خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الحِجر

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف ۱)

۱                 سورۂ حِجر مکیّہ ہے اس میں چھ رکوع ننانوے آیتیں چھ سو چوّن کلمے دو ہزار سات سو ساٹھ حرف ہیں۔

(۱)یہ آیتیں ہیں کتاب اور روشن  قرآن کی-

(۲) ) بہت آرزوئیں کریں گے  کافر (ف ۲) کاش مسلمان ہوتے۔

۲                 یہ آرزوئیں یا وقتِ نزع عذاب دیکھ کر ہوں گی جب کافِر کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ گمراہی میں تھا یا آخرت میں روزِ قیامت کے شدائد اور اہوال اور اپنا انجام و مآل دیکھ کر۔ زُجاج کا قول ہے کہ کافِر جب کبھی اپنے احوالِ عذاب اور مسلمانوں پر اللہ کی رحمت دیکھیں گے ہر مرتبہ آرزوئیں کریں گے کہ۔

(۳ ) انہیں چھوڑو (ف ۳) کہ کھائیں اور برتیں (ف ۴) اور امید (ف ۵) انہیں کھیل میں ڈالے  تو اب جانا چاہتے  ہیں (ف ۶)

۳                 اے مصطفیٰ ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)۔

۴                 دنیا کی لذتیں۔

۵                 تنعُّم و تلذُّذ و طولِ حیات کی جس کے سبب وہ ایمان سے محروم ہیں۔

۶                 اپنا انجامِ کار۔ اس میں تنبیہ ہے کہ لمبی امیدوں میں گرفتار ہونا اور لذاتِ دنیا کی طلب میں غرق ہو جانا ایماندار کی شان نہیں۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا لمبی امیدیں آخرت کو بھلاتی ہیں اور خواہشات کا اِتِّباع حق سے روکتا ہے۔

(۴ )  اور جو بستی ہم نے  ہلاک کی اس کا ایک جانا ہوا  نوشتہ تھا (ف ۷)

۷                 لوحِ محفوظ میں اسی معیّن وقت پر وہ ہلاک ہوئی۔

(۵ ) کو ئی گروہ اپنے  وعدہ سے  آگے  نہ بڑھے  نہ پیچھے  ہٹے۔

(۶ ) اور بولے  (ف ۸) کہ اے  وہ جن پر قرآن اترا بیشک مجنون ہو (ف ۹)

۸                 کُفّارِ مکّہ حضرت نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے۔

۹                 ان کا یہ قول تمسخُر اور استہزاء کے طور پر تھاجیسا کہ فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت کہا تھا  اِنَّ رَسُوْلَکُمْ الَّذِیْ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ۔

(۷ ) ہمارے  پاس فرشتے  کیوں نہیں لاتے  (ف ۱۰) اگر تم سچے  ہو (ف ۱۱)

۱۰               جو تمہارے رسول ہونے اور قران شریف کے کتابِ الٰہی ہونے کی گواہی دیں۔

۱۱               اللہ تعالیٰ اس کے جواب میں فرماتا ہے۔

(۸ ) ہم فرشتے  بیکار نہیں اتارتے  اور وہ اتریں تو انہیں مہلت نہ ملے  (ف ۱۲)

۱۲               فی الحال عذاب میں گرفتار کر دیئے جائیں۔

(۹ )  بیشک ہم نے  اتارا ہے  یہ قرآن اور بیشک ہم خود اس کے  نگہبان ہیں (ف ۱۳)

۱۳               کہ تحریف و تبدیل و زیادتی و کمی سے اس کی حفاظت فرماتے ہیں۔ تمام جن و انس اور ساری خَلق کے مقدور میں نہیں ہے کہ اس میں ایک حرف کی کمی بیشی کرے یا تغییر و تبدیل کر سکے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اس لئے یہ خصوصیت صرف قرآن شریف ہی کی ہے دوسری کسی کتاب کو یہ بات میسّر نہیں۔ یہ حفاظت کئی طرح پر ہے ایک یہ کہ قرآنِ کریم کو معجِزہ بنایا کہ بشر کا کلام اس میں مل ہی نہ سکے، ایک یہ کہ اس کو معارضے اور مقابلہ سے محفوظ کیا کوئی اس کی مثل کلام بنانے پر قادر نہ ہو، ایک یہ کہ ساری خَلق کو اس کے نیست و نابود اور معدوم کرنے سے عاجز کر دیا کہ کُفّار باوجود کمال عداوت کے اس کتابِ مقدس کو معدوم کرنے سے عاجز ہیں۔

(۱۰ ) اور بیشک ہم نے  تم سے  پہلے  اگلی امتوں میں رسول بھیجے۔

(۱۱ ) اور ان کے  پاس کوئی رسول  نہیں آتا مگر اس سے  ہنسی کرتے  ہیں (ف ۱۴)

۱۴               اس آیت میں بتایا گیا کہ جس طرح کُفّارِ مکّہ نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جاہلانہ باتیں کیں اور بے ادبی سے آپ کو مجنون کہا۔ قدیم زمانہ سے کُفّار کی انبیاء کے ساتھ یہی عادت رہی ہے اور وہ رسولوں کے ساتھ تمسخُر کرتے رہے۔ اس میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تسکینِ خاطر ہے۔

(۱۲ ) ایسے  ہی ہم اس ہنسی کو ان مجرموں (ف ۱۵) کے  دلوں میں راہ دیتے  ہیں۔

۱۵               یعنی مشرکینِ مکّہ۔

(۱۳ ) وہ اس پر (ف ۱۶) ایمان نہیں لاتے  اور اگلوں کی راہ پڑچکی ہے  (ف ۱۷)

۱۶               یعنی سیدِ انبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم یا قرآن پر۔

۱۷               کہ وہ انبیاء کی تکذیب کر کے عذابِ الٰہی سے ہلاک ہوتے رہے ہیں۔ یہی حال ان کا ہے تو انہیں عذابِ الٰہی سے ڈرتے رہنا چاہیئے۔

(۱۴ ) اور اگر ہم ان کے  لیے  آسمان میں کوئی دروازہ کھول دیں کہ دن کو اس میں چڑھتے۔

(۱۵ )  جب بھی یہی کہتے  کہ ہماری نگاہ باندھ دی گئی ہے  بلکہ ہم پر جادو ہوا ہے  (ف ۱۸)

۱۸               یعنی ان کُفّار کا عناد اس درجہ پر پہنچ گیا ہے کہ اگر ان کے لئے آسمان میں دروازہ کھول دیا جائے اور انہیں اس میں چڑھنا میسّر ہو اور دن میں اس سے گزریں اور آنکھوں سے دیکھیں جب بھی نہ مانیں اور یہ کہہ دیں کہ ہماری نظر بندی کی گئی اور ہم پر جادو ہوا تو جب خود اپنے معائنہ سے انہیں یقین حاصل نہ ہوا تو ملائکہ کے آنے اور گواہی دینے سے جس کو یہ طلب کرتے ہیں انہیں کیا فائدہ ہو گا ؟۔

(۱۶ ) اور بیشک ہم نے   آسمان میں برج بنائے  (ف ۱۹) اور اسے  دیکھنے  والو ں کے  لیے  آراستہ کیا (ف ۲۰)

۱۹               جو کواکبِ سیارہ کے منازل ہیں وہ بارہ ہیں، (۱) حمل (۲) ثور (۳) جوزا (۴) سرطان (۵) اسد (۶) سنبلہ (۷) میزان (۸) عقرب (۹) قوس (۱۰) جدی (۱۱) دلو (۱۲) حوت۔

۲۰               ستاروں سے۔

(۱۷ )  اور اسے  ہم نے  ہر شیطان مردود سے  محفوظ رکھا (ف ۲۱)

۲۱               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا شیاطین آسمانوں میں داخل ہوتے تھے اور وہاں کی خبریں کاہنوں کے پاس لاتے تھے جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے تو شیاطین تین آسمانوں سے روک دیئے گئے۔ جب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت ہوئی تو تمام آسمانوں سے منع کر دیئے گئے۔

(۱۸ ) مگر جو چوری چھپے  سننے  جائے  تو اس کے  پیچھے  پڑتا ہے  روشن شعلہ (ف ۲۲)

۲۲               شہاب اس ستارہ کو کہتے ہیں جو شعلہ کے مثل روشن ہوتا ہے اور فرشتے اس سے شیاطین کو مارتے ہیں۔

(۱۹ ) اور ہم نے  زمین پھیلائی اور اس میں لنگر ڈالے  (ف ۲۳) اور اس میں ہر چیز اندازے  سے  اگائی۔

۲۳               پہاڑوں کے۔ تاکہ ثابت و قائم رہے اور جنبش نہ کرے۔

(۲۰ )  اور تمہارے  لیے  اس میں روزیاں کر دیں (ف ۲۴) اور وہ کر دیے  جنہیں تم رزق نہیں دیتے  (ف ۲۵)

۲۴               غلے، پھل وغیرہ۔

۲۵               باندی، غلام، چوپائے اور خدام وغیرہ۔

(۲۱ ) اور کوئی چیز نہیں جس کے  ہمارے  پاس خزانے  نہ ہوں (ف ۲۶) اور ہم اسے  نہیں اتارتے  مگر ایک معلوم انداز سے۔

۲۶               خزانے ہونا عبارت ہے اقتدار و اختیار سے۔ معنی یہ ہیں کہ ہم ہر چیز کے پیدا کرنے پر قادر ہیں جتنی چاہیں اور جو اندازہ مقتضائے حکمت ہو۔

(۲۲ )  اور ہم نے  ہوائیں بھیجیں بادلوں کو با رور کرنے  والیاں ف (ف ۲۷) تو ہم نے  آسمان سے  پانی اتارا پھر وہ تمہیں پینے  کو دیا اور تم کچھ اس کے  خزانچی نہیں (ف ۲۸)

۲۷               جو آبادیوں کو پانی سے بھرتی اور سیراب کرتی ہیں۔

۲۸               کہ پانی تمہارے اختیار میں ہو باوجود یکہ تمہیں اس کی حاجت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور بندوں کے عجز پر دلالتِ عظیمہ ہے۔

(۲۳ )  اور بیشک ہم ہی جِلائیں اور ہم ہی ماریں اور ہم ہی وارث ہیں (ف ۲۹)

۲۹               یعنی تمام خَلق فنا ہونے والی ہے اور ہم ہی باقی رہنے والے ہیں اور مدعیِ مُلک کی مِلک ضائع ہو جائے گی اور سب مالکوں کا مالک باقی رہے گا۔

(۲۴ ) اور بیشک ہمیں معلوم ہیں جو تم میں آگے  بڑھے  اور بیشک ہمیں معلوم ہیں جو تم میں پیچھے  رہے، (ف ۳۰)

۳۰               یعنی پہلی اُمّتیں اور امّتِ محمّدیہ جو سب اُمّتوں میں پچھلی ہے یا وہ جو طاعت و خیر میں سبقت کرنے والے ہیں اور جو سُستی سے پیچھے رہ جانے والے ہیں یا وہ جو فضیلت حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھنے والے ہیں اور جو عذر سے پیچھے رہ جانے والے ہیں۔

شانِ نُزُول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جماعتِ نماز کی صفِ اول کے فضائل بیان فرمائے تو صحابہ صفِ اول حاصل کرنے میں نہایت کوشاں ہوئے اور ان کا ازدحام ہونے لگا اور جن حضرات کے مکان مسجد شریف سے دور تھے وہ اپنے مکان بیچ کر قریب مکان خریدنے پر آمادہ ہو گئے تاکہ صفِ اوّل میں جگہ ملنے سے کبھی محروم نہ ہوں۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور انہیں تسلّی دی گئی کہ ثواب نیتوں پر ہے اور اللہ تعالیٰ اگلوں کو بھی جانتا ہے اور جو عذر سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کو بھی جانتا ہے اور ان کی نیتوں سے بھی خبردار ہے اور اس پر کچھ مخفی نہیں۔

(۲۵ ) اور بیشک تمہارا رب ہی تمہیں قیامت میں اٹھائے  گا (ف ۳۱) بیشک وہی علم و حکمت والا ہے۔

۳۱               جس حال پر وہ مرے ہوں گے۔

(۲۶ )  اور بیشک ہم نے  آدمی کو (ف ۳۲) بجتی ہوئی مٹی سے  بنایا جو اصل میں ایک سیاہ بو دار گارا تھی،(ف ۳۳)

۳۲               یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو سوکھی۔

۳۳               اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کے پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو زمین سے ایک مشتِ خاک لی، اس کو پانی میں خمیر کیا جب وہ گارا سیاہ ہو گیا اور اس میں بو پیدا ہوئی تو اس میں صورتِ انسانی بنائی پھر وہ سوکھ کر خشک ہو گیا تو جب ہوا اس میں جاتی تو وہ بجتا اور اس میں آواز پیدا ہوتی، جب آفتاب کی تمازت سے وہ پختہ ہو گیا تو اس میں روح پھونکی اور وہ انسان ہو گیا۔

(۲۷ )  اور جِن کو اس سے  پہلے  بنایا بے  دھوئیں کی آگ سے، (ف ۳۴)

۳۴               جو اپنی حرارت و لطافت سے مساموں میں نفوذ کر جاتی ہے۔

(۲۸ )  اور یاد کرو جب تمہارے  رب نے  فرشتوں سے   فرمایا کہ میں آدمی کو  بنانے  والا ہوں بجتی مٹی سے  جو بدبو دار سیاہ گارے  سے  ہے۔

(۲۹ )  تو جب میں اسے  ٹھیک کر لوں اور اور میں اپنی طرف کی خاص معز  ز روح  پھونک  دوں (ف ۳۵) تو اس (ف ۳۶) کے  لیے  سجدے  میں گر پڑنا۔

۳۵               اور اس کو حیات عطا فرما دوں۔

۳۶               کی تحیّت و تعظیم۔

(۳۰) تو جتنے  فرشتے  تھے  سب کے  سب سجدے  میں گرے۔

(۳۱ ) سوا  ابلیس کے، اس نے  سجدہ والوں کا ساتھ نہ مانا (ف ۳۷)

۳۷               اور حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے۔

(۳۵ ) اور بیشک قیامت تک تجھ پر لعنت ہے  (ف ۳۸)

۳۸               کہ آسمان و زمین والے تجھ پر لعنت کریں گے اور جب قیامت کا دن آئے گا تو اس لعنت کے ساتھ ہمیشگی کے عذاب میں گرفتار کیا جائے گا، جس سے کبھی رہائی نہ ہو گی یہ سُن کر شیطان۔

(۳۶ )  بولا اے  میرے  رب تو مجھے  مہلت دے  اس دن تک کہ وہ اٹھائے  جائیں (ف ۳۹)

۳۹               یعنی قیامت کے دن تک۔ اس سے شیطان کا مطلب یہ تھا کہ وہ کبھی نہ مرے کیونکہ قیامت کے بعد کوئی نہ مرے گا اور قیامت تک کی اس نے مہلت مانگ ہی لی لیکن اس کی اس دعا کو اللہ تعالیٰ نے اس طرح قبول کیا کہ۔

(۳۷ )  فرمایا تو ان میں سے  ہے  جن کو اس معلوم۔

(۳۸ ) وقت کے  دن تک مہلت ہے، (ف ۴۰)

۴۰               جس میں تمام خَلق مر جائے گی اور وہ نفخۂ اُولیٰ ہے تو شیطان کے مردہ رہنے کی مدّت نفخۂ اُولیٰ ہے، نفخۂ ثانیہ تک چالیس برس ہے اور اس کو اس قدر مہلت دینا اس کے اکرام کے لئے نہیں بلکہ اس کی بلا و شقاوت اور عذاب کی زیادتی کے لئے ہے، یہ سن کر شیطان۔

(۳۹ )  بولا اے  رب میرے ! قسم اس کی کہ تو نے  مجھے  گمراہ کیا میں انہیں زمین میں بھلاوے  دوں گا (ف ۴۱) اور ضرور میں ان سب کو (ف ۴۲) بے  راہ کروں گا۔

۴۱               یعنی دنیا میں گناہوں کی رغبت دلاؤں گا۔

۴۲               دلوں میں وسوسہ ڈال کر۔

(۴۰ )  مگر جو ان میں تیرے  چنے  ہوئے  بندے  ہیں، (ف ۴۳)

۴۳               جنہیں تو نے اپنی توحید و عبادت کے لئے برگزیدہ فرما لیا ان پر شیطان کا وسوسہ اور اس کا کید نہ چلے گا۔

(۴۱ )  فرمایا یہ راستہ سیدھا میری طرف آتا ہے۔

(۴۲ )  بیشک میرے  (ف ۴۴) بندوں پر تیرا  کچھ قابو نہیں سوا ان گمراہوں کے  جو تیرا ساتھ دیں، (ف ۴۵)

۴۴               ایماندار۔

۴۵               یعنی جو کافِر کہ تیرے مطیع و فرمانبردار ہو جائیں اور تیرے اِتِّباع کا قصد کر لیں۔

(۴۳ ) اور بیشک جہنم ان سب کا وعدہ  ہے، (ف ۴۶)

۴۶               ابلیس کا بھی اور اس کے اِتِّباع کرنے والوں کا بھی۔

(۴۴ ) اس کے  سات دروازے  ہیں، (ف ۴۷) ہر دروازے  کے  لیے  ان میں سے  ایک حصہ بٹا ہوا ہے، (ف ۴۸)

۴۷               یعنی سات طبقے۔ ابنِ جریج کا قول ہے کہ دوزخ کے سات درکات ہیں۔اول جہنّم، لظیٰ، حطمہ، سعیر، سقر، جحیم، ہاویہ۔

۴۸               یعنی شیطان کی پیروی کرنے والے بھی سات حصوں میں منقسم ہیں، ان میں سے ہر ایک کے لئے جہنّم کا ایک درکہ معیّن ہے۔

(۴۵ ) بیشک ڈر والے  باغوں اور چشموں میں ہیں (ف ۴۹)

۴۹               ان سے کہا جائے گا کہ۔

(۴۶ )  ان میں داخل ہو سلامتی کے  ساتھ امان میں، (ف ۵۰)

۵۰               یعنی جنّت میں داخل ہو امن و سلامتی کے ساتھ، نہ یہاں سے نکالے جاؤ، نہ موت آئے، نہ کوئی آفت رونما ہو، نہ کوئی خوف نہ پریشانی۔

(۴۷ )  اور ہم نے  ان کے  سینوں میں جو کچھ (ف ۵۱)  کینے  تھے  سب کھینچ لیے  (ف ۵۲)  آپس میں بھائی ہیں (ف ۵۳) تختوں پر روبرو بیٹھے۔

۵۱               دنیا میں۔

۵۲               اور ان کے نفوس کو حقد و حسد و عناد و عداوت وغیرہ مذموم خصلتوں سے پاک کر دیا وہ۔

۵۳               ایک دوسرے کے ساتھ مَحبت کرنے والے۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ میں اور عثمان اور طلحہ اور زبیر انہیں میں سے ہیں یعنی ہمارے سینوں سے عناد و عداوت اور بغض و حسد نکال دیا گیا ہے، ہم آپس میں خالص مَحبت رکھنے والے ہیں۔ اس میں روافض کا رد ہے۔

(۴۸ )  نہ انہیں اس میں کچھ تکلیف پہنچے  نہ وہ اس میں سے  نکالے  جائیں۔

(۴۹) خبر دو  (ف ۵۴) میرے  بندوں کو کہ بیشک میں ہی ہوں بخشے  والا مہربان۔

۵۴               اے محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔

(۵۰ )  اور میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے۔

(۵۱ )  اور انہیں احوال سناؤ ابراہیم کے  مہمانوں کا، (ف ۵۵)

۵۵               جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس لئے بھیجا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فرزند کی بشارت دیں اور حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کو ہلاک کریں۔ یہ مہمان حضرت جبریل علیہ السلام تھے مع کئی فرشتوں کے۔

(۵۲ )  جب وہ اس کے  پاس آئے  تو بولے  سلام (ف ۵۶) کہا ہمیں تم سے  ڈر معلوم ہوتا ہے، (ف ۵۷)

۵۶               یعنی فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سلام کیا اور آپ کی تحیّت و تکریم بجا لائے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان سے۔

۵۷               اس لئے کہ بے اذن اور بے وقت آئے اور کھانا نہیں کھایا۔

(۵۳ )  انہوں نے  کہا ڈریے  نہیں ہم آپ کو ایک علم والے  لڑکے  کی بشارت دیتے  ہیں، (ف ۵۸)

۵۸               یعنی حضرت اسحٰق علیہ السلام کی۔ اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے۔

(۵۴ )  کہا کیا اس پر مجھے  بشارت دیتے  ہو کہ مجھے  بڑھاپا پہنچ گیا اب کاہے  پر بشارت دیتے  ہو، (ف ۵۹)

۵۹               یعنی ایسی پیرانہ سالی میں اولاد ہونا عجیب و غریب ہے کس طرح اولاد ہو گی، کیا ہمیں پھر جوان کیا جائے گا یا اسی حالت میں بیٹا عطا فرمایا جائے گا ؟ فرشتوں نے۔

(۵۵ )  کہا ہم نے  آپ کو سچی بشارت دی ہے  (ف ۶۰)  آپ ناامید نہ ہوں۔

۶۰               قضائے الٰہی اس پر جاری ہو چکی کہ آپ کے بیٹا ہو اور اس کی ذُرِّیَّت بہت پھیلے۔

(۵۶ ) کہا  اپنے  رب کی رحمت سے  کون ناامید ہو مگر وہی جو گمراہ ہوئے ،(ف ۶۱)

۶۱               یعنی میں اس کی رحمت سے نا امید نہیں کیونکہ رحمت سے نا امید کافِر ہوتے ہیں، ہاں اس کی سنّت جو عالَم میں جاری ہے اس سے یہ بات عجیب معلوم ہوئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرشتوں سے۔

(۵۷ )  کہا پھر تمہارا کیا کام ہے  اے  فرشتو!  (ف ۶۲)

۶۲               اس بشارت کے سوا اور کیا کام ہے جس کے لئے تم بھیجے گئے ہو۔

(۵۸ )  بولے  ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجے  گئے  ہیں، (ف ۶۳)

۶۳               یعنی قومِ لوط کی طرف کہ ہم انہیں ہلاک کریں۔

(۵۹ )  مگر لوط کے  گھر والے، ان سب کو ہم بچا لیں گے، (ف ۶۴)

۶۴               کیونکہ وہ ایماندار ہیں۔

(۶۰ ) مگر اس کی عورت ہم ٹھہرا چکے  ہیں کہ وہ پیچھے  رہ جانے  والوں میں ہے، (ف ۶۵)

۶۵               اپنے کُفر کے سبب۔

(۶۱ ) تو جب لوط کے  گھر فرشتے   آئے ،(۶۶)

۶۶               خوبصورت نوجوانوں کی شکل میں اور حضرت لوط علیہ السلام کو اندیشہ ہوا کہ قوم ان کے درپے ہو گی تو آپ نے فرشتوں سے۔

(۶۲ ) کہا تم تو کچھ بیگانہ لوگ ہو،(ف ۶۷)

۶۷               نہ تو یہاں کے باشندے ہو نہ کوئی مسافرت کی علامت تم میں پائی جاتی ہے کیوں آئے ہو ؟ فرشتوں نے۔

(۶۳ )  کہا بلکہ ہم تو آپ کے  پاس وہ (ف ۶۸)  لائے  ہیں جس میں یہ لوگ شک کرتے  تھے، (ف ۶۹)

۶۸               عذاب جس کے نازِل ہونے کا آپ اپنی قوم کو خوف دلایا کرتے تھے۔

۶۹               اور آپ کو جھٹلاتے تھے۔

(۶۴ )  اور ہم آپ کے  پاس سچا حکم لائے  ہیں اور ہم بیشک سچے  ہیں۔

(۶۵ )  تو اپنے  گھر والوں کو کچھ رات رہے  لے  کر باہر جایے  اور آپ ان کے  پیچھے  چلئے  اور تم میں کوئی پیچھے  پھر کر نہ دیکھے  (ف ۷۰) اور جہاں کو حکم ہے  سیدھے  چلے  جایئے، (ف ۷۱) 

۷۰               کہ قوم پر کیا بلا نازِل ہوئی اور وہ کس عذاب میں مبتلا کئے گئے ؟۔

۷۱               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ حکم مُلکِ شام کو جانے کا تھا۔

(۶۶ )  اور ہم نے  اسے  اس حکم کا فیصلہ سنا دیا کہ صبح ہوتے  ان کافروں کی جڑ کٹ جائے  گی۔

(۶۷ ) اور شہر والے  (ف ۷۳) خوشیاں مناتے  آئے۔

۷۲               اور تمام قوم عذاب سے ہلاک کر دی جائے گی۔

۷۳               یعنی شہرِ سدوم کے رہنے والے حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے لوگ حضرت لوط علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہاں خوب صورت نوجوانوں کے آنے کی خبر سن کر بہ ارادۂ فاسد و بہ نیّت ناپاک۔

(۶۸ )  لوط نے  کہا یہ میرے  مہمان ہیں (ف ۷۴) مجھے  فضیحت (رُسوا) نہ کرو،(ف ۷۵)

۷۴               اور مہمان کا اکرام لازم ہوتا ہے تم ان کی بے حرمتی کا قصد کر کے۔

۷۵               کہ مہمان کی رسوائی میزبان کے لئے خجالت و شرمندگی کا سبب ہوتی ہے۔

(۶۹ )  اور اللہ سے  ڈرو اور مجھے  رسوا نہ کرو، (ف ۷۶)

۷۶               ان کے ساتھ بُرا ارادہ کر کے۔ اس پر قوم کے لوگ حضرت لوط علیہ السلام سے۔

(۷۰ ) بولے  کیا ہم نے  تمہیں منع نہ کیا تھا کہ اوروں کے  معاملہ میں دخل نہ دو۔

(۷۱ ) کہا یہ قوم کی عورتیں میری بیٹیاں ہیں اگر تمہیں کرنا ہے، (ف ۷۷)

۷۷               تو ان سے نکاح کرو اور حرام سے باز رہو۔ اب اللہ تعالیٰ اپنے حبیبِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے خطاب فرماتا ہے۔

(۷۲ ) اے  محبوب تمہاری جان کی قسم (ف ۷۸) بیشک وہ اپنے  نشہ میں بھٹک رہے  ہیں۔

۷۸               اور مخلوقِ الٰہی میں سے کوئی جان بارگاہِ الٰہی میں آپ کی جانِ پاک کی طرح عزّت و حرمت نہیں رکھتی اور اللہ تعالیٰ نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر کے سوا کسی کی عمر و حیات کی قسم نہیں فرمائی۔ یہ مرتبہ صرف حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی کا ہے اب اس قسم کے بعد ارشاد فرماتا ہے۔

(۷۳ )  تو دن نکلتے  انہیں چنگھاڑ نے  آ لیا (ف ۷۹)

۷۹               یعنی ہولناک آواز نے۔

(۷۴ ) تو ہم نے  اس بستی کا اوپر کا حصہ اس نے  نیچے  کا حصہ کر دیا (ف ۸۰) اور ان پر کنکر کے  پتھر برسائے۔

۸۰               اس طرح کہ حضرت جبریل علیہ السلام اس خطّہ کو اٹھا کر آسمان کے قریب لے گئے اور وہاں سے اوندھا کر کے زمین پر ڈال دیا۔

(۷۵ )  بیشک اس میں نشانیاں ہیں فراست  والوں کے  لیے۔

(۷۶ )  اور بیشک وہ بستی اس راہ پر ہے   جو اب تک چلتی ہے، (ف ۸۱)

۸۱               اور قافلے اس پر گزرتے ہیں اور غضبِ الٰہی کے آثار ان کے دیکھنے میں آتے ہیں۔

(۷۷ )  بیشک اس میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کو۔

(۷۸ ) اور بیشک جھاڑی والے  ضرور ظالم تھے ،(ف ۸۲)

۸۲               یعنی کافِر تھے۔ اَیْکَۃ جھاڑی کو کہتے ہیں، ان لوگوں کا شہر سرسبز جنگلوں اور مَرغزاروں کے درمیان تھا، اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلام کو ان پر رسول بنا کر بھیجا ان لوگوں نے نافرمانی کی اور حضرت شعیب علیہ السلام کو جھٹلایا۔

(۷۹ )  تو ہم نے  ان سے  بدلہ لیا (ف ۸۳) اور بیشک دونوں بستیاں (ف ۸۴) کھلے  راستہ پر پڑتی ہیں، (ف ۸۵)

۸۳               یعنی عذاب بھیج کر ہلاک کیا۔

۸۴               یعنی قومِ لوط کے شہر اور اصحابِ اَیْکَۃ کے۔

۸۵               جہاں آدمی گزرتے ہیں اور دیکھتے ہیں تو اے اہلِ مکّہ تم ان کو دیکھ کر کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے۔

(۸۰ ) اور بیشک حجر والو ں نے  رسولوں کو جھٹلایا (ف ۸۶)

۸۶               حِجر ایک وادی ہے مدینہ اور شام کے درمیان جس میں قومِ ثمود رہتے تھے۔ انہوں نے اپنے پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام کی تکذیب کی اور ایک نبی کی تکذیب تمام انبیاء کی تکذیب ہے کیونکہ ہر رسول تمام انبیاء پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے۔

(۸۱ )  اور ہم نے  ان کو اپنی نشانیاں دیں (ف ۸۷) تو وہ ان سے  منہ پھیرے  رہے، (ف ۸۸)

۸۷               کہ پتھر سے ناقہ پیدا کیا جو بہت سے عجائب پر مشتمل تھا مثلاً اس کا عظیم الجُثہ ہونا اور پیدا ہوتے ہی بچہ جننا اور کثرت سے دودھ دینا کہ تمام قومِ ثمود کو کافی ہو وغیرہ یہ سب حضرت صالح علیہ الصلوٰۃ والسلام کے معجزات اور قومِ ثمود کے لئے ہماری نشانیاں تھیں۔

۸۸               اور ایمان نہ لائے۔

(۸۲ ) اور وہ پہاڑوں میں گھر تراشتے  تھے  بے  خوف (ف ۸۹)

۸۹               کہ انہیں اس کے گرنے اور اس میں نقب لگائے جانے کا اندیشہ نہ تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ یہ گھر تباہ نہیں ہو سکتے، ان پر کوئی آفت نہیں آ سکتی۔

(۸۳ ) تو انہیں صبح ہوتے  چنگھاڑ  نے  آلیا (ف ۹۰)

۹۰               اور وہ عذاب میں گرفتار ہوئے۔

(۸۴ ) تو ان کی کمائی کچھ ان کے  کام نہ آئی (ف ۹۱)

۹۱               اور ان کے مال و متا ع اور انکے مضبوط مکان انہیں عذاب سے نہ بچا سکے۔

(۸۵ ) اور ہم نے  آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے  درمیان ہے  عبث نہ بنایا، اور بیشک قیامت آنے  وا لی ہے  (ف ۹۲) تو تم اچھی طرح درگزر کرو،(ف ۹۳)

۹۲               اور ہر ایک کو اس کے عمل کی جزا ملے گی۔

۹۳               اے مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور اپنی قوم کی ایذاؤں پر تحمل کرو۔ یہ حکم آیتِ قتال سے مَنسُوخ ہو گیا۔

(۸۶ )  بیشک تمہارا رب ہی بہت پیدا کرنے  والا جاننے  والا ہے  (ف ۹۴)

۹۴               اسی نے سب کو پیدا کیا اور وہ اپنی مخلوق کے تمام حال جانتا ہے۔

(۸۷ )  اور بیشک ہم نے  تم کو سات آیتیں دیں جو دہرائی جاتی ہیں (ف ۹۵)  اور عظمت والا قرآن۔

۹۵               نماز کی رکعتوں میں یعنی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہیں اور ان سات آیتوں سے سورتِ فاتحہ مراد ہے جیسا کہ بخاری و مسلم کی حدیث میں وارد ہوا۔

(۸۸ )  اپنی آنکھ  اٹھا کر اس چیز کو نہ دیکھو جو ہم نے  ان کے  جوڑوں کو برتنے  کو دی (ف ۹۶) اور ان کا کچھ غم نہ کھاؤ (ف ۹۷) اور مسلمانوں کو اپنی رحمت کے  پروں میں لے  لو، (ف ۹۸)

۹۶               معنیٰ یہ ہیں کہ اے سیدِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم نے آپ کو ایسی نعمتیں عطا فرمائیں جن کے سامنے دنیوی نعمتیں حقیر ہیں تو آپ متاعِ دنیا سے مستغنی رہیں جو یہود و نصاریٰ وغیرہ مختلف قسم کے کافِروں کو دی گئیں۔ حدیث شریف میں ہے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہم میں سے نہیں جو قرآن کی بدولت ہر چیز سے مستغنی نہ ہو گیا یعنی قرآن ایسی نعمت ہے جس کے سامنے دنیوی نعمتیں ہیچ ہیں۔

۹۷               کہ وہ ایمان نہ لائے۔

۹۸               اور انہیں اپنے کرم سے نوازو۔

(۸۹ ) اور فرماؤ کہ میں ہی ہوں صاف ڈر سنانے  والا (اس عذاب سے )۔

(۹۰ ) جیسا ہم نے  بانٹنے  والوں پر اتارا۔

(۹۱ )  جنہوں نے  کلامِ الٰہی  کو تکے  بوٹی کر لیا،(ف ۹۹)

۹۹               حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ بانٹنے والوں سے یہود و نصاریٰ مراد ہیں چونکہ وہ قرآنِ کریم کے کچھ حصّہ پر ایمان لائے جو ان کے خیال میں ان کی کتابوں کے موافق تھا اور کچھ کے منکِر ہو گئے۔ قتادہ و ابنِ سائب کا قول ہے کہ بانٹنے والوں سے کُفّارِ قریش مراد ہیں جن میں بعض قرآن کو سحر، بعض کہانت، بعض افسانہ کہتے تھے اس طرح انہوں نے قرآنِ کریم کے حق میں اپنے اقوال تقسیم کر رکھے تھے اور ایک قول یہ ہے کہ بانٹنے والوں سے وہ بارہ اشخاص مراد ہیں جنہیں کُفّار نے مکّۂ مکرّمہ کے راستوں پر مقرر کیا تھا، حج کے زمانہ میں ہر ہر راستہ پر ان میں کا ایک ایک شخص بیٹھ جاتا تھا اور وہ آنے والوں کو بہکانے اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے منحرف کرنے کے لئے ایک ایک بات مقرر کر لیتا تھا کہ کوئی آنے والوں سے یہ کہتا تھا کہ ان کی باتوں میں نہ آنا کہ وہ جادو گر ہیں، کوئی کہتا وہ کذّاب ہیں، کوئی کہتا وہ مجنون ہیں، کوئی کہتا وہ کاہن ہیں، کوئی کہتا وہ شاعر ہیں یہ سن کر لوگ جب خانۂ کعبہ کے دروازہ پر آتے وہاں ولید بن مغیرہ بیٹھا رہتا اس سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حال دریافت کرتے اور کہتے کہ ہم نے مکّہ مکرّمہ آتے ہوئے شہر کے کنارے ان کی نسبت ایسا سنا وہ کہہ دیتا کہ ٹھیک سنا۔ اس طرح خَلق کو بہکاتے اور گمراہ کرتے ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے ہلاک کیا۔

(۹۲ )  تو تمہارے  رب  کی قسم ہم ضرور ان سب سے  پوچھیں گے، (ف ۱۰۰)

۱۰۰             روزِ قیامت۔

(۹۳ ) جو کچھ وہ کرتے  تھے، (ف ۱۰۱)

۱۰۱             اور جو کچھ وہ سیّدِ عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور قرآن کی نسبت کہتے تھے۔

(۹۴) تو اعلانیہ کہہ دو جس بات کا تمہیں حکم ہے  (ف ۱۰۲) اور مشرکوں سے  منہ پھیر لو،(ف ۱۰۳)

۱۰۲             اس آیت میں سیدِ عالَم کو رسالت کی تبلیغ اور اسلام کی دعوت کے اظہار کا حکم دیا گیا۔ عبداللہ بن عبیدہ کا قول ہے کہ اس آیت کے نُزول کے وقت تک دعوتِ اسلام اعلان کے ساتھ نہیں کی جاتی تھی۔

۱۰۳             یعنی اپنا دین ظاہر کرنے پر مشرکوں کی ملامت کرنے کی پرواہ نہ کرو اور ان کی طرف ملتفِت نہ ہو اور ان کے تمسخُر و استہزاء کا غم نہ کرو۔

(۹۵ ) بیشک ان ہنسنے  والوں پر ہم تمہیں کفایت کرتے  ہیں (ف ۱۰۴)

۱۰۴             کُفّارِ قریش کے پانچ سردار ( ۱) عاص بن وائل سہمی اور (۲) اسودبن مطلب اور(۳) اسود بن عبدیغوث اور(۴)حارث بن قیس اور ان سب کا افسر(۵) ولیدا بن مغیرہ مخزومی۔ یہ لوگ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بہت ایذا دیتے اور آپ کے ساتھ تمسخُر و استہزاء کرتے تھے۔ اسود بن مطلب کے لئے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعا کی تھی کہ یاربّ اس کو اندھا کر دے۔ ایک روز سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجدِ حرام میں تشریف فرما تھے، یہ پانچوں آئے اور انہوں نے حسبِ دستور طعن و تمسخُر کے کلمات کہے اور طواف میں مشغول ہو گئے۔ اسی حال میں حضرت جبریلِ امین حضرت کی خدمت میں پہنچے اور انہوں نے ولید بن مغیرہ کی پنڈلی کی طرف اور عاص کے کفِ پا کی طرف اور اسود بن مطلب کی آنکھوں کی طرف اور اسود بن عبد یغوث کے پیٹ کی طرف اور حارث بن قیس کے سر کی طرف اشارہ کیا اور کہا میں ان کا شر دفع کروں گا چنانچہ تھوڑے عرصہ میں یہ ہلاک ہو گئے۔ ولید بن مغیرہ تیر فروش کی دوکان کے پاس سے گزرا اس کے تہہ بند میں ایک پیکان چبھا مگر اس نے تکبّر سے اس کو نکالنے کے لئے سر نیچا نہ کیا اس سے اس کی پنڈلی میں زخم آیا اور اسی میں مرگیا۔ عاص ابنِ وائل کے پاؤں میں کانٹا لگا اور نظر نہ آیا اس سے پاؤں ورم کر گیا اور یہ شخص بھی مرگیا۔ اسود بن مطلب کی آنکھوں میں ایسا درد ہوا کہ دیوار میں سر مارتا تھا اسی میں مرگیا اور یہ کہتا مرا کہ مجھ کو محمّد نے قتل کیا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور اسود بن عبد یغوث کو استسقاء ہوا اور کلبی کی روایت میں ہے کہ اس کو لُو لگی اور اس کا منہ اس قدر کالا ہو گیا کہ گھر والوں نے نہ پہچانا اور نکال دیا اسی حال میں یہ کہتا مرگیا کہ مجھ کو محمّد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ربّ نے قتل کیا اور حارث بن قیس کی ناک سے خون اور پیپ جاری ہوا، اسی میں ہلاک ہو گیا۔ انہیں کے حق میں یہ آیت نازِل ہوئی۔ (خازن)۔

(۹۶ )  جواللہ  کے  ساتھ دوسرا معبود ٹھہراتے  ہیں تو اب جان جائیں گے، (ف ۱۰۵)

۱۰۵             اپنا انجامِ کار۔

(۹۷ )  اور بیشک ہمیں معلوم ہے  کہ ان کی باتوں سے  تم دل تنگ ہوتے  ہو، (ف ۱۰۶)

۱۰۶             اور ان کے طعن اور استہزاء اور شرک وکُفر کی باتوں سے آپ کو ملال ہوتا ہے۔

(۹۸ ) تو اپنے  رب کو سراہتے  ہوئے  اس کی پاکی بولو اور سجدہ والوں میں ہو، (ف ۱۰۷)

۱۰۷             کہ خدا پرستوں کے لئے تسبیح و عبادت میں مشغول ہونا غم کا بہترین علاج ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ جب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کوئی اہم واقعہ پیش آتا تو نماز میں مشغول ہو جاتے۔

(۹۹ )  اور مرتے  دم تک اپنے  رب کی عبادت میں رہو۔