید آگے بڑھنے کے لئے دن رات مصروف جدوجہد ہے۔ سو اسی طرح اللہ کے بندے اپنی روحانی ترقی میں آگے بڑھنے کے لئے مصروف جدوجہد ہوتے ہیں۔

 ۲۔ اس لئے وہ جو چاہے اور جیسا چاہے کرے، اس کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں، مگر وہ چونکہ عزیز کے ساتھ ساتھ حکیم بھی ہے، اس لئے وہ جو کچھ کرتا ہے اپنی حکمت بے پایاں کے تقاضوں کے مطابق ہی کرتا ہے اور اس کی عزت و حکمت کے طرح طرح کے اور عظیم الشان مظاہر اس کی حکمتوں بھری اس کائنات میں ہر طرف پھیلے بکھرے ہیں، پس تم اپنے اطمینان کے لئے چار مختلف پرندے لے لو۔ اور ان کو اپنے سے اچھی طرح مانوس کر لو۔ تاکہ تمہاری آواز پر وہ دوڑتے ہوئے تمہارے پاس چلے آئیں۔ پھر تم ان کو ذبح کر کے مختلف ٹکڑوں کی صورت میں اپنے آس پاس کی مختلف پہاڑیوں پر رکھ دو بعد میں تمہاری آواز پر دوڑتے ہوئے تمہارے پاس چلے آئیں گے اور اس طرح احیاء موتیٰ کا ایک نمونہ و مظہر عملی طور پر تمہارے سامنے آ جائیگا، جس کے نتیجے میں تمہارا علم، علم الیقین سے عین الیقین کی طرف بڑھ جائے گا۔

۲۶۱۔۔ اس لئے وہ اپنی وسعت بے پایاں سے جس کو جتنا اور جس طرح چاہے نوازے، مگر وہ چونکہ علیم بھی ہے۔ اس لئے وہ اپنے کمال علم کی بناء پر جانتا ہے کہ کس کا ظرف کتنا ہے اور کس کے باطن کی کیفیت کیا ہے، اور اس کا ارادہ کیسا اور نیت کس طرح کی ہے اور اسی کے مطابق وہ ہر کسی کو نوازتا ہے قرآن حکیم کی ایک امتیازی شان اور اس کا ایک انفرادی پہلو یہ بھی ہے کہ یہ اپنے احکام اس طرح بیان فرماتا ہے کہ انکی دلیل بھی ان کے ساتھ ہوتی ہے اسی لئے قرآن حکیم یہاں پر اس حقیقت کو اس طرح کے سادے لفظوں میں نہیں بیان فرمایا کہ اس کو وہ ایک پر سات سو گنا اجر و ثواب دیتا ہے حالانکہ یہ انداز و اسلوب مختصر بھی تھا، حقیقت بلکہ اس کو تمثیل کی شکل میں بیان فرمایا گیا ہے، جس میں یہ درس عظیم بھی ہے کہ ایسا بالفعل ہو رہا ہے کہ زمین میں ڈالے جانے والے بیج میں ایک دانے کے بدلے سات سو دانے بالفعل پیدا ہوتے اور ملتے ہیں۔ جیسا کہ یہ ایک امر محسوس و مشاہد ہے سو جب محسوسات میں اس کی بخشش و عطاء کی کیفیت اور اس کا حال یہ ہے تو پھر اس کی معنوی اور باطنی عنایات کا اندازہ کرنا ہی اس کے سوا اور کس کے بس میں ہو سکتا ہے؟ سبحانہ و تعالیٰ

۲۶۲۔۔ سو ایسے خوش نصیبوں کو نہ اپنے ماضی کا کوئی غم ہو گا کہ انہوں نے اپنی زندگی کو صحیح راستے میں اپنے خالق و مالک کی ہدایات کے مطابق اور اس کی رضا و خوشنودی کی طلب و تلاش میں گزارا ہو گا اور اس کو اس کے صحیح مصرف میں لگایا ہو گا۔ جس کے نتیجے میں وہ ابدی سعادت اور دائمی نعمتوں سے سرفراز و بہرہ مند ہوں گے جہاں ان کو ہمیشہ رہنا نصیب ہو گا۔ اس لئے ان کو آئندہ کا کوئی خوف و اندیشہ بھی نہیں ہو گا۔ سو ایمان و یقین اور اطاعت و عبادت والی زندگی ایک عظیم الشان اور مبارک ومسعود زندگی ہے، جو انسان کو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز کرتی ہے وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، اللہ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنا ہی بنائے رکھے، اور ہر قدم، اپنی رضاء و خوشنودی کی راہوں ہی پر اٹھانے کی توفیق بخشے، آمین ثم آمین

۲۶۴۔۔ سو مَنّ اور اَذیٰ یعنی احسان جتلانے اور ایذاء رسانی کے یہ دونوں رذائل صدقات اور ان کے اجر و ثواب کو ایسے ہی اکارت اور ضائع کرنے والے ہیں جس طرح ریاکاری اور ایمان سے محرومی والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھیں، آمین

۲۔ سو جس طرح چٹان پر پڑی اس مٹی سے انسان کو دھوکہ ہو جاتا ہے کہ اس پر کی جانے والی کاشت سودمند ہو گی۔ اور اس کے کام آئے گی، لیکن زور دار بارش سے وہ سب ختم ہو جاتی ہے اور صاف چٹان نکل آتی ہے ایسے ہی ریاکار لوگوں کے اعمال بظاہر تو بڑے اچھے نظر آتے ہیں لیکن قیامت کے روز یہ سب مٹ کر ختم ہو جائیں گے اور آدمی کے کچھ بھی کام نہ آ سکیں گے اور یہ محروم کا محروم ہی رہے گا والعیاذ باللہ۔ سو اعمال صالحہ اور خاص کر انفاق فی سبیل اللہ کے مفید اور کار آمد ہونے کے لئے ایمان و اخلاص بھی ضروری ہے اور یہ بھی کہ مَنّ و اَذیٰ یعنی احسان جتلانے اور ایذاء رسانی سے بھی بچا جائے۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید

۳۔ کہ ایسے لوگ دولت ہدایت سے سرفرازی چاہتے ہی نہیں اس لئے ان کو اس کی توفیق نہیں ملتی جس کے نتیجے میں ان کو اپنے نفع و نقصان کا پاس و احساس بھی نہیں رہتا۔ اور یہ خیر وشر کے درمیان فرق و تمیز سے بھی محروم ہو جاتے ہیں اور یہی ہے خساروں کا خسارہ والعیاذ باللہ العظیم

۲۶۵۔۔ سو اسی طرح جو اہل خیر صدق و اخلاص والے ہوتے ہیں وہ اپنے باطن کی صفائی اور تزکیہ نفوس کی بناء پر جو بھی کچھ خرچ کرتے ہیں وہ ریا وسمعہ سے بچ کر صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لئے کرتے ہیں، پس ایسوں کو اگر زیادہ دنیا اور مال و دولت مل جائے تو ان کا فیض بہت زیادہ ہوتا ہے جس سے خلق خدا بہت زیادہ مستفید و فیضیاب ہوتی ہے، اور اس طرح یہ اپنے انجام اور آخرت کے لئے بہت سرمایہ جمع کر لیتے ہیں اگر اور ان کو اگر زیادہ دنیا و دولت نہ ملے بلکہ معمولی ہی ملے تو یہ اس سے بھی اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرتے، اور خلق خدا کی نفع رسانی کا سامان کرتے ہیں تو ان کے صدق و اخلاص کی بناء پر ان کا وہ معمولی انفاق بھی ان کے لئے کافی ہو جاتا ہے سو اصل چیز صدق اخلاص ہے، وباللہ التوفیق

۲۶۶۔۔ اور ان سے تم درس ہائے عبرت و بصیرت لو اور اپنی دنیا و آخرت کو بنانے کی فکر و کوشش کرو، قبل اس سے کہ عمر رواں کی یہ فرصت محدود و مختصر تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اور تم لوگوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے افسوس اور خسارے میں مبتلاء ہونا پڑے، والعیاذ باللہ، سو تم لوگ ذرہ سوچو اور غور کرو کہ اگر تم میں سے کسی شخص کا ایک ایسا عمدہ باغ ہو، جس میں کھجوروں اور انگوروں وغیرہ کے پھلدار درخت ہوں، اس کے نیچے سے نہریں چل رہی ہوں، اس کے اس باغ میں ہر طرح کے پھل موجود ہوں۔ اور اس شخص کو بڑھاپا پہنچ جائے۔ جس کے باعث اب وہ کچھ کمانے بنانے کے لائق نہ رہا ہو۔ اس کی چھوٹی چھوٹی اور کمزور اولاد بھی ہو، جو نہ خود اپنے لئے کچھ کر سکنے کے قابل ہو اور نہ اپنے بوڑھے اور کمزور باپ کے لئے ان کا واحد سہارا یہی باغ ہو، جو اس شخص کی زندگی بھر کی محنت و مشقت کا حاصل اور پھل تھا، وہ یکایک ایک بگولے کی آگ سے جل کر راکھ ہو جائے، تو ایسے میں اس بوڑھے شخص اور اس کی اس کمزور اولاد کی مایوسی کا کیا عالم ہو گا؟ سو اسی طرح جو شخص زندگی بھر کے انفاق اور محنت و مشقت کی کمائی اور پونجی لیکر آخرت کے اس یوم جزا میں پہنچا تو دیکھتا کیا ہے کہ اس کی زندگی بھر کی کمائی اور تمام تر پونجی ریا و نمود اور مَنّ و اذی جیسی آفتوں اور ہولناک بگولوں کے نتیجے میں ختم ہو چکی ہے تو ایسے شخص کی مایوسی کا ٹھکانا ہی کیا ہو سکتا ہے؟ کہ اب اس کے لئے نہ دنیا میں واپس آنے کی کوئی صورت ممکن ہو سکتی ہے اور نہ ہی اس کے لئے کسب و کمائی کا کوئی امکان ہو سکتا ہے والعیاذ باللہ العظیم۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر حال میں، اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ اٰمین ثم اٰمین ربَّ العالمین

۲۶۷۔۔ سو جو کچھ تم لوگ اپنی محنت و مشقت سے کماؤ۔ اور جو ہماری رحمت وعنایت کے نتیجے میں تم کو زمین سے حاصل ہو، تم اس سب میں سے راہ حق میں اور اپنے خالق و مالک کی رضا و خوشنودی کے لئے خرچ کرو، تاکہ یہ سب کچھ تمہارے لئے ذخیرہ آخرت کے طور پر جمع ہو جائے، اور تم کو آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں واپس ملے، اور کئی گنا بڑھ کر ملے، جہاں تم اس کے سب سے زیادہ محتاج ہو گے سو جو کچھ تم لوگ اپنے خالق و مالک کی رضاء و خوشنودی کے لئے خرچ کرو گے اور اپنے ہاتھوں آگے بھیجو گے وہی تمہارا ہے جو تمہارے لئے وہاں پر جمع اور محفوظ ہو گا، اور جو تمہیں آخرت کے اس جہان غیب میں کام آئے گا جو کہ اس دنیاوی زندگی کے بعد پیش آئیگا۔ اور جو ابدی جہاں ہو گا اور جہاں کی زندگی اصل اور حقیقی زندگی ہے اور اس کے سوا جو کچھ تم اس دنیا میں چھوڑ کر جاؤ گے وہ تمہارا نہیں دوسروں کا ہے جس سے فائدے وہ اٹھائیں گے اور حساب تم کو دینا ہو گا سو اب تم لوگ اپنے بارے میں خود دیکھ اور سوچ لو۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید وعلی لما یحب و یرید۔ بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ 

۲۔ سو وہ جو کچھ تم سے مانگتا ہے وہ خود تمہارے ہی بھلے اور فائدے کے لئے مانگتا ہے، کہ وہ بڑا ہی رؤف و رحیم، اور مہربان و کریم ہے، اس لئے وہ اپنے بندوں کا بھلا چاہتا ہے، ورنہ وہ ہر کسی سے اور ہر اعتبار سے غنی و بے نیاز اور ہر خوبی و ستائش کا مالک و حقدار ہے، سبحانہ وتعالیٰ۔ تو پھر اس کے لئے ردی اور بیکار مال چھانٹنا کتنی بڑی حماقت اور کس قدر ظلم و بے انصافی ہے والعیاذُ باللہ العظیم، بکل حال

۲۶۸۔۔ سو اس سے شیطان کی عداوت و دشمنی اور اس کے طریقہ واردات کی نشاندہی فرما دی گئی کہ وہ ایک طرف تو تم لوگوں کو فقر اور محتاجی سے ڈراتا ہے، کہ اگر تم نے اللہ کی راہ میں خرچ کیا، اور مسکینوں اور محتاجوں کو دے دیا تو تم غریب اور قلاش ہو جاؤ گے، وغیرہ وغیرہ اور دوسری طرف وہ بے حیائی کی تعلیم و ترغیب دیتا ہے کیونکہ بے حیائی کی راہ کو اپنانے کے بعد انسان کے لئے راہ حق میں خرچ کرنے کی نہ گنجائش رہتی ہے نہ ہمت جس کے نتیجے میں وہ محروم ہو جاتا ہے والعیاذ باللہ العظیم

۲۶۹۔۔ حکمت کے اصل معنی ہیں حقائق اشیاء تک پہنچنا اور یہی وہ خیر کثیر ہے جس سے سرفرازی کے بعد انسان کا راستہ صحیح ہو جاتا ہے اور اس کا ہر قدم بہتری اور خیر ہی کی طرف اٹھتا ہے اور وہ بہتر سے بہتر ہی کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے اور اسی میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اپنے مال کو اور اللہ کی دی بخشی ہوئی ہر نعمت کو ایسے صرف کرتا ہے کہ وہ اس کے لئے دارین کی سعادت و سروخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ اور وسیلہ بن جاتی ہے، اور حقائق اشیاء کے علم و ادراک کے انہی خزانوں کو قرآن حکیم میں سمو دیا گیا ہے، اس لئے حکمت کا مصدر و منبع قرآن حکیم ہی ہے اسی لئے حِبْرُالامۃ حضرت ابن عباس نے حکمت کا مصداق فقہ القرآن کو قرار دیا ہے، یعنی قرآن حکیم میں جو سامان ہدایت اور اسرار وحکم موجود ہیں ان کو سمجھنا اور اپنانا (تفسیر المراغی وغیرہ) اور قرآن حکیم کی شرح حدیث رسول ہے پس حکمت کا مفہوم اور خلاصہ قرآن و سنت کے علوم و معارف اور اسرار و حکم سے سرفرازی ہے اور علوم قرآن و سنت کا یہی وہ خزانہ ہے جس سے انسان کو راہ حق و ہدایت نصیب ہو سکتی ہے اور جس سے وہ اپنے خالق و مالک کے حقوق، اور اپنی زندگی کے مقصد اور اپنی منزل مراد کو پہچان کر اپنا سکتا ہے والحمد للہ الذی شرفنابہذہ النعمۃ الکبری، جبکہ قرآن حکیم کی روشنی اور حکمت سے محروم لوگ سراسر اندھیروں میں ہیں، والعیاذ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال

۲۷۲۔۔ سو ہدایت پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کے اختیار میں نہیں ہوتی، پیغمبر کا کام تو صرف انذار و تبشیر اور دعوت و تبلیغ ہے اور بس، لوگوں کو راہ حق پر ڈال دینا، اور حق کو ان سے منوا لینا نہ ان کے ذمے ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے بس میں، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کا کام اور اسی کی شان ہے، کہ اس کا اصل تعلق انسان کے قلب و باطن سے ہے، اور قلب و باطن کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، اور وہی جان سکتا ہے کہ کون کس کے لائق ہے، اس لئے ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے؟ سبحانہ و تعالیٰ۔

۲۔ کہ اس کا فائدہ اور صلہ و ثمرہ خود تم ہی لوگوں کو ملے گا۔ دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی، اور آخرت کی اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی، جو کہ اس دنیا کے بعد آئیگا، پس تم لوگوں سے جتنا بھی ہو سکے اپنی خیر اور بھلائی کے لئے کام کئے جاؤ کہ اس کا موقع آج اس دنیاوی زندگی ہی میں ہے وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی ما یحب و یرید۔

۳۔ بلکہ تمہارا بدلہ تم کو پورا پورا دیا جائیگا، اور کئی گنا بڑھا کر دیا جائیگا۔ نہ تمہاری کسی نیکی میں کوئی کمی اور کوتاہی کی جائیگی، اور نہ تمہارے کھاتے میں کسی برائی کا اضافہ کیا جائیگا، پس تم ہر لحاظ سے مطمئن رہو

۲۷۳۔۔  اس سے مراد وہ مجاہد اور دین کے طلبہ اور علماء ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو جہاد فی سبیل اللہ اور علم دین کے سیکھنے اور سکھانے کے لئے وقف کر رکھا ہوتا ہے اور ان کا سارا وقت اسی میں لگتا ہے اگر وہ دنیا کمانے اور مال جوڑنے اور جمع کرنے کے لئے لگ جائیں، تو پھر تحفظ دین کی یہ عمومی مصلحت ضائع ہو جائے، اس لئے ان کی ضروریات زندگی کی فراہمی اور تکمیل پوری امت کا اجتماعی فریضہ ہے اور ایسے ہی لوگ ان صدقات کے اولین مستحق ہیں۔

۲۔ اور جب اللہ اس کو جانتا اور پوری طرح جانتا ہے تو پھر تم لوگوں کو کسی چیز کی کیا پرواہ؟ وہ تم کو تمہارے دیئے بخشے، اور تمہارے صدقات و خیرات اور انفاق و عطیات کا پورا پورا صلہ و بدلہ دیگا۔ اور تمہارا سب کچھ کیا کرایا اس کے یہاں بہرحال محفوظ ہے بلکہ انسان تو اپنے کئے کرائے کو بھول سکتے ہیں، اور بھول جاتے ہیں مگر اس نے ان کے سب کئے کرائے کو محفوظ کر رکھا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اور صاف و صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا اَحْصَاہُ اللّہُ وَنَسُوْہُ الایۃ (المجادلۃ۔۶) یعنی اللہ نے ان کے سب کئے کرائے کو محفوظ کر رکھا ہے، مگر یہ اس کو بھول گئے ہیں، پس تم لوگ جتنا ہو سکے اس کی رضا و خوشنودی کے لئے خرچ کرو۔ اور کرتے ہی جاؤ۔ کہ اپنی آخرت کے لئے کمائی کرتے اور جمع کرنے و جوڑنے کا موقع یہی دنیاوی زندگی، اور اس کی یہ فرصت محدود ہے اور بس، اس کے بعد اس کے لئے کوئی موقع نہیں ہو گا۔ البتہ اس بات کا خیال رہے کہ جو کچھ تم لوگ اللہ کی راہ میں اور اس کی رضا کے لئے خرچ کرو، وہ پورے صدق و اخلاص کے ساتھ ہو کہ وہ علیم بذاتِ الصُّدور دلوں کی نتیوں اور ارادوں کو بھی جانتا ہے، اور پوری طرح جانتا ہے اس سے کسی کی کوئی بھی حالت اور کیفیت مخفی نہیں رہ سکتی، اور دوسری بات اس ضمن میں یہ بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اس کی راہ میں جس مال سے خرچ کیا جائے وہ حلال کا ہو۔ کہ اس کے یہاں وہی صدقہ و خیرات شرف قبولیت پا سکتا ہے، جو حلال مال سے ہو، حرام مال اس کے یہاں شرف قبولیت نہیں پا سکتا۔ وباللّٰہ التوفیق لما یحب و یرید وعلی ما یحب و یرید، بِکُلِّ حالٍ مِّنْ الاحوال، وفی کلِ مَوْطِنٍ مِّنْ المواطنِ فی الحیاۃ۔

۲۷۵۔۔ سو جس طرح شیطان یعنی جن چمٹ کر کسی کو مخبوط الحواس کر دیتا ہے۔ اسی طرح کا حال سود خور کا ہو جاتا ہے، مال کی محبت اور اس کے بڑھائے جانے کی فکر اور ہوس جب اس پر غالب آ جاتی ہے تو وہ اس کے لئے مارا مارا پھرتا ہے زمخشری کہتے ہیں کہ یہ عربوں کے مزعومات اور ان کے خیالات میں سے ہے کہ شیطان انسان کو چمٹ کر اس کو اس طرح مخبوط الحواس کر دیتا ہے سو مرابی یعنی سود خور شخص دنیا میں ایسے ہی ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ اسی خبط میں مبتلا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ رحم و ترس کے انسانی جذبات سے عاری اور محروم ہو جاتا ہے اور ایک بے رحم اور خونخوار درندہ بن کر رہ جاتا ہے اور وہ اپنے حقیقی نفع و نقصان کے فہم و ادراک سے بھی عاری اور محروم ہو جاتا ہے اور اس کے اس خبط اور پاگل پنے کا پورا اور عملی ظہور اگرچہ آخرت میں ہو گا کہ وہاں پر سود خور انسان پاگل اور دیوانے شخص کی طرح گرتا پڑتا اٹھے گا، جس سے ظاہر ہو گا کہ یہ مرابی اور سود خور شخص ہے، جیسا کہ طبرابی وغیرہ میں حضرت عوف بن مالک سے مرفوعاً روایت ہے (المراغی وغیرہ) لیکن مرابی یعنی سود خور شخص کا حال دنیا میں یہی ہوتا ہے کہ وہ ہر وقت اور ہر حال میں پیسے جمع کرنے اور جوڑنے ہی کی دھن میں لگا رہتا ہے، مگر اس کی اس باطنی کیفیت کا کامل ظہور قیامت کے روز ہی ہو گا، اور یہ اس لئے کہ آخرت کا وہ جہاں دراصل کشف حقائق اور ظہور نتائج کا جہاں ہو گا جس میں ہر عمل خواہ وہ نیک ہو یا بد، اپنی اصل اور حقیقی شکل میں نظر آئے گا جس کے دیکھتے ہی یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ ایسے شخص کا دنیا میں حال کیا اور کیسا تھا۔ اسی لئے مرابی یعنی سود خور شخص حرص مال اور اپنی ہوس زر کی بناء پر دنیا میں جس مخبوط الحواسی میں مبتلا تھا وہ اس روز سب کے سامنے واضح ہو جائے گی۔ والعیاذُ باللہ العظیم 

۲۔ حالانکہ بیع و شراء یعنی سوداگری میں محنت بھی ہوتی ہے، طرفین کی رضامندی بھی اور نفع و نقصان دونوں کا احتمال بھی، اور مال مقابلے میں مال کے بھی جبکہ سود میں ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ہوتی کہ اس میں سود خور سود کی شکل میں دوسرے سے جو پیسہ لیتا ہے وہ صرف نفع کے عوض میں ہوتا ہے نہ کہ کسی مال کے عوض میں اور مقروض و مدین شخص سود کی جو رقم اداء کرتا ہے وہ خوشی کے ساتھ نہیں بلکہ مجبوری سے ادا کرتا ہے۔ اور اس میں سود خور کا فائدہ بہرحال مقرر اور محفوظ ہوتا ہے بوجھ سارے کا سارا مقروض و مدین شخص پر ہوتا ہے، مگر اس سب کے باوجود سود خوروں کا کہنا ہے کہ سوداگری بھی سود کی طرح ہے اور اس طرح ایسے لوگ حلال و مباح چیز کو حرام صریح پر قیاس کر کے دوہرے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ والعیاذ باللہ۔ 

۳۔ اور یہ اس لئے کہ سود خوروں نے حرام صریح کو حلال سمجھا جو کہ کفر ہے اور کفر کی سزا یہی ہے یعنی خلود فی النار، یعنی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوزخ میں رہنا، والعیاذباللہ العظیم۔

۲۷۸۔۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ سود خوری تقاضائے ایمان کے منافی ہے اس لئے ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ سود کو چھوڑ دو اگر واقعی تم ایماندار ہو، کہ تمہارے ایمان و یقین کا تقاضا یہی ہے

۲۷۹۔۔ اس قادر مطلق کی طرف سے جنگ کے اس صاف و صریح اعلان کے باوجود سود کا یہ حرام کاروبار آج کے مسلم معاشرے میں نہ صرف یہ کہ موجود ہے بلکہ عروج پر ہے۔ اور کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو اپنے اسلام اور ایمان کے بلند بانگ دعووں کے باوجود سود کھا رہے ہیں اور علیٰ الاعلان سودی کاروبار چلا رہے ہیں، اور اس کی تائید و حمایت کے لئے کمربستہ ہیں، والعیاذ باللہ العظیم

۲۸۱۔۔ اور وہاں پہنچ کر تم لوگوں نے اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے۔ جس کے بعد نیک بخت اور سعادت مند لوگ ابدی سعادت و سرخروئی اور ہمیشہ کی بادشاہی سے سرفراز و سرشار ہونگے۔ جَعَلَنَا اللّٰہ مِنْہُمْ۔ اور شقی اور بدبخت لوگوں کو ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا ہونا ہو گا۔ والعیاذُ باللہ العظیم، سو اس یوم عظیم اور اس کے تقاضوں کو ہمیشہ اور ہر حال میں پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ صاحب و یرید، بکل حال من الاحوال ۔

۲۔ بلکہ ہر کسی کو اس کے کئے کرائے کا پورا پورا صلہ و بدلہ ملے گا۔ نہ کسی کی کوئی نیکی کم کی جائیگی، اور نہ کسی کے اعمال نامے میں کسی برائی کا اضافہ کیا جائے گا۔ کہ اس روز کمال عدل و انصاف کا ظہور ہو گا۔ یہاں پر وارد لفظِ تُوَفّیٰ سے اس حقیقت کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ اعمال کا کچھ نہ کچھ بدلہ اگرچہ انسان کو اس دنیا میں بھی ملتا ہے لیکن پورا بدلہ آخرت ہی میں ملے گا ایک تو اس لئے کہ دنیا اپنی اصل اور طبیعت کے اعتبار سے دارُ الجزاء نہیں دارالعمل ہے۔ اور دوسرے اس لئے کہ دنیا کے اس ظرفِ محدود میں اس کی گنجائش ہی نہیں کہ اس میں انسان کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ مل سکے اس لئے اعمال کا پورا بدلہ انسان کو آخرت کے اس جہان غیب ہی میں مل سکے گا جو کہ اس دنیا کے بعد آئے گا کہ وہی دار الجزاء ہے۔ اور جس کی وسعتوں کا کوئی کنارہ نہیں پس ہمیشہ اسی کے تقاضوں کو پیش نظر رکھنے، اور اس کے لئے عمل کرنے کی ضرورت ہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید۔

۲۸۲۔۔ تاکہ وہ سندر ہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ اور باہمی اختلاف و نزاع کی صورت میں تم لوگ اس کی طرف رجوع کر سکو۔ اور کسی کی حق تلفی نہ ہو، اور معاملات بسہولت طے ہو سکیں،

 ۲۔ کہ شکرِ نعمت کا تقاضا یہی ہے، سو جب اللہ نے اس کو کتابت کی اس اہلیت اور صلاحیت سے نوازا ہے تو اس کے شکر میں اور حق نعمت کی ادائیگی کے تقاضے کے طور پر اس کو لکھنے سے انکار نہیں کرنا چاہیئے۔ بلکہ بوقت ضرورت دوسروں کے کام آنا چاہئے۔ اور حسب ضرورت ان کے لئے وثیقے کو لکھنا چاہئے۔

۳۔  تاکہ نہ کسی کا حق مارا جائے اور نہ کسی کے ساتھ کسی طرح کی زیادتی ہو۔ اور اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں، اور ہر کسی کا حق پورے طور پر محفوظ رہے،

۴۔  یعنی وہ دونوں گواہ مسلمان ہوں۔ پس غیر مسلم کو مسلمانوں پر گواہ بنانا درست نہیں۔ کیونکہ کافروں غیر مسلم کو مسلمان پر فضیلت اور فوقیت نہیں دی جا سکتی جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بات کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے وَلَنْ یَّجْعَلَ اللّٰہ لِلْکٰفِرِیْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ سَبِیْلاً اور جس طرح رِجَالِکُمْ کی تصریح سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ دونوں گواہ مسلمان ہونے چاہیں اسی طرح گواہوں کے بارے میں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ عادل ہوں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے وَاَشْہِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِنْکُمْ الایٰۃ (الطلاق۔۲) یعنی تم لوگ اپنے میں سے دو عدل والوں کو گواہ بنا لیا کرو۔ سو اسلام کے اندر گواہی کی بڑی اہمیت ہے، اور یہ اس لئے کہ معاملات کے فیصلوں کا مدار و انحصار گواہی ہی پر ہوتا ہے۔ گواہ اگر صحیح اور سچے ہونگے تو فیصلہ صحیح ہو گا ورنہ نہیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے الشُّہُوْدُ ہُمُ القضاۃ کہ گواہ دراصل قاضی ہوتے ہیں، اور صحیح گواہ وہی ہو سکتے ہیں جو ایمان و اسلام کی دولت سے بھی سرشار و سرفراز ہوں اور عدل و انصاف کی صفت بھی اپنے اندر رکھتے ہوں، اور یوں بھی شہادت حق امت مسلمہ کا امتیازی فریضہ ہے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلیٰ ما یحب و یرید 

        ۵۔  کیونکہ گواہی کے تحمل اور اس کی ادائیگی پر دوسروں کے حقوق کا مدار و انحصار ہوتا ہے۔ اور حکم و قضاء کا مدار بھی گواہی ہی پر ہوتا ہے؟ پس گواہوں کو گواہی کی تحمل اور اس کی ادائیگی سے انکار نہیں کرنا چاہیے تاکہ دوسرے کے حقوق کا ضیاع نہ ہو۔ اور ہر ایک کو اس کا حق ملے۔

۶۔ کہ اس تحریر کی بناء پر فریقین میں سے ہر ایک کا حق اس کی مدت اور ان سے متعلق دوسری ضروری چیزیں محفوظ اور منضبط ہوتی ہیں، اور اختلاف و نزاع کی صورت میں ان کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ سو تحریر معاملات رفع نزاع، فصل خصومات، اور تصفیہ کے سلسلہ میں خاص اہمیت رکھتی ہے اس لئے اس کا ہمیشہ اور ہر طرح سے پاس و لحاظ کیا جائے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید وعلی ما یحب و یرید، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل مواطن من المواطن فی الحیاۃ۔ 

۷۔ نہ لین دین کی اصل مقدار میں اور نہ ہی اس کی مدت وغیرہ میں سے کسی چیز کے بارے میں کہ ہر چیز ضبط و تحریر میں موجود و مذکور ہو گی۔ اس لئے ایسے ہر معاملے کو باہم لکھ لیا کرو۔ کہ اسی میں سب بھلا اور بہتری ہے۔ 

۸۔ سو اس طرح کے نقدا نقدی کے کسی سودے میں معاملے کو ضبط تحریر میں لانا ضروری نہیں ہوتا۔ کہ اس طرح کے دست بدست سودے میں کسی نزاع و اختلاف کا کچھ زیادہ امکان نہیں ہوتا۔ تاہم اس کو بھی اگر لکھ لیا جائے تو بہتر ہے۔ جس طرح کہ آج کل کیش میمو وغیرہ لکھنے کا رواج ہے۔ سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ دین حنیف نے دنیا کو معاشرتی اصلاح سے متعلق کس قدر اہم اور باریک ہدایات و تعلیمات سے نوازا ہے، اور پندرہ صدیاں قبل اس دور تاریکی میں جبکہ اس طرح کی تعلیمات کا کہیں کوئی نام و نشان بھی نہیں تھا اور وہ بھی ایسے عظیم الشان اور جامع انداز میں، کہ ان کی کوئی نظیر و مثال دنیا آج تک پیش نہیں کر سکی، اور قیامت تک کبھی کر بھی نہیں سکے گی۔ والحمد للہ جل وعلا بکل حال من الاحوال، وفی کل مواطن من المواطن فی الحیاۃ۔ 

۹۔  تاکہ کسی وقتی نزاع کا فیصلہ انہی شہود اور گواہوں کے ذریعے کر دیا جائے۔ کیونکہ اس طرح کے دست بدست اور نقدا نقدی کے سودوں میں بھی کبھی نہ کبھی کوئی نہ کوئی نزاع پیدا ہو جاتا ہے۔ البتہ چونکہ یہ وقتی نوعیت کا لین دین ہوتا ہے نہ کہ لمبے عرصے کے لئے اس لئے اس میں تحریر ضروری نہیں۔ لیکن بہتر بہرحال ہے، اور اس کے کئی مفید اور سودمند پہلو ہیں،

۲۸۳۔۔  سو اس میں حالتِ عذر کا ذکر و بیان فرمایا گیا ہے کہ اگر آدمی کسی سفر میں ہو اور وہاں پر اس کو کوئی لکھنے والا نہ مل سکے یا وثیقہ لکھنے کے لئے کاغذ موجود نہ ہو تو ایسی صورت میں کوئی چیز اس قرض دینے والے شخص کے پاس بطور رہن رکھ دی جائے۔ تاکہ یہ اس کے لئے اطمینان اور وثوق کا ذریعہ ہو۔ سو رہن صرف اپنے حق کی واپسی کے لئے وثیقہ اعتماد کے طور پر ہوتا ہے اور بس قرض مل جانے پر اس کو واپس کر دیا جاتا ہے اس سے کسی طرح کا نفع اٹھانا مرتہن کے لئے جائز نہیں۔ جیسا کہ عام طور پر لوگ رہن رکھی ہوئی زمین وغیرہ سے اس دوران طرح طرح سے نفع اٹھاتے رہتے ہیں۔ سو ایسا کرنا ممنوع اور حرام ہے، دین حنیف نے اس بارے قاعدہ کلیہ کے طور پر یہ اصولی اور بنیادی تعلیم دی ہے کہ کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ نَفْعًا فَہُوَحَرَامٌ یعنی جس قرضے کے ذریعے کوئی نفع کمایا جائے وہ حرام ہے۔ کیونکہ یہ دراصل سود ہی کی شکل ہے اور اسی کے ضمن و ذیل میں آتا ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ زیغ و ضلال کی ہر قسم سے ہمیشہ محفوظ رکھے، اور ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے، آمین ثم آمین

۲۸۴۔۔ کہ اس سب کا خالق و مالک بھی وہی ہے اور اس میں حاکم و متصرف بھی وہی وحدہٗ لاشریک ہے۔ پس اس کی اس حکومت و ملکیت میں کسی بھی اور ہستی کو اس کا شریک و سہیم اور ساجھی و حصہ دار ماننا شرک ہو گا۔ جو کہ ظلم عظیم ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم۔ پس غلط کہتے اور شرکیہ بات کا ارتکاب کرتے ہیں وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی اس زمین میں دوسری طرح طرح کی خود ساختہ اور من گھڑت سرکاریں بنا رکھی ہیں اور ان کے لئے انہوں نے طرح طرح کے فرضی اور بناوٹی نام گھڑ رکھے ہیں، اور ان کے لئے انہوں نے مختلف علاقے اور خطے از خود اور اپنے طور پر نامزد اور الاٹ کر رکھے ہیں، کہ یہ فلاں کی نگری، یہ فلاں کی بستی اور فلاں کا ایریا و علاقہ ہے، وغیرہ وغیرہ حالانکہ قرآن حکیم جا بجا اس حقیقت کی تصریح کرتا ہے کہ زمین و آسمان کی یہ ساری کی ساری کائنات اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کی ہے اور اس میں حکومت اور سرکار بھی اسی کی ہے اس میں اور کوئی بھی اس کا شریک نہ ہے، نہ ہو سکتا ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔ 

۲۔ کہ وہی وحدہٗ لاشریک جانتا ہے کہ کسی کا جرم و قصور کس درجے اور کس نوعیت کا ہے۔ اور کس کا جرم و قصور قابل معافی ہے اور کس کا ناقابل معافی سو وہ ہر ایک کے ساتھ اسی کے مطابق معاملہ فرمائے گا جو کہ تقاضا ہے اس کے عدل و انصاف کا، سبحانہ و تعالیٰ

۲۸۵۔۔ سو یہ طریقہ ہے سچے اور مخلص مسلمانوں کا، یعنی حق بات کو سننا اور ماننا اور سچے دل سے اپنے خالق و مالک کے حضور سر تسلیم خم ہو جانا، اور جو کوتاہیاں بشری تقاضوں کی بناء پر ان سے سرزد ہو گئی ہوں ان کی بخشش مانگنا، اور اپنے رب کے حضور حاضری اور اس کے تقاضوں کو ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا۔ اور یہی سعادت دارین سے سرفرازی کی وہ راہ ہے جو تقاضا ہے عقل سلیم اور فطرت مستقیم کا، یہی اس کی شان بندگی کے لائق ہے اور یہی حق ہے اس پر اس کے خالق و مالک جل شانہ کا، سبحانہ و تعالیٰ

۲۸۶۔۔ سو نیکی کا صلہ و بدلہ خود کرنے والے ہی کو ملے گا۔ اور برائی کا وبال بھی خود اسی پر پڑے گا۔ اور یہی تقاضا ہے عدل و انصاف اور عقل و نقل دونوں کا، پس ہر کوئی اپنے بارے میں خود دیکھ اور سوچ لے کہ وہ اپنے لئے کیا کرتا، اور کیا کچھ جوڑتا اور جمع کرتا ہے کہ اچھا یا برا جو بھی کچھ وہ کرتا ہے، وہ خود اس کے اپنے ہی لئے اور اس کا نفع و نقصان خود اس کی اپنی ہی ذات کے لئے ہے پس وہ اپنے نفع و نقصان کے لئے خود ہی دیکھ لے، وباللہ التوفیق لما یحب و یرید

۲۔  یعنی وہ سخت احکام جو پہلی امتوں پر فرض تھے جیسے بنی اسرائیل پر اپنے مال کا چوتھا حصہ بطور زکوٰۃ ادا کرنا فرض تھا۔ اور ان کے کپڑے کو جب نجاست لگ جاتی تھی تو اس کو کاٹ دینا پڑتا تھا وغیرہ (المعارف اور المرغی وغیرہ) اور اس عظیم الشان دعا کی تعلیم و تذکیر میں دراصل یہ بشارت ہے کہ اس امت پر اس طرح کے سخت احکام نہیں عائد کئے جائیں گے، جس طرح پہلی امتوں پر عائد کئے گئے تھے، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرما دی گئی ہے وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجِ الایٰۃ (الحج۔۷٨) یعنی اس نے تم لوگوں پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔ بلکہ اس نے اپنے بندوں کو ایسے سہل اور میسور احکام سے نوازا ہے جو عقل سلیم اور فطرت مستقیم کے تقاضوں کے عین مطابق اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہیں۔ اور حدیث میں ارشاد فرمایا گیا اَلدِّیْنُ یُسْرٌ یعنی یہ دین بڑا آسان ہے، اس سے اعراض و رُوگردانی دارین کی ہلاکت و تباہی کا باعث ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم 

۳۔ سو کافروں کے مقابلے میں حجت و برہان کے اعتبار سے بھی ہمارا ہمیشہ غلبہ رہے کہ اصل غلبہ یہی ہے جو دل و دماغ اور قلب و ضمیر کو اپیل کرتا ہے اور ان کو حق کے آگے جھکنے اور سجدہ ریز ہونے پر مجبور کرتا ہے، اور جہاد و قتال کے موقع پر بھی ہمیں ان کے مقابلے میں غلبہ عطاء ہو تاکہ غلبہ ہمیشہ حق ہی کا ہو۔ اور کافر و منکر حق کے مقابلے میں سرنگوں اور زبردست ہو کر رہیں۔ سو یہ دعاء ایک عظیم الشان دعا ہے جو حضرت حق جَلَّ مَجْدَہ، نے اپنے خاص فضل و کرم سے اپنے بندوں کو تعلیم و تلقین فرمائی ہے۔ چنانچہ مسند امام احمد میں حضرت ابوذر رضی اللہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے سورہ بقرہ کے خواتیم یعنی اس کی یہ آخری آیتیں۔ عرش کے نیچے کے ایک خزانے سے عطاء فرمائی گئی ہیں، جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں، (مسند امام احمد ج ۵ ص ۱٠) اور صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت ابن مسعود سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس نے سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں رات کو پڑھ لیں تو وہ اس کو کافی ہو گئیں (صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل سورۃ البقرہ) اور حضرات علماء کرام اس کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے یہ دو آیتیں اس شخص کو کافی ہو گئیں ہر شر سے یا یہ کہ یہ اس کو کافی ہو گئیں، اس رات کے قیام اور اس کے اجر و ثواب سے۔ سو اس دعا میں تین چیزوں کی دعا و درخواست کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے یعنی عفو و درگزر، اور مغفرت و پردہ پوشی، اور رحمت و عنایت سے سرفرازی سو بندہ اپنے رب کے حضور عرض کرتا ہے کہ رب کریم میری کوتاہیوں اور تقصیرات کو معاف فرما دے، میرے گناہوں کو ڈھانک دے، اور مجھے اپنی رحمت و عنایت سے نوازے دے۔ سو بندے کا سارا اعتماد انہی تین چیزوں پر ہونا چاہئے۔ وباللہ التوفی لما یحب و یرید۔ وعلی ما یحب و یرید۔ وہو الہادی الی سواء السبیل