تفہیم القرآن

سورة یُوسُف

زمانۂ نزول و سببِ نزول

اس سورت کے مضمون سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ بھی زمانۂ قیام مکہ کے آخری دور میں نازل ہوئی ہو گی جبکہ قریش کے لوگ اس مسئلے پر غور کر رہے تھے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو قتل کر دیں یا جلاوطن کریں یا قید کر دیں۔ اس زمانے میں کفار مکہ نے (غالباً یہودیوں کے اشارے پر) نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا امتحان لینے کے لیے آپ سے سوال کیا کہ بنی اسرائیل کے مصر جانے کا کیا سبب ہوا۔ چونکہ اہل عرب اس قصے سے ناواقف تھے، اس کا نام و نشان تک ان کے ہاں روایات میں نہ پایا جاتا تھا اور خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان سے بھی اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سنا گیا تھا، اس لیے انہیں توقع تھی کہ آپ یا تو اس کا مفصل جواب نہ دے سکیں گے، یا اس وقت ٹال مٹول کر کے کسی یہودی سے پوچھنے کی کوشش کریں گے اور اس طرح آپ کا بھرم کھل جائے گا۔ لیکن اس امتحان میں انہیں الٹی منہ کی کھانی پڑی۔ اللہ تعالیٰ نے صرف یہی نہیں کیا کہ فوراً اسی وقت یوسف علیہ السلام کا پورا قصہ آپ کی زبان پر جاری کر دیا، بلکہ مزید برآں اس قصے کو قریش کے اس معاملے پر چسپاں بھی کر دیا جو وہ برادران یوسف کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کر رہے تھے۔ 

مقاصد نزول

اس طرح یہ قصہ دو اہم مقاصد کے لیے نازل فرمایا گیا: ایک یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کا ثبوت، اور وہ بھی مخالفین کا اپنا منہ مانگا ثبوت بہم پہنچایا جائے، اور ان کے خود تجویز کردہ امتحان میں یہ ثابت کر دیا جائے کہ آپ سنی سنائی باتیں بیان نہیں کرتے بلکہ فی الواقع آپ کو وحی کے ذریعے علم ہوتا ہے۔ اس مقصد کو آیات ۳، ۷ میں صاف صاف واضح کر دیا گیا ہے اور آیات ۱۰۲-۱۰۳ میں بھی پورے زور کے ساتھ اس کی تصریح کی گئی ہے۔ دوسرے یہ کہ سرداران قریش اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے درمیان اس وقت جو معاملہ چل رہا تھا اس پر برادران یوسف اور یوسف علیہ السلام کے قصے کو چسپاں کرتے ہوئے قریش والوں کو بتایا جائے کہ آج تم اپنے بھائی کے ساتھ وہی کچھ کر رہے ہو جو یوسف کے بھائیوں نے ان کے ساتھ کیا تھا۔ مگر جس طرح وہ خدا کی مشیت سے لڑنے میں کامیاب نہ ہوئے اور آخر کار اسی بھائی کے قدموں میں آ رہے جس کو انہوں نے کبھی انتہائی بے رحمی کے ساتھ کنویں میں پھینکا تھا، اسی طرح تمہاری زور آزمائی بھی خدائی تدبیر کے مقابلے میں کامیاب نہ ہو سکے گی اور ایک دن تمہیں بھی اپنے اسی بھائی سے رحم و کرم کی بھیک مانگنی پڑے گی جسے آج تم مٹا دینے پر تلے ہوئے ہو۔ یہ مقصد بھی سورت کے آغاز میں صاف صاف بیان کر دیا گیا ہے چنانچہ فرمایا "یوسف اور اس کے بھائیوں کے قصے میں ان پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں "

 حقیقت یہ ہے کہ یوسف علیہ السلام کے قصے کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور قریش کے معاملے پر چسپاں کر کے قرآن مجید نے گویا ایک صریح پیش گوئی کر دی تھی جسے آئندہ دس سال کے واقعات نے حرف بحرف صحیح ثابت کر کے دکھا دیا۔ اس سورت کے نزول پر ڈیڑھ دو سال ہی گزرے ہوں گے کہ قریش والوں نے برادرانِ یوسف کی طرح محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قتل کی سازش کی اور آپ کو مجبوراً ان سے جان بچا کر مکہ نکلنا پڑا۔ پھر ان کی توقعات کے بالکل برخلاف آپ کو بھی جلا وطنی میں ویسا ہی عروج و اقتدار نصیب ہوا جیسا یوسف علیہ السلام کو ہوا تھا۔ پھر فتح مکہ کے موقع پر ٹھیک ٹھیک وہی کچھ پیش آیا جو مصر کے پایۂ تخت میں یوسف علیہ السلام کے سامنے ان کے بھائیوں کی آخری حضوری کے موقع پر پیش آیا تھا۔ وہاں جب برادرانِ انتہائی عجز و درماندگی کی حالت میں ان کے آگے ہاتھ پھیلائے کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے کہ "ہم پر صدقہ کیجیے، اللہ صدقہ کرنے والوں کو نیک جزا دیتا ہے " تو یوسف علیہ السلام نے انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود انہیں معاف کر دیا اور فرمایا

    "آج تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے، وہ سب پر رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے "۔

اسی طرح یہاں جب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے شکست خوردہ قریش سرنگوں کھڑے ہوئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے ایک ایک ظلم کا بدلہ لینے پر قادر تھے تو آپ نے ان سے پوچھا "تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کروں گا؟" انہوں نے عرض کیا "آپ ایک عالی ظرف بھائی ہیں، اور ایک عالی ظرف بھائی کے بیٹے ہیں "۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ

    "میں تمہیں وہی جواب دیتا ہوں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کو دیا تھا کہ آج تم پر کوئی گرفت نہیں، جاؤ تمہیں معاف کیا"۔

مباحث و مسائل

یہ دو پہلو تو اس سورت میں مقصدی حیثیت رکھتے ہیں لیکن اس قصے کو بھی قرآن مجید قصہ گوئی و تاریخ نگاری کے طور پر بیان نہیں کرتا بلکہ اپنے قاعدے کے مطابق وہ اسے اپنی اصل دعوت کی تبلیغ میں استعمال کرتا ہے۔ وہ اس پوری داستان میں یہ بات نمایاں کر کے دکھاتا ہے کہ حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق، حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہما السلام کا دین وہی تھا جو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کاہے اور اسی چیز کی طرف وہ بھی دعوت دیتے تھے جس کی طرح آج محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دے رہے ہیں۔ پھر وہ ایک طرف حضرت یعقوب اور حضرت یوسف علیہما السلام کے کر دار اور دوسری طرف برادرانِ یوسف، قافلۂ تجار، عزیز مصر، اس کی بیوی، بیگمات مصر اور حکام مصر کے کر دار ایک دوسرے کے مقابلے میں رکھ دیتا ہے اور محض اپنے اندازِ بیاں سے سامعین و ناظرین کے سامنے یہ خاموش سوال پیش کرتا ہے کہ دیکھو، ایک نمونے کے کر دار تو وہ ہیں جو اسلام، یعنی خدا کی بندگی اور حسابِ آخرت کے یقین سے پیدا ہوتے ہیں، اور دوسرے نمونے کے کر دار وہ ہیں جو کفر و جاہلیت اور دنیا پرستی اور خدا و آخرت سے بے نیازی کے سانچوں میں ڈھل تیار ہوتے ہیں۔ اب تم خود اپنے ضمیر سے پوچھو کہ وہ ان میں سے کس نمونے کو پسند کرتا ہے۔ پھر اس قصے سے قرآن حکیم ایک اور گہری حقیقت بھی انسان کے ذہن نشین کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جو کام کرنا چاہتا ہے وہ بہرحال پورا ہو کر رہتا ہے۔ انسان اپنی تدبیروں سے اس کے منصوبوں کو روکنے اور بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ بلکہ بسا اوقات انسان ایک کام اپنے منصوبے کی خاطر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے ٹھیک نشانے پر تیر مار دیا مگر نتیجے میں ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے اسی کے ہاتھوں سے وہ کام لے لیا جو اس کے منصوبے کے خلاف اور اللہ کے منصوبے کے عین مطابق تھا۔ یوسف علیہ السلام کے بھائی جب ان کو کنویں میں پھینک رہے تھے تو ان کا گمان تھا کہ ہم نے اپنی راہ کے کانٹے کو ہمیشہ کے لیے ہٹا دیا۔ مگر فی الواقع انہوں نے یوسف کو اُس بام عروج کی پہلی سیڑھی پر اپنے ہاتھوں لا کھڑا کیا جس پر اللہ ان کو پہنچانا چاہتا تھا اور اپنی اس حرکت سے انہوں نے خود اپنے لیے اگر کچھ کمایا تو بس یہ کہ یوسف کے بام عروج پر پہنچنے کے بعد بجائے اس کے کہ وہ عزت کے ساتھ اپنے بھائی کی ملاقات کو جاتے انہیں ندامت و شرمساری کے ساتھ اسی بھائی کے سامنے سرنگوں ہونا پڑا۔ عزیز مصر کی بیوی یوسف علیہ السلام کو قید خانے میں بھجوا کر اپنے نزدیک تو ان سے انتقام لے رہی تھی مگر فی الواقع اس نے ان کے لیے تخت سلطنت پر پہنچنے کا راستہ صاف کیا اور اپنی اس تدبیر سے خود اپنے لیے اس کے سوا کچھ نہ کمایا کہ وقت آنے پر فرمانروائے ملک کی مربیہ کہلانے کے بجائے اس کو علی الاعلان اپنی خیانت کے اعتراف کی شرمندگی اٹھانی پڑی۔ یہ محض دو چار مستثنیٰ واقعات نہیں ہیں بلکہ تاریخ ایسی بے شمار مثالوں سے بھری پڑی ہے جو اس حقیقت کی گواہی دیتی ہیں کہ اللہ جسے اٹھانا چاہتا ہے، ساری دنیا مل کر بھی اس کو نہیں گرا سکتی بلکہ دنیا جس تدبیر کو اس کے گرانے کی نہایت کارگر اور یقینی تدبیر سمجھ کر اختیار کرتی ہے، اللہ اسی تدبیر سے اس کے اٹھنے کی صورتیں نکال دیتا ہے اور ان لوگوں کے حصے میں رسوائی کے سوا کچھ نہیں آتا جنہوں نے اسے گرانا چاہتا تھا اور اسی طرح اس کے برعکس خدا جسے گرانا چاہتا ہے اسے کوئی تدبیر سنبھال نہیں سکتی، بلکہ سنبھالنے کی ساری تدبیریں الٹی پڑتی ہیں اور ایسی تدبیریں کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے۔ اس حقیقت حال کو اگر کوئی سمجھ لے تو اسے پہلا سبق تو یہ ملے گا کہ انسان کو اپنے مقاصد اور اپنی تدابیر، دونوں میں ان حدود سے تجاوز نہ کرنا چاہیے جو قانون الٰہی میں اس کے لیے مقرر کر دی گئی ہیں۔ کامیابی و ناکامی تو اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن جو شخص پاک مقصد کے لیے سیدھی سیدھی جائز تدبیر کرے گا وہ اگر ناکام بھی ہوا تو بہرحال ذلت و رسوائی سے دوچار نہ ہو گا اور جو شخص ناپاک مقصد کے لیے ٹیڑھی تدبیریں کرے گا وہ آخرت میں تو یقیناً رسوا ہو گا ہی مگر دنیا میں بھی اس کے لیے رسوائی کا خطرہ کچھ کم نہیں ہے۔ دوسرا اہم سبق اس سے توکل علی اللہ اور تفویض الی اللہ کا ملتا ہے۔ جو لوگ حق و صداقت کے لیے سعی کر رہے ہوں اور دنیا انہیں مٹا دینے پر تلی ہوئی ہو وہ اگر اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں تو انہیں اس سے غیر معمولی تسکین حاصل ہو گی اور مخالف طاقتوں کی بظاہر نہایت خوفناک تدبیروں کو دیکھ کر وہ قطعاً ہراساں نہ ہوں گے بلکہ نتائج کو اللہ پر چھوڑتے ہوئے اپنا اخلاقی فرض انجام دیے چلے جائیں گے۔ مگر سب سے بڑا سبق جو اس قصے سے ملتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک مرد مومن اگر حقیقی اسلامی سیرت رکھتا ہو اور حکمت سے بھی بہرہ یاب ہو تو وہ محض اپنے اخلاق کے زور سے ایک پورے ملک کو فتح کر سکتا ہے۔ یوسف علیہ السلام کو دیکھیے، ۱۷ برس کی عمر، تن تنہا، بے سر و سامان، اجنبی ملک اور پھر کمزوری کی انتہا یہ کہ غلام بنا کر بیچے گئے ہیں۔ تاریخ کے اس دور میں غلاموں کی جو حیثیت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس پر مزید یہ کہ ایک شدید اخلاقی جرم کا الزام لگا کر انہیں جیل بھیج دیا گیا جس کی میعاد سزا بھی کوئی نہ تھی۔ اس حالت تک گرا دیے جانے کے بعد وہ محض اپنے ایمان اور اخلاق کے بل پر اٹھتے ہیں اور بالآخر پورے ملک کو مسخر کر لیتے ہیں۔

تاریخی و جغرافیائی حالات

اس قصے کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ مختصراً اس کے متعلق کچھ تاریخی و جغرافیائی معلومات بھی ناظرین کے پیش نظر رہیں : حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے، حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑ پوتے تھے۔ بائبل کے بیان کے مطابق (جس کی تائید قرآن کے اشارات سے بھی ہوتی ہے ) حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے چار بیویوں میں سے تھے۔ حضرت یوسف اور ان کے چھوٹے بھائی بن یامین ایک بیوی سے اور باقی دس دوسری بیویوں سے تھے۔ فلسطین میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی جائے قیام حبرون (موجودہ الخلیل) کی وادی میں تھی جہاں حضرت اسحاق اور ان سے پہلے حضرت ابراہیم رہا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ حضرت یعقوب کی کچھ زمین سکم (موجودہ نابلوس) میں بھی تھی۔ بائبل کے علماء کی تحقیق اگر درست مانی جائے تو حضرت یوسف کی پیدائش ۱۹۰۶ قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں ہوئی اور ۱۸۹۰ قم کے زمانے میں وہ واقعہ پیش آیا جس سے اس قصے کی ابتدا ہوتی ہے یعنی خواب دیکھنا اور پھر کنویں میں پھینکا جانا۔ اس وقت حضرت یوسف کی عمر سترہ برس تھی۔ جس کنویں میں وہ پھینکے گئے وہ بائبل اور تلمود کی روایات کے مطابق سکم کے شمال میں دوتن (موجودہ دُثان) کے قریب واقع تھا اور جس قافلے نے انہیں کنویں سے نکالا وہ جلعاد (موجودہ اردن) سے آ رہا تھا اور مصر کی طرف عازم تھا۔ (جلعاد کے کھنڈر اب بھی دریائے اردن کے مشرق میں وادی الیابس کے کنارے واقع ہیں ) مصر پر اس زمانے میں پندرہویں خاندان کی حکومت تھی جو مصری تاریخ میں چروا ہے بادشاہوں ( HIKSOS Kings ) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ عربی النسل تھے اور فلسطین و شام سے مصر جا کر ۲ ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں سلطنت مصر پر قابض ہو گئے۔ عرب مؤرخین اور مفسرین قرآن نے ان کے لیے "عمالیق" کا نام استعمال کیا ہے جو مصریات کی موجودہ تحقیقات سے ٹھیک مطابقت رکھتا ہے۔ مصر میں یہ لوگ اجنبی حملہ آور کی حیثیت رکھتے تھے اور ملک کی خانگی نزاعات کے سبب انہیں وہاں اپنی بادشاہی قائم کرنے کا موقع مل گیا تھا۔ یہی سبب ہوا کہ ان کی حکومت میں حضرت یوسف علیہ السلام کو عروج حاصل کرنے کا موقع ملا اور پھر بنی اسرائیل وہاں ہاتھوں ہاتھ لیے گئے، ملک کے بہترین زرخیز علاقے میں آباد کیے گئے اور ان کو وہاں بڑا اثر و رسوخ حاصل ہوا کیونکہ وہ ان غیر ملکی حکمرانوں کے ہم جنس تھے۔ پندرہویں صدی قبل مسیح کے اواخر تک یہ لوگ مصر پر قابض رہے اور ان کے زمانے میں ملک کا سارا اقتدار عملاً بنی اسرائیل کے ہاتھ میں رہا۔اسی دور کی طرف سورۂ مائدہ آیت ۲۰ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد ملک میں ایک زبردست قوم پرستانہ تحریک اٹھی جس نے ہکسوس اقتدار کا تختہ الٹ دیا۔ ڈھائی لاکھ کی تعداد میں عمالقہ ملک سے نکال دیے گئے۔ ایک نہایت متعصب قبطی النسل خاندان برسر اقتدار آ گیا اور اس نے عمالقہ کے زمانے کی یادگاروں کو چن چن کر مٹا دیا اور بنی اسرائیل پر ان مظالم کا سلسلہ شروع کیا جن کا ذکر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں آتا ہے۔ مصری تاریخ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ان چروا ہے بادشاہوں نے مصری دیوتاؤں کو تسلیم نہیں کیا تھا، بلکہ اپنے دیوتا شام سے اپنے ساتھ لائے تھے اور ان کی کوشش یہ تھی کہ مصر میں ان کا مذہب رائج ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید حضرت یوسف علیہ السلام کے ہم عصر بادشاہ کو "فرعون" کے نام سے یاد نہیں کرتا۔ کیونکہ فرعون مصر کی مذہبی اصطلاح تھی اور یہ لوگ مصری مذہب کے قائل نہ تھے۔ لیکن بائبل میں غلطی سے اس کو بھی فرعون ہی کا نام دیا گیا ہے۔ شاید اس کے مرتب کرنے والے سمجھتے ہوں گہ کہ مصر کے سب بادشاہ فراعنہ ہی تھے۔ موجودہ زمانے کے محققین جنہوں نے بائبل اور مصری تاریخ کا تقابل کیا ہے، عام رائے یہ رکھتے ہیں کہ چروا ہے بادشاہوں میں سے جس فرمانروا کا نام مصری تاریخ میں اپوفیس ملتا ہے، وہی حضرت یوسف کا ہم عصر تھا۔ مصر کا دارالسلطنت اس زمانے میں ممفس (منف) تھا جس کے کھنڈر قاہرہ کے جنوب میں ۱۴ میل کے فاصلے پر پائے جاتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام ۱۷،۱۸ سال کی عمر میں وہاں پہنچے۔ دو تین سال عزیز مصر کے گھر رہے۔ آٹھ نو سال جیل میں گذارے۔ ۳۰ سال کی عمر میں ملک کے فرمانروا ہوئے اور ۸۰ سال تک بلا شرکت غیرے مصر پر حکومت کرتے رہے۔ اپنی حکومت کے نویں یا دسویں سال انہوں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے پورے خاندان کے ساتھ فلسطین سے مصر بلا لیا اور اس علاقے میں آباد کیا جو دمیاط اور قاہرہ کے درمیان واقع ہے۔ بائبل میں اس علاقے کا جُشَن یا گوشن بتایا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ کے زمانے تک یہ لوگ اسی علاقے میں آباد رہے۔ بائبل کا بیان ہے کہ حضرت یوسف نے ایک سو دس سال کی عمر میں وفات پائی اور انتقال کے وقت بنی اسرائیل کو وصیت کی کہ جب تم اس ملک سے نکلو تو میری ہڈیاں اپنے ساتھ لے کر جانا۔ یوسف علیہ السلام کے قصے کی جو تفصیلات بائبل اور تلمود میں بیان کی گئی ہیں ان سے قرآن کا بیان بہت کچھ مختلف ہے۔ مگر قصے کے اہم اجزا میں تینوں متفق ہیں۔

ترجمہ و تفسیر

ا، ل، ر۔ یہ اُس کتاب کی آیات ہیں جو اپنا مدّعا صاف صاف بیان کرتی ہے۔  ہم نے اسے نازل کیا ہے قرآن ۱ بنا کر عربی زبان میں تا کہ تم (اہلِ عرب) اس کو اچھی طرح سمجھ سکو۔۲ اے محمد ؐ، ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کر کے بہترین پیرایہ میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کر تے ہیں، ورنہ اس سے پہلے تو (ان چیزوں سے ) تم بالکل ہی بے خبر تھے۔ ۳ یہ اُس وقت کا ذکر ہے جب یوسف ؑ نے اپنے باپ سے کہا ’’ابا جان، میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سُورج اور چاند ہیں اور وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔‘‘  جواب میں اس کے باپ نے کہا، ’’ بیٹا، اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سُنانا ورنہ وہ تیرے درپے آزار ہو جائیں گے، ۴ حقیقت یہ ہے کہ شیطان آدمی کا کھُلا دشمن ہے اور ایسا ہی ہو گا(جیسا تُو نے خواب میں دیکھا ہے کہ) تیرا ربّ تجھے ( اپنے کام کے لیے ) منتخب کرے گا ۵ اور تجھے باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھائے گا۶ اور تیرے اوپر اور آلِ یعقوب ؑ پر اپنی نعمت اسی طرح پوری کرے گا جس طرح اس سے پہلے وہ تیرے بزرگوں، ابراہیم ؑ اور اسحاق ؑ پر کر چکا ہے، یقیناً تیرا ربّ علیم اور حکیم ہے۔ ‘‘ ۷ ؏ ١

 

۱-قرآن مصدر ہے قَرَأَ یَقرأ سے۔ اس کے اصل معنی میں ’’پڑھنا‘‘۔ مصدر کو کسی چیز کے لیے جب نام کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اس شے کے اندر معنی مصدری بدرجہ کمال پایا جاتا ہے۔ مثلاً جب کسی شخص کو ہم بہادر کہنے کے بجائے ’’بہادری‘‘ کہیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اس کے اندر شجاعت ایسی کمال درجہ کی پائی جاتی ہے کہ گویا وہ اور شجاعت ایک چیز ہیں۔ پس اس کتاب کا نام ’’قرآن‘‘ (پڑھنا) رکھنے کا مطلب یہ ہُوا کہ یہ عام و خاص سب کے پڑھنے کے لیے ہے اور بکثرت پڑھی جانے والی چیز ہے۔

۲-اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کتاب مخصوص طور پر اہلِ عرب ہی کے لیے نازل کی گئی ہے۔ بلکہ اس فقرے کا اصل مدّعا یہ کہنا ہے کہ ’’اے اہلِ عرب، تمہیں یہ باتیں کسی یونانی یا ایرانی زبان میں تو نہیں سنائی جا رہی ہیں، تمہاری اپنی زبان میں ہیں، لہٰذا تم نہ تو یہ عذر پیش کر سکتے ہو کہ یہ باتیں تو ہماری سمجھ ہی میں نہیں آتیں اور نہ یہی ممکن ہے کہ اس کتاب میں اعجاز کے جو پہلو میں، جو اس کے کلام الٰہی ہونے کی شہادت دیتے ہیں، وہ تمہاری نگاہوں سے پوشیدہ رہ جائیں‘‘۔

بعض لوگ قرآن مجید میں اس طرح کے فقرے دیکھ کر اعتراض پیش کرتے ہیں کہ یہ کتاب تو اہلِ عرب کے لیے ہے، غیر اہلِ عرب کے لیے نازل ہی نہیں کی گئی ہے، پھر اسے تمام انسانوں کے لیے ہدایت کیسے کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ محض ایک سرسری سا اعتراض ہے جو حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کیے بغیر جڑ دیا جاتا ہے۔ انسانوں کی عام ہدایت کے لیے جو چیز بھی پیش کی جائے گی وہ بہرحال انسانی زبانوں میں سے کسی ایک زبان ہی میں پیش کی جائے گی، اور اس کے پیش کرنے والے کی کوشش یہی ہو گی کہ پہلے وہ اُس قوم کو اپنی تعلیم سے پوری طرح متاثر کرے جس کی زبان میں وہ اسے پیش کر رہا ہے، پھر وہی قوم دوسری قوموں تک اس تعلیم کے پہنچنے کا وسیلہ بنے۔ یہی ایک فطری طریقہ ہے کسی دعوت و تحریک کے بین الاقوامی پیمانے پر پھیلنے کا۔

۳-ہم سورہ کے دیباچے میں بیان کر چکے ہیں کہ کفار مکہ میں سے بعض لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلّم کا امتحان لینے کے لیے، بلکہ اپنے نزدیک آپ کا بھرم کھولنے کے لیے، غالباً یہودیوں کے اشارے پر، آپ کے سامنے اچانک یہ سوال پیش کیا تھا کہ بنی اسرائیل کے مصر پہنچنے کا کیا سبب ہُوا۔ اسی بنا پر ان کے جواب میں تاریخ بنی اسرائیل کا یہ باب پیش کرنے سے پہلے تمہیداً یہ فقرہ ارشاد ہُوا ہے کہ اے محمد ؐ !تم ان واقعات سے بے خبر تھے، دراصل یہ ہم ہیں جو وحی کے ذریعہ سے تمہیں ان کی خبر دے رہے ہیں۔ بظاہر اس فقرے میں خطاب نبی ؐ سے ہے، لیکن اصل میں روئے سخن اُن مخالفین کی طرف ہے جن کو یقین نہ تھا کہ آپ کو وحی کے ذریعہ سے علم حاصل ہوتا ہے۔

۴-اس سے مراد حضرت یوسف ؑ کے وہ دس بھائی ہیں جو دوسری ماؤں سے تھے۔ حضرت یعقوب ؑ کو معلوم تھا کہ یہ سوتیلے بھائی یوسف ؑ سے حسد رکھتے ہیں اور اخلاق کے لحاظ سے بھی ایسے صالح نہیں ہیں کہ اپنا مطلب نکالنے کے لیے کوئی ناروا کاروائی کرنے میں انہیں کوئی تامل ہو، اس لیے انہوں نے اپنے صالح بیٹے کو متنبہ فرما دیا کہ ان سے ہوشیار رہنا۔ خواب کا صاف مطلب یہ تھا کہ سورج سے مراد حضرت یعقوب ؑ، چاند سے مراد ان کی بیوی (حضرت یوسف ؑ کی سوتیلی والدہ)اور گیارہ ستاروں سے مراد گیارہ بھائی ہیں۔

۵- یعنی نبوّت عطا کرے گا۔

۶- ’’تَاویلُ الاَحَا دیثِ‘‘ کا مطلب محض تعبیرِ خواب کا علم نہیں ہے جیسا کہ گمان کیا گیا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے معاملہ فہمی اور حقیقت رسی کی تعلیم دے گا اور وہ بصیرت تجھ کو عطا کرے گا جس سے تو ہر معاملہ کی گہرائی میں اترنے اور اس کی تہ کو پا لینے کے قابل ہو جائے گا۔

۷-بائیبل اور تَلمود کا بیان قرآن کے اس بیان سے مختلف ہے۔ ان کا بیان یہ ہے کہ حضرت یعقوب ؑ نے خواب سُن کر بیٹے کو خوب ڈانٹا اور کہا، اچھا اب تو یہ خواب دیکھنے لگا ہے کہ میں اور تیری ماں اور تیرے سب بھائی تجھے سجدہ کریں گے۔ لیکن ذرا غور کرنے سے بآسانی یہ بات سمجھ میں آ سکتی ہے کہ حضرت یعقوب ؑ کی پیغمبرانہ سیرت سے قرآن کا بیان زیادہ مناسبت رکھتا ہے نہ کہ بائیبل اور تَلمود کا۔ حضرت یوسف ؑ نے خواب بیان کیا تھا، کوئی اپنی تمنّا اور خواہش نہیں بیان کی تھی خواب اگر سچّا تھا، اور ظاہر ہے کہ حضرت یعقوب ؑ نے جو اس کی تعبیر نکالی وہ سچا خواب ہی سمجھ کر نکالی تھی، تو اس کے صاف معنی یہ تھے کہ یہ یوسف ؑ کی خواہش نہیں تھی بلکہ تقدیرِ الٰہی کا فیصلہ تھا کہ ایک وقت ان کو یہ عروج حاصل ہو۔ پھر کیا ایک پیغمبر تو درکنار ایک معقول آدمی کا بھی یہ کام ہو سکتا ہے کہ ایسی بات پر بُرا مانے اور خواب دیکھنے والے کو اُلٹی ڈانٹ پلائے ؟ اور کیا کوئی شریف باپ ایسا بھی ہو سکتا ہے جو اپنے ہی بیٹے کے آئندہ عروج کی بشارت سن کر خوش ہونے کے بجائے اُلٹا جل بھُن جائے ؟

 

حقیقت یہ ہے کہ یُوسُف ؑ اور اس کے بھائیوں کے قصہ میں اِن پوچھنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔یہ قصہ یوں شروع ہوتا ہے کہ اس کے بھائیوں نے آپس میں کہا ’’یہ یوسف ؑ اور اس کا بھائی،۸ دونوں ہمارے والد کو ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک پورا جتھا ہیں، سچی بات یہ ہے کہ ہمارے ابا جان بالکل ہی بہک گئے ہیں۔۹ چلو یُوسف ؑ کو قتل کر دو یا اسے کہیں پھینک دو تاکہ تمہارے والد کی توجہ صرف تمہاری ہی طرف ہو جائے۔ یہ کام کر لینے کے بعد پھر نیک بن رہنا۔‘‘ ۱۰اس پر ان میں سے ایک بولا ’’ یُوسف ؑ کو قتل نہ کرو، اگر کچھ کرنا ہی ہے تو اُسے کسی اندھے کنویں میں ڈال دو، کوئی آتا جاتا قافلہ اسے نکال لے جائے گا۔‘‘ اس قرارداد پر انہوں نے جا کر اپنے باپ سے کہا ’’ ابا جان، کیا بات ہے کہ آپ یُوسف کے معاملہ میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے حالانکہ ہم اس کے سچے خیر خواہ ہیں؟کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجیے، کچھ چَر چُگ لے گا اور کھیل کُود سے بھی دِل بہلائے گا۔ ہم اس کی حفاظت کو موجود ہیں۔‘‘ ۱۱باپ نے کہا ’’تمہارا اسے لے جانا مجھے شاق گزرتا ہے اور مجھ کو اندیشہ ہے کہ کہیں اسے بھیڑیا نہ پھاڑ کھائے جب کہ تم اس سے غافل ہو۔‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’اگر ہمارے ہوتے اسے بھیڑیے نے کھا لیا، جب کہ ہم ایک جتھا ہیں، تب تو ہم بڑے ہی نکمّے ہوں گے۔ ‘‘اِس طرح اسرار کر کے جب وہ اُسے لے گئے اور انہوں نے طے کر لیا کہ اسے ایک اندھے کنوئیں میں چھوڑ دیں، تو ہم نے یُوسف کو وحی کی کہ ’’ایک وقت آئے گا جب تُو ان لوگوں کو ان کی یہ حرکت جتائے گا، یہ اپنے فعل کے نتائج سے بے خبر ہیں۔‘‘ ۱۲شام کو وہ روتے پیٹتے اپنے باپ کے پاس آئے اور کہا ’’ ابّا جان، ہم دوڑ کا مقابلہ کرنے میں لگ گئے تھے اور یُوسف کو ہم نے اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تھا کہ اتنے میں بھیڑیا آ کر اُسے کھا گیا۔ آپ ہماری بات کا یقین نہ کریں گے چاہے ہم سچے ہی ہوں۔‘‘ اور وہ یُوسف کی قمیص پر جھُوٹ مُوٹ کا خون لگا کر لے آئے تھے۔ یہ سُن کر اُن کے باپ نے کہا ’’بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا۔ اچھا، صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا،۱۳ جو بات تم بنا رہے ہو اس پر اللہ ہی سے مدد مانگی جا سکتی ہے۔ ‘‘ ۱۴اُدھر ایک قافلہ آیا اور اُس نے اپنے سقّے کو پانی لانے کے لیے بھیجا۔ سقّے نے جو کنویں میں ڈول ڈالا تو ( یُوسُف کو دیکھ کر) پکار اُٹھا ’’مبارک ہو، یہاں تو ایک لڑکا ہے۔ ‘‘ ان لوگوں نے اُس کو مالِ تجارت سمجھ کر چھُپا لیا، حالانکہ جو کچھ وہ کر رہے تھے خدا اُس سے با خبر تھا۔آخرِ کار انہوں نے اس کو تھوڑی سی قیمت پر چند درہموں کے عوض بیچ ڈالا ۱۵ اور وہ اس کی قیمت کے معاملہ میں کچھ زیادہ کے اُمیدوار نہ تھے۔ ؏ ۲
 

 

۸-اس سے مراد حضرت یوسف ؑ کے حقیقی بھائی بن یامین ہیں جو ان سے کئی سال چھوٹے تھے۔ ان کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت یعقوب ؑ ان دونوں بے ماں کے بچوں کا زیادہ خیال رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ اس سے محبت کی وجہ یہ بھی تھی کہ اُن کی ساری اولاد میں صرف ایک حضرت یوسف ؑ ہی ایسے تھے جن کے اندر اُن کو آثارِ رُشد و سعادت نظر آتے تھے۔ اوپر حضرت یوسف ؑ کا خواب سن کر انہوں نے جو کچھ فرمایا اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس بیٹے کی غیر معمولی صلاحیتوں سے خوب واقف تھے۔ دوسری طرف ان دس بڑے صاحبزادوں کی سیرت کا جو حال تھا اس کا اندازہ بھی آگے کے واقعات سے ہو جاتا ہے۔ پھر کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ ایک نیک انسان ایسی اولاد سے خوش رہ سکے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ بائیبل میں برادرانِ یوسف ؑ کے حسد کی ایک ایسی وجہ بیان کی گئی ہے جس سے اُلٹا الزام حضرت یوسف ؑ پر عائد ہوتا ہے۔ اس کا بیان ہے کہ حضرت یوسف ؑ بھائیوں کی چغلیاں باپ سے کھایا کرتے تھے اس وجہ سے بھائی ان سے ناراض تھے۔

۹-اس فقرے کی رُوح سمجھنے کے لیے بدویانہ قبائلی زندگی کے حالات کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ جہاں کوئی ریاست موجود نہیں ہوتی اور آزاد قبائل ایک دوسرے کے پہلو میں آباد ہوتے ہیں، وہاں ایک شخص کی قوت کا سارا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ اس کے اپنے بیٹے، پوتے، بھائی، بھتیجے بہت سے ہوں جو وقت آنے پر اس کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت کے لیے اس کا ساتھ دے سکیں۔ ایسے حالات میں عورتوں اور بچوں کی بہ نسبت فطری طور پر آدمی کو وہ جوان بیٹے زیادہ عزیز ہوتے ہیں جو دشمنوں کے مقابلہ میں کام آ سکتے ہوں۔ اسی بنا پر ان بھائیوں نے کہا کہ ہمارے والد بڑھاپے میں سٹیا گئے ہیں۔ ہم جوان بیٹوں کا جتھا، جو بُرے وقت پر اُن کے کام آ سکتا ہے، ان کو اتنا عزیز نہیں ہے جتنے یہ چھوٹے چھوٹے بچے جو ان کے کسی کام نہیں آ سکتے بلکہ الٹے خود ہی حفاظت کے محتاج ہیں۔

۱۰-یہ فقرہ اُن لوگوں کے نفسیات کی بہترین ترجمانی کرتا ہے جو اپنے آپ کو خواہشاتِ نفس کے حوالے کر دینے کے ساتھ ایمان اور نیکی سے بھی کچھ رشتہ جوڑے رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ جب کبھی نفس ان سے کسی برے کام کا تقاضا کرتا ہے تو وہ ایمان کے تقاضوں کو ملتوی کر کے پہلے نفس کا تقاضا پورا کرنے پر تُل جاتے ہیں اور جب ضمیر اندر سے چٹکیاں لیتا ہے تو اسے یہ کہہ کر تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ذرا صبر کر، یہ ناگزیر گناہ، جس سے ہمارا کام اٹکا ہُوا ہے، کر گزرنے دے، پھر ان شاء اللہ ہم توبہ کر کے ویسے ہی نیک بن جائیں گے جیسا تو ہمیں دیکھنا چاہتا ہے۔

۱۱-یہ بیان بھی بائیبل اور تَلمود کے بیان سے مختلف ہے۔ ان کی روایت یہ ہے کہ برادرانِ یوسف ؑ اپنے مویشی چَرانے کے لیے سِکّم کی طرف گئے ہوئے تھے اور ان کے پیچھے خود حضرت یعقوب ؑ نے ان کی تلاش میں حضرت یوسف ؑ کو بھیجا تھا۔ مگر یہ بات بعید از قیاس ہے کہ حضرت یعقوب ؑ نے یوسف ؑ کے ساتھ ان کے حسد کا حال جاننے کے باوجود انہیں آپ اپنے ہاتھوں موت کے منہ میں بھیجا ہو۔ اس لیے قرآن کا بیان ہی زیادہ مناسب حال معلوم ہوتا ہے۔

۱۲-متن میں وَھُم لَایَشعُرُونَ کے الفاظ کچھ ایسے انداز سے آئے ہیں کہ ان سے تین معنی نکلتے ہیں اور تینوں ہی لگتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ایک یہ ہم یوسف ؑ کو یہ تسلی دے رہے تھے اور اس کے بھائیوں کو کچھ خبر نہ تھی کہ اس پر وحی جاری ہے۔ دوسرے یہ کہ تو ایسے حالات میں ان کی یہ حرکت انہیں جتائے گا جہاں تیرے ہونے کا انہیں وہم و گمان تک نہ ہو گا۔ تیسرے یہ کہ آج یہ بے سمجھے بوجھے ایک حرکت کر رہے ہیں اور نہیں جانتے کہ آئندہ اس کے نتائج کیا ہونے والے ہیں۔

بائیبل اور تَلمود اس ذکر سے خالی ہیں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے یوسف ؑ کو کوئی تسلی بھی دی گئی تھی۔ اس کے بجائے تلمود میں جو روایت بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جب حضرت یوسف ؑ کنویں میں ڈالے گئے تو وہ بہت بلبلائے اور خوب چیخ چیخ کر انہوں نے بھائیوں سے فریاد کی۔ قرآن کا بیان پڑھیے تو محسوس ہو گا کہ ایک ایسے نوجوان کا بیان ہو رہا ہے جو آگے جل کر تاریخ انسانی کی عظیم ترین شخصیتوں میں شمار ہونے والا ہے۔ تلمود کو پڑھیے تو کچھ ایسا نقشہ سامنے آئے گا کہ صحرا میں چند بدو ایک لڑکے کو کنویں میں پھینک رہے ہیں اور وہ وہی کچھ کر رہا ہے جو ہر لڑکا ایسے موقع پر کرے گا۔

۱۳-متن میں ’’صبر جمیل‘‘ کے الفاظ ہیں جن کا لفظی ترجمہ ’’اچھا صبر‘‘ ہو سکتا ہے۔ اس سے مراد ایسا صبر ہے جس میں شکایت نہ ہو، فریاد نہ ہو، جَزَع نزع نہ ہو، ٹھنڈے دل سے اس مصیبت کو برداشت کیا جائے جو ایک عالی ظرف انسان پر آ پڑی ہو۔

۱۴-بائیبل اور تلمود یہاں حضرت یعقوب ؑ کے تاثر کا نقشہ بھی کچھ ایسا کھینچتی ہیں جو کسی معمولی باپ کے تاثر سے کچھ بھی مختلف نہیں ہے۔ بائیبل کا بیان یہ ہے کہ ’’تب یعقوب نے اپنا پیراہن چاک کیا اور ٹاٹ اپنی کمر سے لپیٹا اور بہت دنوں تک اپنے بیٹے کے لیے ماتم کرتا رہا‘‘۔ اور تلمود کا بیان ہے کہ ’’یعقوب بیٹے کا قمیص پہچانتے ہی اوندھے منہ زمین پر گر پڑا اور دیر تک بے حس و حرکت پڑا رہا، پھر اٹھ کر بڑے زور سے چیخا کہ ہاں یہ میرے بیٹے ہی کا قمیص ہے …………. اور وہ سالہا سال تک یوسف ؑ کا ماتم کرتا رہا‘‘۔ اس نقشے میں حضرت یعقوب ؑ وہی کچھ کرتے نظر آتے ہیں جو ہر باپ ایسے موقع پر کرے گا۔ لیکن قرآن جو نقشہ پیش کر رہا ہے اس سے ہمارے سامنے ایک ایسے غیر معمولی انسان کی تصویر آتی ہے جو کمال درجہ بردبار و با وقار ہے، اتنی بڑی غم انگیز خبر سن کر بھی اپنے دماغ کا توازن نہیں کھوتا، اپنی فراست سے معاملہ کی ٹھیک ٹھیک نوعیت کو بھانپ جاتا ہے کہ یہ ایک بناوٹی بات ہے جو ان حاسد بیٹوں نے بنا کر پیش کی ہے، اور پھر عالی ظرف انسانوں کی طرح صبر کرتا ہے اور خدا پر بھروسہ کرتا ہے۔

۱۵-اس معاملہ کی سادہ صورت یہ معلوم ہوتی ہے کہ برادران یوسف ؑ حضرت یوسف ؑ کو کنویں میں پھینک کر چلے گئے تھے بعد میں قافلے والوں نے آ کر ان کو وہاں سے نکالا اور مصر لے جا کر بیچ دیا۔ مگر بائیبل کا بیان ہے کہ برادران یوسف ؑ نے بعد میں اسما عیلیوں کے ایک قافلے کو دیکھا اور چاہا کہ یوسف ؑ کو کنویں سے نکال ان کے ہاتھ بیچ دیں۔ لیکن اس سے پہلے ہی مَدین کے سوداگر انہیں کنویں سے نکال چکے تھے۔ ان سوداگروں نے حضرت یوسف ؑ کو بیس روپے میں اسماعیلیوں کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ پھر آگے چل کر بائیبل کے مصنفین یہ بھول جاتے ہیں کہ اوپر وہ اسماعیلیوں کے ہاتھ حضرت یوسف ؑ کو فروخت کرا چکے ہیں۔ چنانچہ وہ اسماعیلیوں کے بجائے پھر مدین ہی کے سوداگروں سے مصر میں انہیں دوبارہ فروخت کراتے ہیں (ملاحظہ ہو کتاب پیدائش باب ۳۷۔آیت ۲۵ تا ۲۸ و آیت ۳٦)۔ اس کے برعکس تلمود کا بیان ہے کہ مَدین کے سوداگروں نے یوسف ؑ کو کنویں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا۔ پھر برادران یوسف ؑ نے حضرت یوسف ؑ کو ان کے قبضہ میں دیکھ کر ان سے جھگڑا کیا۔ آخر کار انہوں نے ۲۰ درہم قیمت ادا کر کے برادران یوسف ؑ کو راضی کیا۔ پھر انہوں نے بیس ہی درہم میں یوسف ؑ کو اسماعیلیوں کے ہاتھ بیچ دیا اور اسماعیلیوں نے مصر لے جا کر انہیں فروخت کیا۔ یہیں سے مسلمانوں میں یہ روایت مشہور ہوئی ہے کہ برادرانِ یوسف ؑ نے حضرت یوسف ؑ کو فروخت کیا تھا۔ لیکن واضح رہنا چاہیے کہ قرآن اس روایت کی تائید نہیں کرتا۔

 

مصر میں جس شخص نے اسے خریدا ۱۶ اُس نے اپنی بیوی ۱۷ سے کہا ’’اِس کو اچھی طرح رکھنا، بعید نہیں کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں۔ ‘‘ ۱۸ اس طرح ہم نے یُوسف کے لیے اُس سرزمین میں قدم جمانے کی صُورت نکالی اور اُسے معاملہ فہمی کی تعلیم دینے کا انتظام کیا۔۱۹ اللہ اپنا کام کر کے رہتا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ اور جب وہ اپنی پُوری جوانی کو پہنچا تو ہم نے اُسے قوتِ فیصلہ اور علم عطا کیا،۲۰ اِس طرح ہم نیک لوگوں کو جزا دیتے ہیں۔جس عورت کے گھر میں وہ تھا وہ اُس پر ڈورے ڈالنے لگی اور ایک روز دروازے بند کر کے بولی ’’آ جا۔‘‘ یُوسف نے کہا ’’خدا کی پناہ، میرے ربّ نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی (اور میں یہ کام کروں!) ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا کرتے۔ ‘‘ ۲۱وہ اُس کی طرف بڑھی اور یُوسف بھی اُس کی طرف بڑھتا اگر اپنے ربّ کی بُرہان نہ دیکھ لیتا۔۲۲ ایسا ہُوا، تاکہ ہم اُس سے بدی اور بے حیائی کو دُور کر دیں،۲۳ در حقیقت وہ ہمارے چُنے ہوئے بندوں میں سے تھا۔آخرِ کار یُوسُف اور وہ آگے پیچھے دروازے کی طرف بھاگے اور اُس نے پیچھے سے یُوسُف کا قمیص (کھینچ کر ) پھاڑ دیا۔ دروازے پر دونوں نے اُس کے شوہر کو موجود پایا۔ اسے دیکھتے ہی عورت کہنے لگی ’’کیا سزا اُس شخص کی جو تیری گھر والی پر نیّت خراب کرے ؟ اس کے سوا اور کیا سزا ہو سکتی ہے کہ وہ قید کیا جائے یا اسے سخت عذاب دیا جائے ؟‘‘ یُوسُف ؑ نے کہا ’’یہی مجھے پھانسنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ‘‘ اس عورت کے اپنے کنبہ والوں میں سے ایک شخص نے (قرینے کی) شہادت پیش کی ۲۴ کہ ’’اگر یُوسُف ؑ کا قمیص آگے سے پھٹا ہو تو عورت سچی ہے اور یہ جھُوٹا،اور اگر اِس کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہو تو عورت جھُوٹی ہے اور یہ سچا۔ ‘‘ ۲۵جب شوہر نے دیکھا کہ یُوسُف کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہے تو اس نے کہا ’’یہ تم عورتوں کی چالاکیاں ہیں، واقعی بڑے غضب کی ہوتی ہیں تمہاری چالیں۔ یُوسُف، اس معاملے سے درگزر کر، اور اے عورت، تُو اپنے قصُور کی معافی مانگ، تُو ہی اصل میں خطا کار تھی۔ ‘‘ ۲۵الف ؏ ۳
 

۱۶-بائیبل میں اس شخص کا نام فوطیفار لکھا ہے۔ قرآن مجید آگے چل کر اسے ’’عزیز‘‘ کے لقب سے یاد کرتا ہے، اور پھر ایک دوسرے موقع پر یہی لقب حضرت یوسف ؑ کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص مصر میں کوئی بہت بڑا عہدہ دار یا صاحبِ منصب تھا، کیونکہ ’’عزیز‘‘ کے معنی ایسے با اقتدار شخص کے ہیں جس کی مزاحمت نہ کہ جا سکتی ہو۔ بائیبل اور تلمود کا بیان ہے کہ وہ شاہی جلو داروں (باڈی گارڈ) کا افسر تھا، اور ابن جریر حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ وہ شاہی خزانے کا افسر تھا۔

۱۷-تلمود میں اس عورت کا نام زَلیخا (Zelicha) لکھا ہے اور یہیں سے یہ نام مسلمانوں کی روایات میں مشہور ہُوا۔ مگر یہ جو ہمارے ہاں عام شہرت ہے کہ بعد میں اس عورت سے حضرت یوسف ؑ کا نکاح ہُوا، اس کی کوئی اصل نہیں ہے، نہ قرآن میں اور نہ اسرائیلی تاریخ میں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک نبی کے مرتبے سے یہ بات بہت فروتر ہے کہ وہ کسی ایسی عورت سے نکاح کرے جس کی بد چلنی کا اس کو ذاتی تجربہ ہو چکا ہو۔ قرآن مجید میں یہ قاعدۂ کلیہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اَلخَبیثٰتُ لِلخَبیثینَ وَالخَبیثُونَ للخَبیثٰتِ وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبینَ وَالطَّیِّبُونَ لِلطَّیِّبٰتِ۔بُری عورتیں بُرے مَردوں کے لیے ہیں اور بُرے مرد بُری عورتوں کے لیے۔ اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے۔

۱۸-تلمود کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت یوسف ؑ کی عمر ۱۸ سال تھی اور فوطیفار ان کی شاندار شخصیت کو دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ لڑکا غلام نہیں ہے بلکہ کسی بڑے شریف خاندان کا چشم و چراغ ہے جسے حالات کی گردش یہاں کھینچ لائی ہے۔ چنانچہ جب وہ انہیں خرید رہا تھا اسی وقت اس نے سوداگروں سے کہہ دیا تھا کہ یہ غلام نہیں معلوم ہوتا، مجھے شبہہ ہوتا ہے کہ شائد تم اسے کہیں سے چُرا لائے ہو۔ اسی بنا پر فوطیفار نے ان سے غلاموں کا سا برتاؤ نہیں کیا بلکہ انہیں اپنے گھر اور اپنی کل اِملاک کا مختار بنا دیا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ ’’اس نے اپنا سب کچھ یوسف ؑ کے ہاتھ میں چھوڑ دیا اور سوا روٹی کے جسے وہ کھا لیتا تھا اسے اپنی کسی چیز کا ہوش نہ تھا‘‘۔ (پیدائش ۳۹ - ٦)

۱۹-حضرت یوسف ؑ کی تربیت اس وقت تک صحرا میں نیم خانہ بدوشی اور گلہ بانی کے ماحول میں ہوئی تھی۔ کنعان اور شمالی عرب کے علاقے میں اس وقت نہ کوئی منظم ریاست تھی اور نہ تمدّن و تہذیب نے کوئی بڑی ترقی کی تھی۔ کچھ آزاد قبائل تھے جو وقتاً فوقتاً ہجرت کرتے رہتے تھے، اور بعض قبائل نے مختلف علاقوں میں مستقل سکونت اختیار کر کے چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی بنا لی تھیں۔ ان لوگوں کا حال مصر کے پہلو میں قریب قریب وہی تھا جو ہماری شمال مغربی سرحد پر آزاد علاقہ کے پٹھان قبائل کا ہے۔ یہاں حضرت یوسف ؑ کو جو تعلیم و تربیت ملی تھی اس میں بدویانہ زندگی کے محاسن اور خانوادۂ ابراہیمی کی خدا پرستی و دینداری کے عناصر تو ضرور شامل تھے، مگر اللہ تعالیٰ اُس وقت کے سب سے زیادہ متمدن اور ترقی یافتہ ملک، یعنی مصر میں اُن سے جو کام لینا چاہتا تھا، اور اس لے لیے جس واقفیت، جس تجربے اور جس بصیرت کی ضرورت تھی، اس کے نشو نما کا کوئی موقع بدوی زندگی میں نہ تھا۔ اس لیے اللہ نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ انتظام فرمایا کہ انہیں سلطنت مصر کے ایک بڑے عہدہ دار کے ہاں پہنچا دیا اور اس نے ان کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھ کر انہیں اپنے گھر اور اپنی جاگیر کا مختار کل بنا دیا۔ اس طرح یہ موقع پیدا ہوا کہ ان کی وہ تمام قابلیتیں پوری طرح نشو نما پا سکیں جواب تک بروئے کار نہیں آئی تھیں اور انہیں ایک چھوٹی جاگیر کے انتظام سے وہ تجربہ حاصل ہو جائے جو آئندہ ایک بڑی سلطنت کا نظم و نسق چلانے کے لیے درکار تھا۔ اسی مضمون کی طرف اس آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے۔

۲۰-قرآن کی زبان میں اِن الفاظ سے مراد بالعموم ’’نبوت عطا کرنا‘‘ ہوتا ہے۔ ’’حکم‘‘ کے معنی قوت فیصلہ کے بھی ہیں اور اقتدار کے بھی۔ پس اللہ کی طرف سے کسی بندے کو حکم عطا کیے جانے کا مطلب یہ ہُوا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے انسانی زندگی کے معاملات میں فیصلہ کرنے کی اہلیت بھی عطا کی اور اختیارات بھی تفویض فرمائے۔ رہا ’’علم‘‘ تو اس سے مراد وہ خاص علم حقیقت ہے جو انبیاء کو وحی کے ذریعہ سے براہِ راست دیا جاتا ہے۔

۲۱-عام طور پر مفسرین اور مترجمین نے یہ سمجھا ہے کہ یہاں ’’میرے رب‘‘ کا لفظ حضرت یوسف ؑ نے اُس شخص کے لیے استعمال کیا ہے جس کی ملازمت میں وہ اُس وقت تھے اور ان کے اس جواب کا مطلب یہ تھا کہ میرے آقا نے تو مجھے ایسی اچھی طرح رکھا ہے، پھر میں یہ نمک حرامی کیسے کر سکتا ہوں کہ اس کی بیوی سے زنا کروں۔ لیکن مجھے اس ترجمہ و تفسیر سے سخت اختلاف ہے۔ اگرچہ عربی زبان کے اعتبار سے یہ مفہوم لینے کی بھی گنجائش ہے، کیونکہ عربی میں لفظ رب ’’آقا‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، لیکن یہ بات ایک نبی کی شان سے بہت گری ہوئی ہے کہ وہ ایک گناہ سے باز رہنے میں اللہ تعالیٰ کے بجائے کسی بندے کا لحاظ کرے۔ اور قرآن میں اس کی کوئی نظیر بھی موجود نہیں ہے کہ کسی نبی نے خدا کے سوا کسی اور کو اپنا رب کہا۔ آگے چل کر آیات ۴۱، ۴۲، ۵۰ میں ہم دیکھتے ہیں کہ سیّدنا یوسف ؑ اپنے اور مصریوں کے مسلک کا یہ فرق بار بار واضح فرماتے ہیں کہ اُ ن کا رب تو اللہ ہے اور مصریوں نے بندوں کو اپنا رب بنا رکھا ہے۔ پھر جب آیت کے الفاظ میں یہ مطلب لینے کی بھی گنجائش موجود ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے رَبّی کہہ کر اللہ کی ذات مراد لی ہو، تو کیا وجہ ہے کہ ہم ایک ایسے معنی کو اختیار کریں جس میں صریحاً قباحت کا پہلو نکلتا ہے۔

۲۲-برہان کے معنی ہیں دلیل اور حجت کے۔ رب کی برہان سے مراد خدا کی سُجھائی ہوئی دلیل ہے جس کی بنا پر حضرت یوسف ؑ کے ضمیر نے اُن کے نفس کو اس بات کا قائل کیا کہ اِس عورت کی دعوتِ عیش قبول کرنا تجھے زیبا نہیں ہے۔ اور وہ دلیل تھی کیا؟ اسے پچھلے فقرے میں بیان کیا جا چکا ہے، یعنی یہ کہ ’’میرے رب نے تو مجھے یہ منزلت بخشی اور میں ایسا بُرا کام کروں، ایسے ظالموں کو کبھی فلاح نصیب نہیں ہُوا کرتی۔‘‘ یہی وہ برہانِ حق تھی جس نے سیّدنا یوسف ؑ کو اس نوخیز جوانی کے عالم میں ایسے نازک موقع پر معصیت سے باز رکھا۔ پھر یہ جو فرمایا کہ ’’یوسف ؑ بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا‘‘ تو اس سے عصمت انبیاء کی حقیقت پر بھی پوری روشنی پڑ جاتی ہے۔ نبی کی معصومیت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس سے گناہ اور لغزش و خطا کی قوت و استعداد سلب کر لی گئی ہے حتیٰ کہ گناہ کا صدور اس کے امکان ہی میں نہیں رہا ہے۔ بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی اگرچہ گناہ کرنے پر قادر ہوتا ہے لیکن بشریت کی تمام صفات سے متصف ہونے کے باوجود، اور جملہ انسانی جذبات، احساسات اور خواہشات رکھتے ہوئے بھی وہ ایسا نیک نفس اور خدا ترس ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر کبھی گناہ کا قصد نہیں کرتا۔ وہ اپنے ضمیر میں اپنے رب کی ایسی ایسی زبردست حجتیں اور دلیلیں رکھتا ہے جن کے مقابلہ میں خواہش نفس کبھی کامیاب نہیں ہونے پاتی۔ اور اگر نا دانستہ اس سے کوئی لغزش سرزد ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ فوراً وحی جلی کے ذریعہ سے اس کی اصلاح فرما دیتا ہے، کیونکہ اس کی لغزش تنہا ایک شخص کی لغزش نہیں ہے، ایک پوری اُمت کی لغزش ہے۔ وہ راہِ راست سے بال برابر ہٹ جائے تو دنیا گمراہی میں میلوں دور نکل جائے۔

۲۳-اس ارشاد کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا دلیلِ رب کو دیکھنا اور گناہ سے بچ جانا ہماری توفیق و ہدایت سے ہُوا کیونکہ ہم اپنے اس منتخب بندے سے بدی اور بے حیائی کو دور کرنا چاہتے تھے۔ دوسرا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے، اور یہ زیادہ گہرا مطلب ہے کہ یوسف ؑ کو یہ معاملہ جو پیش آیا تو یہ بھی دراصل ان کی تربیت کے سلسلہ میں ایک ضروری مرحلہ تھا۔ ان کوبدی اور بے حیائی سے الگ کرنے اور ان کی طہارتِ نفس کو درجۂ کمال پر پہنچانے کے لیے مصلحتِ الٰہی میں یہ ناگزیر تھا کہ ان کے سامنے معصیت کا ایک ایسا نازک موقع پیش آئے اور اس آزمائش کے وقت وہ اپنے ارادے کی پوری طاقت پرہیزگاری و تقویٰ کے پلڑے میں ڈال کر اپنے نفس کے بُرے میلانات کو ہمیشہ کے لیے قطعی طور پر شکست دے دیں۔ خصوصیت کے ساتھ اس مخصوص طریقۂ تربیت کے اختیار کرنے کی مصلحت اور اہمیت اُس اخلاقی ماحول کو نگاہ میں رکھنے سے بآسانی سمجھ میں آ سکتی ہے جو اُس وقت کی مصری سوسائٹی میں پایا جاتا تھا۔ آگے رکوع ۴ میں اس ماحول کی جو ایک ذرا سی جھلک دکھائی گئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے ’’مہذب مصر‘‘ میں بالعموم اور اُس کے اونچے طبقے میں بالخصوص صنفی آزادی قریب قریب اسی پیمانے پر تھی جس پر ہم اپنے زمانے کے اہل مغرب اور مغرب زدہ طبقوں کو ’’فائز‘‘ پا رہے ہیں۔ حضرت یوسف ؑ کو ایسے بگڑے ہوئے لوگوں میں رہ کر کام کرنا تھا، اور کام بھی ایک معمولی آدمی کی حیثیت سے نہیں بلکہ فرمانروائے ملک کی حیثیت سے کرنا تھا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جو خواتینِ کرام ایک حَسین غلام کے آگے بچھی جا رہی تھیں، وہ ایک جوان اور خوبصورت فرمانروا کو پھانسنے اور بگاڑنے کے لیے کیا نہ کر گزرتیں۔ اسی کی پیش بندی اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمائی کہ ایک طرف تو ابتدا ہی میں اِس آزمائش سے گزار کر حضرت یوسف ؑ کو پختہ کر دیا، اور دوسری طرف خود خواتین مصر کو بھی ان سے مایوس کر کے ان کے سارے فتنوں کا دروازہ بند کر دیا۔

۲۴-اس معاملہ کی نوعیت یہ سمجھ میں آتی ہے کہ صاحب خانہ کے ساتھ خود اس عورت کے بھائی بندوں میں سے بھی کوئی شخص آ رہا ہو گا اور اس نے یہ قضیہ سُن کر کہا ہو گا کہ جب یہ دونوں ایک دوسرے پر الزام لگاتے ہیں اور موقع کا گواہ کوئی نہیں ہے تو قرینہ کی شہادت سے اس معاملہ کی یوں تحقیق کی جا سکتی ہے بعض روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ موادت پیش کرنے والا ایک شیر خوار بچہ تھا جو وہاں پنگھڑے میں لیٹا ہُوا تھا اور خدا نے اسے گویائی عطا کر کے اس سے یہ شہادت دلوائی۔ لیکن یہ روایت نہ تو کسی صحیح سند سے شہادت ہے اور نہ اس معاملے میں خواہ مخواہ معجزے سے مدد لینے کی کوئی ضرورت ہی محسوس ہوتی ہے۔ اُ س شاہد نے قرینے کی جس شہادت کی طرف توجہ دلائی ہے وہ سراسر ایک معقول شہادت ہے اور اس کو دیکھنے سے بیک نظر معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ محض ایک معاملہ فہم اور جہاندیدہ آدمی تھا جو صورت معاملہ سامنے آتے ہی اس کی تہ کو پہنچ گیا۔ بعید نہیں کہ وہ کوئی جج یا مجسٹریٹ ہو۔ (مفسّرین کے ہاں شیر خور بچے کی شہادت کا قصہ دراصل یہودی روایات سے آیا ہے۔ ملاحظہ ہو اقتباساتِ تَلمود از پال اسحاق ہرشون، لندن، سن ١۸۸۰۔ صفحہ ۲۵٦

۲۵-مطلب یہ ہے کہ اگر یوسف ؑ کا قمیص سامنے سے پھٹا ہو تو یہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ اِقدام یوسف ؑ کی جانب سے تھا اور عورت اپنے آپ کو بچانے کے لیے کش مکش کر رہی تھی۔ لیکن اگر یوسف ؑ کا قمیص پیچھے سے پھٹا ہے تو اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ عورت اس کے پیچھے پڑی ہوئی تھی اور یوسف ؑ اس سے بچ کر نکل جانا چاہتا تھا۔ اس کے علاوہ قرینے کی ایک اور شہادت بھی اس شہادت میں چھپی ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ اُس شاہد نے توجہ صرف یوسف ؑ کے قمیص کی طرف دلائی۔ اس سے صاف ظاہر ہو گیا کہ عورت کے جسم یا اس کے لباس پر تشدد کی کوئی علامت سرے سے پائی ہی نہ جاتی تھی، حالانکہ اگر یہ مقدمہ اقدامِ زنا بالجبر کا ہوتا تو عورت پر اس کے کھلے آثار پائے جاتے۔

۲۵ الف-بائیبل میں اس قصے کو جس بھونڈے طریقہ سے بیان کیا گیا ہے وہ ملاحظہ ہو،

 ’’تب اس عورت نے اُس کا پیراہن پکڑ کر کہا کہ میرے ساتھ ہم بستر ہو۔ وہ اپنا پیراہن اس کے ہاتھ میں چھوڑ کر بھاگا اور باہر نکل گیا۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ پیراہن اس کے ہاتھ میں چھوڑ کر بھاگ گیا تو اس نے اپنے گھر کے آدمیوں کو بلا کر کہا کہ دیکھو وہ ایک عِبری کو ہم سے مذاق کرنے کے لیے ہمارے پاس لے آیا ہے۔ یہ مجھ سے ہم بستر ہونے کو گھس آیا اور میں بلند آواز میں چلانے لگی۔ جب اس نے دیکھا کہ میں زور زور سے چلا رہی ہوں تو اپنا پیراہن میرے پاس چھوڑ کر بھاگا اور باہر نکل گیا۔ اور وہ اس کا پیراہن اس کے آقا کے گھر لوٹنے تک اپنے پاس رکھے رہی۔۔۔۔۔۔ جب اس کے آقا نے اپنی بیوی کی وہ باتیں جو اس نے اس سے کہیں سُن لیں کہ تیرے غلام نے مجھ سے ایسا ایسا کیا تو اس کا غضب بھڑکا اور یوسف ؑ کے آقا نے اس کو لے کر قید خانے میں جہاں بادشاہ کے قیدی بند تھے ڈال دیا (پیدائش ۳۹: ۲۰-۲١)‘‘

خلاصہ اس عجیب و غریب روایت کا یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ کے جسم پر لباس کچھ اس قسم کا تھا کہ ادھر زلیخا نے اس پر ہاتھ ڈالا اور اُدھر وہ پورا لباس خودبخود اُتر کر اس کے ہاتھ میں آگیا! پھر لطف یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ وہ لباس اس کے پاس چھوڑ کر یونہی برہنہ بھاگ نکلے اور ان کا لباس (یعنی ان کے قصور کا ناقابلِ انکار ثبوت) اس عورت کے پاس ہی رہ گیا۔ اس کے بعد حضرت یوسف ؑ کے مجرم ہونے میں کون شک کر سکتا تھا۔

یہ تو بائیبل کی روایت رہی تلمود، تو اس کا بیان ہے کہ فوطیفار نے جب اپنی بیوی سے یہ شکایت سنی تو اس نے یوسف ؑ کو خوب پٹوایا، پھر ان کے خلاف عدالت میں استغاثہ دائر کیا اور حکام عدالت نے حضرت یوسف ؑ کے قمیص کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا کہ قصور عورت کا ہے، کیونکہ قمیص پیچھے سے پھٹا ہے نہ کہ آگے سے۔ لیکن یہ بات ہر صاحب عقل آدمی تھوڑے سے غور و تامل سے بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کی روایت تلمود کی روایت سے زیادہ قرینِ قیاس ہے۔ آخر کس طرح یہ باور کر لیا جائے کہ ایسا بڑا ایک ذی وجاہت آدمی اپنی بیوی پر اپنے غلام کی دست درازی کا معاملہ خود عدالت میں لے کر گیا ہو گا۔

یہ ایک نمایاں ترین مثال ہے قرآن اور اسرائیلی روایات کے فرق کی جس سے مغربی مستشرقین کے اس الزام کی لغویت صاف واضح ہو جاتی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) نے یہ قصے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ قرآن نے تو ان کی اصلاح کی ہے اور اصل واقعات دنیا کو بتائے ہیں۔

 

شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ ’’عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، محبّت نے اسے بے قابو کر رکھا ہے، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کر رہی ہے۔ ‘‘اس نے جو اُن کی یہ مکّارانہ باتیں سُنیں تو اُن کو بُلاوا بھیج دیا اور ان کے لیے تکیہ دار مجلس آراستہ کی ۲۶ اور ضیافت میں ہر ایک کے آگے ایک ایک چھُری رکھ دی۔ (پھر عین اُس وقت جب کہ وہ پھل کاٹ کاٹ کر کھا رہی تھیں) اس نے یُوسُف کو اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نکل آ۔ جب ان عورتوں کی نگاہ اُس پر پڑی تو وہ دنگ رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور بے ساختہ پُکار اُٹھیں ’’ حاشالِلّٰہ، یہ شخص انسان نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے۔ ‘‘عزیز کی بیوی نے کہا ’’دیکھ لیا! یہ ہے وہ شخص جس کے معاملہ میں تم مجھ پر باتیں بناتی تھیں۔ بے شک میں نے اِسے رجھانے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نِکلا۔ اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو قید کیا جائے گا اور بہت ذلیل و خوار ہو گا۔ ‘‘ ۲۷یُوسُف ؑ نے کہا ’’اے میرے ربّ! قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں۔ اور اگر تُو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جاؤں گا اور جاہلوں میں شامل ہو رہوں ۲۸ گا‘‘۔۔۔۔ اس کے ربّ نے اس کی دُعا قبول کی اور اُن عورتوں کی چالیں اس سے دفع کر دیں،۲۹ بے شک وہی ہے جو سب کی سُنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔ پھر ان لوگوں کو یہ سُوجھی کہ ایک مُدّت کے لیے اسے قید کر دیں حالانکہ وہ (اس کی پاکدامنی اور خود اپنی عورتوں کے بُرے اطوار کی ) صریح نشانیاں دیکھ چکے تھے۔ ۳۰ ؏ ۴

 

۲۶-یعنی ایسی مجلس جس میں مہمانوں کے لیے تکیے لگے ہوئے تھے۔ مصر کے آثار قدیمہ سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے کہ ان کی مجلسوں میں تکیوں کا استعمال بہت ہوتا تھا۔

بائیبل میں اس ضیافت کا کوئی ذکر نہیں ہے البتہ تلمود میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے، مگر وہ قرآن سے بہت مختلف ہے۔ قرآن کے بیان میں جو زندگی، جو روح، جو فطریّت اور جو اخلاقیت پائی جاتی ہے اس سے تلمود کا بیان بالکل خالی ہے۔

۲۷-اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُس وقت مصر کے اونچے طبقوں کی اخلاقی حالت کیا تھی۔ ظاہر ہے کہ عزیز کی بیوی نے جن عورتوں کو بلایا ہو گا وہ امراء و رؤسا اور بڑے عہدہ داروں کے گھر کی بیگمات ہی ہوں گی۔ ان عالی مرتبہ خواتین کے سامنے وہ اپنے محبوب نوجوان کو پیش کرتی ہے اور اس کی خوبصورت جوانی دکھا کر انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ ایسے جوانِ رعنا پر میں مر نہ مٹتی تو آخر اور کیا کرتی۔ پھر یہ بڑے گھروں کی بہو بیٹیاں خود بھی اپنے عمل سے گویا اس امر کی تصدیق فرماتی ہیں کہ واقعی ان میں سے ہر ایک ایسے حالات میں وہی کچھ کرتی جو بیگم عزیز نے کیا۔ پھر شریف خواتین کی اس بھر ی مجلس میں معزز میزبان کو علانیہ اپنے اِس عزم کا اظہار کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی کہ اگر اس کا خوبصورت غلام اس کی خواہشِ نفس کا کھلونا بننے پر راضی نہ ہو ا تو وہ اسے جیل بھجوا دے گی۔ یہ سب کچھ اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ یورپ اور امریکہ اور ان کے مشرقی مقلدین آج عورتوں کی جس آزادی و بے باکی کو بیسویں صدی کا کرشمہ سمجھ رہے ہیں وہ کوئی نئی چیز نہیں ہے، بہت پرانی چیز ہے۔ دقیانوس سے سیکڑوں برس پہلے مصر میں یہ اسی شان کے ساتھ پائی جاتی تھی جیسی آج اِس ’’روشن زمانے ‘‘ میں پائی جا رہی ہے۔

۲۸-یہ آیات ہمارے سامنے اُن حالات کا ایک عجیب نقشہ پیش کرتی ہیں جن میں اس وقت حضرت یوسف ؑ مبتلا تھے۔ انیس بیس سال کا ایک خوبصورت نوجوان ہے جو بدویانہ زندگی سے بہترین تندرستی اور بھری جوانی لیے ہوئے آیا ہے۔ غریبی، جلاوطنی اور جبری غلامی کے مراحل سے گزرنے کے بعد قسمت اسے دنیا کی سب سے بڑی متمدن سلطنت کے پایہ تخت میں ایک بڑے رئیس کے ہاں لے آئی ہے۔ یہاں پہلے تو خود اس گھر کی بیگم یہ اس کے پیچھے پڑ جاتی ہے جس سے اس کا شب و روز کا سابقہ ہے۔ پھر اس کے حسن کا چرچا سارے دارالسلطنت میں پھیلتا ہے اور شہر بھر کے امیر گھرانوں کی عورتیں اس پر فریفتہ ہو جاتی ہیں۔ اب ایک طرف وہ ہے اور دوسری طرف سیکڑوں خوبصورت جال ہیں جو ہر وقت ہر جگہ اسے پھانسنے کے لیے پھیلے ہوئے ہیں۔ ہر طرح کی تدبیریں اس کے جذبات کو بھڑکانے اور اس کے زہد کو توڑنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ جدھر جاتا ہے یہی دیکھتا ہے کہ گناہ اپنی ساری خوشنمائیوں اور دلفریبیوں کے ساتھ دروازے کھولے اس کا منتظر کھڑا ہے۔ کوئی تو فجور کے مواقع خود ڈھونڈھتا ہے، مگر یہاں خود مواقع اس کو ڈھونڈ رہے ہیں اور اس تاک میں لگے ہوئے ہیں کہ جس وقت بھی اس کے دل میں برائی کی طرف ادنیٰ مَیلان پیدا ہو وہ فوراً اپنے آپ کو اس کے سامنے پیش کر دیں۔ رات دن کے چوبیس گھنٹے وہ اس خطرے میں بسر کر رہا ہے کہ کبھی ایک لمحہ کے لیے بھی اس کے ارادے کی بندش میں کچھ ڈھیل آ جائے تو وہ گناہ کے اُن بے شمار دروازوں میں سے کسی میں داخل ہو سکتا ہے جو اس کے انتظار میں کھلے ہوئے ہیں۔ اس حالت میں یہ خدا پرست نوجوان جس کامیابی کے ساتھ ان شیطانی ترغیبات کا مقابلہ کرتا ہے وہ بجائے خود کچھ کم قابل تعریف نہیں ہے۔ مگر ضبطِ نفس کے اس حیرت انگیز کمال پر عرفانِ نفس اور طہارتِ  فکر کا مزید کمال یہ ہے کہ اس پر بھی اس کے دل میں کبھی یہ متکبرانہ خیال نہیں آتا کہ واہ رے میں، کیسی مضبوط ہے میری سیرت کہ ایسی ایسی حَسین اور جوان عورتیں میری گرویدہ ہیں اور پھر بھی میرے قدم نہیں پھسلتے۔ اس کے بجائے وہ اپنی بشری کمزوریوں کا خیال کر کے کانپ اٹھتا ہے اور نہایت عاجزی کے ساتھ خدا سے مدد کی التجا کرتا ہے کہ اے رب، میں ایک کمزور انسان ہوں، میرا اتنا بل بوتا کہاں کہ ان بے پناہ ترغیبات کا مقابلہ کر سکوں، تو مجھے سہارا دے اور مجھے بچا، ڈرتا ہوں کہ کہیں میرے قدم پھسل نہ جائیں۔۔۔۔۔۔ درحقیقت یہ حضرتِ یوسف علیہ السلام کی اخلاقی تربیت کا اہم ترین اور نازک ترین مرحلہ تھا۔ دیانت، امانت، عفت، حق شناسی، راست روی، انضباط، اور توازن ذہنی کی غیر معمولی صفات جواب تک ان کے اندر چھپی ہوئی تھیں اور جن سے وہ خود بھی بے خبر تھے، وہ سب کی سب اس شدید آزمائش کے دور میں اُبھر آئیں، پورے زور کے ساتھ کام کرنے لگیں اور انہیں خود بھی معلوم ہو گیا کہ ان کے اندر کون کون سی قوتیں موجود ہیں اور وہ ان سے کیا کام لے سکتے ہیں۔

۲۹-دفع کرنا اس معنی میں ہے کہ یوسف علیہ السلام کی سیرت صالحہ کو ایسی مضبوط بخش دی گئی جس کے مقابلہ میں ان عورتوں کی ساری تدبیریں ناکام ہو کر رہ گئیں۔ نیز اس معنی میں بھی ہے کہ مشیت الٰہی نے جیل کا دروازہ ان کے لیے کھلوا دیا۔

۳۰-اس طرح حضرت یوسف ؑ کا قید میں ڈالا جانا درحقیقت ان کی اخلاقی فتح اور مصر کے پورے طبقہ امراء و حکام کی اخلاقی شکست کا اِتمام و اعلان تھا۔ اب حضرت یوسف ؑ کوئی غیر معروف اور گمنام آدمی نہ رہے تھے۔ سارے ملک میں، اور کم از کم دارالسلطنت میں تو عام و خاص سب ان سے واقف ہو چکے تھے۔ جس شخص کی دلفریب شخصیت پر ایک دو نہیں، اکثر و بیشتر بڑے گھرانوں کی خواتین فریفتہ ہوں، اور جس کے فتنہ روزگار حُسن سے اپنے گھر بگڑتے دیکھ کر مصر کے حکام نے اپنی خیریت اسی میں دیکھی ہو کہ اسے قید کر دیں، ظاہر ہے کہ ایسا شخص چھپا نہیں رہ سکتا تھا۔ یقیناً گھر گھر اس کا چرچا پھیل گیا ہو گا۔ عام طور پر لوگ اس بات سے بھی واقف ہو گئے ہوں گے کہ یہ شخص کیسے بلند اور مضبوط اور پاکیزہ اخلاق کا انسان ہے، اور یہ بھی جان گئے ہوں گے کہ اس شخص کو جیل اپنے کسی جرم پر نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ اس لیے بھیجا گیا ہے کہ مصر کے امراء اپنی عورتوں کو قابو میں رکھنے کے بجائے اس بے گناہ کو جیل بھیج دینا زیادہ آسان پاتے تھے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی شخص کو شرائط انصاف کے مطابق عدالت میں مجرم ثابت کیے بغیر، بس یونہی پکڑ کر جیل بھیج دینا، بے ایمان حکمرانوں کی پرانی سنت ہے۔ اس معاملہ میں بھی آج کے شیاطین چار ہزار برس پہلے کے اشرار سے کچھ بہت زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ فرق اگر ہے تو بس یہ کہ وہ ’’ جمہوریت‘‘ کا نام نہیں لیتے تھے، اور یہ اپنے اِن کرتوتوں کے ساتھ یہ نام بھی لیتے ہیں۔ وہ قانون کے بغیر اپنی غیر قانونی حرکتیں کیا کرتے تھے، اور یہ ہر ناروا زیادتی کے لیے پہلے ایک ’’قانون‘‘ بنا لیتے ہیں۔ وہ صاف صاف اپنی اغراض کے لیے لوگوں پر دست درازی کرتے تھے اور یہ جس پر ہاتھ ڈالتے ہیں اس کے متعلق دنیا کو یقین دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس نے اِن کو نہیں بلکہ ملک اور قوم کو خطرہ تھا۔ غرض وہ صرف ظالم تھے۔ یہ اس کے ساتھ جھوٹے اور بے حیا بھی ہیں۔

 

قید خانہ میں ۳۱ دو غلام اور بھی اس کے ساتھ داخل ہوئے۔ ۳۲ ایک روز اُن میں سے ایک نے اُس سے کہا ’’میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب کشید کر رہا ہوں۔ ‘‘ دُوسرے نے کہا ’’ میں نے دیکھا کہ میرے سر پر روٹیاں رکھی ہیں اور پرندے ان کو کھا رہے ہیں۔ ‘‘ دونوں نے کہا ’’ ہمیں اس کی تعبیر بتائیے، ہم دیکھتے ہیں کہ آپ ایک نیک آدمی ہیں۔ ‘‘ ۳۳ یُوسُف ؑ نے کہا: ’’یہاں جو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے اس کے آنے سے پہلے میں تمہیں اِن خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا۔ یہ علم اُن عُلوم میں سے ہے جو میرے ربّ نے مجھے عطا کیے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ میں نے اُن لوگوں کا طریقہ چھوڑ کر جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے اور آخرت کا انکار کرتے ہیں،اپنے بزرگوں، ابراہیم ؑ، اسحاق ؑ اور یعقوب ؑ کا طریقہ اختیار کیا ہے۔ ہمارا یہ کام نہیں ہے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائیں۔ در حقیقت یہ اللہ کا فضل ہے ہم پر اور تمام انسانوں پر (کہ اس نے اپنے سوا کسی کا بندہ ہمیں نہیں بنایا) مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے۔ اے زنداں کے ساتھیو، تم خود ہی سوچو کہ بہت سے متفرق ربّ بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے ؟اُس کو چھوڑ کر تم جن کی بندگی کر رہے ہو وہ اس کے سوا کچھ نہیں ہیں کہ بس چند نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے رکھ لیے ہیں، اللہ نے ان کے لیے کوئی سَنَد نازل نہیں کی۔ فرماں روائی کا اقتدار اللہ کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے۔ اس کا حکم ہے کہ خود اس کے سوا تم کسی کی بندگی نہ کرو۔ یہی ٹھیٹھ سیدھا طریقِ زندگی ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔ اے زنداں کے ساتھیو، تمہارے خواب کی تعبیر یہ ہے کہ تم میں سے ایک تو اپنے ربّ (شاہِ مصر) کو شراب پلائے گا، رہا دُوسرا تو اسے سُولی پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ فیصلہ ہو گیا اُس بات کا جو تم پُوچھ رہے تھے۔ ‘‘ ۳۴پھر اُن میں سے جس کے متعلق خیال تھا کہ وہ رہا ہو جائے گا اس سے یُوسُف ؑ نے کہا کہ ’’ اپنے ربّ (شاہِ مصر) سے میرا ذکر کرنا۔ ‘‘ مگر شیطان نے اسے ایسا غفلت میں ڈالا کہ وہ اپنے ربّ (شاہِ مصر) سے اس کا ذکر کرنا بھُول گیا ور یُوسُف ؑ کئی سال قید خانے میں پڑا رہا۔ ۳۵ ؏ ۵
 

۳۱-غالباً اس وقت جب کہ حضرت یوسف ؑ قید کیے گئے ان کی عمر بیس اکیس سال سے زیادہ نہ ہو گی۔ تلمود میں بیان کیا گیا ہے کہ قید خانے سے چھوٹ کر جب وہ مصر کے فرمانروا ہوئے تو ان کی عمر تیس سال تھی، اور قرآن کہتا ہے کہ قید خانے میں وہ بصنع سنین یعنی کئی سال رہے۔ بصنع کا اطلاق عربی زبان میں دس تک کے عدد کے لیے ہوتا ہے۔

۳۲-یہ دو غلام جو قید خانہ میں حضرت یوسف ؑ کے ساتھ داخل ہوئے تھے ا ن کے متعلق بائیبل کی روایت ہے کہ ان میں سے ایک شاہِ مصر کے ساقیوں کا سردار تھا اور دوسرا شاہی نان بائیوں کا افسر۔ تلمود کا بیا ن ہے کہ ان دونوں کو شاہِ مصر نے اس قصور پر جیل بھیجا تھا کہ ایک دعوت کے موقع پر روٹیوں میں کچھ کِرکراہٹ پائی گئی تھی اور شراب کے ایک گلاس میں مکھی نکل آئی تھی!

۳۳-اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قید خانے میں حضرت یوسف ؑ کس نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ اوپر جن واقعات کا ذکر گزر چکا ہے ان کو پیش نظر رکھنے سے یہ بات قابل تعجب نہیں رہتی کہ ان دو قیدیوں نے آخر حضرت یوسف ؑ ہی سے آ کر اپنے خواب کی تعبیر کیوں پوچھی اور ان کی خدمت میں یہ نذرِ عقیدت کیوں پیش کہ کہ اِنَّا نَرٰکَ مِنَ المُحسِنینَ۔ جیل کے اندر اور باہر سب لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص کوئی مجرم نہیں ہے بلکہ ایک نہایت نیک نفس آدمی ہے، سخت ترین آزمائشوں میں اپنی پرہیز گاری کا ثبوت دے چکا ہے، آج پورے ملک میں اس سے زیادہ نیک انسان کوئی نہیں ہے، حتیٰ کہ ملک کے مذہبی پیشواؤں میں بھی اس کی نظیر مفقود ہے۔ یہی وجہ تھی کہ نہ صرف قیدی ان کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے تھے بلکہ قید خانے کے حکام اور اہل کار تک ان کے معتقد ہو گئے تھے۔ چنانچہ بائیبل میں ہے کہ ’’قید خانے کی داروغہ نے سب قیدیوں کو جو قید میں تھے یوسف ؑ کے ہاتھ میں سونپا اور جو کچھ وہ کرتے اسی حکم سے کرتے تھے، اور قید خانے کا داروغہ سب کاموں کی طرف سے جو اس کے ہاتھ میں تھے بے فکر تھا‘‘۔ (پیدائش ۳۹:۲۳،۲۲)

۳۴-یہ تقریر جو اس پورے قصّے کی جان ہے اور خود قرآن میں بھی توحید کی بہترین تقریروں میں سے ہے، بائیبل اور تلمود میں کہیں اِس کی طرف ادنیٰ اشارہ تک نہیں ہے۔ وہ حضرت یوسف ؑ کو محض ایک دانشمند اور پرہیزگار آدمی کی حیثیت سے پیش کرتی ہیں۔ مگر قرآن صرف یہی نہیں کہ ان کی سیرت کے ان پہلوؤں کو بھی بائیبل اور تلمود کی بہ نسبت بہت زیادہ روشن کر کے پیش کرتا ہے، بلکہ اس کے علاوہ وہ ہم کو یہ بھی بتاتا ہے کہ حضرت یوسف ؑ اپنا ایک پیغمبرانہ مشن رکھتے تھے اور اس کی دعوت و تبلیغ کا کام انہوں نے قید خانہ ہی میں شروع کر دی تھا۔

یہ تقریر ایسی نہیں ہے کہ اس پر سے یونہی سرسری طور پر گزر جائیے۔ اس کے متعدد پہلو ایسے ہیں جن پر توجہ اور غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے :

(۱) یہ پہلا موقع ہے جبکہ حضرت یوسف ؑ ہم کو دینِ حق کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سے پہلے ان کی داستانِ حیات کے جو ابواب قرآن نے پیش کیے ہیں ان میں صرف اخلاقِ فاضلہ کی مختلف خصوصیات مختلف مرحلوں پر ابھرتی رہی ہیں مگر تبلیغ کا کوئی نشان وہاں نہیں پایا جاتا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پہلے مراحل محض تیاری اور تربیت کے تھے۔ نبوت کا کام عملاً اِس قید خانے کے مرحلے میں ان کے سپرد کیا گیا ہے اور نبی کی حیثیت سے یہ ان کی پہلی تقریر دعوت ہے۔

(۲) یہ بھی پہلا موقع ہے کہ انہوں نے لوگوں کے سامنے اپنی اصلیت ظاہر کی۔ اس سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نہایت صبر و شکر کے ساتھ ہر اُس حالت کو قبول کرتے رہے جو ان کو پیش آئی۔ جب قافلے والوں نے ان کو پکڑ کر غلام بنایا، جب وہ مصر گئے، جب انہیں عزیز مصر کے ہاتھ فروخت کیا گیا، جب انہیں جیل بھیجا گیا، ان میں سے کسی موقع پر بھی انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ میں ابراہیم و اسحاق ؑ کا پوتا ہوں اور یعقوب کا بیٹا ہوں۔ ان کے باپ دادا کوئی غیر معروف لوگ نہ تھے۔ قافلے والے خواہ اہل مَدیَن ہوں یا اسماعیلی، دونوں ان کے خاندان سے قریبی تعلق رکھنے والے ہی تھے۔ اہل مصر بھی کم از کم حضرت ابراہیم سے تو ناواقف نہ تھے۔ (بلکہ حضرت یوسف ؑ جس انداز سے ان کا اور حضرت یعقوب ؑ اور اسحاق ؑ کا ذکر کر رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تینوں بزرگوں کی شہرت مصر میں پہنچی ہوئی تھی)۔ لیکن حضرت یوسف ؑ نے کبھی باپ دادا کا نام لے کر اپنے آپ کو ان حالات سے نکالنے کی کوشش نہ کی جن میں وہ پچھلے چار پانچ سال کے دوران میں مبتلا ہوتے رہے۔ غالباً وہ خود بھی اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ انہیں بنانا چاہتا ہے اس کے لیے ان کا ان حالات سے گزرنا ہی ضروری ہے۔ مگر اب انہوں نے محض اپنی دعوت و تبلیغ کی خاطر اس حقیقت سے پردہ اُٹھایا کہ میں کوئی نیا اور نرالا دین پیش نہیں کر رہا ہوں بلکہ میرا تعلق دعوتِ توحید کی اس عالمگیر تحریک سے ہے جس کے ائمہ ابراہیم و اسحاق و یعقوب ؑ ہیں۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری تھا کہ داعی حق کچھ اس دعوے کے ساتھ نہیں اٹھا کر تاکہ وہ ایک نئی بات پیش کر رہا ہے جو اس سے پہلے کسی کو نہ سوجھی تھی، بلکہ پہلے قدم ہی پر یہ بات کھول دیتا ہے کہ میں اس ازلی و ابدی حقیقت کی طرف بلا رہا ہوں جو ہمیشہ سے تمام اہل حق پیش کرتے رہے ہیں۔

(۳) پھر حضرت یوسف ؑ نے جس طرح اپنی تبلیغ کے لیے موقع نکالا اس میں ہم کو حکمتِ تبلیغ کا ایک اہم سبق ملتا ہے۔ دو آدمی اپنا خواب بیان کرتے ہیں اور اپنی عقیدت مندی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تعبیر پوچھتے ہیں۔ جواب میں آپ فرماتے ہیں کہ تعبیر تو میں تمہیں ضرور بتاؤں گا مگر پہلے یہ سن لو کہ اس علم کا ماخذ کیا ہے جس کی بنا پر میں تمہیں تعبیر دیتا ہوں۔ اس طرح ان کی بات میں سے اپنی بات کہنے کا موقع نکال کر آپ اُن کے سامنے اپنا دین پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ فی الواقع کسی شخص کے دل میں اگر تبلیغِ حق کی دھُن سمائی ہوئی ہو اور وہ حکمت بھی رکھتا ہو تو کیسی خوبصورتی کے ساتھ وہ گفتگو کا رُخ اپنی دعوت کی طرف پھیر سکتا ہے۔ جسے دعوت کی دھن لگی ہوئی نہیں ہوتی اس کے سامنے تو مواقع پر مواقع آتے ہیں اور وہ کبھی محسوس نہیں کرتا کہ یہ موقع ہے اپنی بات کہنے کا۔ مگر وہ جسے دھن لگی ہوئی ہوتی ہے وہ موقع کی تاک میں لگا رہتا ہے اور اسے پاتے ہی اپنا کام شروع کر دیتا ہے۔ البتہ بہت فرق ہے حکیم کی موقع شناسی میں اور اُس نادان مبلغ کی بھونڈی تبلیغ میں جو موقع و محل کا لحاظ کیے بغیر لوگوں کے کانوں میں زبردستی اپنی دعوت ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر لیچڑ پن اور جھگڑالو پن سے انہیں اُلٹا متنفر کر کے چھوڑتا ہے۔

(۴) اس سے یہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ لوگوں کے سامنے دعوتِ دین پیش کرنے کا صحیح ڈھنگ کیا ہے۔ حضرت یوسف ؑ چھوٹتے ہی دین کے تفصیلی اصول اور ضوابط پیش کرنے شروع نہیں کر دیتے بلکہ ان کے سامنے دین کے اُس نقطۂ آغاز کو پیش کرتے ہیں جہاں سے اہل حق کا راستہ اہل باطل کے راستوں سے جدا ہوتا ہے، یعنی توحید اور شرک کا فرق۔ پھر اس فرق کو وہ ایسے معقول طریقے سے واضح کرتے ہیں کہ عقلِ عام رکھنے والا کوئی شخص اسے محسوس کیے بگیر نہیں رہ سکتا۔ خصوصیت کے ساتھ جو لوگ اس وقت ان کے مخاطب تھے ان کے دل و دماغ میں تو تیرکی طرح یہ بات اتر گئی ہو گی، کیونکہ وہ نوکر پیشہ غلام تھے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں اس بات کو خوب محسوس کر سکتے تھے کہ ایک آقا کا غلام ہونا بہتر ہے یا بہت سے آقاؤں کا، اور سارے جہان کے آقا کی بندگی بہتر ہے یا بندوں کی بندگی۔ پھر وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ اپنا دین چھوڑو اور میرے دین میں آ جاؤ، بلکہ ایک عجیب انداز میں ان سے کہتے ہیں کہ دیکھو، اللہ کا یہ کتنا بڑا فضل ہے کہ اس نے اپنے سوا ہم کو کسی کا بندہ نہیں بنایا مگر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور خواہ مخواہ خود گھڑ گھڑ کر اپنے رب بناتے اور ان کی بندگی کرتے ہیں۔ پھر وہ اپنے مخاطبوں کے دین پر تنقید بھی کرتے ہیں، مگر نہایت معقولیت کے ساتھ اور دل آزاری کے ہر شائبے کے بغیر۔ بس اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ یہ معبود جن میں سے کسی کو تم اَن داتا، کسی کو خداوند نعمت، کسی کو مالکِ زمین اور کسی کو ربِّ دولت یا مختارِ صحت و مرض وغیرہ کہتے ہو، یہ سب خالی خولی نام ہی ہیں، ان ناموں کے پیچھے کوئی حقیقی اَن داتائی و خداوندی اور مالکیت و ربوبیت موجود نہیں ہے۔ اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے جسے تم بھی کائنات کا خالق و رب تسلیم کرتے ہو، اور اُس نے ان میں سے کسی کے لیے بھی خداوندی اور معبودیت کی کوئی سند نہیں اتاری ہے۔ اس نے تو فرمانروائی کے سارے حقوق اور اختیارات اپنے ہی لیے مخصوص رکھے ہیں اور اس کا حکم ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔

(۵) اس سے یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے قید خانے کی زندگی کے یہ آٹھ دس سال کس طرح گزارے ہوں گے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ قرآن میں چونکہ ان کے ایک ہی وعظ کا ذکر ہے اس لیے انہوں نے صرف ایک ہی دفعہ دعوت دین کے لیے زبان کھولی تھی۔ مگر اول تو ایک پیغمبر کے متعلق یہ گمان کرنا ہی سخت بدگمانی ہے کہ وہ اپنے اصل کام سے غافل ہو گا۔ پھر جس شخص کی تبلیغی دھُن کا یہ حال تھا کہ دو آدمی تعبیر خواب پوچھتے ہیں اور وہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر دین کی تبلیغ شروع کر دیتا ہے اُس کے متعلق یہ کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کہ اس نے قید خانے کے یہ چند سال خاموش ہی گزار دیے ہوں گے۔

۳۵-اس مقام کی تفسیر بعض مفسرین نے یہ کی ہے کہ ’’شیطان نے حضرت یوسف ؑ کو اپنے رب(یعنی اللہ تعالیٰ) کی یاد سے غافل کر دیا اور انہوں نے ایک بندے سے چاہا کہ وہ اپنے رب(یعنی شاہ مصر) سے ان کا تذکرہ کر کے ان کی رہائی کی کوشش کرے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سزا دی کہ وہ کئی سال تک جیل میں پڑے رہے ‘‘۔ درحقیقت یہ تفسیر بالکل غلط ہے۔ صحیح یہی ہے، جیسا کہ علامہ ابن کثیر، اور متقدمین میں سے مجاہد اور محمد بن اسحاق وغیرہ نے کہا ہے کہ فا نساہ الشیطان ذکر ربّہ کی ضمیر اس شخص کی طرف پھرتی ہے جس کے متعلق حضرت یوسف ؑ کا گمان تھا کہ وہ رہائی پانے والا ہے، اور اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ ’’شیطان نے اسے اپنے آقا سے حضرت یوسف ؑ کا ذکر کرنا بھلا دیا‘‘۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ’’اگر یوسف علیہ السلام نے وہ بات نہ کہی ہوتی جو انہوں نے کہی تو وہ قید میں کئی سال نہ پڑے رہتے۔ ‘‘ لیکن علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ ’’یہ حدیث جتنے طریقوں سے روایت کی گئی ہے وہ سب ضعیف ہیں۔ بعض طریقوں سے یہ مرفوعاً روایت کی گئی ہے اور ان میں سفیان بن وکیع اور ابراہیم بن یزید راوی ہیں جو دونوں ناقابل اعتماد ہیں۔ اور بعض طریقوں سے یہ مُرسَلاً روایت ہوئی ہے اور ایسے معاملات میں مُرسلات کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ علاوہ بریں روایت کے اعتبار سے بھی یہ بات باور کرنے کے قابل نہیں ہے کہ ایک مظلوم شخص کا اپنی رہائی کے لیے دنیوی تدبیر کرنا خدا سے غفلت اور توکل کے فقدان کی دلیل قرار دیا گیا ہو گا۔

 

ایک روز ۳۶ بادشاہ نے کہا ’’ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دُبلی گائیں کھا رہی ہیں، اور اناج کی سات بالیں ہری ہیں اور دُوسری سات سُوکھی۔ اے اہلِ دربار، مجھے اس خواب کی تعبیر بتاؤ اگر تم خوابوں کا مطلب سمجھتے ہو۔ ‘‘ ۳۷ لوگوں نے کہا ’’یہ تو پریشان خوابوں کی باتیں ہیں اور ہم اس طرح کے خوابوں کا مطلب نہیں جانتے۔ ‘‘اُن دو قیدیوں میں سے جو شخص بچ گیا تھا اور اُسے ایک مُدّتِ دراز کے بعد اب بات یاد آئی، اُس نے کہا ’’ میں آپ حضرات کو اس کی تاویل بتاتا ہوں، مجھے ذرا (قید خانے میں یُوسُف ؑ کے پاس) بھیج دیجیے۔ ۳۸‘‘اُس نے جا کر کہا ’’ یُوسُف ؑ، اے سراپا راستی،۳۹ مجھے اس خواب کا مطلب بتا کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دُبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیں ہری ہیں اور سات سوکھی۔ شاید کہ میں اُن لوگوں کے پاس واپس جاؤں اور شاید کہ وہ جان لیں۔ ‘‘ ۴۰یُوسُف ؑ نے کہا ’’سات برس تک لگاتار تم لوگ کھیتی باڑی کرتے رہو گے۔ اس دوران میں جو فصلیں تم کاٹو اُن میں سے بس تھوڑا سا حصہ، جو تمہاری خوراک کے کام آئے، نکالو اور باقی کو اس کی بالوں ہی میں رہنے دو۔ پھر سات برس بہت سخت آئیں گے۔ اُس زمانے میں وہ سب غلّہ کھا لیا جائے گا جو تم اُس وقت کے لیے جمع کرو گے۔ اگر کچھ بچے گا تو بس وہی جو تم نے محفوظ کر رکھا ہو۔ اس کے بعد پھر ایک سال ایسا آئے گا جس میں بارانِ رحمت سے لوگوں کو فریاد رسی کی جائے گی اور وہ رس نچوڑیں گے۔ ‘‘ ۴۱ ؏ ٦

 

۳۶-بیچ میں کئی سال کے زمانہ قید کا حال چھوڑ کر اب سر رشتہ بیان اس مقام سے جوڑا جاتا ہے جہاں سے حضرت یوسف ؑ کے دنیوی عروج شروع ہوا۔

۳۷-بائیبل اور تلمود کا بیا ن ہے کہ ان خوابوں سے بادشاہ بہت پریشان ہو گیا تھا اور اس نے اعلان عام کے ذریعہ سے اپنے ملک کے تمام دانشمندوں، کاہنوں، مذہبی پیشواؤں اور جادوگروں کو جمع کر کے ان سب کے سامنے یہ سوال پیش کیا تھا۔

۳۸-قرآن نے یہاں اختصار سے کام لیا ہے۔ بائیبل اور تلمود سے اس کی تفصیل یہ معلوم ہوتی ہے (اور قیاس بھی کہتا ہے کہ ضرور ایسا ہوا ہو گا) کہ سردار ساقی نے یوسف علیہ السلام کے حالات بادشاہ سے بیان کیے، اور جیل میں اس کے خواب اور اس کے ساتھی کے خواب کی جیسی صحیح تعبیر انہوں نے دی تھی اس کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ میں ان سے اس کی تاویل پوچھ کر آتا ہوں، مجھے قید خانہ میں ان سے ملنے کی اجازت عطا کی جائے۔

۳۹-متن میں لفظ ’’صدیق‘‘ استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں سچائی اور راستبازی کے انتہائی مرتبے کہ لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس سے اندازہ کی جا سکتا ہے کہ قید خانے کے زمانہ قیام میں اس شخص نے یوسف علیہ السلام کی سیرت پاک سے کیسا گہرا اثر لیا تھا اور یہ اثر ایک مدت دراز گزر جانے کے بعد بھی کتنا راسخ تھا۔ صدیق کی مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، جلد اول سورہ نساء، حاشیہ نمبر ۹۹

۴۰-یعنی آپ کی قدرو منزلت جان لیں اور ان کو احساس ہو کہ کس پائے کے آدمی کو انہوں نے کہا ں بند کر رکھا ہے، اس طرح مجھے اپنے اس وعدے کے ایفاء کا موقع مل جائے جو میں نے آپ سے قید کے زمانہ میں کیا تھا۔

۴۱-متن میں لفظ ’’یعصرون‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے لفظی معنی ’’نچوڑنے ‘‘ کے ہیں۔ اس سے مقصود یہاں سرسبزی و شادابی کی وہ کیفیت بیان کرنا ہے جو قحط کے بعد باران رحمت اور دریائے نیل کے چڑھاؤ سے رونما ہونے والی تھی۔ جب زمین سیراب ہوتی ہے تو تیل دینے والا بیج اور رس دینے والا پھل اور میوے خوب پیدا ہوتے ہیں، اور مویشی بھی چارہ اچھا ملنے کی وجہ سے خوب دودھ دینے لگتے ہیں۔

حضرت یوسف علیہ السلام نے اس تعبیر میں صرف بادشاہ کے خواب کا مطلب بتانے ہی پر اکتفا نہ کیا، بلکہ ساتھ ساتھ بتا دیا کہ خوشحالی کے ابتدائی سات برسوں میں آنے والے قحط کے لیے پیش بندی کی جائے اور غلہ کو محفوظ رکھنے کا کیا بندوبست کیا جائے۔ پھر مزید بر آں آپ نے قحط کے بعد اچھے دن آنے کی خوشخبری بھی دے دی جس کا ذکر بادشاہ کے خواب میں نہ تھا۔

 

بادشاہ نے کہا اسے میرے پاس لاؤ۔ مگر جب شاہی فرستادہ یوسف ؑ کے پاس پہنچا تو اس نے کہا ’’۴۲ اپنے ربّ کے پاس واپس جا اور اس سے پوچھ کہ اُن عورتوں کا یا معاملہ ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے ؟ میرا ربّ تو ان کی مکّاری سے واقف ہی ہے۔ ‘‘ ۴۳
اس پر بادشاہ نے ان عورتوں سے دریافت ۴۴ کیا ’’ تمہارا کیا تجربہ ہے اُس وقت کا جب تم نے یُوسُف ؑ کو رِجھانے کی کوشش کی تھی؟‘‘ سب نے یک زبان ہو کر کہا ’’حاشا لِلّٰہ، ہم نے تو اُس میں بدی کا شائبہ تک نہ پایا۔ ‘‘ عزیز کی بیوی بول اُٹھی ’’اب حق کھُل چکا ہے، وہ میں ہی تھی جس نے اُس کو پھُسلانے کی کوشش کی تھی، بے شک وہ بالکل سچا ہے۔ ‘‘ ۴۵ (یُوسُف ؑ نے ۴۶ کہا) ’’اِس سے میری غرض یہ تھی کہ (عزیز) یہ جان لے کہ میں نے درپردہ اس کی خیانت نہیں کی تھی۔ اور یہ کہ جو خیانت کرتے ہیں ان کی چالوں کو اللہ کامیابی کی راہ پر نہیں لگاتا۔ میں کچھ اپنے نفس کی براءَت نہیں کر رہا ہوں، نفس تو بدی پر اُکساتا ہی ہے اِلّا یہ کہ کسی پر میرے ربّ کی رحمت ہو، بے شک میرا ربّ بڑا غفور و رحیم ہے۔ ‘‘
بادشاہ نے کہا ’’ اُنہیں میرے پاس لاؤ تاکہ میں ان کو اپنے لیے مخصُوص کر لوں۔ ‘‘ جب یُوسُف ؑ نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا ’’اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے۔ ۴۷‘‘یُوسُف ؑ نے کہا ’’ملک کے خزانے میرے سپُرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔ ‘‘ ۴۷ الف
اِس طرح ہم نے اُس سرزمین میں یُوسُف ؑ کے لیے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ وہ مُختار تھا کہ اس میں جہاں چاہے اپنی جگہ بنائے۔ ۴۸ ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں، نیک لوگوں کا اجر ہمارے ہاں مارا نہیں جاتا،اور آخرت کا اجر اُن لوگوں کے لیے زیادہ بہتر ہے جو ایمان لائے اور خدا ترسی کے ساتھ کام کرتے رہے۔ ۴۹ ؏۷

 

۴۲-یہاں سے لے کر بادشاہ کی ملاقات تک جو کچھ قرآن نے بیان کیا ہے۔۔۔۔۔۔ جو اس قصے کا ایک بڑا ہی اہم باب ہے۔۔۔۔۔۔ اس کا کوئی ذکر بائیبل اور تلمود میں نہیں ہے۔ بائیبل کا بیا ن ہے کہ بادشاہ کی طلبی پر حضرت یوسف ؑ فوراً چلنے کے لیے تیار ہو گئے، حجامت بنوائی، کپڑے بدلے اور دربار میں جا حاضر ہوئے۔ تلمود اس سے بھی زیادہ گھٹیا صورت میں اس واقعے کو پیش کرتی ہے۔ اس کا بیا ن یہ ہے کہ ’’بادشاہ نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ یوسف ؑ کو میرے حضور پیش کرو، اور یہ بھی ہدایت کر دی کہ دیکھو ایسا کوئی کام نہ کرنا کہ لڑکا گھبرا جائے اور صحیح تعبیر نہ دے سکے۔ چنانچہ شاہی ملازموں نے یوسف ؑ کو قید خانے سے نکالا، حجامت بنوائی، کپڑے بدلوائے اور دربار میں لا کر پیش کر دیا۔ بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا تھا۔ وہاں زر و جواہر کی چمک دمک اور دربار کی شان دیکھ کر یوسف ؑ ہکا بکا رہ گیا اور اس کی آنکھیں خیرہ ہونے لگیں۔ شاہی تخت کی سات سیڑھیاں تھیں۔ قاعدہ یہ تھا کہ جب کوئی معزز آدمی بادشاہ سے کچھ عرض کرنا چاہتا تو وہ چھ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جاتا اور بادشاہ سے ہم کلام ہوتا تھا۔ اور جب ادنیٰ طبقہ کا کوئی آدمی شاہی مُخاطبہ کے لیے بلایا جاتا تو وہ نیچے کھڑا رہتا اور بادشاہ تیسری سیڑھی تک اتر کر اس سے بات کرتا۔ یوسف ؑ اس قاعدے کے مطابق نیچے کھڑا ہوا اور زمین بوس ہو کر اس نے بادشاہ کو سلامی دی۔ اور بادشاہ نے تیسری سیڑھی تک اتر کر اس سے گفتگو کی‘‘۔ اس تصویر میں بنی اسرائیل نے اپنے جلیل القدر پیغمبر کو جتنا گرا کر پیش کیا ہے اس کو نگاہ میں رکھیے اور پھر دیکھیے کہ قرآن ان کے قید سے نکلنے اور بادشاہ سے ملنے کا واقعہ کس شان اور کس آن بان کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ اب یہ فیصلہ کرنا ہر صاحب نظر کا اپنا کام ہے کہ ان دونوں تصویروں میں سے کونسی تصویر پیغمبر ی کے مرتبے سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے۔ علاوہ بریں یہ بات بھی عقلِ عام کو کھٹکتی ہے کہ اگر بادشاہ کی ملاقات کے وقت تک حضرت یوسف ؑ کی حیثیت اتنی گری ہوئی تھی جتنی تلمود کے بیان سے معلوم ہوتی ہے، تو خواب کی تعبیر سنتے ہی یکایک ان کو تمام سلطنت کا مختار کل کیسے بنا دیا گیا۔ ایک مہذب و متمدن ملک میں اتنا بڑا مرتبہ تو آدمی کو اُسی وقت ملا کرتا ہے جب کہ وہ اپنی اخلاقی و ذہنی بر تری کا سکہ لوگوں پر بٹھا چکا ہو۔ پس عقل کی رو سے بھی بائیبل اور تلمود کی بہ نسبت قرآن کا بیان زیادہ مطابق حقیقت معلوم ہوتا ہے۔

۴۳-یعنی جہاں تک میرے رب کا معاملہ ہے، اس کو تو پہلے ہی میری بے گناہی کا حال معلوم ہے۔ مگر تمہارے رب کو بھی میری رہائی سے پہلے اُس معاملہ کو پوری طرح تحقیق کر لینی چاہیے جس کی بنا پر مجھے جیل میں ڈالا گیا تھا۔ کیونکہ میں کسی شبہہ اور کسی بدگمانی کا داغ لیے ہوئے خلق کے سامنے نہیں آنا چاہتا۔ مجھے رہا کرنا ہے تو پہلے برسر عام یہ ثابت ہونا چاہیے کہ میں بے قصور تھا۔ اصل قصور وار تمہاری سلطنت کے کار فرما اور کار پرواز تھے جنہوں نے اپنی بیگمات کی بد اطواری کا خمیازہ میری پاک دامنی پر ڈالا۔

اس مطالبے کو حضرت یوسف ؑ جن الفاظ میں پیش کرتے ہیں ان سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شاہِ مصر اُس پورے واقعہ سے پہلے ہی واقف تھا جو بیگم عزیز کی دعوت کے موقع پر پیش آیا تھا۔ بلکہ وہ ایسا مشہور واقعہ تھا کہ اس کی طرف صرف ایک اشارہ ہی کافی تھا۔

پھر اس مطالبہ میں حضرت یوسف ؑ عزیز مصر کی بیوی کو چھوڑ کر صرف ہاتھ کاٹنے والی عورتوں کے ذکر پر اکتفا فرماتے ہیں۔ یہ ان کی انتہائی شرافت نفس کا ایک اور ثبوت ہے۔ اس عورت نے ان کے ساتھ خواہ کتنی ہی برائی کی ہو، مگر پھر بھی اس کا شوہر ان کا محسن تھا اس لیے انہوں نے نہ چاہا کہ اس کے ناموس پر خود کوئی حرف لائیں۔

۴۴-ممکن ہے کہ شاہی محل میں ان تمام خواتین کو جمع کر کے یہ شہادت لی گئی ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ بادشاہ نے کسی معتمد خاص کو بھیج کر فرداً فرداً ان سے دریافت کرایا ہو۔

۴۵-اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان شہادتوں نے کس طرح آٹھ نو سال پہلے کے واقعات کو تازہ کر دیا ہو گا، کس طرح حضرت یوسف ؑ کی شخصیت زمانہ قید کی طویل گمنامی سے نکل کر یکا یک پھر سطح پر آ گئی ہو گی، اور کس طرح مصر کے تمام اشراف معززین، متوسطین اور عوام تک میں آپ کا اخلاقی وقار قائم ہو گیا ہو گا۔ اوپر بائیبل اور تلمود کے حوالہ سے یہ بات گزر چکی ہے کہ بادشاہ نے اعلان عام کر کے تمام مملکت کے دانشمندوں اور علماء اور پیروں کو جمع کیا تھا اور وہ سب اس کے خواب کا مطلب بیان کرنے سے عاجز ہو چکے تھے۔ اس کے بعد حضرت یوسف ؑ نے اس کا مطلب یہ بتایا۔ اس واقعہ کی بنا پر پہلے ہی سے سارے ملک کی نگاہیں آپ کی ذات پر مرتکز ہو چکی ہوں گی۔ پھر جب بادشاہ کی طلبی پر آپ نے باہر نکلنے سے انکار کیا ہو گا تو سارے لوگ اچنبھے میں پڑ گئے ہوں گے کہ یہ عجیب قسم کا بلند حوصلہ انسان ہے جس کو آٹھ نو برس کی قید کے بعد بادشاہ وقت مہر بان ہو کر بلا رہا ہے اور پھر بھی وہ بیتاب ہو کر دوڑ نہیں پڑتا۔ پھر جب لوگوں کو معلوم ہوا ہو گا کہ یوسف ؑ نے اپنی رہائی قبول کرنے اور بادشاہ وقت کی ملاقات کو آنے کے لیے کیا شرط پیش کی ہے تو سب کی نگاہیں اس تحقیقات کے نتیجے پر لگ گئی ہوں گی۔ اور جب لوگوں نے اس کا نتیجہ سنا ہو گا تو ملک کا بچہ بچہ عش عش کرتا رہ گیا ہو گا کہ کس قدر پاکیزہ سیرت کا ہے یہ انسان جس کی طہارت نفس پر آج وہی لوگ گواہی دے رہے ہیں جنہوں نے مل جُل کر کل اُسے جیل میں ڈالا تھا۔ اس صورت حال پر اگر غور کیا جائے تو اچھی طرح سمجھ میں آتا ہے کہ اُس وقت حضرت یوسف ؑ نے بادشاہ سے ملاقات کے موقع پر خزائن ارض کی سپردگی کا مطالبہ کیسے بے دھڑک پیش کر دیا اور بادشاہ نے اسے کیوں بے تامل قبول کر لیا۔ اگر بات صرف اسی قدر ہوتی کہ جیل کے ایک قیدی نے بادشاہ کے ایک خواب کی تعبیر بتا دی تھی تو ظاہر ہے کہ اس پر وہ زیادہ سے زیادہ کسی انعام کا اور خلاصی پا جانے کا مستحق ہو سکتا تھا۔ اتنی سی بات اس کے لیے تو کافی نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ بادشاہ سے کہے ’’خزائنِ ارض میرے حوالہ کرو‘‘ اور بادشاہ کہہ دے ’’لیجیے، سب کچھ حاضر ہے ‘‘۔

۴۶-یہ بات غالباً یوسف ؑ نے اس وقت کہی ہو گی جب قید خانہ میں آپ کو تحقیقات کے نتیجے کی خبر دی گئی ہو گی۔ بعض مفسرین، جن میں ابن تیمیہ اور ابن کثیر جیسے فضلا بھی شامل ہیں، اس فقرے کو حضرت یوسف ؑ کا نہیں بلکہ عزیز کی بیوی کے قول کا ایک حصہ قرار دیتے ہیں۔ اُن کی دلیل یہ ہے کہ یہ فقرہ امرأة العزیز کے قول سے متصل آیا ہے اور بیچ میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جس سے یہ سمجھا جائے کہ ’’اِنَّہُ لَمِنَ الصَّادِقینَ‘‘ پر امرأة العزیز کی بات ختم ہو گئی اور بعد کا کلام حضرت یوسف ؑ کی زبان سے ادا ہُوا۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر دو آدمیوں کے قول ایک دوسرے سے متصل واقع ہوں اور اس امر کی صراحت نہ ہو کہ یہ قول فلاں کا ہے اور یہ فلاں کا، تو اس صورت میں لازماً کوئی قرینہ ایسا ہونا چاہیے جس سے دونوں کے کلام میں فرق کیا جا سکے، اور یہاں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔ اس لیے یہی ماننا پڑے گا کہ الئن حصحص الحق سے لے کر ان ربی غفور رحیم تک پورا کلام امرأة العزیز کا ہی ہے۔ لیکن مجھے تعجب ہے کہ ابن تیمیہ جیسے دقیقہ رس آدمی تک کی نگاہ سے یہ بات کیسے چوک گئی کہ شان کلام بجائے خود ایک بہت بڑا قرینہ ہے جس کے ہوتے کسی اور قرینہ کی ضرورت نہیں رہتی۔ پہلا فقرہ تو بلا شبہہ امرأة العزیز کے منہ پر پھبتا ہے، مگر کیا دوسرا فقرہ بھی اس کی حیثیت کے مطابق نظر آتا ہے ؟ یہاں تو شانِ کلام صاف کہہ رہی ہے کہ اس کے قائل حضرت یوسف ؑ ہیں نہ کہ عزیز مصر کی بیوی۔ اس کلام میں جو نیک نفسی، جو عالی ظرفی، جو فروتنی اور جو خدا ترسی بول رہی ہے وہ خود گواہ ہے کہ یہ فقرہ اس زبان سے نکلا ہُوا نہیں ہو سکتا جس سے ھَیتَ لَکَ نکلا تھا۔ جس سے مَا جَزَآءُ مَن اَرَادَ بِاَھلِکَ سُوءًا نکلا تھا، اور جس سے بھری محفل کے سامنے یہ تک نکل سکتا تھا کہ لَئِن لَّم یَفعَل مَآ اٰمُرُہُ لَیُسجَنَنَّ۔ ایسا پاکیزہ فقرہ تو وہی زبان بول سکتی تھی جو اس سے پہلے مَعَا ذَاللہِ اِنَّہُ رَبیٓ اَحسَنَ مَتوَایَ ط کہہ چکی تھی، جو رَبِّ السِّجنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدعُو نَنی اِلَیہِ کہہ چکی تھی، جو اِلَّا تَصرِف عَنی کَیدَ ھُنَّ اَصبُ اِلَیھِنَّ کہہ چکی تھی۔ ایسے پاکیزہ کلام کو یوسفِ  صدیق کے بجائے امرأ العزیز کا کلام ماننا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کوئی قرینہ اس امر پر دلالت نہ کرے کہ اس مرحلے پر پہنچ کر اسے توبہ اور ایمان اور اصلاح نفس کی توفیق نصیب ہو گئی تھی، اور افسوس ہے کہ ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔

۴۷-یہ بادشاہ کی طرف سے گویا کھلا اشارہ تھا کہ آپ کو ہر ذمہ داری کا منصب سونپا جا سکتا ہے۔

۴۷ الف-اس سے پہلے جو توضیحات گزر چکی ہیں ان کی روشنی میں دیکھا جائے تو صاف نظر آئے گا کہ یہ کوئی نوکری کی درخواست نہیں تھی جو کسی طالبِ جاہ نے وقت کے بادشاہ کی اشارہ پاتے ہی جھٹ سے پیش کر دی ہو۔ درحقیقت یہ اُس انقلاب کا دروازہ کھولنے کے لیے آخری ضرب تھی جو حضرت یوسف ؑ کی اخلاقی طاقت سے پچھلے دس بارہ سال کے اندر نشو نما پا کر ظہور کے لیے تیار ہو چکا تھا اور اب جس کا فتح باب صرف ایک ٹہوکے ہی کا محتاج تھا۔ حضرت یوسف ؑ آزمائشوں کے ایک طویل سلسلے سے گزر کر آرہے تھے۔ اور یہ آزمائشیں کسی گمنامی کے گوشے میں پیش نہیں آئی تھیں بلکہ بادشاہ سے لے کر عام شہریوں تک مصر کا بچہ بچہ ان سے واقف تھا۔ ان آزمائشوں میں انہوں نے ثابت کر دیا تھا کہ وہ امانت، راستبازی، حِلم، ضبط نفس، عالی ظرفی، ذہانت و فراست اور معاملہ فہمی میں کم از کم اپنے زمانہ کے لوگوں کے درمیان تو اپنا نظیر نہیں رکھتے۔ ان کی شخصیت کے یہ اوصاف اس طرح کھل چکے تھے کہ کسی کو ان سے انکار کی مجال نہ رہی تھی۔ زبانیں ان کی شہادت دے چکی تھیں۔ دل ان سے مسخر ہو چکے تھے۔ خود بادشاہ ان کے آگے ہتھیار ڈال چکا تھا۔ اُن کا ’’حفیظ‘‘ اور ’’علیم‘‘ ہونا اب محض ایک دعویٰ نہ تھا بلکہ ایک ثابت شدہ واقعہ تھا جس پر سب ایمان لا چکے تھے۔ اب اگر کچھ کسر باقی تھی تو وہ صرف اتنی کہ حضرت یوسف ؑ خود حکومت کے اُن اختیارات کو اپنے ہاتھ میں لینے پر رضامندی ظاہر کریں جن کے لیے بادشاہ اور اس کے اعیان سلطنت اپنی جگہ بخوبی جان چکے تھے کہ ان سے زیادہ موزوں آدمی اور کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ یہی وہ کسر تھی جو انہوں نے اپنے اس فقرے سے پوری کر دی۔ ان کی زبان سے اس مطالبے کے نکلتے ہی بادشاہ اور اس کی کونسل نے جس طرح اسے بسر و چشم قبول کیا وہ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ پھل اتنا پک چکا تھا کہ اب ٹوٹنے کے لیے ایک اشارے ہی کا منتظر تھا۔ (تلمود کا بیان ہے کہ حضرت یوسف ؑ کو حکومت کے اختیارات سونپنے کا فیصلہ تنہا بادشاہ ہی نے نہیں کیا تھا بلکہ پوری شاہی کونسل نے بالاتفاق اس کے حق میں رائے دی تھی)۔

یہ اختیارات جو حضرت یوسف ؑ نے مانگے اور ان کے سونپے گئے ان کی نوعیت کیا تھی؟ ناواقف لوگ یہاں ’’خزائن ارض‘‘ کے الفاظ اور آگے چل کر غلہ کی تقسیم کا ذکر دیکھ کر قیاس کرتے ہیں کہ شاید یہ افسر خزانہ، یا افسر مال، یا قحط کمشنر، یا وزیر مالیات، یا وزیر غذائیات کی قسم کا کوئی عہدہ ہو گا۔ لیکن قرآن، بائیبل، اور تلمود کی متفقہ شہادت ہے کہ درحقیقت حضرت یوسف ؑ سلطنت مصر کے مختار کل (رومی اصطلاح میں ڈکٹیٹر) بنائے گئے تھے اور ملک کا سیاہ و سپید سب کچھ ان کے اختیار میں دے دیا گیا تھا۔ قرآن کہتا ہے کہ جب حضرت یعقوب ؑ مصر پہنچے ہیں اس وقت حضرت یوسف ؑ تخت نشین تھے (ورفع ابویہ علی العرش)۔ حضرت یوسف ؑ کی اپنی زبان سے نکلا ہُوا یہ فقرہ قرآن میں منقول ہے کہ ’’اے میرے رب، تو نے مجھے بادشاہی عطا کی‘‘ (رَبَّ قداٰ تَیتنی مِنَ الملک)۔ پیالے کی چوری کے موقع پر سرکاری ملازم حضرت یوسف ؑ کے پیالے کو بادشاہ کا پیالہ کہتے ہیں (قالو انفقد صواع الملک)۔ اور اللہ تعالیٰ مصر پر ان کے اقتدار کی کیفیت یہ بیان فرماتا ہے کہ ساری سرزمین مصر اُن کی تھی (یتبو أ مِنھا حیث یشآء)۔ رہی بائیبل تو دہ شہادت دیتی ہے کہ فرعون نے یوسف ؑ سے کہا:

 ’’سو تو میرے گھر کا مختار ہو گا اور میری ساری رعایا تیرے حکم پر چلے گی فقط تخت کا مالک ہونے کے سبب سے میں بزرگ تر ہوں گا ……… اور تیرے حکم کے بغیر کوئی آدمی اس سارے ملک مصر میں اپنا ہاتھ یا پاؤں نہ ہلانے پائے گا۔ اور فرعون نے یوسف ؑ کا نام ضَفِنَات فَعیحَ (دنیا کا نجات دہندہ)رکھا‘‘۔ (پیدائش ۴١:۳۹ - ۴۵)

اور تلمود کہتی ہے کہ یوسف ؑ کے بھائیوں نے مصر سے واپس جا کر اپنے والد سے حاکم مصر (یوسف ؑ )کی تعریف کرتے ہوئے بیان کیا:

 ’’اپنے ملک کے باشندوں پر اس کا اقتدا سب سے بالا ہے۔ اس کے حکم پر وہ نکلتے اور اسی کے حکم پر وہ داخل ہوتے ہیں۔ اس کی زبان سارے ملک پر فرمانروائی کرتی ہے۔ کسی معاملہ میں فرعون کے اذن کی ضرورت نہیں ہوتی‘‘۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ نے یہ اختیارات کس غرض کے لیے مانگے تھے ؟ انہوں نے اپنی خدمات اس لیے پیش کی تھیں کہ ایک کافر حکومت کے نظام کو اس کے کافرانہ اصول و قوانین ہی پر چلائیں؟ یا ان کے پیش نظر یہ تھا کہ حکومت کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر ملک کے نظام تمدن و اخلاق و سیاست کو اسلام کے مطابق ڈھال دیں؟ اس سوال کا بہترین جواب وہ ہے جو علامہ زمخشری نے اپنی تفسیر ’’کشاف‘‘ میں دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

 ’’حضرت یوسف ؑ نے اجعلنی علیٰ خزائن الارض جو فرمایا تو اس سے ان کی غرض صرف یہ تھی کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے احکام جاری کرنے اور حق قائم کرنے اور عدل پھیلانے کا موقع مل جائے اور وہ اُس کام کو انجام دینے کی طاقت حاصل کر لیں جس کے لیے انبیاء بھیجے جاتے ہیں۔ انہوں نے بادشاہی کی محبت اور دنیا کے لالچ میں یہ مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ یہ جانتے ہوئے کیا تھا کہ کوئی دوسرا شخص ان کے سوا ایسا نہیں ہے جو اس کام کو انجام دے سکے ‘‘۔

اور سچ یہ ہے کہ یہ سوال دراصل ایک اور سوال پیدا کرتا ہے جو اس سے بھی زیادہ اہم اور بنیادی سوال ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ آیا پیغمبر بھی تھے یا نہیں؟ اگر پیغمبر تھے تو کیا قرآن میں ہم کو پیغمبری کا یہی تصور ملتا ہے کہ اسلام کا داعی خود نظام کفر کو کافرانہ اصولوں پر چلانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرے ؟ بلکہ یہ سوال اس پر بھی ختم نہیں ہوتا، اس سے بھی زیادہ نازک اور سخت ایک دوسرے سوال پر جا کر ٹھیرتا ہے، یعنی یہ کہ حضرت یوسف ؑ ایک راستباز آدمی بھی تھے یا نہیں؟ اگر راستباز تھے تو کیا ایک راستباز انسان کا یہی کام ہے کہ قید خانے میں تو وہ اپنی پیغمبرانہ دعوت کا آغاز اس سوال سے کرے کہ ’’بہت سے رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے ‘‘، اور بار بار اہل مصر پر بھی واضح کر دے کہ تمہارے اِن بہت سے متفرق خود ساختہ خداؤں میں سے ایک یہ شاہ؟ مصر بھی ہے، اور صاف صاف اپنے مشن کا بنیادی عقیدہ یہ بیان کرے کہ ’’فرمانروائی کا اقتدار خدائے واحد کے سوا کسی کے لیے نہیں ہے ‘‘، مگر جب عملی آزمائش کا وقت آئے تو وہی شخص خود اُس نظامِ حکومت کا خادم، بلکہ ناظم اور محافظ اور پشت پناہ تک بن جائے جو شاہ مصر کی ربوبیت میں چل رہا تھا اور جس کا بنیادی نظریہ ’’فرمانروائی کے اختیارات خدا کے لیے نہیں بلکہ بادشاہ کے لیے ہیں‘‘ تھا؟

حقیقت یہ ہے کہ اس مقام کی تفسیر میں دور انحطاط کے مسلمانوں نے کچھ اُسی ذہنیت کا اظہار کیا ہے جو کبھی یہودیوں کی خصوصیت تھی۔ یہ یہودیوں کا حال تھا کہ جب وہ ذہنی و اخلاقی پستی میں مبتلا ہوئے تو پچھلی تاریخ میں جن جن بزرگوں کی سیرتیں ان کو بلندی پر چڑھنے کا سبق دیتی تھیں ان سب کو وہ نیچے گرا کر اپنے مرتبے پر اتار لائے تاکہ اپنے لیے اور زیادہ نیچے گرنے کا بہانہ پیدا کریں۔ افسوس کہ یہی کچھ مسلمانوں نے بھی کیا۔ انہیں کافر حکومتوں کی چاکری کرنی تھی، مگر اس پستی میں گرتے ہوئے اسلام اور اس کے علمبرداروں کی بلندی دیکھ کر انہیں شرم آئی، لہٰذا اس شرم کو مٹانے اور اپنے ضمیر کو راضی کرنے کے لیے یہ اپنے ساتھ اس جلیل القدر پیغمبر کو بھی خدمتِ کفر کی گہرائی میں لے گرے جس کی زندگی دراصل انہیں یہ سبق دے رہی تھی کہ اگر کسی ملک میں ایک اور صرف ایک مرد مومن بھی خالص اسلامی اخلاق اور ایمانی فراست و حکمت کا حامل ہو تو وہ تن تنہا مجرد اپنے اخلاق اور اپنی حکمت کے زور سے اسلامی انقلاب برپا کر سکتا ہے، اور یہ کہ مومن کی اخلاقی طاقت (بشرطیکہ وہ اس کا استعمال جانتا ہو اور اسے استعمال کرنے کا ارادہ بھی رکھتا ہے ) فوج اور اسلحہ اور سر و سامان کے بغیر بھی ملک فتح کر سکتی ہے اور سلطنتوں کو مسخر کر لیتی ہے۔

۴۸-یعنی اب ساری سرزمین مصر اس کی تھی۔ اُس کی ہر جگہ کو وہ اپنی جگہ کہہ سکتا تھا۔ وہاں کوئی گوشہ بھی ایسا نہ رہا تھا جو اس سے روکا جا سکتا ہو۔ یہ گویا اُس کا مل تسلط اور ہمہ گیر اقتدار کا بیا ن ہے جو حضرت یوسف ؑ کو اُس ملک پر حاصل تھا۔ قدیم مفسرین بھی اس آیت کی یہی تفسیر کرتے ہیں۔ چنانچہ ابن زید کے حوالہ سے علامہ ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر میں اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ ’’ہم نے یوسف ؑ کو ان سب چیزوں کا مالک بنا دیا جو مصر میں تھیں، دنیا کے اس حصے میں وہ جہاں جو کچھ چاہتا کر سکتا تھا، وہ سرزمین اس کے حوالہ کر دی گئی تھی، حتیٰ کہ اگر وہ چاہتا کہ فرعون کو اپنا زیر دست کر لے اور خود اس سے بالا تر ہو جائے تو یہ بھی کر سکتا تھا‘‘۔ دوسرا قول علامہ موصوف نے مجاہد کا نقل کیا ہے جو مشہور ائمہ تفسیر میں سے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ بادشاہ مصر نے یوسف ؑ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

۴۹-یہ تنبیہ ہے اس امر پر کہ کوئی شخص دنیوی حکومت و اقتدار کو نیکی و نکو کاری کا اصلی اجر اور حقیقی اجرِ مطلوب نہ سمجھ بیٹھے بلکہ خبردار رہے کہ بہترین اجر، اور وہ اجر جو مومن کو مطلوب ہونا چاہیے، وہ ہے جو اللہ تعالیٰ آخرت میں عطا فرمائے گا۔

 

یُوسُف ؑ کے بھائی مصر آئے اور اس کے ہاں حاضر ہوئے۔ ۵۰ اس نے انہیں پہچان لیا مگر وہ اس سے نا آشنا تھے۔ ۵۱ پھر جب اس نے ان کا سامان تیار کروایا تو چلتے وقت ان سے کہا ’’اپنے سوتیلے بھائی کو میرے پاس لانا۔ دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح پیمانہ بھر کر دیتا ہوں اور کیسا اچھا مہمان نواز ہوں۔  اگر تم اسے نہ لاؤ گے تو میرے پاس تمہارے لیے کوئی غلّہ نہیں ہے بلکہ تم میرے قریب بھی نہ پھٹکنا۔ ۵۲‘‘  انہوں نے کہا ’’ہم کوشش کریں گے کہ والد صاحب اسے بھیجنے پر راضی ہو جائیں، اور ہم ایسا ضرور کریں گے۔ ‘‘ یُوسُف ؑ نے اپنے غلاموں کو اشارہ کیا کہ ’’ ان لوگوں نے غلّے کے عوض جو مال دیا ہے وہ چُپکے سے ان کے سامان ہی میں رکھ دو۔ ‘‘ یہ یُوسُف ؑ نے اِس امید پر کیا کہ گھر پہنچ کر وہ اپنا واپس پایا ہُوا مال پہچان جائیں گے ( یا اِس فیاضی پر احسان مند ہوں گے ) اور عجب نہیں کہ پھر پلٹیں۔ جب وہ اپنے باپ کے پاس گئے تو کہا ’’ابا جان، آئندہ ہم کو غلّہ دینے سے انکار کر دیا گیا ہے، لہٰذا آپ ہمارے بھائی کو ہمارے ساتھ بھیج دیجیے تاکہ ہم غلّہ لے کر آئیں۔ اور اس کی حفاظت کے ہم ذمہ دار ہیں۔ ‘‘  باپ نے جواب دیا ’’ کیا میں اُس کے معاملے میں تم پر ویسا ہی بھروسہ کروں جیسا اس سے پہلے اس کے بھائی کے معاملہ میں کر چکا ہوں؟ اللہ ہی بہتر محافظ ہے اور وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔ ‘‘  پھر جب انہوں نے اپنا سامان کھولا تو دیکھا کہ اُن کا مال بھی اُنہیں واپس کر دیا گیا ہے۔ یہ دیکھ کر وہ پُکار اُٹھے ’’ ابا جان! اور ہمیں کیا چاہیے، دیکھیے یہ ہمارا مال بھی ہمیں واپس دے دیا گیا ہے۔ بس اب ہم جائیں گے اور اپنے اہل و عیال کے لیے رَسَد لے آئیں گے، اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے اور ایک بارِ شتر اور زیادہ بھی لے آئیں گے، اتنے غلّہ کا اضافہ آسانی کے ساتھ ہو جائے گا۔ ‘‘  ا ن کے باپ نے کہا ’’ میں اس کو ہر گز تمہارے ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک کہ تم اللہ کے نام سے مجھ کو پیمان نہ دے دو گے کہ اِسے میرے پاس ضرور واپس لے کر آؤ گے اِلّا یہ کہ کہیں تم گھیر ہی لیے جاؤ۔ ‘‘ جب انہوں نے اس کو اپنے اپنے پیمان دے دیے تو اُس نے کہا ’’دیکھو، ہمارے اس قول پر اللہ نگہبان ہے۔ ‘‘  پھر اُس نے کہا ’’ میرے بچو، مصر کے دارالسلطنت میں ایک دروازے سے داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا۔ ۵۳ مگر میں اللہ کی مشیّت سے تم کو نہیں بچا سکتا، حکم اُس کے سوا کسی کا بھی نہیں چلتا، اسی پر میں نے بھروسہ کیا اور جس کو بھی بھروسہ کرنا ہو اُسی پر کرے۔ ‘‘  اور واقعہ یہ بھی ہو ا کہ جب وہ اپنے باپ کی ہدایت کے مطابق شہر میں (متفرق دروازوں سے ) داخل ہوئے تو اُس کی یہ احتیاطی تدبیر اللہ کی مشیّت کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آ سکی۔ ہاں بس یعقوب ؑ کے دل میں جو ایک کھٹک تھی اسے دُور کرنے کے لیے اُس نے اپنی سی کوشش کر لی۔ بے شک وہ ہماری دی ہوئی تعلیم سے صاحبِ علم تھا مگر اکثر لوگ معاملہ کی حقیقت کو جانتے نہیں ہیں۔ ۵۴ ؏ ۸
 

۵۰-یہاں پھر سات آٹھ برس کے واقعات درمیان میں چھوڑ کر سلسلہ بیان اس جگہ سے جوڑ دیا گیا ہے۔ جہاں سے بنی اسرائیل کے مصر منتقل ہونے اور حضرت یعقوب ؑ کو اپنے گم شدہ صاحبزادے کا پتہ ملنے کی ابتداء ہوتی ہے۔ بیچ میں جو واقعات چھوڑ دیے گئے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ خواب والی پیش خبری کے مطابق حضرت یوسف ؑ کی حکومت کے پہلے سات سال مصر میں انتہائی خوشحالی کے گزرے اور ان ایام میں انہوں نے آنے والے قحط کے لیے وہ تمام پیش بندیاں کر لیں جن کا مشورہ بادشاہ کے خواب کی تعبیر بتاتے وقت وہ دے چکے تھے۔ اس کے بعد قحط کا دور شروع ہوا اور یہ قحط صرف مصر ہی میں نہ تھا بلکہ آس پاس کے ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے تھے۔ شام، فلسطین، شرق اردن، شمالی عرب، سب جگہ خشک سالی کا دور دورہ تھا۔ ان حالات میں حضرت یوسف ؑ کے دانشمندانہ انتظام کی بدولت صرف مصر ہی وہ ملک تھا جہاں قحط کے باوجود غلہ کی افراط تھی۔ اس لیے ہمسایہ ممالک کے لوگ مجبور ہوئے کہ غلہ حاصل کرنے کے لیے مصر کی طرف رجوع کریں۔ یہی وہ موقع تھا جب فلسطین سے حضرت یوسف ؑ کے بھائی غلہ خریدنے کے لیے مصر پہنچے۔ غالباً حضرت یوسف ؑ نے غلہ کی اس طرح ضابطہ بندی کی ہو گی کہ بیرونی ممالک میں خاص اجازت ناموں کے بغیر اور خاص مقدار سے زیادہ غلہ نہ جا سکتا ہو گا۔ اس وجہ سے جب برادران یوسف ؑ نے غیر ملک سے آ کر غلہ حاصل کرنا چاہا ہو گا تو انہیں اس کے لیے خاص اجازت نامہ حاصل کرنے کی ضرورت پیش آئی ہو گی اور اس طرح حضرت یوسف ؑ کے سامنے ان کی پیشی کی نوبت آئی ہو گی۔

۵۱-برادرانِ یوسف ؑ کا آپ کو نہ پہچاننا کچھ بعید از قیاس نہیں ہے۔ جس وقت انہوں نے آپ کو کنویں میں پھینکا تھا اس وقت آپ صرف سترہ سال کے لڑکے تھے۔ اور اب آپ کی عمر ۳۸ سال کے لگ بھگ تھی۔ اتنی طویل مدت آدمی کو بہت کچھ بدل دیتی ہے۔ پھر یہ تو ان کے وہم گمان میں بھی نہ تھا کہ جس بھائی کو وہ کنویں میں پھینک گئے تھے وہ آج مصر کا مختارِ مطلق ہو گا۔

۵۲-اختصار بیا ن کی وجہ سے شاید کسی کو یہ سمجھنے میں دقت ہو کہ حضرت یوسف ؑ جب اپنی شخصیت کو ان پر ظاہر نہ کرنا چاہتے تھے تو پھر ان کے سوتیلے بھائی کا ذکر کیسے آگیا اور اس کے لانے پر اس قدر اصرار کرنے کے کیا معنی تھے، کیونکہ اس طرح تو راز فاش ہوا جاتا تھا۔ لیکن تھوڑا سا غور کرنے سے بات صاف سمجھ میں آ جاتی ہے۔ وہاں غلے کی ضابطہ بندی تھی اور ہر شخص ایک مقرر مقدارِ غلہ ہی لے سکتا تھا۔ غلہ لینے کے لیے یہ دس بھائی تھے۔ مگر وہ اپنے والد اور اپنے گیارھویں بھائی کا حصہ بھی مانگتے ہوں گے۔ اس پر حضرت یوسف ؑ نے کہا ہو گا کہ تمہارے والد کے خود نہ آنے کے لیے تو یہ عذر معقول ہو سکتا ہے کہ وہ بہت بوڑھے اور نابینا ہیں، مگر بھائی کے نہ آنے کا کیا معقول سبب ہو سکتا ہے ؟ کہیں تم ایک فرضی نام سے زائد غلہ حاصل کرنے اور پھر ناجائز تجارت کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہے ہو؟ انہوں نے جواب میں اپنے گھر کے کچھ حالات بیان کیے ہوں گے اور بتایا ہو گا کہ وہ ہمارا سوتیلا بھائی ہے اور بعض وجوہ سے ہمارے والد اس کو ہمارے ساتھ بھیجنے میں تامل کرتے ہیں۔ تب حضرت یوسف ؑ نے فرمایا ہو گا کہ خیر، اس وقت تو ہم تمہاری زبان کا اعتبار کر کے تم کو پورا غلہ دیے دیتے ہیں، مگر آئندہ اگر تم اس کو ساتھ نہ لائے تو تمہارا اعتبار جاتا رہے گا اور تمہیں یہاں سے کوئی غلہ نہ مل سکے گا۔ اس حاکمانہ دھمکی کے ساتھ آپ نے ان کو اپنے احسان اپنی مہمان نوازی سے بھی رام کرنے کی کوشش کی، کیونکہ دل اپنے چھوٹے بھائی کو دیکھنے اور گھر کے حالات معلوم کرنے کے لیے بے تاب تھا۔ یہ معاملہ کہ ایک سادہ سی صورت ہے جو ذرا غور کرنے سے خود بخود سمجھ میں آ جاتی ہے۔ اس صورت میں بائیبل کی اُس مبالغہ آمیز داستان پر اعتماد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی جو کتاب پیدائش کے باب ۴۲۔ ۴۳ میں بڑی رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔

۵۳-اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یوسف ؑ کے بعد ان کے بھائی کو بھیجتے وقت حضرت یعقوب ؑ کے دل پر کیا کچھ گزر رہی ہو گی۔ گو خدا پر بھروسہ تھا اور صبر و تسلیم میں ان کا مقام نہایت بلند تھا۔ مگر پھر بھی تھے تو انسان ہی۔ طرح طرح کے اندیشے دل میں آتے ہوں گے اور وہ رہ رہ کر اس خیال سے کانپ اٹھتے ہوں گے کہ خدا جانے اب اس لڑکے کی صورت بھی دیکھ سکوں گا یا نہیں اِسی لیے وہ چاہتے ہوں گے کہ اپنی حد تک احتیاط میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے۔

یہ احتیاطی مشورہ کے مصر کے دارالسلطنت میں یہ سب بھائی ایک دروازے سے نہ جائیں، ان سیاسی حالات کا تصور کرنے سے صاف سمجھ میں آ جاتا ہے جو اس وقت پائے جاتے تھے۔ یہ لوگ سلطنت مصر کی سرحد پر آزاد قبائلی علاقے کے رہنے والے تھے۔ اہل مصر اس علاقے کے لوگوں کو اسی شبہہ کی نگاہ سے دیکھتے ہوں گے جس نگاہ سے ہندوستان کی برطانوی حکومت آزاد سرحدی علاقے والوں کو دیکھتی رہی ہے۔ حضرت یعقوب ؑ کو اندیشہ ہُوا ہو گا کہ اس قحط کے زمانے میں اگر یہ لوگو ایک جتھا بنے ہوئے وہاں داخل ہوں گے تو شاید انھیں مشتبہ سمجھا جائے اور یہ گمان کیا جائے کہ یہ یہاں لوٹ مار کی غرض سے آئے ہیں۔ پچھلی آیت میں حضرت یعقوب ؑ کا یہ ارشاد کہ ’’الّا یہ کہ کہیں تم گھیر ہی لیے جاؤ‘‘ اس مضمون کی طرف خود اشارہ کر رہا ہے کہ یہ مشہور سیاسی اسباب کی بنا پر تھا۔

۵۴-اس کا مطلب یہ ہے کہ تدبیر اور توکّل کے درمیان یہ ٹھیک ٹھیک توازن جو تم حضرت یعقوب ؑ کے مذکورۂ بالا اقوال میں پاتے ہو یہ دراصل علم حقیقت کے اس فیضان کا نتیجہ تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان پر ہوا تھا۔ ایک طرف وہ عالم اسباب کے قوانین کے مطابق تمام ایسی تدبیریں کرتے ہیں جو عقل و فکر و تجربہ کی بنا پر اختیار کرنی ممکن تھیں۔ بیٹوں کو ان کا پیلا جرم یاد دلا کر زجر و تنبیہ کرتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ ویسا ہی جرم کرنے کی جرات نہ کریں، ان سے خدا کے نام پر عہد و پیمان لیتے ہیں کہ سوتیلے بھائی کی حفاظت کریں گے، اور وقت کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے جس احتیاطی تدبیر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اسے بھی استعمال کرنے کا حکم دیتے ہیں تاکہ اپنی حد تک کوئی خارجی سبب بھی ایسا نہ رہنے دیا جائے جو ان لوگوں کے گھِر جانے کا موجب ہو۔ مگر دوسری طرف ہر آن یہ بات ان کے پیشِ نظر ہے اور اس کا بار بار اظہار کرتے ہیں کہ کوئی تدبیر اللہ کی مشیت کو نافذ کرنے سے نہیں روک سکتی اور اصل حفاظت اللہ کی حفاظت ہے، اور بھروسا اپنی تدبیروں پر نہیں بلکہ اللہ ہی کہ فضل پر ہونا چاہیے۔ یہ صحیح توازن اپنی باتوں میں اور اپنے کاموں میں صرف وہی شخص قائم کر سکتا ہے جو حقیقت کا علم رکھتا ہو۔ جو یہ بھی جانتا ہو کہ حیات دنیا کے ظاہری پہلو میں اللہ کی بنائی ہوئی فطرت انسان سے کس سعی و عمل کا تقاضا کرتی ہے، اور اس سے بھی واقف ہو کہ اس ظاہر کے پیچھے جو حقیقتِ نفس الامری پوشیدہ ہے اس کی بنا پر اصل کارفرما طاقت کونسی ہے اور اس کے ہوتے ہوئے اپنی سعی و عمل پر انسان کا بھروسا کس قدر بے بنیاد ہے۔ یہی وہ بات ہے جس کو اکثر لوگ نہیں جانتے۔ ان میں سے جس کے ذہن پر ظاہر کا غلبہ ہوتا ہے وہ توکّل سے غافل ہو کر تدبیر ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتا ہے اور جس کے دل پر باطن چھا جاتا ہے وہ تدبیر سے بے پرواہ ہو کر نرے توکّل ہی کے بل پر زندگی کی گاڑی چلانا چاہتا ہے۔

 

یہ لوگ یُوسُف ؑ کے حضُور پہنچے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس الگ بلا لیا اور اسے بتا دیا کہ ’’ میں تیرا وہی بھائی ہوں (جو کھویا گیا تھا)۔ اب تُو اُن باتوں کا غم نہ کر جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں۔ ‘‘ ۵۵ جب یُوسُف ؑ ان بھائیوں کا سامان لدوانے لگا تو اس نے اپنے بھائی کے سامان میں اپنا پیالہ رکھ دیا۔ ۵۶ پھر ایک پُکارنے والے نے پُکار کر کہا ’’اے قافلے والو، تم لوگ چور ہو۔ ‘‘ ۵۷انہوں نے پلٹ کر پُوچھا ’’ تمہاری کیا چیز کھوئی گئی؟‘‘ سرکاری ملازموں نے کہا ’’بادشاہ کا پیمانہ ہم کو نہیں ملتا‘‘ ( اور ان کے جمعدار نے کہا) ’’جو شخص لا کر دے گا اُس کے لیے ایک بارِ شتر انعام ہے، اس کا ذمّہ میں لیتا ہوں۔ ‘‘ان بھائیوں نے کہا ’’خدا کی قسم، تم لوگ خُوب جانتے ہو کہ ہم اس ملک میں فساد کرنے نہیں آئے ہیں اور ہم چوریاں کرنے والے لوگ نہیں ہیں۔ ‘‘اُنہوں نے کہا ’’اچھا، اگر تمہاری بات جھُوٹی نکلی تو چور کی کیا سزا ہے ؟‘‘ اُنہوں نے کہا ’’ اُس کی سزا؟ جس کے سامان میں سے یہ چیز نکلے وہ آپ ہی اپنی سزا میں رکھ لیا جائے، ہمارے ہاں تو ایسے ظالموں کو سزا دینے کا یہی طریقہ ہے۔ ‘‘ ۵۸ تب یُوسُف ؑ نے اپنے بھائی سے پہلے اُن کی خُرجیوں کی تلاشی لینی شروع کی، پھر اپنے بھائی کی خُرجی سے گم شدہ چیز بر آمد کر لی۔۔۔۔ اِس طرح ہم نے یُوسُف ؑ کی تائید اپنی تدبیر سے کی۔ ۵۹ اُس کا یہ کام نہ تھا کہ بادشاہ کے دین(یعنی مصر کے شاہی قانون) میں اپنے بھائی کو پکڑتا اِلّا یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے۔ ۶۰ ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کر دیتے ہیں، اور ایک علم رکھنے والا ایسا ہے جو ہر صاحبِ علم سے بالاتر ہے۔ ان بھائیوں نے کہا ’’یہ چوری کرے تو کچھ تعجّب کی بات نہیں، اس سے پہلے اس کا بھائی (یُوسُف ؑ ) بھی چوری کر چکا ہے۔ ‘‘ ۶۱ یُوسُف ؑ ان کی یہ بات سُن کر پی گیا، حقیقت ان پر نہ کھولی، بس (زیرِ لب) اتنا کہہ کر رہ گیا کہ ’’ بڑے ہی بُرے ہو تم لوگ، (میرے منہ در منہ مجھ پر) جو الزام تم لگا رہے ہو اس کی حقیقت خدا خوب جانتا ہے۔ ‘‘انہوں نے کہا ’’اے سردار ذی اقتدار (عزیز)۶۲، اس کا باپ بہت بُوڑھا آدمی ہے، اس کی جگہ آپ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے، ہم آپ کو بڑا ہی نیک نفس انسان پاتے ہیں۔ ‘‘یُوسُف ؑ نے کہا ’’پناہِ خدا، دُوسرے کسی شخص کو ہم کیسے رکھ سکتے ہیں، جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے ۶۳ اُس کو چھوڑ کر دُوسرے کو رکھیں گے تو ہم ظالم ہوں گے۔ ‘‘ ؏ ۹
 

۵۵-اس فقرے میں وہ ساری داستان سمیٹ دی گئی ہے جو اکیس بائیس برس کے بعد دونوں ماں جائے بھائیوں کے ملنے پر پیش آئی گئی ہو گی۔ حضرت یوسف ؑ نے بتایا ہو گا کہ وہ کن حالات سے گزرتے ہوئے اس مرتبے تک پہنچے۔ ین یمین نے سنایا ہو گا کہ ان کے پیچھے سوتیلے بھائیوں نے اس کے ساتھ کیا کیا بد سلوکیاں کیں۔ پھر حضرت یوسف ؑ نے بھائی کو تسلی دی ہو گی کہ اب تم میرے پاس ہی رہو گے۔ ان ظالموں کے پنجے میں تم کو دوبارہ نہیں جانے دوں گا۔ بعید نہیں کہ اسی موقع پر دونوں بھائیوں میں یہ بھی طے ہو گیا ہو کہ بن یمین کو مصر میں روک رکھنے کے لیے کیا تدبیر کی جائے جس سے وہ پردہ میں پڑا رہے جو حضرت یوسف ؑ مصلحتہً ابھی ڈالے رکھنا چاہتے تھے۔

۵۶-پیالہ رکھنے کا فعل غالباً حضرت یوسف ؑ نے بھائی کی رضا مندی سے اور اس کے علم میں کیا تھا جیسا کہ اس سے پہلے والی آیت اشارہ کر رہی ہے۔ حضرت یوسف ؑ اپنے مدتوں کے بچھڑے بھائی کو ان ظالم سوتیلے بھائیوں کے پنجے سے چھڑانا چاہتے ہوں گے۔ بھائی خود بھی ان ظالموں کے ساتھ واپس نہ جانا چاہتا ہو گا۔ مگر اعلانیہ آپ کا اس کو روکنا اور اس کا رک جانا بغیر اس کے ممکن نہ تھا کہ حضرت یوسف ؑ اپنی شخصیت کو ظاہر کرتے۔ اور اس کا اظہار اس موقع پر مصلحت کے خلاف تھا۔ اس لیے دونوں بھائیوں میں مشورہ ہوا ہو گا کہ اسے روکنے کی یہ تدبیر کی جائے۔ اگرچہ تھوڑی دیر کے لیے اس میں بھائی کی سُبکی تھی، کہ اس پر چوری کا دھبہ لگتا تھا، لیکن بعد میں یہ دھبہ اس طرح بآسانی دھل سکتا تھا کہ دونوں بھائی اصل معاملہ کو دنیا پر ظاہر کر دیں۔

۵۷-اس آیت میں، اور بعد والی آیات میں بھی کہیں کوئی ایسا اشارہ موجود نہیں ہے جس سے یہ گمان کیا جا سکے کہ حضرت یوسف ؑ نے اپنے ملازموں کو اس راز میں شریک کیا تھا اور انہیں خود یہ سکھایا تھا کہ قافلے والوں پر جھوٹا الزام لگاؤ۔ واقعہ کی سادہ صورت جو سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے کہ پیالہ خاموشی کے ساتھ رکھ دیا گیا ہو گا، بعد میں جب سرکاری ملازموں نے اسے نہ پایا ہو گا تو قیاس کیا ہو گا کہ ہو نہ ہو، یہ کام انہی قافلے والوں میں سے کسی کا ہے جو یہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔

۵۸-خیال رہے کہ یہ بھائی خاندان ابراہیمی کے افراد تھے، لہٰذا انھوں نے چوری کے معاملہ میں جو قانون بیان کیا وہ شریعت ابراہیمی کا قانون تھا، یعنی یہ کہ چور اس شخص کو غلامی میں دے دیا جائے جس کا مال اس نے چرایا ہو۔

۵۹-یہاں یہ امر غور طلب ہے کہ اس پورے سلسلۂ واقعات میں وہ کونسی تدبیر ہے جو حضرت یوسف ؑ کی تائید میں براہ راست خدا کی طرف سے کی گئی؟ ظاہر ہے کہ پیالہ رکھنے کی تدبیر تو حضرت یوسف ؑ نے خود کی تھی۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ سرکاری ملازموں کا چوری کے شبہ میں قافلے والوں کو روکنا بھی حسب معمول وہ کام تھا جو ایسے مواقع پر سب سرکاری ملازم کیا کرتے ہیں۔ پھر وہ خاص خدائی تدبیر کونسی ہے ؟ اوپر کی آیات میں تلاش کرنے سے اِس کو سوا کسی دوسری چیز کو اس کا مصداق نہیں ٹھہرایا جا سکتا کہ سرکاری ملازموں نے خلاف معمول خود مشتبہ ملزموں سے چور کی سزا پوچھی، اور انھوں نے وہ سزا بتائی جو شریعت ابراہیمی کی رو سے چور کو دی جاتی تھی۔ اس کے دو فائدے ہوئے ایک یہ کہ حضرت یوسف ؑ کو شریعت ابراہیمی پر عمل کا موقع مل گیا۔ دوسرا یہ کہ بھائی کو حوالات میں بھیجنے کے بجائے اب وہ اسے اپنے پاس رکھ سکتے تھے۔

۶۰-یعنی یہ بات حضرت یوسف ؑ کی شان پیغمبری کے شایاں نہ تھی کہ وہ اپنے ایک ذاتی معاملہ میں شاہ مصر کے قانون پر عمل کرتے۔ اپنے بھائی کو روک رکھنے کے لیے انہوں نے خود جو تدبیر کی تھی اس میں یہ خلل رہ گیا تھا کہ بھائی کو روکا تو ضرور جا سکتا تھا مگر شاہ مصر کے قانونِ تعزیرات سے کام لینا پڑتا، اور یہ اس پیغمبر کی شان کے مطابق نہ تھا جس نے اختیاراتِ حکومت غیر اسلامی قوانین کی جگہ اسلامی شریعت نافذ کرنے کے لیے اپنے ہاتھ میں لیے تھے۔ اگر اللہ چاہتا تو اپنے نبی کو اس بدنما غلطی میں، مبتلا ہو جانے دیتا۔ مگر اس نے یہ گوارہ نہ کیا کہ یہ دھبہ اس کے دامن پر رہ جائے، اس لیے اس نے براہ راست اپنی تدبیر سے یہ راہ نکال دی کہ اتفاقاً برادرانِ یوسف ؑ سے چوری کی سزا پوچھ لی گئی اور انہوں نے اس کے لیے شریعتِ ابراہیمی کا قانون بیان کر دیا۔ یہ چیز اس لحاظ سے بالکل برمحل تھی کہ برادران یوسف ؑ مصری رعایا نہ تھے، ایک آزاد علاقے سے آئے ہوئے لوگ تھے، لہٰذا اگر وہ خود اپنے ہاں کے دستور کے مطابق اپنے آدمی کو اُس شخص کی غلامی میں دینے کے لیے تیار تھے جس کا مال اس نے چرایا تھا، تو پھر مصری قانونِ تعزیرات سے اِسی معاملہ میں مدد لینے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ یہی وہ چیز ہے جس کو بعد کی دو آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان اور اپنی علمی برتری سے تعبیر فرمایا ہے۔ ایک بندے کے لیے اس سے بڑھ کر بلندیِ درجہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ اگر وہ کبھی بشری کمزوری کی بنا پر خود کسی لغزش میں مبتلا ہو رہا ہو تو اللہ تعالیٰ غیب سے اس کو بچانے کا انتظام فرما دے۔ ایسا بلند مرتبہ انہی لوگوں کو ملا کرتا ہے جو اپنی سعی و عمل سے بڑی بڑی آزمائشوں میں اپنا ’’محسن‘‘ ہونا ثابت کر چکے ہوتے ہیں۔ اور اگرچہ حضرت یوسف ؑ صاحب علم تھے، خود بہت دانشمندی کے ساتھ کام کرتے تھے، مگر پھر بھی اس موقع پر ان کے علم میں ایک کسر رہ گئی اور اُسے اس ہستی نے پورا کیا جو ہر صاحب علم سے بالاتر ہے۔

یہاں چند امور اور وضاحت طلب رہ جاتے ہیں جن پر ہم مختصر کلام کریں گے :

(۱) عام طور پر اس آیت کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ ’’یوسف بادشاہ کے قانون کے رو سے اپن بھائی کو نہ پکڑ سکتا تھا۔ ‘‘ یعنی مَاکَانَ لیاٴخُذُ کو مترجمین و مفسرین عدم قدرت کے معنی میں لیتے ہیں نہ کہ عدم صحت اور عدم مناسبت کے معنی میں۔ لیکن اوّل یہ ترجمہ و تفسیر عربی محاورے سے اور قرآنی استعمالات دونوں کے لحاظ سے ٹھیک نہیں ہے۔ کیونکہ عربی میں عموماً مَاکَانَ لَہۛ بمعنی مَایَنُبَغیُ لَہۛ، مَاصَحَّ لَہۛ، مَا اسُتَقَامَ لَہۛ، وغیرہ آتا ہے اور قرآن میں بھی یہ زیادہ تر اسی معنی میں آیا ہے۔ مثلاً ما کان اللہُ لیضیعَ ایمانکم فما کان اللہ لیظلمَہم، ماکان اللہ لیذَرَ المومنینَ عَلی مَا انتم عَلَیہِ، ماکان لمومن اَن یقتُلَ مومنا۔ دوسرے اگر اس کے وہ معنی لیے جائیں کو مترجمین و مفسرین بالعموم بیان کرتے ہیں تو بات بالکل مہمل ہو جاتی ہے۔ بادشاہ کے قانون میں چور کو نہ پکڑ سکنے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ؟ کیا دنیا میں کبھی کوئی سلطنت ایسی بھی رہی ہے جس کا قانون چور کو گرفتار کرنے کی اجازت نہ دیتا ہو؟

(۲) اللہ تعالیٰ نے شاہی قانون کے لیے ’’دین الملک‘‘ کا لفظ استعمال کر کے خود اُس مطلب کی طرف اشارہ فرمایا ہے جو ماکان لیاخُذُ سے لیا جانا چاہیے۔ ظاہر ہے کہ اللہ کا پیغمبر زمین میں ’’دین اللہ‘‘ جاری کرنے کے لیے مبعوث ہوا تھا نہ کہ ’’دین الملک‘‘ جاری کرنے کے لیے۔ اگر حالات کی مجبوری سے اس کی حکومت میں اس وقت تک پوری طرح دین الملک کی جگہ دین اللہ جاری نہ ہو سکا تھا تب بھی کم از کم پیغمبر کا اپنا کام تو یہ نہ تھا کہ اپنے ایک شخصی معاملہ میں دین الملک ہر عمل کرے۔ لٰہذا حضرت یوسف کا دین الملک کے مطابق اپنے بھائی کو نہ پکڑنا اس بنا پر نہیں تھا کی دین الملک میں ایسا کرنے کی گنجائش نہ تھی، بلکہ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ پیغمبر ہونے کی حیثیت سے اپنی ذاتی حد تک دین اللہ پر عمل کرنا ان کا فرض تھا اور دین الملک کی پیروی ان کے لیے قطعاً نامناسب تھی۔

(۳) قانون مُلکی (Law of the land) کے لیے لفظ ’’دین‘‘ استعمال کر کے اللہ تعالیٰ نے معنیِ دین کی وسعت پوری طرح واضح کر دی ہے۔ اِس سے اُن لوگوں کے تصورِ دین کی جڑ کٹ جاتی ہے جو انبیاء علیہم السلام کی دعوت کو صرف عام مذہبی معنوں میں خدائے واحد کی پوجا کرانے اور محض چند مذہبی مراسم و عقائد کی پابندی کرا لینے تک محدود سمجھتے ہیں، اور یہ خیال کرتے ہیں کہ انسانی تمدن، سیاست، معیشت، عدالت، قانون اور ایسے ہی دوسرے دنیوی امور کا کوئی تعلق دین سے نہیں ہے، یا اگر ہے بھی تو ان امور کے بارے میں دین کی ہدایت محض اختیاری سفارشات ہیں جن پر اگر عمل ہو جائے تو اچھا ہے ورنہ انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے اصول و ضوابط قبول کر لینے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ یہ سراسر گمراہانہ تصور دین، جس کا ایک مدد سے مسلمانوں میں چرچا ہے، جو بہت بڑی حد تک مسلمانوں کو اسلامی نظام کے قیام کی سعی سے غافل کرنے کا ذمہ دار ہے، جس کی بدولت مسلمان کفر و جاہلیت کے نظامِ زندگی پر نہ صرف راضی ہوئے بلکہ ایک بنی کی سنت سمجھ کر اس نظام کے پُرزے بننے اور اس کو خود چلانے کے لیے بھی آمادہ ہو گئے، اِس آیت کی رو سے قطعاً غلط ثابت ہوتا ہے۔ یہاں اللہ تعالی صاف بتا رہا ہے کہ جس طرح نماز، روزہ اور حج دین ہے اسی طرح وہ قانون بھی دین ہے جس پر سوسائٹی کا نظام اور ملک کا انتظام چلایا جاتا ہے۔ لہٰذا اِنَّ الدینَ عِندَاللہِ الاِسلام اور وَمَن یَّبتَغِ غیرَالاِسلامِ دیناً فلن یُّقبلَ مِنہ وغیرہ آیات میں جس دین کی اطاعت کا مطالبہ کیا گیا ہے اس سے مراد صرف نماز، روزہ ہی نہیں ہے بلکہ اسلام کا اجتماعی نظام بھی ہے جس سے ہٹ کر کسی دوسرے نظام کی پیروی خدا کے ہاں ہرگز مقبول نہیں ہو سکتی۔

(۴) سوال کیا جا سکتا ہے کہ اس سے کم از کم یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت تک مصر کی حکومت میں ’’دین الملک‘‘ ہی جاری تھا۔ اب اگر اس حکومت کے حاکم اعلی حضرت یوسف ؑ ہی تھے، جیسا کہ تم خود پہلے ثابت کر چکے ہو، تو اس سے لازم آتا ہے کہ حضرت یوسف ؑ، خدا کے پیغمبر، خود اپنے ہاتھوں سے ملک میں ’’دین الملک‘‘ جاری کر رہے تھے۔ اس کے بعد اگر اپنے ذاتی معاملہ میں حضرت یوسف ؑ نے ’’دین الملک‘‘ کے بجائے شریعت ابراہیمی پر عمل کیا بھی تو اس سے فرق کیا واقع ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت یوسف ؑ مامور تو دین اللہ جاری کرنے ہی پر تھے اور یہی ان کا پیغمبرانہ مشن اور ان کی حکومت کا مقصد تھا، مگر ایک ملک کا نظام عملاً ایک دن کے اندر نہیں بدل جایا کرتا۔ آج اگر کوئی ملک بالکلیہ ہمارے اختیار میں ہو اور ہم اس میں اسلامی نظام قائم کرنے کی خالص نیت ہی سے اس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیں، تب بھی اس کے نظام تمدّن، نظامِ معاشی، نظام سیاست اور نظامِ عدالت و قانون کو بالفعل بدلتے بدلتے برسوں لگ جائیں گے اور کچھ مدت تک ہم کو اپنے انتظام میں بھی سابق قوانین برقرار رکھنے پڑیں گے۔ کیا تاریخ اس بات پر شاہد نہیں ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی عرب کے نظام زندگی میں پورا اسلامی انقلاب برپا کرنے کے لیے نو دس سال لگے تھے ؟ اس دوران میں خاتم النبیین کی اپنی حکومت میں چند سال شراب نوشی ہوتی رہی، سود لیا اور دیا جاتا رہا، جاہلیت کا قانونِ میراث جاری رہا، پرانے قوانینِ نکاح و طلاق برقرار رہے، بیوعِ فاسدہ کی بہت سی صورتیں عمل میں آتی رہیں، اور اسلامی قوانین و دیوانی و فوجداری بھی اول روز ہی بتمام و کمال نافذ نہیں ہو گئے۔ پس اگر حضرت یوسف ؑ کی حکومت میں ابتدائی آٹھ نو سال تک سابق مصری بادشاہت کے کچھ قوانین چلتے رہے ہوں تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے اور اس سے یہ دلیل کیسے نکل آتی ہے کہ خدا کا پیغمبر مصر میں خدا کے دین کو نہیں بلکہ بادشاہ کے دین کو جاری کرنے پر مامور تھا۔ رہی یہ بات کہ جب ملک میں دین الملک جاری تھا ہی تو آخر حضرت یوسف ؑ کی اپنی ذات کے لیے اس پر عمل کرنا کیوں شایانِ شان نہ تھا، تو یہ سوال بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقہ پر غور کرنے سے بآسانی حل ہو جاتا ہے۔ بنی صلی اللہ علیہ و سلم کی حکومت کے ابتدائی دور میں جب تک قوانین اسلامی جاری نہ ہوئے تھے، لوگ پرانے طریقے کے مطابق شراب پیتے رہے، مگر کیا حضور نے بھی ایسا کیا؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ داعی اسلام کا عملی مجبوریوں کی بنا پر احکام اسلامی کے اجراء میں تدریج سے کام لینا اور چیز ہے اور اس کا خود اس تدریج کے دور میں جاہلیت کے طریقوں پر عمل کرنا اور چیز۔ تدریج کی رخصتیں دوسروں کے لیے ہیں۔ داعی کا اپنا یہ کام نہیں ہے کہ خود ان طریقوں میں سے کسی پر عمل کرے جن کے مٹانے پر وہ مامور ہوا ہے۔

۶۱- یہ انہوں نے اپنی خفت مٹانے کے لیے کہا۔ پہلے کہ چکے تھے ہم چور نہیں ہیں۔ اب جو دیکھا کہ مال ہمارے بھائی کی خرجی سے برآمد ہو گیا ہے، تو فوراً ایک چھوٹی بات بنا کر اپنے آپ کو اس بھائی سے الک کر لیا اور اس کے ساتھ اس کے پہلے بھائی کو بھی لپیٹ لیا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت یوسف کے پیچھے بن یمین کے ساتھ ان کے بھائیوں کا کیا سلوک رہا ہو گا اور کس بنا پر اس کی اور حضرت یوسف کی یہ خواہش ہو گی کہ وہ ان کے ساتھ نہ جائے۔

۶۲-یہاں لفظ ’’عزیز‘‘ حضرت یُوسف ؑ کے لیے جو استعمال ہوا ہے صرف اس کی بنا پر مفسرین نے قیاس کر لیا کہ حضرت یُوسف ؑ اسی منصب پر مامور ہوئے تھے جس پر اس سے پہلے زلیخا کا شوہر مامور تھا۔ پھر اس پر مزید قیاسات کی عمارت کھڑی کر لی گئ کہ سابق عزیز مر گیا تھا، حضرت یُوسف ؑ اس کی جگہ مقرر کیے گئے، زلیخا از سر نو معجزے کے ذریعہ سے جوان کی گئی، اور شاہ مصر نے اس سے حضرت یُوسف ؑ کا نکاح کر دیا۔ حد یہ ہے کہ شب عروسی میں حضرت یُوسف ؑ اور زلیخا کے درمیان جو باتیں ہوئیں وہ تک کسی ذریعہ سے ہمارے مفسرین کو پہنچ گئیں۔ حالانکہ یہ سب باتیں سراسر وہم ہیں۔ لفظ ’’عزیز‘‘ کے متعلق ہم پہلے کہ چکے ہیں کہ یہ مصر میں کسی خاص منصب کا نام نہ تھا بلکہ محض ’’صاحب اقتدار‘‘ کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔ غالباً مصر میں بڑے لوگوں کے لیے اس طرح کا کوئی لفظ اصطلاحاً رائج تھا جیسے ہمارے ملک میں ’’سرکار‘‘ بولا جاتا ہے۔ اسی کا رجمہ قرآن میں ’’عزیز‘‘ کیا گیا ہے۔ رہا زلیخا سے حضرت یُوسف ؑ کا نکاح، تو اس افسانے کی بنیاد صرف یہ ہے کہ بائیبل اور تلمود میں فوطیفرع کی بیٹی آسناتھ سے اُن کے نکاح کی روایت بیان کی گئی ہے۔ اور زلیخا کے شوہر کا نام فوطیفار تھا۔ یہ چیزیں اسرائیلی روایات سے نقل در نقل ہوتی ہوئی مفسرین تک پہنچی اور جیسا کہ زبانی افواہوں کا قائدہ ہے، فوطیفرع بآسانی فوطیفار بن گیا، بیٹی کی جگہ بیوی کو مل گئ اور بیوی لامحالہ زلیخا ہی رہی، لہٰذا اس سے حضرت یُوسف ؑ کا نکاح کرنے کے لیے فوطیفار کو مار دیا گیا، اور اس طرح ’’یوسف زلیخا‘‘ کی تصنیف مکمل ہو گئ۔

۶۳-احتیاط ملاحظہ ہو کہ ’’چور‘‘ نہیں کہتے بلکہ صرف یہ کہتے ہیں کہ ’’جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے۔ ‘‘ اسی کو اصطلاح شرع میں ’’توریہ‘‘ کہتے ہیں، یعنی ’’حقیقت پر پردہ ڈالنا‘‘، یا ’’امر واقعہ کو چھپانا۔ ‘‘ جب کسی مظلوم کو ظالم سے بچانے یا کسی بڑے مظلمہ کو دفع کرنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہ ہو کہ کچھ خلاف واقعہ بات کی جائے یا کوئی خلاف حقیقت حیلہ کیا جائے، تو ایسی صورت میں ایک پرہیزگار آدمی صریح جھوٹ بولنے سے احتراز کرتے ہوئے ایسی بات کہنے یا ایسی تدبیر کرنے کی کوشش کرے گا جس سے حقیقت کو چھپا کر بدی کو دفع کیا جا سکے۔ ایسا کرنا شرع و اخلاق میں جائز ہے، بشرطیکہ محض کام نکالنے کے لیے ایسا نہ کیا جائے بلکہ کسی بڑی برائی کو دور کرنا ہو۔ اب دیکھیے کہ اس سارے معاملے میں حضرت یوسف نے کس طرح جائز توریہ کی شرائط پوری کی ہیں۔ بھائی کی رضا مندی سے اس کے سامان میں پیالہ رکھ دیا مگر ملازموں سے یہ نہیں کہا کہ اس پر چوری کا الزام لگاؤ۔ پھر جب سرکاری ملازم چوری کے الزام میں ان لوگوں کو پکڑ لائے تو خاموشی کے ساتھ اٹھ کر تلاشی لے لی۔ پھر جو ان بھائیوں نے کہا کہ بن یمین کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجیے تو اس کے جواب میں بھی بس اُنہی کی بات ان پر الٹ دی کہ تمہارا اپنا فتویٰ یہ تھا کہ جس کے سامان میں سے تمہارا مال نکلے وہی رکھ لیا جائے، سو اب تمہارے سامنے بن یمین کے سامان میں ہمارا مال نکلا ہے اور اسی کو ہم رکھ لیتے ہیں، دوسرے کو اس کی جگہ کیسے رکھ سکتے ہیں؟ اس قسم کی توریہ کی مثالیں خود بنی صلی اللہ علیہ و سلم کے غزوات میں بھی ملتی ہیں، اور کسی دلیل سے بھی اس کو اخلاقاً معیوب نہیں کہا جا سکتا۔

 

جب وہ یُوسف ؑ سے مایوس ہو گئے تو ایک گوشے میں جا کر آپس میں مشورہ کرنے لگے۔ ان میں جو سب سے بڑا تھا وہ بولا ’’تم جانتے نہیں ہو کہ تمہارے والد تم سے خدا کے نام پر عہد و پیمان لے چکے ہیں ؟ اور اِس سے پہلے یُوسُف ؑ کے معاملہ میں جو زیادتی تم کر چکے ہو وہ بھی تم کو معلوم ہے۔ اب میں تو یہاں سے ہرگز نہ جاؤں گا جب تک کہ میرے والد مجھے اجازت نہ دیں، یا پھر اللہ ہی میرے حق میں کوئی فیصلہ فرما دے کہ وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ اپنے والد سے کہو کہ ’’ابا جان، آپ کے صاحبزادے نے چوری کی ہے، ہم نے اُسے چوری کرتے ہوئے نہیں دیکھا، جو کچھ ہمیں معلوم ہوا ہے بس وہی ہم بیان کر رہے ہیں، اور غیب کی نگہبانی تو ہم نہ کر سکتے تھے۔ آپ اُس بستی کے لوگوں سے پُوچھ لیجیے جہاں ہم تھے۔ اُس قافلے سے دریافت کر لیجیے جس کے ساتھ ہم آئے ہیں۔ ہم اپنے بیان میں بالکل سچے ہیں۔ ‘‘باپ نے یہ داستان سُن کر کہا ’’ دراصل تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک اور بڑی بات کو سہل بنا دیا۔ ۶۴ اچھا، اس پر بھی صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا۔ کیا بعید ہے کہ اللہ ان سب کو مجھ سے لا ملائے، وہ سب کچھ جانتا ہے اور اُس کے سب کام حکمت پر مبنی ہیں۔ ‘‘
پھر وہ اُن کی طرف سے منہ پھیر کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ ’’ہائے یُوسُف !‘‘۔۔۔۔ وہ دل ہی دل میں غم سے گھُٹا جا رہا تھا اور اُس کی آنکھیں سفید پڑ گئی تھیں۔۔۔۔ بیٹوں نے کہا ’’خدارا! آپ تو بس یُوسُف ہی کو یاد کیے جاتے ہیں۔ نوبت یہ آ گئی ہے کہ اس کے غم میں اپنے آپ کو گھُلا دیں گے یا اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے۔ ‘‘اُ س نے کہا ’’میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کی فریاد اللہ کے سوا کسی سے نہیں کرتا، اور اللہ سے جیسا میں واقف ہوں تم نہیں ہو۔ میرے بچو، جا کر یُوسُف اور اُس کے بھائی کی کچھ ٹوہ لگاؤ، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اُس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں۔ ‘‘
جب یہ لوگ مصر جا کر یُوسُف ؑ کی پیشی میں داخل ہوئے تو انہوں نے عرض کیا ’’اے سردار با اقتدار، ہم اور ہمارے اہل و عیال سخت مصیبت میں مُبتلا ہیں، اور ہم کچھ حقیر سی پُونجی لے کر آئے ہیں، آپ ہمیں بھرپور غلّہ عنایت فرمائیں اور ہم کو خیرات دیں ۶۵، اللہ خیرات کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ ‘‘(یہ سُن کر یوسُف ؑ سے رہا نہ گیا) اُس نے کہا ’’ تمہیں کچھ یہ بھی معلوم ہے کہ تم نے یوُسف ؑ اور اُس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا تھا جب کہ تم نادان تھے ؟‘‘ وہ چونک کر بولے ’’ہائیں! کیا تم یُوسُف ؑ ہو؟ ‘‘ اُس نے کہا ’’ہاں، میں یوسُف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر احسان فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی تقویٰ اور صبر سے کام لے تو اللہ کے ہاں ایسے نیک لوگوں کا اجر مارا نہیں جاتا۔ ‘‘انہوں نے کہا ’’بخدا کہ تم کو اللہ نے ہم پر فضیلت بخشی اور واقعی ہم خطا کار تھے۔ ‘‘اس نے جواب دیا ’’آج تم پر کوئی گرفت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے، وہ سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے۔ جاؤ، میرا یہ قمیص لے جاؤ اور میرے والد کے منہ پر ڈال دو، اُن کی بینائی پلٹ آئے گی، اور اپنے سب اہل و عیال کو میرے پاس لے آؤ۔ ‘‘ ؏ ١۰

 

۶۴-یعنی تمہارے نزدیک یہ باور کر لینا بہت آسان ہے کہ میرا بیٹا، جس کے حسنِ سیرت سے میں خوب واقف ہوں، ایک پیالے کی چوری کا مرتکب ہو سکتا ہے۔ پہلے تمہارے لیے اپنے ایک بھائی کو جان بوجھ کر گم کر دینا اور اس کی قمیص پر جھوٹا خون لگا کر لے آنا نہایت آسان کام ہو گیا تھا۔ اب ایک دوسرے بھائی کو واقعی چور مان لینا اور مجھے آ کر اس کی خبر دینا بھی ویسا ہی آسان ہو گیا۔

۶۵-یعنی ہماری اس گزارش پر جو کچھ آپ دیں گے وہ گویا آپ کا صدقہ ہو گا۔ اس غلے کی قیمت میں جو پونجی ہم پیش کر رہے ہیں وہ تو بے شک اس لائق نہیں ہے کہ ہم کو اُس قدر غلہ دیا جائے جو ہماری ضرورت کو کافی ہو۔

 

جب یہ قافلہ (مصر سے ) روانہ ہوا تو ان کے باپ نے (کنعان میں) کہا ’’ میں یُوسُف ؑ کی خوشبو محسُوس کر رہا ہوں،۶۶ تم لوگ کہیں یہ نہ کہنے لگو کہ میں بڑھاپے میں سٹھیا گیا ہوں۔ ‘‘گھر کے لوگ بولے ’’ خدا کی قسم آپ ابھی تک اپنے اسی پُرانے خبط میں پڑے ہوئے ہیں۔ ‘‘ ۶۷پھر جب خوشخبری لانے والا آیا تو اس نے یُوسُف ؑ کا قمیص یعقوب ؑ کے منہ پر ڈال دیا اور یکایک اس کی بینائی عود کر آئی۔ تب اس نے کہا ’’میں تم سے کہتا نہ تھا؟ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ ‘‘سب بول اُٹھے ’’ ابا جان، آپ ہمارے گناہوں کی بخشش کے لیے دُعا کریں، واقعی ہم خطا کار تھے۔ ‘‘اُس نے کہا ’’ میں اپنے ربّ سے تمہارے لیے معافی کی درخواست کر دوں گا، وہ بڑا معاف فرمانے والا اور رحیم ہے۔ ‘‘پھر جب یہ لوگ یُوسُف ؑ کے پاس پہنچے ۶۸ تو اُس نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھا لیا ۶۹ اور (اپنے سب کنبے والوں سے کہا) ’’چلو، اب شہر میں چلو، اللہ نے چاہا تو امن چین سے رہو گے۔ ‘‘

 

۶۶- اس سے انبیاء علیہم السلام کی غیر معمولی قوتوں کا اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی قافلہ حضرت یوسف ؑ کا قمیص لے کر مصر سے چلا ہے اور ادھر سیکڑوں میل کے فاصلے پر حضرت یعقوب اس کی مہک پا لیتے ہیں۔ مگر اسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی یہ قوتیں کچھ ان کی ذاتی نہ تھیں بلکہ اللہ کی بخشش سے ان کو ملی تھیں اور اللہ جب اور جس قدر چاہتا تھا انہیں کام کرنے کا موقع دیتا تھا۔ حضرت یوسفؑ برسوں مصر میں موجود رہے اور کبھی حضرت یعقوبؑ کو ان کی خوشبو نہ آئی۔ مگر اب یکایک قوتِ ادراک کی تیزی کا یہ عالم ہو گیا کہ ابھی قمیص مصر سے چلا ہے اور وہاں ان کی مہک آنی شروع ہو گئی۔

یہاں یہ ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ ایک طرف قرآن حضرت یوسف ؑ کو اِس پیغمبرانہ شان کے ساتھ پیش کر رہا ہے۔ اور دوسری طرف بنی اسرائیل ان کو ایسے رنگ میں دکھاتے ہیں جیسا عرب کا ہر معمولی بدو ہو سکتا ہے۔ بائیبل کا بیان ہے کہ جب بیٹوں نے آ کر خبر دی کہ ’’یوسف ؑ اب تک جیتا ہے اور وہی سارے ملک مصر کا حاکم ہے تو یعقوب ؑ کا دل دھک سے رہ گیا کیونکہ اس نے ان کا یقین نہ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب ان کے باپ یعقوب نے وہ گاڑیاں دیکھ لیں جو یوسف ؑ نے ان کو لانے کے لیے بھیجی تھیں تب ان کی جان میں جان آئی۔ ‘‘ (پیدائش، ۲۷-۲۶:۴۵)

۶۷-اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پورے خاندان میں حضرت یوسف ؑ کے سوا کوئی اپنے باپ کا قدر شناس نہ تھا اور حضرت یعقوب ؑ خود بھی ان لوگوں کی ذہنی و اخلاقی پستی سے مایوس تھے۔ گھر کے چراغ کی روشنی باہر پھیل رہی تھی، مگر خود گھر والے اندھیرے میں تھے اور ان کی نگاہ میں وہ ایک ٹھیکرے سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ فطرت کی اس ستم ظریفی سے تاریخ کی اکثر و بیشتر بڑی شخصیتوں کو سابقہ پیش آیا ہے۔

۶۸-بائیبل کا بیان ہے کہ سب افراد خاندان جو اس موقع پر مصر گئے تھے ۶۷ تھے۔ اس تعداد میں دوسرے گھرانوں کی اُن لڑکیوں کو شمار نہیں کیا گیا ہے جو حضرت یعقوب ؑ کے ہاں بیاہی ہوئی آئی تھیں۔ اس وقت حضرت یعقوب ؑ کی عمر ۱۳۰ سال تھی اور اس کے بعد وہ مصر میں ۱۷ سال زندہ رہے۔

اس موقع پر ایک طالب علم کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کی بنی اسرائیل جب مصر میں داخل ہوئے تو حضرت یوسف ؑ سمیت ان کی تعداد ۶۸ تھی۔ اس جب تقریباً ۵ سو سال کے بعد وہ مصر سے نکلے تو وہ لاکھوں کی تعداد میں تھے۔ بائیبل کی روایت ہے کہ خروج کے بعد دوسرے سال بیابانِ سینا میں حضرت موسیٰ نے ان کی جو مردم شماری کرائی تھی اس میں صرف قابلِ جنگ مردوں کی تعداد ۶۰۳۵۵۰ تھی۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ عورت، مرد، بچے، سب ملا کر وہ کم از کم ۲۰ لاکھ ہوں گے۔ کیا کسی حساب سے پانچ سو سال میں ۶۸ آدمیوں کی اتنی اولاد ہو سکتی ہے ؟ مصر کی کل آبادی اگر اس زمانے میں ۲ کروڑ فرض کی جائے (جو یقیناً بہت مبالغہ آمیز اندازہ ہو گا) تو اس کے معنی یہ ہیں کہ صرف بنی اسرائیل وہاں ۱۰ فی صدی تھے۔ کیا ایک خاندان محض تناسُل کے ذریعہ سے اتنا بڑھ سکتا ہے ؟ اس سوال پر غور کرنے سے ایک اہم حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے۔ ظاہر بات ہے کہ ۵ سو برس میں ایک خاندان تو اتنا نہیں بڑھ سکتا۔ لیکن بنی اسرائیل پیغمبروں کی اولاد تھے۔ ان کے لیڈر حضرت یوسفؑ، جن کی بدولت مصر میں ان کے قدم جمے، خود پیغمبر تھے۔ ان کے بعد چار پانچ صدی تک ملک کا اقتدار انہی لوگوں کے ہاتھ رہا۔ اس دوران میں یقیناً انہوں نے مصر میں اسلام کی خوب تبلیغ کی ہو گی۔ اہل مصر میں جو جو لوگ اسلام لائے ہوں گے ان کا مذہب ہی نہیں بلکہ ان کا تمدّن اور پورا طریقِ زندگی غیر مسلم مصریوں سے الگ اور بنی اسرائیل سے ہم رنگ ہو گیا ہو گا۔ مصریوں نے ان سب کو اسی طرح اجنبی ٹھیرایا ہو گا جس طرح ہندوستان میں ہندوؤں نے ہندوستانی مسلمانوں کو ٹھیرایا۔ ان کے اوپر اسرائیلی کا لفظ اسی طرح چسپاں کر دیا گیا ہو گا جس طرح غیر عرب مسلمانوں پر ’’محمڈن‘‘ کا لفظ آج چسپاں کیا جاتا ہے۔ اور وہ خود بھی دینی و تہزیبی روابط اور شادی بیاہ کے تعلقات کی وجہ سے غیر مسلم مصریوں سے الگ اور بنی اسرائیل سے وابستہ ہو کر رہ گئے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مصر میں قوم پرستی کا طوفان اٹھا تو مظالم صرف بنی اسرائیل ہی پر نہیں ہوئے بلکہ مصری مسلمان بھی ان کے ساتھ یکساں لپیٹ لیے گئے۔ اور جب بنی اسرائیل نے ملک چھوڑا تو مصری مسلمان بھی ان کے ساتھ ہی نکلے اور ان سب کا شمار اسرائیلیوں ہی میں ہونے لگا۔

ہمارے اس قیاس کی تائید بائیبل کے متعدد اشارات سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ’’خروج‘‘ میں جہاں بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے کا حال بیان ہُوا ہے، بائیبل کا مصنف کہتا ہے کہ ’’ان کے ساتھ ایک ملی جلی گروہ بھی گئی‘‘ (۳۸:۱۲)۔ اسی طرح ’’گنتی‘‘ میں وہ بھر کہتا ہے کہ ’’جو ملی جلی بھیڑ ان لوگوں میں تھی وہ طرح طرح کی حرص کرنے لگی‘‘ (۴:۱۱) پھر بتدریج ان غیر اسرائیلی مسلمانوں کے لیے ’’اجنبی‘‘ اور ’’پردیسی‘‘ کی اصطلاحیں استعمال ہونے لگیں۔ چنانچہ توراۃ میں حضرت موسیٰ کو جو احکام دیے گئے ان میں ہم کو یہ تصریح ملتی ہے :

 ’’تمہارے لیے اور اُس پردیسی کے لیے جو تم میں رہتا ہے نسل در نسل سدا ایک ہی آئین رہے گا۔ خداوند کے آگے پردیسی بھی ویسے ہی ہیں جیسے تم ہو۔ تمہارے لیے اور پردیسیوں کے لیے جو تمہارے ساتھ رہتے ہیں ایک ہی شرع اور ایک ہی قانون ہو‘‘ (گنتی، ۱۵:۱۵-۱۶)

 ’’جو شخص بے باک ہو کر گناہ کرے خواہ وہ دیسی ہو یا پردیسی وہ خداوند کی اہانت کرتا ہے۔ وہ شخص اپنے لوگوں میں سے کاٹ ڈالا جائے گا‘‘ (گنتی ۳۰:۱۵)

 ’’خواہ بھائی بھائی کا معاملہ ہو یا پردیسی کا، تم ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ کرنا‘‘ (استثناء، ۱۶:۱)

اب یہ تحقیق کرنا مشکل ہے کہ کتاب الٰہی میں غیر اسرائیلیوں کے لیے وہ اصل لفظ کیا استعمال کیا گیا تھا جسے مترجموں نے ’’پردیسی‘‘ بنا کر رکھ دیا۔

۶۹-تلمود میں لکھا ہے کہ حضرت یعقوبؑ کی آمد کی خبر دارالسلطنت میں پہنچی تو حضرت یوسفؑ سلطنت کے بڑے بڑے امراء و اہل مناصب اور فوج فرّا کو لے کر ان کے استقبال کے لیے نکلے اور پورے تزک و احتشام کے ساتھ ان کو شہر میں لائے۔ وہ دن وہاں جشن کا دن تھا۔ عورت، مرد، بچے، سب اس جلوس کو دیکھنے کے لیے اکٹھے ہو گئے تھے اور سارے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔

 

(شہر میں داخل ہونے کے بعد) اس نے اپنے والدین کو اُٹھا کر اپنے پاس تخت پر بٹھایا اور سب اس کے آگے بے اختیار سجدے میں جھُک گئے۔ ۷۰ یُوسُف ؑ نے کہا ’’ابا جان، یہ تعبیر ہے میرے اُس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا، میرے ربّ نے اسے حقیقت بنا دیا۔ اس کا احسان ہے کہ اُس نے مجھے قید خانے سے نکالا، اور آپ لوگوں کو صحرا سے لا کر مجھ سے ملایا حالانکہ شیطان میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان فساد ڈال چکا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ میرا ربّ غیر محسُوس تدبیروں سے اپنی مشیّت پُوری کرتا ہے، بے شک وہ علیم اور حکیم ہے۔ اے میرے ربّ، تُو نے مجھے حکومت بخشی اور مجھے باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھایا۔ زمین و آسمان کے بنانے والے، تُو ہی دُنیا اور آخرت میں میرا سرپرست ہے، میرا خاتمہ اسلام پر کر اور انجامِ کار مجھے صالحین کے ساتھ ملا۔ ‘‘ ۷۱اے محمد ؐ، یہ قصہ غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم تم پر وحی کر رہے ہیں ورنہ تم اُس وقت موجود نہ تھے جب یُوسُف ؑ کے بھائیوں نے آپس میں اتفاق کر کے سازش کی تھی۔ مگر تم خواہ کتنا ہی چاہو ان میں سے اکثر لوگ مان کر دینے والے نہیں ہیں۔ ۷۲حالانکہ تم اس خدمت پر ان سے کوئی اُجرت بھی نہیں مانگتے ہو۔ یہ تو ایک نصیحت ہے جو دنیا والوں کے لیے عام ہے۔ ۷۳ ؏ ١١

 

۷۰-اس لفظ ’’سجدہ‘‘ سے بکثرت لوگوں کو غلطی ہوئی ہے۔ حتیٰ کہ ایک گروہ نے تو اسی سے استدلال کر کے بادشاہوں اور پیروں کے لیے سجدۂ تحیۃ اور سجدۂ تعظیمی کا جواز نکال لیا۔ دوسرے لوگوں کو اس قباحت سے بچنے کے لیے یہ توجیہ کرنی پڑی کہ اگلی شریعتوں میں صرف سجدۂ عبادت غیر اللہ کے لیے حرام تھا، باقی رہا وہ سجدہ جو عبادت کے جذبہ سے خالی ہو تو وہ خدا کے سوا دوسروں کو بھی کیا جا سکتا تھا، البتہ شریعت محمدیؐ میں ہر قسم کا سجدہ غیر اللہ کے لیے حرام کر دیا گیا۔ لیکن ساری غلط فہمیاں دراصل اس وجہ سے پیدا ہوئی ہیں کہ لفظ ’’سجدہ‘‘ کو موجودہ اسلامی اصطلاح کا ہم معنی سمجھ لیا گیا، یعنی ہاتھ، گھٹنے اور پیشانی زمین پر ٹکانا۔ حالانکہ سجدہ کے اصل معنی محض جھکنے کے ہیں اور یہاں یہ لفظ اسی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ قدیم تہزیب میں یہ عام طریقہ تھا(اور آج بھی بعض ملکوں میں اس کا رواج ہے ) کہ کسی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے، یا کسی کا استقبال کرنے کے لیے، یا محض سلام کرنے کے لیے سینے پر ہاتھ رکھ کر کسی حد تک آگے کی طرف جھکتے تھے۔ اسی جھکاؤ کے لیے عربی میں سجود اور انگریزی میں (Bow) کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ بائیبل میں اس کی بکثرت مثالیں ہم کو ملتی ہیں کہ قدیم زمانے میں یہ طریقہ آداب تہذیب میں شامل تھا۔ چنانچہ حضرت ابراہیم کے متعلق ایک جگہ لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے خیمہ کی طرف تین آدمیوں کو آتے دیکھا تو وہ ان کے استقبال کے لیے دوڑے اور زمین تک جھکے۔ عربی بائیبل میں اس موقع پر جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں: فلما نظر رکض لا ستقبالہم من باب الخیمة و سجد الی الارض (تکوین: ۱۸-۳)۔ پھر جس موقع پر یہ ذکر آتا ہے کہ بنی حِتّ نے حضرت سارہ کے دفن کے لیے قبر کی زمین مفت دی وہاں اُردو بائیبل کے الفاظ یہ ہیں ’’ابرہام نے اُٹھ کر اور بنی حِتّ کے آگے، جو اس ملک کے لوگ ہیں، آداب بجا لا کر ان سے یوں گفتگو کی‘‘۔ اور جب ان لوگوں نے قبر کی زمین ہی نہیں بلکہ ایک پورا کھیت اور ایک غار نذر میں پیش کر دیا تب ’’ابرہام اس ملک کے لوگوں کے سامنے جھکا‘‘۔ مگر عربی ترجمہ میں ان دونوں مواقع پر آداب بجالانے اور جھکنے کے لیے ’’سجدہ کرنے ‘‘ ہی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں: فقام ابراھیم و سجد لشعب الارض لبنی حِت (تکوین: ۲۳-۷)۔ فسجد ابراھیم امام شعب الارض (۱۲:۲۳)۔ انگریزی بائیبل میں ان مواقع پر جو الفاظ آئے ہیں وہ یہ ہیں:

Bowed himself toward the ground

Bowed himself to the people of the land and Abraham bowed down himself before the people of the land.

اس مضمون کی مثالیں بڑی کثرت سے بائیبل میں ملتی ہیں اور ان سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ اس سجدے کا مفہوم وہ ہے ہی نہیں جو اب اسلامی اصطلاح کے لفظ ’’سجدہ‘‘ سے سمجھا جاتا ہے۔

جن لوگوں نے معاملہ کی اس حقیقت کے جانے بغیر اس کی تاویل میں سرسری طور پر یہ لکھ دیا ہے کہ اگلی شریعتوں میں غیر اللہ کو تعظیمی سجدہ کرنا یا سجدۂ تحیۃ بجا لانا جائز تھا انہوں نے محض ایک بے اصل بات کہی ہے۔ اگر سجدے سے مراد وہ چیز ہو جسے اسلامی اصطلاح میں سجدہ کہا جاتا ہے، تو وہ خدا کی بھیجی ہوئی کسی شریعت میں کبھی کسی غیر اللہ کے لیے جائز نہیں رہا ہے۔ بائیبل میں ذکر آتا ہے کہ بابل کی اسیری کے زمانے میں جب اخسویرس بادشاہ نے ہامان کو اپنا امیر الامرا بنایا اور حکم دیا کہ سب لوگ اس کو سجدۂ تعظیمی بجا لایا کریں تو مرد کی نے، جو بنی اسرائیل کے اولیاء میں سے تھے یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا(آستر۱:۳-۲)۔ تلمود میں اس واقعہ کی شرح کرتے ہوئے اس کی جو تفصیل دی گئی ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے :

 ’’بادشاہ کے ملازموں نے کہا آخر تو کیوں ہامان کو سجدہ کرنے سے انکار کرتا ہے، ہم بھی آدمی ہیں مگر شاہی حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔ اس نے جواب دیا تم لوگ نادان ہو۔ کیا ایک فانی انسان، جو کل خاک میں مل جانے والا ہے، اس قابل ہو سکتا ہے کہ اس کی بڑائی مانی جائے ؟ کیا میں اُس کو سجدہ کروں جو ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہُوا، کل بچہ تھا، آج جوان ہے، کل بوڑھا ہو گا اور پرسوں مر جائے گا؟ نہیں، میں تو اس ازلی و ابدی خدا ہی کے آگے جھکوں گا جو حی و قیوم ہے ……….. وہ جو کائنات کا خالق اور حاکم ہے، میں تو بس اسی کی تعظیم بجا لاؤں گا، اور کسی کی نہیں‘‘۔

یہ تقریر نزول قرآن سے تقریباً ایک ہزار برس پہلے ایک اسرائیلی مومن کی زبان سے ادا ہوئی ہے اور اس میں کوئی شائبہ تک اِس تخیل کا نہیں پایا جاتا کہ غیر اللہ کو کسی معنی میں بھی ’’سجدہ‘‘ کرنا جائز ہے۔

۷۱-یہ چند فقرے جو اس موقع پر حضرت یوسف ؑ کی زبان سے نکلے ہیں، ہمارے سامنے ایک سچے مومن کی سیرت کا عجیب دلکش نقشہ پیش کرتے ہیں۔ صحرائی گلہ بانوں کے خاندان کا ایک فرد، جس کو خود اس کے بھائیوں نے حسد کے مارے ہلاک کر دینا چاہا تھا، زندگی کے نشیب و فراز دیکھتا ہُوا بالآخر دنیوی عروج کے انتہائی مقام پر پہنچ گیا ہے۔ اس کے قحط زدہ اہل خاندان اب اس کے دست نگر ہو کر اس کے حضور آئے ہیں اور وہ حاسد بھائی بھی، جو اس کو مار ڈالنا چاہتے تھے، اس کے تخت شاہی کے سامنے سرنگوں کھڑے ہیں۔ یہ موقع دنیا کے عام دستور کے مطابق فخر جتانے، ڈینگیں مارنے، گلے اور شکوے کرنے، اور طعن و ملامت کے تیر برسانے کا تھا۔ مگر ایک سچا خدا پرست انسان اس موقع پر کچھ دوسرے ہی اخلاق ظاہر کرتا ہے۔ وہ اپنے اس عروج پر فخر کرنے کے بجائے اس خدا کے احسان کا اعتراف کرتا ہے جس نے اسے یہ مرتبہ عطا کیا۔ وہ خاندان والوں کو اُس ظلم و ستم پر کوئی ملامت نہیں کرتا جو اوائل عمر میں انہوں نے اس پر کیے تھے۔ اس کے برعکس وہ اس بات پر شکر ادا کرتا ہے کہ خدا نے اتنے دنوں کی جدائی کے بعد ان لوگوں کو مجھ سے ملایا۔ وہ حاسد بھائیوں کے خلاف شکایت کا ایک لفظ زبان سے نہیں نکالتا۔ حتیٰ کہ یہ بھی نہیں کہتا کہ انہوں نے میرے ساتھ برائی کی تھی۔ بلکہ ان کی صفائی خود ہی اس طرح پیش کرتا ہے کہ شیطان نے میرے اور ان کے درمیان برائی ڈال دی تھی۔ اور پھر اس برائی کے بھی بہت پہلو چھوڑ کر اس کا یہ اچھا پہلو پیش کرتا ہے کہ خدا جس مرتبے پر مجھے پہنچانا چاہتا تھا اس کے لیے یہ لطیف تدبیر اُس نے فرمائی۔ یعنی بھائیوں سے شیطان نے جو کچھ کرایا اسی میں حکمت الٰہی کے مطابق میرے لیے خیر تھی۔ چند الفاظ میں یہ سب کچھ کہہ جانے کے بعد وہ بے اختیار اپنے خدا کے آگے جھک جاتا ہے، اس کا شکر ادا کرتا ہے کہ تو نے مجھے بادشاہی دی اور وہ قابلیتیں بخشیں جن کی بدولت میں قید خانے میں سڑنے کے بجائے آج دنیا کی سب سے بڑی سلطنت پر فرماں روائی کر رہا ہوں۔ اور آخر میں خدا سے کچھ مانگتا ہے تو یہ کہ دنیا میں جب تک زندہ رہوں تیری بندگی و غلامی پر ثابت قدم رہوں، اور جب اس دنیا سے رخصت ہوں تو مجھے نیک بندوں کے ساتھ ملا دیا جائے۔ کس قدر بلند اور کتنا پاکیزہ ہے یہ نمونۂ سیرت !

حضرت یوسف ؑ کی اس قیمتی تقریر نے بھی بائیبل اور تلمود میں کوئی جگہ نہیں پائی ہے۔ حیرت ہے کہ یہ کتابیں قصوں کی غیر ضروری تفصیلات سے تو بھری پڑی ہیں، مگر جو چیزیں کوئی اخلاقی قدر و قیمت رکھتی ہیں اور جن سے انبیاء کی اصلی تعلیم اور ان کے حقیقی مشن اور ان کی سیرتوں کے سبق آموز پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے، ان سے ان کتابوں کا دامن خالی ہے۔

یہاں یہ قصہ ختم ہو رہا ہے اس لیے ناظرین کو پھر اس حقیقت پر متنبہ کر دینا ضروری ہے کہ قصۂ یوسف ؑ کے متعلق قرآن کی یہ روایت اپنی جگہ ایک مستقل روایت ہے، بائیبل یا تلمود کا چربہ نہیں ہے۔ تینوں کتابوں کا متقابل مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قصے کے متعدد اہم اجزاء میں قرآن کی روایت ان دونوں سے مختلف ہے۔ بعض چیزیں قرآن ان سے زائد بیان کرتا ہے، بعض ان سے کم، اور بعض میں ان کی تردید کرتا ہے۔ لہٰذا کسی کے لیے یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلّم نے جو قصہ سنایا وہ بنی اسرائیل سے سن لیا ہو گا۔

۷۲-یعنی ان لوگوں کی ہٹ دھرمی کا عجیب حال ہے۔ تمہاری نبوت کی آزمائش کے لیے بہت سوچ سمجھ کر اور مشورے کر کے جو مطالبہ انہوں نے کیا تھا اسے تم نے بھری محفل میں برجستہ پورا کر دیا، اب شاید تم متوقع ہو گے کہ اس کے بعد تو انہیں یہ تسلیم کر لینے میں کوئی تامل نہ رہے گا کہ تم یہ قرآن خود تصنیف نہیں کرتے ہو بلکہ واقعی تم پر وحی آتی ہے۔ مگر یقین جانو کہ یہ اب بھی نہ مانیں گے اور اپنے انکار پر جمے رہنے کے لیے کوئی دوسرا بہانہ ڈھونڈ نکالیں گے۔ کیونکہ ان کے نہ ماننے کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ تمہاری صداقت کا اطمینان حاصل کرنے کے لیے یہ کھلے دل سے کوئی معقول دلیل چاہتے تھے اور وہ ابھی تک انہیں نہیں ملی۔ بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمہاری بات یہ ماننا چاہتے نہیں ہیں، اس لیے ان کو تلاش دراصل ماننے کے لیے کسی دلیل کی نہیں بلکہ نہ ماننے کے لیے کسی بہانے کی ہے – مخاطب گروہ کو جس کے مجمع میں یہ تقریر کی جا رہی تھی، ایک نہایت لطیف و بلیغ طریقہ سے اس کی ہٹ دھرمی پر متنبہ کرنا ہے۔ انہوں نے اپنی محفل میں آپ کو امتحان کے لیے بلایا تھا اور اچانک یہ مطالبہ کیا تھا کہ اگر تم نبی ہو تو بتاؤ بنی اسرائیل کے مصر جانے کا قصہ کیا ہے۔ اس کے جواب میں ان کو وہیں اور اسی وقت پورا قصہ سنا دیا گیا، اور آخر میں یہ مختصر سا فقرہ کہہ کر آئینہ بھی ان کے سامنے رکھ دیا گیا کہ ہٹ دھرمو! اس میں اپنی صورت دیکھ لو، تم کس منہ سے امتحان لینے بیٹھے تھے ؟ معقول انسان اگر امتحان لیتے ہیں تو اس لیے لیتے ہیں کہ اگر حق ثابت ہو جائے تو اسے مان لیں، مگر تم وہ لوگ ہو جو اپنا منہ مانگا ثبوت مل جانے پر بھی مان کر نہیں دیتے۔

۷۳-اوپر کی تنبیہ کے بعد یہ دوسری لطیف تر تنبیہ ہے جس میں ملامت کا پہلو کم اور فہمائش کا پہلو زیادہ ہے۔ اس ارشاد کا خطاب بھی بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے مگر اصل مخاطب کفار کا مجمع ہے، اور اس کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اللہ کے بندو! غور کرو، تمہاری یہ ہٹ دھرمی کس قدر بے جا ہے۔ اگر پیغمبر نے اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے دعوت و تبلیغ کا یہ کام جاری کیا ہوتا، یا اس نے اپنی ذات کے لیے کچھ بھی چاہا ہوتا تو بے شک تمہارے لیے یہ کہنے کا موقع تھا کہ ہم اس مطلبی آدمی کی بات کیوں مانیں۔ مگر تم دیکھ رہے ہو کہ یہ شخص بے غرض ہے، تمہاری اور دنیا بھر کی بھلائی کے لیے نصیحت کر رہا ہے اور اس میں اُس کا اپنا کوئی مفاد پوشیدہ نہیں ہے۔ پھر اس کا مقابلہ اس ہٹ دھرمی سے کرنے میں آخر کیا معقولیت ہے ؟ جو انسان سب کے بھلے کے لیے ایک بات بے غرضی کے ساتھ پیش کرے اس سے کسی کو خواہ مخواہ ضد کیوں ہو؟ کھلے دل سے اس کی بات سنو، دل کو لگتی ہو تو مانو، نہ لگتی ہو نہ مانو۔

 

زمین ۷۴ اور آسمانوں میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر سے یہ لوگ گزرتے ہیں اور ذرا توجّہ نہیں کرتے۔ ۷۵ ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے ہیں مگر اس طرح کہ اُس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔ ۷۶کیا یہ مطمئن ہیں کہ خدا کے عذاب کی کوئی بلا انہیں دبوچ نہ لے گی یا بے خبری میں قیامت کی گھڑی اچانک ان پر نہ آ جائے گی؟۷۷تم ان سے صاف کہہ دو کہ ’’ میرا رستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بُلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی، اور اللہ پاک ہے ۷۸ اور شرک کرنے والوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں۔ ‘‘اے محمد ؐ، تم سے پہلے ہم نے جو پیغمبر بھیجے تھے وہ سب بھی انسان ہی تھے، اور اِنہی بستیوں کے رہنے والوں میں تھے، اور اُنہی کی طرف ہم وحی بھیجتے رہے ہیں۔ پھر کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں ہیں کہ اُن قوموں کا انجام اِنہیں نظر نہ آیا جو ان سے پہلے گزر چکی ہیں؟ یقیناً آخرت کا گھر اُن لوگوں کے لیے اَور زیادہ بہتر ہے جنہوں نے (پیغمبروں کی بات مان کر)تقویٰ کی روش اختیار کی۔ کیا اب بھی تم لوگ نہ سمجھو گے ؟۷۹ (پہلے پیغمبروں کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ وہ مُدّتوں نصیحت کرتے رہے اور لوگوں نے سُن کر نہ دیا) یہاں تک کہ جب پیغمبر لوگوں سے مایوس ہو گئے اور لوگوں نے بھی سمجھ لیا کہ اُن سے جھُوٹ بولا گیا تھا، تو یکایک ہماری مدد پیغمبروں کو پہنچ گئی۔ پھر جب ایسا موقع آ جاتا ہے تو ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ جسے ہم چاہتے ہیں بچا لیتے ہیں اور مجرموں پر سے تو ہمارا عذاب ٹالا ہی نہیں جا سکتا۔ اگلے لوگوں کے ان قصّوں میں عقل و ہوش رکھنے والوں کے لیے عبرت ہے۔ یہ جو کچھ قرآن میں بیان کیا جا رہا ہے یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں بلکہ جو کتابیں اس سے پہلے آئی ہوئی ہیں انہی کی تصدیق ہے اور ہر چیز کی تفصیل ۸۰ اور ایمان لانے والوں کے لیے ہدایت اور رحمت۔ ؏ ١۲

 

۷۴-اوپر کے گیارہ رکوعوں میں حضرت یوسفؑ کا قصہ ختم ہو گیا۔ اگر وحی الٰہی کا مقصد محض قصہ گوئی ہوتا تو اسی جگہ تقریر ختم ہو جانی چاہیے تھی۔ مگر یہاں تو قصہ کسی مقصد کی خاطر کہا جاتا ہے اور اس مقصد کی تبلیغ کے لیے جو موقع بھی مل جائے اس سے فائدہ اٹھانے میں دریغ نہیں کیا جاتا۔ ا ب چونکہ لوگوں نے خود نبی کو بلایا تھا اور قصہ سننے کے لیے کان متوجہ تھے، اس لیے ان کے مطلب کی بات ختم کرتے ہی چند جملے اپنے مطلب کے بھی کہہ دیے گئے اور غایت درجہ اختصار کے ساتھ ان چند جملوں ہی میں نصیحت اور دعوت کا سارا مضمون سمیٹ دیا گیا۔

۷۵-اس سے مقصد لوگوں کو ان کی غفلت پر متنبہ کر نا ہے۔ زمین اور آسمان کی ہر چیز بجائے خود محض ایک چیز ہی نہیں ہے بلکہ ایک نشانی بھی ہے جو حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ جو لوگ ان چیزوں کو محض چیز ہونے کی حیثیت سے دیکھتے ہیں وہ انسان کا سا دیکھنا نہیں بلکہ جانوروں کا سا دیکھنا دیکھتے ہیں۔ درخت کو درخت، اور پہاڑ کو پہاڑ اور پانی کو پانی تو جانور بھی دیکھتا ہے، اور اپنی اپنی ضرورت کے لحاظ سے ہر جانور ان چیزوں کا مصرف بھی جانتا ہے۔ مگر جس مقصد کے لیے انسان کو حواس کے ساتھ سوچنے والا دماغ بھی دیا گیا ہے، وہ صرف اسی حد تک نہیں ہے کہ آدمی ان چیزوں کو دیکھے اور ان کا مصرف اور استعمال معلوم کرے، بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ آدمی حقیقت کی جستجو کرے اور ان نشانیوں کے ذریعہ سے اُس کا سراغ لگائے۔ اسی معاملہ میں اکثر انسان غفلت برت رہے ہیں اور یہی غفلت ہے جس نے ان کو گمراہی میں ڈال رکھا ہے۔ اگر دلوں پر یہ قفل نہ چڑھا لیا گیا ہوتا تو انبیاء کی بات سمجھنا اور ان کی رہنمائی سے فائدہ اٹھانا لوگوں کے لیے اس قدر مشکل نہ ہو جاتا۔

۷۶-یہ فطری نتیجہ ہے اُس غفلت کا جس کی طرف اوپر کے فقرے میں اشارہ کیا گیا ہے۔ جب لوگوں نے نشانِ راہ سے آنکھیں بند کیں تو سیدھے راستے سے ہٹ گئے اور اطراف کی جھاڑیوں میں پھنس کر رہ گئے۔ اس پر بھی کم انسان ایسے ہیں جو منزل کو بالکل ہی گم کر چکے ہوں اور جنھیں اِس بات سے قطعی انکار ہو کہ خدا ان کا خالق و رزاق ہے۔ بیشتر انسان جس گمراہی میں مبتلا ہیں وہ انکارِ خدا کی گمراہی نہیں بلکہ شرک کی گمراہی ہے۔ یعنی وہ یہ نہیں کہتے کہ خدا نہیں ہے، بلکہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ خدا کی ذات اور اس کی صفات، اختیارات اور حقوق میں دوسرے بھی کسی نہ کسی طرح شریک ہیں۔ یہ غلط فہمی ہر گز نہ پیدا ہوتی اگر زمین و آسمان کی اُن نشانیوں کو نگاہِ عبرت سے دیکھا جاتا جو ہر جگہ اور ہر آن خدائی کی وحدت کا پتہ دے رہی ہے۔

۷۷-اس سے مقصود لوگوں کو چونکا نا ہے کہ فرصتِ زندگی کو دراز سمجھ کر اور حال کے امن کو دائم خیال کر کے فکر مآل کو کسی آنے والے وقت پر نہ ٹالو۔ کسی انسان کے پاس بھی اس امر کے لیے کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اس کی مہلتِ حیات فلاں وقت تک یقیناً باقی رہے گی۔ کوئی نہیں جانتا کہ کب اچانک اس کی گرفتاری ہو جاتی ہے اور کہاں سے کس حال میں وہ پکڑ بلایا جاتا ہے۔ تمہارا شب و روز کا تجربہ ہے کہ پردۂ مستقبل ایک لمحہ پہلے بھی خبر نہیں دیتا کہ اس کے اندر تمہارے لیے کیا چھپا ہوا ہے۔ لہٰذا کچھ فکر کرنی ہے تو ابھی کر لو۔ زندگی کی جس راہ پر چلے جا رہے ہو اس میں آگے بڑھنے سے پہلے ذرا ٹھیر کر سوچ لو کہ یہ راستہ ٹھیک ہے ؟ اِس کے درست ہو نے کے لیے واقعی حجت موجود ہے ؟ اِس کے راہِ راست ہونے کی کوئی دلیل آثارِ کائنات سے مل رہی ہے ؟ اس پر چلنے کے جو نتائج تمہارے ابنائے نوع پہلے دیکھ چکے ہیں اور جو نتائج اب تمہارے تمدّن میں رونما ہو رہے ہیں وہ یہی تصدیق کر تے ہیں کہ تم ٹھیک جا رہے ہو؟

۷۸-یعنی اُن باتوں سے پاک جو اس کی طرف منسوب کی جا رہی ہیں۔ ان نقائص اور کمزوریوں سے پاک جو ہر مشرکانہ عقیدہ کی بنا پر لازماً اس کی طرف منسوب ہوتی ہیں۔ ان عیوب اور خطاؤں اور برائیوں سے پاک جن کا اس کی طرف منسوب ہونا شرک کا قطعی نتیجہ ہے۔

۷۹-یہاں ایک بہت بڑے مضمون کو دو تین جملوں میں سمیٹ دیا گیا ہے۔ اس کو اگر کسی تفصیلی عبارت میں بیان کیا جائے تو یوں کہا جا سکتا ہے : یہ لوگ تمہاری بات کی طرف اس لیے توجہ نہیں کرتے کہ جو شخص کل ان کے شہر میں پیدا ہوا اور انہی کے درمیان بچے سے جوان اور جوان سے بوڑھا ہوا اس کے متعلق یہ کیسے مان لیں کہ یکایک ایک روز خدا نے اُسے اپنا سفیر مقرر کر دیا۔ لیکن یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے جس سے آج دنیا میں پہلی مرتبہ انہی کو سابقہ پیش آیا ہو۔ اس سے پہلے بھی خدا اپنے نبی بھیج چکا ہے اور وہ سب بھی انسان ہی تھے۔ پھر یہ بھی کبھی نہیں ہوا کہ اچانک ایک اجنبی شخص کسی شہر میں نمودار ہو گیا ہو اور اس نے کہا ہو کہ میں پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ بلکہ جو لوگ بھی انسانوں کی اصلاح کے لیے اُٹھائے گئے وہ سب ان کی اپنی ہی بستیوں کے رہنے والے تھے۔ مسیح، موسیٰ، ابراہیم، نوح علیہم السلام، آخر کون تھے ؟ اب تم خود ہی دیکھ لو کہ جن قوموں نے ان لوگوں کی دعوتِ اصلاح کو قبول نہ کیا اور اپنے بے بنیاد تخیلات اور بے لگام خواہشات کے پیچھے چلتی رہیں ان کا انجام کیا ہوا۔ تم خود اپنے تجارتی سفروں میں عاد، ثمود، مدین اور قوم لوط وغیرہ کے تباہ شدہ علاقوں سے گزرتے رہے ہو۔ کیا وہاں کوئی سبق تمہیں نہیں ملا؟ یہ انجام جو انہوں نے دنیا میں دیکھا، یہی تو خبر دے رہا ہے کہ عاقبت میں وہ اس سے بد تر انجام دیکھیں گے۔ اور یہ کہ جن لوگوں نے دنیا میں اپنی اصلاح کر لی وہ صرف دنیا ہی میں اچھے نہ رہے، آخرت میں ان کا انجام اس سے بھی زیادہ بہتر ہو گا‘‘۔

۸۰-یعنی ہر اُس چیز کی تفصیل جو انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ضروری ہے۔ بعض لوگ ’’ہر چیز کی تفصیل‘‘ سے مراد خواہ مخواہ دنیا بھر کی چیزوں کی تفصیل لے لیتے ہیں اور پھر ان کو یہ پریشانی پیش آتی ہے کہ قرآن میں جنگلات اور طب اور ریاضی اور دوسرے علوم و فنون کے متعلق کوئی تفصیل نہیں ملتی۔