تفسیر مدنی

سورة طٰه

(سورۃ طٰہٰ ۔ سورہ نمبر ۲۰ ۔ تعداد آیات ۱۳۵)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     طٰہٰ

۲۔۔۔     ہم نے آپ پر (اے پیغمبر!) یہ قرآن اس لئے نہیں اتارا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں ،

۳۔۔۔      بلکہ اسے تو ایک عظیم الشان نصیحت (اور یاد دہانی) کے طور پر نازل کیا گیا ہے ، ہر اس شخص کے لئے جو ڈرتا ہو،

۴۔۔۔      اتارا گیا ہے اس ذات کی طرف سے جس نے پیدا فرمایا زمین اور بلند آسمانوں (کی اس عظیم الشان کائنات) کو،

۵۔۔۔      (خدائے ) رحمان جو کہ جلوہ فرما ہوا عرش پر،

۶۔۔۔      اسی کا ہے جو کچھ کہ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ کہ زمین میں ہے ، اور جو کچھ کہ ان دونوں کے درمیاں میں ہے ، اور جو کچھ کہ اس گیلی مٹی کے نیچے ہے ،

۷۔۔۔      اور اگر تم اپنی بات پکار کر کہو تو (جان رکھو کہ اس کو اس کی ضرورت نہیں کہ) وہ یقیناً (ایک برابر) جانتا ہے چپکے سے کہی ہوئی بات کو،

۸۔۔۔      اور اس سے بھی پوشیدہ بات کو، اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اسی کے ہیں سب اچھے نام،

۹۔۔۔     اور کیا تمہیں موسیٰ کی خبر بھی پہنچی ہے ؟

۱۰۔۔۔      جب انہوں نے ایک آگ دیکھی، اور اپنے گھر والوں سے کہا کہ تم یہیں ٹھہرو، میں نے ایک آگ دیکھی ہے شاید میں (وہاں جا کر) اس میں سے تمہارے لئے کوئی انگارا لے آؤں ، یا مجھے اس آگ پر (راستے سے متعلق) کوئی راہنمائی ہی مل جائے ،

۱۱۔۔۔      پھر جب وہ وہاں پہنچ گئے تو انہیں آواز دی گئی اے موسیٰ،

۱۲۔۔۔      میں تو تمہارا رب ہوں ، پس تم اپنے جوتے اتار دو، کیونکہ تم تو ایک پاک وادی یعنی طویٰ میں ہو،

۱۳۔۔۔      اور میں نے تمہیں چن لیا ہے ، اس لئے اب تم غور سے سنو اس وحی کو جو تمہاری طرف بھیجی جاتی ہے

۱۴۔۔۔      (اور مرکزی کمزوری مضمون اس وحی کا یہ ہے کہ) قطعی طور پر میں ہی ہوں اللہ، کوئی بندگی کے لائق نہیں سوائے میرے ، پس تم میری ہی بندگی کرنا، اور میری ہی یاد کے لئے نماز قائم کرنا،

۱۵۔۔۔      (اور دوسرا اہم مضمون اس وحی کا یہ ہے کہ) قیامت نے یقیناً آنا ہے قریب ہے کہ میں اس (کے وقت) کو چھپائے رکھوں ، (اور وہ آئے گی اس لئے کہ) تاکہ ہر شخص کو (پورا پورا) بدلہ دیا جائے اس کے (زندگی بھر کے ) کئے کرائے کا،

۱۶۔۔۔      پس (خبردار، کہیں روکنے نہ پائے آ کر اس سے کوئی ایسا شخص جو اس پر ایمان نہ رکھتا ہو، اور وہ پیچھے لگ گیا ہو اپنی خواہشات کے ، کہ پھر تم تباہ ہو جاؤ،

۱۷۔۔۔     اور یہ تمہارے داہنے ہاتھ میں کیا ہے اے موسیٰ؟

۱۸۔۔۔      عرض کیا یہ میری لاٹھی ہے ، میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں ، اپنی بکریوں کے لئے پتے جھاڑ لیتا ہوں ، اور اس میں میرے اور بھی کئی کام ہیں ،

۱۹۔۔۔      ارشاد ہوا، موسیٰ ڈال دو اس کو زمین پر،

۲۰۔۔۔      پھر موسیٰ کا اس کو ڈالنا تھا کہ وہ یکایک ایک سانپ بن گئی جو دوڑ رہا تھا،

۲۱۔۔۔      ارشاد ہوا اس کو پکڑ لو اور ڈرو نہیں ، ہم اس کو ابھی لوٹائے دیتے ہیں اس کی پہلی حالت میں ،

۲۲۔۔۔      اور (اس کے بعد دوسرے معجزے کے لئے ) اپنی بغل میں دے دو اپنے ہاتھ کو وہ چمکتا ہوا نکلے گا بغیر کسی عیب (اور بیماری) کے ، (ہماری طرف سے ) ایک اور عظیم الشان نشانی کے طور پر،

۲۳۔۔۔      (اور یہ اس لئے کہ) تاکہ ہم دکھائیں تمہیں اپنی بڑی نشانیوں میں سے ،

۲۴۔۔۔     جاؤ فرعون کے پاس کہ بے شک وہ حد سے بڑھ گیا ہے ،

۲۵۔۔۔      اس پر موسیٰ نے عرض کیا اے میرے پروردگار، میرا سینہ کھول دے ،

۲۶۔۔۔     میرے کام کو میرے لئے آسان فرما دے ،

۲۷۔۔۔      اور میری زبان کی گرہ کھول دے ،

۲۸۔۔۔      تاکہ وہ لوگ میری بات کو سمجھ کیں ،

۲۹۔۔۔      اور میرے لئے میرے خاندان میں سے ایک وزیر (و معاون) بھی مقرر فرما دے ،

۳۰۔۔۔     یعنی میرے بھائی ہارون علیہ السلام کو

۳۱۔۔۔     ان کے ذریعے میری کمر کو مضبوط کر دے

۳۲۔۔۔     اور ان کو میرے کام میں شریک فرما دے

۳۳۔۔۔     تاکہ ہم دونوں مل کر تیری پاکی بیان کریں

۳۴۔۔۔     اور تجھے خوب خوب یاد کریں

۳۵۔۔۔     بلاشبہ تو ہمیں اور ہمارے ہر حال کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے

۳۶۔۔۔     جواب ملا موسیٰ تمہاری مذکورہ بالا ہر دعا منظور کر لی گئی

۳۷۔۔۔     اور ہم تو تمہاری درخواست کے بغیر اس سے پہلے ایک اور مرتبہ بھی تم پر ایک احسان کر چکے ہیں

۳۸۔۔۔     جب کہ ہم نے تمہاری ماں کے دل میں وہ بات ڈال دی جو کہ ڈالنا تھی

۳۹۔۔۔      کہ تم اس بچے کو ایک صندوق میں رکھ کر اسے دریا میں ڈال دو پھر وہ دریا اسے خود ہی اس مطلوبہ کنارے پر ڈال دے گا جہاں سے اس کو وہ شخص اٹھا لے گا جو دشمن ہے میرا بھی اور دشمن ہے اس کا بھی اور اے موسیٰ اس وقت میں نے تم پر اپنی طرف سے ایک محبت بھی ڈال دی تاکہ جو دیکھے وہ تم پر فریفتہ ہو جائے اور تاکہ تم میری خاص نگرانی میں پرورش پاؤ،

۴۰۔۔۔      جب کہ تمہاری بہن چلتی جا رہی تھی تمہاری خبر گیری کے لیے پھر وہ اجنبی بن کر کہنے لگی کیا میں آپ لوگوں کو ایک ایسے گھرانے کا پتہ نہ دوں جو اس بچے کی اچھی طرح پرورش کرے ، سو اس طرح ہم نے تمہیں پھر تمہاری ماں کے پاس پہنچا دیا تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور انہیں غم نہ رہے اور بچپن کے اس احسان کے علاوہ جوانی کے دور میں بھی ہم نے تم پر ایک اور احسان کیا کہ تم نے ایک شخص کو جان سے مار ڈالا تو ہم نے تمہیں اس کے غم سے نجات دلائی اور اس کے بعد بھی ہم نے تمہیں کئی آزمائشوں سے گزارا، پھر تم کئی سال تک امن و امان کے ساتھ مدین کے لوگوں میں ٹھہرے پھر تم ٹھیک اپنے وقت پر آ گئے ، اے موسیٰ

۴۱۔۔۔     اور میں نے تمہیں خاص اپنے لیے بنایا ہے

۴۲۔۔۔      پس اب جاؤ تم بھی اور تمہارے بھائی بھی میری آیتوں کے ساتھ اور سستی نہ کرنا تم دونوں میری یاد میں ،

۴۳۔۔۔     تم دونوں جاؤ فرعون کے پاس کہ وہ بڑا سرکش ہو گیا ہے ۔

۴۴۔۔۔     پھر بھی تم دونوں اس سے بات نرمی ہی سے کرنا کہ شاید وہ نصیحت قبول کر لے یا عذاب سے ڈر جائے

۴۵۔۔۔      اس پر ان دونوں نے عرض کیا پروردگار ہمیں اندیشہ ہے کہ وہ کہیں ہم پر زیادتی نہ کر دے ، یا کہیں زیادہ سرکشی پر نہ اتر جائے ،

۴۶۔۔۔     ارشاد ہوا ڈرو نہیں میں یقینی طور پر تمہارے ساتھ ہوں سنتا اور دیکھتا ہوں ۔

۴۷۔۔۔     پس تم دونوں اس کے پاس جا کر اس سے کہو کہ ہم دونوں بھیجے ہوئے ہیں تمہارے رب کے ، پس تو (ہماری اتباع کے علاوہ) بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے کے لئے چھوڑ دے اور انہیں تکلیف نہ دے ، ہم تیرے پاس ایک بڑی نشانی لے کر آئے ہیں تیرے رب کی طرف سے ، اور سلام ہو اس شخص پر جو پیروی کرے (حق و) ہدایت کی،

۴۸۔۔۔      بے شک ہماری طرف وحی کی گئی ہے اس بات کی کہ عذاب اس پر ہے جس نے جھٹلایا (حق کو) اور (اس سے ) منہ موڑا،

۴۹۔۔۔     (چنانچہ ان دونوں نے حسب ہدایت جا کر فرعون سے یہ سب کچھ کہہ دیا تو) اس نے کہا کہ اچھا تو کون ہے رب تم دونوں کا اے موسیٰ؟

۵۰۔۔۔      انہوں نے جواب میں کہا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت بخشی پھر اسے راہ دکھائی،

۵۱۔۔۔     کہا (اچھا تو) پھر کیا بنے گا ان نسلوں کا جو گزر چکی ہیں اس سے پہلے ؟

۵۲۔۔۔     موسیٰ نے جواب دیا کہ ان کا علم تو میرے رب ہی کے پاس ہے ایک عظیم الشان کتاب میں ، میرا رب نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے ،

۵۳۔۔۔     وہ جس نے بنا دیا تمہارے لئے اس زمین کو ایک عظیم الشان بچھونا، اور اس نے چلا دئیے اس میں تمہارے لئے طرح طرح کے عظیم الشان راستے ، اور اس نے اتارا آسمان سے پانی، پھر نکالیں ہم نے اس کے ذریعے قسما قسم کی انگوریاں

۵۴۔۔۔      (اور پیداواریں ) (اور تمہیں اجازت و آزادی بخشی کہ قانون اور ضابطے کے اندر رہتے ہوئے ان سے ) تم خود بھی کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چراؤ، یقیناً اس میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لئے ،

۵۵۔۔۔      (اور طرح طرح کی ان پیداواروں کی طرح) ہم نے خود تمہیں بھی (اے لوگو!) اسی زمین سے پیدا کیا، اسی میں ہم تمہیں دوبارہ لے جائیں گے اور اسی سے ہم تمہیں ایک مرتبہ پھر نکالیں گے ،

۵۶۔۔۔      اور بلاشبہ ہم نے اس کو دکھلائیں اپنی نشانیاں سب کی سب، مگر وہ جھٹلاتا اور انکار ہی کرتا گیا،

۵۷۔۔۔     کہنے لگا اے موسیٰ! کیا تم ہمارے پاس اسی لئے آئے ہو کہ اپنے جادو کے زور سے ہمیں نکال باہر کرو ہمارے اپنے ملک سے ؟

۵۸۔۔۔      اچھا تو ہم بھی تمہارے مقابلہ میں ویسا ہی ایک زوردار جادو ضرور بالضرور لا کر رہیں گے ، پس تم ٹھہرا دو اپنے اور ہمارے درمیان ایک ایسا وعدہ کسی مقام اور جگہ کا، جس کی خلاف ورزی نہ ہم کریں نہ تم کرو، کسی کھلے میدان میں ،

۵۹۔۔۔      موسیٰ نے جواب میں فرمایا کہ تمہارے (مطلوبہ) وعدے کا وقت جشن کا دن ہے ، اور یہ کہ اکٹھا کر دیا جائے سب لوگوں کو دن چڑھے ،

۶۰۔۔۔      پھر (کیا تھا کہ یہ سنتے ہی) فرعون پلٹ کر اپنے ہتھکنڈے جمع کرنے لگ گیا، اور آخرکار وہ مقابلے میں آگیا

۶۱۔۔۔      موسیٰ نے (ان جادوگروں سے ) کہا کہ کم بختی کے مارو، مت جھوٹا افتراء باندھو تم اللہ پر، کہ اس کے نتیجے میں اللہ غارت کر دے تم سب کو کسی ہولناک عذاب سے ، اور یقیناً ناکام و نامراد) ہوا وہ جس نے جھوٹ گھڑا،

۶۲۔۔۔      اس پر ان کے درمیان اختلاف پڑ گیا، اور وہ باہم چپکے چپکے مشورے کرنے لگے ،

۶۳۔۔۔      آخرکار انہوں نے کہا کہ یہ دونوں شخص محض جادوگر ہیں ، جو یہ چاہتے ہیں کہ نکال باہر کریں تم سب کو تمہاری سرزمین سے ، اپنے جادو کے زور سے ، اور خاتمہ کر دیں تمہارے عمدہ (اور مثالی) طریقہ زندگی کا،

۶۴۔۔۔     پس تم پکا کر لو اپنی تدبیر کو پھر اتر آؤ تم (میدان میں ) صف باندھ کر، اور یقین رکھو کہ جیت اسی کی ہے جو آج غالب رہا،

۶۵۔۔۔      کہنے لگے اے موسیٰ یا تم ڈالنے میں پہل کرو یا ہم ہی پہلے ڈالنے والے بنیں ،

۶۶۔۔۔     آپ نے فرمایا (نہیں ) بلکہ تم ہی پہلے ڈال لو، (پھر کیا تھا) یکایک ان کی رسیاں اور ان کی لاٹھیاں ، ان کے جادو کے زور سے موسیٰ کو دوڑتی ہوئی معلوم ہونے لگیں ،

۶۷۔۔۔      اس سے موسیٰ نے اپنے دل میں ایک طرح کا خوف محسوس کیا،

۶۸۔۔۔      ہم نے کہا ڈرو مت کہ غلبہ تو یقینی طور پر تمہارا ہی ہو گا،

۶۹۔۔۔      اور ڈال دو جو کچھ کہ تمہارے دائیں ہاتھ میں ہے ، وہ اس سب کو نگل کر رکھ دے گا جو کچھ کہ یہ بنا کر لائے ہیں یہ جو کچھ بنا کر لائے ہیں وہ تو ایک جادوگر کا فریب ہے ، اور جادوگر (معجزے کے مقابلے میں کبھی) کامیاب نہیں ہو سکتا، جہاں بھی وہ آئے،

۷۰۔۔۔      پس (موسیٰ کا یہ معجزہ دیکھنا تھا کہ) سب جادوگر بے ساختہ سجدے میں گر پڑے ، اور پکار اٹھے کہ ہم ایمان لے آئے موسیٰ اور ہارون کے رب پر،

۷۱۔۔۔      اس پر فرعون نے ان سے کہا کہ تم موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے ہو، قبل اس سے کہ میں تم کو اس کی اجازت دیتا؟ واقعی وہی تمہارا سردار ہے جس نے تم کو جادوگری سکھائی، میں ابھی کٹوا دیتا ہوں تم سب کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے ، اور سولی پر لٹکائے دیتا ہوں تم سب کو کھجور کے تنوں میں (تاکہ تم دوسروں کے لئے نمونہ عبرت بن جاؤ) اور تمہیں پتہ چل جائے کہ ہم میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت ہے اور دیرپا ہے ،

۷۲۔۔۔      انہوں نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے ہمیں پیدا کیا، ہم تجھے ان نشانیوں کے مقابلے میں کبھی ترجیح نہیں دیں گے جو ہمارے پاس آ چکی ہیں ، پس تو کر لے جو بھی کچھ کہ تجھے کرنا ہے ، تو تو صرف اس دنیا کی زندگی ہی میں حکم چلا سکتا ہے اور بس،

۷۳۔۔۔      ہم تو بہر حال ایمان لا چکے اپنے رب پر تاکہ وہ ہمارے (گزشتہ) گناہ بھی معاف فرما دے ، اور اس جادوگری کو بھی جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا، اور اللہ ہی سب سے اچھا اور سدا باقی رہنے والا،

۷۴۔۔۔      (اور اس کا قانون یہ ہے کہ) جو بھی کوئی مجرم بن کر اپنے رب کے پاس حاضر ہو گا اس کے لئے جہنم ہے ، جس میں نہ وہ مرے گا، اور نہ جیئے گا ۔

۷۵۔۔۔     اور جو کوئی اس کے حضور ایمان کی حالت میں آئے گا، جب کہ اس نے کام بھی نیک کئے ہوں گے تو ایسوں کے لئے بڑے بلند درجے ہوں گے ،

۷۶۔۔۔      یعنی ہمیشہ رہنے کی وہ جنتیں جن کے نیچے سے بہہ رہی ہوں گی طرح طرح کی نہریں جن میں ان کو ہمیشہ رہنا نصیب ہو گا، اور یہ جزا ہے اس شخص کی جس نے پاکیزگی اختیار کی،

۷۷۔۔۔      اور (جب فرعون اس سب کے باوجود راہ حق پر نہ آیا تو) ہم نے موسیٰ کو وحی کی کہ تم راتوں رات چل نکلو میرے بندوں کو لے کر، پھر (آگے چل کر اپنے عصا کے ذریعے ) سمندر میں ان کے لئے خشک راستہ بنا دینا، نہ پکڑے جانے کا کوئی اندیشہ رکھنا اور نہ (غرق وغیرہ کا) کوئی ڈر،

۷۸۔۔۔      ادھر فرعون بھی ان کے پیچھے پیچھے آ پہنچا، اپنے لشکر لے کر، پھر (کیا تھا سمندر میں گھستے ہی) ان پر چھا گیا سمندر سے وہ کچھ جس نے کہ ان پر چھانا تھا،

۷۹۔۔۔      اور فرعون نے اپنی قوم کو بری راہ پر ہی لگایا صحیح راہ اس نے ان کو نہ دکھائی،

۸۰۔۔۔      اے یعقوب علیہ السلام کی اولاد (ذرا ہماری ان نعمتوں کو تو یاد کرو کہ کس طرح) ہم نے تم کو نجات دی تمہارے دشمن (اور اس کے مظالم) سے ، اور تمہارے لئے ایک وقت مقرر کیا حاضری کا طور کی دائیں جانب، اور ہم نے تم پر من و سلویٰ اتارا (تمہاری خوراک کے لئے )

۸۱۔۔۔      (اور تمہیں اجازت دی کہ) کھاؤ (پیو) تم ان پاکیزہ چیزوں میں سے جو ہم نے تم کو بخشی ہیں ، پر اس میں حد سے نہیں بڑھنا، کہ پھر تم پر ٹوٹ پڑے میرا غضب، اور جس پر ٹوٹ پڑا میرا غضب تو یقیناً وہ گر گیا (ہلاکت و تباہی کے ہولناک گڑھے میں )

۸۲۔۔۔      اور یہ بھی یقین رکھو کہ میں بڑا ہی بخشنے والا ہوں ہر اس شخص کو جو توبہ کر لے اور وہ ایمان لے آئے ، اور نیک کام کرے ، پھر وہ (اسی راہ) ہدایت پر قائم رہے ،

۸۳۔۔۔     اور (حق تعالیٰ کی طرف سے سوال ہوا کہ) کیا چیز تمہیں اپنی قوم سے پہلے لے آئی اے موسیٰ؟

۸۴۔۔۔      تو عرض کیا وہ تو یہ میرے پیچھے ہی آ رہے ہیں ، اور میں نے آپ کے حضور پہنچنے میں اے میرے پروردگار، جلدی اس لئے کی کہ آپ مجھ سے راضی ہو جائیں ،

۸۵۔۔۔      ارشاد ہوا کہ ہم نے تو تمہاری قوم کو تمہارے بعد سخت آزمائش میں ڈال دیا اور ان کو گمراہ کر دیا سامری نے ،

۸۶۔۔۔      اس پر موسیٰ غصے میں بھرے ہوئے اور افسوس کرتے ہوئے اپنی قوم کی طرف لوٹے ، اور چھوٹتے ہی ان سے کہا اے میری قوم، کیا تمہارے رب نے تم سے وعدہ نہیں کیا تھا ایک اچھا وعدہ؟ پھر کیا تم پر زیادہ زمانہ گزر گیا تھا؟ یا تم اس کے لئے تیار ہو گئے تھے کہ تم پر ٹوٹ پڑے غضب تمہارے رب کا؟ کہ تم نے مجھ سے وعدہ خلافی کا ارتکاب کیا؟

۸۷۔۔۔      کہنے لگے ہم نے آپ سے وعدہ خلافی کچھ اپنے اختیار سے نہیں کی، بلکہ (ہوا یہ کہ) ہم پر اس قوم کے زیورات کا بوجھ ڈال دیا گیا تھا، تو ہم نے اسے پھینک دیا، پھر اسی طرح سامری نے بھی کچھ ڈال دیا،

۸۸۔۔۔      پھر وہ ان کے لئے ایک بچھڑا سا نکال لایا، یعنی ایک بے جان دھڑ تھا جس میں گائے کی سی ایک آواز تھی، جس پر وہ پکار اٹھے کہ یہی ہے خدا تمہارا، اور خدا موسیٰ کا، پر وہ بھول گیا،

۸۹۔۔۔      کیا وہ لوگ اتنا بھی نہ دیکھتے تھے کہ وہ مصنوعی بچھڑا نہ تو ان کی بات کا جواب دے سکتا ہے ، اور نہ ہی ان کے لئے کسی بھلے برے کا کوئی اختیار رکھتا ہے ،

۹۰۔۔۔      اور اس سے پہلے ہارون علیہ السلام ان سے (صاف طور پر) کہہ چکے تھے کہ لوگو! تم اس کی وجہ سے فتنے میں پڑ گئے ہو، تمہارا رب بلاشبہ (خدائے ) رحمان ہے ، پس تم میری پیروی کرو اور میرا کہا مانو،

۹۱۔۔۔      انہوں نے کہا کہ ہم تو اسی (کی پرستش) پر جمے بیٹھے رہیں گے ، یہاں تک کہ موسیٰ ہمارے پاس لوٹ آئے ،

۹۲۔۔۔      (اور قوم کو جھنجھوڑنے کے بعد موسیٰ نے ہارون علیہ السلام کی طرف متوجہ ہو کر) کہا، اے ہارون، تمہیں کس چیز نے روکا تھا کہ جب تم نے ان کو دیکھا تھا کہ گمراہ ہو گئے ؟

۹۳۔۔۔     کہ تم میری پیروی کرتے ؟ کیا تم نے بھی میرے حکم کی خلاف ورزی کی؟

۹۴۔۔۔      ہارون علیہ السلام نے کہا اے میری ماں کے بیٹے ، میری داڑھی مت پکڑو، اور نہ میرے سر (کے بالوں ) کو (کھینچو اور میرا عذر بھی سن لو کہ) مجھے یہ ڈر تھا کہ تم آ کر مجھ سے کہو گے کہ تم نے بنی اسرائیل میں پھوٹ ڈال دی اور میرے فیصلے کا انتظار نہ کیا،

۹۵۔۔۔      پھر موسیٰ نے سامری کی طرف متوجہ ہو کر اس سے کہا کیا معاملہ ہے تیرا، اے سامری؟

۹۶۔۔۔      تو اس نے کہا کہ میں نے وہ کچھ دیکھا جو ان لوگوں کو نظر نہ آ سکا، پس میں نے ایک مٹھی اٹھا لی رسول کے نقش قدم سے پھر میں نے اسے ڈال دیا، اور میرے نفس نے مجھے یہی سجھاؤ دیا

۹۷۔۔۔      موسیٰ نے فرمایا پس اب تو جا، تیرے لیے اس دنیاوی زندگی میں تو یہ سزا ہے کہ تو یوں کہتا پھرے کہ مجھے ہاتھ نہ لگانا اور اس کے علاوہ تیرے لیے ایک اور وعدہ ہے جو تجھ سے ہرگز نہیں ٹلے گا، اور اب تو اپنے اس معبود کے انجام کو بھی دیکھ لے جس پر تو ریجھا ہوا تھا ۔ ہم اسے ابھی جلا کر خاکستر بنائے دیتے ہیں پھر اس کی خاکستر کو اڑا کر دریا میں بہائے دیتے ہیں

۹۸۔۔۔      سوائے اس کے نہیں کہ معبود تم سب کا اے لوگو! صرف وہ اﷲ ہے جس کے سوا کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں ، اس کا علم ہر چیز پر حاوی ہے ۔

۹۹۔۔۔      اے پیغمبر! جس طرح ہم نے آ پکو حضرت موسیٰ کا تفصیلی قصہ سنایا اسی طرح ہم آپ کو گزشتہ قوموں کے حالات کی کچھ خبریں سناتے ہیں اور ہم نے آپ کو اپنے یہاں سے ایک عظیم الشان ذکر عطا فرمایا ہے ،

۱۰۰۔۔۔      جو کوئی اس سے منہ موڑے گا تو یقیناً اس کو اٹھانا ہو گا قیامت کے روز ایک بڑا ہولناک بوجھ،

۱۰۱۔۔۔      ایسے لوگوں کو اس میں ہمیشہ رہنا ہو گا اور ان کے لیے قیامت کے دن وہ بڑا ہی برا بوجھ ہو گا،

۱۰۲۔۔۔     جس دن کہ صور میں پھونک دیا جائے گا اس روز ہم مجرموں کو اس حال میں اکٹھا کر لائیں گے

۱۰۳۔۔۔     کہ ان کے چہرے سیاہ اور ان کی آنکھیں نیلی ہوں گی وہ آپس میں چپکے چپکے کہہ رہے ہوں گے کہ تم نے (دنیا میں ) بمشکل دس ہی دن گزارے ہوں گے

۱۰۴۔۔۔      ہمیں خوب معلوم ہے وہ سب کچھ جو کہ وہ کہیں گے جب کہ ان میں سے سب سے برا سمجھ دار شخص کہے گا کہ تم لوگ تو صرف ایک ہی دن ٹھہرے ہو،

۱۰۵۔۔۔      اور پوچھتے ہیں آپ سے (اے پیغمبر!) ان پہاڑوں کے بارے میں ، کہ قیامت میں ان کا کیا بنے گا؟ تو کہو کہ میرا رب ان کو اڑا دے گا ریزہ ریزہ کر کے ،

۱۰۶۔۔۔     پھر اس زمین کو وہ ایک ایسا چٹیل میدان بنا کر رکھ دے گا

۱۰۷۔۔۔     کہ تمہیں اس میں نہ کوئی کجی نظر آئے گی اور نہ تم اس میں کوئی ٹیلا دیکھنے پاؤ گے

۱۰۸۔۔۔      اس روز یہ سب کے سب اس بلانے والے کی آواز پر ایسے سیدھے چلے آ رہے ہوں گے کہ کوئی کجی اور اکڑ نام کو نہ ہو گی، اور مارے ہیبت کے تمام آوازیں خدائے رحمان کے حضور ایسی ایسی دب جائیں گی کہ تم ہلکی آہٹ کے سوا کچھ سننے نہ پاؤ گے ،

۱۰۹۔۔۔      اس روز کسی کی سفارش کچھ کام نہ آئے گی، مگر اسی کی جس کو خدائے رحمان نے اجازت دی ہو گی اور اس کی بات کو اس نے پسند بھی کیا ہو گا،

۱۱۰۔۔۔      اسے معلوم ہے وہ سب کچھ جو ان کے آگے ہے اور وہ سب کچھ جو ان کے پیچھے ہے اور ان کا علم اس کا احاطہ نہیں کر سکتا،

۱۱۱۔۔۔      اور جھک جائیں گے اس روز سب چہرے اس حی و قیوم کے آگے ، اور اس وقت بڑا خسارے میں رہے گا وہ شخص جس نے بوجھ اٹھایا ہو گا ظلم کا۔

۱۱۲۔۔۔     اور اس کے برعکس جس نے نیک کام کیے ہوں گے ، اور وہ ایمان بھی رکھتا ہو گا تو اسے نہ کسی زیادتی کا کوئی اندیشہ ہو گا اور نہ کسی کمی کا کوئی خوف

۱۱۳۔۔۔     اور اے پیغمبر! جس طرح ہم نے آپ کو یہ مضامین سنائے ہیں اسی طرح ہم نے اس پورے قرآن کو اتارا ہے قرآنِ عربی بنا کر اور اس میں ہم نے تنبیہ کے مضامین کو طرح طرح سے بیان کیا کہ تاکہ یہ لوگ بچ جائیں یا اس قرآن کے ذریعے ان میں کچھ سمجھ پیدا ہو جائے ۔

۱۱۴۔۔۔     سو بڑا ہی بالا و برتر ہے وہ اﷲ جو کہ بادشاہ حقیقی ہے ۔ اور آپ قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کریں اے پیغمبر قبل اس سے کہ پوری کر دی جائے آپ کی طرف اس کی وحی اور یوں دعا کرتے رہا کریں کہ میرے رب میرے علم میں اور اضافہ فرما

۱۱۵۔۔۔     اور بلاشبہ ہم نے اس سے پہلے آدم سے بھی عہد لیا تھا پر وہ بھول گیا اور ہم نے اس میں عزم نہ پایا

۱۱۶۔۔۔     اور وہ بھی یاد کرو کہ جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم آدم کو سجدہ کرو تو وہ سب سجدے میں گر گئے سوائے ابلیس کے کہ اس نے انکار کر دیا

۱۱۷۔۔۔     پھر ہم نے آدم علیہ السلام سے کہہ دیا کہ دیکھو یہ قطعی طور پر دشمن ہے تمہارا بھی اور تمہاری بیوی کا بھی سو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ تمہیں جنت سے نکلوا دے ،

۱۱۸۔۔۔     پھر تم مصیبت میں پڑ جاؤ کہ یہاں تو تمہیں یہ آسائشیں ہیں کہ نہ تمہیں بھوک لگے

۱۱۹۔۔۔      اور نہ تم ننگے ہوؤ، پیاس تنگ کرے اور نہ ہی دھوپ کی تکلیف اٹھانا پڑے

۱۲۰۔۔۔     اور دنیا میں یہ آسائشیں کہاں ؟ پس خیال رکھنا پھر شیطان نے اس کو بہکانے کے لیے کہا آدم کیا میں تمہیں ابدی زندگی کے درخت اور ایسی بادشاہی کا پتہ نہ دے دوں جسے کبھی زوال نہ آئے

۱۲۱۔۔۔     سو آخرکار جب اس کے بہکاوے میں آ کر وہ دونوں اس درخت سے کھا بیٹھے تو اس کے کھاتے ہی ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے ستر ان دونوں کے اور وہ دونوں اپنے اوپر جنت کے پتے چپکانے لگے اس طرح آدم سے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی ہو گئی اور وہ بھٹک گئے

۱۲۲۔۔۔      پھر ان کے رب نے انہیں چن لیا، ان کی توبہ قبول فرما لی اور انہیں راہ پر ڈال دیا

۱۲۳۔۔۔      اور فرمایا تم دونوں اکٹھے یہاں سے اتر جاؤ، اس حال میں کہ تم میں سے بعض بعض کا دشمن ہو گا پھر یاد رکھنا کہ اگر آ جائے تمہارے پاس کوئی ہدایت میری طرف سے تو اس بارے میں میرا ضابطہ یہ ہو گا کہ کہ جس نے میری ہدایت کی پیروی کی تو وہ نہ گمراہ ہو گا اور نہ بدبختی میں مبتلا ہو گا

۱۲۴۔۔۔      اور جس نے ہماری اس نصیحت سے منہ موڑا تو بے شک اس کے لیے دنیا میں تنگ گزران ہو گی، اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کر کے اٹھائیں گے

۱۲۵۔۔۔      وہ کہے گا میرے رب تو نے مجھے اندھا کر کے کیوں اٹھایا؟ حالانکہ دنیا میں تو میں بینا تھا،

۱۲۶۔۔۔     ارشاد ہو گا اسی طرح جب ہماری آیتیں تیرے پاس آئی تھیں تو تو نے ان کو بھلا دیا تھا اسی طرح آج تجھے بھلایا جا رہا ہے

۱۲۷۔۔۔     اور اس طرح ہم بدلہ لیں گے ہر اس شخص کو جو کہ حد سے گزر گیا ہو گا اور وہ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہیں لایا ہو گا اور آخرت کا عذاب تو یقیناً انتہائی سخت بھی ہو گا اور سب سے بڑھ کر دیرپا بھی ۔

۱۲۸۔۔۔      تو کیا ان لوگوں کو عظیم درس تاریخ سے بھی کوئی ہدایت نہ مل سکی؟ کہ ہم ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں ، جن کی تباہ حال بستیوں میں یہ لوگ خود چلتے پھرتے بھی ہیں بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں عقل مندوں کے لیے

۱۲۹۔۔۔     اور منکرین و جرائم پیشہ لوگوں کی فوری پکڑ نہ ہونے پر کسی کو دھوکہ نہ ہو کیونکہ اگر تیرے رب کی طرف سے ایک طے شدہ بات اور ایک مقرر کردہ مدت نہ ہوتی تو وہ عذاب یقیناً ان پر کبھی کا چپک کر رہ گیا ہوتا

۱۳۰۔۔۔      پس آپ صبر ہی سے کام لیتے رہیں ان باتوں پر جو یہ لوگ بناتے ہیں اور اپنے رب کی حمد و ثناء کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہو، سورج کے نکلنے سے پہلے بھی اور اس کے ڈوبنے سے پہلے بھی، اور رات کی کچھ گھڑیوں میں بھی اس کی پاکی بیان کرتے رہیں اور دن کے کناروں میں بھی تاکہ آپ کو خوشی حاصل ہو

۱۳۱۔۔۔     اور کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھنا اس (سامان عیش و عشرت) کی طرف جو کہ ہم نے ان لوگوں کے مختلف گروہوں کو دنیاوی زندگی کی رونق کے طور پر دے رکھا ہے تاکہ اس میں ہم ان کی آزمائش کریں اور تیرے رب کا عطیہ تو بہر حال اس سے کہیں بڑھ کر عمدہ بھی ہے اور دیرپا بھی

۱۳۲۔۔۔     اپنے گھر والوں کو نماز کی تلقین کرتے رہو اور خود بھی اس کے پابند رہو ہم تم سے کوئی روزی نہیں مانگتے روزی تو تم کو بھی ہم ہی دیتے ہیں اور انجام کی بھلائی تو بہر حال تقویٰ ہی کے لیے ہے

۱۳۳۔۔۔     اور کہتے ہیں کہ کیوں نہیں لے آتا یہ رسول ہمارے پاس اپنے رب کی طرف سے کوئی نشانی تو کیا ان کے پاس واضح بیان نہیں آگیا ان تعلیمات کا جو کہ پہلے صحیفوں میں تھیں ؟

۱۳۴۔۔۔     اور اگر کہیں ہم ان کو اس کے آنے سے پہلے ہی ہلاک کر دیتے تو اس وقت یہ لوگ یوں کہتے کہ اے ہمارے رب تو نے ہمارے پاس کوئی رسول کیوں نہیں بھیجا؟ کہ ہم تیری آیتوں کی پیروی کرتے قبل اس سے کہ ہمیں اس طرح ذلت اٹھانا پڑتی؟ اور ہمیں اس رسوائی سے دوچار ہونا پڑتا

۱۳۵۔۔۔     کہو کہ اب ہم میں سے ہر ایک انتظار میں ہے سو تم بھی راہ دیکھتے رہو پس عنقریب تمہیں خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ کون ہیں سیدھی راہ والے اور کون ہیں نورِ حق و ہدایت والے ۔

تفسیر

 

۳.      سو اس سے قرآن حکیم کی اصل حیثیت کو بھی واضح فرما دیا گیا، اور پیغمبر کی ذمہ داری کی حدود کو بھی اور اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ اس کتاب حکیم سے اثر پذیر اور فیضیاب کون اور کس طرح کے لوگ ہونگے، سو اس کتاب حکیم کی حیثیت کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہ تذکرہ یعنی ایک عظیم الشان یاد دہانی ہے اور تذکیر و یاد دہانی اسی چیز کی کی جاتی ہے جو مخاطب انسان کے پاس اور اس کے اندر موجود ہوتی ہے۔ مگر وہ اس کو بھول چکا ہوتا ہے، سو قرآن حکیم انسان کو انہی حقائق کی تذکیر و یاد دہانی کراتا ہے جو اس کی فطرت کے اندر موجود ہیں۔ لیکن وہ ان سے غافل ہے۔ سو وہ انسان کو اس امر کی تذکیر و یاد دہانی کراتا ہے کہ اس کا خالق و مالک کون ہے؟ اور اس کا اس پر حق کیا ہے؟ نیز یہ کہ اس کے اس دنیا میں آنے کا مقصد اور اس کی غرض و غایت کیا ہے؟ اور اس کا مال و انجام کیا ہے؟ اور اس کے لئے یہ کتاب حکیم اس کے سامنے طرح طرح کے جو دلائل پیش کرتی ہے وہ بھی وہی ہیں جو اس کی عقل کے خزانے کے اندر موجود ہیں۔ اور لِمَنْ یَّخْشیٰ کے کلمات کریمہ سے یہ بھی واضح فرما دیا گیا کہ اس سے مستفید و فیضیاب اور اثر پذیر وہی لوگ ہونگے جو ڈرتے ہونگے۔ یعنی وہ ڈرتے ہونگے اپنے رب سے اور اس کی گرفت و پکڑ سے، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اِنَّمَا تُنْذِرُ مَنِ اتَّبَعَ الذِّکْرَ وَخَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ الایٰۃ(یٰس۔ ۱۱) یعنی آپ کے انذار کا فائدہ اسی کو پہنچ سکتا ہے جو نصیحت کی پیروی کرے۔ اور وہ خدائے رحمان سے بن دیکھے ڈرتا ہو۔ نیز اسی تذکرہ کے لفظ سے پیغمبر کی حیثیت اور آپ کی ذمہ داری کی حد بھی متعین ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر کی حیثیت مذکر ہی کی ہے، یعنی یاد دہانی کرانے والے کی نہ کہ مسیطر کی، یعنی زبردستی کرنے والے کی۔ اور اسی کی تصریح دوسرے مقام پر اس طرح فرمائی گئی ہے فَذَکِّرْ اِنَّمَا اَنْتَ مُذَکِّرْ لَسْتَ عَلَیْہِمْ بِمُصَیْطِرٍ (الغاشیہ۔ ۲۱۔۲۲) یعنی آپ تذکیر و یاد دہانی کرتے رہیں کہ آپ محض تذکیر اور یاد دہانی کرانے والے ہیں نہ کہ ان پر مسلط اور زبردستی کرنے والے سو پیغمبر کا کام صرف انذار و تبشیر ہے اور بس، آگے منوا لینا نہ آپ کے بس میں ہے، اور نہ ہی آپ کے ذمے، پس تذکیر و یاد دہانی اور کلمہ حق کے ابلاغ اور اس کی تبلیغ کے بعد ان کی ذمہ داری ختم علیہ الصلوٰۃ والسلام

۱۳.    استماع کے معنی غور اور توجہ سے سننے کے آتے ہیں، پس اس ارشاد کا مطلب یہ ہوا کہ میں نے جب تم کو اپنے کام یعنی فریضہ نبوت و رسالت کی ادائیگی کے لئے چن لیا ہے تو اب تم اس کلام کو غور اور توجہ سے سنو جس کی تمہاری طرف وحی کی جاتی ہے سو اس سے آنجناب کی تشریف و تکریم کا پہلو بھی واضح ہو جاتا ہے، کہ آپ کو نبوت و رسالت کے اس عظیم الشان منصب پر مامور و فائز فرما دیا گیا، جو حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی طرف سے کسی انسان کو ملنے والا سب سے بڑا منصب و مقام ہے، اور ساتھ ہی اس میں اس عظیم الشان ذمہ داری کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے جو نبوت و رسالت کے اس عظیم الشان مرتبہ و مقام پر فائز ہونے کی بناء پر آپ پر عائد ہوتی ہے، علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام۔

۱۴.    سو یہ اولین تعلیم تھی جو حضرت موسیٰ کو وحی کے ذریعے دی گئی اور یہی بنیادی تعلیم تمام انبیائے کرام کو دی گئی۔ اور اس میں تین اہم اور بنیادی باتوں کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے، جن میں سب سے پہلی بات عقیدہ توحید ہے کہ یہی عقیدہ مرکز دین و ایمان ہے، اس لئے ہر پیغمبر کو سب سے پہلے اسی کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے۔ اور ہر پیغمبر نے سب سے پہلے اسی کی دعوت دی، اور شرک کے خلاف جہاد کیا۔ دوسری بنیادی چیز جس کی تعلیم و تلقین اس موقع پر حضرت موسیٰ کو فرمائی گئی وہ ہے خداوند قدوس کی عبادت و بندگی، کہ عبادت و بندگی اور اس کی ہر قسم اور ہر شکل اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کا حق اور اسی کا اختصاص ہے کہ معبود برحق بہر حال وہی اور صرف وہی وحدہٗ لاشریک ہے اور تیسری چیز جو اس موقع پر حضرت موسیٰ کو تعلیم و تلقین فرمائی گئی وہ ہے اقامت صلوٰۃ سو آنجناب کو ارشاد فرمایا گیا نماز قائم کرو میری یاد کیلئے، سو نماز اللہ تعالیٰ کے ذکر اور اس کی یاد دلشاد کی سب سے بڑی صورت بھی ہے، اور اس کی محافظ بھی ہے اور اس کا سب سے بڑا مظہر بھی خواہ یہ انفرادی صورت میں ہو۔ یا اجتماعی طور پر۔

۱۵.    سو اس سے ایک طرف تو قیامت کی قطعیت کو واضح فرما دیا گیا۔ کہ اس نے یقیناً اور بہر حال آ کر رہنا ہے اس کی تاکید کے لئے ایک تو جملہ اسمیہ لایا گیا۔ اور پھر اٰتِیَۃٌ کا صیغہ اسم فاعل استعمال فرمایا گیا۔ اور پھر اس پر مزید یہ کہ اِنَّ کا حرف تاکید لایا گیا۔ اور اَکَا دُکے لفظ کے استعمال سے اس جملے کے اندر یہ مفہوم بھی پیدا ہو گیا کہ ہر چند کہ میں نے قیامت پر پردہ ڈال رکھا ہے، اور ابھی یہ پردہ ڈالے ہی رکھوں گا۔ لیکن وہ بے حقیقت نقاب ہو جانے کے لئے بالکل بے قرار ہے۔ اسی مضمون کو دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا گیا ہے ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَا تَاتِیْکُمْ اِلاَّ بَغْتَۃً الایٰۃ یعنی وہ بڑی بھاری ہے آسمانوں اور زمین میں، وہ تم لوگوں پر بالکل اچانک آدھمکے گی۔ سو قیامت کے وقت وقوع کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں، اور پھر اس کے وقوع کی غرض و غایت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ وہ اس لئے آئے گی کہ تاکہ ہر کسی کو اس کی زندگی بھر کے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ مل سکے۔ اور اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں، اور علی وجہ التمام  والکمال پورے ہو سکیں۔ اور اس طرح تخلیق کائنات کی غرض اور اس کے مقصد کا تحقق اور اس کی تکمیل ہو سکے۔ ورنہ اس کا وجود عَبَثْ قرار پائے گا۔ پس وہ لوگ بڑے ہی ہولناک خسارے میں مبتلا ہیں، جو عقیدہ آخرت اور اس کے تقاضوں سے غافل اور بے بہرہ ہو کر محض دنیائے دُوں کے وقتی اور مادی فائدوں کے لئے جی رہے ہیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۳۱.    آزْر کے معنی پیٹھ اور کمر کے آتے ہیں، سو اس درخواست کا مطلب یہ ہوا کہ حضرت ہارون علیہ السلام کو میرا وزیر اور شریک کار بنا کر میری کمر کو مضبوط فرما دے، تاکہ میں بار نبوت کے اس عظیم الشان بوجھ کو اٹھانے کے قابل ہو سکوں۔ اور اس کی ذمہ داریوں کو کما حقہ نبھا سکوں۔ سو اس سے ایک طرف تو حضرت موسیٰ کی یہ انفرادی اور امتیازی شان سامنے آتی ہے کہ آپ کی دعا و درخواست پر حضرت ہارون علیہ السلام کو شرف نبوت و رسالت میں شریک بنایا گیا۔ حضرات انبیاء ورسل کے سلسلہ مطہرہ میں اس کی دوسری کوئی نظیر و مثال نہیں مل سکتی، اور دوسری طرف اس سے حضرات انبیاء ورسل کی للّٰہیت و بے نفسی کا ایک نہایت عمدہ اور پاکیزہ مظہر سامنے آتا ہے کہ دنیا والے تو کسی چھوٹے سے چھوٹے عہدے پر بھی اپنے اختیار میں کسی دوسرے کی شرکت گوارا نہیں کرتے۔ لیکن اللہ کے پیغمبر رسالت و نبوت کے عظیم الشان اور جلیل القدر منصب میں بھی دوسرے کو شریک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور اسطرح دعا و درخواست کرتے ہیں۔

۳۲.    یعنی حضرت ہارون علیہ السلام کی یہ مدد اور شرکت محض ایک صحابی اور ساتھی کے طور پر نہیں، بلکہ شریک نبوت کی حیثیت سے ہو، یعنی وہ فرائض نبوت کی ادائیگی سے متعلق اللہ تعالیٰ کے یہاں مسئول اور ذمہ دار ہوں۔ اور انہیں براہِ راست اللہ کی طرف سے راہنمائی اور عصمت و حفاظت حاصل ہو۔ سو حضرت موسیٰ کی یہ دعا ایک بڑی اہم اور عظیم الشان دعا تھی حضرات انبیاء کرام میں سے کسی اور کے بارے میں یہ روایت نہیں ملتی کہ کسی دوسرے نبی کو ان کا وزیر بنایا گیا ہو، سوائے حضرت موسیٰ کے، علیہ الصلوٰۃ والسلام۔ سو یہ شرف صرف آنجناب ہی کو بخشا گیا، اور اس کے لئے آپ کی دعا کو شرف قبولیت سے نوازا گیا، یہاں پر جیسا کہ ابھی اوپر والے حاشیے میں بھی گزرا، پیغمبر کی امتیازی شان کا یہ پہلو بھی ملاحظہ ہو کہ دنیا دار لیڈر تو کسی چھوٹے سے چھوٹے عہدے میں بھی کسی دوسرے کو اپنے اختیارات میں شریک تو کیا، اس کو اس کے قریب بھی پھٹکنے کے روا دار نہیں ہوتے۔ لیکن اللہ کے رسول اپنی نبوت و رسالت کے عظیم الشان اور جلیل القدر منصب میں بھی دوسرے کو شریک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے اس طرح دعا و درخواست کرتے ہیں، سو جہاں امانت اور ذمہ داری اور اس کے تقاضوں کے بارے صحیح احساس ہو۔ وہاں ایسے ہی ہوتا ہے۔

۳۵.    سو اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنے شریک کار بنانے سے متعلق اپنی دعا و درخواست کی غرض و غایت کو بیان فرمایا یعنی یہ کہ تاکہ ہم دونوں خوب خوب تیری تسبیح کریں۔ اور تیرا ذکر کریں، ظاہر ہے کہ یہاں پر صرف انفرادی تسبیح اور ذکر ہی مراد نہیں۔ بلکہ اس سے اصل مقصود وہ اجتماعی ذکر و تسبیح ہے جو پیغمبر کی امتیازی شان کا تقاضا ہوتا ہے کیونکہ یہ درحقیقت فریضہ نبوت کی ادائیگی کی تعبیر ہے اس لئے کہ حضرات انبیاء کرام اور ان کے طریقے پر کام کرنے والوں کی خلوت اور جلوت دونوں ہی کی ذکر و تسبیح ہوتی ہیں۔ وہ جو کام مسجد میں کرتے ہیں وہ بھی ذکر و تسبیح ہوتا ہے۔ اور جو بازار میں کرتے ہیں وہ بھی ذکر و تسبیح ہوتا ہے، ان کی رزم و بزم دونوں ایک ہی نوعیت کی ہوتی ہیں ان کے درمیان فرق عمل کا نہیں ہوتا، بلکہ میدان عمل کا ہوتا ہے۔ علیہم الصلوٰۃ والسلام۔

۳۶.    سُوْل اور سُؤال دونوں کا معنی ایک ہی ہے۔ سو اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ان کی دعاء و درخواست کی قبولیت کی بشارت سے نوازا گیا۔ کہ آپ نے جو مانگا وہ سب آپ کو دے دیا گیا، یعنی اظہار و بیان کی قوت سے بھی آپ کو نواز دیا گیا، اور حضرت ہارون علیہ السلام کو آپ کا وزیر اور شریک کار بھی بنا دیا گیا۔ سو اس سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا کہ دعا جب صحیح مقصد کے لئے اور صحیح طریقے سے کی جاتی ہے، تو اس کو اسی طرح شرف قبولیت سے نوازا جاتا ہے وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی مایحب ویرید۔

۴۳.    سو وہ بدبخت اتنا سرکش ہو گیا کہ حدودِ بندگی سے نکل کر اپنی خدائی کا دعویدار بن گیا۔ پس تم دونوں اے موسیٰ! یعنی تم بھی اور تمہارے بھائی ہارون بھی اس سرکشی طاغیہ کے پاس جاؤ اور اس کو حق اور ہدایت کی دعوت دو۔ اور میرے ذکر اور میری یادِ دلشاد میں کمزوری نہیں آنے دینا۔ اور کبھی اس میں ڈھیلے نہیں پڑنا۔ اور پیغمبر کا ذکر عبادتِ خداوندی اور دعوت حق کی دونوں ہی صورتوں میں ہوتا ہے۔ اور اس کی زندگی کی ہر کیفیت درحقیقت ذکر خداوندی ہی سے عبارت ہوتی ہے، وہ جب نماز پڑھتا ہے تو اس کے ذریعے وہ درحقیقت حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، سے وہ قوت اور معرفت حاصل کرتا ہے جس سے وہ خلق خدا کے لئے تذکیر حق و ہدایت کی خدمت انجام دیتا ہے سو دعوتِ حق کا اصل سرچشمہ دراصل حضرت حق جل مجدہ، کی ذات اقدس و اعلیٰ ہی ہے۔ اس کے لئے غذا اور قوت اسی سرچشمہ سے حاصل ہوتی ہے۔ اگر اس سرچشمے سے تعلق کمزور پڑ جائے۔ والعیاذُ باللہ۔ تو پھر دعوت بے جان اور بے رُوح ہو کر رہ جاتی ہے، اور اگر خدانخواستہ اس سرچشمہ سے تعلق بالکل ہی کٹ جائے تو پھر وہ دعوت شیطانی دعوت بن کر رہ جاتی ہے۔ اگرچہ اس پر نام اللہ ہی کا لیا جائے والعیاذُ باللہ العظیم اس لئے حضرت موسیٰ اور ہارون دونوں کو اس موقع پر ذکر خداوندی کے لئے اس طرح تلقین و تاکید فرمائی گئی وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی ما یُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الاحوال، وَفِیْ کُلِّ مَوْطِنٍ مِّنَ المواطن فی الحیاۃ۔

۴۷.    سو وَالسَّلَامُ علیٰ مَنِ اتَّبَعَ الْہُدیٰ یعنی سلام ہو اس پر جو پیروی کرے حق و ہدایت کی۔ کے اس جملے سے صحت و سلامتی، دارین کی سعادت و سرخروئی، اور حقیقی اور اَبَدی فوز و فلاح سے بہرہ بندی و سرفرازی کے طریق کار کی نہایت عمدہ، مختصر، اور جامع طریقے سے تعیین و تشخیص فرما دی گئی۔ اور اس کا مرکزی نقطہ ہے اتباع ہُدیٰ، اور اتباع ہُدیٰ کے یہ دونوں لفظ گویا دریا بکوزہ کا مصداق ہیں کہ ان سے ایک طرف تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ بندے کا اصل کام، اور اس کی شان عبدیت و بندگی کا حقیقی تقاضا سرکشی اور خودسری نہیں، بلکہ اتباع اور پیروی ہے، اور عبدیت و انابت ہے، اور یہی طریقہ ہے خداوند قدوس کی عنایات سے بہرہ مند و سرفرازی کا، جبکہ سرکشی اور خود سری ابلیس اور فرعون اینڈ کمپنی کا کام ہے، اور یہ طریقہ محرومی اور بدبختی کا طریقہ ہے، جبکہ اتباع ہُدیٰ اور پیروی حق حضرت آدم، اور ان کی ذریت میں سے بندگان صدق و صفا کا طریقہ ہے۔ اور یہی طریقہ دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، وباللہ التوفیق لما یحب ویرید، وعلی مایحب ویرید، اور دوسری اہم اور بنیادی حقیقت اس سے اس ضمن میں یہ واضح فرما دی گئی کہ یہ اتباع اور پیروی بھی انسان کے اپنے من گھڑت اور خود ساختہ طور طریقوں کی نہیں۔ بلکہ اس حق اور ہدایت کی ہونی چاہیے جو انسان کو حضرت حق جل مجدہ، کی طرف سے ملے اور بس کہ یہی اس کے خالق و مالک کا اس پر حق ہے۔ اور اسی سے اس کو وہ سعادت و سرخروئی نصیب ہو سکتی ہے۔ جو کہ حقیقی اور ابدی سعادت و سرخروئی ہے، پس نور حق و ہدایت سے سرفرازی دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ اور اس سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم، اسی لئے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ہَدَاکُمْ یعنی تم لوگ اس کو ویسے ہی یاد کرو جیسا کہ اس نے ہدایت فرمائی ہے، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید،

۵۴.    سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ قدرت کی طرف سے تمہارے لئے کئے گئے اس تمام تر اہتمام و انتظام میں عظیم الشان نشانیاں ہیں حضرت حق جل مجدہ، کی قدرتِ بے پایاں رحمت بے نہایت اور اس کی حکمت بے غایت کی۔ اور اس کی وحدانیت و یکتائی کی۔ کہ جب اس کی ان عظیم الشان عنایات میں سے کسی میں بھی کوئی اس کا شریک و سہیم نہیں، تو پھر اس کی عبادت و بندگی میں کوئی اس کا شریک و سہیم کس طرح ہو سکتا ہے؟ پس وہی وحدہٗ لاشریک معبودِ برحق ہے۔ اور عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی وحدہٗ لاشریک کا حق اور اسی کا اختصاص ہے۔ نیز اس میں عقل مندوں کے لئے یہ درس عظیم بھی ہے کہ ایک ایسا یوم حساب بھی آئے جس میں بندوں سے اللہ کی بخشی ہوئی ان عظیم الشان نعمتوں کی پوچھ، اور ان کے بارے میں اس سے سوال ہو، کہ انہوں نے ان کا کیا حق ادا کیا؟ تاکہ اس کے مطابق حق نعمت ادا کرنے والوں کو اس کا اجر و صلہ ملے۔ اور ناشکروں اور منکروں کو اس کی قرار واقعی سزا ملے۔ تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں اور حکمتوں اور نعمتوں بھری اس کائنات کے مقصد تخلیق و وجود کا تحقق ہو سکے۔ سو وہی یوم عظیم یوم قیامت ہے۔ پس عقلمندوں کے لئے ہر سُو پھیلی بکھری ان طرح طرح کی اور عظیم الشان نعمتوں میں عظیم الشان دلائل ہیں، حضرت حق جل مجدہ کے وجودِ باجود کے، اس کی عظمت شان اور اس کی وحدانیت و یکتائی کے، وقوع قیامت اور اس کے حساب و کتاب کے۔ لیکن یہ سب کچھ ان ہی لوگوں کے لئے ہے جو ان چیزوں میں صحیح طریقے سے غور و فکر سے کام لیتے ہیں، وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید، وہو الہادی الی سواء السبیل

۵۷.    سو اس طرح فرعون نے ایک اسسٹنٹ باز سیاستدان کی طرح حضرت موسیٰ کی دعوتِ حق کے جواب میں یہ اسسٹنٹ چھوڑا کہ موسیٰ کیا تم ہمارے پاس اسی لئے آئے ہو کہ ہمیں اپنے جادو کے زور سے اپنے اس ملک سے نکال باہر کرو؟ سو اس طرح اس ملعون نے اپنی اس اسسٹنٹ بازی کے ذریعے ایک طرف تو اپنی قوم کو حضرت موسیٰ کے خلاف مشتعل کرنے اور بھڑکانے کی کوشش کی۔ اور دوسری طرف اس نے حضرت موسیٰ کے معجزات کو سحر یعنی جادو سے تعبیر کر کے انکے اثر کو مٹانے کی سعی نامراد کی، سو اسسٹنٹ باز سیاسی بازی گروں کا یہی حال ہزاروں سال پہلے تھا۔ اور انکا یہی آج ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے شرور و فتن سے اہل حق کو ہمیشہ محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے، اور ہمیشہ راہ حق پر قائم رہنے کی توفیق بخشے، آمین ثم آمین

۵۹.    حضرت موسیٰ کو چونکہ اپنی صداقت و حقانیت اور اپنے غلبے اور کامیابی کا پورا یقین تھا۔ اس لئے آپ نے فرعون کے اس چیلنج کو فوراً قبول کر لیا۔ اور فرعونیوں کے کسی جشن اور میلے کا کوئی دن قریب ہی تھا۔ اس لئے آپ نے اسی دن کو نامزد کر دیا۔ اور اس کے لئے وقت بھی چاشت کا مقرر فرما دیا کہ میلے کا دن چونکہ لوگوں کے لئے فرصت و فراغت کا دن ہوتا ہے۔ اور چاشت کا وقت بھی ایسے کسی اجتماع اور مقابلے کے لئے خاص طور پر موزوں ہوتا ہے۔ اس لئے آپ نے اسی کو مقرر فرما دیا، تاکہ اس طرح حق و باطل کا یہ معرکہ سب کے سامنے واقعہ ہو، اور اسطرح غلبہ حق سب کے سامنے پوری طرح واضح ہو جائے، اور بالآخر ایسے ہی ہو کر رہا۔ والحمد للہ جل وعلا، سو حق کی ضرب کاری، اور اس کا غلبہ سب پر حاوی ہوتا ہے اللہ ہمیشہ حق ہی پر۔ اور حق ہی کے ساتھ رکھے۔ اور ہر قدم اپنی رضا و خوشنودی ہی کے لئے اور اسی کے مطابق اٹھانے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین یا ربَّ العالمین

۶۴.    سو اس سے اس بات کو نقل فرمایا گیا ہے جو خفیہ مجلس میں فرعون اس کے اعوان و انصار کے درمیان اور جادو گروں کو حضرت موسیٰ اور ہارون کے خلاف اکسانے اور ابھارنے کے لئے کی گئی جس میں ایک طرف تو جادو گروں کو اکسایا ابھارا گیا کہ اگر تم نے موسیٰ اور ہارون کے مقابلے میں کمزوری دکھائی تو تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ اس لئے تم پوری قوت اور زور کے ساتھ ان کا مقابلہ کرو۔ اور اس بات کو بہر حال اپنے پیش نظر رکھو کہ جیت اسی کی ہو گی جو آج کے اس معرکے میں غالب رہے گا۔ دوسری طرف لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ موسیٰ اور ہارون اپنے جادو کے زور سے تم لوگوں کو اس ملک سے نکال باہر کرنا۔ اور تمہاری عمدہ اور شاندار تہذیب کا خاتمہ کر دینا چاہتے ہیں۔ اس لئے تم لوگوں کو چوکنا اور ہوشیار رہنا چاہیے۔ اور اس خطرے سے نبٹنے کے لئے بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے، سو ارباب اقتدار حق اور اہل حق کے خلاف ہمیشہ اسی طرح کے حربے استعمال کرتے رہے ہیں۔ ان کا طریقہ و وطیرہ کل بھی یہی تھا، اور آج بھی یہی ہے کہ ان کے نزدیک اپنے بت اقتدار کی پوجا ہی سب کچھ ہوتی ہے وہ ہمیشہ عوام کو اکسا بھڑکا کر، اور ان کو بیوقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خواہ ان کی بات کتنی ہی لچر اور بے حقیقت کیوں نہ ہو۔ بھلا محض جادو کے زور سے بھی کبھی کسی حکومت کا خاتمہ کیا جاس کا؟ اور محض اسی حربے سے کبھی کسی قوم کو اس کے ملک سے نکال باہر کیا جاس کا ہے؟ جب نہیں اور یقیناً نہیں، تو پھر ایسی بات کے لچر، اور بیہودہ، ہونے کے بارے میں کسی شک و شبہ کی کیا گنجائش باقی رہ سکتی ہے؟

۶۶.    سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ جادو سے کسی چیز کی حقیقت نہیں تبدیل ہوتی۔ بلکہ وہ درحقیقت نظر بندی ہی کی ایک شکل ہوتی ہے۔ چنانچہ اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ جادو گروں کی وہ رسیاں اور لاٹھیاں فی الواقع سانپ نہیں بن گئی تھیں۔ بلکہ ان کے جادو کے زور اور اس کے اثر سے حضرت موسیٰ کو یوں لگ رہا تھا۔ اور ان کو یہ خیال ہو رہا تھا کہ وہ رینگتی اور چلتی ہیں اور بس۔ ورنہ اپنی اصل اور حقیقت کے اعتبار سے وہ ویسی لاٹھیاں اور رسیاں تھیں، جیسی کہ اس سے پہلے اور اپنی اصل اور حقیقت کے اعتبار سے تھیں۔

۶۷.    یعنی حضرت موسیٰ کو اتنی بڑی تعداد میں حرکت کرتے ہوئے ان سانپوں کو دیکھ کر جو کہ حقیقی سانپ نہیں تھے بلکہ محض جادو کا اثر، اور نظر بندی کا کرشمہ تھا۔ سو ان کو دیکھ کر حضرت موسیٰ کو ایک خوف سا لاحق ہوا جو کہ ایک طبعی اور فطری امر تھا۔ اور ایسا طبعی خوف نبوت کے منافی نہیں ہوتا۔ سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر نہ عالم غیب ہوتے ہیں اور نہ ہی مختار کل جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا اور ماننا ہے کیونکہ ایسی کوئی بھی بات اگر ہوتی تو حضرت موسیٰ کو اس طرح کا خوف لاحق نہ ہوتا۔ نہ آپ ان مصنوعی سانپوں سے ڈرتے، اور نہ ایسی صورت پیدا ہوتی،

۶۷.    یعنی حضرت موسیٰ کو لاحق ہونے والے اس خوف کے ازالے کے لئے فوراً اس بشارت سے نوازا گیا کہ آپ کسی قسم کا کوئی خوف اور اندیشہ نہ کریں کہ غلبہ بہر حال آپ ہی کا ہے کہ آپ بہر حال اور قطعی طور پر حق پر ہیں، اور غلبہ بہر حال حق ہی کا ہوتا ہے، سو اس سے پیغمبر کی عظمت شان کا یہ امتیازی پہلو بھی واضح ہو جاتا ہے، کہ ان کا معاملہ براہ راست اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور ان کو ہر موقع پر اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے مناسب حال ہدایات ملتی ہیں۔ اور وہ ہمیشہ اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی حفاظت اور اس کی پناہ میں ہوتے ہیں، اسی لئے ان کی اطاعت و پیروی مطلق اور غیر مشروط ہوتی ہے کہ اس میں کسی طرح کی غلطی اور انحراف کا کوئی امکان اور خوف و خدشہ نہیں ہوتا، علی نبینا وعلیہم الصلوٰۃ والسلام۔

۷۲.    سو اس سے ایک طرف تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ کرسی اقتدار کے پجاری کتنے بے شرم اور کس قدر ڈھیٹ ہوتے ہیں، اور اس کے لئے وہ کس حد تک جا سکتے ہیں، فرعون ان جادو گروں کو ملک کے کونے کونے سے خود اپنے طور پر اور سرکاری اخراجات پر بلا کر لایا۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں اس نے ان کو خاص طور پر اکسا اور بھڑکا کر تیار کیا۔ جیسا کہ ابھی کچھ ہی اوپر گزرا ہے۔ لیکن جب ان کے سامنے حق واضح ہو گیا تو انہوں نے حق کو قبول کر لیا۔ اور اس طور پر کہ وہ سب کے سب فوراً اور بلا اختیار سب کے سامنے اپنے رب کے حضور سجدے میں گر گئے، تو اب فرعون ان پر یہ الزام لگا رہا ہے کہ یہ تم سب لوگوں کی ملی بھگت ہے۔ اور یہ کہ موسیٰ علیہ السلام تم سب کا بڑا اور تمہارا استاذ ہے جس نے تم کو جادوگری سکھائی ہے، دوسری طرف اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ قوت ایمان و یقین کس قدر عظیم الشان اور کتنی حقیقت افروز قوت ہے کہ اس کی بناء پر انسان فرعون کی اتنی بڑی خوفناک دھمکی سے بھی نہیں ڈرتا۔ اور نور ایمان و یقین کی یہ قوت کیسی انقلاب آفریں قوت ہے جو انسان کو یکایک کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے، کہاں تو ان جادو گروں کا یہ حال تھا کہ کچھ ہی دیر قبل یہ فرعون سے یہ عہد لے رہے تھے کہ اگر ہم جیت گئے، تو ہمیں کیا ملے گا؟ اور کہاں اب ان کا یہ حال ہے کہ اب یہ حق کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے بھی راضی اور تیار ہیں۔ اور بخوشی تیار ہیں اور تیسری طرف اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے، کہ دنیا کا رنج و راحت اور آرام و تکلیف سب کچھ عارضی اور فانی ہے۔ اصل چیز ہے آخرت کی کامیابی اور وہیں کی راحت اور نعمتیں، پس انہی کو اپنا اصل مقصد اور نصب العین بنانا چاہیئے۔ وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی ما یُحِبُّ ویرید۔

۷۳.    سو اس سے انہوں نے فرعون کی اس بات اور اس کی اس دھمکی کا جواب دیا۔ جو اس نے اپنی فرعونی ترنگ میں ان بندگان صدق و صفا کو اسطرح دی تھی۔ کہ عنقریب تمہیں اچھی طرح معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے کس کا عذاب زیادہ سخت اور دیرپا ہے۔ سو اس چھوٹے سے جملے سے انہوں نے اس فرعونی دھمکی کا بھرپور واضح اور مؤثر جواب دیا کہ اللہ ہی ہے جو دنیا و مافیہا سے کہیں بڑھ کر بہتر اور سدا باقی رہنے والا ہے۔ اس لئے ہم نے ہر چیز سے بے نیاز ہو کر اسی وحدہٗ لاشریک کو اور اسی کی رضا و خوشنودی کے حصول کے اصل اور حقیقی مقصد کو اور اختیار کر لیا ہے۔ اب نہ ہم تیری باتوں میں آنے والے ہیں اور نہ ہی تیری ان دھمکیوں سے ڈرنے والے ہیں تجھے جو کچھ کرنا کر کے دیکھ لے۔ ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔

۷۶.    یہ تینوں آیات کریمات حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی طرف سے بطور تضمین ارشاد فرمائی گئی ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے حضرت موسیٰ کے کلام کے ساتھ ملا کر اپنی یہ بات ارشاد فرمائی ہے۔ جس سے کلام مکمل اور مطابق حال ہو گیا، اور ان آیات کریمات کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کلام کا حصہ قرار دینے کے بجائے بطور تضمین اللہ تعالیٰ کا کلام قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ ان میں جزاء و سزا سے متعلق قانون اور آخرت کے حال کو جن الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ ہی کے شایان شان ہو سکتا ہے۔ سو ان سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ جو اپنے رب کے حضور مجرم کی حیثیت سے حاضر ہو گا اس کے لئے بہر حال دوزخ ہے جس میں نہ وہ مرے گا۔ اور نہ جئیے گا۔ اور اس کے برعکس جو اس کے حضور ایمان اور عمل صالح کی پونجی لئے حاضر ہو گا اس کے لئے وہاں پر ہمیشہ رہنے کی جنتوں میں عالیشان درجے ہونگے۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین

۷۹.    سو اس میں فرعون کی تباہ کن قیادت پر اظہار افسوس بھی ہے اور اس میں ان کے اس ہولناک انجام کے اصل سبب و باعث کا ذکر و بیان بھی۔ کہ اس بدبخت نے اپنی گمراہ کن روش کے سبب اپنی قوم کو اس ہلاکت و تباہی سے دوچار کیا۔ وَمَا ہَدیٰ میں دراصل اس اہم اور بنیادی بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر قائد اور حکمران کی اصل ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی قوم کی صحیح راہنمائی کرے۔ کیونکہ اس کی حیثیت دراصل راعی کی ہوتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی حفاظت و رعایت اور اس کی نگہبانی کے لئے مامور فرمایا ہوتا ہے، جَلَّ جَلَالُہ، وَعمَّ نَوالُہ، پس بڑا بدبخت ہوتا ہے وہ انسان جو اپنی رعایا کے لئے راہنما کے بجائے راہزن بن جائے۔ اس لئے ایسوں کا جرم بھی ڈبل ہوتا ہے، اور اس کی سزا بھی دوگنی۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔

۷۱.    سو طغیان و سرکشی کا نتیجہ و انجام بڑا ہولناک ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ چیز خداوند قدوس کے غضب کا باعث بنتی ہے۔ اور جس پر خدا کا غضب ٹوٹ پڑے والعیاذُ باللہ تو وہ ہلاکت و تباہی کے دائمی اور ہولناک گڑھے میں گر کر رہتا ہے، اور اس کو عزت کے عرش سے اتار کر ذلت کے فرش پر پٹخ دیا جاتا ہے، چنانچہ دنیا نے اپنی آنکھوں، اور کھلی آنکھوں، سے دیکھ لیا کہ جو اپنی خدائی کا دعویدار بنا ہوا تھا وہ کیسے ہولناک انجام اور کس قدر رسوا کن، اور دائمی و اَبَدی ذلت و رسوائی سے دو چار ہوا۔ والعیاذُ باللہ جَلَّ وَعَلَا، پس بندے کا کمال اور اس کی عزت و عظمت اس کے کمال عبدیت و بندگی میں ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید بِکُلِّ حالٍ مِّن الاحوال۔

۷۲.    سو اس سے ایسے لوگوں کے لئے راہ نجات اور طریق توبہ و اصلاح کی تعیین و تصریح فرما دی گئی ہے کہ ایسے لوگ اگر اپنی غلطی سے رجوع کر کے راہِ حق کو اپنائیں اپنے ایمان اور عمل صالح کی تجدید کریں۔ اور آئندہ کے لئے راہِ حق پر گامزن رہنے کا عہد کریں۔ اور خداوند قدوس سے ہدایت مزید کے طالب بنیں۔ تو ان کے لئے مغفرت و بخشش کا وعدہ ہے۔ کہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے لئے بڑا ہی بخشنے والا ہے، سبحانہ و تعالیٰ۔ اللہ ہمیشہ اپنا ہی بنائے رکھے، آمین ثم آمین

۷۵.    کہ سامری نے ان کے لئے ایک مصنوعی اور بے حقیقت بچھڑا بنایا۔ تو اس کو انہوں نے اپنا معبود بنا لیا۔ اور اس طرح وہ ایک کھلے شرک میں مبتلا ہو گئے۔ اور گوسالہ پرستی کے ذلت آمیز و رسوا کن جرم کے مرتکب ہوئے۔ قیام مصر کے دوران شرک کے جراثیم ان کے اندر اس حد تک سرایت کر گئے تھے کہ سامری کی اس معمولی سی تحریک پر وہ سب اس کے قبضے میں آ گئے، اور ایسے اور اس حد تک کہ اس مصنوعی اور بے حقیقت بچھڑے کو معبود مان لیا اور نہ صرف اپنا بلکہ اس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بھی معبود قرار دے دیا، اور کھلم کھلا اور صاف طور پر کہہ دیا کہ یہ معبود ہے تم سب کا، اور یہی معبود ہے موسیٰ کا، مگر وہ بھول گیا، جیسا کہ آگے آیت نمبر ٨٨ میں اس کی تصریح موجود ہے۔ اور اس طرح وہ ذلت و رسوائی اور ہلاکت و تباہی کے ہولناک گڑھے میں جا گرے۔ سو برے اثرات سے بچنے کے لئے برے ماحول سے اجتناب و ابتعاد بھی ضروری ہے۔ ورنہ ان سے چھٹکارا بہت مشکل ہے بنی اسرائیل کی یہ گمراہی اس کی کھلی اور واضح مثال ہے کہ یہ لوگ حضرت موسیٰ جیسے عظیم الشان اور جلیل القدر پیغمبر کی تعلیم و تبلیغ کے باوجود انکی زندگی میں ایسے ہاوے میں جاگرے اللہ ہمیشہ اور ہر طرح سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے، آمین ثم آمین یارب العالمین

۷۶.    یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان لوگوں کو ان کے اس جرم عظیم کے ارتکاب پر جھنجوڑتے ہوئے ان سے فرمایا کہ تم لوگوں سے جو میں نے عہد لیا تھا کہ تم نے توحید اور اطاعت خداوندی پر قائم رہنا ہے تو تم نے اس کی خلاف ورزی کر کے آخر گوسالہ پرستی کے اس جرم عظیم کا ارتکاب کیوں کیا؟ کیا تم لوگوں پر میری عدم موجودگی کا وقت بہت زیادہ ہو گیا تھا؟ ظاہر ہے کہ یہ بات نہیں کیونکہ میں تو صرف گنتی کے کچھ ہی دن تم لوگوں سے دور رہا تھا، یا پھر تم لوگوں نے اس کا ارتکاب اس لئے کیا کہ اللہ کا غضب اور اس کا عذاب تم پر ٹوٹ پڑے؟ کیونکہ شرک کا نتیجہ اور انجام نہایت ہی ہولناک ہوتا ہے، سو تمہاری اس حرکت کا انجام یہی ہونے والے ہے جس کے لئے کوئی عقلمند تیار نہیں ہو سکتا۔ تو پھر تم لوگوں نے آخر اس قدر سنگین جرم کا ارتکاب کیوں کیا؟ اور تم اس قدر اُندھے اور اوندھے کیوں ہو گئے؟

۷۷.    سو گوسالہ پرستی کے مرتکب ان مشرکوں نے حضرت موسیٰ کے سوال کے جواب میں ان سے اپنی معذرت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ایسا اپنی مرضی اور اختیار سے نہیں کیا، بلکہ ہم مجبوراً اس میں مبتلا ہو گئے تھے، اور یہ سب کچھ سامری کے طلسم کا نتیجہ تھا، قوم فرعون کے زیورات کا جو بوجھ ہم پر ڈال دیا گیا تھا، سامری نے اس سب کو آگ کے ایک گڑھے میں ڈال کر پگھلایا۔ اور اس سے ایک مصنوعی بچھڑا بنا کر نکالا، یعنی ایک ایسا دھڑ جس سے بچھڑے کی سی ایک بے معنی آواز نکل رہی تھی اور بس اس پر سامری اور اس کے پیروکاروں نے کہا کہ یہ معبود ہے تمہارا بھی، اور موسیٰ کا بھی مگر وہ بھول گیا۔ سو اس کا یہ طلسم ہم پر ایسا اثر انداز ہوا کہ ہم بھی بہت اس کے آگے جھک گئے۔ اور ہم نے اس کی پرستش کا ارتکاب کر لیا۔ سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شرک کے جراثیم کا لوگوں کے اندر سے نکلنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسے عظیم الشان اور جلیل القدر پیغمبر کی براہِ راست اور بلاواسطہ دعوت و تبلیغ اور درسِ توحید کے باوجود آپ کی وہ بدبخت قوم اس قدر جلدی اور اتنی آسانی سے اور فوری طور پر گوسالہ پرستی کے اس ہولناک شرک میں مبتلا ہو گئی۔ اور یہاں تک کہ اس مصنوعی اور بے حقیقت بچھڑے کو اپنا بھی، اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا بھی خدا مان لیا والعیاذ باللہ، سو اللہ پاک نے کس قدر سچ فرمایا وَمَا یُؤْمِنُ اَکْثَرَہُمْ بِاللّٰہِ اِلاَّ وَہُمْ مُّشْرِکُوْنَ۔ یعنی اکثر لوگ ایمان لانے کے باوجود مشرک ہی رہتے ہیں والعیاذ باللہ جل وعلا،

۹۱.    سو اس سے حضرت ہارون کے کردار، انکی دعوت حق کے لئے کوشش اور قوم کے جواب کو واضح فرما دیا گیا، کہ آنجناب نے جب ان بدبختوں کو اس ہولناک شرک میں مبتلا دیکھا تو آپ نے بڑے درد بھرے انداز میں ان سے فرمایا کہ اے میری قوم یقیناً تم لوگ فتنے میں مبتلا ہو گئے ہو، یہ بے جان اور بے حقیقت بچھڑا نہ تمہارا معبود ہے نہ ہو سکتا ہے، تمہارا رب تو وہ خدائے رحمان ہے جس کی رحمت و عنایت اس پوری کائنات پر چھائی ہوئی ہے تم لوگ اس خدائے رحمان سے منہ موڑ کر گوسالہ پرستی کی اس ذلت اور حماقت کا ارتکاب مت کرو۔ مگر اس بدبخت قوم پر حضرت ہارون علیہ السلام کے اس کلمہ نصیحت اور خیر کا کوئی اثر نہ ہوا۔ اور انہوں نے اس کے جواب میں صاف طور پر کہہ دیا کہ ہم اسی گوسالہ پرستی پر چپکے بیٹھے رہیں گے، اس سے کسی بھی طرح ہٹیں اور ٹلیں گے نہیں یہاں تک کہ موسیٰ ہمارے پاس واپس آ جائیں تب ہم دیکھ لیں گے، کہ ہم نے کیا کیا، اور کیا کرنا چاہیئے،

۹۴.    سو حضرت ہارون نے حضرت موسیٰ کے عتاب کے جواب میں اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے واضح فرمایا کہ میرا اس سلسلے میں کوئی قصور نہیں، میں نے اپنے بس کی حد تک اس معاملے میں کوئی کوتاہی نہیں برتی۔ لیکن ان لوگوں نے میری بات نہ مانی۔ انہوں نے مجھے دبا لیا۔ اور قریب تھا کہ یہ مجھے قتل کر دیں۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارہ اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے، اِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِیْ وَکَادُوْا یَقْتُلُوْنَنِیْ الایٰۃ (الاعراف۔۱۵٠) اب اگر میں ان سے بزور مقابلہ کرتا تو یقیناً قوم دو حصوں میں بٹ جاتی۔ اور ان کے درمیان خونریزی بپا ہو جاتی تو اس صورت میں آپ مجھ سے کہتے کہ تم نے قوم کے اندر تفریق ڈال دی۔ اس لئے اس موقع پر، اور ان لوگوں کے اس طرزِ عمل کے جواب میں میں نے خاموشی اختیار کی، تاکہ صورت حال مزید نہ بگڑ جائے، اور آپ واپس آکر خود ان سے نبٹیں، اور ان کے معاملے کو سنبھالیں۔ سو میں نے اپنے طور پر اور اپنے بس کی حد تک اصلاح احوال ہی کی کوشش کی۔

۹۵.    یعنی حضرت ہارون علیہ السلام کی وضاحت سے جب آنجناب کی پوزیشن واضح ہو گئی اور آپ کی بیگناہی ثابت ہو گئی، تو حضرت موسیٰ علیہ السلام سامری کی طرف متوجہ ہوئے کہ تیرا کیا معاملہ ہے اے سامری؟ تو نے آخر اتنے بڑے جرم کا ارتکاب آخر کیوں کیا؟

۹۶.    سو سامری نے اپنی اس شرارت اور شر انگیزی کے بارے میں کہا کہ میں نے وہ کچھ دیکھا جو ان لوگوں کو نظر نہیں آ سکا۔ روایات کے مطابق اس نے اس وقت جبکہ فرعون اور اس کا لشکر غرقاب ہوا حضرت جبرائیل امین کو دیکھا جبکہ وہ فرس الحیاۃ پر سوار تھے۔ اور ان کی سواری کا اثر یہ دیکھا کہ جہاں اس کا پاؤں پڑتا وہاں سبزہ اُگ آتا۔ تو اس سے اس ملعون نے یہ سمجھا کہ اس میں زندگی کے آثار ہیں تو اس نے وہاں سے مٹھی بھر مٹی اٹھا لی۔ اور وہی مٹی اس نے اپنے اس مصنوعی بچھڑے کے قالب میں ڈال دی، جس سے اس میں سے بچھڑے کی سی آواز نکلی۔ جس کی بناء پر بنی اسرائیل اس پر مفتون ہو گئے، اور اس کو انہوں نے خدا مان لیا۔ اور وہ اس کے آگے جھک کر ذلت و رسوائی کے ہولناک گڑھے میں جا گرے والعیاذُ باللہ العظیم۔ سو یہ اس مقام کی تفسیر سے متعلق مشہور قول ہے، (قرطبی اور معارف وغیرہ) جبکہ اس میں اور بھی احتمال ہیں۔ جن میں سے بعض بڑے وقیع بھی ہیں، ہم نے اپنی بڑی تفسیر میں انکا بقدر ضرورت و کفایت ذکر کر دیا ہے۔ والحمدللہ جَلَّ وَعَلَا

۹۷.    سو سامری کو اپنے کئے کی ایک نقد اور فوری سزا یہ ملی کہ وہ اپنے معاشرے میں اچھوت بن کر رہ گیا، وہ جب کسی کو دیکھتا تو وہ فوراً اس سے کہتا لَا مِساَسَ یعنی مجھے چھونا نہیں۔ روایات کے مطابق وہ جب کسی کو ہاتھ لگاتا یا کوئی اس کو ہاتھ لگاتا تو اس سے ان دونوں کو فوراً بخار ہو جاتا۔ اس لئے وہ دوسرے کسی کو دیکھتے ہی اس سے کہتا کہ خبردار مجھے ہاتھ نہیں لگانا، دوسری طرف اس کے اس مصنوعی بچھڑے کو جس کو اس نے معبود بنا دیا تھا اس کو حضرت موسیٰ نے سب کے سامنے اور اعلانیہ طور پر جلا کر راکھ بنا دیا۔ اور اس کی راکھ کو سمندر میں بکھیر کر ختم کر دیا۔ اور اس کے بعد حضرت موسیٰ نے معبود برحق حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی تعریف کے لئے فرمایا کہ معبود برحق تم سب لوگوں کا وہ اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، جس کا علم ہر چیز پر حاوی ہے اور یہ شان جب اس وحدہٗ لاشریک کے سواء اور کسی کی نہ ہے نہ ہو سکتی ہے، تو اس کا تقاضا ہے کہ معبود برحق بھی وہی وحدہٗ لاشریک ہو۔ اور ہر قسم کی عبادت و بندگی اسی کا اور صرف اسی وحدہٗ لاشریک کا حق ہو۔ اس میں اس کا نہ کوئی شریک ہے، نہ ہو سکتا ہے، سبحانہ و تعالیٰ،

۱۰۴.  یعنی جس دنیا کو آج یہ لوگ بہت بڑی چیز سمجھتے ہیں، اور وقوع قیامت کو بہت بعید اور دُور کی چیز جانتے ہیں، اس دن ان کو اپنی یہ دنیاوی زندگی ایک دن کے برابر معلوم ہو گی۔ تب ان کی حسرت کا کوئی کنارہ نہیں ہو گا، لیکن بے وقت کے اس افسوس کا ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا۔ کاش کہ ان کو اس حقیقت کا احساس وادراک آج اور اس دنیا میں ہو جاتا۔ اور یہ آخرت کی اس حقیقی اور اَبَدی زندگی کے لئے تیاری کر لیتے، اور ہمیشہ کے اس ہولناک خسارے سے بچ جاتے، وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید۔

۱۰۷.  یعنی جن پہاڑوں کو منکر لوگ آج اٹل اور ناقابل زوال سمجھتے ہیں اس روز یہ اس طرح ریزہ ریزہ ہو کر اڑ جائیں گے کہ ساری زمین ایک ہموار اور چٹیل میدان بن کر رہ جائے گی۔ نہ اس میں کوئی اونچ نظر آئے گا نہ نیچ، اور جب ان عظیم الشان اور فلک بوس پہاڑوں کا حال یہ ہو گا تو پھر تمہاری ان بلڈنگوں کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے جن پر تم لوگوں کو بڑا فخر و ناز ہے۔ اور جن کو تم ناقابل شکست و ریخت سمجھتے ہو؟

۱۰۷.  کہ اس داعی یعنی پکارنے والے سے یہاں پر مراد حضرت اسرافیل ہیں (معارف وغیرہ) سو اس روز اس کی آواز سنتے ہی سب لوگ ان کے پیچھے ایسے چل پڑیں گے کوئی کجی اور ٹیڑھ اور کسی طرح کی کوئی اینکڑی پینکڑی اس روز نام کو بھی نہ ہو گی۔ اور صرف یہی نہیں کہ اس کی آواز پر اس کے پیچھے چل پڑیں گے، بلکہ اس روز یہ سب اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے ہوئے اس کی آواز پر لبیک کہیں گے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے یَوْمَ یَدْعُوْکُمْ فَتَسْتَجِیْبُوْنَ بِحَمْدِہٖ وَتَظُنُّوْنَ اِنْ لَّبِثْتُمْ اِلاَّ قَلِیْلًا (بنی اسرائیل۔۵۲) سو آج تو منکر لوگ داعیئ حق کی آواز پر کان دھرنے اور اس کو سننے ماننے کو تیار نہیں ہو رہے لیکن اس روز یہ سب لوگ بغیر کسی حیل و حجت، اور قال و قیل کے اس کی آواز سنتے ہی اس کے پیچھے دوڑ پڑیں گے۔ اور حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی تسبیح و تحمید کے ترانے گاتے ہوئے اس کے پیچھے چل پڑیں گے۔ مگر اس دن کے اس ماننے کا ان کو کوئی فائدہ بہر حال نہیں ہو گا۔ سوائے ان کی آتش یاس و حسرت میں اضافے کے۔ کیونکہ وہ جہاں عمل اور کسب کا جہاں نہیں ہو گا۔ بلکہ وہ جزاء و سزا اور بدلے کا دن ہو گا۔ کاش کہ یہ بات لوگوں کو آج اس دنیا میں سمجھ جاتی۔ اور یہ اپنی اصلاح کر لیتے۔

۱۰۹.  سو اس سے واضح فرمایا دیا گیا کہ جزاء و سزا کے اس یوم عظیم میں شفاعت و سفارش وہی کر سکے گا جس کو اس کی اجازت ملے گی۔ اور وہ بھی اسی کے لئے سفارش کر سکے گا جس کے لئے انکو سفارش کی اجازت ملے گی۔ پس اس سے اس مشرکانہ تصور شفاعت کی جڑ نکل گئی جو لوگوں نے ازخود قائم کر رکھا ہے کہ فلاں فلاں ہستیاں اپنی شفاعت سے جس کو چاہیں گی معاف کروا دیں گی وہ اڑ کر بیٹھ جائیں گی اور منوا کر چھوڑیں گی۔ وہ ہماری سنتا نہیں اور ان کی رد نہیں کرتا وغیرہ وغیرہ۔ سو یہ سب کچھ باطل و بے بنیاد ہے والعیاذ باللہ العظیم۔

۱۱۰.  سو اس سے اوپر والے ارشاد کے سبب اور اس کی وجہ کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے کہ کس کا جرم و قصور کس درجے کا ہے۔ اور کس کا اور کونسا جرم و قصور قابل معافی اور لائق شفاعت و سفارش ہے، اور کس کا نہیں۔ اور یہ شان اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی کی نہ ہے، نہ ہو سکتی ہے اس لئے شفاعت و سفارش وہی کر سکے گا جس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اجازت ملے گی اور وہ شفاعت بھی صرف اسی کے لئے کر سکے گا جس کے لئے اس کو اجازت ملی ہو گی۔ والحمدللہ جل وعلا، بکل حالٍ من الاحوال،

۱۱۳.  سو اس سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ وعید و تحذیر اور تنبیہ و تذکیر کے ان مضامین کو بار بار اور طرح طرح سے ذکر و بیان کرنے سے اصل اور حقیقی مقصود یہی ہے کہ لوگوں کے اندر تقویٰ پرہیزگاری اور خدا خوفی کی صفت پیدا ہو۔ تاکہ اسطرح یہ کفر و شرک اور معصیت و نافرمانی سے بچ کر دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی، اور بہرہ مندی کی راہ کو اپنا سکیں، یا کم از کم اس سے غفلت و لاپرواہی کے وہ پردے چاک ہوں جو ان کے قلب و باطن پر پڑے ہوئے ہیں، اور اس کے نتیجے میں ان کے اندر فکر و عبرت کے اثرات پیدا ہوں۔ تاکہ اس طرح یہ صحیح راہ و روش کو اپنا کر تقویٰ و پرہیزگاری کی منزل مقصود کی طرف گامزن ہو سکیں، اور اس کے نتیجے میں یہ اس گوہر مقصود سے فیضیاب وسرفراز ہو سکیں۔ جو کہ شرفِ انسانیت کا تقاضا، اور اصل اور حقیقی مقصود ہے، وباللّٰہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلی مایُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الاحوال، وفی کُلِّ مَوْطِنٍ مِّنَ المواطنٍ فی الحیاۃ۔

۱۱۶.  سو اس سے یہ اہم اور بنیادی حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اپنے رب کے حکم کے آگے جھکنا، اور صدقِ دل سے اس کے حضور سرتسلیم خم کر دینا فرشتوں کی صفت و شان اور دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے جبکہ اس سے اعراض و رُوگردانی ابلیس لعین کا طریقہ اور سعادت دارین سے محرومی کا باعث ہے، والعیاذُ باللہ جل وعلا، اَللّٰہُمَّ فَخُذْنَا بِنَوَاصِیْنَا اِلیٰ مَا فِیْہِ حُبُّکَ وَرِضَاکَ، بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الاحوال،وَفِیْ کُلِّ مَوْطِنٍ مِّنَ المَواطِن فی الحیاۃ۔

۱۱۷.  سو اس سے اولاد آدم کو یہ عظیم الشان درس دیا گیا ہے کہ ابلیس آدم اور اولاد آدم کا کھلا دشمن ہے جو ان کو راہ حق سے بہکا بھٹکا کر ہلاکت و تباہی کی راہ پر ڈالنا چاہتا ہے۔ اور اس نے اس کا صاف اور صریح طور پر اعلان بھی کر رکھا ہے، اور وہ بھی حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کے سامنے، پس تم لوگوں پر اے اولاد آدم لازم ہے کہ تم اپنے اس سب سے بڑے اور ازلی دشمن کو پہچانو۔ اور اس کے دام ہمرنگ زمین اور اس کی تغریر و تسویل سے بچنے کی ہمیشہ فکر و کوشش کرو، اور ہمیشہ توبہ و استغفار کے ذریعے اپنے رب کی طرف رجوع رہو، وباللہ التوفیق

۱۲۰.  سو ابلیس نے ان کو یہ دھوکہ دیا کہ میں تم کو شَجَرَۃُ الُخُلْد یعنی ہمیشہ کی زندگی سے سرفراز کرنے والے درخت کی خبر دیتا ہوں، اور ایک ایسی عظیم الشان بادشاہی کا پتہ دیتا ہوں جس کو کبھی زوال نہیں ہو گا۔ سو تمہاری زندگی بھی ہمیشہ کی ہو گی۔ اور تمہاری بادشاہی بھی ہمیشہ کی اور لازوال ہو گی۔ اور ساتھ ہی اس نے قسمیں کھا کھا کر ان کو اس بات کا یقین دلایا کہ میں تمہارا پکا سچا خیر خواہ ہوں۔ جس سے وہ دونوں اس کے دھوکے میں آگئے۔ اور جس چیز سے ان کو روکا گیا تھا اس کا ارتکاب کر بیٹھے، کیونکہ یہ بات ان کے تصور سے بھی باہر تھی کہ کوئی خدا کی قسم کھا کر بھی جھوٹ بول سکتا ہے،

۱۲۱.  سو آدم و حوا دونوں ابلیس لعین کی اس تغریر و تلبیس کے نتیجے میں اس کے دھوکے میں آ گئے۔ اور انہوں نے اس شجرہ ممنوعہ سے کھا لیا۔ اور اس کے نتیجے میں وہ جنت کے حُلّہ تکریم سے محروم ہو گئے اور وہ وہاں کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے، جس سے ایک طرف تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی معصیت و نافرمانی باعث محرومی ہے۔ والعیاذُ باللہ اور دوسری طرف اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ شرم و حیا تقاضائے فطرت انسانی ہے اور اس کی خلاف ورزی تسویل شیطانی کا نتیجہ و اثر، والعیاذُ باللہ نیز یہ کہ حضرت آدم کی معصیت قصد و ارادہ سے نہیں تھی، بلکہ وہ نسیان اور دھوکہ دہی کی بناء پر ہوئی تھی، جیسا کہ اوپر ارشاد فرمایا گیا فَنَسِیَ وَلَمْ لَہ عَزْمًا۔ اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین،

۱۲۲.  سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ حضرت آدم کی معصیت و نافرمانی چونکہ قصد و ارادہ سے نہیں تھی بلکہ وہ شیطان کی تسویل و تغریر کی بناء پر تھی۔ اس لئے آپ نے تنبیہ ہوتے ہی فوراً سچے دل سے توبہ کرلی۔ تو اللہ پاک نے آپ کی توبہ کو قبول فرما لیا۔ اور اپنی خاص رحمت و عنایت کے ساتھ آپ پر رجوع فرما لیا۔ اور حضرت آدم اپنی اس توبہ و معذرت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے پہلے سے بھی زیادہ یہاں اور محبوب و مقبول ہو گئے۔ اور ابلیس لعین کی کوششوں پر پانی پھر گیا، سو توبہ و انابت اور رجوع الی اللہ ذریعہ نجات و سرفرازی ہے۔ وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید۔ وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید۔

۱۲۳.  یعنی حضرت آدم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت و عنایت سے تو نواز دیا۔ اور آپ کی توبہ کو قبول فرما لیا لیکن جنت سے اترنے کا حکم و ارشاد برقرار رہا۔ اس لئے ارشاد فرمایا گیا کہ تم دونوں جنت سے اتر جاؤ۔ اس حال میں کہ تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہونگے۔ کیونکہ دنیا میں تمہاری اغراض و اہواء کے درمیان اختلاف اور تصادم ہو گا۔ جس کے نتیجے میں تمہارے درمیان طرح طرح کے اختلافات اور دشمنیاں جنم لیں گی۔ چنانچہ ایسے ہی ہوا اور آج تک ہو رہا ہے، والعیاذُ باللہ جَلَّ وَعَلَا

 سو اس سے اَبَدی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا طریقہ و ضابطہ تعلیم و تلقین فرما دیا گیا۔ اور وہ ہے اتباع ہدی یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی ہدایت کی پیروی، سو راستے دو ہی ہیں ایک ہَویٰ یعنی خواہشات نفس کی پیروی کا راستہ، اور دوسرا ہُدیٰ یعنی ہدایت خداوندی کی اتباع و پیروی کا راستہ، ان دونوں میں سے پہلا راستہ ہلاکت و تباہی کا راستہ ہے۔ اور دوسرا نجات و سرفرازی کا۔ اور دنیا انہی دو راستوں میں بٹی رہی۔ پہلے بھی یہی تھا۔ اور آج بھی یہی ہے، دین حق کی روشنی سے محروم دنیا کا اوڑھنا بچھونا ہی اتباع ہَویٰ یعنی خواہشات نفس کی پیروی ہی ہے، اور یہ راستہ یقیناً ہلاکت و تباہی کا راستہ ہے، والعیاذُ باللہ، اس کے برعکس جو لوگ خواہشات نفس کو کچل کر اور دبا کر حق و ہدایت کی اتباع و پیروی کرتے ہیں ان کے لئے سعادت دارین سے سرفرازی کا مژدہ جانفزا ہے، وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید۔

۱۲۴.  سو اس سے ان لوگوں کے حال کو واضح فرما دیا گیا جو ہدایت خداوندی کی روشنی سے منہ موڑ کر اتباع ہَویٰ یعنی خواہشات نفس کی پیروی کی زندگی گزارتے ہیں۔ سو ایسے لوگوں کے لئے دنیاوی زندگی کی اس فرصت میں نقد سزا یہ ہو گی کہ ان کو تنگ گزران میں مبتلا کیا جائے گا۔ پس ایسے لوگ دنیاوی مال و متاع اور اسباب عیش و عشرت کی کثرت و فراوانی کے باوجود دل کی گھٹن اور باطن کی تنگی میں مبتلا ہونگے۔ چنانچہ ایسوں کا حال ہمیشہ یہی رہا، کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے، اور اسی کا ایک ثبوت اور مظہر یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے یہاں خود کشی کا ارتکاب سب سے زیادہ ہوتا ہے، والعیاذُ باللہ، یہ تو ان کا حال ہوا اس دنیاوی زندگی میں، جبکہ آخرت کے اس جہاں میں جو کہ اصل میں کشف حقائق اور ظہور نتائج کا جہان ہو گا، وہاں پر ایسے لوگوں کو اندھا کر کے اٹھایا جائے گا جو کہ دراصل اس بات کا اعلان و اظہار ہو گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی آیتوں کو دیکھنے سے اپنی آنکھوں کو بند کر لیا تھا۔ اور یہ جان بوجھ کر اندھے بن گئے تھے، اس لئے آج ان کو اندھا کر کے اٹھایا جا رہا ہے، جیسا کہ اس کے بعد والی دو آیتوں میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے سو نور حق و ہدایت سے محرومی ہر خیر سے محرومی اور انتہائی ہولناک ہلاکت و تباہی ہے، والعیاذ باللہ العظیم، اور اس کے برعکس نور حق و ہدایت کی دولت سے سرفرازی دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے، وباللہ التوفیق لمایُحِبُّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید،

۱۳۰.  سو اس ارشاد سے ایک طرف تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ صبر و استقامت کے حصول اور اس سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ اپنے رب کی حمد وثنا کے ساتھ اس کی تسبیح کرنا ہے۔ اسی سے انسان کے قلب و باطن کو تقویت و تسکین نصیب ہوتی ہے اور دوسری طرف اس ضمن میں خاص اوقات کے ذکر سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ ان خاص اوقات کی تسبیح و تحمید میں خاص تاثیر ہے، اور ان اوقات کے ذکر سے دراصل پنجگانہ نمازوں کی طرف اشارہ ہے۔ پس طلوع شمس سے قبل فجر کی نماز کی طرف اشارہ ہے۔ اور غروب شمس سے قبل سے نماز ظہر و عصر کی طرف، اور رات کی گھڑیوں سے مغرب و عشاء اور تہجد کی نماز کی طرف اور بعض اہل علم نے کہا کہ مِنْ اَنَاءِ اللَّیْلِ سے نماز عشاء مراد ہے۔ اور اطراف النہار سے مراد نماز ظہر، عصر اور نماز مغرب ہے۔ کیونکہ نماز ظہر اول دن کے طرف آخر میں واقع ہے، اور نماز مغرب کا دن کی طرف میں ہونا ظاہر ہے (معارف للکاندھلوی) پس اس سے واضح فرما دیا گیا کہ تم لوگ ان اوقات کی تسبیح و تحمید اور ان نمازوں کا اہتمام کرو، تاکہ اس کے اجر و ثواب کو دیکھ کر تم راضی اور خوش ہو جاؤ۔ سو قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر اس طرح کے اشارات سے پنجگانہ نمازوں کی طرف اشارے تو فرمائے گئے ہیں، لیکن ان کی تفصیلی صورت کا ذکر سنت نبوی ہی سے مل سکتا ہے۔ پس سنت نبوی کے بغیر قرآن حکیم کو سمجھنا ممکن نہیں۔

۱۳۱.  پس ہمیشہ اپنے رب کے رزق و روزی اور اس کی بخشش و عطاء ہی کو اصل مقصد اور اپنا مطمح نظر بنانا چاہیے کہ وہ بہتر بھی ہے، اور ہمیشہ باقی رہنے والا بھی۔ اس کے سوا دنیائے دُوں کی اور کسی بھی چیز کی یہ شان نہ ہے نہ ہو سکتی ہے پس اہل دنیا کے مختلف گروہوں کو دنیاوی مال و دولت اور زیب و زینت کا جو سامان قدرت نے دے رکھا ہے اس کی طرف تم کبھی آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھنا کہ حق کے مقابلے میں اس کی نہ کوئی حقیقت ہے نہ حیثیت، بلکہ یہ سب کچھ محض ابتلاء و آزمائش کا سامان ہے اور بس،

۱۳۲.  سو اس ارشاد سے ایک تو یہ بنیادی ہدایت فرمائی گئی ہے، کہ صرف اپنی ہی نہیں بلکہ اپنے اہل و عیال کی بھی فکر کی جائے، اور فکر بھی دنیا کی نہیں، بلکہ دین اور آخرت کی کی جائے، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارہ اہل ایمان کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا قُوْا اَنْفُسَکُمْ وَاَہْلِیْکُمْ نَارًا۔ یعنی بچاؤ تم لوگ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی ہولناک آگ سے اور دوسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی کہ نماز کی خود بھی پابندی کی جائے کہ یہ اپنی نجات اور صلاح و فلاح کا ذریعہ بھی ہے۔ اور اسی سے دوسروں کے لئے تعلیم و تلقین میں تاثیر بھی پیدا ہوتی ہے۔ اور اسی کے ساتھ اس کی اپنے اہل و عیال کو بھی تلقین کی جائے، اور تیسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی کہ بندوں کے ان اعمال و افعال، اور ان کی ان عبادات کا فائدہ خود انہی کے لئے ہے، خداوند قدوس کو ان کا کوئی فائدہ نہیں پہنچتا، وہ اپنے کسی فائدے کے لئے بندوں سے کوئی مطالبہ نہیں کرتا۔ وہ ایسے تمام تصورات سے پاک اور ان سے اعلیٰ و بالا ہے، سبحانہ و تعالیٰ اور پھر یہ بنیادی ہدایت فرمائی گئی کہ انجام کار بھلا تقویٰ و پرہیزگاری ہی کا ہے پس ہمیشہ اسی کو اپنا مطمح نظر بنائے رکھنا چاہئے۔ وباللہ التوفیق، وبہذا قد تَمَّ التفسیر المختصر لسورۃ طٰہٰ والحمد للہ جل وعلا۔