پہلے لفظ اَلْقَارِعَۃِ کو اس کا نام قرار دیا گیا ہے۔ یہ صرف نام ہی نہیں ہے بلکہ اس کے مضمون کا عنوان بھی ہے، کیونکہ اس میں ساراذکر قیامت ہی کا ہے۔
اس کے مکّی ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ بلکہ اس کے مضمون سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بھی مکّۂ معظمہ کے ابتدائی دور کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔
اس کا موضوع ہے قیامت اور آخرت۔ سب سے پہلے لوگوں کو یہ کہہ کر چَونکا یا گیا ہے کہ عظیم حادثہ ! کیا ہے وہ عظیم حادثہ؟ تم کیا جانو کہ وہ عظیم حادثہ کیا ہے ؟ اِس طرح سامعین کو کسی ہولناک واقعہ کے پیش آنے کی خبر سننے کے لیے تیار کرنے کے بعد دو فقروں میں ان کے سامنے قیامت کا نقشہ پیش کر دیا گیا ہے کہ اُس روز لوگ گھبراہٹ کے عالم میں اِس طرح ہر طرف بھاگے بھاگے پھر یں گے جیسے روشنی پر آنے والے پروانے بِکھرے ہوئے ہوتے ہیں، اور پہاڑوں کا حال یہ ہو گا کہ وہ اپنی جگہ سے اکھڑ جائیں گے، ان کی بندش ختم ہو جائے گی اور وہ دھُنکے ہوئے اون کی طرح ہو کر رہ جائیں گے۔ پھر بتایا گیا ہے کہ آخرت میں جب لوگوں کا حساب کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی عدالت قائم ہو گی تو اُس میں فیصلہ اِس بنیاد پر ہو گا کہ کس شخص کوے نیک اعمال بُرے اعمال سے زیادہ وزنی ہیں ، اور کس کے نیک اعمال کا وزن اس کے بُرے اعمال کی بہ نسبت ہلکا ہے۔ پہلی قسم کے لوگوں کو وہ عیش نصیب ہو گا جس سے وہ خوش ہو جائیں گے، اور دوسری قسم کے لوگوں کو اُس گہری کھائی میں پھینک دیا جائے گا جو آگ سے بھری ہوئی ہو گی۔
1: اصل میں لفظ قارِعہ استعمال ہو ا ہے جس کا لفظی ترجمہ ہے ’’ٹھونکنے والی‘‘۔ قَرع کے معنی کسی چیز کو کسی چیز پر زور سے مانے کے ہیں جس سے سخت آواز نکلے۔ اس لغوی معنی کی مناسبت سے قارعہ کا لفظ ہولناک حادثے اور بڑی بھاری آفت کے لیے بولا جاتا ہے۔ مثلاً عرب کہتے ہیں فَزَعَتْہُم القَارعَۃ یعنی فلاں قبیلے یا قوم کے لوگوں پر سخت آفت آ گئی ہے۔ قرآن مجید میں بھی ایک جگہ یہ لفظ کسی قوم پر بڑی مصیبت نازل ہونے کے لیے استعمال ہوا ہے۔ سُورۂ رعد میں ہے وَلَا یَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا تُصِیْبھُُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَۃٌ۔ ’’جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان پر ان کے کرتوتوں کی وجہ سے کوئی نہ کوئی آفت نازل ہوتی رہتی ہے۔ ‘‘(آیت ۳۱) لیکن یہاں القارعہ کا لفظ قیامت کے لیے استعمال کیا گیا ہے، اور سورۂ الحاقّہ میں بھی قیامت کو اسی نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ (آیت ۴)۔ اس مقام پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہاں قیامت کے پہلے مرحلے سے لے کر عذاب و ثواب کے آخرت مرحلے تک پورے عالمِ آخرت کا ایک جا ذکر ہو رہا ہے۔
2: یہاں تک قیامت کے پہلے مرحلے کا ذکر ہے۔ یعنی جب وہ حادثۂ عظیم برپا ہو گا جس کے نتیجے میں دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا اُس وقت لوگ گھبرا ہٹ کی حالت میں اِس طرح بھاگے بھاگے پھریں گے جیسے روشنی پر آنے والے پروانے ہر طرف پراگندہ و منتشر ہوتے ہیں، اور پہاڑ رنگ برنگ کے دھُنکے ہوئے اون کی طرح اڑنے لگیں گے۔ رنگ برنگ کے اون سے پہاڑوں کو تشبیہ اس لیے دی گئی ہے کہ اُن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔
3: یہاں سے قیامت کے دوسرے مرحلے کا ذکر شروع ہوتا ہے جب دوبارہ زندہ ہو کر لوگ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہوں گے۔
4: اصل میں لفظ مَوَازِیْن استعمال ہوا ہے جو موزون کی جمع بھی ہو سکتا ہے اور میزان کی جمع بھی۔ اگر اس کو موزون کی جمع قرار دیا جائے تو موازین سے مراد وہ اعمال ہوں گے جن کا اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کوئی وزن ہو، جو اس کے ہاں کسی قدر کے مستحق ہوں۔ اور اگر اسے میزان کی جمع قرار دیا جائے تو موازین سے مراد ترازو کے پلڑے ہوں گے۔ پہلی صورت میں مَوازین کے بھاری اور ہلکے ہونے کا مطلب نیک اعمال کا برے اعمال کے مقابلے میں بھاری یا ہلکا ہونا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں صرف نیکیاں ہی وزنی اور قابلِ قدر ہیں۔ دوسری صورت میں موازین کے بھاری ہونے کا مطلب اللہ جلّ شانہ، کی میزانِ عدل میں نیکیوں کے پلڑے کا برائیوں کی بہ نسبت زیادہ بھاری ہونا ہے، اور اُن کا ہلکا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بھلائیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کی بہ نسبت ہلکا ہو۔ اس کے علاوہ عربی زبان کے محاورے میں میزان کا لفظ وزن کے معنی مییں بھی استعمال ہوتا ہے، اور اِس معنی کے لحاظ سے وزن کے بھاری اور ہلکا ہونے سے مراد بھلائیوں کا وزن بھاری یا ہلکا ہونا ہے۔ بہر حال موازین کو خواہ موزون کے معنی میں لیا جائے، یا میزان کے معنی میں، یا وزن کے معنی میں، مدّعا ایک ہی رہتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عدالت میں فیصلہ اِس بنای د پر ہو گا کہ آدمی اعمال کی جو پونجی لے کر آیا ہے وہ وزنی ہے، یا بے وزن، یا اس کی بھلائیوں کا وزن اُس کی برائیوں کے وزن سے زیادہ ہے یا کم۔ یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے کہ جن کو نگاہ میں رکھا جائے تو اس کا مطلب پوری طرح واضح ہو جاتا ہے۔ سورۂ اَعراف میں ہے ’’اور وزن اُس روز حق ہو گا، پھر جن کے پلڑے بھاری ہوں گے وہی فلاح پائیں گے، اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے وہی اپنے آپ کو خسارے میں مبتلا کرنے والے ہوں گے ‘‘(آیات ۹-۸)۔ سورۂ کہف میں ارشاد ہوا’’ اے نبی اِن لوگوں سے کہو، کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ ناکام و نا مراد لوگ کون ہیں ؟ وہ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ربّ کی آیا ت کو ماننے سے انکار کیا اور اس کے حضور پیشی کا یقین نہ کیا۔ اس لیے ان کے سارے اعمال ضائع ہو گئے، قیامت کے روز ہم انہیں کوئی وزن نہ دیں گے ‘‘ (آیات ۱۰۵-۱۰۴)۔ سورۂ انبیاء میں فرمایا ’’قیامت کے روز ہم ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو رکھ دیں گے، پھر کسی شخص پر ذرّہ برابر ظلم نہ ہو گا۔ جس کا رائی کے دانے برابر بھی کچھ کیا دھرا ہو گا وہ ہم لے آئیں گے اور حساب لگانے کے لیے ہم کافی ہیں ‘‘(آیت۴۷)۔ اِن آیات سے معلوم ہوا کہ کفر اور حق سے انکار بجائے خود اتنی بُرائی ہے کہ وہ برائیوں کے پلڑے کو لازماً جھُکا دے گی اور کافر کی کوئی نیکی ایسی نہ ہو گی کہ بھلائیوں کے پلڑے میں اُس کا کوئی وزن ہو جس سے اُس کی نیکی کا پلڑا جھُک سکے۔ البتہ مومن کے پلڑے میں ایمان کا وزن بھی ہو گا اور اس کے ساتھ اُن نیکیوں کا وزن بھی جو اس نے دنیا میں کیں ۔ دوسری طرف اُس کی جو بَدی بھی ہو گی وہ بدی کے پلڑے میں رکھ دی جائے گی۔ پھر دیکھا جائے گا کہ آیا نیکی کا پلڑا جھُکا ہوا ہے یا بدی کا۔
5: اصل الفاظ ہیں اُمُّہٗ ھَاوِیَۃٌ ’’ اُس کی ماں ھاویہ ہو گی۔‘‘ھاوِیَہ ھویٰ سے ہے جس کے معنی اونچی جگہ سے نیچی جگہ گرنے کے ہیں، اور ھاوِیہ اُس گہرے گڑھے کے لیے بولا جاتا ہے جس میں کوئی چیز گرے۔ جہنّم کو ھاویہ کے نام سے اس لیے موسوم کیا گیا ہے کہ وہ بہت عَمِیق ہو گی اور اہلِ جہنّم اس میں اوپر سے پھینکے جائیں گے۔ رہا یہ ارشاد کہ اس کی ماں جہنّم ہو گی، اِس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ماں کی گود بچے کا ٹھکانا ہوتی ہے، اسی طرح آخرت میں اہلِ جہنّم کے لیے جہنّم کے سوا کوئی ٹھکانا نہ ہو گا۔
6: یعنی وہ محض ایک گہری کھائی ہی نہ ہو گی بلکہ بھڑکتی ہوئی آگ سے بھری ہوئی ہو گی۔