یہ سورۃ بالاتفاق مکّی ہے۔ اور اِس کے تاریخی پَسْ منظر کو اگر نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اِس کا نزول مکّۂ معظمہ کے بھی ابتدائی دور میں ہوا ہو گا۔
اِس سے پہلے تفسیر سُورۂ بروج حاشیہ ۴ میں ہم بیان کر چکے ہیں کہ، نَجْران میں یمن کے یہودی فرمانروا ذُونُو اس نے پیروانِ مسیح علیہ السلام پر جو ظلم کیا تھا اُس کا بدلہ لینے کے لیے حَبَش کی عیسائی سلطنت نے یمن پر حملہ کر کے حِمیْرَی حکومت کا خاتمہ کر دیا تھا اور سن ۵۲۵ء میں اِس پورے علاقے پر حبشی حکومت قائم ہو گئی تھی۔ یہ ساری کارروائی دراصل قسطنطنیہ کی رومی سلطنت اور حَبَش کی حکومت کے باہم تعاون سے ہوئی تھی، کیونکہ حبشیوں کے پاس اُس زمانے میں کوئی قابل ذکر بحری بیڑا نہ تھا۔ بیڑا رومیوں نے فراہم کیا اور حَبَش نے اپنی ۷۰ ہزار فوج اُسی کے ذریعہ سے یمن کے ساحل پر اتاری۔ آگے کے معاملات سمجھنے کے لیے یہ بات ابتداء ہی میں جان لینی چاہیے کہ یہ سب کچھ محض مذہبی جذبے سے نہیں ہوا تھا بلکہ اِس کے پیچھے معاشی و سیاسی اغراض بھی کام کر رہی تھیں، بلکہ غالباً وہی اِس کی اصل محرک تھیں اور عیسائی مظلومین کے خون کا انتقام ایک بہانے سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ رومی سلطنت جب سے مصر و شام پر قابض ہوئی تھی اُسی وقت سے اُس کی یہ کوشش تھی کہ مشرقی افریقہ، ہندوستان، انڈونیشیا وغیرہ ممالک اور رومی مقبوضات کے درمیان جس تجارت پر عرب صدیوں سے قابض چلے آرہے تھے، اُسے عربوں کے قبضے سے نکال کر وہ خود اپنے قبضے میں لے لے، تا کہ اُس کے مَنافِع پورے کے پورے اُسے حاصل ہوں اور عرب تاجروں کا واسطہ درمیان سے ہٹ جائے۔ اِس مقصد کے لیے سن ۲۴ قبلِ مسیح میں قیصر آگسٹَس نے ایک بڑی فوج رومی جنرل ایلیَس گالوس (Aelius Gallus ) کی قیادت میں عرب کے مغربی ساحل پر اتار دی تھی تاکہ وہ اُس بحری راستے پر قابض ہو جائے جو جنوبی عرب سے شام کی طرف جاتا تھا۔ (اِس شاہراہ کا نقشہ ہم نے تفہیم القرآن، جلد دوم میں صفحہ ۱۲۲ پر درج کیا ہے )۔ لیکن عرب کے شدید جغرافی حالات نے اس مہم کو ناکام کر دیا۔ اس کے بعد رومی اپنا جنگی بیڑہ بحر احمر میں لے آئے اور انہوں نے عربوں کی اُس تجارت کو ختم کر دیا جو وہ سمندر کے راستے کرتے تھے، اور صرف بَرّی راستہ اُن کے لیے باقی رہ گیا۔ اِسی بَرّی راستے کو قبضے میں لینے کے لیے اُنہوں نے حبش کی عیسائی حکومت سے گٹھ جوڑ کیا اور بحری بیڑے سے اُس کی مدد کر کے اُس کو یمن پر قابض کرا دیا۔
یمن پر جو حبشی فوج حملہ آور ہوئی تھی اس کے متعلق عرب مورخین کے بیانات مختلف ہیں۔ حافظ ابنِ کثیر نے لکھا ہے کہ وہ دو امیروں کی قیادت میں تھی، ایک اَرْیاط، دوسرا اَبْرَہہ۔ اور محمد بن اسحاق کی روایت ہے کہ اس فوج کا امیر اَرْیاط تھا، اور ابرہہ اُس میں شامل تھا۔ پھر دونوں اس بات پر متفق ہیں کہ ابرہہ اور اریاط باہم لڑ پڑے، مقابلے میں اَریاط مارا گیا، ابرہہ ملک پر قابض ہو گیا اور پھر اُس نے شاہِ حبش کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ اسی کو یمن پر اپنا نائب کر دے۔ اس کے برعکس یونانی اور سُریانی مورخین کا بیان ہے کہ فتحِ یمن کے بعد جب حبشیوں نے مزاحمت کرنے والے یمنی سرداروں کو ایک ایک کر کے قتل کر نا شروع کر دیا تو اُن میں سے ایک سردار السُّمَیْفِع اَشْوَع (جسے یونانی مورخین Esymphaeus لکھتے ہیں ) میں نے حبشی فوج نے اُس کے خلاف بغاوت کر دی اور ابرہہ کو اس کی جگہ گورنر بنا دیا۔ یہ شخص حبش کی بندرگاہ اَدولیس کے ایک یونانی تاجر کا غلام تھا جو اپنی ہوشیاری سے یمن پر قبضہ کرنے والی حبشی فوج میں بڑا اثر و رسوخ حاصل کر گیا تھا۔ شاہ حبش نے اس کی سرکوبی کے لیے جو فوجیں بھیجیں وہ یا اس سے مل گئیں یا اس نے ان کو شکست دیدی۔ آخر کار شاہ حبش کے ت مرنے کے بعد اُس کے جانشین نے اس کو یمن پر اپنا نائب السلطنت تسلیم کر لیا (یونانی مورخین اُس کا نام اَبرامِس Abrames اور سُریانی مورخین ابراہام Abraham لکھتے ہیں۔ ابرہہ غالباً اسی کا حبشی تلفظ ہے، کیونکہ عربی میں تو اس کا تلفظ ابراہیم ہے )۔
یہ شخص رفتہ رفتہ یمن کا خودمختار بادشاہ بن گیا، مگر برائے نام اس نے شاہ حبش کی بالادستی تسلیم کر رکھی تھی اور اپنے آپ کو مُفَوَّض المَلِک (نائب بادشاہ) لکھتا تھا۔ اُس نے جو اثر و رسوخ حاصل کر لیا تھا اُس کا اندازہ اِس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ جب سن ۵۴۳عوسمی میں وہ سدِّ مارِب کی مَرمَّت سے فارغ ہوا تو اس نے ایک عظیم الشان جشن منایا جس میں قیصر روم، شاہِ ایران، شاہ حِیْرَہ اور شاہِ غَسّان کے سُفرا شریک ہوئے۔ اِس کا مفصل تذکرہ اُس کتبے میں درج ہے جو ابرہہ نے سدّ مارب پر لگایا تھا۔ یہ کتبہ آج بھی موجود ہے اور گلیزر (Glaser ) نے اس کو نقل کیا ہے (مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورۂ سبا، حاشیہ ۳۷)۔
یمن میں پوری طرح اپنا اقتدار مضبوط کر لینے کے بعد اَبرہہ نے اُس مقصد کے لیے کام شروع کر دیا جو اِس مہم کی ابتدا سے رومی سلطنت اور اُس کے حلیف حبشی عیسائیوں کے پیشِ نظر تھا، یعنی ایک طرف عرب میں عیسائیت پھیلانا اور دوسری طرف اُس تجارت پر قبضہ کرنا جو بلادِ مشرق اور رومی مقبوضات کے درمیان عربوں کے ذریعہ سے ہوتی تھی۔ یہ ضرورت اِس بنا پر اور بڑھ گئی تھی کہ ایران کی ساسانی سلطنت کے ساتھ روم کی کشمکشِ اقتدار نے بلادِ مشرق سے رومی تجارت کے دوسرے تمام راستے بند کر دیے تھے۔ ابرہہ نے اِس مقصد کے لیے یمن کے دارالسلطنت صنعاء میں ایک عظیم الشان کلیسا تعمیر کرایا جس کا ذکر عرب مورخین نے اَلْقَلِیس یا اَلقُلَّیس کے نام سے کیا ہے (یہ یونانی لفظ Ekklesia کا معرّب ہے اور اردو کا لفظ کلیسا بھی اسی یونانی لفظ سے ماخوذ ہے )۔ محمد بن اسحاق کی روایت ہے کہ اس کام کی تکمیل کے بعد اُس نے شاہِ حبش کو لکھا کہ میں عربوں کا حج کعبہ سے اِس کلیسا کی طرف موڑے بغیر نہ رہوں گا ۱؎ابن کثیر نے لکھا ہے کہ اُس نے یمن میں علیٰ الاعلان اپنے اِس ارادے کا اظہار کیا اور اس کی منادی کرا دی۔ اُس کو مکّہ پر حملہ کرنے اور کعبے کے منہدم کر دینے کا بہانہ مل جائے۔ محمد بن اسحاق کا بیان ہے کہ اُس کے اِس اعلان پر غضبناک ہو کر ایک عرب نے کسی نہ کسی طرح کلیسا میں گھس کر رفع حاجت کر ڈالی۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ فعل ایک قریشی نے کیا تھا۔ اور مُقاتِل بن سلیمان کی روایت ہے کہ قریش کے بعض نوجوانوں نے جا کر کلیسا میں آگ لگا دی تھی۔ اِن میں سے کوئی واقعہ بھی اگر پیش آیا ہو تو کوئی قابلِ تعجب امر نہیں ہے، کیونکہ ابرہہ کا یہ اعلان یقیناً سخت اشتعال انگیز تھا اور قدیم جاہلیت کے دور میں اس پر کسی عرب، یا قریشی کا، یا چند قریشی نوجوانوں کا مشتعل ہو کر کلیسا کو گندا کر دینا یا اس میں آگ لگا دینا کوئی ناقابل فہم بات نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ ابرہہ نے خود اپنے کسی آدمی سے خفیہ طور پر ایسی کوئی حرکت کرائی ہو تاکہ اُسے مکّہ پر چڑھائی کرنے کا بہانا مل جائے اور اس طرح وہ قریش کو تباہ اور تمام اہلِ عرب کو مرعوب کر کے اپنے دونوں مقصد حاصل کر لے۔ بہر حال دونوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو، جب ابرہہ کے پاس یہ رپورٹ پہنچی کہ کعبے کے معتقدین نے اس کے کلیسا کی یہ توہین کی ہے تو اس نے قسم کھائی کہ میں اُس وقت تک چین نہ لوں گا جب تک کعبے کو ڈھا نہ دوں۔
اِس کے بعد وہ سن ۵۷۰ یا ۵۷۱عیسوی میں ۶۰ ہزار فوج اور ۱۳ ہاتھی (اور بروایت بعض ۹ ہاتھی) لے کر مکّہ کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں پہلے یمن کے ایک سردار ذُو نَفْر نے عربوں کا ایک لشکر جمع کر کے اس کی مزاحمت کی، مگر وہ شکست کھا کر گرفتار ہو گیا۔ پھر خَتْعَم کے علاقے میں ایک عرب سردار نُفَیل بن حبیب خَتْعَی اپنے قبیلے کو لے کر مقابلے پر آیا، مگر وہ بھی شکست کھا کر گرفتار ہو گیا اور اس نے اپنی جان بچانے کے لیے بَدْرَقے کی خدمت انجام دینا قبول کر لیا۔ طائف کے قریب پہنچا تو بنی ثَقِیف نے محسوس کیا کہ اِتنی بڑی طاقت کا وہ مقابلہ نہ کر سکیں گے، اور ان کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں وہ اُن کے معبود لات کا مندر بھی تباہ نہ کر دے۔ چنانچہ اُن کا سردار مسعود ایک وفد لے کر ابرہہ سے ملا اور اس نے کہا کہ ہمارا بُت کدہ وہ معبد نہیں ہے جسے آپ ڈھانے آئے ہیں ، وہ تو مکّہ میں ہے، اس لیے آپ ہمارے معبد کو چھوڑ دیں، ہم مکّہ کا راستہ بتانے کے لیے آپ کو بَدْرَقہ فراہم کیے دیتے ہیں۔ ابرہہ نے یہ بات قبول کر لی اور بنی ثَقِیف نے ابورِ غال نامی ایک آدمی کو اس کے ساتھ کر دیا۔ جب مکّہ تین کوس دور رہ گیا تو الُمغَسَّ (یا المُغَسِّ) نامی مقام پر پہنچ کر ابورِغال مر گیا، اور عرب مدتوں تک اس کی قبر پر سنگ باری کرتے رہے۔ بنی ثقیف کو بھی وہ سالہاسال تک طعنے دیتے رہے کہ اُنہوں نے لات کے مندر کو بچانے کے لیے بیت اللہ پر حملہ کر نے والوں سے تعاون کیا۔
محمد بن اسحاق کی روایت ہے کہ المغمسّ سے ابرہہ نے اپنے مقدمۃ الجیش کو آگے بڑھایا اور وہ اہلِ تِہامَہ اور قریش کے بہت سے مویشی لوٹ لے گیا جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دادا عبد المَطَّلِب کے بھی دو سو اونٹ تھے۔ اس کے بعد اس نے اپنے ایک ایلچی کو مکّہ بھیجا اور اس کے ذریعہ سے اہلِ مکّہ کو یہ پیغام دیا کہ میں تم سے لڑنے نہیں آیا ہوں ، بلکہ اِس گھر (کعبہ) کو ڈھانے آیا ہوں۔ اگر تم نہ لڑو تو میں تمہاری جان و مال سے کوئی تعرُّض نہ کروں گا۔ نیز اس نے اپنے ایلچی کو ہدایت کی کہ اہلِ مکّہ اگر بات کرنا چاہیں تو ان کے سردار کو میرے پاس لے آنا۔ مکّے کے سب سے بڑے سردار اُس وقت عبد المطلب تھے۔ ایلچی نے ان سے مل کر ابرہہ کا پیغام پہنچایا۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم میں ابرہہ سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے۔ یہ اللہ کا گھر ہے، وہ چا ہے گا تو اپنے گھر کو بچا لے گا۔ ایلچی نے کہا کہ آپ میرے ساتھ ابرہہ کے پاس چلیں۔ وہ اس پر راضی ہو گئے اور اس کے ساتھ چلے گئے۔ وہ اِس قدر وجیہ اور شاندار شخص تھے کہ اُن کو دیکھ کر ابرہہ بہت متاثر ہوا اور اپنے تخت سے اُتر کر ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ پھر پوچھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے جو اونٹ پکڑ لیے گئے ہیں وہ مجھے واپس دے دیے جائیں۔ ابرہہ نے کہا کہ آپ کو دیکھ کر تو میں بہت متاثر ہوا تھا، مگر آپ کی اِس بات نے آپ کو میری نظر سے گرا دیا کہ آپ اپنے اونٹوں کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ گھر جو آپ کا اور آپ کے دینِ آبائی کا مرجع ہے، اِس کے بارے میں کچھ نہیں کہتے۔ انہوں نے کہا میں تو صرف اپنے اونٹوں کا مالک ہوں اور اُنہی کے بارے میں آپ سے درخواست کر رہا ہوں۔ رہا یہ گھر، تو اِس کا ایک ربّ ہے، وہ اِس کی حفاظت خود کر لے گا۔ ابرہہ نے جواب دیا وہ اس کو مجھ سے نہ بچا سکے گا۔ عبد المطلب نے کہا آپ جانیں اور وہ جانے۔ یہ کہہ کر وہ ابرہہ کے پاس سے اُٹھ آئے اور اُس نے اُن کے اونٹ واپس کر دیے۔
ابنِ عباس ؓ کی روایت اِس سے مختلف ہے۔ اُس میں اونٹوں کے مطالبے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ عبد بن حُمَید، ابن المُنْذِر، ابن مَرْدُوْیَہ، حاکم، ابو نُعَیم اور بَیْہَقی نے اُن سے جو روایات نقل کی ہیں اُن میں وہ بیان کرتے ہیں کہ جب ابرہہ الصِّفَاح کے مقام پر پہنچا (جو عَرَفات اور طائف کے پہاڑوں کے درمیان حدودِ حَرَم کے قریب واقع ہے ) تو عبد المطّلب خود اُس کے پاس گئے اور اس سے کہا کہ آپ کو یہاں تک آنے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ کو اگر کوئی چیز مطلوب تھی تو ہمیں کہلا بھیجتے، ہم خود لے کر آپ کے پاس حاضر ہو جاتے۔ اس نے کہا کہ میں سنا ہے یہ گھر امن کا گھر ہے، میں اس کا امن ختم کرنے آیا ہوں۔ عبد المطلب نے کہا یہ اللہ کا گھر ہے، آج تک اُس نے کسی کو اِس پر مسلّط نہیں ہونے دیا ہے۔ ابرہہ نے جواب دیا ہم اسے منہدم کیے بغیر نہ پلٹیں گے۔ عبد المطلب نے کہا آپ جو کچھ چاہیں ہم سے لے لیں اور واپس چلے جائیں ۔ مگر ابرہہ نے انکار کر دیا اور عبد المطلب کو پیچھے چھوڑ کر اپنے لشکر کو آگے بڑھنے کا حکم دیا۔
دونوں روایتوں کے اِس اختلاف کو اگر ہم اپنے جگہ رہنے دیں اور کسی کو کسی پر ترجیح نہ دیں، تو اِن میں سے جو صورت بھی پیش آئی ہو، بہر حال یہ امر بالکل واضح ہے کہ مکّہ اور اس کے آ س پاس کے قبائل اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبے کو بچانے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ اس لیے یہ بالکل قابلِ فہم بات ہے کہ قریش نے اُس کی مزاحمت کی کوئی کوشش نہ کی۔ قریش کے لوگ تو جنگِ اَحزاب کے موقع پر مشرک اور یہودی قبائل کو ساتھ ملا کر زیادہ سے زیادہ دس بارہ ہزار کی جمعیت فراہم کر سکتے تھے۔ وہ ۶۰ ہزار فوج کا مقابلہ کیسے کر سکتے تھے۔
محمد بن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ ابرہہ کی لشکر گاہ سے واپس آ کر عبد المطلب نے قریش والوں سے کہا کہ اپنے بال بچوں کو لے کر پہاڑوں میں چلے جائیں تاکہ ان کا قتلِ عام نہ ہو جائے۔ پھر وہ اور قریش کے چند سردار حَرَم میں حاضر ہوئے اور کعبے کے دروازے کا کُنڈا پکڑ کر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں کہ وہ اپنے گھر اور اُس کے خادموں کی حفاظت فرمائے۔ اُس وقت خانۂ کعبہ میں ۳۶۰ بُت موجود تھے، مگر یہ لوگ اُس نازک گھڑی میں اُن سب کو بھول گئے اور انہوں نے صرف اللہ کے آگے دستِ سوال پھیلایا۔ اُن کی جو دعائیں تاریخوں میں منقول ہوئی ہیں ان میں اللہ واحد کے سوا کسی دوسرے کا نام تک نہیں پایا جاتا۔ ابن ہشام نے سیرت میں عبد المطّلب کے جو اشعار نقل کیے ہیں وہ یہ ہیں :
لا ھُمّ ان العبد یمنع رحلہ فامنع حِلالکْ
خدایا: بندہ اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے، تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما
لا یغلبنّ صلیبھم و مِحالھم غدواً مِحالک
کل اُن کی صلیب اور اُن کی تدبیر تیری تدبیر کے مقابلے میں غالب نہ آنے پائے
ان کنت تارکھم و قِبلتنا فا مر ما بدالکْ
اگر تو ان کو اور ہمارے قبیلے کو اپنے حال پر چھوڑ دینا چاہتا ہے تو جو تُو چاہے کر سُہَیلی نے روض الانف میں اس سلسلے کا یہ شعر بھی نقل کیا ہے :
وانصر نا علیٰ اٰل الصّلیبِ وعابد یہ الیوم اٰلک
صلیب کی آل اور اس کے پرستاروں کے مقابلے میں آج اپنی آل کی مدد فرمایا
ربّ لا ارجولھم سوا کا یا ربّ فامنع منہم حِما کا
اے میرے ربّ تیرے سوا میں اُن کے مقابلے میں کسی سے امید نہیں رکھتا۔ اے میرے ربّ ان سے اپنے حرم کی حفاظت کر
ان عدوّ البیت من عاد اکا امنعھم ان یخربوا قراکا
اِس گھر کا دشمن تیرا دشمن ہے۔ اپنی بستی کو تباہ کرنے سے ان کو روک
یہ دعائیں مانگ کر عبد المطلب اور ان کے ساتھی بھی پہاڑوں میں چلے گئے، اور دوسرے روز ابرہہ مکّے میں داخل ہونے کے لیے آگے بڑھا، مگر اُس کا خاص ہاتھی محمود، جو آگے آگے تھا، یکایک بیٹھ گیا۔ اس کو بہت تَبَر مارے گئے، آنکَسوں سے کَچوکے دیے گئے، یہاں تک کہ اسے زخمی کر دیا گیا، مگر وہ نہ ہلا۔ اُسے جنوب، شمال، مشرق کی طرف موڑ کر چلانے کی کوشش کی جاتی تو وہ دوڑنے لگتا، مگر مکّے کی طرف موڑا جاتا تو وہ فوراً بیٹھ جاتا اور کسی طرح آگے بڑھنے کے لیے تیار نہ ہوتا۔ اِتنے میں پرندوں کے جھُنڈ کے جھُنڈ اپنی چونچوں اور پنجوں میں سنگریزے لیے ہوئے آئے اور انہوں نے اِس لشکر پر اُن سنگریزوں کی بارش کر دی۔ جس پر بھی یہ کنکر گرتے اس کا جسم گلنا شروع شروع ہو جاتا۔ محمد بن اسحاق اور عِکْرِمہ کی روایت ہے کہ یہ چیچک کا مرض تھا اور بلادِ عرب میں سب سے پہلے چیچک اسی سال دیکھی گئی۔ ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ جس پر کوئی کنکری گرتی اسے سخت کھُجلی لاحق ہو جاتی اور کھُجاتے ہی جِلد پھٹتی اور گوشت جھڑنا شروع ہو جاتا۔ ابن عباس ؓ کی دوسری روایت یہ ہے کہ گوشت اور خون پانی کی طرح بہنے لگتا اور ہڈیاں نکل آتی تھیں۔ خود ابرہہ کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ اُس کا جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو کر گر رہا تھا اور جہاں سے کوئی ٹکڑا گرتا وہاں سے پیپ اور لہو بہنے لگتا۔ افراتفری میں اِن لوگوں نے یمن کی طرف بھاگنا شروع کیا۔ نُفَیل بن حبیب خَشْعَمی کو، جسے یہ لوگ بدرقہ بنا کر بلادِ خَشْعَم سے پکڑ لائے تھے، تلاش کر کے انہوں نے کہا کہ واپسی کا راستہ بتائے۔ مگر اُس نے صاف انکار کر دیا اور کہا:این المفرّ و الا لٰہ الطالبْ والا شرم المغلوب لیس الغالبْ
اب بھاگنے کی جگہ کہاں ہے جبکہ خدا تعاقب کر رہا ہے اور نکٹا (ابرہہ) مغلوب ہے، غالب نہیں ہے۔ اس بھگدڑ میں جگہ جگہ یہ لوگ گِر گِر کر مرتے رہے۔ عطاء بن یَسار کی روایت ہے کہ سب کے سب اُسی وقت ہلاک نہیں ہو گئے، بلکہ کچھ تو وہیں ہلاک ہوئے اور کچھ بھاگتے ہوئے راستے بھر گِرتے چلے گئے۔ ابرہہ بھی بلادِ خَشْعَم پہنچ کر مرا ۲؎۔ یہ واقعہ مُزْدَلفَہ اور منیٰ کے درمیان وادی مُحَصَّب کے قریب مُحَسِّر کے مقام پر پیش آیا تھا۔ صحیح مسلم اور ابو داؤد کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علہیہ و سلم کے حجۃ الوداع کا جو قصّہ امام جعفر صادق نے اپنے والد ماجد امام محمد باقر سے اور انہوں نے حضرت جابر بن عبد اللہ سے نقل کیا ہے اس میں وہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب مُزْدَلِفَہ سے منیٰ کی طرف چلے تو مُحَسِّر کی وادی میں آپ نے رفتار تیز کر دی۔ امام نَوَوی اس کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اصحاب الفیل کا واقعہ اِسی جگہ پیش آیا تھا، اس لیے سنّت یہی ہے کہ آدمی یہاں سے جلدی گزر جائے۔ موطّا ء میں امام مالک روایت کرتے ہیں کہ حضور ؐ نے فرمایا کہ مزدلفہ پورا کا پورا ٹھیرنے کا مقام ہے، مگر محسّر کی وادی میں نہ ٹھیرا جائے۔ نُفَیل بن حبیب کے جو اشعار ابن اسحاق نے نقل کیے ہیں ان میں وہ اِس واقعہ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتا ہے :
رُدَینۃُ لو رأیتِ ولا تَریہ لدیٰ جنب المحصَّب مارأینا
اے رُدَینَہ کاش تو دیکھتی، اور تو نہیں دیکھ سکے گی جو کچھ ہم نے وادی محصَّب کے قریب دیکھا
حمدتُ اللہ اذا بصرت طیراً وخفت حجارۃ تلقیٰ علینا
میں نے اللہ کا شکر کیا جب میں نے پرندوں کو دیکھا اور مجھے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں پتھر ہم پر نہ آ پڑیں
وکلّ القوم یسأل عن نُفَیل کان علیّ للحبشان دَینا
ان لوگوں میں سے ہر ایک نُفَیل کو ڈھونڈ رہا تھا، گویا کہ میرے اوپر حبشیوں کا کوئی قرض آتا تھا یہ اتنا بڑا واقعہ تھا جس کی تمام عرب میں شہرت ہو گئی اور اس پر بہت سے شعراء نے قصائد کہے۔ ان قصائد میں یہ بات بالکل نمایاں ہے کہ سب نے اسے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اعجاز قرار دیا اور کہیں اشارۃً و کنایۃً بھی یہ نہیں کہا کہ اس میں اُن بُتوں کا بھی کوئی دخل تھا جو کعبہ میں پوجے جاتے تھے۔ مثال کے طور پر عبد اللہ ابن الزِّبَعْریٰ کہتا ہے :
ستّون الفالم یوْ بوا ارضھم ولم یعش بعد الایاب سقیمہا
۶۰ ہزار تھے جو اپنی سرزمین کی طرف واپس نہ جا سکے اور نہ واپس ہونے کے بعد ان کا بیمار (ابرہہ) زندہ رہا
کانت بھا عاد و جرھم قبلہم واللہ من فوق العباد یقیمہا
یہاں ان سے پہلے عاد اور جُرْھُم تھے۔ اور اللہ بندوں کے اوپر موجود ہے جو اُسے قائم رکھے ہوئے ہے ابو قَیس بن اَسْلَت کہتا ہے :
فقوموا فصلّوا ربّکم و تمسّحوا بارکان ھٰذا البیت بین الاخاشب
اٹھو اور اپنے رب کی عبادت کرو اور مکّہ و منیٰ کی پہاڑیوں کے درمیان بیت اللہ کے کونوں کو مسح کرو
فلما اتاکم نصر ذی العرش ردّھم جنود الملیک بین ساف وحاصب
جب عرش والے کی مدد تمہیں پہنچی تو اس بادشاہ کے لشکروں نے ان لوگوں کو اِس حال میں پھیر دیا کہ کوئی خاک میں پڑا تھا اور کوئی سنگسار کیا ہوا تھا یہی نہیں بلکہ حضرت اُمّ ھانی اور حضرت زُبَیر بن العَّوام کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، قریش نے ۱۰ سال (اور بروایتِ بعض سات سال) تک اللہ وحدہٗ لاشریک کے سوا کسی کی عبادت نہ کی۔ امّ ھانی کی روایت امام بخاری نے اپنی تاریخ میں اور طَبَرانی، حاکم، ابن مَرْدُوْیَہ اور بَیْہَقِی نے اپنی کتب حدیث میں نقل کی ہے۔ حضرت زُبَیر کا بیان طَبرَانی اور ابن مردویہ اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔ اور اِس کی تائیدِ مزید حضرت سعید بن المُسَیَّب کی اُس مُرْسَل روایت سے ہوتی ہے جو خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ میں درج کی ہے۔
جس سال یہ واقعہ پیش آیا، اہلِ عرب اُسے عامُ الفِیل (ہاتھیوں کا سال) کہتے ہیں ، اور اُسی سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادتِ مبارکہ ہوئی۔ محدّثین اور مورخین کا اس بات پر قریب قریب اتفاق ہے کہ اصحابُ الفیل کا واقعہ محرم میں پیش آیا تھا اور حضورؐ کی ولادت ربیع الاول میں ہوئی تھی۔ اکثریت یہ کہتی ہے کہ آپؐ کی ولادت واقعہ ٔ فیل کے ۵۰ دن بعد ہوئی۔
جو تاریخی تفصیلات اوپر درج کی گئی ہیں ان کو نگاہ میں رکھ کر سورۂ فیل پر غور کیا جائے تو یہ بات چھی طرح سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اِس سورۂ میں اِس قدر اختصار کے ساتھ صرف اصحاب الفیل پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کا ذکر کر دینے پر کیوں اکتفا کیا گیا ہے۔ واقعہ کچھ بہت پرانا نہ تھا۔ مکّے کا بچہ بچہ اس کو جانتا تھا۔ عرب کے لوگ عام طور پر اس سے واقف تھے۔ تمام اہلِ عرب اِس بات کے قائل تھے کہ ابرہہ کے اِس حملے سے کعبے کی حفاظت کسی دیوی یا دیوتا نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے کی تھی۔ اللہ ہی سے قریش کے سرداروں نے مدد کے لیے دعائیں مانگی تھیں۔ اور چند سال تک قریش کے لوگ اِس واقعہ سے اس قدر متاثر رہے تھے کہ اُنہوں نے اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کی تھی۔ اس لیے سورۂ فیل میں اِن تفصیلات کے ذکر کی حاجت نہ تھی، بلکہ صرف اس واقعے کو یاد دلانا کافی تھا، تاکہ قریش کے لوگ خصوصاً، اور اہلِ عرب عموماً، اپنے دلوں میں اس بات پر غور کریں کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس چیز کی طرف دعوت دے رہے ہیں وہ آخر اِس کے سوا اور کیا ہے کہ تمام دوسرے معبودوں کو چھوڑ کر صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کی جائے۔ نیز وہ یہ بھی سوچ لیں کہ اگر اِس دعوتِ حق کو دبانے کے لیے اُنہوں نے زور زبردستی سے کام لیا تو جس خدا نے اصحاب الفیل کا تہس نہس کیا تھا اسی کے غضب میں وہ گرفتار ہوں گے۔ ۱؎ یمن پر سیاسی اقتدار حاصل کر نے کے بعد عیسائیوں کی مسلسل یہ کوشش رہی کہ کعبہ کے مقابلے میں ایک دوسرا کعبہ بنائیں اور عرب میں اُس کی مرکزیت قائم کر دیں۔ چنانچہ انہوں نے نَجران میں بھی ایک کعبہ بنا یا تھا جس کا ذکر ہم تفسیر سورۂ بروج حاشیہ ۴ میں کر چکے ہیں واپس۲؎ اللہ تعالیٰ نے حبشیوں کو صرف یہی سزا دینے پر اکتفا نہ کیا، بلکہ تین چار سال کے اندر یمن سے حبشی اقتدار ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا۔ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ واقعۂ فیل کے بعد یمن میں اُن کی طاقت بالکل ٹوٹ گئے، جگہ جگہ یمنی سردار علم بغاوت لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے، پھر ایک یمنی سردار سیف بن ذِی یَزََن نے شاہ ایران سے فوجی مدد طلب کر لی اور ایران کی صرف ایک ہزار فوج جو چھ جہازوں کے ساتھ آئی تھی، حبشی حکومت کا خاتمہ کر دینے کے لیے کافی ہو گئی۔ یہ سن ۵۷۵ عیسوی کا واقعہ ہے۔
1: خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ہے، مگر اصل مخاطب نسلِ قریش، بلکہ عرب کے عام لوگ ہیں جو اس سارے قصے سے خوب واقف تھے۔ قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اَلَمْ تَرَ (کاخ تم نے نہیں دیکھا) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور ان سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نہیں بلکہ عام لوگوں کو مخاطب کر نا ہے۔ (مثال کے طور پر آیاتِ ذیل ملاحظہ ہوں : ابراہیم، آیت۱۹۔ الحج۶۵-۱۸۔ النور ۴۳۔ لقمان ۳۱-۲۹۔ فاطر ۲۷۔ الزمر ۲۱)۔ پھر دیکھنے کا لفظ اس مقام پر اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ مکّہ اور اطرافِ مکّہ اور عرب کے ایک وسیع علاقے میں مکّہ سے یمن تک ایسے بہت سے لوگ اُس وقت زندہ موجود تھے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے اصحابُ الْفیل کی تباہی کا واقعہ دیکھا تھا۔ کیونکہ اس واقعہ کو گزرے ہوئے چالیس پینتالیس سال سے زیادہ کا زمانہ نہیں ہوا تھا، اور سارا عرب ہی اس کی ایسی متواتر خبریں دیکھنے والوں سے سُن چکا تھا کہ یہ واقعہ لوگوں کے لیے آنکھوں دیکھے واقعہ کی طرح یقینی تھا۔
2: یہاں اللہ تعالیٰ نے کوئی تفصیل اِس امر کی بیان نہیں کی کہ یہ ہاتھی والے کون تھے، کہاں سے آئے تھے اور کس غرض کے لیے آئے تھے۔ کیونکہ یہ باتیں سب کو معلوم تھیں۔
3: اصل میں لفظ کَید استعمال کیا گیا ہے جو کسی شخص کو نقصان پہنچانے کے لیے خفیہ تدبیر کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہاں خفیہ کیا چیز تھی؟ ساٹھ ہزار کا لشکر کئی ہاتھی لیے ہوئے اعلانیہ یمن سے مکّہ آیا تھا، اور اُس نے یہ بات چھُپا کر نہیں رکھی تھی کہ وہ کعبہ کو ڈھانے آیا ہے۔ اس لیے یہ تدبیر تو خفیہ نہ تھی۔ البتہ جو بات خفیہ تھی وہ حبشیوں کی یہ غرض تھی کہ وہ کعبہ کو ڈھا کر قریش کو کُچل کر، اور تمام اہلِ عرب کو مرعوب کر کے تجارت کا وہ راستہ عربوں سے چھین لینا چاہتے تھے جو جنوبِ عرب سے شام و مصر کی طرف جاتا ہے۔ اِس غرض کو اُنہوں نے چھُپا رکھا تھا اور ظاہر یہ کیا تھا کہ اُن کلیسا کی جو بے حُرمتی عربوں نے کی ہے اس کا بدلہ وہ اُن کا معبد ڈھا کر لینا چاہتے ہیں۔
4: اصل میں الفاظ ہیں فِیْ تَضْلِیْلٍ۔ یعنی ان کی تدبیر کو اُس نے ’’گمراہی میں ڈال دیا‘‘۔ لیکن محاورے میں کسی تدبیر کو گمراہ کر نے کا مطلب اُسے ضائع کر دینا اور اسے اپنا مقصد حاصل کرنے میں ناکام کر دینا ہے، جیسے ہم اردو زبان میں کہتے ہیں فلاں شخص کا کوئی داؤں نہ چل سکا، یا اس کا کوئی تیر نشانے پر نہ بیٹھا۔ قرآن مجید میں ایک جگہ فرمایا گیا ہے وَمَا کَیْدُ الْکَافِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلَالٍ ’’ مگر کافروں کی چال اکارت ہی گئی‘‘(المومن۔۲۵)۔ اور دوسری جگہ ارشاد ہوا وَاَنَّ اللہَ لَا یَھْدِیْ کَیْدَ الْخآئِنِیْنَ ’’ اور یہ کہ اللہ خائنوں کی چال کو کامیابی کی راہ پر نہیں لگاتا‘‘(یوسف ۵۲) اہلِ عرب امرؤ القیس کو اَلْمَلِکُ الضَّلِیْل، ’’ضائع کرنے والا بادشاہ‘‘ کہتے تھے، کیونکہ اس نے اپنے باپ سے پائی ہوئی بادشاہی کو کھو دیا تھا۔
5: اصل میں طَیْراً اَبَابِیْل کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اردو زبان میں چونکہ ابابیل ایک خاص قسم کے پرندے کو کہتے ہیں ا س لیے ہمارے ہاں لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ ابرہہ کی فوج پر ابابیلیں بھیجی گئی تھیں۔ لیکن عربی زبان میں ابابیل کے معنی ہیں بہت سے متفرق گروہ جو پے درپے مختلف سِمتوں سے آئیں، خواہ وہ آدمیوں کے ہوں یا جانوروں کے۔ عِکرِمہ اور قَتَادہ کہتے ہیں کہ یہ جھُنڈ کے جھُنڈ پرندے بحرِ احمر کی طرف سے آئے تھے۔ سعید بن جُبَیر اور عِکرِمہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے پرندے نہ پہلے کبھی دیکھے گئے تھے نہ بعد میں دیکھے گئے۔ یہ نہ نجد کے پرندے تھے نہ حجاز کے، اور نہ تہامَہ یعنی حجاز اور بحرِ احمر کے درمیان ساحلی علاقے کے۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ ان کی چونچیں پرندوں جیسی تھیں اور پنجے کُتے جیسے۔ عِکرِمہ کا بیان ہے کہ ان کے سر شکاری پرندوں کے سروں جیسے تھے۔ اور تقریباً سب راویوں کا متفقہ بیان ہے کہ ہر پرندے کی چونچ میں ایک ایک کنکر تھا اور پنجوں میں دو دو کنکر۔ مکّہ کے بعض لوگوں کے پاس یہ کنکر ایک مدّت تک محفوظ رہے۔ چنانچہ ابو نُعَیم نے نَوفَل بن ابی معاویہ کا بیان نقل کیا ہے کہ میں نے وہ کنکر دیکھے ہیں جو اصحاب الفیل پر پھینکے گئے تھے۔ وہ مٹر کے چھوٹے دانے کے برابر سیاہی مائل سُرخ تھے۔ ابن عباس کی روایت ابو نُعَیم نے نقل کی ہے کہ وہ چلغوزے کے برابر تھے اور ابنِ مَرْدُوْیَہ کی روایت میں ہے کہ بکری کی مینگنی کے برابر۔ ظاہر ہے کہ سارے سنگریزے ایک ہی جیسے نہ ہوں گے۔ اُن میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہو گا۔
6: اصلی الفاظ ہیں بَحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ، یعنی سجّیل کی قسم کے پتھر۔ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ یہ لفظ دراصل فارسی کے الفاظ سنگ اور گِل کا مُعَرَّب ہے اور اس سے مراد وہ پتھر ہے جو مٹی کے گارے سے بنا ہو اور پک کر سخت ہو گیا ہو۔ قرآن مجید سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ سورۂ ہود، آیت ۸۲ اور سورۂ حِجْر، آیت ۷۴ میں کہا گیا ہے کہ قومِ لوط پر سِجّیل کی قسم کے پتھر برسائے گئے تھے، اور اُنہی پتھروں کے متعلق سورۂ ذاریات آیت ۳۳ میں فرمایا گیا ہے کہ وہ حِجارۃ مِن طین، یعنی مٹی کے گارے سے بنے ہوئے پتھر تھے۔ مولانا حمید الدین فَراہی مرحوم و مغفور، جنہوں نے عہدِ حاضر میں قرآن مجید کے معانی و مطالب کی تحقیق پر بڑا قیمتی کام کیا ہے، اِس آیت میں تَرْمِیْہِم کا فاعل اہلِ مکّہ اور دوسرے اہلِ عرب کو قرار دیتے ہیں جو اَلَمْ تَرَ کے مُخاطَب ہیں ، اور پرندوں کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ سنگریزے نہیں پھینک رہے تھے، بلکہ اس لیے آئے تھے کہ اصحاب الفیل کی لاشوں کو کھائیں۔ اِس تاویل کے لیے جو دلائل اُنہوں نے دیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ عبدالمطّلب کا ابرہہ کے پاس جا کر کعبہ کے بجائے اپنے اونٹوں کا مطالبہ کرنا کسی طرح باور کرنے کے قابل بات نہیں ہے، اور یہ بات بھی سمجھ میں آنے والی نہیں ہے کہ قریش کے لوگوں اور دوسرے عربوں نے، جو چح کے لیے آئے ہوئے تھے، حملہ آور فوج کا کوئی مقابلہ نہ کیا ہو اور کعبے کو اس کے رحم و کرم پر چھوڑ کر وہ پہاڑوں میں جا چھُپے ہوں۔ اس لیے صورتِ واقعہ دراصل یہ ہے کہ عربوں نے ابرہہ کے لشکر کو پتھر مارے، اور اللہ تعالیٰ نے پتھراؤ کرنے والی طوفانی ہوا بھیج کر اس لشکر کا بھُرکس نکال دیا، پھر پرندے اُن لوگوں کی لاشیں کھانے کے لیے بھیجے گئے۔ لیکن جیسا کہ ہم دیباچے میں بیان کر چکے ہیں، روایت صرف یہی نہیں ہے کہ عبد المطلب اپنے اونٹوں کا مطالبہ کر نے گئے تھے، بلکہ یہ بھی ہے کہ انہوں نے اونٹوں کا کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا اور ابرہہ کو خانۂ کعبہ پر حملہ کرنے سے باز رکھنے کی کوشش کی تھی۔ ہم یہ بھی بتا چکے ہیں کہ تمام معتبر روایات کی رو سے ابرہہ کا لشکر محرّم میں آیا تھا جبکہ حُجّاج واپس جا چکے تھے۔ اور یہ بھی ہم نے بتا دیا ہے کہ ۶۰ ہزار کے لشکر کا مقابلہ کرنا قریش اور آس پاس کے عرب قبائل کے بس کا کام نہ تھا، وہ تو غَزْوَۂ احزاب کے موقع پر بڑی تیاریوں کے بعد مشرکین عرب اور یہودی قبائل کی جو فوج لائے تھے وہ دس بارہ ہزار سے زیادہ نہ تھی، پھر بھلا وہ ۶۰ ہزار فوج کرنے کی کیسے ہمت کر سکتے تھے۔ تاہم اِن ساری دلیلوں کو نظر انداز بھی کر دیا جائے اور صرف سُورۂ فیل کی ترتیبِ کلام کو دیکھا جائے تو یہ تاویل اُس کے خلاف پڑتی ہے۔ اگر بات یہی ہوتی کہ پتھر عربوں نے مارے، اور اصحابِ فیل بھُس بن کر رہ گئے، اور اس کے بعد پرندے ان کی لاشیں کھانے کو آئے، تو کلام کی ترتیب یوں ہوتی کہ تَرْ مِیْھِمْ بِحِجَا رَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ فَجَعَلَھُمْ کَعَصْفٍ مَّاْ کُوْلٍ وَّاَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْراً اَبَابِیْلَ (تم ان کو پکّی ہوئی مٹی کے پتھر مار رہے تھے، پھر اللہ نے اُن کو کھائے ہوئے بھُس جیسا کر دیا، اور اللہ نے اُن پر جھُنڈ کے جھُنڈ پرندے بھیج دیے )۔ لیکن یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے اللہ تعالیٰ نے پرندوں کے جھُنڈ بھیجنے کا ذکر فرمایا ہے، پھر اُس کے مُتَّصلاً بعد ترمیہم بِحِجَارَۃ ٍمِّنْ سِجِّیْل (جو ان کو پکّی ہوئی مٹی کے پتھر مار رہے تھے ) فرمایا ہے، اور آخر میں کہا ہے کہ پھر اللہ نے ان کو کھائے ہوئے بھُس جیسا کر دیا۔
7: اصل الفاظ ہیں کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ۔ عَصْف کا لفظ سُورۂ رحمان آیت ۱۲ میں آیا ہے : ذُوالْعَصْفِ وَ الرَّیْحَانِ، ’’اور غلّہ بھُوسے اور دانے والا‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ عَصْف کے معنی اُس چھلکے کے ہیں جو غلّے کے دانوں پر ہوتا ہے اور جسے کسان دانے نکال کر پھینک دیتے ہیں ، پھر جانور اُسے کھاتے بھی ہیں، اور کچھ ان کے چَبانے کے دوران میں گِرتا بھی جاتا ہے، اور کچھ ان کے پاؤں تلے روندا بھی جاتا ہے۔