تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الحِجر

۱ ۔۔۔ ۱:  یعنی یہ اس جامع اور عظیم الشان کتاب کی آیتیں ہیں جس کے مقابلہ میں کوئی دوسری کتاب "کتاب" کہلانے کی مستحق نہیں۔

۲:  اور اس قرآن کی آیتیں ہیں جس کے اصول نہایت صاف، دلائل روشن، احکام معقول، وجوہ اعجاز واضح اور بیانات شگفتہ اور فیصلہ کن ہیں، لہٰذا آگے جو کچھ بیان کیا جانے والا ہے مخاطبین کو پوری توجہ سے سننا چاہیے۔

۲ ۔۔۔  یعنی آج منکرین نے قرآن و اسلام جیسی عظیم الشان نعمت الٰہیہ کی قدر نہیں کی لیکن ایسا وقت آنے والا ہے جب یہ لوگ اپنی محرومی پر ماتم کریں گے اور دست حسرت مل کر کہیں گے کاش ہم مسلمان ہوتے! وہ وقت کب آئے گا؟ اس میں اختلاف ہوا ہے ہم ابن الانباری کے قول کے موافق اس کو عام رکھتے ہیں۔ یعنی دنیا و آخرت میں جو مواقع کافروں کی نامرادی اور مسلمانوں کی کامیابی کے پیش آتے رہیں گے ہر موقع پر کفار کو رو رو کر اپنے مسلمان ہونے کی تمنا اور نعمت اسلام سے محروم رہ جانے کی حسرت ہو گی۔ اس سلسلہ میں پہلا موقع تو جنگ بدر کا تھا جہاں کفار مکہ نے مسلمانوں کی طرف کھلا ہوا غلبہ اور تائید غیبی دیکھ کر اپنے دلوں میں محسوس کیا کہ جس اسلام نے فقراء مہاجرین اور اوس و خزرج کے کاشتکاروں کو اونچی ناک والے قریشی سرداروں پر غالب کیا، افسوس ہم اس دولت سے محروم ہیں۔ اسی طرح اسلامی فتوحات و ترقیات کی ہر ایک منزل پر کفار کو اپنی تہی دستی و حرمان پر پچھتانے اور دل سے اشک حسرت بہانے کا موقع ملتا رہا۔ انتہائی حسرت و افسوس کا مقام وہ ہو گا جب فرشتہ جان نکالنے کے لیے سامنے کھڑا ہے اور عالم غیب کے حقائق آنکھوں سے نظر آ رہے ہیں۔ اس وقت ہاتھ کاٹیں گے اور آرزو کریں گے کہ کاش ہم نے اسلام قبول کر لیا ہوتا کہ آج عذاب بعدالموت سے محفوظ رہ سکتے۔ اس سے بھی بڑھ کر یاس انگیز نظارہ وہ ہو گا جو طبرانی کی حدیث میں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میری امت کے بہت سے آدمی اپنے گناہوں کی بدولت جہنم میں جائیں گے اور جب تک خدا چاہے گا وہاں رہیں گے۔ بعدہٗ مشرکین ان پر طعن کریں گے کہ تمہارے ایمان و توحید نے تم کو کیا فائدہ دیا؟ تم بھی آج تک ہماری طرح دوزخ میں ہو، اس پر حق تعالیٰ کسی موحد کو جہنم میں نہ چھوڑے گا۔ یہ فرما کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت پڑھی "رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ۔" گویا یہ آخری موقع ہو گا جب کفار اپنے مسلمان ہونے کی تمنا کریں گے۔

۳ ۔۔۔ یعنی جب کوئی نصیحت کارگر نہیں تو آپ ان کے غم میں نہ پڑیے بلکہ چند روز انہیں بہائم کی طرح کھانے پینے دیجئے۔ یہ خوب دل کھول کر دنیا کے مزے اڑا لیں اور مستقبل کے متعلق لمبی چوڑی امیدیں باندھتے رہیں عنقریب وقت آیا چاہتا ہے جب حقیقت حال کھل جائے گی اور اگلا پچھلا کھایا پیا سب نکل جائے گا۔ چنانچہ کچھ تو دنیا ہی میں مجاہدین کے ہاتھوں حقیقت کھل گئی۔ اور پوری تکمیل آخرت میں ہو جائے گی۔

۴ ۔۔۔  یعنی جس قدر بستیاں اور قومیں پہلے ہلاک کی گئیں، خدا کے علم میں ہر ایک کی ہلاکت کا ایک وقت معین تھا جس میں نہ بھول چوک ہو سکتی تھی نہ غفلت اور نہ خدا کا وعدہ ٹل سکتا تھا جب کسی قوم کی میعاد پوری ہوئی اور تعذیب کا وقت آ پہنچا، ایک دم میں غارت کر دی گئی۔ موجودہ کفار بھی امہال و تاخیر عذاب پر مغرور نہ ہوں۔ جب ان کا وقت آئے گا خدائی سزا سے بچ نہ سکیں گے۔ جو تاخیر کی جا رہی ہے اس میں خدا کی بہت حکمتیں ہیں۔ مثلاً ان میں سے بعض کا یا بعض کی اولاد کا ایمان لانا مقدر ہے۔ فوری عذاب کی صورت میں اس کے وقوع کی کوئی صورت نہیں۔

۵ ۔۔۔ یعنی امم مہلکہ کی تخصیص نہیں بلکہ ہر قوم کے عروج و زوال یا موت و حیات کی جو میعاد مقرر ہے وہ اس سے ایک سیکنڈ آگے پیچھے نہیں ہو سکتی۔

۶ ۔۔۔  مشرکین مکہ یہ الفاظ محض بطریق استہزاء و استخفاف کہتے تھے یعنی آپ سب سے آگے بڑھ کر خدا کے یہاں سے قرآن لے آئے، دوسروں کو احمق و جاہل بتلانے لگے بلکہ ساری دنیا کو الٹی میٹم دیا، اس پر یہ دعویٰ ہے کہ آخر مَیں ہی غالب ہوں گا اور ایک وقت آئے گا کہ منکرین حسرت سے کہیں گے کہ کاش ہم مسلمان ہو جاتے۔ یہ کون سی عقل و ہوش کی باتیں ہیں؟ کھلی ہوئی دیوانگی ہے اور جو پڑھ کر سناتے ہو مجنون کی بڑ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتا۔ (العیاذ باللہ)

۷ ۔۔۔   اگر بارگاہِ احدیت میں آپ کو ایسا ہی قرب حاصل ہے اور ساری قوم میں سے خدا نے منصب رسالت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا انتخاب کیا ہے تو فرشتوں کی خدائی فوج آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کیوں نہ آئی۔ جو کھلم کھلا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کرتی اور ہم سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بات منواتی، نہ مانتے تو فوراً سزا دیتی۔

۸ ۔۔۔  یعنی ماننے والوں کے لیے اب بھی کافی سے زائد نشان موجود ہیں۔ باقی جن کا ارادہ ہی ماننے کا نہیں وہ فرشتوں کے آنے پر بھی نہ مانیں گے پھر ان کے اتارنے میں کیا فائدہ ہے۔ حق تعالیٰ فرشتوں کو زمین پر اپنی حکمت کے موافق کسی غرض صحیح کے لیے بھیجتے ہیں، یوں ہی بے فائدہ تماشا دکھلانا مقصود نہیں ہوتا۔ عموماً عادت اللہ یہ رہی ہے کہ جب کسی قوم کی سرکشی انتہاء کو پہنچ جاتی ہے اور سارے مراحل تفہیم و ہدایت کے طے ہو جاتے ہیں تو فرشتوں کی فوج اس کے ہلاک کرنے کے لیے بھیجی جاتی ہے پھر اس کو قطعاً مہلت نہیں دی جاتی۔ اگر تمہاری خواہش کے موافق فرشتے اتارے جائیں تو اس سے صرف یہ ہی ایک مقصد ہو سکتا ہے کہ تم کو بلاتا، خیر ہلاک کر دیا جائے جو فی الحال حکمت الٰہی کے موافق نہیں کیونکہ ابھی اس کا وقت نہیں آیا، یہ تو آخری صورت ہے جو سب منزلیں طے ہو چکنے اور سب کام ختم کیے جانے کے بعد ظہور پذیر ہوتی ہیں۔

۹ ۔۔۔  یعنی تمہارا استہزاء و تعنت اور قرآن لانے والے کی طرف جنون کی نسبت کرنا، قرآن و حامل قرآن پر قطعاً اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ یاد رکھو اس قرآن کے اتارنے والے ہم ہیں اور ہم ہی نے اس کی ہر قسم کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے جس شان اور ہیئت سے وہ اترا ہے بدون ایک شوشہ یا زبر زیر کی تبدیلی کے چار دانگ عالم میں پہنچ کر رہے گا اور قیامت تک ہر طرح کی تحریف لفظی و معنوی سے محفوظ و مضمون رکھا جائے گا۔ زمانہ کتنا ہی بدل جائے مگر اس کے اصول و احکام کبھی نہ بدلیں گے، زبان کی فصاحت و بلاغت اور علم و حکمت کی موشگافیاں کتنی ہی ترقی کر جائیں، پر قرآن کی صوری و معنوی اعجاز میں اصلاً ضعف و انحطاط محسوس نہ ہو گا۔ اور سلطنتیں قرآن کی آواز کو دبانے یا گم کر دینے میں ساعی ہوں گی۔ لیکن اس کے ایک نقطہ کو گم نہ کر سکیں گی۔ حفاظت قرآن کے متعلق یہ عظیم الشان وعدہ الٰہی ایسی صفائی اور حیرت انگیز طریقہ سے پورا ہو کر رہا جسے دیکھ کر بڑے بڑے متعصب و مغرور مخالفوں کے سر نیچے ہو گئے۔ "میور" کہتا ہے "جہاں تک ہماری معلومات ہیں دنیا بھر میں ایک بھی ایسی کتاب نہیں جو قرآن کی طرح بارہ صدیوں تک ہر قسم کی تحریف سے پاک رہی ہو۔ ایک اور یورپین محقق لکھتا ہے کہ ہم ایسے ہی یقین سے قرآن کو بعینہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ سمجھتے ہیں جیسے مسلمان اسے خدا کا کلام سمجھتے ہیں۔ "واقعات بتلاتے ہیں کہ ہر زمانہ میں ایک جم غفیر علماء کا جن کی تعداد اللہ ہی کو معلوم ہے ایسا رہا کیا جس نے قرآن کے علوم و مطالب اور غیر منقضی عجائب کی حفاظت کی۔ کاتبوں نے رسم الخط کی، قاریوں نے طرزِ ادا کی، حافظوں نے اس کے الفاظ و عبارت کی وہ حفاظت کی کہ نزول کے وقت سے آج تک ایک زیر زبر تبدیل نہ ہو سکا۔ کسی نے قرآن کے رکوع گن لیے، کسی نے آیتیں شمار کیں، کسی نے حروف کی تعداد بتلائی حتی کہ بعض نے ایک ایک اعراب اور ایک ایک نقطہ کو شمار کر ڈالا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک سے آج تک کوئی لمحہ اور کوئی ساعت نہیں بتلائی جا سکتی جس میں ہزاروں لاکھوں کی تعداد حفاظ قرآن کی موجود نہ رہی ہو۔ خیال کرو آٹھ دس سال کا ہندوستانی بچہ جسے اپنی مادری زبان میں دو تین جزء کا رسالہ یاد کرانا دشوار ہے وہ ایک اجنبی زبان کی اتنی ضخیم کتاب جو متشابہات سے پر ہے، کس طرح فرفر سنا دیتا ہے۔ پھر کسی مجلس میں ایک بڑے باوجاہت عالم و حافظ سے کوئی حرف چھوٹ جائے یا اعراب کی فروگذاشت ہو جائے تو ایک بچہ اس کو ٹوک دیتا ہے۔ چاروں طرف سے تصحیح کرنے والے للکارتے ہیں، ممکن نہیں کہ پڑھنے والے کو غلطی پر قائم رہنے دیں۔ حفظ قرآن کے متعلق یہ ہی اہتمام و اعتناء عہد نبوت میں سب لوگ مشاہدہ کرتے تھے۔ اسی کی طرف "وَاِنَّالہ لَحَافِظُوْنَ" فرما کر اس وقت کے منکرین کو توجہ دلائی۔

۱۱ ۔۔۔  آپ کو تسلی دی گئی کہ ان کی تکذیب و استہزاء سے دلگیر نہ ہوں، یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہمیشہ منکرین کی عادت رہی ہے کہ جب کوئی پیغمبر آیا اس کی ہنسی اڑائی، کبھی مجنون کہا۔ کبھی محض دق کرنے کے لیے لغو اور دور از کار مطالبے کرنے لگے۔ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی نسبت کہا تھا "اِنَّ رَسُوْلَکُمُ الَّذِیْ اُرْسِلَ اِلَیْکُمْ لَمَجْنُوْنٌ" (شعراء، رکوع ٢، آیت ٢۷) اور وہ ہی فرشتوں کی فوج لانے کا مطالبہ کیا جو قریش آپ سے کر رہے تھے۔ "لَوْلَآ اُلْقِیَ عَلَیْہِ اَسْوِرَۃٌ مِّنْ ذَہَبٍ اَوْجَآءَ مَعَہُ الْمَلٰئِکَۃُ مُقْتَرِنِیْنَ۔" (زخرف، رکوع ۵، آیت ۵۳)

۱۲ ۔۔۔  یعنی جو لوگ ارتکاب جرائم سے باز نہیں آتے ہم ان کے دلوں میں اسی طرح استہزاء و تکذیب کی عادت جاگزیں کر دیتے ہیں۔ جب ان کے دل میں کانوں کے راستہ سے وحی الٰہی جاتی ہے تو ساتھ ساتھ تکذیب بھی چلی جاتی ہے۔

۱۳ ۔۔۔یعنی ہمیشہ یوں ہی جھٹلاتے اور ہنسی کرتے آئے ہیں اور سنت اللہ یہ رہی ہے کہ متمردین ہلاک و رسوا کیے جاتے رہے اور انجام کار حق کا بول بالا رہا۔

۱۵ ۔۔۔ یعنی فرشتوں کا اتارنا تو اس قدر عجیب نہیں، اگر ہم آسمان کے دروازے کھول کر خود انہیں اوپر چڑھا دیں اور یہ دن بھر اسی شغل میں رہیں، تب بھی ضدی اور معاند لوگ حق کو تسلیم نہیں کر سکتے۔ اس وقت کہہ دیں گے کہ ہم پر نظر بندی یا جادو کیا گیا ہے۔ یا شاید ابتداء میں نظر بندی سمجھیں اور آخر میں بڑا جادو قرار دیں۔

۱۶ ۔۔۔  ۱: "برجوں" سے یہاں بڑے بڑے سیارات مراد ہیں بعض نے منازل شمس و قمر کا ارادہ کیا ہے، بعض کہتے ہیں کہ برج وہ آسمانی قلعے ہیں جن میں فرشتوں کی جماعتیں پہرہ دیتی ہیں۔

۲: یعنی آسمان کو ستاروں سے زینت دی۔ رات کے وقت جب بادل اور گرد و غبار نہ ہو، بیشمار ستاروں کے قمقموں سے آسمان دیکھنے والوں کی نظر میں کس قدر خوبصورت اور پر عظمت معلوم ہوتا ہے اور غور و فکر کرنے والوں کے لیے اس میں کتنے نشان حق تعالیٰ کی صنعت کاملہ، حکمت عظیمہ اور وحدانیت مطلقہ کے پائے جاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آسمان سے فرشتے اتارنے یا ان کو آسمان پر چڑھانے کی ضرورت نہیں۔ اگر ماننا چاہیں تو آسمان و زمین میں قدرت کے نشان کیا تھوڑے ہیں جنہیں دیکھ کر سمجھ دار آدمی توحید کا سبق بہت آسانی سے حاصل کر سکتا ہے۔ ایسے روشن نشان دیکھ کر انہوں نے کیا معرفت حاصل کی؟ جو آئندہ توقع رکھی جائے۔

۱۸ ۔۔۔ یعنی آسمانوں پر شیاطین کا کچھ عمل دخل نہیں چلتا۔ بلکہ بعثت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت سے تو ان کا گزر بھی وہاں نہیں ہو سکتا۔ اب انتہائی کوشش ان کی یہ ہوتی ہے کہ ایک شیطانی سلسلہ قائم کر کے آسمان کے قریب پہنچیں اور عالم ملکوت کے نزدیک ہو کر اخبار غیبیہ کی اطلاعات حاصل کریں، اس پر بھی فرشتوں کے پہرے بٹھا دیئے گئے ہیں کہ جب شیاطین ایسی کوشش کریں اوپر سے آتشباری کی جائے۔ نصوصِ قرآن و حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تکوینی امور کے متعلق آسمانوں پر جب کسی فیصلہ کا اعلان ہوتا ہے اور خداوند قدوس اس سلسلہ میں فرشتوں کی طرف وحی بھیجتا ہے تو وہ اعلان ایک خاص کیفیت کے ساتھ اوپر سے نیچے کو درجہ بدرجہ پہنچتا ہے آخر سماء دنیا پر اور بخاری کی ایک روایت کے موافق "عنان" (بادل) میں فرشتے اس کا مذاکرہ کرتے ہیں۔ شیاطین کی کوشش ہوتی ہے کہ ان معاملات کے متعلق غیبی معلومات حاصل کریں، اسی طرح جیسے آج کوئی پیغام بذریعہ وائرلیس ٹیلیفون جارہا ہو اسے بعض لوگ راستہ میں جذب کرنے کی تدبیر کرتے ہیں، ناگہاں اوپر سے بم کا گولہ (شہاب ثاقب) پھٹتا ہے۔ اور ان غیبی پیغامات کی چوری کرنے والوں کو مجروح یا ہلاک کر کے چھوڑتا ہے۔ اسی دوا دوش اور ہنگامہ داروگیر میں جو ایک آدھ بات شیطان کو ہاتھ لگ جاتی ہے وہ ہلاک ہونے سے پیشتر بڑی عجلت کے ساتھ دوسرے شیاطین کو اور وہ شیاطین اپنے دوست انسانوں کو پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کاہن لوگ اسی ادھوری بات میں سینکڑوں جھوٹ اپنی طرف سے ملا کر عوام کو غیبی خبریں بتلاتے ہیں۔ جب وہ ایک آدھ سماوی بات سچی نکلتی ہے تو ان کے معتقدین اسے ان کی سچائی کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں اور جو سینکڑوں بنائی ہوئی خبریں جھوٹی ثابت ہوتی ہیں ان سے اغماض و تغافل برتا جاتا ہے۔ قرآن و حدیث نے یہ واقعات بیان کر کے متنبہ کر دیا کہ کسی ادنیٰ اور چھوٹی سے چھوٹی سچائی کا سرچشمہ بھی وہ ہی عالم ملکوت ہے۔ شیاطین الجن والانس کے خزانہ میں بجز کذب و افتراء کوئی چیز نہیں۔ نیز یہ کہ آسمانی انتظامات اس قدر مکمل ہیں کہ کسی شیطان کی مجال نہیں وہاں قدم رکھ سکے یا باوجود انتہائی جدوجہد کے وہاں کے انتظامات اور فیصلوں پر معتدبہ دسترس حاصل کر لے۔ باقی جو ایک آدھ جملہ ادھر ادھر کا فرشتوں سے سن بھاگتا ہے حق تعالیٰ نے ارادہ نہیں کیا کہ اس کی قطعاً بندش کر دی جائے۔ وہ چاہتا تو اس سے بھی روک دیتا، مگر یہ بات اس کی حکمت کے موافق نہ تھی۔ آخر شیاطین الجن والانس کو جن کی بابت اسے معلوم ہے کہ کبھی اغواء و اضلال سے باز نہ آئیں گے اتنی طویل مہلت اور مغویانہ اسباب و وسائل پر دسترس دینے میں کچھ نہ کچھ حکمت تو سب کو ماننی پڑے گی۔ اسی طرح کی حکمت یہاں بھی سمجھ لو (تنبیہ) شیاطین ہمیشہ شہابوں کے ذریعہ سے ہلاک ہوتے رہتے ہیں۔ مگر جس طرح قطب جنوبی اور ہمالیہ کی بلند تر چوٹی کی تحقیق کرنے والے مرتے رہتے ہیں اور دوسرے ان کا یہ انجام دیکھ کر اس مہم کو ترک نہیں کرتے۔ اسی پر شیاطین کی مسلسل جدوجہد کو قیاس کرلو۔ یہ واضح رہے کہ قرآن و حدیث نے یہ نہیں بتلایا کہ شہب کا وجود صرف رجم شیاطین ہی کے لیے ہوتا ہے۔ ممکن ہے ان کے وجود سے اور بہت سے مصالح وابستہ ہوں اور حسب ضرورت یہ کام بھی لیا جاتا ہو۔ واللہ اعلم۔

۲۰ ۔۔۔  یعنی نوکر چاکر حیوانات وغیرہ جن سے کام اور خدمت ہم لیتے ہیں اور روزی ان کی خدا کے ذمہ ہے۔

۲۱ ۔۔۔   یعنی جو چیز جتنی مقدار میں چاہے پیدا کر دے، نہ کچھ تعب ہوتا ہے نہ تکان، ادھر ارادہ کیا ادھر وہ چیز موجود ہوئی۔ گویا تمام چیزوں کا خزانہ اس کی لامحدود قدرت ہوئی جس سے ہر چیز حکمت کے موافق ایک معین نظام کے ماتحت ٹھہرے ہوئے اندازہ پر بلا کم و کاست نکلی چلی آتی ہے۔

۲۲ ۔۔۔  ۱: عنی برساتی ہوائیں بھاری بھاری بادلوں کو پانی سے بھر کر لاتی ہیں، ان سے پانی برستا ہے جو نہروں چشموں اور کنوؤں میں جمع ہو کر تمہارے کام آتا ہے۔ خدا چاہتا تو اسے پینے کے قابل نہ چھوڑتا، لیکن اس نے اپنی مہربانی سے کس قدر شیریں اور لطیف پانی تمہارے بارہ مہینہ پینے کے لیے زمین کے مسام میں جمع کر دیا۔

۲: یعنی نہ اوپر بارش کے خزانہ پر تمہارا قبضہ ہے، نہ نیچے چشمے اور کنوئیں تمہارے اختیار میں ہیں۔ خدا جب چاہے بارش برسائے، نہ تم روک سکتے ہو نہ اپنے حسب خواہش لا سکتے ہو اور اگر کنوؤں اور چشموں کا پانی خشک کر دے یا زیادہ نیچے اتاردے کہ تمہاری دسترس سے باہر ہو جائے تو کیسے قابو حاصل کر سکتے ہو۔

۲۳ ۔۔۔ یعنی دنیا فنا ہو جائے گی، ایک خدا اپنی کامل صفات کے ساتھ باقی رہے گا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "ہر کوئی مر جاتا ہے اور اس کی کمائی اللہ کے ہاتھ میں رہتی ہے۔

۲۴ ۔۔۔  یعنی اگلا پچھلا کوئی شخص یا اس کے اعمال ہمارے احاطہ علمی سے باہر نہیں، حق تعالیٰ کو ازل سے ہر چیز کا تفصیلی علم ہے، اسی کے مطابق دنیا میں پیش آتا ہے اور اسی کے موافق آخرت میں تمام مخلوق کا انصاف کیا جائے گا۔ (تنبیہ) آگے بڑھنا اور پیچھے رہنا عام ہے۔ ولادت میں ہو یا موت میں، یا اسلام میں، یا نیک کاموں میں، صفوف صلوٰۃ میں آگے پیچھے رہنا بھی نیک کام کے ذیل میں آگیا۔

۲۵ ۔۔۔ یعنی ایک ایک ذرہ اس کے علم میں ہے۔ جب اس کی حکمت مقتضی ہو گی کہ سب کو بیک وقت انصاف کے لیے اکٹھا کیا جائے تو کچھ دشواری نہ ہو گی۔ قبر کی مٹی، جانوروں کے پیٹ، سمندر کی تہ، ہوائی فضا میں یا جہاں کہیں کسی چیز کا کوئی جز ہو گا، وہ اپنے علم محیط اور قدرت کاملہ سے جمع کر دے گا۔

۲۶ ۔۔۔  آیات آفاقیہ کے بعد بعض آیات انفسیہ کو بیان فرماتے ہیں جس کے ضمن میں شاید یہ تنبیہ بھی مقصود ہے کہ جس ذات منبع الکمالات نے تم کو ایسے انوکھے طریقہ سے اول پیدا کیا، دوبارہ پیدا کر کے ایک میدان میں جمع کر دینا اس کے لیے کیا مشکل ہے۔ (تنبیہ) آدمی کی پیدائش کے متعلق یہاں دو لفظ فرمائے "صَلْصَال" (بجنے والی کھنکھناتی مٹی جو آگ میں پکنے سے اس حالت کو پہنچتی ہے اسی کو دوسری جگہ "کالفخار" فرمایا) اور "حَمَاٍمَّسْنُوْنٍ" (سڑا ہوا گارا جس سے بو آتی ہو) خیال یہ ہوتا ہے کہ اول سنے ہوئے گارے سے آدم کا پتلا تیار کیا، پھر جب خشک ہو کر اور پک کر کھن کھن بجنے لگا، تب مختلف تصورات کے بعد اس درجہ پر پہنچا کہ انسانی روح پھونکی جائے۔ روح المعانی میں بعض علماء کا قول نقل کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کَاَنَّہ، سُبْحَانَہ، اَفْرَغَ الْحَمَا فَصَوَّرَ مِنْ ذَلِکَ تِمْثَالَ اِنْسَان اَجْوَفَ فَیَبِسَ حَتّیٰ اِذَا نُقِرَ صَوَّتَ ثُمَّ غَیَّرَہ، طَوْرًا بَعْدَ طَوْرٍ حَتّیٰ نَفَخَ فِیْہِ مِنْ رُوْحِہٖ فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ۔" حضرت شاہ صاحب لکھے ہیں مٹی پانی میں ترکی اور خمیر اٹھایا کہ کھن کھن بولنے لگی، وہ ہی بدن ہوا انسان کا۔ اس کی خاصیتیں سختی اور بوجھ اس میں رہ گئیں اسی طرح گرم ہوا کی خاصیت (حدت و خفت) جن کی پیدائش میں رہی۔ راغب اصفہانی نے ایک طویل مضمون کے ضمن میں متنبہ کیا ہے کہ "حماٍ مسنونٍ" اور"طینٍ لازبٍ" وغیرہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ مٹی اور پانی ملا کر ہوا سے خشک کیا اور خّار" کا لفظ دلالت کرتا ہے کہ کسی درجہ میں آگ سے پکایا گیا یہ ہی ناری جزء آدمی کی شیطنت کا منشاء ہے۔ اسی مناسبت سے ایک جگہ فرمایا "خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ کَالْفَخَّارِ وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِّنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ" راغب کا مضمون بہت طویل اور دلچسپ ہے، افسوس ہے ہم اس کا خلاصہ بھی یہاں درج نہیں کر سکتے۔

۲۷ ۔۔۔  یعنی لطیف آگ ہوا ملی ہوئی۔ کما قال وَخَلَقَ الْجَآنَّ مِنْ مَّارِجٍ مِّنْ نَّارٍ (الرحمن، رکوع ۱، آیت ۱۵) یا یوں کہو تیز ہوا جو آگ کی طرح جلانے والی ہو، جسے ہمارے یہاں " لُو" کہتے ہیں۔ بہرحال آدمیوں کا باپ ایسے مادہ سے پیدا کیا گیا جس میں عنصر ترابی غالب تھا اور جنوں کا باپ اس مادہ سے پیدا ہوا جس میں ناری عنصر کا غلبہ تھا، ابلیس بھی اسی قسم میں تھا۔

۲۹ ۔۔۔ یعنی آدم کا پتلا ٹھیک کر کے اس قابل کردوں کہ روح انسانی فائض کی جا سکے پھر اس میں جان ڈال دوں جس سے ایک جماد انسان بن جاتا ہے، اس وقت تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ سب سجدہ میں گر پڑو (تنبیہ) "روح" (جان) کی اضافت جو اپنی طرف کی، یہ محض تشریف و تکریم اور روحِ انسانی کا امتیاز ظاہر کرنے کے لیے ہے۔ یعنی وہ خاص "جان" جس میں نمونہ ہے میری صفات (علم و تدبیر وغیرہ) کا، اور جو اصل فطرت سے مجھے یاد کرنے والی اور بسبب خصوصی لطافت کے مجھ سے نسبتہً قریبی علاقہ رکھنے والی ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ نے دوسرے عنوان سے اس اضافت پر روشنی ڈالی ہے فرماتے ہیں اگر آفتاب کو قوت گویائی مل جائے اور وہ کہے کہ میں نے اپنے نور کافیض زمین کو پہنچایا، تو کیا یہ لفظ (اپنا نور) غلط ہو گا؟ جب یہ کہنا صحیح ہے حالانکہ یہ آفتاب زمین میں حلول کرتا ہے نہ اس کا نور اس سے جدا ہوتا ہے، بلکہ زمین سے لاکھوں میل دور رہ کر بھی روشنی کی باگ اسی کے قبضہ میں ہے، زمین کا کچھ اختیار نہیں چلتا، بجز اس کے کہ اس سے بقدر اپنی استعداد کے نفع حاصل کرتی رہے، تو وراء الوراء خدا کا یہ فرمانا کہ میں نے آدم میں اپنی روح پھونکی، حلول و اتحاد وغیرہ کی دلیل کیسے بن سکتی ہے۔ "روح" کے متعلق مناسب کلام انشاء اللہ آئندہ "وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الرُّوْحِ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّیْ"میں کیا جائے گا۔

۳۴ ۔۔۔ ۱:  یعنی جنت سے یا آسمان سے یا اس مقام عالی سے نکل جہاں اب تک پہنچا ہوا تھا۔

۲: یعنی مردود و مطرود ہے یا "رجیم" سے اشارہ اسی طرف ہے جو پہلے گزرا کہ شہاب سے شیاطین کا رجم کیا جاتا ہے۔ گویا اس لفظ میں اس کے شبہ کا جواب دیا گیا کہ تیرا سجود سے انکار کرنا شرف عنصری کی بناء پر نہیں۔ فضل و شرف تو اسی کے لیے ہے جسے خدا تعالیٰ سرفراز فرمائے۔ ہاں تیرے اباء و استکبار کا منشاء وہ شقاوت و بد بختی ہے جو تیری سوء استعداد کی وجہ سے مقدر ہو چکی ہے۔

۳۵ ۔۔۔   یعنی قیامت کے دن تک خدا کی پھٹکار اور بندوں کی طرف سے لعنت پڑتی رہے گی۔ اس طرح آناً فاناً خیر سے بعید تر ہوتا رہے گا۔ جب قیامت تک توفیق خیر کی نہ ہو گی تو اس کے بعد تو کوئی موقع ہی نہیں کیونکہ آخرت میں ہر شخص وہ ہی کاٹے گا جو یہاں بویا ہے۔ یا یوں کہو کہ قیامت کے دن تک لعنت رہے گی۔ اس کے بعد جو بے شمار قسم کے عذاب ہوں گے وہ لعنت سے کہیں زیادہ ہیں، یا "اِلیٰ یَوْمِ الدِّیْنِ" کا لفظ دوام سے کنایہ ہو۔

۳۸ ۔۔۔  یعنی اس وقت تک تجھے ڈھیل دی جاتی ہے جی کھول کر ارمان نکال لے۔ اس واقعہ کی تفصیل "بقرہ" اور "اعراف" میں گزر چکی ہے۔ ہم نے "اعراف" کے دوسرے رکوع میں اس کے اجزاء پر جو کچھ کلام کیا ہے اسے ملاحظہ کر لیا جائے۔ اعادہ کی ضرورت نہیں۔

۴۰ ۔۔۔  یعنی دنیا کی بہاریں دکھلا کر خواہشات نفسانی کے جال میں پھنساؤں گا اور تیرے مخصوص و منتخب بندوں کے سوا سب کو راہ حق سے ہٹا کر رہوں گا۔ یہ کلمات لعین نے جوش انتقام میں کہے۔ مطلب یہ تھا کہ آپ کا تو کچھ بگاڑ نہیں سکتا، لیکن جس کی وجہ سے میں دور پھینکا گیا ہوں اپنی قدرت اور بساط کے موافق اس کی نسلوں تک سے بدلہ لے کر چھوڑوں گا۔ سورہ "اعراف" میں اس موضوع پر ہم نے جو کچھ لکھا ہے ملاحظہ کیا جائے۔

۴۱ ۔۔۔  یعنی بیشک بندگی اور اخلاص کی راہ سیدھی میرے تک پہنچتی ہے اور یہ ہی میرا صاف اور سیدھا راستہ ہے جس میں کوئی ہیر پھیر نہیں کہ جو بندے عبودیت و اخلاص کی راہ اختیار کریں گے وہ ہی شیطان لعین کے تسلط سے مامون رہیں گے۔ بعض مفسرین نے "ہٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ" کو تہدید پر حمل کیا۔ یعنی او ملعون! لوگوں کو صراطِ مستقیم سے گمراہ کر کے کہاں بھاگے گا وہ کون سا راستہ ہے جو ہماری طرف نہ جاتا ہو۔ پھر ہماری سزا سے بچ کر کدھر جا سکتا ہے اس وقت کلام ایسا ہو گا جیسے کہتے ہیں "اِفْعَلْ مَاشِئْتَ فَطَرِیْقُکَ عَلَیَّ" اور قرآن میں دوسری جگہ فرمایا "اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ" واللہ اعلم۔

۴۲ ۔۔۔  یعنی بیشک چنے ہوئے بندوں پر جن کا ذکر اوپر ہوا تیرا کچھ زور نہ چلے گا یا یہ مطلب ہو کہ کسی بندے پر بھی تیری زبردستی نہیں چل سکتی۔ ہاں جو خود ہی بہک کر اپنی جہالت و حماقت سے تیرے پیچھے ہو لیا وہ اپنے اختیار سے خراب و برباد ہوا۔ جیسے پہلے خود شیطان کا مقولہ گزر چکا "وَمَاکَانَ لِیَ عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطَانٍ اِلاَّ اَنْ دَعَوْتُکُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْ" (ابراہیم، رکوع ۴، آیت ٢٢)

۴۳ ۔۔۔ یعنی تیرے اور تیرے ساتھیوں کے لیے دوزخ کا جیل خانہ تیار ہے تم سب اسی گھاٹ اتارے جاؤ گے۔

۴۴ ۔۔۔  بعض سلف نے "سَبَعَۃُ اَبْوَابٍ" سے دوزخ کے سات طبقے اوپر نیچے مراد لیے ہیں، چنانچہ ان کے نام ابن عباس نے یہ بتلائے ہیں جہنم  ف، سعیر  ف، لظیٰ ف، حطمہ ف، سقر  ف، جحیم  ف، ہاویہ ف۔ اور لفظ "جہنم" ایک خاص طبقہ اور مجموعہ طبقات دونوں پر اطلاق کیا جاتا ہے۔ بعض کے نزدیک سات دروازے مراد ہیں، جن سے الگ الگ دوزخی داخل ہوں گے۔ واللہ اعلم۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "جیسے بہشت کے آٹھ دروازے ہیں نیک عمل والوں پر بانٹے ہوئے، ویسے "دوزخ کے ساتھ دروازے ہیں بد عمل والوں پر بانٹے ہوئے۔ شاید بہشت کا ایک دروازہ اس لیے ہے کہ بعضے موحدین نرے فضل سے جنت میں جائیں گے بغیر عمل کے۔ باقی عمل میں دروازے برابر ہیں۔

۴۵ ۔۔۔  جو لوگ کفر و شرک اور معاصی و ذنوب سے پرہیز کرتے ہیں، وہ حسب مراتب جنت کے باغوں میں رہیں گے جہاں بڑے قرینہ سے چشمے اور نہریں بہتی ہوں گی شیطان کے متبعین کے بعد یہ عبادِ مخلصین کا انجام بیان فرمایا۔

۴۶ ۔۔۔   یعنی فی الحال تمام آفتاب و عیوب سے صحیح و سالم اور آئندہ ہمیشہ کے لیے ہر قسم کی فکر، پریشانی، گھبراہٹ اور خوف و ہراس سے بے کھٹکے۔

۴۷ ۔۔۔ یعنی جنت میں پہنچ کر اہل جنت میں باہم کوئی گذشتہ کدورت باقی نہ رہے گی۔ بالکل پاک و صاف کر کے داخل کیے جائیں گے، نہ وہاں ایک کو دوسرے پر حسد ہو گا، بلکہ بھائی بھائی ہو کر انتہائی محبت و الفت سے رہیں گے۔ ہر ایک دوسرے کو دیکھ کر مسرورو محفوظ ہو گا۔ اس کا کچھ بیان سورہ اعراف آٹھویں پارہ کے اخیر ربع میں گزر چکا۔

۴۸ ۔۔۔  ۱: یعنی عزت و کرامت کے تختوں پر آمنے سامنے بیٹھ کر باتیں کریں گے، ملاقات وغیرہ کے وقت ایسی نشست نہ ہو گی جس میں کوئی آگے کوئی پیچھے ہو۔

۲: حدیث میں ہے کہ جنتیوں سے کہا جائے گا، اے اہل جنت! اب تمہارے لیے یہ ہے کہ ہمیشہ تندرست رہو، کبھی بیماری نہ ستائے، ہمیشہ زندہ رہو کبھی موت نہ آئے۔ ہمیشہ آرام سے مقیم رہو، کبھی سفر کی تکلیف نہ اٹھانی نہ پڑے۔

۵۰ ۔۔۔  "مجرمین" اور "متقین" کا الگ الگ انجام بیان فرما کر یہاں تنبیہ کی ہے کہ ہر ایک صورت میں حق تعالیٰ کی کسی نہ کسی صفت و شان کا ظہور ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ اصل سے اپنی تمام مخلوق پر بخشش اور مہربانی کرنا چاہتا ہے اور حقیقت میں اصل مہربانی اسی کی ہے، تمام دنیا کی مہربانیاں اس کی مہربانی کا پرتو ہیں لیکن جو شخص خود شرارت و بدکاری سے مہربانی کے دروازے اپنے اوپر بند کر لے تو پھر اس کی سزا بھی ایسی سخت ہے جس کے روکنے کی کوئی تدبیر نہیں۔ سعدی نے خوب فرمایا

بتہدید گر برکشد تیغ حکم بمانند کرو بیاں صم و بکم

وگر در دہدیک صلائے کرم عزازیل گوید نصیبے برم

 آگے ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں جس میں فرشتوں کے اترنے کا ذکر ہے۔ وہ ہی فرشتے ایک جگہ خوشخبری سناتے اور دوسری جگہ پتھر برساتے تھے، تاکہ معلوم ہو کہ خدا کی دونوں صفتیں (رحمت و غضب) پوری ہیں۔ بندوں کو چاہیے نہ دلیر ہوں، نہ آس توڑیں۔

۵۱ ۔۔۔  "مہمان" اس لیے کہا کہ ابراہیم ابتداءا انہیں مہمان ہی سمجھے، بعد میں کھلا کہ فرشتے ہیں۔

۵۲ ۔۔۔  دوسری جگہ آیا ہے "وَاَوْجَسَ مِنْہُمْ خِیْفَۃً" یعنی خوف کو دل میں چھپایا تو کہا جائے گا کہ ابتداء میں چھپانے کی کوشش کی۔ آخر ضبط نہ کر سکے، زبان سے ظاہر کر دیا۔ یا یہ مطلب ہو کہ باوجود چھپانے کے خوف کے آثار چہرہ وغیرہ پر اس قدر عیاں تھے گویا کہہ رہے تھے کہ ہم کو تم سے ڈر معلوم ہوتا ہے۔ یہ ڈر کس بات کا تھا؟ اس کی تفصیل سورہ ہود میں گزر چکی وہاں ملاحظہ کی جائے۔ اور اس واقعہ کے دوسرے اجزاء پر بھی جو کلام کیا گیا ہے ضرورت ہے کہ ایک مرتبہ مراجعت کر لی جائے۔

۵۳ ۔۔۔  یعنی ڈرنے کی ضرورت نہیں بلکہ خوش ہونے کا موقع ہے۔ اس بڑھاپے میں ہم تم کو اولاد کی خوشخبری سناتے ہیں۔ اولاد بھی کیسی؟ لڑکا نہایت ہوشیار، بڑا عالم، جسے پیغمبرانہ علوم دے کر منصب نبوت پر فائز کیا جائے گا۔ "وَبَشَّرْنٰہُ بِاِسْحٰقَ نَبِیًّا مِّنَ الصَّالِحِیْنَ۔" (صافّات، رکوع ۳، آیت ۱۱٢)

۵۴ ۔۔۔ چونکہ غیر متوقع اور غیر معمولی طور پر خوشخبری سنی، تو پیرانہ سالی کو دیکھتے ہوئے کچھ عجیب سی معلوم ہوئی۔ انسانی طبیعت کا خاصہ ہے کہ جب آدمی کوئی مسرت انگیز خبر خلاف توقع غیر معمولی طریقہ سے اچانک سنے تو باوجود یقین آ جانے کے اسے خوب کھود کرید کر دریافت کرتا اور لہجہ تعجب کا اختیار کر لیتا ہے، تاکہ خبر دینے والا پوری تاکید و تصریح سے خوشخبری کو دہرائے جس میں نہ کسی قسم کی غلط فہمی کا احتمال رہے نہ تاویل و التباس کا۔ گویا اظہارِ تعجب سے بشارت کو خوب واضح اور پختہ کرانا اور تکرار سماع سے لذت حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ اسی طرز میں حضرت ابراہیم نے اظہار تعجب فرمایا۔ ابن کثیر کے الفاظ یہ ہیں۔ "قال متعجباً من کبرہ وکبر زوجتہ ومتحققًا للوعد فاجابوہ مؤکدین لمابشروہ بہ تحقیقًا وبشارۃ بعد بشارۃٍ" چونکہ سطح کلام سے نا امیدی کا تو ہم ہو سکتا ہے۔ جو اکابر خصوصاً اولوالعزم پیغمبروں کی شان کے بالکل خلاف ہے۔ اس لیے ملائکہ نے "“ فَلاَ تَکُنْ مِّنَ الْقَانِطِیْنَ" کہہ کر تنبیہ کی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "معلوم ہوا کہ کاملین بھی (کسی درجہ میں) ظاہری اسباب پر خیال رکھتے ہیں۔

۵۶ ۔۔۔  یعنی رحمت الٰہیہ سے نا امید تو عام مسلمان بھی نہیں ہو سکتے۔ چہ جائیکہ انبیاء علیہم السلام کو معاذ اللہ یہ نوبت آئے محض اسباب عادیہ اور اپنی حالت موجودہ کے اعتبار سے ایک چیز عجیب معلوم ہوئی، اس پر میں نے اظہار تعجب کیا ہے کہ خدا کی قدرت اب بڑھاپے میں مجھے اولاد ملے گی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "عذاب سے نڈر ہونا اور فضل سے نا امید ہونا دونوں کفر کی باتیں ہیں یعنی آگے کی خبر اللہ کو ہے۔ ایک بات پر دعویٰ کرنا یقین کر کے یوں نہیں ہو سکتا یہ ہی کفر کی بات ہے باقی محض دل کے خیال و تصور پر پکڑ نہیں جب منہ سے دعویٰ کرے تب گناہ ہوتا ہے۔

۵۷ ۔۔۔ یعنی کیا محض یہ بشارت سنانے کے لیے ہی بھیجے گئے ہو۔ یا کوئی اور مہم ہے جس پر مامور ہو کر آئے ہو۔ غالباً قرائن سے ابراہیم علیہ السلام سمجھے کہ اصل مقصد تشریف آوری کا کچھ اور ہے۔ ممکن ہے جو خوف انہیں دیکھ کر پیدا ہوا تھا اسی سے خیال گزرا ہو کہ خالص بشارت لانے والوں کو دیکھ کر خوف کیسا ضرور کوئی دوسری خوفناک چیز بھی ان کے ساتھ ہو گی۔ واللہ اعلم۔

۶۰ ۔۔۔  یعنی وہ باقی کفار کے ساتھ عذاب میں مبتلا رہے گی۔ (تنبیہ) ظاہر ہے کہ "قَدَّرْنَا اِنَّہَا لَمِنَ الْغٰبِرِیْنَ" مقولہ ملائکہ کا ہے جو عذاب لے کر آئے تھے چونکہ اس وقت وہ قضا و قدر کا فیصلہ نافذ کرنے کے لیے سرکاری ڈیوٹی پر آئے تھے اس لیے تقدیر (ٹھہرانے) کی نسبت نیابۃً اپنی طرف کر دی۔ اور ممکن ہے "قدرنا الخ" حق تعالیٰ کا کلام ہو۔ تب کوئی اشکال نہیں۔

۶۲ ۔۔۔ یا تو یہ مطلب تھا کہ تم مجھے غیر معمولی سے آدمی معلوم ہوتے ہو جنہیں دیکھ کر خواہ مخواہ دل کھٹکتا ہے۔ یہ شاید ویسا ہی کھٹکا ہو گا جو ابراہیم علیہ السلام کے دل میں پیدا ہوا تھا یا یہ غرض ہو کہ تم اس شہر میں اجنبی ہو، تم کو یہاں کے لوگوں کی خوئے بد معلوم نہیں، دیکھئے وہ تمہارے ساتھ کیسا سلوک کریں، یا یہ اس وقت فرمایا جب لوگوں نے فرشتوں کو حسین لڑکے سمجھ کر لوط کے مکان پر چڑھائی کی۔ لوط علیہ السلام انہیں مہمان سمجھتے ہوئے امکانی مدافعت کرتے رہے۔ حتیٰ کہ آخر میں نہایت حسرت سے فرمایا "لَوْ اَنَّ لِیْ بِکُمْ قُوَّۃً اَوْاٰوِیْ اِلیٰ رُکْنٍ شَدِیْدٍ" اس وقت تنگ ہو کر اور گھبرا کر ان مہمانوں سے کہنے لگے کہ تم عجیب طرح کے آدمی معلوم ہوتے ہو۔ میں تمہاری آبرو بچانے کے لیے خون پسینہ ایک کر رہا ہوں لیکن تم میری امداد کے لیے ذرا ہاتھ بھی نہیں ہلاتے۔

۶۳ ۔۔۔  یعنی گھبراؤ مت۔ ہم آدمی نہیں ہیں، ہم تو آسمان سے وہ چیز لے کر آئے ہیں جس میں یہ لوگ تم سے جھگڑا کرتے تھے۔ یعنی مہلک عذاب جس کی تم دھمکی دیتے اور یہ انکار کرتے تھے۔

۶۴ ۔۔۔   یعنی اب آپ بالکل مطمئن ہو جائیے۔ یہ بالکل پکی اور اٹل بات ہے جس میں قطعاً جھوٹ کا احتمال نہیں۔

۶۵ ۔۔۔ ۱:  یعنی جب تھوڑی رات رہے اپنی گھر والوں کو بستی سے لے کر نکل جائیے اور آپ سب کے پیچھے رہیے تاکہ پورا اطمینان رہے کہ کوئی رہ تو نہیں گیا یا راستہ سے واپس تو نہیں ہوا۔ اس صورت میں آپ کا قلب مطمئن رہے گا اور دل جمعی سے خدا کے ذکر و شکر میں مشغول رہتے ہوئے رفقاء کی دیکھ بھال رکھیں گے۔ دوسری طرف آپ کے بقیہ پیچھے ہونے کی وجہ سے آگے چلنے والوں کو آپ کا رعب مانع ہو گا کہ پیچھے مڑ کر دیکھیں۔ اس طرح وَلَایَلْتَفِتْ مِنْکُمْ اَحَدٌ کا پورا امتثال ہو سکے گا اور وہ لوگ خطرہ کے مقام سے بعید رہیں گے اور آپ کو اپنا ظاہری پشتیباں سمجھیں گے۔

۲: یعنی ملک شام میں یا اور کہیں امن کی جگہ جو خدا نے ان کے لیے مقرر کی ہو گی۔

۶۶ ۔۔۔ یعنی لوط علیہ السلام کو ملائکہ کے توسط سے ہم نے اپنا قطعی فیصلہ سنا دیا کہ عذاب کچھ دور نہیں۔ ابھی صبح کے وقت اس قوم کا بالکلیہ استیصال کر دیا جائے گا۔ شاید یہ مطلب ہو کہ صبح ہوتے ہی عذاب شروع ہو جائے گا اور اشراق تک سب معاملہ ختم کر دیا جائے گا، کیونکہ وہ دوسری جگہ "مُصْبِحِیْنَ" کے بجائے "مُشْرِقِیْنَ" کا لفظ آیا ہے۔

۶۷ ۔۔۔  یعنی جب سنا کہ لوط کے یہاں بڑے حسین و جمیل لڑکے مہمان ہیں تو اپنی عادت بد کی وجہ سے بڑے خوش ہوئے اور دوڑتے ہوئے ان کے مکان پر آئے اور لوط سے مطالبہ کیا کہ انہیں ہمارے حوالہ کر دو (تنبیہ) وَجَآءَ اَہْلُ الْمَدِیْنَۃِ الخ میں "واؤ" مطلق جمع کے لیے ہے، یہاں ترتیب واقعات بیان میں ملحوظ نہیں سورہ ہود اور اعراف میں یہ قصہ گزر چکا ہے اسے دیکھ لیا جائے اور وہاں کے فوائد ملاحظہ کیے جائیں۔

۶۸ ۔۔۔ کیونکہ مہمان کی فضیحت میزبان کی رسوائی ہے۔

۶۹ ۔۔۔  یعنی خدا سے ڈر کر یہ بے حیائی کے کام چھوڑ دو اور اجنبی مہمانوں کو دق مت کرو۔ آخر میں تم میں رہتا ہوں، میری آبرو کا تمہیں کچھ پاس کرنا چاہیے میں مہمانوں کی نظر میں کس قدر حقیر ہوں گا جب یہ سمجھیں گے کہ بستی میں ایک آدمی بھی ان کی عزت نہیں کرتا نہ ان کا کہنا مانتا ہے۔

۷۰ ۔۔۔ یعنی ہم بے آبرو نہیں کرتے آپ خود بے آبرو ہوتے ہیں۔ جب ہم منع کر چکے کہ تم کسی اجنبی کو پناہ مت دو نہ اپنا مہمان بناؤ۔ ہم کو اختیار ہے باہر سے آنے والوں کے ساتھ جس طرح چاہیں پیش آئیں۔ پھر آپ کو کیا ضرورت پیش آئی کہ خواہ مخواہ ان نوجوانوں کو اپنے یہاں ٹھہرا کر فضیحت ہوئے۔ اس سے مترشح ہوتا ہے کہ وہ لوگ ہمیشہ اجنبی مسافروں کو اپنے افعال شنیعہ کا تختہ مشق بناتے ہوں گے اور حضرت لوط علیہ السلام اپنے مقدور کے موافق غریب مسافروں کی حمایت اور ان اشقیاء کو نالائق حرکتوں سے باز رکھتے ہوں گے۔

۷۱ ۔۔۔  یعنی بیشک تم نے مجھ کو اجنبی لوگوں کی حمایت سے روکا لیکن میں پوچھتا ہوں آخر اس روکنے کا منشاء کیا ہے؟ یہ ہی نہ کہ میں تمہاری خلاف فطرت شہوت رانی کے راستہ میں حائل ہوتا ہوں۔ تو خود غور کرو کیا قضائے شہوت کے حلال مواقع تمہارے سامنے موجود نہیں جو ایسی بیہودہ حرام کاری کے مرتکب ہوتے ہو؟ یہ تمہاری بیویاں (جو میری بیٹیوں کے برابر ہیں) تمہارے گھروں میں موجود ہیں، اگر تم میرے کہنے کے موافق عمل کرو اور قضائے شہوت کے مشروع و معقول طریقہ پر چلو، تو حاجت براری کے لیے وہ کافی ہیں۔ یہ کیا آفت ہے کہ حلال اور ستھری چیز کو چھوڑ کر حرام کی گندگی میں ملوث ہوتے ہو۔

۷۲ ۔۔۔ ظاہر یہ ہے کہ یہ خطاب حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو ہے۔ یعنی تیری جان کی قسم لوط کی قوم غفلت اور مستی کے نشہ میں بالکل اندھی ہو رہی تھی وہ بڑی لاپروائی سے حضرت لوط کی نصیحت بلکہ لجاجت کو ٹھکرا رہے تھے۔ ان کو اپنی قوت کا نشہ تھا، شہوت پرستی نے ان کے دل و دماغ مسخ کر دیے تھے۔ وہ بڑے امن و اطمینان کے ساتھ پیغمبر خدا سے جھگڑ رہے تھے۔ نہیں جانتے تھے کہ صبح تک کیا حشر ہونے والا ہے۔ تباہی اور ہلاکت کی گھڑی ان کے سر پر منڈلا رہی تھی، وہ لوط کی باتوں پر ہنستے تھے اور موت انہیں دیکھ کر ہنس رہی تھی (تنبیہ) ابن عباس نے فرمایا خدا تعالیٰ نے دنیا میں کوئی جان محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی جان سے زیادہ اکرم و اشرف پیدا نہیں کی۔ میں نے خدا کو نہیں سنا کہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی جان عزیز کے سوا کسی دوسری جان کی قسم کھائی ہو۔ قرآن کریم میں جو قسمیں آئی ہیں ان کے متعلق ہم انشاء اللہ کسی دوسری جگہ ذرا مفصل کلام کریں گے۔

۷۳ ۔۔۔  اس کے متعلق ہم قریب ہی "دَابِرَھٰؤُلاءِ مَقْطُوْعٌ مُّصْبِحِیْنَ" کے فائدہ میں کلام کر چکے ہیں۔ ابن جریج کا قول ہے کہ ہر عذاب جس سے کوئی قوم ہلاک کی جائے "صحیحہ" اور "صاعقہ" کہلاتا ہے۔

۷۴ ۔۔۔اس کی تفصیل سورہ ہود وغیرہ میں گزر چکی۔

۷۵ ۔۔۔ "متوسم" اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بعض ظاہری علامات و قرائن دیکھ کر محض فراست سے کسی پوشیدہ بات کا پتہ لگالے۔ حدیث میں ہے "اِتَّقُوْا فِرَاسَۃَ الْمُؤْمِنِ فَاِنَّہ، یَنْظُرُ بِنُوْرِ اللّٰہِ" بعض روایات میں "وَبِتَوْفِیْقِ اللّٰہِ" کی زیادت ہے، یعنی مومن کی فراست سے ڈرتے رہو، وہ خدا تعالیٰ کے عطا کیے ہوئے نورِ توفیق سے دیکھتا ہے۔ شاید "کشف" اور راست" میں بقول امیر عبدالرحمن خاں مرحوم اتنا ہی فرق ہو جتنا ٹیلیفون اور ٹیلیگراف میں ہوتا ہے۔ بہرحال آیت کا مطلب یہ ہے کہ دھیان کرنے اور پتہ لگانے والوں کے لیے "قوم لوط" کے قصہ میں عبرت کے بہت نشان موجود ہیں۔ انسان سمجھ سکتا ہے کہ بدی اور سرکشی کا انجام کیسا ہوتا ہے۔ خدا کی قدرت عظیمہ کے سامنے ساری طاقتیں ہیچ ہیں۔ "اس کی لاٹھی میں آواز نہیں۔" اس کی مہلت پر آدمی مغرور نہ ہو، نہ پیغمبروں کے ساتھ ضد اور عداوت باندھے، ورنہ ایسا ہی حشر ہو گا۔ وغیر ذلک۔

۷۶ ۔۔۔  مکہ سے شام کو جاتے ہوئے اس الٹی ہوئی بستی کے کھنڈر نظر آتے ہیں۔ "وَاِنَّکُمْ لَتَمُرُّوْنَ عَلَیْہِمْ مُّصْبِحِیْنَ وَبِاللَّہ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ" (صافا ت، رکوع ۴، آیت ۱۳۷)

۷۷ ۔۔۔  یعنی ان کھنڈرات کو دیکھ کر بالخصوص مومنین کو عبرت ہوتی ہے، کیونکہ وہ ہی سمجھتے ہیں کہ اس قوم کی بدکاری اور سرکشی کی سزا میں یہ بستیاں الٹی گئیں۔ مومنین کے سوا دوسرے لوگ تو ممکن ہے انہیں دیکھ کر محض بخت و اتفاق یا اسباب طبیعہ کا نتیجہ قرار دیں۔

۷۸ ۔۔۔   بن کے رہنے والے یعنی قوم شعیب شہر "مدین" میں رہتے تھے جس کے نزدیک درختوں کا بن تھا کچھ وہاں رہتے ہوں گے۔ بعض کہتے ہیں "اصحاب أیکہ" اور "اصحاب مدین"دو جدا گانہ قومیں ہیں۔ حضرت شعیب دونوں کی طرف مبعوث ہوئے۔ ان لوگوں کا گناہ شرک و بت پرستی، ڈاکہ زنی اور ناپ تول میں فریب اور دھوکہ کرنا تھا۔ پہلے سورہ ہود و اعراف میں ان کا مفصل قصہ گزر چکا ہے ملاحظہ کر لیا جائے۔

۷۹ ۔۔۔ یعنی حجاز و شام کے جس راستہ پر قوم لوط کی بستیاں تھیں، وہیں ذرا نیچے اتر کر قوم شعیب کا مسکن تھا دونوں کے آثار راستہ چلنے والوں کو نظر آتے ہیں۔

۸۰ ۔۔۔  "حجر والے" فرمایا "ثمود" کو۔ ان کے ملک کا نام "حجر" تھا جو مدینہ سے شمال کی طرف واقع ہے۔ ان کی طرف حضرت صالح علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ ایک نبی کا جھٹلانا سب انبیاء کا جھٹلانا ہے۔

۸۱ ۔۔۔ یعنی اونٹنی جو پتھر سے نکالی گئی اور اس کے علاوہ دوسرے معجزات۔

۸۲ ۔۔۔یعنی دنیاوی زندگی پر مغرور ہو کر تکبر و تجبر کی نمائش کے لیے پہاڑوں کو تراش کر بڑے عالی شان مکان بناتے تھے۔ گویا کبھی یہاں سے جانا نہیں یہ بھی سمجھتے ہوں گے کہ ایسی مضبوط و مستحکم عمارتوں میں کوئی آفت کہاں پہنچ سکتی ہے۔

۸۴ ۔۔۔ یعنی مال و دولت، مستحکم عمارات، جسمانی قوت اور دوسرے اسباب و وسائل میں سے کوئی چیز بھی خدا کے عذاب کو دفع نہ کر سکی۔ ان کا قصہ بھی پہلے گزر چکا۔ حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم تبوک جاتے ہوئے "وادی حجر" پر سے گزرے۔ آپ نے سر ڈھانپ لیا۔ سواری کی رفتار تیز کر دی اور صحابہ کو فرمایا کہ معذب قوم کی بستیوں پر مت داخل ہونا مگر (خدا کے خوف سے) روتے ہوئے اگر رونا نہ آئے تو رونے والوں کی صورت بنالو۔ خدا نہ کرے وہ چیز تم کو پہنچے جو ان کو پہنچی تھی۔ یہ آپ نے مسلمانوں کو ادب سکھلایا کہ آدمی اس قسم کے مقامات میں پہنچ کر عبرت حاصل کرے اور خدا کے خوف سے لرزاں و ترساں ہو، محض سیرو تماشا نہ سمجھے۔

۸۵ ۔۔۔  حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "پہلی امتوں کا حال سنا کر فرمایا کہ یہ جہاں یوں ہی خالی نہیں پڑا۔ سر پر ایک مدبر ہے۔ ہر چیز کا تدارک کرنے والا، مکمل اور آخری تدارک کا نام قیامت ہے" اور کفار سے کنارہ کرنے کو فرمایا جب خدا کا حکم پہنچا چکے، تبلیغ کا فرض ادا کر دیا اور کافر ضد پر اڑا رہے، تب حکم ہوا کہ زیادہ جھگڑنے سے فائدہ نہیں اب وعدہ کی راہ دیکھو اور ان کی تکلیف و ایذا پر صبر کرو، حرف شکایت زبان پر نہ لاؤ یہاں تک کہ خدا کا فیصلہ پہنچ جائے۔

۸۶ ۔۔۔ جس کو تیرے صبر اور ان کی ایذاء کی سب خبر ہے، ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا۔ اس آیت میں گویا معاد کی تقریر فرما دی، یعنی جس نے ایک مرتبہ پیدا کیا دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے اور جس چیز کے اجزاء منتشر ہو گئے ہوں اس کو ہر جزء کی خبر ہے، جہاں کہیں ہو گا سب کو جمع کر دے گا۔ دوسری جگہ فرمایا "اَوَلَیْسَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَاْلاَرْضَ بِقَادِرٍ عَلیٰ اَنْ یَّخْلُقَ مِثْلَہُمْ بَلیٰ وَہُوَ الْخَلاَّقُ الْعَلِیْمُ" الیٰ آخرالآیۃ (یٰس، رکوع ۵، آیت ۸۱)

۸۷ ۔۔۔  حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی یہ اتنی بڑی نعمت تجھ کو عطا ہوئی اور کافروں کی ضد سے خفا نہ ہو" (تنبیہ) "سبع مثانی" کے مصداق میں اختلاف ہے۔ صحیح اور راجح یہ ہی ہے کہ اس سے مراد سورہ فاتحہ کی سات آیتیں ہیں جو ہر نماز کی ہر رکعت میں دہرائی جاتی ہیں اور جن کو بطور وظیفہ کے بار بار پڑھا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے کہ حق تعالیٰ نے تورات، انجیل، زبور، قرآن کسی کتاب میں اس کا مثل نازل نہیں فرمایا۔ احادیث صحیحہ میں تصریح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے  "سورہ فاتحہ" کو فرمایا کہ یہ ہی "سبع مثانی" اور قرآن عظیم ہے جو مجھ کو دیا گیا۔ اس چھوٹی سی سورت کو "قرآن عظیم" (بڑا قرآن) فرمانا درجہ کے اعتبار سے ہے۔ اس سورت کو اُم القرآن بھی اس لحاظ سے کہتے ہیں کہ گویا یہ ایک خلاصہ اور متن ہے جس کی تفصیل و شرح پورے قرآن کو سمجھنا چاہیے۔ قرآن کے تمام علوم و مطالب کا اجمالی نقشہ تنہا اس سورت میں موجود ہے یوں مثانی کا لفظ بعض حیثیات سے پورے قرآن پر بھی اطلاق کیا گیا ہے اَللَّہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَاباً مُّتَشَابِہًا مَّثَانِیَ الخ (زمر، رکوع ۳، آیت ٢۳) اور ممکن ہے دوسری سورتوں کو مختلف وجوہ سے "مثانی" کہہ دیا جائے، مگر اس جگہ "سبع مثانی" اور قرآن عظیم " کا مصداق یہ ہی سورت (فاتحہ) ہے۔

۸۸ ۔۔۔ ۱: یعنی مشرکین، یہود و نصاریٰ اور دوسرے دشمنان خدا و رسول کو دنیا کی چند روزہ زندگی کا جو سامان دیا ہے اس کی طرف نظر نہ کیجئے کہ ان ملعونوں کو یہ سامان کیوں دے دیا گیا جس سے ان کی شقاوت و شرارت زیادہ بڑھتی ہے یہ دولت مسلمانوں کو ملتی تو اچھے راستہ میں خرچ ہوتی۔ ان کو تھوڑی دیر مزہ اڑا لینے دو۔ تم کو خدا تعالیٰ نے وہ دولت قرآن دی ہے جس کے آگے سب دولتیں گرد ہیں۔ روایات میں ہے کہ جس کو خدا تعالیٰ نے قرآن دیا پھر کسی کی اور نعمت دیکھ کر ہوس کرے تو اس نے قرآن کی قدر نہ جانی۔

۲: غم نہ کھا کہ مسلمان کیوں نہیں ہوتے۔ آپ فرض تبلیغ ادا کرتے رہیں، معاندین کے پیچھے اپنے کو زیادہ فکرو غم میں مبتلا نہ کیجئے۔ آپ کی شفقت و ہمدردی کے مستحق مومنین ہیں ان کے ساتھ ملاطفت، نرم خوئی اور شفقت و تواضع کا برتاؤ رکھیئے۔

۸۹ ۔۔۔  یعنی کوئی مانے یا نہ مانے میں خدا کا پیام صاف صاف پہنچائے دیتا ہوں اور تکذیب و شرارت کے عواقب سے خوب کھول کر آگاہ کر رہا ہوں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "تیرا کام دل پھیر دینا نہیں، یہ خدا سے ہو سکتا ہے۔ جو کوئی ایمان نہ لائے تو غم نہ کھا۔

۹۱ ۔۔۔ ۱: اس آیت کے معنی کئی طرح کیے گئے ہیں۔ بعض نے کہا کہ "مُقْتَسِمِیْن" (بانٹنے والوں) سے مراد آپ کے زمانہ کے یہود و نصاریٰ وغیرہ ہیں جنہوں نے قرآن کی تقسیم و تحلیل کر رکھی تھی۔ یعنی جو مضمون قرآنی ان کی تحریفات یا آراء و اہواء کے موافق پڑ جائے مان لو، جو خلاف ہو نہ مانو۔ مطلب یہ ہو گا کہ ہم نے تجھے "سبع مثانی" اور "قرآن عظیم" دے کر بھیجا جیسے ان لوگوں پر بھی پہلے کتابیں نازل کی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر کتاب اتارنا یا وحی بھیجنا کوئی انوکھی بات نہیں جس کا انکار کیا جائے بعض نے "مُقْتَسِمِیْنَ" سے یہود و نصاریٰ مراد لے کر لفظ قرآن سے کتب سابق مراد لی ہیں۔ یعنی انہوں نے تحریف کر کے اپنی کتابوں کو پارہ پارہ کر ڈالا بعض نے کہا مشرکین مراد ہیں جو بطور استہزاء و تمسخر قرآن کی تقسیم کرتے تھے۔ جب سورتوں کے نام سنتے تو ہنس کر آپس میں کہتے۔ بقرہ یا مائدہ میں لوں گا۔ عنکبوت تجھ کو دوں گا۔ ان لوگوں نے ایک اور طرح بھی قرآن کے متعلق خیالات تقسیم کر رکھے تھے کوئی اسے شاعری بتاتا، کوئی کہانت، کوئی جادو، کوئی مجنون کی بڑ، کوئی اساطیر الاولین، ان کو آگاہ کیا کہ میں سب کو عذاب سے ڈرانے والا ہوں، جیسا عذاب یقیناً نازل ہونے والا ہے ان ٹھٹھا کرنے والوں پر۔ اس وقت "اَنْزَلْنَا" کی تعبیر اس لحاظ سے ہو گی کہ متیقن الوقوع اور قریب الوقوع مستقبل کو گویا ماضی فرض کر لیا گیا۔ ابن کثیر نے "مُقْتَسِمِیْنَ" کے معنی قسم کھانے والوں کے لیے ہیں یعنی وہ گزشتہ قومیں جو انبیاء کی تکذیب و مخالفت کے حلف اٹھا چکی تھیں اور جھوٹی باتوں پر قسمیں کھاتی تھیں اور انہوں نے کتب سماویہ کے ٹکڑے کر دیئے تھے۔ جیسا عذاب ہم نے ان پر اتارا، اسی طرح کے عذاب سے یہ " نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ "تم کو ڈراتا ہے "مُقْتَسِمِیْنَ"کے اس معنی کی تائید میں ابن کثیر نے ذیل کی آیات پیش کی ہیں۔ " تَقَاسَمُوْا بِاللّٰہِ لَنُبَیتِّنَّہ وَاَہْلَہ،" (نمل، رکوع ۴، آیت ۴۹) وَاَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لاَیَبْعَثُ اللّٰہ مَنْ یَّمُوْتُ(نحل، رکوع ۵، آیت ۳۸) اَوَلَمْ تَکُوْنُوْا اَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ مَالَکُمْ مِّنْ زَوَالٍ (ابراہیم، رکوع ۷، آیت ۴۴)

۲: أھؤُلَآءِ الَّذِیْنَ اَقْسَمْتُمْ لَا یَنَالُہُمُ اللّٰہ بِرَحْمَۃٍ (اعراف رکوع ۶، آیت ۴۹)

۹۳ ۔۔۔  یعنی کس کی عبادت کی تھی؟ پیغمبروں کے ساتھ کس طرح پیش آئے تھے؟ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کیوں نہ مانا تھا؟ اس کلمہ کا حق کیوں ادا نہیں کیا تھا؟ یہ اور اسی قسم کے نہ معلوم کتنے سوالات ہوں گے۔

۹۴ ۔۔۔   یعنی کہنے میں کوتاہی نہ کیجئے خوب کھول کر خدائی پیغامات پہنچائیے۔ یہ مشرکین آپ کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے۔

۹۵ ۔۔۔یعنی دنیا و آخرت میں ہم سب ٹھٹھا کرنے والوں سے نبٹ لیں گے آپ بے خوف و خطر تبلیغ کرتے رہیے آپ کا بال بیکا نہ ہو گا۔

۹۶ ۔۔۔  یعنی رسول کے ساتھ استہزاء کرنا اور خدا کے لیے شریک ٹھہرانا، دونوں باتوں کا انجام یہ لوگ دیکھ لیں گے۔

۹۸ ۔۔۔  یعنی اگر ان کی ہٹ دھرمی سے دل تنگ ہو تو آپ ان کی طرف سے توجہ ہٹا کر ہمہ تن خدا کی تسبیح و تحمید میں مشغول رہیے۔ خدا کا ذکر، نماز، سجدہ، عبادت الٰہی وہ چیزیں ہیں جن کی تاثیر سے قلب مطمئن و منشرح رہتا ہے اور فکر و غم دور ہوتے ہیں۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی عادت تھی کہ جب کوئی مہم بات فکر کی پیش آتی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نماز کی طرف جھپٹتے۔

۹۹ ۔۔۔  ۱: یعنی موت۔ یقین کا لفظ دوسری جگہ قرآن نے اسی معنی میں استعمال کیا ہے "وَکُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوْمِ الدّیْنِ حَتّیٰ اَتَانَا اْلیَقِیْنُ (مدثر، رکوع ٢، آیت ۴۶) حدیث میں ایک میت کی نسبت آپ نے فرمایا۔ "اَمَّا ھوَ فَقَدْ جَآءَہُ الْیَقِیْنْ وَاِنِّی لَاَرْجُوْلَہ اَلْخَیْرَ" جمہور سلف نے اس آیت میں "یقین" کو بمعنی موت لیا ہے یعنی مرتے دم تک خدا کی عبادت میں لگے رہیے۔

 اندریں رہ میتراش و میخراش تاد مِ آخر دمے فارغ مباش

 جن بعض عارفی نے اس جگہ "یقین" کو کیفیت قلبیہ کے معنی میں لیا ہے اس کی توجیہ روح المعانی میں مذکور ہے دیکھ لی جائے۔ تَمَّ سُوْرَۃُ الْحِجْرِ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ وَالْمِنَّۃُ وَھوَالْمَسْئُولُ اَنْ یَّتَوَفَّانَا عَلیٰ اَکْمَلِ الْاَحْوَالِ وَاَحْسَنِہَا فَاِنَّہ جَوَّادٌ کَرِیْمٌ۔