خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الفِیل

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۃ الفیل مکّیہ ہے، اس میں ایک ۱رکوع، پانچ ۵ آیتیں، بیس ۲۰کلمے، چھیانوے ۹۶ حرف ہیں۔

(۱) اے  محبوب! کیا تم نے  نہ دیکھا تمہارے  رب نے  ان ہاتھی والوں کیا حال کیا (ف ۲)

۲                 ہاتھی والوں سے مراد ابرہہ اور اس کا لشکر ہے، ابرہہ یمن و حبشہ کا بادشاہ تھا اس نے صنعاء میں ایک کنیسہ (عبادت خانہ) بنایا تھا اور چاہتا تھا کہ حج کرنے والے بجائے مکّہ مکرّمہ کے یہیں آئیں اور اسی کنیسہ کا طواف کریں عرب کے لوگوں کو یہ بات بہت شاق تھی، قبیلۂ بنی کنانہ کے ایک شخص نے موقع پا کر اس کنیسہ میں قضائے حاجت کی اور اس کو نجاست سے آلودہ کر دیا اس پر ابرہہ کو بہت طیش آیا اور اس نے کعبہ کے ڈھانے کی قَسم کھائی اور اس ارادے سے اپنا لشکر لے کر جس میں بہت سے ہاتھی تھے اور ان کا پیش رو ایک بڑا عظیم الجثّہ کوہ پیکر ہاتھی تھا جس کا نام محمود تھا ابرہہ نے مکّہ مکرّمہ کے قریب پہنچ کر اہلِ مکّہ کے جانور قید کر لئے ان میں دو سو اونٹ عبدالمطلب کے بھی تھے عبدالمطلب ابرہہ کے پاس آئے تھے بہت جسیم و با شکوہ، ابرہہ نے ان کی تعظیم کی اور اپنے پاس بٹھایا اور مطلب دریافت کیا آپ نے فرمایا میرا مطلب یہ ہے کہ میرے اونٹ واپس کئے جائیں ابرہہ نے کہا مجھے بہت تعجّب ہوتا ہے کہ میں خانۂ کعبہ کو ڈھانے کے لئے آیا ہوں اور وہ تمہارا تمہارے باپ دادا کا معظّم و محترم مقام ہے تم اس کے لئے تو کچھ نہیں کہتے اپنے اونٹوں کے لئے کہتے ہو آپ نے فرمایا میں اونٹوں ہی کا مالک ہوں انہی کے لئے کہتا ہوں اور کعبہ کا جو مالک ہے وہ خود اس کی حفاظت فرمائے گا ابرہہ نے آپ کے اونٹ واپس کر دیئے عبدالمطلب نے قریش کو حال سنایا اور انہیں مشورہ دیا کہ وہ پہاڑوں کی گھاٹیوں اور چوٹیوں میں پناہ گزین ہوں چنانچہ قریش نے ایسا ہی کیا اور عبدالمطلب نے دروازۂ کعبہ پر پہنچ کر بارگاہِ الٰہی میں کعبہ کی حفاظت کی دعا کی اور دعا سے فارغ ہو کر آپ اپنی قوم کی طرف چلے گئے ابرہہ نے صبح تڑکے اپنے لشکروں کو تیار ی کا حکم دیا اور ہاتھیوں کو تیار کیا لیکن محمود ہاتھی نہ اٹھا اور کعبہ کی طرف نہ چلا جس طرف چلاتے تھے چلتاتھا جب کعبہ کی طرف اس کا رخ کرتے تھے بیٹھ جاتا تھا اللہ تعالیٰ نے چھوٹے چھوٹے پرند ان پر بھیجے جو چھوٹے چھوٹے سنگریزے گراتے تھے جن سے وہ ہلاک ہو جاتے تھے۔

(۲) کیا ان کا داؤ تباہی میں نہ ڈالا۔

 (۳)  اور ان پر پرندوں کی ٹکڑیاں (فوجیں ) بھیجیں (ف ۳)

۳                 جو سمندر کی جانب سے فوج آئیں ہر ایک کے پاس تین کنکریاں تھیں دو دونوں پاؤں میں ایک منقار میں۔

(۴) کہ انہیں کنکر کے  پتھروں سے  مارتے  (ف ۴)

۴                 جس پر وہ پرند سنگریزہ چھوڑتے وہ سنگریزہ اس کے خود کو توڑ کر سر سے نکل کر جسم کو چیر کر ہاتھی میں گزر کر زمین پر پہنچتا ہر سنگریزہ پر اس شخص کا نام لکھا تھا جو اس سنگریزہ سے ہلاک کیا گیا۔

(۵) تو انہیں کر ڈالا جیسے  کھائی کھیتی کی پتی (بھوسہ) (ف ۵)

۵                 جس روز یہ واقعہ ہوا اسی سال اس واقعہ سے پچاس روز کے بعد سیّدِ عالَم حبیبِ خدا محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی ولادت ہوئی۔