خزائن العرفان

سورة یُوسُف

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف ۱)

۱                 سورۂ یوسف مکیّہ ہے اس میں بارہ رکوع اور ایک سو گیارہ ۱۱۱  آیتیں اور ایک ہزار چھ سو ۱۶۰۰ کلمے اور سات ہزار ایک سو چھیاسٹھ ۷۱۶۶ حرف ہیں۔ شانِ نُزُول : عُلَمائے یہود نے اشرافِ عرب سے کہا تھا کہ سیدِ عالم محمّدِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کرو کہ اولادِ حضرت یعقوب مُلکِ شام سے مِصر میں کس طرح پہنچی اور ان کے وہاں جا کر آباد ہونے کا کیا سبب ہوا اور حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کا واقعہ کیا ہے ؟ اس پر یہ سور ۃ مبارکہ نازِل ہوئی۔

(۱) یہ روشن کتاب کی آیتیں ہیں (ف ۲)

۲                 جس کا اعجاز ظاہر اور مِن عندِ اللّٰہ ہونا واضح اور معانی اہلِ علم کے نزدیک غیر مُشتَبَہ ہیں اور اس میں حلال و حرام، حدود و احکام صاف بیان فرمائے گئے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس میں متقدِّمین کے احوال روشن طور پر مذکور ہیں اور حق و باطل کو ممتاز کر دیا گیا ہے۔

(۲)  بیشک ہم نے  اسے  عربی قرآن اتارا کہ تم سمجھو۔

(۳)  ہم تمہیں سب اچھا بیان سناتے  ہیں (ف ۳) اس لیے  کہ ہم نے  تمہاری طرف اس قرآن کی وحی بھیجی اگرچہ بیشک اس سے  پہلے  تمہیں خبر نہ تھی۔

۳                 جو بہت سے عجائب و غرائب اور حکمتوں اور عبرتوں پر مشتمل ہے اور اس میں دین و دنیا کے بہت فوائد اور سلاطین و رعایا اور عُلَماء کے احوال اور عورتوں کے خصائص اور دشمنوں کی ایذاؤں پر صبر اور ان پر قابو پانے کے بعد ان سے تجاوز کرنے کا نفیس بیان ہے جس سے سننے والے میں نیک سیرتی اور پاکیزہ خصائل پیدا ہوتے ہیں۔ صاحبِ بحر الحقائق نے کہا کہ اس بیان کا احسن ہونا اس سبب سے ہے کہ یہ قصّہ انسان کے احوال کے ساتھ کمال مشابہت رکھتا ہے، اگر یوسف سے دل کو اور یعقوب سے روح اور راحیل سے نفس کو، برادرانِ یوسف سے قوی حواس کو تعبیر کیا جائے اور تمام قصّہ کو انسانوں کے حالات سے مطابقت دی جائے چنانچہ انہوں نے وہ مطابقت بیان بھی کی ہے جو یہاں بنظرِ اختصار درج نہیں کی جا سکتی۔

(۴) یاد کرو جب یوسف نے  اپنے   با  پ  (ف ۴) سے  کہا اے  میرے  باپ میں نے  گیارہ تارے  اور  سورج اور چاند دیکھے  انہیں اپنے  لیے  سجدہ کرتے  دیکھا (ف ۵)

۴                 حضرت یعقوب بن اسحٰق بن ابراہیم علیہم السلام۔

۵                 حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خواب دیکھا کہ آسمان سے گیارہ ستارے اترے اور ان کے ساتھ سورج اور چاند بھی ہیں ان سب نے آپ کو سجدہ کیا، یہ خواب شبِ جمعہ کو دیکھا یہ رات شبِ قدر تھی۔ ستاروں کی تعبیر آپ کے گیارہ بھائی ہیں اور سورج آپ کے والد اور چاند آپ کی والدہ یا خالہ، آپ کی والدہ ماجدہ کا نام راحیل ہے۔ سدی کا قول ہے کہ چونکہ راحیل کا انتقال ہو چکا تھا اس لئے قمر سے آپ کی خالہ مراد ہیں اور سجدہ کرنے سے تواضع کرنا اور مطیع ہونا مراد ہے اور ایک قول یہ ہے کہ حقیقۃً سجدہ ہی مراد ہے کیونکہ اس زمانہ میں سلام کی طرح سجدہ تحیّت تھا، حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عمر شریف اس وقت بارہ سال کی تھی اور سات اور سترہ کے قول بھی آئے ہیں۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بہت زیادہ مَحبت تھی اس لئے ان کے ساتھ ان کے بھائی حسد کرتے تھے اور حضرت یعقوب علیہ السلام اس پر مطّلع تھے اس لئے جب حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ خواب دیکھا تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے۔

(۵)  کہا اے  میرے  بچے  اپنا خواب اپنے  بھائیوں سے  نہ کہنا (ف ۶)  وہ تیرے   ساتھ کوئی چال چلیں گے  (ف ۷) بیشک شیطان  آدمی کا کھلا دشمن ہے  (ف ۸)

۶                 کیونکہ وہ اس کی تعبیر کو سمجھ لیں گے۔ حضرت یعقوب علیہ الصلوٰۃ والسلام جانتے تھے کہ اللّٰہ تعالیٰ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نبوّت کے لئے برگزیدہ فرمائے گا اور دارین کی نعمتیں اور شرف عنایت کرے گا، اس لئے آپ کو بھائیوں کے حسد کا اندیشہ ہوا اور آپ نے فرمایا۔

۷                 اور تمہاری ہلاکت کی کوئی تدبیر سوچیں گے۔

۸                 ان کو کید و حسد پر ابھارے گا۔ اس میں ایما ہے کہ برادرانِ یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام اگر حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لئے ایذا و ضَرر پر اِقدام کریں گے تو اس کا سبب وسوسۂ شیطان ہو گا۔ (خازن) بخاری و مسلم حدیث میں ہے رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے فرما یا اچھا خواب اللّٰہ کی طرف سے ہے چاہیئے کہ اس کو محِب سے بیان کیا جاوے اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہے جب کوئی دیکھنے والا وہ خواب دیکھے تو چاہئے کہ اپنی بائیں طرف تین مرتبہ تھتکارے اور یہ پڑھے  اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ وَ مِنْ شَرِّھٰذِہِ الرُّوْیَا۔

(۶)  اور اسی طرح تجھے  تیرا رب چن لے  گا (ف ۹) اور تجھے   باتوں کا انجام نکالنا سکھائے   گا (ف ۱۰) اور تجھ پر اپنی نعمت پوری کرے  گا اور یعقوب کے  گھر والوں پر (ف ۱۱) جس طرح تیرے  پہلے   دنوں باپ دادا ابراہیمؑ اور اسحٰقؑ پر پوری کی (ف ۱۲) بیشک تیرا رب علم و حکمت والا  ہے۔

۹                 اجتباء یعنی اللّٰہ تعالیٰ کا کسی بندے کو برگزیدہ کر لینا یعنی چن لینا اس کے معنی یہ ہیں کہ کسی بندے کو فیضِ ربّانی کے ساتھ مخصوص کرے جس سے اس کو طرح طرح کے کرامات و کمالات بے سعی و محنت حاصل ہوں۔ یہ مرتبہ انبیاء کے ساتھ خاص ہے اور ان کی بدولت ان کے مقرّبین صدیقین و شہداء و صالحین بھی اس نعمت سے سرفراز کئے جاتے ہیں۔

۱۰               علم و حکمت عطا کرے گا اور کتبِ سابقہ اور احادیثِ انبیاء کے غَوامِض کشف فرمائے گا اور مفسِّرین نے اس سے تعبیرِ خواب بھی مراد لی ہے۔ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام تعبیرِ خواب کے بڑے ماہر تھے۔

۱۱               نبوّت عطا فرما کر جو اعلیٰ مناصب میں سے ہے اور خَلق کے تمام منصب اس سے فر و تر ہیں اور سلطنتیں دے کر دین و دنیا کی نعمتوں سے سرفراز کر کے۔

۱۲               کہ انہیں نبوّت عطا فرمائی۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا اس نعمت سے مراد یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نارِ نمرود سے خلاصی دی اور اپنا خلیل بنایا اور حضرت اسحٰق علیہ الصلوٰۃ و السلام کو حضرت یعقوب اوراسباط عنایت کئے۔

(۷)  بیشک یوسف اور اس کے  بھائیوں میں (ف ۱۳) پوچھنے  والوں کے  لیے  نشانیاں ہیں (ف ۱۴)

۱۳               حضرت یعقوب علیہ الصلوٰۃ و السلام کی پہلی بی بی لیا بنت لیان آپ کے ماموں کی بیٹی ہیں ان سے آپ کے چھ فرزند ہوئے ( ۱ ) روبیل (۲ ) شمعون (۳ ) لادی (۴) یہودا (۵ ) ز بولون (۶) یشجر اور چار بیٹے حرم سے ہوئے (۷) دان (۸ ) نفتالی ( ۹) جاو (۱۰) آشر، انکی مائیں زلفہ اور بلہہ۔ لیا کے انتقال کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام نے ان کی بہن راحیل سے نکاح فرمایا ان سے دو فرزند ہوئے (۱۱) یوسف (۱۲) بنیامین۔ یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ صاحب زادے ہیں انہیں کو اسباط کہتے ہیں۔

۱۴               پوچھنے والوں سے یہود مراد ہیں جنہوں نے رسولِ کریم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم سے حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حال اور اولادِ حضرت یعقوب علیہ السلام کے خطّۂ کنعان سے سر زمینِ مِصر کی طرف منتقل ہونے کا سبب دریافت کیا تھا۔ جب سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حالات بیان فرمائے اور یہود نے ان کو توریت کے مطابق پایا تو انہیں حیرت ہوئی کہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم نے کتابیں پڑھنے اور عُلَماء و احبار کی مجلس میں بیٹھنے اور کسی سے کچھ سیکھنے کے بغیر اس قدر صحیح واقعات کیسے بیان فرمائے۔ یہ دلیل ہے کہ آپ ضرور نبی ہیں اور قرآنِ پاک ضرور وحیِ الٰہی ہے اور اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو علمِ قُدس سے مشرف فرمایا علاوہ بریں اس واقعہ میں بہت سی عبرتیں اور نصیحتیں اور حکمتیں ہیں۔

(۸)  جب بولے  (ف ۱۵) کہ ضرور یوسف اور اس کا بھائی (ف ۱۶) ہمارے  باپ کو ہم سے  زیادہ پیارے  ہیں اور ہم ایک جماعت ہیں (ف ۱۷) بیشک ہمارے  باپ صراحۃ ان کی محبت  میں ڈوبے  ہوئے  ہیں (ف ۱۸)

۱۵               برادرانِ حضرت یوسف۔

۱۶               حقیقی بنیامین۔

۱۷               قوی ہیں زیادہ کام آ سکتے ہیں، زیادہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام چھوٹے ہیں کیا کام کر سکتے ہیں۔

۱۸               اور یہ بات ان کے خیال میں نہ آئی کہ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کی والدہ کا ان کی صِغر سِنی میں انتقال ہو گیا اس لئے وہ مزید شفقت و مَحبت کے مَورَد ہوئے اور ان میں رُشد و نَجابت کی وہ نشانیاں پائی جاتی ہیں جو دوسرے بھائیوں میں نہیں ہیں یہ سبب ہے کہ حضرت یعقوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ زیادہ مَحبت ہے۔ یہ سب باتیں خیال میں نہ لا کر انہیں اپنے والدِ ماجد کا حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام سے زیادہ مَحبت فرمانا شاق گزرا اور انہوں نے باہم مل کر یہ مشورہ کیا کہ کوئی ایسی تدبیر سوچنی چاہئے جس سے ہمارے والد صاحب کو ہماری طرف زیادہ التفات ہو۔ بعض مفسِّرین نے کہا ہے کہ شیطان بھی اس مجلسِ مشورہ میں شریک ہوا اور اس نے حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قتل کی رائے دی اور گفتگوئے مشورہ اس طرح ہوئی۔

(۹) یوسف کو  مار  ڈالو یا کہیں  زمین میں پھینک آؤ (ف ۱۹) کہ تمہارے  باپ کا منہ صرف تمہاری ہی طرف رہے  (ف ۲۰) اور اس کے  بعد پھر نیک ہو جانا (ف ۲۱)

۱۹               آبادیوں سے دور بس یہی صورتیں ہیں جن سے۔

۲۰               اور انہیں فقط تمہاری ہی مَحبت ہو اور کی نہیں۔

۲۱               اور توبہ کر لینا۔

(۱۰) ان میں ایک کہنے   والا (ف ۲۲) بولا یوسف کو مارو نہیں (ف ۲۳) اور اسے  اندھے  کنویں میں ڈال دو کہ کوئی چلتا اسے  آ کر لے  جائے  (ف ۲۴) اگر تمہیں کرنا ہے  (ف ۲۵)

۲۲               یعنی یہودا یا روبیل۔

۲۳               کیونکہ قتل گناہِ عظیم ہے۔

۲۴               یعنی کوئی مسافر وہاں گزرے اور کسی مُلک کو انہیں لے جائے، اس سے بھی غرض حاصل ہے کہ نہ وہ یہاں رہیں گے نہ والد صاحب کی نظرِ عنایت اس طرح ان پر ہو گی۔

۲۵               اس میں اشارہ ہے کہ چاہئے تو یہ کہ کچھ بھی نہ کرو لیکن اگر تم نے ارادہ ہی کر لیا ہے تو بس اتنے ہی پر اکتفا کرو چنانچہ سب اس پر متفق ہو گئے اور اپنے والد سے۔

(۱۱) بولے   اے  ہمارے  باپ ! آپ کو کیا ہوا کہ یوسف کے  معاملہ میں ہمارا اعتبار نہیں کرتے  اور ہم تو اس کے  خیر خواہ ہیں۔

(۱۲) کل اسے  ہمارے  ساتھ بھیج دیجئے  کہ میوے  کھائے  اور کھیلے  (ف ۲۶)  اور بیشک ہم اس کے  نگہبان ہیں (ف ۲۷)

۲۶               یعنی تفریح کے حلال مشاغل سے لطف اندوز ہوں مثل شکار اور تیر اندازی وغیرہ کے۔

۲۷               ان کی پوری نگہداشت رکھیں گے۔

(۱۳)  بولا بیشک مجھے  رنج دے  گا کہ اسے  لے  جاؤ (ف ۲۸) اور ڈرتا ہوں کہ اسے  بھیڑیا کھا لے  (ف ۲۹) اور تم اس سے  بے  خبر رہو (ف ۳۰)

۲۸               کیونکہ ان کی ایک ساعت کی جدائی گوارا نہیں ہے۔

۲۹               کیونکہ اس سر زمین میں بھیڑیے اور درندے بہت ہیں۔

۳۰               اور اپنی سیر و تفریح میں مشغول ہو جاؤ۔

(۱۴) بولے  اگر اسے  بھیڑیا کھا جائے  اور ہم ایک جماعت ہیں جب تو ہم کسی مصرف کے  نہیں (ف ۳۱)

۳۱               لہذا انہیں ہمارے ساتھ بھیج دیجئے۔ تقدیرِ الٰہی یونہی تھی حضرت یعقوب علیہ السلام نے اجازت دی اور وقتِ روانگی حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قمیص جو حریرِ جنّت کی تھی اور جس وقت کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کو کپڑے اتار کر آگ میں ڈالا گیا تھا، حضرت جبریل علیہ السلام نے وہ قمیص آپ کو پہنائی تھی۔ وہ قمیص مبارک حضرت ابراہیم علیہ السلام سے حضرت اسحٰق علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اور ان سے ان کے فرزند حضرت یعقوب علیہ السلام کو پہنچی تھی، وہ قمیص حضرت یعقوب علیہ السلام نے تعویذ بنا کر حضرت یوسف علیہ السلام کے گلے میں ڈال دی۔

 (۱۵) پھر جب اسے  لے  گئے  (ف ۳۲) اور سب کی رائے  یہی ٹھہری کہ اسے  اندھے  کنویں میں ڈال دیں (ف ۳۳) اور ہم نے  اسے  وحی  بھیجی (ف ۳۴) کہ ضرور تو انہیں ان کا یہ کام جتا دے  گا (ف ۳۵) ایسے  وقت کہ وہ نہ جانتے  ہوں گے  (ف ۳۶)

۳۲               اس طرح کہ جب تک حضرت یعقوب علیہ السلام انہیں دیکھتے رہے وہاں تک تو وہ حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنے کندھوں پر سوار کئے ہوئے عزت و احترام کے ساتھ لے گئے جب دور نکل گئے اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی نظروں سے غائب ہو گئے تو انہوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو زمین پر دے ٹپکا اور دلوں میں جو عداوت تھی وہ ظاہر ہوئی جس کی طرف جاتے تھے وہ مارتا تھا اور طعنے دیتا تھا اور خواب جو کسی طرح انہوں نے سن پایا تھا اس پر تشنیع کرتے تھے اور کہتے تھے اپنے خواب کوبلا وہ اب تجھے ہمارے ہاتھوں سے چھٹائے جب سختیاں حد کو پہنچیں تو حضرت یوسف علیہ السلام نے یہودا سے کہا خدا سے ڈر اور ان لوگوں کو ان زیادتیوں سے روک۔ یہودا نے اپنے بھائیوں سے کہا کہ تم نے مجھ سے کیا عہد کیا تھا یاد کرو قتل کی نہیں ٹھہری تھی تب وہ ان حرکتوں سے باز آئے۔

۳۳               چنانچہ انہوں نے ایسا کیا۔ یہ کنواں کنعان سے تین فرسنگ کے فاصلہ پر حوالیِ بیت المقدس یا سر زمینِ اردن میں واقع تھا اوپر سے اس کا منہ تنگ تھا اور اندر سے فراخ۔ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ہاتھ پاؤں باندھ کر، قمیص اتار کر کنوئیں میں چھوڑا جب وہ اس کی نصف گہرائی تک پہنچے تو رسی چھوڑ دی تاکہ آپ پانی میں گر کر ہلاک ہو جائیں۔ حضرت جبریلِ امین بحکمِ الٰہی پہنچے اور انہوں نے آپ کو ایک پتھر پر بٹھا دیا جو کنوئیں میں تھا اور آپ کے ہاتھ کھول دیئے اور روانگی کے وقت حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قمیص جو تعویذ بنا کر آپ کے گلے میں ڈال دیا تھا وہ کھول کر آپ کو پہنا دیا اس سے اندھیرے میں روشنی ہو گئی۔ سبحان اللّٰہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے مبارک اجسادِ شریفہ میں کیا برکت ہے کہ ایک قمیص جو اس بابرکت بدن سے مس ہوا اس نے اندھیرے کنوئیں کو روشن کر دیا۔ مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ ملبوسات اور آثارِ مقبولانِ حق سے برکت حاصل کرنا شرع میں ثابت اور انبیاء کی سنّت ہے۔

۳۴               بواسطۂ حضرتِ جبریل علیہ السلام کے یا بطریقِ الہام کہ آپ غمگین نہ ہوں، ہم آپ کو عمیق چاہ سے بلند جاہ پر پہنچائیں گے اور تمہارے بھائیوں کو حاجت مند بنا کر تمہارے پاس لائیں گے اور انہیں تمہارے زیرِ فرمان کریں گے اور ایسا ہو گا۔

۳۵               جو انہوں نے اس وقت تمہارے ساتھ کیا۔

۳۶               کہ تم یوسف ہو کیونکہ اس وقت آپ کی شان ایسی رفیع ہو گی، آپ اس مسندِ سلطنت و حکومت پر ہوں گے کہ وہ آپ کو نہ پہچانیں گے۔ الحاصل برادرانِ یوسف علیہ السلام حضرت یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں ڈال کر واپس ہوئے اور حضرت یوسف علیہ السلام کا قمیص جو اتار لیا تھا اس کو ایک بکری کے بچہ کے خون میں رنگ کر ساتھ لے لیا۔

(۱۶) اور رات ہوئے  اپنے  باپ کے   پاس روتے   ہوئے  آئے   (ف ۳۷)

۳۷               جب مکان کے قریب پہنچے ان کے چیخنے کی آواز حضرت یعقوب علیہ السلام نے سنی تو گھبرا کر باہر تشریف لائے اور فرمایا اے میرے فرزند کیا تمہیں بکریوں میں کچھ نقصان ہوا ؟ انہوں نے کہا نہیں فرمایا پھر کیا مصیبت پہنچی اور یوسف کہاں ہیں ؟۔

(۱۷) بولے  اے  ہمارے  باپ ہم  دوڑ کرتے  نکل گئے  (ف ۳۸) اور یوسف کو اپنے  اسباب کے  پاس چھوڑا  تو اسے  بھیڑیا کھا گیا اور آپ کسی طرح ہمارا یقین  نہ کریں گے  اگرچہ ہم سچے  ہوں (ف ۳۹)

۳۸               یعنی ہم آپس میں ایک دوسرے سے دوڑ کرتے تھے کہ کون آگے نکلے اس دوڑ میں ہم دور نکل گئے۔

۳۹               کیونکہ ہمارے ساتھ کوئی گواہ ہے نہ کوئی ایسی دلیل و علامت ہے جس سے ہماری راست گوئی ثابت ہو اور قمیص کو پھاڑنا بھول گئے۔

(۱۸) اور اس کے  کُرتے   پر ایک جھوٹا خون لگا لائے  (ف ۴۰) کہا بلکہ تمہارے  دلوں نے  ایک بات تمہارے  واسطے  بنا لی ہے  (ف ۴۱) تو صبر اچھا، اور اللہ ہی مدد چاہتا ہوں ان باتوں پر جو تم بتا رہے  ہو (ف ۴۲)

۴۰               حضرت یعقوب علیہ الصلوٰۃ والسلام وہ قمیص اپنے چہرۂ مبارک پر رکھ کر بہت روئے اور فرمایا عجب طرح کا ہوشیار بھیڑیا تھا جو میرے بیٹے کو کھا تو گیا اور قمیص کو پھاڑا تک نہیں۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ وہ ایک بھیڑیا پکڑ لائے اور حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہنے لگے کہ یہ بھیڑیا ہے جس نے حضرت یوسف علیہ السلام کو کھایا ہے آپ نے بھیڑئیے سے دریافت فرمایا وہ بحکمِ الٰہی گویا ہو کر کہنے لگا حضور نہ میں نے آپ کے فرزند کو کھایا اور نہ انبیاء کے ساتھ کوئی بھیڑیا ایسا کر سکتا ہے، حضرت نے اس بھیڑئیے کو چھوڑ دیا اور بیٹوں سے۔

۴۱               اور واقعہ اس کے خلاف ہے۔

۴۲               حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام تین روز کنوئیں میں رہے اس کے بعد اللّٰہ نے انہیں اس سے نَجات عطا فرمائی۔

(۱۹) اور ایک قافلہ آیا (ف ۴۳) انہوں نے  اپنا پانی لانے  والا بھیجا (ف ۴۴) تو اس نے  اپنا ڈول ڈال (ف ۴۵) بولا  آہا کیسی خوشی کی بات ہے  یہ تو ایک لڑکا ہے  اور اسے  ایک پونجی بنا کر چھپا لیا (ف ۴۶)  اور اللہ جانتا ہے  جو وہ کرتے  ہیں۔

۴۳               جو مدیَن سے مِصر کی طرف جا رہا تھا وہ راستہ بہک کر اس جنگل میں آپڑا جہاں آبادی سے بہت دور یہ کنواں تھا اور اس کا پانی کھاری تھا مگر حضرت یوسف علیہ السلام کی برکت سے میٹھا ہو گیا جب وہ قافلہ والے اس کنوئیں کے قریب اترے تو۔

۴۴               جس کا نام مالک بن ذعر خزاعی تھا یہ شخص مدیَن کا رہنے والا تھا جب وہ کنوئیں پر پہنچا۔

۴۵               حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہ ڈول پکڑ لیا اور اس میں لٹک گئے۔ مالک نے ڈول کھینچا آپ باہر تشریف لائے، اس نے آپ کا حسنِ عالَم افروز دیکھا تو نہایت خوشی میں آ کر اپنے یاروں کو مژدہ دیا۔

۴۶               حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی جو اس جنگل میں اپنی بکریاں چراتے تھے وہ دیکھ بھال رکھتے تھے آج جو انہوں نے یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں نہ دیکھا تو انہیں تلاش ہوئی اور قافلہ میں پہنچے وہاں انہوں نے مالک بن ذعر کے پاس حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا تو وہ اس سے کہنے لگے کہ یہ غلام ہے، ہمارے پاس سے بھاگ آیا ہے، کسی کام کا نہیں، نافرمان ہے اگر خریدو تو ہم اسے سستا بیچ دیں گے پھر اسے کہیں اتنی دور لے جانا کہ اس کی خبر بھی ہمارے سننے میں نہ آئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام ان کے خوف سے خاموش کھڑے رہے اور آپ نے کچھ نہ فرمایا۔

(۲۰)  اور بھائیوں نے  اسے  کھوٹے  داموں گنتی کے  روپوں پر بیچ ڈالا (ف ۴۷) اور انہیں اس میں کچھ رغبت نہ تھی (ف ۴۸)

۴۷               جن کی تعداد بقول قتادہ بیس درہم تھی۔

۴۸               پھر مالک بن ذعر اور اس کے ساتھی حضرت یوسف علیہ السلام کو مِصر میں لائے۔ اس زمانہ میں مِصر کا بادشاہ ریان بن ولید بن نزدان عملیقی تھا اور اس نے اپنی عنانِ سلطنت قطفیر مِصری کے ہاتھ میں دے رکھی تھی، تمام خزائن اسی کے تحتِ تصرّف تھے اس کو عزیزِ مِصر کہتے تھے اور وہ بادشاہ کا وزیرِ اعظم تھا جب حضرت یوسف علیہ السلام مِصر کے بازار میں بیچنے کے لئے لائے گئے تو ہر شخص کے دل میں آپ کی طلب پیدا ہوئی اور خریداروں نے قیمت بڑھانا شروع کی تا آنکہ آپ کے وزن کے برابر سونا، اتنی ہی چاندی، اتنا ہی مشک، اتنا ہی حریر قیمت مقرر ہوئی اور آپ کا وزن چار سو رِطل تھا اور عمر شریف اس وقت تیرہ یا سترہ سال کی تھی۔ عریزِ مِصر نے اس قیمت پر آپ کو خرید لیا اور اپنے گھر لے آیا دوسرے خریدار اس کے مقابلہ میں خاموش ہو گئے۔

(۲۱) اور مصر کے  جس شخص نے  اسے  خریدا  وہ اپنی عورت سے  بولا (ف ۴۹) انہیں عزت سے  رکھو (ف ۵۰) شاید ان سے  ہمیں نفع پہنچے  (ف ۵۱)  یا ان کو ہم بیٹا بنا لیں (ف ۵۲) اور اسی طرح ہم نے  یوسف کو اس زمین میں جماؤ (رہنے  کا ٹھکانا) دیا اور اس لیے  کہ اسے  باتوں کا انجام  سکھائیں (ف۵۳) اور اللہ اپنے  کام پر غالب ہے  مگر اکثر آدمی نہیں جانتے۔

۴۹               جس کا نام زلیخا تھا۔

۵۰               قیام گاہ نفیس ہو لباس و خوراک اعلی قسم کی ہو۔

۵۱               اور ہمارے کاموں میں اپنے تدبُّر و دانائی سے ہمارے لئے نافع اور بہتر مددگار ہوں اور امورِ سلطنت و مُلک داری کے سر انجام میں ہمارے کام آئیں کیونکہ رُشد کے آثار ان کے چہرے نمودار ہیں۔

۵۲               یہ قطفیر نے اس لئے کہا کہ اس کے کوئی اولاد نہ تھی۔

۵۳               یعنی خوابوں کی تعبیر۔

(۲۲) اور جب اپنی پوری قوت کو پہنچا (ف ۵۴) ہم نے  اسے  حکم اور علم عطا فرمایا  (ف ۵۵)  اور ہم ایسا ہی صلہ دیتے  ہیں نیکوں  کو۔

۵۴               شباب اپنی نہایت پر آیا اور عمر شریف بقول ضحاک بیس سال کی اور بقول سدی تیس کی اور بقول کلبی اٹھارہ اور تیس کے درمیان ہوئی۔

۵۵               یعنی علم با عمل اور فقاہت فی الدین عنایت کی۔ بعض عُلَماء نے کہا کہ حکم سے قولِ صواب اور علم سے تعبیرِ خواب مراد ہے۔ بعض نے فرمایا علم حقائقِ اشیاء کا جاننا اور حکمت علم کے مطابق عمل کرنا ہے۔

(۲۳)  اور وہ جس عورت (ف ۵۶) کے  گھر میں تھا اس نے  اسے  لبھایا کہ اپنا آپا  نہ روکے  (ف ۵۷) اور دروازے  سب بند کر دیے  (ف ۵۸) اور بولی آؤ تمہیں سے  کہتی ہوں (ف ۵۹) کہا اللہ کی پناہ (ف ۶۰) وہ عزیز تو میرا رب یعنی  پرورش کرنے  والا ہے  اس نے  مجھے  اچھی طرح رکھا (ف ۶۱) بیشک ظالموں کا بھلا نہیں ہوتا۔

۵۶               یعنی زلیخا۔

۵۷               اور اس کے ساتھ مشغول ہو کر اس کی ناجائز خواہش کو پورا کریں۔ زلیخا کے مکان میں یکے بعد دیگرے سات دروازے تھے اس نے حضرت یوسف علیہ السلام پر تو یہ خواہش پیش کی۔

۵۸               مقفل کر ڈالے۔

۵۹               حضرت یوسف علیہ السلام نے۔

۶۰               وہ مجھے اس قباحت سے بچائے جس کی تو طلب گار ہے۔ مدعا یہ تھا کہ یہ فعل حرام ہے میں اس کے پاس جانے والا نہیں۔

۶۱               اس کا بدلہ یہ نہیں کہ میں اس کے اہل میں خیانت کروں جو ایسا کرے وہ ظالم ہے۔

(۲۴) اور بیشک عورت نے  اس کا ارادہ  کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے  رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا (ف ۶۲) ہم نے  یوں ہی کیا کہ اس سے  برائی  اور بے  حیائی کو پھیر دیں (ف ۶۳)  بیشک وہ ہمارے  چنے  ہوئے  بندوں میں سے  ہے  (ف ۶۴)

۶۲               مگر حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنے ربّ کی برہان دیکھی اور اس ارادۂ فاسدہ سے محفوظ رہے اور برہان عصمتِ نبوّت ہے۔ اللّٰہ تعالی نے انبیاء علیہم الصلوٰۃ و السلام کے نفوسِ طاہرہ کو اخلاقِ ذمیمہ و افعالِ رذیلہ سے پاک پیدا کیا ہے اور اخلاقِ شریفہ طاہرہ مقدسہ پر ان کی خِلقت فرمائی ہے اس لئے وہ ہر ناکردنی فعل سے باز رہتے ہیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جس وقت زلیخا آپ کے در پے ہوئی اس وقت آپ نے اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام کو دیکھا کہ انگُشتِ مبارک دندانِ اقدس کے نیچے دبا کر اِجتِناب کا اشارہ فرماتے ہیں۔

۶۳               اور خیانت و زنا سے محفوظ رکھیں۔

۶۴               جنہیں ہم نے برگزیدہ کیا ہے اور جو ہماری طاعت میں اخلاص رکھتے ہیں۔ الحاصل جب زلیخا آپ کے درپے ہوئی تو حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام بھاگے اور زلیخا ان کے پیچھے انہیں پکڑنے بھاگی۔ حضرت جس جس دروازے پر پہنچتے جاتے تھے اس کا قُفل کھل کر گرتا چلا جاتا تھا۔

(۲۵) اور دونوں دروازے  کی طرف دوڑے  (ف ۶۵) اور عورت نے  اس کا کُرتا پیچھے  سے  چیر لیا اور دونوں کو عورت کا  میاں (ف ۶۶) دروازے  کے  پاس ملا  (ف ۶۷) بولی کیا سزا ہے  اس کی جس نے  تیری گھر وا لی سے  بدی چاہی  (ف ۶۸) مگر یہ کہ قید کیا جائے  یا دکھ کی مار (ف ۶۹)

۶۵               آخر کار زلیخا حضرت تک پہنچی اور اس نے آپ کا کُرتا پیچھے سے پکڑ کر آپ کو کھینچا کہ آپ نکلنے نہ پائیں مگر آپ غالب آئے۔

۶۶               یعنی عزیزِ مِصر۔

۶۷               فوراً ہی زلیخا نے اپنی براءت ظاہر کرنے اور حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کو اپنے مکر سے خائف کرنے کے لئے حیلہ تراشا اور شوہر سے۔

۶۸               اتنا کہہ کر اسے اندیشہ ہوا کہ کہیں عزیز طیش میں آ کر حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کے قتل کے درپے نہ ہو جائے اور یہ زلیخا کی شدّتِ مَحبت کب گوارا کر سکتی تھی اس لئے اس نے یہ کہا۔

۶۹               یعنی اس کو کوڑے لگائے جائیں۔ جب حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام نے دیکھا کہ زلیخا الٹا آپ پر الزام لگاتی ہے اور آپ کے لئے قید و سزا کی صورت پید ا کرتی ہے تو آپ نے اپنی براءت کا اظہار اور حقیقتِ حال کا بیان ضروری سمجھا اور۔

(۲۶) کہا اس نے  مجھ کو لبھایا کہ میں اپنی حفاظت نہ کروں (ف ۷۰) اور عورت کے  گھر والوں میں سے  ایک گواہ نے  (ف ۷۱) گواہی دی اگر ان کا کُرتا  آگے  سے  چرا ہے  تو عورت سچی ہے  اور انہوں نے  غلط کہا (ف ۷۲)

۷۰               یعنی یہ مجھ سے فعلِ قبیح کی طلب گار ہوئی میں نے اس سے انکار کیا اور میں بھاگا۔ عزیز نے کہا یہ بات کس طرح باور کی جائے ؟ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ گھر میں ایک چار مہینے کا بچہ پالنے میں تھا جو زلیخا کے ماموں کا لڑکا ہے اس سے دریافت کرنا چاہیئے، عزیز نے کہا کہ چار مہینے کا بچہ کیا جانے اور کیسے بولے ؟ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ اس کو گویائی دینے اور اس سے میری بے گناہی کی شہادت ادا کرا دینے پر قادِر ہے، عزیز نے اس بچہ سے دریافت کیا قدرتِ الٰہی سے وہ بچہ گویا ہوا اور اس نے حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تصدیق کی اور زلیخا کے قول کو باطل بتایا چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

۷۱               یعنی اس بچے نے۔

۷۲               کیونکہ یہ صورت بتانی ہے کہ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام آگے بڑھے اور زلیخا نے ان کو دفع کیا تو کُرتا آگے سے پھٹا۔

(۲۷)  اور اگر ان کا کُرتا  پیچھے  سے  چاک ہوا تو عورت جھوٹی ہے  اور یہ سچے  (ف ۷۳)

۷۳               اس لئے کہ یہ حال صاف بتاتا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام اس سے بھاگتے تھے اور زلیخا پیچھے سے پکڑتی تھی اس لئے کُرتا پیچھے سے پھٹا۔

(۲۸) پھر جب عزیز نے  اس کا کُرتا پیچھے  سے  چرا دیکھا (ف ۷۴)  بولا  بیشک یہ تم عورتوں کا  چرتر (فریب) ہے  بیشک تمہارا  چرتر (فریب) بڑا ہے  (ف ۷۵)

۷۴               اور جان لیا کہ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام سچے ہیں اور زلیخا جھوٹی ہے۔

۷۵               پھر حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کی طرف متوجہ ہو کر عزیز نے اس طرح معذرت کی۔

(۲۹)  اے  یوسف! تم اس کا خیال نہ کرو (ف ۷۶) اور اے  عورت! تو اپنے  گناہ کی معافی مانگ (ف ۷۷) بیشک تو خطا واروں میں ہے  (ف ۷۸)

۷۶               اور اس پر مغموم نہ ہو بے شک تم پاک ہو اور اس کلام سے یہ بھی مطلب تھا کہ اس کا کسی سے ذکر نہ کرو تاکہ چرچا نہ ہو اور شہرہ عام نہ ہو جائے۔ فائدہ : اس کے علاوہ بھی حضرت یوسف علیہ السلام کی براءت کی بہت سی علامتیں موجود تھیں، ایک تو یہ کہ کوئی شریف طبیعت انسان اپنے محسِن کے ساتھ اس طرح کی خیانت روا نہیں رکھتا، حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام بایں کرامتِ اخلاق کس طرح ایسا کر سکتے تھے، دوئم یہ کہ دیکھنے والوں نے آپ کو بھاگتے آتے دیکھا اور طالب کی یہ شان نہیں ہوتی وہ درپے ہوتا ہے بھاگتا نہیں، بھاگتا وہی ہے جو کسی بات پر مجبور کیا جائے اور وہ اسے گوارا نہ کرے، سوم یہ کہ عورت نے انتہا درجہ کا سنگار کیا تھا اور وہ غیر معمولی زیب و زینت کی حالت میں تھی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رغبت و اہتمام مَحض اس کی طرف سے تھا، چہارم حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات کا تقویٰ و طہارت جو ایک دراز مدّت تک دیکھا جا چکا تھا اس سے آپ کی طرف ایسے امرِ قبیح کی نسبت کسی طرح قابلِ اعتبار نہیں ہو سکتی تھی پھر عزیزِ مِصر زلیخا کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا۔

۷۷               کہ تو نے بے گناہ تہمت لگائی۔

۷۸               عزیزِ مِصر نے اگرچہ اس قصّہ کو بہت دبایا لیکن یہ خبر چھُپ نہ سکی اور اس کا چرچا اور شہرہ ہو ہی گیا۔

(۳۰) اور شہر میں کچھ عورتیں بولیں (ف ۷۹)  کہ عزیز کی بی بی اپنے  نوجوان کا دل لبھاتی ہ  ے  بیشک ان کی محبت اس کے  دل  میں پَیر گئی (سما گئی) ہے  ہم تو اسے  صریح خود  رفتہ پاتے  ہیں (ف ۸۰)

۷۹               یعنی شرفائے مِصر کی عورتیں۔

۸۰               کہ اس آشُفتگی میں اس کو اپنے ننگ و ناموس اور پردے و عِفت کا لحاظ بھی نہ رہا۔

(۳۱)  تو جب زلیخا نے  ان کا  چرچا  سنا تو ان عورتوں کو بلا بھیجا (ف ۸۱) اور ان کے  لیے  مسندیں تیار کیں (ف ۸۲) اور ان میں ہر ایک کو ایک چھری  دی (ف ۸۳) اور یوسف (ف ۸۴) سے  کہا ان پر نکل آؤ (ف ۸۵) جب عورتوں نے  یوسف کو دیکھا اس کی بڑائی بولنے  لگیں (ف ۸۶) اور اپنے  ہاتھ کاٹ  لیے  (ف ۸۷) اور بولیں اللہ کو پاکی ہے  یہ تو جنس بشر سے  نہیں (ف ۸۸) یہ تو نہیں مگر کوئی معزز فرشتہ۔

۸۱               یعنی جب اس نے سنا کہ اشرافِ مِصر کی عورتیں اس کو حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کی مَحبت پر ملامت کرتی ہیں تو اس نے چاہا کہ وہ اپنا عذر انہیں ظاہر کر دے اس لئے اس نے ان کی دعوت کی ا ور اشرافِ مِصر کی چالیس عورتوں کو مدعو کر دیا، ان میں وہ سب بھی تھیں جنہوں نے اس پر ملامت کی تھی، زلیخا نے ان عورتوں کو بہت عزت و احترام کے ساتھ مہمان بنایا۔

۸۲               نہایت پُرتکلّف جن پر وہ بہت عزت و آرام سے تکیے لگا کر بیٹھیں اور دستر خوان بچھائے گئے اور قسم قسم کے کھانے اور میوے چنے گئے۔

۸۳               تاکہ کھانے کے لئے اس سے گوشت کاٹیں اور میوے تراشیں۔

۸۴               کو عمدہ لباس پہنا کر ان۔

۸۵               پہلے تو آپ نے اس سے انکار کیا لیکن جب اصرار و تاکید زیادہ ہوئی تو اس کی مخالفت کے اندیشہ سے آپ کو آنا ہی پڑا۔

۸۶               کیونکہ انہوں نے اس جمالِ عالَم افروز کے ساتھ نبوّت و رسالت کے انوار اور تواضع و انکسار کے آثار اور شاہانہ ہیبت و اقتدار اور لذائذِ اَطعِمہ اور صُوَرِ جمیلہ کی طرف سے بے نیازی کی شان دیکھی، تعجب میں آ گئیں اور آپ کی عظمت و ہیبت دلوں میں بھر گئی اور حسن و جمال نے ایسا وارفتہ کیا کہ ان عورتوں کو خود فراموشی ہو گئی۔

۸۷               بجائے لیموں کے اور دل حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ساتھ ایسے مشغول ہوئے کہ ہاتھ کاٹنے کی تکلیف کا اصلاً احساس نہ ہوا۔

۸۸               کہ ایسا حسن و جمال بشر میں دیکھا ہی نہیں گیا اور اس کے ساتھ نفس کی یہ طہارت کہ مِصر کی عالی خاندان جمیلہ مخدرات طرح طرح کے نفیس لباسوں اور زیوروں سے آراستہ و پیراستہ سامنے موجود ہیں اور آپ کسی کی طرف نظر نہیں فرماتے اور قطعاً التفات نہیں کرتے۔

(۳۲) زلیخا نے  کہا  تو یہ ہیں وہ جن پر مجھے  طعنہ دیتی تھیں (ف ۸۹) اور بیشک میں نے  ان کا جِی لبھانا چاہا تو انہوں نے  اپنے  آپ کو بچا یا (ف ۹۰) اور بیشک اگر وہ یہ کام نہ کریں گے  جو میں ان سے  کہتی ہوں تو ضرور قید میں پڑیں گے  اور وہ ضرور ذلت اٹھائیں گے  (ف ۹۱)

۸۹               اب تم نے دیکھ لیا اور تمہیں معلوم ہو گیا کہ میری شیفتگی کچھ قابلِ تعجب اور جائے ملامت نہیں۔

۹۰               اور کسی طرح میری طرف مائل نہ ہوئے۔ اس پر مِصری عورتوں نے حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام سے کہا کہ آپ زلیخا کا کہنا مان لیجئے زلیخا بولی۔

۹۱               اور چوروں اور قاتلوں اور نافرمانوں کے ساتھ جیل میں رہیں گے کیونکہ انہوں نے میرا دل لیا اور میری نافرمانی کی اور فراق کی تلوار سے میرا خون بہایا تو یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کو بھی خوشگوار کھانا پینا اور آرام کی نیند سونا میسّر نہ ہو گا جیسا میں جدائی کی تکلیفوں میں مصیبتیں جھیلتی اور صدموں میں پریشانی کے ساتھ وقت کاٹتی ہوں یہ بھی تو کچھ تکلیف اٹھائیں، میرے ساتھ حریر میں شاہانہ سر یر پر عیش گوارا نہیں ہے تو قید خانے کے چبھنے والے بوریئے پر ننگے جسم کو دکھانا گوارا کریں۔ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام یہ سن کر مجلس سے اٹھ گئے اور مِصری عورتیں ملامت کرنے کے بہانہ سے باہر آئیں اور ایک ایک نے آپ سے اپنی تمنّاؤں اور مرادوں کا اظہار کیا، آپ کو ان کی گفتگو بہت ناگوار ہوئی تو بارگاہِ الٰہی میں۔ (خازن و مدارک و حسینی)۔

(۳۳)  یوسف نے  عرض کی اے  میرے  رب! مجھے  قید خانہ زیادہ پسند ہے  اس کام سے  جس کی طرف یہ مجھے  بلاتی ہیں اور اگر تو مجھ سے  ان کا مکر نہ پھیرے  گا (ف ۹۲) تو میں ان کی طرف مائل ہوں گا اور نادان بنوں گا۔

۹۲               اور اپنی عِصمت کی پناہ میں نہ لے گا۔

(۳۴) تو اس کے  رب نے  اس کی سن لی اور اس سے  عورتوں کا مکر پھیر دیا، بیشک وہی سنتا جانتا ہے  (ف ۹۳)

۹۳               جب حضرت یوسف علیہ السلام سے امید پوری ہونے کی کوئی شکل نہ دیکھی تو مِصری عورتوں نے زلیخا سے کہا کہ اب مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اب دو تین روز حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانہ میں رکھا جائے تاکہ وہاں کی محنت و مشقت دیکھ کر انہیں نعمت و راحت کی قدر ہو اور وہ تیری درخواست قبول کریں، زلیخا نے اس رائے کو مانا اور عزیزِ مصر سے کہا کہ میں اس عبری غلام کی وجہ سے بدنام ہو گئی ہوں اور میری طبیعت اس سے نفرت کرنے لگی ہے، مناسب یہ ہے کہ ان کو قید کیا جائے تاکہ لو گ سمجھ لیں کہ وہ خطا وار ہیں اور میں ملامت سے بری ہوں، یہ بات عزیز کے خیال میں آ گئی۔

(۳۵)  پھر سب کچھ نشانیاں دیکھ دکھا کر پچھلی مت  انہیں یہی آئی کہ ضرور ایک مدت تک اسے  قید خانہ میں ڈالیں (ف ۹۴)

۹۴               چنانچہ انہوں نے ایسا کیا اور آپ کو قید خانے میں بھیج دیا۔

(۳۶)  اور اس کے  ساتھ قید خانہ میں دو  جوان داخل ہوئے  (ف ۹۵) ان میں ایک (ف ۹۶) بولا میں نے  خواب میں دیکھا کہ (ف ۹۷) شراب نچوڑتا ہوں اور دوسرا بولا (ف ۹۸) میں نے  خواب دیکھا کہ میرے  سر پر کچھ روٹیاں ہیں جن میں سے  پرند کھاتے  ہیں، ہمیں اس کی تعبیر بتایے، بیشک ہم آپ کو نیکو  کار دیکھتے   ہیں (ف ۹۹)

۹۵               ان میں سے ایک تو مِصر کے شاہِ اعظم ولید بن نروان عملیقی کا مہتمم مطنج تھا اور دوسرا اس کا ساقی، ان دونوں پر یہ الزام تھا کہ انہوں نے بادشاہ کو زہر دینا چاہا اس جرم میں دونوں قید کئے گئے، حضرت یوسف علیہ السلام جب قید خانے میں داخل ہوئے تو آپ نے اپنے علم کا اظہار شروع کر دیا اور فرمایا کہ میں خوابوں کی تعبیر کا علم رکھتا ہوں۔

۹۶               جو بادشاہ کا ساقی تھا۔

۹۷               میں ایک باغ میں ہوں وہاں ایک انگور کے درخت میں تین خوشے رسیدہ لگے ہوئے ہیں، بادشاہ کا کاسہ میرے ہاتھ میں ہے میں ان خوشوں سے۔

۹۸               یعنی مہتممِ مطبخ۔

۹۹               کہ آپ دن میں روزہ دار رہتے ہیں، رات تمام نماز میں گزارتے ہیں جب کوئی جیل میں بیمار ہوتا ہے اس کی عیادت کرتے ہیں، اس کی خبر گیری رکھتے ہیں، جب کسی پر تنگی ہوتی ہے اس کے لئے کشائش کی راہ نکالتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ان کے تعبیر دینے سے پہلے اپنے معجزے کا اظہار اور توحید کی دعوت شروع کر دی اور یہ ظاہر فرما دیا کہ علم میں آپ کا درجہ اس سے زیادہ ہے جتنا وہ لوگ آپ کی نسبت اعتقاد رکھتے ہیں کیونکہ علمِ تعبیر ظن پر مبنی ہے اس لئے آپ نے چاہا کہ انہیں ظاہر فرما دیں کہ آپ غیب کی یقینی خبریں دینے پر قدرت رکھتے ہیں اور اس سے مخلوق عاجز ہے۔ جس کو اللّٰہ نے غیبی علوم عطا فرمائے ہوں اس کے نزدیک خواب کی تعبیر کیا بڑی بات ہے ! اس وقت معجزے کا اظہار آپ نے اس لئے فرمایا کہ آپ جانتے تھے کہ ان دونوں میں ایک عنقریب سولی دیا جائے گا تو آپ نے چاہا اس کو کُفر سے نکال کر اسلام میں داخل کریں اور جہنّم سے بچاویں۔ مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ اگر عالِم اپنی علمی منزِلت کا اس لئے اظہار کرے کہ لوگ اس سے نفع اٹھائیں تو یہ جائز ہے۔ (مدارک و خازن)۔

(۳۷)  یوسف نے  کہا جو کھانا تمہیں ملا کرتا ہے  وہ تمہارے  پاس نہ آنے  پائے  گا کہ میں اس کی تعبیر اس کے  آنے  سے  پہلے  تمہیں بتا دوں گا (ف ۱۰۰) یہ ان علموں میں سے  ہے  جو مجھے  میرے  رب نے  سکھایا ہے، بیشک میں نے  ان لوگوں کا دین نہ مانا جو اللہ پر ایمان نہیں لاتے  اور وہ آخرت سے  منکر ہیں۔

۱۰۰             اس کی مقدار اور اس کا رنگ اور اس کے آنے کا وقت اور یہ کہ تم نے کیا کھایا یا کتنا کھایا یا کب کھایا۔

(۳۸) اور میں نے  اپنے  باپ دادا ابراہیمؑ اور اسحٰقؑ اور یعقوب کا دین اختیار کیا (ف ۱۰۱) ہمیں نہیں پہنچتا کہ کسی چیز کو  اللہ کا شریک ٹھہرائیں، یہ (ف ۱۰۲) اللہ کا ایک فضل ہے   ہم پر اور لوگوں پر مگر اکثر لوگ شکر نہیں کرتے  (ف ۱۰۳)

۱۰۱             حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنے معجِزہ کا اظہار فرمانے کے بعد یہ بھی ظاہر فرما دیا کہ آپ خاندانِ نبوّت سے ہیں اور آپ کے آباؤ اجداد انبیاء ہیں جن کا مرتبۂ عُلیا دنیا میں مشہور ہے۔ اس سے آپ کا مقصد یہ تھا کہ سننے والے آپ کی دعوت قبول کریں اور آپ کی ہدایت کو مانیں۔

۱۰۲             توحید اختیار کرنا اور شرک سے بچنا۔

۱۰۳             اس کی عبادت بجا نہیں لاتے اور مخلوق پرستی کرتے ہیں۔

(۳۹) اے  میرے   قید خانہ کے  دونوں ساتھیو! کیا جدا جدا رب (۱۰۴) اچھے  یا ایک اللہ جو سب پر غالب، (ف ۱۰۵)

۱۰۴             جیسے کہ بُت پرستوں نے بنا رکھے ہیں کوئی سونے کا، کوئی چاندی کا، کوئی تانبے کا، کوئی لوہے کا، کوئی لکڑی کا، کوئی پتھر کا، کوئی اور کسی چیز کا، کوئی چھوٹا کوئی بڑا مگر سب کے سب نکمے بے کار نہ نفع دے سکیں نہ ضَرر پہنچا سکیں، ایسے جھوٹے معبود۔

۱۰۵             کہ نہ کوئی اس کا مقابل ہو سکتا ہے نہ اس کے حکم میں دخل دے سکتا ہے، نہ اس کا کوئی شریک ہے نہ نظیر، سب پر اس کا حکم جاری اور سب اس کے مملوک۔

(۴۰)  تم اس کے  سوا نہیں پوجتے  مگر نرے  نام (ف رضی نام) جو تم نے  اور تمہارے  باپ دادا نے  تراش لیے  ہیں (ف ۱۰۶) اللہ نے  ان کی کوئی سند نہ اتاری، حکم نہیں مگر اللہ کا اس نے   فرمایا کہ اس کے  سوا کسی کو نہ پوجو (ف ۱۰۷) یہ سیدھا دین ہے  (ف ۱۰۸) لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے  (ف ۱۰۹)

۱۰۶             اور ان کا نام معبود رکھ لیا ہے باوجود یکہ وہ بے حقیقت پتھر ہیں۔

۱۰۷             کیونکہ صر ف وہی مستحقِ عبادت ہے۔

۱۰۸             جس پر دلائل و براہین قائم ہیں۔

۱۰۹             توحید و عبادتِ الٰہی کی دعوت دینے کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام نے تعبیرِ خواب کی طرف توجہ فرمائی اور ارشاد کیا۔

(۴۱)  اے  قید خانہ کے  دونوں ساتھیو! تم میں ایک تو اپنے  رب (بادشاہ)  کو شراب پلائے  گا (ف ۱۱۰) رہا دوسرا  (ف ۱۱۱) وہ سو ُلی دیا جائے  گا تو پرندے  اس کا سر کھائیں گے  (ف ۱۱۲) حکم ہو چکا اس بات کا جس کا تم سوال کرتے  تھے  (ف ۱۱۳)

۱۱۰             یعنی بادشاہ کا ساقی تو اپنے عہدہ پر بحال کیا جائے گا اور پہلے کی طرح بادشاہ کو شراب پلائے گا اور تین خوشے جو خواب میں بیان کئے گئے ہیں یہ تین دن ہیں، اتنے ہی ایام قید خانے میں رہے گا پھر بادشاہ اس کو بلا لے گا۔

۱۱۱             یعنی مہتمم مطبخ و طعام۔

۱۱۲             حضرت ابنِ مسعود رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تعبیر سن کر ان دونوں نے حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام سے کہا کہ خواب تو ہم نے کچھ بھی نہیں دیکھا ہم تو ہنسی کر رہے تھے۔ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا۔

۱۱۳             جو میں نے کہہ دیا یہ ضرور واقع ہو گا، تم نے خواب دیکھا ہو یا نہ دیکھا ہو اب یہ حکم ٹل نہیں سکتا۔

(۴۲) اور یوسف نے  ان دونوں میں سے  جسے  بچتا سمجھا (ف ۱۱۴) اس سے  کہا اپنے  رب (بادشاہ) کے  پاس میرا ذکر کرنا (ف ۱۱۵) تو شیطان نے  اسے  بھلا دیا کہ اپنے  رب (بادشاہ) کے  سامنے  یوسف کا ذکر کرے  تو یوسف کئی برس اور جیل خانہ میں رہا (ف ۱۱۶)

۱۱۴             یعنی ساقی کو۔

۱۱۵             اور میرا حال بیان کرنا کہ قید خانے میں ایک مظلوم بے گناہ قید ہے اور اس کی قید کو ایک زمانہ گزر چکا ہے۔

۱۱۶             اکثر مفسِّرین اس طرف ہیں کہ اس واقعہ کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام سات برس اور قید میں رہے اور پانچ برس پہلے رہ چکے تھے اور اس مدت کے گزرنے کے بعد جب اللّٰہ تعالیٰ کو حضرت یوسف کا قید سے نکالنا منظور ہوا تو مِصر کے شاہِ اعظم ریان بن ولید نے ایک عجیب خواب دیکھا جس سے اس کو بہت پریشانی ہوئی اور اس نے مُلک کے ساحِروں اور کاہِنوں اور تعبیر دینے والوں کو جمع کر کے ان سے اپنا خواب بیان کیا۔

(۴۳) اور بادشاہ نے  کہا میں نے  خواب میں دیکھیں سات گائیں  فربہ کہ انہیں سات دُبلی  گائیں کھا رہی ہیں اور سات با لیں ہری اور دوسری سات سوکھی (ف ۱۱۷) اے  درباریو! میرے  خواب کا جواب دو اگر تمہیں خواب کی تعبیر آتی ہو۔

۱۱۷             جو ہری پر لپٹیں اور انہوں نے ہری کو سکھا دیا۔

(۴۴) بولے  پریشان خوابیں ہیں اور ہم خواب کی تعبیر نہیں جانتے۔

(۴۵) اور بولا وہ جو ان دونوں میں سے  بچا تھا (ف ۱۱۸) اور ایک مدت بعد اسے  یاد آیا (ف ۱۱۹) میں تمہیں اس کی تعبیر بتاؤں گا مجھے  بھیجو (ف ۱۲۰)

۱۱۸             یعنی ساقی۔

۱۱۹             کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس سے فرمایا تھا کہ اپنے آقا کے سامنے میرا ذکر کرنا، ساقی نے کہا کہ۔

۱۲۰             قید خانے میں وہاں تعبیرِ خواب کے ایک عالِم ہیں، بس بادشاہ نے اس کو بھیج دیا وہ قید خانہ میں پہنچ کر حضرت یوسف علیہ السلام کی خدمت میں عرض کرنے لگا۔

(۴۶)  اے  یوسف! اے  صدیق! ہمیں تعبیر  دیجئے  سات فربہ گایوں کی جنہیں سات دُبلی کھاتی ہیں  اور سات ہری با لیں اور دوسری سات سوکھی (ف ۱۲۱) شاید میں لوگوں کی طرف لوٹ کر جاؤں  شاید وہ آگاہ ہوں (ف ۱۲۲)

۱۲۱             یہ خواب بادشاہ نے دیکھا ہے اور مُلک کے تمام عُلَماء و حُکماء اس کی تعبیر سے عاجز رہے ہیں، حضرت اس کی تعبیر ارشاد فرمائیں۔

۱۲۲             خواب کی تعبیر سے اور آپ کے علم و فضل اور مرتبت و منزِلت کو جانیں اور آپ کو اس محنت سے رہا کر کے اپنے پاس بلائیں۔ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تعبیر دی اور۔

(۴۷)  کہا تم کھیتی کرو گے  سات برس لگاتار (ف ۱۲۳) تو جو کاٹو اسے  اس کی بال میں رہنے  دو (ف ۱۲۴) مگر تھوڑا جتنا کھا لو (ف ۱۲۵)

۱۲۳             اس زمانہ میں خوب پیداوار ہو گی، سات موٹی گایوں اور سات سبز بالوں سے اسی کی طرف اشارہ ہے۔

۱۲۴             تاکہ خراب نہ ہو اور آفات سے محفوظ رہے۔

۱۲۵             اس پر سے بھوسی اتار لو اور اسے صاف کر لو، باقی کو ذخیرہ بنا کر محفوظ کر لو۔

(۴۸)  پھر اس کے  بعد سات برس کرّے  (سخت تنگی والے )  آئیں گے  (ف ۱۲۶) کہ کھا جائیں گے  جو تم نے  ان کے  لیے  پہلے  جمع کر رکھا تھا (ف ۱۲۷) مگر تھوڑا جو  بچا لو (ف ۱۲۸)

۱۲۶             جن کی طرف دبلی گایوں اور سوکھی بالوں میں اشارہ ہے۔

۱۲۷             اور ذخیرہ کر لیا تھا۔

۱۲۸             بیج کے لئے تاکہ اس سے کاشت کرو۔

(۴۹)  پھر ان کے  بعد ایک برس آئے  گا جس میں لوگوں کو مینھ دیا  جائے  گا اور اس میں رس نچوڑیں گے  (ف ۱۲۹)

۱۲۹             انگور کا اور تِل زیتون کے تیل نکالیں گے، یہ سال کثیر الخیر ہو گا، زمین سرسبز و شاداب ہو گی، درخت خوب پھلیں گے۔ حضرت یوسف علیہ السلام سے یہ تعبیر سن کر واپس ہوا اور بادشاہ کی خدمت میں جا کر تعبیر بیان کی، بادشاہ کو یہ تعبیر بہت پسند آئی اور اسے یقین ہوا کہ جیسا حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا ہے ضرور ویسا ہی ہو گا۔ بادشاہ کو شوق پیدا ہوا کہ اس خواب کی تعبیر خود حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کی زبانِ مبارک سے سنے۔

(۵۰)  اور بادشاہ بولا کہ انہیں میرے  پاس لے  آؤ تو جب اس کے  پاس ایلچی آیا (ف ۱۳۰) کہا اپنے  رب (بادشاہ) کے  پاس پلٹ جا پھر اس سے  پوچھ (ف ۱۳۱) کیا حال ہے  اور عورتوں کا جنہوں نے  اپنے  ہاتھ کاٹے  تھے، بیشک میرا رب ان کا فریب جانتا ہے  (ف ۱۳۲)

۱۳۰             اور اس نے حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کی خدمت میں بادشاہ کا پیام عرض کیا تو آپ نے۔

۱۳۱             یعنی اس سے درخواست کر کہ وہ پوچھے، تفتیش کرے۔

۱۳۲             یہ آپ نے اس لئے فرمایا تاکہ بادشاہ کے سامنے آپ کی براءت اور بے گناہی معلوم ہو جائے اور یہ اس کو معلوم ہو کہ یہ قید طویل بے وجہ ہوئی تاکہ آئندہ حاسدوں کو نیش زنی کا موقع نہ ملے۔ مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ دفعِ تہمت میں کوشش کرنا ضروری ہے۔ اب قاصد حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پاس سے یہ پیام لے کر بادشاہ کی خدمت میں پہنچا، بادشاہ نے سن کر عورتوں کو جمع کیا اور ان کے ساتھ عزیز کی عورت کو بھی۔

(۵۱) بادشاہ نے  کہا  اے  عورتو! تمہارا کیا کام تھا جب  تم نے  یوسف کا دل لبھانا چاہا، بولیں اللہ کو پاکی ہے  ہم نے  ان میں کوئی بدی نہیں پائی عزیز کی عورت (ف ۱۳۳) بولی اب اصلی  بات کھل گئی، میں نے  ان کا جی لبھانا چاہا تھا اور وہ بیشک سچے  ہیں (ف ۱۳۴)

۱۳۳             زلیخا۔

۱۳۴             بادشاہ نے حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کے پاس پیام بھیجا کہ عورتوں نے آپ کی پاکی بیان کی ا ور عزیز کی عورت نے اپنے گناہ کا اقرار کر لیا اس پر حضرت۔

(۵۲)  یوسف نے  کہا یہ میں نے  اس لیے  کیا کہ عزیز کو معلوم ہو جائے  کہ میں نے  پیٹھ  پیچھے  اس کی خیانت  نہ کی اور اللہ دغا بازوں  کا مکر نہیں چلنے  دیتا۔

(۵۳) اور میں اپنے  نفس کو بے  قصور نہیں بتاتا (ف ۱۳۵) بیشک نفس تو برائی کا  بڑا حکم دینے   والا ہے  مگر جس پر میرا رب رحم کرے  (ف ۱۳۶) بیشک میرا رب بخشنے  والا مہربان ہے  (ف ۱۳۷)

۱۳۵             زلیخا کے اقرار و اعتراف کے بعد حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام نے جو یہ فرمایا تھا کہ میں نے اپنی براءت کا اظہار اس لئے چاہا تھا تاکہ عزیز کو یہ معلوم ہو جائے کہ میں نے اس کی غَیبت میں اس کی خیانت نہیں کی ہے اور اس کے اہل کی حرمت خراب کرنے سے مُجتنِب رہا ہوں اور جو الزام مجھ پر لگائے گئے ہیں میں ان سے پاک ہوں، اس کے بعد آپ کا خیال مبارک اس طرف گیا کہ اس میں اپنی طرف پاکی کی نسبت اور اپنی نیکی کا بیان ہے ایسا نہ ہو کہ اس میں شانِ خود بینی اور خود پسندی کا شائبہ بھی آئے۔ اسی لئے اللّٰہ تعالیٰ کی جناب میں تواضُع و انکسار سے عرض کیا کہ میں اپنے نفس کو بے قصور نہیں بتاتا، مجھے اپنی بے گناہی پر ناز نہیں ہے اور میں گناہ سے بچنے کو اپنے نفس کی خوبی قرار نہیں دیتا، نفس کی جنس کا یہ حال ہے کہ۔

۱۳۶             یعنی اپنے جس مخصوص بندے کو اپنے کرم سے معصوم کرے تو اس کا برائیوں سے بچنا اللّٰہ کے فضل و رحمت سے ہے اور معصوم کرنا اسی کا کرم ہے۔

۱۳۷             جب بادشاہ کو حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کے علم اور آپ کی امانت کا حال معلوم ہوا اور وہ آپ کے حُسنِ صبر، حُسنِ ادب، قید خانے والوں کے ساتھ احسان، محنتوں اور تکلیفوں پر ثبات و استقلال رکھنے پر مطّلع ہوا تو اس کے دل میں آپ کا بہت ہی عظیم اعتقاد پیدا ہوا۔

(۵۴) اور بادشاہ  بولا انہیں میرے  پاس لے  آؤ کہ میں انہیں اپنے  لیے  چن لوں (ف ۱۳۸) پھر جب اس سے  بات کی کہا بیشک آج آپ  ہمارے  یہاں معزز معتمد ہیں (ف ۱۳۹)

۱۳۸             اور اپنا مخصوص بنا لوں چنانچہ اس نے معزّزین کی ایک جماعت، بہترین سواریاں اور شاہانہ ساز و سامان اور نفیس لباس لے کر قید خانہ بھیجی تاکہ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کو نہایت تعظیم و تکریم کے ساتھ ایوانِ شاہی میں لائیں۔ ان لوگوں نے حضرت یوسف علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر بادشاہ کا پیام عرض کیا آپ نے قبول فرمایا اور قید خانہ سے نکلتے وقت قیدیوں کے لئے دعا فرمائی، جب قید خانہ سے باہر تشریف لائے تو اس کے دروازہ پر لکھا یہ بلا کا گھر، زندوں کی قبر اور دشمنوں کی بد گوئی اور سچوں کے امتحان کی جگہ ہے پھر غسل فرمایا اور پوشاک پہن کر ایوانِ شاہی کی طرف روانہ ہوئے جب قلعہ کے دروازہ پر پہنچے تو فرمایا میرا ربّ مجھے کافی ہے، اس کی پناہ بڑی اور اس کی ثناء برتر اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں پھر قلعہ میں داخل ہوئے، بادشاہ کے سامنے پہنچے تو یہ دعا کی کہ یاربّ میرے، تیرے فضل سے اس کی بھلائی طلب کرتا ہوں اور اس کی اور دوسروں کی برائی سے تیری پناہ چاہتا ہوں، جب بادشاہ سے نظر ملی تو آپ نے عربی میں سلام فرمایا، بادشاہ نے دریافت کیا یہ کیا زبان ہے ؟ فرمایا یہ میرے عَم حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی زبان ہے پھر آپ نے اس کو عبرانی زبان میں دعا کی، اس نے دریافت کیا یہ کون زبان ہے ؟ فرمایا یہ میرے ابّا کی زبان ہے، بادشاہ یہ دونوں زبانیں نہ سمجھ سکا باوجود یکہ وہ ستّر زبانیں جانتا تھا پھر اس نے حضرت سے جس زبان میں گفتگو کی آپ نے اسی زبان میں اس کو جواب دیا، اس وقت آپ کی عمر شریف تیس سال کی تھی اس عمر میں یہ وسعتِ علوم دیکھ کر بادشاہ کو بہت حیرت ہوئی اور اس نے آپ کو اپنے برابر جگہ دی۔

۱۳۹             بادشاہ نے درخواست کی کہ حضرت اس کے خواب کی تعبیر اپنے زبانِ مبارک سے سناویں، حضرت نے اس خواب کی پوری تفصیل بھی سنا دی۔ جس جس شان سے کہ اس نے دیکھا تھا باوجود یکہ آپ سے یہ خواب پہلے مجملاً بیان کیا گیا تھا اس پر بادشاہ کو بہت تعجب ہوا، کہنے لگا کہ آپ نے میرا خواب ہو بہو بیان فرما دیا خواب تو عجیب تھا ہی مگر آپ کا اس طرح بیان فرما دینا اس سے بھی زیادہ عجیب تر ہے، اب تعبیر ارشاد ہو جائے، آپ نے تعبیر بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا کہ اب لازم یہ ہے کہ غلّے جمع کئے جائیں اور ان فراخی کے سالوں میں کثرت سے کاشت کرائی جائے اور غلّے مع بالوں کے محفوظ رکھے جائیں اور رعایا کی پیداوار میں سے خُمس لیا جائے، اس سے جو جمع ہو گا وہ مِصر و حوالیِ مِصر کے باشندوں کے لئے کافی ہو گا اور پھر خَلقِ خدا ہر ہر طرف سے تیرے پاس غلّہ خریدنے آئے گی اور تیرے یہاں اتنے خزائن و اموال جمع ہوں گے جو تجھ سے پہلوں کے لئے جمع نہ ہوئے۔ بادشاہ نے کہا یہ انتظام کون کرے گا۔

(۵۵) یوسف نے  کہا مجھے  زمین کے  خزانوں پر کر دے  بیشک میں حفاظت والا علم والا ہوں (ف ۱۴۰)

۱۴۰             یعنی اپنی قلمرو کے تمام خزانے میرے سپرد کر دے، بادشاہ نے کہا آپ سے زیادہ اس کا مستحق اور کون ہو سکتا ہے اور اس نے اس کو منظور کیا۔ مسائل : احادیث میں طلبِ اَمارت کی ممانعت آئی ہے، اس کے یہ معنی ہیں کہ جب مُلک میں اہل موجود ہوں اور اقامتِ اَحکامِ الٰہی کسی ایک شخص کے ساتھ خاص نہ ہو اس وقت اَمارت طلب کرنا مکروہ ہے لیکن جب ایک ہی شخص اہل ہو تو اس کو احکامِ الٰہیہ کی اقامت کے لئے اَمارت طلب کرنا جائز بلکہ واجب ہے اور حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام اسی حال میں تھے آپ رسول تھے، امّت کے مصالح کے عالِم تھے، یہ جانتے تھے کہ قحطِ شدید ہونے والا ہے جس میں خَلق کو راحت و آسائش پہنچانے کی یہی سبیل ہے کہ عنانِ حکومت کو آپ اپنے ہاتھ میں لیں اس لئے آپ نے اَمارت طلب فرمائی۔ مسئلہ : ظالم بادشاہ کی طرف سے عہدے قبول کرنا بہ نیتِ اقامتِ عدل جائز ہے۔ مسئلہ : اگر احکامِ دین کا اجراء کافِر یا فاسق بادشاہ کی تمکین کے بغیر نہ ہو سکے تو اس میں اس سے مدد لینا جائز ہے۔ مسئلہ : اپنی خوبیوں کا بیان تفاخُر و تکبّر کے لئے ناجائز ہے لیکن دوسروں کو نفع پہنچانے یا خَلق کے حقوق کی حفاظت کرنے کے لئے اگر اظہار کی ضرورت پیش آئے تو ممنوع نہیں اسی لئے حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بادشاہ سے فرمایا کہ میں حفاظت و علم والا ہوں۔

(۵۶)  اور یوں ہی ہم نے  یوسف کو اس ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے  رہے  (ف ۱۴۱) ہم اپنی رحمت (ف ۱۴۲) جسے  چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں کا نیگ (  اَجر) ضائع نہیں کرتے۔

۱۴۱             سب ان کے تحتِ تصرّف ہے۔ اَمارت طلب کرنے کے ایک سال بعد بادشاہ نے حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کو بلا کر آپ کی تاج پوشی کی اور تلوار اور مُہر آپ کے سامنے پیش کی اور آپ کو طلائی تخت پر تخت نشین کیا جو جواہرات سے مُرصّع تھا اور اپنا مُلک آپ کو تفویض کیا اور قطفیر (عزیزِ مصر ) کو معزول کر کے آپ کو اس کی جگہ والی بنایا اور تمام خزائن آپ کو تفویض کئے اور سلطنت کے تمام امور آپ کے ہاتھ میں دے دیئے اور خود مثل تابع کے ہو گیا کہ آپ کی رائے میں دخل نہ دیتا اور آپ کے ہر حکم کو مانتا، اسی زمانہ میں عزیزِ مصر کا انتقال ہو گیا۔ بادشاہ نے اس کے انتقال کے بعد زلیخا کا نکاح حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ کر دیا، جب یوسف علیہ ا لصلٰوۃ و السلام زلیخا کے پاس پہنچے اور اس سے فرمایا کیا یہ اس سے بہتر نہیں ہے جو تو چاہتی تھی ؟ زلیخا نے عرض کیا اے صدیق مجھے ملامت نہ کیجئے میں خوبرو تھی، نوجوان تھی، عیش میں تھی اور عزیزِ مِصر عورتوں سے سروکار ہی نہ رکھتا تھا اور آپ کو اللّٰہ تعالیٰ نے یہ حسن و جمال عطا کیا ہے، میرا دل اختیار سے باہر ہو گیا اور اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو معصوم کیا ہے، آپ محفوظ رہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے زلیخا کو باکرہ پایا اور اس سے آپ کے دو فرزند ہوئے افراثیم اور میثا اور مِصر میں آپ کی حکومت مضبوط ہوئی، آپ نے عدل کی بنیادیں قائم کیں، ہر زن و مرد کے دل میں آپ کی مَحبت پیدا ہوئی اور آپ نے قحط سالی کے ایّام کے لئے غلّوں کے ذخیرے جمع کرنے کی تدبیر فرمائی۔ اس کے لئے بہت وسیع اور عالی شان انبار خانے تعمیر فرمائے اور بہت کثیر ذخائر جمع کئے، جب فراخی کے سال گزر گئے اور قحط کا زمانہ آیا تو آپ نے بادشاہ اور اس کے خدم کے لئے روزانہ صرف ایک وقت کا کھانا مقرر فرما دیا، ایک روز دوپہر کے وقت بادشاہ نے حضرت سے بھوک کی شکایت کی، آپ نے فرمایا یہ قحط کی ابتداء کا وقت ہے پہلے سال میں لوگوں کے پاس جو ذخیرے تھے سب ختم ہو گئے، بازار خالی رہ گئے۔ اہلِ مِصر حضرت یوسف علیہ السلام سے جنس خریدنے لگے اور ان کے تمام درہم دینار آپ کے پاس آ گئے۔ دوسرے سال زیور اور جواہرات سے غلّہ خریدے اور وہ تمام آپ کے پاس آگئے، لوگوں کے پاس زیور و جواہر کی قسم سے کوئی چیز نہ رہی۔ تیسرے سال چوپائے اور جانور دے کر غلّے خریدے اور مُلک میں کوئی کسی جانور کا مالک نہ رہا۔ چوتھے سال میں غلّے کے لئے تمام غلام اور باندیاں بیچ ڈالیں۔ پانچویں سال تمام اراضی و عملہ و جاگیریں فروخت کر کے حضرت سے غلّہ خریدا اور یہ تمام چیزیں حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس پہنچ گئیں۔ چھٹے سال جب کچھ نہ رہا تو انہوں نے اپنی اولادیں بیچیں، اس طرح غلّے خرید کر وقت گذارا۔ ساتویں سال وہ لوگ خود بک گئے اور غلام بن گئے اور مِصر میں کوئی آزاد مرد و عورت باقی نہ رہا، جو مرد تھا وہ حضرت یوسف علیہ السلام کا غلام تھا، جو عورت تھی وہ آپ کی کنیز تھی اور لوگوں کی زبان پر تھا کہ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کی سی عظمت و جلالت کبھی کسی بادشاہ کو میسّر نہ آئی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ سے کہا کہ تو نے دیکھا اللّٰہ کا مجھ پر کیسا کرم ہے، اس نے مجھ پر ایسا احسانِ عظیم فرمایا اب ان کے حق میں تیری کیا رائے ہے ؟ بادشاہ نے کہا جو حضرت کی رائے اور ہم آپ کے تابع ہیں۔ آپ نے فرمایا میں اللّٰہ کو گواہ کرتا ہوں اور تجھ کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے تمام اہلِ مِصرکو آزاد کیا اور ان کے تمام املاک اور کل جاگیریں واپس کیں۔ اس زمانہ میں حضرت نے کبھی شکم سیر ہو کر کھانا نہیں ملاحظہ فرمایا، آپ سے عرض کیا گیا کہ اتنے عظیم خزانوں کے مالک ہو کر آپ بھوکے رہتے ہیں ؟ فرمایا اس اندیشہ سے کہ سیر ہو جاؤں تو کہیں بھوکوں کو نہ بھول جاؤں، سبحان اللّٰہ کیا پاکیزہ اخلاق ہیں۔ مفسِّرین فرماتے ہیں کہ مِصر کے تمام زن و مرد کو حضرت یوسف علیہ السلام کے خریدے ہوئے غلام اور کنیزیں بنانے میں اللّٰہ تعالیٰ کی یہ حکمت تھی کہ کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ہو کہ حضرت یوسف علیہ السلام غلام کی شان میں آئے تھے اور مِصر کے ایک شخص کے خریدے ہوئے ہیں بلکہ سب مِصری ان کے خریدے اور آزاد کئے ہوئے غلام ہوں اور حضرت یوسف علیہ السلام نے جو اس حالت میں صبر کیا اس کی یہ جزا دی گئی۔

۱۴۲             یعنی مُلک و دولت یا نبوّت۔

(۵۷) اور بیشک آخرت کا ثواب ان کے  لیے  بہتر جو ایمان لائے  اور پرہیزگار رہے  (ف ۱۴۳)

۱۴۳             اس سے ثابت ہوا کہ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کے لئے آخرت کا اجر و ثواب اس سے بہت زیادہ افضل و اعلیٰ ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے انہیں دنیا میں عطا فرمایا۔ ابنِ عینیہ نے کہا کہ مومن اپنی نیکیوں کا ثمرہ دنیا و آخرت دونوں میں پاتا ہے اور کافِر جو کچھ پاتا ہے دنیا ہی میں پاتا ہے، آخرت میں اس کو کوئی حصّہ نہیں۔ مفسِّرین نے بیان کیا ہے کہ جب قحط کی شدّت ہوئی اور بلائے عظیم عام ہو گئی، تمام بِلاد و اَمصار قحط کی سخت تر مصیبت میں مبتلا ہوئے اور ہر جانب سے لوگ غلّہ خریدنے کے لئے مِصر پہنچنے لگے، حضرت یوسف علیہ السلام کسی کو ایک اونٹ کے بار سے زیادہ غلّہ نہیں دیتے تاکہ مساوات رہے اور سب کی مصیبت رفع ہو، قحط کی جیسی مصیبت مِصر اور تمام بلاد میں آئی ایسی ہی کنعان میں بھی آئی، اس وقت حضرت یعقوب علیہ السلام نے بنیامین کے سوا اپنے دسوں بیٹوں کو غلّہ خریدنے مِصر بھیجا۔

(۵۸) اور یوسف کے  بھائی آئے  تو اس کے  پاس حاضر ہوئے  تو یوسف نے  انہیں (ف ۱۴۴) پہچان لیا اور وہ اس سے  انجان رہے  (ف ۱۴۵)

۱۴۴             دیکھتے ہی۔

۱۴۵             کیونکہ حضرت یوسف علیہ السلام کو کنوئیں میں ڈالنے سے اب تک چالیس سال کا طویل زمانہ گزر چکا تھا اور ان کا خیال یہ تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا انتقال ہو چکا ہو گا اور یہاں آپ تختِ سلطنت پر شاہانہ لباس میں شوکت و شان کے ساتھ جلوہ فرما تھے، اس لئے انہوں نے آپ کو نہ پہچانا اور آپ سے عبرانی زبان میں گفتگو کی، آپ نے بھی اسی زبان میں جواب دیا۔ آ پ نے فرمایا تم کون لوگ ہو ؟ انہوں نے عرض کیا ہم شام کے رہنے والے ہیں، جس مصیبت میں دنیا مبتلا ہے اسی میں ہم بھی ہیں، آپ سے غلّہ خریدنے آئے ہیں، آپ نے فرمایا کہیں تم جاسوس تو نہیں ہو ؟ انہوں نے کہا ہم اللّٰہ کی قسم کھاتے ہیں ہم جاسوس نہیں ہیں، ہم سب بھائی ہیں، ایک باپ کی اولاد ہیں، ہمارے والد بہت بزرگ معمّر صدیق ہیں اور ان کا نامِ نامی حضرت یعقوب ہے، وہ اللّٰہ کے نبی ہیں۔ آپ نے فرمایا تم کتنے بھائی ہو ؟ کہنے لگے تھے تو ہم بارہ مگر ایک بھائی ہمارا ہمارے ساتھ جنگل گیا تھا، ہلاک ہو گیا اور وہ والد صاحب کو ہم سب سے زیادہ پیارا تھا، فرمایا اب تم کتنے ہو ؟ عرض کیا دس، فرمایا گیارہواں کہاں ہے ؟ کہا وہ والد صاحب کے پاس ہے کیونکہ جو ہلاک ہو گیا وہ اسی کا حقیقی بھائی تھا اب والد صاحب کی اسی سے کچھ تسلّی ہوتی ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان بھائیوں کی بہت عزّت کی اور بہت خاطر و مدارات سے ان کی میزبانی فرمائی۔

(۵۹) اور جب ان کا سامان مہیا کر دیا (ف ۱۴۶) کہ اپنا سوتیلا بھائی (ف ۱۴۷) میرے  پاس لے  آؤ کیا نہیں دیکھتے  کہ میں پورا ناپتا ہوں (ف ۱۴۸) اور میں سب سے  بہتر مہمان نواز ہوں۔

۱۴۶             ہر ایک کا اونٹ بھر دیا اور زادِ سفر دے دیا۔

۱۴۷             یعنی بنیامین۔

۱۴۸             اس کو لے آؤ گے تو ایک اونٹ غلّہ اس کے حصّہ کا اور زیادہ دوں گا۔

(۶۰) پھر اگر اسے  لیکر میرے  پاس نہ آؤ تو تمہارے  لیے  میرے  یہاں ماپ نہیں اور میرے  پاس نہ پھٹکنا۔

(۶۱) بولے  ہم اس کی خواہش کریں گے  اس کے  باپ سے  اور ہمیں یہ ضرور کرنا۔

(۶۲)  اور یوسف نے  اپنے  غلاموں سے  کہا ان کی پونجی ان کی خورجیوں میں رکھ دو (ف ۱۴۹) شاید وہ اسے  پہچانیں  جب اپنے  گھر کی طرف لوٹ کر جائیں (ف ۱۵۰) شاید وہ واپس آئیں۔

۱۴۹             جو انہوں نے قیمت میں دی تھی تاکہ جب وہ اپنا سامان کھولیں تو اپنی پونجی انہیں مل جائے اور قحط کے زمانہ میں کام آئے اور مخفی طور پر ان کے پاس پہنچے تاکہ انہیں لینے میں شرم بھی نہ آئے اور یہ کرم و احسان دوبارہ آنے کے لئے ان کی رغبت کا باعث بھی ہو۔

۱۵۰             اور اس کا واپس کرنا ضروری سمجھیں۔

(۶۳) پھر جب وہ اپنے  باپ کی طرف لوٹ کر گئے  (ف ۱۵۱) بولے  اے  ہمارے  باپ ہم سے  غلہ روک دیا گیا ہے  (ف ۱۵۲) تو ہمارے  بھائی کو ہمارے  پاس بھیج دیجئے  کہ غلہ لائیں اور ہم ضرور اس کی حفاظت کریں گے۔

۱۵۱             اور بادشاہ کے حسنِ سلوک اور اس کے احسان کا ذکر کیا، کہا کہ اس نے ہماری وہ عزّت و تکریم کی کہ اگر آپ کی اولاد میں سے کوئی ہوتا تو وہ بھی ایسا نہ کر سکتا، فرمایا اب اگر تم بادشاہِ مِصر کے پاس جاؤ تو میری طرف سے سلام پہنچانا اور کہنا کہ ہمارے والد تیرے حق میں تیرے اس سلوک کی وجہ سے دعا کرتے ہیں۔

۱۵۲             اگر آپ ہمارے بھائی بنیامین کو نہ بھیجیں گے تو غلّہ نہ ملے گا۔

(۶۴)  کہا کیا اس کے  بارے  میں تم پر ویسا ہی اعتبار کر لوں جیسا پہلے  اس کے  بھائی کے  بارے  میں کیا تھا (ف ۱۵۳) تو اللہ سب سے  بہتر نگہبان اور  وہ ہر مہربان سے  بڑھ کر مہربان۔

۱۵۳             اس وقت بھی تم نے حفاظت کا ذمہ لیا تھا۔

(۶۵) اور جب انہوں نے  اپنا اسباب کھولا اپنی پونجی پائی کہ ان کو پھیر دی گئی ہے، بولے  اے  ہمارے  باپ اب اور کیا چاہیں، یہ ہے  ہماری پونجی ہمیں واپس کر دی گئی اور ہم اپنے  گھر کے  لیے  غلہ لائیں اور اپنے  بھائی کی حفاظت کریں اور ایک اونٹ کا بوجھ  اور زیادہ پائیں، یہ دنیا بادشاہ کے  سامنے  کچھ نہیں (ف ۱۵۴)

۱۵۴             کیونکہ اس نے اس سے زیادہ احسان کئے ہیں۔

(۶۶)  کہا میں ہرگز اسے  تمہارے  ساتھ نہ بھیجوں گا جب تک تم مجھے  کا اللہ کا یہ عہد نہ دے  دو (ف ۱۵۵) کہ ضرور اسے  لے  کر آ ؤ  گے  مگر  یہ کہ تم گھِر جاؤ (ف ۱۵۶) پھر انہوں نے  یعقوب کو عہد دے  دیا کہا (ف ۱۵۷) اللہ کا ذمہ ہے  ان باتوں  پر جو کہہ رہے  ہیں۔

۱۵۵             یعنی اللّٰہ کی قسم نہ کھاؤ۔

۱۵۶             اور اس کو لے کر آنا تمہاری طاقت سے باہر ہو جائے۔

۱۵۷             حضرت یعقوب علیہ السلام نے۔

(۶۷) اور کہا اے  میرے  بیٹوں ! (ف ۱۵۸) ایک دروازے  سے  نہ داخل ہونا اور جدا  جدا  دروازوں سے  جانا (ف ۱۵۹) میں تمہیں اللہ سے  بچا نہیں سکتا (ف ۱۶۰) حکم تو سب اللہ ہی کا ہے، میں نے  اسی پر بھروسہ کیا اور بھروسہ کرنے  والوں کو اسی پر بھروسہ چاہیے۔

۱۵۸             مِصر میں۔

۱۵۹             تاکہ نظرِ بد سے محفوظ رہو۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ نظر حق ہے۔ پہلی مرتبہ حضرت یعقوب علیہ الصلوٰۃ و السلام نے یہ نہیں فرمایا تھا اس لئے کہ اس وقت تک کوئی یہ نہ جانتا تھا کہ یہ سب بھائی اور ایک باپ کی اولاد ہیں لیکن اب چونکہ جان چکے تھے اس لئے نظر ہو جانے کا احتمال تھا، اس واسطے آپ نے علیٰحدہ علیٰحدہ ہو کر داخل ہونے کا حکم دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ آفتوں اور مصیبتوں سے دفع کی تدبیر اور مناسب احتیاطیں انبیاء کا طریقہ ہیں اور اس کے ساتھ ہی آپ نے امر اللّٰہ کو تفویض کر دیا کہ باوجود احتیاطوں کے توکّل و اعتماد اللّٰہ پر ہے اپنی تدبیر پر بھروسہ نہیں۔

۱۶۰             یعنی جو مقدر ہے وہ تدبیر سے ٹالا نہیں جا سکتا۔

(۶۸) اور جب وہ داخل ہوئے  جہاں سے  ان کے  باپ نے  حکم دیا تھا (ف ۱۶۱) وہ کچھ انہیں کچھ انہیں اللہ سے  بچا نہ سکتا ہاں یعقوب کے  جی کی ایک خواہش تھی جو اس نے  پوری کر لی، اور بیشک وہ صاحب علم ہے  ہمارے  سکھائے  سے  مگر اکثر لوگ نہیں جانتے  (ف ۱۶۲)

۱۶۱             یعنی شہر کے مختلف دروازوں سے تو ان کا متفرق ہو کر داخل ہونا۔

۱۶۲             جو اللّٰہ تعالیٰ اپنے اصفیاء کو علم دیتا ہے۔

(۶۹) اور جب وہ یوسف کے  پاس گئے  (ف ۱۶۳) اس نے  اپنے  بھائی کو اپنے  پاس جگہ دی (ف ۱۶۴) کہا یقین جان میں ہی تیرا بھائی (ف ۱۶۵) ہوں تو یہ جو کچھ کرتے  ہیں اس کا غم نہ کھا (ف ۱۶۶)

۱۶۳             اور انہوں نے کہا کہ ہم آپ کے پاس اپنے بھائی بنیامین کو لے آئے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا تم نے بہت اچھا کیا پھر انہیں عزّت کے ساتھ مہمان بنایا اور جا بجا دستر خوان لگائے گئے اور ہر دستر خوان پر دو دو صاحبوں کو بٹھایا گیا، بنیامین اکیلے رہ گئے تو وہ رو پڑے اور کہنے لگے کہ آج اگر میرے بھائی یوسف (علیہ السلام) زندہ ہوتے تو مجھے اپنے ساتھ بٹھاتے، حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا کہ تمہارا ایک بھائی اکیلا رہ گیا اور آپ نے بنیامین کو اپنے دستر خوان پر بٹھایا۔

۱۶۴             اور فرمایا کہ تمہارے ہلاک شدہ بھائی کی جگہ میں تمہارا بھائی ہو جاؤں تو کیا تم پسند کرو گے ؟ بنیامین نے کہا کہ آپ جیسا بھائی کس کو میسّر آئے لیکن یعقوب (علیہ السلام) کا فرزند اور راحیل ( مادرِ حضرت یوسف علیہ السلام ) کا نورِ نظر ہونا تمہیں کیسے حاصل ہو سکتا ہے ؟ حضرت یوسف علیہ السلام رو پڑے اور بنیامین کو گلے سے لگایا اور۔

۱۶۵             یوسف ( علیہ السلام)۔

۱۶۶             بے شک اللّٰہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں خیر کے ساتھ جمع فرمایا اور ابھی اس راز کی بھائیوں کو اطلاع نہ دینا، یہ سن کر بنیامین فرطِ مسرت سے بے خود ہو گئے اور حضرت یوسف علیہ السلام سے کہنے لگے اب میں آپ سے جدا نہ ہوں گا، آپ نے فرمایا والد صاحب کو میری جدائی کا بہت غم پہنچ چکا ہے اگر میں نے تمہیں بھی روک لیا تو انہیں اور زیادہ غم ہو گا علاوہ بریں روکنے کی بجز اس کے اور کوئی سبیل بھی نہیں ہے کہ تمہاری طرف کوئی غیر پسندیدہ بات منسوب ہو۔ بنیامین نے کہا اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

(۷۰)  پھر جب ان کا سامان مہیا کر دیا (ف ۱۶۷) پیالہ اپنے  بھائی کے  کجاوے  میں رکھ دیا (ف ۱۶۸) پھر ایک منادی نے  ندا کی اے   قافلہ والو! بیشک تم چور ہو۔

۱۶۷             اور ہر ایک کو ایک بارِ شتر غلّہ دے دیا اور ایک بارِ شتر بنیامین کے نام کا خاص کر دیا۔

۱۶۸             جو بادشاہ کے پانی پینے کا سونے کا جواہرات سے مرصّع کیا ہوا تھا اور اس وقت اس سے غلّہ ناپنے کا کام لیا جاتا تھا، یہ پیالہ بنیامین کے کجاوے میں رکھ دیا گیا اور قافلہ کنعان کے قصد سے روانہ ہو گیا جب شہر کے باہر جا چکا تو انبار خانہ کے کارکنوں کو معلوم ہوا کہ پیالہ نہیں ہے ان کے خیال میں یہی آیا کہ یہ قافلے والے لے گئے انہوں نے اس کی جستجو کے لئے آدمی بھیجے۔

(۷۱) بولے  اور ان کی طرف متوجہ ہوئے  تم  کیا نہیں پاتے۔

(۷۲) بولے،  بادشاہ کا پیمانہ نہیں ملتا اور جو اسے  لائے  گا اس کے  لیے  ایک اونٹ کا بوجھ ہے  اور میں اس کا ضامن ہوں۔

(۷۳) بولے   خدا کی قسم! تمہیں خوب معلوم ہے  کہ ہم زمین میں فساد کرنے  نہ آئے  اور نہ ہم چور ہیں۔

(۷۴)  بولے  پھر کیا سزا ہے  اس کی اگر تم جھوٹے  ہو (ف ۱۶۹)

۱۶۹             اس بات میں اور پیالہ تمہارے پاس نکلے۔

(۷۵)  بولے  اس کی سزا یہ ہے  کہ جس کے  اسباب میں ملے  وہی اس کے  بدلے  میں غلام بنے  (ف ۱۷۰) ہمارے  یہاں ظالموں کی یہی سزا ہے  (ف ۱۷۱)

۱۷۰             اور شریعتِ حضرت یعقوب علیہ السلام میں چوری کی یہی سزا مقرر تھی چنانچہ انہوں نے کہا کہ۔

۱۷۱             پھر یہ قافلہ مِصر لایا گیا اور ان صاحبوں کو حضرت یوسف علیہ السلام کے دربار میں حاضر کیا گیا۔

(۷۶) تو اول ان کی خُرجیوں سے  تلاشی شروع کی اپنے  بھائی (ف ۱۷۲) کی خُرجی سے  پہلے  پھر اسے  اپنے  بھائی کی خُرجی سے  نکال لیا (ف ۱۷۳) ہم نے  یوسف کو یہی تدبیر بتائی (ف ۱۷۴) بادشاہی قانون میں اسے  نہیں پہنچتا تھا کہ اپنے  بھائی کو لے  لے  (ف ۱۷۵) مگر یہ کہ خدا چاہے  (ف ۱۷۶) ہم جسے   چاہیں درجوں بلند کریں (ف ۱۷۷) اور ہر علم والے  اوپر ایک علم والا ہے  (ف ۱۷۸)

۱۷۲             یعنی بنیامین۔

۱۷۳             یعنی بنیامین کی خرجی سے پیالہ برآمد کیا۔

۱۷۴             اپنے بھائی کے لینے کی اس معاملہ میں بھائیوں سے استفسار کریں تاکہ وہ شریعتِ حضرتِ یعقوب علیہ السلام کا حکم بتائیں جس سے بھائی مل سکے۔

۱۷۵             کیونکہ بادشاہِ مِصر کے قانون میں چوری کی سزا مارنا اور دُونا مال لے لینا مقرر تھی۔

۱۷۶             یعنی یہ بات خدا کی مشیت سے ہوئی کہ ان کے دل میں ڈال دیا کہ سزا بھائیوں سے دریافت کریں اور ان کے دل میں ڈال دیا کہ وہ اپنی سنّت کے مطابق جواب دیں۔

۱۷۷             علم میں جیسے کہ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کے درجے بلند فرمائے۔

۱۷۸             حضرت ابنِ عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ ہر عالِم کے اوپر اس سے زیادہ علم رکھنے والا عالِم ہوتا ہے یہاں تک کہ یہ سلسلہ اللّٰہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے اس کا علم سب کے علم سے برتر ہے۔

مسئلہ : اس آیت سے ثابت ہوا کہ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کے بھائی عُلَماء تھے اور حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام ان سے اَعلم تھے، جب پیالہ بنیامین کے سامان سے نکلا تو بھائی شرمندہ ہوئے اور انہوں نے سر جھکائے اور۔

(۷۷) بھائی بولے  اگر یہ  چوری کرے  (ف ۱۷۹) تو بیشک اس سے  پہلے  اس کا بھائی چوری کر چکا ہے  (ف ۱۸۰) تو یوسف نے  یہ بات اپنے  دل  میں رکھی اور ان پر ظاہر نہ کی، جی میں کہا تم بدتر جگہ ہو (ف ۱۸۱) اور اللہ خوب جانتا ہے  جو باتیں بناتے  ہو۔

۱۷۹             یعنی سامان میں پیالہ نکلنے سے سامان والے کا چوری کرنا تو یقینی نہیں لیکن اگر یہ فعل اس کا ہو۔

۱۸۰             یعنی حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام اور جس کو انہوں نے چوری قرار دے کر حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف نسبت کیا، وہ واقعہ یہ تھا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے نانا کا ایک بُت تھا جس کو وہ پوجتے تھے، حضرت یوسف علیہ السلام نے چپکے سے وہ بُت لیا اور توڑ کر راستہ میں نجاست کے اندر ڈال دیا، یہ حقیقت میں چوری نہ تھی بُت پرستی کا مٹانا تھا۔ بھائیوں کا اس ذکر سے یہ مدعا تھا کہ ہم لو گ بنیامین کے سوتیلے بھائی ہیں، یہ فعل ہو تو شاید بنیامین کا ہو، نہ ہماری اس میں شرکت، نہ ہمیں اس کی اطلاع۔

۱۸۱             اس سے جس کی طرف چوری کی نسبت کرتے ہو کیونکہ چوری کی نسبت حضرت یوسف کی طرف تو غلط ہے، فعل تو شرک کا ابطال اور عبادت تھا اور تم نے جو یوسف کے ساتھ کیا وہ بڑی زیادتیاں ہیں۔

(۷۸) بولے  اے  عزیز! اس کے  ایک باپ ہیں بوڑھے  بڑے  (ف ۱۸۲) تو ہم میں اس کی جگہ کسی کو لے  لو، بیشک ہم تمہارے  احسان دیکھ رہے  ہیں۔

۱۸۲             ان سے مَحبت رکھتے ہیں اور انہیں سے ان کے دل کی تسلّی ہے۔

(۷۹)  کہا (ف ۱۸۳) خدا کی پناہ کہ ہم میں مگر اسی کو جس کے  پاس ہمارا مال ملا (ف ۱۸۴) جب تو ہم ظالم ہوں گے۔

۱۸۳             حضرت یوسف علیہ السلام نے۔

۱۸۴             کیونکہ تمہارے فیصلہ سے ہم اسی کو لینے کے مستحق ہیں جس کے کجاوے میں ہمارا مال ملا اگر ہم بجائے اس کے دوسرے کو لیں۔

(۸۰)  پھر جب اس سے  نا  امید ہوئے  الگ جا کر سرگوشی کرنے  لگے، ان کا بڑا بھائی بولا کیا تمہیں خبر نہیں کہ تمہارے  باپ نے  تم سے  اللہ کا عہد لے  لیا تھا اور اس سے  پہلے  یوسف کے  حق میں تم نے  کیسی تقصیر کی تو میں یہاں سے  نہ ٹلوں گا یہاں تک کہ میرے  باپ (ف ۱۸۵) اجازت دیں یا اللہ مجھے  حکم فرمائے  (ف ۱۸۶) اور اس کا حکم سب سے  بہتر۔

۱۸۵             میرے واپس آنے کی۔

۱۸۶             میرے بھائی کو خلاصی دے کر یا اس کو چھوڑ کر تمہارے ساتھ چلنے کا۔

(۸۱) اپنے  باپ کے  پاس لوٹ کر جاؤ پھر عرض کرو اے  ہمارے  باپ بیشک آپ کے  بیٹے  نے  چوری کی (ف ۱۸۷) اور ہم تو اتنی ہی بات کے  گواہ ہوئے  تھے  جتنی ہمارے  علم میں تھی (ف ۱۸۸) اور ہم غیب کے  نگہبان نہ تھے  (ف ۱۸۹)

۱۸۷             یعنی ان کی طرف چوری کی نسبت کی گئی۔

۱۸۸             کہ پیالہ ان کے کجاوہ میں نکلا۔

(۸۲) اور اس بستی سے  پوچھ دیکھئے  جس میں ہم تھے  اور اس  قافلہ سے  جس میں ہم آئے، اور ہم بیشک سچے  ہیں (ف ۱۹۰)

۱۸۹             اور ہمیں خبر نہ تھی کہ یہ صورت پیش آئے گی، حقیقتِ حال اللّٰہ ہی جانے کہ کیا ہے اور پیالہ کس طرح بنیامین کے سامان سے برآمد ہوا۔

۱۹۰             پھر یہ لوگ اپنے والد کے پاس واپس آئے اور سفر میں جو کچھ پیش آیا تھا اس کی خبر دی اور بڑے بھائی نے جو کچھ بتا دیا تھا وہ سب والد سے عرض کیا۔

(۸۳)  کہا (ف ۱۹۱) تمہارے  نفس نے  تمہیں کچھ حیلہ بنا دیا، تو اچھا صبر ہے، قریب ہے  کہ اللہ ان سب کو مجھ سے  لا،  ملائے  (ف ۱۹۲) بیشک وہی علم و حکمت والا ہے۔

۱۹۱             حضرت یعقوب علیہ السلام نے کہ چوری کی نسبت بنیامین کی طرف غلط ہے اور چوری کی سزا غلام بنانا، یہ بھی کوئی کیا جانے اگر تم فتویٰ نہ دیتے اور تمہیں نہ بتاتے تو۔

۱۹۲             یعنی حضرت یوسف کو اور ان کے دونوں بھائیوں کو۔

(۸۴)  اور ان سے  منہ پھیرا  (ف ۱۹۳) اور کہا ہائے  افسوس! یوسف کی جدائی پر اور اس کی آنکھیں غم سے  سفید ہو گئیں (ف ۱۹۴) وہ غصہ کھا تا رہا۔

۱۹۳             حضرت یعقوب علیہ السلام نے بنیامین کی خبر سن کر اور آپ کا غم و اندوہ انتہا کو پہنچ گیا۔

۱۹۴             روتے روتے آنکھ کی سیاہی کا رنگ جاتا رہا اور بینائی ضعیف ہو گئی۔ حسن رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کی جدائی میں حضرت یعقوب علیہ السلام اسّی۸۰ برس روتے رہے اور احباء کے غم میں رونا جو تکلیف اور نمائش سے نہ ہو اور اس کے ساتھ اللّٰہ کی شکایت و بے صبری نہ پائی جائے رحمت ہے۔ ان غم کے ایام میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی زبانِ مبارک پر کبھی کوئی کلمہ بے صبری کا نہ آیا۔

(۸۵)  بولے  (ف ۱۹۵) خدا کی قسم!  آپ ہمیشہ یوسف کی یاد کرتے   رہیں گے  یہاں تک کہ گور کنارے  جا  لگیں یا جان سے  گزر جائیں۔

۱۹۵             برادرانِ یوسف اپنے والد سے۔

(۸۶) کہا میں تو اپنی پریشانی اور غم کی فریاد اللہ ہی سے  کرتا ہوں (ف ۱۹۶) اور مجھے  اللہ کی وہ شانیں معلوم ہیں جو تم نہیں  جانتے   (ف ۱۹۷)

۱۹۶             تم سے یا اور کسی سے نہیں۔

۱۹۷             اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ الصلوٰۃ و السلام جانتے تھے کہ یوسف علیہ السلام زندہ ہیں اور ان سے ملنے کی توقع رکھتے تھے اور یہ بھی جانتے تھے کہ ان کا خواب حق ہے، ضرور واقع ہو گا۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپ نے حضرت مَلَک الموت سے دریافت کیا کہ تم نے میرے بیٹے یوسف کی روح قبض کی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا نہیں، اس سے بھی آپ کو ان کی زندگانی کا اطمینان ہوا اور آپ نے اپنے فرزندوں سے فرمایا۔

(۸۷) اے  بیٹو! جا ؤ  یوسف اور اس کے  بھائی کا سراغ لگاؤ  اور اللہ کی رحمت سے  مایوس نہ ہو،  بیشک اللہ  کی رحمت سے  نا  امید نہیں ہوتے  مگر کافر لوگ (ف ۱۹۸)

۱۹۸             یہ سن کر برادرانِ حضرت یوسف علیہ السلام پھر مِصر کی طرف روانہ ہوئے۔

(۸۸)  پھر جب وہ یوسف کے  پاس پہنچے  بولے  اے  عزیز ہمیں اور ہمارے  گھر والوں کو مصیبت پہنچی (ف ۱۹۹) اور ہم بے  قدر پونجی لے  کر آئے  ہیں (ف ۲۰۰) تو  آپ ہمیں پورا  ناپ دیجئے  (ف ۲۰۱) اور ہم پر خیرات کیجئے  (ف ۲۰۲) بیشک اللہ خیرات والوں کو صلہ دیتا ہے  (ف ۲۰۳)

۱۹۹             یعنی تنگی اور بھوک کی سختی اور جسموں کا دبلا ہو جانا۔

۲۰۰             ردی کھوٹی جسے کوئی سوداگر مال کی قیمت میں قبول نہ کرے وہ چند کھوٹے درہم تھے اور اثاث البیت کی چند پرانی بوسیدہ چیزیں۔

۲۰۱             جیسا کھرے داموں سے دیتے تھے۔

۲۰۲             یہ ناقص پونجی قبول کر کے۔

۲۰۳             ان کا یہ حال سن کر حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام پر گریہ طاری ہوا اور چشمِ گوہر فشاں سے اشک رواں ہو گئے اور۔

(۸۹) بولے  کچھ خبر ہے  تم نے  یوسف اور اس کے  بھائی کے  ساتھ کیا کِیا تھا جب تم نادان تھے  (ف ۲۰۴)

۲۰۴             یعنی حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کو مارنا، کنوئیں میں گرانا، بیچنا، والد سے جدا کرنا اور ان کے بعد ان کے بھائی کو تنگ رکھنا، پریشان کرنا تمہیں یاد ہے اور یہ فرماتے ہوئے حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کو تبسم آ گیا اور انہوں نے آپ کے گوہرِ دندان کا حسن دیکھ کر پہچانا کہ یہ تو جمالِ یوسفی کی شان ہے۔

(۹۰) بولے  کیا سچ مچ  آپ ہی یوسف ہیں، کہا میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی، بیشک اللہ نے  ہم پر احسان کیا (ف ۲۰۵) بیشک جو پرہیز گاری اور صبر کرے  تو اللہ نیکوں کا نیگ (اجر) ضائع نہیں کرتا  (ف ۲۰۶) 

۲۰۵             ہمیں جدائی کے بعد سلامتی کے ساتھ ملایا اور دنیا اور دین کی نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔

۲۰۶             برادرانِ حضرت یوسف علیہ السلام بہ طریقِ عذر خواہی۔

(۹۱) بولے  خدا کی قسم! بیشک اللہ نے  آپ کو ہم پر فضیلت دی اور بیشک ہم خطاوار تھے  (ف ۲۰۷)

۲۰۷             اسی کا نتیجہ ہے کہ اللّٰہ نے آپ کو عزّت دی، بادشاہ بنایا اور ہمیں مسکین بنا کر آپ کے سامنے لایا۔

(۹۲)  کہا  آج  (ف ۲۰۸) تم پر کچھ ملامت نہیں، اللہ تمہیں معاف کرے، اور وہ  سب مہربانوں سے  بڑھ کر مہربان ہے  (ف ۲۰۹)

۲۰۸             اگرچہ ملامت کرنے کا دن ہے مگر میری جانب سے۔

۲۰۹             اس کے بعد حضرت یوسف علیہ السلام نے ان سے اپنے والد ماجد کا حال دریافت کیا، انہوں نے کہا آپ کی جدائی کے غم میں روتے روتے ان کی بینائی بحال نہیں رہی، آپ نے فرمایا۔

(۹۳)  میرا یہ کرتا لے  جاؤ (ف ۲۱۰) اسے  میرے  باپ کے  منہ پر ڈالو ان کی آنکھیں کھل جائیں گی اور اپنے  سب گھر بھر کو میرے  پاس لے  آ  ؤ۔

۲۱۰             جو میرے والد ماجد نے تعویذ بنا کر میرے گلے میں ڈال دیا تھا۔

(۹۴)  جب قافلہ مصر سے   جدا ہوا (ف ۲۱۱) یہاں ان کے  باپ نے  (ف ۲۱۲) کہا بیشک میں یوسف کی خوشبو  پا تا ہوں اگر مجھے  یہ نہ کہو کہ سٹھ (بہک) گیا ہے۔

۲۱۱             اور کنعان کی طرف روانہ ہوا۔

۲۱۲             اپنے پو توں اور پاس والوں سے۔

(۹۵) بیٹے  بولے  خدا کی قسم! آپ اپنی اسی پرانی خود رفتگی میں ہیں (ف ۲۱۳)

۲۱۳             کیونکہ وہ اس گمان میں تھے کہ اب حضرت یوسف (علیہ السلام ) کہاں، ان کی وفات بھی ہو چکی ہو گی۔

(۹۶)  پھر جب خوشی سنانے  والا آیا (ف ۲۱۴) اس نے  وہ کرتا یعقوب کے  منہ پر ڈالا اسی وقت اس کی آنکھیں پھر آئیں (دیکھنے  لگیں ) کہ میں نہ کہتا تھا کہ مجھے  اللہ کی وہ  شانیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے  (ف ۲۱۵)

۲۱۴             لشکر کے آگے آگے وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی یہودا تھے، انہوں نے کہا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس خون آلودہ قمیص بھی میں ہی لے کر گیا تھا، میں نے ہی کہا تھا کہ یوسف (علیہ السلام ) کو بھیڑیا کھا گیا، میں نے ہی انہیں غمگین کیا تھا، آج کُرتا بھی میں ہی لے کر جاؤں گا اور حضرت یوسف (علیہ السلام )کی زندگانی کی فرحت انگیز خبر بھی میں ہی سناؤں گا، تو یہودا بَرَہنہ سر، بَرَہنہ پا، کُرتا لے کر اسّی۸۰ فرسنگ دوڑتے آئے، راستہ میں کھانے کے لئے سات روٹیاں ساتھ لائے تھے، فرطِ شوق کا یہ عالَم تھا کہ ان کو بھی راستہ میں کھا کر تمام نہ کر سکے۔

۲۱۵             حضرت یعقوب علیہ السلام نے دریافت فرمایا یوسف کیسے ہیں ؟ یہودا نے عرض کیا حضور وہ مِصر کے بادشاہ ہیں۔ فرمایا میں بادشاہی کو کیا کروں، یہ بتاؤ کس دین پر ہیں ؟ عرض کیا دینِ اسلام پر، فرمایا الحمد للہِ اللّٰہ کی نعمت پوری ہوئی۔ برادرانِ حضرتِ یوسف علیہ السلام۔

(۹۷)  بولے  اے  ہمارے  باپ! ہمارے  گناہوں کی معافی مانگئے  بیشک ہم  خطاوار ہیں۔

(۹۸)  کہا جلد میں تمہاری بخشش اپنے  رب سے  چاہو ں گا، بیشک وہی بخشنے  والا مہربان ہے  (ف ۲۱۶)

۲۱۶             حضرت یعقوب علیہ الصلوٰۃ و السلام نے وقتِ سحر بعدِ نماز ہاتھ اٹھا کر اللّٰہ تعالیٰ کے دربار میں اپنے صاحبزادوں کے لئے دعا کی، وہ قبول ہوئی اور حضرت یعقوب علیہ السلام کو وحی فرمائی گئی کہ صاحبزادوں کی خطا بخش دی گئی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد ماجد کو مع ان کے اہل و اولاد کے بلانے کے لئے اپنے بھائیوں کے ساتھ دو سو سواریاں اور کثیر سامان بھیجا تھا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے مِصر کا ارادہ فرمایا اور اپنے اہل کو جمع کیا، کل مرد و زن بہتّر یا تہتّر تن تھے۔ اللّٰہ تعالیٰ نے ان میں یہ برکت فرمائی کہ ان کی نسل اتنی بڑھی کہ جب حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے ساتھ بنی اسرائیل مِصر سے نکلے تو چھ لاکھ سے زیادہ تھے باوجود یکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ اس سے صرف چار سو سال بعد ہے۔ الحاصل جب حضرت یعقوب علیہ السلام مِصر کے قریب پہنچے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے مِصر کے بادشاہِ اعظم کو اپنے والد ماجد کی تشریف آوری کی اطلاع دی اور چار ہزار لشکر ی اور بہت سے مِصری سواروں کو ہمراہ لے کر آپ اپنے والد صاحب کے استقبال کے لئے صدہا ریشمی پھریرے اڑاتے، قطاریں باندھے روانہ ہوئے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے فرزند یہودا کے ہاتھ پر ٹیک لگائے تشریف لا رہے تھے جب آپ کی نظر لشکر پر پڑ ی اور آپ نے دیکھا کہ صحرا زرق برق سواروں سے پر ہو رہا ہے، فرمایا اے یہودا کیا یہ فرعونِ مِصر ہے جس کا لشکر اس شوکت و شکوہ سے آ رہا ہے ؟ عرض کیا نہیں یہ حضور کے فرزند یوسف ہیں علیہم السلام۔ حضرت جبریل نے آپ کو متعجب دیکھ کر عرض کیا، ہوا کی طرف نظر فرمایئے، آپ کے سرور میں شرکت کے لئے ملائکہ حاضر ہوئے ہیں جو مدّتوں آپ کے غم کے سبب روتے رہے ہیں، ملائکہ کی تسبیح نے اور گھوڑوں کے ہنہنانے نے اور طبل و بوق کی آوازوں نے عجیب کیفیت پیدا کر دی تھی۔ یہ محرّم کی دسویں تاریخ تھی جب دونوں حضرات والد و ولد، پدر و پسر قریب ہوئے۔ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام نے سلام عرض کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، جبریل علیہ السلام نے عرض کیا کہ آپ توقُّف کیجئے اور والد صاحب کو ابتداء بسلام کا موقع دیجئے چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے  اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَامُذْھِبَ الْاَحْزَانِ  ( یعنی اے غم و اندو ہ کے دور کرنے والے سلام ) اور دونوں صاحبوں نے اُتر کر معانقہ کیا اور مل کر خوب روئے پھر اس مزین فرود گاہ میں داخل ہوئے جو پہلے سے آپ کے استقبال کے لئے نفیس خیمے وغیرہ نصب کر کے آراستہ کی گئی تھی، یہ دخول حدودِ مِصر میں تھا اس کے بعد دوسرا دخول خاص شہر میں ہے جس کا بیان اگلی آیت میں ہے۔

(۹۹)  پھر جب وہ سب یوسف کے  پاس پہنچے  اس نے  اپنے  ماں (ف ۲۱۷) باپ کو اپنے  پاس جگہ دی اور کہا مصر میں (ف ۲۱۸) داخل ہو اللہ چاہے  تو امان کے  ساتھ (ف ۲۱۹)

۲۱۷             ماں سے یا خاص والدہ مراد ہیں اگر اس وقت تک زندہ ہوں یا خالہ۔ مفسِّرین کے اس باب میں کئی اقوال ہیں۔

۲۱۸             یعنی خاص شہر میں۔

۲۱۹             جب مِصر میں داخل ہوئے اور حضرت یوسف اپنے تخت پر جلوہ افروز ہوئے آپ نے اپنے والدین کا اکرام فرمایا۔

(۱۰۰) اور اپنے  ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور سب (ف ۲۲۰) اس کے  لیے  سجدے  میں گرے  (ف ۲۲۱) اور یوسف نے  کہا اے  میرے  باپ یہ میرے  پہلے  خواب کی تعبیر ہے  (ف ۲۲۲) بیشک اسے  میرے  رب نے  سچا کیا، اور بیشک اس نے  مجھ پر احسان کیا کہ مجھے  قید سے  نکالا (ف ۲۲۳) اور آپ سب کو گاؤں سے  لے  آیا بعد اس کے  کہ شیطان نے  مجھ میں  اور میرے  بھائیوں میں ناچاقی کرا دی تھی، بیشک میرا رب جس بات کو چاہے  آسان کر دے  بیشک وہی علم و حکمت والا ہے  (ف ۲۲۴)

۲۲۰             یعنی والدین اور سب بھائی۔

۲۲۱             یہ سجدہ تحیّت و تواضُع کا تھا جو ان کی شریعت میں جائز تھا جیسے کہ ہماری شریعت میں کسی معظّم کی تعظیم کے لئے قیام اور مصافحہ اور دست بوسی جائز ہے۔ سجدۂ عبادت اللّٰہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے لئے کبھی جائز نہیں ہوا نہ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ شرک ہے اور سجدۂ تحیّت و تعظیم بھی ہماری شریعت میں جائز نہیں۔

۲۲۲             جو میں نے صِغر سنی یعنی بچپن کی حالت میں دیکھا تھا۔

۲۲۳             اس موقع پر آپ نے کنوئیں کا ذکر نہ کیا تاکہ بھائیوں کو شرمندگی نہ ہو۔

۲۲۴             اصحابِ تواریخ کا بیان ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے فرزند حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس مِصر میں چوبیس سال بہترین عیش و آرام میں خوش حالی کے ساتھ رہے، قریبِ وفات آپ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو وصیّت کی کہ آپ کا جنازہ مُلکِ شام میں لے جا کر ارضِ مقدسہ میں آپ کے والد حضرت اسحٰق علیہ السلام کی قبر شریف کے پاس دفن کیا جائے، اس وصیت کی تعمیل کی گئی اور بعدِ وفات سال کی لکڑی کے تابوت میں آپ کا جسدِ اطہر شام میں لایا گیا، اسی وقت آپ کے بھائی عیص کی وفات ہوئی اور آپ دونوں بھائیوں کی ولادت بھی ساتھ ہوئی تھی اور دفن بھی ایک ہی قبر میں کئے گئے اور دونوں صاحبوں کی عمر ایک سو پینتالیس ۱۴۵ سال تھی جب حضرت یوسف علیہ السلام اپنے والد اور چچا کو دفن کر کے مِصر کی طرف واپس روانہ ہوئے تو آپ نے یہ دعا کی جو اگلی آیت میں مذکور ہے۔

(۱۰۱) اے  میرے  رب بیشک تو نے  مجھے  ایک سلطنت دی اور مجھے  کچھ باتوں کا انجام نکالنا سکھایا، اے  آسمانوں اور زمین کے  بنانے  والے  تو میرا کام بنانے  والا ہے  دنیا اور آخرت  میں، مجھے  مسلمان اٹھا اور ان سے   مِلا جو تیرے  قرب خاص کے  لائق ہیں (ف ۲۲۵)

۲۲۵             یعنی حضرت ابراہیم و اسحٰق و حضرت یعقوب علیہم السلام، انبیاء سب معصوم ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی یہ دعا تعلیمِ امّت کے لئے ہے کہ وہ حسنِ خاتمہ کی دعا مانگتے رہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے والد ماجد کے بعد تیس سال رہے اس کے بعد آپ کی وفات ہوئی۔ آپ کے مقامِ دفن میں اہلِ مِصر کے اندر سخت اختلاف واقع ہوا، ہر محلہ والے حصولِ برکت کے لئے اپنے ہی محلہ میں دفن کرنے پر مُصِر تھے، آخر یہ رائے قرار پائی کہ آپ کو دریائے نیل میں دفن کیا جائے تاکہ پانی آپ کی قبر سے چھوتا ہوا گزرے اور اس کی برکت سے تمام اہلِ مِصر فیضیاب ہوں چنانچہ آپ کو سنگِ رخام یا سنگِ مرمر کے صندوق میں دریائے نیل کے اندر دفن کیا گیا اور آپ وہیں رہے یہاں تک کہ چار سو برس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے آپ کا تابوت شریف نکالا اور آپ کو آپ کے آبائے کرام کے پاس مُلکِ شام میں دفن کیا۔

(۱۰۲)  یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے  ہیں اور تم ان کے  پاس نہ تھے  (ف ۲۲۶) جب انہوں نے  اپنا کام پکا کیا تھا  اور  وہ  داؤں چل رہے  تھے  (ف ۲۲۷)

۲۲۶             یعنی برادرانِ یوسف علیہ السلام کے۔

۲۲۷             باوجود اس کے اے سیدِ انبیاء صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم آپ کا ان تمام واقعات کو اس تفصیل سے بیان فرمانا غیبی خبر اور معجِزہ ہے۔

(۱۰۳)  اور اکثر  آدمی تم کتنا ہی چاہو ایمان نہ لائیں گے۔

(۱۰۴)  اور تم اس پر ان سے  کچھ اجرت نہ مانگتے  یہ (ف ۲۲۸) تو نہیں مگر سارے  جہان کو نصیحت۔

۲۲۸             قرآن شریف۔

(۱۰۵)  اور کتنی نشانیاں ہیں (ف ۲۲۹)  آسمانوں اور  زمین میں کہ اکثر لوگ ان پر گزرتے  ہیں (ف ۲۳۰) اور ان سے  بے  خبر رہتے  ہیں۔

۲۲۹             خالِق اور اس کی توحید و صفات پر دلالت کرنے والی، ان نشانیوں سے ہلاک شدہ اُمّتوں کے آثار مراد ہیں۔(مدارک)۔

۲۳۰             اور ان کا مشاہدہ کرتے ہیں لیکن تفکّر نہیں کرتے، عبرت نہیں حاصل کرتے۔

(۱۰۶) اور ان میں اکثر وہ ہیں کہ اللہ پر یقین نہیں لاتے  مگر شرک کرتے  ہوئے  (ف ۲۳۱)

۲۳۱             جمہور مفسِّرین کے نزدیک یہ آیت مشرکین کے رد میں نازِل ہوئی جو اللّٰہ تعالیٰ کی خالقیت و رزاقیت کا اقرار کرنے کے ساتھ بُت پرستی کر کے غیروں کو عبادت میں اس کا شریک کرتے تھے۔

(۱۰۷)  کیا اس سے  نڈر ہو بیٹھے  کہ اللہ کا عذاب انہیں آ کر گھیر لے  یا قیامت ان پر اچانک آ جائے   اور انہیں خبر نہ ہو۔

(۱۰۸) تم فرماؤ (ف ۲۳۲) یہ میری راہ ہے  میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں میں اور جو میرے  قدموں پر چلیں  دل کی آنکھیں رکھتے  ہیں (ف ۲۳۳)  اور اللہ کو پاکی ہے  (ف ۲۳۴) اور میں شریک کرنے  والا نہیں۔

۲۳۲             اے مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم ان مشرکین سے کہ توحیدِ الٰہی اور دینِ اسلام کی دعوت دینا۔

۲۳۳             ابنِ عباس رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا محمّدِ مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے اصحاب احسن طریق اور افضل ہدایت پر ہیں، یہ علم کے معدن، ایمان کے خزانے، رحمٰن کے لشکر ہیں۔ ابنِ مسعود رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا طریقہ اختیار کرنے والوں کو چاہئے کہ گزرے ہوؤں کا طریقہ اختیار کریں۔ وہ سیدِ عالَم صلی اللّٰہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب ہیں جن کے دل امّت میں سب سے زیادہ پاک، علم میں سب سے عمیق، تکلّف میں سب سے کم، ایسے حضرات ہیں جنہیں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام کی صحبت اور ان کے دین کی اشاعت کے لئے برگزیدہ کیا۔

۲۳۴             تمام عیوب و نقائص اور شرکا و اضداد و انداد سے۔

(۱۰۹) اور ہم نے  تم سے  پہلے  جتنے  رسول بھیجے  سب مرد ہی تھے  (ف ۲۳۵) جنہیں ہم وحی کرتے  اور سب شہر کے  ساکن تھے  (ف ۲۳۶) تو یہ لوگ  زمین پر چلے  نہیں تو دیکھتے  ان سے  پہلوں کا کیا انجام ہوا  (ف ۲۳۷) اور بیشک آخرت کا گھر پرہیزگاروں کے  لیے  بہتر تو کیا تمہیں عقل نہیں۔

۲۳۵             نہ فرشتے، نہ کسی عورت کو نبی بنایا گیا۔ یہ اہلِ مکّہ کا جواب ہے جنہوں نے کہا تھا کہ اللّٰہ نے فرشتوں کو کیوں نہ نبی بنا کر بھیجا ؟ انہیں بتایا گیا کہ یہ کیا تعجب کی بات ہے، پہلے ہی سے کبھی فرشتے نبی ہو کر نہ آئے۔

۲۳۶             حسن رضی اللّٰہ عنہ سے فرمایا کہ اہلِ بادیہ اور جنّات اور عورتوں میں سے کبھی کوئی نبی نہیں کیا گیا۔

۲۳۷             انبیاء کے جھٹلائے سے کس طرح ہلاک کئے گئے۔

(۱۱۰) یہاں تک جب رسولوں کو ظاہری اسباب کی امید نہ رہی  (ف ۲۳۸) اور لوگ سمجھے  کہ رسولوں نے  غلط کہا تھا (ف ۲۳۹)  اس وقت ہماری  مدد آئی تو جسے  ہم نے  چاہا بچا لیا گیا (ف ۲۴۰) اور ہمارا  عذاب مجرموں سے  پھیرا نہیں جاتا۔

۲۳۸             یعنی لوگوں کو چاہئے کہ عذابِ الٰہی میں تاخیر ہونے اور عیش و آسائش کے دیر تک رہنے پر مغرور نہ ہو جائیں کیونکہ پہلی اُمّتوں کو بھی بہت مہلتیں دی جا چکی ہیں یہاں تک کہ جب ان کے عذابوں میں بہت تاخیر ہوئی اور بہ اسبابِ ظاہر رسولوں کو قوم پر دنیا میں ظاہر عذاب آنے کی امید نہ رہی۔ (ابوالسعود)۔

۲۳۹             یعنی قوموں نے گمان کیا کہ رسولوں نے انہیں جو عذاب کے وعدے دیئے تھے وہ پورے ہونے والے نہیں۔ (مدارک وغیرہ)۔

۲۴۰             اپنے بندوں میں سے یعنی اطاعت کرنے والے ایمانداروں کو بچا لیا۔

(۱۱۱) بیشک ان کی خبروں سے  (ف ۲۴۱) عقل مندوں کی  آنکھیں کھلتی ہیں (ف ۲۴۲) یہ کوئی بناوٹ کی بات نہیں (ف ۲۴۳) لیکن اپنوں سے  اگلے  کاموں کی (ف ۲۴۴) تصدیق ہے   اور ہر چیز کا مفصل بیان اور مسلمانوں کے  لیے  ہدایت اور رحمت۔

۲۴۱             یعنی انبیاء کی اور ان کی قوموں کی۔

۲۴۲             جیسے کہ حضرت یوسف علیہ الصلوٰۃ و السلام کے واقعہ سے بڑے بڑے نتائج نکلتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ صبر کا نتیجہ سلامت و کرامت ہے اور ایذا رسانی و بد خواہی کا انجام ندامت اور اللّٰہ پر بھروسہ رکھنے والا کامیاب ہوتا ہے اور بندے کو سختیوں کے پیش آنے سے مایوس نہ ہونا چاہیئے۔ رحمتِ الٰہی دست گیری کرے تو کسی کی بد خواہی کچھ نہیں کر سکتی۔ اس کے بعد قرآنِ پاک کی نسبت ارشاد ہوتا ہے۔

۲۴۳             جس کو کسی انسان نے اپنی طرف سے بنا لیا ہو کیونکہ اس کا اعجاز اس کے مِنَ اللّٰہ ہونے کو قطعی طور پر ثابت کرتا ہے۔

۲۴۴             توریت انجیل وغیرہ کُتبِ الٰہیہ کی۔