تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الفِیل

۱ ۔۔۔     یعنی ہاتھی والوں کے ساتھ تیرے رب نے جو معاملہ کیا وہ تم کو ضرور معلوم ہو گا۔ کیونکہ یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت با سعادت سے چند روز پیشتر ہوا تھا اور غایت شہرت سے بچہ بچہ کی زبان پر تھا۔ اسی قربِ عہد اور تواتر کی بناء پر اس کے علم کو رؤیت سے تعبیر فرما دیا۔

۲  ۔۔۔   یعنی وہ لوگ چاہتے تھے کہ اللہ کا کعبہ اجاڑ کر اپنا مصنوعی کعبہ آباد کریں ۔ یہ نہ ہو سکا۔ اللہ نے ان کے سب پیچ غلط اور کل تدبیریں بے اثر کر دیں ۔ کعبہ کی تباہی کی فکر میں وہ خود ہی تباہ و برباد ہو گئے۔

 ۴ ۔۔۔      "اصحاب فیل" کا فصہ مختصر یہ ہے کہ بادشاہِ "حبشہ" کی طرف سے " یمن" میں ایک حاکم "ابرہہ" نامی تھا۔ اس نے دیکھا کہ سارے عرب کعبہ کا حج کرنے جاتے ہیں ، چاہا کہ ہمارے پاس جمع ہوا کریں ۔ اس کی تدبیر یہ سوچی کہ اپنے مذہب عیسائی کے نام پر ایک عالیشان گرجا بنایا جائے۔ جس میں طرح کے تکلفات اور راحت و دلکشی کے سامان ہوں ۔ اس طرح لوگ اصلی اور سادہ کعبہ کو چھوڑ کر اس مکلف و مرصع کعبہ کی طرف آنے لگیں گے اور مکہ کا حج چھوٹ جائے گا۔ چنانچہ "صنعاء" میں (جو یمن کا بڑا شہر ہے) اپنے مصنوعی کعبہ کی بنیاد رکھی اور خوب دل کھول کر روپیہ خرچ کیا اس پر بھی لوگ ادھر متوجہ نہ ہوئے۔ عرب کو خصوصاً قریش کو جب اس کی اطلاع ہوئی، سخت خشمگین ہوئے کسی نے غصہ میں آ کر وہاں پاخانہ کر دیا، اور بعض کہتے ہیں کہ بعض عرب نے آگ  جلائی تھی ہوا سے اڑ کر اس عمارت میں لگ گئی۔"ابرہہ" نے جھنجھلا کر کعبہ شریف پر فوج کشی کر دی بہت سا لشکر اور ہاتھی لے کر اس ارادہ سے چلا کہ کعبہ کو منہدم کر دے درمیان میں عرب کے جس قبیلہ نے مزاحمت کی اسے مارا اور مغلوب کیا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے دادا عبدالمطلب اس وقت قریش کے سردار اور کعبہ کے متولی اعظم تھے ان کو خبر ہوئی تو فرمایا لوگو! اپنا بچاؤ کر لو، کعبہ جس کا گھر ہے وہ خود اس کو بچا لے گا۔ "ابرہہ" نے راستہ صاف دیکھ کر یقین کر لیا کہ اب کعبہ کا منہدم کر دینا کوئی مشکل کام نہیں ۔ کیونکہ ادھر سے کوئی مقابلہ کرنے والا نہ تھا۔ جب وادی "محشر" (جو مکہ کے قریب جگہ ہے) پہنچا تو سمندر کی طرف سے سبز اور زرد رنگ کے چھوٹے چھوٹے جانوروں کی ٹکڑیاں نظر آئیں ۔ ہر ایک یک چونچ اور پنجوں میں چھوٹی چھوٹی کنکریاں تھیں ۔ ان عجیب و غریب پرندوں کے غول کے غول کنکریاں لشکر پر برسانے لگے۔ خدا کی قدرت سے وہ کنکر کی پتھریاں بندوق کی گولی سے زیادہ کام کرتی تھیں ۔ جس کے لگتی، ایک طرف سے گھس کر دوسری طرف سے نکل جاتی اور ایک عجیب طرح کا سمی مادہ چھوڑ جاتی تھی۔ بہت سے وہیں ہلاک ہو گئے۔ جو بھاگے وہ دوسری بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا کر مرے۔ یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت شریف سے پچاس روز پہلے ہوا۔ بلکہ بعض کہتے ہیں کہ خاص اسی روز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد آمد کا تھا۔ اور ایک غیبی اشارہ تھا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی فوق العادت حفاظت فرمائی ہے۔ اس گھر کے سب سے مقدس متولی اور سب سے بزرگ پیغمبر کی حفاظت بھی اسی طرح کرے گا۔ اور عیسائی یا کسی دوسرے مذہب کو یہ موقع نہ دے گا کہ وہ کعبہ اور کعبہ کے سچے خادموں کا استیصال کر سکیں ۔

۵ ۔۔۔    جو بیل، گائے وغیرہ کھا کر آخور چھوڑ دیتے ہیں ۔ یعنی ایسا پراگندہ منتشر، مبتذل، بدصورت، نکما اور چورا چورا۔