تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ النّبَإِ

سورۃ النبأ ۔ سورہ نمبر ۷۸ ۔ تعداد آیات ۴۰)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     یہ لوگ کس چیز کے بارے میں آپس میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں ؟

۲۔۔۔     (کیا) اس بڑی خبر کے بارے میں ؟

۳۔۔۔     جس میں یہ لوگ خود اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں ؟

۴۔۔۔     ہرگز ایسا نہیں (جیسا کہ یہ سمجھ رہے ہیں ) عنقریب ان کو خود ہی معلوم ہو جائے گا

۵۔۔۔     ہاں پھر ہرگز ایسا نہیں عنقریب ان کو خود ہی معلوم ہو جائے گا

۶۔۔۔     کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ ہم نے بنا دیا (اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے ) اس زمین کو ایک عظیم الشان بچھونا

۷۔۔۔     اور پہاڑوں کو اس کی میخیں

۸۔۔۔     اور تمہیں پیدا کیا (مردوں اور عورتوں کی شکل میں ) جوڑے جوڑے

۹۔۔۔     اور ہم ہی نے بنایا تمہارے لیے تمہاری نیند کو مکمل آرام (و راحت) کی چیز

۱۰۔۔۔     اور ہم ہی نے بنایا رات کو ایک عظیم الشان لباس

۱۱۔۔۔     اور دن کو معاش کا وقت

۱۲۔۔۔     اور ہم ہی نے بنا دئیے تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان

۱۳۔۔۔     اور ہم ہی نے رکھ دیا (ان کے اندر) ایک نہایت ہی گرم اور روشن چراغ

۱۴۔۔۔     اور ہم ہی نے اتارا بھرے بادلوں سے (تمہاری طرح طرح ضرورتوں کے مطابق) بکثرت پانی

۱۵۔۔۔     تاکہ اس کے ذریعے ہم نکالیں طرح طرح کے غلے اور (قسما قسم کے ) سبزے

۱۶۔۔۔     اور (قسما قسم) کے گھنے باغ بھی

۱۷۔۔۔     بلاشبہ فیصلے کا دن ایک مقرر وقت ہے

۱۸۔۔۔     جس دن پھونک مار دی جائے گی صور کے اندر اور تم سب لوگ (بلا چوں و چرا نکل کر) چلے آؤ گے فوج در فوج

۱۹۔۔۔     اور کھول دیا جائے گا (اس بے شگاف) آسمان کو اس طور پر کہ یہ دروازے ہی دروازے بن کر رہ جائے گا

۲۰۔۔۔     اور چلا دیا جائے گا (ان دیو ہیکل) پہاڑوں کو اس طور پر کہ یہ (ریگِ رواں ) اور سراب بن کر رہ جائیں گے

۲۱۔۔۔     بے شک دوزخ گھات میں لگی ہوئی ہے

۲۲۔۔۔     سرکشوں کے لیے ایک بڑے ہی ہولناک ٹھکانے کے طور پر

۲۳۔۔۔     جس میں ان کو رہنا ہو گا مدتوں (پر مدتیں )

۲۴۔۔۔     وہ وہاں پر نہ تو کسی ٹھنڈک کا مزہ چکھ سکیں گے اور نہ ہی پینے کے قابل کسی چیز کا

۲۵۔۔۔     کچھ ملے گا تو سخت کھولتا ہوا پانی اور بہتی ہوئی پیپ

۲۶۔۔۔     بھرپور بدلہ ہو گا (ان کے کیے کرائے کا)

۲۷۔۔۔     (کیونکہ) یہ لوگ توقع نہیں رکھتے کسی طرح کے حساب (کتاب) کی

۲۸۔۔۔     اور انہوں نے (زندگی بھر) جھٹلایا تھا ہماری آیتوں کو طرح طرح سے

۲۹۔۔۔     حالانکہ ہم نے ہر چیز کو محفوظ کر رکھا تھا لکھ کر

۳۰۔۔۔     سو (اس روز ان سے کہا جائے گا کہ) لو اب چکھو تم لوگ مزہ (اپنی کرنیوں کا) پس ہم تمہیں عذاب ہی بڑھاتے چلے جائیں گے

۳۱۔۔۔     (اس کے برعکس) پرہیزگاروں کے لیے ایک بڑی ہی عظیم الشان کامیابی ہو گی

۳۲۔۔۔     طرح طرح کے عظیم الشان باغ اور انگور

۳۳۔۔۔     اور نوخیز! ہم عمر لڑکیاں

۳۴۔۔۔     اور (شراب طہور کے ) چھلکتے جام

۳۵۔۔۔     وہ نہ تو وہاں پر کوئی بے ہودہ بات سنیں گے اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی جھوٹ

۳۶۔۔۔     صلہ ہو گا نہایت کافی بخشش کے طور پر تمہارے اس رب (غفور و شکور) کی جانب سے

۳۷۔۔۔     جو کہ مالک ہے آسمانوں اور زمین اور اس ساری کائنات کا جو کہ آسمان و زمین کے درمیان میں ہے اس (خدائے ) رحمان کی طرف سے جس کے سامنے کسی کو یارا نہ ہو گا بات کرنے کا

۳۸۔۔۔     جس روز کھڑے ہوں گے روح اور فرشتے (اس وحدہٗ لاشریک کے حضور) صف بستہ (اس قدر خشوع و خضوع کے ساتھ کہ) کوئی بول بھی نہ سکے گا مگر جس کو اجازت دی ہو گی (خدائے ) رحمان نے اور وہ بات بھی ٹھیک کہے گا

۳۹۔۔۔     یہ ہے وہ برحق دن اب جس کا جی چاہے اپنے رب کے پاس ٹھکانا بنا لے

۴۰۔۔۔     ہم نے تو تمہیں پوری طرح خبردار کر دیا ہے (اے لوگو!) ایک ایسے ہولناک عذاب سے جو کہ قریب ہی آ لگا ہے ، جس روز آدمی دیکھ لے گا وہ سب کچھ جو کہ آگے بھیجا ہو گا اس کے ہاتھوں نے (اپنی زندگی کی فرصت میں ) اور کافر (اس روز) کہے گا (اور ہزار حسرت و افسوس کے ساتھ کہے گا

تفسیر

 

۳۔۔۔    سو یہ اس کے بارے میں مختلف خیالات رکھتے اور بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہیں، ان میں سے کچھ تو اس کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں اور صاف کہتے ہیں کہ کون زندہ کرے گا ان ہڈیوں کو جبکہ یہ بوسیدہ ہو چکی ہوں گی؟ (یس۔۷٨) یعنی ایسا ہونا ان کے نزدیک ناممکن ہے۔ اور کچھ کا کہنا تھا کہ زندگی تو بس یہی دنیاوی زندگی ہے اور بس ہمیں بہر حال کبھی دوبارہ نہیں اٹھایا جائے گا۔ (الانعام۔ ۲٩) اور کچھ لوگ ان میں سے دہریے تھے جن کا کہنا تھا کہ زندگی تو بہر حال ہماری یہی دنیاوی زندگی ہے، یہیں ہم لوگ مرتے جیتے ہیں۔ اور گردش ایام کے سوا ہمیں کوئی چیز ہلاک نہیں کرتی (الجاثیۃ۔ ۲۴) جبکہ ان میں سے کچھ لوگ شک میں مبتلا تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ہم لوگ تو اس بارے میں ایک گمان سا رکھتے ہیں اور بس یقین ہمیں بہر حال نہیں۔ (الجاثیۃ۔۳۱) سو سورہ نباء کی ان تینوں آیات کریمات میں ان لوگوں کے اس رویے اور ان کی اس جسارت پر تعجب اور افسوس کا اظہار فرمایا گیا ہے کہ اول تو قیامت کے بارے میں اور بعث بعدالموت سے متعلق یہ خبر ہی اتنی عظیم الشان اور اس قدر ہولناک ہے کہ اس کا حق اور اس کا تقاضا یہ تھا اور یہ ہے کہ اس کی فکر اور اس کے خوف سے ان کی نیندیں اڑ جاتیں ان کے کھانے پینے کی لذتیں اچاٹ ہو جاتیں۔ مگر یہ ایسے ناہنجار اور اس قدر شامت زدہ لوگ ہیں کہ اس سے ڈرنے اور اس کے لئے تیاری کرنے کے بجائے الٹا اس پر طنز کرتے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور وہ بھی اس صورت میں جبکہ یہ لوگ اس کے بارے میں خود اختلاف میں پڑے ہوئے ہیں سو یہ کتنی بڑی محرومی اور کس قدر بے انصافی و بدبختی ہے والعیاذ باللہ العظیم۔

۱۷۔۔۔  جس نے اپنے اس مقرر وقت پر بہر حال آ کر اور واقع ہو کر رہنا ہے کہ وہ اس حکمتوں اور نعمتوں بھری کائنات کے وجود اور اس کی ان گوناگوں اور ان گنت و بے حد وحساب نعمتوں اور ان سے مستفید و فیضیاب ہونے والے انسان کے وجود کا طبعی تقاضا ہے۔ سو اس ارشاد سے اوپر والی ساری بحث اور تفصیل کا خلاصہ پیش فرما دیا گیا کہ یہ تمام اہتمام ربوبیت اور آسمان سے لیکر زمین تک کا یہ سارا نظام پرورش اپنی زبان حال سے گواہی دے رہا ہے اور پکار پکار کر یہ گواہی دے رہا ہے کہ جس خالق حکیم اور رب عزیز و کریم نے اس سب کو وجود بخشا، اور اس کو اس پُر حکمت طریقہ سے قائم فرمایا، اور برقرار رکھا، ہو نہیں سکتا کہ وہ اس ساری کائنات کے مخدوم و مطاع، اور اس سے ہر وقت اور طرح طرح سے مستفید و فیضیاب ہونے والے اس انسان کو یونہی غیر مسؤل چھوڑ دے، اور اس سے کبھی اپنی ان گوناگوں نعمتوں کے بارے میں پوچھے نہ، سو ایسے نہیں ہو سکتا، بلکہ اس نے ان کے بارے میں لازماً اور بہر حال پوچھنا ہے کہ اس نے ان نعمتوں سے متعلق کیا رویہ اختیار کیا؟ شکر گزاری و احسان مندی کا یا کفران نعمت اور ناشکری کا؟ سو اس کے لئے اس رب عزیز و کریم نے ایک یوم حساب مقرر فرما رکھا ہے، جس میں وہ ان سب کو جمع کر کے ان سے پوچھے گا، تاکہ واضح ہو جائے کہ کس کس نے اس کی ربوبیت کا حق پہچانا، اور ادا کیا، تاکہ اس کو وہ اپنے انعامات سے نوازے، اور کس کس نے بے قدری اور ناشکری سے کام لیا، تاکہ وہ اس کا صلہ و بدلہ پائے، اور اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور علی وجہ اتمام والکمال پورے ہوں۔

۳۰۔۔۔  سو ان آیات کریمات سے ان لوگوں کے جرم کی نوعیت اور اس کی سنگینی کو بھی واضح فرما دیا گیا، جنہوں نے جہنم کے عذاب میں مبتلا ہونا ہے، والعیاذ باللہ ان کے کفر و انکار کے ایک بڑے سبب اور باعث کی نشاندہی بھی فرما دی گئی، اور ان کے انتہائی ہولناک انجام اور بڑھتے چڑھتے دائمی عذاب کی خبر بھی دے دی گئی، سو پہلی بات تو اس ضمن میں یہ ارشاد فرمائی گئی کہ یہ لوگ کسی حساب و کتاب کی کوئی توقع اور امید ہی نہیں رکھتے تھے، بلکہ ان کا خیال تھا کہ ہم اسی طرح عیش کرتے رہیں گے اور یونہی مر مٹ کر ختم ہو جائیں گے جس طرح کہ کیڑے مکوڑے مر مٹ کر ختم ہو جاتے ہیں اور جب ان کو آیات خداوندی کے ذریعے تنبیہ و تذکیر کی جاتی تو یہ پوری ڈھٹائی غفلت و لا پرواہی اور نہایت بے دردی کے ساتھ ان کی تکذیب کرتے تھے، سو کفر و انکار اور تکذیب حق کے اس انتہائی ہولناک اور سنگین جرم نے ان لوگوں کو اپنی آخرت کی جو ابدی اور اپنے انجام کے فکر سے بالکل نچنت بے فکر، اور لا پرواہ بنا دیا تھا جس سے ان کا راستہ ہی غلط ہو گیا ان کا زاویہ نگاہ ہی بدل اور بگڑ گیا، اور یہ حیوان محض بلکہ شَرُّ الْبَرِّیَۃ (بدترین مخلوق) بن کر رہ گئے۔ اور حساب و کتاب اور جزاء اعمال کے سلسلے میں یہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ہمارے اعمال کا کس کو پتہ ہو سکتا ہے کہ وہ ہمیں ان کا صلہ و بدلہ دے؟ سو ارشاد سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ یہ تو اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ ہمارے اعمال کا پتہ ہی کس کو ہو سکتا ہے لیکن ہم نے ان کے ایک ایک عمل کو گن گن کر محفوظ کر رکھا تھا، اور اس کو اس قدر اہتمام کے ساتھ لکھ رکھا تھا جس میں کسی سہو ونسیان کا کوئی سوال و احتمال ہی نہیں ہو سکتا، اور وہ لکھا لکھایا سارا ریکارڈ اس یوم حساب میں نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا، اور اس سے کہا جائے گا کہ لے اب تو اپنے اس نامہ اعمال کو خود دیکھ اور پڑھ لے، اور خود بتا کہ تیرا انجام کیا ہونا چاہیئے؟ جیسا کہ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر۱۳ اور ۱۴ میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے، و باللہ التفویق لمایُحِبُّ و یرید، وعلی مایُحِبُّ و یرید، اور یہاں پر ان لوگوں کے انجام کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا، اور تاکیدی الفاظ کے ساتھ اور حصر و قصر کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ تب ان سے کہا جائے گا کہ تم لوگ تو دنیا میں اپنے اس انجام سے بے فکر و لا پرواہ رہے تھے لیکن اب وہ تمہارے سامنے موجود ہے، اور اپنی اصل شکل، اور تمام ہولناکیوں اور قہربانیوں کے ساتھ موجود ہے، پس اب تم اس کا عذاب چکھو۔ اور چکھتے ہی رہو، کہ اب آگے تم لوگوں کے لئے عذاب ہی عذاب ہے، اس سے بچنے اور نجات پانے کی اب تمہارے لئے کوئی صورت ممکن نہیں، تم نے ہمیشہ کے لئے اس کے اندر رہنا ہے، اب نہ اس کا کبھی خاتمہ ہو گا۔ اور نہ ہی اس میں کسی طرح کی کمی اور تخفیف، بلکہ اب اس کی سنگینی اور شدت ہی میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ سو اس سے بڑھ کر محرومی اور بدبختی کیا ہو سکتی ہے؟ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ ہمیشہ، ہر حال میں، اور ہر اعتبار سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین،

۴۰۔۔۔