مضامین اور انداز بیاں سے صاف مترشح ہوتا ہے کہ اس سورت کا زمانہ نزول سورۂ ابراہیم سے متصل ہے۔ اس کے پس منظر میں دو چیزیں بالکل نمایاں نظر آتی ہیں۔ ایک یہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دعوت دیتے ایک مدت گزر چکی ہے اور مخاطب قوم کی مسلسل ہٹ دھرمی، استہزا، مزاحمت اور ظلم و ستم کی حد ہو گئی ہے، جس کے بعد اب تفہیم کا موقع کم تنبیہ و انذار کا موقع زیادہ ہے۔ دوسرے یہ کہ اپنی قوم کے کفر و حجود اور مزاحمت کے پہاڑ توڑتے توڑے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھکے جا رہے ہیں اور دل شکستگی کی کیفیت بار بار آپ پر طاری ہو رہی ہے، جسے دیکھ کر اللہ تعالیٰ آپ کو تسلی دے رہا ہے اور آپ کی ہمت بندھا رہا ہے۔
یہی دو مضمون اس سورت میں بیان ہوئے ہیں۔ یعنی تنبیہ اُن لوگوں کو جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت کا انکار کر رہے تھے اور آپ کا مذاق اڑاتے اور آپ کے کام میں طرح طرح کی مزاحمتیں کرتے تھے اور تسلی و ہمت افزائی آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ سورت تفہیم اور نصیحت سے خالی ہے۔ قرآن میں کہیں بھی اللہ تعالیٰ نے مجرد تنبیہ یا خالص زجر و توبیخ سے کام نہیں لیا ہے۔ سخت سے سخت دھمکیوں اور ملامتوں کے درمیان بھی وہ سمجھانے اور نصیحت کرنے میں کمی نہیں کرتا۔ چنانچہ اس سورت میں بھی ایک طرف توحید کے دلائل کی طرف مختصر اشارے کیے گئے ہیں اور دوسری طرف قصۂ آدم و ابلیس سنا کر نصیحت فرمائی گئی ہے۔
۱-یہ اس سورے کی مختصر تعارفی تمہید ہے جس کے بعد فوراً ہی اصل موضوع پر خطبہ شروع ہو جاتا ہے۔
قرآن کے لیے ’’مبین‘‘ کا لفظ صفت کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ آیات اُس قرآن کی ہیں جو اپنا مُدّعا صاف صاف ظاہر کرتا ہے۔
۲- ’’مطلب یہ ہے کہ کفر کرتے ہی فوراً تو ہم نے کبھی کسی قوم کو بھی نہیں پکڑ لیا ہے، پھر یہ نادان لوگ کیوں اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ نبی کے ساتھ تکذیب و استہزاء کی جو روش اِنہوں نے اختیار کر رکھی ہے اُس پر چونکہ ابھی تک اِنہیں سزا نہیں دی گئی، ا س لیے یہ نبی سرے سے نبی ہی نہیں ہے۔ ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ ہم ہر قوم کے لیے پہلے سے طے کر لیتے ہیں کہ اس کو سننے، سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے اِتنی مہلت دی جائے گی، اور اِس حد تک اُس کی شرارتوں اور خباثتوں کے با وجود پورے تحمّل کے ساتھ اسے اپنی من مانی کر نے کا موقع دیا جاتا رہے گا۔ یہ مہلت جب تک باقی رہتی ہے۔ اور ہماری مقرر کی ہوئی حد جس وقت تک آ نہیں جاتی، ہم ڈھیل دیتے رہتے ہیں۔ (مہلت عمل کی تشری کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ ابراہیم حاشیہ نمبر ۱۸)
۳- ’’ذکر‘‘ کا لفظ قرآن میں اصطلاحاً کلامِ الٰہی کے لیے استعمال ہوا ہے جو سراسر نصیحت بن کے آیا ہے۔ پہلے جتنی کتابیں انبیاء پر نازل ہوئی تھیں وہ سب بھی ’’ذکر‘‘ تھیں اور یہ قرآن بھی ’’ذکر‘‘ ہے۔ ذکر کے اصل معنی ہیں ’’یاد دلانا‘‘ ’’ہوشیار کرنا‘‘ اور ’’نصیحت کرنا‘‘۔
۴-یہ فقرہ وہ لوگ طنز کے طور پر کہتے تھے۔ اُن کو تو یہ تسلیم ہی نہیں تھا کہ یہ ذکر نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر نازل ہوا ہے۔ نہ اِسے تسلیم کر لینے کے بعد وہ آپ کو دیوانہ کہہ سکتے تھے۔ دراصل اُن کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ’’اے وہ شخص جس کا دعویٰ یہ ہے کہ مجھ پر یہ ذکر نازل ہوا ہے ‘‘۔ یہ اُسی طرح کی بات ہے جیسی فرعون نے حضرت موسیٰ کی دعوت سننے کے بعد اپنے درباریوں سے کہی تھی کہ اِنَّ رَسُوْلَکُمُ الَّذیٓ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ، ’’ یہ پیغمبر صاحب جو تم لوگوں کی طرف بھیجے گئے ہیں، ان کا دماغ درست نہیں ہے ‘‘۔
۵- ’’یعنی فرشتے محض تماشا دکھا نے کے لیے نہیں اتارے جاتے کہ جب کسی قوم نے کہا بلاؤ فرشتوں کو اور وہ فوراً حاضر ہوئے۔ نہ فرشتے اِس غرض کے لیے کبھی بھیجے جاتے ہیں کہ وہ آ کر لوگوں کے سامنے حقیقت کو بے نقاب کریں اور پردۂ غیب کو چاک کر کے وہ سب کچھ دکھا دیں جس پر ایمان لانے کی دعوت انبیاء علیہم السلام نے دی ہے۔ فرشتوں کو بھیجنے کا وقت تو وہ آخر ی وقت ہوتا ہے جب کسی قوم کا فیصلہ چکا دینے کا ارادہ کر لیا جاتا ہے۔ اُس وقت بس فیصلہ چکایا جاتا ہے، یہ نہیں کہا جاتا کہ اب ایمان لاؤ تو چھوڑے دیتے ہیں۔ ایمان لانے کی جتنی مہلت بھی ہے اسی وقت تک ہے جب تک کہ حقیقت بے نقاب نہیں ہو جاتی۔ اُس کے بے نقاب ہو جانے کے بعد ایمان لانے کا کیا سوال۔
’’حق کے ساتھ اُترتے ہیں‘‘ کا مطلب ’’حق لے کر اُترنا‘‘ ہے۔ یعنی وہ اس لیے آتے ہیں کہ باطل کو مٹا کر حق کو اس کی جگہ قائم کر دیں۔ یا دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ لے کر آتے ہیں اور اسے نافذ کر کے چھوڑتے ہیں۔
۶-یعنی یہ ’’ذکر‘‘ جس کے لانے والے کو تم مجنون کہہ رہے ہو، یہ ہمارا نازل کیا ہوا ہے، اس نے خود نہیں گھڑا ہے۔ اس لیے یہ گالی اس کو نہیں ہمیں دی گئی ہے۔ اور یہ خیال تم اپنے دل سے نکال دو کہ تم اِس ’’ذکر‘‘ کا کچھ بگاڑ سکو گے۔ یہ براہِ راست ہماری حفاظت میں ہے۔ نہ تمہارے مٹائے مٹ سکے گا، نہ تمہارے دبائے دب سکے گا، نہ تمہارے طعنوں اور اعتراضوں سے اس کی قدر گھٹ سکے گی، نہ تمہارے روکے اس کی دعوت رُک سکے گی، نہ اس میں تحریف اور رد و بدل کرنے کا کبھی کسی کو موقع مل سکے گا۔
۷-عام طور پر مترجمین و مفسرین نے نَسْلُکُہ کی ضمیر استہزاء کی طرف اور لَا یُوْمِنُوْنَ بِہٖ کی ضمیر ذکر کی طرف پھیری ہے، اور مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ’’ہم اسی طرح اس استہزاء کو مجرمین کے دلوں میں داخل کرتے ہیں اور وہ اس ذکر پر ایمان نہیں لاتے ‘‘۔ اگرچہ نحوی قاعدے کے لحاظ سے اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، لیکن ہمارے نزدیک نحو کے اعتبار سے بھی زیادہ صحیح یہ ہے کہ دونوں ضمیریں ذکر کی طرف پھیری جائیں۔
سلک کے معنی عربی زبان میں کسی چیز کو دوسری چیز میں چلانے، گزارنے اور پرونے کے ہیں، جیسے تاگے کو سوئی کے ناکے میں گزارنا۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اہلِ ایمان کے اندر تو یہ ذکر قلب کی ٹھنڈک اور روح کی غذا بن کر اترتا ہے، مگر مجرموں کے دلوں میں یہ شتابہ بن کر لگتا ہے اور اُس کے اندر اِسے سن کر ایسی آگ بھڑک اُٹھتی ہے گویا کہ ایک گرم سلاخ تھی جو سینے کے پار ہو گئی۔
۸-بُرج عربی زبان میں قلعے، قصر اور مستحکم عمارت کو کہتے ہیں۔ قدیم علم ہیئت میں ’’برج‘‘ کا لفظ اصطلاحاً اُن بارہ منزلوں کے لیے استعمال ہوتا تھا جن پر سورج کے مدار کو تقسیم کیا گیا تھا۔ اِس وجہ سے بعض مفسرین نے یہ سمجھا کہ قرآن کا اشارہ انہی بروج کی طرف ہے۔ بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد سیّارے لیے ہیں۔ لیکن بعد کے مضمون پر غور کرنے سے خیال ہوتا ہے کہ شاید اس سے مراد عالمِ بالا کے وہ خِطّے ہیں جن میں سے ہر خِطّے کو نہایت مستحکم سرحدوں نے دوسرے خِطّے سے جدا کر رکھا ہے۔ اگرچہ یہ سرحدیں فضائے بسیط میں غیر مرئی طور پر کھچی ہوئی ہیں، لیکن ان کو پار کر کے کسی چیز کا ایک خِطّے سے دوسرے خِطّے میں چلا جانا سخت مشکل ہے۔ اس مفہوم کے لحاظ سے ہم بروج کو محفوظ خِطّوں (Fortified Spheres) کی معنی میں لینا زیادہ صحیح سمجھتے ہیں۔
۹-یعنی ہر خطّے میں کوئی نہ کوئی روشن سیّارہ یا تارا رکھ دیا اور اس طرح سارا عالم جگمگا اُٹھا۔ بالفاظ دیگر ہم نے اِس نا پیدا کنار کائنات کو ایک بھیانک ڈھنڈار بنا کر نہیں رکھ دیا بلکہ ایسی حسین و جمیل دنیا بنائی جس میں ہر طرف نگاہوں کو جذب کر لینے والے جلوے پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کاریگری میں صرف ایک صانع اکبر کی صنعت اور ایک حکیمِ اجل کی حکمت ہی نظر نہیں آتی ہے، بلکہ ایک کمال درجے کا پاکیزہ ذوق رکھنے والے آرٹسٹ کا آرٹ بھی نمایاں ہے۔ یہی مضمون ایک دوسرے مقام پر یوں بیان کیا گیا ہے، اَلَّذی ٓ اَحْسَنَ کُلَّ شی ءٍ خَلَقَہٗ ’’وہ خدا کہ جس نے ہر چیز جو بنائی خوب ہی بنائی‘‘۔
۱۰-یعنی جس طرح زمین کی دوسری مخلوقات زمین کے خطّے میں مقید ہیں اُسی طرح شیاطینِ جِنّ بھی اِسی خطّے میں مقید ہیں، عالمِ بالا تک اُن کی رسائی نہیں ہے۔ اِس سے دراصل لوگوں کی اُس عام غلط فہمی کو دور کرنا مقصود ہے جس میں پہلے بھی عوام الناس مبتلا تھے اور آج بھی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شیطان اور اس کی ذریّت کے لیے ساری کائنات کھلی پڑی ہے، جہاں تک وہ چاہیں پرواز کر سکتے ہیں۔ قرآن اس کے جواب میں بتاتا ہے کہ شیاطین ایک خاص حد سے آگے نہیں جا سکتے، انہیں غیر محدود پرواز کی طاقت ہر گز نہیں دی گئی ہے۔
۱۱-یعنی وہ شیاطین جو اپنے اولیاء کو غیب کی خبریں لا کر دینے کی کوشش کرتے ہیں، جن کی مدد سے بہت سے کاہن، جوگی، عامل اور فقیر نما بہروپیے غیب دانی کا ڈھونگ رچایا کرتے ہیں، اُن کے پاس حقیقت میں غیب دانی کے ذرائع بالکل نہیں ہیں۔ وہ کچھ سُن گن لینے کی کوشش ضرور کرتے ہیں، کیونکہ اُن کی ساخت انسانوں کی بہ نسبت فرشتوں کی ساخت سے کچھ قریب تر ہے، لیکن فی الواقع اُن کے پلّے کچھ پڑتا نہیں ہے۔
۱۲- ’’شہابِ مبین‘‘ کے لغوی معنی ’’شعلۂ روشن‘‘ کے ہیں۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں اس کے لیے ’’شہابِ ثاقب‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی ’’تاریکی کو چھیدنے والا شعلہ‘‘۔ اِس سے مراد ضروری نہیں کہ وہ ٹوٹنے والا تارا ہی ہو جسے ہماری زبان میں اصطلاحاً شہابِ ثاقب کہا جا تا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ اور کسی قسم کی شعاعیں ہوں، مثلاً کائناتی شعاعیں (Cosmic Rays) یا ان سے بھی شدید کوئی اور قسم جو ابھی ہمارے علم میں نہ آئی ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہی شہابِ ثاقب مراد ہوں جنہیں کبھی کبھی ہماری آنکھیں زمین کی طرف گرتے ہوئے دیکھتی ہیں۔ زمانۂ حال کے مشاہدات سے یہ معلوم ہو ا ہے کہ دوربین سے دکھائی دینے والے شہابِ ثاقب جو فضائے بسیط سے زمین کی طرف آتے نظر آتے ہیں، اُن کی تعداد کا اوسط ۱۰ کھرب روزانہ ہے، جن میں سے دو کروڑ کے قریب ہر روز زمین کے بالائی خطے میں داخل ہوتی ہیں اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچتا ہے۔ اُن کی رفتار بالائی فضا میں کم و بیش ۲۶ میل فی سیکنڈ ہوتی ہے اور بسا اوقات ۵۰ میل فی سیکنڈ تک دیکھی گئی ہے۔ بارہا ایسا بھی ہوا ہے کہ برہنہ آنکھوں نے بھی ٹوٹنے والے تاروں کی غیر معمولی بارش دیکھی ہے۔ چنانچہ یہ چیز ریکارڈ پر موجود ہے کہ ۱۳ نومبر ۱۸۳۳ء کو شمالی امریکہ کے مشرقی علاقے میں صرف ایک مقام پر نصب شب سے لے کر صبح تک ۲ لاکھ شہابِ ثاقب گرتے ہوئے دیکھے گئے (انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا۔ ۱۹۴۶ء۔ جلد ۱۵۔ ص ۳۹ – ۳۳۷)۔ ہو سکتا ہے کہ یہی بارش عالم بالا کی طرف شیاطین کی پرواز میں مانع ہوتی ہو، کیونکہ زمین کے بالائی حدود سے گزر کر فضائے بسیط میں ۱۰ کھرب روزانہ کے اوسط سے ٹوٹنے والے تاروں کی برسات اُن کے لیے اس فضا کو بالکل ناقابلِ عبور بنا دیتی ہو گی۔ اِس سے کچھ اُن ’’محفوظ قلعوں‘‘ کی نوعیت کا اندازہ بھی ہو سکتا ہے جن کا ذکر اُوپر ہوا ہے۔ بظاہر فضا بالکل صاف شفاف ہے جس میں کہیں کوئی دیوار یا چھت بنی نظر نہیں آتی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اِسی فضا میں مختلف خِطّوں کو کچھ ایسی غیر مرئی فصیلوں سے گھیر رکھا ہے جو ایک خِطّے کو دوسرے خِطّوں کی آفات سے محفوظ رکھتی ہیں۔ یہ انہی فصیلوں کی برکت ہے کہ جو شہابِ ثاقب دس کھرب روزانہ کے اوسط سے زمین کی طرف گرتے ہیں وہ سب جل کر بھسم ہو جاتے اور بمشکل ایک زمین کی سطح تک پہنچ سکتا ہے۔ دنیا میں شہابی پتھروں (Meteorites) کے جو نمونے پائے جاتے ہیں اور دنیا کے عجائب خانوں میں موجود ہیں ان میں سب سے بڑا ۶۴۵ پونڈ کا ایک پتھر ہے جو گِر کر ۱۱ فیٹ زمین میں دھنس گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک مقام پر ۳۶ ۱/۲ ٹن کا ایک آہنی تودہ بھی پایا گیا ہے جس کے وہاں موجود ہونے کی کوئی توجیہ سائنس داں اس کے سوا نہیں کر سکے ہیں کہ یہ بھی آسمان سے گرا ہوا ہے۔ قیاس کیجیے کہ اگر زمین کی بالائی سرحدوں کو مضبوط حصاروں سے محفوظ نہ کر دیا گیا ہوتا تو اِن ٹوٹنے والے تاروں کی بارش زمین کا کیا حال کر دیتی۔ یہی حصار ہیں جن کو قرآن مجید نے ’’بروج‘‘ (محفوظ قلعوں) کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔
۱۳-اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کے ایک اور اہم نشان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ نباتات اور ہر نوع میں تناسُل کی اِس قدر زبردست طاقت ہے کہ اگر اس کے صرف ایک پودے ہی کی نسل کو زمین میں بڑھنے کا موقع مل جاتا تو چند سال کے اندر روئے زمین پر بس وہی وہ نظر آتی، کسی دوسری قسم کی نباتات کے لیے کوئی جگہ نہ رہتی۔ مگر یہ ایک حکیم اور قادرِ مطلق کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے جس کے مطابق بے حد و حساب اقسام کی نباتات اِس زمین پر اُگ رہی ہیں اور ہر نوع کی پیداوار اپنی ایک مخصوص حد پر پہنچ کر رُک جاتی ہے۔ اِسی منظر کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ہر نوع کی جسامت، پھیلاؤ، اٹھان اور نشو نما کی ایک حد مقرر ہے جس سے نباتات کی کوئی قسم بھی تجاوز نہیں کر سکتی۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے ہر درخت، ہر پودے اور ہر بیل بوٹے کے لیے جسم، قد، شکل، برگ و بار اور پیداوار کی ایک مقدار پورے ناپ تول اور حساب و شمار کے ساتھ مقرر کر رکھی ہے۔
۱۴-یہاں اس حقیقت پر متنبہ فرمایا کہ یہ معاملہ صرف نباتات ہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ تمام موجودات کے معاملہ میں عام ہے۔ ہوا، پانی، روشنی، گرمی، سردی، جمادات، نباتات، حیوانات، غرض ہر چیز، ہر نوع، ہر جنس، اور ہر قوت و طاقت کے لیے ایک حد مقرر ہے جس پر وہ ٹھیری ہوئی ہے اور ایک مقدار ہے جس سے نہ وہ گھٹتی ہے نہ بڑھتی ہے۔ اسی تقدیر اور کمال درجہ کی حکیمانہ تقدیر ہی کا یہ کرشمہ ہے کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک پورے نظام کائنات میں یہ توازن، یہ اعتدال، اور یہ تناسب نظر آ رہا ہے۔ اگر یہ کائنات کا ایک اتفاقی حادثہ ہوتی، یا بہت سے خداؤں کی کاریگری و کارفرمائی کا نتیجہ ہوتی تو کس طرح ممکن تھا کہ بے شمار مختلف اشیاء اور قوتوں کے درمیان ایسا مکمل توازن و تناسب قائم ہوتا اور مسلسل قائم رہ سکتا؟
۱۵-یعنی تمہارے بعد ہم ہی باقی رہنے والے ہیں۔ تمہیں جو کچھ بھی ملا ہوا ہے محض عارضی استعمال کے لیے ملا ہوا ہے۔ آخر کار ہماری دی ہوئی ہر چیز کو یونہی چھوڑ کر تم خالی ہاتھ رخصت ہو جاؤ گے اور یہ سب چیزیں جو ں کی توں ہمارے خزانے میں رہ جائیں گی۔
۱۶-یعنی اُس کی حکمت یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ سب کو اکٹھا کرے اور اس کا علم سب پر اس طرح حا وی ہے کہ کوئی متنفس اُس سے چھوٹ نہیں سکتا، بلکہ کسی اگلے پچھلے انسان کی خاک کا کوئی ذرّہ بھی اُس سے گم نہیں ہو سکتا۔ اِس لیے جو شخص حیاتِ اُخروی کو مستبعد سمجھتا ہے وہ خدا کی صِفت حکمت سے بے خبر ہے، اور جو شخص حیران ہو کر پوچھتا ہے کہ ’’ جب مرنے کے بعد ہماری خاک کا ذرّہ ذرّہ منتشر ہو جائے گا تو ہم کیسے دوبارہ پیدا کیے جائیں گے ‘‘ وہ خدا کی صفتِ علم کو نہیں جانتا۔
۱۷-یہاں قرآن اِس امر کی صاف تصریح کرتا ہے کہ انسان حیوانی منازل سے ترقی کرتا ہوا بشریت کے حدود میں نہیں آیا ہے، جیسا کہ نئے دَور کے ڈارونییت سے متاثر مفسرینِ قرآن ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، بلکہ اُس کی تخلیق کی ابتداء براہِ راست ارضی مادّوں سے ہوئی ہے جن کی کیفیت کو اللہ تعالیٰ نے صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَأِ ٍ مَّسْنُوْنٍ کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ حَمأ عربی زبان میں ایسی سیاہ کیچڑ کو کہتے ہیں جس کے اندر بُو پیدا ہو چکی ہو، یا بالفاظِ دیگر خمیر اُٹھ آیا ہو۔ مسنون کے دو معنی ہیں۔ ایک معنی ہیں متغیر، مُنتِن اور املس، یعنی ایسی سڑی ہوئی جس میں سڑنے کی وجہ سے چکنائی پیدا ہو گئی ہو۔ دوسرے معنی میں مصوَّر اور مصبوب، یعنی قالب میں ڈھلی ہوئی جس کو ایک خاص صورت دے دی گئی ہو۔ صلصال اُس سوکھے گارے کو کہتے ہیں جو خشک ہو جانے کے بعد بجنے گے۔ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ خمیر اُٹھی ہوئی مٹی کا ایک پُتلا بنایا گیا تھا جو بننے کے بعد خشک ہوا اور پھر اس کے اندر رُوح پھونکی گئی۔
۱۸-سَموم گرم ہوا کو کہتے ہیں، اور نار کو سموم کی طرف نسبت دینے کی صورت میں اُس کے معنی آگ کے بجائے تیز حرارت کے ہو جاتے ہیں۔ اِس سے اُن مقامات کی تشریح ہو جاتی ہے جہاں قرآن مجید میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جن ّ آگ سے پیدا کیے گئے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، الرحمٰن، حواشی ۱۴ تا ۱۶)۔
۱۹-اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل صفاتِ الٰہی کا ایک عکس یا پرتَو ہے۔ حیات، علم، قدرت، ارادہ، اختیار اور دوسری جتنی صفات انسان میں پائی جاتی ہیں، جن کے مجموعہ کا نام روح ہے، یہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا ایک ہلکا سا پرتَو ہے جو اس کالبدِ خاکی پر ڈالا گیا ہے، اور اسی پرتَو کی وجہ سے انسان زمین پر خدا کا خلیفہ اور ملائکہ سمیت تمام موجوداتِ ارضی کا مسجود قرار پایا ہے۔
یوں تو ہر صفت جو مخلوقات میں پائی جاتی ہے، اس کا مصدر و منبع اللہ تعالیٰ ہی کی کوئی نہ کوئی صفت ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ جَعَلَ اللہ ْ الرَّ حْمَۃَ مِأَ ۃَ جُزْءٍ فَاَمْسَکَ عِنْدَہٗ تِسْعَۃً وَّ تِسْعینَ وَاَنْزَلَ فی الْاَرْضِ جُزْ ءً ا وَّ احِدًا فَمِنْ ذٰلِکَ الْجُزْ ءِ یَتَرَ ا حَمُ الْخَلَا ئِقُ حَتّٰی تَرْفَعُ الدَّآ بَّۃُ حَا فِرَ ھَا عَنْ وَّلَدھَِا خَشْیَۃِ اَنْ تُصیبَہٗ (بخاری و مسلم)۔ ’’ اللہ تعالیٰ نے رحمت کو سو حصوں میں تقسیم فرمایا، پھر ان میں سے ۹۹ حصے اپنے پاس رکھے اور صرف ایک حِصّہ زمین میں اُتارا۔ یہ اُسی ایک حصے کی برکت ہے کہ جس کی وجہ سے مخلوقات آپس میں ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں یہاں تک کہ اگر جانور اپنے بچے پر سے اپنا کھُرا اُٹھاتا ہے تاکہ اُسے ضرر نہ پہنچ جائے، تو یہ بھی دراصل اُسی حصہ رحمت کا اثر ہے ‘‘۔ مگر جو چیز انسان کو دوسری مخلوقات پر فضیلت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ جس جامعیت کے ساتھ اللہ کی صفات کا پرتَو اس پر ڈالا گیا ہے اس سے کوئی دوسری مخلوق سرفراز نہیں کی گئی۔
یہ ایک ایسا باریک مضمون ہے جس کے سمجھنے میں ذرا سی غلطی بھی آدمی کر جائے تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتا ہے کہ صفاتِ الٰہی میں سے ایک حصّہ پانا الوہیت کا کوئی جُز پا لینے کا ہم معنی ہے۔ حالانکہ الوہیت اس سے دراء الوراء ہے کہ کوئی مخلوق اس کا ایک ادنیٰ شائبہ بھی پا سکے۔
۲۰-تقابل کے لیے سورۂ بقرہ رکوع ۴، سورۂ نساء، رکوع ۱۸، اور سورۂ اعراف، رکوع ۲، پیشِ نظر رہے۔ نیز ہمارے اُن حواشی پر بھی ایک نگاہ ڈال لی جائے جو اِن مقامات پر لکھے گئے ہیں۔
۲۱-یعنی قیامت تک تو ملعون رہے گا، ا سکے بعد جب روزِ جزا قائم ہو گا تو پھر تجھے تیری نافرمانیوں کی سزا دی جائے گی۔
۲۲-یعنی جس طرح تُو نے اِس حقیر اور کم تر مخلوق کو سجدہ کرنے کا حکم دے کر مجھے مجبور کر دیا کہ تیرا حکم نہ مانوں، اسی طرح اب میں ان انسانوں کے لیے دنیا کو ایسا دلفریب بنا دوں گا کہ یہ سب اُس سے دھوکا کھا کر تیرے نافرمان بن جائیں گے۔ بالفاظِ دیگر ابلیس کا مطلب یہ تھا کہ مَیں زمین کی زندگی اور اُس کی لذتوں اور اس کے عارضی فوائد و منافع کو انسان کے لیے ایسا خوشنما بنا دوں گا کہ وہ خلافت اور اس کی ذمہ داریوں اور آخرت کی باز پرس کو بھول جائیں گے اور خود تجھے بھی یا تو فراموش کر دیں گے، یا تجھے یاد رکھنے کے باوجود تیرے احکام کی خلاف ورزیاں کریں گے۔
۲۳-ھٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقیمٌ کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک معنی وہ ہیں جو ہم نے ترجمہ میں بیان کیے ہیں اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ ھٰذَا طَریقٌ حَقٌّ عَلَیَّ اَنْ اُرَ اعیہٗ، یعنی یہ بات درست ہے، میں بھی اس کا پابند رہوں گا۔
۲۴- ’’اس فقرے کے بھی دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک وہ جو ترجمے میں اختیار کیا گیا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ میرے بندوں (یعنی عام انسانوں) پر تجھے کوئی اقتدار حاصل نہ ہو گا کہ تُو اُنہیں زبردستی نافرمان بنا دے، البتہ جو خود ہی بہکے ہوئے ہوں اور آپ ہی تیری پیروی کرنا چاہیں اُنہیں تیری راہ پر جانے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا، انہیں ہم زبردستی اس سے باز رکھنے کی کوشش نہ کریں گے۔ پہلے معنی کے لحاظ سے مضمون کا خلاصہ یہ ہو گا کہ بندگی کا طریقہ اللہ تک پہنچنے کا سیدھا راستہ ہے، جو لوگ اِس راستے کو اختیار کر لیں گے اُن پر شیطان کا بس نہ چلے گا، اُنہیں اللہ اپنے لیے خالص فرما لے گا اور شیطان خود بھی اقراری ہے کہ وہ اُس کے پھندے میں نہ پھنسیں گے۔ البتہ جو لوگ خود بندگی سے منحرف ہو کر اپنی فلاح و سعادت کی راہ گم کر دیں گے وہ ابلیس کے ہتھے چڑھ جائیں گے اور پھر جدھر جدھر وہ انہیں فریب دے کر لے جانا چاہے گا، وہ اس کے پیچھے بھٹکتے اور دُور سے دور تر نکلتے چلے جائیں گے۔
دوسرے معنی کے لحاظ سے اِس بیان کا خلاصہ یہ ہو گا: شیطان نے انسانوں کو بہکانے کے لیے اپنا طریقِ کار یہ بیان کیا کہ وہ زمین کی زندگی کو اُس کے لیے خوشنما بنا کر انہیں خدا سے غافل اور بندگی کی راہ سے منحرف کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اِس کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ شرط میں نے مانی، اور مزید توضیح کرتے ہوئے یہ بات بھی صاف کر دی کہ تجھے صرف فریب دینے کا اختیار دیا جا رہا ہے، یہ اقتدار نہیں دیا جا رہا کہ تو ہاتھ پکڑ کر اُنہیں زبردستی اپنی راہ پر کھینچ لے جائے۔ شیطان نے اپنے نوٹِس سے اُن بندوں کو مستثنیٰ کیا جنہیں اللہ اپنے لیے خالص فرما لے۔ اس سے یہ غلط فہمی مترشح ہو رہی تھی کہ شاید اللہ تعالیٰ بغیر کسی معقول وجہ کے یونہی جس کو چاہے گا خالص کر لے گا اور وہ شیطان کی دستِ رس سے بچ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر بات صاف کر دی کہ جو خود بہکا ہوا ہو گا وہی تیری پیروی کرے گا۔ بالفاظِ دیگر جو بہکا ہوا نہ ہو گا وہ تیری پیروی نہ کرے گا اور وہی ہمارا وہ مخصوص بندہ ہو گا جسے ہم خالص اپنا کر لیں گے۔
۲۵-اس جگہ یہ قصہ جس غرض کے لیے بیان کیا گیا ہے اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاق و سباق کو واضح طور پر ذہن میں رکھا جائے۔ پہلے اور دوسرے رکوع کے مضمون پر غور کرنے سے یہ بات صاف سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اس سلسلۂ بیان میں آدم و ابلیس کا یہ قصہ بیا ن کرنے سے مقصود کفار کو اِس حقیقت پر متنبہ کرنا ہے کہ تم اپنے ازلی دشمن شیطان کے پھندے میں پھنس گئے ہو اور اُس پستی میں گرے چلے جا رہے ہو جس میں وہ اپنے حسد کی بنا پر تمہیں گرانا چاہتا ہے۔ اِس کے برعکس یہ نبی تمہیں اُس کے پھندے سے نکال کر اُس بلندی کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہا ہے جو دراصل انسان ہونے کی حیثیت سے تمہارا فطری مقام ہے۔ لیکن تم عجیب احمق لوگ ہو کہ اپنے دشمن کو دوست، اور اپنے خیر خواہ کو دشمن سمجھ رہے ہو۔
اِس کے ساتھ یہ حقیقت بھی اِسی قصہ سے اُن پر واضح کی گئی ہے کہ تمہارے لیے راہِ نجات صرف ایک ہی ہے، اور وہ اللہ کی بندگی ہے۔ اِس راہ کو چھوڑ کر تم جس راہ پر بھی جاؤ گے وہ شیطان کی راہ ہے جو سیدھی جہنم کی طرف جاتی ہے۔
تیسری بات جو اِس قصے کے ذریعہ سے ان کو سمجھائی گئی ہے، یہ ہے کہ اپنی اس غلطی کے ذمہ دار تم خود ہو۔ شیطان کا کوئی کام اس سے زیادہ نہیں ہے کہ وہ ظاہر حیات دنیا سے تم کو دھوکا دے کر تمہیں بندگی کی راہ سے منحرف کر نے کی کوشش کرتا ہے، اُس سے دھوکا کھانا تمہارا اپنا فعل ہے جس کی کوئی ذمہ داری تمہارے اپنے سوا کسی اور پر نہیں ہے۔
(اس کی مزید توضیح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ ابراہیم، آیت ۲۲ و حاشیہ نمبر ۳۱)۔
۲۶-جہنم کے یہ دروازے اُن گمراہیوں اور معصیتوں کے لحاظ سے ہیں جن پر چل کر آدمی اپنے لیے دوزخ کی راہ کھولتا ہے۔ مثلاً کوئی دہریّت کے راستے سے دوزخ کی طرف جاتا ہے، کوئی شرک کے راستہ سے، کوئی نفاق کے راستہ سے، کوئی نفس پرستی اور فسق و فجور کے راستہ سے، کوئی ظلم و ستم اور خلق آزاری کے راستہ سے، کوئی تبلیغِ ضلالت اور اقامتِ کفر کے راستہ سے، اور کوئی اشاعتِ فحشاء و منکر کے راستہ سے۔
۲۷-یعنی وہ لوگ جو شیطان کی پیروی سے بچے رہے ہوں اور جنہوں نے اللہ سے ڈرتے ہوئے عبدیّت کی زندگی بسر کی ہو۔
۲۸-یعنی نیک لوگوں کے درمیان آپس کی غلط فہمیوں کی بنا پر دنیا میں اگر کچھ کدورتیں پیدا ہو گئی ہوں گی تو جنّت میں داخل ہونے کے وقت وہ دور ہو جائیں گی اور ان کے دل ایک دوسرے کی طرف سے بالکل صاف کر دیے جائیں گے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف۔ حاشیہ نمبر ۳۲)۔
۲۹-اِس کی تشریح اُس حدیث سے ہوتی ہے جس میں حضور نے خبر دی ہے کہ یقال لا ھل الجنۃ ان لکم ان تصحو ا ولا تمرضو ا ابدًا، و ان لکم ان تعیشو ا فلا تمو تو ا ا بدا، و ان لکم ان تشبّو ا ولا تھر مو ا ابدًا، و ان لکم ان تقیمو ا فلا تظعنو ا ابدًا۔ یعنی ’’اہلِ جنت سے کہہ دیا جائے گا کہ اب تم ہمیشہ تندرست رہو گے، کبھی بیمار نہ پڑو گے۔ اور اب تم ہمیشہ زندہ رہو گے، کبھی موت تم کو نہ آئے گی۔ اور اب تم ہمیشہ جوان رہو گے، کبھی بڑھاپا تم پر نہ آئے گا۔ اور اب تم ہمیشہ مقیم رہو گے، کبھی کوچ کرنے کی تمہیں ضرورت نہ ہو گی‘‘۔ اس کی مزید تشریح اُن آیات و احادیث سے ہوتی ہے جن میں بتایا گیا ہے کہ جنت میں انسان کو اپنی معاش اور اپنی ضروریات کی فراہمی کے لیے کوئی محنت نہ کرنی پڑے گی، سب کچھ اُسے بلا سعی و مشقت ملے گا۔
۳۰-یہاں حضرت ابراہیم اور ان کے بعد متصلاً قوم لوط کا قصہ جس غرض کے لیے سنایا جا رہا ہے اُس کو سمجھنے کے لیے اس سورۃ کی ابتدائی آیات کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ آیات ۷ -۸ میں کفارِ مکّہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے کہ ’’اگر تم سچے نبی ہو تو ہمارے سامنے فرشتوں کے لے کیوں نہیں آتے ؟‘‘ اس کا مختصر جواب وہاں صرف اِس قدر دے کر چھوڑ دیا گیا تھا کہ ’’فرشتوں کو ہم یوں ہی نہیں اُتار دیا کرتے، انہیں تو ہم جب بھیجتے ہیں حق کے ساتھ ہی بھیجتے ہیں‘‘۔ اب اُس کا مفصل جواب یہاں اِن دونوں قصّوں کے پیرائے میں دیا جا رہا ہے۔ یہاں اُنہیں بتایا جا رہا ہے کہ ایک ’’حق‘‘ تو وہ ہے جسے لے کر فرشتے ابراہیم کے پاس آئے تھے، اور دوسرا حق وہ ہے جسے لے کر وہ قومِ لوط پر پہنچے تھے۔ اب تم خود دیکھ لو کہ تمہارے پاس اِن میں سے کونسا حق لے کر فرشتے آ سکتے ہیں۔ ابراہیم والے حق کے لائق تو ظاہر ہے کہ تم نہیں ہو۔ اب کیا اُس حق کے ساتھ فرشتوں کو بلوانا چاہتے ہو جسے لے کر وہ قومِ لوط کے ہاں نازل ہوئے تھے ؟
۳۱-تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ ہود، رکوع ۷ مع حواشی
۳۲-یعنی حضرت اسحاق ؑ کے پیدا ہونے کی بشارت، جیسا کہ سورۂ ہود میں بصراحت بیان ہو ا ہے۔
۳۳-حضرت ابراہیم ؑ کے اس سوال سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتوں کا انسانی شکل میں آنا ہمیشہ غیر معمولی حالات ہی میں ہوا کرتا ہے اور کوئی بڑی مہم ہی ہوتی ہے جس پر وہ بھیجے جاتے ہیں۔
۳۴-اشارے کا یہ اختصار صاف بتا رہا ہے کہ قومِ لوط کے جرائم کا پیمانہ اس وقت اتنا لبریز ہو چکا تھا کہ حضرت ابراہیمؑ جیسے باخبر آدمی کے سامنے اس کا نام لینے کی قطعاً ضرورت نہ تھی، بس ’’ایک مجرم قوم‘‘ کہہ دینا بالکل کافی تھا۔
۳۵-تقابل کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف رکوع ۱۰ و سورۂ ہود رکوع ۷۔
۳۶-یہاں بات مختصر بیان کی گئی ہے۔ سورۂ ہود میں اس کی تفصیل یہ دی گئی ہے کہ ان لوگوں کے آنے سے حضرت لوط بہت گھبرائے اور سخت دل تنگ ہوئے اور اُن کو دیکھتے ہی اپنے دل میں کہنے لگے کہ آج بڑا سخت وقت آیا ہے۔ اس گھبراہٹ کی وجہ جو قرآن کے بیان سے اشارۃً اور روایات سے صراحۃً معلوم ہوتی ہے یہ ہے کہ یہ فرشتے نہایت خوبصورت لڑکوں کی شکل میں حضرت لوط ؑ کے ہاں پہنچے تھے۔ اور حضرت لوطؑ اپنی قوم کی بدمعاشی سے واقف تھے، اس لیے آپ سخت پریشان ہوئے کہ آئے ہوئے مہمانوں کو واپس بھی نہیں کیا جا سکتا، اور انہیں اِن بدمعاشوں سے بچانا بھی مشکل ہے۔
۳۷-یعنی اس غرض سے اپنے گھر والوں کے پیچھے چلو کہ ان میں سے کوئی ٹھیرنے نہ پائے۔
۳۸-اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پلٹ کر دیکھتے ہی تم پتھر کے ہو جاؤ گے، جیسا کہ بائیبل میں بیان ہوا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیچھے کی آوازیں اور شور و غُل سن کر تماشا دیکھنے کے لیے نہ ٹھیر جانا۔ یہ نہ تماشا دیکھنے کا وقت ہے، اورنہ مجرم قوم کی ہلاکت پر آنسو بہانے کا۔ ایک لمحہ بھی اگر تم نے معذَّب قوم کے علاقے میں دم لے لیا تو بعید نہیں کہ تمہیں بھی اس ہلاکت کی بارش سے کچھ گزند پہنچ جائے۔
۳۹-اِس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس قوم کی بد اخلاقی کس حد کو پہنچ چکی تھی۔ بستی کے ایک شخص کے ہاں چند خوبصورت مہمانوں کا آ جانا اِس بات کے لیے کافی تھا کہ اُس کے گھر پر اوباشوں کا ایک ہجوم اُمنڈ آئے اور علانیہ وہ اس سے مطالبہ کریں کہ اپنے مہمانوں کو بدکاری کے لیے ہمارے حوالے کر دے۔ اُن کی پوری آبادی میں کوئی ایسا عنصر باقی نہ رہا تھا جو ان حرکات کے خلاف آواز اُٹھاتا، اور نہ اُن کی قوم میں کوئی اخلاقی حِس باقی رہ گئی تھی جس کی وجہ سے لوگوں کو علی الاعلان یہ زیادتیاں کرتے ہوئے کوئی شرم محسوس ہوتی۔ حضرت لوط جیسے مقدس انسان اور معلم اخلاق کے گھر پر بھی جب بدمعاشوں کا حملہ اس بے باکی کے ساتھ ہو سکتا تھا تو اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ عام انسانوں کے ساتھ ان بستیوں میں کیا کچھ ہو رہا ہو گا۔
تلمود میں اس قوم کے جو حالات لکھے ہیں اُن کا ایک خلاصہ ہم یہاں دیتے ہیں جس سے کچھ زیادہ تفصیل کے ساتھ معلوم ہو گا کہ یہ قوم اخلاقی فساد کی کس انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اس میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ایک عَیلامی مسافر اُن کے علاقے سے گزر رہا تھا۔ راستہ میں شام ہو گئی اور اسے مجبوراً ان کے شہر سدوم میں ٹھیرنا پڑا۔ اس کے ساتھ اپنا زادِ راہ تھا۔ کسی سے اُس نے میزبانی کی درخواست نہ کی۔ بس ایک درخت کے نیچے اُتر گیا۔ مگر ایک سدومی اصرار کے ساتھ اُٹھا کر اُسے اپنے گھر لے گیا۔ رات اُسے اپنے ہاں رکھا اور صبح ہونے سے پہلے اس کا گدھا اُس کے زین اور مال تجارت سمیت اڑا دیا۔ اس نے شور مچایا۔ مگر کسی نے اسی کی فریاد نہ سنی۔ بلکہ بستی کے لوگوں نے اُس کا رہا سہا مال بھی لوٹ کر اُسے نکال باہر کیا۔
ایک مرتبہ حضرت سارہ نے حضرت لوط کے گھر والوں کی خیریت دریافت کرنے کے لیے اپنے غلام العیزر کو سدوم بھیجا۔ الیعزر جب شہر میں داخل ہو تو اس نے دیکھا کہ ایک سدومی ایک اجنبی کو مار رہا ہے۔ الیعزِر نے اُسے شرم دلائی کہ تم بے کس مسافروں سے یہ سلوک کرتے ہو۔ مگر جواب میں سر بازار الیعزر کا سر پھاڑ دیا گیا۔
ایک مرتبہ ایک غریب آدمی کہیں سے اُن کے شہر میں آیا اور کسی نے اُسے کھانے کو کچھ نہ دیا۔ وہ فاقے سے بدحال ہو کر ایک جگہ گرا پڑا تھا کہ حضرت لوط کی بیٹی نے اُسے دیکھ لیا اور اس کے لیے کھانا پہنچایا۔ اس پر حضرت لوط اور ان کی بیٹی کو سخت ملامت کی گئی اور انہیں دھمکیاں دی گئیں کہ اِن حرکتوں کے ساتھ تم لوگ ہماری بستی میں نہیں رہ سکتے۔
اس طرح کے متعدد واقعات بیان کرنے کے بعد تلمود کا مصنف لکھتا ہے کہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں یہ لوگ سخت ظالم، دھوکہ باز اور بد معاملہ تھے۔ کوئی مسافر ان کے علاقے سے بخیریت نہ گزر سکتا تھا۔ کوئی غریب ان کی بستیوں سے روٹی کا ایک ٹکڑا نہ پا سکتا تھا۔ بارہا ایسا ہوتا کہ باہر کا آدمی ان کے علاقے میں پہنچ کر فاقوں سے مر جاتا اور یہ اُس کے کپڑے اتار کر اس کی لاش کو برہنہ دفن کر دیتے۔ بیرونی تاجر اگر شامت کے مارے وہاں چلے جاتے تو بر سرِ عام لوٹ لیے جاتے اور اُن کی فریاد کو ٹھٹھوں میں اُڑا دیا جاتا۔ اپنی وادی کو انہوں نے ایک باغ بنا رکھا تھا جس کا سلسلہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ اس باغ میں وہ انتہائی بے حیائی کے ساتھ علانیہ بد کاریاں کرتے تھے اور ایک لوط کی زبان کے سوا کوئی زبان ان کو ٹوکنے والی نہ تھی۔ قرآن مجید میں اس پوری داستان کو سمیٹ کر صرف دو فقروں میں بیان کر دیا گیا ہے کہ وَمِنْ قَبْلُ کَانُوْ ا یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰ تِ۔ (وہ پہلے سے بہت بُرے بُرے کام کر رہے تھے ) اور اَ ءِ نَّکُمْ لَتَا ْ تُوْ نَ الرِّجَالَ و َ تَقْطَعُوْ نَ السَّبیلَ وَتَاْ تُوْ نَ فی نَا دیکُمُ الْمُنْکَرَ (تم مَردوں سے خواہشِ نفس پوری کرتے ہو، مسافروں کی راہ مارتے ہو اور اپنی مجلسوں میں کھلم کھلا بد کاریاں کرتے ہو؟)
۴۰-اس کی تشریح سورۂ ہود کے حاشیہ نمبر ۸۷ میں بیان کی جا چکی ہے۔ یہاں صرف اتنا اشارہ کافی ہے کہ یہ کلمات ایک شریف آدمی کی زبان پر ایسے وقت میں آئے ہیں جب کہ وہ بالکل تنگ آ چکا تھا اور بدمعاش لوگ اس کی ساری فریاد فغاں سے بے پروا ہو کر اُس کے مہمانوں پر ٹوٹے پڑ رہے تھے۔
اِ س موقع پر ایک بات کو صاف کر دینا ضروری ہے۔ سورۂ ہود میں واقعہ جس ترتیب سے بیان کیا گیا ہے اُس میں یہ تصریح ہے کہ حضرت لوط کو بدمعاشوں کے اِس حملہ کے وقت تک یہ معلوم نہ تھا کہ اُن کے مہمان درحقیقت فرشتے ہیں۔ وہ اُس وقت تک یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ چند مسافر لڑکے ہیں جو ان کے ہاں آ کر ٹھیرے ہیں۔ انہوں نے اپنے فرشتہ ہونے کی حقیقت اُس وقت کھولی جب بدمعاشوں کا ہجوم مہمانوں کی قیامگاہ پر پِل پڑا اور حضرت لوط نے تڑپ کر فرمایا لَوْ اَنَّ لی بِکُمْ قُوَّۃً اَوْ اٰ ویٓ اِلیٰ رُکْنٍ شَدیدٍ (کاش مجھے تمہارے مقابلے کی طاقت حاصل ہوتی یا میرا کوئی سہارا ہوتا جس سے میں حمایت حاصل کرتا)۔ اس کے بعد فرشتوں نے اُن سے کہا کہ اب تم اپنے گھر والوں کو لے کر یہاں سے نکل جاؤ اور ہمیں اِن سے نمٹنے کے لیے چھو ڑ دو۔ واقعات کی اس ترتیب کو نگاہ میں رکھنے سے پورا اندازہ ہو سکتا ہے کہ حضرت لوطؑ نے یہ الفاظ کس تنگ موقع پر عاجز آ کر فرمائے تھے۔ اِس سورے میں چونکہ واقعات کو اُن کی ترتیبِ وقوع کے لحاظ سے نہیں بیان کیا جا رہا ہے، بلکہ اُس خاص پہلو کو خاص طور پر نمایاں کر نا مقصود ہے جسے ذہن نشین کرنے کی خاطر ہی یہ قصہ یہاں نقل کیا گیا ہے، اِس لیے ایک عام ناظر کو یہاں یہ غلط فہمی پیش آتی ہے کہ فرشتے ابتدا ہی میں اپنا تعارف حضرت لوط سے کرا چکے تھے اور اب اپنے مہمانوں کی آبرو بچانے کے لیے اُن کی یہ ساری فریاد و فغاں محض ایک ڈرامائی انداز کی تھی۔
۴۱-یہ پکی ہوئی مٹی کے پتھر ممکن ہے کہ شہابِ ثاقب کی نوعیت کے ہوں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ آتش فشانی انفجار (Volcanic eruption) کی بدولت زمین سے نکل کر اُڑے ہوں اور پھر اُن پر بارش کی طرح برس گئے ہوں، اور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک سخت آندھی نے یہ پتھراؤ کیا ہو۔
۴۲-یعنی حجاز سے شام اور عراق سے مصر جاتے ہوئے یہ تباہ شدہ علاقہ راستہ میں پڑتا ہے اور عموماً قافلوں کے لوگ تباہی کے اُن آثار کو دیکھتے ہیں جو اس پورے علاقے میں آج تک نمایاں ہیں۔ یہ علاقہ بحرِ لوط (بحیرۂ مردار کے مشرق اور جنوب میں واقع ہے اور خصوصیت کے ساتھ اس کے جنوبی حصّے کے متعلق جغرافیہ دانوں کا بیان ہے کہ یہاں اِس درجہ ویرانی پائی جاتی ہے جس کی نظیر روئے زمین پر کہیں اور نہیں دیکھی گئی۔
۴۳-یعنی حضرت شعیب کی قوم کے لوگ۔ اس قوم کا نام بنی مدیان تھا۔ مَدْیَن اُن کے مرکزی شہر کو بھی کہتے تھے اور اُن کے پورے علاقے کو بھی۔ رہا اَیکہ، تو یہ تبوک کا قدیم نام تھا۔ اس لفظ کے لغوی معنی گھنے جنگل کے ہیں۔ آج کل اَیکہ ایک پہاڑی نالے کا نام ہے جو جبل اللَّوز سے وادی اَفَل میں آ کر گرتا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الشعراء، حاشیہ نمبر ۱۱۵)۔
۴۴-مدین ا ور اصحاب الایکہ کا علاقہ بھی حجاز سے فلسطین و شام جاتے ہوئے راستے میں پڑتا ہے۔
۴۵-یہ قومِ ثمود کا مرکزی شہر تھا۔ اس کے کھنڈر مدینہ کے شمال مغرب میں موجودہ شہر العُلاء سے چند میل کے فاصلہ پر واقع ہیں۔ مدینہ سے تبوک جاتے ہوئے یہ مقام شاہ راہِ عام پر ملتا ہے اور قافلے اس وادی میں سے ہو کر گزرتے ہیں، مگر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت کے مطابق کوئی یہاں قیام نہیں کرتا۔ آٹھویں صدی ہجری میں ابن بطوطہ حج کو جاتے ہوئے یہاں پہنچا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ ’’یہاں سُرخ رنگ کے پہاڑوں میں قومِ ثمود کی عمارتیں موجود ہیں جو انہوں نے چٹانوں کو تراش کر ان کے اندر بنائی تھیں۔ اُن کے نقش و نگار اِس وقت تک ایسے تازہ ہیں جیسے آج بنائے گئے ہوں۔ ان مکانات میں اب بھی سڑی گلی انسانی ہڈیاں پڑی ہوئی ملتی ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ اعراف حاشیہ نمبر ۵۷)
۴۶-یعنی اُن کے سنگین مکانات جو اُنہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر اُن کے اندر بنائے تھے ان کی کچھ بھی حفاظت نہ کر سکے۔
۴۷-یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تسکین و تسلّی کے لیے فرمائی جا رہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اِس وقت بظاہر باطل کا جو غلبہ تم دیکھ رہے ہو اور حق کے راستہ میں جن مشکلات اور مصائب سے تمہیں سابقہ پیش آ رہا ہے، اس سے گھبراؤ نہیں۔ یہ ایک عارضی کیفیت ہے، مستقل اور دائمی حالت نہیں ہے۔ اِس لیے زمین و آسمان کا یہ پورا نظام حق پر تعمیر ہوا ہے نہ کہ باطل پر۔ کائنات کی فطرت حق کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے نہ کہ باطل کے ساتھ۔ لہٰذا یہاں اگر قیاس و دوام ہے تو حق کے لیے نہ کہ باطل کے لیے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ ابراہیم حواشی ۲۵ – ۲۶ – ۳۵ تا ۳۹)۔
۴۸-یعنی خالق ہونے کی حیثیت سے وہ اپنی مخلوق پر کامل غلبہ و تسلط رکھتا ہے، کسی مخلوق کی یہ طاقت نہیں ہے کہ اس کی گرفت سے بچ سکے۔ اور اِس کے ساتھ وہ پوری طرح باخبر بھی ہے، جو کچھ اِن لوگوں کی اصلاح کے لیے تم کر رہے ہو اسے بھی وہ جانتا ہے اور جن ہتھکنڈوں سے یہ تمہاری سعیِ اصلاح کو ناکام کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں اُن کا بھی اسے علم ہے۔ لہٰذا تمہیں گھبرانے اور بے صبر ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ مطمئن رہو کہ وقت آنے پر ٹھیک ٹھیک انصاف کے مطابق فیصلہ چکا دیا جائے گا۔
۴۹-یعنی سورۂ فاتحہ کی آیات۔ اگرچہ بعض لوگوں نے اس سے مراد وہ سات بڑی بڑی سورتیں بھی لی ہیں جن میں دو دو سو آیتیں ہیں، یعنی البقرہ، آل عمران، النساء، المائدہ، الانعام، الاعراف اور یونس، یا انفاق و توبہ۔ لیکن سلف کی اکثریت اس پر متفق ہے کہ اس سے سورۂ فاتحہ ہی مراد ہے۔ بلکہ امام بخاری نے دو مرفوع روایتیں بھی اس امر کے ثبوت میں پیش کی ہیں کہ خو د نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سبع من المثانی سے مراد سورۂ فاتحہ بتائی ہے۔
۵۰-یہ بات بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آ پ کے ساتھیوں کی تسکین و تسلی کے لیے فرمائی گئی ہے۔ وقت وہ تھا جب حضور ؐ اور آپ کے ساتھی سب کے سب انتہائی خستہ حالی میں مبتلا تھے۔ کارِ نبوت کی عظیم ذمہ داریاں سنبھالتے ہی حضورؐ کی تجارت قریب قریب ختم ہو چکی تھی اور حضرت خدیجہ ؓ کا سرمایہ بھی دس بارہ سال کے عرصے میں خرچ ہو چکا تھا۔ مسلمانوں میں سے بعض کم سن نوجوان تھے جو گھروں سے نکال دیے گئے تھے، بعض صنعت پیشہ یا تجارت پیشہ تھے جن کے کاروبار معاشی مقاطعہ کی مسلسل ضرب سے بالکل بیٹھ گئے تھے، اور بعض بیچارے پہلے ہی غلام یا موالی تھے جن کی کوئی معاشی حیثیت نہ تھی۔ اس پر مزید یہ ہے کہ حضورؐ سمیت تمام مسلمان مکّے اور اطراف و نواح کی بستیوں میں انتہائی مظلومی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ ہر طرف سے مطعون تھے، ہر جگہ تذلیل و تحقیر اور تضحیک کا نشانہ بنے ہوئے تھے، اور قلبی و روحانی تکلیفوں کے ساتھ جسمانی اذیّتوں سے بھی کوئی بچا ہو ا نہ تھا۔ دوسری طرف سردارانِ قریش دنیا کی نعمتوں سے مالا مال اور ہر طرح کی خوشحالیوں میں مگن تھے۔ ان حالات میں فرمایا جا رہا ہے کہ تم شکستہ خاطر کیوں ہوتے ہو، تم کو تو ہم نے وہ دولت عطا کی ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کی ساری نعمتیں ہیچ ہیں۔ رشک کے لائق تمہاری یہ علمی و اخلاقی دولت ہے نہ کہ اُن لوگوں کی مادّی دولت جو طرح طرح کے حرام طریقوں سے کما رہے ہیں اور طرح طرح کے حرام راستوں میں اس کمائی کو اُڑا رہے ہیں اور آخر کار بالکل مفلس و قلاش ہو کر اپنے رب کے سامنے حاضر ہونے والے ہیں۔
۵۱- ’’یعنی اُن کے اِس حال پر نہ کُڑھو کہ اپنے خیر خواہ کو اپنا دشمن سمجھ رہے ہیں، اپنی گمراہیوں اور اخلاقی خرابیوں کو اپنی خوبیاں سمجھے بیٹھے ہیں، خود اُس راستے پر جا رہے ہیں اور اپنی ساری قوم کو اس پر لیے جا رہے ہیں جس کا یقینی انجام ہلاکت ہے، اور جو شخص اِنہیں سلامتی کی راہ دکھا رہا ہے اُس کی سعیِ اصلاح کو ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صرف کیے ڈالتے ہیں۔
۵۲-اس گروہ سے مراد یہود ہیں۔ ان کو مُقْتَسِمین اس معنی میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے دین کو تقسیم کر ڈالا، اس کی بعض باتوں کو مانا، اور بعض کو نہ مانا، اور اس طرح طرح کی کمی و بیشی کر کے بیسیوں فرقے بنا لیے۔ ان کے ’’قرآن‘‘ سے مراد توراۃ ہے جو ان کو اُسی طرح دی گئی تھی جس طرح اُمتِ محمدیہ کو قرآن دیا گیا ہے۔ اور اس ’’قرآن‘‘ کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالنے سے مراد وہی فعل ہے جسے سورۂ بقرہ آیت ۸۵ میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ اَفَتُؤْ مِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَتَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ (کیا تم کتاب اللہ کی بعض باتوں پر ایمان لاتے ہو اور بعض سے کفر کرتے ہو؟)۔ پھر یہ جو فرمایا کہ یہ تنبیہ جو آج تم کو کی جا رہی ہے یہ ویسی ہی تنبیہ ہے جیسی تم سے پہلے یہود کو کی جا چکی ہے، تو اس سے مقصود در اصل یہود کے حال سے عبرت دلانا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ یہودیوں نے خدا کی بھیجی ہوئی تنبیہات سے غفلت برت کر جو انجام دیکھا ہے وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے۔ اب سو چ لو، کیا تم بھی یہی انجام دیکھنا چاہتے ہو؟
۵۳-یعنی تبلیغِ حق اور دعوتِ اصلاح کی کوششوں میں جن تکلیفوں اور مصیبتوں سے تم کو سابقہ پیش آتا ہے، ان کے مقابلے کی طاقت اگر تمہیں مل سکتی ہے تو صرف نماز اور بندگی رب پر استقامت سے مل سکتی ہے۔ یہی چیز تمہیں تسلّی بھی دے گی، تم میں صبر بھی پیدا کرے گی، تمہارا حوصلہ بھی بڑھائے گی، اور تم کو اس قابل بھی بنا دے گی کہ دنیا بھر کی گالیوں اور مذمتوں اور مزاحمتوں کے مقابلے میں اُس خدمت پر ڈٹے رہو جس کی انجام دہی میں تمہارے رب کی رضا ہے۔