دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الفُرقان

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

 نام

 

سورہ کے آغاز میں فرمان (حق کو باطل سے ممتاز کرنے والی چیز) کے نزول سے آگاہ کیا گیا ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام الفرقان ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضامین  سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہو گی۔ چنانچہ پہلی ہی آیت میں یہ اعلان کیا گیا ہے کہ پیغمبر پر قرآن اس لیے نازل کیا گیا ہے تاکہ وہ اقوام عالم کو خبر دار کر دے۔ یہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے عالمگیر ہونے کا اعلان ہے۔ اور اغلب ہے کہ یہ اعلان مکہ کے آخری دور میں ہی کیا گیا ہو گا۔

 

مرکزی مضمون

 

قرآن اور پیغمبر کے سلسلے میں وارد کیے جانے والے شبہات کو دور کرنا اور ان کی صداقت کو اس طرح نمایاں کرنا ہے کہ اس کا یقین دلوں میں پیدا  ہو جائے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱ اور ۲ میں فرقان نازل کرنے والی ہستی کی معرفت بخشی گئی ہے۔ آیت ۳ تا ۳۴ میں شرک کی تردید کرتے ہوئے وحی اور رسالت پر وارد کیے جانے والے اعتراضات و شبہات کا جواب دیا گیا ہے اور یہ جواب انذار کے پیرایہ اعتراض کرنے والے ہوش میں آئیں۔

 

آیت ۳۵ تا ۴۴ میں ان قوموں کے انجام کی عبرت ناک مثالیں پیش کی گئی ہیں جن کو خبر دار کرنے کے لیے انبیاء علیہم السلام کو بھیجا گیا تھا لیکن انہوں نے ان کو جھٹلایا۔

 

آیت ۴۵ تا ۶۲ میں ان نشانیوں کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جن پر غور کرنے سے اللہ کی وحدانیت کا یقین پیدا ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی ان شبہات کا بھی ازالہ کیا ہے جو رسول کے تعلق سے پیش کیے جا رہے تھے۔

 

آیت ۶۳ تا ۷۶ میں ان لوگوں کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں جنہوں نے اپنے کو خدائے رحمٰن کی بندگی میں دے دیا ہے۔ اس سے یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ قرآن کی تعلیم کے زیر اثر انسان میں کیا خوبیاں پرورش پانے لگتی ہیں اور کس معیار کے لوگ تیار ہو جاتے ہیں۔

 

آیت ۷۷  اختتامی آیت ہے جس میں ان لوگوں سے آخری بات کہی گئی ہے جو قرآن اور پیغمبر کے خبردار کرنے کے باوجود اس کا کوئی اثر قبول نہیں کر رہے تھے اور ان کو جھٹلانے میں لگے ہوئے تھے۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بڑا ہی با برکت ہے ۱ * وہ جس نے اپنے بندہ۲ * پر فرقان نازل کیا ۳ * تاکہ وہ دنیا والوں کے لیے خبر دار کرنے والا ہو۴ *۔

 

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ ہستی جس کے قبضہ میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہی۵ * ہے۔ جس نے اپنے لیے اولاد نہیں بنائی اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی اس شریک ہے ۶ *اس نے ہر چیز پیدا کی پھر اس کی منصوبہ بندی کی۷ *۔

 

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لوگوں نے اسکو چھوڑ کر دوسرے معبود بنا لیے ہیں جو کچھ بھی پیدا نہیں کرتے بلکہ خود پیدا کیے گئے ہیں۔ جو اپنے لیے نہ کسی فائدہ کا اختیار رکھتے ہیں اور نہ نقصان کا جنہیں نہ موت پر اختیار ہے ، نہ زندگی پر اور نہ مردوں کو اٹھا کھڑا کرنے پر۔

 

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کافر کہتے ہیں یہ جھوٹ ہے جو اس شخص نے گڑھا ہے اور اس کام میں کچھ دوسرے لوگوں نے اس کی مدد کی ہے۔ بری ہی نا انصافی کی بات ہے اور جھوٹ ہے جس کے وہ مرتکب  ہوئے ہیں ۸ *۔

 

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہتے ہیں یہ گزرے ہوئے لوگوں کے قصے ہیں جو اس شخص نے لکھوائے ہیں اور وہ اس کے سامنے صبح و شام پڑھے جاتے ہیں ۹ *۔

 

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو اسے اتارا ہے اس نے جو آسمانوں اور زمین کے بھید جانتا ہے ۱۰ *۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے ۱۱ *۔

 

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہتے ہیں یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا پھرتا ہے ! اس کی طرف کوئی فرشتہ کیوں نہیں بھیجا گیا کہ اس کے ساتھ رہ کر خبردار کرتا۔ ؟

 

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا اس کے لیے کوئی خزانہ اتارا جاتا یا اس کے لیے کوئی باغ ہوتا جس سے وہ کھایا کرتا۔  اور ظالم کہتے ہیں تم تو ایک ایسے آدمی کے پیچھے چل رہے ہو جس پر جادو کا اثر ہوا ہے ۱۲ *۔

 

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو یہ تم پر کیسے کیسے فقرے چست کر رہے ہیں۔ یہ بھٹک گئے ہیں۔ کوئی راہ نہیں پا سکتے ۱۳ *۔

 

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بڑا با برکت ہے وہ جو اگر چاہے تو اے پیغمبر !  * تمہارے لیے اس سے کہیں بہتر چیزیں بنا دے۔ ایسے باغ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں اور تمہارے لیے محل بنا دے ۱۴ *۔

 

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے قیامت کی گھڑی کو جھٹلایا ہے ۱۵ * اور جو اس گھڑی کو جھٹلائے اس کے لیے ہم نے بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے ۱۶ *۔

 

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ جب دور سے ان کو دیکھ لے گی تو یہ اس کے جوش غضب اور اس کے دھاڑنے کی آوازوں کو سنیں گے ۱۷ *۔

 

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب یہ جکڑے ہوئے اس کی کسی تنگ جگہ میں ڈال دیے جائیں گے تو اپنی موت کو پکاریں۔

 

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج ایک موت کو نہیں بلکہ بہت سی موتوں کو پکارو۔

 

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے پوچھو یہ بہتر یا ہمیشگی کی جنت جس کا وعدہ متقیوں سے کیا گیا ہے ۱۸ *۔ وہ ان کے لیے جزا اور ٹھکانا ہو گی۱۹ *۔

 

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس میں ان کے لیے وہ سب کچھ ہو گا جو وہ چاہیں گے اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ وعدہ تمہارے رب کے ذمہ ایسا ہے جس کو پورا کرنے کی مانگ اس سے کی جا سکتی ہے ۲۰ *۔

 

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ دن جب کہ وہ لوگوں کو بھی اکٹھا کرے گا اور ان کے معبودوں کو بھی جن کی یہ اللہ کو چھوڑ کر پرستش کرتے ہیں پھر ان سے پوچھے گا کہ تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا تھا یا یہ خود سیدھے راستے سے بھٹک گئے تھے ؟۲۱ *۔

 

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ عرض کریں گے پاک ہے تو ! ہماری یہ مجال نہ تھی کہ تیرے سوا اور کار ساز بنائیں ۲۲ *۔ مگر تو نے ان کو اور ان کے آباء و اجداد کو آسودگی بخشی یہاں تک کہ یہ تیری یاد بھلا بیٹھے اور ہلاک ہو کر رہ گئے۲۳ *۔

 

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لو جو بات تم کہتے تھے اس میں انہوں نے تم کو جھوٹا ٹھہرایا۲۴ *۔ اب نہ تم عذاب کو ٹال سکتے ہو اور نہ کوئی مدد پاسکتے ہو۔ اور جو شخص بھی تم میں سے ظلم کرے گا۲۵ * ہم اسے بڑے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔

 

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے پیغمبر !  * تم سے پہلے ہم نے جو رسول بھی بھیجے وہ سب کھانا بھی کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے بھی تھے ۲۶ *۔ ہم نے تم لوگوں کو ایک دوسرے کی آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے۔ کیا تم صبر کرتے ہو؟۲۷ * اور تمہارا ربسب کچھ * دیکھ رہا ہے۔

 

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو لوگ ہم سے ملاقات کی امید نہیں رکھتے وہ کہتے ہیں کیوں نہ ہم پر  فرشتے اتارے گئے یا ایسا کیوں نہیں ہوا کہ ہم اپنے دیکھ لیتے ؟ انہوں نے اپنے نفس میں اپنے کو بہت بڑا سمجھا اور بڑی سرکدی دکھائی ۲۸ *۔

 

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس دن یہ فرشتوں کو دیکھ لیں گے اس دن مجرموں کے لیے کوئی خوش خبری نہ ہو گی اور پکار اٹھیں گے پناہ پناہ۲۹ *۔

 

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو عمل بھی انہوں نے کیا ہو گا اس کی طرف ہم بڑھیں گے اور اس کو غبار بنا کر اڑا دیں گے ۳۰ *۔

 

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن جنت والے اچھی جگہ اور بہترین آرام گاہ میں ہوں گے۔

 

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آسمان اس دن ایک بادل ۳۱ * کے ساتھ پھٹ جائے گا اور فرشتوں کے پرے کے پرے اتار دیئے جائیں گے۔

 

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس دن حقیقی بادشاہی۳۲ * رحمٰن ہی کی ہو گی اور وہ دن کافروں کے لیے بڑا سخت ہو گا۔

 

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ظالم اس روز اپنے ہاتھ کاٹ کھائے گا۳۳ * اور کہے گا کاش میں نے رسول کے ساتھ راہ اختیار کی ہوتی !

 

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ افسوس میری بد بختی پر! کاش میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا ! ۳۴ *۔

 

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے مجھے گمراہ کر کے نصیحت ۳۵ * سے دور رکھا جبکہ وہ میرے پاس آ چکی تھی۔ اور شیطان تو ہے ہی انسان کو بے یار و مدد گار چھوڑنے والا ۳۶ *۔

 

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور رسول کہے گا اے میرے رب ! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا تھا۳۷ *۔

 

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے مجرموں میں سے دشمن کھڑے کیے ۳۸ *۔ اور تمہارا رب تمہاری *رہنمائی ور مدد کے لیے کافی ہے ۳۹ *۔

 

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کافر کہتے ہیں اس پر پورا قرآن ایک ہی وقت میں کیوں نہ اتارا گیا؟۴۰ * ہم نے تدریج کے ساتھ نازل کیا اور  * ایسا اس لیے کیا تاکہ اس کے ذریعہ اے پیغمبر! * تمہارے دل کو مضبوط کریں ۴۱ * اور ہم نے اس کلام کو حسن ترتیب کے ساتھ پیش کیا ہے ۴۲ *۔

 

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ جو اعتراض بھی تمہارے سامنے لاتے ہیں ہم حق بات تمہارے سامنے پیش کر دیتے ہیں بہترین وضاحت کے ساتھ ۴۳ *۔

 

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اپنے منہ کے بل جہنم کی طرف گھسیٹے جائیں گے ان کا ٹھکانہ بہت برا اور ان کی راہ بالکل غلط ہے۔

 

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے موسیٰ کو کتاب عطا کی ۴۴ * اور اس کے بھائی ہارون کو اس کا وزیر بنایا۴۵ *۔

 

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے کہا تم دونوں جاؤ اس قوم کے پاس جس نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا ہے ۴۶ *۔ بالآخر ہم نے اس کو تباہ کر کے رکھ دیا ۴۷ *۔

 

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور قوم نوح کو ہم نے غرق کیا جب کہ اس نے رسولوں کو جھٹلایا۴۸ *۔ اور لوگوں کے لیے اس کو نشان عبرت بنا دیا۔ اور ظالموں کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

 

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور عاد۴۹ *، ثمود۵۰ * ، اصحاب الرس۵۱ * اور ان کے درمیان بہت سی قوموں کو ہم نے ہلاک کر دیا۵۲ *۔

 

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے ہر ایک کے سامنے مثالیں پیش کی تھیں ۵۳ * اور ہر ایک کو تباہ کر کے رکھ دیا۔

 

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس بستی پر سے تو ان کا گزر ہوا ہے جس پر بد ترین بارش برسائی گئی تھی۵۴ *۔ کیا یہ اسے دیکھتے نہیں ہیں ؟ مگر یہ لوگ مرنے کے بعد اٹھائے جانے کی توقع ہی نہیں رکھتے ۵۵ *۔

 

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب یہ تمہیں دیکھتے ہیں تو تمہارا مذاق اڑاتے ہیں۔ کیا یہی وہ شخص ہے جسے اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے۔

 

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے ہمیں اپنے معبودوں سے برگشتہ کر ہی دیا ہوتا اگر ہم ان پر جمے نہ رہتے۔ عنقریب جب یہ عذاب کو دیکھ لیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ کون ہے راہ سے بالکل بھٹکا ہوا۵۶ *۔

 

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم نے اس شخص کو دیکھا  جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا ہے ؟ ۵۷ *کیا تم اس کو راہ راست پر لانے  * کے ذمہ دار بن سکتے ہو؟۵۸ *۔

 

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں؟ یہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ راہ سے بھٹکے ہوئے۵۹ *۔

 

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم دیکھتے نہیں تمہارا رب کس طرح سایہ کو پھیلا دیتا ہے ؟ اگر وہ چاہتا تو اسے ساکن بنا دیتا۔ پھر ہم نے سورج کو اس پر دلیل بنایا ۶۰ *۔

 

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم اس کو آہستہ آہستہ اپنی طرف سمیٹ لیتے ہیں ۶۱ *۔

 

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے رات کو لباس۶۲ *، نیند ۶۳ * کو سکون اور دن کو اٹھ کھڑے ہونے کا وقت بنایا۶۴ *۔

 

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہے جو اپنی رحمت۶۵ * کے آگے آگے ہواؤں کو خوش خبری بنا کر بھیجتا ہے۔ اور ہم آسمان سے نہایت پاکیزہ پانی اتارتے ہیں ۶۶ *۔

 

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ اس کے ذریعہ زمین کے  * مردہ خطہ کو زندہ کریں اور اپنی مخلوقات میں سے بہ کثرت چوپایوں  اور انسانوں کو سیراب کریں۔

 

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے اس کو ان کے درمیان طرح طرح سے بیان کر دیا ہے ۶۷ *۔ تاکہ وہ یاد دہانی حاصل کریں مگر اکثر لوگوں نے قبول نہیں کیا۔ اگر قبول کی تو ناشکری۔

 

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ہم چاہتے  تو ہر بستی میں ایک خبردار کرنے والا بھیج دیتے۔ ۶۸ *۔

 

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ان کافروں کی بات تم نہ مانو اور اس کے ذریعہ ۶۹ * ان کے ساتھ زبردست جہاد کرو ۷۰ *۔

 

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہے جس نے دو دریاؤں کو ملایا۔ ایک شیریں خوش گوار اور دوسرا کھاری تلخ۔ اور دونوں کے درمیان اس نے ایک پردہ حائل کر دیا اور ایک رکاوٹ کھڑی کر دی۷۱ *۔

 

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہے جس نے پانی ۷۲ * سے ایک بدر پیدا کیا پھر اس کے لیے نسب اور سسرال کے رشتے بنائے ۷۳ *۔ تمہارا رب بڑی قدرت والا ہے ۷۴ *۔

 

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ اللہ کو چھوڑ کر ان کی پرستش کرتے ہیں جو نہ ان کو نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان۷۵ *۔

 

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اے پیغمبر  * ہم نے تم کو بس خوش خبری دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے ۷۷ *۔

 

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہ میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں طلب کر رہا ہوں مگر یہ کہ جو چاہے اپنے رب  کی راہ اختیار کر لے ۷۸ *۔

 

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس پر بھروسہ رکھو جو زندہ ہے اور کبھی مرنے والا نہیں ۷۹ *۔ اور اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو۸۰ *۔ اپنے بندوں کے گناہوں سے با خبر رہنے کے لیے وہ کافی ہے ۸۱ *۔

 

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جس نے آسمانوں اور زمین کو اور ان تمام چیزوں کو جو ان کے درمیان ہیں چھ دنوں میں پیدا کیا ۸۲ *۔ پھر عرش پر بلند ہوا۸۳ *۔ وہ رحمٰن ہے۔ اس کی شان اس * باخبر سے پوچھو۸۴ *۔

 

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں سے جب کہا جاتا ہے کہ رحمٰن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں رحمٰن کیا ہے ؟ ۸۵ * کیا ہم اس کو سجدہ کریں جس کا تم ہمیں حکم دو۔ اس سے ان کی نفرت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے ۸۶ *۔

 

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بڑا با برکت ہے وہ جس نے آسمان میں ۸۷ * برج بنائے اور اس میں ایک چراغ۸۸ * اور روشن چاند بنایا۔

 

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا ہر اس شخص کے لیے جو یاد دہانی حاصل کرنا چاہے یا شکر گزار بننا چاہے ۸۹ *۔

 

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور رحمٰن کے بندے ۹ * وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں  ۹۱ * اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام۹۲ *۔

 

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اپنے رب کے آگے سجدہ اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں ۹۳ *۔

 

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! جہنم کے عذاب کو ہم سے دور رکھ۔ اس کا عذاب بالکل چمٹ کر رہنے والا ہے ۹۴ *۔

 

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ بہت برا ٹھکانہ اور بہت بری رہنے کی جگہ ہے ۹۵ *۔

 

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف کرتے ہیں اور نہ تنگی بلکہ ان کا خرچ دونوں کے درمیان اعتدال پر رہتا ہے ۹۶ *۔

 

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے ۹۷ *۔ کسی جان کو جسے اللہ نے حرام ٹھہرایا ہے قتل نہیں کرتے مگر حق کی بنا پر ۹۸ *۔ اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ۹۹ *۔ جو کوئی ان باتوں کا مرتکب ہو گا اسے گناہ کا نتیجہ بھگتنا ہو گا۔

 

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن اس کے عذاب  کو دوہرا کر دیا جائے گا ۱۰۰ *۔ اور وہ اس میں ذلت کے ساتھ پڑا رہے گا۔

 

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر جو توبہ کرے ، ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو اللہ ایسے لوگوں  کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا۱۰۱ *۔ اللہ بڑا بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے۔ ۱۰۲ *۔

 

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو توبہ کر کے نیک عمل کرتا ہے وہ در حقیقت اللہ کی طرف پلٹتا ہے ۱۰۳ *۔

 

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو باطل کے گواہ نہیں بنتے ۱۰۴ * اور اگر کسی لغو چیز سے ان کا گزر ہوتا ہے تو پر وقار انداز میں گزر جاتے ہیں ۱۰۵ *۔

 

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنہیں ان کے رب کی آیتوں کے ذریعہ نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ان پر بہرے اور اندھے ہو کر نہیں گرتے ۱۰۶ *۔

 

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہماری بیویوں اور ہماری اولاد کی طرف سے ہمیں آنکھوں کی ٹھنڈک عطا ء فرما۱۰۷ *۔ اور اہم کو متقیوں کا امام بنا۱۰۸ *۔

 

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ لوگ ہیں جن کو ان کے صبر کے بدلہ میں بالا خانے عطاء کیے جائیں گے ۱۰۹ *۔ اور وہاں ان کا خیر مقدم دعا اور سلام سے ہو گا۔

 

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے ، بہت اچھا ٹھکانہ اور بہت اچھی رہنے کی جگہ ہے وہ!

 

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہو میرے رب کو تمہاری کیا پروا اگر تم اسے نہ پکارو۱۱۰ *۔ تم نے جھٹلا دیا ہے لہٰذا عذاب تمہیں لازماً پکڑ لے گا۔

تفسیر

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ کے با برکت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ خیر کا سرچشمہ ہے اور اس سے جو فیض اور برکتیں مخلوق کو پہنچ رہی ہیں وہ بے انتہا ہیں۔ اس کتاب کا نزول اس کی طرف سے ہوا ہے اس لیے وہ خیر ہی خیر ہے اور برکتوں سے مالا مال کر دیتے والی ہے۔

 

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اپنے خاص بندہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) پر۔

 

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرقان کے لفظی معنی ہیں فرق اور امتیاز کرنے والی چیز۔ اور قرآن کے فرقان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب حق کو باطل سے ممتاز کرتی اور گمراہیوں کے مقابلہ میں ہدایت کو نمایاں کرتی ہے۔ یہ وہ کسوٹی ہے جس پر پرکھ کر کھرے اور کھوٹے میں تمیز کی جا سکتی ہے اور جملہ  معاملات زندگی کیں یہ کتاب معیار فیصلہ ہے۔

 

دنیا میں مذاہب کی کثرت کو دیکھ کر  اور ان کے متضاد دعووں کے پیش نظر آدمی بڑی الجھن میں پڑ جاتا ہے اس کی اس الجھن کو دور کرنے ہی کے لیے فرقان کا نزول ہوا ہے۔ اس کسوٹی Criterion پر ہر مذہب کے دعوے کو پرکھا جا سکتا ہے اور یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ یہ زر خالص ہے بھی یا نہیں۔ لوگ اس کسوٹی سے تو واقف ہیں جو سونے کو پرکھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے لیکن افسوس کی اکثر لوگ اس خدائی کسوٹی سے نا آشنا ہیں جسے فرقان کہا گیا ہے اس لیے وہ مذاہب کے بارے میں غلط رائے قائم کیے ہوئے ہیں اور مختلف الجھنوں کا شکار ہیں۔

 

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ آیت صراحت کرتی ہے کہ آپ صرف عربوں کو خبردار کرنے کے لیے نہیں بلکہ دنیا والوں کو خبر دار کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے اور اس مقصد کے لیے آپ پر  قرآن نازل کیا گیا۔ بالفاظ دیگر آپ کی رسالت اقوام عالم کے لیے ہے اور ان کو خبردار کرنے کا کام اس کتاب کے ذریعہ قیامت تک انجام پاتا رہے گا۔

 

اس ارشاد سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مشن خدا سے غافل انسانیت کو آخرت کے انجام بد سے خبر دار کرنا تھا اور اس سے یہ اصولی رہنمائی ملتی ہے کہ اسلام کی طرف دعوت دینے والوں کو اسی رنگ میں دعوت پیش کرنا چاہیے موجودہ زمانہ میں اسلام کی دعوت کے لیے کچھ نئے طریقے رائج ہو گئے ہیں۔ چنانچہ دعوت کو اس طریقے سے پیش کیا جاتا ہے کہ اجتماعی زندگی کے مسائل کے حل کا پہلو تو پوری طرح ابھر کر سامنے آ جاتا ہے لیکن قیامت کے دن کی ہولناکی اور اخروی انجام کا پہلو اس طرح سامنے نہیں آتا کہ لوگ خبر دار ہو جائیں اور ان کو آخرت کی فکر لاحق ہو۔

 

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کتاب کا نازل کرنے والا کائنات کا فرمانروا ہے اس لیے اس کی اہمیت اور عظمت کو خوب سمجھ لو۔

 

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ بنی اسرائیل نوٹ ۱۴۹۔

 

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے چیزوں کو پیدا کر کے یوں ہی چھوڑ نہیں دیا ہے کہ جو کچھ ان سے ظہور میں آتا ہے اتفاقات کا نتیجہ ہے بلکہ اس نے ایک ایک چیز کے بارے میں طے کر رکھا ہے کہ اسے کیا کام انجام دینا ہے ، کس طرح انجام دینا ہے ، اس کی مدت کار کر دگی اور غایت کیا ہو گی۔ مثال کے طور پر سورج کو کس درجہ حرارت پر رہنا ہے ، اپنی شعاعیں کہاں کہاں ڈالنا ہے ، کیسی حرارت پیدا کرنا ہے ، کس رفتار سے گردش کرنا ہے اور یہ کہ کب اس کی بساط لپٹ کر رکھ دی جائے گی اس طرح ایک ایک چیز کی منصوبہ بندی اور پلاننگ میں گئی ہے اور پوری کائنات اپنے خالق کے بنائے ہوئے منصوبہ کو پورا کرنے میں سرگرم عمل ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں اس منصوبہ کو پورا کرنے میں سر گرم عمل ہے۔ قرآن کی اصطلاح میں اس منصوبہ بندی کا نام " تقدیر" ہے جس کے لفظی معنی اندازہ مقرر کرنے کے ہیں۔

 

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی انکار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ قرآن کی نسبت اللہ کی طرف بالکل جھوٹ ہے۔ یہ اللہ کا کلام نہیں ہے بلکہ اس شخص کا اپنا کلام ہے جو نبوت کا دعویدار ہے اور اس کو گڑھنے میں کچھ لوگوں نے اس کی مدد کی ہے۔ اہل کتاب میں سے جو لوگ ایمان لائے تھے ان میں سے بعض کی طرف ان کا اشارہ رہا ہو گا۔ مگر چونکہ یہ الزام بالکل بے بنیاد تھا اور اس کا بے حقیقت ہونا بھی لوگوں پر واضح ہی تھا اس لیے اس کی تردید میں یہ کہنے پر اکتفاء کیا گیا کہ یہ بڑی ہی نا انصافی کی بات ہے اور جھوٹ  ہے جس کے یہ لوگ مرتکب ہوئے ہیں بعد میں تاریخ نے بھی ثابت کر دکھایا کہ یہ الزام جھوٹا تھا اور قرآن اپنے دعوے میں بالکل سچا ہے کیونکہ اگر قرآن کا مصنف اللہ کے سوا کوئی اور ہوتا تو یہ بات چھپی نہیں رہ سکتی تھی۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم تو اس کے مدعی ہیں نہیں اور اگر دیگر اشخاص نے اس کو تصنیف کرنے میں ہاتھ بٹایا ہوتا تو وہ اسے اپنا کارنامہ ضرور بتلاتے مگر کوئی شخص بھی یہ دعویٰ نہیں کرسکا کہ قرآن میری تصنیف ہے یا اس کو مرتب کرنے میں میں بھی شریک رہا ہوں۔

 

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ دوسرا الزام تھا جو کچھ دوسرے لوگ لگا رہے تھے۔ قرآن میں ماضی کی اقوام کے واقعات بیان  ہوئے ہیں ان کو وہ پارینہ قصے اور افسانے قرار دے کر نبی صلی اللہ  علیہ و سلم پر یہ الزام عائد کرتے تھے کہ آپ نے یہ قصے (اہل کتاب میں سے (کسی سے لکھوا لیے ہیں اور اب آپ کے ساتھی آپ کو صبح و شام جو تلاوت کی جاتی تھی اس کی توجیہ وہ اس طرح کرتے تھے۔

 

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن کے مضامین خود شہادت دیتے ہیں کہ یہ اسی ہستی کا کلام ہے جس پر کائنات کے تمام سر بستہ راز منکشف ہیں کیونکہ یہ کتاب کائنات کے اسرار و رموز سے پردہ اٹھاتی ہے۔

 

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ توبہ کی ترغیب ہے کہ اس کی طرف رجوع کرو اور ایمان لے  آپ تو جو گناہ تم سے سرزد ہو گئے ہیں ان کو وہ معاف کر دے گا اور تم پر رحم فرمائے گا۔

 

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کا خیال تھا کہ جادو کے اثر سے آدمی کی عقل مختل ہو جاتی ہے یعنی اس میں فتور آ جاتا ہے۔ ان کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو سحر زدہ کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آپ وحی کے نزول اور آخرت وغیرہ کی جو باتیں کر رہے ہیں وہ عقل کا فتور ہے اور یہ فتور کسی کے جادو کر دینے کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے۔ جہاں تک اس الزام کا تعلق ہے وہ تو سراسر جھوٹ تھا رہا یہ سوال کے کیا جادو کے اثر سے کسی کی عقل میں فتور آ جاتا ہے تو یہ خیال بھی غلط ہے۔ قرآن سے اس خیال کی ہر گز تائید نہیں ہوتی۔ جادو کا اثر وقتی طور پر نظر کے دھوکہ کی حد تک رہتا ہے جیسا کہ آیت سَحَرُو اَعْیُنَالنّاسِ (انہوں نے جادو سے لوگوں کی نظریں مار دیں۔ (سورہ اعراف۔ ۱۱۶ )سے واضح ہے۔ مگر بہت سے لوگ جادو کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے وہ توہم پرستی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

 

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب آدمی رسول کے بارے میں واقعیت پسندی کا ثبوت نہیں دیا اور اس کے دعواۓ  رسالت کی غلط توجیہ کرنے لگتا ہے تو وہ غلط راہ پر جا پڑتا ہے اور پھر اس سے نکلنے نہیں پاتا۔

 

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کے خزانہ میں کسی چیز کی کمی نہیں وہ اگر چاہے تو اپنے پیغمبر کے لیے ایک نہیں بہت سے باغ اور ایک نہیں کئی محل بنا دے مگر چونکہ یہ دنیا انعام پانے کی جگہ نہیں ہے بلکہ امتحان گاہ ہے اس لیے وہ رسول کو بھی آزمائشی زندگی سے گزارتا ہے۔

 

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ ان کے خالی خولی اعتراضات ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ قیامت کو ماننا نہیں چاہتے کیونکہ اس کو ماننے کی صورت میں ذمہ دارانہ زندگی گزارنا پڑتی ہے اور رسالت کو تسلیم کرنے سے قیامت کو تسلیم کرنا لازم آتا ہے اس لیے وہ اپنی عافیت اسی میں سمجھتے ہیں کہ رسالت کو تسلیم نہ کیا جائے۔

 

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہوا کہ قیامت کا انکار کرنے والا کافر اور جہنم کا مستحق ہے خواہ وہ خدا کو ماننے کا دعویدار ہی کیوں نہ ہو۔ کیونکہ قیامت کا انکار خدا کی صفت عدل کا انکار ہے۔ اس کے بعد اس کو ماننے کا دعویٰ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔

 

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوزخ کے دور سے کافروں کو دیکھنے کی شکل کیا ہو گی وہ قیامت کے دن ہی معلوم ہو سکے گی البتہ جب وہ دیکھ لے گی تو اس کے غضب کا یہ عالم ہو گا کہ کافروں کو دور سے ہی اس کی دھاڑیں سنائی دیں گی۔

 

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ واضح ہوا کہ جنت کا وعدہ متقیوں سے کیا گیا ہے یعنی ان لوگوں سے جو اللہ سے ڈریں اور اس کی نا فرمانی اور گناہ سے بچتے ہوئے زندگی بسر کریں۔ نام نہاد مسلمانوں سے جنت کا وعدہ نہیں  کیا گیا ہے اس لیے کوئی شخص اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ چونکہ ہم فلاں پیر کے عقیدت مند اور فلاں  بزرگ کے مرید ہیں اس لیے جنت ہمارے لیے مقدر ہے اور نہ کوئی شخص اس خام خیالی میں مبتلا رہے کہ چونکہ ہم بزرگوں کے عقیدت مند ہیں اور ان کے نام کی نیاز کرتے ہیں اس لیے ہم جنت کے حقدار ہیں۔

 

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جنت ان کی آخری منزل قرار پائے گی۔

 

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ ایسا وعدہ ہے جو اللہ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے اور بندو۳ں کو یہ حق دے دیا ہے کہ وہ اس سے طلب کریں۔

 

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں معبودوں سے مراد بت نہیں کیونکہ سوال بتوں سے نہیں کیا جاتا بلکہ انبیاء اور بزرگ ہیں جن کے ساتھ ان کے عقیدت مند لوگ وہ معاملہ کرتے رہے ہیں جو خدا کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔ اس کی مثال حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں جن کو نصاریٰ نے خدا بنا لیا ہے۔ اس سلسلہ میں حضرت عیسیٰ جو تردیدی بیان خدا کی عدالت میں دیں گے وہ سورہ مائدہ آیت ۱۱۶ میں بیان ہوا ہے۔ مشرکین مکہ نے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بت خانہ کعبہ میں رکھا تھا۔

 

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہم نے تو اپنا کار ساز اللہ ہی کو بنایا تھا پھر یہ کیونکر ہو سکتا تھا کہ لوگوں سے یہ کہتے کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر ہمیں کار ساز بنائیں اور ہمیں حاجت روا سمجھ کر ہماری پرستش کریں۔

 

یہ آیت مشرکین ہی کی نہیں ان مسلمانوں کی بھی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے جو بزرگوں کی عقیدت میں شرک کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کی منتیں ماننے سے اور ان کی قبروں پر چڑھاوے چڑھانے سے وہ خوش ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ بزرگ قیامت کے دن اپنے عقیدت مندوں کی مشرکانہ حرکتوں سے بیزاری کا اظہار کریں گے اور یہ ان کے لیے ان کے بزرگوں کی طرف سے زبردست طمانچہ ہو گا۔

 

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کو دنیا میں جو مال متاع ملا اس میں ایسے مست ہو گئے کہ وہ  خدا کو بھلا بیٹھے اور  خدا کو بھلانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شرک میں مبتلا ہو گئے اور تباہی کے گڑھے میں جا گرے۔

 

واضح ہوا کہ شرک میں آدمی اس وقت مبتلا ہوتا ہے جب کہ وہ خدا کو بھلا دیتا ہے۔ خدا کو حقیقی معنوں میں یاد رکھنے والا شرک میں مبتلا نہیں ہو سکتا۔

 

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی تمہارا دعویٰ ان شخصیتوں کے بارے میں تھا اور جو غلو آمیز تصور تم نے قائم کیا تھا وہ غلط ثابت ہوا اور ظاہر ہو گیا کہ وہ کار سازی کا کوئی اختیار نہیں رکھتے تھے اور نہ انہوں نے اس کا کوئی دعویٰ کیا تھا بلکہ وہ خود اپنا کار ساز اللہ ہی کو مانتے تھے۔

 

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔

 

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ان کے اس اعتراض کا جواب ہے جو آیت ۷ میں نقل ہوا ہے۔

 

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رسول کا کھانا پینا اور بازاروں میں چلنا پھرنا دونوں گروہوں کے لیے آزمائش کا سبب بن گیا ہے۔ کافروں کو تو یہ موقع مل گیا ہے کہ وہ رسول پر فقرے کسیں اور اہل ایمان کے لیے یہ آزمائش کہ وہ ان ناگوار باتوں کو سن کر صبر کرتے ہیں یا نہیں۔

 

اس سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ کافروں کی طرف سے رسول کی شخصیت پر جو اعتراضات ہوں ان پر اہل ایمان کو صبر کرنا چاہیے۔ مگر اس زمانہ میں مسلمانوں کا حال بڑا عجیب ہے کسی گوشہ سے رسول پر کوئی تنقید ہوتی ہے تو وہ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں اور اس کو احتجاج کا موضوع بنا لیتے ہیں۔ اور کافر یہی چاہتے ہیں کہ مسلمان مشتعل ہو کر ٹکراؤ کے لیے آمادہ ہو جائیں۔ اگر وہ اشتعال قبول کرنے کے بجائے مثبت طور پر رسول کے مقام کو واضح کریں تو کتنے ہی لوگ رسول کے قد شناس بن جائیں۔

 

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رسالت کے منکرین بجائے اس کے کہ اس خدائی حکمت کو سمجھنے کی کوشش کرتے جس کی بنا پر انسانوں کی ہدایت کے لیے رسول بھیجا جاتا ہے الٹے سیدھے اعتراضات کرتے ان کا کہنا تھا کہ اگر رسول پر فرشتے اتارے جاتے ہیں تو ہم پر کیوں نہیں اتارے جاتے اور اسی لَے میں وہ یہاں تک کہہ گزرے کہ ایسا کیوں نہیں ہوا کہ غیب کے پردے اٹھا دیے جاتے اور ہم اپنے رب کو کھلی آنکھوں سے دیکھ لیتے۔ یعنی وہ چاہتے تھے کہ حقیقت کو بصیرت (دل (کی آنکھوں سے نہیں بلکہ بصارت کی (ظاہری (آنکھوں سے دیکھیں۔ حالانکہ انسان کا سارا امتحان اس بات میں ہے کہ وہ حقیقت کو بصیرت کی آنکھوں سے دیکھتا ہے یا نہیں۔ مگر جو لوگ اس گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ان کا مقام بندہ ہونے کا نہیں بلکہ آزاد اور خود مختار انسان ہونے کا ہے وہ خدا اور اس کے رسول کے بارے میں اوٹ پٹانگ باتیں کرنے لگتے ہیں اور اپنی سرکشی میں بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں۔

 

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آج یہ فرشتوں کو دیکھنے کا مطالبہ کر رہے ہیں مگر وہ دن دور نہیں جب فرشتے ان کے سامنے آ نمودار ہوں گے اور جب وہ ان کو دیکھ لیں گے تو سمجھیں گے کہ ہماری شامت آ گئی اس لیے پناہ پناہ پکار اٹھیں گے۔

 

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ لوگ جب آخرت ہی کا انکار کرتے رہے ہیں تو ان کا کوئی عمل خواہ وہ مذہبی نوعیت ہو یا دنیوی کارنامہ کی حیثیت رکھتا ہو قیامت کے دن انکی کوئی قدر نہ ہو گی۔ ان کے سارے اعمال راکھ کا ڈھیر ثابت ہوں گے ، اور اللہ تعالیٰ انکو غبار کی طرح اڑا دے گا۔

 

آج آخرت بیزار لوگ اپنے دنیوی اور قومی کارناموں پر بڑا فخر کرتے ہیں اور ان کارناموں ہی کی بدولت وہ اپنی قوم کے ہیرو بن جاتے ہیں لیکن قیامت کے دن انہیں پتہ چلے گا کہ ان کے یہ کارنامے اتنے ہی بے وزن ہیں جتنا کہ غبار۔

 

مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ ابراہیم نوٹ ۲۶ اور سورہ کہف نوٹ ۱۳۰۔

 

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لفظ "غمام" استعمال ہوا ہے جس کے معنی سفید بادل کے ہیں۔ قیامت کے دن آسمان پھٹے گا اور اس میں سے بادل نمودار ہو گا۔ ہو سکتا ہے یہ بادل (غمام (وہی ہو جس کا ذکر سورہ بقرہ میں اس طرح ہوا ہے۔

 

ھَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّا اَنْ یا تِیَھُمْ اللہُ فِی ظُلَلٍ مِنَ الْغَمَامِ وَالْمَلٰئِکۃُ و قُضِیَ الْاَمْرُ (آیت ۲۱۱ (۔ " کیا یہ لوگ اس بات کے منتظر ہیں کہ اللہ فرشتوں کے لیے ہوئے ابر کے سائبانوں میں ان کے سامنے نمودار ہو اور فیصلہ ہی کر ڈالا جائے۔

 

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قیامت کے دن ساری مجازی بادشاہتیں ختم ہو چکی ہوں گی اور لوگ دیکھ لیں گے کہ اقتدار اللہ ہی کے لیے ہے جو فرمانروائے حق ہے۔

 

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہاتھ کاٹنا کنایہ ہے حسرت و ندامت کے لیے اور قیامت کے دن جو جنونی کیفیت کافروں پر طاری ہوتی اس کی وجہ سے وہ اپنے ہاتھ چبا ڈالے تو بھی عجب نہیں۔

 

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایک اور آگاہی ہے کہ آدمی کو سوچ سمجھ کر دوست کا انتخاب کرنا چاہیے کیونکہ آدمی اپنے دوست کی باتوں کا آسانی سے قبول کر لیتا ہے اور اس کی راہ پر چل پڑتا ہے۔ اگر دوست گمراہ ہو تو اس کا ساتھی بھی گمراہ ہو جاتا ہے۔ دنیا میں کتنے لوگ اس لیے کافر اور فاسق و فاجر بنے ہوئے ہیں کہ وہ بڑے دوستوں کے زیر اثر ہیں۔ ان کو اپنی اس غلطی کا احساس قیامت کے دن ہو گا اس وقت وہ اپنی محرومی پر پچھتائیں گے۔

 

اس کے بر عکس اگر آدمی اپنی دوستی کے یے اللہ کے مومن اور مخلص بندہ کا انتخاب کرتا ہے جو اللہ سے ڈرتے ہوئے پاکیزہ زندگی گزارتا ہے تو اس کی صحبت کا فیض اس شخص کو بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ عطار کے پاس بیٹھنے والا عطر کی خوشبو سے محروم نہیں ہو سکتا۔

 

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ نصیحت ہے جو اللہ نے بندوں کی  اصلاح کے لیے اتاری ہے۔

 

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی شیطان دنیا میں تو انسان کی غلط رہنمائی کر کے سنہرے خواب دکھاتا رہا  لیکن جب نتائج کے ظہور کا وقت آیا تو ساتھ چھوڑ کر بھاگ گیا۔ شیطان کا غدار ہونا قیامت کے دن بالکل کھل کر سامنے آ جائے گا۔

 

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اللہ کی عدالت میں رسول کی فریاد ہو گی کہ میں نے اپنی قوم کو اس قرآن کے ذریعے صحیح راہ دکھانے کی کوشش کی تھی لیکن یہ لوگ قرآن کو چھوڑ کر اپنی من مانی کرتے رہے۔

 

عرب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے اولین مخاطب تھے جن پر حجت پوری طرح قائم ہو گئی تھی اس لیے عدالت خداوندی میں سب سے پہلے ان ہی پر گرفت ہو گی۔ رہیں دوسری قومیں تو جن جن تک رسول یا اس کے پیروؤں کے ذریعہ قرآن کا پیغام پنچا اور انہوں نے اسے قبول نہیں کیا وہ بھی گرفت سے بچ نہیں سکیں گی کیونکہ جیسا کہ آیت ۱ میں بیان ہوا رسول دنیا کی تمام قوموں کو خبردار کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے اور قرآن کا نزول اسی مقصد سے ہوا ہے۔

 

آج مسلمانوں کی بڑی تعداد کا حال یہ ہے کہ وہ قرآن کو ماننے کا تو دعویٰ کرتی ہے مگر رسمی حد تک یہ لوگ نہ اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ اپنے عقائد و اعمال میں اس کو رہنما بناتے ہیں ہر لحاظ سے انہوں نے قرآن کو چھوڑ رکھ ہے۔ اور وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ آخرت کی عدالت میں ان پر مقدمہ ہیں چلے گا۔

 

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے ان لیڈروں کی طرف جو مجرموں میں سے ابھرتے ہیں اور نبی کے دشمن بن کر اس کی دعوت کی مخالفت میں زور لگاتے ہیں۔ یہ سب کچھ اللہ کے مقررہ قانون ضلالت کے مطابق ہوتا ہے اس لیے اس کو اس طرح تعبیر کیا گیا ہے کہ " ہم نے ہر نبی کے لیے مجرموں میں سے دشمن کھڑے کیے "

 

مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ انعام نوٹ ۲۱۰۔

 

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دشمنوں کی تمام کاروائیوں کے باوجود تم پر راہ ہدایت کھلتی چلی جائے گی اس راہ کو طے کرتے ہوئے ہر ہر موڑ پر تمہاری رہنمائی کا سامان ہو گا اور کٹھن مرحلوں میں اللہ تمہاری دستکیری فرمائے گا۔

 

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ منکرین کا ایک بڑا اعتراض یہ تھا کہ اگر قرآن واقعی اللہ کی کتاب ہے تو مکمل کتاب کی صورت میں بیک وقت نازل کیوں نہیں ہوئی۔ وقفہ وقفہ سے تھوڑی تھوڑی کیوں نازل ہو رہی ہے۔ ؟

 

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کرنے کا ایک بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ ہر موقع پر بر وقت رہنمائی مل جانے سے قلب و ذہن کو تقویت حاصل ہو جاتی ہے۔ مزید تشریح کے لیے  دیکھیے سورہ بنی اسرائیل نوٹ ۱۴۰۔

 

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اصل میں لفظ ترتیل استعمال ہوا ہے جس کے معنی حسن ترتیب ، حسن تالیف ، حسن کلام کے ہیں۔ (دیکھیے القاموس ، ج ۳ ، ص۲۹۲ (

 

مطلب یہ ہے کہ ہم نے قرآن کو اگر چہ تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے لیکن اس سے کلام غیر مربوط نہیں ہوا ہے اس کی ترتیب میں کمال درجہ کا حسن رکھا گیا ہے چنانچہ جو لوگ قرآن میں غور و فکر کرتے ہیں وہ اس کی حسن ترتیب   (Well-arranged)   کو دیکھ کر اس کے معجزانہ کلام ہونے پر یقین کرنے لگتے ہیں۔

 

 ۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی معترضین کی طرف سے جس وقت جس شبہ کا بھی اطہار ہوتا ہے اس کا صحیح جواب نہایت واضح انداز میں قرآن میں پیش کر دیا جاتا ہے۔ یہ قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے اور موقع موقع سے نازل کرنے کی ایک اور مصلحت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے۔

 

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد تورات ہے جو آغاز نبوت سے نازل ہونا شروع ہو گئی تھی۔ اس کا کچھ حصہ فرعون کے غرق ہونے سے پہلے نازل ہوا اور بقیہ حصہ اس کے بعد۔ یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ تورات پوری کی پوری بیک وقت نازل ہوئی تھی کیونکہ یہ بات نہ قرآن میں بیان ہوئی ہے اور نہ موجودہ تورات میں اس کا کہیں ذکر ہے۔ اس لیے صحیح بات یہ ہے کہ آسمانی کتابوں کا نزول موقع کی مناسبت سے تھوڑا تھوڑا کر کے ہوتا رہا ہے۔

 

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ طٰہٰ نوٹ ۲۹ ، ۳۰۔

 

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قوم فرعون ہے اور آیتوں کو جھٹلانے سے مراد خدا کی وحدانیت پر دلالت کرنے والی وہ نشانیاں ہیں جو کائنات میں پھیلی ہوئی اور انسانوں کی فطرت کے اندر ودیعت ہیں۔ فرعون ان آیتوں کو جھٹلانے کا پہلے ہی سے  مجرم تھا نیز اس نے انبیائی تاریخ کے آثار اور حضرت یوسف کے نقوش کو جو انہوں نے اس ملک میں چھوڑے تھے بالکل نظر انداز کر دیا تھا اور یہی حال اس کی قسم کا بھی تھا اس لیے حضرت موسیٰ کے حجت قائم کرنے سے پہلے بھی فرعون اور اس  کی قوم مجرم تھی اور ان کی حجت قائم کرنے کے بعد تو اس کا جرم اور سنگین ہو گیا اور اس کی حق سے دشمنی کھل کر سامنے آ گئی۔

 

معلوم ہوا کہ جس قوم پر کسی نبی کے ذریعہ حجت قائم نہ بھی ہوئی ہو لیکن اس نے خدا کی ان نشانیوں کو جو کائنات میں پھیلی ہوئی ہیں اور انسان کی فطرت کے اندر ودیعت ہیں جھٹلا کر گمراہی اختیار کی ہو سرکش اور کافر ہی کہلائے گی۔

 

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرعون اور اس کی لشکر کو تو ڈبو دیا گیا اور مصر میں اس کی قوم بھی تباہ کر دی گئی۔

 

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نوح کی قوم نے حضرت نوح کو جھٹلایا تھا لیکن اس بات کو تمام رسولوں کو جھٹلانے سے تعبیر کیا گیا کیونکہ ایک رسول کو جھٹلانا تمام رسولوں کو جھٹلانا ہے۔

 

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ ہود نوٹ ۷۴ اور سورہ فجر نوٹ ۸ تا  ۱۱۔

 

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ ہود نوٹ ۸۶ اور سورہ فجر نوٹ ۱۲ تا ۱۴۔

 

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اصحاب الرس کے معنی ہیں کنویں والے۔ یہ ایک قوم تھی جس کی طرف کسی نبی کی بعثت ہوئی تھی اور جب اس نے جھٹلایا تو وہ تباہ کر دی گئی۔ یہ قوم کہاں آباد تھی اور اس کی طرف کس نبی کو بھیجا گیا تھا  اس کی صراحت قرآن نے نہیں کی بلکہ عبرت پذیری کے لیے اس کی تباہی کا ذکر کیا۔ کسی صحیح حدیث میں  بھی اس قوم کے  حالات بیان نہیں ہوئے ہیں اس لیے ہمیں قرآن کے اجمالی بیان پر اکتفاء کرنا پڑے گا۔ مفسرین نے جو مختلف اقوال نقل کیے ہیں وہ محض قیاسی باتیں ہیں۔

 

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ معلوم ہوا کہ دوسری بہت سی قومیں ہیں جن کی طرف رسول بھیجے گئے  تھے اور ان کو جھٹلانے پر ان قوموں کو تباہ کر دیا گیا لیکن ان تمام قوموں کا ذکر قرآن نے نام لے کر نہیں کیا ہے۔ یہ قومیں مختلف قوموں میں رہی ہوں گی اور عجب نہیں کہ قدیم ہندوستان کی بھی کوئی قوم تباہ کر دی گئی ہو۔

 

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مثالیں دے دے کر سمجھا یا تھا اور تباہ شدہ قوموں کی مثالیں پیش کی تھیں۔

 

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قوم لوط کی بستیاں ہیں۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ ہود نوٹ ۱۱۹۔

 

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آدمی جب آخرت کے معاملہ میں سنجیدہ نہ ہو تو واقعات سے کوئی عبرت حاصل نہیں کرتا جو لوگ نہیں چاہتے کہ ان کو دو بارہ سندگی ملے اور ان کو ان کا رب ان کے اچھے اعمال کی جزا دے وہ انبیائی تاریخ کی غلط توجیہ کر کے اپنی دنیا پرستی میں مگن رہتے ہیں۔

 

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی آج تو نبی کی دعوت توحید کو اپنے مذہب کے لیے خطرہ سمجھ رہے ہیں اور اسے  گمراہی قرار دے رہے ہیں لیکن جب  وہ اپنی بت پرستی اور شرک کا بھیانک انجام دیکھ لیں گے تو اس وقت انہیں اس بات کا احساس ہو گا کہ ان کی اپنے بتوں اور معبودوں سے عقیدت سراسر گمراہی تھی اور وہ اس گمراہی میں بہت دور نکل گئے۔ راہ ہدایت ہی تھی جس کی طرف اللہ کا رسول انہیں بلا رہا تھا۔

 

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خواہشات کو خدا بنا لینے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی خواہشات کا غلام بن جائے۔ فطرت کی پکار پر کان دھرنے اور عقل سلیم سے کام لینے کے بجائے اپنے کو خواہشات کے حوالے کر دے۔ ایسا شخص وحی الٰہی کی اس لیے مخالفت کرتا ہے کہ خواہشات اس کا ساتھ نہیں دیتیں اور یہ خواہش پرستی ہی ہے جو انسان کو اس کے مرتبہ سے گرا  کر حیوانیت کی سطح پر لے آتی ہے۔ موجودہ دور میں اس کی نمایاں شکل اباحیت پسندی ہے یعنی خواہشات کو بلا روک ٹوک پورا کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دینا۔ ایسے شخص کا بت اس کے دل میں ہوتا ہے اور وہ اس کا پرستار بن جاتا ہے۔

 

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی فہمائش اسی شخص کو کی جا سکتی ہے جو اپنے ہوش و حواس کے کام لینے کے لیے آمادہ ہو۔ جو شخص اپنی خواہشات کے پیچھے اندھا ہو گا ہو اس کو سمجھانا ایک نبی کے بس کی بات بھی نہیں ہے۔

 

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ اعراف نوٹ ۲۷۶۔

 

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں انسان کو خدا کی اس نشانی کی طرف متوجہ کیا گیا ہے جسے سایہ کہتے ہیں۔ سایہ مکانوں اور درختوں وغیرہ کا بھی پڑتا ہے اور انسان کا اپنا سایہ بھی جو اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور اس کو دعوت فکر دیتا رہتا ہے۔ سایہ پھیلتا بھی ہے اور سکڑتا بھی ہے اور اس کاس پیلنا اور سکڑنا سورج کے طلوع و غروب اور اس کے عروج و زوال کی وجہ سے ہوتا ہے۔ گویا سورج سایہ کے لیے دلیل راہ ہے۔

 

اگر پھیلے ہوئے سایہ کو اللہ دائمی بنا دیتا تو درختوں وغیرہ کے ایک رخ پر ہی سایہ پڑتا اور دوسرا رخ سورج کی تمازت ہی میں رہتا لیکن سایہ کے متحرک اور کم و بیش ہونے سے حرارت اور ٹھنڈک میں بڑا توازن پیدا ہو گیا ہے۔ کیا یہ ایک ارادہ رکھنے والی اور تدبیر کرنے والی ہستی کی کار فرمائی نہیں ہے ؟

 

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سایہ صبح کے وقت پھیلا ہوتا ہے پھر جیسے جیسے سورج چڑھتا جاتا ہے سایہ گھٹتا جاتا ہے اور زوال کے بعد پھر بڑھنے لگتا ہے یہاں تک کہ سورج غروب ہونے پر غائب ہو جاتا ہے۔

 

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رات پردہ پوشی کرتی ہے اس لیے اسے لباس سے تعبیر کیا گیا۔

 

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نیند تکان کو دور کرتی ہے اور آرام پہنچاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی اور عجیب نعمت ہے جس سے ہر شخص بہرہ مند ہوتا ہے مگر اس بات پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ یہ کس کا احسان ہے ؟ اور وہ محسن کیسا ہے جس کی مہربانیوں کی کوئی حد نہیں ہے ؟

 

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رات سونے کے لیے تھی تو دن اٹھ کھڑے ہونے کے لیے ہے تاکہ حیات تازہ حاصل کرے۔ اور یہ اٹھ کھڑے ہونا قیامت کے دن اٹھ کھڑے ہونے کی دلیل ہے اور یاد دہانی بھی۔ دلیل اس بنا پر کہ جو نیند طاری کرنے کے بعد بیدار کرتا ہے وہ موت طاری کرنے کے بعد زندگی بھی عطا کر سکتا ہے اور یاد دہانی اس پہلو سے کہ صبح اٹھتے ہی یہ کلمات ادا کرنے کی ہدایت آئی ہے۔

 

اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ اَحْیَانَا بَعْدَمَا اَمَا تَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْر (مشکوٰۃ کتاب الدعوات بحوالہ بخاری ("تعریف و شکر اللہ کے لیے ہے جس نے موت کے بعد زندگی بخشی اور اسی کی طرف اٹھ کھڑے ہونا ہے۔ "

 

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد باران رحمت ہے۔

 

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بارش کا پانی جو اوپر سے اترتا ہے نہایت صاف ستھرا ہوتا ہے نیز وہ اس خصوصیت کا بھی حامل ہوتا ہے کہ گندگی کو دور کرے اور پاک و صاف بنائے۔

 

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد قرآن ہے جس کے مضامین مختلف اسلوبوں میں بیان ہوئے ہیں۔ یہاں ہُ (اس کو) کی ضمیر اسی طرح قرآن کی طرف راجع ہے جو طرح آگے آیت ۵۲ میں۔

 

مزید تشریح کے لیے دیکھیے سورہ انعام نوٹ ۱۰۹۔

 

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کے لیے یہ بات نہایت آسان تھی کہ ہر بستی سے ایک پیغمبر اٹھاتا لیکناس کی حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ ایک پیغمبر اس شان کا مبعوث کیا جائے کہ پوری دنیا کو خبردار کرنے کے لیے کافی ہو جائے۔ چنانچہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک تاریخ ساز شخصیت بنا کر قرآن جیسے زندہ معجزہ کے ساتھ ایسی مرکزی جگہ بھیجا گیا کہ ساری دنیا کے لیے آپ کی رسالت کافی ہو گئی۔

 

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن کے ذریعہ جیسا کہ قرائن سے واضح ہے۔

 

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں قرآن کے ذریعہ کافروں  کے ساتھ جہاد کبیر کا حکم دیا گیا ہے۔

 

جہاد کے معنی ہیں۔

 

والْجِھَدُ وَالْمُجَا ھَدۃُ استفراغ الْوَ سْعِ فِی ، مُدافعۃِ الْعدوِّ (مفردات راغب ، ص ۱۰۰)۔ " جہاد اور مجاہدہ یہ ہے کہ دشمن کے مقابلہ میں پوری طاقت لگا دی جائے "۔

 

یہ سورہ مکی دور کی ہے اور مکی دور میں تلوار سے جہاد کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا اس لیے اس آیت میں جہاد سے مراد دعوت حق کو پیش کرنے میں انتہائی سرگرمی دکھانا، مخالفتوں اور مزاحمتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے باطل سے کشمکش کرنا ہے۔ پھر یہ جہاد قرآن کے ذریعے بڑے پیمانہ پر کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس دعوتی جہاد میں قرآن تمہارا ہتھیار ہو، کفر اور شرک کی تردید میں قرآنی آیتوں کو پیش کیا جائے، کافروں کے شبہات اور اعتراضات کا جو جواب قرآن نے دیا ہے وہ ان کو سنایا جائے ، قرآن کی تنبیہات سنا کر ان کو خبر دار کیا جائے اور ان کی کافرانہ باتوں کا توڑ قرآن کے ذریعہ کیا جائے۔

 

آج بھی دعوتی میدان میں قرآن کے ذریعہ جہاد کرنے کی سخت ضرورت ہے یعنی غیر عربی داں لوگوں کے سامنے قرآن کو ترجمہ کے ساتھ پیش کرنا ، اس کے مضامین پیش کر کے شبہات کو دور کرنے کی کوشش کرنا اور مخالفین کے تیروں کے مقابلہ میں قرآن کو سپر بنانا بہت بڑا جہاد ہے جو وقت کا نہایت اہم تقاضا ہے اور اس راہ کے مجاہد وہی لوگ بن سکتے ہیں جن پر قرآن کی دھن سوار ہو اور وہ اس کے علمبردار بن کر میدان میں آئیں۔

 

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ، متن میں لفظ بَحْرَین استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں دو بحر عربی میں سمندر کو بھی کہتے ہیں اور دریا کو بھی چنانچہ دریائے نیل کو البحر الازرق (Blue Nile) اور البحر الابیض ( (White Nile کہا جاتا ہے۔ آیت میں دو بحر سے مراد دریا کا سمندر سے مل جانا ہے۔  دریا کا پانی میٹھا ہوتا ہے اور سمندر اور سمندر کا کھاری، مگر جہاں دریا سمندر میں جا کر گرتا ہے وہاں دونوں کا پانی اپنے اپنے حدود میں اپنی خصوصیات لیے رہتا ہے۔ سمندر کی زبردست موجیں دریا سے ٹکراتی ہیں لیکن اس کے پانی کو کھاری نہیں بنا دیتیں۔ گویا دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے جو دکھائی نہیں دیتا اور ایک حد فاصل ہے جو دونوں کو اپنی جگہ قائم رکھے ہوئے ہے اور انسایکلو پیڈیا برٹانیکا میں اس انکشاف کا ذکر ہے کہ شمالی سائبیریا (روس) کے ساحل پر جہاں بڑے بڑے دریا بحر شمالی میں گرتے ہیں ان کا تازہ پانی کثافت میں کم ہونے کی وجہ سے سطح ہی پر رہتا ہے جب کہ بحر شمالی کی گہرائیوں میں کھاری پانی حسب معمول موجود ہوتا ہے۔

 

“Because this fresh water is less dense, it remains on the surface, the salinity at greater depth in the Arctic Ocean is normal for sea water۰” (Encyclopedia Britannica Vol. 13 P. 487)

 

کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ یہاں ایک کنٹرول کرنے والی ہستی ہے جس کے قوانین اس طرح نافذ ہو رہے ہیں کہ ہر چیز اپنی حد میں ہے اور کوئی چیز بھی سر مو تجاوز نہیں کر سکتی۔ لوگ اس بات کو قوانین طبیعی سے تعبیر کرتے ہیں مگر کوئی  بھی قانون قوت نافذہ کے بغیر عمل میں نہیں آتا پھر یہ قوانین طبیعی (Physical Laws) ایک نافذ کرنے والی ہستی کے بغیر کس طرح عمل میں آ گئے ؟

 

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پانی کے ایک قطرہ سے جسے نطفہ کہا جاتا ہے۔

 

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایک طرف خونی (رحمی) رشتے چلائے اور دوسری طرف بیوی کے تعلق سے سسرالی رشتے۔ اس طرح انسان کی سندگی میں خاندان اور اجتماعیت کا سلسلہ چلا۔

 

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو ہستی پانی کے ایک قطرے سے ایک عظیم اجتماعیت کو وجود میں لا سکتی ہے اس کی قدرت سے کیا چیز بعید ہے ؟

 

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ انعام نوٹ ۱۱۸۔

 

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ لوگ اللہ سے جو ان کا حقیقی رب ہے بندگی کا تعلق قائم کرتے مگر وہ اپنے  کفر کی بنا پر اس کے حریف بن کر کھٹے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ان کی اللہ کی پاکیزگی اور اس کی صفات حمیدہ بیان کرنے سے کوئی دلچسپی ہے جو اس کے شایان شان نہیں اور جن سے عیب اور نقص رکھنے والے خدا کو تصور سامنے آتا ہے۔ وہ اس سے وفاداری کا تعلق قائم کرنے کے بجائے سرکشی اور بغاوت پر اتر آئے  ہیں۔ وہ اس کے رسول کی پیروی کرنے کے بجائے اس کی مخالفت میں سرگرم ہو گئے ہیں۔ اور اس سے بڑھ کر حماقت کیا ہو سکتی ہے کہ انسان اپنے رب ہی کا حریف بن کر کھڑا ہو جائے۔

 

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پیغمبر کا کام ایمان لانے والوں کو بشارت دینا اور کفر کر نے والوں کو انجام بد سے خبردار کرنا ہے ، ایمان لانے پر لوگوں کو مجبور کرنا پیغمبر کی ذمہ داری نہیں۔

 

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی میں اللہ کا پیغام تمہارے اپنے فائدہ ہی کے لیے پہنچا رہا ہوں۔ اس خدمت پر میں نے تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کیا ہے کہ تم شک میں پڑو کہ یہ سب کچھ اپنی غرض کے لیے کیا جا رہا ہے۔ میری تبلیغ کی واحد غرض یہی ہے کہ لوگوں پر اللہ کی راہ روشن ہو پھر جو چاہے اپنی مرضی سے اس راہ کو اختیار کر لے۔

 

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ مشرکین کے مردہ خداؤں کی طرح نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اس پر موت کبھی طاری ہونے والی نہیں۔

 

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کے گن کاتے ہوئے اس کی پاکی بیان کرو کہ اس سے تو کل کی صفت پروان چڑھتی ہے۔

 

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی مخالفت کرنے والوں کا معاملہ اللہ کے حوالہ کر دو۔ وہ اپنے بندوں کے جرائم سے باخبر ہے اس لیے وہ ان کے کیے کی پوری پوری سزا دے گا۔

 

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف نوٹ ۸۲۔

 

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ اعراف نوٹ ۸۳۔

 

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی خدا کیسا ہے اور اس کی خوبیاں (صفات Attributes  ) کیا ہیں اس کے بارے میں  قیاس اور گمان سے کوئی بات کہنا یا اہل مذاہب کی فلسفیانہ باتوں پر اعتماد کرنا صحیح نہیں بلکہ یہ بات خدا (اللہ) ہی سے پوچھی جانی چاہیے کیونکہ وہی اپنی صفات سے اچھی طرح باخبر ہے۔ چنانچہ اس نے اپنی صفات اپنی کتاب (قرآن) میں بیان کر دی ہیں۔ لہٰذا اس کی صفات معلوم کرنے کے لیے اس کتاب کی طرف رجوع کرو۔

 

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ بنی اسرائیل نوٹ ۱۴۵۔

 

یہ آیت سجدہ ہے اس لیے اس کی تلاوت کرنے یا سننے پر فوراً سجدہ کرنا چاہیے۔

 

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اپنے خدائے مہربان (رحمٰن) کے آگے سجدہ کرنے میں تو انسان کو اپنی سعادت سمجھنا چاہیے مگر مشرکوں کو یہ حکم بھی ناگوار ہے اور اس کے نتیجہ میں وہ خدا سے اور زیادہ دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔

 

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھیے سورہ حجر نوٹ ۱۴۔  

 

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سورج۔

 

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دن اور رات کے ایک دوسرے کے پیچھے پابندی کے ساتھ آنے کا یہ سلسلہ دعوت فکر دیتا ہے۔ جو شخص بھی اس کی طرف متوجہ ہو گا وہ اپنے رب کے کمال قدرت اور آثار رحمت کا مشاہدہ کرے گا۔ یہ مشاہدہ اسے توحید کا سبق بھی دے گا اور اس کے اندر شکر کے جذبات بھی پیدا کرے گا کہ اس کا رب بڑا مہربان ہے جس نے انسان کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور اس کو آرام اور سکون پہنچانے کا کیسا انتظام کر رکھا ہے۔

 

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد خدائے رحمٰن کے مخلص بندے ہیں۔ انہیں اپنے ان اوصاف کی بنا پر جو آگے بیان ہوئے ہیں یہ شرف حاصل ہوا کہ وہ عباد الرحمٰن (رحمٰن کے بندے) کہلائیں اور اس بات کے مستحق ہوئے کہ خدائے  رحمٰن کی رحمت سے مالا مال ہوں۔

 

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کی چال اس کے کردار کا مظہر ہوتی ہے۔ جو لوگ پورے شعور کے ساتھ اپنے کو اللہ کی بندگی میں دیتے ہیں۔ ان کی چال سے فروتنی اور خاکساری کا اظہار ہوتا ہے بخلاف اس کے خدا سے پھرے ہوئے لوگوں کی چال تکبر اور گھمنڈ کو ظاہر کرتی ہے۔

 

تواضع کے ساتھ چلنے کا مطلب نمائشی طور پر آہستہ آہستہ چلنا نہیں ہے بلکہ احساس بندگی کے ساتھ قدم اٹھانا اور سکون و وقار کے ساتھ قدم رکھنا ہے۔

 

نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی رفتار حدیث میں اس طرح بیان ہوئی ہے۔

 

اذا زَال زَال قَلْعاً  ، یَخْطُو تَکَفِّیاً وَ یَمْشِی ھَوْ ناً ، ذریعَ الْمشْیَۃ اِذا مَشیَ کَاَنّمَا یَنْحَطُّ مِنْ صَبَبٍ۔ (شمائل ترمذی)۔ " چلتے تو مضبوط قدم اٹھاتے جھک کر قدم رکھتے ، فروتنی کے ساتھ چلتے اور اس تیزی سے کہ گویا بلندی سے ڈھلوان کی طرف جا رہے ہیں "۔

 

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جاہل سے مراد نادان ، غیر سنجیدہ اور جذباتی لوگ ہیں۔ ایسے لوگ جب الجھنے لگیں تو ان کے منہ لگنے سے کوئی فائدہ نہیں سلامتی کی بات کہہ کر ان سے رخصت ہونا ہی بہتر ہے۔

 

" وہ کہتے ہیں سلام" کا مطلب سلامتی کی بات کہنا بھی ہے اور رخصتی کلمہ بھی۔

 

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رحمٰن کے بندے اپنی راتیں خدا سے غافل لوگوں کی طرح نہیں گزارتے۔ وہ رات کے اوقات میں بھی عبادت میں سرگرم ہو جاتے ہیں ، مغرب اور عشاء کی فرض نمازوں کے علاوہ تہجد کی نفل نماز کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ وہ چین کی نیند نہیں سوتے بلکہ اٹھ اٹھ کر اللہ کے حجور قیام کرتے اور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں نماز سے کتنا شغف اور عبادت سے کتنا لگاؤ ہوتا ہے۔ مگر آج عام طور سے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی راتیں فالتو  فلمیں دیکھنے میں گزارتے ہیں۔ تہجد کے وقت جو دعا کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے مسلمانوں کے گھروں سے ویڈیو  پر گانے بجانے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔  انا للہ و انا الیہ راجعون۔

 

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جہنم کا عذاب ایسا نہیں کہ آدمی کوئی تدبیر کر کے چھٹکارا پائے بلکہ ایسا ہے کہ جو اس کی لپیٹ میں آگیا اس سے وہ چمٹ کر رہ گیا۔

 

جہنم کے عذاب کے اس تصور سے خدائے رحمٰن کے بندے کانپ اٹھتے ہیں اور خدا کے حجور دعا کرتے ہیں  کہ وہ انہیں اس سے بچا لے۔

 

اس آیت میں گویا اللہ کے مثالی بندوں کا یہ اسوہ پیش کیا گیا ہے کہ انہیں اصل فکر جو دامن گیر ہوتی ہے وہ نجات اخروی کی فکر ہے۔

 

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جہنم دونوں لحاظ سے بری ہے۔ منزل ہونے کے لحاظ سے بھی کہ وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہو گی۔ اور دائمی قیام گاہ ہونے کے لحاظ سے بھی کہ اس میں رہنے والے ہمیشہ عذاب ہی بھگتتے رہیں گے۔

 

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسراف یہ ہے کہ آدمی حد ضرورت سے زیادہ یعنی جن چیزوں میں خرچ کرنا جائز ہے ان میں بے دریغ خرچ  کرے اور اس بات کی کوئی پرواہ نہ کرے کہ کس حد تک خرچ کرنا معقول اور مناسب ہے۔ آج کل معیار زندگی کو بلند کرنے کا ایسا شوق پیدا  ہو گیا ہے کہ لوگ صریح اسراف کرنے لگے ہیں۔ رہی فضول خرچی یعنی مال کو بے جا خرچ کرنا یا ناجائز کاموں میں خرچ کرنا تو وہ بد ترین قسم کا اسراف ہے اور اس کو قرآن نے "تبذیر" (فضول خرچ سے تعبیر کیا ہے اور تبذیر کرنے والوں کے بارے میں کہا ہے وہ شیطان کے بھائی ہیں۔ (بی اسرائیل آیت ۲۷)۔ اور بخل یہ ہے کہ آدمی جائز ضرورتوں کو پورا کرنے میں بلاوجہ تنگی برتے یا دوسروں کے حقوق کی ادائیگی سے بے پرواہ ہو جائے۔ اسراف اور بخل (تنگی) کے درمیان اعتدال کی راہ یہ ہے کہ آدمی افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اپنی جائز ضرورتوں کو پورا کرے اور ان پر مناسب حد تک خرچ کرے۔ نیز دوسروں کے حقوق بھی ادا کرے۔ واضح رہے کہ اچھی غذاؤں کے موجود ہوتے ہوئے محض نفس کو مارنے کے لیے ان سے پرہیز کرنا ان لوگوں کا طریقہ ہے جنہوں نے زہد کا نام پر ریاضتوں کی شریعت بنائی۔ اسلام کے سیدھے سادے طریقہ زندگی اور اس کی آسان شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

 

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پکارنے کا مطلب حاجت روائی کے لیے پکارنا بھی ہے اور پرستش بھی۔ قرآن میں دعا (پکارنا) کا لفظ عبادت کے معنی میں بکثرت  استعال ہوا ہے اور حدیث میں آتا ہے ، الدعاء ھوالعبادۃ، " دعا عبادت ہے " مشکوٰۃ کتاب الدعوات بحوالہ احمد، ترمذی ابو داؤد ، نسائی ، ابن ماجہ)

 

اس آیت میں رحمٰن کے بندوں کی صفت یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ اللہ ہی کو پکارتے ہیں اور اسی کی پرستش کرتے ہیں ان کا طریقہ ان لوگوں جیسا نہیں ہوتا جو خدا کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی حاجت روائی کے لیے  پکارتے ہیں اور خدا کی پرستش کے ساتھ دوسروں کی بھی پرستش کرتے ہیں۔ یہ سراسر شرک ہے اور رحمٰن کے بندوں کا دامن شرک سے پاک ہوتا ہے۔

 

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ ہر انسانی جان محترم ہے یہاں تک کہ ایک نوزائیدہ بچہ کی جان بھی۔ (واذا المَوؤدۃُ سَئِلَتْ بِاَیّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ۔ سورہ تکویر) اور انسانی جان کی حرمت اتنی شدید ہے کہ اس پر دست درازی کرنے والا سنگین جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔ قتل کرنا اس صورت میں جائز ہے جب کہ "حق" کی بنا پر ہو۔ اس حق کو شریعت نے خود واضح کر دیا ہے اس لیے اس دائرہ سے باہر کسی کو قتل کرنے کے لیے کوئی وجہ جواز (Justification)  نہیں ہے۔ انسان کے خود ساختہ قوانین یا کسی غیر اسلامی حکومت کے احکام اگر کسی ایسے قتل کو جائز قرار دیتے ہیں جس پر شریعت کے بیان کردہ "حق" کا اطلاق نہیں ہوتا تو اس کا ارتکاب ظلم ہے اور بہت بڑے گناہ کا موجب۔ شریعت نے جن صورتوں میں قتل کو حق کا تقاضا قرار دیا ہے وہ یہ ہیں :

 

۱)۔ قصاص میں قتل کرنا۔ اَنَ النَّفْسِ با لنَّفْسِ۔ "جان کے بدلہ جان"۔ (مائدہ۔ ۴۵)۔

 

۲)۔ زمین میں فساد برپا کرنے کی صورت میں قتل کرنا۔ اَوْ فَسَادٍ فِی أ لَا رْضِ (مائدۃ۔ ۳۲) مثلاً رہزنی اور امن عامہ کو تباہ کرنے والے متشددانہ اقدامات ، اس اصول کے تحت اگر کوئی ظالم گروہ مسلمانوں کے کسی گروہ پر حملہ آور ہوتا ہے تو وہ اپنی مدافعت (Self – Defense) کے لیے قتل تک کا اقدام کر سکتا ہے۔

 

۳)۔ کافروں اور مشرکوں سے اللہ کی راہ میں جہاد اس کے شرائط کے ساتھ۔ فَاِنْ قا تَلُو کُمْ فَا قْتُلُو ھُمْ کَذٰ لِکَ جَزَاءُ الْکٰفِرِیْن۔ " اگر وہ تم سے لڑیں تو انہیں قتل کر دو کہ کافروں کا یہی بدلہ ہے۔ " (البقرہ۔ ۱۹۱)

 

۴)۔ مسلمانوں کا ایک گروہ اگر دوسرے گروہ پر جارحانہ حملہ کرے تو اس سے لڑنا یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کر لے۔ فَقَا تِلْو ا لَّتِی تَبْغَی حَتّٰی تَفِئَ اِلیٰ اَمْرِ اللہِ۔ "تو اس گروہ سے لڑو جو زیادتی کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کر لے " (حجرات۔ ۹)

 

۵)۔ جارحانہ حملہ کی صورت میں اپنی مدافعت کرنا (Self – Defense)   خواہ حملہ آور کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ وَالّذِینَاِذا اصابَھُم الْبَغْیُ ھُمْ یَنْتَصِرُوْ نَ وَ جزاء سَیّئۃٌ   مِثْلُھَا۔ " اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو وہ اس کا بدلہ لیتے ہیں اور برائی کا بدلہ اس جیسی برائی ہی ہے۔ " (شوریٰ۔ ۳۹ ، ۴۰)۔

 

اور حدیث میں ہے۔

 

جاءَ رجلٌ اِلیٰ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فقال یا رسول اللہ ارأیتَ اِن جاءَ رَجلٌ  یْریْدُ اَخْذا مالی فقال فلا تعطہٖ مالک قالَ اَرَأَ یْتُ اَن ْ قَتَلنیْ قال قاتِلُہ قال اَرَّ یْتَ اِن قتلنی قالَ فَاَنْتَ شَھیدٌ قال اَرأیْتَ ان قَتَلْتُہُ قالَ فھُوَفِی النارِ (مسلم کتاب الایمان)۔ "ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا اے اللہ کے رسول آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو میرا مال چھین لینے کے ارادہ سے آئے ؟ فرمایا اپنا مال اسے نہ دو، اس شخص نے عرض کیا اگر وہ مجھ سے لڑے تو ؟ فرمایا تم بھی اس سے لڑو اس نے عرض کیا اگر وہ مجھے قتل کر دے۔ فرمایا  تم شہید ہو جاؤ گے اس نے عرض کیا اگر میں اسے قتل کروں ، فرمایا وہ جہنم میں جائے گا۔ "

 

اور مال کی حفاظت سے زیادہ جان کی حفاظت اور ایک عورت کے لیے اپنی عصمت کی حفاظت اہمیت رکھتی ہے ، اس لیے جان مال اور آبرو پر حملہ ہونے کی صورت میں ظالم کو قتل کرنا اگر ناگزیر ہو تو مظلوم کو مدافعت کے لیے قتل کا حق ہے۔

 

۶)۔ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف مسلح بغاوت کرنے والوں کو قتل کی سزا دینا۔ اس کیا اطلاق اس مسلح بغاوت پر ہوتا ہے جو اسلامی حکومت کا تختہ الٹنے اور اس کی جگہ غیر اسلامی نظام حکومت قائم کرنے کے لیے کی جائے۔

 

اِنَّمَا جَزاءُ الّذِیْنَ یُحا رِبُونَ اللہ وَ رَسُولَہٗ وَیَسْعَوْ نَ فَی الْاَرْضِ فَسَداً اَنْ یُکَتَّلُوْا۔ ۔ ۔ ۔ "جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد برپا کرنے کے لیے دوڑ دھوپ کرتے ہیں ان کی سزا یہی ہے کہ  قتل کر دیے جائیں۔ (مائدہ ۳۳)

 

۷)۔ شادی شدہ زانی اور زانیہ کو سنگسار کرنا۔ یہ حکم سنت (احادیث صحیحہ) سے ثابت ہے : لَایَحلُّ دَمْ امْرئٍ مسلم یَشْھَدُاَنْ لَّا اِ لٰہَ اِ لَّا اللہُ وَ اَنِّی رسولُ اللہ اِلَّا باحْدیٰ ثلاثٍ اَلنَّفْسُ بِانَّفْسِ و الثیّبُ الزَّانی وَالْمَارِقُ مِنَ الدِّیْنِ التافک الجماعۃ۔ (بخاری کتاب الدیات)۔ " کسی مسلمان کا جو یہ گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں اور یہ کہ میں اللہ کا رسول ہوں خون جائز نہیں الا یہ کہ ان تین صورتوں میں سے کوئی صورت پیش آ جائے : اس نے کسی کا خون کیا ہو یا شادی شدہ ہو کر زنا کا مرتکب ہوا یا دین سے نکل گیا ہو اور ملّت کو چھوڑ دیا ہو (یعنی مرتد ہو گیا ہو)۔ "

 

۸)۔ مرتد یعنی اسلام سے پھر جانے والوں کو قتل کرنا جیسا کہ مذ کورہ بالا حدیث میں  بیان ہوا ہے :

 

واضح رہے کہ ان میں سے متعدد صورتیں ایسی ہیں جن کو تعلق امام یعنی اسلامی حکومت سے ہے  کیونکہ ان صورتوں میں ملزم کو صفائی کا موقع دینا اور شہادتوں کی بنیاد پر فیصلہ کرتا ضروری ہے َ

 

فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حاکم یا اس کا نائب ہی حدود کا نافذ کر سکتا ہے اور افراد کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنے طور سے اس کام کو انجام دیں "۔ (فقہ السنۃ السید سابق۔ ج ۲ ، ص ۳۶۲  *

 

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زنا کی حرمت پر وضاحتی نوٹ کے لیے دیکھیے  سورہ بنی اسرائیل نوٹ۔ ۴۱۔

 

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ایک عذاب تو کفر اور شرک کا اور دوسرا عذاب قتل اور زنا جیسے جرائم کا۔ واضح ہوا کہ کافروں اور مشرکوں کو بغاوت کی سزا تو ملے گی ہی جو نہایت درد ناک اور دائمی ہو گی۔ مزید اس سزائیں اضافہ ان کے جرائم کی بنا پر ہو گا جن کے وہ مرتکب ہوئے تھے اور جس نوعیت کا جرم ہو گا اسی کی مناسبت سے سزا ملے گی۔

 

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس میں ان لوگوں کی تشفی کا سامان ہے جن کی زندگیاں شرک سے آلودہ رہیں اور جو قتل اور زنا جیسی بڑی بڑی معصیتوں کا ارتکاب کرتے رہے لیکن حق کے واضح ہو جانے پر وہ اللہ  کی طرف پلٹے اور پچھلے گناہوں پر شرمسار ہوئے، ایمان لائے اور نیک روی اختیار کی۔ ایسے لوگوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ان کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا یعنی ان کو یہ توفیق عطا ہو گی کہ وہ برائیوں کی جگہ اچھے اور نیک کام کریں۔ چنانچہ دور جاہلیت میں جن کی زندگیاں گناہوں سے آلودہ تھیں قبول اسلام کے بعد ان کی زندگیاں نہایت پاکیزہ ہو گئیں۔ اصل چیز گناہ کا احساس ہے جب یہ احساس بندہ کے دل میں پیدا ہو جا تا ہے تو اس کے فکر و عمل میں نہایت خوشگوار تبدیلی رونما ہونے لگتی ہے۔

 

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی توبہ کرنے والے یہ بندے اللہ سے امید رکھیں کہ وہ ان کے پچھلے گناہ بخش دے گا اور ان پر رحم فرمائے گا کہ وہ غفور و رحیم ہے۔

 

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں توبہ کی حقیقت واضح کر دی گئی ہے۔ توبہ یہ نہیں ہے کہ آدمی بد عملی میں مبتلا رہے اور زبان سے توبہ توبہ کرتا رہے بلکہ توبہ یہ ہے کہ آدمی برائی سے باز آئے اور نیک روی اختیار کرے جو شخص اس لازمی تقاضے کے ساتھ اللہ کے حضور توبہ کرتا ہے وہ در حقیقت معصیت کو چھوڑ کر اللہ کی طرف پلٹتا ہے اور جو اللہ کی طرف پلٹتا ہے اسے وہ کیوں نہ اپنے دامن رحمت میں جگہ دے گا۔

 

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ " زُور" کے معنی جھوٹ اور باطل کے ہیں اور " لَا یَشْھَدُوْنَ" کے معنی گواہی نہ دینے کے بھی ہیں اور حاضر اور مشاہد نہ بننے کے بھی۔ اگرچہ الفاظ کا عموم دونوں معنی کو لیے ہوئے ہے لیکن بعد کا فقرہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہاں خاص طور سے مراد باطل چیزوں کا تماشائی نہ بننا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ رحمٰن کے بندوں کو باطل سے ایسی نفرت ہوتی ہے کہ جہاں اس کا مظاہرہ ہو وہاں وہ اپنی حاضری سے اس کی تقویت کا سامان نہیں کر تے اور نہ اس کے تماشائی بن کر اپنی بے غیرتی کا ثبوت دیتے ہیں بلکہ ایسی چیزوں سے کنارہ کش رہتے ہیں۔

 

اس اصولی ہدایت کے پیش نظر مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ شرک کے اڈوں اور مندروں کی سیر کریں۔ مشرکانہ مراسم اور پوجا پاٹ کے موقع پر موجود رہیں۔ بھومی پوجا کے پروگراموں میں شرکت کریں اور مشرکانہ تہواروں کو اپنے وجود سے زینت بخشیں۔ علامہ ابن تیمیہ لکھتے ہیں :

 

"حضرت عمر نے فرمایا ہے کہ اللہ کے دشمنوں سے ان کے تہوار کے موقعہ پر اجتناب کرو۔ اور امام احمد فرماتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ کے تہواروں میں شرکت جائز نہیں۔ ان اک استدلال اللہ تعالیٰ کے ارشاد وَالَّذِیْنَ لا یَشْہَدُوْ نَ الزُّور سے ہے "۔

 

 (مجموعہ فتاویٰ ابن تیمیہ ، ج۔ ۲۵ ص ۳۲۶)

 

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر اتفاق سے ان کا گزر کسی بے ہو دہ بات کی طرف سے ہوا تو وہ نہ اس سے دلچسپی لیتے ہیں اور نہ اس کے تماشائی بنتے ہیں بلکہ شریفانہ اور پر وقار انداز میں گزر جاتے ہیں ، جس طرح کسی نفاست پسند آدمی کا گزر گندگی کے ڈھیر کی طرف سے ہوتا ہے تو وہ اس پر ایک نگاہ غلط ڈالنا بھی پسند نہیں کرتا اور تیزی سے آگے نکل جاتا ہے۔

 

موجودہ دور میں تو لغو باتیں تہذیب جدید کا لبادہ اوڑھ کر سامنے آ رہی ہیں اور اس کثرت سے سامنے آ رہی ہیں کہ آدمی کا سلامتی کے ساتھ راستوں سے گزرنا بھی مشکل ہو کر رہ گیا ہے مگر جن لوگوں کی اخلاقی حس بیدار ہوتی ہے وہ سنجیدگی اور وقار کا دامن کسی حال میں نہیں چھوڑتے۔

 

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کا حال ان لوگوں کا سا نہیں جو ایسے بے حس ہوتے ہیں کہ اگر انہیں اللہ کی آیتوں ، اس کی کتاب کے دلائل اور اس کی تعلیمات کے ذریعہ نصیحت کی جاتی ہے تو وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے حق کو سننے کے لیے ان کے کان بہرے ہو جاتے ہیں اور حق کو دیکھنے کے لیے ان کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں۔ اس کے برعکس جب رحمٰن کے بندوں کو آیات الٰہی کی طرف متوجہ کیا گاتا ہے تو وہ کھلے کان سے نصیحت کو سنتے ہیں اور کھلی آنکھوں سے اللہ  کی نشانیوں کو دیکھتے ہیں۔

 

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ رحمٰن کے بندے اپنی بیوی بچوں کی طرف سے بے پرواہ نہیں ہوتے کہ چاہیں وہ جنت کی راہ اختیار کریں یا جہنم کی بلکہ ان کی ہدایت کے لیے فکر مند رہتے ہیں اور اس بات کے شدید خواہش مند ہوتے ہیں کہ وہ ایمان اور عمل صالح کی زندگی اختیار کریں۔ ان کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک ان کے بیوی بچوں کا صالح ہونا ہے نہ کہ دنیوی صلاحیتوں اور دولت سے مالا مال ہونا۔ گویا خدا کے ان بندوں کا معیار پسند بالکل صحیح ہوتا ہے چنانچہ اگر ان کے بیوی بچے نیک کردار بن جاتے ہیں تو وہ ان کی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بن جاتے ہیں اسی لیے وہ اللہ سے اس کی توفیق کے لیے دعا گو ہوتے ہیں۔

 

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سربراہی کا جو مقام ہمیں اپنے گھر والوں پر حاصل ہے اس کے زیر اثر ان کی صحیح دینی تربیت ہو اور تقویٰ کی صفت ان کے اندر پیدا ہو، بالفاظ دیگر ہماری قیادت تقویٰ کی قیادت ہو اور ہمارے پیچھے چلنے والے متقی بن جائیں۔

 

اس اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اللہ کے مخلص بندوں کے دل میں یہ خیال کس طرح انگڑائیاں لیتا رہتا ہے کہ ان کے بال بچے متقی اور پرہیز گار بن جائیں مگر موجودہ دور کے مسلمانوں کا عام طور سے حال یہ ہے کہ ان کی اپنی زندگیاں بھی تقویٰ سے خالی ہیں اور انہیں اس بات سے بھی کوئی دلچسپی نہیں کہ ان کے بال بچے متقی بن جائیں۔ وہ ان کو کچھ "اور" ہی بنانا چاہتے ہیں تاکہ دنیا میں ان کی پوری پوری قدر ہو۔ رہی آخرت تو کلمہ گو لوگوں کے اس کی کچھ زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں!

 

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جنت کے بالا خانوں کی حقیقت تو وہاں پہنچ کر ہی معلوم ہو گی لیکن قرآن کے ان الفاظ سے یہ تصور ضرور بندھتا ہے کہ جنت میں اونچے اونچے محل ہوں گے۔

 

جنت کے یہ بلند محل رحمٰن کے بندوں کو ان کے صبر کے بدلہ ان تمام اوصاف کے لیے جو اوپر بیان ہوئے ہیں بمنزلہ بنیاد کے ہے۔ یعنی یہ اوصاف سی صورت میں  پیدا ہو سکتے ہیں جب کہ آدمی جذباتی ہونے کے بچائے سنجیدہ بن جائے اور اپنی نگاہیں مقصد حق پر جمائے رکھے۔

 

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ خاتمہ کلام ہے جس میں خطاب کو رخ انکار کرنے والوں کی طرف پھر گیا ہے ان سے کہا جا رہا ہے کہ اگر تم صرف اللہ کو حاجت روا مان کر اس کو پکارنے اور اس کی عبادت کرنے  کے لیے تیار نہیں ہو تو خوب سمجھ لو کہ اس سے نہ اس کا کچھ بگڑنے والا ہے اور نہ اس کو تمہاری پرواہ ہے۔ اس نے تمہارے سامنے حقیقت رکھ دی ہے۔ اس کے بعد اگر تم برے انجام کو پہنچنا چاہتے ہو تو اس کے ذمہ دار تم خود ہو۔

 

 

****