خزائن العرفان

سورة البَقَرَة

سورہ بقرہ مدنی ہے  اس میں دو سو چھیاسی آیتیں اور چا لیس رکوع ہیں

 (ف  ۱)  اللہ کے  نام سے  شروع جو بہت مہربان رحمت والا۔

۱       یہ سورت مدنی ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا مدینہ طیّبہ میں سب سے پہلے یہی سورت نازل ہوئی سوائے آیت  وَاتَّقُوْا یَوْماً تُرْجَعُوْنَ  کے کہ حجِ وَداع میں بمقام مکّہ مکرّمہ نازل ہوئی۔ (خازن) اس سورت میں دو سو چھیاسی آیتیں چالیس رکوع چھ ہزار ایک سو اکیس کلمے پچیس ہزار پانچ سو حرف ہیں۔ (خازن) پہلے قرآنِ پاک میں سورتوں کے نام نہ لکھے جاتے تھے، یہ طریقہ حجّاج نے نکالا۔ ابنِ عربی کا قول ہے کہ سورۂ بقر میں ہزار امر، ہزار نہی، ہزار حکم، ہزار خبریں ہیں، اس کے اخذ میں برکت، ترک میں حسرت ہے، اہلِ باطل جادو گر اس کی استطاعت نہیں رکھتے، جس گھر میں یہ سورت پڑھی جائے تین دن تک سرکش شیطان اس میں داخل نہیں ہوتا۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں یہ سورت پڑھی جائے۔ (جمل) بیہقی و سعید بن منصور نے حضرت مغیرہ سے روایت کی کہ جو شخص سوتے وقت سورۂ بقر کی دس آیتیں پڑھے گا قرآن شریف کو نہ بھولے گا، وہ آیتیں یہ ہیں چار آیتیں اوّل کی اور آیت الکرسی اور دو اس کے بعد کی اور تین آخر سورت کی۔

مسئلہ : طبرانی و بیہقی نے حضرت ابنِ عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا میت کو دفن کر کے قبر کے سرہانے سورۂ بقر کے اول کی آیتیں اور پاؤں کی طرف آخر کی آیتیں پڑھو۔

شانِ نُزول : اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و سلم سے ایک ایسی کتاب نازل فرمانے کا وعدہ فرمایا تھا جو نہ پانی سے دھو کر مٹائی جا سکے نہ پرانی ہو، جب قرآنِ پاک نازل ہوا تو فرمایا ذٰلِکَ الْکِتٰبُ  کہ وہ کتابِ موعود یہ ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے ایک کتاب نازل فرمانے اور بنی اسمٰعیل میں سے ایک رسول بھیجنے کا وعدہ فرمایا تھا، جب حضور نے مدینہ طیّبہ کو ہجرت فرمائی جہاں یہود بکثرت تھے تو الۤمّۤ ذٰلِکَ الْکِتٰبُ  نازل فرما کر اس وعدے کے پورے ہونے کی خبر دی۔ (خازن)۔

(۱) الم  (ف ۲ )

۲                 الٓمّٓ سورتوں کے اول جو حروفِ مقطّعہ آتے ہیں ان کی نسبت قولِ راجح یہی ہے کہ وہ اَسرارِ الٰہی اور متشابہات سے ہیں، ان کی مراد اللّٰہ اور رسول جانیں ہم اس کے حق ہونے پر ایمان لاتے ہیں۔

 (۲) وہ بلند رتبہ کتاب (قرآن) کوئی شک کی جگہ نہیں،( ف ۳ ) اس میں ہدایت ہے  ڈر والوں کو (ف ۴)

۳                 اس لئے کہ شک اس میں ہوتا ہے جس پر دلیل نہ ہو، قرآنِ پاک ایسی واضح اور قوی دلیلیں رکھتا ہے جو عاقلِ مُنْصِف کو اس کے کتابِ الٰہی اور حق ہونے کے یقین پر مجبور کرتی ہیں تو یہ کتاب کسی طرح قابلِ شک نہیں جس طرح اندھے کے انکار سے آفتاب کا وجود مشتبہ نہیں ہوتا ایسے ہی مُعانِدِ سیاہ دل کے شک و انکار سے یہ کتاب مشکوک نہیں ہو سکتی۔

۴                 ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ اگرچہ قرآنِ کریم کی ہدایت ہر ناظر کے لئے عام ہے، مومن ہو یا  کافِر جیسا کہ دوسری آیت میں فرمایا  ھُدًی لِّلنَّا سِ لیکن چونکہ اِنتفاع اس سے اہلِ تقویٰ کو ہوتا ہے اس لئے  ھُدًی لِلّمُتَّقِیْنَ  ارشاد ہوا جیسے کہتے ہیں بارش سبزہ کے لئے ہے یعنی منتفع، اس سے سبزہ ہوتا ہے اگرچہ برستی کلر اور زمین بے گیاہ پر بھی ہے۔ تقویٰ کے کئی معنیٰ آتے ہیں، نفس کو خوف کی چیز سے بچانا اور عرفِ شرع میں ممنوعات چھوڑ کر نفس کو گناہ سے بچانا۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا متّقی وہ ہے جو شرک و کبائر و فواحش سے بچے۔ بعضوں نے کہا متّقی وہ ہے جو اپنے آپ کو دوسروں سے بہتر نہ سمجھے۔ بعض کا قول ہے تقویٰ حرام چیزوں کا ترک اور فرائض کا ادا کرنا ہے۔ بعض کے نزدیک معصیت پر اصرار اور طاعت پر غرور کا ترک تقویٰ ہے۔ بعض نے کہا تقویٰ یہ ہے کہ تیرا مولیٰ تجھے وہاں نہ پائے جہاں اس نے منع فرمایا۔ ایک قول یہ ہے کہ تقویٰ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور صحابہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم کی پیروی کا نام ہے۔ (خازن) یہ تمام معنی باہم مناسبت رکھتے ہیں اور مآل کے اعتبار سے ان میں کچھ مخالفت نہیں۔ تقویٰ کے مراتب بہت ہیں عوام کا تقویٰ ایمان لا کر کُفر سے بچنا، مُتوسّطین کا اوامر و نواہی کی اطاعت، خواص کا ہر ایسی چیز کو چھوڑنا جو اللّٰہ تعالیٰ سے غافل کرے۔ (جمل) حضرت مترجم قدس سرہ نے فرمایا تقویٰ سات قسم کا ہے۔ (۱) کُفر سے بچنا یہ بفضلہ تعالیٰ ہر مسلمان کو حاصل ہے (۲) بد مذہبی سے بچنا یہ ہر سنی کو نصیب ہے (۳) ہر کبیرہ سے بچنا (۴) صغائر سے بھی بچنا (۵) شبہات سے احتراز (۶) شہوات سے بچنا (۷) غیر کی طرف التفات سے بچنا یہ اخص الخواص کا منصب ہے اور قرآنِ عظیم ساتوں مرتبوں کا ہادی ہے۔

(۳) وہ جو بے  دیکھے  ایمان لائیں (ف ۵) اور نماز قائم رکھیں (ف ۶) اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے  ہماری میں اٹھائیں - (ف ۷)

۵                 اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ یہاں سے مُفْلِحُوْنَ  تک آیتیں مومنین با اخلاص کے حق میں ہیں جو ظاہراً و باطناً ایماندار ہیں۔ اس کے بعد دو آیتیں کھلے کافِروں کے حق میں ہیں جو ظاہراً و باطناً کافِر ہیں۔ اس کے بعد  وَ مِنَ النَّاسِ سے تیرہ آیتیں منافقین کے حق میں ہیں جو باطن میں کافِر ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔ (جمل) غیب مصدر یا اسمِ فاعِل کے معنی میں ہے، اس تقدیر پر غیب وہ ہے جو حواس و عقل سے بدیہی طور پر معلوم نہ ہو سکے، اس کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ جس پر کوئی دلیل نہ ہو یہ علمِ غیب ذاتی ہے اور یہی مراد ہے آیہ  عِنْدَہ مَفَاتِحُ الْغَیْبِ لَا یَعْلَمُھَآ اِلَّا ھُوَ  میں اور ان تمام آیات میں جن میں علمِ غیب کی غیرِ خدا سے نفی کی گئی ہے، اس قِسم کا علمِ غیب یعنی ذاتی جس پر کوئی دلیل نہ ہو اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، غیب کی دوسری قِسم وہ ہے جس پر دلیل ہو جیسے صانِعِ عالَم اور اس کی صفات اور نبوّات اور ان کے متعلقات احکام و شرائع و روزِ آخر اور اس کے احوال، بَعث، نشر، حساب، جزا وغیرہ کا علم جس پر دلیلیں قائم ہیں اور جو تعلیمِ الٰہی سے حاصل ہوتا ہے یہاں یہی مراد ہے، اس دوسرے قسم کے غیوب جو ایمان سے علاقہ رکھتے ہیں ان کا علم و یقین ہر مومن کو حاصل ہے اگر نہ ہو آدمی مومن نہ ہو سکے اور اللّٰہ تعالیٰ اپنے مقرب بندوں انبیاء و اولیاء پر جو غیوب کے دروازے کھولتا ہے وہ اسی قسم کا غیب ہے یا غیب معنی مصدری میں رکھا جائے اور غیب کا صلہ مومن بہ قرار دیا جائے یا باء کو متلبسین محذوف کے متعلق کر کے حال قرار دیا جائے، پہلی صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے جو بے دیکھے ایمان لائیں جیسا حضرت مترجم قدس سرہ نے ترجمہ کیا ہے، دوسری صورت میں معنی یہ ہوں گے جو مؤمنین کے پسِ غیب ایمان لائیں یعنی ان کا ایمان منافقوں کی طرح مومنین کے دکھانے کے لئے نہ ہو بلکہ وہ مخلص ہوں، غائب حاضر ہر حال میں مؤمن رہیں۔ غیب کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ غیب سے قلب یعنی دل مراد ہے، اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ وہ دل سے ایمان لائیں۔ (جمل) ایمان جن چیزوں کی نسبت ہدایت و یقین سے معلوم ہے کہ یہ دینِ محمّدی سے ہیں، ان سب کو ماننے اور دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کرنے کا نام ایمان صحیح ہے، عمل ایمان میں داخل نہیں اسی لئے یُؤمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ تر جمۂ کنز الایمان : (جو بے دیکھے ایمان لائیں ) کے بعد  یُقِیْمُوْنَ الصلوٰۃ تر جمۂ کنز الایمان : (نماز قائم رکھیں ) فرمایا۔

۶                 نماز کے قائم رکھنے سے یہ مراد ہے کہ اس پر مداومت کرتے ہیں اور ٹھیک وقتوں پر پابندی کے ساتھ اس کے ارکان پورے پورے ادا کرتے اور فرائض، سُنَن، مستحبات کی حفاظت کرتے ہیں، کسی میں خلل نہیں آنے دیتے، مفسدات و مکروہات سے اس کو بچاتے ہیں اور اس کے حقوق اچھی طرح ادا کرتے ہیں۔ نماز کے حقوق دو طرح کے ہیں ایک ظاہری وہ تو یہی ہیں جو ذکر ہوئے، دوسرے باطنی وہ خشوع اور حضور یعنی دل کو فارغ کر کے ہمہ تن بارگاہِ حق میں متوجہ ہو جانا اور عرض و نیاز و مناجات میں محویت پانا۔

۷                 راہِ خدا میں خرچ کرنے سے یا زکوٰۃ مراد ہے جیسا دوسری جگہ فرمایا  یُقِیْمُوْنَ الصلوٰۃوَ یُؤْتُوْنَ الزَّکوٰۃَ یا مطلق انفاق خواہ فرض و واجب ہو جیسے زکوٰۃ، نذر، اپنا اور اپنے اہل کا نفقہ وغیرہ، خواہ مستحب جیسے صدقاتِ نافلہ، اموات کا ایصالِ ثواب۔

مسئلہ : گیارھویں، فاتحہ، تیجہ، چالیسواں وغیرہ بھی اس میں داخل ہیں کہ وہ سب صدقاتِ نافلہ ہیں اور قرآنِ پاک و کلمہ شریف کا پڑھنا، نیکی کے ساتھ اور نیکی ملا کر اجر و ثواب بڑھاتا ہے۔

مسئلہ :  مِمَّا  میں مِنْ تبعیضیہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ انفاق میں اسراف ممنوع ہے یعنی انفاق خواہ اپنے نفس پر ہو یا اپنے اہل پر یا کسی اور پر، اعتدال کے ساتھ ہو اسراف نہ ہونے پائے۔

 رَزَقْنَا ھُمْ  کی تقدیم اور رزق کو اپنی طرف نسبت فرما کر ظاہر فرمایا کہ مال تمہارا پیدا کیا ہوا نہیں، ہمارا عطا فرمایا ہوا ہے، اس کو اگر ہمارے حکم سے ہماری راہ میں خرچ نہ کرو تو تم نہایت ہی بخیل ہو اور یہ بُخل نہایت قبیح۔

(۴) اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے  محبوب تمہاری طرف اترا  اور جو تم سے  پہلے  اترا(ف ۸) اور آخرت پر یقین رکھیں، (ف ۹)

۸                 اس آیت میں اہلِ کتاب سے وہ مومنین مراد ہیں جو اپنی کتاب اور تمام پچھلی آسمانی کتابوں اور انبیاء علیہم السلام کی وحیوں پر بھی ایمان لائے اور قرآنِ پاک پر بھی اور  مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ  سے تمام قرآنِ پاک اور پوری شریعت مراد ہے۔ (جمل)

مسئلہ : جس طرح قرآنِ پاک پر ایمان لانا ہر مکلَّف پر فرض ہے اسی طرح کتبِ سابقہ پر ایمان لانا بھی ضروری ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام سے قبل انبیاء علیہم السلام پر نازل فرمائیں البتہ ان کے جو احکام ہماری شریعت میں منسوخ ہو گئے ان پر عمل درست نہیں مگر ایمان ضروری ہے مثلاً پچھلی شریعتوں میں بیتُ الْمقدس قبلہ تھا، اس پر ایمان لانا تو ہمارے لئے ضروری ہے مگر عمل یعنی نماز میں بیت المقدس کی طرف منہ کرنا جائز نہیں، منسوخ ہو چکا۔

مسئلہ : قرآنِ کریم سے پہلے جو کچھ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے انبیاء پر نازل ہوا ان سب پر اجمالاً ایمان لانا فرضِ عین ہے اور قرآن شریف پر تفصیلاً فرض کفایہ ہے لہٰذا عوام پر اس کی تفصیلات کے علم کی تحصیل فرض نہیں جب کہ عُلَماء موجود ہوں جنہوں نے اس کی تحصیلِ علم میں پوری جہد صرف کی ہو۔

۹                 یعنی دارِ آخرت اور جو کچھ اس میں ہے جزا و حساب وغیرہ سب پر ایسا یقین و اطمینان رکھتے ہیں کہ ذرا شک و شبہ نہیں، اس میں اہلِ کتاب وغیرہ کُفّار پر تعریض ہے جن کے اعتقاد آخرت کے متعلق فاسد ہیں۔

(۵) وہی لوگ اپنے  رب کی طرف سے  ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے  والے۔

 (۶) بیشک وہ جن کی قسمت میں کفر ہے   (ف ۱۰) ا نہیں برابر ہے، چاہے  تم انہیں ڈراؤ، یا نہ ڈراؤ، وہ ایمان لانے  کے  نہیں۔

۱۰               اولیاء کے بعد اعداء کا ذکر فرمانا حکمتِ ہدایت ہے کہ اس مقابلہ سے ہر ایک کو اپنے کردار کی حقیقت اور اس کے نتائج پر نظر ہو جائے۔

شانِ نُزول : یہ آیت ابوجہل، ابولہب وغیرہ کُفّار کے حق میں نازل ہوئی جو علمِ الٰہی میں ایمان سے محروم ہیں اسی لئے ان کے حق میں اللّٰہ تعالیٰ کی مخالفت سے ڈرانا، نہ ڈرانا دونوں برابر ہیں، انہیں نفع نہ ہو گا مگر حضور کی سعی بیکار نہیں کیونکہ منصبِ رسالتِ عامّہ کا فرض رہنمائی و اقامت حُجّت و تبلیغ علیٰ وجہِ الکمال ہے۔

مسئلہ : اگر قوم پندپذیر نہ ہو تب بھی ہادی کو ہدایت کا ثواب ملے گا۔ اس آیت میں حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و سلم کی تسکینِ خاطر ہے کہ کُفّار کے ایمان نہ لانے سے آپ مغموم نہ ہوں آپ کی سعی تبلیغِ کامل ہے اس کا اجر ملے گا، محروم تو یہ بدنصیب ہیں جنہوں نے آپ کی اطاعت نہ کی۔ کُفر کے معنیٰ اللّٰہ تعالیٰ کے وجود یا اس کی وحدانیت یا کسی نبی کی نبوّت یا ضروریاتِ دین سے کسی امر کا انکار یا کوئی ایسا فعل جو عِنْدَ الشَّرع انکار کی دلیل ہو کُفر ہے۔

(۷) اللہ نے  ان کے  دلوں پر اور کانوں پر مہر کر دی اور ان کی آنکھوں پر گھٹا ٹوپ ہے، (ف ۱۱) اور ان کے  لئے  بڑا عذاب،

۱۱               خلاصہ : مطلب یہ ہے کہ کُفّار ضلالت و گمراہی میں ایسے ڈوبے ہوئے ہیں کہ حق کے دیکھنے، سننے، سمجھنے سے اس طرح محروم ہو گئے جیسے کسی کے دل اور کانوں پر مُہر لگی ہو اور آنکھوں پر پردہ پڑا ہو۔

مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ بندوں کے افعال بھی تحتِ قدرتِ الٰہی ہیں۔

(۸) اور کچھ لوگ کہتے  ہیں (ف ۱۲) کہ ہم اللہ اور پچھلے  دن پر ایمان لائے  اور وہ ایمان والے  نہیں،

۲ا                اس سے معلوم ہوا کہ ہدایت کی راہیں ان کے لئے اول ہی سے بند نہ تھیں کہ جائے عذر ہوتی بلکہ ان کے کُفر و عناد اور سرکشی و بے دینی اور مخالفتِ حق و عداوتِ انبیاء علیہم السلام کا یہ انجام ہے جیسے کوئی شخص طبیب کی مخالفت کرے اور زہرِ قاتل کھا لے اور اس کے لئے دوا سے اِنتفاع کی صورت نہ رہے تو خود ہی مستحقِ ملامت ہے۔

(۹) فریب دیا چاہتے  ہیں اللہ اور ایمان والوں کو (ف ۱۳) اور حقیقت میں فریب نہیں دیتے  مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔

۱۳               شانِ نُزول : یہاں سے تیرہ آیتیں منافقین کی شان میں نازل ہوئیں جو باطن میں کافِر تھے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے، اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا  مَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ  وہ ایمان والے نہیں یعنی کلمہ پڑھنا، اسلام کا مدعی ہونا، نماز روزہ ادا کرنا، مومن ہونے کے لئے کافی نہیں جب تک دل میں تصدیق نہ ہو۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ جتنے فرقے ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں اور کُفر کا اعتقاد رکھتے ہیں سب کا یہی حکم ہے کہ کافِر خارج از اسلام ہیں، شرع میں ایسوں کو منافق کہتے ہیں، ان کا ضرر کھلے کافِروں سے زیادہ ہے۔  مِنَ النَّاسِ  فرمانے میں لطیف رَمْز یہ ہے کہ یہ گروہ بہتر صفات و انسانی کمالات سے ایسا عاری ہے کہ اس کا ذکر کسی وصف و خوبی کے ساتھ نہیں کیا جاتا، یوں کہا جاتا ہے کہ وہ بھی آدمی ہیں۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ کسی کو بشر کہنے میں اس کے فضائل و کمالات کے اِنکار کا پہلو نکلتا ہے اس لئے قرآنِ پاک میں جا بجا انبیاء کرام کے بشر کہنے والوں کو کافِر فرمایا گیا اور درحقیقت انبیاء کی شان میں ایسا لفظ ادب سے دور اور کُفّار کا دستور ہے۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا  مِنَ النَّاسِ  سامعین کو تعجب دلانے کے لئے فرمایا گیا کہ ایسے فریبی مکار اور ایسے احمق بھی آدمیوں میں ہیں۔

  (۱۰) ان کے  دلوں میں بیماری ہے  (ف ۱۴) تو اللہ نے  ان کی بیماری اور بڑھائی اور ان کے  لئے  دردناک عذاب ہے،  بدلا  ان کے  جھوٹ کا -(ف ۱۵) 

۱۴               اللّٰہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کو کوئی دھوکا دے سکے، وہ اسرار و مخفیات کا جاننے والا ہے، مراد یہ ہے کہ منافق اپنے گمان میں خدا کو فریب دینا چاہتے ہیں یا یہ کہ خدا کو فریب دینا یہی ہے کہ رسول علیہ السلام کو دھوکا دینا چاہیں کیونکہ وہ اس کے خلیفہ ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کو اَسرار کا علم عطا فرمایا ہے، وہ ان منافقین کے چُھپے کُفر پر مطلع ہیں اور مسلمان ان کے اطلاع دینے سے باخبر تو ان بے دینوں کا فریب نہ خدا پر چلے، نہ رسول پر، نہ مؤمنین پر بلکہ درحقیقت وہ اپنی جانوں کو فریب دے رہے ہیں۔

مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ تقیہ بڑا عیب ہے جس مذہب کی بنا تقیہ پر ہو وہ باطل ہے، تقیہ والے کا حال قابلِ اعتماد نہیں ہوتا، توبہ ناقابلِ اطمینان ہوتی ہے اس لئے عُلَماء نے فرمایا لَاتُقْبَلُ تَوْبَۃُ الزِّنْدِیْقِ۔

۱۵               بد عقیدگی کو قلبی مرض فرمایا گیا اس سے معلوم ہوا کہ بد عقیدگی روحانی زندگی کے لئے تباہ کُن ہے

مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ جھوٹ حرام ہے اس پر عذابِ اَلیم مرتب ہوتا ہے۔

(۱۱) اور ان سے  کہا جائے  زمین میں فساد نہ کرو، (ف ۱۶) تو کہتے  ہیں ہم تو سنوارنے  والے  ہیں،

۱۶               مسئلہ : کُفّار سے میل جول، ان کی خاطر دین میں مُداہنت اور اہلِ باطل کے ساتھ تَمَلّق و چاپلوسی اور ان کی خوشی کے لئے صُلحِ کُل بن جانا اور اظہارِ حق سے باز رہنا شانِ منافق اور حرام ہے، اسی کو منافقین کا فساد فرمایا گیا۔ آج کل بہت لوگوں نے یہ شیوہ کر لیا ہے کہ جس جلسہ میں گئے ویسے ہی ہو گئے، اسلام میں اس کی ممانعت ہے ظاہر و باطن کا یکساں نہ ہونا بڑا عیب ہے۔

(۱۲ ) سنتا ہے  وہی فسادی ہیں مگر انہیں شعور نہیں۔

 (۱۳) اور جب ان سے  کہا جائے  ایمان لاؤ  جیسے  اور لوگ ایمان لائے (ف ۱۷) تو کہیں کیا ہم احمقوں کی طرح ایمان لے  آئیں (ف ۱۸) سنتا ہے  وہی احمق ہیں مگر جانتے  نہیں - (ف ۱۹)

۱۶               یہاں  اَلنَّاسُ  سے یا صحابہ کرام مراد ہیں یا مومنین کیونکہ خدا شناسی، فرمانبرداری و عاقبت اندیشی کی بدولت وہی انسان کہلانے کے مستحق ہیں۔

مسئلہ :  اٰمِنُوْا کَمَا اٰمَنَ  سے ثابت ہوا کہ صالحین کا اِتبّاع محمود و مطلوب ہے۔

 مسئلہ : یہ بھی ثابت ہوا کہ مذہبِ اہلِ سنّت حق ہے کیونکہ اس میں صالحین کا اِتّباع ہے۔

مسئلہ : باقی تمام فرقے صالحین سے مُنحَرِف ہیں لہذا گمراہ ہیں۔

مسئلہ : بعض عُلَماء نے اس آیت کو زندیق کی توبہ مقبول ہونے کی دلیل قرار دیا ہے۔ (بیضاوی) زندیق وہ ہے جو نبوّت کا مُقِرّ ہو، شعائرِ اسلام کا اظہار کرے اور باطن میں ایسے عقیدے رکھے جو بالاتفاق کُفر ہوں، یہ بھی منافقوں میں داخل ہے۔

۱۸               اس سے معلوم ہوا کہ صالحین کو بُرا کہنا اہلِ باطل کا قدیم طریقہ ہے، آج کل کے باطل فرقے بھی پچھلے بزرگوں کو بُرا کہتے ہیں، روافض خلفائے راشدین اور بہت صحابہ کو خوارج، حضرت علی مرتضیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اور ان کے رُفقاء کو، غیر مقلِّد ائمۂ مجتہدین بالخصوص امامِ اعظم رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ کو، وہابیہ بکثرت اولیاء و مقبولانِ بارگاہ کو، مرزائی انبیاءِ سابقین تک کو قرآنی (چکڑالی) صحابہ و محدثین کو، نیچری تمام اکابرِ دین کو برا کہتے اور زبانِ طعن دراز کرتے ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ یہ سب گمراہی میں ہیں، اس میں دیندار عالِموں کے لئے تسلّی ہے کہ وہ گمراہوں کی بد زبانیوں سے بہت رنجیدہ نہ ہوں سمجھ لیں کہ یہ اہلِ باطل کا قدیم دستور ہے۔ (مدارک)۔

۱۹               منافقین کی یہ بدزبانی مسلمانوں کے سامنے نہ تھی، ان سے تو وہ یہی کہتے تھے کہ ہم باخلاص مومن ہیں جیسا کہ اگلی آیت میں ہے  اِذَالَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْآ اٰمَنَّا  یہ تبرّا بازیاں اپنی خاص مجلسوں میں کرتے تھے، اللّٰہ تعالیٰ نے ان کا پردہ فاش کر دیا۔ (خازن) اسی طرح آج کل کے گمراہ فرقے مسلمانوں سے اپنے خیالاتِ فاسدہ کو چھپاتے ہیں مگر اللّٰہ تعالیٰ ان کی کتابوں اور تحریروں سے ان کے راز فاش کر دیتا ہے۔ اس آیت سے مسلمانوں کو خبردار کیا جاتا ہے کہ بے دینوں کی فریب کاریوں سے ہوشیار رہیں دھوکا نہ کھائیں۔

(۱۴) اور جب ایمان والوں سے  ملیں تو کہیں ہم ایمان لائے  اور جب اپنے  شیطانوں کے  پاس اکیلے  ہوں (ف ۲۰) تو کہیں ہم تمہارے  ساتھ ہیں، ہم تو یونہی ہنسی کرتے  ہیں - (ف ۲۱)

۲۰               یہاں شیاطین سے کُفّار کے وہ سردار مراد ہیں جو اغواء میں مصروف رہتے ہیں۔ (خازن و بیضاوی) یہ منافق جب ان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں اور مسلمانوں سے ملنا مَحض براہِ فریب و استہزاء اس لئے ہے کہ ان کے راز معلوم ہوں اور ان میں فساد انگیزی کے مواقع ملیں۔ (خازن)۔

۲۱               یعنی اظہارِ ایمان تمسخُر کے طور پر کیا یہ اسلام کا انکار ہوا۔

مسئلہ : انبیاء علیہم السلام اور دین کے ساتھ استہزاء و تمسخُر کُفر ہے۔ شانِ نُزول : یہ آیت عبداللّٰہ بن اُبَیْ وغیرہ منافقین کے حق میں نازل ہوئی ایک روز انہوں نے صحابۂ کرام کی ایک جماعت کو آتے دیکھا تو اِبْنِ اُبَی نے اپنے یاروں سے کہا دیکھو تو میں انہیں کیسا بناتا ہوں جب وہ حضرات قریب پہنچے تو اِبْنِ اُبَی نے پہلے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا دستِ مبارک اپنے ہاتھ میں لے کر آپ کی تعریف کی پھر اسی طرح حضرت عمر اور حضرت علی کی تعریف کی (رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم) حضرت علی مرتضیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اے اِبْنِ اُبَی خدا سے ڈر، نفاق سے باز آ کیونکہ منافقین بدترین خَلق ہیں، اس پر وہ کہنے لگا کہ یہ باتیں نفاق سے نہیں کی گئیں بخدا ہم آپ کی طرح مومنِ صادق ہیں، جب یہ حضرات تشریف لے گئے تو آپ اپنے یاروں میں اپنی چالبازی پر فخر کرنے لگا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ منافقین مؤمنین سے ملتے وقت اظہارِ ایمان و اخلاص کرتے ہیں اور ان سے علیحدہ ہو کر اپنی خاص مجلسوں میں ان کی ہنسی اڑاتے اور استہزاء کرتے ہیں۔ (اخرجہ الثعلبی و الواحدی و ضعفہ ابن حجر و السیوطی فی لباب النقول)

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام و پیشوایانِ دین کا تمسخُر اُڑانا کُفر ہے۔

(۱۵) اللہ ان سے  استہزاء فرماتا ہے  (ف ۲۲) ( جیسا کہ اس کی شان کے  لائق ہے ) اور انہیں ڈھیل دیتا ہے  کہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے  رہیں۔

۲۲               اللّٰہ تعالیٰ استہزاء اور تمام نقائص و عیوب سے منزّہ و پاک ہے۔ یہاں جزاءِ استہزاء کو استہزاء فر مایا گیا تاکہ خوب دلنشین ہو جائے کہ یہ سزا اس ناکردنی فعل کی ہے، ایسے موقع پر جزاء کو اسی فعل سے تعبیر کرنا آئینِ فصاحت ہے جیسے جَزَاءُ سَیِّئَۃ سَیِّئَۃ میں کمالِ حُسنِ بیان یہ ہے کہ اس جملہ کو جملۂ سابقہ پر معطوف نہ فرمایا کیونکہ وہاں استہزاء حقیقی معنی میں تھا۔

(۱۶) یہ لوگ جنہوں نے  ہدایت کے  بدلے  گمراہی خریدی (ف ۲۳) تو ان کا سودا کچھ نفع نہ لایا اور وہ  سودے  کی راہ  جانتے  ہی نہ تھے  -(ف ۲۴)

۲۳               ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنا یعنی بجائے ایمان کے کُفر اختیار کرنا نہایت خسارہ اور ٹَوٹے کی بات ہے شانِ نُزول : یہ آیت یا ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی جو ایمان لانے کے بعد کافِر ہو گئے یا یہود کے حق میں جو پہلے سے تو حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان رکھتے تھے مگر جب حضور کی تشریف آوری ہوئی تو منکِر ہو گئے یا تمام کُفّار کے حق میں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں فِطرتِ سلیمہ عطا فرمائی، حق کے دلائل واضح کئے، ہدایت کی راہیں کھولیں لیکن انہوں نے عقل و انصاف سے کام نہ لیا اور گمراہی اختیار کی۔

 مسئلہ : اس آیت سے بیع تعاطی کا جواز ثابت ہوا یعنی خرید و فروخت کے الفاظ کہے بغیر مَحض رضا مندی سے ایک چیز کے بدلے دوسری چیز لینا جائز ہے۔

۲۴               کیونکہ اگر تجارت کا طریقہ جانتے تو اصل پونجی (ہدایت) نہ کھو بیٹھتے۔

(۱۷) ان کی کہاوت اس طرح ہے  جس نے  آگ روشن کی۔ تو جب اس سے  آس پاس سب جگمگا اٹھا اللہ ان کا نور لے  گیا اور انہیں اندھیریوں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں سوجھتا -(ف ۲۵)

۲۵               یہ ان کی مثال ہے جنہیں اللّٰہ تعالیٰ نے کچھ ہدایت دی یا اس پر قدرت بخشی پھر انہوں نے اس کو ضائع کر دیا اور ابدی دولت کو حاصل نہ کیا ان کا مال حسرت و افسوس اور حیرت و خوف ہے۔ اس میں وہ منافق بھی داخل ہیں جنہوں نے اظہارِ ایمان کیا اور دل میں کُفر رکھ کر اقرار کی روشنی کو ضائع کر دیا اور وہ بھی جو مؤمن ہونے کے بعد مرتد ہو گئے اور وہ بھی جنہیں فِطرتِ سلیمہ عطا ہوئی اور دلائل کی روشنی نے حق کو واضح کیا مگر انہوں نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا اور گمراہی اختیار کی اور جب حق سننے، ماننے، کہنے، راہِ حق دیکھنے سے محروم ہوئے تو کان، زبان، آنکھ سب بے کار ہیں۔

(۱۸) بہرے، گونگے،اندھے  تو وہ پھر آ نے  والے  نہیں،

 (۱۹) یا  جیسے  آسمان سے  اترتا پانی کہ ان میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک (ف  ۲۶) اپنے  کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے  ہیں، کڑک کے  سبب، موت کے  ڈر سے  (ف  ۲۷) اور اللہ کافروں کو، گھیرے  ہوئے  ہے  -(ف ۲۸)

۲۶               ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنے والوں کی یہ دوسری تمثیل ہے کہ جیسے بارش زمین کی حیات کا سبب ہوتی ہے اور اس کے ساتھ خوفناک تاریکیاں اور مُہِیب گرج اور چمک ہوتی ہے اسی طرح قرآن و اسلام قلوب کی حیات کا سبب ہیں اور ذکرِ کُفر و شرک و نفاق ظلمت کے مشابہ جیسے تاریکی رَہْرَو کو منزل تک پہنچنے سے مانع ہوتی ہے ایسے ہی کُفر و نفاق راہ یابی سے مانع ہیں اور وعیدات گرج کے اور حُجَجِ بیِّنہ چمک کے مشابہ ہیں۔ شانِ نُزول : منافقوں میں سے دو آدمی حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے مشرکین کی طرف بھاگے، راہ میں یہی بارش آئی جس کا آیت میں ذکر ہے اس میں شدت کی گرج کڑک اور چمک تھی، جب گرج ہوتی تو کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے کہ کہیں یہ کانوں کو پھاڑ کر مار نہ ڈالے، جب چمک ہوتی چلنے لگتے، جب اندھیری ہوتی اندھے رہ جاتے، آپس میں کہنے لگے خدا خیر سے صبح کرے تو حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے ہاتھ حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے دستِ اقدس میں دیں چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اسلام پر ثابت قدم رہے۔ ان کے حال کو اللّٰہ تعالیٰ نے منافقین کے لئے مثل (کہاوت) بنایا جو مجلس شریف میں حاضر ہوتے تو کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے کہ کہیں حضور کا کلام ان میں اثر نہ کر جائے جس سے مر ہی جائیں اور جب ان کے مال و اولاد زیادہ ہوتے اور فتوح و غنیمت ملتی تو بجلی کی چمک والوں کی طرح چلتے اور کہتے کہ اب تو دینِ محمّدی سچا ہے اور جب مال و اولاد ہلاک ہوتے اور کوئی بلا آتی تو بارش کی اندھیریوں میں ٹھٹک رہنے والوں کی طرح کہتے کہ یہ مصیبتیں اسی دین کی وجہ سے ہیں اور اسلام سے پلٹ جاتے۔ (لباب النقول للسیوطی)۔

۲۷               جیسے اندھیری رات میں کالی گھٹا چھائی ہو اور بجلی کی گرج و چمک جنگل میں مسافر کو حیران کرتی ہو اور وہ کڑک کی وحشت ناک آواز سے باندیشۂ ہلاکت کانوں میں انگلیاں ٹھونستا ہو، ایسے ہی کُفّار قرآنِ پاک کے سننے سے کان بند کرتے ہیں اور انہیں یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں اس کے دلنشین مضامین اسلام و ایمان کی طرف مائل کر کے باپ دادا کا کُفری دین ترک نہ کرا دیں جو ان کے نزدیک موت کے برابر ہے۔

۲۸               لہذا یہ گریز انہیں کچھ فائدہ نہیں دے سکتی کیونکہ وہ کانوں میں انگلیاں ٹھونس کر قہرِ الٰہی سے خلاص نہیں پا سکتے۔

(۲۰) بجلی یوں معلوم ہوتی ہے  کہ ان کی نگاہیں اچک لے  جائے  گی (ف ۲۹) جب کچھ چمک ہوئی اس میں چلنے  لگے (ف  ۳۰) اور جب اندھیرا ہوا کھڑے  رہ گئے   اور اللہ چاہتا تو ان کے  کان اور آنکھیں لے  جاتا (ف ۳۱) بیشک اللہ سب کچھ کر سکتا ہے  -(ف ۳۲)

۲۹               ایسے بجلی کی چمک، معلوم ہوتا ہے کہ بینائی کو زائل کر دے گی ایسے ہی دلائلِ باہرہ کے انوار ان کی بصر و بصیرت کو خیرہ کرتے ہیں۔

۳۰               جس طرح اندھیری رات اور ابر و بارش کی تاریکیوں میں مسافر مُتحیَّر ہوتا ہے، جب بجلی چمکتی ہے تو کچھ چل لیتا ہے جب اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑا رہ جاتا ہے اسی طرح اسلام کے غلبہ اور معجزات کی روشنی اور آرام کے وقت منافق اسلام کی طرف راغب ہوتے ہیں اور جب کوئی مشقت پیش آتی ہے تو کُفر کی تاریکی میں کھڑے رہ جاتے ہیں اور اسلام سے ہٹنے لگتے ہیں، اسی مضمون کو دوسری آیت میں اس طرح ارشاد فرمایا  اِذَا دُعُوْآ اِلیَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ لِیَحْکُمَ بَیْنَھُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ مُّعْرِضُوْنَ وَ اِنْ یَّکُنْ لَّھُمُ الْحَقُّ یَاْتُوْا اِلَیْہِ مُذْعِنِیْنَ۔ (خازن صاوی وغیرہ)۔

۳۱               یعنی اگرچہ منافقین کا طرزِ عمل اس کا مقتضی تھا مگر اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے سمع و بصر کو باطل نہ کیا۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ اسباب کی تاثیر مشیت الٰہیہ کے ساتھ مشروط ہے بغیر مشیت تنہا اسباب کچھ نہیں کر سکتے۔

مسئلہ : یہ بھی معلوم ہوا کہ مشیت اسباب کی محتاج نہیں، وہ بے سبب جو چاہے کر سکتا ہے۔

۳۲               شئی اسی کو کہتے ہیں جسے اللّٰہ چاہے اور جو تحتِ مشیت آ سکے، تمام ممکنات شئی میں داخل ہیں اس لئے وہ تحتِ قدرت ہیں اور جو ممکن نہیں واجب یا ممتنع ہے اس سے قدرت و ارادہ متعلق نہیں ہوتا جیسے اللّٰہ تعالیٰ کی ذات و صفات واجب ہیں اس لئے مقدور نہیں۔

مسئلہ : باری تعالیٰ کے لئے جھوٹ اور تمام عیوب محال ہیں اسی لئے قدرت کو ان سے کچھ واسطہ نہیں۔

(۲۱) اے  لوگو! (ف ۳۳) اپنے  رب کو پوجو جس نے  تمہیں اور تم سے  اگلوں کو پیدا کیا، یہ امید کرتے  ہوئے، کہ تمہیں پرہیز  گاری ملے  -(ف ۳۴)

۳۳               اوّل سورہ میں کچھ بتایا گیا کہ یہ کتاب متَّقین کی ہدایت کے لئے نازل ہوئی پھر متَّقین کے اوصاف کا ذکر فرمایا، اس کے بعد اس سے منحرف ہونے والے فرقوں کا اور ان کے حوال کا ذکر فرمایا کہ سعادت مند انسان ہدایت و تقویٰ کی طرف راغب ہو اور نافرمانی و بغاوت سے بچے، اب طریقِ تحصیلِ تقویٰ تعلیم فرمایا جاتا ہے۔  یٰاَ یُّھَا النَّاسُ کا خِطاب اکثر اہلِ مکّہ کو اور  یٰاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا  کا اہلِ مدینہ کو ہوتا ہے مگر یہاں یہ خِطاب مومن کافِر سب کو عام ہے، اس میں اشارہ ہے کہ انسانی شرافت اسی میں ہے کہ آدمی تقویٰ حاصل کرے اور مصروفِ عبادت رہے۔ عبادت و ہ غایت تعظیم ہے جو بندہ اپنی عبدیت اور معبود کی اُلُوہیت کے اعتقاد و اعتراف کے ساتھ بجا لائے۔ یہاں عبادت عام ہے اپنے تمام انواع و اقسام و اصول و فروع کو شامل ہے۔

مسئلہ : کُفّار عبادت کے مامور ہیں جس طرح بے وضو ہونا نماز کے فرض ہونے کا مانع نہیں اسی طرح کافِر ہونا وجوبِ عبادت کو منع نہیں کرتا اور جیسے بے وضو شخص پر نماز کی فرضیت رفعِ حدث لازم کرتی ہے ایسے ہی کافِر پر کہ وجوبِ عبادت سے ترکِ کُفر لازم آتا ہے۔

۳۴               اس سے معلوم ہوا کہ عبادت کا فائدہ عابد ہی کو ملتا ہے، اللّٰہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کو عبادت یا اور کسی چیز سے نفع حاصل ہو۔

(۲۲) جس نے  تمہارے  لئے  زمین کو بچھونا اور آسمان کو عمارت بنایا اور آسمان سے  پانی اتارا (ف ۳۵) تو اس سے  کچھ پھل نکالے  تمہارے  کھانے  کو۔ تو اللہ کے  لئے  جان بوجھ کر برابر والے  نہ ٹھہراؤ (ف ۳۶)

۳۵               پہلی آیت میں نعمتِ ایجاد کا بیان فرمایا کہ تمہیں اور تمہارے آباء کو معدوم سے موجود کیا اور دوسری آیت میں اسبابِ معیشت و آسائش و آب و غذا کا بیان فرما کر ظاہر کر دیا کہ وہی ولیِ نعمت ہے تو غیر کی پرستش مَحض باطل ہے۔

۳۶               توحیدِ الٰہی کے بعد حضور سیدِ انبیاء صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کی نبوّت اور قرآنِ کریم کے کتابِ الٰہی و مُعجز ہونے کی وہ قاہر دلیل بیان فرمائی جاتی ہے جو طالبِ صادق کو اطمینان بخشے اور منکِروں کو عاجز کر دے۔

(۲۳)  اور اگر تمہیں کچھ شک ہو اس میں جو ہم نے  اپنے  (اس خاص) بندے  (ف ۳۷) پر اتارا تو اس جیسی ایک سورت تو لے  آؤ (ف  ۳۸) اور اللہ کے  سوا، اپنے  سب حمایتیوں کو بلا لو، اگر تم سچے  ہو۔

۳۷               بندۂ خاص سے حضور پر نور سیدِ عالم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم مراد ہیں۔

۳۸               یعنی ایسی سورت بنا کر لاؤ جو فصاحت و بلاغت اور حسنِ نظم و ترتیب اور غیب کی خبریں دینے میں قرآنِ پاک کی مثل ہو۔

  (۲۴) پھر اگر نہ لا سکو اور ہم فرمائے  دیتے  ہیں کہ ہر گز نہ لا سکو گے  تو ڈرو اس آگ سے، جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں (ف  ۳۹) تیار رکھی ہے  کافروں کے  لئے  -(ف ۴۰)

۳۹               پتّھر سے وہ بُت مراد ہیں جنہیں کُفّار پُوجتے ہیں اور ان کی مَحبت میں قرآنِ پاک اور رسولِ کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کا عناداً انکار کرتے ہیں۔

۴۰               مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ دوزخ پیدا ہو چکی ہے۔

مسئلہ : یہ بھی اشارہ ہے کہ مومنین کے لئے بکرمہٖ تعالیٰ خلودِ نار یعنی ہمیشہ جہنّم میں رہنا نہیں۔

(۲۵) اور خوشخبری دے، انہیں جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کئے، کہ ان کے  لئے  باغ ہیں، جن کے  نیچے  نہریں رواں (ف ۴۱) جب انہیں ان باغوں سے  کوئی پھل کھانے  کو دیا جائے  گا، (صورت دیکھ کر) کہیں گے، یہ تو وہی رزق ہے  جو ہمیں پہلے  ملا تھا (ف ۴۲) اور وہ (صورت میں) ملتا جلتا انہیں دیا گیا اور ان کے  لئے  ان باغوں میں ستھری بیبیاں ہیں (ف ۴۳) اور وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے  -(ف ۴۴)

۴۱               سنّتِ الٰہی ہے کہ کتاب میں ترہیب کے ساتھ ترغیب ذکر فرماتا ہے اسی لئے کُفّار اور ان کے اعمال و عذاب کے ذکر کے بعد مومنین اور ان کے اعمال کا ذکر فرمایا اور انہیں جنّت کی بشارت دی۔ صالحات یعنی نیکیاں وہ عمل ہیں جو شرعاً اچھے ہوں ان میں فرائض و نوافل سب داخل ہیں۔ (جلالین)

مسئلہ : عملِ صالح کا ایمان پر عطف دلیل ہے اس کی کہ عمل جزوِ ایمان نہیں۔

مسئلہ : یہ بشارت مومنینِ صالحین کے لئے بلا قید ہے اور گنہگاروں کو جو بشارت دی گئی ہے وہ مقیّد بمشیتِ الٰہی ہے کہ چاہے از راہِ کرم معاف فرمائے چاہے گناہوں کی سزا دے کر جنّت عطا کرے۔ (مدارک)

۴۲               جنّت کے پھل باہم مشابہ ہوں گے اور ذائقے ان کے جُدا جُدا اس لئے جنّتی کہیں گے کہ یہی پھل تو ہمیں پہلے مل چکا ہے مگر کھانے سے نئی لذت پائیں گے تو ان کا لطف بہت زیادہ ہو جائے گا۔

۴۳               جنّتی بیبیاں خواہ حوریں ہوں یا اور، سب زنانے عوارض اور تمام نا پاکیوں اور گندگیوں سے مبرا ہوں گی، نہ جسم پر میل ہو گا نہ بول و براز، اس کے ساتھ ہی وہ بد مزاجی و بد خُلقی سے بھی پاک ہوں گی۔ (مدارک و خازن)

۴۴               یعنی اہلِ جنّت نہ کبھی فنا ہوں گے نہ جنّت سے نکالے جائیں گے۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ جنّت و اہلِ جنّت کے لئے فنا نہیں۔

(۲۶) بیشک اللہ اس سے  حیا نہیں فرماتا کہ مثال سمجھانے  کو کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے  مچھر ہو یا اس سے  بڑھ کر (ف ۴۵) تو وہ جو ایمان لائے، وہ تو جانتے  ہیں کہ یہ ان کے  رب کی طرف سے  حق ہے  (ف ۴۶) رہے  کافر، وہ کہتے  ہیں ایسی کہاوت میں اللہ کا کیا مقصُود  ہے، اللہ بہتیروں کو اس سے  گمراہ کرتا ہے  (ف ۴۷) اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے  اور اس سے  انہیں گمراہ کرتا ہے  جو بے  حکم ہیں -(ف  ۴۸)

۴۵               شانِ نُزول : جب اللّٰہ تعالیٰ نے آیہ  مَثَلُھُمْ کَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ  اور آیہ  اَوْکَصَیِّبٍ  میں منافقوں کی دو مثالیں بیان فرمائیں تو منافقوں نے یہ اعتراض کیا کہ اللّٰہ تعالیٰ اس سے بالاتر ہے کہ ایسی مثالیں بیان فرمائے۔ اس کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی۔

۴۶               چونکہ مثالوں کا بیان مقتضائے حکمت اور مضمون کو دل نشین کرنے والا ہوتا ہے اور فُصَحائے عرب کا دستور ہے اس لئے اس پر اعتراض غلط و بیجا ہے اور بیانِ امثلہ حق ہے۔

۴۷               یُضِلُّ بِہٖ  کُفّار کے اس مقولہ کا جواب ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کا اس مثل سے کیا مقصود ہے اور  اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْ  اور  اَمَّا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا  جو دو جملے اوپر ارشاد ہوئے ان کی تفسیر ہے کہ اس مثل سے بہتوں کو گمراہ کرتا ہے جن کی عقلوں پر جَہل نے غلبہ کیا ہے اور جن کی عادت مکابرہ و عناد ہے اور جو امرِ حق اور کھلی حکمت کے انکار و مخالفت کے خوگر ہیں اور باوجود یکہ یہ مثل نہایت ہی برمَحل ہے پھر بھی انکار کرتے ہیں اور اس سے اللّٰہ تعالیٰ بہتوں کو ہدایت فرماتا ہے جو غور و تحقیق کے عادی ہیں اور انصاف کے خلاف بات نہیں کہتے وہ جانتے ہیں کہ حکمت یہی ہے کہ عظیمُ  المرتبہ چیز کی تمثیل کسی قدر والی چیز سے اور حقیر چیز کی ادنیٰ شے سے دی جائے جیسا کہ اوپر کی آیت میں حق کی نور سے اور باطل کی ظلمت سے تمثیل دی گئی۔

۴۸               شرع میں فاسق اس نافرمان کو کہتے ہیں جو کبیرہ کا مرتکب ہو۔ فسق کے تین درجے ہیں ایک تغابی وہ یہ کہ آدمی اتفاقیہ کسی کبیرہ کا مرتکب ہو اور اس کو برا ہی جانتا رہا، دوسرا انہماک کہ کبیرہ کا عادی ہو گیا اور اس سے بچنے کی پروا نہ رہی، تیسرا حجود کہ حرام کو اچھا جان کر ارتکاب کرے اس درجہ والا ایمان سے محروم ہو جاتا ہے۔ پہلے دو درجوں میں جب تک اکبر کبائر (شرک و کفر) کا ارتکاب نہ کرے اس پر مومن کا اطلاق ہوتا ہے۔ یہاں فاسقین سے وہی نافرمان مراد ہیں جو ایمان سے خارج ہو گئے قرآن کریم میں کفار پر بھی فاسق کا اطلاق ہوا ہے  اِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَ  بعض مفسرین نے یہاں فاسق سے کافر مراد لئے بعض نے منافق بعض نے یہود۔

(۲۷) وہ جو اللہ کے  عہد کو توڑ دیتے  ہیں (ف ۴۹) پکا ہونے  کے  بعد، اور کاٹتے  ہیں اس چیز کو جس کے  جوڑنے  کا خدا نے  حکم دیا ہے  اور  زمین میں فساد پھیلاتے   ہیں (ف ۵۰) وہی نقصان میں ہیں۔

(۲۸) بھلا تم کیونکر خدا کے  منکر ہو گے، حالانکہ تم مردہ تھے  اس نے  تمہیں جِلایا پھر تمہیں مارے  گا پھر تمہیں جِلائے  گا پھر اسی کی طرف پلٹ کر جاؤ گے  -(ف ۵۰-الف)  

۴۹               اس سے وہ عہد مراد ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے کتب سابقہ میں حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و سلم پر ایمان لانے کی نسبت فرمایا ایک قول یہ ہے کہ عہد تین ہیں۔ پہلا عہد وہ جو اللّٰہ تعالیٰ نے تمام اولاد آدم سے لیا کہ اس کی ربوبیت کا اقرار کریں اس کا بیان اس آیت میں ہے  وَاِذْ اَخَذَرَبُّکَ مِنْم بَنِیْ اٰدَمَ الایۃ  دوسرا عہد انبیاء کے ساتھ مخصوص ہے کہ رسالت کی تبلیغ فرمائیں اور دین کی اقامت کریں اس کا بیان آیہ  وَاِذْ اَخَذَ مِنَ النَّبِیٖنَ مِیْثَاقَھُم  میں ہے۔ تیسرا عہد علماء کے ساتھ خاص ہے کہ حق کو نہ چھپائیں اس کا بیان  وَاِذاَخَذَ اللّٰہ ُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتابَ  میں ہے۔

۵۰               رشتہ و قرابت کے تعلقات مسلمانوں کی دوستی و محبت تمام انبیاء کا ماننا کتبِ الٰہی کی تصدیق حق پر جمع ہونا یہ وہ چیزیں ہیں جن کے ملانے کا حکم فرمایا گیا ان میں قطع کرنا بعض کو بعض سے ناحق جدا کرنا تفرقوں کی بنا ڈالنا ممنوع فرمایا گیا۔

(الف) دلائل توحید و نبوت اور جزائے کفر و ایمان کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی عام و خاص نعمتوں کا اور آثار قدرت و عجائب و حکمت کا ذکر فرمایا اور قباحت کفر دلنشین کرنے کے لئے کفار کو خطاب فرمایا کہ تم کس طرح خدا کے منکر ہوتے ہو باوجود یہ کہ تمہارا اپنا حال اس پر ایمان لانے کا مقتضی ہے کہ تم مردہ تھے مردہ سے جسم بے جان مراد ہے ہمارے عرف میں بھی بولتے ہیں زمین مردہ ہو گئی عربی میں بھی موت اس معنی میں آئی خود قرآن پاک میں ارشاد ہوا  یُحْیِی الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا  تو مطلب یہ ہے کہ تم بیجان جسم تھے عنصر کی صورت میں پھر غذا کی شکل میں پھر اخلاط کی شان میں پھر نطفہ کی حالت میں اس نے تم کو جان دی زندہ فرمایا پھر عمر کی معیار پوری ہونے پر تمہیں موت دے گا پھر تمہیں زندہ کرے گا اس سے یا قبر کی زندگی مراد ہے جو سوال کے لئے ہو گی یا حشر کی پھر تم حساب و جزا کے لئے اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے اپنے اس حال کو جان کر تمہارا کفر کرنا نہایت عجیب ہے، ایک قول مفسرین کا یہ بھی ہے کہ  کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ  کا خطاب مؤمنین سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ تم کس طرح کافر ہو سکتے ہو در آنحالیکہ تم جہل کی موت سے مردہ تھے اللّٰہ تعالیٰ نے تمہیں علم و ایمان کی زندگی عطا فرمائی اس کے بعد تمہارے لئے وہی موت ہے جو عمر گزرنے کے بعد سب کو آیا کرتی ہے اس کے بعد وہ تمہیں حقیقی دائمی حیات عطا فرمائے گا پھر تم اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وہ تمہیں ایسا ثواب دے گا جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا نہ کسی دل پر اس کا خطرہ گزرا۔

(۲۹) وہی ہے  جس نے  تمہارے  لئے  بنایا جو کچھ زمین میں ہے۔ (ف ۵۱) پھر آسمان کی طرف استوا (قصد) فرمایا تو ٹھیک سات آسمان بنائے  وہ سب کچھ جانتا ہے  -(ف ۵۲)

۵۱               یعنی کانیں سبزے جانور دریا پہاڑ جو کچھ زمین میں ہے سب اللّٰہ تعالیٰ نے تمہارے دینی و دنیوی نفع کے لئے بنائے دینی نفع اس طرح کہ زمین کے عجائبات دیکھ کر تمہیں اللّٰہ تعالیٰ کی حکمت و قدرت کی معرفت ہو اور دنیوی منافع یہ کہ کھاؤ پیو آرام کرو اپنے کاموں میں لاؤ تو ان نعمتوں کے باوجود تم کس طرح کفر کرو گے مسئلہ کرخی و ابوبکر رازی وغیرہ نے خلق لکم کو قابل انتفاع اشیاء کے مباح الاصل ہونے کی دلیل قرار دیا ہے۔

۵۲               یعنی یہ خلقت و ایجاد اللّٰہ تعالیٰ کے عالم جمیع اشیاء ہونے کی دلیل ہے کیونکہ ایسی پر حکمت مخلوق کا پیدا کرنا بغیر علم محیط کے ممکن و متصور نہیں مرنے کے بعد زندہ ہونا کافر محال جانتے تھے ان آیتوں میں ان کے بطلان پر قوی برہان قائم فرما دی کہ جب اللّٰہ تعالیٰ قادر ہے علیم ہے اور ابدان کے مادے جمع و حیات کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں تو موت کے بعد حیات کیسے محال ہو سکتی ہے پیدائش آسمان و زمین کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے آسمان میں فرشتوں کو اور زمین میں جنات کو سکونت دی جنات نے فساد انگیزی کی تو ملائکہ کی ایک جماعت بھیجی جس نے انہیں پہاڑوں اور جزیروں میں نکال بھگایا۔

(۳۰) اور یاد کرو جب تمہارے  رب نے  فرشتوں سے  فرمایا، میں زمین میں اپنا نائب بنانے  والا ہوں (ف ۵۳) بولے  کیا ایسے  کو نائب کرے  گا جو اس میں فساد پھیلائے  گا اور خونریزیاں کرے  گا (ف ۵۴) اور ہم تجھے  سراہتے  ہوئے، تیری تسبیح کرتے  اور تیری پاکی بولتے  ہیں، فرمایا مجھے  معلوم ہے  جو تم نہیں جانتے -(ف ۵۵)

۵۳               خلیفہ احکام و اوامر کے اجراء و دیگر تصرفات میں اصل کا نائب ہوتا ہے یہاں خلیفہ سے حضرت آدم علیہ السلام مراد ہیں اگرچہ اور تمام انبیاء بھی اللّٰہ تعالیٰ کے خلیفہ ہیں حضرت داؤد علیہ السلام کے حق میں فرمایا  یَا دَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ  فرشتوں کو خلافت آدم کی خبر اس لئے دی گئی کہ وہ ان کے خلیفہ بنائے جانے کی حکمت دریافت کر کے معلوم کر لیں اور ان پر خلیفہ کی عظمت و شان ظاہر ہو کہ اُن کو پیدائش سے قبل ہی خلیفہ کا لقب عطا ہوا اور آسمان والوں کو ان کی پیدائش کی بشارت دی گئی

مسئلہ : اس میں بندوں کو تعلیم ہے کہ وہ کام سے پہلے مشورہ کیا کریں اور اللّٰہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کو مشورہ کی حاجت ہو۔

۵۴               ملائکہ کا مقصد اعتراض یا حضرت آدم پر طعن نہیں بلکہ حکمت خلافت دریافت کرنا ہے اور انسانوں کی طرف فساد انگیزی کی نسبت کرنا اس کا علم یا انہیں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہو یا لوح محفوظ سے حاصل ہوا ہو یا خود انہوں نے جنات پر قیاس کیا ہو۔

۵۵               یعنی میری حکمتیں تم پر ظاہر نہیں بات یہ ہے کہ انسانوں میں انبیاء بھی ہوں گے اولیاء بھی علماء بھی اور وہ علمی و عملی دونوں فضیلتوں کے جامع ہوں گے۔

(۳۱) اور اللہ تعا لیٰ نے  آدم کو تمام (اشیاء کے ) نام سکھائے  (ف ۵۶) پھر سب (اشیاء) کو ملائکہ پر پیش کر کے  فرمایا سچے  ہو تو ان کے  نام تو بتاؤ (ف ۵۷)

۵۶               اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام پر تمام اشیاء و جملہ مسمیات پیش فرما کر آپ کو ان کے اسماء و صفات و افعال و خواص و اصول علوم و صناعات سب کا علم بطریق الہام عطا فرمایا۔

۵۷               یعنی اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو کہ میں کوئی مخلوق تم سے زیادہ عالم پیدا نہ کروں گا اور خلافت کے تم ہی مستحق ہو تو ان چیزوں کے نام بتاؤ کیونکہ خلیفہ کا کام تصرف و تدبیر اور عدل و انصاف ہے اور یہ بغیر اس کے ممکن نہیں کہ خلیفہ کو ان تمام چیزوں کا علم ہو جن پر اس کو متصرف فرمایا گیا اور جن کا اس کو فیصلہ کرنا ہے۔

مسئلہ : اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے ملائکہ پر افضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا اس سے ثابت ہوا کہ علمِ اسماء خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے

مسئلہ: اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ انبیاء علیہم السلام ملائکہ سے افضل ہیں۔

(۳۲) بولے  پاکی ہے  تجھے  ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے  ہمیں سکھایا بے  شک تو ہی علم و حکمت والا ہے  -(ف ۵۸)

۵۸               اس میں ملائکہ کی طرف سے اپنے عجز و قصور کا اعتراف اور اس امر کا اظہار ہے کہ اُن کا سوال استفساراً تھا۔ نہ کہ اعتراضاً اور اب انہیں انسان کی فضیلت اور اُس کی پیدائش کی حکمت معلوم ہو گئی جس کو وہ پہلے نہ جانتے تھے۔

(۳۳) فرمایا  اے  آدم بتا دے  انہیں سب (اشیاء کے ) نام جب اس نے  (یعنی آدم نے ) انہیں سب کے  نام بتا دیئے  (ف ۵۹) فرمایا میں نہ کہتا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے  اور جو کچھ تم چھپاتے  ہو -(ف ۶۰)

۵۹               یعنی حضرت آدم علیہ السلام نے ہر چیز کا نام اور اس کی پیدائش کی حکمت بتا دی۔

۶۰               ملائکہ نے جو بات ظاہر کی تھی وہ یہ تھی کہ انسان فساد انگیزی و خوں ریزی کرے گا اور وجوہات چھپائی تھی وہ یہ تھی کہ مستحق خلافت وہ خود ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ ان سے افضل و اعلم کوئی مخلوق پیدا نہ فرمائے گا مسئلہ اس آیت سے انسان کی شرافت اور علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور یہ بھی کہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف تعلیم کی نسبت کرنا صحیح ہے اگرچہ اس کو معلم نہ کہا جائے گا، کیونکہ معلم پیشہ ور تعلیم دینے والے کو کہتے ہیں

مسئلہ : اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جملہ لغات اور کل زبانیں اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔

مسئلہ : یہ بھی ثابت ہوا کہ ملائکہ کے علوم و کمالات میں زیادتی ہوتی ہے۔

(۳۴) اور (یاد کرو) جب ہم نے  فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کو تو سب نے  سجدہ کیا سوائے  ابلیس کے  کہ منکر ہوا  اور غرور کیا اور کافر ہو گیا- (ف ۶۱)

۶۱               اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تمام موجودات کا نمونہ اور عالم روحانی و جسمانی کا مجموعہ بنایا اور ملائکہ کے لئے حصول کمالات کا وسیلہ کیا تو انہیں حکم فرمایا کہ حضرت آدم کو سجدہ کریں کیونکہ اس میں شکر گزاری اور حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کے اعتراف اور اپنے مقولہ کی معذرت کی شان پائی جاتی ہے بعض مفسِّرین کا قول ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کرنے سے پہلے ہی ملائکہ کو سجدہ کا حکم دیا تھا ان کی سند یہ آیت ہے  فَاِذَا اسَوَّیْتُہ، وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہ، سَاجِدِینَ (بیضاوی) سجدہ کا حکم تمام ملائکہ کو دیا گیا تھا یہی اصح ہے۔(خازن)

مسئلہ : سجدہ دو طرح کا ہوتا ہے ایک سجدۂ عبادت جو بقصد پرستش کیا جاتا ہے دوسرا سجدۂ تحیت جس سے مسجود کی تعظیم منظور ہوتی ہے نہ کہ عبادت۔

مسئلہ : سجدۂ عبادت اللّٰہ تعالیٰ کے لئے خاص ہے کسی اور کے لئے نہیں ہو سکتا نہ کسی شریعت میں کبھی جائز ہوا یہاں جو مفسرین سجدۂ عبادت مراد لیتے وہ فرماتے ہیں کہ سجدہ خاص اللّٰہ تعالیٰ کے لئے تھا۔اور حضرت آدم علیہ السلام قبلہ بنائے گئے تھے تو وہ مسجود الیہ تھے نہ کہ مسجودلہ، مگر یہ قول ضعیف ہے کیونکہ اس سجدہ سے حضرت آدم علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کا فضل و شرف ظاہر فرمانا مقصود تھا اور مسجود الیہ کا ساجد سے افضل ہونا کچھ ضرور نہیں جیسا کہ کعبہ معظمہ حضور سید انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کا قبلہ و مسجود الیہ ہے باوجودیکہ حضور اس سے افضل ہیں دوسرا قول یہ ہے کہ یہاں سجدۂ عبادت نہ تھا سجدۂ تحیت تھا اور خاص حضرت آدم علیہ السلام کے لئے تھا زمین پر پیشانی رکھ کر تھا نہ کہ صرف جھکنا یہی قول صحیح ہے اور اسی پر جمہور ہیں۔(مدارک) مسئلہ سجدۂ تحیت پہلی شریعتوں میں جائز تھا ہماری شریعت میں منسوخ کیا گیا اب کسی کے لئے جائز نہیں ہے کیونکہ جب حضرت سلیمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو سجدہ کرنے کا ارادہ کیا تو حضور نے فرمایا کہ مخلوق کو نہ چاہئے کہ اللّٰہ کے سوا کسی کو سجدہ کرے۔ (مدارک) ملائکہ میں سب سے پہلا سجدہ کرنے والے حضرت جبریل ہیں پھر میکائیل پھر اسرافیل پھر عزرائیل پھر اور ملائکہ مقربین یہ سجدہ جمعہ کے روز وقتِ زوال سے عصر تک کیا گیا۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ملائکہ مقربین سو برس اور ایک قول میں پانچ سو برس سجدہ میں رہے شیطان نے سجدہ نہ کیا اور براہ تکبر یہ اعتقاد کرتا رہا کہ وہ حضرت آدم سے افضل ہے اس کے لئے سجدہ کا حکم معاذ اللّٰہ تعالیٰ خلاف حکمت ہے اس اعتقاد باطل سے وہ کافر ہو گیا۔

مسئلہ : آیت میں دلالت ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام فرشتوں سے افضل ہیں کہ ان سے انہیں سجدہ کرایا گیا۔

مسئلہ : تکبر نہایت قبیح ہے اس سے کبھی متکبر کی نوبت کفر تک پہنچتی ہے۔ (بیضاوی و جمل)۔

(۳۵)  اور ہم نے  فرمایا اے  آدم تو اور تیری بیوی جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے  بے  روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے  مگر اس پیڑ کے  پاس نہ جانا (ف ۶۲) کہ حد سے  بڑھنے  والوں میں ہو جاؤ گے - (ف ۶۳)

۶۲               اس سے گندم یا انگور وغیرہ مراد ہے (جلالین)۔

۶۳               ظلم کے معنی ہیں کسی شے کو بے محل وضع کرنا یہ ممنوع ہے اور انبیاء معصوم ہیں ان سے گناہ سرزد نہیں ہوتا یہاں ظلم خلاف اولی کے معنی میں ہے۔

مسئلہ : انبیاء علیہم السلام کو ظالم کہنا اہانت و کفر ہے جو کہے وہ کافر ہو جائے گا اللّٰہ تعالیٰ مالک و مولیٰ ہے جو چاہے فرمائے اس میں ان کی عزت ہے دوسرے کی کیا مجال کہ خلاف ادب کلمہ زبان پر لائے اور خطاب حضرت حق کو اپنی جرأت کے لئے سند بنائے، ہمیں تعظیم و توقیر اور ادب و طاعت کا حکم فرمایا ہم پر یہی لازم ہے۔

(۳۶) تو شیطان نے  اس سے  (یعنی جنت سے ) انہیں لغزش دی اور جہاں رہتے  تھے  وہاں سے  انہیں الگ کر دیا (ف ۶۴) اور ہم نے  فرمایا نیچے  اترو (ف ۶۵) آپس میں ایک تمہارا دوسرے  کا دشمن اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے  -(ف ۶۶)

۶۴               شیطان نے کسی طرح حضرت آدم و حوا (علیہما السلام) کے پاس پہنچ کر کہا کہ میں تمہیں شجر خلد بتا دوں، حضرت آدم علیہ السلام نے انکار فرمایا اس نے قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں، انہیں خیال ہوا کہ اللّٰہ پاک کی جھوٹی قسم کون کھا سکتا ہے بایں خیال حضرت حوّا نے اس میں سے کچھ کھایا پھر حضرت آدم کو دیا انہوں نے بھی تناول کیا، حضرت آدم کو خیال ہوا کہ  لَاتَقْرَبَا  کی نہی تنزیہی ہے تحریمی نہیں کیونکہ اگر وہ تحریمی سمجھتے تو ہر گز ایسا نہ کرتے کہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں یہاں حضرت آدم علیہ السلام سے اجتہاد میں خطا ہوئی اور خطائے اجتہادی معصیت نہیں ہوتی۔

۶۵               حضرت آدم و حوا اور ان کی ذریت کو جوان کے صلب میں تھی جنت سے زمین پر جانے کا حکم ہوا حضرت آدم زمین ہند میں سراندیپ کے پہاڑوں پر اور حضرت حوا جدّے میں اتارے گئے۔ (خازن) حضرت آدم علیہ السلام کی برکت سے زمین کے اشجار میں پاکیزہ خوشبو پیدا ہوئی۔(روح البیان)۔

۶۶               اس سے اختتام عمر یعنی موت کا وقت مراد ہے اور حضرت آدم علیہ السلام کے لئے بشارت ہے کہ وہ دنیا میں صرف اتنی مدت کے لئے ہیں اس کے بعد پھر انہیں جنت کی طرف رجوع فرمانا ہے اور آپ کی اولاد کے لئے معاد پر دلالت ہے کہ دنیا کی زندگی معین وقت تک ہے عمر تمام ہونے کے بعد انہیں آخرت کی طرف رجوع کرنا ہے۔

(۳۷) پھر سیکھ لیے  آدم نے  اپنے  رب سے  کچھ کلمے  تو اللہ نے  اس کی توبہ قبول کی (ف ۶۷) بیشک وہی ہے  بہت توبہ قبول کرنے  والا مہربان۔

۶۷               آدم علیہ السلام نے زمین پر آنے کے بعد تین سو برس تک حیاء سے آسمان کی طرف سر نہ اٹھایا اگرچہ حضرت داؤد علیہ السلام کثیر البکاء تھے آپ کے آنسو تمام زمین والوں کے آنسوؤں سے زیادہ ہیں مگر حضرت آدم علیہ السلام اس قدر روئے کہ آپ کے آنسو حضرت داؤد علیہ السلام اور تمام اہلِ زمین کے آنسوؤں کے مجموعہ سے بڑھ گئے۔ (خازن) طبرانی و حاکم و ابو نعیم و بیہقی نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مرفوعاً روایت کی کہ جب حضرت آدم علیہ السلام پر عتاب ہوا تو آپ فکر توبہ میں حیران تھے اس پریشانی کے عالم میں یاد آیا کہ وقت پیدائش میں نے سر اٹھا کر دیکھا تھا کہ عرش پر لکھا ہے لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ میں سمجھا تھا کہ بارگاہِ الٰہی میں وہ رُتبہ کسی کو میسر نہیں جو حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو حاصل ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ان کا نام اپنے نام اقدس کے ساتھ عرش پر مکتوب فرمایا لہذا آپ نے اپنی دعا میں  رَبَّنَا ظَلَمْنَا الآیہ، کے ساتھ یہ عرض کیا  اَسْئَلُکَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ اَنْ تَغْفِرَلِیْ  ابن منذر کی روایت میں یہ کلمے ہیں۔  اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسْلَکَ بِجَاہِ محمَّدٍ عَبْدِکَ وَکَرَامَتِہٖ عَلَیْکَ اَنْ تَغفِرَلِیْ خَطِیْئَتِیْ  یعنی یارب میں تجھ سے تیرے بندۂ خاص محمد مصطفیٰ  صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے جاہ و مرتبت کے طفیل میں اور اس کرامت کے صدقہ میں جو انہیں تیرے دربار میں حاصل ہے مغفرت چاہتا ہوں یہ دعا کرنی تھی کہ حق تعالیٰ نے ان کی مغفرت فرمائی مسئلہ اس روایت سے ثابت ہے کہ مقبولان بارگاہ کے وسیلہ سے دعا بحق فلاں اور بجاہ فلاں کہہ کر مانگنا جائز اور حضرت آدم علیہ السلام کی سنت ہے

مسئلہ : اللّٰہ تعالیٰ پر کسی کا حق واجب نہیں ہوتا لیکن وہ اپنے مقبولوں کو اپنے فضل و کرم سے حق دیتا ہے اسی تفضلی حق کے وسیلہ سے دعا کی جاتی ہے صحیح احادیث سے یہ حق ثابت ہے جیسے وارد ہوا  مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہ ِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَقَامَ الصَّلوٰۃَ وَصَامَ رَمَضَانَ کَانَ حَقاً عَلیٰ اللّٰہ ِ اَنْ یُدْخِلَ الْجَنَّۃَ  حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ دسویں محرم کو قبول ہوئی جنت سے اخراج کے وقت اور نعمتوں کے ساتھ عربی زبان بھی آپ سے سلب کر لی گئی تھی بجائے اس کے زبان مبارک پر سریانی جاری کر دی گئی تھی قبول توبہ کے بعد پھر زبان عربی عطا ہوئی (فتح العزیز)

مسئلہ : توبہ کی اصل رجوع الی اللّٰہ ہے اس کے تین رکن ہیں ایک اعتراف جرم دوسرے ندامت تیسرے عزم ترک اگر گناہ قابل تلافی ہو تو اس کی تلافی بھی لازم ہے مثلاً تارک صلوۃ کی توبہ کے لئے پچھلی نمازوں کی قضا پڑھنا بھی ضروری ہے توبہ کے بعد حضرت جبرئیل نے زمین کے تمام جانوروں میں حضرت آدم علیہ السلام کی خلافت کا اعلان کیا اور سب پر ان کی فرماں برداری لازم ہونے کا حکم سنایا سب نے قبول طاعت کا اظہار کیا۔(فتح العزیز)۔

(۳۸) ہم نے  فرمایا تم سب جنت سے  اتر جاؤ پھر اگر تمہارے  پاس میری طرف سے  کوئی ہدایت آئے  تو جو میری ہدایت کا پیرو ہوا اسے  نہ کوئی اندیشہ نہ کچھ غم -(ف ۶۸)

۶۸               یہ مؤمنین صالحین کے لئے بشارت ہے کہ نہ انہیں فزع اکبر کے وقت خوف ہو نہ آخرت میں غم وہ بے غم جنت میں داخل ہوں گے۔

(۳۹) اور  وہ جو کفر کریں گے  اور  میری آیتیں جھٹلائیں گے  وہ دوزخ والے  ہیں، ان کو ہمیشہ اس میں رہنا -

 (۴۰)  اے  یعقوب کی اولاد (ف ۶۹) یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے  تم پر کیا (ف ۷۰) اور میرا عہد پورا کرو میں تمہارا عہد پورا کروں گا (ف ۷۱) اور خاص میرا ہی ڈر رکھو -(ف ۷۲)

۶۹ٍ               اسرائیل بمعنی عبداللّٰہ عبری زبان کا لفظ ہے یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب ہے۔(مدارک) کلبی مفسر نے کہا اللّٰہ تعالیٰ نے  یٰۤاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا  فرما کر پہلے تمام انسانوں کو عموماً دعوت دی پھر  اِذْ قَالَ رَبُّکَ  فرما کر ان کے مبدء کا ذکر کیا اس کے بعد خصوصیت کے ساتھ بنی اسرائیل کو دعوت دی یہ لوگ یہودی ہیں اور یہاں سے سیقول تک ان سے کلام جاری ہے کبھی بملاطفت انعام یاد دلا کر دعوت کی جاتی ہے کبھی خوف دلا یا جاتا ہے کبھی حجت قائم کی جاتی ہے۔ کبھی ان کی بد عملی پر توبیخ ہوتی ہے کبھی گزشتہ عقوبات کا ذکر کیا جاتا ہے۔

۷۰               یہ احسان کہ تمہارے آباء کو فرعون سے نجات دلائی، دریا کو پھاڑا ابر کو سائبان بنایا ان کے علاوہ اور احسانات جو آگے آتے ہیں ان سب کو یاد کرو اور یاد کرنا یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی کر کے شکر بجا لاؤ کیونکہ کسی نعمت کا شکر نہ کرنا ہی اس کا بھلانا ہے۔

۷۱               یعنی تم ایمان و اطاعت بجا لا کر میرا عہد پورا کرو میں جزاء و ثواب دے کر تمہارا عہد پورا کروں گا اس عہد کا بیان آیہ  وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰہ ُ مِیْثَاقَ بَنِیْ اِسْرَآءِ یْلَ  میں ہے۔

۷۲               مسئلہ : اس آیت میں شکر نعمت و وفاء عہد کے واجب ہونے کا بیان ہے اور یہ بھی کہ مومن کو چاہئے کہ اللّٰہ کے سوا کسی سے نہ ڈرے۔

(۴۱) اور ایمان لاؤ اس پر جو میں نے  اتارا اس کی تصدیق کرتا ہوا جو تمہارے  ساتھ ہے  اور سب سے  پہلے  اس کے  منکر نہ بنو (ف ۷۳) اور میری آیتوں کے  بدلے  تھوڑے  دام نہ لو (ف ۷۴) اور مجھی سے  ڈرو -

۷۳               یعنی قرآن پاک توریت و انجیل پر جو تمہارے ساتھ ہیں ایمان لاؤ اور اہلِ کتاب میں پہلے کافر نہ بنو کہ جو تمہارے اتباع میں کفر اختیار کرے اس کا وبال بھی تم پر ہو۔

۷۴               ان آیات سے توریت و انجیل کی وہ آیات مراد ہیں جن میں حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نعت و صفت ہے مقصد یہ ہے کہ حضور کی نعت دولت دنیا کے لئے مت چھپاؤ کہ متاع دنیا ثمن قلیل اور نعمت آخرت کے مقابل بے حقیقت ہے۔

 شانِ نُزول : یہ آیت کعب بن اشرف اور دوسرے رؤساء و علماء یہود کے حق میں نازل ہوئی جو اپنی قوم کے جاہلوں اور کمینوں سے ٹکے وصول کر لیتے اور ان پر سالانے مقرر کرتے تھے اور انہوں نے پھلوں اور نقد مالوں میں اپنے حق معین کر لئے تھے انہیں اندیشہ ہوا کہ توریت میں جو حضور سیدِ عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نعت و صفت ہے اگر اس کو ظاہر کریں تو قوم حضور پر ایمان لے آئے گی اور ان کی کچھ پرسش نہ رہے گی۔ یہ تمام منافع جاتے رہیں گے اس لئے انہوں نے اپنی کتابوں میں تغییر کی اور حضور کی نعت کو بدل ڈالا جب ان سے لوگ دریافت کرتے کہ توریت میں حضور کے کیا اوصاف مذکور ہیں تو وہ چھپا لیتے۔ اور ہر گز نہ بتاتے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن وغیرہ)۔

(۴۲) اور حق سے  باطل کو نہ ملاؤ اور دیدہ و دانستہ حق نہ چھپاؤ -

(۴۳)  اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے  والوں کے  ساتھ رکوع کرو- (ف ۷۵)

۷۵               اس آیت میں نمازو زکوٰۃ کی فرضیت کا بیان ہے اور اس طرف بھی اشارہ ہے کہ نمازوں کو ان کے حقوق کی رعایت اور ارکان کی حفاظت کے ساتھ ادا کرو

مسئلہ : جماعت کی ترغیب بھی ہے حدیث شریف میں ہے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔

(۴۴) کیا لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے  ہو اور اپنی جانوں کو بھولتے  ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے  ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں -(ف ۷۶)

۷۶               شان نُزول : عُلَماءِ یہود سے ان کے مسلمان رشتہ داروں نے دین اسلام کی نسبت دریافت کیا تو انہوں نے کہا تم اس دین پر قائم رہو حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کا دین حق اور کلام سچا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی ایک قول یہ ہے کہ آیت ان یہودیوں کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے مشرکین عرب کو حضور کے مبعوث ہونے کی خبر دی تھی اور حضور کے اتباع کرنے کی ہدایت کی تھی پھر جب حضور مبعوث ہوئے تو یہ ہدایت کرنے والے حسد سے خود کافر ہو گئے اس پر انہیں توبیخ کی گئی۔(خازن و مدارک)۔

(۴۵)  اور صبر اور نماز سے   مدد چاہو اور بیشک نماز ضرور بھاری ہے  مگر ان پر (نہیں ) جو دل سے  میری طرف جھکتے  ہیں -(ف ۷۷)

۷۷               یعنی اپنی حاجتوں میں صبر اور نماز سے مدد چاہو سبحان اللّٰہ کیا پاکیزہ تعلیم ہے صبر مصیبتوں کا اخلاقی مقابلہ ہے انسان عدل و عزم حق پرستی پر بغیر اس کے قائم نہیں رہ سکتا صبر کی تین قسمیں ہیں۔(۱) شدت و مصیبت پر نفس کو روکنا (۲)طاعت و عبادت کی مشقتوں میں مستقل رہنا(۳)معصیت کی طرف مائل ہو نے سے طبیعت کو باز رکھنا،بعض مفسرین نے یہاں صبر سے روزہ مراد لیا ہے وہ بھی صبر کا ایک فرد ہے اس آیت میں مصیبت کے وقت نماز کے ساتھ استعانت کی تعلیم بھی فرمائی،کیونکہ وہ عبادتِ بدنیہ و نفسانیہ کی جامع ہے اور اس میں قربِ الٰہی حاصل ہو تا ہے حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اہم امور کے پیش آنے پر مشغولِ نماز ہو جاتے تھے،اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا کہ مومنین صادقین کے سوا اوروں پر نماز گرا ں ہے۔

(۴۶) جنہیں یقین ہے  کہ انہیں اپنے  رب سے  ملنا ہے  اور اسی کی طرف پھرنا- (ف ۷۸)

۷۸               اس میں بشارت ہے کہ آخرت میں مؤمنین کو دیدار الہی کی نعمت ملے گی۔

(۴۷)  اے  اولاد یعقوب یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے  تم پر کیا اور یہ کہ اس سارے  زمانہ پر تمہیں بڑائی دی-(ف ۷۹)

 ۷۹              ا َلعٰلَمِیْنَ کا استغراق حقیقی نہیں مراد یہ ہے کہ میں نے تمہارے آباء کو ان کے زمانہ والوں پر فضیلت دی یا فضل جزئی مراد ہے جو اور کسی امت کی فضیلت کا نافی نہیں ہو سکتا۔ اسی لئے امت محمدیہ کے حق میں ارشاد ہوا  کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ (روح البیان جمل وغیرہ)۔

(۴۸)  اور ڈرو اس دن سے  جس دن کوئی جان دوسرے  کا بدلہ نہ ہو سکے  گی (ف ۸۰) اور نہ (کافر کے  لئے ) کوئی سفارش مانی جائے  اور نہ کچھ لے  کر (اس کی) جان چھوڑی جائے  اور نہ ان کی مدد ہو- (ف ۸۱)

۸۰               وہ روز قیامت ہے آیت میں نفس دو مرتبہ آیا ہے پہلے سے نفس مؤمن دوسرے سے نفس کافر مراد ہے (مدارک)۔

۸۱               یہاں سے رکوع کے آخر تک دس نعمتوں کا بیان ہے جو ان بنی اسرائیل کے آباء کو ملیں۔

(۴۹)  اور (یاد کرو) جب ہم نے  تم کو فرعون والوں سے  نجات بخشی (ف ۸۲) کہ وہ تم پر برا عذاب کرتے  تھے  (ف ۸۳) تمہارے  بیٹوں کو ذبح کرتے  اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رکھتے  (ف ۸۴) اور اس میں تمہارے  رب کی  طرف سے  بڑی بلا تھی (یا بڑا انعام) (ف ۸۵)

۸۲               قوم قبط و عمالیق سے جو مصر کا بادشاہ ہوا اس کو فرعون کہتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کے فرعون کا نام ولید بن مصعب بن ریان ہے یہاں اسی کا ذکر ہے اس کی عمر چار سو برس سے زیادہ ہوئی آل فرعون سے اس کے متبعین مراد ہیں۔ (جمل وغیرہ)۔

۸۳               عذاب سب برے ہوتے ہیں۔  سُوْۤءَ الْعَذَابِ  وہ کہلائے گا جو اور عذابوں سے شدید ہو اس لئے حضرت مترجم قُدِّ سَ سِرُّ ہ، نے ( برا عذاب) ترجمہ کیا ( کما فی الجلالین وغیرہ) فرعون نے بنی اسرائیل پر نہایت بے دردی سے محنت و مشقت کے دشوار کام لازم کیے تھے پتھروں کی چٹانیں کاٹ کر ڈھوتے ڈھوتے ان کی کمریں گردنیں زخمی ہو گئیں تھیں غریبوں پر ٹیکس مقرر کیے تھے جو غروب آفتاب سے قبل بجبر وصول کیے جاتے تھے جو نادار کسی دن ٹیکس ادا نہ کر سکا اس کے ہاتھ گردن کے ساتھ ملا کر باندھ دیئے جاتے تھے اور مہینہ بھر تک اسی مصیبت میں رکھا جاتا تھا اور طرح طرح کی بے رحمانہ سختیاں تھیں۔(خازن وغیرہ)۔

۸۴               فرعون نے خواب دیکھا کہ بَیْتُ الْمَقْدِسْ کی طرف سے آگ آئی اس نے مصر کو گھیر کر تمام قبطیوں کو جلا ڈالا بنی اسرائیل کو کچھ ضرر نہ پہنچایا اس سے اس کو بہت وحشت ہوئی کاہنوں نے تعبیر دی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہو گا جو تیرے ہلاک اور زوال سلطنت کا باعث ہو گا۔ یہ سن کر فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہو قتل کر دیا جائے دائیاں تفتیش کے لئے مقرر ہوئیں بارہ ہزار و بروایتے ستر ہزار لڑکے قتل کر ڈالے گئے اور نوّے ہز ار حمل گرا دیئے گئے اور مشیتِ الٰہی سے اس قوم کے بوڑھے جلد جلد مرنے لگے قوم قبط کے رؤسا نے گھبرا کر فرعون سے شکایت کی کہ بنی اسرائیل میں موت کی گرم بازاری ہے اس پر ان کے بچے بھی قتل کیے جاتے ہیں تو ہمیں خدمت گار کہاں سے میسر آئیں گے فرعون نے حکم دیا کہ ایک سال بچے قتل کیے جائیں اور ایک سال چھوڑے جائیں تو جو سال چھوڑنے کا تھا اس میں حضرت ہارون پیدا ہوئے اور قتل کے سال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔

۸۵               بلا امتحان و آزمائش کو کہتے ہیں آزمائش نعمت سے بھی ہوتی ہے اور شدت و محنت سے بھی نعمت سے بندہ کی شکر گزاری اور محنت سے اس کے صبر کا حال ظاہر ہوتا ہے اگر  ذَالِکُمْ کا اشارہ فرعون کے مظالم کی طرف ہو تو بلا سے محنت و مصیبت مراد ہو گی اور اگر ان مظالم سے نجات دینے کی طرف ہو تو نعمت۔

(۵۰) اور جب ہم نے  تمہارے  لئے  دریا پھاڑ دیا تو تمہیں بچا لیا اور فرعون والوں کو تمہاری آنکھوں کے  سامنے  ڈبو دیا -(ف ۸۶)

۸۶               یہ دوسری نعمت کا بیان ہے جو بنی اسرائیل پر فرمائی کہ انہیں فرعونیوں کے ظلم و ستم سے نجات دی اور فرعون کو مع اس کی قوم کے ان کے سامنے غرق کیا یہاں آل فرعون سے فرعون مع اپنی قوم کے مراد ہے جیسے کہ  کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ میں حضرت آدم و اولاد آدم دونوں داخل ہیں۔ (جمل) مختصر واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام والسلام بحکم الٰہی شب میں بنی اسرائیل کو مصر سے لے کر روانہ ہوئے صبح کو فرعون ان کی جستجو میں لشکر گراں لے کر چلا اور انہیں دریا کے کنارے جا پایا بنی اسرائیل نے لشکر فرعون دیکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کی آپ نے بحکم الٰہی دریا میں اپنا عصا (لاٹھی) مارا اس کی برکت سے عین دریا میں بارہ خشک رستے پیدا ہو گئے پانی دیواروں کی طرح کھڑا ہو گیا ان آبی دیواروں میں جالی کی مثل روشندان بن گئے بنی اسرائیل کی ہر جماعت ان راستوں میں ایک دوسری کو دیکھتی اور باہم باتیں کرتی گزر گئی فرعون دریائی رستے دیکھ کر ان میں چل پڑا جب اس کا تمام لشکر دریا کے اندر آگیا تو دریا حالت اصلی پر آیا اور تمام فرعونی اس میں غرق ہو گئے دریا کا عرض چار فرسنگ تھا یہ واقعہ بحرِ قُلْزم کا ہے جو بحر فارس کے کنارہ پر ہے یا بحر ماورائے مصر کا جس کو اساف کہتے ہیں بنی اسرائیل لب دریا فرعونیوں کے غرق کا منظر دیکھ رہے تھے یہ غرق محرم کی دسویں تاریخ ہوا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس دن شکر کا روزہ رکھا سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلّم کے زمانہ تک بھی یہود اس دن کا روزہ رکھتے تھے حضور نے بھی اس دن کا روزہ رکھا اور فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فتح کی خوشی منانے اور اس کی شکر گزاری کرنے کے ہم یہود سے زیادہ حق دار ہیں۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ عاشورہ کا روزہ سنّت ہے۔

مسئلہ : یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء کرام پر جو انعامِ الٰہی ہو اس کی یادگار قائم کرنا اور شکر بجا لانا مسنون ہے اگر کفار بھی قائم کرتے ہوں جب بھی اس کو چھوڑا نہ جائے گا۔

(۵۱) اور جب ہم نے  موسیٰ سے  چا لیس رات کا وعدہ فرمایا پھر اس کے  پیچھے  تم نے  بچھڑے  کی پوجا شروع کر دی اور تم ظالم تھے  -(ف ۸۷)

۸۷               فرعون اور فرعونیوں کے ہلاک کے بعد جب حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر مصر کی طرف لوٹے اور ان کی درخواست پر اللّٰہ تعالیٰ نے عطائے توریت کا وعدہ فرمایا اور اس کے لئے میقات معین کیا جس کی مدت معہ اضافہ ایک ماہ دس روز تھی مہینہ ذوالقعدہ اور دس دن ذوالحجہ کے حضرت موسیٰ علیہ السلام قوم میں اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو اپنا خلیفہ و جانشین بنا کر توریت حاصل کرنے کے لئے کوہ طور پر تشریف لے گئے چالیس شب وہاں ٹہرے اس عرصہ میں کسی سے بات نہ کی اللّٰہ تعالیٰ نے زبر جدی الواح میں توریت آپ پر نازل فرمائی یہاں سامری نے سونے کا جواہرات سے مرصع بچھڑا بنا کر قوم سے کہا کہ یہ تمہارا معبود ہے وہ لوگ ایک ماہ حضرت کا انتظار کر کے سامری کے بہکانے سے بچھڑا پوجنے لگے سوائے حضرت ہارون علیہ السلام اور آپ کے بارہ ہزار ہمراہیوں کے تمام بنی اسرائیل نے گوسالہ کو پوجا (خازن)۔

(۵۲) پھر اس کے  بعد ہم نے  تمہیں معافی دی (ف ۸۸) کہ کہیں تم احسان مانو- (ف ۸۹)

۸۸               عفو کی کیفیت یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ توبہ کی صورت یہ ہے کہ جنہوں نے بچھڑے کی پرستش نہیں کی ہے وہ پرستش کرنے والوں کو قتل کریں اور مجرم برضا و تسلیم سکون کے ساتھ قتل ہو جائیں وہ اس پر راضی ہو گئے صبح سے شام تک ستر ہزار قتل ہو گئے تب حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام بتضرع و زاری بارگاہِ حق کی طرف ملتجی ہوئے وحی آئی کہ جو قتل ہو چکے شہید ہوئے باقی مغفور فرمائے گئے۔ ان میں کے قاتل و مقتول سب جنتی ہیں

مسئلہ: شرک سے مسلمان مرتد ہو جاتا ہے

مسئلہ : مرتد کی سزا قتل ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ سے بغاوت قتل و خونریزی سے سخت تر جرم ہے۔

فائدہ: گوسالہ بنا کر پوجنے میں بنی اسرائیل کے کئی جرم تھے ایک تصویر سازی جو حرام ہے دوسرے حضرت ہارون علیہ السلام کی نافرمانی تیسرے گوسالہ پوج کر مشرک ہو جانا یہ ظلم آل فرعون کے مظالم سے بھی زیادہ شدید ہیں کیونکہ یہ افعال ان سے بعد ایمان سرزد ہوئے اس لئے مستحق تو اس کے تھے کہ عذاب الٰہی انہیں مہلت نہ دے اور فی الفور ہلاکت سے کفر پر ان کا خاتمہ ہو جائے لیکن حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کی بدولت انہیں توبہ کا موقع دیا گیا یہ اللّٰہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے۔

۸۹               اس میں اشارہ ہے کہ بنی اسرائیل کی استعداد فرعونیوں کی طرح باطل نہ ہوئی تھی اور اس کی نسل سے صالحین پیدا ہونے والے تھے چنانچہ ان میں ہزارہا نبی و صالح پیدا ہوئے۔

(۵۳)  اور جب ہم نے  موسیٰ کو کتاب عطا کی اور حق و باطل میں تمیز کر دینا کہ کہیں تم راہ آؤ -

 (۵۴) اور جب موسیٰ  نے  اپنی قوم سے  کہا اے  میری قوم تم نے  بچھڑا بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا تو اپنے  پیدا کرنے  والے  کی طرف رجوع لاؤ تو آپس میں ایک دوسرے  کو قتل کر دو (ف ۹۰) یہ تمہارے  پیدا کرنے  والے  کے  نزدیک تمہارے  لیے  بہتر ہے  تو اس نے  تمہاری توبہ قبول کی بیشک وہی ہے  بہت توبہ قبول کرنے  والا مہربان -(ف  ۹۱)

۹۰               یہ قتل ان کے لئے کفارہ تھا۔

۹۱               جب بنی اسرائیل نے توبہ کی اور کفارہ میں اپنی جانیں دے دیں تو اللّٰہ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام انہیں گو سالہ پرستی کی عذر خواہی کے لئے حاضر لائیں حضرت ان میں سے ستر آدمی منتخب کر کے طور پر لے گئے وہاں وہ کہنے لگے اے موسیٰ ہم آپ کا یقین نہ کریں گے جب تک خدا کو علانیہ نہ دیکھ لیں اس پر آسمان سے ایک ہولناک آواز آئی جس کی ہیبت سے وہ مر گئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بتضرع عرض کی کہ میں بنی اسرائیل کو کیا جواب دوں گا اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں یکے بعد دیگرے زندہ فرما دیا

مسئلہ: اس سے شان انبیاء معلوم ہوتی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے  لَنْ نُؤْمِنَ لَکَ  کہنے کی شامت میں بنی اسرائیل ہلاک کیے گئے حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد والوں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ انبیاء کی جناب میں ترک ادب غضب الٰہی کا باعث ہوتا ہے اس سے ڈرتے رہیں

مسئلہ: یہ بھی معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے مقبولان بارگاہ کی دعا سے مردے زندہ فرماتا ہے۔

(۵۵) اور جب تم نے  کہا اے  موسیٰ ہم ہرگز تمہارا یقین نہ لائیں گے  جب تک اعلانیہ خدا کو نہ دیکھ لیں تو تمہیں کڑک نے   آ لیا اور تم دیکھ رہے  تھے۔

(۵۶)  پھر مرے  پیچھے  ہم نے  تمہیں زندہ کیا کہ کہیں تم احسان مانو-

(۵۷) اور ہم نے  ابر کو تمہارا سائبان کیا (ف ۹۲) اور تم پر من اور سلویٰ اتارا کھاؤ  ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں (ف ۹۳) اور انہوں نے  کچھ ہمارا نہ بگاڑا ہاں اپنی ہی جانوں کو بگاڑ کرتے  تھے -(ف ۹۴) اور جب ہم نے  فرمایا اس بستی میں جاؤ -

۹۲               جب حضرت موسیٰ علیہ السلام فارغ ہو کر لشکر بنی اسرائیل میں پہنچے اور آپ نے انہیں حکم الہی سنایا کہ ملک شام حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی اولاد کا مدفن ہے اسی میں بیت المقدس ہے اس کو عمالقہ سے آزاد کرانے کے لئے جہاد کرو اور مصر چھوڑ کر وہیں وطن بناؤ مصر کا چھوڑنا بنی اسرائیل پر نہایت شاق تھا اول تو انہوں نے اس میں پس و پیش کیا اور جب بجبر و اکراہ حضرت موسیٰ و حضرت ہارون علیہما السلام کی رکاب سعادت میں روانہ ہوئے توراۃ میں جو کوئی سختی و دشواری پیش آتی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے شکایتیں کرتے جب اس صحرا میں پہنچے جہاں نہ سبزہ تھا نہ سایہ نہ غلہ ہمراہ تھا وہاں دھوپ کی گرمی اور بھوک کی شکایت کی اللّٰہ تعالیٰ نے بدعائے حضرت موسیٰ علیہ السلام ابر سفید کو انکا سائبان بنایا جو رات دن انکے ساتھ چلتا شب کو ان کے لئے نوری ستون اترتا جس کی روشنی میں کام کرتے انکے کپڑے میلے اور پرانے نہ ہوتے ناخن اور بال نہ بڑھتے اس سفر میں جو لڑکا پیدا ہوتا اس کا لباس اس کے ساتھ پیدا ہوتا جتنا وہ بڑھتا لباس بھی بڑھتا۔

۹۳               مَنۡ ترنجبین کی طرح ایک شیریں چیز تھی روزانہ صبح صادق سے طلوع آفتاب تک ہر شخص کے لئے ایک صاع کی قدر آسمان سے نازل ہوتی لوگ اس کو چادروں میں لے کر دن بھر کھاتے رہتے سلویٰ ایک چھوٹا پرند ہوتا ہے اس کو ہوا لاتی یہ شکار کر کے کھاتے دونوں چیزیں شنبہ کو تو مطلق نہ آتیں باقی ہر روز پہنچتیں۔ جمعہ کو اور دنوں سے دونی آتیں حکم یہ تھا کہ جمعہ کو شنبہ کے لئے بھی حسب ضرورت جمع کر لو مگر ایک دن سے زیادہ کا جمع نہ کرو بنی اسرائیل نے ان نعمتوں کی ناشکری کی ذخیرے جمع کیے وہ سڑ گئے اور ان کی آمد بند کر دی گئی۔ یہ انہوں نے اپنا ہی نقصان کیا کہ دنیا میں نعمت سے محروم اور آخرت میں سزاوار عذاب کے ہوئے۔

۹۴               اس بستی سے بیتُ المقدِس مراد ہے یا اریحا جو بیت المقدس کے قریب ہے جس میں عمالقہ آباد تھے اور اس کو خالی کر گئے وہاں غلے میوے بکثرت تھے۔

(۵۸) پھر اس میں جہاں چاہو  بے  روک  ٹوک کھاؤ اور دروازہ میں سجدہ کرتے  داخل ہو (ف ۹۵) اور کہو ہمارے  گناہ معاف ہوں ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے  اور قریب ہے  کہ نیکی والوں کو اور زیادہ دیں - (ف ۹۶)

۹۵               یہ دروازہ ان کے لئے بمنزلہ کعبہ کے تھا کہ اس میں داخل ہونا اور اس کی طرف سجدہ کرنا سبب کفارہ ذنوب قرار دیا گیا۔

۹۶               مسئلہ :اس آیت سے معلوم ہوا کہ زبان سے استغفار کرنا اور بدنی عبادت سجدہ وغیرہ بجا لانا توبہ کا متمم ہے

مسئلہ : یہ بھی معلوم ہوا کہ مشہور گناہ کی توبہ باعلان ہونی چاہئے۔

مسئلہ : یہ بھی معلوم ہوا کہ مقامات متبرکہ جو رحمت الٰہی کے مورد ہوں وہاں توبہ کرنا اور طاعت بجا لانا ثمرات نیک اور سرعت قبول کا سبب ہوتا ہے۔ (فتح العزیز) اسی لئے صالحین کا دستور رہا ہے کہ انبیاء و اولیاء کے موالد  و مزارات پر حاضر ہو کر استغفار و اطاعت بجا لاتے ہیں عرس و زیارت میں بھی یہ فائدہ متصور ہے۔

(۵۹) تو ظالموں نے  اور بات بدل دی جو فرمائی گئی تھی اس کے  سوا (ف ۹۷) تو ہم نے  آسمان سے  ان پر عذاب اتارا (ف ۹۸) بدلہ ان کی بے  حکمی کا۔

۹۷               بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ بنی اسرائیل کو حکم ہوا تھا کہ دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوں اور زبان سے ( حِطّۃٌ) کلمۂ توبہ و استغفار کہتے جائیں انہوں نے دونوں حکموں کی مخالفت کی داخل تو ہوئے سرینوں کے بل گھسیٹتے اور بجائے کلمۂ توبہ کے تمسخر سے حَبَّۃٌ فِیۡ شَعۡرَۃٍ کہا جس کے معنی ہیں ( بال میں دانہ)۔

۹۸               یہ عذاب طاعون تھا جس سے ایک ساعت میں چوبیس ہزار ہلاک ہو گئے۔

مسئلہ : صحاح کی حدیث میں ہے کہ طاعون پچھلی امتوں کے عذاب کا بقیہ ہے جب تمہارے شہر میں واقع ہو وہاں سے نہ بھاگو دوسرے شہر میں ہو تو وہاں نہ جاؤ۔

مسئلہ: صحیح حدیث میں ہے کہ جو لوگ مقام وباء میں رضائے الہی پر صابر رہیں اگر وہ وباء سے محفوظ رہیں جب بھی انہیں شہادت کا ثواب ملے گا۔

(۶۰)  اور جب موسیٰ نے  اپنی قوم کے  لئے  پانی مانگا تو ہم نے  فرمایا اس پتھر پر اپنا عصا مارو فوراً اس میں سے  بارہ چشمے  بہ نکلے  (ف ۹۹) ہر گروہ نے  اپنا گھاٹ پہچان  لیا  کھاؤ اور پیؤ خدا کا دیا (ف ۱۰۰)  اور زمین میں فساد اٹھاتے  نہ پھرو(ف ۱۰۱)

۹۹               جب بنی اسرائیل نے سفر میں پانی نہ پایا شدت پیاس کی شکایت کی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ اپنا عصا پتھر پر مارو آپ کے پاس ایک مربع پتھر تھا جب پانی کی ضرورت ہوتی آپ اس پر عصا مارتے اس سے بارہ چشمے جاری ہو جاتے اور سب سیراب ہوتے یہ بڑا معجزہ ہے لیکن سید انبیاء صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و سلم کے انگشت مبارک سے چشمے جاری فرما کر جماعت کثیرہ کو سیراب فرمانا اس سے بہت اعظم و اعلیٰ ہے کیونکہ عضو انسانی سے چشمے جاری ہونا پتھر کی نسبت زیادہ اعجب ہے۔ (خازن و مدارک)۔

۱۰۰             یعنی آسمانی طعام من و سلویٰ کھاؤ اور اس پتھر کے چشموں کا پانی پیو جو تمہیں فضل الٰہی سے بے محنت میسر ہے۔

۱۰۱             نعمتوں کے ذکر کے بعد بنی اسرائیل کی نالیاقتی دوں ہمتی اور نافرمانی کے چند واقعات بیان فرمائے جاتے ہیں۔

(۶۱) اور جب تم نے  کہا اے  موسیٰ (ف ۱۰۲) ہم سے  تو ایک کھانے  پر (ف ۱۰۳) ہرگز صبر نہ ہو گا تو  آپ اپنے  رب سے  دعا کیجئے   کہ زمین کی اگائی ہوئی چیزیں ہمارے  لئے  نکالے  کچھ ساگ اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز فرمایا  کیا ادنیٰ چیز  کو بہتر کے  بدلے  مانگتے  ہو (ف ۱۰۴) اچھا مصر (ف ۱۰۵) یا کسی شہر میں اترو وہاں تمہیں ملے  گا جو تم نے  مانگا (ف ۱۰۶) اور ان پر مقر ر کر دی گئی خواری اور ناداری (ف ۱۰۷) اور خدا کے  غضب میں لوٹے  (ف ۱۰۸) یہ بدلہ تھا اس کا کہ وہ اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے  اور انبیاء کو ناحق شہید کرتے  (ف ۱۰۹) یہ بدلہ تھا ان کی نافرمانیوں اور حد سے  بڑھنے  کا-

۱۰۲             بنی اسرائیل کی یہ ادا بھی نہایت بے ادبانہ تھی کہ پیغمبر اولوالعزم کو نام لے کر پکارا یا نبی اللّٰہ یا رسول اللّٰہ یا اور کوئی تعظیم کا کلمہ نہ کہا( فتح العزیز) جب انبیاء کا خالی نام لینا بے ادبی ہے تو ان کو بشر اور ایلچی کہنا کس طرح گستاخی نہ ہو گا غرض انبیاء کے ذکر میں بے تعظیمی کا شائبہ بھی ٍنا جائز ہے۔

۱۰۳             (ایک کھانے ) سے ( ایک قسم کا کھانا) مراد ہے۔

۱۰۴             جب وہ اس پر بھی نہ مانے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہِ الہی میں دعا کی ارشاد ہوا اِھۡبِطُوۡ ا۔

۱۰۵             مصر عربی میں شہر کو بھی کہتے ہیں کوئی شہر ہو اور خاص شہر یعنی مصر موسیٰ علیہ السلام کا نام بھی ہے یہاں دونوں میں سے ہر ایک مراد ہو سکتا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ یہاں خاص شہر مصر مراد نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کے لئے یہ لفظ غیر منصرف ہو کر مستعمل ہوتا ہے اور اس پر تنوین نہیں آتی جیسا کہ دوسری آیت میں وارد ہے۔  اَلَۡسَ لِیۡ مُلْکُ مِصرَ اور اُدْخُلُوْا مِصْرَ  مگر یہ خیال صحیح نہیں کیونکہ سکون اوسط کی وجہ سے لفظ ہند کی طرح اس کو منصرف پڑھنا درست ہے نحو میں اس کی تصریح موجود ہے علاوہ بریں حسن وغیرہ کی قرأت میں مصر بلا تنوین آیا ہے اور بعض مصاحف حضرت عثمان اور مصحف اُبَیّ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم میں بھی ایسا ہی ہے اسی لئے حضرت مترجم قدس سرہ نے ترجمہ میں دونوں احتمالوں کو اخذ فرمایا ہے اور شہر معین کے احتمال کو مقدم کیا۔

۱۰۶             یعنی ساگ ککڑی وغیرہ کو ان چیزوں کی طلب گناہ نہ تھی لیکن  مَن و سَلویٰ جیسی نعمت بے محنت چھوڑ کر ان کی طرف مائل ہونا پست خیالی ہے ہمیشہ ان لوگوں کا میلان طبع پستی ہی کی طرف رہا اور حضرت موسیٰ و ہارون وغیرہ جلیل القدر بلند ہمت انبیاء (علیہم السلام) کے بعد بنی اسرائیل کی لئیمی و کم حوصلگی کا پورا ظہور ہوا اور تسلط جالوت و حادثہ بخت نصر کے بعد تو وہ بہت ہی ذلیل و خوار ہو گئے اس کا بیان  ضُرِبَتْ عَلَیْھِمُ الذِّلَّۃُ میں ہے۔

۱۰۷             یہود کی ذلت تو یہ کہ دنیا میں کہیں نام کو ان کی سلطنت نہیں اور ناداری یہ کہ مال موجود ہوتے ہوئے بھی حرص سے محتاج ہی رہتے ہیں۔

۱۰۸             انبیاء و صلحاء کی بدولت جو رتبے انہیں حاصل ہوئے تھے ان سے محروم ہو گئے اس غضب کا باعث صرف یہی نہیں کہ انہوں نے آسمانی غذاؤں کے بدلے ارضی پیداوار کی خواہش کی یا اُسی طرح کی اور خطائیں جو زمانہ حضرت موسیٰ علیہ السلام میں صادر ہوئیں بلکہ عہد نبوت سے دور ہونے اور زمانہ دراز گزرنے سے ان کی استعدادیں باطل ہوئیں اور نہایت قبیح افعال اور عظیم جرم ان سے سرزد ہوئے۔یہ ان کی اس ذلت و خواری کا باعث ہوئے۔

۱۰۹             جیسا کہ انہوں نے حضرت زکریا و یحیی و شعیا علیہم السلام کو شہید کیا اور یہ قتل ایسے ناحق تھے جن کی وجہ خود یہ قاتل بھی نہیں بتا سکتے۔

(۶۲)  بیشک ایمان والے  نیز یہودیوں اور نصرانیوں اور ستارہ پرستوں میں سے  وہ کہ سچے  دل سے  اللہ اور پچھلے  دن پر ایمان لائیں اور نیک کام کریں ان کا ثواب ان کے  رب  کے  پاس ہے  اور نہ انہیں کچھ اندیشہ  ہو اور  نہ کچھ غم(ف ۱۱۰)

۱۱۰             شانِ نُزول : ابن جریر و ابن ابی حاتم نے سدی سے روایت کی کہ یہ آیت سلمان فارسی رضی اللّٰہ عنہ کے اصحاب کے حق میں نازل ہوئی۔ ( لباب النقول)۔

(۶۳) اور جب ہم نے  تم سے  عہد لیا (ف ۱۱۱) اور  تم پر طور کو اونچا کیا (ف ۱۱۲)  لو جو کچھ ہم تم کو دیتے  ہیں زور سے  (ف ۱۱۳) اور اس کے  مضمون یاد کرو اس امید پر کہ تمہیں پرہیز گاری ملے -

۱۱۱             کہ تم توریت مانو گے اور اس پر عمل کرو گے پھر تم نے اس کے احکام کو شاق و گراں جان کر قبول سے انکار کر دیا باوجودیکہ تم نے خود بالحاح حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ایسی آسمانی کتاب کی استدعا کی تھی جس میں قوانین شریعت اور آئین عبادت مفصل مذکور ہوں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تم سے بار بار اس کے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کا عہد لیا تھا جب وہ کتاب عطا ہوئی تم نے اس کے قبول کرنے سے انکار کر دیا اور عہد پورا نہ کیا۔

۱۱۲             بنی اسرائیل کی عہد شکنی کے بعد حضرت جبریل نے بحکم الہی طور پہاڑ کو اٹھا کر ان کے سروں پر قدر قامت فاصلہ پر معلق کر دیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا،یا تو تم عہد قبول کرو ورنہ پہاڑ تم پر گرا دیا جائے گا اور تم کچل ڈالے جاؤ گے،۔ اس میں صورۃً وفا عہد پر اکراہ تھا اور درحقیقت پہاڑ کا سروں پر معلق کر دینا آیت الہی اور قدرت حق کی برہان قوی ہے اس سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے کہ بے شک یہ رسول مظہر قدرت الٰہی ہیں۔ یہ اطمینان ان کو ماننے اور عہد پورا کرنے کا اصل سبب ہے۔

۱۱ٍ۳             یعنی بکوشش تمام۔

(۶۴) پھر اس کے  بعد تم پھر گئے  تو اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو تم ٹوٹے  والوں میں ہو جاتے  -(ف ۱۱۴)

۱۱۴             یہاں فضل و رحمت سے یا توفیق توبہ مراد ہے یا تاخیر عذاب (مدارک وغیرہ) ایک قول یہ ہے کہ فضل الہی اور رحمت حق سے حضور سرور عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات پاک مراد ہے معنی یہ ہیں کہ اگر تمہیں خاتم المرسلین صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے وجود کی دولت نہ ملتی اور آپ کی ہدایت نصیب نہ ہوتی تو تمہارا انجام ہلاک و خسران ہوتا۔

(۶۵)  اور بیشک ضرور تمہیں معلوم ہے  تم میں کے  وہ جنہوں نے  ہفتہ میں سرکشی کی (ف ۱۱۵) تو ہم نے  ان سے  فرمایا کہ ہو جاؤ  بندر دھتکارے  ہوئے-

۱۱۵             شہر ایلہ میں بنی اسرائیل آباد تھے انہیں حکم تھا کہ شنبہ کا دن عبادت کے لئے خاص کر دیں اس روز شکار نہ کریں اور دنیاوی مشاغل ترک کر دیں ان کے ایک گروہ نے یہ چال کی کہ جمعہ کو دریا کے کنارے کنارے بہت سے گڈھے کھودتے اور شنبہ کی صبح کو دریا سے ان گڈھوں تک نالیاں بناتے جن کے ذریعہ پانی کے ساتھ آ کر مچھلیاں گڈھوں میں قید ہو جاتیں یک شنبہ کو انہیں نکالتے اور کہتے کہ ہم مچھلی کو پانی سے شنبہ کے روز نہیں نکالتے چالیس یا ستر سال تک یہی عمل رہا جب حضرت داؤد علیہ الصلوٰۃ و السلام کی نبوت کا عہد آیا آپ نے انہیں اس سے منع کیا اور فرمایا قید کرنا ہی شکار ہے  جو شنبہ کو کرتے ہو اس سے باز آؤ ورنہ عذاب میں گرفتار کیے جاؤ گے وہ باز نہ آئے آپ نے دعا فرمائی اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں بندروں کی شکل میں مسخ کر دیا عقل و حواس تو ان کے باقی رہے مگر قوت گویائی زائل ہو گئی بدنوں سے بدبو نکلنے لگی اپنے اس حال پر روتے روتے تین روز میں سب ہلاک ہو گئے ان کی نسل باقی نہ رہی یہ ستر ہزار کے قریب تھے بنی اسرائیل کا دوسرا گروہ جو بارہ ہزار کے قریب تھا انہیں اس عمل سے منع کرتا رہا جب یہ نہ مانے تو انہوں نے ان کے اور اپنے محلوں کے درمیان دیوار بنا کر علیحدگی کر لی ان سب نے نجات پائی بنی اسرائیل کا تیسرا گروہ ساکت رہا اس کے حق میں حضرت ابن عباس کے سامنے عکرمہ نے کہا کہ وہ مغفور ہیں کیونکہ امر بالمعروف فرض کفایہ ہے بعض کا ادا کرنا کل کا حکم رکھتا ہے ان کے سکوت کی وجہ یہ تھی کہ یہ ان کے پند پذیر ہونے سے مایوس تھے عکرمہ کی یہ تقریر حضرت ابن عباس کو بہت پسند آئی اور آپ نے سرور سے اٹھ کر ان سے معانقہ کیا اور ان کی پیشانی کو بوسہ دیا۔(فتح العزیز)

مسئلہ:اس سے معلوم ہوا کہ سرور کا معانقہ سنت صحابہ ہے اس کے لئے سفر سے آنا اور غیبت کے بعد ملنا شرط نہیں۔

(۶۶) تو ہم نے  (اس بستی کا) یہ واقعہ اس کے  آگے  اور پیچھے  والوں کے  لیے  عبرت کر دیا اور پرہیزگاروں کے  لیے  نصیحت-

 (۶۷) اور جب موسیٰ نے  اپنی قوم سے  فرمایا  خدا تمہیں حکم دیتا ہے  کہ ایک گائے  ذبح کرو (ف ۱۱۶) بولے  کہ آپ ہمیں مسخرہ بناتے  ہیں (ف ۱۱۷) فرمایا خدا کی پناہ کہ میں جاہلوں سے  ہوں -(ف ۱۱۸)

۱۱۶             بنی اسرائیل میں عامیل نامی ایک مالدار تھا اس کے چچا زاد بھائی نے بطمع وراثت اس کو قتل کر کے دوسری بستی کے دروازے پر ڈال دیا اور خود صبح کو اس کے خون کا مدعی بنا وہاں کے لوگوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے درخواست کی کہ آپ دعا فرمائیں کہ اللّٰہ تعالیٰ حقیقت حال ظاہر فرمائے اس پر حکم صادر ہوا کہ ایک گائے ذبح کر کے اس کا کوئی حصہ مقتول کے ماریں وہ زندہ ہو کر قاتل کو بتا دے گا۔

۱۱۷             کیونکہ مقتول کا حال معلوم ہونے اور گائے کے ذبح میں کوئی مناسبت معلوم نہیں ہوتی۔

۱۱۸             ایسا جواب جو سوال سے ربط نہ رکھے جاہلوں کا کام ہے۔ یا یہ معنی ہیں کہ محاکمہ کے موقع پر استہزاء جاہلوں کا کام ہے انبیاء کی شان اس سے برتر ہے القصہ جب ہی بنی اسرائیل نے سمجھ لیا کہ گائے کا ذبح کرنا لازم ہے تو انہوں نے آپ سے اس کے اوصاف دریافت کیے حدیث شریف میں ہے کہ اگر بنی اسرائیل بحث نہ نکالتے تو جو گائے ذبح کر دیتے کافی ہو جاتی۔

(۶۸) بولے  اپنے  رب سے  دعا کیجئے  کہ وہ ہمیں بتا دے  گائے  کیسی کہا وہ فرماتا ہے  کہ وہ ایک گائے  ہے  نہ بوڑھی اور نہ  اَدسر بلکہ ان دونوں کے  بیچ میں تو کرو جس کا تمہیں حکم ہوتا ہے۔

 (۶۹) بولے  اپنے  رب سے  دعا کیجئے  ہمیں بتا دے  اس کا رنگ کیا ہے  کہا وہ فرماتا  ہے  وہ ایک پیلی گائے  ہے   جس کی رنگت ڈبڈباتی دیکھنے  والوں کو خوشی دیتی۔

(۷۰) بولے  اپنے  رب سے  دعا کیجئے  کہ ہمارے  لیے  صاف بیان کر دے  وہ گائے  کیسی ہے  بیشک گایوں میں ہم کو شبہ پڑ گیا اور اللہ چاہے  تو ہم راہ پا جائیں گے  -(ف ۱۱۹)

۱۱۹             حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر وہ انشاء اللّٰہ نہ کہتے تو کبھی وہ گائے نہ پاتے

مسئلہ: ہر نیک کام میں انشاء اللّٰہ کہنا مستحب و باعث برکت ہے۔

(۷۱)  کہا وہ فرماتا ہے  کہ وہ ایک گائے  ہے  جس سے  خدمت نہیں لی جاتی کہ زمین جوتے  اور نہ کھیتی کو پانی دے  بے  عیب ہے  جس میں کوئی داغ نہیں بولے  اب آپ ٹھیک بات لائے  (ف  ۱۲۰) تو اسے  ذبح کیا اور (ذبح) کرتے  معلوم نہ ہوتے  تھے (ف ۱۲۱)

۱۲۰             یعنی اب تشفی ہوئی اور پوری شان و صفت معلوم ہوئی پھر انہوں نے گائے کی تلاش شروع کی ان اطراف میں ایسی صرف ایک گائے تھی اس کا حال یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں ایک صالح شخص تھے ان کا ایک صغیر السن بچہ تھا اور ان کے پاس سوائے ایک گائے کے بچے کے کچھ نہ رہا تھا انہوں نے اس کی گردن پر مہر لگا کر اللّٰہ کے نام پر چھوڑ دیا اور بارگاہِ حق میں عرض کیا یارب میں اس بچھیا کو اس فرزند کے لئے تیر ے پاس ودیعت رکھتا ہوں جب یہ فرزند بڑا ہو یہ اس کے کام آئے ان کا تو انتقال ہو گیا بچھیا جنگل میں بحفظ الٰہی پرورش پاتی رہی یہ لڑکا بڑا ہوا اور بفضلہ صالح و متقی ہوا ماں کا فرمانبردار تھا ایک روز اس کی والدہ نے کہا اے نورِ نظر تیرے باپ نے تیرے لئے فلاں جنگل میں خدا کے نام ایک بچھیا چھوڑ دی ہے وہ اب جوان ہو گئی اس کو جنگل سے لا اور اللّٰہ سے دعا کر کہ وہ تجھے عطا فرمائے لڑکے نے گائے کو جنگل میں دیکھا اور والدہ کی بتائی ہوئی علامتیں اس میں پائیں اور اس کو اللّٰہ کی قسم دے کر بلایا وہ حاضر ہوئی جوان اس کو والدہ کی خدمت میں لایا والدہ نے بازار میں لے جا کر تین دینار پر فروخت کرنے کا حکم دیا اور یہ شرط کی کہ سودا ہونے پر پھر اس کی اجازت حاصل کی جائے اس زمانہ میں گائے کی قیمت ان اطراف میں تین دینار ہی تھی جوان جب اس گائے کو بازار میں لایا تو ایک فرشتہ خریدار کی صورت میں آیا اور اس نے گائے کی قیمت چھ دینار لگا دی مگر اس شرط سے کہ جوان والدہ کی اجازت کا پابند نہ ہو جوان نے یہ منظور نہ کیا اور والدہ سے تمام قصہ کہا اس کی والدہ نے چھ دینار قیمت منظور کرنے کی تو اجازت دی مگر بیع میں پھر دوبارہ اپنی مرضی دریافت کرنے کی شرط کی جوان پھر بازار میں آیا اس مرتبہ فرشتہ نے بارہ دینار قیمت لگائی اور کہا کہ والدہ کی اجازت پر موقوف نہ رکھو جو ان نے نہ مانا اور والدہ کو اطلاع دی وہ صاحب فراست سمجھ گئی کہ یہ خریدار نہیں کوئی فرشتہ ہے جو آزمائش کے لئے آتا ہے۔ بیٹے سے کہا کہ اب کی مرتبہ اس خریدار سے یہ کہنا کہ آپ ہمیں اس گائے کے فروخت کرنے کا حکم دیتے ہیں یا نہیں۔ لڑکے نے یہی کہا فرشتہ نے جواب دیا کہ ابھی اس کو روکے رہو جب بنی اسرائیل خریدنے آئیں تو اس کی قیمت یہ مقرر کرنا کہ اس کی کھال میں سونا بھر دیا جائے جوان گائے کو گھر لایا اور جب بنی اسرائیل جستجو کرتے ہوئے اس کے مکان پر پہنچے تو یہی قیمت طے کی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ضمانت پر وہ گائے بنی اسرائیل کے سپرد کی مسائل اس واقعہ سے کئی مسئلے معلوم ہوئے۔

(۱) جو اپنے عیال کو اللّٰہ کے سپرد کرے اللّٰہ تعالیٰ اس کی ایسی عمدہ پرورش فرماتا ہے۔

(۲) جو اپنا مال اللّٰہ کے بھروسہ پر اس کی امانت میں دے اللّٰہ اس میں برکت دیتا ہے

 (۳) والدین کی فرمانبرداری اللّٰہ تعالیٰ کو پسند ہے۔

(۴) غیبی فیض قربانی و خیرات کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔

(۵) راہ خدا میں نفیس مال دینا چاہئے۔

(۶) گائے کی قربانی افضل ہے۔

۱۲۱             بنی اسرائیل کے مسلسل سوالات اور اپنی رسوائی کے اندیشہ اور گائے کی گرانی قیمت سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ وہ ذبح کا قصد نہیں رکھتے مگر جب ان کے سوالات شافی جوابوں سے ختم کر دیئے گئے تو انہیں ذبح کرنا ہی پڑا۔

(۷۲)  اور جب تم نے  ایک خون کیا تو ایک دوسرے  پر اس کی تہمت ڈالنے  لگے  اور اللہ کو ظاہر کرنا تھا جو تم  چھپاتے  تھے،

(۷۳) تو ہم نے   فرمایا اس مقتول کو اس گائے  کا ایک ٹکڑا مارو (ف ۱۲۲) اللہ یونہی مُردے  جلائے  گا۔ اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے  کہ کہیں تمہیں عقل ہو(ف ۱۲۳)

۱۲۲             بنی اسرائیل نے گائے ذبح کر کے اس کے کسی عضو سے مردہ کو مارا وہ بحکمِ الٰہی زندہ ہوا اس کے حلق سے خون کے فوارے جاری تھے اس نے اپنے چچازاد بھائی کو بتایا کہ اس نے مجھے قتل کیا اب اس کو بھی اقرار کرنا پڑا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس پر قصاص کا حکم فرمایا اس کے بعد شرع کا حکم ہوا کہ

مسئلہ: قاتل مقتول کی میراث سے محروم رہے گا

مسئلہ : لیکن اگر عادل نے باغی کو قتل کیا یا کسی حملہ آور سے جان بچانے کے لئے مدافعت کی اس میں وہ قتل ہو گیا تو مقتول کی میراث سے محروم نہ ہو گا۔

۱۲ٍ۳             اور تم سمجھو کہ بے شک اللّٰہ تعالیٰ مردے زندہ کرنے پر قادر ہے اور روز جزا مردوں کو زندہ کرنا اور حساب لینا حق ہے۔

(۷۴) پھر اس کے  بعد تمہارے  دل سخت ہو گئے  (ف ۱۲۴) تو وہ پتھروں کی مثل ہیں بلکہ ان سے  بھی زیادہ کرّے  اور پتھروں میں تو کچھ وہ ہیں جن سے  ندیاں بہہ نکلتی ہیں اور کچھ وہ ہیں جو پھٹ جاتے  ہیں تو ان سے  پانی نکلتا ہے  اور کچھ وہ ہیں جو اللہ کے  ڈر سے  گر پڑتے  ہیں (ف ۱۲۵) اور اللہ تمہارے  کوتکوں سے  بے  خبر نہیں،

۱۲۴             اور ایسے بڑے نشانہائے قدرت سے تم نے عبرت حاصل نہ کی۔

۱۲۵             بایں ہمہ تمہارے دل اثر پذیر نہیں پتھروں میں بھی اللّٰہ نے ادراک و شعور دیا ہے انہیں خوف الہی ہوتا ہے وہ تسبیح کرتے ہیں۔ اِنۡ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ مسلم شریف میں حضرت جابر رضی ا للہ عنہ سے مروی ہے کہ سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں جو بعثت سے پہلے مجھے سلام کیا کرتا تھا ترمذی میں حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے میں سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اطراف مکہ میں گیا جو درخت یا پہاڑ سامنے آتا تھا السلام علیک یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم عرض کرتا تھا۔

(۷۵) تو اے  مسلمانو! کیا تمہیں یہ طمع ہے  کہ یہ (یہودی) تمہارا یقین لائیں گے  اور ان میں  کا تو ایک گروہ وہ تھا کہ اللہ کا کلام سنتے  پھر سمجھنے  کے  بعد اسے  دانستہ بدل دیتے،(ف ۱۲۶)

۱۲۶             جیسے انہوں نے توریت میں تحریف کی اور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نعت بدل ڈالی۔

(۷۶) اور  جب مسلمانوں سے  ملیں تو کہیں ہم ایمان  لائے  (ف ۱۲۷) اور جب آپس میں اکیلے  ہوں تو کہیں وہ علم جو اللہ نے  تم پر کھولا مسلمانوں سے  بیان کیے  دیتے  ہو کہ اس سے  تمہارے  رب کے  یہاں تمہیں پر حجت لائیں کیا تمہیں عقل نہیں -

(۷۷) کیا تم نہیں جانتے  کہ اللہ جانتا ہے  جو کچھ وہ چھپاتے  ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے  ہیں -

۱۲۷             شان نُزول یہ آیت ان یہودیوں کی شان میں نازل ہوئی جو سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں تھے ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا یہودی منافق جب صحابہ کرام سے ملتے تو کہتے کہ جس پر تم ایمان لائے اس پر ہم بھی ایمان لائے تم حق پر ہو اور تمہارے آقا محمد مصطفیٰ ٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سچے ہیں ان کا قول حق ہے ہم ان کی نعت و صفت اپنی کتاب توریت میں پاتے ہیں ان لوگوں پر رؤساء یہود ملامت کرتے تھے اس کا بیان  وَاِذَا خَلَا بَعْضُھُمْ میں ہے۔(خازن) فائدہ اس سے معلوم ہوا کہ حق پوشی اور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے اوصاف کا چھپانا اور کمالات کا انکار کرنا یہود کا طریقہ ہے آج کل کے بہت سے گمراہوں کی یہی عادت ہے۔

(۷۸) اور ان میں کچھ اَن پڑھ ہیں کہ جو کتاب (ف ۱۲۸) کو نہیں جانتے  مگر زبانی  پڑھ لینا (ف ۱۲۹) یا کچھ اپنی من گھڑت اور وہ نرے  گمان میں ہیں -

۱۲۸             کتاب سے توریت مراد ہے۔

۱۲۹             امانی اُمنیہ کی جمع ہے اور اس کے معنی زبانی پڑھنے کے ہیں حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما سے مروی ہے کہ آیت کے معنی یہ ہیں کہ کتاب کو نہیں جانتے مگر صرف زبانی پڑھ لینا بغیر معنی سمجھے۔(خازن) بعضے مفسرین نے یہ معنی بھی بیان کیے ہیں کہ امانی سے وہ جھوٹی گھڑی ہوئی باتیں مراد ہیں جو یہودیوں نے اپنے علماء سے سن کر بے تحقیق مان لی تھیں۔

(۷۹) تو خرابی ہے  ان کے  لئے  جو کتاب اپنے  ہاتھ سے  لکھیں پھر کہہ دیں یہ خدا کے  پاس سے  ہے  کہ اس کے  عوض تھوڑے  دام حاصل کریں (ف ۱۳۰) تو خرابی ہے  ان کے  لئے  ان کے  ہاتھوں کے  لکھے  سے  اور خرابی ان کے  لئے  اس کمائی سے -

۱ٍ۳۰             شان نُزول : جب سید انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ طیبہ تشریف فرما ہوئے تو علماء توریت و رؤساء یہود کو قوی اندیشہ ہو گیا کہ ان کی روزی جاتی رہے گی اور سرداری مٹ جائے گی کیونکہ توریت میں حضور کا حلیہ اور اوصاف مذکور ہیں جب لوگ حضور کو اس کے مطابق پائیں گے فوراً ایمان لے آئیں گے اور اپنے علماء اور رؤساء کو چھوڑ دیں گے اس اندیشہ سے انہوں نے توریت میں تحریف و تغییر کر ڈالی اور حلیہ شریف بدل دیا۔ مثلاً توریت میں آپ کے اوصاف یہ لکھے تھے کہ آپ خوب رو ہیں بال خوب صورت آنکھیں سرمگیں قد میانہ ہے اس کو مٹا کر انہوں نے یہ بتایا کہ وہ بہت دراز قامت ہیں آنکھیں کنجی نیلی بال الجھے ہیں۔ یہی عوام کو سناتے یہی کتاب الہی کا مضمون بتاتے اور سمجھتے کہ لوگ حضور کو اس کے خلاف پائیں گے تو آپ پر ایمان نہ لائیں گے ہمارے گرویدہ رہیں گے اور ہماری کمائی میں فرق نہ آئے گا۔

(۸۰) اور بولے  ہمیں تو  آگ نہ چھوئے  گی مگر گنتی کے  دن (ف ۱۳۱) تم فرما دو کیا خدا سے  تم نے   کوئی عہد لے  رکھا ہے  جب تو اللہ ہرگز اپنا عہد خلاف نہ کرے  گا (ف ۱۳۲) یا خدا پر وہ بات کہتے  ہو جس کا تمہیں علم نہیں -

۱ٍ۳۱             شان نُزول : حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما سے مروی ہے کہ یہود کہتے تھے کہ وہ دوزخ میں ہرگز داخل نہ ہوں گے مگر صرف اتنی مدت کے لئے جتنے عرصے ان کے آباء و اجداد نے گو سالہ پوجا تھا اور وہ چالیس روز ہیں اس کے بعد وہ عذاب سے چھوٹ جائیں گی اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔

۱ٍ۳۲             کیونکہ کذب بڑا عیب ہے،اور عیب اللّٰہ تعالیٰ پر محال، لہذا اس کا کذب تو ممکن نہیں لیکن جب اللّٰہ تعالیٰ نے تم سے صرف چالیس روز کے عذاب کے بعد چھوڑ دینے کا وعدہ ہی نہیں فرمایا تو تمہارا قول باطل ہوا۔

(۸۱) ہاں کیوں نہیں جو گناہ کمائے  اور اس کی خطا اسے  گھیر لے  (ف ۱۳۳) وہ  دوزخ والوں میں ہے  انہیں ہمیشہ اس میں رہنا  -

(۸۲)  اور جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے  وہ  جنت والے  ہیں انہیں ہمیشہ اس میں رہنا  -

۱ٍ۳ٍ۳             اس آیت میں گناہ سے شرک و کفر مراد ہے اور احاطہ کرنے سے یہ مراد ہے کہ نجات کی تمام راہیں بند ہو جائیں اور کفر و شرک ہی پر اس کو موت آئے کیونکہ مومن خواہ کیسا بھی گنہگار ہو گناہوں سے گھرا نہیں ہوتا اس لئے کہ ایمان جو اعظم طاعت ہے وہ اس کے ساتھ ہے۔

(۸۳) اور جب ہم نے  بنی اسرائیل سے  عہد لیا کہ اللہ کے  سوا کسی کو نہ پوجو  اور ماں باپ کے  ساتھ بھلائی کرو، (ف ۱۳۴) اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں سے  اور لوگوں سے  اچھی بات کہو (ف ۱۳۵) اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو پھر تم پھِر گئے  (ف ۱۳۶) مگر تم میں کے  تھوڑے  (ف ۱۳۷) اور تم رد گردان ہو-(ف ۱۳۸)

۱ٍ۳۴             اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کا حکم فرمانے کے بعد والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ والدین کی خدمت بہت ضروری ہے والدین کے ساتھ بھلائی کے یہ معنیٰ ہے کہ ایسی کوئی بات نہ کہے اور ایسا کوئی کام نہ کرے جس سے انہیں ایذا ہو اور اپنے بدن و مال سے ان کی خدمت میں دریغ نہ کرے جب انہیں ضرورت ہو ان کے پاس حاضر رہے

 مسئلہ: اگر والدین اپنی خدمت کے لئے نوافل چھوڑنے کا حکم دیں تو چھوڑ دے ان کی خدمت نفل سے مقدم ہے۔

مسئلہ: واجبات والدین کے حکم سے ترک نہیں کیے جا سکتے والدین کے ساتھ احسان کے طریقے جو احادیث سے ثابت ہیں یہ ہیں کہ تہ دل سے ان کے ساتھ محبت رکھے رفتار و گفتار میں نشست و برخاست میں ادب لازم جانے ان کی شان میں تعظیم کے لفظ کہے ان کو راضی کرنے کی سعی کرتا رہے اپنے نفیس مال کو ان سے نہ بچائے ان کے مرنے کے بعد ان کی وصیتیں جاری کرے ان کے لئے فاتحہ صدقات تلاوت قرآن سے ایصال ثواب کرے اللّٰہ تعالیٰ سے ان کی مغفرت کی دعا کرے، ہفتہ وار ان کی قبر کی زیارت کرے۔(فتح العزیز) والدین کے ساتھ بھلائی کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر وہ گناہوں کے عادی ہوں یا کسی بد مذہبی میں گرفتار ہوں تو ان کو بہ نرمی اصلاح و تقویٰ اور عقیدہ حقہ کی طرف لانے کی کوشش کرتا رہا۔(خازن)۔

۱ٍ۳۵             اچھی بات سے مراد نیکیوں کی ترغیب اور بدیوں سے روکنا ہے حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ معنی یہ ہیں کہ سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں حق اور سچ بات کہو اگر کوئی دریافت کرے تو حضور کے کمالات و اوصاف سچائی کے ساتھ بیان کر دو۔ آپ کی خوبیاں نہ چھپاؤ۔

۱ٍ۳۶             عہد کے بعد۔

۱ٍ۳۷             جو ایمان لے آئے مثل حضرت عبداللّٰہ بن سلام اور ان کے اصحاب کے انہوں نے تو عہد پورا کیا۔

۱ٍ۳۸             اور تمہاری قوم کی عادت ہی اعراض کرنا اور عہد سے پھر جانا ہے۔

(۸۴) اور جب ہم نے  تم سے  عہد لیا کہ اپنوں کا خون نہ کرنا اور اپنوں کو اپنی بستیوں سے  نہ نکالنا پھر تم نے  اس کا اقرار کیا اور تم گواہ ہو-

(۸۵) پھر یہ جو تم ہو اپنوں کو قتل کرنے  لگے  اور اپنے  میں سے  ایک گروہ کو ان کے   وطن سے  نکالتے  ہو ان پر مدد دیتے  ہو (ان کے  مخالف کو) گناہ اور زیادتی میں اور اگر وہ قیدی ہو کر تمہارے  پاس آئیں تو  بدلا دے  کر چھڑا لیتے  ہو اور ان کا نکالنا تم پر حرام ہے  (ف ۱۳۹) تو کیا خدا کے  کچھ حکموں پر ایمان لاتے  ہو اور کچھ سے  انکار کرتے  ہو تو جو تم میں ایسا کرے  اس کا بدلہ کیا ہے  مگر یہ کہ دنیا میں رسوا ہو (ف ۱۴۰) اور قیامت میں سخت تر عذاب کی طرف پھیرے  جائیں گے  اور اللہ تمہارے  کوتکوں سے  بے  خبر نہیں -(ف ۱۴۱)

۱ٍ۳۹             شانِ نُزول : توریت میں بنی اسرائیل سے عہد لیا گیا تھا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کریں وطن سے نہ نکالیں اور جو بنی اسرائیل کسی کی قید میں ہو اس کو مال دے کر چھڑا لیں اس عہد پر انہوں نے اقرار بھی کیا اپنے نفس پر شاہد بھی ہوئے لیکن قائم نہ رہے اور اس سے پھر گئے صورت واقعہ یہ ہے کہ نواح مدینہ میں یہود کے دو فرقے بنی قُرَیْظَہ اور بنی نُضَیْر سکونت رکھتے تھے اور مدینہ شریف میں دو فرقے اَوْس و خَزْرَج  رہتے تھے بنی قریظہ اوس کے حلیف تھے اور بنی نضیر خزرج کے یعنی ہر ایک قبیلہ نے اپنے حلیف کے ساتھ قسما قسمی کی تھی کہ اگر ہم میں سے کسی پر کوئی حملہ آور ہو تو دوسرا اس کی مدد کرے گا اوس اور خزرج باہم جنگ کرتے تھے بنی قریظہ اوس کی اور بنی نضیر خزرج کی مدد کے لئے آتے تھے اور حلیف کے ساتھ ہو کر آپس میں ایک دوسرے پر تلوار چلاتے تھے بنی قریظہ بنی نضیر کو اور وہ بنی قریظہ کو قتل کرتے تھے اور انکے گھر ویران کر دیتے تھے انہیں ان کے مساکین سے نکال دیتے تھے لیکن جب انکی قوم کے لوگوں کو ان کے حلیف قید کرتے تھے تو وہ ان کو مال دے کر چھڑا لیتے تھے مثلاً اگر بنی نضیر کا کوئی شخص اوس کے ہاتھ میں گرفتار ہوتا تو بنی قریظہ اوس کو مالی معاوضہ دے کر اس کو چھڑا لیتے باوجود یکہ اگر وہی شخص لڑائی کے وقت انکے موقعہ پر آ جاتا تو اس کے قتل میں ہر گز دریغ نہ کرتے اس فعل پر ملامت کی جاتی ہے کہ جب تم نے اپنوں کی خونریزی نہ کرنے ان کو بستیوں سے نہ نکالنے ان کے اسیروں کو چھڑانے کا عہد کیا تھا اس کے کیا معنی کہ قتل و اخراج میں تو درگزر نہ کرو اور گرفتار ہو جائیں۔ تو چھڑاتے پھر و عہد میں سے کچھ ماننا اور کچھ نہ ماننا کیا معنی رکھتا ہے۔ جب تم قتل و اخراج سے باز نہ رہے تو تم نے عہد شکنی کی اور حرام کے مرتکب ہوئے اور اس کو حلال جان کر کافر ہو گئے۔

مسئلہ: اس آیت سے معلوم ہوا کہ ظلم و حرام پر امداد کرنا بھی حرام ہے

مسئلہ:یہ بھی معلوم ہوا کہ حرام قطعی کو حلال جاننا کفر ہے۔

مسئلہ :یہ بھی معلوم ہوا کہ کتاب الہی کے ایک حکم کا نہ ماننا بھی ساری کتاب کا نہ ماننا اور کفر ہے فائدہ اس میں یہ تنبیہ بھی ہے کہ جب احکام الہی میں سے بعض کا ماننا بعض کا نہ ماننا کفر ہوا تو یہود کا حضرت سید انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کا انکار کرنے کے ساتھ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کو ماننا کفر سے نہیں بچا سکتا۔

۱۴۰             دنیا میں تو یہ رسوائی ہوئی کہ بنی قریظہ ۳ ہجری میں مارے گئے ایک روز میں ا ن کے سات سو آدمی قتل کیے گئے تھے اور بنی نضیر اس سے پہلے ہی جلا وطن کر دیئے گئے، حلیفوں کی خاطر عہد الہی کی مخالفت کا یہ وبال تھا

مسئلہ: اس سے معلوم ہوا کہ کسی کی طرفداری میں دین کی مخالفت کرنا علاوہ اخروی عذاب کے دنیا میں بھی ذلت و رسوائی کا باعث ہوتا ہے۔

۱۴۱             اس میں جیسی نافرمانوں کے وعید شدید ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ تمہارے افعال سے بے خبر نہیں ہے،تمہاری نافر مانیوں پر عذاب شدید فرمائے گا ایسے ہی اس آیت میں مؤمنین و صالحین کے لئے مژدہ ہے کہ انہیں اعمال حسنہ کی بہترین جزاء ملے گی (تفسیر کبیر)۔

(۸۶) یہ ہیں وہ لوگ جنہوں نے  آخرت کے  بدلے  دنیا کی زندگی مول لی تو نہ ان پر سے  عذاب ہلکا ہو اور نہ ان کی مدد کی جائے  -

(۸۷) اور بے  شک ہم نے  موسیٰ کو کتاب عطا کی (ف ۱۴۲) اور اس کے  بعد پے  در پے  رسول بھیجے  (ف  ۱۴۳) اور ہم نے  عیسیٰ بن مریم کو کھیلی نشانیاں عطا فرمائیں (ف ۱۴۴) اور پاک روح سے  (ف ۱۴۵) اس کی مدد کی (ف ۱۴۶) تو کیا جب تمہارے  پاس کوئی رسول وہ لے  کر آئے  جو تمہارے  نفس کی خواہش نہیں تکبر کرتے  ہو تو ان (انبیاء)  میں ایک گروہ کو تم جھٹلاتے  ہو اور ایک گروہ کو شہید کرتے  ہو -(ف ۱۴۷)

۱۴۲             اس کتاب سے توریت مراد ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ کے تمام عہد مذکور تھے سب سے اہم عہد یہ تھے کہ ہر زمانہ کے پیغمبروں کی اطاعت کرنا ان پر ایمان لانا اور ان کی تعظیم و توقیر کرنا۔

۱۴۳             حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک متواتر انبیاء آتے رہے ان کی تعداد چار ہزار بیان کی گئی ہے یہ سب حضرات شریعت موسوی کے محافظ اور اس کے احکام جاری کرنے والے تھے چونکہ خاتم الانبیاء کے بعد نبوت کسی کو نہیں مل سکتی اس لئے شریعت محمدیہ کی حفاظت و اشاعت کی خدمت ربانی علماء اور مجددین ملت کو عطا ہوئی۔

۱۴۴             ان نشانیوں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات مراد ہیں جیسے مردے زندہ کرنا،اندھے اور برص والے کو اچھا کرنا،پرند پیدا کرنا،غیب کی خبر دینا وغیرہ۔

۱۴۵             روح القدس سے حضرت جبریل علیہ السلام مراد ہیں کہ روحانی ہیں وحی لاتے ہیں جس سے قلوب کی حیات ہے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے ساتھ رہنے پر مامور تھے۔ آپ ۳۳ سال کی عمر شریف میں آسمان پر اٹھا لئے گئے اس وقت تک حضرت جبریل علیہ السلام سفر حضر میں کبھی آپ سے جدا نہ ہوئے۔ تائید روح القدس حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی جلیل فضیلت ہے سید عالم کے صدقہ میں حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے بعض امتیوں کو بھی تائید روح القدس میسر ہوئی صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ حضرت حسان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے لئے منبر بچھایا جاتا وہ نعت شریف پڑھتے حضور ان کے لئے فرماتے  اَللّٰھُمَّ اَیِّدْہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ۔

۱۴۶             پھر بھی اے یہود تمہاری سرکشی میں فرق نہ آیا۔

۱۴۷             یہود پیغمبروں کے احکام اپنی خواہشوں کے خلاف پا کر انہیں جھٹلاتے اور موقع پاتے تو قتل کر ڈالتے تھے،جیسے کہ انہوں نے حضرت شعیا  اور زکریا اور بہت انبیاء کو شہید کیا سید انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے بھی درپے رہے کبھی آپ پر جادو کیا کبھی زہر دیا طرح طرح کے فریب بارادہ قتل کیے۔

(۸۸)  اور یہودی بولے  ہمارے  دلوں پر پردے  پڑے  ہیں (ف ۱۴۸) بلکہ اللہ نے  ان پر لعنت کی ان کے  کفر کے  سبب تو ان میں تھوڑے  ایمان لاتے  ہیں - (ف ۱۴۹)

۱۴۸             یہود نے یہ استہزاء ً کہا تھا ان کی مراد یہ تھی کہ حضور کی ہدایت کو ان کے دلوں تک راہ نہیں ہے اللّٰہ تعالیٰ نے اس کا رد فرمایا کہ بے دین جھوٹے ہیں، قلوب اللّٰہ تعالیٰ نے فطرت پر پیدا فرمائے ان میں قبول حق کی لیاقت رکھی انکے کفر کی شامت ہے کہ انہوں نے سید انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کا اعتراف کرنے کے بعد انکار کیا اللّٰہ تعالیٰ نے ان پر لعنت فرمائی اس کا اثر ہے کہ قبول حق کی نعمت سے محروم ہو گئے۔

۱۴۹             یہی مضمون دوسری جگہ ارشاد ہوا:۔ بَلْ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیْھَا بِکُفْرِھِمْ فَلاَ یُؤْمِنُوْنَ اِلَّا قَلِیْلاً۔

(۸۹) اور جب ان کے  پاس اللہ کی وہ کتاب (قرآن) آئی جو ان کے  ساتھ وا لی کتاب (توریت) کی تصدیق فرماتی ہے  (ف ۱۵۰) اور اس سے  پہلے  وہ اسی نبی کے  وسیلہ سے  کافروں پر فتح مانگتے  تھے  (ف ۱۵۱) تو جب تشریف لایا انکے  پاس وہ  جانا پہچانا اس سے  منکر ہو بیٹھے  (ف ۱۵۲) تو اللہ کی لعنت منکروں پر -

۱۵۰             سید انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت اور حضور کے اوصاف کے بیان میں ( کبیر و خازن)۔

۱۵۱             شانِ نُزول : سیدِ انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی بعثت اور قرآن کریم کے نُزول سے قبل یہود اپنے حاجات کے لئے حضور کے نام پاک کے وسیلہ سے دعا کرتے اور کامیاب ہوتے تھے اور اس طرح دعا کیا کرتے تھے :۔ ِِاَللّٰھُمَّ افْتَحْ عَلَیْنَا وَانْصُرْنَا بِالنَّبِیِّ الْاُ مِّیِّ  یارب ہمیں نبی امی کے صدقہ میں فتح و نصرت عطا فرما

مسئلہ: اس سے معلوم ہوا کہ مقبولان حق کے وسیلہ سے دعا قبول ہوتی ہے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضور سے قبل جہان میں حضور کی تشریف آوری کا شہرہ تھا اس وقت بھی حضور کے وسیلہ سے خلق کی حاجت روائی ہوتی تھی۔

۱۵۲             یہ انکار عناد و حسد اور حبِّ ریاست کی وجہ سے تھا۔

(۹۰)کس برے  مولوں انہوں نے  اپنی جانوں کو خریدا کہ اللہ کے  اتارے  سے  منکر ہوں (ف ۱۵۳) اس کی جلن سے  کہ اللہ اپنے  فضل سے  اپنے  جس بندے  پر چاہے  وحی اتار لے  (ف ۱۵۴) تو غضب پر غضب کے  سزاوار ہوئے  (ف ۱۵۵) اور کافروں کے  لیے  ذلت کا عذاب ہے  -(ف ۱۵۶)

۱۵۳             یعنی آدمی کو اپنی جان کی خلاصی کے لئے وہی کرنا چاہئے جس سے رہائی کی امید ہو یہود نے یہ برا سودا کیا کہ اللّٰہ کے نبی اور اسکی کتاب کے منکر ہو گئے۔

۱۵۴             یہود کی خواہش تھی کہ ختمِ نبوت کا منصب بنی اسرائیل میں سے کسی کو ملتا جب دیکھا کہ وہ محروم رہے بنی اسمٰعیل نوازے گئے تو حسد سے منکر ہو گئے

مسئلہ: اس سے معلوم ہوا کہ حسد حرام اور محرومیوں کا باعث ہے۔

۱۵۵             یعنی انواع و اقسام کے غضب کے سزاوار ہوئے۔

۱۵۶             اس سے معلوم ہوا کہ ذلت و اہانت والا عذاب کفار کے ساتھ خاص ہے مومنین کو گناہوں کی وجہ سے عذاب ہوا بھی تو ذلت و اہانت کے ساتھ نہ ہو گا اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا : وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ۔

(۹۱) اور جب ان سے  کہا جائے  کہ اللہ کے  اتارے  پر ایمان لاؤ (ف ۱۵۷) تو کہتے  ہیں وہ جو ہم پر اترا اس پر ایمان لاتے  ہیں (ف ۱۵۸) اور باقی سے  منکر ہوتے  ہیں حالانکہ وہ حق ہے  ان کے  پاس والے  کی تصدیق فرماتا ہوا (ف ۱۵۹) تم فرماؤ کہ پھر اگلے  انبیاء کو کیوں شہید کیا اگر تمہیں اپنی کتاب پر ایمان تھا -(ف ۱۶۰)

۱۵۷             اس سے قرآن پاک اور تمام وہ کتابیں اور صحائف مراد ہیں جو اللّٰہ تعالیٰ نے نازل فرمائے یعنی سب پر ایمان لاؤ۔

۱۵۸             اس سے ان کی مراد توریت ہے۔

۱۵۹             یعنی توریت پر ایمان لانے کا دعویٰ غلط ہے چونکہ قرآن پاک جو توریت کا مصدق ہے اس کا انکار توریت کا انکار ہو گیا۔

۱۶۰             اس میں بھی ان کی تکذیب ہے، کہ اگر توریت پر ایمان رکھتے تو انبیاء علیہم السلام کو ہر گز شہید نہ کرتے۔

(۹۲) اور بیشک تمہارے  پاس موسیٰ کھلی نشانیاں لے  کر تشریف لایا پھر تم نے  اس کے  بعد (ف ۱۶۱) بچھڑے   کو معبود بنا لیا اور تم ظالم تھے -(ف ۱۶۲)

۱۶۱             یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے طور پر تشریف لے جانے کے بعد۔

۱۶۲             اس میں بھی ان کی تکذیب ہے کہ شریعت موسوی کے ماننے کا دعویٰ جھوٹا ہے اگر تم مانتے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عصا اور ید بیضا وغیرہ کھلی نشانیوں کے دیکھنے کے بعد گوسالہ پرستی نہ کرتے۔

(۹۳) اور (یاد کرو) جب ہم نے  تم سے  پیمان لیا (ف ۱۶۳) او ر  کوہ ِ طور کو تمہارے  سروں پر بلند کیا، لو جو ہم تمہیں دیتے  ہیں زور سے  اور سنو بولے  ہم نے  سنا اور نہ  مانا  اور ان کے  دلوں میں بچھڑا رچ رہا تھا ان کے  کفر کے  سبب تم فرما دو کیا برا حکم دیتا ہے  تم کو تمہارا  ایمان اگر ایمان رکھتے  ہو-(ف ۱۶۴)

۱۶۳             توریت کے احکام پر عمل کرنے کا۔

۱۶۴             اس میں بھی ان کے دعوائے ایمان کی تکذیب ہے۔

(۹۴) تم فرماؤ اگر پچھلا گھر اللہ کے  نزدیک خالص تمہارے  لئے  ہو، نہ اوروں کے  لئے  تو بھلا موت کی آرزو تو کرو اگر سچے  ہو-(ف ۱۶۵)

۱۶۵             یہود کے باطل دعاوی میں سے ایک یہ دعویٰ تھا کہ جنتِ خاص انہی کے لئے ہے اس کا رد فرمایا جاتا ہے کہ اگر تمہارے زعم میں جنت تمہارے لئے خاص ہے اور آخرت کی طرف سے تمہیں اطمینان ہے اعمال کی حاجت نہیں تو جنتی نعمتوں کے مقابلہ میں دنیوی مصائب کیوں برداشت کرتے ہو موت کی تمنا کرو کہ تمہارے دعویٰ کی بنا پر تمہارے لئے باعث راحت ہے اگر تم نے موت کی تمنا نہ کی تو یہ تمہارے کذب کی دلیل ہو گی حدیث شریف میں ہے کہ اگر وہ موت کی تمنا کرتے تو سب ہلاک ہو جاتے اور روئے زمین پر کوئی یہودی باقی نہ رہتا۔

(۹۵) اور ہرگز کبھی اس کی آرزو نہ کریں گے  (ف ۱۶۶) ان بد اعمالیوں کے  سبب جو آگے  کر چکے  (ف ۱۶۷) اور اللہ خوب جانتا ہے  ظالموں کو-

۱۶۶             یہ غیب کی خبر اور معجزہ ہے کہ یہود باوجود نہایت ضد اور شدت مخالفت کے بھی تمنائے موت کا لفظ زبان پر نہ لاسکے۔

۱۶۷             جیسے نبی آخر الزمان اور قرآن کے ساتھ کفر اور توریت کی تحریف وغیرہ

مسئلہ : موت کی محبت اور لقائے پروردگار کا شوق اللّٰہ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ ہر نماز کے بعد دعا فرماتے  اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِی شَھَادَۃً فِی سَبِیْلِکَ وَوَفَاۃً بِبَلَدِ رَسُولِک یارب مجھے اپنی راہ میں شہادت اور اپنے رسول کے شہر میں وفات نصیب فرما بالعموم تمام صحابہ کُبّار اور بالخصوص شہدائے بدر واحد و اصحابِ بیعت رضوان موت فی سبیل اللّٰہ کی محبت رکھتے تھے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللّٰہ عنہ نے لشکر کفار کے سردار رستم بن فرخ زاد کے پاس جو خط بھیجا اس میں تحریر فرمایا تھا  اِنَّ مَعِیَ قُوْمٌ یُّحِبُّوْنَ الْمَوْتَ کَمَا یُحِبُّ الَْاعَاجِمُ الْخَمَرََ یعنی میرے ساتھ ایسی قوم ہے جو موت کو اتنا محبوب رکھتی ہے جتنا عجمی شراب کو اس میں لطیف اشارہ تھا کہ شراب کی ناقص مستی کو محبت دنیا کے دیوانے پسند کرتے ہیں اور اہلُ اللّٰہ موت کو محبوب حقیقی کے وصال کا ذریعہ سمجھ کر محبوب جانتے ہیں،فی الجملہ اہل ایمان آخرت کی رغبت رکھتے ہیں اور اگر طول حیات کی تمنا بھی کریں تو وہ اس لئے ہوتی ہے کہ نیکیاں کرنے کے لئے کچھ اور عرصہ مل جائے جس سے آخرت کے لئے ذخیرۂ سعادت زیادہ کر سکیں اگر گزشتہ ایام میں گناہ ہوئے ہیں تو ان سے توبہ و استغفار کر لیں

مسئلہ: صحاح کی حدیث میں ہے کوئی دنیوی مصیبت سے پریشان ہو کر موت کی تمنا نہ کرے اور درحقیقت حوادث دنیا سے تنگ آ کر موت کی دعا کرنا صبر و رضا و تسلیم و توکل کے خلاف و ناجائز ہے۔

(۹۶) اور بیشک تم ضرور انہیں پاؤ گے  کہ سب لوگوں سے  زیادہ جینے  کی ہوس رکھتے  ہیں اور مشرکوں سے  ایک کو تمنا ہے  کہ کہیں ہزار برس جئے  (ف ۱۶۸) اور وہ اسے  عذاب سے  دور نہ کرے  گا اتنی عمر دیا جانا اور اللہ ان کے  کوتک دیکھ رہا ہے،

۱۶۸             مشرکین کا ایک گروہ مجوسی ہے آپس میں تحیت و سلام کے موقع پر کہتے ہیں زہ ہزار سال  یعنی ہزار برس جیو مطلب یہ ہے کہ مجوسی مشرک ہزار برس جینے کی تمنا رکھتے ہیں یہودی ان سے بھی بڑھ گئے کہ انہیں حرص و زندگانی سب سے زیادہ ہے۔

(۹۷) تم فرما دو جو کوئی جبریل کا دشمن ہو (ف ۱۶۹) تو اس (جبریل) نے  تو تمہارے  دل پر اللہ کے  حکم سے  یہ قرآن اتارا  اگلی کتابوں کی تصدیق فرماتا اور ہدایت و بشارت مسلمانوں کو-(ف ۱۷۰)

۱۶۹             شان نُزول : یہودیوں کے عالم عبداللّٰہ بن صوریا نے حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا آپ کے پاس آسمان سے کون فرشتہ آتا ہے فرمایا جبریل ابن صوریا نے کہا وہ ہمارا دشمن ہے عذاب شدت اور خسف اتارتا ہے کئی مرتبہ ہم سے عداوت کر چکا ہے اگر آپ کے پاس میکائیل آتے تو ہم آپ پر ایمان لے آتے۔

۱۷۰             تو یہود کی عداوت جبریل کے ساتھ بے معنیٰ ہے بلکہ اگر انہیں انصاف ہوتا تو وہ جبریل امین سے محبت کرتے اور ان کے شکر گزار ہوتے کہ وہ ایسی کتاب لائے جس سے ان کی کتابوں کی تصدیق ہوتی ہے۔ اور  بُشْریٰ لِلْمُؤْمِنِیْنَ فرمانے میں یہود کا رد ہے کہ اب تو جبریل ہدایت و بشارت لا رہے ہیں پھر بھی تم عداوت سے باز نہیں آتے۔

(۹۸) جو کوئی دشمن ہو اللہ اور اس کے  فرشتوں اور اس کے  رسولوں اور جبریل اور میکائیل کا تو  اللہ دشمن ہے  کافروں کا (ف ۱۷۱) 

۱۷۱             اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء و ملائکہ کی عداوت کفر اور غضب الٰہی کا سبب ہے، اور محبوبان حق سے دشمنی خدا سے دشمنی کرنا ہے۔

(۹۹)  اور بیشک ہم نے  تمہاری طرف روشن آیتیں اتاریں (ف ۱۷۲) اور ان کے  منکر نہ ہوں گے  مگر فاسق لوگ -

۱۷۲             شا نِ نُزول : یہ آیت ابن صوریا یہودی کے جواب میں نازل ہوئی جس نے حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا تھا کہ اے محمد آپ ہمارے پاس کوئی ایسی چیز نہ لائے جسے ہم پہچانتے اور نہ آپ پر کوئی واضح آیت نازل ہوئی جس کا ہم اتباع کرتے۔

(۱۰۰) اور کیا جب کبھی کوئی عہد کرتے  ہیں ان میں کا  ایک  فریق اسے  پھینک دیتا ہے  بلکہ ان میں بہتیروں کو ایمان نہیں -(ف ۱۷۳)

۱۷۳             شان نُزول : یہ آیت مالک بن صیف یہود ی کے جواب میں نازل ہوئی جب حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے یہود کو اللّٰہ تعالیٰ کے وہ عہد یاد دلائے جو حضور پر ایمان لانے کے متعلق کیے تھے تو ابن صیف نے عہد ہی کا انکار کر دیا۔

(۱۰۱) اور جب ان کے  پاس تشریف لایا اللہ  کے  یہاں سے  ایک رسول (ف ۱۷۴) ان کی کتابوں کی تصدیق فرماتا (ف ۱۷۵) تو کتاب والوں سے  ایک  گروہ نے  اللہ کی کتاب پیٹھ پیچھے  پھینک دی (ف ۱۷۶) گویا وہ کچھ علم ہی نہیں رکھتے  -(ف ۱۷۷)

۱۷۴             یعنی سید عالم محمد مصطفیٰ  صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم۔

۱۷۵             سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم توریت زبور وغیرہ کی تصدیق فرماتے تھے اور خود ان کی کتابوں میں بھی حضور کی تشریف آوری کی بشارت اور آپ کے اوصاف و احوال کا بیان تھا اس لئے حضور کی تشریف آوری اور آپ کا وجود مبارک ہی ان کتابوں کی تصدیق ہے تو حال اس کا مقتضی تھا کہ حضور کی آمد پر اہل کتاب کا ایمان اپنی کتابوں کے ساتھ اور زیادہ پختہ ہوتا مگر اس کے برعکس انہوں نے اپنی کتابوں کے ساتھ بھی کفر کیا، سدی کا قول ہے کہ جب حضور کی تشریف آوری ہوئی تو یہود نے توریت سے مقابلہ کر کے توریت و قرآن کو مطابق پایا تو توریت کو بھی چھوڑ دیا۔

۱۷۶             یعنی اس کتاب کی طرف بے التفاتی کی، سفیان بن عینیہ کا قول ہے کہ یہود نے توریت کو حریر و دیبا کے ریشمی غلافوں میں زر وسیم کے ساتھ مطلّا و مزیّن کر کے رکھ لیا اور اس کے احکام کو نہ مانا۔

۱۷۷             ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود کے چار فرقے تھے ایک توریت پر ایمان لایا اور اس نے اس کے حقوق کو بھی ادا کیا یہ مومنین اہل کتاب ہیں ان کی تعداد تھوڑ ی ہے اور  اَکْثَرُ ھُمْ سے ان کا پتا چلتا ہے دوسرا فرقہ جس نے بالاعلان توریت کے عہد توڑے اس کے حدود سے باہر ہوئے سرکشی اختیار کی  نَبَذَہ، فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ  میں ان کا بیان ہے تیسرا فرقہ وہ جس نے عہد شکنی کا اعلان تو نہ کیا لیکن اپنی جہالت سے عہد شکنی کرتے رہے انکا ذکر  بَل اَکْثَرُ ھُم لَا یُؤمِنُوْنَ  میں ہے۔ چوتھے فرقے نے ظاہری طور پر تو عہد مانے اور باطن میں بغاوت و عناد سے مخالفت کرتے رہے یہ تصنع سے جاہل بنتے تھے۔ کَاَنَّھُمْ لَایَعْلَمُوْنَ میں ان پر دلالت ہے۔

(۱۰۲) اور اس کے  پیرو ہوئے  جو شیطان پڑھا کرتے  تھے  سلطنت سلیمان کے  زمانہ میں (ف ۱۷۸) اور سلیمان نے  کفر نہ کیا (ف ۱۷۹) ہاں شیطان کافر ہوئے  (ف ۱۸۰) لوگوں کو جادو سکھاتے  ہیں اور وہ (جادو) جو بابل میں دو فرشتوں  ہاروت و  ماروت پر اترا اور وہ  دونوں کسی کو کچھ نہ سکھاتے  جب تک یہ نہ کہہ لیتے  کہ ہم تو نری آزمائش ہیں تو اپنا  ایمان نہ کھو (ف ۱۸۱) تو ان سے  سیکھتے  وہ جس سے  جدائی ڈا لیں مرد اور اس کی عورت میں اور اس سے  ضرر نہیں پہنچا سکتے  کسی کو مگر خدا کے  حکم سے  (ف ۱۸۲) اور وہ سیکھتے  ہیں جو انہیں نقصان دے  گا نفع نہ دے  گا  اور بیشک ضرور انہیں معلوم ہے  کہ جس نے  یہ سودا لیا آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں اور بیشک کیا بری چیز ہے  وہ جس کے  بدلے  انہوں نے  اپنی جانیں بیچیں کسی طرح انہیں علم ہوتا- (ف ۱۸۳)

۱۷۸             شان نُزول : حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں بنی اسرائیل جادو سیکھنے میں مشغول ہوئے تو آپ نے ان کو اس سے روکا اور ان کی کتابیں لے کر اپنی کرسی کے نیچے دفن کر دیں۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے کی وفات کے بعد شیاطین نے وہ کتابیں نکلوا کر لوگوں سے کہا کہ سلیمان علیہ السلام اسی کے زور سے سلطنت کرتے تھے بنی اسرائیل کے صلحاء و علماء نے تو اس کا انکار کیا لیکن ان کے جہال جادو کو حضرت سلیمان علیہ السلام کا علم بتا کر اس کے سیکھنے پر ٹوٹ پڑے۔ انبیاء کی کتابیں چھوڑ دیں اور حضرت سلیمان علیہ السلام پر ملامت شروع کی سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ تک اسی حال پر رہے اللّٰہ تعالیٰ نے حضور پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی براءت میں یہ آیت نازل فرمائی۔

۱۷۹             کیونکہ وہ نبی ہیں اور انبیاء کفر سے قطعاً معصوم ہوتے ہیں ان کی طرف سحر کی نسبت باطل و غلط ہے کیونکہ سحر کا کفریات سے خالی ہونا نادر ہے۔

۱۸۰             جنہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام پر جادو گری کی جھوٹی تہمت لگائی۔

۱۸۱             جنہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام پر جادو گری کی جھوٹی تہمت لگائی۔ یعنی جادو سیکھ کر اور اس پر عمل و اعتقاد کر کے اور اس کو مباح جان کر کافر نہ بن یہ جادو فرماں بردار و نافرمان کے درمیان امتیاز و آزمائش کے لئے نازل ہوا جو اس کو سیکھ کر اس پر عمل کرے کافر ہو جائے گا بشرطیکہ اس جادو میں منافی ایمان کلمات و افعال ہوں جو اس سے بچے نہ سیکھے یا سیکھے اور اس پر عمل نہ کرے اور اس کے کفریات کا معتقد نہ ہو وہ مومن رہے گا یہی امام ابو منصور ما تریدی کا قول ہے مسئلہ جو سحر کفر ہے اس کا عامل اگر مرد ہو قتل کر دیا جائے گا

مسئلہ: جو سحر کفر نہیں مگر اس سے جانیں ہلاک کی جاتی ہیں اس کا عامل قطاَّع طریق کے حکم میں ہے مرد ہو یا عورت

مسئلہ :جادو گر کی توبہ قبول ہے (مدارک)۔

۱۸۲             مسئلہ : اس سے معلوم ہوا مؤثر حقیقی اللّٰہ تعالیٰ ہے اور تاثیر اسباب تحت مشیت ہے۔

۱۸۳             اپنے انجام کار و شدت عذاب کا۔

(۱۰۳) اور اگر وہ ایمان لاتے  (ف ۱۸۴) اور پرہیز گاری کرتے  تو اللہ کے  یہاں کا ثواب بہت اچھا ہے  کسی طرح انہیں علم ہوتا -

۱۸۴             حضرت سید کائنات صلی اللّٰہ علیہ و سلم اور قرآنِ پاک پر۔

(۱۰۴)  اے  ایمان والو!  (ف ۱۸۵)  راعنا  نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے  ہی سے  بغور سنو (ف ۱۸۶) اور کافروں کے  لئے  دردناک عذاب ہے - (ف ۱۸۷)

۱۸۵             شانِ نُزول : جب حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم صحابہ کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ کبھی کبھی درمیان میں عرض کیا کرتے۔ رَاعِنَا یارسول اللّٰہ  اس کے یہ معنی تھے کہ یا رسول اللّٰہ ہمارے حال کی رعایت فرمائیے یعنی کلام اقدس کو اچھی طرح سمجھ لینے کا موقع دیجئے یہود کی لغت میں یہ کلمہ سوءِ ادب کے معنی رکھتا تھا انہوں نے اس نیت سے کہنا شروع کیا حضرت سعد بن معاذ یہود کی اصطلاح سے واقف تھے آپ نے ایک روز یہ کلمہ ان کی زبان سے سن کر فرمایا اے دشمنان خدا تم پر اللّٰہ کی لعنت اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ کلمہ سنا اس کی گردن ماردوں گا یہود نے کہا ہم پر تو آپ برہم ہوتے ہیں مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں اس پر آپ رنجیدہ ہو کر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں رَاعِنَا کہنے کی ممانعت فرما دی گئی اور اس معنی کا دوسرا لفظ اُنْظُرْناَ کہنے کا حکم ہوا۔

مسئلہ: اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں کلمات ادب عرض کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترک ادب کا شائبہ بھی ہو وہ زبان پر لانا ممنوع۔

۱۸۶             اور ہمہ تن گوش ہو جاؤ تاکہ یہ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے کہ حضور توجہ فرمائیں کیونکہ دربار نبوت کا یہی ادب ہے، مسئلہ دربار انبیاء میں آدمی کو ادب کے اعلیٰ مراتب کا لحاظ لازم ہے۔

۱۸۷             مسئلہ :  لِلْکٰفِرِیْنَ میں اشارہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی جناب میں بے ادبی کفر ہے۔

(۱۰۵) وہ جو کافر ہیں کتابی یا مشرک (ف ۱۸۸) وہ نہیں چاہتے  کہ تم پر کوئی بھلائی اترے  تمہارے  رب کے  پاس سے  (ف ۱۸۹) اور اللہ اپنی رحمت سے  خاص کرتا ہے  جسے  چاہے  اور اللہ بڑے  فضل والا ہے  -

۱۸۸             شان نُزول : یہود کی ایک جماعت مسلمانوں سے دوستی و خیر خواہی کا اظہار کرتی تھی ان کی تکذیب میں یہ آیت نازل ہوئی مسلمانوں کو بتایا گیا کہ کفار خیر خواہی کے دعوے میں جھوٹے ہیں۔(جمل)۔

۱۸۹             یعنی کفار اہل کتاب اور مشرکین دونوں مسلمانوں سے بغض رکھتے ہیں اور اس رنج میں ہیں کہ ان کے نبی محمد مصطفیٰ  صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو نبوت و وحی عطا ہوئی اور مسلمانوں کو یہ نعمت عظمیٰ ملی(خازن وغیرہ)۔

(۱۰۶) جب کوئی آیت منسوخ فرمائیں یا بھلا دیں (ف ۱۹۰) تو اس سے  بہتر یا اس جیسی لے   آئیں گے  کیا تجھے  خبر نہیں کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے -

(۱۰۷) کیا تجھے  خبر نہیں کہ اللہ ہی کے  لئے  ہے   آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اور اللہ کے  سوا تمہارا نہ کوئی حمایتی نہ مددگار۔

۱۹۰             شان نُزول : قرآنِ کریم نے شرائع سابقہ و کتب قدیمہ کو منسوخ فرمایا تو کفار کو بہت توحش ہوا اور انہوں نے اس پر طعن کیے اس پر یہ آیۂ کریمہ نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ منسوخ بھی اللّٰہ کی طرف سے ہے اور ناسخ بھی دونوں عین حکمت ہیں اور ناسخ کبھی منسوخ سے زیادہ سہل و انفع ہوتا ہے، قدرت الہی پر یقین رکھنے والے کو اس میں جائے تردد نہیں کائنات میں مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ دن سے رات کو گرما سے سرما کو جوانی سے بچپن کو بیماری سے تندرستی کو بہار سے خزاں کو منسوخ فرماتا ہے۔ یہ تمام نسخ و تبدیل اس کی قدرت کے دلائل ہیں تو ایک آیت اور ایک حکم کے منسوخ ہونے میں کیا تعجب نسخ درحقیقت حکم سابق کی مدت کا بیا ن ہو تا ہے کہ وہ حکم اس مدت کے لئے تھا اور عین حکمت تھا کفار کی نا فہمی کہ نسخ پر اعتراض کرتے ہیں اور اہل کتاب کا اعتراض ان کے معتقدات کے لحاظ سے بھی غلط ہے انہیں حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت کے احکام کی منسوخیت تسلیم کرنا پڑے گی یہ ماننا ہی پڑے گا کہ شنبہ کے روز دنیوی کام ان سے پہلے حرام نہ تھے ان پر حرام ہوئے یہ بھی اقرار ناگزیر ہو گا کہ توریت میں حضرت نوح علیہ السلام کی امت کے لئے تمام چوپائے حلال ہونا بیان کیا گیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بہت سے حرام کر دیئے گئے ان امور کے ہوتے ہوئے نسخ کا انکار کس طرح ممکن ہے

مسئلہ: جس طرح آیت دوسری آیت سے منسوخ ہوتی ہے اسی طرح حدیث متواتر سے بھی ہوتی ہے

مسئلہ :نسخ کبھی صرف تلاوت کا ہوتا ہے کبھی صرف حکم کا،کبھی تلاوت و حکم دونوں کا بیہقی نے ابو امامہ سے روایت کی کہ ایک انصاری صحابی شب کو تہجد کے لئے اٹھے اور سورہ فاتحہ کے بعد جو سورت ہمیشہ پڑھا کرتے تھے اس کو پڑھنا چاہا لیکن وہ بالکل یاد نہ آئی اور سوائے بسم اللّٰہ کے کچھ نہ پڑھ سکے، صبح کو دوسرے اصحاب سے اس کا ذکر کیا ان حضرات نے فرمایا ہمارا بھی یہی حال ہے وہ سورت ہمیں بھی یاد تھی اور اب ہمارے حافظہ میں بھی نہ رہی سب نے سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں واقعہ عرض کیا حضور اکرم نے فرمایا آج شب وہ سورت اٹھا لی گئی اس کے حکم و تلاوت دونوں منسوخ ہوئے جن کاغذوں پر وہ لکھی گئی تھی ان پر نقش تک باقی نہ رہے۔

(۱۰۸) کیا یہ چاہتے  ہو کہ اپنے  رسول سے  ویسا سوال کرو جو موسیٰ سے  پہلے  ہوا  تھا (ف ۱۹۱) اور جو ایمان کے  بدلے  کفر لے  (ف ۱۹۲) وہ ٹھیک راستہ بہک گیا -

۱۹۱             شان نزول:  یہود نے کہا اے محمد ( صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ) ہمارے پاس آپ ایسی کتاب لائیے جو آسمان سے ایک با رگی نازل ہو ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔

۱۹۲             یعنی جو آیتیں نازل ہو چکی ہیں ان کے قبول کرنے میں بے جا بحث کرے اور دوسری آیتیں طلب کرے مسئلہ اس سے معلوم ہوا کہ جس سوال میں مفسدہ ہو وہ بزرگوں کے سامنے پیش کر ناجائز نہیں اور سب سے بڑا مفسدہ یہ کہ اس سے نافرمانی ظاہر ہوتی ہو۔

(۱۰۹) بہت کتابیوں نے  چاہا (ف ۱۹۳) کاش تمہیں ایمان کے  بعد کفر کی طرف پھیر دیں اپنے  دلوں کی جلن سے  (ف ۱۹۴) بعد اس کے  کہ حق ان پر خوب ظاہر ہو چکا ہے  تو تم چھوڑو اور درگزر کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے  بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے  -

۱۹۳             شان نزول جنگ احد کے بعد یہود کی جماعت نے حضرت حذیفہ بن یمان اور عمار بن یاسر رضی اللّٰہ عنہماسے کہا کہ اگر تم حق پر ہوتے تو تمہیں شکست نہ ہوتی، تم ہمارے دین کی طرف واپس آ جاؤ، حضرت عمار نے فرمایا تمہارے نزدیک عہد شکنی کیسی ہے انہوں نے کہا نہایت بری آپ نے فرمایا میں نے عہد کیا ہے کہ زندگی کے آخر لمحہ تک سید عالم محمد مصطفیٰ  صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے نہ پھروں گا اور کفر نہ اختیار کروں گا،اور حضرت حذیفہ نے فرمایا میں راضی ہوا اللّٰہ کے رب ہونے اور محمد مصطفیٰ  صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے رسول ہونے، اسلام کے دین ہونے قرآن کے ایمان ہونے کعبہ کے قبلہ ہونے، مومنین کے بھائی ہونے سے پھر یہ دونوں صاحب حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو واقعہ کی خبر دی حضور نے فرمایا تم نے بہتر کیا اور فلاح پائی اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۱۹۴             اسلام کی حقانیت جاننے کے بعد یہود کا مسلمانوں کے کفر و ارتداد کی تمنا کرنا اور یہ چاہنا کہ وہ ایمان سے محروم ہو جائیں حسداً تھا حسد بڑا ہی عیب ہے،( مسئلہ)حدیث شریف میں ہے سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حسد سے بچو وہ نیکیوں کو اس طرح کھا تا ہے جیسے آگ خشک لکڑ ی کو۔ (مسئلہ)حسد حرام ہے

مسئلہ: اگر کوئی شخص اپنے مال و دولت یا اثر و وجاہت سے گمراہی و بے دینی پھیلاتا ہو تو اس کے فتنہ سے محفوظ رہنے کے لئے اس کے زوال نعمت کی تمنا حسد میں داخل نہیں اور حرام بھی نہیں۔

  (۱۱۰)  اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ  دو (ف ۱۹۵) اور اپنی جانوں کے  لئے  جو بھلائی آگے  بھیجو گے  اسے  اللہ کے  یہاں پاؤ گے  بیشک اللہ تمہارے  کام دیکھ رہا ہے -

۱۹۵             مومنین کو یہود سے در گزر کا حکم دینے کے بعد انہیں اپنے اصلاح نفس کی طرف متوجہ فرماتا ہے۔

(۱۱۱) اور اہل کتاب  بولے، ہرگز جنت میں نہ جائے  گا مگر وہ جو یہودی یا نصرانی  ہو (ف ۱۹۶) یہ ان کی خیال بندیاں ہیں تم فرماؤ لا  ؤ اپنی دلیل (ف ۱۹۷) اگر سچے  ہو-

۱۹۶             یعنی یہود کہتے ہیں کہ جنت میں صرف یہودی داخل ہوں گے اور نصرانی کہتے ہیں کہ فقط نصرانی اور یہ مسلمانوں کو دین سے منحرف کرنے کے لئے کہتے ہیں جیسے نسخ وغیرہ کے لچر شبہات انہوں نے اس امید پر پیش کئے تھے کہ مسلمانوں کو اپنے دین میں کچھ تردد ہو جائے اسی طرح ان کو جنت سے مایوس کر کے اسلام سے پھیرنے کی کوشش کرتے ہیں، چنانچہ آخر پارہ میں ان کا یہ مقولہ مذکور ہے۔ وَقَالُوْا کُوْنُوْا ھُوْدًا اَوْنَصٰریٰ تَھْتَدُوْا  اللّٰہ تعالیٰ ان کے اس خیال باطل کا ردّ فرماتا ہے۔

۱۹۷             مسئلہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ نفی کے مدعی کو بھی دلیل لانا ضرور ہے بغیر اس کے دعویٰ باطل و  نا مسموع ہو گا۔

(۱۱۲) ہاں کیوں نہیں جس نے  اپنا منہ  جھکایا  اللہ کے  لئے  اور وہ نیکو  کار ہے  (ف ۱۹۸) تو اس کا نیگ اس کے  رب کے  پاس ہے  اور انہیں کچھ اندیشہ ہو اور نہ کچھ غم-(ف ۱۹۹)

۱۹۸             خواہ وہ کسی زمانہ کسی نسل کسی قوم کا ہو۔

۱۹۹             اس میں اشارہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کا یہ دعویٰ کہ جنت کے فقط وہی مالک ہیں بالکل غلط ہے کیونکہ دخول جنت مرتب ہے،عقیدۂ صحیحہ و عمل صالح پر اور یہ انہیں میسّر نہیں۔

(۱۱۳) اور یہودی بولے  نصرانی کچھ نہیں اور نصرانی بولے  یہودی کچھ نہیں (ف ۲۰۰) حالانکہ وہ کتاب پڑھتے  ہیں، (ف ۲۰۱) اسی طرح جاہلوں نے  ان کی سی بات کہی (ف ۲۰۲) تو اللہ قیامت کے  دن ان میں فیصلہ کر دے  گا جس بات میں جھگڑ رہے  ہیں -

۲۰۰             شان نزول: نجران کے نصاریٰ کا وفد سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آیا تو علمائے یہود آئے اور دونوں میں مناظرہ شروع ہو گیا آوازیں بلند ہوئیں شور مچا یہود نے کہا کہ نصاریٰ کا دین کچھ نہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام اور انجیل شریف کا انکار کیا اسی طرح نصاریٰ نے یہود سے کہا کہ تمہارا دین کچھ نہیں اور توریت شریف و حضرت موسیٰ علیہ السلام کا انکار کیا اس باب میں یہ آیت نازل ہوئی۔

۲۰۱             یعنی باوجود علم کے انہوں نے ایسی جاہلانہ گفتگو کی حالانکہ انجیل شریف جس کو نصاریٰ مانتے ہیں اس میں توریت شریف اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی تصدیق ہے اسی طرح توریت جس کو یہودی مانتے ہیں اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور ان تمام احکام کی تصدیق ہے جو آپ کو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئے۔

۲۰۲             علمائے اہل کتاب کی طرح ان جاہلوں نے جو نہ علم رکھتے تھے نہ کتاب جیسے کہ بت پرست آتش پرست وغیرہ انہوں نے ہر ایک دین والے کی تکذیب شروع کی اور کہا کہ وہ کچھ نہیں انہیں جاہلوں میں سے مشرکین عرب بھی ہیں جنہوں نے نبی کر یم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے دین کی شان میں ایسے ہی کلمات کہے۔

(۱۱۴) اور اس سے  بڑھ کر ظالم کون (ف ۲۰۳) جو اللہ کی مسجدوں کو روکے  ان  میں نامِ خدا لئے  جانے  سے  (ف ۲۰۴) اور ان کی ویرانی میں کوشش کرے  (ف ۲۰۵) ان کو نہ پہنچتا تھا کہ مسجدوں میں جائیں مگر ڈرتے  ہوئے  ان کے  لئے  دنیا میں رسوائی ہے  (ف ۲۰۶) اور ان کے  لئے  آخرت میں بڑا عذاب - (ف ۲۰۷)

۲۰۳             شان نزول: یہ آیت بیت المَقدِس کی بے حرمتی کے متعلق نازل ہوئی جس کا مختصر واقعہ یہ ہے کہ روم کے نصرانیوں نے بنی اسرائیل پر فوج کشی کی ان کے مردانِ کار آزما کو قتل کیا ذریت کو قید کیا توریت کو جلایا بیت المقدس کو ویران کیا اس میں نجاستیں ڈالیں، خنزیر ذبح کیے، معاذ اللّٰہ بیت المقدس خلافت فاروقی تک اسی ویرانی میں رہا، آپ کے عہد مبارک میں مسلمانوں نے اس کو بنا کیا ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ آیت مشرکین مکہ کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے ابتدائے اسلام میں حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے اصحاب کو کعبہ میں نماز پڑھنے سے روکا تھا اور جنگ حدیبیہ کے وقت اس میں نماز و حج سے منع کیا تھا۔

۲۰۴             ذکر نماز خطبہ تسبیح وعظ نعت شریف سب کو شامل ہے اور ذکر اللّٰہ کو منع کرنا ہر جگہ برا ہے۔ خاص کر مسجدوں میں جو اسی کام کے لئے بنائی جاتی ہیں

مسئلہ: جو شخص مسجد کو ذکر و نماز سے معطل کر دے وہ مسجد کا ویران کرنے وا لا ا ور بہت ظالم ہے۔

۲۰۵             مسئلہ :مسجد کی ویرانی جیسے ذکر و نماز کے روکنے سے ہوتی ہے ایسے ہی اس کی عمارت کے نقصان پہنچانے اور بے حرمتی کرنے سے بھی۔

۲۰۶             دنیا میں انہیں یہ رسوائی پہنچی کہ قتل کئے گئے گرفتار ہوئے جلا وطن کئے گئے خلافت فاروقی و عثمانی میں ملک شام ان کے قبضہ سے نکل گیا بیت المقدس سے ذلت کے ساتھ نکالے گئے۔

۲۰۷             شان نزول: صحابہ کرام رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ایک اندھیری رات سفر میں تھے جہت قبلہ معلوم نہ ہو سکی ہر ایک شخص نے جس طرف اس کا دل جما نماز پڑھی صبح کو سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حال عرض کیا تو یہ آیت نازل ہوئی

مسئلہ: اس سے معلوم ہوا کہ جہت قبلہ معلوم نہ ہو سکے تو جس طرف دل جمے کہ یہ قبلہ ہے اسی طرف منہ کر کے نماز پڑھے اس آیت کے شانِ نزول میں دوسرا قول یہ ہے کہ یہ اس مسافر کے حق میں نازل ہوئی جو سواری پر نفل ادا کرے اس کی سواری جس طرف متوجہ ہو جائے اس طرف اس کی نماز درست ہے بخاری و مسلم کی احادیث سے یہ ثابت ہے ایک قول یہ ہے کہ جب تحویل قبلہ کا حکم دیا گیا تو یہود نے مسلمانوں پر طعنہ زنی کی ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی بتایا گیا کہ مشرق مغرب سب اللّٰہ کا ہے جس طرف چاہے قبلہ معین فرمائے کسی کو اعتراض کا کیا حق (خازن)ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت دعا ء کے حق میں وارد ہوئی حضور سے دریافت کیا گیا کہ کس طرف منہ کر کے دعا کی جائے اس کے جواب میں یہ آیت نازل ہوئی، ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حق سے گریز و فرار میں ہے اور  اَیْنَمَا تُوَلُّوْا کا خطاب ان لوگوں کو ہے جو ذکر الٰہی سے روکتے اور مسجدوں کی ویرانی میں سعی کرتے ہیں کہ وہ دنیا کی رسوائی اور عذاب آخرت سے کہیں بھاگ نہیں سکتے کیونکہ مشرق و مغرب سب اللّٰہ کا ہے جہاں بھاگیں گے وہ گرفت فرمائے گا اس تقدیر پر وجہ اللّٰہ کے معنی خدا کا قرب و حضور ہے (فتح) ایک قول یہ بھی ہے کہ معنیٰ یہ ہیں کہ اگر کفار خانۂ کعبہ میں نماز سے منع کریں تو تمہارے لئے تمام زمین مسجد بنا دی گئی ہے جہاں سے چاہو قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو۔

(۱۱۵) اور پورب و پچھم سب اللہ ہی کا ہے  تو تم جدھر منہ کرو ادھر وجہ اللہ (خدا کی رحمت تمہاری طرف متوجہ) ہے  بیشک اللہ وسعت والا علم والا ہے،

 (۱۱۶)  اور بولے  خدا نے  اپنے  لیے  اولاد  رکھی پاکی ہے  اسے  (ف ۲۰۸) بلکہ اسی کی مِلک ہے  جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے  (ف ۲۰۹) سب اس کے  حضور گردن ڈالے  ہیں۔

۲۰۸             شان نزول: یہود نے حضرت عزیر کو اور نصاریٰ نے حضرت مسیح کو خدا کا بیٹا کہا مشرکین عرب نے فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں بتایا ان کے رد میں یہ آیت نازل ہوئی فرمایا سُبْحٰنَہٗ وہ پاک ہے اس سے کہ اس کے اولاد ہو اس کی طرف اولاد کی نسبت کرنا اس کو عیب لگانا اور بے ادبی ہے حدیث میں ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے ابن آدم نے مجھے گالی دی میرے لئے اولاد بتائی میں اولاد اور بیوی سے پاک ہوں۔

۲۰۹             اور مملوک ہونا اولاد ہونے کے منافی ہے جب تمام جہان اس کا مملوک ہے،تو کوئی اولاد کیسے ہو سکتا ہے

مسئلہ : اگر کوئی اپنی اولاد کا مالک ہو جائے وہ اسی وقت آزاد ہو جائے گی۔

(۱۱۷) نیا پیدا کرنے  والا آسمانوں اور زمین کا (ف ۲۱۰) اور جب کسی بات کا حکم فرمائے  تو اس سے  یہی فرماتا ہے  کہ ہو جا  وہ فورا ً ہو جاتی ہے -(ف ۲۱۱)

۲۱۰             جس نے بغیر کسی مثال سابق کے اشیاء کو عدم سے وجود عطا فرمایا۔

۲۱۱             یعنی کائنات اس کے ارادہ فرماتے ہی وجود میں آ جاتی ہے۔

(۱۱۸)  اور جاہل بولے  (ف ۲۱۲) اللہ ہم سے  کیوں نہیں کلام کرتا (ف ۲۱۳) یا ہمیں کوئی نشانی ملے  (ف ۲۱۴) ان سے  اگلوں نے  بھی ایسی ہی کہی ان کی سی بات اِن کے   اُن کے  دل ایک سے  ہیں (ف ۲۱۵) بیشک ہم نے  نشانیاں کھول دیں یقین والوں کے  لئے  -(ف ۲۱۶)

۲۱۲             یعنی اہل کتاب یا مشرکین۔

۲۱ٍ۳             یعنی بے واسطہ خود کیوں نہیں فرماتا جیسا کہ ملائکہ و انبیاء سے کلام فرماتا ہے یہ ان کا کمال تکبر اور نہایت سرکشی تھی، انہوں نے اپنے آپ کو انبیاء و ملائکہ کے برابر سمجھا۔ شان نزول :رافع بن خزیمہ نے حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا اگر آپ اللّٰہ کے رسول ہیں تو اللّٰہ سے فرمایئے وہ ہم سے کلام کرے ہم خود سنیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۲۱۴             یہ ان آیات کا عناداً انکار ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے عطا فرمائیں۔

۲۱۵             کوری و نابینائی اور کفر و قساوت میں اس میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی تسکین خاطر فرمائی گئی کہ آپ ان کی سرکشی اور معاندانہ انکار سے رنجیدہ نہ ہوں پچھلے کفار بھی انبیاء کے ساتھ ایسا ہی کرتے تھے۔

۲۱۶             یعنی آیاتِ قرآنی و معجزات باہرات انصاف والے کو سید عالم محمد مصطفیٰ  صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کا یقین دلانے کے لئے کافی ہیں مگر جو طالب یقین نہ ہو وہ دلائل سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔

(۱۱۹) بیشک ہم نے  تمہیں حق کے  ساتھ بھیجا خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا اور تم سے   دوزخ  والوں کا سوال نہ ہو گا -(ف ۲۱۷)

۲۱۷             کہ وہ کیوں ایمان نہ لائے اس لئے کہ آپ نے اپنا فرض تبلیغ پورے طور پر ادا فرما دیا۔

(۱۲۰) اور ہرگز تم سے  یہود اور نصاری ٰ راضی نہ ہوں گے  جب تک تم ان کے  دین کی پیروی نہ کرو (ف ۲۱۸) تم فرما دو اللہ ہی کی ہدایت ہدایت ہے  (ف ۲۱۹) اور (اے  سننے  والے  کسے  باشد) اگر تو  ان کی خواہشوں کا پیرو ہوا بعد اس کے  کہ تجھے  علم آ چکا تو اللہ سے  تیرا کوئی بچانے  والا نہ ہو گا  او  ر نہ مددگار (ف ۲۲۰)

۲۱۸             اور یہ ناممکن کیونکہ وہ باطل پر ہیں۔

۲۱۹             وہی قابل اتباع ہے اور اس کے سوا ہر ایک راہ باطل و ضلالت۔

۲۲۰             یہ خطاب امت محمدیہ کو ہے کہ جب تم نے جان لیا کہ سید انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم تمہارے پاس حق و ہدایت لائے تو تم ہر گز کفار کی خواہشوں کا اتباع نہ کرنا اگر ایسا کیا تو تمہیں کوئی عذاب الہی سے بچانے والا نہیں۔(خازن)

(۱۲۱) جنہیں ہم نے  کتاب دی ہے  وہ جیسی چاہئے  اس کی تلاوت کرتے  ہیں وہی اس پر ایمان رکھتے  ہیں اور جو اس کے  منکر ہوں تو وہی زیاں کار ہیں -(ف ۲۲۱)

(۱۲۲) اے  اولاد یعقوب یاد کرو  میرا  احسان جو میں نے  تم پر کیا او ر وہ جو میں نے  اس زمانہ کے  سب لوگوں پر تمہیں بڑائی دی -

۲۲۱             شان نزول :حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا یہ آیت اہل سفینہ کے باب میں نازل ہوئی جو جعفر بن ابی طالب رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ حاضر بارگاہ رسالت ہوئے تھے ان کی تعداد چالیس تھی بتیس اہلِ حبشہ اور آٹھ شامی راہب ان میں بحیرا راہب بھی تھے۔ معنی یہ ہیں کہ درحقیقت توریت شریف پر ایمان لانے والے وہی ہیں جو اس کی تلاوت کا حق ادا کرتے ہیں اور بغیر تحریف و تبدیل پڑھتے ہیں اور اس کے معنی سمجھتے اور مانتے ہیں اور اس میں حضور سید کائنات محمد مصطفیٰ  صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نعت و صفت دیکھ کر حضور پر ایمان لاتے ہیں اورجو حضور کے منکر ہوتے ہیں وہ توریت پر ایمان نہیں رکھتے۔

(۱۲۳) اور ڈرو  اس دن سے  کہ کوئی جان دوسرے  کا بدلہ نہ ہو گی اور نہ اس کو کچھ لے  کر چھوڑیں اور نہ کافر کو کوئی سفارش نفع دے  (ف ۲۲۲) اور نہ ان کی مدد ہو -

۲۲۲             اس میں یہود کا رد ہے جو کہتے تھے ہمارے باپ دادا بزرگ گزرے ہیں ہمیں شفاعت کر کے چھڑا لیں گے انہیں مایوس کیا جاتا ہے کہ شفاعت کافر کے لئے نہیں۔

(۱۲۴) اور جب (ف ۲۲۳) ابراہیم کو اس کے  رب نے  کچھ باتوں سے  آزمایا (ف ۲۲۴) تو اس نے  وہ پوری کر دکھائیں (ف ۲۲۵) فرمایا میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے  والا ہوں عرض کی اور میری اولاد سے  فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا-(ف ۲۲۶)

۲۲ٍ۳             حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت سرزمین اہواز میں بمقام سوس ہوئی پھر آپ کے والد آپ کو بابل ملک نمرود میں لے آئے یہود و نصاریٰ و مشرکین عرب سب آپ کے فضل و شرف کے معترف اور آپ کی نسل میں ہونے پر فخر کرتے ہیں اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کے وہ حالات بیان فرمائے جن سے سب پر اسلام کا قبول کرنا لازم ہو جاتا ہے کیونکہ جو چیزیں اللّٰہ تعالیٰ نے آپ پر واجب کیں وہ اسلام کے خصائص میں سے ہیں۔

۲۲۴             خدائی آزمائش یہ ہے کہ بندے پر کوئی پابندی لازم فرما کر دوسروں پر اس کے کھرے کھوٹے ہونے کا اظہار کر دے۔

۲۲۵             جو باتیں اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آزمائش کے لئے واجب کی تھیں ان میں مفسرین کے چند قول ہیں قتادہ کا قول ہے کہ وہ مناسکِ حج ہیں مجاہد نے کہا اس سے وہ دس چیزیں مراد ہیں جو اگلی آیات میں مذکور ہیں حضرت ابن عباس کا ایک قول یہ ہے کہ وہ دس چیزیں یہ ہیں۔ (۱) مونچھیں کتروانا۔(۲) کلی کرنا (۳) ناک میں صفائی کے لئے پانی استعمال کرنا (۴)مسواک کرنا (۵) سر میں مانگ نکالنا (۶) ناخن ترشوانا (۷) بغل کے بال دور کرنا (۸) موئے زیر ناف کی صفائی(۹) ختنہ (۱۰) پانی سے استنجا کرنا۔ یہ سب چیزیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر واجب تھیں اور ہم پر ان میں سے بعض واجب ہیں بعض سنت۔

۲۲۶             مسئلہ : یعنی آپ کی اولاد میں جو ظالم (کافر) ہیں وہ امامت کا منصب نہ پائیں گے مسئلہ اس سے معلوم ہوا کہ کافر مسلمانوں کا پیشوا نہیں ہو سکتا اور مسلمانوں کو اس کا اتباع جائز نہیں۔

(۱۲۵) اور (یاد کرو) جب ہم نے  اس گھر کو (ف ۲۲۷)  لوگوں کے  لئے  مرجع اور امان  بنایا (ف ۲۲۸) اور ابراہیم کے  کھڑے  ہونے  کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ (ف ۲۲۹) اور ہم نے  تاکید فرمائی ابراہیم و اسماعیلؑ کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف کرنے  والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود  والوں کے  لئے  -

۲۲۷             بیت سے کعبہ شریف مراد ہے اور اس میں تمام حرم شریف داخل۔

۲۲۸             امن بنانے سے یہ مراد ہے کہ حرم کعبہ میں قتل و غارت حرام ہے یا یہ کہ وہاں شکار تک کو امن ہے یہاں تک کہ حرم شریف میں شیر بھیڑیے بھی شکار کا پیچھا نہیں کرتے، چھوڑ کر لوٹ جاتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ مومن اس میں داخل ہو کر عذاب سے مامون ہو جاتا ہے حرم کو حرم اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں قتل ظلم شکار حرام و ممنوع ہے۔ (احمدی) اگر کوئی مجرم بھی داخل ہو جائے تو وہاں اس سے تعرض نہ کیا جائے گا۔(مدارک)۔

۲۲۹             مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ معظمہ کی بنا فرمائی اور اس میں آپ کے قدم مبارک کا نشان تھا اس کو نماز کا مقام بنانے کا امر استحباب کے لئے ہے ایک قول یہ بھی ہے کہ اس نماز سے طواف کی دو رکعتیں مراد ہیں۔ ( احمدی وغیرہ)۔

(۱۲۶) اور جب عرض کی ابراہیمؑ نے  کہ اے  میرے  رب اس شہر کو امان والا کر دے  اور اس کے  رہنے  والوں کو طرح طرح کے  پھلوں سے  روزی دے  جو ان میں سے  اللہ اور پچھلے  دن پر ایمان لائیں (ف ۲۳۰) فرمایا اور جو کافر ہوا تھوڑا برتنے  کو اسے  بھی دوں گا پھر اسے  عذاب  دوزخ کی طرف مجبور کر دوں گا اور بہت بری جگہ ہے  پلٹنے  کی-

۲ٍ۳۰             چونکہ امامت کے باب میں  لَایَنَالُ عَھْدِی الظَّالِمیْنَ ارشاد ہو چکا تھا اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس دعا میں مومنین کو خاص فرمایا اور یہی شان ادب تھی اللّٰہ تعالیٰ نے کرم کیا دعا قبول فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ رزق سب کو دیا جائے گا مومن کو بھی کافر کو بھی لیکن کافر کا رزق تھوڑا ہے یعنی صرف دنیوی زندگی میں وہ بہرہ مند ہو سکتا ہے۔

  (۱۲۷) اور جب اٹھاتا تھا  ابراہیمؑ اس گھر کی نیویں اور اسمٰعیلؑ یہ کہتے  ہوئے  اے   رب ہمارے  ہم سے  قبول فرما (ف ۲۳۱) بیشک تو ہی ہے  سنتا جانتا۔

۲ٍ۳۱             پہلی مرتبہ کعبہ معظمہ کی بنیاد حضرت آدم علیہ السلام نے رکھی اور بعد طوفانِ نوح پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسی بنیاد پر تعمیر فرمائی یہ تعمیر خاص آپ کے دستِ مبارک سے ہوئی اس کے لئے پتھر اٹھا کر لانے کی خدمت و سعادت حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو میسر ہوئی دونوں حضرات نے اس وقت یہ دعا کی کہ یارب ہماری یہ طاعت و خدمت قبول فرما۔

(۱۲۸) اے  رب ہمارے  اور کر ہمیں تیرے  حضور گردن رکھنے   والا (ف ۲۳۲) اور ہماری اولاد میں سے  ایک امت تیری فرمانبردار اور ہمیں ہماری عبادت کے  قاعدے  بتا اور ہم پر اپنی رحمت کے  ساتھ رجوع فرما (ف ۲۳۳) بیشک تو ہی ہے  بہت توبہ قبول کرنے  والا مہربان۔

۲ٍ۳۲             وہ حضرات اللّٰہ تعالیٰ کے مطیع و مخلص بندے تھے پھر بھی یہ دعا اس لئے ہے کہ طاعت و اخلاص میں اور زیادہ کمال کی طلب رکھتے ہیں ذوق طاعت سیر نہیں ہوتا۔ سبحان اللّٰہ ؎ فکر ہر کس بقدر ہمت اوست۔

۲ٍ۳ٍ۳             حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام معصوم ہیں آپ کی طرف سے تو یہ تواضع ہے اور اللّٰہ والوں کے لئے تعلیم ہے مسئلہ کہ یہ مقام قبول دُعا ہے اور یہاں دعا و توبہ سنت ابراہیمی ہے۔

(۱۲۹) اے  رب ہمارے  اور بھیج ان میں (ف ۲۳۴) ایک رسول انہیں میں سے  کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے  اور انہیں تیری کتاب (ف ۲۳۵) اور پختہ علم سکھائے  (ف ۲۳۶) اور انہیں خوب ستھرا فرما دے  (ف ۲۳۷) بیشک تو ہی ہے  غالب حکمت والا-

۲ٍ۳۴             یعنی حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل کی ذریت میں یہ دُعا سید انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے تھی یعنی کعبہ معظمہ کی تعمیر کی عظیم خدمت بجا لانے اور توبہ و استغفار کرنے کے بعد حضرت ابراہیم و اسمٰعیل نے یہ دعا کی کہ یارب اپنے محبوب نبی آخر الزماں صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو ہماری نسل میں ظاہر فرما اور یہ شرف ہمیں عنایت کر یہ دعا قبول ہوئی اور ان دونوں صاحبوں کی نسل میں حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے سوا کوئی نبی نہیں ہوا اولاد حضرت ابراہیم میں باقی انبیاء حضرت اسحٰق کی نسل سے ہیں۔

مسئلہ : سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا میلاد شریف خود بیان فرمایا امام بغوی نے ایک حدیث روایت کی کہ حضور نے فرمایا میں اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک خاتم النبیین لکھا ہوا تھا بحالیکہ حضرت آدم کے پتلہ کا خمیر ہو رہا تھا میں تمہیں اپنے ابتدائے حال کی خبر دوں میں دعائے ابراہیم ہوں، بشارت عیسیٰ ہوں، اپنی والدہ کی اس خواب کی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھی اور ان کے لئے ایک نور ساطع ظاہر ہوا جس سے ملک شام کے ایوان و قصور اُن کے لئے روشن ہو گئے اس حدیث میں دعائے ابراہیم سے یہی دعا مراد ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور آخر زمانہ میں حضور سید انبیاء محمد مصطفیٰ ٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو مبعوث فرمایا الحمد ﷲ علیٰ احسانہ (جمل و خازن)۔

۲ٍ۳۵             اس کتاب سے قرآن پاک اور اس کی تعلیم سے اس کے حقائق و معانی کا سکھانا مراد ہے۔

۲ٍ۳۶             حکمت کے معنی میں بہت اقوال ہیں بعض کے نزدیک حکمت سے فقہ مراد ہے، قتادہ کا قول ہے کہ حکمت سنت کا نام ہے بعض کہتے ہیں کہ حکمت علم احکام کو کہتے ہیں خلاصہ یہ کہ حکمت علم اسرار ہے۔

۲ٍ۳۷             ستھرا کرنے کے یہ معنی ہیں کہ لوح نفوس و ارواح کو کدورت سے پاک کر کے حجاب اٹھا ویں اور آئینہ استعداد کی جلا فرما کر انہیں اس قابل کر دیں کہ ان میں حقائق کی جلوہ گری ہو سکے۔

(۱۳۰)  اور ابراہیم کے  دین  سے  کون منہ پھیرے  (ف ۲۳۸) سوا اس کے  جو دل کا احمق ہے  اور بیشک ضرور ہم نے  دنیا میں اسے  چن لیا (ف ۲۳۹) اور بیشک وہ آخرت میں ہمارے  خاص قرب کی قابلیت والوں میں ہے  -(ف ۲۴۰)

(۱۳۱) جبکہ اس سے  اس کے  رب نے  فرمایا گردن رکھ عرض کی میں نے  گردن رکھی اس کے  لئے  جو  رب  ہے  سارے  جہان کا-

۲ٍ۳۸             شا ن نزول: علماء یہود میں سے حضرت عبداللّٰہ بن سلام نے اسلام لانے کے بعد اپنے دو بھتیجوں مہاجر و سلم ہ کو اسلام کی دعوت دی اور ان سے فرمایا کہ تم کو معلوم ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے توریت میں فرمایا ہے کہ میں اولاد اسمٰعیل سے ایک نبی پیدا کروں گا جن کا نام احمد ہو گا جو ان پر ایمان لائے گا راہ یاب ہو گا اور جو ایمان نہ لائے گا ملعون ہے،یہ سن کر سلمہ ایمان لے آئے اور مہاجر نے اسلام سے انکار کر دیا اس پر اللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما کر ظاہر کر دیا کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خود اس رسول معظم کے مبعوث ہونے کی دعا فرمائی تو جو اُن کے دین سے پھرے وہ حضرت ابراہیم کے دین سے پھرا اس میں یہود و نصاریٰ و مشرکین عرب پر تعریض ہے جو اپنے آپ کو افتخاراً حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے تھے جب ان کے دین سے پھر گئے تو شرافت کہاں رہی۔

۲ٍ۳۹             رسالت و خلّت کے ساتھ رسول و خلیل بنایا۔

۲۴۰             جن کے لئے بلند درجے ہیں تو جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کرامت دارین کے جامع ہیں تو ان کی طریقت و ملت سے پھرنے والا ضرور نادان و احمق ہے۔

(۱۳۲) اور اسی دین کی وصیت کی ابراہیمؑ نے  اپنے  بیٹوں کو اور یعقوب نے  کہ اے  میرے  بیٹو! بیشک اللہ نے  یہ دین تمہارے  لئے  چن لیا تو نہ مرنا  مگر مسلمان -

(۱۳۳) بلکہ تم میں کے  خود موجود تھے  (ف ۲۴۱) جب یعقوبؑ کو موت آئی جبکہ اس نے  اپنے  بیٹوں سے  فرمایا میرے  بعد کس کی پوجا کرو گے  بولے  ہم پوجیں گے  اسے  جو خدا ہے  آپ کا  اور آپ کے  آباء ابراہیمؑ و اسمٰعیلؑ (ف ۲۴۲) و اسحاقؑ  کا  ایک خدا  اور ہم اس کے  حضور گردن رکھے  ہیں،

۲۴۱             شان نزول: یہ آیت یہود کے حق میں نازل ہوئی انہوں نے کہا تھا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی وفات کے روز اپنی اولاد کو یہودی رہنے کی وصیت کی تھی اللّٰہ تعالیٰ نے ان کے اس بہتان کے رد میں یہ آیت نازل فرمائی۔(خازن) معنیٰ یہ ہیں کہ اے بنی اسرائیل تمہارے پہلے لوگ حضرت یعقوب علیہ السلام کے آخر وقت ان کے پاس موجود تھے جس وقت انہوں نے اپنے بیٹوں کو بلا کر اُن سے اسلام و توحید کا اقرا ر لیا  تھا اور یہ اقرار لیا تھا جو آیت میں مذکور ہے۔

۲۴۲             حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو حضرت یعقوب علیہ السلام کے آباء میں داخل کرنا تو اس لئے ہے کہ آپ ان کے چچا ہیں اور چچا بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں ہے اور آپ کا نام حضرت اسحاق علیہ السلام سے پہلے ذکر فرمانا دو وجہ سے ہے ایک تو یہ کہ آپ حضرت اسحاق علیہ السلام سے چودہ سال بڑے ہیں دوسرے اس لئے کہ آپ سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے جد ہیں۔

(۱۳۴) یہ (ف ۲۴۳) ایک امت ہے  کہ گزر چکی (ف ۲۴۴)  ان کے  لیے  ہے  جو انہوں نے  کمایا اور تمہارے  لئے  ہے  جو تم کماؤ اور ان کے  کاموں کی تم سے  پرسش نہ ہو گی-

۲۴۳             یعنی حضرت ابراہیم و یعقوب علیہما السلام اور ان کی مسلمان اولاد۔

۲۴۴             اے یہود تم ان پر بہتان مت اٹھاؤ۔

(۱۳۵) اور کتابی بولے  (ف ۲۴۵) یہودی یا نصرانی ہو جاؤ راہ پاؤ گے   تم فرماؤ بلکہ ہم تو ابراہیمؑ کا  دین  لیتے  ہیں جو ہر باطل سے  جدا تھے  اور مشرکوں سے  نہ تھے  -(ف ۲۴۶)

(۱۳۶) یوں کہو کہ ہم ایمان لائے  اللہ پر اس پر جو ہماری طرف اترا اور جو  اتارا گیا ابراہیمؑ و اسمٰعیلؑ و اسحاقؑ و یعقوبؑ  اور ان کی اولاد پر اور جو عطا کئے  گئے  موسیٰؑ و عیسیٰؑ اور جو عطا کئے  گئے  باقی انبیاء اپنے  رب کے  پاس سے  ہم ان پر ایمان میں فرق نہیں کرتے  اور ہم اللہ کے  حضور گردن رکھے  ہیں -

۲۴۵             شان نزول :حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا کہ یہ آیت رؤساء یہود اور نجران کے نصرانیوں کے جواب میں نازل ہوئی یہودیوں نے تو مسلمانوں سے یہ کہا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام تمام انبیاء میں سب سے افضل ہیں اور توریت تمام کتابوں سے افضل ہے اور یہودی دین تمام ادیان سے اعلیٰ ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے حضرت سید کائنات محمد مصطفیٰ ٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اور انجیل شریف و قرآن شریف کے ساتھ کفر کر کے مسلمانوں سے کہا تھا کہ یہودی بن جاؤ اسی طرح نصرانیوں نے بھی اپنے ہی دین کو حق بتا کر مسلمانوں سے نصرانی ہونے کو کہا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۲۴۶             اس میں یہود و نصاریٰ وغیرہ پر تعریض ہے کہ تم مشرک ہو اس لئے ملت ابراہیم پر ہونے کا دعویٰ جو تم کرتے ہو وہ باطل ہے۔ اس کے بعد مسلمانوں کو خطاب فرمایا جاتا ہے۔ کہ وہ ان یہودو نصاریٰ سے یہ کہہ دیں  قُوْلُوْۤآ اٰمَنَّا اَ لْایٰۃَ۔

(۱۳۷) پھر اگر وہ بھی یونہی ایمان لائے  جیسا تم لائے  جب تو وہ ہدایت پا گئے  اور اگر منہ پھیریں تو وہ نری ضد میں ہیں (ف ۲۴۷) تو  اے  محبوب! عنقریب اللہ ان کی طرف سے  تمہیں کفایت کرے  گا اور وہی ہے  سنتا جانتا -(ف ۲۴۸)

۲۴۷             اور ان میں طلب حق کا شائبہ بھی نہیں۔

۲۴۸             یہ اللّٰہ کی طرف سے ذمہ ہے کہ وہ اپنے حبیب صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو غلبہ عطا فرمائے گا اور اس میں غیب کی خبر ہے کہ آئندہ حاصل ہونے والی فتح و ظفر کا پہلے سے اظہار فرمایا اس میں نبی صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کا معجزہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کا یہ ذمہ پورا ہوا اور یہ غیبی خبر صادق ہو کر رہی کفار کے حسد و عناد اور ان کے مکائد سے حضور کو ضرر نہ پہنچا حضور کی فتح ہوئی بنی قُرَیْظَہ قتل ہوئے بنی نُضَیْر جلا وطن کئے گئے یہود و نصاریٰ پر جزیہ مقرر ہوا۔

(۱۳۸) ہم نے  اللہ کی رینی (رنگائی)  لی  (ف ۲۴۹) اور اللہ سے  بہتر کس کی رینی؟ (رنگائی) اور ہم اسی کو پوجتے  ہیں،

۲۴۹             یعنی جس طرح رنگ کپڑے کے ظاہر و باطن میں نفوذ کرتا ہے اس طرح دینِ الٰہی کے اعتقادات حقہ ہمارے رگ و پے میں سما گئے ہمارا ظاہر و باطن قلب و قالب اس کے رنگ میں رنگ گیا ہمارا رنگ ظاہری رنگ نہیں جو کچھ فائدہ نہ دے بلکہ یہ نفوس کو پاک کرتا ہے۔ ظاہر میں اس کے آثار اوضاع و افعال سے نمو دار ہوتے ہیں نصاریٰ جب اپنے دین میں کسی کو داخل کرتے یا ان کے یہا ں کوئی بچہ پیدا ہوتا تو پانی میں زرد رنگ ڈال کر اس میں اس شخص یا بچہ کو غوطہ دیتے اور کہتے کہ اب یہ سچا نصرانی ہوا اس کا اس آیت میں رد فرمایا کہ یہ ظاہری رنگ کسی کام کا نہیں۔

(۱۳۹) تم فرماؤ  اللہ کے  بارے  میں جھگڑتے  ہو (ف ۲۵۰) حالانکہ وہ ہمارا بھی مالک ہے  اور تمہارا بھی (ف ۲۵۱) اور ہماری کرنی (ہمارے  اعمال) ہمارے  ساتھ اور تمہاری کرنی (تمہارے  اعمال) تمہارے  ساتھ اور ہم نِرے  اسی کے  ہیں - (ف ۲۵۲)

۲۵۰             شان نزول :یہود نے مسلمانوں سے کہا ہم پہلی کتاب والے ہیں ہمارا قبلہ پرانا ہے ہمارا دین قدیم ہے انبیاء ہم میں سے ہوئے ہیں اگر سید عالم محمد مصطفیٰ ٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نبی ہوتے تو ہم میں سے ہی ہوتے اس پر یہ آیہ ء کریمہ نازل ہوئی۔

۲۵۱             اسے اختیار ہے کہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے نبی بنائے عرب میں سے ہو یا دوسروں میں سے۔

۲۵۲             کسی دوسرے کو اللّٰہ کے ساتھ شریک نہیں کرتے اور عبادت و طاعت خالص اسی کے لئے کرتے ہیں تو ہم مستحق اکرام ہیں۔

(۱۴۰)  بلکہ تم یوں کہتے  ہو کہ ابراہیمؑ  و اسمٰعیلؑ و اسحاقؑ  و یعقوبؑ  اور ان کے  بیٹے  یہودی یا نصرانی تھے، تم فرماؤ کیا تمہیں علم زیادہ ہے  یا اللہ کو (ف ۲۵۳) اور اس سے  بڑھ کر ظالم کون جس کے  پاس اللہ کی طرف کی گواہی ہو اور وہ اسے  چھپائے  (ف  ۲۵۴) اور خدا تمہارے  کوتکوں (برے  اعمال) سے  بے  خبر نہیں -

(۱۴۱) وہ ایک گروہ ہے  کہ گزر گیا ان کے  لئے  ان کی کمائی اور تمہارے  لئے  تمہاری کمائی اور ان کے  کاموں کی تم سے  پرسش نہ ہو گی۔

۲۵۳             اس کا قطعی جواب یہی ہے کہ اللّٰہ ہی اعلم ہے تو جب اس نے فرمایا :، مَاکَانَ اِبْرَاھِیْمُ یَھُوْدِیًّاوَّلَا نَصْرَانِیًّا تو تمہارا یہ قول باطل ہوا۔

۲۵۴             یہ یہود کا حال ہے جنہوں نے اللّٰہ تعالیٰ کی شہادتیں چھپائیں جو توریت شریف میں مذکور تھیں کہ محمد مصطفیٰ  صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اس کے نبی ہیں اور ان کے یہ نعت و صفات ہیں اور حضرت ابراہیم مسلمان ہیں اور دین مقبول اسلام ہے نہ یہودیّت و نصرانیت۔

(۱۴۲) اب کہیں گے  (ف  ۲۵۵) بیوقوف لوگ، کس نے  پھیردیامسلمانوں کو، ان کے  اس قبلہ سے، جس پر تھے  (ف ۲۵۶) تم فرما دو کہ پورب پچھم (مشرق مغرب) سب اللہ ہی کا ہے  (ف ۲۵۷) جسے  چاہے  سیدھی راہ چلاتا ہے۔

۲۵۵             شان نزول :یہ آیت یہود کے حق میں نازل ہوئی جب بجائے بیت المقدس کے کعبہ معظمہ کو قبلہ بنایا گیا اس پر انہوں نے طعن کئے کیونکہ یہ انہیں ناگوار تھا اور وہ نسخ کے قائل نہ تھے ایک قول پر یہ آیت مشرکین مکّہ کے اور ایک قول پر منافقین کے حق میں نازل ہوئی اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے کفار کے یہ سب گروہ مراد ہوں کیونکہ طعن و تشنیع میں سب شریک تھے اور کفار کے طعن کرنے سے قبل قرآن پاک میں اس کی خبر دے دینا غیبی خبروں میں سے ہے طعن کرنے والوں کو بے وقوف اس لئے کہا گیا کہ وہ نہایت واضح بات پر معترض ہوئے باوجودیکہ انبیاء سابقین نے نبی آخر الزماں کے خصائص میں آپ کا لقب ذوالقبلتین ذکر فرمایا اور تحویل قبلہ اس کی دلیل ہے کہ یہ وہی نبی ہیں جن کی پہلے انبیاء خبر دیتے آئے ایسے روشن نشان سے فائدہ نہ اٹھانا اور معترض ہونا کمال حماقت ہے۔

۲۵۶             قبلہ اس جہت کو کہتے ہیں جس طرف آدمی نماز میں منہ کرتا ہے یہاں قبلہ سے بیت المقدس مراد ہے۔

۲۵۷             اسے اختیار ہے جسے چاہے قبلہ بنائے کسی کو کیا جائے اعتراض بندے کا کام فرماں برداری ہے۔

(۱۴۳) اور بات یوں ہی ہے  کہ ہم نے  تمہیں کیا سب امتوں میں افضل، کہ تم لوگوں پر گواہ ہو (ف ۲۵۸) اور یہ رسول تمہارے  نگہبان و گواہ (ف ۲۵۹) اور اے  محبوب!تم پہلے  جس قبلہ پر تھے  ہم نے  وہ اسی لئے  مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے  اور کون الٹے  پاؤں پھر جاتا ہے۔ (ف ۲۶۰) اور بیشک یہ بھاری تھی مگر ان پر، جنہیں اللہ نے  ہدایت کی اور اللہ کی شان نہیں کہ تمہارا ایمان اکارت کرے  (ف ۲۶۱) بیشک  اللہ آدمیوں پر بہت مہربان، رحم والا ہے۔

۲۵۸             دنیا و آخرت میں

مسئلہ: دنیا میں تو یہ کہ مسلمان کی شہادت مومن کافر سب کے حق میں شرعاً معتبر ہے اور کافر کی شہادت مسلمان پر معتبر نہیں۔

مسئلہ : اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس امت کا اجماع حجت لازم القبول ہے

مسئلہ: اموات کے حق میں بھی اس امت کی شہادت معتبر ہے رحمت و عذاب کے فرشتے اس کے مطابق عمل کرتے ہیں صحاح کی حدیث میں ہے کہ سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے ایک جنازہ گزرا صحابہ نے اس کی تعریف کی حضور نے فرمایا واجب ہوئی پھر دوسرا جنازہ گزرا صحابہ نے اس کی برائی کی حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: واجب ہوئی حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے دریافت کیا کہ حضور کیا چیز واجب ہوئی ؟فرمایا: پہلے جنازہ کی تم نے تعریف کی اس کے لئے جنت واجب ہوئی دوسرے کی تم نے برائی بیان کی اس کے لئے دوزخ واجب ہوئی تم زمین میں اللّٰہ کے شہداء (گواہ) ہو پھر حضور نے یہ آیت تلاوت فرمائی

مسئلہ : یہ تمام شہادتیں صلحاء اُمت اور اہل صدق کے ساتھ خاص ہیں اور ان کے معتبر ہونے کے لئے زبان کی نگہداشت شرط ہے جو لوگ زبان کی احتیاط نہیں کرتے اور بے جا خلاف شرع کلمات ان کی زبان سے نکلتے ہیں اور ناحق لعنت کرتے ہیں صحاح کی حدیث میں ہے کہ روز قیامت نہ وہ شافع ہوں گے نہ شاہد اس اُمت کی ایک شہادت یہ بھی ہے کہ آخرت میں جب تمام اولین و آخرین جمع ہوں گے اور کفار سے فرمایا جائے گا کیا تمہارے پاس میری طرف سے ڈرانے اور احکام پہنچانے والے نہیں آئے تو وہ انکار کریں گے اور کہیں گے کوئی نہیں آیا۔ حضرات انبیاء سے دریافت فرمایا جائے گا وہ عرض کریں گے کہ یہ جھوٹے ہیں ہم نے انہیں تبلیغ کی اس پر اُن سے  اِقَامَۃً لِلْحُجَّۃِ دلیل طلب کی جائے گی وہ عرض کریں گے کہ اُمت محمدیہ ہماری شاہد ہے یہ اُمت پیغمبروں کی شہادت دے گی کہ ان حضرات نے تبلیغ فرمائی اس پر گزشتہ اُمت کے کفار کہیں گے اِنہیں کیا معلوم یہ ہم سے بعد ہوئے تھے دریافت فرمایا جائے گا تم کیسے جانتے ہو یہ عرض کریں گے یارب تو نے ہماری طرف اپنے رسول محمد مصطفیٰ  صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو بھیجا قرآن پاک نازل فرمایا ان کے ذریعے سے ہم قطعی و یقینی طور پر جانتے ہیں کہ حضرات انبیاء نے فرضِ تبلیغ علیٰ وجہ الکمال ادا کیا پھر سید انبیاء صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و سلم سے آپ کی امت کی نسبت دریافت فرمایا جائے گا حضور انکی تصدیق فرمائیں گے۔

مسئلہ:اس سے معلوم ہوا کہ اشیاء معروفہ میں شہادت تسامع کے ساتھ بھی معتبر ہے یعنی جن چیزوں کا علمِ یقینی سننے سے حاصل ہو اُس پر بھی شہادت دی جا سکتی ہے۔

۲۵۹             امت کو تو رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی اطلاع کے ذریعہ سے احوال امم و تبلیغ انبیاء کا علم قطعی و یقینی حاصل ہے اور رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم بکرم الٰہی نور نبوت سے ہر شخص کے حال اور اس کی حقیقت ایمان اور اعمال نیک و بد اور اخلاص و نفاق سب پر مطلع ہیں

مسئلہ : اسی لئے حضور کی شہادت دنیا میں بحکم شرع امت کے حق میں مقبول ہے یہی وجہ ہے کہ حضور نے اپنے زمانہ کے حاضرین کے متعلق جو کچھ فرمایا مثلاً:صحابہ و ازواج و اہل بیت کے فضائل و مناقب یا غائبوں اور بعد والوں کے لئے مثل حضرت اویس و امام مہدی وغیرہ کے اس پر اعتقاد واجب ہے

مسئلہ : ہر نبی کو ان کی امت کے اعمال پر مطلع کیا جاتا ہے تاکہ روز قیامت شہادت دے سکیں چونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی شہادت عام ہو گی اس لئے حضور تمام امتوں کے احوال پر مطلع ہیں فائدہ یہاں شہید بمعنی مطلع بھی ہو سکتا ہے کیونکہ شہادت کا لفظ علم وا طلاع کے معنی میں بھی آیا ہے۔  قَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ واللّٰہُ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ شَھِیْدٌ۔

۲۶۰             سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم پہلے کعبہ کی طرف نماز پڑھتے تھے بعد ہجرت بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کا حکم ہوا سترہ مہینے کے قریب اس طرف نماز پڑھی پھر کعبہ شریف کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا۔ اس تحویل کی ایک یہ حکمت ارشاد ہوئی کہ اس سے مومن و کافر میں فرق و امتیاز ہو جائے گا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

۲۶۱             شان نزول بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنے کے زمانہ میں جن صحابہ نے وفات پائی ان کے رشتہ داروں نے تحویل قبلہ کے بعد ان کی نمازوں کا حکم دریافت کیا اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور اطمینان دلایا گیا کہ ان کی نمازیں ضائع نہیں ان پر ثواب ملے گا۔ فائدہ نماز کو ایمان سے تعبیر فرمایا گیا کیونکہ اس کی ادا اور بجماعت پڑھنا دلیل ایمان ہے۔

(۱۴۴)  ہم دیکھ رہے  ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا (ف  ۲۶۲) تو ضرور ہم تمہیں پھیردیں گے  اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری خوشی ہے  ابھی اپنا منہ پھیر دو مسجد حرام کی طرف اور اے  مسلمانو! تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرو (ف ۲۶۳) اور وہ جنہیں کتاب ملی ہے  ضرور جانتے  کہ یہ انکے  رب کی طرف سے  حق ہے  (ف ۲۶۴) اور اللہ ان کے  کوتکوں (اعمال) سے  بے  خبر نہیں -

۲۶۲             شان نزول :سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو کعبہ کا قبلہ بنایا جانا پسند خاطر تھا اور حضور اس امید میں آسمان کی طرف نظر فرماتے تھے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ آپ نماز ہی میں کعبہ کی طرف پھر گئے مسلمانوں نے بھی آپ کے ساتھ اسی طرف رُخ کیا۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کو آپ کی رضا منظور ہے اور آپ ہی کی خاطر کعبہ کو قبلہ بنایا گیا۔

۲۶۳             اس سے ثابت ہوا کہ نماز میں روبقبلہ ہونا فرض ہے۔

۲۶۴             کیونکہ ان کی کتابوں میں حضور کے اوصاف کے سلسلہ میں یہ بھی مذکور تھا کہ آپ بیت المقدس سے کعبہ کی طرف پھریں گے اور ان کے انبیاء نے بشارتوں کے ساتھ حضور کا یہ نشان بتایا تھا کہ آپ بیت المقدس اور کعبہ دونوں قبلوں کی طرف نماز پڑھیں گے۔

(۱۴۵) اور اگر تم ان کتابیوں کے  پاس ہر نشانی لے  کر آ ؤ وہ تمہارے  قبلہ کی پیروی نہ کریں گے  (ف ۲۶۵) اور نہ تم ان کے  قبلہ کی پیروی کرو (ف  ۲۶۶) اور وہ آپس میں بھی ایک دوسرے  کے  قبلہ کے  تابع نہیں (ف ۲۶۷) اور (اے  سننے  والے  کسے  باشد) اگر تو ان کی خواہشوں پر چلا بعد اس کے  کہ تجھے  علم مل چکا تو اس وقت  تو ضرور ستم گر ہو گا۔

۲۶۵             کیونکہ نشانی اس کو نافع ہو سکتی ہے جو کسی شبہ کی وجہ سے منکر ہو یہ تو حسد و عناد سے انکار کرتے ہیں انہیں اس سے کیا نفع ہو گا۔

۲۶۶             معنی یہ ہیں کہ یہ قبلہ منسوخ نہ ہو گا تو اب اہل کتاب کو یہ طمع نہ رکھنا چاہئے کہ آپ ان میں سے کسی کے قبلہ کی طرف رخ کریں گے۔

۲۶۷             ہر ایک کا قبلہ جدا ہے یہود تو صخرہ بیت المقدس کو اپنا قبلہ قرار دیتے ہیں اور نصاریٰ بیت المقدس کے اس مکان شرقی کو جہاں نفخِ روحِ حضرتِ مسیح واقع ہوا۔(فتح)۔

(۱۴۶) جنہیں ہم نے  کتاب عطا فرمائی (ف ۲۶۸) وہ اس نبی کو ایسا پہچانتے  ہیں جیسے  آدمی اپنے  بیٹوں کو پہچانتا ہے  (۲۶۹) اور بیشک ان میں ایک گروہ جان بوجھ کر حق چھپاتے  ہیں -(ف ۲۷۰)

۲۶۸             یعنی علماء یہود و نصاریٰ۔

۲۶۹             مطلب یہ ہے کہ کتب سابقہ میں نبی آخر الزماں حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے اوصاف ایسے واضح اور صاف بیان کئے گئے ہیں جن سے علماء اہل کتاب کو حضور کے خاتم الانبیاء ہونے میں کچھ شک و شبہ باقی نہیں رہ سکتا اور وہ حضور کے اس منصب عالی کو اتم یقین کے ساتھ جانتے ہیں احبار یہود میں سے عبداللّٰہ بن سلام مشرف باسلام ہوئے تو حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے ان سے دریافت کیا کہ آیۂ  یَعْرِفُوْنَہ، میں جو معرفت بیان کی گئی ہے اس کی کیا شان ہے انہوں نے فرمایا کہ اے عمر میں نے حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا تو بے اشتباہ پہچان لیا اور میرا حضور کو پہچاننا اپنے بیٹوں کے پہچاننے سے بدرجہا زیادہ اتم و اکمل ہے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا یہ کیسے انہوں نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ حضور اللّٰہ کی طرف سے اس کے بھیجے رسول ہیں ان کے اوصاف اللّٰہ تعالیٰ نے ہماری کتاب توریت میں بیان فرمائے ہیں بیٹے کی طرف سے ایسا یقین کس طرح ہو عورتوں کا حال ایسا قطعی کس طرح معلوم ہو سکتا ہے حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے ان کا سر چوم لیا۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ غیرِ محلِ شہوت میں دینی محبت سے پیشانی چومنا جائز ہے۔

۲۷۰             یعنی توریت و انجیل میں جو حضور کی نعت و صفت ہے علماء اہل کتاب کا ایک گروہ اس کو حسداً و عناداً دیدہ و دانستہ چھپاتا ہے۔

مسئلہ : حق کا چھپانا معصیت و گناہ ہے۔

(۱۴۷) (اے  سننے  والو) یہ حق ہے  تیرے  رب کی طرف سے  (یا حق وہی ہے  جو تیرے  رب کی طرف سے  ہو) تو خبردار توشک نہ کرنا -

 (۱۴۸) اور ہر ایک کے  لئے  توجہ ایک سمعت ہے  کہ وہ اسی طرف منہ کرتا ہے  تو یہ چاہو کہ نیکیوں میں اوروں سے  آگے  نکل جائیں تو کہیں ہو اللہ تم سب کو اکٹھا لے  آئے  گا (ف  ۲۷۱) بیشک اللہ جو چاہے  کرے -

۲۷۱             روز قیامت سب کو جمع فرمائے گا اور اعمال کی جزا دے گا۔

(۱۴۹) اور جہاں سے  ا ٓ  ؤ (ف ۲۷۲) اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرو اور وہ ضرور تمہارے  رب کی طرف سے  حق ہے  اور اللہ تمہارے  کاموں سے  غافل نہیں -

۲۷۲             یعنی خواہ کسی شہر سے سفر کے لئے نکلو نماز میں اپنا منہ مسجد حرام (کعبہ) کی طرف کرو۔

(۱۵۰) اور اے  محبوب تم جہاں سے  آ  ؤ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرو اور اے  مسلمانو! تم جہاں کہیں ہو  اپنا منہ  اسی کی طرف کرو  کہ لوگوں کو تم پر کوئی حجت نہ رہے  (ف ۲۷۳) مگر جو ان میں ناانصافی کریں (ف ۲۷۴)  تو ان سے  نہ ڈرو اور مجھ سے  ڈرو اور یہ اس لئے  ہے  کہ میں اپنی نعمت تم پر پوری کروں اور کسی طرح تم ہدایت پاؤ۔

۲۷۳             اور کفار کو یہ طعن کرنے کا موقع نہ ملے کہ انہوں نے قریش کی مخالفت میں حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیہما السلام کا قبلہ بھی چھوڑ دیا باوجود یہ کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی اولاد میں ہے ں اور ان کی عظمت و بزرگی مانتے بھی ہیں۔

۲۷۴             اور براہ عناد بیجا اعتراض کریں۔

(۱۵۱) جیسا کہ ہم نے  تم میں بھیجا ایک رسول تم میں سے  (ف ۲۷۵) کہ تم پر  ہماری آیتیں  تلاوت فرماتا ہے  اور تمہیں پاک کرتا (ف ۲۷۴) اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے  (ف ۲۷۷) اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے  جس کا تمہیں علم نہ تھا۔

۲۷۵             یعنی سید عالم محمد مصطفیٰ  صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم۔

۲۷۶             نجاستِ شرک و ذنوب سے۔

۲۷۷             حکمت سے مفسرین نے فقہ مراد لی ہے۔

(۱۵۲) تو میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا (ف ۲۷۸) اور میرا حق مانو اور میری ناشکری نہ کرو-

۲۷۸             ذکر تین طرح کا ہوتا ہے۔ (۱) لسانی (۲) قلبی(۳) بالجوارح۔ ذکر لسانی تسبیح، تقدیس،ثناء وغیرہ بیان کرنا ہے خطبہ توبہ استغفار دعا وغیرہ اس میں داخل ہیں۔ ذکر قلبی اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں کا یاد کرنا اس کی عظمت و کبریائی اور اس کے دلائل قدرت میں غور کرنا علماء کا استنباط مسائل میں غور کرنا بھی اسی میں داخل ہیں۔ ذکر بالجوارح یہ ہے کہ اعضاء طاعتِ الٰہی میں مشغول ہوں جیسے حج کے لئے سفر کرنا یہ ذکر بالجوارح میں داخل ہے نماز تینوں قسم کے ذکر پر مشتمل ہے تسبیح و تکبیر ثناء و قرأت تو ذکر لسانی ہے اور خشوع و خضوع اخلاص ذکر قلبی اور قیام، رکوع و سجود وغیرہ ذکر بالجوارح ہے۔ ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا: اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے تم طاعت بجا لا کر مجھے یاد کرو میں تمہیں اپنی امداد کے ساتھ یاد کروں گا صحیحین کی حدیث میں ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر بندہ مجھے تنہائی میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو ایسے ہی یاد فرماتا ہوں اور اگر وہ مجھے جماعت میں یاد کرتا ہے تو میں اس کو اس سے بہتر جماعت میں یاد کرتا ہوں۔قرآن و حدیث میں ذکر کے بہت فضائل وارد ہیں اور یہ ہر طرح کے ذکر کو شامل ہیں ذکر بالجہر کو بھی اور بالاخفاء کو بھی۔

(۱۵۳) اے  ایمان والو! صبر اور نماز سے  مدد چاہو (ف ۲۷۹) بیشک اللہ صابروں کے  ساتھ ہے  -

۲۷۹             حدیث شریف میں ہے کہ سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو جب کوئی سخت مہم پیش آتی نماز میں مشغول ہو جاتے اور نماز سے مدد چاہنے میں نماز استسقا و صلوٰۃِ حاجت داخل ہے۔

(۱۵۴) اور جو خدا کی راہ میں مارے  جائیں انہیں مردہ نہ کہو (ف ۲۸۰) بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں  تمہیں خبرنہیں -(ف ۲۸۱)

۲۸۰             شان نزول: یہ آیت شہداء بدر کے حق میں نازل ہوئی لوگ شہداء کے حق میں کہتے تھے کہ فلاں کا انتقال ہو گیا وہ دنیوی آسائش سے محروم ہو گیا ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔

۲۸۱             موت کے بعد ہی اللّٰہ تعالیٰ شہداء کو حیات عطا فرماتا ہے ان کی ا رواح پر رزق پیش کئے جاتے ہیں انہیں راحتیں دی جاتی ہیں ان کے عمل جاری رہتے ہیں اجرو ثواب بڑھتا رہتا ہے حدیث شریف میں ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں جنت کی سیر کرتی اور وہاں کے میوے اور نعمتیں کھاتی ہیں

مسئلہ: اللّٰہ تعالیٰ کے فرمانبردار بندوں کو قبر میں جنتی نعمتیں ملتی ہیں شہید وہ مسلمان مکلف ظاہر ہے جو تیز ہتھیار سے ظلماً مارا گیا ہو اور اس کے قتل سے مال بھی واجب نہ ہوا ہو یا معرکہ جنگ میں مردہ یا زخمی پایا گیا اور اس نے کچھ آسائش نہ پائی اس پر دنیا میں یہ احکام ہیں کہ نہ اس کو غسل دیا جائے نہ کفن اپنے کپڑوں میں ہی رکھا جائے اسی طرح اس پر نماز پڑھی جائے اسی حالت میں دفن کیا جائے آخرت میں شہید کا بڑا رتبہ ہے بعض شہداء وہ ہیں کہ ان پر دنیا کے یہ احکام تو جاری نہیں ہوتے لیکن آخرت میں ان کے لئے شہادت کا درجہ ہے جیسے ڈوب کر یا جل کر یا دیوار کے نیچے دب کر مرنے والا،طلب علم، سفر حج غرض راہ خدا میں مرنے والا اور نفاس میں مرنے والی عورت اور پیٹ کے مرض اور طاعون اور ذات الجنب اور سل میں اور جمعہ کے روز مرنے والے وغیرہ۔

(۱۵۵) اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے  کچھ ڈر اور بھوک سے  (ف ۲۸۲) اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے  (ف ۲۸۳) اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو -

۲۸۲             آزمائش سے فرمانبردار و نافرمان کے حال کا ظاہر کرنا مراد ہے۔

۲۸۳             امام شافعی علیہ الرحمۃ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا:کہ خوف سے اللّٰہ کا ڈر، بھوک سے رمضان کے روزے مالوں کی کمی سے زکوٰۃ و صدقات دینا،جانوں کی کمی سے امراض کے ذریعہ موتیں ہونا، پھلوں کی کمی سے اولاد کی موت مراد ہے اس لئے کہ اولاد دل کا پھل ہوتی ہے حدیث شریف میں ہے سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کسی بندے کا بچہ مرتا ہے اللّٰہ تعالیٰ ملائکہ سے فرماتا ہے تم نے میرے بندے کے بچے کی روح قبض کی وہ عرض کرتے ہیں کہ ہاں یارب، پھر فرماتا ہے تم نے اس کے دل کا پھل لے لیا عرض کرتے ہیں ہاں یارب، فرماتا ہے اس پر میرے بندے نے کیا کہا؟ عرض کرتے ہیں اس نے تیری حمد کی اور  اِنَّا ِﷲِ وَاِناَّ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا فرماتا ہے اس کے لئے جنت میں مکان بناؤ اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔ حکمت: مصیبت کے پیش آنے سے قبل خبر دینے میں کئی حکمتیں ہیں ایک تو یہ کہ اس سے آدمی کو وقت مصیبت صبر آسان ہو جاتا ہے، ایک یہ کہ جب کافر دیکھیں کہ مسلمان بلاد مصیبت کے وقت صابر و شاکر اور استقلال کے ساتھ اپنے دین پر قائم رہتا ہے تو انہیں دین کی خوبی معلوم ہو اور اس کی طرف رغبت ہو، ایک یہ کہ آنے والی مصیبت کی قبل وقوع اطلاع غیبی خبر اور نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کا معجزہ ہے ایک حکمت یہ کہ منافقین کے قدم ابتلاء کی خبر سے اُکھڑ جائیں اور مومن و منافق میں امتیاز ہو جائے۔

(۱۵۶) کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے  تو کہیں ہم اللہ کے  مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا-(ف ۲۸۴)

(۱۵۷) یہ لوگ ہیں جن پر ان کے  رب کی دروُ دیں  ہیں اور رحمت اور یہی لوگ راہ پر ہیں۔

۲۸۴             حدیث شریف میں ہے کہ وقت مصیبت کے  اِنّا ِﷲِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنا رحمت الہی کا سبب ہوتا ہے یہ بھی حدیث میں ہے کہ مؤمن کی تکلیف کو اللّٰہ تعالیٰ کفارۂ گناہ بناتا ہے۔

(۱۵۸) بیشک صفا اور مروہ (ف ۲۸۵) اللہ کے  نشانوں سے  ہیں (ف ۲۸۶) تو جو اس گھر کا حج یا عمرہ کرے  اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دونوں کے  پھیرے  کرے  (ف ۲۸۷) اور جو کوئی بھلی بات اپنی طرف سے  کرے  تو اللہ نیکی کا صلہ دینے  خبردار ہے -

۲۸۵             صفاو مروہ مکّہ مکرّمہ کے دو پہاڑ ہیں جو کعبہ معظمہ کے مقابل جانب شرق واقع ہیں مروہ شمال کی طرف مائل اور صفا جنوب کی طرف جبل ابی قُبَیْس کے دامن میں ہے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمعیل علیہ السلام نے ان دونوں پہاڑوں کے قریب اس مقام پر جہاں چاہ ِ زمزم ہے بحکم الٰہی سکونت اختیار فرمائی اس وقت یہ مقام سنگلاخ بیابان تھا نہ یہاں سبزہ تھا نہ پانی نہ خوردو نوش کا کوئی سامان رضائے الہی کے لئے ان مقبول بندوں نے صبر کیا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام بہت خرد سال تھے تشنگی سے جب ان کی جاں بلبی کی حالت ہوئی تو حضرت ہاجرہ بے تاب ہو کر کوہ صفا پر تشریف لے گئیں وہاں بھی پانی نہ پایا توا ُتر کر نشیب کے میدان میں دوڑتی ہوئی مروہ تک پہنچیں اس طرح سات مرتبہ گردش ہوئی اور اللّٰہ تعالیٰ نے  اِنَّ اللّٰہ َ مَعَ الصَّابِرِیْنَ کا جلوہ اس طرح ظاہر فرمایا کہ غیب سے ایک چشمہ زمزم نمودار کیا اور ان کے صبر و اخلاص کی برکت سے ان کے اتباع میں ان دونوں پہاڑوں کے درمیان دوڑنے والوں کو مقبول بارگاہ کیا اور ان دونوں کو محل اجابت دعا بنایا۔

۲۸۶             شعائر اللّٰہ سے دین کے اعلام یعنی نشانیاں مراد ہیں خواہ وہ مکانات ہوں جیسے کعبہ عرفات مزدلفہ جمار ثلثہ، صفا، مروہ، منیٰ، مساجد یا ازمنہ جیسے رمضان،اشہر حرام، عیدالفطر و اضحیٰ جمعہ ایاّم تشریق یا دوسرے علامات جیسے اذان، اقامت نمازِ با جماعت، نمازِ جمعہ، نماز عیدین، ختنہ یہ سب شعائر دین ہیں۔

۲۸۷             شان نزول زمانہ جاہلیت میں صفا و مروہ پر دو بت رکھے تھے صفا پر جو بت تھا اس کا نام اساف اور جو مروہ پر تھا اس کا نام نائلہ تھا کفار جب صفا و مروہ کے در میان سعی کرتے تو ان بتوں پر تعظیمًا ہاتھ پھیرتے عہد اسلام میں بت تو توڑ دیئے گئے لیکن چونکہ کفار یہاں مشرکانہ فعل کرتے تھے اس لئے مسلمانوں کو صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا گراں ہوا کہ اس میں کفار کے مشرکانہ فعل کے ساتھ کچھ مشابہت ہے اس آیت میں ان کا اطمینان فرما دیا گیا کہ چونکہ تمہاری نیت خالص عبادت الٰہی کی ہے تمہیں اندیشہ مشابہت نہیں اور جس طرح کعبہ کے اندر زمانہ جاہلیت میں کفار نے بت رکھے تھے اب عہد اسلام میں بت اٹھا دیئے گئے اور کعبہ شریف کا طواف درست رہا اور وہ شعائر دین میں سے رہا اسی طرح کفار کی بت پرستی سے صفا و مروہ کے شعائر دین ہونے میں کچھ فرق نہیں آیا

مسئلہ: سعی (یعنی صفا و مروہ کے درمیان دوڑنا) واجب ہے حدیث سے ثابت ہے سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر مداومت فرمائی ہے اس کے ترک سے دم دینا یعنی قربانی واجب ہوتی ہے

مسئلہ : صفا و مروہ کے درمیان سعی حج و عمرہ دونوں میں لازم ہے فرق یہ ہے کہ حج کے اندر عرفات میں جانا اور وہاں سے طواف کعبہ کے لئے آنا شرط ہے اور عمرہ کے لئے عرفات میں جانا شرط نہیں۔

مسئلہ : عمرہ کرنے والا اگر بیرونِ مکّہ سے آئے اس کو براہ راست مکّہ مکرّمہ میں آ کر طواف کرنا چاہئے اور اگر مکہ کا ساکن ہو تو اس کو چاہئے کہ حرم سے باہر جائے وہاں سے طواف کعبہ کا احرام باندھ کر آئے حج و عمرہ میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ حج سال میں ایک ہی مرتبہ ہو سکتا ہے کیونکہ عرفات میں عرفہ کے دن یعنی نویں ذی الحجہ کو جانا جو حج میں شرط ہے سال میں ایک ہی مرتبہ ممکن ہے اور عمرہ ہر دن ہو سکتا ہے اس کے لئے کوئی وقت معین نہیں۔

 (۱۵۹) بیشک وہ جو  ہماری  اتاری ہوئی روشن باتوں اور ہدایت کو چھپاتے  ہیں (ف ۲۸۸) بعد اس کے  کہ لوگوں کے  لئے  ہم اسے  کتاب میں واضح فرما چکے  ہیں ان پر اللہ کی لعنت ہے  اور لعنت کرنے  والوں کی لعنت -(ف ۲۸۹)

۲۸۸             یہ آیت علماء یہود کی شان میں نازل ہوئی جو سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نعت شریف اور آیت رجم اور توریت کے دوسرے احکام کو چھپایا کرتے تھے۔

مسئلہ : علوم دین کا اظہار فرض ہے۔

۲۸۹             لعنت کرنے والوں سے ملائکہ و مومنین مراد ہیں ایک قول یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کے تمام بندے مراد ہیں۔

(۱۶۰) مگر وہ جو توبہ کریں اور  سنواریں اور ظاہر کریں تو میں ان کی توبہ قبول فرماؤں گا اور میں ہی ہوں بڑا توبہ قبول  فرمانے  والا مہربان،

(۱۶۱) بیشک وہ جنہوں نے  کفر کیا اور کافر ہی مرے  ان پر لعنت ہے  اللہ اور فرشتوں اور آدمیوں سب کی، (ف ۲۹۰)

۲۹۰             مومن تو کافروں پر لعنت کریں گے ہی کافر بھی روز قیامت باہم ایک دوسرے پر لعنت کریں گے

مسئلہ : اس آیت میں ان پر لعنت فرمائی گئی جو کفر پر مرے ا س سے معلوم ہوا کہ جس کی موت کفر پر معلوم ہو اس پر لعنت کرنی جائز ہے

مسئلہ:گنہگار مسلمان پر بالتعین لعنت کرنا جائز نہیں لیکن علی الاطلاق جائز ہے جیسا کہ حدیث شریف میں چور اور سود خوار وغیرہ پر لعنت آئی ہے۔

(۱۶۲) ہمیشہ رہیں گے  اس میں نہ ان پر سے  عذاب ہلکا ہو اور نہ انہیں مہلت دی جائے،

(۱۶۳)  اور تمہارا معبود ایک معبود ہے  (ف ۲۹۱) اس کے  سوا  کوئی معبود نہیں مگر وہی بڑی رحمت والا مہربان

۲۹۱             شان نزول: کفار نے سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا آپ اپنے رب کی شان و صفت بیان فرمائیے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں بتا دیا گیا کہ معبود صرف ایک ہے نہ وہ متجزّی ہوتا ہے نہ مُنْقَسِم نہ اس کے لئے مثل نہ نظیر۔ اُلُوْہیت و ربوبیت میں کوئی اس کا شریک نہیں وہ یکتا ہے اپنے افعال میں، مصنوعات کو تنہا اسی نے بنایا۔ وہ اپنی ذات میں اکیلا ہے کوئی اس کا قسیم نہیں اپنے صفات میں یگانہ ہے کوئی اس کا شبیہ نہیں۔ ابوداؤد و ترمذی کی حدیث میں ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ کا اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے ایک یہی آیت وَاِلٰھُکُمْدوسری  آلمّ ۤ اَﷲُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَاَلْایٰہ

(۱۶۴) بیشک آسمانوں (ف ۲۹۲) اور زمین کی پیدائش اور رات و دن کا بدلتے  آنا اور کشتی  کہ دریا میں لوگوں کے  فائدے  لے  کر چلتی ہے   اور وہ جو اللہ نے  آسمان سے  پانی اتار کر مردہ زمین  کو اس سے  جِلا دیا اور زمین میں ہر قسم کے  جانور پھیلائے  اور ہواؤں کی گردش اور  وہ بادل کہ آسمان و زمین کے  بیچ میں حکم کا باندھا ہے  ان سب میں عقلمندوں کے  لئے  ضرور نشانیاں ہیں۔

۲۹۲             کعبہ معظمہ کے گرد مشرکین کے تین سو ساٹھ بت تھے جنہیں وہ معبود اعتقاد کرتے تھے انہیں یہ سن کر بڑی حیرت ہوئی کہ معبود صرف ایک ہی ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس لئے انہوں نے حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے ایسی آیت طلب کی جس سے وحدانیت پر استدلال صحیح ہو اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں یہ بتایا گیا کہ آسمان اور اس کی بلندی اور اس کا بغیر کسی ستون اور علاقہ کے قائم رہنا اور جو کچھ اس میں نظر آتا ہے آفتاب مہتاب ستارے وغیرہ یہ تمام اور زمین اور اس کی درازی اور پانی پر مفروش ہونا اور پہاڑ دریا چشمے معاون جواہر درخت سبزہ پھل اور شب و روز کا آنا جانا گھٹنا بڑھنا کشتیاں اور ان کا مسخر ہونا باوجود بہت سے وزن اور بوجھ کے روئے آب پر رہنا اور آدمیوں کا ان میں سوار ہو کر دریا کے عجائب دیکھنا اور تجارتو ں میں ان سے بار برداری کا کام لینا اور بارش اور اس سے خشک و مردہ ہو جانے کے بعد زمین کا سر سبز و شاداب کرنا اور تازہ زندگی عطا فرمانا اور زمین کو انواع و اقسام کے جانوروں سے بھر دینا جس میں بیشمار عجائب حکمت ودیعت ہیں اسی طرح ہواؤں کی گردش اور ان کے خواص اور ہوا کے عجائبات اور اَبر اور اس کا اتنے کثیر پانی کے ساتھ آسمان و زمین کے درمیان معلق رہنا یہ آٹھ انواع ہیں جو حضرت قادر مختار کے علم و حکمت اور اس کی وحدانیت پر برہان قوی ہیں اور ان کی دلالت وحدانیت پر بے شمار وجوہ سے ہے اجمالی بیان یہ ہے کہ یہ سب امور ممکنہ ہیں اور ان کا وجود بہت سے مختلف طریقوں سے ممکن تھا مگر وہ مخصوص شان سے وجود میں آئے یہ دلالت کرتا ہے کہ ضرور ان کے لئے موجد ہے قادر و حکیم جو بمقتضائے حکمت و مشیت جیسا چاہتا ہے بناتا ہے کسی کو دخل و اعتراض کی مجال نہیں وہ معبود بالیقین واحد و یکتا ہے کیونکہ اگر اس کے ساتھ کوئی دوسرا معبود بھی فرض کیا جائے تو اس کو بھی اس مقدورات پر قادر ماننا پڑے گا اب دو حال سے خالی نہیں یا تو ایجاد و تاثیر میں دونوں متفق الارادہ ہوں گے یا نہ ہوں گے اگر ہوں تو ایک ہی شئے کے وجود میں دو  موثروں کا تاثیر کرنا لازم آئے گا اور یہ محال ہے کیونکہ یہ مستلزم ہے معلول کے دونوں سے مستغنی ہونے کو اور دونوں کی طرف مفتقر ہونے کو کیونکہ علت جب مستقلہ ہو تو معلول صرف اسی کی طرف محتاج ہوتا ہے دوسرے کی طرف محتاج نہیں ہوتا اور دونوں کو علت مستقلہ فرض کیا گیا ہے تو لازم آئے گا کہ معلول دونوں میں سے ہر ایک کی طرف محتاج ہو اور ہر ایک سے غنی ہو تو نقیضین مجتمع ہو گئیں اور یہ محال ہے اور اگر یہ فرض کرو کہ تاثیر ان میں سے ایک کی ہے تو ترجیح بلا مرجح لازم آئے گی اور دوسرے کا عجز لازم آئے گا جو اِلٰہ ہونے کے منافی ہے اور اگر یہ فرض کرو کہ دونوں کے ارادے مختلف ہوتے ہیں تو تمانع و تطارد لازم آئے گا کہ ایک کسی شئے کے وجود کا ارادہ کرے اور دوسرا اسی حال میں اس کے عدم کا تو وہ شئے ایک ہی حال میں موجود و معدوم دونوں ہو گی یا دونوں نہ ہو گی یہ دونوں تقدیریں باطل ہیں ضرور ہے کہ یا موجودگی ہو گی یا معدوم ایک ہی بات ہو گی اگر موجود ہوئی تو عدم کا چاہنے والا عاجز ہوا، اِلٰہ نہ رہا اور اگر معدوم ہوئی تو وجود کا ارادہ کرنے والا مجبور رہا اِلٰہ نہ رہا لہذا ثابت ہو گیا کہ الہ ایک ہی ہو سکتا ہے اور یہ تمام انواع بے نہایت وجوہ سے اس کی توحید پر دلالت کرتے ہیں۔

(۱۶۵) اور کچھ لوگ اللہ کے  سوا اور معبود بنا لیتے  ہیں کہ انہیں اللہ کی طرح محبوب رکھتے  ہیں اور ایمان والوں کو اللہ کے  برابر کسی کی محبت نہیں اور کیسے  ہو اگر دیکھیں ظالم وہ وقت جب کہ عذاب ان کی آنکھوں کے  سامنے  آئے  گا اس لئے  کہ سارا زور خدا کو ہے  اور اس لئے  کہ اللہ کا عذاب بہت سخت ہے،

 (۱۶۶)  جب بیزار ہوں گے  پیشوا  اپنے  پیروؤں سے  (ف ۲۹۳) اور دیکھیں گے  عذاب اور کٹ جائیں گی ان کی سب ڈوریں (ف ۲۹۴)

۲۹۳             یہ روز قیامت کا بیان ہے جب مشرکین اور ان کے پیشوا جنہوں نے انہیں کفر کی ترغیب دی تھی ایک جگہ جمع ہوں گے اور عذاب نازل ہوتا ہوا دیکھ کر ایک دوسرے سے بیزار ہو جائیں گے۔

۲۹۴             یعنی وہ تمام تعلقات جو دنیا میں ان کے مابین تھے خواہ وہ دوستیاں ہوں یا رشتہ داریاں یا باہمی موافقت کے عہد

(۱۶۷) اور کہیں گے  پیرو کاش ہمیں لوٹ کر جانا ہوتا (دنیا میں ) تو ہم ان سے  توڑ دیتے  جیسے  انہوں نے  ہم سے  توڑ دی، یونہی اللہ انہیں دکھائے  گا ان کے  کام ان پر حسرتیں ہو کر (ف ۲۹۵) اور وہ دوزخ سے  نکلنے  والے  نہیں

۲۹۵             یعنی اللّٰہ تعالیٰ ان کے برے اعمال ان کے سامنے کرے گا تو انہیں نہایت حسرت ہو گی انہوں نے یہ کام کیوں کئے تھے ایک قول یہ ہے کہ جنت کے مقامات دکھا کر ان سے کہا جائے گا کہ اگر تم اللّٰہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کرتے تو یہ تمہارے لئے تھے پھر وہ مساکین و منازل مؤمنین کو دیئے جائیں گے اس پر انہیں حسرت و ندامت ہو گی۔

(۱۶۸) اے  لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں (ف ۲۹۶) حلال پاکیزہ ہے  اور شیطان کے  قدم پر قدم نہ رکھو، بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

(۱۶۹)  وہ تو تمہیں یہی حکم دے  گا بدی اور بے  حیائی کا  اور یہ کہ اللہ پر وہ بات جوڑو جس کی تمہیں خبر نہیں،

۲۹۶             یہ آیت ان اشخاص کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے بجار وغیرہ کو حرام قرار دیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی حلال فرمائی ہوئی چیزوں کو حرام قرار دینا اس کی رزاقیت سے بغاوت ہے مسلم شریف کی حدیث میں ہے اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے جو مال میں اپنے بندوں کو عطا فرماتا ہوں وہ ان کے لئے حلال ہے اور اسی میں ہے کہ میں نے اپنے بندوں کو باطل سے بے تعلق پیدا کیا پھر ان کے پاس شیاطین آئے اور انہوں نے دین سے بہکایا اور جو میں نے ان کے لئے حلال کیا تھا اس کو حرام ٹھہرایا ایک اور حدیث میں ہے حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا امیں نے یہ آیت سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے تلاوت کی تو حضرت سعد بن ابی وقاص نے کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم دعا فرمائیے کہ اللّٰہ تعالیٰ مجھے مستجاب الدعوۃ کر دے حضور نے فرمایا: اے سعد اپنی خوراک پاک کرو مستجاب الدعوۃ ہو جاؤ گے اس ذات پاک کی قسم جس کے دستِ قدرت میں محمد مصطفیٰ  صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم  کی جان ہے آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس روز تک قبولیت سے محرومی رہتی ہے۔(تفسیر ابن کبیر)۔

(۱۷۰) اور جب ان سے  کہا جائے  اللہ کے  اتارے  پر چلو (ف ۲۹۷) تو کہیں بلکہ ہم تو اس پر چلیں گے  جس پر اپنے  باپ دادا کو پایا کیا اگرچہ ان کے  باپ دادا نہ کچھ عقل رکھتے  ہوں نہ ہدایت (ف ۲۹۸)

۲۹۷             توحید و قرآن پر ایمان لاؤ اور پاک چیزوں کو حلال جانو جنہیں اللّٰہ نے حلال کیا۔

۲۹۸             توحید و قرآن پر ایمان لاؤ اور پاک چیزوں کو حلال جانو جنہیں اللّٰہ نے حلال کیا۔

(۱۷۱) اور کافروں کی کہاوت اس کی سی ہے  جو پکارے  ایسے  کو کہ خا لی چیخ و پکار کے  سوا کچھ نہ سنے  (ف ۲۹۹) بہرے، گونگے، اندھے  تو انہیں سمجھ نہیں (ف ۳۰۰)

۲۹۹             یعنی جس طرح چوپائے چرنے والے کی صرف آواز ہی سنتے ہیں کلام کے معنی نہیں سمجھتے یہی حال ان کفار کا ہے کہ رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی صدائے مبارک کو سنتے ہیں لیکن اس کے معنی دل نشین کر کے ارشادِ فیض بنیاد سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔

ٍ۳۰۰          یہ اس لئے کہ وہ حق بات سن کر منتفع نہ ہوئے کلام حق ان کی زبان پر جاری نہ ہوا نصیحتوں سے انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا۔

(۱۷۲) اے  ایمان والو!  کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور اللہ کا احسان مانو اگر تم اسی کو پوجتے  ہو (ف ۳۰۱)

ٍ۳۰۱          مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں پر شکر واجب ہے۔

(۱۷۳)  اس نے  یہی تم پر حرام کئے  ہیں مردار (ف ۳۰۲) اور خون (ف ۳۰۳) اور سُور کا گوشت (ف ۳۰۴)  اور وہ جانور جو غیر خدان کا نام لے  کر ذبح کیا گیا (ف ۳۰۵) تو جو  نا چار ہو (ف ۳۰۶) نہ یوں کہ خواہش سے  کھائے  اور نہ یوں کہ ضرورت سے  آگے  بڑھے  تو اس پر گناہ نہیں، بیشک اللہ بخشنے  والا مہربان ہے (ف ۳۰۷)

ٍ۳۰۲          جو حلال جانور بغیر ذبح کئے مر جائے یا اس کو طریق شرع کے خلاف مارا گیا ہو مثلاً گلا گھونٹ کر یا لاٹھی پتھر ڈھیلے غُلّے گولی سے مار کر ہلاک کیا گیا ہو یا وہ گر کر مر گیا ہو یا کسی جانور نے سینگ سے مارا ہو یا کسی درندے نے ہلاک کیا ہو اس کو مردار کہتے ہیں اور اسی کے حکم میں داخل ہے زندہ جانور کا وہ عضو جو کاٹ لیا گیا ہو۔

مسئلہ: مردار کا کھانا حرام ہے مگر اس کا پکا ہوا چمڑا کام میں لانا اور اس کے بال سینگ ہڈی پٹھے سُم سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔(تفسیر احمدی)۔

ٍ۳۰۳          مسئلہ خون ہر جانور کا حرام ہے اگر بہنے والا ہو دوسری آیت میں فرمایا :  اَوْدَماً مَّسْفُوْحًاً۔

ٍ۳۰۴          مسئلہ :خنزیر (سور) نجس العین ہے اس کا گوشت پوست بال ناخن وغیرہ تمام اجزاء نجس و حرام ہیں کسی کو کام میں لانا جائز نہیں چونکہ اُوپر سے کھانے کا بیان ہو رہا ہے اس لئے یہاں گوشت کے ذکر پر اکتفا فرمایا گیا۔

ٍ۳۰۵          مسئلہ: جس جانور پر وقت ذبح غیر خدا کا نام لیا جائے خواہ تنہا یا خدا کے نام کے ساتھ عطف سے ملا کر وہ حرام ہے

مسئلہ :اور اگر نام خدا کے ساتھ غیر کا نام بغیر عطف ملایا تو مکروہ ہے

مسئلہ : اگر ذبح فقط اللّٰہ کے نام پر کیا اور اس سے قبل یا بعد غیر کا نام لیا مثلاً یہ کہا کہ عقیقہ کا بکرا ولیمہ کا دنبہ یا جس کی طرف سے وہ ذبیحہ ہے اسی کا نام لیا یا جن اولیاء کے لئے ایصال ثواب منظور ہے ان کا نام لیا تو یہ جائز ہے اس میں کچھ حرج نہیں۔(تفسیر احمدی)۔

ٍ۳۰۶          مضطر وہ ہے جو حرام چیز کے کھانے پر مجبور ہو اور اس کو نہ کھانے سے خوف جان ہو خواہ تو شدت کی بھوک یا ناداری کی وجہ سے جان پر بن جائے اور کوئی حلال چیز ہاتھ نہ آئے یا کوئی شخص حرام کے کھانے پر جبر کرتا ہو اور اس سے جان کا اندیشہ ہو ایسی حالت میں جان بچانے کے لئے حرام چیز کا قدر ضرورت یعنی اتنا کھا لینا جائز ہے کہ خوف ہلاکت نہ رہے۔

ٍ۳۰۷          شان نزول: یہود کے علماء و رؤساء جو امید رکھتے تھے کہ نبی آخر الزماں صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ان میں سے مبعوث ہوں گے جب انہوں نے دیکھا کہ سید عالم محمد صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم دوسری قوم میں سے مبعوث فرمائے گئے تو انہیں یہ اندیشہ ہوا کہ لوگ توریت و انجیل میں حضور کے اوصاف دیکھ کر آپ کی فرمانبرداری کی طرف جھک پڑیں گے اور ان کے نذرانے ہدیئے تحفے تحائف سب بند ہو جائیں گے حکومت جاتی رہے گی اس خیال سے انہیں حسد پیدا ہوا اور توریت و انجیل میں جو حضور کی نعت و صفت اور آپ کے وقت نبوت کا بیان تھا انہوں نے اس کو چھپایا اس پر یہ آیہ ء کریمہ نازل ہوئی

 (۱۷۴) وہ جو چھپاتے  ہیں (ف ۳۰۸) اللہ  کی کتاب  اور اسکے   بدلے  ذلیل  قیمت  لیتے ہیں وہ اپنے  پیٹ میں آگ ہی بھرتے  ہیں (ف ۳۰۹) اور اللہ قیامت کے  دن ان سے  بات نہ کرے  گا اور نہ انہیں ستھرا کرے، اور ان کے  لئے  دردناک عذاب ہے،

مسئلہ : چھپانا یہ بھی ہے کہ کتاب کے مضمون پر کسی کو مطلع نہ ہونے دیا جائے نہ وہ کسی کو پڑھ کر سنایا جائے نہ دکھایا جائے اور یہ بھی چھپانا ہے کہ غلط تاویلیں کر کے معنی بدلنے کی کوشش کی جائے اور کتاب کے اصل معنی پر پردہ ڈالا جائے۔

ٍ۳۰۸          یعنی دنیا کے حقیر نفع کے لئے اخفاء حق کرتے ہیں۔

ٍ۳۰۹          کیونکہ یہ رشوتیں اور یہ مال حرام جو حق پوشی کے عوض انہوں نے لیا ہے انہیں آتش جہنم میں پہنچائے گا۔

(۱۷۵)  وہ لوگ ہیں جنہوں نے  ہدایت کے  بدلے  گمراہی مول لی اور بخشش کے  بدلے  عذاب، تو کس درجہ انہیں آگ کی سہار (برداشت) ہے 

(۱۷۶) یہ اس لئے  کہ اللہ نے  کتاب حق کے  ساتھ اتاری، اور بے  شک جو لوگ کتاب میں اختلاف ڈالنے  لگے  (ف ۳۱۰) وہ ضرور پرلے  سرے  کے  جھگڑالو ہیں،

ٍ۳۱۰          شان نزول :یہ آیت یہود کے حق میں نازل ہوئی کہ انہوں نے توریت میں اختلاف کیا بعض نے اس کو حق کہا بعض نے غلط تاویلیں کیں بعض نے تحریفیں ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت مشرکین کے حق میں نازل ہوئی اس صورت میں کتاب سے قرآن مراد ہے اور ان کا اختلاف یہ ہے کہ بعض ان میں سے اس کو شعر کہتے تھے بعض سحر بعض کہانت۔

(۱۷۷) کچھ اصل نیکی یہ نہیں کہ منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو (ف ۳۱۱) ہاں اصلی نیکی یہ کہ ایمان لائے  اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں  پر (ف ۳۱۲) اور اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے  رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیر  اور سائلوں کو اور گردنیں چھوڑانے  میں (ف  ۳۱۳) اور نماز قائم رکھے  اور  زکوٰۃ دے  اور اپنا قول پورا کرنے  والے  جب عہد کریں  اور صبر والے  مصیبت اور سختی میں اور جہاد کے  وقت  یہی ہیں جنہوں نے  اپنی بات سچی کی اور یہی پرہیزگار ہیں۔

۳۱۱             شان نزول: یہ آیت یہود و نصاریٰ کے حق میں نازل ہوئی کیونکہ یہود نے بیت المقدس کے مشرق کو اور نصاریٰ نے اس کے مغرب کو قبلہ بنا رکھا تھا اور ہر فریق کا گمان تھا کہ صرف اس قبلہ ہی کی طرف منھ کرنا کافی ہے اس آیت میں ان کا رد فرما دیا گیا کہ بیت المقدس کا قبلہ ہونا منسوخ ہو گیا۔(مدارک) مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ خطاب اہل کتاب اور مؤمنین سب کو عام ہے اور معنی یہ ہیں کہ صرف رو بقبلہ ہونا اصل نیکی نہیں جب تک عقائد درست نہ ہوں اور دل اخلاص کے ساتھ رب قبلہ کی طرف متوجہ نہ ہو۔

ٍ۳۱۲          اس آیت میں نیکی کے چھ طریقے ارشاد فرمائے (۱) ایمان لانا (۲) مال دینا (۳) نماز قائم کرنا (۴) زکوٰۃ دینا (۵) عہد پورا کرنا (۶) صبر کرنا ایمان کی تفصیل یہ ہے کہ ایک تو اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لائے کہ وہ حی و قیوم علیم حکیم سمیع بصیر غنی قدیر ازلی ابدی واحد لاشریک لہ ہے دوسرے قیامت پر ایمان لائے کہ وہ حق ہے اس میں بندوں کا حساب ہو گا اعمال کی جزا دی جائے گی مقبولان حق شفاعت کریں گے سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سعادت مندوں کو حوض کوثر پر سیراب فرمائیں گے پل صراط پر گزر ہو گا اور اس روز کے تمام احوال جو قرآن میں آئے یا سید انبیاء نے بیان فرمائے سب حق ہیں تیسرے فرشتوں پر ایمان لائے کہ وہ اللّٰہ کی مخلوق اور فرمانبردار بندے ہیں نہ مرد ہیں نہ عورت ان کی تعداد اللّٰہ جانتا ہے چار ان میں سے بہت مقرب ہیں جبرئیل میکائیل، اسرافیل، عزرائیل، علیہم السلام چوتھے کتب الہیہ پر ایمان لانا کہ جو کتاب اللّٰہ تعالیٰ نے نازل فرمائی حق ہے ان میں چار بڑی کتابیں ہیں۔(۱) توریت جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر (۲) انجیل جو حضرت عیسی علیہ السلام پر (۳) زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر (۴) قرآن حضرت محمد مصطفیٰ  صلی اللّٰہ علیہ و آ لہ و سلم پر نازل ہوئیں اور پچاس صحیفے حضرت شیث پر تیس حضرت ادریس پر دس حضرت آدم پر دس حضرت ابراہیم پر نازل ہوئے علیہم الصلوۃ والسلام پانچویں تمام انبیاء پر ایمان لانا کہ وہ سب اللّٰہ کے بھیجے ہوئے ہیں اور معصوم یعنی گناہوں سے پاک ہیں ان کی صحیح تعدادا للہ جانتا ہے، ان میں سے تین سو تیرہ رسول ہیں  نَبِیّٖنَ  بصیغہ جمع مذکر سالم ذکر فرمایا اشارہ کرتا ہے کہ انبیاء مرد ہوتے ہیں کوئی عورت کبھی نبی نہیں ہوئی جیسا کہ  وَمَآاَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالاً  الآیہ سے ثابت ہے، ایمان مجمل یہ ہے  اٰمَنْتُ بِاللّٰہ ِ وَبِجَمِیْعِ مَاجَآءَ بِہِ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم یعنی میں اللّٰہ پر ایمان لایا، اور ان تمام امور پر جو سید انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اللّٰہ کے پاس سے لائے (تفسیر احمدی)۔

ٍ۳۱ٍ۳          ایمان کے بعد اعمال کا اور اس سلسلہ میں مال دینے کا بیان فرمایا اس کے چھ مصرف ذکر کئے گردنیں چھڑانے سے غلاموں کا آزاد کرنا مراد ہے یہ سب مستحب طور پر مال دینے کا بیان تھا

مسئلہ: اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ صدقہ دینا بحالت تندرستی زیادہ اجر رکھتا ہے بہ نسبت اس کے کہ مرتے وقت زندگی سے مایوس ہو کر دے (کذا فی حدیث عن ابی ہریرہ )

مسئلہ : حدیث شریف میں ہے کہ رشتہ دار کو صدقہ دینے میں دو ثواب ہیں ایک صدقہ کا ایک صلہ رحم کا (نسائی شریف)۔

(۱۷۸) اے  ایمان والوں تم پر فرض ہے  (ف ۳۴۱) کہ جو ناحق مارے  جائیں ان کے  خون کا بدلہ لو (ف ۳۱۵)  آزاد کے  بدلے  آزاد اور غلام کے  بدلے  غلام اور عورت کے  بدلے  عورت (ف ۳۱۶) تو جس کے  لئے  اس کے  بھائی کی طرف سے  کچھ معافی ہوئی۔ (ف ۳۱۷) تو بھلائی سے  تقاضا ہو اور اچھی طرح ادا،  یہ تمہارے  رب کی طرف سے  تمہارا بوجھ پر ہلکا کرنا ہے  اور تم پر رحمت تو اس کے  بعد جو زیادتی کرے  (ف ۳۱۸) اس کے  لئے  دردناک عذاب ہے 

ٍ۳۱۴          شان نزول :یہ آیت اوس و خزرج کے بارے میں نازل ہوئی ان میں سے ایک قبیلہ دوسرے سے قوت تعداد مال و شرف میں زیادہ تھا اس نے قسم کھائی تھی کہ وہ اپنے غلام کے بدلے دوسرے قبیلہ کے آزاد کو اور عورت کے بدلے مرد کو اور ایک کے بدلے دو کو قتل کرے گا زمانہ جاہلیت میں لوگ اس قسم کی تعدی کے عادی تھے عہد اسلام میں یہ معاملہ حضور سید انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں پیش ہوا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ اور عدل و مساوات کا حکم دیا گیا اور ا س پر وہ لوگ راضی ہوئے قرآن کریم میں قصاص کا مسئلہ کئی آیتوں میں بیان ہوا ہے اس آیت میں قصاص و عفو دونوں کے مسئلہ ہیں اور اللّٰہ تعالیٰ کے اس احسان کا بیان ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو قصاص وعفو میں مختار کیا چاہیں قصاص لیں ے ا عفو کریں، آیت کے اول میں قصاص کے وجوب کا بیان ہے۔

ٍ۳۱۵          اس سے ہر قاتل بالعمد پر قصاص کا وجوب ثابت ہوتا ہے خواہ اس نے آزاد کو قتل کیا ہو یا غلام کو مسلمان کو یا کافر کو مرد کو یا عورت کو کیونکہ قتلیٰ جو قتیل کی جمع ہے وہ سب کو شامل ہے ہاں جس کو دلیلِ شرعی خاص کر ے وہ مخصوص ہو جائے گا۔ (احکام القرآن)۔

ٍ۳۱۶          اس آیت میں بتایا گیا جو قتل کرے گا وہی قتل کیا جائے گا، خواہ آزاد ہو یا غلام مرد ہو یا عورت اور اہل جاہلیت کا یہ طریقہ ظلم ہے جو ان میں رائج تھا کہ آزادوں میں لڑائی ہوتی تو وہ ایک کے بدلے دو کو قتل کرتے غلاموں میں ہوتی تو بجائے غلام کے آزاد کو مارتے عورتوں میں ہوتی تو عورت کے بدلے مرد کو قتل کرتے اور محض قاتل کے قتل پر اکتفا نہ کرتے اس کو منع فرمایا گیا۔

ٍ۳۱۷          معنی یہ ہیں کہ جس قاتل کو ولی مقتول کچھ معاف کریں اور اس کے ذمہ مال لازم کیا جائے، اس پر اولیاء مقتول تقاضا کرنے میں نیک روش اختیار کریں اور قاتل خوں بہا خوش معاملگی کے ساتھ ادا کرے اس میں صلح بر مال کا بیان ہے۔(تفسیر احمدی)

مسئلہ : ولی مقتول کو اختیار ہے کہ خواہ قاتل کو بے عوض معاف کرے یا مال پر صلح کرے اگر وہ اس پر راضی نہ ہو اور قصاص چاہے تو قصاص ہی فرض رہے گا۔(جمل)

مسئلہ : اگر مقتول کے تمام اولیاء قصاص معاف کر دیں تو قاتل پر کچھ لازم نہیں رہتا

مسئلہ : اگر مال پر صلح کریں تو قصاص ساقط ہو جاتا ہے اور مال واجب ہوتا ہے۔ (تفسیر احمدی)

مسئلہ :ولی مقتول کو قاتل کا بھائی فرمانے میں دلالت ہے اس پر کہ قتل گرچہ بڑا گناہ ہے مگر اس سے اخوت ایمانی قطع نہیں ہوتی اس میں خوارج کا ابطال ہے جو مرتکب کبیرہ کو کافر کہتے ہیں۔

ٍ۳۱۸          یعنی بدستور جاہلیت غیر قاتل کو قتل کرے یا دیت قبول کرنے اور معاف کرنے کے بعد قتل کرے۔

(۱۷۹) اور خون کا بدلہ لینے  میں تمہاری زندگی ہے  اے  عقل مندو (ف ۳۱۹) کہ تم کہیں بچو،

ٍ۳۱۹          کیونکہ قصاص مقرر ہونے سے لوگ قتل سے باز رہیں گے اور جانیں بچیں گی۔

(۱۸۰) تم پر فرض ہوا کہ جب تم میں کسی کو موت آئے  اگر کچھ مال چھوڑے  تو وصیت کر جائے  اپنے  ماں باپ اور قریب کے  رشتہ داروں کے  لئے  موافق دستور (ف ۳۲۰) یہ واجب ہے  پرہیزگاروں پر، 

ٍ۳۲۰          یعنی موافق دستور شریعت کے عدل کرے اور ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت نہ کرے اور محتاجوں پر مالداروں کو ترجیح نہ دے

مسئلہ : ابتدائے اسلام میں یہ وصیت فرض تھی جب میراث کے احکام نازل ہوئے منسوخ کی گئی اب غیر وارث کے لئے تہائی سے کم میں وصیت کرنا مستحب ہے بشرطیکہ وارث محتاج نہ ہوں یا ترکہ ملنے پر محتاج نہ رہیں ورنہ ترکہ وصیت سے افضل ہے۔ (تفسیر احمدی)۔

(۱۸۱)  تو جو وصیت کو سن سنا کر بدل دے  (ف ۳۲۱) اس کا گناہ انہیں بدلنے  والوں پر ہے  (ف ۳۲۲) بیشک اللہ سنتا جانتا ہے،

ٍ۳۲۱          خواہ وصی ہو یا ولی شاہد اور وہ تبدیل کتابت میں کرے یا تقسیم میں یا ادائے شہادت میں اگر وہ وصیت موافق شرع ہے تو بدلنے والا گنہگار ہے۔

ٍ۳۲۲          اور دوسرے خواہ وہ مُوْصِیْ ہوں یا مُوْصیٰ لَہٗ بری ہیں۔

(۱۸۲)  پھر جسے  اندیشہ ہوا  کہ وصیت کرنے  والے  نے  کچھ بے  انصافی یا گناہ کیا تو اس نے   ان میں صلح کرا دی اس پر کچھ گناہ نہیں (ف ۳۲۳) بیشک اللہ بخشنے  والا مہربان ہے  

ٍ۳۲ٍ۳          معنی یہ ہیں کہ وارث یا وصی یا امام یا قاضی جس کو بھی موصی کی طرف سے نا انصافی یا ناحق کارروائی کا اندیشہ ہو وہ اگر موصی لہ یا وارثوں میں شرع کے موافق صلح کرا دے تو گنہگار نہیں کیونکہ اس نے حق کی حمایت کے لئے باطل کو بدلا ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد وہ شخص ہے جو وقت وصیت دیکھے کہ موصی حق سے تجاوز کرتا اور خلاف شرع طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس کو روک دے اور حق و انصاف کا حکم کرے۔

(۱۸۳) اے   ایمان والو! (ف ۳۲۴) تم پر روزے  فرض کیے  گئے  جیسے  اگلوں پر فرض ہوئے  تھے  کہ کہیں تمہیں پرہیز گاری ملے،(ف ۳۲۵)

ٍ۳۲۴          معنی یہ ہیں کہ وارث یا وصی یا امام یا قاضی جس کو بھی موصی کی طرف سے نا انصافی یا ناحق کارروائی کا اندیشہ ہو وہ اگر موصی لہ یا وارثوں میں شرع کے موافق صلح کرا دے تو گنہگار نہیں کیونکہ اس نے حق کی حمایت کے لئے باطل کو بدلا ایک قول یہ بھی ہے کہ مراد وہ شخص ہے جو وقت وصیت دیکھے کہ موصی حق سے تجاوز کرتا اور خلاف شرع طریقہ اختیار کرتا ہے تو اس کو روک دے اور حق و انصاف کا حکم کرے۔

ٍ۳۲۵          اور تم گناہوں سے بچو کیونکہ یہ کسر نفس کا سبب اور متقین کا شعار ہے۔

(۱۸۴) گنتی کے  دن ہیں (ف ۳۲۶) تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو (ف ۳۲۷) تو اتنے  روزے  اور دنوں میں اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ دیں ایک مسکین کا کھانا (ف ۳۲۸) پھر جو اپنی طرف سے  نیکی زیادہ کرے  (ف ۳۲۹) تو وہ اس کے  لئے  بہتر ہے  اور روزہ رکھنا تمہارے  لئے  زیادہ بھلا ہے  اگر تم جانو  (ف ۳۳۰)

ٍ۳۲۶          یعنی صرف رمضان کا ایک مہینہ۔

ٍ۳۲۷          سفر سے وہ مراد ہے جس کی مسافت تین دن سے کم نہ ہو اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے مریض و مسافر کو رخصت دی کہ اگر اس کو رمضان مبارک میں روزہ رکھنے سے مرض کی زیادتی یا ہلاک کا اندیشہ ہو یا سفر میں شدت و تکلیف کا تو وہ مرض و سفر کے ایام میں افطار کرے اور بجائے اس کے ایام منہیّہ کے سوا اور دنوں میں اس کی قضا کرے، ایام منہیّہ پانچ دن ہیں جن میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ دونوں عیدین اور ذی الحجہ کی گیارھویں بارھویں تیرھویں تاریخیں

مسئلہ : مریض کو محض وہم پر روزے کا افطار جائز نہیں جب تک دلیل یا تجربہ یا غیر ظاہرا لفسق طبیب کی خبر سے اس کا غلبہ ظن حاصل نہ ہو کہ روزہ مرض کے طول یا زیادتی کا سبب ہو گا۔

مسئلہ : جو بالفعل بیمار نہ ہو لیکن مسلمان طبیب یہ کہے کہ وہ روزے رکھنے سے بیمار ہو جائے گا وہ بھی مریض کے حکم میں ہے

مسئلہ : حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت کو اگر روزہ رکھنے سے اپنی یا بچے کی جان کا یا اس کے بیمار ہو جانے کا اندیشہ ہو تو اس کو بھی افطار جائز ہے 

مسئلہ :جس مسافر نے طلوع فجر سے قبل سفر شروع کیا اس کو تو روزے کا افطار جائز ہے لیکن جس نے بعد طلوع سفر کیا اس کو اس دن کا افطار جائز نہیں۔

ٍ۳۲۸          مسئلہ: جس بوڑھے مرد یا عورت کو پیرانہ سالی کے ضعف سے روزہ رکھنے کی قدرت نہ رہے اور آئندہ قوت حاصل ہونے کی امید بھی نہ ہو اس کو شیخ فانی کہتے ہیں اس کے لئے جائز ہے کہ افطار کرے اور ہر روزے کے بدلے نصف صاع یعنی ایک سو پچھتر روپیہ اور ایک اٹھنی بھر گیہوں یا گیہوں کا آٹا یا اس سے دو نے جو یا اس کی قیمت بطور فدیہ دے

مسئلہ : اگر فدیہ دینے کے بعد روزہ رکھنے کی قوت آ گئی تو روزہ واجب ہو گا۔

مسئلہ : اگر شیخ فانی نادار ہو اور فدیہ دینے کی قدرت نہ رکھے تو اللّٰہ تعالیٰ سے استغفار کرے اور اپنے عفوِ تقصیر کی دعا کرتا رہے۔

ٍ۳۲۹          یعنی فدیہ کی مقدار سے زیادہ دے۔

ٍ۳ٍ۳۰          اس سے معلوم ہوا کہ اگرچہ مسافر و مریض کو افطار کی اجازت ہے لیکن زیادہ بہتر و افضل روزہ رکھنا ہی ہے۔

(۱۸۵)  رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا (ف ۳۳۱) لوگوں کے  لئے  ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں تو تم میں جو کوئی یہ مہینہ پائے، ضرور اس کے  روزے  رکھے  اور جو بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے  روزے  اور دنوں میں اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے  اور تم پر دشواری نہیں چاہتا اور اس لئے  کہ تم گنتی پوری کرو (ف ۳۳۲) اور اللہ کی بڑائی بولو اس پر کہ اس نے  تمہیں ہدایت کی اور کہیں تم حق گزار ہو۔

ٍ۳ٍ۳۱          اس کے معنی میں مفسرین کے چند اقوال ہیں۔(۱) یہ کہ رمضان وہ ہے جس کی شان و شرافت میں قرآن پاک نازل ہوا۔(۲) یہ کہ قرآن کریم میں نزول کی ابتداء رمضان میں ہوئی۔(۳) یہ کہ قرآن کریم بتمامہ رمضان المبارک کی شب قدر میں لوح محفوظ سے آسمان دنیا کی طرف اتارا گیا اور بیت العزت میں رہا یہ اسی آسمان پر ایک مقام ہے یہاں سے وقتاً فوقتاً حسب اقتضائے حکمت جتنا جتنا منظور الٰہی ہوا جبریل امین لاتے رہے یہ نزول تیئیس سال کے عرصہ میں پورا۔

ٍ۳ٍ۳۲          حدیث میں ہے حضور صلی اللّٰہ علیہ و آ لہ و سلم نے فرمایا کہ مہینہ انتیس دن کا بھی ہوتا ہے تو چاند دیکھ کر روزے شروع کرو اور چاند دیکھ کر افطار کرو اگر ۲۹ رمضان کو چاند کی رؤیت نہ ہو تو تیس دن کی گنتی پوری کرو۔

(۱۸۶) اور اے  محبوب جب تم سے  میرے  بندے  مجھے  پوچھیں تو میں نزدیک ہوں (ف ۳۳۳) دعا قبول کرتا ہوں پکارنے  والے  کی جب مجھے  پکارے  (ف ۳۳۴) تو انہیں چاہئے  میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں کہ کہیں راہ پائیں، 

ٍ۳ٍ۳ٍ۳          اس میں طالبان حق کی طلب مولیٰ کا بیان ہے جنہوں نے عشق الٰہی پر اپنے حوائج کو قربان کر دیا وہ اسی کے طلبگار ہیں انہیں قرب و وصال کے مژدہ سے شاد کام فرمایا شان نزول :ایک جماعت صحابہ نے جذبہ عشق الٰہی میں سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آ لہ و سلم سے دریافت کیا کہ ہمارا رب کہاں ہے اس پر نوید قرب سے سرفراز کر کے بتایا گیا کہ اللّٰہ تعالیٰ مکان سے پاک ہے جو چیز کسی سے مکانی قرب رکھتی ہے وہ اس کے دور والے سے ضرور بعد رکھتی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ سب بندوں سے قریب ہے مکانی کی یہ شان نہیں منازل قرب میں رسائی بندہ کو اپنی غفلت دور کرنے سے میسر آتی ہے۔ دوست نزدیک تراز من بمن ست۔ ویں عجب ترکہ من ازوے دورم۔

ٍ۳ٍ۳۴          دعا عرضِ حاجت ہے اور اجابت یہ ہے کہ پروردگار اپنے بندے کی دعا پر  َبَیْکَ عَبْدِیْ  فرماتا ہے مراد عطا فرمانا دوسری چیز ہے وہ بھی کبھی اس کے کرم سے فی الفور ہوتی ہے کبھی بمقتضائے حکمت کسی تاخیر سے کبھی بندے کی حاجت دنیا میں روا فرمائی جاتی ہے کبھی آخرت میں کبھی بندے کا نفع دوسری چیز میں ہوتا ہے وہ عطا کی جاتی ہے کبھی بندہ محبوب ہوتا ہے اس کی حاجت روائی میں اس لئے دیر کی جاتی ہے کہ وہ عرصہ تک دعا میں مشغول رہے۔ کبھی دعا کرنے والے میں صدق و اخلاص وغیرہ شرائط قبول نہیں ہوتے اسی لئے اللّٰہ کے نیک اور مقبول بندوں سے دعا کرائی جاتی ہے،

مسئلہ : ناجائز امر کی دعا کرنا جائز نہیں دعا کے آداب میں سے ہے کہ حضور قلب کے ساتھ قبول کا یقین رکھتے ہوئے دعا کرے اور شکایت نہ کرے کہ میری دعا قبول نہ ہوئی ترمذی کی حدیث میں ہے کہ نماز کے بعد حمد و ثناء اور درود شریف پڑھے پھر دعا کرے۔

(۱۸۷) روزہ کی راتوں میں اپنی عورتوں کے  پاس جانا تمہارے  لئے   حلال ہوا (ف ۳۳۵)  وہ تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے  لباس، اللہ نے  جانا کہ تم اپنی جانوں کو خیانت میں ڈالتے  تھے  تو اس نے  تمہاری توبہ قبول کی اور تمہیں معاف فرمایا (ف ۳۳۶) تو اب ان سے  صحبت کرو (ف ۳۳۷) اور طلب کرو جو اللہ نے  تمہارے  نصیب میں لکھا ہو (ف ۳۳۸) اور کھاؤ اور پیئو (ف ۳۳۹) یہاں تک کہ تمہارے  لئے  ظاہر ہو جائے  سفیدی کا ڈورا سیاہی کے  ڈورے  سے  (پو پھٹ کر) (ف ۳۴۰) پھر رات آنے   تک  روزے  پورے  کرو (ف ۳۴۱) اور عورتوں کو ہاتھ نہ لگاؤ جب تم مسجدوں میں اعتکاف سے  ہو (ف ۳۴۲) یہ اللہ کی حدیں ہیں ان کے  پاس نہ جاؤ  اللہ یوں ہی بیان کرتا ہے  لوگوں سے  اپنی آیتیں کہ کہیں انہیں پرہیز گاری ملے۔

ٍ۳ٍ۳۵          شان نزول: شرائع سابقہ میں افطار کے بعد کھانا پینا مجامعت کرنا نمازِ عشاء تک حلال تھا بعد نماز عشا ء یہ سب چیزیں شب میں بھی حرام ہو جاتی تھیں یہ حکم زمانہ اقدس تک باقی تھا بعض صحابہ سے رمضان کی راتوں میں بعدِ عشاء مباشرت وقوع میں آئی ان میں حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ بھی تھے اس پروہ حضرات نادم ہوئے اور درگاہ رسالت صلی اللّٰہ علیہ و آ لہ و سلم میں عرض حال کیا اللّٰہ تعالیٰ نے معاف فرمایا اور یہ آیت نازل ہوئی اور بیان کر دیا گیا کہ آئندہ کے لئے رمضان کی راتوں میں مغرب سے صبح صادق تک مجامعت کرنا حلال کیا گیا۔

ٍ۳ٍ۳۶          اس خیانت سے وہ مجامعت مراد ہے جو قبل اباحت رمضان کی راتوں میں مسلمانوں سے سرزد ہوئی تھی اس کی معافی کا بیان فرما کر ان کی تسکین فرما دی گئی۔

ٍ۳ٍ۳۷          یہ امر اباحت کے لئے ہے کہ اب وہ ممانعت اٹھا دی گئی اور لیالیِ رمضان میں مباشرت مباح کر دی گئی۔

ٍ۳ٍ۳۸          اس میں ہدایت ہے کہ مباشرت نسل و اولاد حاصل کرنے کی نیت سے ہونی چاہئے جس سے مسلمان بڑھیں اور دین قوی ہو مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ معنی یہ ہیں کہ مباشرت موافق حکم شرع ہو جس محل میں جس طریقہ سے مباح فرمائی اس سے تجاوز نہ ہو۔(تفسیر احمدی) ایک قول یہ بھی ہے کہ جو اللّٰہ نے لکھا اس کو طلب کرنے کے معنی ہیں رمضان کی راتوں میں کثرتِ عبادت اور بیدار رہ کر شب قدر کی جستجو کرنا۔

ٍ۳ٍ۳۹          یہ آیت صرمہ بن قیس کے حق میں نازل ہوئی آپ محنتی آدمی تھے ایک دن بحالت روزہ دن بھر اپنی زمین میں کام کر کے شام کو گھر آئے بیوی سے کھانا مانگا وہ پکانے میں مصروف ہوئیں یہ تھکے ہوئے تھے آنکھ لگ گئی جب کھانا تیار کر کے انہیں بیدار کیا انہوں نے کھانے سے انکار کر دیا کیونکہ اس زمانہ میں سو جانے کے بعد روزہ دار پر کھانا پینا ممنوع ہو جاتا تھا اور اسی حالت میں دوسرا روزہ رکھ لیا ضعف انتہا کو پہنچ گیا تھا دوپہر کو غشی آ گئی ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور رمضان کی راتوں میں ان کے سبب سے کھانا پینا مباح فرمایا گیا جیسے کہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کی انابت و رجوع کے باعث قربت حلال ہوئی۔

ٍ۳۴۰          رات کو سیاہ ڈورے سے اور صبح صادق کو سفید ڈورے سے تشبیہ دی گئی، معنی یہ ہیں کہ تمہارے لئے کھانا پینا رمضان کی راتوں میں مغرب سے صبح صادق تک مباح فرمایا گیا(تفسیر احمدی)

مسئلہ : صبح صادق تک اجازت دینے میں اشارہ ہے کہ جنابت روزے کے منافی نہیں جس شخص کو بحالت جنابت صبح ہوئی وہ غسل کر لے اس کا روزہ جائز ہے۔(تفسیر احمدی)

مسئلہ : اسی سے علماء نے یہ مسئلہ نکالا کہ رمضان کے روزے کی نیت دن میں جائز ہے۔

ٍ۳۴۱          اس سے روزے کی آخر حد معلوم ہوتی ہے اور یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ بحالت روزہ خوردو نوش و مجامعت میں سے ہر ایک کے ارتکاب سے کفارہ لازم ہو جاتا ہے۔(مدارک) مسئلہ علماء نے اس آیت کو صومِ و صال یعنی تَہْ کے روزے کے ممنوع ہونے کی دلیل قرار دیا ہے۔

ٍ۳۴۲          اس میں بیان ہے کہ رمضان کی راتوں میں روزہ دار کے لئے جماع حلال ہے جب کہ وہ معتکف نہ ہو

مسئلہ:اعتکاف میں عورتوں سے قربت اور بوس و کنار حرام ہے

مسئلہ : مردوں کے اعتکاف کے لئے مسجد ضروری ہے۔

مسئلہ : معتکف کو مسجد میں کھانا، پینا، سونا جائز ہے

مسئلہ: عورتوں کا اعتکاف ان کے گھروں میں جائز ہے۔

مسئلہ:  اعتکاف ہر ایسی مسجد میں جائز ہے جس میں جماعت قائم ہو

مسئلہ : اعتکاف میں روزہ شرط ہے۔

(۱۸۸) اور آپس میں ایک دوسرے  کا مال ناحق  نہ کھاؤ اور  نہ حاکموں کے  پاس ان کا مقدمہ اس لئے  پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھاؤ (ف ۳۴۳) جان بوجھ کر۔

۳۴۳             اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کر یا چھین کر چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی یا چغل خوری سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ ناجائز فائدہ کے لئے کسی پر مقدمہ بنانا اور اس کو حکام تک لے جانا ناجائز و حرام ہے اسی طرح اپنے فائدہ کی غرض سے دوسرے کو ضرر پہنچانے کے لئے حکام پر اثر ڈالنا رشوتیں دینا حرام ہے جو حکام رس لوگ ہیں وہ اس آیت کے حکم کو پیش نظر رکھیں حدیث شریف میں مسلمانوں کے ضرر پہنچانے والے پر لعنت آئی ہے۔

(۱۸۹) تم سے  نئے  چاند کو پوچھتے  ہیں (ف ۳۴۴) تم فرما دو  وہ وقت کی علامتیں ہیں لوگوں اور حج کے  لئے  (ف ۳۴۵) اور یہ کچھ بھلائی نہیں کہ (ف ۳۴۶) گھروں میں پچھیت (پچھلی دیوار) توڑ کر آ  ؤ  ہاں بھلائی تو پرہیز گاری ہے، اور گھروں میں دروازوں سے  آ  ؤ (ف ۳۴۷) اور اللہ سے  ڈرتے  رہو اس امید پر کہ فلاح پاؤ

ٍ۳۴۴          شانِ نزول:یہ آیت حضرت معاذ بن جبل اور ثعلبہ بن غنم انصاری کے جواب میں نازل ہوئی ان دونوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم چاند کا کیا حال ہے ابتداء میں بہت باریک نکلتا ہے پھر روز بروز بڑھتا ہے یہاں تک کہ پورا روشن ہو جاتا ہے پھر گھٹنے لگتا ہے اور یہاں تک گھٹتا ہے کہ پہلے کی طرح باریک ہو جاتا ہے ایک حال پر نہیں رہتا اس سوال سے مقصد چاند کے گھٹنے بڑھنے کی حکمتیں دریافت کرنا تھا۔ بعض مفسرین کا خیال ہے کہ سوال کا مقصود چاند کے اختلافات کا سبب دریافت کرنا تھا۔

ٍ۳۴۵          چاند کے گھٹنے بڑھنے کے فوائد بیان فرمائے کہ وہ وقت کی علامتیں ہیں اور آدمیوں کے ہزار ہا دینی و دنیوی کام اس سے متعلق ہیں زراعت، تجارت،لین دین کے معاملات، روزے اور عید کے اوقات عورتوں کی عدتیں حیض کے ایّام حمل اور دودھ پلانے کی مدتیں اور دودھ چھڑانے کے وقت اور حج کے اوقات اس سے معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اول میں جب چاند باریک ہوتا ہے تو دیکھنے والا جان لیتا ہے کہ ابتدائی تاریخیں ہیں اور جب چاند پورا روشن ہوتا ہے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ مہینے کی درمیانی تاریخ ہے اور جب چاند چھپ جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ مہینہ ختم پر ہے اسی طرح ان کی مابین ایّام میں چاند کی حالتیں دلالت کیا کرتی ہیں پھر مہینوں سے سال کا حساب ہوتا ہے یہ وہ قدرتی جنتری ہے جو آسمان کے صفحہ پر ہمیشہ کھلی رہتی ہے اور ہر ملک اور ہر زبان کے لوگ پڑھے بھی اور بے پڑھے بھی سب اس سے اپنا حساب معلوم کر لیتے ہیں۔

ٍ۳۴۶          شان نزول :زمانہ جاہلیت میں لوگوں کی یہ عادت تھی کہ جب وہ حج کے لئے احرام باندھتے تو کسی مکان میں اس کے دروازے سے داخل نہ ہوتے اگر ضرورت ہوتی تو پچھیت توڑ کر آتے اور اس کو نیکی جانتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی،۔

ٍ۳۴۷          خواہ حالت احرام ہو یا غیر احرام۔

(۱۹۰)  اور اللہ کی راہ میں لڑو (ف ۳۴۸) ان سے  جو تم سے  لڑتے  ہیں (ف ۳۴۹) اور حد سے  نہ بڑھو (ف ۳۵۰) اللہ پسند نہیں رکھتا  حد سے  بڑھنے  والوں کو۔

۳۴۸             ۶ ھ میں حدیبیہ کا واقعہ پیش آیا اس سال سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ طیبہ سے بقصد عمرہ مکہ مکرمہ روانہ ہوئے مشرکین نے حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روکا اور اس پر صلح ہوئی کہ آپ سال آئندہ تشریف لائیں تو آپ کے لئے تین روز مکہ مکرمہ خالی کر دیا جائے گا چنانچہ اگلے سال ۷ ھ میں حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم عمرہ قضاء کے لئے تشریف لائے اب حضور کے ساتھ ایک ہزار چار سو کی جماعت تھی مسلمانوں کو یہ اندیشہ ہوا کہ کفار وفائے عہد نہ کریں گے اور حرم مکہ میں شہر حرام یعنی ماہ ذی القعدہ میں جنگ کریں گے اور مسلمان بحالت احرام ہیں اس حالت میں جنگ کرنا گراں ہے کیونکہ زمانہ جاہلیت سے ابتدائے اسلام تک نہ حرم میں جنگ جائز تھی نہ ماہ حرام میں نہ حالت احرام میں تو انہیں تردد ہوا کہ اس وقت جنگ کی اجازت ملتی ہے یا نہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

ٍ۳۴۹          اس کے معنی یا تو یہ ہیں کہ جو کفار تم سے لڑیں یا جنگ کی ابتداء کریں تم ان سے دین کی حمایت اور اعزاز کے لئے لڑو یہ حکم ابتداء اسلام میں تھا پھر منسوخ کیا گیا اور کفار سے قتال کرنا واجب ہوا خواہ وہ ابتداء کریں یا نہ کریں یا یہ معنی ہیں کہ جو تم سے لڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں یہ بات سارے ہی کفار میں ہے کیونکہ وہ سب دین کے مخالف اور مسلمانوں کے دشمن ہیں خواہ انہوں نے کسی وجہ سے جنگ نہ کی ہو لیکن موقع پانے پر چُوکنے والے نہیں، یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ جو کافر میدان میں تمہارے مقابل آئیں اور تم سے لڑنے والے ہوں ان سے لڑو اس صورت میں ضعیف بوڑھے بچے مجنون اپاہج اندھے بیمار عورتیں وغیرہ جو جنگ کی قدرت نہیں رکھتے اس حکم میں داخل نہ ہوں گے ان کو قتل کرنا جائز نہیں۔

ٍ۳۵۰          جو جنگ کے قابل نہیں ان سے نہ لڑو یا جن سے تم نے عہد کیا ہو یا بغیر دعوت کے جنگ نہ کرو کیونکہ طریقہ شرع یہ ہے کہ پہلے کفار کو اسلام کی دعوت دی جائے اگر ا نکار کریں تو جزیہ طلب کیا جائے اس سے بھی منکر ہوں تب جنگ کی جائے اس معنی پر آیت کا حکم باقی ہے منسوخ نہیں۔(تفسیر احمدی)۔

(۱۹۱) اور کافروں کو جہاں پاؤ مارو (ف ۳۵۱) اور انہیں نکال دو (ف ۳۵۲) جہاں سے  انہوں نے  تمہیں نکالا تھا (ف ۳۵۳) اور ان کا فساد تو قتل سے  بھی سخت ہے  (ف ۳۵۴) اور مسجد حرام کے  پاس ان سے  نہ لڑو جب تک وہ تم سے  وہاں نہ لڑیں (ف ۳۵۵) اور اگر تم سے  لڑیں تو انہیں قتل کرو (ف ۳۵۶) کافروں کی یہی سزا ہے،

ٍ۳۵۱          خواہ حرم ہو یا غیر حرم۔

ٍ۳۵۲          مکہ مکرمہ سے۔

ٍ۳۵۳          سال گزشتہ چنانچہ روز فتح مکہ جن لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا اُن کے ساتھ یہی کیا گیا۔

ٍ۳۵۴          فساد سے شرک مراد ہے یا مسلمانوں کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے روکنا۔

ٍ۳۵۵          کیونکہ یہ حرمت حرم کے خلاف ہے۔

ٍ۳۵۶          کہ انہوں نے حرم شریف کی بے حرمتی کی۔

(۱۹۲) پھر اگر وہ باز رہیں (ف ۳۵۷) تو بیشک اللہ بخشنے  والا مہربان ہے، 

ٍ۳۵۷          قتل و شرک سے۔

(۱۹۳)  اور ان سے  لڑو یہاں تک کہ کوئی فتنہ نہ رہے  اور ایک اللہ کی پوجا ہو پھر اگر وہ باز آئیں (ف ۳۵۸) تو زیادتی نہیں مگر ظالموں پر۔

۳۵۸             کفر و باطل پرستی سے۔

(۱۹۴)  ماہ حرام کے  بدلے  ماہ حرام اور ادب کے  بدلے  ادب ہے  (ف ۳۵۹) جو تم پر زیادتی کرے  اس پر زیادتی کرو اتنی ہی جتنی اس نے  کی اور اللہ سے  ڈرتے  رہو اور جان رکھو کہ اللہ ڈر والوں کے  ساتھ ہے،

ٍ۳۵۹          جب گزشتہ سال ذی القعدہ ۶ھ میں مشرکین عرب نے ماہ حرام کی حرمت و ادب کا لحاظ نہ رکھا اور تمہیں ادائے عمرہ سے روکا تو یہ بے حرمتی ان سے واقع ہوئی اور اس کے بدلے بتوفیق الہی ۷ھ کے ذی القعدہ میں تمہیں موقع ملا کہ تم عمرۂ قضا کو ادا کرو۔

(۱۹۵) اور اللہ کی راہ میں خرچ کرو (ف ۳۶۰) اور اپنے  ہاتھوں، ہلاکت میں نہ پڑو (ف ۳۶۱) اور بھلائی والے  ہو جاؤ بیشک بھلائی والے  اللہ کے  محبوب ہیں۔

۳۶۰             اس سے تمام دینی امور میں طاعت و رضائے الہی کے لئے خرچ کرنا مراد ہے خواہ جہاد ہو یا اور نیکیاں۔

ٍ۳۶۱          راہِ خدا میں انفاق کا ترک بھی سبب ہلاک ہے اور اسراف بیجا بھی اور اس طرح اور چیز بھی جو خطرۂ ہلاک کا باعث ہو ان سب سے باز رہنے کا حکم ہے حتی کہ بے ہتھیار میدان جنگ میں جانا یا زہر کھانا یا کسی طرح خود کشی کرنا

مسئلہ : علماء نے اس سے یہ مسئلہ بھی اخذ کیا ہے کہ جس شہر میں طاعون ہو وہاں نہ جائیں اگرچہ وہاں کے لوگوں کو وہاں سے بھاگنا ممنوع ہے۔

(۱۹۶) اور حج اور عمرہ اللہ کے  لئے  پورا کرو (ف ۳۶۲) پھر اگر تم روکے  جاؤ (ف ۳۶۳) تو قربانی بھیجو جو میسر آئے  (ف ۳۶۴) اور اپنے  سر نہ منڈاؤ جب تک قربانی اپنے  ٹھکانے  نہ پہنچ جائے  (ف ۳۶۵) پھر جو تم میں بیمار ہو یا اس کے  سر میں کچھ تکلیف ہے  (ف ۳۶۶) تو بدلے  دے  روزے  (ف ۳۶۷) یا خیرات (ف ۳۶۸) یا قربانی، پھر جب تم اطمینان سے  ہو تو جو حج سے  عمرہ ملانے  کا فائدہ اٹھائے  (ف ۳۶۹) اس پر قربانی ہے  جیسی میسر آئے  (ف ۳۷۰) پھر جسے  مقدور نہ ہو تو تین روزے  حج کے  دنوں میں رکھے  (ف ۳۷۱) اور سات جب اپنے  گھر پلٹ کر جاؤ یہ پورے  دس ہوئے  یہ حکم اس کے  لئے  ہے  جو مکہ کا رہنے  والا نہ ہو (ف ۳۷۲) اور اللہ سے  ڈرتے  رہو اور جان رکھو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے،

ٍ۳۶۲          اور ان دونوں کو ان کے فرائض و شرائط کے ساتھ خاص اللّٰہ کے لئے بے سستی و نقصان کامل کرو حج نام ہے احرام باندھ کر نویں ذی الحجہ کو عرفات میں ٹھہرنے اور مکّہ معظمہ کے طواف کا اس کے لئے خاص وقت مقرر ہے جس میں یہ افعال کئے جائیں تو حج ہے

مسئلہ: حج بقول راجح ۹ھ میں فرض ہو اس کے فرضیت قطعی ہے حج کے فرائض یہ ہیں۔(۱)احرام (۲) عرفہ میں وقوف (۳) طواف زیارت۔حج کے واجبات (۱) مزدلفہ میں وقوف (۲) صفا و مروہ کے درمیان سعی(۳) رمی جمار اور (۴) آفاقی کے لئے طواف رجوع اور(۵) حلق یا تقصیر عمرہ کے رکن طواف و سعی ہیں اور اس کی شرط احرام و حلق ہے حج و عمرہ کے چار طریقے ہیں۔(۱) افراد بالحج وہ یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں یا ان سے قبل میقات سے یا اس ے پہلے حج کا احرام باندھے اور دل سے اس کی نیت کرے خواہ زبان سے تلبیہ کے وقت اس کا نام لے یا نہ لے (۲) افراد بالعمرہ وہ یہ ہے کہ میقات سے یا اس سے پہلے اشہر حج میں یا ان سے قبل عمرہ کا احرام باندھے اور دل سے اس کا قصد کرے خواہ وقت تلبیہ زبان سے اس کا ذکر کرے یا نہ کرے اور اس کے لئے اشہر حج میں یا اس سے قبل طواف کرے خواہ اس سال میں حج کرے یا نہ کرے مگر حج و عمرہ کے درمیان المام صحیح کرے اس طرح کہ اپنے اہل کی طرف حلال ہو کر واپس ہو۔(۳) قران یہ ہے کہ حج و عمرہ دونوں کو ایک احرام میں جمع کرے وہ احرام میقات سے باندھا ہو یا اس سے پہلے اشھر حج میں یا اس سے قبل اول سے حج و عمرہ دونوں کی نیت ہو خواہ وقت تلبیہ زبان سے دونوں کا ذکر کرے یا نہ کرے پہلے عمرہ کے افعال ادا کرے پھر حج کے۔(۴) تمتع یہ ہے کہ میقات سے یا اس سے پہلے اشہر حج میں یا اس سے قبل عمرہ کا احرام باندھے اور اشہر حج میں عمرہ کرے یا اکثر طواف اس کے اشہر حج میں ہوں اور حلال ہو کر حج کے لئے احرام باندھے اور اسی سال حج کرے اور حج و عمرہ کے درمیان اپنے اہل کے ساتھ المام صحیح نہ کرے۔(مسکین و فتح)

مسئلہ : اس آیت سے علماء نے قران ثابت کیا ہے۔

ٍ۳۶۳          حج یا عمرہ سے بعد شروع کرنے اور گھر سے نکلنے اور محرم ہو جانے کے یعنی تمہیں کوئی مانع ادائے حج یا عمرہ سے پیش آئے خواہ وہ دشمن کا خوف ہو یا مرض وغیرہ ایسی حالت میں تم احرام سے باہر آ جاؤ۔

ٍ۳۶۴          اونٹ یا گائے یا بکری اور یہ قربانی بھیجنا واجب ہے۔

ٍ۳۶۵          یعنی حرم میں جہاں اس کے ذبح کا حکم ہے مسئلہ یہ قربانی بیرون حرم نہیں ہو سکتی۔

ٍ۳۶۶          جس سے وہ سر منڈانے کے لئے مجبور ہو اور سر منڈا لے۔

ٍ۳۶۷          تین دن کے۔

ٍ۳۶۸          چھ مسکینوں کا کھانا ہر مسکین کے لئے پونے دو سیر گیہوں۔

ٍ۳۶۹          یعنی تمتع کرے۔

ٍ۳۷۰          یہ قربانی تمتع کی ہے حج کے شکر میں واجب ہوئی خواہ تمتع کرنے والا فقیر ہو، عید الضحیٰ کی قربانی نہیں جو فقیر و مسافر پر واجب نہیں ہوتی۔

ٍ۳۷۱          یعنی یکم شوال سے نویں ذی الحجہ تک احرام باندھنے کے بعد اس درمیان میں جب چاہے رکھ لے خواہ ایک ساتھ یا متفرق کر کے بہتر یہ ہے کہ ۷۔۸۔۹ ذی الحجہ کو رکھے۔

ٍ۳۷۲          مسئلہ: اہل مکہ کے لئے نہ تمتع ہے نہ قران اور حدود مواقیت کے اندر کے رہنے والے اہل مکہ میں داخل ہیں۔ مواقیت پانچ ہیں۔(۱) ذوالحلیفہ (۲) ذات عرق (۳) جحفہ (۴) قرن (۵) یلملم، ذو الحلیفہ: اہل مدینہ کے لئے ذات عرق اہل عراق کے لئے، جحفہ اہل شام کے لئے، قرن اہل نجد کے لئے، یلملم اہلِ یمن کے لئے۔

(۱۹۷)  حج کے  کئی مہینہ ہیں جانے  ہوئے  (ف ۳۷۳) تو جو ان میں حج کی نیت کرے  (ف ۳۷۴) تو نہ عورتوں کے  سامنے  صحبت کا تذکرہ ہو نہ کوئی گناہ،  نہ کسی سے  جھگڑا (ف ۳۷۵) حج کے  وقت تک اور تم جو بھلائی کرو اللہ اسے  جانتا ہے  (ف ۳۷۶) اور توشہ ساتھ لو کہ سب سے  بہتر توشہ پرہیز گاری ہے   (ف ۳۷۷) اور  مجھ سے  ڈرتے  رہو اے  عقل والو،(ف ۳۷۸)

ٍ۳۷۳          شوال ذوالقعدہ اور دس تاریخیں ذی الحجہ کی حج کے افعال انہی ایام میں درست ہیں۔

مسئلہ : اگر کسی نے ان ایام سے پہلے حج کا احرام باندھا تو جائز ہے لیکن بکراہت۔

ٍ۳۷۴          یعنی حج کو اپنے اوپر لازم و واجب کرے احرام باندھ کر یا تلبیہ کہہ کریا ہدی چلا کر اس پر یہ چیزیں لازم ہیں جن کا آگے ذکر فرمایا جاتا ہے۔

ٍ۳۷۵          رفث جماع یا عورتوں کے سامنے ذکر جماع یا کلام فحش کرنا ہے نکاح اس میں داخل نہیں۔

مسئلہ : مُحْرِمْ یا مُحْرِمَہْ کا نکاح جائز ہے مجامعت جائز نہیں۔ فسوق سے معاصی و سیأات اور جدال سے جھگڑا مراد ہے خواہ وہ اپنے رفیقوں یا خادموں کے ساتھ ہو یا غیروں کے ساتھ۔

ٍ۳۷۶          بدیوں کی ممانعت کے بعد نیکیوں کی ترغیب فرمائی کہ بجائے فسق کے تقویٰ اور بجائے جدال کے اخلاق حمیدہ اختیار کرو۔

ٍ۳۷۷          شان نزول: بعض یمنی حج کے لئے بے سامانی کے ساتھ روانہ ہوتے تھے اور اپنے آپ کو متوکل کہتے تھے اور مکہ مکرمہ پہنچ کر سوال شروع کرتے اور کبھی غصب و خیانت کے مرتکب ہوتے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور حکم ہوا کہ توشہ لے کر چلو اوروں پر بار نہ ڈالو سوال نہ کرو کہ بہتر توشہ پرہیزگاری ہے ایک قول یہ ہے کہ تقویٰ کا توشہ ساتھ لو جس طرح دنیوی سفر کے لئے توشہ ضروری ہے ایسے ہی سفر آخرت کے لئے پرہیز گاری کا توشہ لازم ہے۔

ٍ۳۷۸          یعنی عقل کا مقتضیٰ خوفِ الٰہی ہے جو اللّٰہ سے نہ ڈرے وہ بے عقلوں کی طرح ہے۔

(۱۹۸) تم پر کچھ گناہ نہیں (ف ۳۷۹) کہ اپنے  رب کا فضل تلاش کرو، تو جب عرفات سے  پلٹو  (ف ۳۸۰) تو اللہ کی یاد کرو (ف ۳۸۱) مشعر حرام کے  پاس (ف ۳۸۲) اور اس کا ذکر کرو جیسے  اس نے  تمہیں ہدایت فرمائی اور بیشک اس سے  پہلے  تم بہکے  ہوئے  تھے،(ف ۳۸۳)

ٍ۳۷۹          شان نزول :بعض مسلمانوں نے خیال کیا کہ راہِ حج میں جس نے تجارت کی یا اونٹ کرایہ پر چلائے اس کا حج ہی کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی،

مسئلہ : جب تک تجارت سے افعال حج کی ادا میں فرق نہ آئے اس وقت تک تجارت مباح ہے۔

ٍ۳۸۰          عرفات ایک مقام کا نام ہے جو مَوقَف ہے ضحاک کا قول ہے کہ حضرت آدم و حوا جدائی کے بعد ۹ذی الحجہ کو عرفات کے مقام پر جمع ہوئے اور دونوں میں تعارف ہوا اس لئے اس دن کا نام عرفہ اور مقام کا نام عرفات ہوا ایک قول یہ ہے کہ چونکہ اس روز بندے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں اس لئے اس دن کا نام عرفہ ہے

مسئلہ :عرفات میں وقوف فرض ہے کیونکہ افاضہ بلا وقوف متصور نہیں۔

ٍ۳۸۱          تلبیہ و تہلیل و تکبیر و ثنا و دعا کہ ساتھ یا نماز مغرب و عشاء کے ساتھ۔

ٍ۳۸۲          مشعر حرام جبل قُزَح ہے جس پر امام وقوف کرتا ہے

مسئلہ :وادی مُحَسَّر کے سوا تمام مزدلفہ موقف ہے اس میں وقوف واجب بے عذر ترک کرنے سے دم لا زم آتا ہے اور مشعر حرام کے پاس وقوف افضل ہے۔

ٍ۳۸۳          طریق ذکر و عبادت کچھ نہ جانتے تھے۔

(۱۹۹) پھر بات یہ ہے  کہ اے  قریشیو! تم بھی وہیں سے  پلٹو جہاں سے  لوگ پلٹتے  ہیں  (ف ۳۸۴)  اور اللہ سے  معافی مانگو، بیشک اللہ بخشنے  والا مہربان ہے۔

۳۸۴             قریش مزدلفہ میں ٹھہرے رہتے تھے اور سب لوگوں کے ساتھ عرفات میں وقوف نہ کرتے جب لوگ عرفات سے پلٹتے تو یہ مزدلفہ سے پلٹتے اور اس میں اپنی بڑائی سمجھتے اس آیت میں انہیں حکم دیا گیا کہ سب کے ساتھ عرفات میں وقوف کریں اور ایک ساتھ پلٹتے ں یہی حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی سنت ہے۔

(۲۰۰) پھر جب اپنے  حج کے  کام پورے  کر چکو (ف ۳۸۵) تو اللہ کا ذکر کرو جیسے  اپنے   باپ دادا کا  ذکر کرتے  تھے  (ف ۳۸۶) بلکہ اس سے  زیادہ اور کوئی  آدمی یوں کہتا ہے  کہ اے  رب ہمارے  ہمیں دنیا میں دے  اور آخرت میں اس کا کچھ حصہ نہیں۔

ٍ۳۸۵          طریق حج کا مختصر بیان یہ ہے کہ حاجی ۸ذی الحجہ کی صبح کو مکہ مکرمہ سے منیٰ کی طرف روانہ ہو وہاں عرفہ یعنی۹ ذی الحجہ کی فجر تک ٹھہرے اسی روز منیٰ سے عرفات آئے بعد زوال امام دو خطبے پڑھے یہاں حاجی ظہر و عصر کی نماز امام کے ساتھ ظہر کے وقت میں جمع کر کے پڑھے ان دونوں نمازوں کے لئے اذان ایک ہو گی اور تکبیریں دو اور دونوں نمازوں کے در میان سنت ظہر کے سوا کوئی نفل نہ پڑھا جائے اس جمع کے لئے امام اعظم ضرو ری ہے۔اگر امام اعظم نہ ہو یا گمراہ بد مذہب ہو تو ہر ایک نماز علیٰحدہ اپنے اپنے وقت میں پڑھی جائے اور عرفات میں غروب تک ٹھہرے پھر مزدلفہ کی طرف لوٹے اور جبل قُزَح کے قریب اترے مزدلفہ میں مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کر کے عشاء کے وقت میں پڑھے اور فجر کی نماز خوب اوّل وقت خوب اندھے رے میں پڑھے وادی محسّر کہ سوا تمام مزدلفہ اور بطن عُرنہ کے سوا تمام عرفات موقف ہے جب صبح خوب رو شن ہو تو روزِ نحر یعنی ۱۰ ذی الحجہ کو منیٰ کی طرف آئے اور بطنِ وادی سے جمرۂ عقبہ کی ۷مر تبہ رمی کرے پھر اگر چاہے قربانی کرے پھر بال منڈائے یا کترائے پھر ایّام ِ نحر میں سے پھر طوافِ زیارت کرے پھر منیٰ آکر تین روز اقامت کرے اور گیارہویں کے زوال کے بعد تینو ں جمروں کی رمی کرے اس جمرہ سے شروع کرے جو مسجد کے قریب ہے پھر جو اس کے بعد ہے پھر جمرۂ عقبہ ہر ایک کی سات سات مرتبہ پھر اگلے روز ایسا ہی کرے پھر اگلے روز ایسا ہی پھر مکّہ مکرمہ کی طرف چلا آئے (تفصیل کتب فقہ میں مذکور ہے )۔

ٍ۳۸۶          زمانہ جاہلیّت میں عرب حج کے بعد کعبہ کے قریب اپنے باپ دادا کے فضائل بیان کیا کرتے تھے۔اسلام میں بتایا گیا کہ یہ شہرت و خود نمائی کی بیکار باتیں ہیں بجائے اس کے ذوق و شوق کے ساتھ ذکرِ الٰہی کرو۔

مسئلہ :اس آیت سے ذکر ِ جہر و ذکر ِ جماعت ثابت ہوتا ہے۔

(۲۰۱)  اور کوئی یوں کہتا ہے  کہ اے  رب ہمارے ! ہمیں دنیا میں بھلائی دے  اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے  اور ہمیں عذاب دوزخ سے  بچا (ف ۳۸۷)

ٍ۳۸۷          دعا کرنے والوں کی دو قسمیں بیان فرمائیں ایک وہ کا فر جن کی دعا میں صرف طلبِ دنیا ہوتی تھی آخرت پر ان کا اعتقاد نہ تھا ان کے حق میں ارشاد ہوا کہ آخرت میں ان کا کچھ حصہ نہیں دوسرے وہ ایمان دار جو دنیا و آخرت دونوں کی بہتری کی دعا کرتے ہیں۔

مسئلہ :مؤمن دنیا کی بہتری جو طلب کرتا ہے وہ بھی امرِ جائز اور دین کی تائید و تقویت کے لئے اس لئے اس کی یہ دعا بھی امورِ دین سے ہے۔

(۲۰۲) ایسوں کو ان کی کمائی سے  بھاگ  (خوش نصیبی) ہے  (ف ۳۸۸)  اور اللہ جلد حساب کرنے  والا ہے  (ف ۳۸۹)

ٍ۳۸۸          مسئلہ :اس آیت سے ثابت ہوا کہ دعا کسب و اعمال میں داخل ہے حدیث شریف میں ہے کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اکثر یہی دعا فرماتے تھے اَلّٰلھُمَّ اٰتِناَ فِی الدُّنْیاَحَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِحَسَنَۃً وَّقِناَعَذَابَ النَّارِ۔

ٍ۳۸۹          عنقریب قیامت قائم کر کے بندوں کا حساب فرمائے گا تو چاہئے کہ بندے ذکرو دعا و طاعت میں جلدی کریں۔(مدارک وخازن)۔

(۲۰۳) اور اللہ کی یاد کرو گنے  ہوئے  دنوں میں (ف ۳۹۰) تو جلدی کر کے  دو دن میں چلا جائے  اس پر کچھ گنا نہیں اور جو رہ جائے  تو اس پر گناہ نہیں پرہیزگار کے  لئے  (ف ۳۹۱) اور اللہ سے  ڈرتے  رہو اور جان رکھو کہ تمہیں اسی کی طرف اٹھنا ہے۔

۳۹۰             ان دنوں سے ایّام تشریق اور ذکر اللّٰہ سے نمازوں کے بعد اور رمیِ  جِمار کے وقت تکبیر کہنا مراد ہے۔

ٍ۳۹۱          بعض مفسرین کا قول ہے کہ زمانہ جاہلیّت میں لوگ دو فریق تھے بعض جلدی کر نے والو ں کو گناہ گار بتا تے تھے،بعض رہ جانے والوں کو،قرآنِ پاک نے بیان فرما دیا کہ ان دونوں میں کوئی گناہ گار نہیں۔

(۲۰۴) اور بعض آدمی وہ ہیں کہ دنیا کی زندگی میں اس کی بات تجھے  بھلی لگے  (ف ۳۹۲) اور اپنے  دل کی بات پر اللہ کو گواہ لائے  اور وہ سب سے  بڑا  جھگڑالو ہے۔

ٍ۳۹۲          شانِ نزول: یہ ہے اور اس سے اگلی آیت اَخْنَسْ بن شَرِیْق منافق کے حق میں نازل ہوئی جو حضور سیدِ عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر بہت لجاجت سے میٹھی میٹھی باتیں کرتا تھا اور اپنے اسلام اور آپ کی محبت کا دعویٰ کرتا اور اس پر قسمیں کھاتا اور درپردہ فساد انگیزی میں مصروف رہتا تھا مسلمانو ں کے مویشی کو اس نے ہلاک کیا اور ان کی کھیتی کو آگ لگا دی۔

(۲۰۵) اور جب پیٹھ پھیرے  تو زمین میں فساد ڈالتا پھرے  اور کھیتی اور جانیں تباہ کرے  اور اللہ فسادسے  راضی نہیں

(۲۰۶) اور جب اس سے  کہا جائے  کہ اللہ سے  ڈرو تو اسے  اور ضد چڑھے  گنا ہ کی (ف ۳۹۳) ایسے  کو دوزخ کافی ہے  اور وہ ضرور بہت برا بچھونا ہے،

ٍ۳۹۳          گناہ سے ظلم و سر کشی اور نصیحت کی طرف التفات نہ کرنا مراد ہے۔(خازن)۔

(۲۰۷) اور کوئی آدمی اپنی جان بیچتا ہے  (ف ۳۹۴) اللہ کی مرضی چاہنے   میں اور اللہ بندوں پر مہربان ہے۔

۳۹۴             شان نزول: حضرت صہیب ابن سنان رومی مکہ معظمہ سے ہجرت کر کے حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے مشرکین قریش کی ایک جماعت نے آپ کا تعاقب کیا تو آپ سواری سے اترے اور ترکش سے تیر نکال کر فرمانے لگے کہ اے قریش تم میں سے کوئی میرے پاس نہیں آ سکتا جب تک کہ میں تیر مارتے مارتے تمام ترکش خالی نہ کر دوں اور پھر جب تک تلوار میرے ہاتھ میں رہے اس سے ماروں اس وقت تک تمہاری جماعت کا کھیت ہو جائے گا اگر تم میرا مال چاہو جو مکہ مکرمہ میں مدفون ہے تو میں تمہیں اس کا پتا بتا دوں، تم مجھ سے تعرض نہ کرو وہ اس پر راضی ہو گئے اور آپ نے اپنے تمام مال کا پتا بتا دیا جب حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو یہ آیت نازل ہوئی حضور نے تلاوت فرمائی اور ارشاد فرمایا: کہ تمہاری یہ جاں فروشی بڑی نافع تجارت ہے۔

(۲۰۸) اے  ایمان والو! اسلام میں پورے  داخل ہو (ف ۳۹۵) اور شیطان کے  قدموں پر نہ چلے  (ف ۳۹۶) بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

۳۹۵             شان نزول: اہل کتاب میں سے عبداللّٰہ بن سلام اور ان کے اصحاب حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لانے کے بعد شریعت موسوی کے بعض احکام پر قائم رہے شنبہ کی تعظیم کرتے اس روز شکار سے اجتناب لازم جانتے اور اونٹ کے دودھ اور گوشت سے پرہیز کرتے اور یہ خیال کرتے کہ یہ چیزیں اسلام میں تو مباح ہیں ان کا کرنا ضروری نہیں اور توریت میں ان سے اجتناب لازم کیا گیا ہے تو ان کے ترک کرنے میں اسلام کی مخالفت بھی نہیں ہے اور شریعت موسوی پر عمل بھی ہوتا ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ اسلام کے احکام کا پورا اتباع کرو یعنی توریت کے احکام منسوخ ہو گئے اب ان سے تمسک نہ کرو (خازن)۔

ٍ۳۹۶          اس کے وساوس و شبہات میں نہ آؤ۔

(۲۰۹) اور اگر اس کے  بعد بھی بچلو کہ  تمہارے  پاس روشن حکم آ چکے  (ف ۳۹۷) تو جان لو کہ اللہ زبردست حکمت والا ہے،

ٍ۳۹۷          اور باوجود واضح دلیلوں کے اسلام کی راہ کے خلاف روش اختیار کرو۔

(۲۱۰)  کاہے  کے  انتظار میں ہیں (ف ۳۹۸)  مگر یہی کہ اللہ کا عذاب آئے  چھائے  ہوئے  بادلوں میں اور فرشتے  اتریں (ف ۳۹۹) اور کام ہو چکے  اور سب کاموں کی رجوع اللہ کی طرف ہے، 

ٍ۳۹۸          ملّت اسلام کے چھوڑنے اور شیطان کی فرمانبرداری کرنے والے۔

ٍ۳۹۹          جو عذاب پر مامور ہیں۔

(۲۱۱) بنی اسرائیل سے  پوچھو ہم نے  کتنی روشن نشانیاں انہیں دیں (ف ۴۰۰) اور جو اللہ کی آئی ہوئی نعمت کو بدل دے  (ف ۴۰۱) تو بیشک اللہ کا  عذاب سخت ہے،

۴۰۰             کہ ان کے انبیاء کے معجزات کو ان کے صدق نبوت کی دلیل بنایا ان کے ارشاد اور ان کی کتابوں کو دین اسلام کی حقانیت کا شاہد کیا۔

۴۰۱             اللّٰہ تعالیٰ کی نعمت سے آیات الہیہ مراد ہیں جو سبب رشد و ہدایت ہیں اور ان کی بدولت گمراہی سے نجات حاصل ہوتی ہے انہیں میں سے وہ آیات ہیں جن میں سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی نعت و صفت اور حضور کی نبوت و رسالت کا بیان ہے یہود و نصاریٰ کی تحریفیں اس نعمت کی تبدیل ہے۔

(۲۱۲)  کافروں کی نگاہ میں دنیا کی زندگی آراستہ کی گئی (ف ۴۰۲) اور مسلمانوں سے  ہنستے  ہیں (ف ۴۰۳) اور ڈر والے  ان سے  اوپر ہوں گے  قیامت کے  دن (ف ۴۰۴) اور خدا جسے  چاہے  بے  گنتی دے۔

۴۰۲             وہ اسی کی قدر کرتے اور اسی پر مرتے ہیں۔

۴۰۳             اور سامان دنیوی سے ان کی بے رغبتی دیکھ کر ان کی تحقیر کرتے ہیں جیسا کہ حضرت عبداللّٰہ بن مسعود اور عمار بن یاسر اور صہیب و بلال رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم کو دیکھ کر کفار تمسخر کرتے تھے اور دولت دنیا کے غرور میں اپنے آپ کو اونچا سمجھتے تھے۔

۴۰۴             یعنی ایماندار روز قیامت جناب عالیہ میں ہوں گے اور مغرور کفار جہنم میں ذلیل و خوار۔

(۲۱۳) لوگ ایک دین  پر تھے  (ف ۴۰۵) پھر اللہ نے  انبیاء بھیجے  خوشخبری دیتے  (ف ۴۰۶) اور ڈر سناتے  (ف ۴۰۷)  اور ان کے  ساتھ سچی کتاب اتاری (ف ۴۰۸) کہ وہ لوگوں میں ان کے  اختلافوں کا فیصلہ کر دے   اور کتاب میں اختلاف اُنہیں نے  ڈالا جن کو دی گئی تھی (ف ۴۰۹) بعداس کے  کہ ان کے  پاس روشن حکم آ چکے  (ف ۴۱۰) آپس میں سرکشی سے  تو اللہ نے  ایمان والوں کو وہ حق بات سوجھا دی جس میں جھگڑ  رہے  تھے  اپنے  حکم سے، اور اللہ جسے  چاہے  سیدھی راہ دکھائے،

۴۰۵             حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے عہد نوح تک سب لوگ ایک دین اور ایک شریعت پر تھے پھر ان میں اختلاف ہوا تو اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو مبعوث فرمایا یہ بعثت میں پہلے رسول ہیں (خازن)۔

۴۰۶             ایمانداروں اور فرمانبرداروں کو ثواب کی (مدارک و خازن)۔

۴۰۷             کافروں اور نافرمانوں کو عذاب کا (خازن)۔

۴۰۸             جیسا کہ حضرت آدم و شیث و ادریس پر صحائف اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت حضرت داؤد پر زبور حضرت عیسیٰ پر انجیل اور خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ  پر قرآن۔

۴۰۹             یہ اختلاف تبدیل و تحریف اور ایمان و کفر کے ساتھ تھا جیسا کہ یہود و نصاریٰ سے واقع ہوا۔(خازن)۔

۴۱۰             یعنی یہ اختلاف نادانی سے نہ تھا بلکہ۔

(۲۱۴) کیا اس گمان میں ہو کہ جنت میں چلے  جاؤ گے  اور ابھی تم پر اگلوں کی سی روداد (حالت) نہ آئی (ف ۴۱۱) پہنچی انہیں سختی اور شدت اور  ہلا ہلا ڈالے  گئے  یہاں تک کہ کہہ اٹھا رسول (ف ۴۱۲) اور اس کے  ساتھ ایمان والے  کب آئے  گی اللہ کی مدد (ف ۴۱۳) سن لو بیشک اللہ کی مدد قریب ہے،

۴۱۱             اور جیسی سختیاں ان پر گزر چکیں ابھی تک تمہیں پیش نہ آئیں، شان نزول : یہ آیت غزوۂ احزاب کے متعلق نازل ہوئی جہاں مسلمانوں کو سردی اور بھوک وغیرہ کی سخت تکلیفیں پہنچی تھیں اس میں انہیں صبر کی تلقین فرمائی گئی اور بتایا گیا کہ راہِ خدا میں تکالیف برداشت کرنا قدیم سے خاصانِ خدا کا معمول رہا ہے۔ ابھی تو تمہیں پہلوں کی سی تکلیفیں پہنچی بھی نہیں ہیں بخاری شریف میں حضرت خباب بن ارت رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سایہ کعبہ میں اپنی چادر مبارک سے تکیہ کئے ہوئے تشریف فرما تھے ہم نے حضور سے عرض کی کہ حضور ہمارے لئے کیوں دعا نہیں فرماتے ہماری کیوں مدد نہیں کرتے فرمایا تم سے پہلے لوگ گرفتار کئے جاتے تھے زمین میں گڑھا کھود کر اس میں دبائے جاتے تھے آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کر  ڈالے جاتے تھے اور لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت نوچے جاتے تھے اور ان میں کی کوئی مصیبت انہیں ان کے دین سے روک نہ سکتی تھی۔

۴۱۲             یعنی شدت اس نہایت کو پہنچ گئی کہ ان امتوں کے رسول اور ان کے فرمانبردار مومن بھی طلب مدد میں جلدی کرنے لگے باوجود یکہ رسول بڑے صابر ہوتے ہیں اور ان کے اصحاب بھی لیکن باوجود ان انتہائی مصیبتوں کے وہ لوگ اپنے دین پر قائم رہے اور کوئی مصیبت و بلا ان کے حال کو متغیر نہ کر سکی۔

۴۱ٍ۳             اس کے جواب میں انہیں تسلی دی گئی اور یہ ارشاد ہوا۔

(۲۱۵) تم سے  پوچھتے  ہیں (ف ۴۱۴) کیا خرچ کریں، تم فرماؤ جو کچھ مال نیکی میں خرچ کرو تو و  ہ ماں باپ اور قریب کے  رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور راہ گیر کے  لئے  ہے  اور جو بھلائی کرو (ف ۴۱۵) بیشک اللہ اسے  جانتا ہے   (ف ۴۱۶)

۴۱۴             شان نزول: یہ آیت عمرو بن جموع کے جواب میں نازل ہوئی جو بوڑھے شخص تھے اور بڑے مالدار تھے انہوں نے حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا تھا کہ کیا خرچ کریں اور کس پر خرچ کریں اس آیت میں انہیں بتادیا گیا کہ جس قسم کا اور جس قدر مال قلیل یا کثیر خرچ کرو اس میں ثواب ہے اور مصارف اس کے یہ ہیں۔

مسئلہ:آیت میں صدقہ نافلہ کا بیان ہے ماں باپ کو زکوٰۃ  اور صدقات واجبہ دینا جائز نہیں۔(جمل وغیرہ)۔

۴۱۵             یہ ہر نیکی کو عام ہے انفاق ہو یا اور کچھ اور باقی مصارف بھی اس میں آ گئے۔

۴۱۶             اس کی جزا عطا فرمائے گا۔

(۲۱۶) تم پر فرض ہوا خدا کی راہ میں لڑنا اور  وہ تمہیں ناگوار ہے  (ف ۴۱۷)  اور قریب  ہے  کہ کوئی بات تمہیں بری لگے  اور  وہ تمہارے  حق میں بہتر ہو اور قریب ہے  کہ کوئی بات تمہیں پسند آئے  اور وہ تمہارے  حق میں بری ہو اور اللہ جانتا ہے  اور تم نہیں جانتے  (ف ۴۱۸)

۴۱۷             مسئلہ : جہاد فرض ہے جب اس کے شرائط پائے جائیں اگر کافر مسلمانوں کے ملک پر چڑھائی کریں تو جہاد فرض عین ہوتا ہے ورنہ فرض کفایہ۔

۴۱۸             کہ تمہارے حق میں کیا بہتر ہے تو تم پر لازم ہے کہ حکم الٰہی کی اطاعت کرو اور اسی کو بہتر سمجھو چاہے وہ تمہارے نفس پر گراں ہو۔

(۲۱۷) تم سے  پوچھتے  ہیں  ماہ حرام  میں لڑنے   کا حکم (ف ۴۱۹) تم فرماؤ اس میں لڑنا  بڑا گناہ ہے  (ف ۴۲۰) اور اللہ کی راہ سے  روکنا اور اس پر ایمان نہ لانا اور مسجد حرام سے  روکنا، اور اس کے  بسنے  والوں کو نکال دینا (ف ۴۲۱) اللہ کے  نزدیک یہ گناہ اس سے  بھی بڑے  ہیں اور ان کا فساد (ف ۴۲۲) قتل سے  سخت تر ہے  (ف ۴۲۳) اور ہمیشہ تم سے  لڑتے  رہیں گے  یہاں تک کہ تمہیں تمہارے  دین سے  پھیردیں اگر بن پڑے  (ف ۴۲۴) اور تم میں جو کوئی اپنے  دین سے  پھرے  پھر کافر ہو کر مرے  تو ان لوگوں کا کیا اکارت گیا دنیا میں اور آخرت میں (ف ۴۲۵) اور وہ دوزخ والے  ہیں انہیں اس میں ہمیشہ رہنا۔

۴۱۹             شان نزول: سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے عبداللّٰہ بن جحش کی سرکردگی میں مجاہدین کی ایک جماعت روانہ فرمائی تھی اس نے مشرکین سے قتال کیا ان کا خیال تھا کہ وہ روز جمادی الاخریٰ کا آخر دن ہے مگر درحقیقت چاند ۲۹ کو ہو گیا تھا اور رجب کی پہلی تاریخ تھی اس پر کفار نے مسلمانوں کو عار دلائی کہ تم نے ماہ حرام میں جنگ کی اور حضور صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کے متعلق سوال ہونے لگے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۴۲۰             مگر صحابہ سے یہ گناہ واقع نہیں ہوا کیونکہ انہیں چاند ہونے کی خبر ہی نہ تھی ان کے نزدیک وہ دن ماہ حرام رجب کا نہ تھا۔

مسئلہ : ماہ ہائے حرام میں جنگ کی حرمت کا حکم آیہ  اُقْتُلُوالْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْ تُّمُوْھُمْ سے منسوخ ہو گیا۔

۴۲۱             جو مشرکین سے واقع ہوا کہ انہوں نے حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ا ور آپ کے اصحاب کو سال حدیبیہ کعبہ معظمہ سے روکا اور آپ کے زمانہ قیام مکہ معظمہ میں آپ کو اور آپ کے اصحاب کو اتنی ایذائیں دیں کہ وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔

۴۲۲             یعنی مشرکین کا کہ وہ شرک کرتے ہیں اور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اور مومنین کو مسجد حرام سے روکتے اور طرح طرح کی ایذائیں دیتے ہیں۔

۴۲ٍ۳             کیونکہ قتل تو بعض حالات میں مباح ہوتا ہے اور کفر کسی حال میں مباح نہیں اور یہاں تاریخ کا مشکوک ہونا عذر معقول ہے اور کفار کے کفر کے لئے تو کوئی عذر ہی نہیں۔

۴۲۴             اس میں خبر دی گئی کہ کفار مسلمانوں سے ہمیشہ عداوت رکھیں گے کبھی اس کے خلاف نہ ہو گا اور جہاں تک ان سے ممکن ہو گا وہ مسلمانوں کو دین سے منحرف کرنے کی سعی کرتے رہیں گے۔  اِنِ اسْتَطَاعُوْا سے مستفاد ہوتا ہے کہ بکرمہٖ تعالیٰ وہ اپنی مراد میں ناکام رہیں گے۔

۴۲۵             مسئلہ : اس آیت سے معلوم ہوا کہ ارتداد سے تمام عمل باطل ہو جاتے ہیں آخرت میں تو اس طرح کہ ان پر کوئی اجرو ثواب نہیں اور دنیا میں اس طرح کہ شریعت مرتد کے قتل کا حکم دیتی ہے اس کی عورت اس پر حلال نہیں رہتی وہ اپنے اقارب کا ورثہ پانے کا مستحق نہیں رہتا اس کا مال معصوم نہیں رہتا اس کی مدح و ثنا و امداد جائز نہیں۔(روح البیان وغیرہ)

(۲۱۸) وه  جو ایمان لائے  اور وہ جنہوں نے  اللہ کے  لئے  اپنے  گھر بار چھوڑے  اور اللہ کی راہ میں لڑے  وہ  رحمت الٰہی کے  امیداور ہیں، اور اللہ بخشنے  والا مہربان ہے  (ف ۴۲۵-الف)

۴۲۵ (الف)             شان نزول : عبداللّٰہ بن جحش کی سرکردگی میں جو مجاہدین بھیجے گئے تھے ان کی نسبت بعض لوگوں نے کہا کہ چونکہ انہیں خبر نہ تھی کہ یہ دن رجب کا ہے اس لئے اس روز قتال کرنا گناہ تو نہ ہوا لیکن اس کا کچھ ثواب بھی نہ ملے گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور بتایا گیا کہ ان کا یہ عمل جہاد مقبول ہے اور اس پر انہیں امیدوار رحمت الٰہی رہنا چاہئے اور یہ امید قطعاً پوری ہو گی۔(خازن)

مسئلہ:  یَرْجُوْنَ  سے ظاہر ہوا کہ عمل سے اجر واجب نہیں ہوتا بلکہ ثواب دینا محض فضلِ الٰہی ہے۔

(۲۱۹) تم سے  شراب  اور جوئے  کا حکم پوچھتے  ہیں، تم فرما دو کہ ان  دونوں میں بڑا گناہ ہے   اور لوگوں کے  کچھ دنیوی نفع بھی اور ان کا گناہ ان کے  نفع سے  بڑا ہے  (ف ۴۲۶) تم سے  پوچھتے  ہیں کیا خرچ کریں (ف ۴۲۷) تم فرماؤ  جو فاضل بچے  (ف ۴۲۸) اسی طرح اللہ تم سے  آیتیں بیان فرماتا ہے  کہ کہیں تم دنیا۔۔

۴۲۶             حضرت علی مرتضیٰ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگر شراب کا ایک قطرہ کنویں میں گر جائے پھر اس جگہ منارہ بنایا جائے تو میں اس پر اذان نہ کہوں اور اگر دریا میں شراب کا قطرہ پڑے پھر دریا خشک ہوا ور وہاں گھاس پیدا ہو اس میں اپنے جانوروں کو نہ چراؤں سبحان اللّٰہ گناہ سے کس قدر نفرت ہے۔  رَزَقَناَ اللّٰہُ تَعَالیٰ اِتِّباَعُھُمْ شراب ۳ھ میں غزوۂ احزاب سے چند روز بعد حرام کی گئی اس سے قبل یہ بتایا گیا تھا کہ جوئے اور شراب کا گناہ اس کے نفع سے زیادہ ہے نفع تو یہی ہے کہ شراب سے کچھ سرور پیدا ہوتا ہے یا اس کی خریدو فروخت سے تجارتی فائدہ ہوتا ہے اور جوئے میں کبھی مفت کا مال ہاتھ آتا ہے اور گناہوں اور مفسدوں کا کیا شمار عقل کا زوال غیرت و حمیت کا زوال عبادات سے محرومی لوگوں سے عداوتیں سب کی نظر میں خوار ہونا دولت و مال کی اضاعت ایک روایت میں ہے کہ جبریل امین نے حضور پر نور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے حضور میں عرض کیا کہ اللّٰہ تعالیٰ کو جعفر طیار کی چار خصلتیں پسند ہیں۔ حضور نے حضرت جعفر رضی اللّٰہ عنہ سے دریافت فرمایا انہوں نے عرض کیا کہ ’ایک تو یہ ہے کہ میں نے شراب کبھی نہیں پی، یعنی حکم حرمت سے پہلے بھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میں جانتا تھا کہ اس سے عقل زائل ہوتی ہے ا ور میں چاہتا تھا کہ عقل اور بھی تیز ہو، دوسری خصلت یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں بھی میں نے کبھی بت کی پوجا نہیں کی کیونکہ میں جانتا تھا کہ یہ پتھر ہے نہ نفع دے سکے نہ ضرر، تیسری خصلت یہ ہے کہ کبھی میں زنا میں مبتلا نہ ہوا کہ اس کو بے غیرتی سمجھتا تھا، چوتھی خصلت یہ تھی کہ میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا کیونکہ میں اس کو کمینہ پن خیال کرتا تھا‘إ

مسئلہ: شطرنج تاش وغیرہ ہار جیت کے کھیل اور جن پر بازی لگائی جائے سب جوئے میں داخل اور حرام ہیں۔ (روح البیان)۔

۴۲۷             شان نزول :سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو صدقہ دینے کی رغبت دلائی تو آپ سے دریافت کیا گیا کہ مقدار ارشاد فرمائیں کتنا مال راہِ خدا میں دیا جائے اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(خازن)۔

۴۲۸             یعنی جتنا تمہاری حاجت سے زائد ہو۔ ابتدائے اسلام میں حاجت سے زائد مال کا خرچ کرنا فرض تھا صحابہ کرام اپنے مال میں سے اپنی ضرورت کی قدر لے کر باقی سب راہ خدا میں تصدُّق کر دیتے تھے۔یہ حکم آیت زکوٰۃ سے منسوخ ہو گیا۔

(۲۲۰) اور ا ٓ  خرت کے  کام سوچ کر کرو (ف ۴۲۹) اور تم سے  یتیموں کا مسئلہ پوچھتے  ہیں (ف ۴۳۰) تم فرماؤ ان کا بھلا کرنا بہتر ہے  اور اگر اپنا ان کا خرچ  ملالو تو وہ تمہارے  بھائی ہیں اور خدا خوب جانتا ہے  بگاڑنے  والے  کو سنوارنے  والے  سے، اور اللہ چاہتا ہے  تو تمہیں مشقت میں ڈالتا، بیشک اللہ زبردست حکمت والا ہے۔

۴۲۹             کہ جتنا تمہاری دنیوی ضرورت کے لئے کافی ہو وہ لے کر باقی سب اپنے نفع آخرت کے لئے خیرات کر دو (خازن)۔

۴۳۰             کہ ان کے اموال کو اپنے مال سے ملانے کا کیا حکم ہے شان نزول آیت  اِنَّ الَّذِیْنَ یَأ کُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمیٰ ظُلْماً کے نزول کے بعد لوگوں نے یتیموں کے مال جدا کر دیئے اور ان کا کھانا پینا علیحدہ کر دیا اس میں یہ صورتیں بھی پیش آئیں کہ جو کھانا یتیم کے لئے پکایا اور اس میں سے کچھ بچ رہا وہ خراب ہو گیا اور کسی کے کام نہ آیا اس میں یتیموں کا نقصان ہوا یہ صورتیں دیکھ کر حضرت عبداللّٰہ بن رواحہ نے حضور سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ اگر یتیم کے مال کی حفاظت کی نظر سے اس کا کھانا اس کے اولیاء اپنے کھانے کے ساتھ ملا لیں تو اس کا کیا حکم ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور یتیموں کے فائدے کے لئے ملانے کی اجازت دی گئی۔

(۲۲۱) اور شرک وا لی عورتوں سے  نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ ہو جائیں (ف ۴۳۱) اور بیشک مسلمان لونڈی مشرکہ سے  اچھی ہے  (ف ۴۳۲) اگرچہ وہ تمہیں بھاتی ہو اور مشرکوں کے  نکاح میں نہ  دو  جب تک وہ ایمان نہ لائیں (ف ۴۳۳) اور بیشک مسلمان غلام مشرک سے  اچھا ہے  اگرچہ  وہ تمہیں بھاتا  ہو، وہ دوزخ کی طرف بلاتے  ہیں (ف ۴۳۴) اور اللہ جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے  اپنے  حکم سے  اور اپنی آیتیں لوگوں کے  لئے  بیان کرتا ہے  کہ کہیں وہ نصیحت مانیں،

۴۳۱             شانِ نزول:حضرت مرثد غَنَوِی ایک بہادر شخص تھے سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں مکّہ مکرّمہ روانہ فرمایا تاکہ وہاں سے تدبیر کے ساتھ مسلمانوں کو نکال لائیں وہاں عناق نامی ایک مشرکہ عورت تھی جو زمانہ جاہلیت میں ان کے ساتھ محبت رکھتی تھی حسین اور مالدار تھی جب اس کو ان کی آمد کی خبر ہوئی تو وہ آپ کے پاس آئی اور طالب وصال ہوئی آپ نے بخوفِ الٰہی اس سے اعراض کیا اور فرمایا کہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا تب اس نے نکاح کی درخواست کی آپ نے فرمایا کہ یہ بھی رسول خدا صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی اجازت پر موقوف ہے اپنے کام سے فارغ ہو کر جب آپ خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے تو حال عرض کر کے نکاح کی بابت دریافت کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(تفسیر احمدی) بعض علماء نے فرمایا جو کوئی نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کفر کرے وہ مشرک ہے خواہ اللّٰہ کو واحد ہی کہتا ہو اور توحید کا مدعی ہو (خازن)۔

۴۳۲             شانِ نزول: ایک روز حضرت عبداللّٰہ بن رواحہ نے کسی خطا پر اپنی باندی کے طمانچہ مارا پھر خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اس کا ذکر کیا سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا حال دریافت کیا عرض کیا کہ وہ اللّٰہ کی وحدانیت اور حضور کی رسالت کی گواہی دیتی ہے۔ رمضان کے روزے رکھتی ہے خوب وضو کرتی ہے اور نماز پڑھتی ہے حضور نے فرمایا وہ مؤمنہ ہے آپ نے عرض کیا:تو اس کی قسم جس نے آپ کو سچا نبی بنا کر مبعوث فرمایا میں اس کو آزاد کر کے اس کے ساتھ نکاح کروں گا اور آپ نے ایسا ہی کیا اس پر لوگوں نے طعنہ زنی کی کہ تم نے ایک سیاہ فام باندی کے ساتھ نکاح کیا باوجوویکہ فلاں مشرکہ حرّہ عورت تمہارے لئے حاضر ہے وہ حسین بھی ہے مالدار بھی ہے اس پر نازل ہوا۔  وَلَاَمَۃٌ مُّوْئمِنَۃٌ یعنی مسلمان باندی مشرکہ سے بہتر ہے خواہ مشرکہ آزاد ہو اور حسن و مال کی وجہ سے اچھی معلوم ہوتی ہو۔

۴۳ٍ۳             یہ عورت کے اولیاء کو خطاب ہے

مسئلہ :مسلمان عورت کا نکاح مشرک و کافر کے ساتھ باطل و حرام ہے۔

۴۳۴             تو ان سے اجتناب ضروری اور ان کے ساتھ دوستی و قرابت ناروا۔

(۲۲۲) اور تم سے  پوچھتے  ہیں حیض کا حکم (ف ۴۳۵) تم فرماؤ وہ ناپاکی ہے  تو عورتوں سے  الگ رہو حیض کے  دنوں  اور ان سے  نزدیکی نہ کرو جب تک پاک نہ ہولیں پھر جب پاک ہو جائیں تو ان کے  پاس جاؤ جہاں سے  تمہیں اللہ نے  حکم دیا،  بیشک اللہ پسند کرتا ہے  بہت توبہ کرنے  والوں کو اور پسند رکھتا ہے  سھتروں کو،

۴۳۵             شانِ نزول:عرب کے لوگ یہود و مجوس کی طرح حائضہ عورتوں سے کمال نفرت کرتے تھے ساتھ کھانا پینا ایک مکان میں رہنا گوارا نہ تھا بلکہ شدت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ان کی طرف دیکھنا اور ان سے کلام کرنا بھی حرام سمجھتے تھے اور نصاریٰ اس کے برعکس حیض کے ایام میں عورتوں کے ساتھ بڑی محبت سے مشغول ہوتے تھے اور اختلاط میں بہت مبالغہ کرتے تھے مسلمانوں نے حضور سے حیض کا حکم دریافت کیا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور افراط و تفریط کی راہیں چھوڑ کر اعتدال کی تعلیم فرمائی گئی اور بتا دیا گیا کہ حالتِ حیض میں عورتوں سے مجامعت ممنوع ہے۔

(۲۲۳) تمہاری عورتیں تمہارے  لئے  کھیتیاں ہیں،  تو آؤ اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو (ف ۴۳۶) اور اپنے  بھلے  کا کام پہلے  کرو (ف ۴۳۷) اور اللہ سے  ڈرتے  رہو اور  جان رکھو کہ تمہیں اس سے  ملنا ہے   اور اے  محبوب بشارت دو ایمان والوں کو،

۴۳۶             یعنی عورتوں کی قربت سے نسل کا قصد کرو نہ قضاء شہوت کا۔

۴۳۷             یعنی اعمال صالحہ یا جماع سے قبل بسم اللّٰہ پڑھنا۔

(۲۲۴) اور اللہ کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بنالو (ف ۴۳۸)  کہ احسان اور پرہیز گاری او ر لوگوں میں صلح کرنے  کی قسم کر لو،  اور اللہ سنتا جانتا ہے۔

۴۳۸             حضرت عبداللّٰہ بن رواحہ نے اپنے بہنوئی نعمان بن بشیر کے گھر جانے اور ان سے کلام کرنے اور ان کے خصوم کے ساتھ ان کی صلح کرانے سے قسم کھا لی تھی جب اس کے متعلق ان سے کہا جاتا تھا تو کہہ دیتے تھے کہ میں قسم کھاچکا ہوں اس لئے یہ کام کر ہی نہیں سکتا اس باب میں یہ آیت نازل ہوئی اور نیک کام کرنے سے قسم کھا لینے کی ممانعت فرمائی گئی

مسئلہ :اگر کوئی شخص نیکی سے باز رہنے کی قسم کھا لے تو اس کو چاہئے کہ قسم کو پورا نہ کرے،بلکہ وہ نیک کام کرے اور قسم کا کفارہ دے۔مسلم شریف کی حدیث میں ہے رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے کسی امر پر قسم کھا لی پھر معلوم ہوا کہ خیر اور بہتری اس کے خلاف میں ہے تو چاہئے کہ اس امر خیر کو کرے اور قسم کا کفارہ دے۔

مسئلہ: بعض مفسرین نے یہ بھی کہا ہے کہ اس آیت سے بکثرت قسم کھانے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے۔

(۲۲۵)  اور تمہیں نہیں پکڑ تا ان قسموں میں جو بے  ارادہ زبان سے  نکل جائے  ہاں اس پر گرفت فرماتا ہے  جو کام تمہارے  دلوں نے  کئے  (ف ۴۳۹) اور اللہ بخشنے  والا حلم والا ہے،

۴۳۹             مسئلہ : قسم تین طرح کی ہوتی ہے (۱) لغو (۲) غموس (۳) منعقدہ (۱) لغو یہ ہے کہ کسی گزرے ہوئے امر پر اپنے خیال میں صحیح جان کر قسم کھائے اور درحقیقت وہ اس کے خلاف ہو یہ معاف ہے اور اس پر کفارہ نہیں۔(۲) غموس یہ ہے کہ کسی گزرے ہوئے امر پر دانستہ جھوٹی قسم کھائے اس میں گنہگار ہو گا۔(۳) منعقدہ یہ ہے کہ کسی آئندہ امر پر قصد کر کے قسم کھائے اس قسم کو اگر توڑے تو گنہگار بھی ہے اور کفارہ بھی لازم۔

(۲۲۶)  اور وہ جو قسم کھا بیٹھتے   ہیں اپنی عورتوں کے   پاس جانے  کی  انہیں چار مہینے  کی مہلت ہے، پس اگر اس مدت میں پھر آئے  تو اللہ بخشنے  والا مہربان ہے 

(۲۲۷) اور اگر چھوڑ دینے  کا ارادہ پکا کر لیا تو اللہ سنتا جانتا ہے (ف ۴۴۰)

۴۴۰             شانِ نزول: زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ معمول تھا کہ اپنی عورتوں سے مال طلب کرتے اگر وہ دینے سے انکار کرتیں تو ایک سال دو سال تین سال یا اس سے زیادہ عرصہ ان کے پاس نہ جانے اور صحبت ترک کرنے کی قسم کھا لیتے تھے اور انہیں پریشانی میں چھوڑ دیتے تھے نہ وہ بیوہ ہی تھیں کہ کہیں اپنا ٹھکانہ کر لیتیں نہ شوہر دار کہ شوہر سے آرام پاتیں اسلام نے اس ظلم کو مٹایا اور ایسی قسم کھانے والوں کے لئے چار مہینے کی مدت معین فرمادی کہ اگر عورت سے چار مہینے یا اس سے زائد عرصہ کے لئے یا غیر معین مدت کے لئے ترک صحبت کی قسم کھا لے جس کو ایلا کہتے ہیں تو اس کے لئے چار ماہ انتظار کی مہلت ہے اس عرصہ میں خوب سوچ سمجھ لے کہ عورت کو چھوڑنا اس کے لئے بہتر ہے یارکھنا اگر رکھنا بہتر سمجھے اور اس مدت کے اندر رجوع کرے تو نکاح باقی رہے گا اور قسم کاکفارہ لازم ہو گا اور اگر اس مدت میں رجوع نہ کیا قسم نہ توڑی تو عورت نکاح سے باہر ہو گئی اور اس پر طلاق بائن واقع ہو گئی۔

مسئلہ :اگر مرد صحبت پر قادر ہو تو رجوع صحبت ہی سے ہو گا اور اگر کسی وجہ سے قدرت نہ ہو تو بعد قدرت صحبت کا وعدہ رجوع ہے۔(تفسیری احمدی)۔

(۲۲۸) اور طلاق والیاں ف اپنی جانوں کو روکے  رہیں تین حیض تک (ف ۴۴۱)  اور انہیں حلال نہیں  کہ چھپائیں وہ جو اللہ نے  ان کے  پیٹ  میں پیدا کیا (ف ۴۴۲) اگر اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتی ہیں (ف ۴۴۳) اور ان کے  شوہروں کو اس مدت کے  اندر  ان کے  پھیر لینے  کا حق پہنچتا ہے  اگر ملاپ چاہیں (ف ۴۴۴)  اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے  جیسا ان پر ہے  شرع کے   موافق (ف ۴۴۵)  اور مردوں کو ان پر فضیلت ہے، اور اللہ غالب حکمت والا ہے،

۴۴۱             اس آیت میں مطلقہ عورتوں کی عدت کا بیان ہے جن عورتوں کو ان کے شوہروں نے طلاق دی اگر وہ شوہر کے پاس نہ گئی تھیں اور ان سے خلوت صحیحہ نہ ہوئی تھی جب تو ان پر طلاق کی عدت ہی نہیں ہے جیسا کہ آیہ مَالَکُمْ عَلَیْھِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ میں ارشاد ہے اور جن عورتوں کو خورد سالی یا کبر سنی کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو یا جو حاملہ ہو ان کی عدت کا بیان سورہ طلاق میں آئے گا۔ باقی جو آزاد عورتیں ہیں یہاں ان کی عدت و طلاق کا بیان ہے کہ اُن کی عدت تین حیض ہے۔

۴۴۲             وہ حمل ہو یا خون حیض کیونکہ اس کے چھپانے سے رجعت اور ولد میں جو شوہر کا حق ہے وہ ضائع ہو گا۔

۴۴۳             یعنی یہی مقتضائے ایمانداری ہے۔

۴۴۴             یعنی طلاق رجعی میں عدت کے اندر شوہر عورت سے رجوع کر سکتا ہے خواہ عورت راضی ہو یا نہ ہو لیکن اگر شوہر کو ملاپ منظور ہو تو ایسا کرے ضرر رسانی کا قصد نہ کرے جیسا کہ اہل جاہلیت عورت کو پریشان کرنے کے لئے کرتے تھے۔

۴۴۵             یعنی جس طرح عورتوں پر شوہروں کے حقوق کی ادا واجب ہے اسی طرح شوہروں پر عورتوں کے حقوق کی رعایت لازم ہے۔

(۲۲۹) یہ طلاق  (ف ۴۴۶)  دو بار تک ہے  پھر بھلائی کے  ساتھ روک لینا ہے  (ف ۴۴۷) یا نکوئی (اچھے  سلوک) کے  ساتھ چھوڑ  دینا ہے  (ف ۴۴۸) اور تمہیں روا نہیں کہ جو کچھ عورتوں کو دیا (ف ۴۴۹) اس میں سے  کچھ واپس لو (ف ۴۵۰)  مگر جب دونوں کو اندیشہ ہو کہ اللہ کی حدیں قائم نہ کریں گے  (ف ۴۵۱)  پھر اگر تمہیں خوف  ہو کہ وہ دونوں ٹھیک انہیں حدوں پر نہ رہیں گے  تو ان پر کچھ گناہ نہیں اس میں جو بدلہ دے  کر عورت چھٹی لے، (ف ۴۵۲) یہ اللہ کی حدیں ہیں ان سے  آگے  نہ بڑھو  اور جو اللہ کی حدوں سے  آگے  بڑھے  تو وہی لوگ ظالم ہیں،

۴۴۶             یعنی طلاق رجعی

 شانِ نزول: ایک عورت نے سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اس کے شوہر نے کہا ہے کہ وہ اس کو طلاق دیتا اور رجعت کرتا رہے گا ہر مرتبہ جب طلاق کی عدت گزرنے کے قریب ہو گی رجعت کر لے گا پھر طلاق دے دے گا اسی طرح عمر بھر اس کو قید رکھے گا اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور ارشاد فرما دیا کہ طلاق رجعی دو بار تک ہے اس کے بعد طلاق دینے پر رجعت کا حق نہیں۔

۴۴۷             رجعت کر کے۔

۴۴۸             اس طرح کہ رجعت نہ کرے اور عدت گزر کر عورت بائنہ ہو جائے۔

۴۴۹             یعنی مہر۔

۴۵۰             طلاق دیتے وقت۔

۴۵۱             جو حقوق زوجین کے متعلق ہیں۔

۴۵۲             یعنی طلاق حاصل کرے شانِ نزول: یہ آیت جمیلہ بنت عبداللّٰہ کے باب میں نازل ہوئی یہ جمیلہ ثابت بن قیس ابن شماس کے نکاح میں تھیں اور شوہر سے کمال نفرت رکھتی تھیں رسول خدا صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے حضور میں اپنے شوہر کی شکایت لائیں اور کسی طرح ان کے پاس رہنے پر راضی نہ ہوئیں تب ثابت نے کہا کہ میں نے ان کو ایک باغ دیا ہے اگر یہ میرے پاس رہنا گوارا نہیں کرتیں اور مجھ سے علیحدگی چاہتی ہیں تو وہ باغ مجھے واپس کریں میں ان کو آزاد کر دوں جمیلہ نے اس کو منظور کیا ثابت نے باغ لے لیا اور طلاق دے دی اس طرح کی طلاق کو خُلَعْ کہتے ہیں

مسئلہ :خُلَع طلاق بائن ہوتا ہے۔

مسئلہ : خُلَعْ میں لفظ خلع کا ذکر ضروری ہے۔

مسئلہ : اگر جدائی کی طلب گار عورت ہو تو خُلَع میں مقدار مہر سے زائد لینا مکروہ ہے اور اگر عورت کی طرف سے نشوز نہ ہو مرد ہی علیحدگی چاہے تو مرد کو طلاق کے عوض مال لینا مطلقاً مکروہ ہے۔

(۲۳۰) پھر اگر تیسری طلاق اسے   دی تو اب وہ عورت اسے  حلال نہ ہو گی جب تک دوسرے  خاوند کے  پاس نہ رہے، (ف ۴۵۳) پھر وہ دوسرا اگر اسے  طلاق دے   دے  تو ان  دونوں پر گناہ نہیں کہ پھر آپس میں مل جائیں (ف ۴۵۴) اگر سمجھتے   ہوں کہ اللہ کی حدیں نباہیں گے،  اور یہ  اللہ کی حدیں ہیں جنہیں بیان کرتا ہے  دانش مندوں کے  لئے۔

۴۵۳             مسئلہ:تین طلاقوں کے بعد عورت شوہر پر بحرمت مغلظہ حرام ہو جاتی ہے اب نہ اس سے رجوع ہو سکتا ہے نہ دوبارہ نکاح جب تک کہ حلالہ ہو یعنی بعد عدت دوسرے سے نکاح کرے اور وہ بعد صحبت طلاق دے پھر عدت گزرے۔

۴۵۴             دوبارہ نکاح کر لیں۔

(۲۳۱) اور جب تم عورتوں کو طلاق دو  اور  ان کی میعاد آلگے  (ف ۴۵۵) تو اس وقت تک یا بھلائی کے  ساتھ روک لو (ف ۴۵۶) یا نکوئی (اچھے  سلوک) کے  ساتھ چھوڑ دو (ف ۴۵۷)  اور انہیں ضرر  دینے  کے  لئے  روکنا نہ  ہو کہ حد سے  بڑھو اور جو ایسا کرے  وہ  اپنا ہی نقصان کرتا ہے  (ف ۴۵۸) اور اللہ کی آیتوں کو ٹھٹھا  نہ بنالو (ف ۴۵۹)  اور یاد کرو  اللہ کا احسان جو تم پر ہے  (ف ۴۶۰) اور و ہ جو تم پر کتاب اور حکمت (ف ۴۶۱) اتاری تمہیں نصیحت دینے  کو  اور اللہ سے  ڈرتے  رہو اور جان  رکھو کہ اللہ سب کچھ جانتا ہے  (ف ۴۶۲)

۴۵۵             یعنی عدت تمام ہونے کے قریب ہو

 شانِ نزول: یہ آیت ثابت بن یسار انصاری کے حق میں نازل ہوئی انہوں نے اپنی عورت کو طلاق دی تھی اور جب عدت قریب ختم ہوتی تھی رجعت کر لیا کرتے تھے تاکہ عورت قید میں پڑی رہے۔

۴۵۶             یعنی نباہنے اور اچھا معاملہ کرنے کی نیت سے رجعت کرو۔

۴۵۷             اور عدت گزر جانے دو تاکہ بعد عدت وہ آزاد ہو جائیں۔

۴۵۸             کہ حکم الٰہی کی مخالفت کر کے گنہگار ہوتا ہے۔

۴۵۹             کہ ان کی پرواہ نہ کرو اور انکے خلاف عمل کرو۔

۴۶۰             کہ تمہیں مسلمان کیا اور سید انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کا امتی بنایا۔

۴۶۱             کتاب سے قرآن اور حکمت سے احکام قرآن و سنت رسول صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم مراد ہے۔

۴۶۲             اس سے کچھ مخفی نہیں۔

(۲۳۲)  اور جب تم عورتوں کو طلاق دو اور ان کی میعاد پوری ہو جائے  (ف ۴۶۳) تو اے  عورتوں کے   والِیو انہیں نہ روکو اس سے  کہ اپنے  شوہروں سے  نکاح کر لیں (ف ۴۶۴) جب کہ آپس میں  موافق شرع رضا مند ہو جائیں (ف ۴۶۵) یہ نصیحت اسے  دی جاتی ہے  جو تم میں سے  اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو یہ تمہارے  لئے  زیادہ ستھرا اور پاکیزہ ہے  اور اللہ جانتا ہے  اور تم نہیں جانتے،

۴۶۳             یعنی ان کی عدت گزر چکے۔

۴۶۴             جن کو انہوں نے اپنے نکاح کے لئے تجویز کیا ہو خواہ وہ نئے ہوں یا یہی طلاق دینے والے یا ان سے پہلے جو طلاق دے چکے تھے۔

۴۶۵             اپنے کفو میں مہر مثل پر کیونکہ اس کے خلاف کی صورت میں اولیاء اعتراض و تعرض کا حق رکھتے ہیں۔ شانِ نزول: معقل بن یسار مزنی کی بہن کا نکاح عاصم بن عدی کے ساتھ ہوا تھا انہوں نے طلاق دی اور عدت گزرنے کے بعد پھر عاصم نے درخواست کی تو معقل بن یسار مانع ہوئے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی۔(بخاری شریف)۔

(۲۳۳)  اور مائیں دودھ پلائیں اپنے  بچوں کو (ف ۴۶۶) پورے  دو برس اس کے  لئے   جو دودھ کی مدت پوری کرنی چاہئے  (ف ۴۶۷)  اور جس کا بچہ ہے  (ف ۲۶۸) اس پر عورتوں کا کھانا پہننا ہے   حسب دستور (ف ۴۶۹) کسی جان پر بوجھ نہ رکھا  جائے  گا مگر اس کے  مقدور بھر ماں  کو ضرر نہ دیا جائے  اس کے  بچہ سے  (ف ۴۷۰) اور  نہ اولاد والے  کو اس کی اولاد سے  (ف ۴۷۱) یا ماں ضرر نہ دے  اپنے  بچہ کو اور نہ اولاد والا اپنی اولاد کو (ف ۴۷۲) اور جو باپ کا قائم مقام ہے  اس پر بھی ایسا ہی  واجب ہے  پھر اگر ماں باپ دونوں آپس کی رضا اور مشورے  سے  دودھ چھڑانا چاہیں تو ان پر گناہ نہیں اور اگر تم چاہو کہ دائیوں سے  اپنے  بچوں کو دودھ پلواؤ تو بھی تم پر مضائقہ نہیں جب کہ جو دینا ٹھہرا تھا بھلائی کے  ساتھ انہیں  ادا کر دو، اور اللہ سے  ڈرتے  رہو اور جان رکھو کہ اللہ تمہارے  کام دیکھ رہا ہے،

۴۶۶             بیان طلاق کے بعد یہ سوال طبعاً سامنے آتا ہے کہ اگر طلاق والی عورت کی گود میں شیر خوار بچہ ہو تو اس جدائی کے بعد اس کی پرورش کا کیا طریقہ ہو گا اس لئے یہ قرین حکمت ہے کہ بچہ کی پرورش کے متعلق ماں باپ پر جو احکام ہیں وہ اس موقع پر بیان فرما دیئے جائیں لہٰذا یہاں ان مسائل کا بیان ہوا۔

مسئلہ : ماں خواہ مطلقہ ہو یا نہ ہو اس پر اپنے بچے کو دودھ پلانا واجب ہے بشرطیکہ باپ کو اجرت پر دودھ پلوانے کی قدرت و استطاعت نہ ہو،یا کوئی دودھ پلانے والی میسر نہ آئے یا بچہ ماں کے سوا اور کسی کا دودھ قبول نہ کرے اگر یہ باتیں نہ ہوں یعنی بچہ کی پرورش خاص ماں کے دودھ پر موقوف نہ ہو تو ماں پر دودھ پلانا واجب نہیں مستحب ہے۔( تفسیر احمد ی و جمل وغیرہ)۔

۴۶۷             یعنی اس مدت کا پورا کرنا لازم نہیں اگر بچہ کو ضرورت نہ رہے اور دودھ چھڑانے میں اس کے لئے خطرہ نہ ہو تو اس سے کم مدت میں بھی چھڑانا جائز ہے۔ (تفسیر احمدی خازن وغیرہ)۔

۴۶۸             یعنی والد،اس انداز بیان سے معلوم ہوا کہ نسب باپ کی طرف رجوع کرتا ہے۔

۴۶۹             مسئلہ :بچہ کی پرورش اور اس کو دودھ پلوانا باپ کے ذمہ واجب ہے اس کے لئے وہ دودھ پلانے والی مقرر کرے لیکن اگر ماں اپنی رغبت سے بچہ کو دودھ پلائے تو مستحب ہے۔

مسئلہ:شوہر اپنی زوجہ پر بچہ کے دودھ پلانے کے لئے جبر نہیں کر سکتا اور نہ عورت شوہر سے بچہ کے دودھ پلانے کی اجرت طلب کر سکتی ہے جب تک کہ اس کے نکاح یا عدت میں رہے۔

مسئلہ : اگر کسی شخص نے اپنی زوجہ کو طلاق دی اور عدت گزر چکی تو وہ اس سے بچہ کے دودھ پلانے کی اجرت لے سکتی ہے۔

مسئلہ :اگر باپ نے کسی عورت کو اپنے بچہ کے دودھ پلانے پر بہ اجرت مقرر کیا اور اس کی ماں اسی اجرت پر یا بے معاوضہ دودھ پلانے پر راضی ہوئی تو ماں ہی دودھ پلانے کی زیادہ مستحق ہے اور اگر ماں نے زیادہ اجرت طلب کی تو باپ کو اس سے دودھ پلوانے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔(تفسیر احمد ی مدارک) المعروف سے مراد یہ ہے کہ حسب حیثیت ہو بغیر تنگی اور فضول خرچی کے۔

۴۷۰             یعنی اس کو اس کے خلاف مرضی دودھ پلانے پر مجبور نہ کیا جائے۔

۴۷۱             زیادہ اجرت طلب کر کے۔

۴۷۲             ماں کا بچہ کو ضرر دینا یہ ہے کہ اس کو وقت پر دودھ نہ دے اور اس کی نگرانی نہ رکھے یا اپنے ساتھ مانوس کر لینے کے بعد چھوڑ دے اور باپ کا بچہ کو ضرر دینا یہ ہے کہ مانوس بچہ کو ماں سے چھین لے یا ماں کے حق میں کوتاہی کرے جس سے بچہ کو نقصان پہنچے۔

(۲۳۴) اور تم میں جو مریں اور بیبیاں  چھوڑیں  وہ چار مہینے  دس  دن اپن ے  آپ کو روکے   رہیں (ف ۴۷۳) تو جب ان کی عدت  پوری  ہو جائے  تو اے  والیو! تم پر مؤاخذہ نہیں اس کام میں جو عورتیں اپنے   معاملہ میں  موافق شرع کریں، اور اللہ کو تمہارے  کاموں کی خبر ہے (ف ۴۷۴)۔

۴۷۳             حاملہ کی عدت تو وضع حمل ہے جیسا کہ سورہ طلاق میں مذکور ہے یہاں غیر حاملہ کا بیان ہے جس کا شوہر مر جائے اس کی عدت چار ماہ دس روز ہے۔اس مدت میں نہ وہ نکاح کرے نہ اپنا مسکن چھوڑے نہ بے عذر تیل لگائے،نہ خوشبو لگائے، نہ سنگار کرے،نہ رنگین اور ریشمیں کپڑے پہنے نہ مہندی لگائے،نہ جدید نکاح کی بات چیت کھل کر کرے اور جو طلاق بائن کی عدت میں ہو اس کا بھی یہی حکم ہے البتہ جو عورت طلاق رجعی کی عدت میں ہو اس کو زینت اور سنگار کرنا مستحب ہے۔

۴۷۴             یعنی عدت میں نکاح اور نکاح کا کھلا ہوا پیام تو ممنوع ہے،لیکن پردہ کے ساتھ خواہش نکاح کا اظہار گناہ نہیں مثلاً یہ کہے کہ تم بہت نیک عورت ہو یا اپنا ارادہ دل ہی میں رکھے اور زبان سے کسی طرح نہ کہے۔

(۲۳۵) اور تم پر گناہ نہیں  اس بات میں جو پردہ رکھ کر تم عورتوں کے   نکاح  کا پیام  د و یا  اپنے  دل میں چھپا رکھو  اللہ جانتا ہے  کہ اب تم  ان کی یاد کرو گے  (ف ۴۷۵) ہاں ان سے  خفیہ وعدہ نہ کر رکھو مگر یہ کہ اتنی بات کہو جو شرع میں معروف ہے، اور نکاح کی گرہ پکی نہ کرو جب تک لکھا ہوا حکم اپنی میعاد کو نہ پہنچ لے  (ف ۴۷۶) اور جان لو کہ اللہ تمہارے  دل کی جانتا ہے  تو اس سے  ڈرو اور جان لو کہ اللہ بخشنے  والا حلم  والا  ہے،

۴۷۵             اور تمہارے دلوں میں خواہش ہو گی اسی لئے تمہارے واسطے تعریض مباح کی گئی۔

۴۷۶             یعنی عدت گزر چکے۔

(۲۳۶) تم پر کچھ مطالبہ نہیں (ف ۴۷۷) تم عورتوں کو طلاق دو جب تک تم نے  ان کو ہاتھ نہ لگایا ہو یا کوئی مہر مقرر کر لیا ہو (ف ۴۷۸) اور ان کو کچھ برتنے  کو دو (ف ۴۷۹)  مقدور والے  پر اس کے  لائق اور تنگدست پر اس کے  لائق حسب دستور کچھ برتنے  کی چیز یہ واجب ہے  بھلائی والوں پر (ف ۴۸۰)

۴۷۷             مہر کا۔

۴۷۸             شانِ نزول: یہ آیت ایک انصاری کے باب میں نازل ہوئی جنہوں نے قبیلہ بنی حنیفہ کی ایک عورت سے نکاح کیا اور کوئی مہر معین نہ کیا پھر ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دی۔

مسئلہ :اس سے معلوم ہوا کہ جس عورت کا مہر مقرر نہ کیا ہو اگر اس کو ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دی تو مہر لازم نہیں ہاتھ لگانے سے مجامعت مراد ہے اور خلوت صحیحہ اسی کے حکم میں ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ بے ذکر مہر بھی نکاح درست ہے مگر اس صورت میں بعد نکاح مہر معین کرنا ہو گا اگر نہ کیا تو بعد دخول مہر مثل لازم ہو جائے گا۔

۴۷۹             تین کپڑوں کا ایک جوڑا۔

۴۸۰             جس عورت کا مہر مقرر نہ کیا ہو اور اس کو قبل دخول طلاق دی ہو اس کو تو جوڑا دینا واجب ہے اور اس کے سوا ہر مطلقہ کے لئے مستحب ہے۔(مدارک)۔

(۲۳۷) اور اگر  تم نے  عورتوں کو بے  چھوئے   طلاق دے  دی اور ان کے  لئے  کچھ  مہر مقرر کر چکے  تھے  تو جتنا ٹھہرا تھا اس کا آدھا واجب ہے  مگر یہ کہ عورتیں کچھ چھوڑ دیں (ف ۴۸۱)  یا  وہ زیاد ه دے  (ف ۴۸۲) جس کے  ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے  (ف ۴۸۳)  اور اے  مرَدو تمہارا زیادہ دینا پرہیز گاری سے  نزدیک تر ہے  اور آپس میں ایک دوسرے  پر احسان کو بھُلا نہ دو  بیشک اللہ تمہارے  کام دیکھ رہا ہے  (ف ۴۸۴)

۴۸۱             اپنے اس نصف میں سے۔

۴۸۲             نصف سے جو اس صورت میں واجب ہے۔

۴۸۳             یعنی شوہر۔

۴۸۴             اس میں حسن سلوک و مکارم اخلاق کی ترغیب ہے۔

(۲۳۸) نگہبانی کرو سب  نمازوں کی (ف ۴۸۵) اور بیچ کی نماز کی (ف ۴۸۶) اور کھڑے  ہو اللہ کے  حضور ادب سے (ف ۴۸۷)

۴۸۵             یعنی پنجگانہ فرض نمازوں کو ان کے اوقات پر ارکان و شرائط کے ساتھ ادا کرتے رہو اس میں پانچوں نمازوں کی فرضیت کا بیان ہے اور اولاد و ازواج کے مسائل و احکام کے درمیان میں نماز کا ذکر فرمانا اس نتیجہ پر پہنچاتا ہے کہ ان کو ادائے نماز سے غافل نہ ہونے دو اور نماز کی پابندی سے قلب کی اصلاح ہوتی ہے جس کے بغیر معاملات کا درست ہونا متصور نہیں۔

۴۸۶             حضرت امام ابوحنیفہ اور جمہور صحابہ رضی اللّٰہ عنہم کا مذہب یہ ہے کہ اس سے نماز عصر مراد ہے اور احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔

۴۸۷             اس سے نماز کے اندر قیام کا فرض ہونا ثابت ہوا۔

(۲۳۹)  پھر اگر خوف میں ہو تو  پیادہ  یا  سوار جیسے  بن پڑے  پھر جب اطمینان سے  ہو تو اللہ کی یاد کرو  جیسا اس نے  سکھایا جو تم نہ جانتے  تھے، 

(۲۴۰) اور جو تم میں مریں اور بیبیاں چھوڑ جائیں، وہ اپنی عورتوں کے  لئے  وصیت کر جائیں (ف ۴۸۸)  سال بھر تک نان نفقہ دینے  کی بے  نکالے  (ف ۴۸۹) پھر اگر وہ خود نکل جائیں تو تم پر اس کا مؤاخذہ نہیں جو انہوں نے  اپنے  معاملہ میں مناسب طور پر کیا، اور اللہ غالب حکمت والا ہے،

۴۸۸             اپنے اقارب کو۔

۴۸۹             ابتدائے اسلام میں بیوہ کی عدّت ایک سال کی تھی اور ایک سال کامل وہ شوہر کے یہاں رہ کر نان و نفقہ پانے کی مستحق ہوتی تھی۔ پھر ایک سال کی عدت تو  یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍوَّ عَشْرًا سے منسوخ ہوئی جس میں بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن مقرر فرمائی گئی اور سال بھر کا نفقہ آیت میراث سے منسوخ ہوا جس میں عورت کا حصہ شوہر کے ترکہ سے مقرر کیا گیا لہٰذا اب اس وصیت کا حکم باقی نہ رہا حکمت اس کی یہ ہے کہ عرب کے لوگ اپنے مورث کی بیوہ کا نکلنا یا غیر سے نکاح کرنا بالکل گوارا ہی نہ کرتے تھے اور اس کو عار سمجھتے تھے اس لئے اگر ایک دم چار ماہ دس روز کی عدت مقرر کی جاتی تو یہ ان پر بہت شاق ہوتی لہذا بتدریج انہیں راہ پر لایا گیا۔

(۲۴۱) اور طلاق  وا لیوں کے  لئے  بھی مناسب طور پر نان و نفقہ ہے، یہ واجب  ہے  پرہیزگاروں  پر،

(۲۴۲)  اللہ یونہی بیان کرتا ہے   تمہارے  لئے  اپنی آیتیں کہ کہیں تمہیں سمجھ ہو۔

 (۲۴۳) اے  محبوب کیا تم نے  نہ دیکھا تھا انہیں جو اپنے  گھروں سے  نکلے  اور وہ ہزاروں تھے  موت کے  ڈر سے، تو اللہ نے  ان سے  فرمایا مرجاؤ پھر انہیں  زندہ فرما دیا، بیشک اللہ لوگوں پر فضل کرنے  والا ہے  مگر اکثر لوگ ناشکرے  ہیں (ف ۴۹۰)

۴۹۰             بنی اسرائیل کی ایک جماعت تھی جس کے بلاد میں طاعون ہوا تو وہ موت کے ڈر سے اپنی بستیاں چھوڑ بھاگے اور جنگل میں جا پڑے بحکم الہی سب وہیں مر گئے کچھ عرصہ کے بعد حضرت حزقیل علیہ السلام کی دعا سے انہیں اللّٰہ تعالیٰ نے زندہ فرمایا اور وہ مدتوں زندہ رہے اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی موت کے ڈر سے بھاگ کر جان نہیں  بچا سکتا تو بھاگنا بے کار ہے جو موت مقدر ہے وہ ضرور پہنچے گی بندے کو چاہئے کہ رضائے الٰہی پر راضی رہے مجاہدین کو بھی سمجھنا چاہئے کہ جہاد سے بیٹھ رہنا موت کو دفع نہیں کر سکتا لہذا دل مضبوط رکھنا چاہئے۔

(۲۴۴)  اور لڑو اللہ کی راہ میں (ف ۴۹۱)  اور جان لو کہ اللہ سنتا جانتا ہے، 

۴۹۱             اور موت سے نہ بھاگو جیسا بنی اسرائیل بھاگے تھے کیونکہ موت سے بھاگنا کام نہیں آتا۔

(۲۴۵)  ہے  کوئی جو اللہ کو قرض حسن دے   (ف ۴۹۲)  تو اللہ اس کے  لئے  بہت  گنُا بڑھا دے   اور اللہ تنگی اور کشائیش کرتا ہے  (ف ۴۹۳)  اور تمہیں اسی کی طرف پھر جانا،

۴۹۲             یعنی راہ خدا میں اخلاص کے ساتھ خرچ کرے راہِ خدا میں خرچ کرنے کو قرض سے تعبیر فرمایا یہ کمال لطف و کرم ہے بندہ اس کا بنایا ہوا اور بندے کا مال اس کا عطا فرمایا ہوا حقیقی مالک وہ اور بندہ اس کی عطا سے مجازی ملک رکھتا ہے مگر قرض سے تعبیر فرمانے میں یہ دل نشین کرنا منظور ہے کہ جس طرح قرض دینے والا اطمینان رکھتا ہے کہ اس کا مال ضائع نہیں ہوا وہ اس کی واپسی کا مستحق ہے ایسا ہی راہِ خدا میں خرچ کرنے والے کو اطمینان رکھنا چاہئے کہ وہ اس انفاق کی جزا بالیقین پائے گا اور بہت زیادہ پائے گا۔

۴۹۳             جس کے لئے چاہے روزی تنگ کرے جس کے لئے چاہے وسیع فرمائے تنگی و فراخی اس کے قبضہ میں ہے اور وہ اپنی راہ میں خرچ کرنے والے سے وسعت کا وعدہ کرتا ہے۔

(۲۴۶)  اے  محبوب !کیا تم نے  نہ دیکھا بنی اسرائیل کے  ایک گروہ کو جو موسیٰ کے  بعد ہوا (ف ۴۹۴) جب اپنے  ایک  پیغمبر سے  بولے  ہمارے  لیے  کھڑا کر دو ایک بادشاہ کہ ہم خدا کی راہ میں لڑیں، نبی نے  فرمایا کیا تمہارے  انداز ایسے  ہیں کہ تم پر جہاد فرض کیا جائے  تو پھر نہ کرو، بولے  ہمیں کیا  ہوا کہ ہم اللہ کی راہ میں نہ لڑیں حالانکہ ہم نکالے  گئے  ہیں اپنے  وطن اور اپنی اولاد سے  (ف ۴۹۵) تو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا منہ پھیر گئے  مگر ان میں کے  تھوڑے  (ف ۴۹۶) اور اللہ خوب جانتا ہے  ظالموں کو،

۴۹۴             حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد جب بنی اسرائیل کی حالت خراب ہوئی اور انہوں نے عہد ِا لٰہی کو فراموش کیابت پرستی میں مبتلا ہوئے سرکشی اور بد افعالی انتہا کو پہنچی ان پر قوم جالوت مسلّط ہوئی جس کو عمالقہ کہتے ہیں کیونکہ جالوت عملیق بن عاد کی اولاد سے ایک نہایت جابر بادشاہ تھا اس کی قوم کے لوگ مصر و فلسطین کے درمیان بحر روم کے ساحل پر رہتے تھے انہوں نے بنی اسرائیل کے شہر چھین لئے آدمی گرفتار کئے طرح طرح کی سختیاں کیں اس زمانہ میں کوئی نبی قوم بنی اسرائیل میں موجود نہ تھے خاندانِ نبوت سے صرف ایک بی بی باقی رہی تھیں جو حاملہ تھیں ان کے فرزند تولد ہوئے ان کا نام اشمویل رکھا جب وہ بڑے ہوئے تو انہیں علم توریت حاصل کرنے کے لئے بیت المقدس میں ایک کبیر السن عالم کے سپرد کیا وہ آپ کے ساتھ کمال شفقت کرتے اور آ پ کو فرزند کہتے جب آپ سن بلوغ کو پہنچے تو ایک شب آپ اس عالم کے قریب آرام فرما رہے تھے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے اسی عالم کی آواز میں یا اشمویل کہہ کر پکارا آپ عالم کے پاس گئے اور فرمایا کہ آپ نے مجھے پکارا ہے عالم نے بایں خیال کہ انکار کرنے سے کہیں آپ ڈر نہ جائیں یہ کہہ دیا کہ فرزند تم سو جاؤ پھر دوبارہ حضرت جبریل علیہ السلام نے اسی طرح پکارا اور حضرت اشمویل علیہ السلام عالم کے پاس گئے عالم نے کہا کہ اے فرزند اب اگر میں تمہیں پھر پکاروں تو تم جواب نہ دینا تیسری مرتبہ میں حضرت جبریل علیہ السلام ظاہر ہو گئے اور انہوں نے بشارت دی کہ اللّٰہ تعالی نے آپ کو نبوت کا منصب عطا فرمایا آپ اپنی قوم کی طرف جائیے اور اپنے رب کے احکام پہنچائیے جب آپ قوم کی طرف تشریف لائے انہوں نے تکذیب کی اور کہاکہ آپ اتنی جلدی نبی بن گئے اچھا اگر آپ نبی ہیں تو ہمارے لئے ایک بادشاہ قائم کیجئے۔(خازن وغیرہ)۔

۴۹۵             کہ قوم جالوت نے ہماری قوم کے لوگوں کو ان کے وطن سے نکالا ان کی اولاد کو قتل و غارت کیا چار سو چالیس شاہی خاندان کے فرزندوں کو گرفتار کیا جب حالت یہاں تک پہنچ چکی تو اب ہمیں جہاد سے کیا چیز مانع ہو سکتی ہے تب نبی اللّٰہ کی دعا سے اللّٰہ تعالیٰ نے ان کی درخواست قبول فرمائی اور ان کے لئے ایک بادشاہ مقرر کیا اور جہاد فرض فرمایا (خازن)۔

۴۹۶             جن کی تعداد اہل بدر کے برابر تین سو تیرہ تھی۔

(۲۴۷)  اور ان سے  ان کے  نبی نے  فرمایا  بیشک اللہ نے  طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا کر بھیجا ہے  (ف ۴۹۷) بولے  اسے  ہم پر بادشاہی کیونکر ہو گی (ف ۴۹۸) اور ہم اس سے  زیادہ سلطنت کے  مستحق ہیں اور اسے  مال میں بھی  وسعت نہیں دی گئی (ف ۴۹۹)  فرمایا اسے  اللہ نے  تم پر چن لیا (ف ۵۰۰) اور اسے  علم اور جسم میں کشادگی زیادہ دی (ف ۵۰۱) اور اللہ اپنا ملک جسے  چاہ  ے  دے  (ف ۵۰۲) اور اللہ وسعت والا علم والا ہے  (ف ۵۰۳)

۴۹۷             طالوت بنیامین بن حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد سے ہیں آپ کا نام طول قامت کی وجہ سے طالوت ہے حضرت اشمویل علیہ السلام کو اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عصا ملا تھا اور بتایا گیا تھا کہ جو شخص تمہاری قوم کا بادشاہ ہو گا اس کا قد اس عصا کے برابر ہو گا۔ آپ نے اس عصا سے طالوت کا قد ناپ کر فرمایا کہ میں تم کو بحکم الٰہی بنی اسرائیل کا بادشاہ مقرر کرتا ہوں اور بنی اسرائیل سے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بنا کر بھیجا ہے ( خازن و جمل)۔

۴۹۸             بنی اسرائیل کے سرداروں نے اپنے نبی حضرت اشمویل علیہ السلام سے کہا کہ نبوت تو لاویٰ بن یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں چلی آتی ہے اور سلطنت یہود بن یعقوب کی اولاد میں اور طالوت ان دونوں خاندانوں میں سے نہیں ہیں تو بادشاہ کیسے ہو سکتے ہیں۔

۴۹۹             وہ غریب شخص ہیں بادشاہ کو صاحب مال ہونا چاہئے۔

۵۰۰             یعنی سلطنت ورثہ نہیں کہ کسی نسل و خاندان کے ساتھ خاص ہو یہ محض فضل الٰہی پر ہے اس میں شیعہ کا رد ہے جن کا اعتقاد یہ ہے کہ امامت وراثت ہے۔

۵۰۱             یعنی نسل و دولت پر سلطنت کا استحقاق نہیں علم و قوت سلطنت کے لئے بڑے معین ہیں اور طالوت اس زمانہ میں تمام بنی اسرائیل سے زیادہ علم رکھتے تھے اور سب سے جسیم اور توانا تھے۔

۵۰۲             اس میں وراثت کو کچھ دخل نہیں۔

۵۰۳             جسے چاہے غنی کر دے اور وسعت مال عطا فرما دے اس کے بعد بنی اسرائیل نے حضرت اشمویل علیہ السلام سے عرض کیا کہ اگر اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں سلطنت کے لئے مقرر فرمایا ہے تو اس کی نشانی کیا ہے۔(خازن و مدارک)۔

(۲۴۸)  اور ان سے  ان کے  نبی نے  فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے  کہ آئے  تمہارے  پاس تابوت (ف ۵۰۴) جس میں تمہارے  رب کی طرف سے  دلوں کا  چین ہے  اور کچھ بچی ہوئی چیزیں معزز موسی  ٰ او  ر معزز ہارون کے  ترکہ کی اٹھاتے   لائیں گے  اسے  فرشتے، بیشک اس میں بڑی نشانی ہے  تمہارے  لئے  اگر ایمان رکھتے  ہو۔

۵۰۴             یہ تابوت شمشاد کی لکڑی کا ایک زر اندود صندوق تھا جس کا طول تین ہاتھ کا اور عرض دو ہاتھ کا تھا اس کو اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام پر نازل فرمایا تھا اس میں تمام انبیاء علیہم السلام کی تصویریں تھیں ان کے مساکن و مکانات کی تصویریں تھیں اور آخر میں حضور سید انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کی اور حضور کی دولت سرائے اقدس کی تصویر ایک یاقوت سرخ میں تھی کہ حضور بحالت نماز قیام میں ہیں اور گرد آپ کے آپ کے اصحاب حضرت آدم علیہ السلام نے ان تمام تصویروں کو دیکھا یہ صندوق وراثتاً منتقل ہوتا ہوا حضرت موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا آپ اس میں توریت بھی رکھتے تھے اور اپنا مخصوص سامان بھی، چنانچہ اس تابوت میں الواح توریت کے ٹکڑے بھی تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور آپ کے کپڑے اور آپ کی نعلین شریفین اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ اور ان کی عصا اور تھوڑا سا من جو بنی اسرائیل پر نازل ہوتا تھا حضرت موسی علیہ السلام جنگ کے موقعوں پر اس صندوق کو آگے رکھتے تھے اس سے بنی اسرائیل کے دلوں کو تسکین رہتی تھی آپ کے بعد یہ تابوت بنی اسرائیل میں متوارث ہوتا چلا آیا جب انہیں کوئی مشکل درپیش ہوتی وہ اس تابوت کو سامنے رکھ کر دعائیں کرتے اور کامیاب ہوتے دشمنوں کے مقابلہ میں اس کی برکت سے فتح پاتے جب بنی اسرائیل کی حالت خراب ہوئی اور ان کی بد عملی بہت بڑھ گئی اور اللّٰہ تعالیٰ نے ان پر عمالقہ کو مسلط کیا تو وہ ان سے تابوت چھین کر لے گئے اور اس کو نجس اور گندے مقامات میں رکھا اور اس کی بے حرمتی کی اور ان گستاخیوں کی وجہ سے وہ طرح طرح کے امراض و مصائب میں مبتلا ہوئے ان کی پانچ بستیاں ہلاک ہوئیں اور انہیں یقین ہوا کہ تابوت کی اہانت ان کی بربادی کا باعث ہے تو انہوں نے تابوت ایک بیل گاڑی پر رکھ کر بیلوں کو چھوڑ دیا اور فرشتے اس کو بنی اسرائیل کے سامنے طالوت کے پاس لائے اور اس تابوت کا آنا بنی اسرائیل کے لئے طالوت کی بادشاہی کی نشانی قرار دیا گیا تھا بنی اسرائیل یہ دیکھ کر اس کی بادشاہی کے مقر ہوئے اور بے درنگ جہاد کے لئے آمادہ ہو گئے کیونکہ تابوت پا کر انہیں اپنی فتح کا یقین ہو گیا طالوت نے بنی اسرائیل میں سے ستر ہزار جوان منتخب کئے جن میں حضرت داؤد علیہ السلام بھی تھے ( جلالین و جمل و خازن و مدارک وغیرہ) فائدہ : اس سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کے تبرکات کا اعزاز و احترام لازم ہے ان کی برکت سے دعائیں قبول ہوتی اور حاجتیں روا ہوتی ہیں اور تبرکات کی بے حرمتی گمراہوں کا طریقہ اور بربادی کا سبب ہے فائدہ تابوت میں انبیاء کی جو تصویریں تھیں وہ کسی آدمی کی بنائی ہوئی نہ تھیں اللّٰہ کی طرف سے آئی تھیں۔

(۲۴۹) پھر جب طالوت لشکروں کو لے  کر شہر سے  جدا ہوا بولا بیشک اللہ تمہیں ایک نہر سے  آزمانے  والا ہے  تو جو اس کا پانی پئے  وہ میرا نہیں اور جو نہ پیئے  وہ میرا ہے  مگر وہ جو ایک چلُو اپنے  ہاتھ سے  لے  لے  (ف ۵۰۶) تو سب نے  اس سے  پیا مگر تھوڑوں نے  (ف ۵۰۷) پھر جب طالوت اور اس کے  ساتھ کے  مسلمان نہر کے  پار گئے  بولے  ہم میں آج طاقت نہیں جالوت  اور اس کے  لشکروں کی بولے  وہ جنہیں اللہ سے  ملنے   کا یقین تھا کہ بارہا کم جماعت غالب آئی ہے  زیادہ گروہ  پر  اللہ کے  حکم سے، اور اللہ  صابروں کے  ساتھ ہے  (ف ۵۰۸)

۵۰۵             یعنی بیت المقدس سے دشمن کی طرف روانہ ہوا وہ وقت نہایت شدت کی گرمی کا تھا لشکریوں نے طالوت سے اس کی شکایت کی اور پانی کے طلبگار ہوئے۔

۵۰۶             یہ امتحان مقرر فرمایا گیا تھا کہ شدت تشنگی کے وقت جو اطاعت حکم پر مستقل رہا وہ آئندہ بھی مستقل رہے گا اور سختیوں کامقابلہ کر سکے گا اور جو اس وقت اپنی خواہش سے مغلوب ہو اور نافرمانی کرے وہ آئندہ سختیوں کو کیا برداشت کرے گا۔

۵۰۷             جن کی تعداد تین سو تیرہ تھی انہوں نے صبر کیا اور ایک چُلُّو ان کے اور انکے جانوروں کے لئے کافی ہو گیا اور انکے قلب و ایمان کو قوت ہوئی اور نہر سے سلامت گزر گئے اور جنہوں نے خوب پیا تھا ان کے ہونٹ سیاہ ہو گئے تشنگی اور بڑ ھ گئی اور ہمت ہار گئے۔

۵۰۸             ان کی مدد فرماتا ہے اور اسی کی مدد کام آتی ہے۔

(۲۵۰) پھر جب سامنے   آئے  جالوت اور اس کے  لشکروں کے  عرض کی اے  رب ہمارے  ہم پر صبر انڈیل اور ہمارے  پاؤں جمے  رکھ کافر لوگوں پرہماری مدد کر،

(۲۵۱) تو انہوں نے  ان کو بھگا دیا اللہ کے  حکم سے، اور قتل کیا داؤد نے  جالوت کو (ف ۵۰۹) اور اللہ نے  اسے  سلطنت اور حکمت (ف ۵۱۰)  عطا فرمائی  اور اسے  جو چاہا سکھایا (ف ۵۱۱) اور اگر اللہ لوگوں میں بعض سے  بعض کو دفع نہ کرے  (ف ۵۱۲)  تو ضرور زمین تباہ ہو جائے  مگر اللہ سارے  جہان پر فضل کرنے  والا ہے،

۵۰۹             حضرت داؤد علیہ السلام کے والد ایشا طالوت کے لشکر میں تھے اور انکے ساتھ انکے تمام فرزند بھی حضرت داؤد علیہ السلام ان سب میں چھوٹے تھے بیمار تھے رنگ زرد تھا بکریاں چراتے تھے جب جالوت نے بنی اسرائیل سے مقابلہ طلب کیا وہ اس کی قوت جسامت دیکھ کر گھبرائے کیونکہ وہ بڑا جابر قوی شہ زور عظیم الجثہ قد آور تھا طالوت نے اپنے لشکر میں اعلان کیا کہ جو شخص جالوت کو قتل کرے میں اپنی بیٹی اس کے نکاح میں دوں گا اور نصف ملک اس کو دوں گا مگر کسی نے اس کاجواب نہ دیا تو طالوت نے اپنے نبی حضرت شمویل علیہ السلام سے عرض کیا کہ بارگاہ الہی میں دعا کریں آپ نے دعا کی تو بتایا گیا کہ حضرت داؤد علیہ السلام جالوت کو قتل کریں گے طالوت نے آپ سے عرض کیا کہ اگر آپ جالوت کو قتل کریں تو میں اپنی لڑکی آپ کے نکاح میں دوں اور نصف ملک پیش کروں آپ نے قبول فرمایا اور جالوت کی طرف روانہ ہو گئے صف قتال قائم ہوئی اور حضرت داؤد علیہ السلام دست مبارک میں فلاخن لے کر مقابل ہوئے جالوت کے دل میں آپ کو دیکھ کر دہشت پیدا ہوئی مگر اس نے باتیں بہت متکبرانہ کیں اور آپ کو اپنی قوت سے مرعوب کرنا چاہا آپ نے فلاخن میں پتھر رکھ کر مارا وہ اس کی پیشانی توڑ کر پیچھے سے نکل گیا اور جالوت مر کر گر گیا حضرت داؤد علیہ السلام نے اس کو لا کر طالوت کے سامنے ڈال دیا تمام بنی اسرائیل خوش ہوئے اور طالوت نے حضرت داؤد علیہ السلام کو حسب وعدہ نصف ملک دیا اور اپنی بیٹی کا آپ کے ساتھ نکاح کر دیا ایک مدت کے بعد طالوت نے وفات پائی تمام ملک پر حضرت داؤد علیہ السلام کی سلطنت ہوئی(جمل وغیرہ)۔

۵۱۰             حکمت سے نبوت مراد ہے۔

۵۱۱             جیسے کہ زرہ بنانا اور جانوروں کا کلام سمجھنا۔

۵۱۲             یعنی اللّٰہ تعالیٰ نیکو ں کے صدقہ میں دوسروں کی بلائیں بھی دفع فرماتا ہے حضرت ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ سے مروی کہ رسول خدا صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ ایک صالح مسلمان کی برکت سے اس کے پڑوس کے سو گھر والوں کی بلا دفع فرماتا ہے سبحان اللّٰہ نیکوں کا قرب بھی فائدہ پہنچاتا ہے (خازن)۔

(۲۵۲) یہ اللہ کی آیتیں ہیں کہ ہم اے  محبوب تم پر ٹھیک ٹھیک پڑھتے  ہیں، اور تم بے شک رسولوں میں ہو۔

(۲۵۳)  یہ (ف ۵۱۳) رسول ہیں کہ ہم نے  ان میں ایک کو دوسرے  پر افضل کیا (ف ۵۱۴) ان میں کسی سے  اللہ نے  کلام فرمایا (ف ۵۱۵) اور کوئی وہ ہے  جسے  سب پر درجوں بلند کیا (ف ۵۱۶) اور ہم نے  مریم کے  بیٹے  عیسیٰ کو کھلی نشانیاں دیں (ف ۵۱۷) اور پاکیزہ روح سے  اس کی مدد کی (ف ۵۱۸) اور اللہ چاہتا تو ان کے  بعد والے  آپس میں نہ لڑتے  نہ اس کے  کہ ان کے  پاس کھلی نشانیاں آ چکیں (ف ۵۱۹)  لیکن وہ مختلف ہو گئے  ان میں کوئی ایمان پر رہا اور کوئی کافر ہو گیا (ف ۵۲۰) اور اللہ چاہتا تو وہ نہ لڑتے  مگر اللہ جو چاہے  کرے (ف ۵۲۱)

۵۱ٍ۳             یہ حضرات جن کا ذکر ما سبق میں اور خاص آیہ  اِنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ میں فرمایا گیا۔

۵۱۴             اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کے مراتب جداگانہ ہیں بعض حضرات سے بعض افضل ہیں اگرچہ نبوّت میں کوئی تفرقہ نہیں وصفِ نبوّت میں سب شریک یک دگر ہیں مگر خصائص و کمالات میں درجے متفاوت ہیں یہی آیت کا مضمون ہے اور اسی پر تمام امت کا اجماع ہے۔ (خازن و مدارک)۔

۵۱۵             یعنی بے واسطہ جیسے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو طور پر کلام سے مشرف فرمایا اور سید انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کو معراج میں (جمل)۔

۵۱۶             وہ حضور پر نور سیّد انبیاء محمد مصطفیٰ  صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ہیں کہ آپ کو بدرجات کثیرہ تمام انبیاء علیہم السلام پر افضل کیا اس پر تمام امت کا اجماع ہے اور بکثرت احادیث سے ثابت ہے آیت میں حضور کی اس رفعت مرتبت کا بیان فرمایا گیا اور نام مبارک کی تصریح نہ کی گئی اس سے بھی حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علوِ شان کا اظہار مقصود ہے کہ ذات والا کی یہ شان ہے کہ جب تمام انبیاء پر فضیلت کا بیان کیا جائے تو سوائے ذاتِ اقدس کے یہ وصف کسی پر صادق ہی نہ آئے اور کوئی اشتباہ راہ نہ پا سکے حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے وہ خصائص و کمالات جن میں آپ تمام انبیاء پر فائق و افضل ہیں اور آپ کا کوئی شریک نہیں بے شمار ہیں کہ قرآن کریم میں یہ ارشاد ہوا، درجوں بلند کیا ان درجوں کی کوئی شمار قرآن کریم میں ذکر نہیں فرمائی تو اب کون حد لگا سکتا ہے ان بے شمار خصائص میں سے بعض کا اجمالی و مختصر بیان یہ ہے کہ آپ کی رسالت عامّہ ہے تمام کائنات آپ کی امت ہے اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَآاَرْسَلْنَاکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلْنَّاسِ بَشِیْراً وَّنَذِیْراً  دوسری آیت میں فرمایا لِیَکُوْنَ لِلْعَالَمِیْنَ نَذِیْرًا مسلم شریف کی حدیث میں ارشاد ہوا اُرْسِلْتُ اِلیَ الْخَلَائِقِ کَآفَّۃً اور آپ پر نبوت ختم کی گئی قرآن پاک میں آپ کو خا تم النّبیّین فرمایا حدیث شریف میں ارشاد ہوا خُتِمَ بِیالنَّبِیُّوْنَ آیات بیّنات و معجزات باہرات میں آپ کو تمام انبیاء پر افضل فرمایا گیا، آپ کی امت کو تمام امتوں پر افضل کیا گیا، شفاعتِ کُبریٰ آپ کو مرحمت ہوئی،قرب خاص معراج آپ کو ملا، علمی و عملی کمالات میں آپ کو سب سے اعلیٰ کیا اور اس کے علاوہ بے انتہا خصائص آپ کو عطا ہوئے۔(مدارک، جمل، خازن بیضاوی وغیرہ)۔

۵۱۷             جیسے مردے کو زندہ کرنا،بیماروں کو تندرست کرنا، مٹی سے پرند بنانا، غیب کی خبریں دینا وغیرہ۔

۵۱۸             یعنی جبریل علیہ السلام سے جو ہمیشہ آ پ کے ساتھ رہتے تھے۔

۵۱۹             یعنی انبیاء کے معجزات۔

۵۲۰             یعنی انبیاء سابقین کی امتیں بھی ایمان و کفر میں مختلف رہیں یہ نہ ہوا کہ تمام امت مطیع ہو جاتی۔

۵۲۱             اس کے ملک میں اس کی مشیت کے خلاف کچھ نہیں ہو سکتا اور یہی خدا کی شان ہے۔

(۲۵۴) اے  ایمان والو! اللہ کی راہ میں ہمارے  دیئے  میں سے  خرچ کرو وہ دن آنے  سے  پہلے  جس میں نہ خرید و فروخت ہے  اور نہ کافروں کے  لئے  دوستی اور نہ شفاعت، اور کافر خود ہی ظالم ہیں (ف ۵۲۲)

۵۲۲             کہ انہوں نے زندگانی دنیا میں روز حاجت یعنی قیامت کے لئے کچھ نہ کیا۔

(۲۵۵)  اللہ ہے  جس کے  سوا کوئی معبود نہیں (ف ۵۲۳) وہ آپ زندہ اور اوروں کا قائم رکھنے  والا (ف ۵۲۴) اسے  نہ اونگھ آئے  نہ نیند (ف ۵۲۵) اسی کا ہے  جو کچھ آسمانوں میں ہے  اور جو کچھ زمین میں (ف ۵۲۶) وہ کون ہے  جو اس کے  یہاں سفارش کرے  بغیر اس کے  حکم کے  (ف ۵۲۷) جانتا ہے  جو کچھ ان کے  آگے  ہے  اور جو کچھ ان کے  پیچھے  (ف ۵۲۹) اور وہ نہیں پاتے  اس کے  علم میں سے  مگر جتنا  وہ چاہے  (ف ۵۲۹) اس کی کرسی میں سمائے  ہوئے  آسمان اور زمین (ف ۵۳۰) اور اسے  بھاری نہیں ان کی نگہبانی اور وہی ہے  بلند بڑائی والا (ف ۵۳۱)

۵۲ٍ۳             اس میں اللّٰہ تعالیٰ کی الوہیت اور اس کی توحید کا بیان ہے اس آیت کو آیت الکرسی کہتے ہیں احادیث میں اس کی بہت فضیلتیں وارد ہیں۔

۵۲۴             یعنی واجب الوجود اور عالم کا ایجاد کرنے اور تدبیر فرمانے والا۔

۵۲۵             کیونکہ یہ نقص ہے اور وہ نقص و عیب سے پاک۔

۵۲۶             اس میں اس کی مالکیت اور نفاذ امرو تصرف کا بیان ہے اور نہایت لطیف پیرایہ میں ردّ شرک ہے کہ جب سارا جہان اس کی ملک ہے تو شریک کون ہو سکتا ہے،مشرکین یا تو کواکب کو پوجتے ہیں جو آسمانوں میں ہیں یا دریاؤں پہاڑوں، پتھروں،درختوں،جانوروں، آگ وغیرہ کو جو زمین میں ہیں جب آسمان و زمین کی ہر چیز اللّٰہ کی ملک ہے تو یہ کیسے پوجنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔

۵۲۷             اس میں مشرکین کا رد ہے جن کا گمان تھا کہ بت شفاعت کریں گے انہیں بتا دیا گیا کہ کفار کے لئے شفاعت نہیں اللّٰہ کے حضور مَأ ذُوْنِیۡن کے سوا کوئی شفاعت نہیں کر سکتا اور اذن والے انبیاء و ملائکہ و مؤمنین ہیں۔

۵۲۸             یعنی ما قبل و مابعد یا امور دنیا و آخرت۔

۵۲۹             اور جن کو وہ مطلع فرمائے وہ انبیاء و رسل ہیں جن کو غیب پر مطلع فرمانا ان کی نبوّت کی دلیل ہے دوسری آیت میں ارشاد فرمایا لَایُظْھِرُ عَلیٰ غَیْبِہٖۤ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضیٰ مِنْ رَّسُوْلٍ(خازن)۔

۵۳۰             اس میں اس کی عظمتِ شان کا اظہار ہے اور کرسی سے یا علم و قدرت مراد ہے یا عرش یا وہ جو عرش کے نیچے اور ساتوں آسمانوں کے اوپر ہے اور ممکن ہے کہ یہ وہی ہو جو فلک البروج کے نام سے مشہور ہے۔

۵۳۱             اس آیت میں الہیّات کے اعلیٰ مسائل کا بیان ہے اور اس سے ثابت ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ موجود ہے الٰہیت میں واحد ہے حیات کے ساتھ متصف ہے واجب الوجود اپنے ماسوا کا موجد ہے تحیز و حلول سے منزّہ اور تغیر اور فتور سے مبرّا ہے نہ کسی کو اس سے مشابہت نہ عوارض مخلوق کو اس تک رسائی ملک و ملکوت کا مالک اصول و فروع کا مُبدِع قوی گرفت والا جس کے حضور سوائے ماذون کے کوئی شفاعت کے لئے لب نہ ہلا سکے تمام اشیاء کا جاننے والا جلی کا بھی اور خفی کا بھی کلّی کا بھی اور جزئی کا بھی واسع الملک و القدرۃ ادراک و وہم و فہم سے برتر و بالا۔

(۲۵۶) کچھ زبردستی نہیں (ف ۵۳۲) دین میں بیشک خوب جدا ہو گئی ہے  نیک راہ گمراہی سے  تو جو شیطان کو  نہ مانے  اور اللہ پر ایمان لائے  (ف ۵۳۳) اس نے  بڑی محکم گرہ تھامی جسے  کبھی کھلنا نہیں، اور اللہ سنتا جانتا ہے،

۵۳۲             صفات الٰہیہ کے بعد  لَآ اِکْرَاہَ فِی الدِّیْنِ  فرمانے میں یہ اشعار ہے کہ اب عاقل کے لئے قبول حق میں تامل کی کوئی وجہ باقی نہ رہی۔

۵۳ٍ۳             اس میں اشارہ ہے کہ کافر کے لئے اول اپنے کفر سے توبہ و بیزاری ضرور ہے اس کے بعد ایمان لانا صحیح ہوتا ہے۔

(۲۵۷) اللہ وا لی ہے  مسلمانوں کا انہیں اندھیریوں سے  (ف ۵۳۴) نور کی طرف نکلتا ہے، اور کافروں کے  حمایتی شیطان ہیں وہ انہیں نور سے  اندھیریوں کی طرف نکالتے  ہیں یہی لوگ دوزخ والے  ہیں انہیں ہمیشہ اس میں رہنا، 

۵۳۴             کفر و ضلالت کی ایمان و ہدایت کی روشنی اور۔

(۲۵۸) اے  محبوب! کیا تم نے  نہ دیکھا تھا اسے  جو ابراہیم سے  جھگڑا اس کے  رب کے  بارے  میں اس پر (ف ۵۳۵) کہ اللہ نے  اسے  بادشاہی دی (ف ۵۳۶) جبکہ ابراہیم نے  کہا کہ میرا رب وہ ہے  جو جِلاتا اور مارتا ہے  (ف ۵۳۷) بولا میں جِلاتا اور مارتا ہوں (ف ۵۳۸) ابراہیم نے  فرمایا تو اللہ سورج کو لاتا ہے  پورب (مشرق) سے  تو اس کو پچھم (مغرب)  سے  لے  آ (ف ۵۳۹) تو ہوش اڑ گئے  کافروں کے، اور اللہ راہ نہیں دکھاتا ظالموں کو، 

۵۳۵             غرور و تکبر پر۔

۵۳۶             اور تمام زمین کی سلطنت عطا فرمائی اس پر اس نے بجائے شکرو طاعت کے تکبر و تجبر کیا اور ربوبیت کا دعویٰ کرنے لگا اس کا نام نمرود بن کنعان تھا سب سے پہلے سر پر تاج رکھنے والا یہی ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کو خدا پرستی کی دعوت دی خواہ آگ میں ڈالے جانے سے قبل یا اس کے بعد تو وہ کہنے لگا کہ تمہارا رب کون ہے جس کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو۔

۵۳۷             یعنی اجسام میں موت و حیات پیدا کرتا ہے ایک خدا نا شناس کے لئے یہ بہترین ہدایت تھی اور اس میں بتایا گیا تھا کہ خود تیری زندگی اس کے وجود کی شاہد ہے کہ تو ایک بے جان نطفہ تھا جس نے اس کو انسانی صورت دی اور حیات عطا فرمائی وہ رب ہے اور زندگی کے بعد پھر زندہ اجسام کو جو موت دیتا ہے وہ پروردگار ہے اس کی قدرت کی شہادت خود تیری اپنی موت و حیات میں موجود ہے اس کے وجود سے بے خبر رہنا کمال جہالت و سفاہت اور انتہائی بدنصیبی ہے یہ دلیل ایسی زبردست تھی کہ اس کا جواب نمرود سے بن نہ پڑا اور اس خیال سے کہ مجمع کے سامنے اس کو لاجواب اور شرمندہ ہونا پڑتا ہے اس نے کج بحثی اختیار کی۔

۵۳۸             نمرود نے دو شخصوں کو بلایا ان میں سے ایک کو قتل کیا ایک کو چھوڑ دیا اور کہنے لگا کہ میں بھی جلاتا مارتا ہوں یعنی کسی کو گرفتار کر کے چھوڑ دینا اس کو جلانا ہے یہ اس کی نہایت احمقانہ بات تھی کہاں قتل کرنا اور چھوڑنا اور کہاں موت و حیات پیدا کرنا قتل کئے ہوئے شخص کو زندہ کرنے سے عاجز رہنا اور بجائے اس کے زندہ کے چھوڑنے کو جلانا کہنا ہی اس کی ذلت کے لئے کافی تھا عقلاء پر اسی سے ظاہر ہو گیا کہ جو حجت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قائم فرمائی وہ قاطع ہے اور اس کا جواب ممکن نہیں لیکن چونکہ نمرود کے جواب میں شان دعویٰ پیدا ہو گئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس پر مناظرانہ گرفت فرمائی کہ موت و حیات کا پیدا کرنا تو تیرے مقدور میں نہیں اے ربوبیت کے جھوٹے مدعی تو اس سے سہل کام ہی کر دکھا جو ایک متحرک جسم کی حرکت کا بدلنا ہے۔

۵۳۹             یہ بھی نہ کر سکے تو ربوبیت کا دعویٰ کس منہ سے کرتا ہے

مسئلہ : اس آیت سے علم کلام میں مناظرہ کرنے کا ثبوت ہوتا ہے۔

(۲۵۹) یا اس کی طرح جو گزرا  ایک بستی پر (ف ۵۴۰) اور وہ ڈھئی (مسمار ہوئی) پڑی تھی اپنی  چھتوں پر (ف ۵۴۱) بولا اسے  کیونکر جِلائے  گا اللہ اس کی موت کے  بعد تو اللہ نے  اسے  مردہ رکھا سو برس پھر زندہ کر دیا، فرمایا تو یہاں کتنا ٹھہرا، عرض کی دن بھر ٹھہرا ہوں گا یا کچھ کم، فرمایا نہیں تجھے  سو برس گزر گئے  اور اپنے  کھانے  اور پانی کو دیکھ کہ اب تک بو نہ لایا اور اپنے  گدھے  کو دیکھ کہ جس کی ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں اور یہ اس لئے  کہ تجھے  ہم لوگوں کے  واسطے  نشانی کریں اور ان ہڈیوں کو دیکھ کیونکر ہم انہیں اٹھان دیتے  پھر انہیں گوشت پہناتے  ہیں جب یہ معاملہ اس پر ظاہر ہو گیا بولا میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ سب کچھ کر سکتا ہے،

۵۴۰             بقول اکثر یہ واقعہ عُزیر علیہ السلام کاہے اور بستی سے بیت المقدس مراد ہے جب بُختِ نصر بادشاہ نے بیت المقدس کو ویران کیا اور بنی اسرائیل کو قتل کیا گرفتار کیا تباہ کر ڈالا پھر حضرت عُزیر علیہ السلام وہاں گزرے آ پ کے ساتھ ایک برتن کھجور اور ایک پیالہ انگور کا رس تھا اور آپ ایک دراز گوش پر سوار تھے تمام بستی میں پھرے کسی شخص کو وہاں نہ پایا بستی کی عمارتوں کو منہدم دیکھا تو آپ نے براہ تعجب کہا  اَنّیٰ یُحْیِیْ ھٰذِہِ اللّٰہُ بَعْدَ مُوْتِھَا اور آپ نے اپنی سواری کے حمار کو وہاں باندھ دیا اور آپ نے آرام فرمایا اسی حالت میں آپ کی روح قبض کر لی گئی اور گدھا بھی مرگیا یہ صبح کے وقت کا واقعہ ہے اس سے ستر برس بعد اللّٰہ تعالیٰ نے شاہان فارس میں سے ایک بادشاہ کو مسلط کیا اور وہ اپنی فوجیں لے کر بیت المقدس پہنچا اور اس کو پہلے سے بھی بہتر طریقہ پر آباد کیا اور بنی اسرائیل میں سے جو لوگ باقی رہے تھے اللّٰہ تعالیٰ انہیں پھر یہاں لایا اور وہ بیت المقدس اور اس کے نواح میں آباد ہوئے اور ان کی تعداد بڑھتی رہی اس زمانہ میں اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت عُزیر علیہ السلام کو دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ رکھا اور کوئی آپ کو نہ دیکھ سکا جب آپ کی وفات کو سو برس گزر گئے تو اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ کیا پہلے آنکھوں میں جان آئی ابھی تک تمام جسم مردہ تھا وہ آپ کے دیکھتے دیکھتے زندہ کیا گیا یہ واقعہ شام کے وقت غروب آفتاب کے قریب ہوا اللّٰہ تعالیٰ نے فرمایا تم یہاں کتنے دن ٹھہرے آپ نے اندازہ سے عرض کیا کہ ایک دن یا کچھ کم آپ کا خیال یہ ہوا کہ یہ اسی دن کی شام ہے جس کی صبح کو سوئے تھے، فرمایا بلکہ تم سو برس ٹھہرے اپنے کھانے اور پانی یعنی کھجور اور انگور کے رس کو دیکھئے کہ ویسا ہی ہے اس میں بو تک نہ آئی اور اپنے گدھے کو دیکھئے دیکھا تو وہ مر گیا تھا گل گیا،اعضاء بکھر گئے تھے ہڈیاں سفید چمک رہی تھیں آپ کی نگاہ کے سامنے اس کے اعضاء جمع ہوئے اعضاء اپنے اپنے مواقع پر آئے ہڈیوں پر گوشت چڑھا گوشت پر کھال آئی بال نکلے پھر اس میں روح پھونکی وہ اٹھ کھڑا ہوا اور آواز کرنے لگا۔آپ نے اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ کیا اور فرمایا میں خوب جانتا ہوں کہ اللّٰہ تعالیٰ ہر شئے پر قادر ہے پھر آ پ اپنی اس سواری پر سوار ہو کر اپنے محلہ میں تشریف لائے سر اقدس اور ریش مبارک کے بال سفید تھے عمر وہی چالیس سال کی تھی کوئی آپ کو نہ پہچانتا تھا۔ اندازے سے اپنے مکان پر پہنچے ایک ضعیف بڑھیا ملی جس کے پاؤں رہ گئے تھے۔ وہ نابینا ہو گئی تھی وہ آپ کے گھر کی باندی تھی اور اس نے آپ کو دیکھا تھا آپ نے اس سے دریافت فرمایا کہ یہ عُزیر کا مکان ہے اس نے کہا ہاں، اور عُزیر کہاں،انہیں مفقود ہوئے سو برس گزر گئے یہ کہہ کر خوب روئی آپ نے فرمایا میں عُزیر ہوں اس نے کہا سبحان اللّٰہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا، اللّٰہ تعالیٰ نے مجھے سو برس مردہ رکھا پھر زندہ کیا اس نے کہا حضرت عُزیر مستجاب الدعوات تھے جو دعا کرتے قبول ہوتی آپ دعا کیجئے میں بینا ہو جاؤں تاکہ میں اپنی آنکھوں سے آپ کو دیکھوں آپ نے دعا فرمائی وہ بینا ہوئی آپ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اٹھ خدا کے حکم سے یہ فرماتے ہی اس کے مارے ہوئے پاؤں درست ہو گئے۔ اس نے آپ کو دیکھ کر پہچانا اور کہا میں گواہی دیتی ہوں کہ آپ بے شک حضرت عُزیر ہیں وہ آپ کو بنی اسرائیل کے محلہ میں لے گئی وہاں ایک مجلس میں آپ کے فرزند تھے جن کی عمر ایک سو اٹھارہ سال کی ہو چکی تھی اور آپ کے پوتے بھی تھے جو بوڑھے ہو چکے تھے بوڑھیا نے مجلس میں پکارا کہ یہ حضرت عُزیر تشریف لے آئے اہلِ مجلس نے اس کو جھٹلایا اس نے کہا مجھے دیکھو آپ کی دعا سے میری یہ حالت ہو گئی لوگ اٹھے اور آپ کے پاس آئے آپ کے فرزند نے کہا کہ میرے والد صاحب کے شانوں کے درمیان سیاہ بالوں کا ایک ہلال تھا جسم مبارک کھول کر دکھایا گیا تو وہ موجود تھا اس زمانہ میں توریت کا کوئی نسخہ نہ رہا تھا کوئی اس کا جاننے والا موجود نہ تھا۔ آپ نے تمام توریت حفظ پڑھ دی ایک شخص نے کہا کہ مجھے اپنے والد سے معلوم ہوا کہ بُختِ نصر کی ستم انگیزیوں کے بعد گرفتاری کے زمانہ میں میرے دادا نے توریت ایک جگہ دفن کر دی تھی اس کا پتہ مجھے معلوم ہے اس پتہ پر جستجو کر کے توریت کا وہ مدفون نسخہ نکالا گیا اور حضرت عُزیر علیہ السلام نے اپنی یاد سے جو توریت لکھائی تھی اس سے مقابلہ کیا گیا تو ایک حرف کا فرق نہ تھا۔ (جمل )۔

۵۴۱             کہ پہلے چھتیں گریں پھر ان پر دیواریں آ پڑیں۔

(۲۶۰) اور جب عرض کی ابراہیم نے  (ف ۵۴۲) اے  رب میرے  مجھے  دکھا دے  تو کیونکر مردے  جِلائے  گا فرمایا کیا تجھے  یقین نہیں (ف ۵۴۳) عرض کی یقین کیوں نہیں مگر یہ چاہتا ہوں کہ میرے  دل کو قرار آ جائے  (ف ۵۴۴) فرمایا تو اچھا، چار پرندے  لے  کر اپنے  ساتھ ہلا لے  (ف ۵۴۵) پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ہر پہاڑ پر رکھ دے  پھر انہیں بلا وہ تیرے  پاس چلے  آئیں گے  پاؤں سے  دوڑتے  (ف ۵۴۶) اور جان رکھ کہ اللہ غالب حکمت والا ہے 

۵۴۲             مفسرین نے لکھا ہے کہ سمندر کے کنارے ایک آدمی مرا پڑا تھا جوار بھاٹے میں سمندر کا پانی چڑھتا اترتا رہتا ہے جب پانی چڑھتا تو مچھلیاں اس لاش کو کھاتیں جب اتر جاتا تو جنگل کے درندے کھاتے جب درندے جاتے تو پرند کھاتے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ ملاحظہ فرمایا تو آپ کو شوق ہوا کہ آپ ملاحظہ فرمائیں کہ مردے کس طرح زندہ کئے جائیں گے آپ نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کیا یا رب مجھے یقین ہے کہ تو مردوں کو زندہ فرمائے گا اور انکے اجزاء دریائی جانوروں اور درندوں کے پیٹ اور پرندوں کے پوٹوں سے جمع فرمائے گا لیکن میں یہ عجیب منظر دیکھنے کی آرزو رکھتا ہوں مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ جب اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل کیا ملک الموت حضرت رب العزت سے اذن لے کر آپ کو یہ بشارت سنانے آئے آپ نے بشارت سن کر اللّٰہ کی حمد کی اور ملک الموت سے فرمایا کہ اس خُلّت کی علامت کیا ہے انہوں نے عرض کیا یہ کہ اللّٰہ تعالیٰ آپ کی دعا قبول فرمائے اور آ پ کے سوال پر مردے زندہ کرے تب آپ نے یہ دعا کی۔(خازن)۔

۵۴۳             اللّٰہ تعالیٰ عالم غیب و شہادت ہے اس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کمال ایمان و یقین کا علم ہے باوجود اس کے یہ سوال فرمانا کہ کیا تجھے یقین نہیں ا س لئے ہے کہ سامعین کو سوال کا مقصد معلوم ہو جائے اور وہ جان لیں کہ یہ سوال کسی شک و شبہ کی بناء پر نہ تھا۔(بیضاوی و جمل وغیرہ)۔

۵۴۴             اور انتظار کی بے چینی رفع ہو حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا معنی یہ ہیں کہ اس علامت سے میرے دل کو تسکین ہو جائے کہ تو نے مجھے اپنا خلیل بنایا۔

۵۴۵             تاکہ اچھی طرح شناخت ہو جائے۔

۵۴۶             حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چار پرند لئے مور۔ مرغ۔ کبوتر۔ کوّا۔انہیں بحکم الٰہی ذبح کیا ان کے پَر اکھاڑے اور قیمہ کر کے ان کے اجزاء باہم خلط کر دیئے اور اس مجموعہ کے کئی حصہ کئے ایک ایک حصہ ایک ایک پہاڑ پر رکھا اور سر سب کے اپنے پاس محفوظ رکھے پھر فرمایا چلے آؤ حکم الٰہی سے یہ فرماتے ہی وہ اجزاء اڑے اور ہر ہر جانور کے اجزاء علیٰحدہ علیٰحدہ ہو کر اپنی ترتیب سے جمع ہوئے اور پرندوں کی شکلیں بن کر اپنے پاؤں سے دوڑتے حاضر ہوئے اور اپنے اپنے سروں سے مل کر بعینہٖ پہلے کیطرح مکمل ہو کر اڑ گئے سبحان اللہ۔

(۲۶۱) ان کی کہاوت جو اپنے  مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے  ہیں (ف ۵۴۷) اس دانہ کی طرح جس نے  اگائیں سات با لیں (ف ۵۴۸) ہر بال میں سو دانے  (ف ۵۴۹) اور اللہ اس سے  بھی زیادہ بڑھائے  جس کے  لئے  چاہے  اور اللہ وسعت والا علم والا ہے، 

۵۴۷             خواہ خرچ کرنا واجب ہو یا نفل تمام ابواب خیر کو عام ہے خواہ کسی طالب علم کو کتاب خرید کر دی جائے یا کوئی شِفا خانہ بنا دیا جائے یا اموات کے ایصال ثواب کے لئے تیجہ دسویں بیسویں چالیسویں کے طریقہ پر مساکین کو کھانا کھلایا جائے۔

۵۴۸             اگانے والا حقیقت میں اللّٰہ ہی ہے دانہ کی طرف اس کی نسبت مجازی ہے

مسئلہ:اس سے معلوم ہوا کہ اسناد مجازی جائز ہے جب کہ اسناد کرنے والا غیر خدا کو مستقل فی التصرف اعتقاد نہ کرتا ہو اسی لئے یہ کہنا جائز ہے کہ یہ دوا نافع ہے،یہ مضر ہے،یہ در دکی دافع ہے،ماں باپ نے پالا عالم نے گمراہی سے بچایا بزرگوں نے حاجت روائی کی وغیرہ سب میں اسناد مجازی اور مسلمان کے اعتقاد میں فاعل حقیقی صرف اللّٰہ تعالیٰ ہے باقی سب وسائل۔

۵۴۹             تو ایک دانہ کے سات سو دانے ہو گئے اسی طرح راہِ خدا میں خرچ کرنے سے سات سو گناہ اجر ہو جاتا ہے۔

(۲۶۲)  وہ جو اپنے  مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے  ہیں (ف ۵۵۰) پھر دیئے  پیچھے  نہ احسان رکھیں نہ تکلیف دیں (ف ۵۵۱) ان کا نیگ (انعام) ان کے  رب کے  پاس ہے  اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم۔

۵۵۰             شانِ نزول :یہ آیت حضرت عثمان غنی و حضرت عبدالرحمٰن بن عو ف رضی اللّٰہ عنہما کے حق میں نازل ہوئی حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے غزوۂ تبوک کے موقع پر لشکر اسلام کے لئے ایک ہزار اونٹ مع سامان پیش کئے اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے چار ہزار درہم صدقہ کے بارگاہ رسالت میں حاضر کئے اور عرض کیا کہ میرے پاس کل آٹھ ہزار درہم تھے نصف میں نے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لئے رکھ لئے اور نصف راہِ خدا میں حاضر ہیں سید عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو تم نے دیئے اور جو تم نے رکھے اللّٰہ تعالیٰ دونوں میں برکت فرمائے۔

۵۵۱             احسان رکھنا تو یہ کہ دینے کے بعد دوسروں کے سامنے اظہار کریں کہ ہم نے تیرے ساتھ ایسے ایسے سلوک کئے اور اس کو مکدّر کریں اور تکلیف دینا یہ کہ اس کو عار دلائیں کہ تو نادار تھا مفلِس تھا مجبور تھا نکمّا تھا ہم نے تیری خبر گیری کی یا اور طرح دباؤ دیں یہ ممنوع فرمایا گیا۔

(۲۶۳) اچھی بات کہنا اور درگزر کرنا (ف ۵۵۲) اس خیرات سے  بہتر ہے  جس کے  بعد ستانا ہو (ف ۵۵۳) اور اللہ بے  پراہ حلم والا ہے، 

۵۵۲             یعنی اگر سائل کو کچھ نہ دیا جائے تو اس سے اچھی بات کہنا اور خوش خلقی کے ساتھ جواب دینا جو اس کو ناگوار نہ گزرے اور اگر وہ سوال میں اصرار کرے یا زبان درازی کرے تو اس سے در گزر کرنا۔

۵۵۳             عار دلا کر یا احسان جتا کر یا اور کوئی تکلیف پہنچا کر۔

(۲۶۴) اے  ایمان والوں اپنے  صدقے  باطل نہ کر دو  احسان رکھ کر اور ایذا دے  کر (ف ۵۵۴) اس کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے  دکھاوے  کے  لئے  خرچ کرے  اور اللہ اور قیامت پر ایمان نہ لائے، تو اس کی کہاوت ایسی ہے  جیسے  ایک چٹان کہ اس پر مٹی ہے  اب اس پر زور کا پانی پڑا جس نے  اسے  نرا پتھر کر چھوڑا (ف ۵۵۵) اپنی کمائی سے  کسی چیز پر قابو نہ پائیں گے،  اور اللہ کافروں کو راہ نہیں دیتا،

۵۵۴             یعنی جس طرح منافق کو رضائے الٰہی مقصود نہیں ہوتی وہ اپنا مال ریا کاری کے لئے خرچ کر کے ضائع کر دیتا ہے اس طرح تم احسان جتا کر اور ایذا دے کر اپنے صدقات کا اجر ضائع نہ کرو۔

۵۵۵             یہ منافق ریا کار کے عمل کی مثال ہے کہ جس طرح پتھر پر مٹی نظر آتی ہے لیکن بارش سے وہ سب دور ہو جاتی ہے خالی پتھر رہ جاتا ہے یہی حال منافق کے عمل کا ہے کہ دیکھنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ عمل ہے اور روز قیامت وہ تمام عمل باطل ہوں گے کیونکہ رضائے الٰہی کے لئے نہ تھے۔

(۲۶۵) اور ان کی کہاوت جو اپنے  مال اللہ کی رضا چاہنے  میں خرچ کرتے  ہیں اور اپنے  دل جمانے  کو (ف ۵۵۶) اس باغ کی سی ہے  جو بھوڑ (رتیلی زمین) پر ہو اس پر زور کا پانی پڑا تو دُونے  میوے  لایا پھر اگر زور کا مینھ اسے  نہ پہنچے  تو اوس کافی ہے  (ف ۵۵۷) اور اللہ تمہارے  کام دیکھ رہا ہے  (ف ۵۵۸)

۵۵۶             راہ خدا میں خرچ کرنے پر۔

۵۵۷             یہ مومن مخلص کے اعمال کی ایک مثال ہے کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین کا باغ ہر حال میں خوب پھلتا ہے خواہ بارش کم ہو یا زیادہ ایسے ہی با اخلاص مؤمن کا صدقہ اور انفاق خواہ کم ہو یا زیادہ اللّٰہ تعالیٰ اس کو بڑھاتا ہے۔

۵۵۸             اور تمہاری نیت و اخلا ص کو جانتا ہے۔

(۲۶۶) کیا تم میں کوئی اسے  پسند رکھے  گا (ف ۵۵۹) کہ اس کے  پاس ایک باغ ہو کھجوروں اور انگوروں کا (ف ۵۶۰) جس کے  نیچے  ندیاں بہتیں اس کے  لئے  اس میں ہر قسم کے  پھلوں سے  ہے  (ف ۵۶۱) اور اسے  بڑھاپا آیا (ف ۵۶۲) اور اس کے  ناتوان بچے  ہیں (ف ۵۶۳) تو آیا اس پر ایک بگولا جس میں آگ تھی تو جل گیا (ف ۵۶۴) ایسا ہی بیان کرتا ہے  اللہ تم سے  اپنی آیتیں کہ کہیں تم دھیان لگاؤ (ف ۵۶۵)

۵۵۹             یعنی کوئی پسند نہ کرے گا کیونکہ یہ بات کسی عاقل کے گوارا کرنے کے قابل نہیں ہے۔

۵۶۰             اگرچہ اس باغ میں بھی قسم قسم کے درخت ہوں مگر کھجور اور انگور کا ذکر اس لئے کیا کہ یہ نفیس میوے ہیں۔

۵۶۱             یعنی وہ باغ فرحت انگیز و دلکشا بھی ہے اور نافع اور عمدہ جائیداد بھی۔

۵۶۲             جو حاجت کا وقت ہوتا ہے اور آدمی کسب و معاش کے قابل نہیں رہتا۔

۵۶۳             جو کمانے کے قابل نہیں اور ان کی پرورش کی حاجت ہے غرض وقت نہایت شدت حاجت کا ہے اور دارومدار صرف باغ پر اور باغ بھی نہایت عمدہ ہے۔

۵۶۴             وہ باغ تو اس وقت اس کے رنج و غم اور حسرت ویاس کی کیا انتہا ہے یہی حال اس کا ہے جس نے اعمال حسنہ تو کئے ہوں مگر رضائے الٰہی کے لئے نہیں بلکہ ریا کی غرض سے اور وہ اس گمان میں ہو کہ میرے پاس نیکیوں کا ذخیرہ ہے مگر جب شدتِ حاجت کا وقت یعنی قیامت کا دن آئے تو اللّٰہ تعالیٰ ان اعمال کو نامقبول کر دے اور اس وقت اس کو کتنا رنج اور کتنی حسرت ہو گی ایک روز حضرت عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے صحابۂ کرام سے فرمایا کہ آپ کے علم میں یہ آیت کس باب میں نازل ہوئی حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما نے فرمایا: کہ یہ مثال ہے ایک دولت مند شخص کے لئے جو نیک عمل کرتا ہو پھر شیطان کے اغواء سے گمراہ ہو کر اپنی تمام نیکیوں کو ضائع کر دے۔(مدارک و خازن)۔

۵۶۵             اور سمجھو کہ دنیا فانی اور عاقبت آنی ہے۔

(۲۶۷) اے  ایمان والو! اپنی پاک کمائیوں میں سے  کچھ دو (ف ۵۶۶) اور اس میں سے  جو ہم نے  تمہارے  لئے  زمین سے  نکالا (ف ۵۶۷) اور خاص ناقص کا ارادہ نہ کرو کہ دو تو اس میں سے  (ف ۵۶۸) اور تمہیں ملے  تو نہ لو گے  جب تک اس میں چشم پوشی نہ کرو اور جان رکھو کہ اللہ بے  پروانہ سراہا گیا ہے۔

۵۶۶             مسئلہ : اس سے کسب کی اباحت اور اموال تجارت میں زکوٰۃ ثابت ہوتی ہے۔ (خازن و مدارک) یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آیت صدقہ نافلہ و فرضیہ دونوں کو عام ہو (تفسیر احمدی)۔

۵۶۷             خواہ وہ غلے ہوں یا پھل یا معادن وغیرہ۔

۵۶۸             شانِ نزول بعض لوگ خراب مال صدقہ میں دیتے تھے ان کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی

مسئلہ: مصدِّق یعنی صدقہ وصول کرنے والے کو چاہیئے کہ وہ متوسط مال لے نہ بالکل خراب نہ سب سے اعلیٰ۔

(۲۶۸)  شیطان تمہیں اندیشہ دلاتا ہے  (ف ۵۶۹) محتاجی کا اور حکم دیتا ہے  بے  حیائی کا (ف ۵۷۰) اور اللہ تم سے   وعدہ فرماتا ہے   بخشش اور فضل کا (ف ۵۷۱) اور اللہ وسعت و الا علم والا ہے،

۵۶۹             کہ اگر خرچ کرو گے صدقہ دو گے تو نادا رہو جاؤ گے۔

۵۷۰             یعنی بخل کا اور زکوٰۃ و صدقہ نہ دینے کا اس آیت میں یہ لطیفہ ہے کہ شیطان کسی طرح بخل کی خوبی ذہن نشین نہیں کر سکتا اسلئے وہ یہی کرتا ہے کہ خرچ کرنے سے ناداری کا اندیشہ دلا کر روکے آج کل جو لوگ خیرات کو روکنے پر مصر ہیں وہ بھی اسی حیلہ سے کام لیتے ہیں۔

۵۷۱             صدقہ دینے پر اور خرچ کرنے پر۔

(۲۶۹) اللہ حکمت دیتا ہے  (ف ۵۷۲) جسے  چاہے  اور جسے  حکمت ملی اسے  بہت بھلائی ملی، اور نصیحت نہیں مانتے  مگر عقل والے،

۵۷۲             حکمت سے یا قرآن و حدیث و فقہ کا علم مراد ہے یا تقویٰ یا نبوّت (مدارک و خازن)۔

(۲۷۰) اور تم جو خرچ کرو (ف ۵۷۳) یا منت مانو (ف ۵۷۴) اللہ کو اس کی خبر ہے   (ف ۵۷۵) اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں،

۵۷۳             نیکی میں خواہ بدی میں۔

۵۷۴             طاعت کی یا گناہ کی نذر عرف میں ہدیہ اور پیش کش کو کہتے ہیں اور شرع میں نذر عبادت اور قربتِ مقصودہ ہے اسی لئے اگر کسی نے گناہ کرنے کی نذر کی تو وہ صحیح نہیں ہوئی نذر خاص اللّٰہ تعالیٰ کے لئے ہوتی ہے اور یہ جائز ہے کہ اللّٰہ کے لئے نذر کرے اور کسی ولی کے آستانہ کے فقراء کو نذر کے صرف کا محل مقرر کرے مثلاً کسی نے یہ کہا یارب میں نے نذر مانی کہ اگر تو میرا فلاں مقصد پورا کر دے کہ فلاں بیمار کو تندرست کر دے تو میں فلاں ولی کے آستانہ کے فقراء کو کھانا کھلاؤں یا وہاں کے خدام کو روپیہ پیسہ دوں یا ان کی مسجد کے لئے تیل یا بوریا حاضر کروں تو یہ نذر جائز ہے۔(ردالمحتار)۔

۵۷۵             وہ تمہیں اس کا بدلہ دے گا۔

(۲۷۱) اگر خیرات اعلانیہ دو تو وہ کیا ہی اچھی بات ہے  اور اگر چھپا کر فقیروں کو دو یہ تمہارے  لئے  سب سے  بہتر ہے  (ف ۵۷۶) اور اسمیں تمہارے  کچھ گناہ گھٹیں گے، اور اللہ کو تمہارے  کاموں کی خبر ہے۔

۵۷۶             صدقہ خواہ فرض ہو یا نفل جب اخلاص سے اللّٰہ کے لئے دیا جائے اور ریا سے پاک ہو تو خواہ ظاہر کر کے دیں یا چھپا کر دونوں بہتر ہیں۔

مسئلہ: لیکن صدقہ فرض کا ظاہر کر کے دینا افضل ہے اور نفل کا چھپا کر

مسئلہ : اور اگر نفل صدقہ دینے والا دوسروں کو خیرات کی ترغیب دینے کے لئے ظاہر کر کے دے تو یہ اظہار بھی افضل ہے (مدارک)۔

(۲۷۲) انہیں راہ دینا تمہارے  ذمہ لازم نہیں، (ف ۵۷۷) ہاں اللہ راہ دیتا ہے  جسے  چاہتا ہے، اور تم جو اچھی چیز دو تو تمہارا ہی بھلا ہے  (ف ۵۷۸) اور تمہیں خرچ کرنا مناسب نہیں مگر اللہ کی مرضی چاہنے  کے  لئے، اور جو مال دو تمہیں پورا ملے  گا اور نقصان نہ دیئے  جاؤ گے،

۵۷۷             آپ بشیر و نذیر و داعی بنا کر بھیجے گئے ہیں آپ کا فرض دعوت پر تمام ہو جاتا ہے اس سے زیادہ جہد آپ پر لازم نہیں۔ شانِ نزول: قبل اسلام مسلمانوں کی یہود سے رشتہ داریاں تھیں اس وجہ سے وہ ان کے ساتھ سلوک کیا کرتے تھے مسلمان ہونے کے بعد انہیں یہود کے ساتھ سلوک کرنا ناگوار ہونے لگا۔ اور انہوں نے اس لئے ہاتھ روکنا چاہا کہ ان کے اس طرز عمل سے یہود اسلام کی طرف مائل ہوں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۵۷۸             تو دوسروں پر اس کا احسان نہ جتاؤ۔

(۲۷۳) ان فقیروں کے  لئے  جو راہ خدا میں روکے  گئے  (ف ۵۷۹) زمین میں چل نہیں سکتے  (ف ۵۸۰) نادان انہیں تونگر سمجھے  بچنے  کے  سبب (ف ۵۸۱) تو انہیں ان کی صورت سے  پہچان لے  گا (ف ۵۸۲) لوگوں سے  سوال نہیں کرتے  کہ گڑ  گڑانا پڑے  اور تم جو خیرات کرو اللہ اسے  جانتا ہے،

۵۷۹             یعنی صدقات مذکورہ جو آیۂ  وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ  میں ذکر ہوئے ان کا بہترین مصرف وہ فقراء ہیں جنہوں نے اپنے نفوس کو جہاد و طاعت الٰہی پر رو کا شانِ نزول: یہ آیت اہل صفّہ کے حق میں نازل ہوئی ان حضرات کی تعداد چار سو کے قریب تھی یہ ہجرت کر کے مدینہ طیّبہ حاضر ہوئے تھے نہ یہاں ان کا مکان تھا نہ قبیلہ کنبہ نہ ان حضرات نے شادی کی تھی ان کے تمام اوقات عبادت میں صرف ہوتے تھے رات میں قرآن کریم سیکھنا دن میں جہاد کے کام میں رہنا آیت میں ان کے بعض اوصاف کا بیان ہے۔

۵۸۰             کیونکہ انہیں دینی کاموں سے اتنی فرصت نہیں کہ وہ چل پھر کر کسب معاش کر سکیں۔

۵۸۱             یعنی چونکہ وہ کسی سے سوال نہیں کرتے اس لئے ناواقف لوگ انہیں مالدار خیال کرتے ہیں۔

۵۸۲             کہ مزاج میں تواضع و  انکسار ہے،چہروں پر ضعف کے آثار ہیں، بھوک سے رنگ زرد پڑ گئے ہیں۔

(۲۷۴) وہ جو اپنے  مال خیرات کرتے  ہیں رات میں اور دن میں چھپے  اور ظاہر (ف ۵۸۳) ان کے  لئے  ان کا نیگ (انعام، حصہ) ہے  ان کے  رب کے  پاس ان کو نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم،

۵۸۳             یعنی راہِ خدا میں خرچ کرنے کا نہایت شوق رکھتے ہیں اور ہر حال میں خرچ کرتے رہتے ہیں شانِ نزول:یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے حق میں نازل ہوئی جب کہ آپ نے ر اہِ خدا میں چالیس ہزار دینار خرچ کئے تھے دس ہزار رات میں اور دس ہزار دن میں اور دس ہزار پوشیدہ اور دس ہزار ظاہر، ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت حضرت علی مرتضیٰ کرّم اللّٰہ تعالیٰ وجہہ کے حق میں نازل ہوئی جب کہ آپ کے پاس فقط چار درہم تھے اور کچھ نہ تھا آپ نے ان چاروں کو خیرات کر دیا۔ ایک رات میں ایک دن میں ایک کو پوشیدہ ایک کو ظاہر فائدہ :آیت کریمہ میں نفقۂ لیل کو نفقۂ نہار پر اور نفقۂ سر کو نفقۂ علانیہ پر مقدم فرمایا گیا اس میں اشارہ ہے کہ چھپا کر دینا ظاہر کر کے دینے سے افضل ہے۔

(۲۷۵) وہ جو سود کھاتے  ہیں (ف ۵۸۴) قیامت کے  دن نہ کھڑے  ہوں گے  مگر، جیسے  کھڑا ہوتا ہے  وہ جسے  آسیب نے  چھو کر مخبوط بنا دیا ہو (ف ۵۸۵) اس لئے  کہ انہوں نے  کہا بیع بھی تو سود ہی کے  مانند ہے، اور اللہ نے  حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سود، تو جسے  اس کے  رب کے  پاس سے  نصیحت آئی اور وہ باز  رہا  تو اسے  حلال ہے  جو پہلے  لے  چکا، (ف ۵۸۶) اور اس کا کام خدا کے  سپرد ہے  (ف ۵۸۷) اور جو اب  ایسی حرکت کرے  گا تو وہ دوزخی  ہے  وہ اس میں مدتو  ں رہیں گے  (ف ۵۸۸)

۵۸۴             اس آیت میں سود کی حرمت اور سود خواروں کی شامت کا بیان ہے سود کو حرام فرمانے میں بہت حکمتیں ہیں بعض ان میں سے یہ ہیں کہ سود میں جو زیادتی لی جاتی ہے وہ معاوضہ مالیہ میں ایک مقدار مال کا بغیر بدل و عوض کے لینا ہے یہ صریح نا انصافی ہے دوم سود کا رواج تجارتوں کو خراب کرتا ہے کہ سود خوار کو بے محنت مال کا حاصل ہونا تجارت کی مشقتوں اور خطروں سے کہیں زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے اور تجارتوں کی کمی انسانی معاشرت کو ضرر پہنچاتی ہے۔ سوم سود کے رواج سے باہمی مودت کے سلوک کو نقصان پہنچاتا ہے کہ جب آدمی سود کا عادی ہوا تو وہ کسی کو قرض حسن سے امداد پہنچانا گوارا نہیں کرتا چہارم سود سے انسان کی طبیعت میں درندوں سے زیادہ بے رحمی پیدا ہوتی ہے اور سود خوار اپنے مدیون کی تباہی و بربادی کا خواہش مند رہتا ہے اس کے علاوہ بھی سود میں اور بڑے بڑے نقصان ہیں اور شریعت کی ممانعت عین حکمت ہے مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے سود خوار اور اس کے کار پرداز اور سودی دستاویز کے کاتب اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا وہ سب گناہ میں برابر ہیں۔

۵۸۵             معنیٰ یہ ہیں کہ جس طرح آسیب زدہ سیدھا کھڑا نہیں ہو سکتا گرتا پڑتا چلتا ہے، قیامت کے روز سود خوار کا ایسا ہی حال ہو گا کہ سود سے اس کا پیٹ بہت بھاری اور بوجھل ہو جائے گا اور وہ اس کے بوجھ سے گرگر پڑے گا۔ سعید بن جبیر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کہ یہ علامت اس سود خور کی ہے جو سود کو حلال جانے۔

۵۸۶             یعنی حرمت نازل ہونے سے قبل جو لیا اس پر مواخذہ نہیں۔

۵۸۷             جو چاہے امر فرمائے جو چاہے ممنوع و حرام کرے بندے پر اس کی اطاعت لازم ہے۔

۵۸۸             مسئلہ :جو سود کو حلال جانے وہ کافر ہے ہمیشہ جہنم میں رہے گا کیونکہ ہر ایک حرام قطعی کا حلال جاننے والا کافر ہے۔

(۲۷۶)  اللہ ہلاک کرتا ہے  سود کو (ف ۵۸۹) اور بڑھاتا ہے  خیرات کو (ف ۵۹۰) اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکرا بڑا گنہگار،

۵۸۹             اور اس کو برکت سے محروم کرتا ہے حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :کہ اللّٰہ تعالیٰ اس سے نہ صدقہ قبول کرے نہ حج نہ جہاد نہ صِلہ۔

۵۹۰             اس کو زیادہ کرتا ہے اور اس میں برکت فرماتا ہے دنیا میں اور آخرت میں اس کا اجرو ثواب بڑھاتا ہے۔

(۲۷۷)  بیشک وہ جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کئے  اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی ان کا نیگ (انعام) ان کے  رب کے  پاس ہے، اور نہ انہیں کچھ اندیشہ ہو، نہ کچھ غم،

(۲۷۸) اے  ایمان والو! اللہ سے  ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے  سود اگر مسلمان ہو (ف ۵۹۱)

۵۹۱             شانِ نزول: یہ آیت اُن اصحاب کے حق میں نازل ہوئی جو سود کی حُرمت نازل ہونے سے قبل سودی لین دین کرتے تھے اور اُن کی گراں قدر سودی رقمیں دُوسروں کے ذمہ باقی تھیں اس میں حکم دیا گیا کہ سود کی حرمت نازل ہونے کے بعد سابق کے مطالبہ بھی واجب الترک ہیں اور پہلا مقرر کیا ہوا سود بھی اب لینا جائز نہیں۔

(۲۷۹) پھر اگر ایسا نہ کرو تو یقین کر لو اللہ اور اللہ کے  رسول سے  لڑائی کا (ف ۵۹۲) اور اگر تم توبہ کرو تو اپنا اصل مال لے  لو نہ تم کسی کو نقصان پہچاؤ (ف ۵۹۳) نہ تمہیں نقصان ہو (ف ۵۹۴)

۵۹۲             یہ وعید و تہدید میں مبالغہ و تشدید ہے کس کی مجال کہ اللّٰہ اور اس کے رسول سے لڑائی کا تصور بھی کرے چنانچہ اُن اصحاب نے اپنے سودی مطالبہ چھوڑے اور یہ عرض کیا کہ اللّٰہ اور اس کے رسول سے لڑائی کی ہمیں کیا تاب اور تائب ہوئے۔

۵۹۳             زیادہ لے کر۔

۵۹۴             راس المال گھٹا کر۔

(۲۸۰) اور اگر قرضدار تنگی  والا ہے  تو اسے  مہلت دو آسانی تک، اور قرض اس پر بالکل چھوڑ  دینا تمہارے  لئے  اور بھلا ہے  اگر جانو(ف ۵۹۵)

۵۹۵             قرضدار اگر تنگ دست یا نادار ہو تو اس کو مہلت دینا یا قرض کا جزو یا کل معاف کر دینا سبب اجرِ عظیم ہے مسلم شریف کی حدیث ہے سیّد عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: جس نے تنگ دست کو مہلت دی یا اس کا قرضہ معاف کیا اللّٰہ تعالیٰ اس کو اپنا سایۂ رحمت عطا فرمائے گا جس روز اس کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہ ہو گا۔

(۲۸۱)  اور ڈرو اس دن سے  جس میں اللہ کی طرف پھرو گے، اور ہر جان کو اس کی کمائی پوری بھردی جائے  گی اور ان پر ظلم نہ ہو گا (ف ۵۹۶)

۵۹۶             یعنی نہ ان کی نیکیاں گھٹائی جائیں نہ بدیاں بڑھائی جائیں حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ سب سے آخر آیت ہے جو حضور پر نازل ہوئی اس کے بعد حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اکیس روز دنیا میں تشریف فرما رہے۔اور ایک قول میں نو شب اور ایک میں سات لیکن شعبی نے حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے یہ روایت کی ہے کہ سب سے آخر آیت  رِبٰوا  نازل ہوئی۔

(۲۸۲) اے  ایمان والو! جب تم ایک مقرر مدت تک کسی دین کا  لین دین کرو (ف ۵۹۷) تو اسے  لکھ لو (ف ۵۹۸) اور چاہئے  کہ تمہارے  درمیان کوئی لکھنے  والا ٹھیک ٹھیک لکھے  (ف ۵۹۹) اور لکھنے  والا لکھنے  سے  انکار نہ کرے  جیسا کہ اسے  اللہ نے  سکھایا ہے  (ف ۶۰۰) تو اسے  لکھ دینا چاہئے  اور  جس بات پر حق  آتا ہے  وہ لکھا تا جائے  اور اللہ سے  ڈرے  جو اس کا رب ہے  اور حق میں سے  کچھ رکھ نہ چھوڑے  پھر جس پر حق آتا ہے  اگر بے  عقل یا ناتواں ہو یا لکھا نہ سکے  (ف ۶۰۱) تو اس کا  ولی انصاف سے  لکھائے، اور دو گواہ کر لو اپنے  مردوں میں سے  (ف ۶۰۲) پھر اگر دو مرد نہ ہوں (ف ۶۰۳) تو ایک مرد اور دو عورتیں  ایسے  گواہ جن کو پسند کرو (ف ۶۰۴) کہ کہیں ان میں ایک عورت بھولے  تو اس کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہ جب بلائے  جائیں تو آنے  سے  انکار نہ کریں (ف ۶۰۵) اور اسے  بھاری نہ جانو کہ دین چھوٹا  ہو یا بڑا اس کی میعاد تک لکھت کر لو یہ اللہ کے  نزدیک  زیادہ انصاف کی بات ہے  اس میں گواہی خوب ٹھیک رہے  گی اور یہ اس سے  قریب ہے  کہ تمہیں شبہ نہ پڑے  مگر یہ کہ کوئی سردست  کا سودا دست بدست  ہو تو اس کے  نہ لکھنے  کا تم پر گناہ نہیں (ف ۶۰۶) اور جب خرید و فروخت کرو تو گواہ کر لو (ف ۶۰۷) اور نہ کسی لکھنے  والے  کو ضَرر دیا جائے،  نہ گواہ کو  (یا،  نہ لکھنے  والا  ضَرر دے  نہ گواہ) (ف ۶۰۸) اور جو تم ایسا کرو تو یہ تمہارا فسق ہو گا، اور اللہ سے  ڈرو اور اللہ تمہیں سکھاتا ہے، اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔

۵۹۷             خواہ وہ دین مبیع ہو یا ثمن حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: کہ اس سے بیع سَلَم مراد ہے بَیۡعِ سَلَمۡ یہ ہے کہ کسی چیز کو پیشگی قیمت لے کر فروخت کیا جائے اور مبیع مشتری کو سپرد کرنے کے لئے ایک مدت معین کر لی جائے اس بیع کے جواز کے لئے جنس، نوع، صفت، مقدار مدت اور مکان ادا اور مقدار راس المال ان چیزوں کا معلوم ہونا شرط ہے۔

۵۹۸             لکھنا مستحب ہے، فائدہ اس کا یہ ہے کہ بھول چوک اور مدیون کے انکار کا اندیشہ نہیں رہتا۔

۵۹۹             اپنی طرف سے کوئی کمی بیشی نہ کرے نہ فریقین میں سے کسی کی رو رعایت۔

۶۰۰             حاصل معنیٰ یہ کہ کوئی کاتب لکھنے سے منع نہ کرے جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اس کو وثیقہ نویسی کا علم دیا بے تغییر و تبدیل دیانت و امانت کے ساتھ لکھے یہ کتابت ایک قول پر فرض کفایہ ہے اور ایک قول پر فرض عین بشرطِ فراغ کاتب جس صورت میں اس کے سوا اور نہ پایا جائے اور ایک قول پر مستحب کیونکہ اس میں مسلمانوں کی حاجت بر آری اور نعمت علم کا شکر ہے اور ایک قول یہ ہے کہ پہلے یہ کتابت فرض تھی پھر  لَایُضَآرَّکَاتِبٌ سے منسوخ ہوئی۔

۶۰۱             یعنی اگر مدیون مجنون و ناقص العقل یا بچہ یا شیخِ فانی ہو یا گونگا ہونے یا زبان نہ جاننے کی وجہ سے اپنے مدعا کا بیان نہ کر سکتا ہو۔

۶۰۲             گواہ کے لئے حریت و بلوغ مع اسلام شرط ہے کفار کی گواہی صرف کفار پر مقبول ہے۔

۶۰۳             مسئلہ : تنہا عورتوں کی شہادت جائز نہیں خواہ وہ چار کیوں نہ ہوں مگر جن امور پر مرد مطلع نہیں ہو سکتے جیسے کہ بچہ جننا باکرہ ہونا اور نسائی عیوب اس میں ایک عورت کی شہادت بھی مقبول ہے

مسئلہ: حدود قصاص میں عورتوں کی شہادت بالکل معتبر نہیں صرف مردوں کی شہادت ضروری ہے اس کے سوا اور معاملات میں ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت بھی مقبول ہے۔ ( مدارک و احمدی)۔

۶۰۴             جن کا عادل ہونا تمہیں معلوم ہو اور جن کے صالح ہونے پر تم اعتماد رکھتے ہو۔

۶۰۵             مسئلہ: اس آیت سے معلوم ہوا کہ ادائے شہادت فرض ہے جب مدعی گواہوں کو طلب کرے تو انہیں گواہی کا چھپانا جائز نہیں یہ حکم حدود کے سوا اور امور میں ہے لیکن حدود میں گواہ کو اظہار و اخفاء کا اختیار ہے بلکہ اخفاء افضل ہے حدیث شریف میں ہے سیِّد عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :جو مسلمان کی پردہ پوشی کرے اللّٰہ تبارک و تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس کی ستّاری کرے گا لیکن چوری میں مال لینے کی شہادت دینا واجب ہے تاکہ جس کا مال چوری کیا گیا ہے اس کا حق تلف نہ ہو گواہ اتنی احتیاط کر سکتا ہے کہ چوری کا لفظ نہ کہے گواہی میں یہ کہنے پر اکتفا کرے کہ یہ مال فلاں شخص نے لیا۔

۶۰۶             چونکہ اس صورت میں لین دین ہو کر معاملہ ختم ہو گیا اور کوئی اندیشہ باقی نہ رہا نیز ایسی تجارت اور خرید و فروخت بکثرت جاری رہتی ہے اس میں کتابت و اشہاد کی پابندی شاق و گراں ہو گی۔

۶۰۷             یہ مستحب ہے کیونکہ اس میں احتیاط ہے۔

۶۰۸             یُضَآرَّ میں دو احتمال ہیں مجہول و معروف ہونے کے قراء ۃ ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما اوّل کی اور قراء ۃ عمر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ثانی کی مؤیدّ ہے پہلی تقدیر پر معنی یہ ہیں کہ اہل معاملہ کاتبوں اور گواہوں کو ضرر نہ پہنچائیں اس طرح کہ وہ اگر اپنی ضرورتوں میں مشغول ہوں تو انہیں مجبور کریں اور ان کے کام چھڑائیں یا حق کتابت نہ دیں یا گواہ کو سفر خرچ نہ دیں اگر وہ دوسرے شہر سے آیا ہو دوسری تقدیر پر معنی یہ ہیں کہ کاتب و شاہد اہل معاملہ کو ضرر نہ پہنچائیں اس طرح کہ باوجود فرصت و فراغت کے نہ آئیں یا کتابت میں تحریف و تبدیل زیادتی و کمی کریں۔

(۲۸۳)  اور اگر تم سفر میں ہو (ف ۶۰۹) اور لکھنے  والا  نہ پاؤ  (ف ۶۱۰) تو گِرو  (رہن)  ہو قبضہ میں  دیا ہوا (ف ۶۱۱)  اور اگر تم ایک کو دوسرے  پر اطمینان ہو تو وہ جسے  اس نے  امین سمجھا تھا (ف ۶۱۲) اپنی امانت ادا کر دے  (ف ۶۱۳)  اور اللہ سے  ڈرے  جو اس کا رب ہے  اور  گواہی نہ چھپاؤ (ف ۶۱۴) اور جو گواہی چھپائے  گا تو اندر سے  اسکا دل گنہگار ہے  (ف ۶۱۵) اور اللہ تمہارے  کاموں کو جانتا ہے۔

۶۰۹             اور قرض کی ضرورت پیش آئے۔

۶۱۰             اور وثیقہ و دستاویز کی تحریر کا موقعہ نہ ملے تو اطمینان کے لئے۔

۶۱۱             یعنی کوئی چیز دائن کے قبضہ میں گروِی کے طور پر دے دو

مسئلہ : یہ مستحب ہے اور حالتِ سفر میں رہن آیت سے ثابت ہوا اور غیر سفر کی حالت میں حدیث سے ثابت ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ طیبہ میں اپنی زرہ مبارک یہودی کے پاس گروی رکھ کر بیس صاع جَ لئے مسئلہ اس آیت سے رہن کا جواز اور قبضہ کا شرط ہونا ثابت ہوتا ہے۔

۶۱۲             یعنی مدیون جس کو دائن نے امین سمجھا تھا۔

۶۱ٍ۳             اس امانت سے دین مراد ہے۔

۶۱۴             کیونکہ اس میں صاحبِ حق کے حق کا ابطال ہے یہ خطاب گواہوں کو ہے کہ وہ جب شہادت کی اقامت و ادا کے لئے طلب کئے جائیں تو حق کو نہ چھپائیں اور ایک قول یہ ہے کہ یہ خطاب مدیونوں کو ہے کہ وہ اپنے نفس پر شہادت دینے میں تامل نہ کریں۔

۶۱۵             حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما سے ایک حدیث مروی ہے کہ کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑا گناہ اللّٰہ کے ساتھ شریک کرنا اور جھوٹی گواہی دینا اور گواہی کو چھپانا ہے۔

(۲۸۴)  اللہ ہی کا ہے  جو کچھ آسمانوں میں ہے  اور جو کچھ زمین میں ہے، اور اگر تم ظاہر کرو جو کچھ (ف ۶۱۶) تمہارے  جی میں ہے  یا چھپاؤ اللہ تم سے  اس کا حساب لے  گا (ف ۶۱۷) تو جسے  چاہے  گا بخشے   گا (ف ۶۱۸) اور جسے  چاہے  گا سزا دے  گا (ف ۶۱۹) اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

۶۱۶             بدی۔

۶۱۷             انسان کے دل میں دو طرح کے خیالات آتے ہیں ایک بطور وسوسہ کے ان سے دِل کا خالی کرنا انسان کی مقدرت میں نہیں لیکن وہ ان کو برا جانتا ہے اور عمل میں لانے کا ارادہ نہیں کرتا ان کو حدیث نفس اور وسوسہ کہتے ہیں اس پر مؤاخذہ نہیں بخاری و مسلم کی حدیث ہے سیّدِ عالم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: کہ میری امت کے دلوں میں جو وسوسہ گزرتے ہیں اللّٰہ تعالیٰ ان سے تجاوز فرماتا ہے جب تک کہ وہ انہیں عمل میں نہ لائیں یا ان کے ساتھ کلام نہ کریں یہ وسوسے اس آیت میں داخل نہیں،دوسرے وہ خیالات جن کو انسان اپنے دل میں جگہ دیتا ہے اور ان کو عمل میں لانے کا قصد و ارادہ کرتا ہے ان پر مؤاخذہ ہو گا اور انہیں کا بیان اس آیت میں ہے

مسئلہ : کُفر کا عزم کرنا کُفر ہے اور گناہ کا عزم کر کے اگر آدمی اس پر ثابت رہے اور اس کا قصد و ارادہ رکھے لیکن اس گناہ کو عمل میں لانے کے اسباب اس کو بہم نہ پہنچیں اور مجبوراً وہ اس کو کر نہ سکے تو جمہور کے نزدیک اس سے مؤاخذہ کیا جائے گا شیخ ابو منصور ماتریدی اور شمس الائمہ حلوائی اسی طرف گئے ہیں اور ان کی دلیل آیہ  اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ اور حدیث حضرت عائشہ ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ بندہ جس گناہ کا قصد کرتا ہے اگر وہ عمل میں نہ آئے جب بھی اس پر عقاب کیا جاتا ہے۔ مسئلہ : اگر بندے نے کسی گناہ کا ارادہ کیا پھر اس پر نادم ہوا اور استغفار کیا تو اللّٰہ اس کو معاف فرمائے گا۔

۶۱۸             اپنے فضل سے اہلِ ایمان کو۔

۶۱۹             اپنے عدل سے۔

(۲۸۵) سب نے  مانا (ف ۶۲۰) اللہ اور اس کے  فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے  رسولوں کو (ف ۶۲۱) یہ کہتے  ہوئے  کہ ہم اس کے  کسی رسول پر ایمان لانے  میں فرق نہیں کرتے  (ف ۶۲۲) اور عرض کی کہ ہم نے  سنا اور مانا (ف ۶۲۳) تیری معافی ہو  اے  رب ہمارے !  اور تیری ہی طرف پھرنا ہے۔

۶۲۰             زجاج نے کہا کہ جب اللّٰہ تعالیٰ نے اس سورت میں نماز۔ زکوٰۃ۔ روزے حج کی فرضیت اور طلاق۔ ایلا ء حیض و جہاد کے احکام اور انبیاء کے واقعات بیان فرمائے تو سورت کے آخر میں یہ ذکر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اور مؤمنین نے اس تمام کی تصدیق فرمائی اور قرآن اور اس کے جملہ شرائع و احکام کے منزَّل مِنَ اللّٰہ ہونے کی تصدیق کی۔

۶۲۱             یہ اصول و ضروریاتِ ایمان کے چار مرتبے ہیں۔ (۱) اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان لانا یہ اسطرح کہ اعتقاد و تصدیق کرے کہ اللّٰہ واحد اَحَدْ ہے اسکا کوئی شریک و نظیر نہیں اس کے تمام اسمائے حسنہ و صفاتِ عُلیا پر ایمان لائے اور یقین کرے اور مانے کہ وہ علیم اور ہر شئے پر قدیر ہے اور اس کے علم و قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔(۲) ملائکہ پر ایمان لانا یہ اس طرح پر ہے کہ یقین کرے اور مانے کہ وہ موجود ہیں معصوم ہیں پاک ہیں اللّٰہ تعالیٰ کے اور اس کے رسولوں کے درمیان احکام و پیام کے وسائط ہیں۔(۳) اللّٰہ کی کتابوں پر ایمان لانا اس طرح کہ جو کتابیں اللّٰہ تعالیٰ نے نازل فرمائیں اور اپنے رسولوں کے پاس بطریق وحی بھیجیں بے شک و شبہہ سب حق و صدق اور اللّٰہ کی طرف سے ہیں اور قرآن کریم تغییر تبدیل تحریف سے محفوظ ہے اور محکم و متشابہ پر مشتمل ہے۔(۴) رسولوں پر ایمان لانا اسطرح پر کہ ایمان لائے کہ وہ اللّٰہ کے رسول ہیں جنہیں اُس نے اپنے بندوں کی طرف بھیجا اسکی وحی کے امین ہیں گناہوں سے پاک معصوم ہیں ساری خلق سے افضل ہیں ان میں بعض حضرات بعض سے افضل ہیں۔

۶۲۲             جیسا کہ یہود و نصاریٰ نے کیا کہ بعض پر ایمان لائے بعض کا انکار کیا۔

۶۲ٍ۳             تیرے حکم و ارشاد کو۔

(۲۸۶) اللہ کسی جان پر بوجھ نہیں ڈالتا  مگر اس کی طاقت بھر، اس کا فائدہ ہے  جو اچھا کمایا اور اس کا نقصان ہے  جو برائی کمائی (ف ۶۲۴) اے  رب ہمارے ! ہمیں نہ پکڑ اگر ہم بھولیں (ف ۶۲۵) یا چُوکیں اے  رب ہمارے ! اور ہم پر بھاری بوجھ نہ رکھ جیسا تو نے  ہم سے  اگلوں پر رکھا تھا،  اے  رب ہمارے ! اور ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں سہار  (برداشت) نہ ہو اور ہمیں معاف فرما دے  اور بخش دے  اور ہم پر  مہر کر تو ہمارا مولیٰ ہے۔ تو کافروں پر ہمیں مدد دے۔

۶۲۴             یعنی ہر جان کو عمل نیک کا اجرو ثواب اور عمل بد کا عذاب و عقاب ہو گا اس کے بعد اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے مؤمن بندوں کو طریقِ دُعا کی تلقین فرمائی کہ وہ اس طرح اپنے پروردگار سے عرض کریں۔

۶۲۵             اور سہو سے تیرے کسی حکم کی تعمیل میں قاصر رہیں۔