دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الفِیل

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

پہلی آیت میں  اصحابُ  الفیل (ہاتھی والوں ) کا ذکر ہوا ہے۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام اَلْفِیْل ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور ابتدائی دور کی تنزیلات میں  سے ہے۔

 

مرکزی مضمون

 

 تاریخی اور عبرتناک مثال ان لوگوں  کے انجام کی جو دولت اور اقتدار کے نشہ میں  خانہ کعبہ کو ڈھا دینے کی غرض سے نکلے۔

 

نظم کلام

 

 یہ پوری سورہ اس تاریخی واقعہ کے عبرتناک پہلوؤں  پر مشتمل ہے جو واقعہ فیل کے نام سے مشہور تھا۔ آیت ۱ میں  اس بات پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے کہ جس لشکر نے خانہ کعبہ کو ڈھا دینے کے لیے اقدام کیا تھا اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کیا معاملہ کیا ؟

 

آیت ۲ میں  بتایا گیا ہے کہ ان کی چال کس طرح الٹی پڑی۔ آیت ۳ اور ۴ میں  اللہ تعالیٰ کے کرشمہ قدرت کا ذکر ہوا ہے جو اس کے گھر کی حفاظت کے لیے ظہور میں  آیا اور آیت ۵ میں  حملہ آوروں  کا عبرتناک انجام بیان کیا گیا ہے جس کو تاریخ نے اپنے اوراق میں  ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔

ترجمہ

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ تم نے نہیں  دیکھا ۱* کہ تمہارے رب نے ہاتھی والوں  کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ ۲*

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ن کی تدبیر کو بیکار نہیں  کر دیا ؟۳*

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان پر پرندوں  کے جھنڈ کے جھنڈ نہیں  بھیجے ؟ ۴*

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ جو ان پر پکی ہوئی مٹی ۵* کے پتھر پھینک رہے تھے ۶*

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر انہیں  ایسا کر دیا جیسے کھایا ہوا بھُس۔ ۷*

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ خطاب گو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے لیکن اس کے اصل مخاطب قریش اور اہل عرب ہیں  جو اس واقعہ سے بخوبی واقف تھے۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھی والوں  (اصحاب الفیل) سے مرد ابرہہ اور اس کا لشکر ہے جو ہاتھیوں  کو لے کر اللہ کے مقدس گھر پر چڑھ دوڑا تھا۔ اس واقعہ کی تفصیلات قرآن نے بیان نہیں  کیں  کیونکہ اس واقعہ سے عرب کا بچہ بچہ واقف تھا نیز اس سورہ کے نزول کے وقت اس کے عینی شاہد بھی موجود تھے۔ اس لیے قرآن نے اس کے عبرتناک پہلوؤں  کی طرف اشارہ کرنے اور اپنے اس احتساب کا ذکر کرنے پر اکتفاء کیا کہ اس نے کس غیر معمولی طریقہ سے اپنے گھر کی حفاظت کا سامان کیا۔ حدیث میں  ابھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس واقعہ کی کوئی تفصیل منقول نہیں  ہے البتہ روات اور سیرت کی کتابوں  میں  تفصیلات بیان ہوئی ہیں  خاص طور سے سیرت ابن اسحاق میں  یہ قصہ تفصیلاً بیان ہوا ہے لیکن اس میں  رطب و یابس سبھی کچھ موجود ہے۔ دیگر روایات کا بھی کم و پیش یہی حال ہے اس لیے ہم ان روایات کو سامنے رکتے ہوۓ صرف ان باتوں  کے ذکر پر اکتفا کریں  گے جن کی تائید قرائن سے ہوتی ہے یا جس کے قبول کرنے میں  کوئی امر مانع نہیں  ہے۔

 

یہ واقعہ ۵۷۰ ء یا ۵۷۱ ء کا ہے جب کہ یمن میں  ابرہہ نامی ایک عیسائی حکمراں  جو حبشہ کے عیسائی بادشاہ کے ماتحت تھا حکومت کر رہا تھا۔ اسے یہ دیکھ کر کہ عربوں  کی عقیدت کا مرکز خانہ کعبہ ہے اور وہاں  ہر سال حج کا بڑا اجتماع ہوتا ہے ، حسد پیدا ہو گیا اور اس نے صنعاء (Sana)میں  نہایت شاندار کنیسہ تعمیر کرایا تاکہ عربوں  کے حج کا رخ اس کی طرف پھیرا جا سکے۔ اس غرض کے لیے اس نے خانہ کعبہ کو ڈھا دینے کا منصوبہ بنایا اور ساٹھ ہزار کا لشکر جرّار لے کر مکی کی طرف روانہ ہوا۔ اس لشکر میں  آگے آگے ہاتھیوں  کی ایک تعداد تھی اور اسی امتیاز کی وجہ سے یہ لوگ اصحابُ الفیل کہلاۓ۔

 

یہ لشکر جب یمن سے مکہ کے لیے روانہ ہوا تو راستہ میں  بعض عرب قبائل نے مزاحمت کی لیکن وہ اس کو روکنے میں  کامیاب نہ ہو سکے یہاں  تک کہ یہ لشکر منیٰ کے قریب وادی مُحَسّر میں  پہنچ گیا جو مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہے۔

 

ادھر قریش کو جب اس فوج کشی کی خبر ہوئی تو ان کے سردار عبدالمطلب نے جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے دادا ہیں  خانہ کعبہ کے دروازے کو پکڑ کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی۔ اس دعا میں  قریش کے دوسرے لوگ بھی شریک تھے۔ اس موقع پر عبدالمطلب نے جو اشعار پڑھے وہ یہ ہیں۔

 

لَا ھُمَّ اِنَّ الْعَبْدَیَمْنَعُ رَحْلَہٗ فَامْنَعْ رِحَالَکَ۔ خدایا بندہ اپنے گھر والوں  کی حفاظت کرتا ہے تو بھی اپنے لوگوں  کی حفاظت کر

 

لَایَغْلِبَنَّ صَلِیْبُھُمْ وَمِحَالُھُمْ غدْوً ا مِحَالَکْ۔ کل ان کی صلیب اور ان کی قوت تیری قوت پر غالب نہ آنے پاۓ

 

اِنْکُنْتَ تَارِ لُھُمْ وَ قِبْلَتَنَا فَاَمْرٌ مَابَدَالَکْ۔ اگر تو ان کو اور ہمارے قبلہ کو یونہی چھوڑ دینا چاہتا ہے تو پھر تیری مرضی۔ (سیرۃ ابن ہشام ج ۱ ص ۵۱ )

 

قریش کے لیے جو تعداد میں  مختصر تھے ساٹھ ہزار کے لشکر جرار کا مقابلہ کرنا مشکل تھا۔ اگر ان کے اور لشکر کے درمیان مڈ بھیڑ ہو بھی جاتی تو کامیابی کی امید نہیں  تھی اور معاملہ اللہ کے گھر کی حفاظت کا تھا۔

 

اس گھر کی حفاظت کا جو پہلا گھر ہے جو دنیا میں  اللہ کی عبادت کے لیے بنایا گیا۔ اس کی یہ غیر معمولی اہمیت اور فضیلت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ اس کی حفاظت کا غیر معمولی سامان ہو۔ چنانچہ غیرت حق جوش میں  آئی اور اس نے اس لشکر کو آگے بڑھنے نہیں  دیا۔ ابرہہ کا خاص ہاتھی جو آگے آگے تھا وادی محشر میں  یکایک بیٹھ گیا۔ اسے مار مار کر زخمی کر دیا گیا مگر وہ نہ اٹھا۔ اسے یمن یا شام یا مشرق کی طرف موڑنے کی کوشش کی جاتی تو وہ اٹھ کر دوڑنے لگتا اور جب مکہ کی طرف موڑا جاتا تو فوراً بیٹھ جاتا۔ اتنے  میں  پرندوں  کے جھنڈ آۓ جن کی چونچوں  اور پنجوں  میں  کنکریاں  تھیں  اور انہوں  نے لشکر پر ان کی بارش کر دی۔ ان کنکریوں  کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ جس پر بھی گرتیں اس کے جسم پر پھوڑا نکل آتا اور پیپ اور لہو بہنے لگتا اور کچھ دیر میں  پورا جسم گلنے لگتا۔ جیسا کہ بعض روایتوں  سے ظاہر ہوتا ہے یہ غالباً چیچک کی قسم کا کوئی خطرناک مرض تھا جو یکایک پھوٹ پڑا تھا۔ کنکریاں  جو پکی ہوئی مٹی کی تھیں  کچھ ایسی سمیّت لیے ہوۓ تھیں  کہ جس کے کنکری لگ جاتی اس کا جسم سڑنے گلنے لگتا۔ اس وبا نے لشکر کو اس طرح لپٹ میں  لیا کہ اس کے اندر زبردست بھگدڑ مچ گئی اور لاشوں  پر لاشیں  گرتی چلی گئیں۔ ابرہہ کا بھی بہت برا حال ہوا۔ اس کے جسم سے لہو اور پیپ بہہ رہا تھا اور جسم جھر رہا تھا بالآخر اس کا سینہ پھٹ گیا اور وہ بڑی طرح ہلاک ہو گیا۔

 

یہ واقعہ ماہ محرم میں پیش آیا تھا اور اسی سال نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت با سعادت ہوئی۔ (البدایۃ والنہایۃ ج۱ ص ۱۷۵ )۔

 

اس واقعہ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی حفاظت کا غیر معمولی انتظام کیا۔ پرندوں  کے ذریعہ سنگریزوں  کی بارش اور وہ سنگریزے بھی ایسے جو بندوق کی گولی کا کام کریں ، خدا کی ایک معجزانہ نشانی تھی جو ظاہر ہوئی اور اس قسم کی نشانیاں  خاص خاص مواقع پر ہی ظاہر ہوتی ہیں۔

 

رہا اس کا تاریخی ثبوت تو قرآن بجاۓ خود سب سے بڑا تاریخی ثبوت ہے کیونکہ اگر قرآن کا بیان غلط ہوتا۔ اور یہ بات وہی لوگ سوچ سکتے ہیں  جن کو قرآن کی صداقت پر یقین نہیں۔ تو اہل مکہ ضرور اس کی تردید کرتے لیکن چونکہ اس واقعہ کے عینی شاہد ان کے درمیان موجود تھے اور واقعہ کی شہرت کی بنا پر وہ اس کی حقیقت سے باخبر تھے اس لیے قرآن کے بیان کو غلط قرار دینے کی کسی کو جرأت نہیں  ہوئی۔ علاوہ ازیں  قبل اسلام کے عرب شعراء نے اس واقعہ کا ذکر اپنے اشعار میں  کیا ہے۔ مثال کے طور پر نُفَیل جو اس واقعہ کا عینی شاہد ہے ، کہتا ہے :

 

حَمَدْتُ اللہَ اِذَا اَبْصَرْتُ طَیراً۔ میں  نے اللہ کا شکر ادا کیا جب پرندوں  کو دیکھا

 

وَخِفْتُ حِجَارَۃً تُلْقَیْ عَلَیْنَا۔ اور ڈرا کہ کوئی پتھر لگ نہ جاۓ جس کی ہم پر بارش ہو رہی تھی اور ابرہہ کی مغلوبی کا ذکر اس طرح کرتا ہے :

 

اَیْنَ الْمَفَرُّ وَالْاِلٰہُ الطَّا لِبْ۔ اب بھاگ کر کہاں  جائیں  جب کہ خدا  تعاقب کر رہا ہے۔

 

وَالْاَشْرِمُ الْمَغْلُوْ بُ لَیْسَ الغَلِبْ۔ اور نکٹا (ابرہہ ) مغلوب ہے غالب نہیں۔

 

 (سیرت ابن ہشام ج ۱ ص ۵۳۔ ۵۴ )

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ابرہہ اور اس کے لشکر نے خانہ کعبہ کو ڈھانے  کی غرض سے جو اقدام کیا تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے ناکام بنا دیا اور وہ اپنے ناپاک ارادوں  میں  ہر گز کامیاب نہ ہو سکے۔

 

اصحاب الفیل کی تدبیر کو ناکام بنانے میں  بتوں  یا دیوی دیوتاؤں  کا کوئی دخل نہیں  تھا بلکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا کرشمہ قدرت تھا جو ان پر عذاب کی صورت میں  ظاہر ہوا۔ اہل عرب بھی اس کے معترف تھے چنانچہ عرب شعراء نے اسے اللہ ہی کا کرشمہ قدرت قرار دیا ہے اور قریش نے بھی عبدالمطلب کے ساتھ خانہ کعبہ کے دروازہ پر جو دعا مانگی تھی وہ خدا ہی سے مانگی تھی نہ کہ بتوں  سے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ توحید بر حق ہے جس کی دعوت نبی صلی اللہ علیہ و سلم دے رہے ہیں  اور بت پرستی یکسر باطل ہے۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ اس بات کی تفصیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہاتھی والوں  کی تدبیر کو کس طرح بے کار کر دیا۔ صورت یہ ہوئی کہ اللہ تعالٰی نے ان کو تباہ کرنے کے لیے پرندوں  کے غول کے غول بھیج دیے۔ با لفاظ دیگر ہاتھی والے لشکر کا مقابلہ پرندوں  کے لشکر نے کیا۔

 

راویوں  کا بیان ہے کہ یہ پرندے خاص قسم کے تھے اور سمندر کی طرف سے آۓ تھے۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ متن میں  لفظ ’’سجیل‘‘ استعمال ہوا ہے جو فارسی کے دو لفظ سنگ اور گل کا مُعَرَّبْ ہے اور اس سے مرد وہ کنکر ہیں  جو پکی ہوئی مٹی سے بنے ہوں۔ آتش فشاں  علاقے میں  لاوے کی وجہ سے مڑی جو پتھر کی شکل اختیار کر لیتی ہے شاید اسی کو سجیل کہا گیا ہے اور عجب نہیں  کہ پرندے ان سنگ ریزوں  کو اپنی چونچوں  اور پنجوں  میں  قریب کے کسی آتش فشاں  علاقہ سے لے آۓ ہوں  اور ان کے اندر زہریلا مادہ ہو یا اس کے ساتھ زہریلے جراثیم ہوں  جس نے یکایک وبا کی شکل اختیار کر لی ہو۔ بہر صورت یہ عام پتھر نہیں  تھے بلکہ خاص قسم کے سنگریزے تھے اسی لیے قرآن نے اس وضاحت کے ساتھ اس کا ذکر کیا کہ ’’سجیل کی قِسم کے پتھر‘‘۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ پرندوں  کی یہ سنگباری گویا آسمانی بمباری تھی جس نے ہاتھیوں  کو بھی تباہ کیا اور ہاتھی والوں  کو بھی۔

 

پرندوں  کے سنگریزے گرانے کو سنگریزے پھینکنے (تَرْمَیْہِمْ ) سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ انہوں  نے لشکر پر سنگریزوں  کی ایسی بوچھار کر دی تھی کہ وہ پوری طرح اس کی زد میں  آگیا۔ گو یہ تیر تھے جو نشانہ پر لگ گۓ۔ اس سورت حال کے پیدا ہونے میں  ہو سکتا ہے کہ ہوا کا بھی دخل رہا ہو یعنی اس وقت تیز ہوا چلی ہو۔ غالباً اسی وجہ سے بعض شعراۓ عرب نے پرندوں  کی اس سنگباری کو حاصِب (پتھر برسانے والی آندھی) سے تعبیر کیا ہے۔

 

ہاتھی والوں  پر پرندوں  کے جو جھنڈ کے جھنڈ بھیجے گۓ تھے اس کی ایک تاویل یہ کی جاتی ہے کہ یہ پرندے ہاتھی والوں  کی لاشیں  کھانے کے لیے آۓ تھے نہ کہ کنکر برسانے کے لیے مگر آیات کا سیاق و سباق اس تاویل کو قبول نہیں  کرتا نیز پرندوں  کا لاشیں  کھانا  کوئی ایسی بات نہیں  ہے کہ قرآن اس اہتمام کے ساتھ اس کا ذکر کرے۔ اس لیے جمہور مفسرین نے ان آیات کا جو مطلب بیان کیا ہے وہی صحیح ہے اور اس کی رو سے یہ پرندے لاشیں  کھانے کے لیے نہیں بلکہ لاشیں  گرانے کے لیے آۓ تھے۔ رہا یہ سوال کہ قریش نے جو بیت اللہ کے متولی تھے فوج کا مقابلہ کیا یا نہیں  ؟ تو واقعہ یہ ہے کہ ان کی مڈ بھیڑ فوج سے ہوئی ہی نہیں۔ وہ مکہ میں تھے اور لشکر منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان تھا اس لیے نہ یہ بات صحیح ہے کہ وہ ڈر کر پہاڑوں  میں  جھپ گۓ تھے جیسا کہ روایتوں  میں  بیان کیا گیا ہے اور نہ یہ خیال صحیح ہے کہ انہوں  نے پہاڑوں  پر سے لشکر پر پتھراؤ کیا تھا۔ پہاڑوں  میں  چھپنے کی بات اس لیے باور کرنے کے لائق نہیں  کہ قریش بزدل نہیں  تھے اور جب کہ ابرہہ کی مزاحمت بعض عرب قبائل نے راستہ میں  کی تھی جیسا کہ ان روایات ہی میں  بیان ہوا ہے تو قریش کس طرح مزاحمت نہ کرتے۔ ان کی غیرت و حمیت اس بات کو کیسے گوارا کر سکتی تھی کہ بیت اللہ کو چھوڑ کر سب کے سب بھاگ جائیں  ؟ اور اللہ کے گھر پر قربان ہوں  کے لیے ایک آدمی بھی موجود نہ رہے ؟ عبدالمطلب کے ان دعائیہ اشعار سے جو اوپر نقل کیے گۓ بزدلی کا اظہار نہیں  ہوتا۔ البتہ چونکہ قریش تعداد کی قلت کی وجہ سے ایک لشکر جرار کے مقابلہ میں  کامیاب نہیں  ہو سکتے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر کی حفاظت کا غیر معمولی سامان کیا۔ رہا یہ دعویٰ کہ در اصل انہوں  نے پہاڑوں  پر سے سنگباری کی تھی نہ کہ پرندوں  نے تو یہ دعویٰ بلا دلیل ہے اور جب قریش کا ابرہہ کے لشکر کے نزدیک آنا ہی ثابت نہیں  تو پتھر پھینکنے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے ؟۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان ہاتھی والوں  کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عبرتناک سزا دی کہ وہ سڑی گلی لاشوں  کا ڈھیر بن کر رہ گۓ۔ کھاۓ ہوۓ بھوسہ سے تشبیہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح بھوسہ ایک بے وقعت چیز ہے اور پامال کیا جاتا ہے اسی طرح یہ لشکر جرّار بے وقعت اور پامال ہو کر رہا۔ بھوسے کو جب جانور کھا لیتا ہے تو اس کی نہایت مکروہ شکل بنتی ہے۔ ہاتھی والوں  کی لاشوں  کا بھی یہی حال ہوا اس لیے ان کو کھاۓ ہوۓ بھوسے سے  تشبیہہ دی گئی ہے۔