تفسیر مدنی

سورة یُوسُف

(سورۃ یوسف ۔ سورہ نمبر ۱۲ ۔ تعداد آیات ۱۱۱)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     الف لام را۔ یہ آیتیں ہیں کھول کر بیان کرنے والی اس (عظیم الشان) کتاب کی

۲۔۔۔     بے شک ہم ہی نے اتارا ہے اس کو عربی زبان کے عظیم الشان قرآن کی صورت میں ، تاکہ تم لوگ اس کو اچھی طرح سمجھ سکو

۳۔۔۔      (اے اہل عرب) ہم آپ کے سامنے (اے پیغمبر!) ایک بڑا ہی عمدہ قصہ بیان کرتے ہیں اس قرآن (عظیم کے ذریعے جو کہ ہم نے بذریعہ وحی آپ کی طرف بھیجا ہے ، ورنہ آپ تو اس سے پہلے یقینی طور پر اس سے بالکل (ناواقف) بے خبر تھے ،

۴۔۔۔     (اس قصے کا اصل آغاز اس وقت سے ہوتا ہے کہ) جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا، ابا جان میں نے خواب دیکھا کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اور چاند بھی، میں دیکھتا ہوں کہ یہ سب میرے لئے سجدہ ریز ہیں ،

۵۔۔۔     انہوں نے فرمایا بیٹے ، اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا کہ اس پر وہ تمہارے خلاف کوئی چال چلنے لگیں ، کہ شیطان تو قطعی طور پر انسان کا کھلا دشمن ہے ،

۶۔۔۔     اور اسی طرح (جس طرح کہ تم نے یہ خواب دیکھا ہے) تمہارا رب تمہیں برگزیدہ بنائے گا (دوسرے کئی خصائص و مزایا کے ذریعے) اور وہ تمہیں سکھلائے گا باتوں کی تہ تک پہنچنا، اور وہ پورا فرمائے گا اپنی نعمت کو تم پر، اور آل یعقوب پر، جیسا کہ وہ اس کو پورا فرما چکا ہے اس سے پہلے تمہارے دونوں باپ دادا ابراہیم اور اسحاق پر، بے شک تمہارا رب سب کچھ جانتا بڑا ہی حکمت والا ہے

۷۔۔۔     واقعی یوسف اور ان کے بھائیوں (کے قصہ) میں بڑی نشانیاں ہیں پوچھنے والوں کے لئے ،

۸۔۔۔     جب کہ برادران یوسف نے (آپس میں) کہا کہ یوسف اور اس کا بھائی یقینی طور پر ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں ، حالانکہ ہم ایک جتھے کا جتھا ہیں ، یقیناً ہمارا باپ کھلی غلطی پر ہے ،

۹۔۔۔     لہٰذا قتل کر دو تم یوسف کو، یا ڈال دو اس کو کسی (دور افتادہ) زمین میں تاکہ اس کے بعد باپ کی ساری توجہ تمہاری طرف ہو جائے ، اور تمہارے سب کام بن جائیں ،

۱۰۔۔۔     اس پر ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ یوسف کو قتل تو نہ کرو، البتہ اگر تمہیں ضرور کچھ کرنا ہی ہے تو اسے کسی اندھے کنوئیں میں ڈال دو کہ کوئی راہ چلتا قافلہ اس کو لے جائے ،

۱۱۔۔۔     سو (اس قرار داد کے بعد) انہوں نے اپنے باپ سے کہا کہ ابا جان، کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہم پر بھروسہ نہیں کرتے ، حالانکہ ہم اس کے پکے خیر خواہ ہیں ،

۱۲۔۔۔     کل اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے کہ وہ بھی جنگل کے میوے کھائے پئے ، اور (وہاں کھلی فضا میں) کچھ کھیل کود لے ، اور ہم اس کی پوری پوری حفاظت کریں گے ،

۱۳۔۔۔     یعقوب نے فرمایا تمہارا اس کو لے جانا ہی مجھے شاق گزارتا ہے ، اور مجھے اس بات کا اندیشہ بھی ہے کہ اس کو وہاں پھاڑ کھائے کوئی بھیڑیا جب کہ تم اس سے لا پرواہ ہوؤ۔

۱۴۔۔۔     انہوں نے کہا کہ اگر ہمارے ہوتے ہوئے اسے کوئی بھیڑیا پھاڑ کھائے جب کہ ہم ایک پورا جتھا ہیں تب تو یقیناً ہم کسی کام کے نہ ہوئے ،

۱۵۔۔۔     آخرکار جب وہ اسے لے گئے اور انہوں نے یہ طے کر لیا کہ اس کو ڈال دیں کسی اندھے کنویں میں ، (اور بالآخر انہوں نے اس کو اس میں ڈال بھی دیا) تو ہم نے وحی کی یوسف کی طرف (ان کی تسلی کے لئے کہ گھبراؤ نہیں) کہ ایک وقت آئے گا کہ جب تم ان کو جتلاؤ گے ان کی یہ حرکت، اور ان کو خیال (و گمان) بھی نہ ہو گا، (کہ یہ یوسف ہے)

۱۶۔۔۔     اور (یہ کرتوت کرنے کے بعد) شام کو وہ آئے اپنے باپ کے پاس روتے (اور چیختے چلاتے) ہوئے ،

۱۷۔۔۔     کہنے لگے ابا جان ہم آپس میں دوڑ کا مقابلہ کرنے لگے ، اور یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا کہ اتنے میں ایک بھیڑئیے نے آ کر ان کو کھا لیا، مگر آپ تو ہماری بات کا یقین نہیں کریں گے اگرچہ ہم سچے ہی ہوں

۱۸۔۔۔     اور وہ اس کی قمیض پر جھوٹ موٹ کا خون بھی لگا کر لے آئے یہ سن کر یعقوب نے فرمایا (قصہ یہ نہیں) بلکہ اصل بات یہ ہے کہ تمہارے نفسوں نے تمہارے لئے ایک بات بنا لی ہے پس میں صبر جمیل ہی سے کام لوں گا، اور ان باتوں پر اللہ ہی سے مدد مانگتا ہوں ، جو تم بنا رہے ہو

۱۹۔۔۔     ادھر ایک قافلہ (مصر کو جاتے ہوئے وہاں) آ نکلا، انہوں نے اپنا آدمی پانی لانے کے لئے بھیجا، اس نے کنویں میں ڈول جو ڈالا تو (اس کے ساتھ یوسف جیسے ماہ جبین کے باہر نکل آنے پر وہ خوشی سے) بے ساختہ پکار اٹھا کہ اے خوشخبری یہاں تو ایک عظیم الشان لڑکا نکل آیا، اور ان لوگوں نے اس کو چھپا لیا ایک (نہایت عمدہ) مال تجارت کے طور پر، اور اللہ خوب جانتا تھا وہ سب کچھ جو کہ وہ کر رہے تھے ،

۲۰۔۔۔     اور آخرکار انہوں نے بیچ دیا اس (ماہ جبین) کو ایک تھوڑی سی قیمت، یعنی گنتی کے کچھ روپوں کے بدلے ، اور اس کے بارے میں وہ تھے ہی بے رغبت

۲۱۔۔۔     اور مصر کے جس شخص نے ان کو خریدا، اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ اس کو اچھی طرح سے رکھنا، ہو سکتا ہے کہ یہ ہمیں کام آئے ، یا ہم اس کو اپنا بیٹا ہی بنا لیں ، اور اس طرح ہم نے یوسف کے لئے اس سرزمین (مصر) میں قدم جمانے کی صورت بھی نکال دی (تاکہ وہاں رہ کر وہ آداب حکمرانی بھی سیکھے) اور تاکہ ہم اس کو باتوں کی تہ تک جانے کا علم بھی عطا کریں ، اور اللہ بہرحال کر کے رہتا ہے اپنا کام، لیکن اکثر لوگ جانتے ہیں ،

۲۲۔۔۔     اور  جب پہنچ گیا وہ اپنی (جوانی کی) بھرپور قوتوں کو، تو ہم نے اس کو حکم بخشا، اور ایک خاص علم سے بھی نوازا، اور ہم اسی طرح بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو،۔۴

۲۳۔۔۔     (وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں بھی ہوں ،) اور (اسی دوران آزمائش کا ایک اور مرحلہ پیش آگیا کہ) یوسف جس عورت کے گھر میں رہتے تھے وہی آپ کو پھسلانے پر اتر آئی، اور (ایک مرتبہ تو) اس نے سب دروازے بند کر کے (آپ سے صاف) کہہ دیا کہ جلدی آ جاؤ (میری مراد پوری کرنے کے لئے) یوسف نے کہا خدا کی پناہ، وہ میرا رب ہے اس نے مجھے کیسی منزلت بخشی، (تو پھر میں یہ ظلم کیسے کر سکتا ہوں ؟) بے شک فلاح نہیں پا سکتے ایسے ظالم،

۲۴۔۔۔     اور یقیناً پوری طرح ٹھان لی تھی اس عورت نے یوسف کو پھانسنے کی، اور آپ بھی اس کا ارادہ کر لیتے (اور اس کے جال میں پھنس جاتے) اگر آپ نے نہ دیکھی ہوتی برہان اپنے رب کی، اسی طرح (کیا ہم نے) تاکہ ہم اس سے پھیر دیں برائی اور بے حیائی (کی آلائشوں) کو، بے شک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا،

۲۵۔۔۔     اور وہ دونوں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کو دوڑ پڑے دروازے کی طرف، اور اس عورت نے پھاڑ دیا یوسف کا کرتہ پیچھے سے ، اور (یکایک) ان دونوں نے دروازے کے پاس موجود پایا اس عورت کے شوہر کو، (جس پر وہ پلٹ کر فورا!) بولی کہ کیا سزا ہو سکتی ہے ، اس شخص کی جو آپ کے گھر والوں کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے ، سوائے اس کے کہ اس کو قید میں ڈال دیا جائے یا اسے کوئی دردناک سزا دی جائے ؟

۲۶۔۔۔     یوسف نے کہا (نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ) خود اس نے مجھے پھانسنے کی کوشش کی، ادھر (عین اسی موقع پر) اس عورت کے خاندان میں سے ایک گواہ نے (ایک بڑی معقول)، گواہی پیش کر دی، کہ اگر یوسف کا کرتہ آگے سے پھٹا ہوا ہے تو یہ عورت سچی ہے ، اور وہ جھوٹے ہیں ،

۲۷۔۔۔     اور اگر ان کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا ہے تو (یہ اس بات کی نشانی ہو گی کہ) یہ جھوٹی ہے اور وہ سچے ،

۲۸۔۔۔     چنانچہ جب اس کے شوہر نے دیکھا کہ یوسف کا کرتہ پیچھے سے پھٹا ہوا ہے ، تو اس نے (اپنی بیوی کو مخاطب کرتے ہوئے) کہا کہ بے شک یہ تم عورتوں ہی کی فریب کاری کا ایک حصہ ہے ، واقعی تمہاری فریب کاریاں بڑے غضب کی ہوتی ہیں ،

۲۹۔۔۔     (اور اس شخص نے حضرت یوسف سے کہا کہ) درگزر کرو تم اے یوسف، اب اس معاملے سے ، اور تم معافی مانگو اپنے گناہ کی (اے عورت!) کہ یقیناً تو بڑی خطاکار (عورت) ہے ،

۳۰۔۔۔     اور شہر کی عورتوں نے یہ چرچا (کرنا شروع) کر دیا کہ عزیز کی بیوی اپنے غلام پر لٹو ہو گئی ہے ، اس کی محبت اس کے دل میں گھر کر گئی ہے ، ہمارے نزدیک تو وہ واقعی کھلی غلطی میں پڑی ہوئی ہے ،

۳۱۔۔۔     عزیز مصر کی بیوی نے جب ان عورتوں کی یہ بد گوئی سنی، تو اس نے ان کو (اپنے یہاں آنے کا) بلاوا بھیجا، اور ان کے لئے ایک مجلس آراستہ کی اور (ان کے پہنچ جانے کے بعد پھل وغیرہ کاٹنے کے لئے) اس نے ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک چھری بھی دے دی، اور (عین اس وقت یوسف سے) کہا کہ ذرا ان کے سامنے تو نکل آؤ، پس جونہی انہوں نے آپ کو دیکھا تو وہ سب کے سب ششدر رہ گئیں ، اور انہوں نے کاٹ ڈالا اپنے ہاتھوں کو، اور وہ (بے ساختہ) پکار اٹھیں کہ حاشا اللہ، یہ انسان نہیں ، یہ تو کوئی بڑا بزرگ فرشتہ ہے ،

۳۲۔۔۔     عزیز کی بیوی نے کہا کہ بس یہی ہے وہ شخص جس کے بارے میں تم مجھے برا بھلا کہتی رہی ہو، اور بے شک میں نے اس سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر یہ بچ نکلا، اور اگر اس نے میرا کہنا نہ مانا تو اسے ضرور بالضرور جیل جانا ہو گا، اور یہ ذلیل و خوار ہو کر رہے گا،

۳۳۔۔۔     (یوسف نے اپنے رب کے حضور) عرض کیا اے میرے رب، مجھے جیل جانا زیادہ محبوب ہے ، بہ نسبت اس کام کے ، جس کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں ، اور اگر تو نے دور نہ فرمایا مجھ سے ان کے مکر (و فریب کے اس جال) کو، تو میں مائل ہو جاؤں گا ان کی طرف، اور شامل ہو بیٹھوں گا جاہلوں میں ،

۳۴۔۔۔     پس قبول فرما لیا آپ کے رب نے آپ کی اس دعاء کو، اور دور فرما دیا آپ سے ان کے مکر (و فریب کے اس جال) کو، بلاشبہ وہی ہے ہر کسی کی سنتا سب کچھ جانتا،

۳۵۔۔۔      (یوسف کی پاک دامنی اور ان عورتوں کی فریب کاریوں کا) مختلف نشانیاں دیکھ لینے کے بعد بھی، ان لوگوں کو یہی سوجھی کہ وہ جیل میں ڈال دیں اس (پتلۂ عفت و پاکدامنی) کو، ایک مدت تک کے لئے ،

۳۶۔۔۔     اور جیل میں ان کے ساتھ دو اور جوان بھی داخل ہو گئے ان میں سے ایک نے (ایک دن حضرت یوسف سے) کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں شراب کشید کر رہا ہوں اور دوسرے نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ میں نے اپنے سر پر روٹیاں اٹھا رکھی ہیں ، اور پرندے ان سے (نوچ نوچ کر) کھا رہے ہیں ، آپ ہمیں اس کی تعبیر بتلا دیجئے ، بے شک ہم آپ کو نیکوکاروں میں سے دیکھتے ہیں ،

۳۷۔۔۔     یوسف نے فرمایا ابھی تمہارے پاس تمہارا وہی کھانا بھی نہیں آنے پائے گا جو تمہیں یہاں ملا کرتا ہے ، کہ میں تمہیں اس سے پہلے ہی اس کی حقیقت بتلائے دیتا ہوں ، یہ ان علوم (و معارف) میں سے ہے جو سکھائے ہیں مجھے میرے رب نے (اپنی رحمت و عنایت سے) بے شک میں نے (شروع سے ہی) چھوڑ رکھا ہے دین (و مذہب) ان لوگوں کا جو ایمان نہیں رکھتے ، اللہ (وحدہٗ لاشریک) پر، اور وہ منکر ہیں آخرت (کے عقیدہ صافیہ) کے ،

۳۸۔۔۔     اور (کفر و شرک اور ظلم و بغاوت کے ان طریقوں کے برعکس) میں نے ہمیشہ پیروی کی اپنے باپ دادا ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کے (پیش کردہ سچے) دین (و مذہب) کی ہمیں کسی بھی طرح یہ بات جائز نہیں کہ ہم شریک ٹھہرائیں اللہ کے ساتھ کسی چیز کو، یہ (توحید کا عقیدہ رکھنا اور شرک سے بچنا) اللہ کا فضل ہے ہم پر اور سب لوگوں پر (کہ دنیا و آخرت کی فوز و فلاح اسی میں ہے) لیکن اکثر لوگ شکر نہیں کرتے (اس عظیم الشان نعمت کا)

۳۹۔۔۔     جیل کے میرے دونوں ساتھیو! (تم ہی بتاؤ کہ) کیا کئی مختلف معبود بہتر ہیں ، یا ایک اللہ؟ جو یکتا اور سب پر غالب ہے ؟

۴۰۔۔۔     اس کے سوا جن کی بھی پوجا تم لوگ کرتے ہو، وہ محض کچھ ایسے نام ہیں جن کو گھڑ لیا خود تم لوگوں نے ، اور تمہارے باپ دادوں نے (اور بس) اللہ نے نہیں اتاری ان کے لئے کسی بھی طرح کی کوئی سند، فرمانروائی کا حق تو صرف اللہ ہی کے لئے ہے ، اس نے حکم فرمایا ہے کہ تم لوگ عبادت (و بندگی) نہیں کرو، مگر اسی (وحدہٗ لاشریک) کی، یہی ہے سیدھا راستہ، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ،

۴۱۔۔۔     (اب رہ گئی تمہارے خواب کی تعبیر تو) جیل کے میرے دونوں ساتھیو! (سنو، وہ اس طرح ہے کہ) تم میں سے ایک شخص تو (رہا ہو کر) اپنے آقا کو (حسب سابق) شراب پلائے گا، اور جو دوسرا ہے تو اسے (بہرحال) سولی پر چڑھا دیا جائے گا، پھر پرندے (نوچ نوچ کر) کھائیں اس کے سر سے ، فیصلہ چکا دیا گیا اس معاملے کا جس کے بارے میں تم دونوں مجھ سے پوچھ رہے تھے

۴۲۔۔۔     اور ان دونوں میں سے اس شخص سے جس کے بارے میں یوسف نے یہ گمان کیا تھا کہ وہ رہا ہو جائے گا، یہ کہا کہ اپنے آقا کے سامنے میرا ذکر بھی کر دینا، مگر شیطان نے اس کو اپنے آقا سے یوسف کا ذکر کرنا ایسا بھلایا کہ یوسف کو مزید کئی سال جیل میں رہنا پڑا

۴۳۔۔۔     ادھر (ایک روز) بادشاہ نے (اپنے درباریوں سے) کہا کہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ سات گائیں ہیں موٹی، جن کو کھا رہی ہیں سات دبلی گائیں ، اور سات با لیں ہیں ہری بھری، اور دوسری (سات) سوکھی (سڑی) دربار والو! مجھے تعبیر بتاؤ میرے اس (پریشان کن) خواب کی، اگر تم خوابوں کی تعبیر جانتے ہو،

۴۴۔۔۔     انہوں نے کہا (سرکار عالی مقام گھبرانے اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کہ) یہ تو یونہی پریشان خیالات ہیں ، اور ہم ایسے پریشان خیال کی تعبیر نہیں بتا سکتے ،

۴۵۔۔۔     اور ان دو قیدیوں میں سے جو رہا ہو گیا تھا، اور اسے ایک مدت کے بعد (یوسف کی وہ بات بھی) یاد آ گئ، اس نے کہا (فکر نہ کرو) میں آپ حضرات کو اس کی تعبیر بتا سکتا ہوں پس آپ مجھے بھیج دو

۴۶۔۔۔     (یوسف کے پاس جیل میں) (چنانچہ اجازت ملنے پر اس نے قید خانے میں پہنچ کر کہا) اے یوسف سراپا صدق (از راہ کرم و عنایت) ہمیں تعبیر بتا دیجئے اس خواب کی کہ سات موٹی گائیں ہیں جو کہ کھا رہی ہیں ساتھ دبلی گائیں ، اور سات با لیں ہیں ہری بھری اور دوسری (ساتھ) سوکھی (سڑی، جو ان پر لپٹی چڑھی ہیں) تاکہ میں ان لوگوں کے پاس واپس جا کر (ان کو بتا سکوں)، تاکہ وہ جان لیں ،

۴۷۔۔۔     یوسف نے (تعبیر کے ساتھ تدبیر بھی بتا دی اور) فرمایا تم لوگ لگا تار سات برس تک کھیتی باڑی کرتے رہو گے ، اور اس دوران جو فصل تم کاٹو اس کو اس کی بالوں ہی سے رہنے دینا، سوائے اس تھوڑے سے حصہ کے ، جو تم کو کھانے کے لئے درکار ہو

۴۸۔۔۔     پھر اس کے بعد سات برس ایسے سختی (اور قحط) کے آئیں گے ، جو کھا جائیں گے اس سب غلے کو جو کہ تم نے ان کے لئے جمع کر رکھا ہو گا، سوائے اس تھوڑے سے حصے کہ، جو کہ تم لوگوں نے محفوظ کر رکھا ہو گا،

۴۹۔۔۔     پھر اس کے بعد ایک سال ایسا آئے گا کہ اس میں ان لوگوں کے لئے خوب بارش برسے گی، اور اس میں یہ لوگ خوب رس نچوڑیں گے ،

۵۰۔۔۔     اور بادشاہ نے (یہ تعبیر سنتے ہی) کہا کہ اس شخص کو (فورا!) میرے پاس لے آؤ، مگر جب اس کا قاصد یوسف کے پاس پہنچا، تو آپ نے فرمایا کہ تم واپس جاؤ اپنے مالک کے پاس، اور اس سے پوچھو کہ کیا معاملہ ہے ان عورتوں کا جنہوں نے کاٹ ڈالا تھا اپنے ہاتھوں کو، (تاکہ لوگوں کے سامنے اصل حقیقت کھل جائے ورنہ) میرا رب تو یقیناً ان کی مکاری کو خوب جانتا ہے

۵۱۔۔۔      (اس پر) بادشاہ نے (ان عورتوں سے دریافت کرنے کے لئے) کہا کہ کیا معاملہ ہے تمہارا اے (ہماری اعلیٰ سوسائٹی کی) عورتو! جب کہ تم نے یوسف کو پھسلانے کی کوشش کی تھی، اس پر ان سب نے (ایک زبان ہو کر) کہا حاشا اللہ، ہم نے تو اس میں برائی کا کوئی شائبہ تک نہیں پایا اس موقع پر عزیز کی بیوی بول اٹھی کہ اب تو حق پوری طرح کھل چکا ہے (امر واقعہ یہ ہے کہ) میں نے ہی اس کو پھسلانے کی کوشش کی تھی، ورنہ یہ قطعی طور پر (اور ہر لحاظ سے) سچا ہے ،

۵۲۔۔۔      (یوسف نے کہا) یہ سب کچھ (میں نے) اس لئے کیا تاکہ وہ (عزیز) جان لے کہ میں نے اس سے کوئی خیانت (و بددیانتی) نہیں کی اس کی غیر موجودگی میں ، اور تاکہ (واضح ہو جائے یہ حقیقت کہ) اللہ چلنے نہیں دیتا خیانت کرنے والوں کی فریب کاریوں کو،

۵۳۔۔۔     اور میں برات نہیں کرتا اپنے نفس کی کہ یقیناً نفس کا تو کام ہی ہمیشہ برائی پر اکسانا ہے ، مگر جس پر رحم فرما دے میرا رب، بے شک میرا رب بڑا ہی بخشنے والا انتہائی مہربان ہے ۔

۵۴۔۔۔     (یہ سن کر) بادشاہ نے کہا کہ ان کو میرے پاس لے آؤ، تاکہ میں ان کو خالص اپنے لیے (مقرر) کر لوں ، پھر جب بادشاہ نے آپ سے بات چیت کی، تو اس نے کہا کہ اب آپ ہمارے یہاں بڑے معزز معتمد ہیں ، ٢ ف

۵۵۔۔۔      (پھر جب اس متوقع قحط سے نمٹنے کی بات چلی) تو یوسف نے کہا آپ مجھے ملک کے خزانوں پر مقرر (و مامور) کر لیں ، میں پوری پوری حفاظت بھی کروں گا اور میں پوری واقفیت بھی رکھتا ہوں (اس پر اس نے آپ کو پورے اختیارات سونپ دئیے)٣ ف

۵۶۔۔۔     اور اس طرح ہم نے یوسف کو اقتدار سے نواز دیا اس سرزمین میں ، اس میں آپ جہاں چاہیں رہیں سہیں ، ہم اپنی رحمت (و عنایت) سے نوازتے ہیں جس کو چاہتے ہیں اور ہم ضائع نہیں کرتے اجر نیکوکاروں کا،

۵۷۔۔۔      اور آخرت کا اجر تو یقینی طور پر کہیں بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جو (دولت) ایمان رکھتے ہیں ، اور وہ تقویٰ (پرہیزگاری) کی زندگی گزارتے ہیں ،

۵۸۔۔۔      اور آ پہنچے یوسف کے بھائی (قحط پڑنے پر کنعان سے مصر، غلہ لینے کی غرض سے) پھر وہ حاضر ہوئے آپ کی خدمت میں ، تو یوسف نے تو ان کو (فوراً) پہچان لیا، مگر وہ آپ کو نہ پہچان سکے ،

۵۹۔۔۔      اور جب آپ نے ان کا سامان تیار کرا دیا، تو ان سے فرمایا کہ (آئندہ آتے وقت) تم اپنے سوتیلے بھائی کو بھی میرے پاس لیتے آنا، کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں کس طرح پیمانہ بھر کر دیتا ہوں ، اور میں کیسا اچھا مہمان نواز ہوں

۶۰۔۔۔      اور اگر تم اس کو میرے پاس نہ لائے تو تمہارے لئے نہ تو میرے یہاں کوئی غلہ ہو گا اور نہ ہی تم میرے قریب پھٹکنا،

۶۱۔۔۔     انہوں نے کہا ہم اس کے بارے میں اس کے باپ سے مطالبہ کریں گے اور ہم یہ کام ضرور کریں گے ۔

۶۲۔۔۔      ادھر یوسف نے اپنے نوکروں سے یہ بھی کہہ دیا کہ ان کی پونجی (جس کے عوض انہوں نے مال حاصل کیا ہے وہ) بھی ان کے سامان میں واپس رکھ دو، تاکہ یہ اس کو پہچان لیں جب کہ یہ لوٹ کر اپنے گھر واپس پہنچیں ، تاکہ (اس سے متاثر ہو کر) یہ پھر آئیں ،

۶۳۔۔۔      پھر جب وہ واپس اپنے باپ کے پاس پہنچے تو کہنے لگے ، ابا جان (آئندہ کے لئے بن یامین کو اپنے ہمراہ نہ لے جانے کی صورت میں) ہمیں غلہ دینے سے انکار کر دیا گیا، لہٰذا آپ ہمارے ساتھ ہمارے بھائی (بن یامین) کو بھی بھیج دیجئے تاکہ ہم غلہ لا سکیں ، اور ہم اس کی پوری پوری حفاظت کریں گے ،

۶۴۔۔۔      باپ نے جواب دیا کیا میں اس کے بارے میں بھی تم پر ویسا ہی اعتماد کر لوں جیسا کہ اس سے پہلے اس کے بھائی کے بارے میں کر چکا ہوں ؟ پس اللہ ہی سب سے اچھا نگہبان ہے اور وہی ہے سب سے بڑا مہربان،

۶۵۔۔۔      اور جب انہوں نے کھولا اپنے سامان کو، تو دیکھا کہ ان کی پونجی بھی ان کو واپس لوٹا دی گئی ہے ، تو اس پر وہ سب پکار اٹھے ابا جان، ہمیں اور کیا چاہیے ، یہ دیکھئے ہماری پونجی بھی ہم کو واپس لوٹا دی گئی ہے ، اور (اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ ہم اپنے بھائی کو لے کر دوبارہ جائیں کہ) ہم اپنے گھر والوں کے لئے غلہ بھی لے آئیں گے اپنے بھائی کی حفاظت بھی کریں گے ، اور ہمیں ایک اونٹ کا بوجھ زیادہ بھی مل جائے گا، اور یہ بوجھ آسانی سے مل جائے گا،

۶۶۔۔۔      ان کے باپ نے کہا میں اس کو کسی قیمت پر بھی تمہارے ساتھ بھیجنے کے لئے تیار نہیں ہوں مگر صرف اس صورت میں کہ تم اللہ کے نام پر مجھ سے یہ پختہ عہد کرو، کہ تم اسے ضرور واپس لے آؤ گے ، مگر یہ کہ (خدانخواستہ) تم سب ہی گھیر لئے جاؤ، پھر جب ان سب نے ان کو اپنا پختہ عہد دے دیا تو یعقوب نے فرمایا اللہ گواہ ہے ان سب باتوں پر جو ہم کہہ رہے ہیں ،

۶۷۔۔۔      اور (چلتے وقت) یعقوب نے ان کو (نصیحت کے طور) پر یہ بھی کہہ دیا کہ میرے بیٹو (مصر کے دارالحکومت میں) تم سب ایک ہی دروازے سے اندر داخل نہ ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے جانا، (تاکہ نظر بد سے دور رہو، اور یہ بھی محض ایک ظاہری تدبیر ہے ورنہ) میں خدا کے حکم کے مقابلہ میں تمہیں کچھ بھی کام نہیں دے سکتا، حکم تو بس اللہ ہی کا ہے ، میرا بھروسہ بھی اسی پر ہے اور اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے ، سب بھروسہ کرنے والوں کو،

۶۸۔۔۔      چنانچہ جب وہ اپنے باپ کی نصیحت (و ہدایت) کے مطابق شہر میں داخل ہو گئے تو (باپ کی بتائی ہوئی) وہ تدبیر ان کے کچھ کام نہ آ سکی، سوائے اس کے کہ وہ یعقوب کے دل کی ایک خواہش تھی، جسے انہوں نے پورا کر لیا تھا (اور بس) اور بلاشبہ وہ بڑے علم والے تھے اس تعلیم کی بناء پر جو ہم نے ان کو دی تھی، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ،

۶۹۔۔۔      اور جب یہ لوگ یوسف کے حضور پہنچے تو انہوں نے (ملتے ہی) اپنے بھائی کو اپنے پاس بلا لیا (اور چپکے سے) ان کو بتا دیا کہ میں آپ کا بھائی (یوسف) ہوں ، پس اب آپ ان باتوں پر غم نہ کھائیں ، جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں ،

۷۰۔۔۔      پھر جب (روانگی کے وقت) یوسف نے ان کا سامان تیار کرایا تو اپنا پیمانہ اپنے بھائی کے سامان میں رکھوا دیا، پھر ایک پکارنے والے نے پکار کر کہا، اے قافلے والو (ٹھہرو) تم لوگ تو بڑے چور ہو،

۷۱۔۔۔     انہوں نے پلٹ کر پوچھا (کیوں صاحب) تمہاری کیا چیز کھو گئی ہے ؟

۷۲۔۔۔      سرکاری ملازموں نے کہا، ہمیں بادشاہ کا پیمانہ نہیں مل رہا اور (ان کے کمانڈر نے کہا کہ) جو شخص اسے لا کر دے گا، اسے ایک اونٹ کا بوجھ (بطور انعام) ملے گا، اور میں اس کا ذمہ دار ہوں

۷۳۔۔۔      وہ کہنے لگے ، خدا کی قسم آپ سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ نہ تو ہم اس ملک میں فساد پھیلانے آئے ہیں ، اور نہ ہم چوری کرنے والے لوگ ہیں ،

۷۴۔۔۔     انہوں نے پوچھا اچھا تو پھر کیا سزا ہو گی اس کی اگر تم جھوٹے ثابت ہو گئے ؟

۷۵۔۔۔      انہوں نے جواب دیا کہ اس کی سزا یہ ہے کہ جس کے سامان سے وہ (مسروقہ سامان) برآمد ہو، خود اسی کو اپنی سزا میں رکھ لیا جائے ، ہمارے یہاں تو ایسے ظالموں کو یہی سزا دی جاتی ہے ،

۷۶۔۔۔      تب یوسف نے (ان کی تلاشی لینی شروع کی اور) اپنے بھائی کے اسباب سے پہلے ان کے اسباب کی تلاشی شروع کی، آخر میں اسے اپنے بھائی کے اسباب سے برآمد کر لیا، اس طرح ہم نے یہ تدبیر کی یوسف کے لئے ، ورنہ آپ ایسے نہ تھے کہ اپنے بھائی کو پکڑتے بادشاہ کے دین میں ، مگر یہ کہ اللہ ہی ایسا چاہے ، ہم جس کے درجے چاہیں بلند کر دیتے ہیں ، مگر یہ کہ اللہ ہی ایسا ہے ، اور ہر علم والے سے اوپر ایک علم والا ہے ،

۷۷۔۔۔      کہنے لگے اگر اس نے چوری کی تو (یہ کوئی نئی بات نہیں کہ) اس سے پہلے اس کا ایک بھائی بھی چوری کر چکا ہے ، پھر بھی یوسف ان کی اس بات کو پی گئے ، اور حقیقت ان کے سامنے نہیں کھولی، بس (زیر لب) اتنا کہہ کر رہ گئے کہ تم بڑے ہی برے لوگ ہو، اور اللہ خوب جانتا ہے ، اس (الزام کی حقیقت) کو جو تم لوگ (میرے روبرو مجھ پر) لگا رہے ہو،

۷۸۔۔۔      کہنے لگے اے عزیز، اس کا باپ ایک بہت بوڑھا شخص ہے ، اس لئے آپ اس کی جگہ ہم میں سے کسی کو رکھ لیجئے ، ہم آپ کو بڑا ہی احسان کرنے والا دیکھ رہے ہیں ،

۷۹۔۔۔      اس نے جواب دیا اللہ کی پناہ کہ ہم اس کے سوا کسی اور کو پکڑیں ، جس کے پاس ہم نے اپنا مال پایا ہے ، ایسی صورت میں تو ہم بڑے ہی ظالم قرار پائیں گے ،

۸۰۔۔۔      آخرکار جب وہ اس سے بالکل مایوس ہو گئے ، تو باہم مشورہ کرنے کے لئے الگ بیٹھ گئے ، ان میں سے بڑے نے کہا، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ تمہارے باپ نے تم سے (اس کے واپس لانے کا) پختہ عہد لے رکھا ہے ، اور اس سے پہلے یوسف کے معاملہ میں جو قصور تم لوگ کر چکے ہو (وہ بھی تم سے کوئی ڈھکا چھپا نہیں) لہٰذا میں یہاں سے ہرگز واپس نہیں جاؤں گا، یہاں تک کہ میرے والد خود مجھے حکم دیں ، یا اللہ ہی میرے حق میں کوئی فیصلہ صادر فرما دے ، کہ وہی ہے سب سے بہتر فیصلہ فرمانے والا،

۸۱۔۔۔      تم جا کر اپنے والد سے کہو کہ اے ابا جان، یقین کیجئے کہ آپ کے صاحبزادے نے چوری کی ہے ، اور ہم وہی بیان کر رہے ہیں جو ہم نے خود دیکھا ہے اور ہم نہیں تھے غیب کی خبر رکھنے والے ،

۸۲۔۔۔      اور (مزید تسلی کے لئے) آپ پوچھ لیجئے اس بستی (کے باشندوں) سے ، جس میں ہم تھے اور اس قافلے سے بھی جس میں ہم آئے ہیں ، اور بلاشبہ ہم ہر طرح سے سچے ہیں ،

۸۳۔۔۔      (یہ سب داستان سن کر) یعقوب نے فرمایا (نہیں) بلکہ (پہلے کی طرح اس مرتبہ بھی) تمہارے نفسوں نے ہی تمہارے لئے ایک اور بات گھڑ لی ہے ، میں اس پر بھی صبر جمیل ہی سے کام لوں گا، بعید نہیں کہ اللہ ان سب کو ہی مجھ سے ملا دے ، کہ وہی ہے سب کچھ جانتا بڑا ہی حکمتوں والا،

۸۴۔۔۔      اور ان سے رخ پھیر کر آپ نے (درد بھرے انداز میں) کہا اے افسوس یوسف پر، اور ان کے غم سے (روتے روتے) آپ کی آنکھیں سفید پڑ گئیں ، اور آپ دل ہی دل میں گھٹے جا رہے تھے ،

۸۵۔۔۔      (یہ دیکھ کر) بیٹوں نے کہا اللہ کی قسم، آپ تو یوسف کو یونہی یاد کرتے رہیں گے ، یہاں تک کہ آپ جاں بلب ہو جائیں گے ، یا بالکل ہلاک ہی ہو جائیں گے ،

۸۶۔۔۔     یعقوب نے فرمایا میں تو بس اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اپنے اللہ کے حضور ہی کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جس کا علم تمہیں نہیں ۔

۸۷۔۔۔      میرے بیٹو، جاؤ اور جا کر کھوج لگاؤ (میرے) یوسف اور اس کے بھائی کا، اور مایوس (و نا امید) مت ہوؤ تم اللہ کی رحمت سے ، کہ اللہ کی رحمت سے مایوس اور (نا امید) تو صرف کافر لوگ ہی ہوا کرتے ہیں ،

۸۸۔۔۔      آخرکار جب وہ (ایک مرتبہ پھر مصر پہنچ کر) یوسف کی خدمت میں حاضر ہوئے ، تو عرض کیا، اے عزیز، ہمیں اور ہمارے گھر والوں کو (قحط کی وجہ سے) سخت تکلیف پہنچی ہے ، اور (اپنی ناداری کے سبب) ہم یہ حقیر سی پونجی لے کر حاضر ہوئے ہیں ، اس لئے آپ ہمیں پورا غلہ عنایت فرما دیں ، اور ہمیں خیرات (کے طور پر ہی) دے دیں ، بے شک خیرات کرنے والوں کو اللہ اپنی طرف سے بدلہ دیتا ہے ۔

۸۹۔۔۔     (یہ سن کر یوسف سے رہا نہ گیا، اور راز افشاء کرنے کے لیے بے اختیار ہو کر) آپ نے فرمایا وہ بھی تمہیں یاد ہے جو تم نے یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا تھا جب کہ تم جہالت کا شکار تھے ،

۹۰۔۔۔      وہ (چونک کر) بولے ہائیں ! کیا آپ واقعی یوسف ہی ہیں ؟ فرمایا ہاں ، میں یوسف ہوں اور یہ میرا (حقیقی) بھائی ہے ، اللہ نے ہم پر بڑا احسان فرمایا حقیقت یہ ہے کہ جو کوئی تقویٰ (و پرہیزگاری) کو اپنائے رکھے اور صبر سے کام لیتا رہے تو یقیناً اللہ ایسے نیکوکاروں کا اجر کبھی ضائع نہیں فرماتا،

۹۱۔۔۔      وہ (اپنے کئے پر نادم ہو کر) کہنے لگے اللہ کی قسم، اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت بخش دی اور کوئی شک نہیں کہ ہم بڑے ہی خطاکار تھے

۹۲۔۔۔      فرمایا (بے فکر رہو) اب تم پر کوئی الزام نہیں ، اللہ تمہیں معاف فرمائے اور وہی ہے سب سے بڑا مہربان

۹۳۔۔۔      یہ میرا کرتہ لے جاؤ اور اسے میرے والد کے چہرے پر ڈال دو، اس سے ان کی بینائی لوٹ آئے گی، اور تم لے آؤ میرے پاس اپنے سب گھر والوں کو

۹۴۔۔۔      اور (اس کے بعد) جب یہ قافلہ (مصر سے) روانہ ہوا تو ان کے باپ نے (کنعان میں) کہا کہ اگر تم لوگ مجھے دیوانہ قرار دینے لگو تو (میں تمہیں بتائے دیتا ہوں) کہ مجھے یوسف کی خوشبو محسوس ہو رہی ہے ،

۹۵۔۔۔      انہوں نے کہا اللہ کی قسم، آپ تو ابھی تک اپنے اسی پرانے خبط میں پڑے ہوئے ہیں ،

۹۶۔۔۔      پھر جب پہنچ گیا وہ خوشخبری لانے والا اور اس نے (حسب ہدایت) ڈال دیا اس کرتے کو آپ کے چہرے پر، تو (فوراً) لوٹ آئی آپ کی (کھوئی ہوئی) بینائی، اور آپ نے فرمایا کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جس کی تمہیں خبر نہیں ،

۹۷۔۔۔      (اس پر وہ سب کھسیانے ہو کر) کہنے لگے اے ہمارے ابا جان ہمارے گناہوں کی بخشش کے لئے دعا فرمائیے ، واقعی ہم بڑے ہی خطاکار تھے ،

۹۸۔۔۔      آپ نے فرمایا میں عنقریب ہی تمہارے لئے اپنے رب سے معافی کی درخواست کروں گا، بے شک وہی ہے جو سب سے بڑا بخشنے والا، انتہائی مہربان ہے ،

۹۹۔۔۔     پھر جب یہ سب لوگ یوسف کے پاس پہنچ گئے تو انہوں نے اپنے والدین کو اپنے ساتھ بٹھا لیا اور (ضروری بات چیت سے فراغت کے بعد سب سے) کہہ دیا کہ داخل ہو جاؤ آپ سب مصر میں انشاء اللہ سب امن و امان میں رہو گے

۱۰۰۔۔۔      اور (مصر میں داخلے کے بعد) یوسف نے اپنے والدین کو تخت پر اونچا بٹھایا، اور وہ سب کے سب (بے اختیار) آپ کے آگے سجدے میں گر پڑے ، تو اس پر آپ نے کہا ابا جان یہ ہے تعبیر میرے اس خواب کی جو میں نے پہلے دیکھا تھا، میرے رب نے اسے سچ کر دکھایا، اور اس نے بڑا احسان فرمایا مجھ پر کہ مجھے جیل سے نکالا، اور (مزید کرم یہ فرمایا کہ) آپ سب کو گاؤں سے (نکال کر میرے پاس یہاں) پہنچا دیا اس کے بعد کہ شیطان نے میرے اور میرے بھائیوں کے درمیان (ایسا) فساد ڈلوا دیا تھا (کہ عمر بھر ملنے کی توقع نہ تھی)، واقعی میرا رب جو بھی کچھ کرنا چاہتا ہے اس کے لئے بڑی لطیف تدبیر فرماتا ہے ، بلاشبہ وہی ہے سب کچھ جانتا، بڑا ہی حکمت والا

۱۰۱۔۔۔     (پھر یوسف نے مالک حقیقی کی طرف متوجہ ہو کر عرض کیا) اے میرے رب، تو نے ہی مجھے حکومت بخشی اور مجھے باتوں کی تہہ تک پہنچنا سکھایا، آسمانوں اور زمین کے بنانے والے ، تو ہی میرا کارساز ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی (پس دنیا کی طرح میری آخرت بھی بنا دے کہ جب دنیا سے اٹھائے تو) میرا خاتمہ اسلام پر فرما، اور مجھے خاص نیک بندوں کے ساتھ شامل فرما دے ،

۱۰۲۔۔۔      (اے پیغمبر) یہ غیب کی کچھ خبریں ہیں جو ہم آپ کو بذریعہ وحی بتاتے ہیں ، ورنہ آپ ان (برادران یوسف) کے پاس اس وقت موجود نہیں تھے ، جب کہ وہ آپس میں اتفاق کر کے سازش پکا رہے تھے ،

۱۰۳۔۔۔      اور آپ خواہ کتنا ہی چاہیں لوگوں کی اکثریت ایمان لانے والی نہیں ،

۱۰۴۔۔۔      اور آپ (تبلیغ حق کے) اس کام پر ان لوگوں سے کسی بھی طرح کا کوئی اجر نہیں مانگتے ، یہ تو محض ایک ایسی عظیم الشان نصیحت ہے جو سارے جہانوں کے بھلے کے لئے (بھیجی گئی) ہے

۱۰۵۔۔۔      اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن پر ان لوگوں کا گزر ہوتا رہتا ہے ، مگر یہ ان کے بارے میں کوئی غور نہیں کرتے ،

۱۰۶۔۔۔     اور اس سب کے باوجود اکثر لوگ خدا کو مانتے بھی ہیں تو بھی شرک کرتے ہوئے

۱۰۷۔۔۔      تو کیا پھر بھی یہ لوگ نڈر (دبے خوف) ہو گئے اس بات سے کہ آ دبوچے ان کو اللہ کے عذاب سے کوئی ایسی ہولناک آفت جو چھا جائے ان سب پر (ہر طرف سے)، یا آ پہنچے ان پر قیامت کی وہ گھڑی، ایسی اچانک کہ ان کو خبر تک نہ ہو،

۱۰۸۔۔۔      کہہ دو (ان سے اے پیغمبر) کہ یہ ہے میرا راستہ، میں بلاتا ہوں اللہ کی طرف، (روشنی اور) بصیرت پر قائم ہوں میں بھی، اور وہ سب بھی جنہوں نے میری پیروی کی، اور پاک ہے اللہ (ہر نقص و عیب اور ہر شائبہ شرک سے)، اور میرا کوئی لگاؤ نہیں مشرکوں سے

۱۰۹۔۔۔      اور نہیں بھیجا ہم نے آپ سے پہلے (اے پیغمبر!) کسی کو بھی رسول بنا کر بجز مردوں کے ، ان بستیوں کے باشندوں میں سے ، تو کیا چلے پھرے نہیں یہ لوگ (عبرتوں بھری) اس زمین میں ، تاکہ یہ دیکھ لیتے کہ کیسے ہوا انجام ان لوگوں کا، جو گزر چکے ہیں ان سے پہلے ، اور آخرت کا (وہ عظیم الشان اور بے مثال) گھر تو یقیناً کہیں بہتر ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے (زندگی بھر) اپنائے رکھا تقویٰ (و پرہیزگاری) کو، تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ،

۱۱۰۔۔۔      (ان لوگوں کو بھی بڑی بڑی مہلتیں دی گئیں) یہاں تک کہ جب مایوس ہونے لگے ان کے پیغمبر، اور یہ لوگ گمان کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا، تو (یکایک) آ پہنچی ان کو ہماری مدد، پھر بچا لیا گیا (عذاب سے) جس کو ہم نے چاہا، اور ٹالا نہیں جا سکتا ہمارا عذاب ایسے مجرم لوگوں سے ،

۱۱۱۔۔۔      بلاشبہ ان (پہلی امتوں) کے قصوں میں بڑا سامان عبرت ہے ، عقل خالص رکھنے والوں کے لئے یہ (قرآن) کوئی ایسا کلام نہیں ، جسے خود گھڑ لیا جائے بلکہ یہ تو عین تصدیق ہے ان (آسمانی) کتابوں کی، جو اس سے پہلے آ چکی ہیں ، اور اس میں (ضرورت کی) ہر چیز کی تفصیل ہے اور یہ سراسر ہدایت اور عین رحمت ہے ان لوگوں کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں ۔

تفسیر

۱۔۔۔     سو یہ کتاب حکیم کھول کر بیان کرنے والی ہے حق اور حقیقت کو صحیح اور غلط کو، جائز اور ناجائز کو اور یہ کہ اس کائنات کے خالق و مالک کی صفات کیا ہیں اور اس کے حقوق و اختیارات کیا ہیں۔ اس کے حقوق کو ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے۔ اور اس کا صلہ و ثمرہ کیا ملنے والا ہے۔ اور اس میں غفلت ولا پرواہی برتنے والوں کا نتیجہ و انجام کیا؟ اور یہ کہ صحیح عقائد کیا ہیں اور غلط و باطل کیا؟ اور یہ کہ انفرادی اور اجتماعی زندگی کی صحت و سلامتی اور اس کی بہتری کے اصول و قواعد کیا ہیں وغیرہ وغیرہ غرضیکہ یہ اور صرف یہی کتاب مبین ہے جو انسان کو کامل راہنمائی سے نوازتی ہے، اس کے پیدا ہونے سے لیکر اس کی موت تک اس کی صبح سے لے کر شام تک، اور اس کی شام سے لیکر صبح تک، اس کے آغاز سے لیکر اس کی انتہا تک، اس کی دنیا و آخرت اور برزخ تک کے تمام ہی ادوار و مراحل سے متعلق انسان کی راہنمائی کرتی ہے، اور کامل راہنمائی کرتی ہے۔ اور راہنمائی بھی ایسی جو کہ عقل و فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے، اور اس پوری کائنات میں اس شان، اور اس نوعیت کی صرف اور صرف یہی کتاب ہے، اور یہ پیش فرمائی اس نبی امی نے جس نے پوری زندگی میں کبھی کسی انسان سے ایک حرف بھی نہیں پڑھا۔ سو اس اعتبار سے یہ کتاب مبین عظیم الشان دلیل ہے اپنی صداقت و حقانیت کی، اور اپنے پیش کرنے والے پیغمبر کی صداقت و حقانیت کی۔ سو یہ سراسر حق و صدق، ہدایت و نور، اور رحمت ہی رحمت ہے، والحمد للہ ربّ العالمین

۵۔۔۔     ایسا کھلا دشمن کہ اس نے بنی آدم سے اپنی دشمنی کا اعلان و اظہار حضرت رب العالمین کے سامنے کر دیا تھا، اور صاف و صریح طور پر کر دیا تھا۔ اور قسم کھا کر کہہ دیا تھا، کہ میں ان سب کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا۔ تاکہ یہ امر واضح ہو جائے کہ میں نے جو آدم کو سجدہ نہیں کیا تھا تو ٹھیک نہیں کیا تھا۔ پس تیرے خاص ایماندار بندوں پر تو میرا زور نہیں چلے گا لیکن باقی سب کو میں گمراہ کر کے، اور بہکا و بھٹکا کر رہوں گا، سو ایسے عدوّ مبین (کھلے دشمن) سے تم لوگوں کو بہرحال محتاط اور چوکنا رہنا چاہیے، کہ کہیں وہ اپنی اس عداوت و دشمنی کی بنا پر تمہارے بھائیوں کو تمہارے خلاف نہ اکسائے۔ اور ان کو حسد میں مبتلا کر کے تمہارے خلاف کھڑا نہ کر دے گا۔ لہٰذا تم اپنا یہ خواب ان کو نہ سنانا، سو یہ حضرت یعقوب کی طرف سے ایک تدبیری ہدایت تھی جو انہوں نے حضرت یوسف کو اس موقع پر فرمائی۔

۶۔۔۔     پس وہ جو بھی کچھ کرتا ہے کمال علم و حکمت کی بناء پر ہی کرتا ہے وہ علیم بھی ہے، اور حکیم بھی، اور یہ شان اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی کی نہ ہے، اور نہ ہو سکتی ہے، نعمت سے یہاں پر مراد دین و شریعت کی نعمت ہے جو کہ اصل اور حقیقی نعمت ہے دنیا کی دوسری تمام ظاہری اور مادی نعمتوں کا نعمت ہونا ایک امر اضافی ہے، اگر دین و ایمان کی نعمت نصیب ہو گئی تو یہ دنیاوی نعمتیں بھی نعمت بن جائیں گی ورنہ یہ عذاب کا باعث بن جائیں گی۔ والعیاذُ باللہ سو حضرت یعقوب نے حضرت یوسف سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسی طرح تم پر اپنی نعمت کی تکمیل اور اس کا اتمام فرمائے گا جیسا کہ وہ اس سے پہلے اس کی تکمیل و اتمام تمہارے اجداد ابراہیم اور اسحاق پر فرما چکا ہے، علی نبینا و علیہم الصلوٰۃ والسلام

۷۔۔۔      یعنی ایسی عظیم الشان نشانیاں جو واضح کرتی ہیں کہ غلبہ بہرحال حق ہی کا ہوتا ہے۔ جبکہ حق والے صحیح طور پر راہ حق پر مستقیم و ثابت قدم رہیں، نیز یہ نشانیاں ہیں اس امر کی کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی بہتری کے لئے بڑی باریک بینی سے تدبیر فرماتا ہے، جیسا کہ حضرت یوسف کے اس قصے سے ظاہر اور واضح ہے، نیز یہ نشانیاں ہیں اس امر کی کہ ہر مظلومیت نے بہرحال آخرکار ختم ہو جانا ہوتا ہے، اور ہر اندھیرے کے بعد روشنی نے آنا ہوتا ہے اور ہر تنگی کے بعد آسانی ہے، پس حضرت یوسف سے متعلق اس قصے کو محض داستاں سرائی کے لئے نہ پڑھا جائے۔ بلکہ عبرت و بصیرت کی غرض سے پڑھا جائے، تاکہ سبق ملے، اور راہ حق نصیب ہو، وباللہ التوفیق

۹۔۔۔      یعنی یہ لفظ یہاں پر صالح بن جانے کے معنی میں نہیں۔ بلکہ صلاح احوال کے معنی میں ہے۔ یعنی یہ کہ جب تم یوسف کو قتل کر دو گے، یا اس کو کسی دور افتادہ زمین میں ڈال دو گے، تو اس کے بعد تمہارا کام ٹھیک ہو جائے گا کہ جو کانٹا تمہارے دلوں میں چبھ رہا ہے وہ نکل جائے گا، اور باپ کی ساری توجہ تمہاری طرف مبذول ہو جائے گی جو کہ تمہارا اصل مقصد ہے، سو حضرت یوسف کے بھائیوں نے اپنی پریشانی کو دور کرنے اور یوسف کو راستے سے ہٹانے کے لئے یہ طریقہ سوچا اور اس کے لئے انہوں نے یہ سکیم بنائی۔ بعض لوگوں نے وَتَکُوْنُوْا مِنْ بَعْدِہٖ قَوْمًا صَالِحِیْنَ کے جملے کا یہ مطلب لیا ہے کہ اس جرم کا ارتکاب کر لینے کے بعد تم پھر نیک بن جانا۔ لیکن اس جملہ کے یہ معنی یہاں پر کسی بھی طرح نہیں بن سکتے۔ دوسرے پہلوؤں سے قطع نظر اس کی نحوی ترکیب ہی اس مفہوم و مطلب کا انکار کر رہی ہے۔ کیونکہ اس کا عطف سابق جواب امر پہ ہے۔ اور معطوف کا وہی حکم ہوتا ہے جو کہ معطوف علیہ کا ہوتا ہے سو اس صورت میں اس کا یہ معنی و مطلب بن ہی نہیں سکتا۔ جیسا کہ ظاہر ہے۔ پس اس کا صحیح معنی و مطلب وہی ہے جو ہم نے ابھی عرض کیا، والحمدللّٰہ جَلَّ وَعَلَا بِکُلِّ حالٍ مِّن الاحوال

۱۲۔۔۔   یعنی اپنی اس قرار داد کے مطابق برادران یوسف نے اپنے والد سے حضرت یوسف کو اپنے ساتھ کھیلنے کودنے، اور جنگل کی سیر، کے لئے بھیجنے کا مطالبہ کیا۔ یَرْتَعْ وَیَلْعَبْ کا لغوی مفہوم ہے چَر چُگ لے۔ اور کھیل کود لے۔ سو یہ لفظ پکنک منانے کی بڑی عمدہ اور خوبصورت تعبیر ہے۔ اور پکنک کی آج کی طرح اس دور میں بھی بڑی اہمیت تھی۔ سو برادران یوسف نے اپنی طے کردہ سکیم کے مطابق یوسف کو اپنے ساتھ لے جانے کے لئے بڑے خیر خواہانہ انداز میں اپنے باپ سے کہا کہ ابا جان، یہ کیا بات ہے کہ آپ یوسف کے بارے میں ہم پر اعتماد نہیں کرتے؟ کل ہم لوگ سیر و تفریح کے لئے اور پکنک منانے کی غرض سے باہر جا رہے ہیں۔ تو آپ یوسف کو بھی ہمارے ساتھ بھیج دیں تاکہ یہ بھی ہمارے ساتھ اس پروگرام میں شریک ہو کر سیر و تفریح سے لطف اندوز ہو سکے۔ اور ان کے بارے میں آپ پوری طرح مطمئن رہیں، کہ ہم بہرحال ان کی پوری طرح حفاظت کریں گے۔

۱۳۔۔۔   حضرت یعقوب نے ان کے اس مطالبے کے جواب میں دو عذر پیش کئے، ایک یہ کہ مجھے یہی بات غم میں ڈالنے والی ہے کہ تم میرے اس نور نظر کو مجھ سے دور لے جاؤ، اور دوسرے یہ کہ مجھے اس بات کا خدشہ و اندیشہ ہے کہ اس کو کہیں کوئی بھیڑیا پھاڑ کھائے جبکہ تم اس سے غافل ہوؤ، معلوم ہوتا ہے کہ اس علاقے میں بھیڑیوں کی کثرت تھی، اور ان کے حملوں کی وارداتیں ہوتی رہتی تھیں۔ اس لئے حضرت یعقوب نے اپنے اس اندیشہ کا اظہار فرمایا۔ سو یہاں سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبر عالم غیب نہیں ہوتے۔ ورنہ حضرت یعقوب اپنے بیٹوں کی اس سازش کو جو انہوں نے باہم مل کر پکائی تھی ان کے سامنے ظاہر کر دیتے۔ کہ تم کو شرم نہیں آتی کہ تم آپس میں یہ سازش پکانے کے بعد آکر مجھ سے اس طرح کی باتیں کرتے ہو، اور اس کے بعد آپ حضرت یوسف کو ان کے ساتھ کبھی نہ بھیجتے۔ لیکن آنجناب نے اس مطالبے کے جواب میں اس طرح کی کوئی بھی بات نہیں کہی، اور مزید یہ کہ آپ نے حضرت یوسف کو بھی ان کے ساتھ بھیج دیا۔ اور جب پیغمبر اور حضرت یعقوب جیسے عظیم الشان اور جلیل القدر پیغمبر بھی غیب نہیں جانتے، جو کہ خود پیغمبر، پیغمبر کے باپ، پیغمبر کے بیٹے، اور پیغمبر کے پوتے، اور بیٹے اور پوتے بھی حضرت اسحاق اور حضرت ابراہیم جیسے جلیل القدر پیغمبروں کے، وہ بھی اگر بایں ہمہ عظمت شان اور جلالت قدر غیب نہیں جانتے، تو پھر اور کون ہو سکتا ہے جو غیب جانتا ہو؟ سو اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کتنے گمراہ اور کس قدر بہکے بھٹکے ہیں وہ لوگ جو پیروں فقیروں تک کو عالم غیب مانتے ہیں۔ اور بعض بدبخت تو اس سلسلہ میں اس قدر غلو سے کام لیتے ہیں، اور کھلم کھلا اور اعلانیہ کہتے ہیں کہ پیر جانتا ہے کہ اس کی قبر پر چڑا بیٹھا ہے یا چڑیا، وغیرہ وغیرہ، والعیاذُ باللہ العظیم، نیز اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتے۔ جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا اور ماننا ہے۔ کیونکہ ایسی کوئی بات اگر ہوتی تو حضرت یعقوب کو حضرت یوسف سے متعلق اس طرح کوئی خدشہ و اندیشہ نہ ہوتا۔ اور جب حضرت یعقوب جیسے جلیل القدر پیغمبر بھی مشکل کشا نہیں۔ اور وہ اپنے بیٹے کے کبھی کچھ کام نہیں آ سکتے، اور وہ بھی اپنی زندگی میں، تو پھر اور کون ہے جو مافوق الاسباب کسی کی مشکل کشائی کر سکے۔ اور وہ بھی مرنے کے بعد؟سو حضرت یوسف کے اس قصے سے اسطرح کے تمام شرکیہ عقائد، اور مشرکانہ نظریات کی جڑ نکل جاتی جاتی ہے، والحمدللہ جل وعلا،

۱۹۔۔۔    سو ان لوگوں کو جب کنویں سے ایسا خوبصورت بچہ مل گیا تو وہ خوشی سے چلا اٹھے، کیونکہ اس دور میں بردہ فروشی کا عام رواج تھا۔ اس لئے وہ اس کو دیکھ کر خوش ہو گئے کہ اس کو بیچ کر خوب نفع کمائیں گے، اور پھر اس خیال سے کہ کہیں دائیں بائیں سے اس کا کوئی وارث۔ یا مدعی نہ اٹھ کھڑا ہو۔ انہوں نے اس بچے کو ایک عمدہ مال تجارت کے طور پر چھپا کر رکھنے کی کوشش کی کہ کسی کو پتہ نہ چلنے پائے۔ لیکن وہ جو کچھ کر رہے تھے اللہ اس کو پوری طرح جانتا تھا وہ لوگ تو اپنی سکیم پوری کر رہے تھے۔ لیکن اللہ ان کے ذریعے اپنی سکیم کی تکمیل کروا رہا تھا۔ وہ لوگ تو اس بات پر خوش ہو رہے تھے کہ ان کو ایک ایسا عمدہ غلام مل گیا جس کو بیچ کر وہ خوب پیسے کمائیں گے، لیکن اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ یوسف کی یہ غلامی ان کے لئے مصر کی بادشاہی کی تمہید ثابت ہو، اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَاءُ ۔

۲۰۔۔۔    یعنی مصر پہنچنے پر ان لوگوں نے حضرت یوسف کو ایک حقیر سی قیمت یعنی گنتی کے کچھ درہم کے عوض بیچ دیا۔ کیونکہ انہوں نے ان کے حاصل کرنے پر کچھ دام خرچ تو کئے نہیں تھے کہ اس پر وہ کچھ زیادہ حاصل کرنے کی فکر و کوشش کرتے۔ بلکہ انہوں نے ان کو مفت پایا تھا۔ اور مفت را چہ گفت، کے مطابق انہوں نے ان کو یونہی اونے پونے میں بیچ دیا۔ ان کو کیا خبر تھی کہ جس لڑکے کو وہ بیچ رہے ہیں وہ ابراہیم و اسحاق کی آل میں سے۔ اور خانوادہ یعقوبی کا چشم و چراغ ہے۔ بہت جلد ملک مصر کی پوری بادشاہی اس کے انگوٹھے کے نیچے آنے والی ہے۔ سو جب وہ نہ ان باتوں میں سے کسی بات سے واقف و آگاہ نہ تھے۔ اور نہ ہی انہوں نے یوسف کے حصول کے لئے کوئی روپیہ پیسہ خرچ کیا تھا تو انہوں نے تو ان سے بے رغبت اور لا پرواہ ہونا ہی تھا۔

۲۱۔۔۔   اور اپنی جہالت اور لاعلمی کی بناء پر وہ نہ حق اور حقیقت کو جان سکتے ہیں اور نہ ہی ان کو اللہ تعالیٰ کی سکیموں کے بارہ میں کوئی علم و آگہی ہو سکتی ہے، ان کی نگاہیں تو صرف ظاہر پر ہوتی ہیں اور بس، لیکن اللہ اپنے معاملے پر غالب ہے اس نے جو کرنا ہوتا ہے کر کے رہتا ہے۔ اور اس طور پر کہ ان ظاہر بیں اور ظاہر پرست لوگوں کو اس کا کوئی شعور و احساس ہی نہیں ہوتا۔

۲۲۔۔۔   سو احسان وسیلہ سرفرازی ہے، پس جن لوگوں کی نیتیں اور ارادے بھی درست ہوتے ہیں۔ اور ان کا عمل و کردار بھی صحیح ہوتا ہے۔ تو وہ حضرت واہب مطلق جَلَّ مَجْدہٗ کی خاص عنایات کے مستحق اور سزاوار ہوتے ہیں۔ حضرت یوسف کے لئے جس علم اور حکم کا یہاں پر ذکر فرمایا گیا ہے یہ دراصل تعبیر ہے نبوت سے نوازنے کی۔ سو علم سے مراد ہے، علم نبوت، اور حکم سے مراد ہے قوت فیصلہ اور حکومت، آنجناب کو ان دونوں سے ہی نوازا گیا تھا، اور اتنے درجہ پر اور اس شان سے نوازا گیا تھا جو کہ حضرات انبیاء کرام کی شان کے لائق ہوتا ہے،

۲۴۔۔۔   ۱: برہان رب سے مراد ایمان و یقین کا وہ نور ہے جس سے حضرت یوسف کو بطور خاص نوازا گیا تھا اور جس کی اساس وہ نور الٰہی ہوتا ہے جس سے قدرت نے اپنی رحمت و عنایت سے ہر شخص کو سرفراز فرمایا ہوتا ہے اور جو انسان کے لئے خیر و شر کے درمیان فرق و تمیز کا ذریعہ ہوتا ہے، اور جو انسان کو خیر پر ابھارتا اور شر سے روکتا ہے، یہ نور فطرت ہوتا تو ہر انسان کے اندر ہے۔ لیکن سنت الٰہی اور دستور خداوندی یہ ہے کہ جو لوگ اس کی قدر کرتے، اور اس کی حفاظت کا اہتمام کرتے ہیں وہ ان کے اندر قوی سے قوی تر ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اتنا قوی ہو جاتا ہے کہ سخت ابتلاء و آزمائش کے مواقع پر بھی انسان کو نفس و شیطان کے فتنوں سے محفوظ رکھتا ہے سو حضرت یوسف کے ایمان و یقین کی اسی قوت نے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان کو اس آزمائش میں بچا لیا اور آپ اس عورت کے اس فتنے سے محفوظ رہ گئے، سو اگر یہ چیز آنجناب کے اندر نہ ہوتی تو آپ بھی اس کی طرف جھک جاتے۔ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ سَلَّمَ، سبحانہ و تعالیٰ

۲:  یعنی چونکہ وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا اس لئے ہم نے ابتلاء و آزمائش کے اس خاص موقع پر برائی اور بے حیائی کو ان سے دور کر دیا۔ سو اللہ تعالیٰ جن حضرات کو اپنے کار خاص کی ادائے گی کے لئے چنتا اور منتخب فرماتا ہے ان کو وہ بطور خاص ہر قسم کی برائی اور بے حیائی سے محفوظ رکھتا ہے۔ اور ان کو ایسی برہان سے نوازتا ہے جو ایسے ہر موقع پر ان کی حفاظت کرتی ہے۔ برہان دراصل واضح دلیل اور مسکت حجت کو کہا جاتا ہے۔ اور اس سے بڑھ کر واضح دلیل اور مسکت حجت اور کیا ہو سکتی ہے جو خود انسان کے اندر موجود ہو؟ اور وہ اس کے اندر اس کو حق کے لئے ابھارتی اور غلط روی سے روکتی ہو؟ سو اس سے یہ حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ حضرات انبیاء کرام بعثت و نبوت سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ کی خاص حفاظت و پناہ میں ہوتے ہیں۔ نیز اس سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ حضرات انبیاء کرام کی عصمت اور انکی حفاظت کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ان سے معصیت کی قوت و صلاحیت ہی سلب کر لی جاتی ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ایسی خاص حفاظت و پناہ میں ہوتے ہیں جس سے ان کا نور فطرت و وجدان پختہ سے پختہ اور اتنا قوی اور اس قدر مضبوط ہوتا ہے کہ وہ ابتلاء و آزمائش کے سخت سے سخت مواقع میں بھی ان کی حفاظت کرتا ہے، اور ان کو راہ راست سے ذرہ برابر ہٹنے نہیں دیتا۔ اور وہ ہمیشہ اپنے رب کی رضا و خوشنودی کی راہوں پر مستقیم اور ثابت قدم ہوتے ہیں۔

۲۹۔۔۔   سو مقدمے کی صورت یہ بن گئی کہ حضرت یوسف جو فی الواقع سچے اور بے قصور تھے انہوں نے کہا کہ میرا اس میں کوئی قصور نہیں، بلکہ اس عورت ہی نے مجھ پردست درازی کی جبکہ عورت نے الٹا حضرت یوسف پر الزام لگایا کہ سب قصور یوسف کا ہے۔ موقع کا کوئی گواہ موجود نہیں تھا۔ تو اس موقع پر قرینے کی شہادت پر اعتماد کرنے کے لئے ایک شخص نے کہا کہ حضرت یوسف کے کرتے کو دیکھا جائے کہ اگر وہ آگے سے پھٹا ہوا تو یوسف جھوٹے اور یہ عورت سچی، کیونکہ کرتے کا آگے سے پھٹنا اقدام کی علامت ہے۔ لیکن اس کے برعکس اگر ان کا کرتہ پیچھے سے پٹھا ہوا ہو تو یوسف سچے اور یہ عورت جھوٹی، کیونکہ کرتے کا پیچھے سے پھٹنا اس بات کی علامت ہے کہ وہ بھاگ رہے تھے۔ اور اس عورت نے ان کا تعاقب کیا تھا۔ اور ان کو پیچھے سے جا پکڑا تھا، اس شاہد سے مراد کون ہے؟ اور یہ کون اور کیسا شخص تھا؟ تو بعض روایات کے مطابق یہ پنگوڑھے میں پڑا ایک بچہ تھا جبکہ بعض کے نزدیک یہ کوئی بڑا زیرک اور سمجھدار شخص تھا۔ جو بھی ہو بات بہرحال معقول اور دل کو لگنے والی تھی۔ اور اگر یہ بات ایک چھوٹے بچے کی طرف سے تھی تو اس میں قرینے کے ساتھ ساتھ حضرت یوسف کے لئے معجزانہ تائید کا پہلو بھی شامل تھا پھر جب کرتے کو دیکھا گیا تو وہ پیچھے سے پھٹا ہوا تھا۔ جس سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ اس قصے میں حضرت یوسف سراسر سچے تھے۔ اور قصور سب کا سب اس عورت ہی کا تھا، اس لئے عزیز نے یوسف سے درگزر کرنے کو کہا۔ اور عورت کو گناہ کی معافی مانگنے کے لئے یہاں پر اس سے متعلق اور بھی بڑی عبرت انگیز اور سبق آموز باتیں ہیں جو ہم نے اپنی تفسیر المدنی الکبیر میں ذکر کی ہیں۔ شوق رکھنے والے حضرت اسی کی طرف رجوع کر لیں، کہ اس میں کئی اہم درسہائے عبرت بصیرت ہیں۔ وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی مایُحِبُّ ویرید،

۳۱۔۔۔    اَکْبَرْنَ اِکْبَار سے ماخوذ و مشتق ہے جس کے معنی کسی کو بہت بڑا سمجھنے، اور دل میں اس کی عظمت اور بڑائی کے قائل ہو جانے کے ہیں۔ سو ان عورتوں نے جب حضرت یوسف کے نورانی چہرے کو دیکھا تو وہ مبہوت اور ششدر ہو کر رہ گئیں۔ سیرت و اخلاق کی پاکیزگی بجائے خود ایک دلربا چیز ہے۔ لیکن جب یہ ایک پیکر حسن و جمال کے اندر پائی جائے تو اس کی دلربائی اور کشش دو چند ہو جاتی ہے۔ سو ان عورتوں نے جب تقدس اور پاکیزگی کے ایک پیکر قدسی کو اپنے سامنے کھڑا دیکھا، تو وہ بے ساختہ پکار اٹھیں کہ یہ کوئی انسان نہیں بلکہ ایک بڑا ہی پاکیزہ اور بزرگ فرشتہ ہے۔ سو اس سے اس عظمت شان کا اندازہ کیا جا سکتا ہے جو حضرت یوسف کے اس پتلۂ عفت و پاکدامنی کے اندر موجود تھی، اور جو ایک ہی نظر ڈالنے سے ان عورتوں کے دل و دماغ پر قائم ہو گئی۔ والحمد للہ جل وعلا، وبہ التوفیق، سبحانہ و تعالیٰ

۳۲۔۔۔   سو اس موقع پر عزیز کی بیوی نے ان عورتوں سے کہا کہ یہی ہے وہ شخص جس کے بارے میں تم مجھے لعنت ملامت کر رہی تھیں اب تم ہی بتاؤ کہ ایسے میں میں اس کے علاوہ اور کیا کرتی؟ اور پھر اس نے اس کے ساتھ ہی حضرت یوسف کو نئے سرے سے دھمکی بھی دے دی، کہ یہ یوں نہ سمجھ لے کہ اب مجھ سے بچ گیا، بلکہ میں اس کو وارننگ دیتی ہوں کہ اگر اس نے میری بات نہ مانی۔ اور میری خواہش پوری نہ کی تو اس کو جیل کی ہوا بہرحال کھانی پڑے گی، اور اس کو ذلیل و خوار لوگوں میں سے ہونا پڑے گا۔ سو یہاں سے حضرت یوسف کے ابتلاء و آزمائش کا ایک نیا دور ہو گیا کہ ہوس کی محبت اب اپنی ناکامی کا انتقام لینے کے درپے ہو گئی تھی۔ اور وہ بھی اس صورت اور اس ماحول میں جبکہ وہاں کے آقاؤں کو اپنے غلاموں پر غیر محدود اختیارات حاصل تھے، وہ ناراض ہونے کی صورت میں جیل بھجوانے سمیت جو انتقام چاہیں ان سے لے سکتے تھے، اور پھر یہاں تو معاملہ اور بھی سنگین تھا کہ یہ معاملہ ایک اعلیٰ سرکاری عہدیدار کی بیگم صاحبہ کا تھا۔ کسی کی کیا مجال تھی کہ اس میں مزاحم ہو سکے؟

۳۳۔۔۔   سو اس سے حضرت یوسف کی عظمت شان اور انکی عفت و پاکدامنی کا ایک اور نمونہ و مظہر سامنے آتا ہے کہ آنجناب نے زلیخا کی دھمکی سے مرعوب ہو کر اس کی خواہش پوری کرنے کے مقابلے میں جیل کی بیڑیوں کو بسا غنیمت سمجھا۔ اور اس کے لئے فورا اپنے رب کے حضور دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیا۔ اور عرض کیا کہ پروردگار! جس چیز کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں اس کے مقابلے میں جیل مجھے کہیں زیادہ محبوب اور عزیز ہے اور اگر تو نے ان کے مکر و فریب کو مجھ سے نہ پھیرا تو میں ان کی طرف مائل ہو کر جاہلوں میں سے ہو جاؤں گا۔ سو اس سے اس بات کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ قدسی صفت حضرات کے نزدیک عفت و پاکدامنی کی دولت کس قدر عظیم الشان دولت ہے۔ اللہ نصیب فرمائے۔ اور بدرجہ تمام و کمال نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین

۳۴۔۔۔   حضرت یوسف کی یہ دعا چونکہ صدق دل سے تھی اور اپنے بس کی حد تک پوری طرح صبر و استقامت دکھانے کے بعد تھی۔ جس کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ آنجناب ان بیگمات کی پیدا کی ہوئی پر فتن زندگی کے مقابلے میں جیل کی پر محن زندگی کو اپنانے پر راضی ہو گئے۔ اور بندہ جب اس حد تک صبر و استقامت دکھانے کے بعد اپنے آپ کو اپنے رب کے آگے ڈال دیتا ہے، اور اس سے مدد مانگتا ہے تو وہ اس کی دعا کو ضرور قبول فرماتا ہے کہ وہ ہر کسی کی دعا و پکار کو سنتا اور سب کچھ جانتا ہے، سو حضرت یوسف کی اس دعا کو بھی فوری قبول فرما لیا گیا۔ اور آنجناب کو شیطان کے ان نسوانی پھندوں سے نجات مل گئی۔ اور آپ پوری طرح ان کے شرور و فتن سے محفوظ ہو گئے۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید۔ وعلیٰ مایحب ویرید، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ،

۳۶۔۔۔    سو حضرت یوسف کے ساتھ جیل میں داخل ہونے والے ان دونوں ساتھیوں نے آنجناب کے علم و تقوی سے متاثر ہو کر ان کے سامنے اپنے اپنے خواب پیش کئے۔ یہ دونوں ساتھی کون تھے؟ اس بارہ میں قرآن حکیم میں کوئی تصریح نہیں فرمائی گئی۔ البتہ تورات کی روایت کے مطابق ان میں سے ایک بادشاہ کا ساتھی تھا اور دوسرا اس کا نان پز۔ اور ان دونوں پر بادشاہ کو زہر کھلانے کا الزام تھا۔ سو ان دونوں میں سے ایک نے حضرت یوسف کے سامنے اپنا یہ خواب سنایا کہ میں دیکھتا ہوں کہ میں انگور نچوڑ رہا ہوں۔ اور دوسرے نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ میں نے اپنے سر پر روٹیوں کا ایک ٹوکرا اٹھا رکھا ہے جس سے پرندے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں، سو ان دونوں نے حضرت یوسف کی خدمت میں بڑے ادب و احترام سے عرض کیا کہ آپ ہمیں ہمارے ان دونوں خوابوں کی تعبیر بتا دیں ہم آپ کو نیکوکاروں میں سے دیکھتے ہیں۔ اس لئے ہمیں امید ہے کہ آپ ہمیں ان کی صحیح تعبیر بتائیں گے۔

۳۸۔۔۔   حضرت یوسف نے جب دیکھا کہ یہ دونوں مجھ سے عقیدت رکھتے ہیں تو آپ نے اس موقع کو غنیمت سمجھتے ہوئے چاہا کہ ان کو دین کی دعوت بھی دے دیں۔ جو کہ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام۔ کا اصل مقصد ہوتا ہے۔ سو پہلے تو آنجناب ان کو سماع حق کے لئے آمادہ کرنے کی غرض سے ان سے فرمایا کہ میں تمہارا زیادہ وقت نہیں لوں گا بلکہ اس میں صرف اتنا وقت لگے گا جب تک کہ تمہارے پاس معمول کے مطابق کھانا آتا اس سے پہلے ہی میں تم کو ان دونوں خوابوں کی تعبیر بتا دوں گا۔ سو آنجناب نے ان کو حق کی دعوت دی، تاکہ ان کی دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں، اور اس سلسلے میں آنجناب نے شکر خداوندی کی تعلیم و تذکیر کے طور پر ان کو سب سے پہلی بات تو یہ بتائی کہ خوابوں کی تعبیر کا یہ علم منجملہ ان علوم کے ہے جو میرے رب نے مجھے سکھائے ہیں یعنی اس کا منبع اور سرچشمہ میں نہیں میرا رب ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ آپ نے عقیدہ توحید کی تعلیم و تلقین، اس کی عظیم الشان برکات، اور اس کے آثار و ثمرات کے ذکر و بیان کے سلسلہ میں ان دونوں سے یہ ارشاد فرمایا کہ میرے رب نے مجھے ان علوم و معارف سے اس لئے نوازا ہے کہ میں نے ان لوگوں کے مذہب و ملت کو چھوڑا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں رکھتے۔ اور وہ آخرت کے منکر ہیں۔ اور ان کے دین کفر و شرک کو چھوڑ کر میں نے اپنے باپ دادا ابراہیم و اسحاق کی ملت اور ان کے دین کو اپنایا ہے اور اس کی پیروی کی جو کہ دین توحید اور دین فطرت ہے اور جو دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے،

۴۰۔۔۔   سو حضرت یوسف نے دین توحید کی عظمت شان کو واضح فرمایا کہ یہی تقاضاء عقل و فطرت ہے۔ کیونکہ اس کائنات کا خالق و مالک اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے۔ اسی نے ہمیں زندگی بخشی، وہی ہمیں روزی دیتا ہے۔ زندگی بخشنے اور موت دینے کے سب اختیارات اسی وحدہٗ لاشریک کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہیں، اس کا ان میں سے کسی بھی چیز میں کوئی شریک وسہیم نہیں، اس کے سوا جن چیزوں کی پوجا پاٹ تم لوگ کرتے ہو وہ محض کچھ من گھڑت نام ہیں جو تم لوگوں نے اور تمہارے باپ داداؤں نے از خو گھڑ لئے ہیں ان کی نہ کوئی اصل ہے اور نہ کچھ حقیقت، وہ سب اوہام و خرافات ہیں۔ جن کے پیچھے لگنا، اور ان کی پوجا پاٹ کرنا اپنے لئے دارین کی ہلاکت وتباہی کا سامان کرنا ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم،

۴۱۔۔۔   حضرت یوسف جونہی دعوت دین کے اصل مقصد سے فارغ ہوئے تو ان دونوں ساتھیوں کو ان کے خوابوں کی تعبیر بتا دی، سو ارشاد فرمایا کہ تم دونوں میں سے ایک، یعنی جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں انگور نچوڑ رہا ہوں وہ تو رہا ہو کر حسب معمول سابق دوبارہ اپنے آقا کی ساقی گری کی خدمت انجام دے گا۔ رہا دوسرا یعنی جس نے یہ خواب دیکھا تھا کہ اس نے سر پر روٹیوں کا ٹوکرا اٹھا رکھا ہے، اور اس سے پرندے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں تو اس کو پھانسی پر لٹکا دیا جائے گا۔ اور پرندے اس کے سر سے نوچ نوچ کر کھائیں گے۔ سو تم دونوں سے تمہارے خوابوں کی تعبیر بتانے کے سلسلہ میں نے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کر دیا۔ اور جس معاملے کے بارے میں تم دونوں مجھ سے پوچھ رہے تھے اس کا فیصلہ چکا دیا گیا۔

۴۲۔۔۔   سو رہائی پانے والے ساتھی سے حضرت یوسف نے کہا کہ کبھی موقع ملے تو اپنے آقا سے میرے بارے میں بھی بات کر لینا کہ اس طرح ایک بیگناہ شخص اتنے عرصے سے جیل میں پڑا ہوا ہے، کہ شاید اس طرح میری رہائی کی کوئی صورت نکل آئے، لیکن ہوا یہ کہ شیطان نے اس کو اپنے آقا سے حضرت یوسف کے بارے میں ذکر کرنا بھلا دیا۔ اور اس بھول جانے کو شیطان کی طرف منسوب فرمایا گیا اس لئے کہ کسی نیک کام سے غافل کرنا شیطان ہی کا کام ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بندے کا کام تو اپنے بس کی حد تک تدابیر اور وسائل اختیار کرنا ہے۔ لیکن ان تدابیر اور وسائل کا بار آور ہونا اللہ تعالیٰ ہی کی حکمت اور اسی کی مشیت پر موقوف و منحصر ہے۔ سو حضرت یوسف نے تو اپنے طور پر اپنی رہائی کے لئے ایک وسیلہ اختیار فرمایا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیئت اور اس کی حکمت و مصلحت کا تقاضا یہ تھا کہ حضرت یوسف ابھی مزید کچھ عرصہ جیل ہی میں رہیں، اس لئے یہ بات یوں پوری ہوئی کہ جیل سے رہا ہونے والے حضرت یوسف کے اس ساتھی کو جیل سے نکلنے کے بعد سرے سے ان کی یاد ہی بھول گئی۔

۴۴۔۔۔   ۱: اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کسی کام نے ہونا ہوتا ہے تو اس کے لئے قدرت کی طرف سے اسباب خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں، سو یہاں بھی ایسے ہی ہوا کہ بادشاہ نے ایک خواب دیکھا جس سے وہ بہت پریشان ہو گیا۔ اس نے دیکھا کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں، اسی طرح دیکھتا ہے کہ سات سبز بالیاں ہیں جن کو سات خشک بالیاں کھائے جا رہی ہیں۔ تو اس نے اپنے درباریوں سے اپنے اس خواب کی تعبیر پوچھی۔

۲: اضغاث جمع ہے ضغث کی، جس کے لغوی معنی خس و خاشاک کے گٹھڑ کے ہوتے ہیں اس لئے اس کا اطلاق بے بنیاد اور بے حقیقت باتوں پر ہوتا ہے۔ سو بادشاہ کے درباریوں نے بادشاہ سے اس کے خوابوں کے بارے میں کہا کہ یہ تو محض خوابہائے پریشان ہیں جو تبخیر معدہ یا کسی اور سبب سے نظر آتے ہیں ان کی کوئی تعبیر نہیں ہو سکتی اور ساتھ ہی اپنا بھرم رکھنے کے لئے کہا کہ ہم ایسے خوابوں کی تعبیر نہیں بتایا کرتے۔

۴۵۔۔۔    سو اس موقع پر حضرت یوسف کے اس ساتھی کو جو جیل میں ان کے ساتھ رہا تھا اور جو حضرت یوسف کی بتائی ہوئی تعبیر کے مطابق جیل سے رہائی پانے کے بعد واپس آ کر حسب سابق بادشاہ کے ساقی گری کے کام میں لگ گیا تھا۔ اور جس سے حضرت یوسف نے اس کی رہائی کے موقع پر کہا تھا کہ تم کسی مناسب موقع پر اپنے آقا کے سامنے میرا بھی ذکر بھی کر دینا۔ لیکن شیطان نے اس کو بادشاہ سے حضرت یوسف کے ذکر کو بھلا دیا تھا۔ اس موقع پر اس کو حضرت یوسف یاد آ گئے اور یہ بھی کہ وہ خوابوں کی تعبیر کے سلسلہ میں بڑی مہارت رکھتے ہیں تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ میں اس خواب کی تعبیر کا بندوبست کرتا ہوں پس آپ مجھے یوسف کے پاس بھیج دیں۔

۴۶۔۔۔   یعنی تاکہ لوگ اس خواب کی اصل حقیقت کو جان لیں جو بادشاہ نے دیکھا، یعنی باقی لوگ تو یونہی اٹکل کے تیر چلاتے ہیں جس کی بنیاد کسی علم پر نہیں ہوتی، لیکن آپ جو بات بتائیں گے وہ صحیح علم پر مبنی ہو گی، اور اس سے لوگوں کو صحیح راہنمائی حاصل ہو گی، یہاں بیچ کے سلسلہ کلام کو حذف کر دیا گیا کہ وہ قرینے کی بنا پر خود واضح ہو جاتا ہے، یعنی یہ کہ ساقی کے ایسا کہنے پر درباریوں نے اس کو حضرت یوسف کے پاس جانے کی اجازت دے دی۔ وہ چلا گیا اور جیل میں پہنچنے کے بعد حضرت یوسف سے اس طرح ہم کلام ہوا۔ بہر کیف حضرت یوسف کے پاس پہنچنے پر اس نے آنجناب کو اس طرح خطاب کیا اَیُّہَا الصِّدِّیْقُ یعنی اے یوسف راست باز۔ اور پیکر صدق و صفا۔ اور صدق مجسم، جس سے معلوم ہو گیا کہ جیل کی رفاقت و مصاحبت کے دوران وہ محض حضرت یوسف کے خواب کی تعبیر بتانے کی بناء پر ہی ان کا معتقد نہیں ہو گیا تھا۔ بلکہ وہ آنجناب کی پاکیزہ زندگی، اور صدق شعاری، کی بناء پر ان کا گرویدہ ہو گیا تھا، اسی لئے جیل میں پہنچنے کے بعد اس نے آنجناب سے اس طرح خطاب نہیں کیا کہ اے یوسف خوابوں کی تعبیر بتانے والے، بلکہ یوں کہا اے یوسف پیکر صدق و صفا۔ سو اخلاق و کردار کی پاکیزگی ہی ایسی چیز ہے جو انسان کو دوسروں کے دلوں میں بٹھا دیتی ہے اللہ ہمیں بھی نصیب فرمائے اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرما دے آمین ثم اٰمین، بہرکیف اس کے بعد ساقی نے حضرت یوسف سے سارا ماجرا کہہ سنایا، اور ان سے خواب کی تعبیر بتانے کی درخواست کی۔

۴۹۔۔۔   سو ساقی کی درخواست پر حضرت یوسف نے اپنے مکارم کی بناء پر صرف خواب کی تعبیر بتانے ہی پر اکتفاء نہیں کیا۔ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تدبیر بھی بتا دی۔ اور ساتھ ہی ساتھ ایک خوشخبری بھی سنا دی۔ سو آپ نے اس سے فرمایا کہ تم لوگ سات سال تک لگاتار کاشت کرتے جاؤ گے۔ تو اس دوران جو فصل تم کاٹو، اس میں سے جتنا تم کو اپنی غذائی ضرورتوں کے لئے درکار ہو وہی نکال کر صاف کر لو۔ باقی سب غلہ اس کی بالیوں کے اندر ہی چھوڑتے جاؤ۔ تاکہ وہ آئندہ آنے والے مشکل وقت کے لئے محفوظ رہے اور یہ اس لئے کہ غلہ جب تک بھوسے اور بالیوں کے اندر ہوتا ہے محفوظ رہتا ہے، اور اس وقت تک وہ گھن اور کیڑوں مکوڑوں کی آفتوں سے بچا رہتا ہے سبحان اللہ ! قدرت کی عظمت شان کے کیا کہنے؟ نیز فرمایا کہ اس کے بعد جو سات سال سخت قحط کے آئیں گے وہ اس تمام غلے کو چٹ کر جائیں گے جو تم لوگوں نے اس سے پہلے ذخیرہ کیا ہو گا۔ بجز اس کے اس تھوڑے سے حصے کے جو تم لوگوں نے حسب تدبیر محفوظ رکھا ہو گا۔ اور اس کے بعد خوشخبری یہ سنائی کہ اس کے بعد ایک سال خوشحالی کا ایسا آئے گا کہ اس میں خوب بارش برسے گی۔ جس سے انگوروں کی فصل خوب بار آور ہو گی اور لوگ خوب اس کو نچوڑیں گے۔

۵۱۔۔۔    سو واپسی پر جب ساقی نے یہ سارا ماجرا بادشاہ کے سامنے پیش کیا تو اس پر وہ حضرت یوسف کا گرویدہ ہو گیا اور فورا کہا کہ ان کو میرے پاس لے آؤ۔ لیکن جب قاصد بادشاہ کا یہ پیغام لیکر حضرت یوسف کے پاس پہنچا۔ تو آپ نے اس کو بادشاہ کے پاس واپس بھیج دیا کہ پہلے جا کر اس طوفان و بہتان کی صفائی کا انتظام کرو جو ان عورتوں نے میرے خلاف کھڑا کیا تھا، چنانچہ اس پر بادشاہ نے جب ان عورتوں سے اس بارہ پوچھا تو ان سب نے کہا کہ یوسف قطعی طور پر بے قصور اور پاکدامن ہیں۔ اور عزیز کی بیوی نے کہا کہ اب حق پوری طرح واضح ہو چکا ہے، میں نے ہی اس کو پھسلانے کی کوشش کی تھی۔ ورنہ وہ یقینی اور قطعی طور پر سچے ہیں، سو حضرت یوسف کی صداقت سب کے سامنے واضح ہو گئی، کہتے ہیں کہ سچائی اپنے ظہور کے لئے صبر کا مطالبہ کرتی ہے۔ اگر کوئی بندہ خدا اس کا حق ادا کر دے تو ایک وقت لازما ایسا آتا ہے کہ جب اس کی صداقت کی صدائے بازگشت درو دیوار تک سے سنائی دینے لگتی ہے۔ یہاں تک کہ دشمن بھی اس کی صداقت کی گواہی دینے لگتے ہیں جیسا کہ حضرت یوسف کے اس قصے سے صاف ظاہر ہے، وباللہ التوفیق لما یُحِبّ ویرید، وعلیٰ مایُحِبُّ ویرید بکل حالٍ من الاحوال

۵۳۔۔۔   یعنی میرے اس طرز عمل سے کسی کو اس غلط فہمی میں نہیں مبتلا ہونا چاہیئے۔ کہ میں اپنے نفس کو گناہوں سے بالا تر سمجھتا ہوں۔ نفس تو میرے ساتھ بہی ہے۔ اور نفس کا تو کام ہی برائی کے لئے اکسانا اور انگیخت کرنا ہے۔ اس کی فتنہ سامانیوں سے وہی محفوظ رہ سکتا ہے جس پر رب مہربان کا فضل و کرم اور اس کی رحمت و عنایت ہو۔ سو میں اگر ان فتنوں سے محفوظ رہا تو اس وجہ سے نہیں کہ میرے اندر نفس نہیں۔ بلکہ میں صرف اس وجہ سے محفوظ رہا کہ میرے رب نے محض اپنے فضل و کرم سے میری دست گیری فرمائی۔ میرا رب بڑا ہی بخشنے والا، انتہائی مہربان ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ۔

۵۴۔۔۔   یعنی اس سے پہلے تو حضرت یوسف اور بادشاہ کے درمیان جو رابطہ رہا وہ دوسروں کے واسطے ہی سے رہا۔ لیکن اب پہلی مرتبہ ان دونوں کے درمیان براہ راست گفتگو ہوئی۔ اور آدمی کی شخصیت کا صحیح پتہ باہمی ملاقات اور گفتگو ہی سے ہوتا ہے، اس لئے اس باہمی ملاقات سے بادشاہ حضرت یوسف کا اور بھی زیادہ گرویدہ ہو گیا، اور اس نے کہہ دیا کہ آپ تو اب ہمارے یہاں بڑے معزز اور ایک با اقتدار معتمد ہیں، اس طرح گویا کہ بادشاہ نے حضرت یوسف کو اپنے یہاں بڑے سے بڑے منصب کی پیشکش کر دی۔ آگے اس کو حضرت یوسف کی صواب دید پر چھوڑ دیا کہ آپ اس پیشکش کو کس صورت میں قبول فرماتے ہیں۔

۵۵۔۔۔   سو بادشاہ کی پیشکش کے جواب میں حضرت یوسف نے فرمایا کہ آپ مجھے اس ملک کے خزانوں پر مقرر کر دیں۔ تاکہ اسطرح میں آنے والے قحط سے اچھی طرح نمٹ سکوں۔ اور خلق خدا کی خدمت کر سکوں، اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے لئے جس امانت و دیانت اور علم و آگہی کی ضرورت ہے، وہ میں اپنے اندر پاتا ہوں، یعنی مجھے امید ہے کہ میں اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی پورا کر سکوں گا۔ حضرت یوسف کی یہ تجویز بادشاہ کی آرزو کے عین مطابق تھی، اس لئے وہ اس سے مطمئن ہو گیا۔ سو اس طرح گویا پوری سلطنت مصر حضرت یوسف کے زیر نگین آ گئی۔ تورات میں ہے کہ اس کے بعد بادشاہ نے مصر کی ساری سرزمین پر حکومت بھی ان کو بخش دی۔ اور اپنی انگشتری بھی اپنے ہاتھ سے نکال کر یوسف کے ہاتھ میں پہنا دی (پیدائش) اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی غیبی سکیم کا ایک عظیم الشان مظہر سامنے آگیا، والحمد للہ

۵۶۔۔۔   یعنی جن کی نیتیں اور ارادے بھی درست ہوتے ہیں اور ان کے عمل بھی صحیح ہوتے ہیں۔ سو ایسوں کو انکی نیتوں ارادوں اور ان کے نیک اعمال کا صلہ و بدلہ اس دنیا میں بھی ملتا ہے اور آخرت میں بھی، اس ارشاد سے اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ حکومت وسلطنت سے نوازنا اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت اور اسی کی شان ہے۔ سب کچھ اسی وحدہٗ لا شریک کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ وہ اگر کسی کو اپنے فضل سے نوازنا چاہے تو کوئی اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا۔ وہ جب چاہے ایک قیدی کو زندان سے نکال کر تخت سلطنت پر بٹھا دے تو وہ ان کو اس دنیا میں بھی اس کے اجر و صلہ سے نوازتا ہے، اور آخرت میں بھی، اور اس کی تو شان ہی نوازنا ہے سبحانہ و تعالیٰ، سو احسان یعنی نیکوکاری دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا عظیم الشان ذریعہ و وسیلہ ہے۔ ایسے بندگان صدق و صفا کو راہ حق میں آزمائشیں تو ضرور پیش آتی ہیں لیکن اگر وہ اس دوران استقامت و ثابت قدمی ہی سے کام لیتے ہیں تو پھر ان کے لئے دنیا و آخرت دونوں کی سرفرازیاں ہیں، وباللہ التوفیق،

۶۰۔۔۔   معلوم ہوتا ہے کہ راشننگ سسٹم نافذ ہونے کے باعث ہر ضرورت مند کو غلہ افراد خانہ کے حساب ہی سے ملتا تھا۔ اس لئے برادران یوسف کو بتانا پڑا ہو گا کہ ہمارا ایک سوتیلا بھائی بھی ہے جو گھر پر ہے لہٰذا اس کا غلہ بھی ہمیں دیا جائے۔ تو اس پر حضرت یوسف نے ان سے فرمایا کہ اب کے جب تم آؤ گے تو اس کو بھی ساتھ لے آنا، اور اس ضمن میں آنجناب نے ان کو ترغیب بھی دی کہ کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ میں ہر فرد کے حصے کا غلہ پورا پورا دیتا ہوں، یعنی اگر تم اپنے اس بھائی کو بھی آئندہ اپنے ساتھ لاؤ گے تو اس کے حصے کا پورا پورا غلہ بھی اپنے ساتھ لے جاؤ گے۔ اور یہ تجربہ تو تم کر ہی چکے ہو کہ میں کیسی اچھی میزبانی کرتا ہوں۔ اور دھمکی ان کو یہ دی کہ اگر تم اپنے اس بھائی کو ساتھ نہ لائے تو نہ تمہارے لئے میرے پاس کوئی غلہ ہے اور نہ ہی تم آئندہ میرے قریب ہی پھٹکنا۔ سو ترغیب و ترہیب کے ان دونوں پہلوؤں کے ذکر سے اندازہ کیا جا سکتا ہے، کہ حضرت یوسف کے دل میں اپنے حقیقی بھائی بنیامین کی دید و لقاء کے لئے کس قدر شوق اور کتنی تڑپ موجود تھی، علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام

۶۲۔۔۔   مکارمِ اخلاق کے تقاضوں کے علاوہ حضرت یوسف نے اس خیال سے بھی کہ شاید مالی مشکلات ان کے دوبارہ آنے میں رکاوٹ نہ بن جائیں انہوں نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ جو نقدی یہ لوگ غلے کی قیمت کے طور پر لائے تھے، وہ بھی واپس ان کے سامان کے اندر ہی رکھ دو۔ تاکہ جب یہ گھر واپس پہنچیں تو اپنا سامان کھولنے پر محسوس کریں کہ ان پر احسان کیا گیا ہے، اور اس طرح یہ خوشی بخوشی دوبارہ آنے کے لئے تیار ہو جائیں۔

۶۳۔۔۔   یعنی جب یہ لوگ واپس اپنے باپ کے پاس پہنچے اور ان کو اپنے سفر کی روداد سنائی تو اس میں ان کو آگاہ کیا کہ ابا جان اب آئندہ کے لئے ہمیں غلہ دینے سے انکار کر دیا گیا ہے۔ اب اس کے حصول کی ایک ہی صورت ہے کہ ہم اپنے بھائی بنیامین کو بھی ساتھ لے جائیں اور وہاں پر اپنے آپ کو سچا ثابت کر سکیں کہ ہمارا گیارہواں بھائی بھی ہے۔ لہٰذا آب بنیامین کو بھی ہمارے ساتھ بھیج دیں تاکہ ہم سب کے حصے کا غلہ بھی لا سکیں۔ ہمارا اعتبار بھی قائم ہو سکے، اور ہم بادشاہ سے کئے گئے اپنے وعدے کو بھی سچا ثابت کر سکیں۔ اور آپ یقین رکھیں کہ ہم اس کی پوری حفاظت کریں گے، اور اس کو کوئی تکلیف نہیں پہنچنے دینگے،

۶۴۔۔۔   یعنی برادران یوسف کے اس مطالبے پر حضرت یعقوب نے ان سے فرمایا کہ کیا میں تم پر بنیامین کے بارے میں بھی ویسے ہی اعتماد کروں جیسا کہ اس سے پہلے میں ان کے بھائی یعنی یوسف کے بارے میں کر چکا ہوں؟ اور استفہام ظاہر ہے کہ انکاری ہے۔ یعنی ایسے نہیں ہو سکتا، لیکن ساتھ ہی اس بات کی بھی وضاحت فرما دی کہ حفاظت بہرحال اللہ ہی کی حفاظت ہے، بنیامین میرے پاس رہیں تو بھی اللہ ہی کی حفاظت میں ہیں، اور اگر میں نے ان کو تمہارے ساتھ بھیجا تو بھی اللہ ہی کی حفاظت اور اس کی رحمت و عنایت کے سہارے اور اعتماد پر بھیجوں گا نہ اپنا کوئی گھمنڈ ہو سکتا ہے، اور نہ ہی تم پر اعتماد کر سکتا ہوں، بھروسہ بہرحال اللہ تعالیٰ ہی کا ہے۔ سو اس سے حضرات انبیاء ورسل کی شان اعتماد علی اللہ کا ایک نمونہ و مظہر سامنے آتا ہے۔ کہ ان کا بھروسہ و اعتماد ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی پر ہوتا ہے۔ علیہم الصلوٰۃ والسلام، پس بھروسہ و اعتماد ہمیشہ اسی وحدہٗ لاشریک پر ہونا چاہیئے،

۶۶۔۔۔   یعنی حضرت یعقوب نے ان سے کہا کہ میں بنیامین کو تمہارے ساتھ صرف اس صورت میں بھیج سکتا ہوں جبکہ تم مجھے اللہ کے نام پر پختہ عہد دو کہ تم اس کو ضرور واپس لے آؤ گے اِلاّ یہ کہ تم سب کو کسی آفت میں گھیر لیا جائے کہ ایسی صورت میں اور بات ہے۔ ورنہ تم اس کو ضرور میرے پاس لے آؤ گے۔ سو انہوں نے جب ان کو اللہ کے نام پر اس بات کا پختہ عہد دے دیا تو یعقوب نے کہا کہ اللہ ان سب باتوں پر جو ہم کہہ رہے ہیں اور اس قول و قرار پر جو ہم کر رہے ہیں اللہ اس سب پر ضامن اور اس کا گواہ ہے۔ یعنی اب میں اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر اس کو تمہارے ساتھ بھیج رہا ہوں۔

۶۷۔۔۔   یہاں پر حصر و قصر کے انداز و اسلوب میں ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ ہی پھر بھروسہ کرنا چاہیے بھروسہ کرنے والوں کو۔ کہ وہی بھروسہ کے لائق ہے کہ اس کائنات ساری کا خالق و مالک اور اس میں حاکم و متصرف وہی وحدہٗ لاشریک ہے اور سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ حضرت یعقوب نے اپنے بیٹوں کو رخصت کرتے وقت یہ ہدایت فرمائی کہ تم جب شہر میں داخل ہوؤ تو ایک ہی دروازے سے داخل نہیں ہونا بلکہ مختلف دروازوں سے داخل ہونا۔ کہ ایسے خوبصورت اور کڑیل جوانوں کے ایک پورے دستے کا ایک ساتھ داخل ہونا ایک جالب نظر معاملہ ہے سب کی نظریں ان کی طرف اٹھیں گی کہ یہ کون لوگ ہیں جو اس طرح ایک جتھے کی شکل میں ایک ساتھ داخل ہو رہیں جس سے نظر بد کا خدشہ بھی ہو سکتا ہے اور بدگمانی کا اندیشہ بھی اور اس کے ساتھ ہی آنجناب نے ان کو یہ تنبیہ بھی فرما دی کہ یہ محض ایک تنبیہ اور نصیحت ہے جو میں اپنی دانست کے مطابق تم کو کر رہا ہوں۔ اس کا یہ مطلب نہ سمجھ لینا کہ یہ تم کو اللہ کی تقدیر سے چھڑا اور بچا لے گی، حکم تو بہرحال اللہ ہی کا ہے اس نے تمہارے لئے جو کچھ لکھ رہا ہے وہ بہرحال اٹل ہے اس کے آگے کسی کی کچھ نہیں چل سکتی میرا بھروسہ اسی پر ہے اور اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے بھروسہ کرنے والوں کو کہ ہو گا بہرحال وہی جو اس کو منظور ہو گا۔ سبحانہ و تعالیٰ۔ اب دیکھئے کہ دین متین کی تعلیمات مقدسہ کیا کہتی۔ اور کیا بتاتی ہیں۔ لیکن آج کا جاہل اور شرک کا مارا ہوا کلمہ گو ہے کہ کہیں وہ کہتا ہے سہارا پنجتن اور کہیں کہتا سہارا فلاں سرکار کا وغیرہ وغیرہ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا والیہ المشتکیٰ۔

۶۸۔۔۔   سو اس سے بڑی خوبی سے تدبیر اور تقدیر کے باہمی تعلق کو واضح فرما دیا گیا کہ بیٹوں نے شہر میں داخل ہونے سے متعلق باپ کی نصیحت اور ان کے اس مشورے پر عمل کر دیا۔ جو انہوں نے اپنی دانست اور اپنے خیال کے مطابق ان کو دیا تھا۔ جو ان کے لئے باعث خیر و برکت ثابت ہوا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر ان کی تقدیر میں کوئی آفت لکھی ہوتی تو وہ ان سے ٹل جاتی؟ تقدیر بہرحال اٹل ہے وہ کسی کی تدبیر سے ٹل نہیں سکتی بندے کا کام ہے کہ وہ اپنے حالات اور مصالح کے مطابق تدبیر اختیار کرے اس کے بعد معاملہ اللہ کے حوالے کر دے اسی میں بندے کے ارادے اور اس کی سعی و عمل کا امتحان ہے اور اسی پر آخرت میں اس کے درجات و مراتب کا انحصار ہے اور اسی کا نمونہ حضرت یعقوب نے اس موقع پر اختیار فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسے عظیم الشان علم سے بہرہ مند تھے جو اللہ نے ان کو سکھایا تھا سو اس تعلیم کی رو سے بندے کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مقرر فرمودہ حدود کے اندر تدابیر اختیار کرے اور ان کو بروئے کار لانے کے لئے پوری کوشش بھی کرے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ یہ یقین بھی رکھے کہ ہو گا وہی جو اللہ کو منظور ہو گا پس نہ تو وہ اپنی تدبیری کو سب کچھ سمجھے۔ اور نہ ہی وہ توکل کے نام پر بالکل اپاہج بن کر بیٹھ جائے۔ یہ دونوں دو انتہائیں ہیں۔ جو غلط ہیں۔ اور صحت و سلامتی کی راہ میں ان دوں کے درمیان ہے۔

۷۲۔۔۔   حضرت یوسف علیہ السلام چونکہ ابھی اپنا معاملہ اپنے بھائیوں کے لئے ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، تاکہ آپ ان کو اچھی طرح ٹٹول کر دیکھ لیں کہ انہوں نے آپ کے ساتھ جو ظلم روا رکھا تھا، کیا اس کے بعد ان کے باطن میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے، یا یہ ابھی تک اپنی اسی ظالمانہ روش پر قائم ہیں، دوسری طرف آنجناب چونکہ یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ اپنے بھائی بنیامین کو پا لینے کے بعد ان کو دوبارہ ان ظالموں کے، ساتھ واپس بھیج دیں، آپ نے خیال فرمایا ہو گا کہ ابھی تو یہ لوگ غلے کے لالچ میں اس کو ساتھ لے آئے ہیں کیونکہ ان کو صاف طور پر بتا دیا گیا کہ اگر تم اس کو ساتھ نہیں لاؤ گے تو تمہیں کوئی غلہ نہیں ملے گا۔ لیکن اب واپسی میں ان لوگوں سے کیا بعید ہے کہ یہ بنیامین کے ساتھ کوئی ظالمانہ اقدام کریں جیسا کہ وہ اس سے پہلے خود حضرت یوسف کے ساتھ کر چکے تھے۔ کیونکہ حسد کا وہ جذبہ جو ان کے پہلے اقدام کا محرک بنا تھا وہ ان کے اندر بنیامین کے بارے میں بھی موجود تھا۔ تیسری طرف حضرت یوسف کے سامنے ملکی قانون کے رکھ رکھاؤ کا مسئلہ بھی تھا۔ اس لئے ان تینوں باتوں کے پیش نظر اور ان تینوں مقاصد کے حصول کے لئے آپ نے توریے کے طریقے کو اپنایا کہ جب ان لوگوں کا سامان تیار کرایا تو پانی پینے کا ایک کٹورا جو غلہ ناپنے کے لئے شاہی پیمانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ حضرت یوسف نے وہ اپنے بھائی کے سامان میں رکھوا دیا۔ پھر ایک منادی نے پکار کر کہا کہ قافلے والو! تم تو چور ہو۔ تو اس پر انہوں نے پلٹ کر ان سے پوچھا کہ آپ لوگوں کی کیا چیز کھوئی گئی ہے؟ تو انہوں نے کہا ہمارا ایک شاہی پیمانہ کھو گیا ہے اور جو اس کو لا کر دے گا تو اس کو ایک بارشتر کا انعام ملے گا۔ اور میں اس کا کفیل اور ضامن ہوں اس پر انہوں نے قسم اٹھا کر کہا کہ قسم ہے اللہ کی آپ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم کوئی چور نہیں ہیں۔ اور نہ ہی ہم لوگ اس ملک میں فساد بپا کرنے آئے ہیں، تو پھر ہم ایسا کام آخر کیسے اور کیونکر کر سکتے ہیں؟ کیونکہ چوری جیسے جرائم وہ جرائم ہیں جو معاشرے کے امن و امان کو خراب اور برباد کرنے کا باعث ہوتے ہیں، تو پھر ہم اس طرح کے کسی کام کا ارتکاب کسی طرح کر سکتے ہیں، اور وہ بھی ایک اجنبی میزبان اور دوسرے ملک میں، اور وہ بھی اس صورت میں جبکہ آپ لوگوں نے ہم سے ہمدردی و مہربانی اور عمدہ سلوک کا معاملہ کیا ہو، لہٰذا کام نہ ہم نے کیا ہے اور نہ کر سکتے ہیں، تو اس پر انہوں نے کہا تمہاری کیا سزا اگر تم جھوٹے ثابت ہوئے؟ تو انہوں نے اس کے جواب میں کہا کہ جس کے سامان سے کٹورا برآمد ہو اسی کو اس کی سزا میں روک لیا جائے۔ ہم ظالموں کو یہی سزا دیتے ہیں۔ آخرکار تلاشی لینے پر جب وہ کٹورا بنیامین کے سامان سے برآمد ہوا۔ تو ان کو روکنے کی راہ بھی ہموار ہو گئی۔ ملکی قانون کا بھی پاس ہو گیا۔ اور حضرت یوسف کے معاملے پر پردہ بھی برقرار رہا۔ سو اس توریے سے مذکورہ بالا تینوں مقصد پورے ہو گئے، جو کہ حضرت یوسف کے اصل مقصود تھے، اور بنیامین کو روکنے سے متعلق اس سزا کو چونکہ انہوں نے خود تجویز کیا تھا، اور انہوں نے صاف کہا تھا کہ ہمارے یہاں ظالموں کو ایسی ہی سزا دی جاتی ہے، اس لئے اب وہ اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں کر سکتے تھے،

۷۷۔۔۔   یعنی تلاشی کے بعد جب وہ پیالہ بنیامین کے سامان سے برآمد ہوا تو برادرانِ یوسف نے جھٹ اپنی خفت کو مٹانے، اور اپنی شرمندگی کو چھپانے کے لئے حضرت یوسف پر ایک تہمت جڑ دی۔ سو انہوں نے کہا کہ اگر اس نے چوری کی ہے تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ بلکہ اس سے پہلے اس کا ایک بھائی بھی اسی طرح چوری کا ارتکاب کر چکا ہے، اور اس طرح انہوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ ہمارا حقیقی نہیں سوتیلا بھائی ہے، اور چوری کی یہ خصلت اس کے اندر اس کی ماں کی طرف سے آئی ہے، ورنہ ہمارے اندر یہ چیز موجود نہیں، اس تہمت اور الزام سے حضرت یوسف کو جو دکھ اور صدمہ ہوتا تھا وہ تو یقیناً ہو گا، لیکن آنجناب نے اس موقع پر اس کے جواب میں کچھ نہیں کہا، بلکہ اس کو پی گئے کیونکہ اس مرحلے پر آنجناب اصل حقیقت کا اظہار نہیں کرنا چاہتے تھے پس زیر لب اتنا کہہ کر رہ گئے کہ تم بڑے ہی بُرے لوگ ہو۔ اور اللہ اس بات کی حقیقت کو پوری طرح جانتا ہے جو تم بیان کر رہے ہو۔

۷۸۔۔۔   سو اس کے بعد برادرانِ یوسف فوری طور پر خوشامد اور منت سماجت پر اتر آئے، چنانچہ انہوں نے حضرت یوسف کو ان کے خاص سرکاری خطاب عزیز مخاطب کیا، جو اس وقت مصر کے اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کے لئے مخصوص تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس خطاب سے حضرت یوسف کو مخاطب کر کے ان کے سامنے عرض کیا کہ عالی جاہ! اس لڑکے کا باپ ایک بڑا بوڑھا شخص ہے جس کے لئے اس کے اس بیٹے کی جدائی کا صدمہ برداشت کرنا، بہت مشکل ہو گا۔ لہٰذا آپ ازراہ کرم ہم میں سے کسی اور کو اس کی جگہ روک لیں، اور اس کو ہمارے ساتھ جانے دیں، ہم آپ کو ایک بڑی محسن اور نیکو کار شخصیت دیکھ رہے ہیں، اس لئے آپ ہم پر یہ احسان فرما دیں اس کو چھوڑ دیں، اور اس کی جگہ ہم میں سے کسی اور شخص کو روک لیں۔

۷۹۔۔۔   سو اس کے جواب میں حضرت یوسف نے ان سے فرمایا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اس کے سوا کسی اور کو پکڑیں جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا ہے۔ کیونکہ کسی بے گناہ بے قصور شخص کو پکڑنا ظلم اور زیادتی ہے، اس لئے ایسا کرنے کی صورت میں تو یقیناً ہم بڑے ظالم ٹھہریں گے۔ احتیاط ملاحظہ ہو کہ حضرت یوسف نے اس موقع پر یوں نہیں فرمایا کہ جس نے سامان چوری کیا۔ بلکہ یوں فرمایا کہ جس کے پاس ہم نے اپنا سامان پایا۔ کہ امر واقعہ یہی تھا۔

۸۰۔۔۔   سو عزیز مصر کے اس جواب کے بعد جب یہ لوگ بالکل مایوس ہو گئے۔ اور ان کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ وہ اس کو کسی بھی طرح چھوڑنے والے نہیں۔ تو یہ سب بھائی الگ ہو کر باہم صلاح مشورہ کرنے لگے۔ کہ اب کیا کیا جائے تو اس موقع پر ان کے بڑے بھائی نے ان سے کہا کہ تمہیں معلوم ہے کہ ہمارے والد ہم سے اللہ کا واسطہ دے کر یہ عہد لے چکے ہیں کہ تم اس کو ضرور واپس لاؤ گے، اور اس سے پہلے یوسف کے بارے میں جس تقصیر کا ارتکاب تم کر چکے ہو وہ بھی تمہیں معلوم ہے۔ اس لئے میں تو یہاں سے ہرگز نہیں ٹلوں گا۔ یہاں تک کہ میرے والد مجھے اجازت دیں۔ یا اللہ کوئی اور فیصلہ فرما دے کہ وہی ہے سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا۔ کہ وہی ہے جس کا علم بھی کامل ہے۔ اور اس کی حکمت بھی کامل۔ اس لئے اس کا ہر فیصلہ کمالِ علم و حکمت ہی پر مبنی ہوتا ہے۔ اور یہ شان اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی کی نہ ہے نہ ہو سکتی ہے۔ اس لئے وہی ہے جس کے کسی فیصلے کی کوئی نظیر ممکن نہیں۔ سبحانہ و تعالیٰ

۸۲۔۔۔   سو برادرانِ یوسف نے اپنے بڑے بھائی یہودا کے مشورے کے مطابق واپس جا کر اپنے والد کو پوری رپورٹ سنائی۔ اور ان سے کہا کہ آپ کے صاحبزادے نے واقعی چوری کی ہے۔ ہم وہی کچھ کہہ رہے ہیں جو ہمارے علم میں آیا ہے، ہم غیب جاننے والے نہیں، کہ آپ سے عہد و پیماں کرتے وقت اس بات کا ذکر کر دیتے۔ پس اب آپ اس بات کی تصدیق کے لئے اس بستی والوں سے بھی پوچھ سکتے ہیں جہاں ہم اس دوران ٹھہرے اور رکے تھے اور اس قافلے کے شرکاء سے بھی دریافت کر سکتے ہیں جس کے اندر ہم آئے ہیں، ہم یقیناً ہر اعتبار سے اور ہر لحاظ سے سچے ہیں۔

۸۳۔۔۔   یعنی ان کے والد ان کے اس بیان سے مطمئن نہیں ہوئے جو انہوں نے ان کے آگے دیا۔ اس لئے انہوں نے اس کے جواب میں ان سے کہا کہ نہیں، بلکہ تم کو تمہارے نفسوں نے کوئی بات سجھا دی ہے پس میں پہلے کی طرح اب بھی صبر جمیل ہی سے کام لیتا ہوں۔ اور صبر جمیل اس صبر کو کہا جاتا ہے جو اظہار غم کے اوچھے طریقوں سے پاک ہو۔ یعنی جزع فزع، واویلا، اور ماتم وسینہ کو بی وغیرہ جیسے تمام اوچھے طریقوں سے، یہاں سے ایک بات تو یہ واضح ہو جاتی ہے کہ ایک مرتبہ اعتبار کھو دینے کے بعد اس کو دوبارہ پیدا کرنا بہت مشکل ہوتا ہے چنانچہ برادران یوسف اس موقع پر اپنی سب کوششوں کے باوجود اپنے والد کو اپنے بارے میں مطمئن نہ کر سکے، کیونکہ وہ اس سے پہلے اپنے والد کا اعتماد کھو چکے تھے۔ اور دوسری بات اس سے یہ واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبر عالم غیب نہیں ہوتے جس طرح کہ ہمارے یہاں کے اہل بدعت کا کہنا اور ماننا ہے۔ ورنہ حضرت یعقوب اپنے بیٹوں کے جواب کی اس طرح تکذیب نہ کرتے، کیونکہ اس موقع پر ان لوگوں کا بیان جھوٹا نہیں تھا۔ بلکہ وہ حقیقتاً ایک امر واقعہ کو بیان کر رہے تھے۔

۸۶۔۔۔   سو اس تازہ واقعہ کے بعد حضرت یوسف کا گذشتہ غم و اندوہ تازہ، اور مزید زیادہ ہو گا۔ چنانچہ اسی کی بناء پر شدت غم کی وجہ سے بے ساختہ طور پر ہائے یوسف کے یہ الفاظ درد و کرب الفاظ بھی آپ کی زبان مبارک سے نکل گئے۔ اور اس تازہ حادثہ کے بعد آنجناب بیٹوں سے آزردہ خاطر اور الگ ہو کر گوشہ گیر ہو گئے۔ شدت غم اور کثرت گریہ کی بناء پر آپ کی آنکھیں سفید پڑ گئیں۔ اور ذکر یوسف کے بارے میں بیٹوں کے اعتراض کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کا ذکر اللہ تعالیٰ کے حضور کرتا ہوں، نہ کہ کسی مخلوق کے سامنے، اور اللہ کے حضور اپنے غم و اندوہ کا ذکر کرنا، نہ صرف یہ کہ ممنوع اور بُرا نہیں، بلکہ یہ مطلوب و محمود ہے اور اس غم و الم کا باعث یاس و مایوسی نہیں بلکہ توقع اور امید ہے۔ کیونکہ بندہ یہ توقع رکھتا ہے کہ اپنے رب کے آگے وہ جتنا بھی روئے گا اتنا ہی اس کے مالک کی رحمت کو جوش آئے گا۔ رونا دھونا وہ منع ہے جو دوسروں کے آگے ہو، اور جس میں انسان اپنی بے صبری کا اظہار اس طرح کرے کہ اس سے اس کے ایمان اور توکل کا وقار مجروح ہو۔ والعیاذُ باللہ، اور آنجناب نے اپنے بیٹوں کے اعتراض کے جواب میں یہ بھی فرمایا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں تمہارا تجربہ، اور تمہارا نظریہ و خیال کچھ اور ہے، اور میرا کچھ اور۔ اس لئے تم مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو۔ میں اپنے رب کی رحمت سے کبھی بھی مایوس نہیں ہوں۔

۸۹۔۔۔   بضاعۃِ مُزْجاۃ (کھوٹی پُونجی) دراصل اس سامان کو کہا جاتا ہے جو قابل قبول نہ ہو۔ سو یہاں پر اس لفظ کے استعمال سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ غلے کی قیمت کے لئے اس مرتبہ نقدی کے بجائے کوئی ایسی جنس لے گئے تھے جس کی بازار میں کوئی خاص مانگ نہیں تھی اس لئے اس کو انہوں نے بضاعت مزجاۃ یعنی کھوٹی پُونجی قرار دیا۔ بہر کیف جب وہ حضرت یوسف کے سامنے حاضر ہوئے تو انہوں نے بڑے رقت انگیز انداز میں اپنی خستہ حالی اور پریشانی کا ذکر کیا کہ ہمارے اہل و عیال قحط سالی کے باعث سخت تکلیف میں ہیں، اور اب کی بار ہم اپنے ساتھ جو پونجی لائے ہیں وہ بھی حقیر سی ہے پس آپ کے حضور ہماری درخواست ہے کہ آپ ہمیں غلہ بھی پورا پورا دیجئے اور مزید یہ کہ ہمیں صدقہ بھی عنایت فرمایئے، کہ اللہ صدقہ کرنے والوں کو بڑے اجر و ثواب سے نوازتا ہے۔ حضرت یوسف چونکہ ان کے بھائی اور ایک شریف النسل، اور کریم الاخلاق بھائی تھے۔ اس لئے آپ ان کی اس بدحالی، پریشانی، اور رقت انگیز، و لجاجت آمیز، درخواست اور خاص کر صدقہ کرنے کی درخواست سے بہت متاثر ہوئے، اور اس قدر کہ صورت حال نے گویا ان کے دل کو ہلا دیا۔ کہ یہ تو بڑے طنطنے کے لوگ ہوا کرتے تھے، اب حالات نے ان کے اعصاب اتنے ڈھیلے کر دیے کہ یہ صدقہ کرنے کی درخواست تک پر مجبور ہو گئے، اس لئے آپ سے رہا نہ گیا کہ اجنبیت اور بے گانگی کا جو پردہ ان کے اور ان کے بھائیوں کے درمیان اب تک حائل تھا، وہ اب مزید برقرار رہے۔ تو آپ نے ان سے فرمایا کہ جو کچھ تم لوگ یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کر چکے ہو کیا وہ بھی تمہیں یاد ہے۔ جبکہ تم لوگ جہالت کا شکار تھے؟

۹۰۔۔۔   حضرت یوسف کے اس سوال اور انکشاف پر وہ لوگ یکایک چونک اٹھے۔ اور فوراً بولے کہ کیا واقعی آپ یوسف ہی ہیں؟ ان کے اس جواب کے انداز سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ اس سے پہلے کی ملاقاتوں میں بھی یہ بات ان کو کھٹکتی تھی کہ کہیں یہ یوسف ہی تو نہیں۔ اور چہرے مہرے اور انداز و اطوار سے ایسا ہونا ایک طبعی امر تھا۔ لیکن کنعان کے جس اندھے کنوئیں میں انہوں نے آنجناب کو بچپن میں ڈالا تھا۔ اس میں اور اس تخت سلطنت میں جس پر حضرت یوسف اب فروکش تھے، اتنا بُعد تھا کہ وہ لوگ اس بات کا گمان بھی نہیں کر سکتے تھے کہ یوسف وہاں سے یہاں پہنچ سکتے ہیں، اور ظاہر ہے کہ جن لوگوں کی نگاہیں ظواہر ہی تک محدود رہتی ہیں، وہ قدرت الٰہی اور رحمت ربانی کے ان عجائب کا تصور آخر کر بھی کس طرح سکتے ہیں؟ لیکن حضرت یوسف کے اس اظہار پر جب انہوں نے کہا کہ واقعی آپ یوسف ہی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا ہاں میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر بڑا احسان فرمایا۔ اور جو لوگ تقوی اختیار کرتے ہیں اور صبر و استقامت سے کام لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایسے نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ بلکہ ویسوں کو وہ دنیا میں بھی اپنے خاص فضل و کرم سے نوازتا ہے۔ اور آخرت میں بھی وہ ان کو بھرپور صلہ و بدلہ عطا فرمائے گا۔ سو تقوی و صبر سعادت دارین سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے سو تقوی اور صبر کی یہ عظمت شان اور اس کی یہ کرشمہ سازی ہی دراصل اس ساری سرگزشت کی اصل روح ہے اور اس کے ساتھ صفت احسان کا ذکر کر کے اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں معتبر اور مقبول تقوی وہی ہے جو احسان کی روح کے ساتھ ہو۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید۔ وعلیٰ مایحب ویرید، بکل حالٍ من الاحوال

۹۶۔۔۔   یعنی ادھر قافلہ مصر سے چلا تو ادھر حضرت یعقوب نے اپنے گردو پیش والوں سے فرمایا کہ اگر تم لوگ مجھے خبطی نہ قرار دینے لگو تو میں تم سے کہتا ہوں کہ میں یوسف کی خوشبو محسوس کر رہا ہوں۔ مگر یہ سننے کے بعد حضرت یعقوب کے آس پاس والوں نے وہی کہا جس کا خدشہ انہوں نے ظاہر کیا تھا، سو انہوں نے کہا اللہ کی قسم آپ تو ابھی تک اپنے اسی پرانے خبط میں مبتلا ہیں اب کہاں یوسف اور کہاں اس کے کُرتے کی خوشبو، لیکن جب خوشخبری سنانے والا شخص آ پہنچا اور اس نے حضرت یوسف کا کرتہ حضرت یعقوب کے چہرے پر ڈال دیا اور اس سے ان کی کھوئی ہوئی بصارت لوٹ آئی، تو انہوں نے ان تعجب کرنے والے ظاہر بینوں سے کہا کہ کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ میں اللہ کی طرف سے وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے؟ سو اس سے آنجناب نے بیٹوں کو یہ تعلیم دی کہ صرف ظاہر کا غلام بن کر نہیں رہنا چاہیئے۔ بلکہ ظاہر کے اندر اور ظواہر کے پردوں کے پیچھے قدرت کے مخفی ہاتھوں کی جو کارفرمائیاں موجود ہیں، ان پر ایمان رکھنا چاہیے کہ اس کے بغیر اللہ پر ایمان اور توکل کا حق ادا نہیں ہو سکتا وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی ما یُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الاحوال۔

۹۸۔۔۔   سو یہ سب کچھ دیکھ لینے کے بعد جب آنجناب کے بیٹوں کو اپنی نادانیوں کا احساس ہوا تو انہوں نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے باپ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کی درخواست کی۔ جس پر حضرت یعقوب نے ان سے فرمایا کہ میں عنقریب ہی تمہارے لئے اپنے رب سے بخشش کی دعا کروں گا۔ اور اس سے امید رکھتا ہوں کہ وہ تمہاری بخشش فرما دے گا۔ کہ وہ یقیناً بڑا ہی بخشنے والا نہایت ہی مہربان ہے۔ اور سوف کے لفظ سے یہاں پر اس بات کی طرف اشارہ فرمایا جا رہا ہے کہ حضرت یعقوب نے ان کو سرسری طور پر یوں کہہ کر ٹالنے کی کوشش نہیں کی کہ جاؤ اللہ تمہیں معاف فرمائے۔ جیسا کہ عام طور پر اس طرح کے مواقع میں ہوتا رہتا ہے بلکہ آنجناب نے ان کے لئے خاص اہتمام کے ساتھ اور خاص وقت میں بخشش دعا کا وعدہ فرمایا۔ سو اس سے ایک بات تو یہ نکلتی ہے کہ آدمی کا دل اگر خود گناہوں پر پشیمان ہو تو اس کو صالحین سے دعا کی درخواست بھی کرنی چاہیے اور ان کے حق میں صالحین کی دعا قبول بھی ہوتی ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ یوں تو بندہ ہر وقت اپنے رب سے دعا کر سکتا ہے، اور کرتے رہنا چاہیئے، کہ دعا بہر صورت مفید، اور دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کی روشنی میں ایک اہم مطلوب ہے، لیکن خاص اہتمام کے ساتھ اور خاص اوقات اور خاص مواقع اور مخصوص جگہوں میں کی جانے والی دعا قبولیت کے لئے خاص تاثیر رکھتی ہے الحمد للہ راقم اثم نے اپنی کتاب قرآن و سنت کی مقدس دعائیں میں دعا سے متعلق ایسے خاص اوقات اور خاص مواقع کو کتاب و سنت کی روشنی میں خاصی تفصیل سے ذکر کر دیا ہے، جو کوئی بیس برس قبل شائع ہو گئی تھی، والحمد للہ، تفصیل کے طالب اس کی طرف رجوع کر سکتے ہیں بہرکیف اس سے واضح فرما دیا گیا کہ جب انہوں نے اپنے والد ماجد سے اپنی بخشش کے لئے دعا کی درخواست کی، اور حضرت یعقوب نے اس کو اپنے مکارم سے قبول فرما لیا۔ اور اس کے لئے خاص اہتمام کا بھی ان سے وعدہ فرما لیا۔ علیٰ نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والسلام، سو دعا ایک اہم مطلوب خاص عبادت، بلکہ عبادت کا مغز اور خلاصہ ہے جیسا کہ صحیح احادیث کریمہ میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے، اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَاسَالَکَ نَبِیُّکَ محمد صلی اللّٰہ علیہ و سلم، وَنَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ اسَتعاذَنَ مِنْہُ نَبِیَّکَ مُحَمَّدٌ صلی اللّٰہ علیہ و سلم

۱۰۱۔۔۔          سو اس موقع پر جب حضرت یوسف نے جب یہ عظیم الشان منظر دیکھا تو آپ کا دل خداوندقدوس کے شکر اور اس کی حمد و ثنا میں ڈوب کر رہ گیا۔ اور آپ فوراً اپنے رب کی طرف متوجہ ہو کر اس کے حضور عرض کرتے ہیں کہ اے میرے رب یقیناً تو نے ہی مجھے بادشاہی بخشی اور مجھے باتوں کی تہ تک پہنچنے کا علم سکھایا۔ آسمانوں اور زمین کے مالک! تو ہی میرا کارساز اور مددگار ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، مجھے اسلام ہی پر وفات دینا۔ اور مجھے صالحین کے ساتھ شامل کرنا۔ سو اس طرح آنجناب نے تواضع اور عبدیت و ِللّٰہیت کا ایک نہایت ہی عمدہ نمونہ پیش فرمایا۔ اور دنیا کو یہ درس عظیم دیا کہ ایسے ہر موقع پر بندہ صدق دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور جھک جائے۔ اور اسی کی طرف رجوع کرے کہ یہ بندے پر اس کے خالق و مالک بھی ہے، اور اسی میں اس کا بھلا اور فائدہ بھی ہے دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی۔ اور آخرت کے اس حقیقی اور اَبَدی جہاں میں بھی جو اس کے بعد آنے والا ہے وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی ما یُحِبُّ ویرید۔

۱۰۲۔۔۔          سو اس سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ یہ پیغمبر کی صداقت و حقانیت کی ایک کھلی اور واضح دلیل ہے۔ کیونکہ یہ قصہ جو آپ نے دنیا کے سامنے پیش فرمایا اور اس قدر صحت و صفائی کے ساتھ اور اتنی باریک تفصیلات کے ساتھ ذکر و بیان فرمایا ہے اس کے جاننے کا آپ کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا سوائے وحی خداوندی کے تورات میں اس کا ذکر اگرچہ موجود ہے۔ لیکن اول تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم تورات پڑھ ہی نہیں سکتے تھے، اور دوسرے تورات کے بیان اور قرآن حکیم کے بیان کی تفصیلات میں بہت سے مقامات میں بڑا فرق پایا جاتا ہے۔ اور جہاں جہاں یہ فرق و امتیاز پایا جاتا ہے، وہاں پر اگر بنظر انصاف دیکھا جائے تو واضح ہو گا کہ قرآن کا بیان تورات کے مقابلے میں کہیں زیادہ صحیح اور وقیع ہے اب سوال یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ سب کچھ آخر کیسے اور کس طرح معلوم ہو گیا؟ سو اس کا جواب اس کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا کہ یہ سب کچھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس وحی کے ذریعے ہی معلوم ہوا، جو آپ کے رب اور آپ کے خالق و مالک کی طرف سے آپ کے پاس آتی تھی، چنانچہ ارشاد فرمایا گیا کہ یہ غیب کی کچھ خبریں ہیں جو ہم بذریعہ وحی آپ کو بتاتے ہیں، ورنہ آپ اس وقت ان لوگوں کے پاس موجود نہیں تھے جب کہ وہ باہم مل کر یہ سازش پکا رہے تھے۔ نیز مِنْ اَنْبَاءِ الْغِیْبِ (غیب کی کچھ خبریں) سے یہ امر بھی واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر سب غیب نہیں جانتے بلکہ وہی جانتے ہیں جو ان کو وحی کے ذریعے دیا جاتا ہے۔ اور وہ کچھ۔ اور بعض ہی کے درجے میں ہوتا ہے، نہ کہ کُل۔ اور مَاکَانَ وَمَا یَکُوْنَ کے درجے کا۔ جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا ہے۔ نیز وَمَا کُنْتَ لَدَیْہِمْ (آپ ان کے پاس موجود نہیں تھے) کی تصریح سے یہ بھی واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر ہر جگہ حاضر و ناظر نہیں ہوتے جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم، سو اس سے اہل بدعت کے اسطرح کے تمام خود ساختہ اور من گھڑت شرکیہ عقائد کی جڑ نکل جاتی ہے۔ مگر عناد اور ہٹ دھرمی کا بُرا ہو کہ ایسے لوگ قرآن و سنت کی ایسی واضح تصریحات کے باوجود اپنے ایسے خود ساختہ اور من گھڑت شرکیہ عقائد و نظریات کو چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔ اور اپنے اسی شرکیہ ڈگر پر چلے جا رہے ہیں والعیاذ باللہ العظیم، بہرکیف یہاں پر پیغمبر سے صاف اور صریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ یہ غیب کچھ خبریں ہیں جو ہم وحی کے ذریعے آپ کو سنا اور بتا رہے ہیں ورنہ اس سے پہلے ان کو نہ آپ جانتے تھے، اور نہ ہی آپ کی قوم پس یہ آپ کی صداقت و حقانیت کی ایک واضح اور کھلی دلیل ہے، والحمد للہ جل وعلا

۱۰۹۔۔۔          یعنی تم لوگوں کو عقل سے کام لینا چاہیئے، اور صحیح طریقے سے غور و فکر اور سوچ و بچار کرنا چاہیئے، تاکہ اسطرح تم صحیح سبق لے سکو اور تمہیں راہ حق و ہدایت سے سرفرازی نصیب ہو سکے تاکہ اس کے نتیجے تمہاری دنیا بھی بن سکے۔ اور آخرت بھی سو زمین میں چلنے پھرنے کا اصل مقصد یہی ہونا چاہیے کہ درس عبرت لیا جائے اور سبق حاصل کیا جائے پس تم لوگ زمین میں چل پھر کر دیکھو کہ جن لوگوں نے اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں اور نبیوں کی تکذیب کی ان کا انجام کیا ہوا؟ اور جو لوگ ان پر ایمان لائے ان کو کیا صلہ و بدلہ ملا، اور اہل ایمان کے حقیقی صلے اور بدلے کی جگہ تو آخرت ہی ہے۔ جہاں کی ہر چیز دائمی اور اَبَدی ہے۔ پس ہمیشہ اسی کو اپنے اصل نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیئے۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید۔ وعلی مایحب ویرید

۱۱۰۔۔۔          سو اس ارشاد سے دراصل عذاب الٰہی کے بارے میں سنت الٰہی اور دستور خداوندی کی وضاحت فرمائی گئی ہے یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ عذاب بھیجنے میں جلدی نہیں کرتا۔ بلکہ وہ اپنے رسولوں کے ذریعے لوگوں پر اپنی حجت پوری کرتا ہے، اور عذاب اس وقت آتا ہے، جب اللہ کے رسول اپنی قوموں کے ایمان سے مایوس ہو جاتے ہیں اور منکر لوگ عذاب کی تاخیر سے یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا۔ اور ان لوگوں پر جھوٹ موٹ عذاب کی دھونس جمائی گئی تھی۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسے وقت میں ہمارے رسولوں کے لئے ہماری مدد ظہور میں آتی ہے۔ پھر جس کو ہم چاہتے ہیں نجات دے دی جاتی ہے اور مجرموں سے ہمارے عذاب کو کسی طرح ٹالا نہیں جا سکتا۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔