تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ النّبَإِ

۱ ۔۔۔      یعنی لوگ کس بات کا کھوج لگانے اور کس چیز کی تحقیق و تفتیش میں مشغول ہیں ۔ کیا ان میں ایسی استعداد ہے کہ بہت پوچھ پاچھ کرنے سے وہ چیز ان کی سمجھ میں آ جائے گی۔ ہرگز نہیں ۔ یا یہ مطلب ہے کہ کفار جو از راہِ انکار و استہزاء آپس میں ایک دوسرے سے نیز پیغمبر اور مومنین سے سوال کرتے ہیں کہ ہاں صاحب! وہ قیامت کب آئے گی؟ ابھی کیوں نہیں آ جاتی؟ جانتے ہو یہ کس چیز کی نسبت سوال کر رہے ہیں ؟ وہ بہت عظیم الشان چیز ہے جس کا علم ان کو عنقریب ہو جائے گا۔ جب اپنی آنکھ سے اس کے ہولناک مناظر دیکھیں گے۔

۳ ۔۔۔       یعنی قیامت کی خبر جس میں لوگوں کا اختلاف ہے، کوئی اس کے آنے پر یقین رکھتا ہے، کوئی منکر ہے کوئی شک میں پڑا ہے، کوئی کہتا ہے بدن اٹھے گا، کوئی کہتا ہے کہ سب عذاب و ثواب روح پر گزرے گا بدن سے کچھ تعلق نہیں ۔ الیٰ غیر ذٰلک من الاختلافات۔

۵ ۔۔۔      یعنی پیغمبروں نے ابتدائے دنیا سے آج تک بہت کچھ سمجھایا، مگر لوگ اپنے اختلافات اور پوچھ پاچھ سے ہرگز باز آنے والے نہیں ۔ اب قریب ہے کہ وہ ہولناک منظر ان کے سامنے آ جائے اس وقت جان لیں گے کہ قیامت کیا چیز ہے اور ان کے سوالات و اختلافات کی حیثیت کیا تھی۔

۶ ۔۔۔     جس پر سکون و اطمینان سے آرام کرتے اور کروٹیں بدلتے ہیں ۔

۷ ۔۔۔      جیسا کسی چیز میں میخ لگا دینے سے وہ چیز اپنی جگہ سے نہیں ملتی۔ ایسے ہی ابتداء میں زمین جو کانپتی اور لرزتی تھی، اللہ نے پہاڑ پیدا کر کے اس کے اضطراب اور کپکپی کو دور کیا۔گویا زمین کو ایک طرح کا سکون پہاڑوں سے حاصل ہوا۔

۸ ۔۔۔        یعنی مرد کے سکون و راحت کے لئے عورت کو اس کا جوڑا بنایا۔"و من ایاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنو ا الیھا۔" (روم۔ رکوع۳) یا ازواج سے مراد طرح طرح کی اشکال والوان وغیرہ ہوں ۔

۹ ۔۔۔      یعنی دن بھر کی دوڑ دھوپ سے تھک کر جب آدمی نیند لیتا ہے تو سب تعب اور تکان دور ہو جاتا ہے گویا نیند تو نام ہی سکون و استراحت کا ہے، آگے نیند کی مناسبت سے رات کا ذکر کرتے ہیں ۔

۱۰ ۔۔۔       جیسے آدمی کپڑا اوڑھ کر اپنے بدن کو چھپا لیتا ہے۔ اسی طرح رات کی تاریکی مخلوق کی پردہ داری کرتی ہے اور جو کام چھپانے کے لائق ہوں عموماً رات کے اندھیرے میں کئے جاتے ہیں ۔ اور حسی طور پر بھی شب کو کپڑا اوڑھنے کی ضرورت دن سے زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ نسبتاً وہ وقت خنکی اور ٹھنڈک کا ہوتا ہے۔

۱۱ ۔۔۔     یعنی عموماً کاروبار اور کمائی کے دھندے دن میں کئے جاتے ہیں جن کا مقصد یہ ہی ہے کہ اپنی اور اپنے بال بچوں کی حوائج کی طرف سے دل کو سکون و اطمینان نصیب ہو۔ آگے رات دن کی مناسبت سے آسمانوں اور سورج کا ذکر فرماتے ہیں ۔ یا یوں کہو کہ زمین کے مقابل آسمان کا بیان ہے۔

۱۲ ۔۔۔      یعنی سات آسمان بہت مضبوط بنائے۔ جن میں آج تک اس قدر مدت گزرنے کے باوجود کوئی رخنہ نہیں پڑا۔

۱۳ ۔۔۔      یعنی آفتاب جس میں روشنی اور گرمی دونوں وصف موجود ہیں ۔

۲: نچڑنے والی بدلیاں یا نچوڑنے والی ہوائیں ۔

۱۶ ۔۔۔       یعنی نہایت گنجان اور گھنے باغ، یا یہ مراد ہو کہ ایک ہی زمین میں مختلف قسم کے درخت اور باغ پیدا کئے۔

 (تنبیہ) قدرت کی عظیم الشان نشانیاں بیان فرما کر بتلا دیا کہ جو خدا ایسی قدرت و حکمت والا ہے، کیا اسے تمہارا دوسری مرتبہ پیدا کر دینا اور حساب و کتاب کے لئے اٹھانا کچھ مشکل ہو گا؟ اور کیا اس کی حکمت کے یہ بات منافی نہ ہو گی کہ اتنے بڑے کارخانہ کو یوں ہی غلط ملط بے نتیجہ پڑا چھوڑ دیا جائے۔ یقیناً دنیا کے اس طویل سلسلہ کا کوئی صاف نتیجہ اور انجام ہونا چاہیے اسی کو ہم " آخرت " کہتے ہیں ۔ جس طرح نیند کے بعد بیداری اور رات کے بعد دن آتا ہے، ایسے ہی سمجھ لو کہ دنیا کے خاتمہ پر آخرت کا آنا یقینی ہے۔

۱۷ ۔۔۔       فیصلہ کا دن وہ ہو گا جس میں نیک کو بد سے بالکلیہ الگ کر دیا جائے کہ کسی قسم کا اشتراک و اجتماع باقی نہ رہے ہر نیکی اپنے معدن میں اور ہر بدی اپنے مرکز پر جا پہنچے۔ ظاہر ہے کہ ایسا کامل امتیاز و افتراق اس دنیا میں نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ یہاں رہتے ہوئے زمین، آسمان، چاند، سورج، رات دن، سونا جاگنا، بارش، بادل، باغ، کھیت، اور بیوی بچے تمام نیکوں اور بدوں میں مشترک ہیں ہر کافر اور مسلم ان سامانوں سے یکساں منتفع ہوتا ہے۔ اس لئے ضرور ہے کہ "یوم الفصل"ایک دن موجودہ نظام عالم کے ختم کئے جانے کے بعد ہو۔ اس کا تعین اللہ کے علم میں ٹھہرا ہوا ہے۔

۱۸ ۔۔۔      یعنی کثرت سے الگ الگ جماعتیں اور ٹولیاں بن کر جن کی تقسیم ان کے ممتاز عقائد و اعمال کی بناء پر ہو گی۔

۱۹ ۔۔۔      یعنی آسمان پھٹ کر ایسا ہو جائے گا گویا دروازے ہی دروازے ہیں ۔ شاید اس کی طرف اشارہ ہے جو دوسری جگہ فرمایا۔ ویوم تشقق السماء بالغمام ونزل الملائکۃ تنزیلا۔ (فرقان۔ رکوع۳)۔

۲۰ ۔۔۔      جیسے چمکتی ریت پر دور سے پانی کا گمان ہو جاتا ہے، ایسے ہی ان پر پہاڑوں کا گمان ہو گا۔ حالانکہ واقع میں وہ پہاڑ نہیں رہیں گے محض ریت کے تودے رہ جائیں گے۔

۲۲ ۔۔۔       یعنی دوزخ شریروں کی تاک میں ہے اور ان ہی کا ٹھکانا ہے،

۲۳ ۔۔۔     جن کا کوئی شمار نہیں ۔ قرن پہ قرن گزرتے چلے جائیں گے۔ اور ان کی مصیبت کا خاتمہ نہ ہو گا۔

۲۵ ۔۔۔      ۱: یعنی نہ ٹھنڈک کی راحت پائیں گے، نہ کوئی خوشگوار چیز پینے کو ملے گی۔ ہاں گرم پانی ملے گا جس کی سوزش سے منہ جھلس جائیں گے اور آنتیں کٹ کر پیٹ سے باہر آ پڑیں گی اور دوسری چیز پیپ ملے گی جو دوزخیوں کے زخموں سے نکل کر بہے گی۔ اعاذنا اللّٰہ منھا و من سائر انواع العذاب فی الدنیا والاخرۃ۔

۲: یعنی جس چیز کی امید ان کو نہ تھی وہ ہی سامنے آئی۔ اور جس بات کو جھٹلاتے تھے آنکھوں سے دیکھ لی۔ اب دیکھیں کیسے جھٹلاتے اور مکرتے ہیں ۔

۲۹ ۔۔۔       یعنی ہر چیز اللہ کے علم میں ہے اور اسی علم محیط کے موافق دفاتر میں باقاعدہ مندرج ہے۔ کوئی نیک و بد عمل اس کے احاطہ سے باہر نہیں ۔ رتی رتی کا بھگتان کیا جائے گا۔

۳۰ ۔۔۔     یعنی جیسے تم تکذیب و انکار میں برابر بڑھتے چلے گئے اور اگر بے اختیار موت نہ آ جاتی تو ہمیشہ بڑھتے ہی چلے جاتے۔ اب بڑے عذاب کا مزہ چکھتے رہو۔ ہم بھی عذاب بڑھاتے ہی چلے جائیں گے۔ جس میں کبھی تخفیف نہ ہو گی۔

۳۳ ۔۔۔        یعنی نو خاستہ عورتیں جن کی جوانی پورے ابھار پر ہو گی، اور سب ایک ہی سن و سال کی ہوں گی۔

۳ ۴ ۔۔۔     یعنی شرابِ طہور کے لبریز جام۔

۳۵ ۔۔۔      یعنی جنت میں بیہودہ بکواس یا جھوٹ فریب کچھ نہ ہو گا۔ نہ کوئی کسی سے جھگڑے گا کہ جھوٹ بولنے اور مکرنے کی ضرورت پیش آئے۔

۳۶ ۔۔۔       یعنی رتی رتی کا حساب ہو کر بدلہ ملے گا اور بہت کافی بدلہ ملے گا،

۳۷ ۔۔۔ ۱: یہ بدلہ بھی محض بخشش اور رحمت سے ہے ورنہ ظاہر ہے، اللہ پر کسی کا قرض یا جبر نہیں ۔ آدمی اپنے عمل کی بدولت عذاب سے بچ جائے یہ ہی مشکل ہے، رہی جنت، وہ تو خالص اس کے فضل و رحمت سے ملتی ہے اس کو ہمارے عمل کا بدلہ قرار دینا یہ دوسری ذرہ نوازی اور عزت افزائی ہے۔

۲:   یعنی باوجود اس قدر لطف و رحمت کے عظمت و جلال ایسا ہے کہ کوئی اس کے سامنے لب نہیں ہلا سکتا۔

۳۸ ۔۔۔       ۱: روح فرمایا جانداروں کو یا " روح القدس" ( جبرائیل) مراد ہوں اور بعض مفسرین کے نزدیک وہ روح اعظم مراد ہے جس سے بے شمار روحوں کا انشعاب ہوا ہے۔ واللہ اعلم۔

۲:   یعنی اس کے دربار میں جو بولے گا اس کے حکم سے بولے گا۔ اور بات بھی وہ ہی کہے گا، جو ٹھیک اور معقول ہو مثلاً کسی غیر مستحق کی سفارش نہ کرے گا۔ مستحق سفارش کے وہ ہی ہیں جنہوں نے دنیا میں سب باتوں سے زیادہ سچی اور ٹھیک بات کہی تھی یعنی لا الہٰ الا اللّٰہ۔

۳۹ ۔۔۔     یعنی وہ دن آنا تو ضروری ہے۔ اب جو کوئی اپنی بہتری چاہے اس وقت کی تیاری کر رکھے۔

 ۴۰ ۔۔۔        ۱: یعنی سب اچھے برے، اگلے پچھلے اعمال سامنے ہوں گے۔

۲:  یعنی مٹی ہی رہتا آدمی نہ بنتا کہ آدمی بن کر ہی اس حساب و کتاب کی مصیبت میں گرفتار ہونا پڑا۔