خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الفُرقان

اللہ کے  نام سے  جو نہایت مہربان رحم والا (ف ۱)

۱                 سورۂ فرقان مکّیہ ہے اس میں چھ رکوع اور ستتر ۷۷ آیتیں اور آٹھ سو بانوے کلمے اور تین ہزار سات سو تین حرف ہیں۔

(۱) بڑی برکت والا ہے  وہ کہ جس نے  اتارا قرآن اپنے  بندہ پر (ف ۲) جو سارے  جہان کو ڈر سنانے  والا ہو (ف ۳)

۲                 یعنی سیدِ انبیاء محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر۔

۳                 اس میں حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عمومِ رسالت کا بیان ہے کہ آپ تمام خَلق کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے جِن ہوں یا بشر یا فرشتے یا دیگر مخلوقات سب آپ کے اُمّتی ہیں کیونکہ عالَم ماسوی اللہ کو کہتے ہیں اس میں یہ سب داخل ہیں ملائکہ کو اس سے خارج کرنا جیسا کہ جلالین میں شیخ محلی سے اور کبیر میں امام رازی سے اور شعب الایمان میں بہیقی سے صادر ہوا بے دلیل ہے اور دعویِٰ اجماع غیر ثابت چنانچہ امام سبکی و بازری و ابنِ حزم و سیوطی نے اس کا تعاقب کیا اور خود امام رازی کو تسلیم ہے کہ عالَم ماسوی اللہ کو کہتے ہیں پس وہ تمام خَلق کو شامل ہے ملائکہ کو اس سے خارج کرنے پر کوئی دلیل نہیں۔

 علاوہ بریں مسلم شریف کی حدیث ہے  اُرْسِلْتُ اِلَی الْخَلْقِ کَآفَّۃً  یعنی میں تمام خَلق کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا۔ علامہ علی قاری نے مرقات میں اس کی شرح میں فرمایا یعنی تمام موجودات کی طرف جِن ہوں یا انسان یا فرشتے یا حیوانات یا جمادات۔ اس مسئلہ کی کامل تنقیح و تحقیق شرح و بسط کے ساتھ امام قسطلانی کی مواہبِ لدنیہ میں ہے۔

(۲ )  وہ جس کے  لیے  ہے  آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اور اس نے  نہ اختیار فرمایا بچہ (ف ۴) اور اس کی سلطنت میں کوئی ساجھی نہیں (ف ۵) اس نے  ہر چیز پیدا کر کے  ٹھیک اندازہ پر رکھی۔

۴                 اس میں یہود و نصاریٰ کا رد ہے جو حضرت عزیز و مسیح علیہما السلام کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں معاذ اللہ۔

۵                 اس میں بُت پرستوں کا رد ہے جو بُتوں کو خدا کا شریک ٹھہراتے ہیں۔

(۳ )  اور لوگوں نے  اس کے  سوا  اور خدا ٹھہرا لیے  (ف ۶) کہ وہ کچھ نہیں بناتے  اور خود پیدا کیے  گئے  ہیں اور خود اپنی جانوں کے  برے  بھلے  کے  مالک نہیں اور نہ  مرنے  کا اختیار نہ جینے  کا نہ اٹھنے  کا۔

۶                 یعنی بُت پرستوں نے بُتوں کو خدا ٹھہرایا جو ایسے عاجز و بے قدرت ہیں۔

(۴ )  اور کافر بولے  (ف ۷) یہ تو نہیں مگر ایک بہتان جو انہوں نے  بنا لیا ہے  (ف ۸) اور اس پر اور لوگوں نے  (ف ۹) انہیں مدد  دی ہے  بیشک وہ (ف ۱۰) ظلم اور جھوٹ پر آئے۔

۷                 یعنی نضر بن حارث اور اس کے ساتھی قرآنِ کریم کی نسبت کہ۔

۸                 یعنی سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے۔

۹                 اور لوگوں سے نضر بن حارث کی مراد یہودی تھے اور عداس و یسار وغیرہ اہلِ کتاب۔

۱۰               نضر بن حارث وغیرہ مشرکین جو یہ بے ہودہ بات کہنے والے تھے۔

(۵ )  اور بولے  (ف ۱۱) اگلوں کی کہانیاں ہیں جو انہوں نے  (ف ۱۲) لکھ لی ہیں تو وہ ان پر صبح و شام پڑھی جاتی ہیں۔

۱۱               وہی مشرکین قرآنِ کریم کی نسبت کہ یہ رستم و اسفند یار وغیرہ کے قِصّوں کی طرح۔

۱۲               یعنی سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے۔

(۶ )  تم فرماؤ اسے  تو اس نے  اتارا ہے  جو آسمانوں اور زمین کی ہر بات جانتا ہے  (ف ۱۳) بیشک وہ بخشنے  والا مہربان ہے  (ف ۱۴)

۱۳               یعنی قرآنِ کریم علومِ غیبی پر مشتمل ہے یہ دلیل صریح ہے اس کی کہ وہ حضرت علَّام الغیوب کی طرف سے ہے۔

۱۴               اسی لئے کُفّار کو مہلت دیتا ہے اور عذاب میں جلدی نہیں فرماتا۔

(۷ )  اور بولے  (ف ۱۵) اور رسول کو کیا ہوا کھانا  کھاتا ہے  اور بازاروں میں چلتا ہے  (ف ۱۶) کیوں نہ اتارا گیا ان کے  ساتھ کوئی فرشتہ کہ ان کے  ساتھ ڈر سناتا (ف ۱۷)

۱۵               کُفّارِ قریش۔

۱۶               اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ آپ نبی ہوتے تو نہ کھاتے نہ بازاروں میں چلتے اور یہ بھی نہ ہوتا تو۔

۱۷               اور ان کی تصدیق کرتا اور ان کی نبوّت کی شہادت دیتا۔

(۸ )  یا غیب سے  انہیں کوئی خزانہ مل جاتا یا ان کا کوئی باغ ہوتا جس میں سے  کھاتے  (ف ۱۸) اور ظالم بولے  (ف ۱۹) تم تو پیروی نہیں کرتے  مگر ایک ایسے  مرد کی جس پر جادو ہوا  (ف ۲۰)

۱۸               مالداروں کی طرح۔

۱۹               مسلمانوں سے۔

۲۰               اور معاذ اللہ اس کی عقل بجا نہ رہی، ایسی طرح طرح کی بے ہودہ باتیں انہوں نے بکیں۔

(۹ )  اے  محبوب دیکھو کیسی کہاوتیں تمہارے  لیے  بنارہے  ہیں تو گمراہ ہوئے  کہ اب کوئی راہ نہیں پاتے۔

(۱۰ ) بڑی برکت والا ہے  وہ کہ اگر چاہے  تو تمہارے  لیے  بہت بہتر اس سے  کر دے  (ف ۲۱) جنتیں جن کے  نیچے  نہریں بہیں اور کرے  گا  تمہارے  لیے  اونچے  اونچے  محل۔

۲۱               یعنی جلد آپ کو اس خزانے اور باغ سے بہتر عطا فرماوے جو یہ کافِر کہتے ہیں۔

(۱۱ ) بلکہ یہ تو قیامت کو جھٹلاتے  ہیں، اور جو قیامت کو جھٹلائے  ہم نے  اس کے  لیے  تیار کر رکھی ہے  بھڑکتی ہوئی آگ۔

(۱۲ )  جب وہ انہیں دور جگہ سے  دیکھے  گی (ف ۲۲) تو سنیں گے  اس کا جوش مارنا اور چنگھاڑنا۔

۲۲               ایک بر س کی راہ سے یا سو برس کی راہ سے دونوں قول ہیں اور آگ کا دیکھنا کچھ بعید نہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کو حیات و عقل اور رویت عطا فرمائے اور بعض مفسِّرین نے کہا کہ مراد ملائکۂ جہنّم کا دیکھنا ہے۔

(۱۳ )  اور جب اس کی کسی تنگ جگہ میں ڈالے  جائیں گے  (ف ۲۳) زنجیروں میں جکڑے  ہوئے  (ف ۲۴) تو  وہاں موت مانگیں گے  (ف ۲۵)

۲۳               جو نہایت کرب و بے چینی پیدا کرنے والی ہو۔

۲۴               اس طرح کہ ان کے ہاتھ گردنوں سے ملا کر باندھ دیئے گئے ہوں یا اس طرح کہ ہر ہر کافِر اپنے اپنے شیطان کے ساتھ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہو۔

۲۵               اور واثبوراہ واثبوراہ کا شور مچائیں گے بایں معنیٰ کہ ہائے اے موت آ جا۔ حدیث شریف میں ہے کہ پہلے جس شخص کو آتشی لباس پہنایا جائے گا وہ ابلیس ہے اور اس کی ذُرِّیَّت اس کے پیچھے ہو گی اور یہ سب موت موت پکارتے ہوں گے ان سے۔

(۱۴ ) فرمایا جائے  گا آج ایک موت نہ مانگو اور بہت سی موتیں مانگو (ف ۲۶)

۲۶               کیونکہ تم طرح طرح کے عذابوں میں مبتلا کئے جاؤ گے۔

(۱۵ ) تم فرماؤ کیا یہ (ف ۲۷) بھلا یا وہ ہمیشگی کے  باغ جس کا وعدہ ڈر والوں کو ہے، وہ ان کا صلہ اور انجام ہے۔

۲۷               عذاب اور احوالِ جہنم جس کا ذکر کیا گیا۔

(۱۶ )  ان کے  لیے  وہاں من مانی مرادیں ہیں جن میں ہمیشہ رہیں گے، تمہارے  رب کے   ذمہ  وعدہ ہے  مانگا ہوا،(ف ۲۸)

۲۸               یعنی مانگنے کے لائق یا وہ جو مؤمنین نے دنیا میں یہ عرض کر کے مانگا۔رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیاحَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً  یا یہ عرض کر کے رَبَّنَا وَ اٰتِنَامَا وَ عَدْتَّنَا عَلیٰ رُسُلِکَ ۔

(۱۷ ) اور جس دن اکٹھا کرے  گا انہیں (ف ۲۹) اور جن کواللہ کے  سوا پوجتے  ہیں (ف ۳۰) پھر ان معبودو ں سے  فرمائے  گا کیا تم نے  گمراہ کر دیے  یہ میرے  بندے  یا یہ خود ہی راہ بھولے  (ف ۳۱)

۲۹               یعنی مشرکین کو۔

۳۰               یعنی ان کے باطل معبودوں کو خواہ ذوی العقول ہوں یا غیر ذوی العقول۔ کلبی نے کہا کہ ان معبودوں سے بُت مراد ہیں انہیں اللہ تعالیٰ گویائی دے گا۔

۳۱               اللہ تعالیٰ حقیقتِ حال کا جاننے والا ہے اس سے کچھ بھی مخفی نہیں، یہ سوال مشرکین کو ذلیل کرنے کے لئے ہے کہ ان کے معبود انھیں جھٹلائیں تو ان کی حسرت و ذلّت اور زیادہ ہو۔

(۱۸ )  وہ عرض کریں گے  پاکی ہے  تجھ کو (ف ۳۲) ہمیں سزاوار (حق) نہ تھا کہ تیرے  سوا کسی اور کو مولیٰ  بنائیں (ف ۳۳) لیکن تو نے  انہیں اور ان کے  باپ داداؤں کو برتنے  دیا (ف ۳۴) یہاں تک کہ وہ تیری یاد بھول گئے  اور یہ لوگ تھے  ہی ہلاک ہونے  والے  (ف ۳۵)

۳۲               اس سے کہ کوئی تیرا شریک ہو۔

۳۳               تو ہم دوسرے کو کیا تیرے غیر کے معبود بنانے کا حکم دے سکتے تھے، ہم تیرے بندے ہیں۔

۳۴               اور انہیں اموال و اولاد و طولِ عمر و صحت و سلامت عنایت کی۔

۳۵               شقی، بعد ازیں کُفّار سے فرمایا جائے گا۔

(۱۹ )  تو اب معبودوں نے  تمہاری بات جھٹلا دی تو اب تم نہ عذاب پھیر سکو نہ اپنی مدد کر سکو اور تم میں جو ظالم ہے  ہم اسے  بڑا عذاب چکھائیں گے۔

(۲۰ )  اور ہم نے  تم سے  پہلے  جتنے  رسول بھیجے  سب ایسے  ہی تھے  کھانا کھاتے  اور بازاروں میں چلتے  (ف ۳۶) اور ہم نے  تم میں ایک کو دوسرے  کی جانچ کیا ہے  (ف ۳۷) اور اے  لوگو! کیا تم صبر کرو گے  (ف ۳۸) اور اے  محبوب! تمہارا رب دیکھتا ہے  (ف ۳۹)

۳۶               یہ کُفّار کے اس طعن کا جواب ہے جو انہوں نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پرکیا تھا کہ وہ بازاروں میں چلتے ہیں کھانا کھاتے ہیں یہاں بتایا گیا کہ یہ امور منافیِ نبوّت نہیں بلکہ یہ تمام انبیاء کی عادتِ مستمِرّہ تھی لہٰذا یہ طعن مَحض جہل و عناد ہے۔

۳۷               شانِ نُزول : شُرَفا جب اسلام لانے کا قصد کرتے تھے تو غُرَبا کو دیکھ کر یہ خیال کرتے کہ یہ ہم سے پہلے اسلام لا چکے ان کو ہم پر ایک فضیلت رہے گی بایں خیال وہ اسلام سے باز رہتے اور شُرَفا کے لئے غُرَبا آزمائش بن جاتے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت ابوجہل و ولید بن عقبہ اور عاص بن وائل سہمی اور نضر بن حارث کے حق میں نازِل ہوئی ان لوگوں نے حضرت ابو ذر و ابنِ مسعود و عمّار ابنِ یاسر و بلال وصہیب و عامر بن فہیرہ کو دیکھا کہ پہلے سے اسلام لائے ہیں تو غرور سے کہا کہ ہم بھی اسلام لے آئیں تو انہیں جیسے ہو جائیں گے تو ہم میں اور ان میں فرق کیا رہ جائے گا ۔

اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت فُقَراء مسلمین کی آزمائش میں نازِل ہوئی جن کا کُفّارِ قریش استہزاء کرتے تھے اور کہتے تھے کہ سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اِتّباع کرنے والے یہ لوگ ہیں جو ہمارے غلام اور ارذل ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازِل کی اور ان مؤمنین سے فرمایا۔ (خازن)۔

۳۸               اس فقر و شدت پر اور کُفّار کی اس بد گوئی پر۔

۳۹               اس کو جو صبر کرے اور اس کو جو بےصبری کرے۔

(۲۱) اور بولے  وہ جو (ف ۴۰) ہمارے  ملنے  کی امید نہیں رکھتے  ہم پر فرشتے  کیوں نہ اتارے  (ف ۴۱)  یا ہم اپنے  رب کو دیکھتے  (ف ۴۲) بیشک اپنے  جی میں بہت ہی اونچی کھینچی (سرکشی کی) اور بڑی سرکشی پر آئے  (ف ۴۳)

۴۰               کافِر ہیں حشر و بعث کے معتقد نہیں اسی لئے۔

۴۱               ہمارے لئے رسول بنا کر یا سیدِ عالم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوّت و رسالت کے گواہ بنا کر۔

۴۲               وہ خود ہمیں خبر دے دیتا کہ سیدِ عالَم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے رسول ہیں۔

۴۳               اور ان کا تکبُّر انتہا کو پہنچ گیا اور سرکشی حد سے گزر گئی کہ معجزات کا مشاہدہ کرنے کے بعد ملائکہ کے اپنے اوپر اترنے اور اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا سوال کیا۔

(۲۲) جس دن فرشتوں کو دیکھیں گے  (ف ۴۴) وہ دن مجرموں کی کوئی خوشی کا نہ ہو گا (ف ۴۵) اور کہیں گے  الٰہی ہم میں ان میں کوئی آڑ کر دے  رکی ہوئی (ف ۴۶)

۴۴               یعنی موت کے دن یا قیامت کے دن۔

۴۵               روزِ قیامت فرشتے مؤمنین کو بشارت سنائیں گے اور کُفّار سے کہیں گے تمہارے لئے کوئی خوشخبری نہیں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ فرشتے کہیں گے کہ مؤمن کے سوا کسی کے لئے جنّت میں داخل ہونا حلال نہیں اس لئے وہ دن کُفّار کے واسطے نہایت حسرت و اندوہ اور رنج و غم کا دن ہو گا۔

۴۶               اس کلمے سے وہ ملائکہ سے پناہ چاہیں گے۔

(۲۳) اور جو کچھ انہوں نے  کام کیے  تھے  (ف ۴۷) ہم نے  قصد فرما کر انہیں باریک باریک غبار، کے  بکھرے  ہوئے  ذرے  کر دیا کہ روزن کی دھوپ میں نظر آتے  ہیں (ف ۴۸)

۴۷               حالتِ کُفر میں مثل صلہ رحمی و مہمان داری و یتیم نوازی وغیرہ کے۔

۴۸               نہ ہاتھ سے چھوئے جائیں نہ ان کا سایہ ہو۔ مراد یہ ہے کہ وہ اعمال باطل کر دیئے گئے ان کا کچھ ثمرہ اور کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اعمال کی مقبولیت کے لئے ایمان شرط ہے اور وہ انہیں میسّر نہ تھا اس کے بعد اہلِ جنّت کی فضیلت ارشاد ہوتی ہے۔

(۲۴)  جنت والوں کا اس دن اچھا ٹھکانا (ف ۴۹) اور حساب کے  دوپہر کے  بعد اچھی آرام کی جگہ۔

۴۹               اور ان کی قرار گاہ ان مغرور متکبِّر مشرکوں سے بلند و بالا بہتر و اعلیٰ۔

(۲۵) اور جس دن پھٹ جائے  گا آسمان بادلوں سے  اور فرشتے  اتارے  جائیں گے  پوری طرح (ف ۵۰)

۵۰               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا آسمانِ دنیا پھٹے گا اور وہاں کے رہنے والے (فرشتے) اتریں گے اور وہ تمام اہلِ زمین سے زیادہ ہیں جن و انس سب سے پھر دوسرا آسمان پھٹے گا وہاں کے رہنے والے اتریں گے وہ آسمانِ دنیا کے رہنے والوں سے اور جن و انس سب سے زیادہ ہیں اسی طرح آسمان پھٹتے جائیں گے اور ہر آسمان والوں کی تعداد اپنے ماتحتوں سے زیادہ ہے یہاں تک کہ ساتواں آسمان پھٹے گا پھر کرّوبی اتریں گے پھر حاملینِ عرش اور یہ روزِ قیامت ہو گا۔

(۲۶) اس دن سچی بادشاہی رحمن کی ہے، اور وہ دن کافروں پر سخت ہے  (ف ۵۱)

۵۱               اور اللہ کے فضل سے مسلمانوں پر سہل۔ حدیث شریف میں ہے کہ قیامت کا دن مسلمانوں پر آسان کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ ان کے لئے ایک فرض نماز سے ہلکا ہو گا جو دنیا میں پڑھی تھی۔

(۲۷) اور جس دن ظالم اپنے  ہاتھ چبا چبا لے  گا (ف ۵۲) کہ ہائے  کسی طرح سے  میں نے  رسول کے  ساتھ راہ لی ہوتی، (ف ۵۳)

۵۲               حسرت و ندامت سے۔ یہ حال اگرچہ کُفّار کے لئے عام ہے مگر عقبہ بن ابی معیط سے اس کا خاص تعلق ہے۔ شانِ نُزول : عقبہ بن ابی معیط اُبَیْ بن خلف کا گہرا دوست تھا حضور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمانے سے اس نے لَآاِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ کی شہادت دی اور اس کے بعد ابی بن خلف کے زور ڈالنے سے پھر مرتَد ہو گیا اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو مقتول ہونے کی خبر دی چنانچہ بدر میں مارا گیا۔ یہ آیت اس کے حق میں نازِل ہوئی کہ روزِ قیامت اس کو انتہا درجہ کی حسرت و ندامت ہو گی اس حسرت میں وہ اپنے ہاتھ چاب چاب لے گا۔

۵۳               جنّت و نجات کی اور ان کا اِتّباع کیا ہوتا اور ان کی ہدایت قبول کی ہوتی۔

(۲۸) وائے  خرابی میری ہائے  کسی طرح میں نے  فلانے  کو دوست نہ بنایا ہوتا۔

(۲۹) بیشک اس نے  مجھے  بہکا دیا میرے  پاس آئی ہوئی نصیحت سے  (ف ۵۴) اور شیطان آدمی کو بے  مدد چھوڑ دیتا ہے  (ف ۵۵)

۵۴               یعنی قرآن و ایمان سے۔

۵۵               اور بلا و عذاب نازِل ہونے کے وقت اس سے علیٰحدگی کرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ابوداؤد و ترمذی میں ایک حدیث مروی ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے تو دیکھنا چاہئیے کس کو دوست بناتا ہے اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہم نشینی نہ کرو مگر ایمان دار کے ساتھ اور کھانا نہ کھلاؤ مگر پرہیزگار کو۔

مسئلہ : بے دین اور بد مذہب کی دوستی اور اس کے ساتھ صحبت و اختلاط اور اُلفت و احترام ممنوع ہے۔

(۳۰) اور رسول نے  عرض کی کہ اے  میرے  رب! میری قوم نے  اس قرآن کو چھوڑنے  کے  قابل ٹھہرایا (ف ۵۶)

۵۶               کسی نے اس کو سحر کہا کسی نے شعر اور وہ لوگ ایمان لانے سے محروم رہے اس پر اللہ تعالیٰ نے حضور کو تسلی دی اور آپ سے مدد کا وعدہ فرمایا جیسا کہ آگے ارشاد ہوتا ہے۔

(۳۱) اور اسی طرح ہم نے  ہر نبی کے  لیے  دشمن بنا دیے  تھے  مجرم لوگ (ف ۵۷) اور تمہارا رب کافی ہے  ہدایت کرنے  اور مدد دینے  کو۔

۵۷               یعنی انبیاء کے ساتھ بدنصیبوں کا یہی معمول رہا ہے۔

(۳۲) اور کافر بولے  قرآن ان پر ایک ساتھ کیوں نہ اتار دیا (ف ۵۸) ہم نے  یونہی بتدریج سے  اتارا ہے  کہ اس سے  تمہارا دل مضبوط کریں (ف ۵۹) اور ہم نے  اسے  ٹھہر ٹھہر  کر پڑھا (ف ۶۰)

۵۸               جیسے کہ توریت و انجیل و زبور میں سے ہر ایک کتاب ایک ساتھ اتری تھی۔ کُفّار کا یہ اعتراض بالکل فضول اور مہمل ہے کیونکہ قرآنِ کریم کا معجِزہ و محتج بہٖ ہونا ہر حال میں یکساں ہے چاہے یکبارگی نازِل ہو یا بتدریج بلکہ بتدریج نازِل فرمانے میں اس کے اعجاز کا اور بھی کامل اظہار ہے کہ جب ایک آیت نازِل ہوئی اور تحدّی کی گئی اور خَلق کا اس کے مثل بنانے سے عاجز ہونا ظاہر ہوا پھر دوسری اتری اسی طرح اس کا اعجاز ظاہر ہوا اس طرح برابر آیت آیت ہو کر قرآنِ پاک نازِل ہوتا رہا اور ہر ہر دم اس کی بے مثالی اور خَلق کی عاجزی ظاہر ہوتی رہی غرض کُفّار کا اعتراض مَحض لغو و بے معنیٰ ہے، آیت میں اللہ تعالیٰ بتدریج نازِل فرمانے کی حکمت ظاہر فرماتا ہے۔

۵۹               اور پیام کا سلسلہ جاری رہنے سے آپ کے قلبِ مبارک کو تسکین ہوتی رہے اور کُفّار کو ہر ہر موقع پر جواب ملتے رہیں علاوہ بریں یہ بھی فائدہ ہے کہ اس کا حفظ سہل اور آسان ہو۔

۶۰               بہ زبانِ جبریل تھوڑا تھوڑا بیس یا تئیس برس کی مدّت میں یا یہ معنیٰ ہیں کہ ہم نے آیت کے بعد آیت بتدریج نازِل فرمائی اور بعض نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں قراءت میں ترتیل کرنے یعنی ٹھہر ٹھہر کر بہ اطمینان پڑھنے اور قرآن شریف کو اچھی طرح ادا کرنے کا حکم فرمایا جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہوا وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً ۔

(۳۳) اور وہ کوئی کہاوت تمہارے  پاس نہ لائیں گے  (ف ۶۱) مگر ہم حق اور اس سے  بہتر بیان لے  آئیں گے۔

۶۱               یعنی مشرکین آپ کے دین کے خلاف یا آپ کی نبوّت میں قدح کرنے والا کوئی سوال پیش نہ کر سکیں گے۔

(۳۴) وہ جو جہنم کی طرف ہانکے  جائیں گے  اپنے  منہ کے  بل ان کا ٹھکانا سب سے  برا  (ف ۶۲) اور وہ سب سے  گمراہ

۶۲               حدیث شریف میں ہے کہ آدمی روزِ قیامت تین طریقے پر اٹھائے جائیں گے ایک گروہ سواریوں پر، ایک گروہ پیادہ پا اور ایک جماعت منہ کے بل گھسٹتی، عرض کیا گیا یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ منہ کے بل کیسے چلیں گے ؟ فرمایا جس نے پاؤں پر چلایا ہے وہی منہ کے بل چلائے گا۔

(۳۵) اور بیشک ہم نے  موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی اور اس کے  بھائی ہارون کو وزیر کیا۔

(۳۶) تو ہم نے  فرمایا تم دونوں جاؤ اس قوم کی طرف جس نے  ہماری آیتیں جھٹلائیں (ف ۶۳) پھر ہم نے  انہیں تباہ کر کے  ہلاک کر دیا۔

۶۳               یعنی قومِ فرعون کی طرف چنانچہ وہ دونوں حضرات ان کی طرف گئے اور انہیں خدا کا خوف دلایا اور اپنی رسالت کی تبلیغ کی لیکن ان بدبختوں نے ان حضرات کو جھٹلایا۔

(۳۷) اور نوح کی قوم کو (ف ۶۴) جب انہوں نے  رسولوں کو جھٹلایا (ف ۶۵) ہم نے  ان کو ڈبو دیا اور انہیں لوگوں کے  لیے  نشانی کر دیا (ف ۶۶) اور ہم نے  ظالموں کے  لیے  دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

۶۴               بھی ہلاک کر دیا۔

۶۵               یعنی حضرت نوح اور حضرت ادریس کو اور حضرت شیث کو یا یہ بات ہے کہ ایک رسول کی تکذیب تمام رسولوں کی تکذیب ہے تو جب انہوں نے حضرت نوح کو جھٹلایا تو سب رسولوں کو جھٹلایا۔

۶۶               کہ بعد والوں کے لئے عبرت ہوں۔

(۳۸) اور عاد اور ثمود (ف ۶۷) اور کنوئیں والوں کو (ف ۶۸) اور ان کے  بیچ میں بہت سی سنگتیں (قومیں ) (ف ۶۹)

۶۷               اور عاد حضرت ہود علیہ السلام کی قوم اور ثمود حضرت صالح علیہ السلام کی قوم ان دونوں قوموں کو بھی ہلاک کیا۔

۶۸               یہ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم تھی جو بُت پرستی کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف حضرت شعیب علیہ السلام کو بھیجا آپ نے انہیں اسلام کی دعوت دی انہوں نے سرکشی کی حضرت شعیب علیہ السلام کی تکذیب کی اور آپ کو ایذا دی، ان لوگوں کے مکان کنوئیں کے گرد تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں ہلاک کیا اور یہ تمام قوم مع اپنے مکانوں کے اس کنوئیں کے ساتھ زمین میں دھنس گئی۔ اس کے علاوہ اور اقوال بھی ہیں۔

۶۹               یعنی قومِ عاد و ثمود اور کنوئیں والوں کے درمیان میں بہت سی اُمّتیں ہیں جن کو انبیاء کی تکذیب کرنے کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے ہلاک کیا۔

(۳۹) اور ہم نے  سب سے  مثالیں بیان فرمائیں (ف ۷۰) اور سب کو تباہ کر کے  مٹا دیا۔

۷۰               اور حُجّتیں قائم کیں اور ان میں سے کسی کو بغیر اِنذار ہلاک نہ کیا۔

(۴۰) اور ضرور یہ (ف ۷۱) ہو آئے  ہیں اس بستی پر جس پر برا برساؤ  برسا تھا (ف ۷۲) تو کیا یہ اسے  دیکھتے  نہ تھے  (ف ۷۳) بلکہ انہیں جی اٹھنے  کی امید تھی ہی نہیں (ف ۷۴)

۷۱               یعنی کُفّارِ مکّہ اپنی تجارتوں میں شام کے سفر کرتے ہوئے بار بار۔

۷۲               اس بستی سے مراد سدوم ہے جو قومِ لوط کی پانچ بستیوں میں سب سے بڑی بستی تھی ان بستیوں میں ایک سب سے چھوٹی بستی کے لوگ تو اس خبیث بدکاری کے عامل نہ تھے، جس میں باقی چار بستیوں کے لوگ مبتلا تھے اسی لئے انہوں نے نجات پائی اور وہ چار بستیاں اپنی بد عملی کے باعث آسمان سے پتّھر برسا کر ہلاک کر دی گئیں۔

۷۳               کہ عبرت پکڑ تے اور ایمان لاتے۔

۷۴               یعنی مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کے قائل نہ تھی کہ انہیں آخرت کے ثواب و عذاب کی پرواہ ہوتی۔

(۴۱) اور جب تمہیں دیکھتے  ہیں تو تمہیں نہیں ٹھہراتے  مگر ٹھٹھا (ف ۷۵) کیا یہ ہیں جن کو اللہ نے  رسول بنا کر بھیجا، (۴۲)  قریب تھا کہ یہ ہمیں ہمارے  خداؤں سے  بہکا دیں اگر ہم ان پر صبر نہ کرتے  (ف ۷۶) اور اب جانا چاہتے  ہیں جس دن عذاب دیکھیں گے  (ف ۷۷) کہ کون گمراہ تھا (ف ۷۸)

۷۵               اور کہتے ہیں۔

۷۶               اس سے معلوم ہوا کہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت اور آپ کے اظہارِ معجزات نے کُفّار پر اتنا اثر کیا تھا اور دینِ حق کو اس قدر واضح کر دیا تھا کہ خود کُفّار کو اقرار ہے کہ اگر وہ اپنی ہٹ پر جمے نہ رہتے تو قریب تھا کہ بُت پرستی چھوڑ دیں اور دینِ اسلام اختیار کریں یعنی دینِ اسلام کی حقانیت ان پر خوب واضح ہو چکی تھی اور شکوک و شبہات مٹا ڈالے گئے تھے لیکن وہ اپنی ہٹ اور ضد کی وجہ سے محروم رہے۔

۷۷               آخرت میں۔

۷۸               یہ اس کا جواب ہے کہ کُفّار نے یہ کہا تھا کہ قریب ہے کہ یہ ہمیں ہمارے خداؤں سے بہکا دیں، یہاں بتایا گیا کہ بہکے ہوئے تم خود ہو اور آخرت میں یہ تم کو خود معلوم ہو جائے گا اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف بہکانے کی نسبت مَحض بےجا ہے۔

(۴۳) کیا تم نے  اسے  دیکھا جس نے  اپنی جی کی خواہش کو اپنا خدا بنا لیا (ف ۷۹) تو کیا تم اس کی نگہبانی کا  ذمہ لو گے  (ف ۸۰)

۷۹               اور اپنی خواہشِ نفس کو پُوجنے لگا اسی کا مطیع ہو گیا وہ ہدایت کس طرح قبول کرے گا۔ مروی ہے کہ زمانۂ جاہلیت کے لوگ ایک پتّھر کو پُوجتے تھے اور جب کہیں انہیں کوئی دوسرا پتھر اس سے اچھا نظر آتا تو پہلے کو پھینک دیتے اور دوسرے کو پوجنے لگتے۔

۸۰               کہ خواہش پرستی سے روک دو۔

(۴۴) یا یہ سمجھتے  ہو کہ ان میں بہت کچھ سنتے  یا سمجھتے  ہیں (ف ۸۱) وہ تو نہیں مگر جیسے  چوپائے  بلکہ ان سے  بھی بدتر گمراہ (ف ۸۲)

۸۱               یعنی وہ اپنے شدتِ عناد سے نہ آپ کی بات سنتے ہیں نہ دلائل و براہین کو سمجھتے ہیں بہرے اور ناسمجھ بنے ہوئے ہیں۔

۸۲               کیونکہ چوپائے بھی اپنے ربّ کی تسبیح کرتے ہیں اور جو انہیں کھانے کو دے اس کے مطیع رہتے ہیں اور احسان کرنے والے کو پہچانتے ہیں اور تکلیف دینے والے سے گھبراتے ہیں، نافع کی طلب کرتے ہیں، مُضِر سے بچتے ہیں، چراگاہوں کی راہیں جانتے ہیں، یہ کُفّار ان سے بھی بدتر ہیں کہ نہ ربّ کی اطاعت کرتے ہیں نہ اس کے احسان کو پہچانتے ہیں، نہ شیطان جیسے دشمن کی ضرر رسانی کو سمجھتے ہیں، نہ ثواب جیسی عظیم المنفعت چیز کے طالب ہیں، نہ عذاب جیسے سخت مُضِر مہلکہ سے بچتے ہیں۔

(۴۵) اے  محبوب! کیا تم نے  اپنے  رب کو نہ دیکھا (ف ۸۳) کہ کیسا پھیلا سایہ (ف ۸۴) اور اگر چاہتا تو اسے  ٹھہرایا ہوا کر دیتا (ف ۸۵) پھر ہم نے  سورج کو اس پر دلیل کیا۔

۸۳               کہ اس کی صنعت و قدرت کیسی عجیب ہے۔

۸۴               صبحِ صادق کے طلوع کے بعد سے آفتاب کے طلوع تک کہ اس وقت تمام زمین میں سایہ ہی سایہ ہوتا ہے نہ دھوپ ہے نہ اندھیرا ہے۔

۸۵               کہ آفتاب کے طلوع سے بھی زائل نہ ہوتا۔

(۴۶) پھر ہم نے  آہستہ آہستہ اسے  اپنی طرف سمیٹا (ف ۸۶)

۸۶               کہ طلوع کے بعد آفتاب جتنا اونچا ہوتا گیا سایہ سمٹتا گیا۔

(۴۷) اور وہی ہے  جس نے  رات کو تمہارے  لیے  پردہ کیا  اور نیند کو آرام اور دن بنایا اٹھنے  کے  لیے  (ف ۸۷)

۸۷               کہ اس میں روزی تلاش کرو اور کاموں میں مشغول ہو۔ حضرت لقمان نے اپنے فرزند سے فرمایا جیسے سوتے ہو پھر اٹھتے ہو ایسے ہی مرو گے اور موت کے بعد پھر اٹھو گے۔

(۴۸)  اور وہی ہے  جس نے  ہوائیں بھیجیں اپنی رحمت کے  آگے  مژدہ سنائی ہوئی (ف ۸۸) اور ہم نے  آسمان سے  پانی اتارا پاک کرنے  والا۔

۸۸               یہاں رحمت سے مراد بارش ہے۔

(۴۹) تاکہ ہم ا سسے  زندہ کریں کسی مردہ شہر کو (ف ۸۹) اور اسے  پلائیں اپنے  بنائے  ہوئے  بہت سے  چوپائے  اور آدمیوں کو۔

۸۹               جہاں کی زمین خشکی سے بے جان ہو گئی۔

(۵۰) اور بیشک ہم نے  ان میں پانی کے  پھیرے  رکھے  (ف ۹۰) کہ وہ  دھیان کریں (ف ۹۱) تو بہت لوگوں نے  نہ مانا مگر  ناشکری کرنا۔

۹۰               کہ کبھی کسی شہر میں بارش ہو کبھی کسی میں، کبھی کہیں زیادہ ہو کبھی کہیں، مختلف طور پر حسبِ اقتضائے حکمت۔ ایک حدیث میں ہے کہ آسمان سے روز و شب کی تمام ساعتوں میں بارش ہوتی رہتی ہے اللہ تعالیٰ اسے جس خطہ کی جانب چاہتا ہے پھیرتا ہے اور جس زمین کو چاہتا ہے سیراب کرتا ہے۔

۹۱               اور اللہ تعالیٰ کی قدرت و نعمت میں غور کریں۔

(۵۱) اور ہم چاہتے  تو ہر بستی میں ایک ڈر سنانے  والا بھیجتے  (ف ۹۲)

۹۲               اور آپ پر سے اِنذار کا بار کم کر دیتے لیکن ہم نے تمام بستیوں کے اِنذار کا بار آپ ہی پر رکھا تاکہ آپ تمام جہان کے رسول ہو کر کُل رسولوں کی فضیلتوں کے جامع ہوں اور نبوّت آپ پر ختم ہو کہ آپ کے بعد پھر کوئی نبی نہ ہو۔

(۵۲) تو کافروں کا کہا نہ مان اور اس قرآن سے  ان پر جہاد کر بڑا جہاد۔

(۵۳)  اور وہی ہے  جس نے  ملے  ہوئے  رواں کیے  دو سمندر یہ میٹھا ہے  نہایت شیریں اور یہ کھاری ہے  نہایت تلخ اور ان کے  بیچ میں پردہ رکھا اور  روکی ہوئی  آڑ (ف ۹۳)

۹۳               کہ نہ میٹھا کھاری ہو نہ کھاری میٹھا، نہ کوئی کسی کے ذائقہ کو بدل سکے جیسے کہ دجلہ دریائے شور میں میلوں تک چلا جاتا ہے اور اس کے ذائقہ میں کوئی تغیر نہیں آتا عجب شانِ الٰہی ہے۔

(۵۴) اور وہی ہے  جس نے  پانی سے  (ف ۹۴) بنایا آدمی پھر اس کے  رشتے  اور سسرال مقرر کی (ف ۹۵) اور تمہارا رب قدرت والا ہے  (ف ۹۶)

۹۴               یعنی نطفہ سے۔

۹۵               کہ نسل چلے۔

۹۶               کہ اس نے ایک نطفہ سے دو قسم کے انسان پیدا کئے مذکر اور مؤنث پھر بھی کافِروں کا یہ حال ہے کہ اس پر ایمان نہیں لاتے۔

(۵۵) اور اللہ کے  سوا  ایسوں کو پوجتے  ہیں (ف ۹۷) جو ان کا بھلا برا کچھ نہ کریں اور کافر اپنے  رب کے  مقابل شیطان کو مدد دیتا ہے  (ف ۹۸)

۹۷               یعنی بُتوں کو۔

۹۸               کیونکہ بُت پرستی کرنا شیطان کو مدد دینا ہے۔

(۵۶) اور ہم نے  تمہیں نہ بھیجا مگر (ف ۹۹) خوشی اور (ف ۱۰۰) ڈر سناتا۔

۹۹               ایمان و طاعت پر جنّت کی۔

۱۰۰             کُفر و معصیت پر عذابِ جہنّم کا۔

(۵۷) تم فرماؤ میں اس (ف ۱۰۱) پر تم سے  کچھ اجرت نہیں مانگتا  مگر جو چاہے  کہ اپنے  رب کی طرف راہ لے، (ف ۱۰۲)

۱۰۱             تبلیغ و ارشاد۔

۱۰۲             اور اس کا قُرب اور اس کی رضا حاصل کرے مراد یہ ہے کہ ایمانداروں کا ایمان لانا اور ان کا طاعتِ الٰہی میں مشغول ہونا ہی میرا اجر ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ مجھے اس پر جزا عطا فرمائے گا اس لئے کہ صُلَحائے اُمّت کے ایمان اور ان کی نیکیوں کے ثواب انہیں بھی ملتے ہیں اور ان کے انبیاء کو جن کی ہدایت سے وہ اس رتبہ پر پہنچے۔

(۵۸) اور بھروسہ کرو اس زندہ پر جو کبھی نہ مرے  گا (ف ۱۰۳) اور اسے  سراہتے  ہوئے  اس کی پاکی بولو (ف ۱۰۴) اور وہی کافی ہے  اپنے  بندوں کے  گناہوں پر خبردار (ف ۱۰۵)

۱۰۳             اسی پر بھروسہ کرنا چاہئے کیونکہ مرنے والے پر بھروسہ کرنا عاقل کی شان نہیں۔

۱۰۴             اس کی تسبیح و تحمید کرو اس کی طاعت اور شکر بجا لاؤ۔

۱۰۵             نہ اس سے کسی کا گناہ چھپے نہ کوئی اس کی گرفت سے اپنے کو بچا سکے۔

(۵۹) جس نے  آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے  درمیان ہے  چھ دن میں بنائے   (ف ۱۰۶) پھر  عرش پر استواء فرمایا جیسا کہ اس کی شان کے  لائق ہے  (ف ۱۰۷) وہ بڑی مہر والا تو کسی جاننے  والے  سے  اس کی تعریف پوچھ (ف ۱۰۸) (۶۰) اور جب ان سے  کہا جائے  (ف ۱۰۹) رحمن کو سجدہ کرو کہتے  ہیں رحمن کیا ہے، کیا ہم سجدہ کر لیں جسے  تم کہو (ف ۱۱۰) اور اس حکم نے  انہیں اور بدکنا بڑھایا (ف ۱۱۱)  السجدۃ ۔۷

۱۰۶             یعنی اتنی مقدار میں کیونکہ لیل و نہار اور آفتاب تو تھے ہی نہیں اور اتنی مقدار میں پیدا کرنا اپنی مخلوق کو آہستگی اور اطمینان کی تعلیم کے لئے ہے ورنہ وہ ایک لمحہ میں سب کچھ پیدا کر دینے پر قادر ہے۔

۱۰۷             سلف کا مذہب یہ ہے کہ استواء اور اس کے امثال جو وارد ہوئے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کی کیفیت کے درپے نہیں ہوتے اس کو اللہ جانے۔ بعض مفسِّرین استواء کو بلندی اور برتری کے معنیٰ میں لیتے ہیں اور بعض استیلا کے معنیٰ میں لیکن قولِ اول ہی اسلم و اقویٰ ہے۔

۱۰۸             اس میں انسان کو خِطاب ہے کہ حضرت رحمٰن کے صفات مردِ عارف سے دریافت کرے۔

۱۰۹             یعنی جب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مشرکین سے فرمائیں کہ۔

۱۱۰             اس سے ان کا مقصد یہ ہے کہ رحمٰن کو جانتے نہیں اور یہ باطل ہے جو انہوں نے براہِ عناد کہا کیونکہ لغتِ عرب کا جاننے والا خوب جانتا ہے کہ رحمٰن کے معنیٰ نہایت رحمت والا ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے۔

۱۱۱             یعنی سجدہ کا حکم ان کے لئے اور زیادہ ایمان سے دوری کا باعث ہوا۔

(۶۱) بڑی برکت والا ہے  وہ جس نے  آسمان میں برج بنائے  (ف ۱۱۲) اور ان میں چراغ رکھا (ف ۱۱۳) اور چمکتا چاند۔

۱۱۲             حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ بروج سے کواکبِ سبعہ سیّارہ کے منازل مراد ہیں جن کی تعداد بارہ۱۲ ہے (۱) حمل (۲) ثور (۳) جوزہ (۴) سرطان (۵) اسد (۶) سنبلہ (۷) میزان (۸) عقرب (۹) قوس (۱۰) جدی (۱۱) دلو (۱۲) حوت۔

۱۱۳             چراغ سے یہاں آفتاب مراد ہے۔

(۶۲) اور وہی ہے  جس نے  رات اور دن کی بدلی رکھی (ف ۱۱۴) اس کے  لیے  جو دھیان کرنا چاہے  یا شکر کا  ارادہ کرے۔

۱۱۴             کہ ان میں ایک کے بعد دوسرا آتا ہے اور اس کا قائم مقام ہوتا ہے کہ جس کا عمل رات یا دن میں سے کسی ایک میں قضا ہو جائے تو دوسرے میں ادا کرے ایسا ہی فرمایا حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے اور رات اور دن کا ایک دوسرے کے بعد آنا اور قائم مقام ہونا اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کی دلیل ہے۔

(۶۳) اور رحمن کے  وہ بندے  کہ زمین پر آہستہ چلتے  ہیں (ف ۱۱۵) اور جب جاہل ان سے  بات کرتے  ہیں (ف ۱۱۶) تو کہتے  ہیں  بس سلام (ف ۱۱۷)

۱۱۵             اطمینان و وقار کے ساتھ متواضعانہ شان سے نہ کہ متکبِّرانہ طریقہ پر، جُوتے کھٹکھٹاتے، پاؤں زور سے مارتے، اتراتے کہ یہ متکبِّرین کی شان ہے اور شرع نے اس کو منع فرمایا۔

۱۱۶             اور کوئی ناگوار کلمہ یا بےہودہ یا خلافِ ادب و تہذیب بات کہتے ہیں۔

۱۱۷             یہ سلامِ متارکت ہے یعنی جاہلوں کے ساتھ مجادلہ کرنے سے اِعراض کرتے ہیں یا یہ معنیٰ ہیں کہ ایسی بات کہتے ہیں جو درست ہو اور اس میں ایذا اور گناہ سے سالم رہیں۔ حسن بصری نے فرمایا کہ یہ تو ان بندوں کے دن کا حال ہے اور ان کی رات کا بیان آگے آتا ہے، مراد یہ ہے کہ ان کی مجلسی زندگی اور خَلق کے ساتھ معاملہ ایسا پاکیزہ ہے اور ان کی خلوت کی زندگانی اور حق کے ساتھ رابطہ یہ ہے جو آگے بیان فرمایا جاتا ہے۔

(۶۴) اور وہ جو رات کاٹتے  ہیں اپنے  رب کے  لیے  سجدے  اور قیام میں (ف ۱۱۸)

۱۱۸             یعنی نماز اور عبادت میں شب بیداری کرتے ہیں اور رات اپنے ربّ کی عبادت میں گزارتے ہیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے کرم سے تھوڑی عبادت والوں کو بھی شب بیداری کا ثواب عطا فرماتا ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ جس کسی نے بعدِ عشاء دو رکعت یا زیادہ نفل پڑھے وہ شب بیداری کرنے والوں میں داخل ہے۔

مسلم شریف میں حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے جس نے عشا ء کی نماز بجماعت ادا کی اس نے نصف شب کے قیام کا ثواب پایا اور جس نے فجر بھی با جماعت ادا کی وہ تمام شب کے عبادت کرنے والے کی مثل ہے۔

(۶۵) اور وہ جو عرض کرتے  ہیں اے  ہمارے  رب! ہم سے  پھیر دے  جہنم کا عذاب، بیشک اس کا عذاب گلے  کا غل (پھندا) ہے  (ف ۱۱۹)

۱۱۹             یعنی لازم جُدا نہ ہونے والا۔ اس آیت میں ان بندوں کی شب بیداری اور عبادت کا ذکر فرمانے کے بعد ان کی اس دعا کا بیان کیا اس سے یہ اظہار مقصود ہے کہ وہ باوجود کثرتِ عبادت کے اللہ تعالیٰ کا خوف رکھتے ہیں اور اس کے حضور تضرُّع کرتے ہیں۔

(۶۶) بیشک وہ بہت ہی بری ٹھہرنے  کی جگہ ہے۔

(۶۷) اور وہ کہ جب خرچ کرتے  ہیں نہ حد سے  بڑھیں اور نہ تنگی کریں (ف ۱۲۰) اور ان دونوں کے  بیچ اعتدال پر رہیں (ف ۱۲۱)

۱۲۰             اسراف معصیت میں خرچ کرنے کو کہتے ہیں۔ ایک بزرگ نے کہا کہ اسراف میں بھلائی نہیں، دوسرے بزرگ نے کہا نیکی میں اسراف ہی نہیں اور تنگی کرنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقرر کئے ہوئے حقوق کے ادا کرنے میں کمی کرے یہی حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا۔ حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے کسی حق کو منع کیا اس نے اِقتار کیا یعنی تنگی کی اور جس نے ناحق میں خرچ کیا اس نے اسراف کیا یہاں ان بندوں کے خرچ کرنے کا حال ذکر فرمایا جاتا ہے کہ وہ اسراف و اِقتار کے دونوں مذموم طریقوں سے بچتے ہیں۔

۱۲۱             عبدالملک بن مروان نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اپنی بیٹی بیاہتے وقت خرچ کا حال دریافت کیا تو حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نیکی دو بدیوں کے درمیان ہے اس سے مراد یہ تھی کہ خرچ میں اعتدال نیکی ہے اور وہ اسراف و اقتار کے درمیان ہے جو دونوں بدیاں ہیں اس سے عبدالملک نے پہچان لیا کہ وہ اس آیت کے مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مفسِّرین کا قول ہے کہ اس آیت میں جن حضرات کا ذکر ہے وہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحابِ کبار ہیں جو نہ لذت و تنعُّم کے لئے کھاتے، نہ خوبصورتی اور زینت کے لئے پہنتے، بھوک روکنا، ستر چھپانا، سردی گرمی کی تکلیف سے بچنا اتنا ان کا مقصد تھا۔

(۶۸) اور وہ جو اللہ کے  ساتھ کسی دوسرے  معبود کو نہیں پوجتے  (ف ۱۲۲) اور اس جان کو جس کی اللہ نے  حرمت رکھی (ف ۱۲۳) ناحق نہیں مارتے  اور بدکاری نہیں کرتے  (ف ۱۲۴) اور جو یہ کام کرے  وہ سزا پائے  گا۔

۱۲۲             شرک سے بری اور بیزار ہیں۔

۱۲۳             اور اس کا خون مباح نہ کیا جیسے کہ مؤمن و معاہد اس کو۔

۱۲۴             صالحین سے ان کبائر کی نفی فرمانے میں کُفّار پر تعریض ہے جو ان بدیوں میں گرفتار تھے۔

(۶۹) بڑھایا جائے  گا اس پر عذابِ قیامت کے  دن (ف ۱۲۵) اور ہمیشہ اس میں ذلت سے  رہے  گا۔

۱۲۵             یعنی وہ شرک کے عذاب میں بھی گرفتار ہو گا اور ان معاصی کا عذاب اس عذاب پر اور زیادہ کیا جائے گا۔

(۷۰) مگر جو توبہ کرے  (ف ۱۲۶) اور ایمان لائے  (ف ۱۲۷) اور اچھا کام کرے  (ف ۱۲۷) اور اچھا کام کرے  (ف ۱۲۸) تو ایسوں کی برائیوں کو اللہ بھلائیوں سے  بدل دے   گا (ف ۱۲۹) اور اللہ بخشنے  والا مہربان ہے۔

۱۲۶             شرک و کبائر سے۔

۱۲۷             سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر۔

۱۲۸             یعنی بعدِ توبہ نیکی اختیار کرے۔

۱۲۹             یعنی بدی کرنے کے بعد نیکی کی توفیق دے کر یا یہ معنیٰ کہ بدیوں کو توبہ سے مٹا دے گا اور ان کی جگہ ایمان و طاعت وغیرہ نیکیاں ثبت فرمائے گا۔ (مدارک) مسلم کی حدیث میں ہے کہ روزِ قیامت ایک شخص حاضر کیا جائے گا ملائکہ بحکمِ الٰہی اس کے صغیرہ گناہ ایک ایک کر کے اس کو یاد دلاتے جائیں گے وہ اقرار کرتا جائے گا اور اپنے بڑے گناہوں کے پیش ہونے سے ڈرتا ہو گا اس کے بعد کہا جائے گا کہ ہر ایک بدی کے عوض تجھ کو نیکی دی گئی، یہ بیان فرماتے ہوئے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اللہ تعالیٰ کی بندہ نوازی اور اس کی شانِ کرم پر خوشی ہوئی اور چہرۂ اقدس پر سرور سے تبسّم کے آثار نمایاں ہوئے۔

(۷۱) اور جو توبہ کرے  اور اچھا کام کرے  تو وہ اللہ کی طرف رجوع لایا جیسی چاہیے  تھی۔

(۷۲) اور جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے  (ف ۱۳۰) اور جب بیہودہ پر گذرتے  ہیں اپنی عزت سنبھالے  گزر جاتے  ہیں، (ف ۱۳۱)

۱۳۰             اور جھوٹوں کی مجلس سے علیٰحدہ رہتے ہیں اور ان کے ساتھ مخالطت نہیں کرتے۔

۱۳۱             اور اپنے کو لہو و باطل سے ملوث نہیں ہونے دیتے ایسی مجالس سے اعراض کرتے ہیں۔

(۷۳) اور وہ کہ جب کہ انہیں ان کے  رب کی آیتیں یاد د لائی جائیں تو ان پر (ف ۱۳۲) بہرے  اندھے  ہو کر نہیں گرتے  (ف ۱۳۳)

۱۳۲             بہ طریقِ تغافُل۔

۱۳۳             کہ نہ سوچیں نہ سمجھیں بلکہ بگوشِ ہوش سنتے ہیں اور بچشمِ بصیرت دیکھتے ہیں اور اس نصیحت سے پند پذیر ہوتے ہیں نفع اٹھاتے ہیں اور ان آیتوں پر فرمانبردارانہ گرتے ہیں۔

(۷۴) اور وہ جو عرض کرتے  ہیں، اے  ہمارے  رب! ہمیں دے  ہماری بیبیوں اور  اولاد سے  آنکھوں کی  ٹھنڈک (ف ۱۳۴) اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا (ف ۱۳۵)

۱۳۴             یعنی فرحت و سرور۔ مراد یہ ہے کہ ہمیں بی بیاں اور اولاد نیک صالح متقی عطا فرما کہ ان کے حُسنِ عمل اور ان کی اطاعتِ خدا و رسول دیکھ کر ہماری آنکھیں ٹھنڈی اور دل خوش ہوں۔

۱۳۵             یعنی ہمیں ایسا پرہیزگار اور ایسا عابد و خدا پرست بنا کہ ہم پرہیزگاروں کی پیشوائی کے قابل ہوں اور وہ دینی امور میں ہماری اقتدا کریں۔

مسئلہ : بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ اس میں دلیل ہے کہ آدمی کو دینی پیشوائی اور سرداری کی رغبت و طلب چاہیئے ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے صالحین بندوں کے اوصاف ذکر فرمائے اس کے بعد ان کی جزا ذکر فرمائی جاتی ہے۔

(۷۵) ان کو جنت کا سب سے  اونچا بالا خانہ انعام ملے  گا بدلہ ان کے  صبر کا اور وہاں مجرے   اور سلام کے  ساتھ ان کی پیشوائی ہو گی (ف ۱۳۶)

۱۳۶             ملائکہ تحِیت و تسلیم کے ساتھ ان کی تکریم کریں گے یا اللہ عزوجل ان کی طرف سلام بھیجے گا۔

(۷۶) ہمیشہ اس میں رہیں گے، کیا ہی اچھی ٹھہرنے  اور بسنے  کی جگہ۔

(۷۷) تم فرماؤ (ف ۱۳۷) تمہاری کچھ قدر نہیں میرے  رب کے  یہاں اگر تم اسے  نہ پوجو تو تم نے  تو جھٹلایا (ف ۱۳۸) تو اب ہو گا وہ عذاب کہ لپٹ رہے  گا (ف ۱۳۹)

۱۳۷             اے سیدِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اہلِ مکہ سے کہ۔

۱۳۸             میرے رسول اور میری کتاب کو۔

۱۳۹             یعنی عذابِ دائم و ہلاکِ لازم۔