تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الحِجر

(سورۃ الحجر ۔ سورہ نمبر ۱۵ ۔ تعداد آیات ۹۹)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     الر۔ یہ آیتیں ہیں اس کتاب الٰہی کی اور کھول کر بیان کر دینے والے عظیم الشان قرآن کی۔

۲۔۔۔     جب کافر لوگ رہ رہ کر پچھتائیں گے ، کہ کاش ہم مسلمان ہوتے ،

۳۔۔۔     چھوڑ دو ان کو ان کے حال پر، کہ کھاتے پیتے اور عیش کرتے رہیں ، اور بھلاوے میں ڈالے رکھیں ان کو ان کی جھوٹی آرزوئیں (اور امیدیں)، عنقریب ان کو (سب کچھ) خود ہی معلوم ہو جائے گا،

۴۔۔۔      اور جس بستی کو بھی ہم نے ہلاک (اور برباد) کیا اس کے لئے ایک مقررہ وقت رہا ہے لکھا ہوا،

۵۔۔۔      کوئی بھی قوم نہ تو اپنے مقرر وقت سے پہلے ہلاک ہوئی ہے اور نہ ہی اس سے پیچھے رہ سکی ہے ،

۶۔۔۔      اور کہتے ہیں یہ لوگ (اللہ کے رسول سے) کہ اے وہ شخص جس پر اتارا گیا ہے یہ ذکر، تو تو پرلے درجے کا دیوانہ ہے ،

۷۔۔۔     کیوں نہیں لے آتا تو ہمارے پاس فرشتوں کو اگر واقعی تو سچا ہے (اپنے دعووں میں)

۸۔۔۔      (حالانکہ ہمارا دستور یہ ہے کہ) ہم فرشتوں کو نہیں اتارتے مگر حق کے ساتھ، اور اس وقت ایسے منکروں کو کوئی مہلت بھی نہیں ملتی،

۹۔۔۔      اور بلاشبہ ہم ہی نے اتارا ہے اس ذکر (قرآن حکیم) کو، اور بلاشبہ ہم خود ہی اس کے (محافظ و) نگہبان بھی ہیں ،

۱۰۔۔۔      اور بلاشبہ ہم آپ سے پہلے بھی (اے پیغمبر!) بہت سی اگلی امتوں میں رسول بھیج چکے ہیں ،

۱۱۔۔۔      ان کے پاس بھی کوئی رسول ایسا نہیں آیا جس کا انہوں نے مذاق نہ اڑایا ہو، (پس آپ ان کی تکذیب سے غمزدہ و افسردہ نہ ہوں)،

۱۲۔۔۔     اسی طرح اتار دیتے ہیں ہم اس (تکذیب و استہزاء) کو مجرموں کے دلوں میں

۱۳۔۔۔      یہ اس پر ایمان نہیں لاتے ، اور یہی طریقہ (و دستور) رہا ہے پہلے لوگوں کا،

۱۴۔۔۔      اور (ان کے عناد اور ہٹ دھرمی کا عالم یہ ہے کہ) اگر ہم ان پر آسمان میں کوئی دروازہ بھی کھول دیں ، پھر یہ اس سے خود اوپر چڑھنے بھی لگ جائیں گے

۱۵۔۔۔     تب بھی یہ (ماننے کی بجائے الٹا) یوں کہنے لگیں گے کہ ہماری تو نظر بندی کر دی گئی ہے ، بلکہ ہم لوگوں پر تو بالکل جادو ہی کر دیا گیا ہے ،

۱۶۔۔۔      اور بلاشبہ ہم ہی نے رکھ دئیے آسمان میں عظیم الشان برج، اور ہم ہی نے ان کو مزین کر دیا دیکھنے والوں کے لئے

۱۷۔۔۔     اور ہم ہی نے ان کی حفاظت کا سامان کیا ہر شیطان مردود (کی دست درازی) سے ،

۱۸۔۔۔      مگر یہ کوئی چوری چھپے کچھ سن ون لے ، تو اس کا پیچھا کرتا ہے ایک شعلہ روشن،

۱۹۔۔۔      اور زمین (کے اس عظیم الشان کرے) کو بھی ہم ہی نے (بچھایا) پھیلایا (اپنے کمال قدرت و حکمت سے) اور ہم ہی نے ڈال دئیے اس میں (پہاڑوں کے) عظیم الشان لنگر، اور اگائی ہم نے اس میں ہر چیز نپی تلی مقدار کے مطابق،

۲۰۔۔۔      اور ہم ہی نے رکھ دئیے اس میں طرح طرح کے سامان زیست، تمہارے لئے بھی اور ان سب کے لئے بھی جن کے روزی رساں (ظاہری طور پر بھی) تم نہیں ہو،

۲۱۔۔۔      اور کوئی چیز ایسی نہیں جس کے ہمارے پاس (خزانوں کے) خزانے نہ ہوں اور جس چیز کو بھی ہم اتارتے ہیں ایک مقرر مقدار ہی میں اتارتے ہیں ،

۲۲۔۔۔      اور ہم ہی بھیجتے ہیں ہواؤں کو بار آور بنا کر، پھر ہم ہی اتارتے ہیں آسمان سے پانی (ایک نہایت ہی پر حکمت نظام کے تحت)، سو (اس طرح اپنی رحمت و عنایت سے) ہم تمہاری سیرابی کا سامان کرتے ہیں ، ورنہ تم ایسے نہیں کہ (اپنے طور پر اس طرح) اس کو سٹور کر سکو،

۲۳۔۔۔      اور بلاشبہ یہ بھی ایک قطعی حقیقت ہے کہ زندگی بھی ہم ہی بخشتے ہیں اور موت بھی ہمارے ہی قبضہ میں ہے ، اور ہم ہی ہیں سب کے وارث

۲۴۔۔۔     اور بلاشبہ ہم خوب جانتے ہیں تم میں سے آگے بڑھنے والوں کو بھی، اور ہم خوب جانتے ہیں پیچھے رہنے والوں کو بھی،

۲۵۔۔۔     اور بلاشبہ تمہارا رب اکٹھا کر لائے گا ان سب کو (میدان حشر میں) بے شک وہ بڑا ہی حکمت والا، نہایت ہی علم والا ہے ،

۲۶۔۔۔      اور بلاشبہ ہم ہی نے پیدا کیا انسان کو سڑے ہوئے گارے کی (ٹھیکرے کی طرح) بجتی مٹی سے ،

۲۷۔۔۔      اور جنوں کو بھی ہم ہی نے پیدا کیا، اس سے پہلے آگ کی لو (اور لپٹ) سے ،

۲۸۔۔۔      اور (وہ بھی یاد کرو کہ) جب تمہارے رب نے فرمایا فرشتوں سے کہ بے شک میں پیدا کرنے والا ہوں ایک انسان کو سڑے ہوئے گارے کی (ٹھیکرے کی طرح) بجتی مٹی سے ،

۲۹۔۔۔      پس جب میں اس کو پورا بنا چکوں ، اور میں پھونک دوں اپنی روح سے ، تو تم سب اس کے آگے سجدہ ریز ہو جانا،

۳۰۔۔۔      سو (جب ایسا ہو گیا تو حسب ہدایت) فرشتے سجدہ ریز ہو گئے اس کے آگے ، سب کے سب ایک ساتھ،

۳۱۔۔۔      بجز ابلیس کے ، کہ اس نے انکار کر دیا اس بات سے کہ وہ شامل ہو سجدہ کرنے والوں کے ساتھ،

۳۲۔۔۔      پروردگار نے پوچھا اے ابلیس تجھے کیا ہوا؟ کہ تو شامل نہ ہوا سجدہ کرنے والوں کے ساتھ،

۳۳۔۔۔      اس نے جواب میں کہا کہ مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ میں سجدہ کروں ایک ایسے بشر (اور انسان) کو جسے تو نے پیدا کیا سڑے ہوئے گارے کی بجتی (اور کھنکھناتی) مٹی سے ،

۳۴۔۔۔      ارشاد ہوا کہ پس تو نکل جا یہاں سے ، کہ تو تو پکا مردود ہے ،

۳۵۔۔۔      اور (اب) تجھ پر لعنت (اور پھٹکار) ہے قیامت کے دن تک،

۳۶۔۔۔     اس نے کہا اے میرے رب تو پھر تو مجھے مہلت دے دے اس دن تک جس دن کہ (دوبارہ) زندہ کر کے اٹھایا جائے گا لوگوں کو

۳۷۔۔۔      فرمایا اچھا تجھے مہلت ہے ،

۳۸۔۔۔      اس مقررہ وقت کی تاریخ تک،

۳۹۔۔۔      کہنے لگا اے میرے رب بوجہ اس کے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا، میں ان (کی گمراہی) کے لئے طرح طرح کی دلفریبیوں سے کام لوں گا تیری زمین میں ، اور (اس کے نیچے میں) میں ان سب کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا،

۴۰۔۔۔      سوائے تیرے ان خاص بندوں کے جنہیں تو نے ان میں سے چن لیا ہو گا،

۴۱۔۔۔      فرمایا ہاں (ایمان و اطاعت کا) یہ راستہ ہے جو سیدھا مجھ تک پہنچتا ہے ،

۴۲۔۔۔      بے شک میرے خاص بندوں پر تیرا کچھ بھی بس نہیں چل سکے گا، سوائے ان بہکے ہوئے لوگوں کے ، جو خود ہی تیرے پیچھے چل پڑیں گے ،

۴۳۔۔۔      اور ان سب کا ٹھکانا یقینی طور پر جہنم ہے ،

۴۴۔۔۔      جس کے ساتھ دروازے ہیں ، ان میں ہر ایک دروازے کے لئے ایک حصہ ہے طے شدہ،

۴۵۔۔۔     (اس کے برعکس) پرہیزگار لوگ یقینی طور پر عظیم الشان جنتوں اور چشموں میں ہوں گے

۴۶۔۔۔     ان سے کہا جائے گا کہ داخل ہو جاؤ تم ان میں ہر طرح کی سلامتی اور پورے امن (و سکون) کے ساتھ

۴۷۔۔۔      اور نکال دیں گے ہم ان کے سینوں سے جو بھی کوئی کھوٹ (کھپٹ دنیاوی زندگی میں ان کے دلوں میں) رہا ہو گا وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر (نہایت سکون و اطمینان سے) بیٹھے ہوں گے ،

۴۸۔۔۔      انہیں نہ تو وہاں کوئی تکلیف پہنچے گی اور نہ ہی انہیں وہاں سے کبھی نکالا جائے گا،

۴۹۔۔۔      خبر کر دو (اے پیغمبر!) میرے بندوں کو، کہ بے شک میں بڑا ہی درگزر کرنے والا، انتہائی مہربان ہوں ،

۵۰۔۔۔      اور یہ کہ بے شک میرا عذاب بھی بڑا ہی (سخت اور) دردناک عذاب ہے ،

۵۱۔۔۔     اور انہیں ذرا ابراہیم کے مہمانوں کا قصہ بھی سنا دو

۵۲۔۔۔      جب کہ وہ ان کے پاس آئے اور انہیں سلام کہا، تو ابراہیم نے ان سے کہا کہ ہمیں تو تم سے ڈر لگ رہا ہے ،

۵۳۔۔۔      انہوں نے جواب دیا ڈرئیے نہیں ہم تو آپ کو خوشخبری سنانے آئے ہیں ایک ایسے عظیم الشان لڑکے کی، جو کہ بڑا علم والا ہو گا،

۵۴۔۔۔     ابراہیم نے کہا کیا تم مجھے اس بڑھاپے میں یہ خوشخبری سنا رہے ہو؟ سو یہ کیسی خوشخبری تم مجھے سنا رہے ہو؟

۵۵۔۔۔      انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے تو آپ کو سچی خوشخبری سنا دی ہے ، لہٰذا آپ نا امید نہ ہوں

۵۶۔۔۔      ابراہیم نے فرمایا (یہ تو محض تعجب کی بناء پر ہے ، ورنہ) کون ہے جو نا امید ہو اپنے رب کی رحمت سے ، بجز گمراہوں کے ،

۵۷۔۔۔      پھر پوچھا اچھا تو تمہاری اصل مہم کیا ہے ، اے فرستادگان الٰہی؟

۵۸۔۔۔      انہوں نے جواب دیا ہمیں تو دراصل بھیجا گیا ہے ایک مجرم قوم کی طرف،

۵۹۔۔۔     بجز لوط والوں کے کہ ان سب کو ہم نے بچا لینا ہے

۶۰۔۔۔      سوائے ان کی بیوی کے کہ اس کے بارے میں ہم نے طے کر لیا ہے کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں شامل رہے گی،

۶۱۔۔۔      پھر جب آ پہنچے وہ فرشتے لوط والوں کے پاس،

۶۲۔۔۔      تو اس نے کہا کہ آپ لوگ تو بالکل اجنبی لگتے ہیں ،

۶۳۔۔۔      انہوں نے جواب دیا (کہ نہیں ہم آدمی نہیں) بلکہ ہم تو آپ کے پاس وہ کچھ لے کر آئے ہیں جس کے بارے میں یہ لوگ شک کرتے تھے ،

۶۴۔۔۔      ہم تو آپ کے پاس سچا حکم لے کر آئے ہیں ، اور یقیناً ہم بالکل سچے ہیں ،

۶۵۔۔۔      لہٰذا آپ نکل جائیں (یہاں سے) رات کا کچھ حصہ رہے ، اپنے تعلق داروں کو ساتھ لے کر، اور آپ خود ان کے پیچھے پیچھے چلیں ، تم میں سے کوئی پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھیے ، اور چل نکلو تم سب جہاں جانے کا تمہیں حکم دیا جاتا ہے ،

۶۶۔۔۔      اور ہم نے لوط کو یہ بات قطعی طور پر واضح کر دی تھی کہ یقیناً جڑ کاٹ کر رکھ دی جائے گی ان (بدبخت لوگوں) کی صبح ہوتے ہی،

۶۷۔۔۔      اور آ پہنچے اس دوران شہر کے لوگ خوشیاں مناتے ہوئے ،

۶۸۔۔۔      لوط نے (بڑے درد بھرے انداز میں ان سے) کہا کہ (بھائیو) یہ لوگ میرے مہمان ہیں ، لہٰذا تم (ان کو پریشان کر کے) مجھے بے آبرو نہ کرو،

۶۹۔۔۔      اللہ سے ڈرو اور مجھے رسوا نہ کرو،

۷۰۔۔۔      انہوں نے (پوری ڈھٹائی اور بدبختی سے) کہا، کیا ہم نے تمہیں روکا نہیں دنیا بھر کے لوگوں (کی مہمان نوازی کا دم بھرنے) سے ،

۷۱۔۔۔      لوط نے کہا یہ میری (قومی) بیٹیاں (جو تمہارے گھروں میں) موجود ہیں ، اگر تمہیں کچھ کرنا ہے (تو ان سے جائز طریقے سے اپنا مطلب پورا کر لو)،

۷۲۔۔۔     (مگر) تمہاری عمر کی قسم وہ لوگ اپنی مستی میں بالکل مدہوش ہوئے جا رہے تھے

۷۳۔۔۔      آخرکار دن چڑھتے ہی آ پکڑا ان کو اس ہولناک آواز نے (جو ان کی تباہی کیلئے مقدر ہو چکی تھی)،

۷۴۔۔۔      سو پلٹ کر کے رکھ دیا ہم نے اس (بستی) کو، اور برسا دی اس پر بارش کھنگر کے پتھروں کی،

۷۵۔۔۔      بے شک اس میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں (عقل و) فراست والوں کیلئے ،

۷۶۔۔۔      بے شک یہ بستی واقع ہے ایک (کھلی اور) عام گزرگاہ پر،

۷۷۔۔۔     بے شک اس (قصے) میں بڑی بھاری نشانی (اور سامان عبرت و بصیرت) ہے ایمان والوں کیلئے

۷۸۔۔۔      اور أیکہ والے (شعیب کی قوم کے لوگ) بھی بڑے ظالم تھے ،

۷۹۔۔۔      سو ہم نے ان سے بھی (آخرکار) انتقام لیا، اور یہ دونوں ہی قومیں (اور ان کے کھنڈرات) واقع ہیں ایک کھلی شاہراہ پر،

۸۰۔۔۔      اور حجر کے لوگوں نے بھی جھٹلایا رسولوں کو،

۸۱۔۔۔      ہم نے ان کو بھی اپنی نشانیاں عطاء کی تھیں ، مگر وہ ان سے روگردانی ہی کرتے گئے ،

۸۲۔۔۔      وہ پہاڑوں کو تراش تراش کر اپنے گھر بنایا کرتے تھے ، اور اپنے طور پر وہ بڑے بے خوف (اور مطمئن) تھے ،

۸۳۔۔۔      آخرکار (تکذیب حق کی پاداش میں) آ پکڑا ان کو صبح ہوتے ہی ایک ہولناک آواز نے ،

۸۴۔۔۔      سو (اس موقع پر) ان کے کچھ بھی کام نہ آ سکا وہ سب کچھ جو کہ وہ (زندگی بھر) کماتے رہے تھے ،

۸۵۔۔۔      اور ہم نے نہیں پیدا کیا آسمانوں اور زمین اور ان دونوں کے درمیان (کی اس عظیم الشان کائنات) کو مگر حق کے ساتھ، اور (فیصلے کی) اس گھڑی نے (اپنے وقت پر) بہرحال آ کر رہنا ہے ، پس آپ (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم) شریفانہ درگزر ہی سے کام لیتے رہیں (ان لوگوں کی بیہودگیوں پر)،

۸۶۔۔۔      بے شک آپ کا رب ہی ہے ، سب کچھ پیدا کرنے والا، سب کچھ (پوری طرح) جاننے والا

۸۷۔۔۔      اور بلاشبہ ہم ہی نے عطا کیں آپ کو (اے پیغمبر!) بار بار دہرائی جانے والی سات آیتیں اور عظمتوں بھرا یہ قرآن،

۸۸۔۔۔      اور کبھی نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھنا ان چیزوں کی طرف جن سے ہم نے نوازا ہے ان کے مختلف گروہوں کو (دنیائے فانی کی اس زندگی میں)، اور نہ کبھی غم کھانا ان کے حال پر، اور جھکائے رکھنا اپنے بازوئے (شفقت و عنایت) کو ایمان والوں کے لئے ،

۸۹۔۔۔      اور کہہ دو (ان منکروں سے) کہ میرا کام تو بس خبردار کر دینا ہے کھول کر،

۹۰۔۔۔      (کہ ان منکروں پر بھی عذاب اسی طرح آ سکتا ہے) جس طرح کہ ہم اتار چکے ہیں ان حصے بخرے کرنے والوں پر،

۹۱۔۔۔      جنہوں نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا اللہ کی کتاب کو،

۹۲۔۔۔      سو قسم ہے تمہارے رب کی ہم نے ضرور پوچھنا ہے ان سب سے ،

۹۳۔۔۔      ان کے ان کرتوتوں کے بارے میں ، جو یہ لوگ کرتے رہے تھے ،

۹۴۔۔۔      پس آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھول کر بیان کر دیں اس (حق اور حقیقت) کو جس کا حکم دیا جاتا ہے آپ کو، اور منہ موڑ لو مشرکوں سے ،

۹۵۔۔۔      بے شک ہم کافی ہیں آپ کو (اے پیغمبر!) ان مذاق اڑانے والوں (کی خبر لینے) کو،

۹۶۔۔۔      جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو بھی معبود قرار دیتے ہیں ، سو عنقریب انہیں ، خود معلوم ہو جائے گا

۹۷۔۔۔      اور اچھی طرح معلوم ہے کہ آپ کا سینہ تنگ ہو رہا ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں ،

۹۸۔۔۔      سو (ان کے علاج کے لئے) آپ تسبیح کرتے رہیں اپنے رب کی حمد کے ساتھ اور شامل رہیں (اپنے رب کے حضور) سجدہ کرنے والوں میں ،

۹۹۔۔۔     اور بندگی کرتے رہیں اپنے رب کی یہاں تک کہ آ پہنچے آپ کو موت۔

تفسیر

 

۱۔۔۔     یعنی الکتاب میں الف لام عہد کا ہے اور اس سے مراد وہ کتاب الٰہی ہے جس کے نازل فرمانے کا وعدہ اللہ نے فرمایا تھا۔ کیونکہ اپنے بندوں کی ہدایت کا انتظام کرنا اس نے اپنے ذمے لازم کر رکھا ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اِنَّ عَلَیْنَا لَلْہُدیٰ (الکیل۔۱۲) یعنی ہمارے ذمے ہے ہدایت دینا، پس یہ کتاب عظیم وہ کتاب ہے جس کی خبر اس سے پہلے تشریف لانے والے حضرات انبیاء و رسل نے دی اور قرآن کی تنوین تعظیم و تفخیم کے لئے ہے سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ یہ کلام جن لوگوں کو سنایا جا رہا ہے ایسا عظیم الشان اور بے مثل کلام ہے جو کتاب الٰہی اور کھول کر بیان کرنے والے ایک عظیم الشان قرآن کی آیات پر مشتمل ہے، پس یہ اپنی صداقت و حقانیت پر خود دلیل ہے، اس کو کسی خارجی دلیل کی کوئی ضرورت نہیں، اور یہ ایسا عظیم الشان اور واضح کلام ہے جو حق و ہدایت سے متعلق ہر ضروری چیز کو کھول کر بیان کرتا ہے اور اس طور پر کہ اس میں کسی طرح کا کوئی خفاء وغموض باقی نہیں رہتا۔ اور یہ ایسا منبع خیر وبرکت، اور مصدر علم وحکمت ہے کہ اس سے اعراض و رُوگردانی ہر خیر سے محرومی ہے والعیاذُ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال

۲۔۔۔      ۔ سو آج تو یہ لوگ اپنے کبر و غرور اور اپنے عناد وسرکشی میں ایسے مست ومگن ہیں کہ حق بات پر کان دھرنے اور اس کو سننے اور ماننے کو تیار نہیں ہو رہے، لیکن آگے ایسے مواقع آئیں گے اور بار بار آئیں گے، جب یہ رہ رہ کر تمنا کریں گے کہ کاش کہ ہم ایمان لائے ہوتے، اور مسلمان ہوتے، سو جب ان پر دنیا میں عذاب آئے گا ان کے اپنے کئے کرائے کے نتیجے میں تو اس وقت بھی یہ لوگ ایسی تمنا کریں گے کہ کاش کہ ہم لوگ مسلمان ہوتے، تو اس ہولناک انجام اور عذاب سے دوچار نہ ہوتے، اسی طرح موت کے وقت، اور قبر میں جب یہ جنت سے محرومی اور عذاب آخرت کے نمونے دیکھیں گے، تو اس وقت بھی یہ لوگ تمنا کریں گے کہ کاش کہ ہم مسلمان ہوتے اور اس موقع پر ہمیں ایسی ہولناک محرومی اور سخت عذاب کا منہ نہ دیکھنا پڑتا۔ پھر جب حشر ونشر کے احوال، اور عذاب دوزخ کے ہولناک مناظر دیکھیں گے تو وہاں بھی یہ رہ رہ کر کہیں گے کہ کاش کہ ہم مسلمان ہوتے، تو ایسے ہولناک انجام سے دوچار نہ ہوتے۔ لیکن ایسے افسوسوں اور تمناؤں سے ان کو کوئی فائدہ بہرحال نہیں ہو گا، سوائے ان کی آتش یاس و حسرت میں اضافے کے سو رب رحمان و رحیم نے اپنے اس کلام رحمت و رافت نظام کے ذریعے ان تمام مراحل سے سب کو پیشگی اس طرح خبردار کر دیا۔ کہ تاکہ جس نے بچنا ہو بچ جائے۔ قبل اس سے کہ اس کا موقع اور فرصت اس کے ہاتھ سے نکل جائے اور اس کو ہمیشہ ہمیشہ کے صدمے اور افسوس سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ والعیاذ باللہ، جل وعلا

۳۔۔۔      ۔ یعنی جب یہ لوگ اپنی خرمستیوں میں ایسے محو اور مست و مگن ہیں کہ حق بات کو سننے ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے، تو ان کو انکے حال پر چھوڑ دو یہ دنیاوی زندگی کے چند روز کھا پی لیں۔ دنیا کے مزے لوٹ لیں۔ اور لذیذ امیدوں اور آرزؤں کے خواب دیکھ لیں، عنقریب ہی وہ وقت آ جائے گا جب یہ اپنی خرمستیوں کا نتیجہ و انجام اپنی آنکھوں سے خود دیکھ لیں گے۔ سو یہ ایسے ہٹ دھرموں کے لئے آخری جواب اور علاج ہوتا ہے، کہ جب یہ سننے ماننے کو تیار ہی نہیں تو ان سے الجھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔

۸۔۔۔     ۱: سو اس سے تاخیر عذاب کے سبب اور اس کی وجہ کو واضح فرما دیا گیا۔ یعنی یہ کہ ان لوگوں کے بار بار کے مطالبوں کے باوجود ان پر جو عذاب نہیں آتا تو یہ تاخیر اللہ پاک سبحانہ و تعالیٰ کی ایک سنت پر مبنی ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم پر عذاب بھیجنے سے پہلے اس پر اپنی حجت تمام کرتا ہے۔ سو اس پر تمام حجت کے بعد بھی اگر وہ قوم اپنی سرکشی سے باز نہیں آتی۔ بلکہ اپنے تمرد و سرکشی پر اڑی ہی رہتی ہے۔ اور اخلاقی زوال کی اس حد کو پہنچ جاتی ہے جو کسی قوم کی ہلاکت و تباہی کے لئے نوشتہ خداوندی میں مقرر ہوتی ہے، تو اتمام حجت اور اس مقررہ مدت کی تکمیل کے بعد ایسی قوم پر عذاب آ کر رہتا ہے، اور وہ اپنے انجام کو پہنچ کر رہتی ہے، نہ اس میں ذرہ برابر تاخیر ہوتی ہے۔ اور نہ ایسوں کو اس کے اور کوئی مہلت ملتی ہے، العیاذ باللہ جل وعلا بکل حالٍ من الاحوال

۲:  سو اس سے تنزیل ملائکہ سے متعلق حکمت اور منکرین کے مطالبے کا جواب دیا گیا، یعنی اللہ تعالیٰ کے یہاں مطلوب وہ ایمان ہے جو اپنے ارادہ و اختیار، اور عقل و فکر کی قناعت سے ہو نہ کہ جبر و اکراہ اور مجبوری کا ایمان، اسی لئے وہ بندوں کو اختیار دیتا ہے، فرشتوں کو تو اس وقت اتارا اور بھیجا جاتا ہے، جبکہ لوگ اندھے بہرے بن جاتے ہیں۔ اور ان کو ان کے آخری انجام سے دوچار کرنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہ جاتا۔ تب فرشتے حق کے ساتھ اترتے ہیں اور ان کا کام تمام کر دیتے ہیں۔ اور اس کے بعد ایسے لوگوں کو کوئی مہلت نہیں ملتی، والعیاذ باللہ

۱۵۔۔۔    سو اس سے ان لوگوں کے عناد اور ہٹ دھرمی کو واضح فرما دیا گیا کہ ان کا حال یہ ہے کہ فرشتے چھوڑ اگر ہم ان کے لئے آسمان میں کوئی دروازہ بھی کھول دیں اور وہ بھی اس طور پر کہ یہ اس میں چڑھنے لگ جائیں تو بھی انہوں نے ایمان نہیں لانا۔ بلکہ اس میں بھی یہ کوئی نہ کوئی حیلہ بہانہ ڈھونڈ نکالیں گے۔ اور یہ کہیں گے کہ ہماری تو نظریں ہی بند کر دی گئی ہیں۔ بلکہ ہم سب پر جادو کر دیا گیا ہے سو ان کے ایمان نہ لانے کا اصل سبب یہ نہیں، کہ ان کو ان کی طلب و فرمائش کے مطابق کوئی معجزہ نہیں دکھایا گیا بلکہ انکی محرومی کا اصل سبب اور باعث ان کا عناد و ہٹ دھرمی، ان کا غرور و استکبار، اور ان کی اتباع ہواء کا روگ ہے جس کے نتیجے میں یہ لوگ پیغمبر کی دعوت کو سننے اور ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے، سو عناد و ہٹ دھرمی، غرور و استکبار، اور اتباع ہواء وہوس باعث محرومی ہلاکت ہیں والعیاذُ باللہ العظیم

۱۸۔۔۔    بروج جمع ہے برج کی جس کے معنی قلعہ اور محل وغیرہ کے آتے ہیں۔ یہاں پر اس سے مراد وہ آسمانی قلعے ہیں جو خداوند قدوس نے اپنی قدرت و حکمت سے آسمانوں میں بنا رکھے ہیں۔ جن میں اس کے ملائکہ اور کروبیوں کی وہ فوجیں مامور رہتی ہیں، جو ان حدود اور دائروں کی حفاظت و نگرانی کرتی ہیں، جن سے آگے بڑھنے کی اجازت نہ شیاطین انس کو ہے اور نہ شیاطین جن کو، اور اگر کوئی شیطان ملائے اعلیٰ کی باتوں کو سن گن لینے کی غرض سے ان مقررہ حدود سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتا ہے، تو ایک چمکتا دمکتا شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے، سو جس طرح کسی قلعے کی برجیوں پر مامور سپاہی دشمن کے آدمیوں کی نقل و حرکت پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں، کسی اجنبی کو اپنی حدود کے اندر قدم رکھنے کا موقع نہیں دیتے، اسی طرح خداوند قدوس کے مامور فرشتے ان شیاطین جن کو اپنی حدود کے اندر قدم رکھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ جو ان حدود میں ٹوہ لگانے کے لئے دراندازی کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اگر ان میں سے کوئی ایسا کرے گا تو وہ اس کو شہاب ثاقب کا نشانہ بناتے ہیں سو اس سے اس نظامِ کہانت کی جڑ نکال دی گئی جو زمانہ جاہلیت میں بڑے عروج پر تھا۔ اور جس کی آڑ میں غیب دانی کا دعوی کر کے سادہ لوح عوام کو لوٹا جاتا تھا۔ سو قرآن حکیم نے واضح فرما دیا کہ ملائے اعلیٰ کے دائروں تک ان کو کوئی رسائی حاصل نہیں۔ اگر وہ چوری چھپے وہاں کان لگانے کی کوشش کرتے ہیں تو شہاب ثاقب کی بارش کا ہدف بنتے ہیں اسی لئے یہاں شیطان کی صفت رجیم وارد ہوئی۔ جس کے معنی ہوتے ہیں رجم کیا ہوا۔ سنگسار کیا ہوا۔ کیونکہ ان کا وہاں پر اسی طرح رجم کیا جاتا ہے،

۲۰۔۔۔   سو آسمان کی نشانیوں کے بعد اس ارشاد سے زمین کی نشانیوں کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی ہے۔ سو جس طرح آسمان کی عظیم الشان چھت تمہارے سروں کے اوپر تنی ہوئی ہے، اور اس کو عظیم الشان قمقموں سے نہایت ہی پُر حکمت طریقے سے سجایا گیا ہے۔ اسی طرح زمین کے اس عظیم الشان بچھونے کو نہایت ہی پُر حکمت طریقے سے تمہارے قدموں کے نیچے بچھا دیا گیا ہے۔ اس میں پہاڑوں کے عظیم الشان لنگر بھی ڈال دیئے۔ تاکہ یہ تم لوگوں کو لے کر ڈولنے نہ لے۔ اور اس میں اس نے قسما قسم کی نباتات بھی پیدا کر دیں۔ اور تمہاری زیست کے لئے طرح طرح کے سامان ہائے زیست بھی رکھ دیئے، اور اس میں اس نے ہر چیز کو نہایت ہی توازن اور تناسب کے ساتھ رکھا ہے، اور اسی توازن و تناسب کی برکت سے یہ تمہارے لئے سازگار بنی ہوئی ہے۔ فالحمد للہ جل و علا، سو اس میں عظیم الشان درسہائے عبرت و بصیرت ہیں، غور و فکر سے کام لینے والوں کیلئے۔

۲۵۔۔۔    سو اس کی صفت حکمت کا تقاضا ہے کہ وہ ایسا یوم حساب بپا کرے۔ تاکہ ہر کسی کو زندگی بھر کے کئے کرائے کا صلہ و بدلہ ملے۔ تاکہ اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور علی وجہ التمام و الکمال پورے ہوں۔ اور تخلیق کائنات کے مقصد کا بھی تحقق ہو سکے۔ ورنہ یہ سارا کارخانہ قدرت عبث و بے قرار پائے گا، جو کہ اس کی حکمت کے تقاضوں کے خلاف ہے اور ساتھ ہی وہ چونکہ علیم بھی ہے اس لئے نہ کوئی اس سے اوجھل ہو سکتا ہے اور نہ ہی وہ کسی کے عمل سے بے خبر ہے سبحانہ و تعالیٰ پس بندے کو ایک طرف تو اپنے اس انجام کو ہمیشہ شاد رکھنا چاہیے اور اس کے لئے تیاری کرتے رہنا چاہیئے۔ اور دوسری طرف اس حقیقت کو بھی ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے کہ میرا معاملہ ہمیشہ اللہ کے ساتھ صحیح رہے۔ کہ اس سے میری کوئی بھی حالت اور کیفیت کسی بھی طور پر مخفی نہیں ہو سکتی۔ وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی ما یُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الاحوال، وَفِیْ کُلِّ مَوْطَنٍ مِّن الموافق فی الحیاۃ۔

۲۶۔۔۔    سو جس انسان کی تخلیق ایسے حقیر مادے سے ہو، اس کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اتنا تکبر کرے اور اس قدر اکڑے؟ اور یہاں تک کہ وہ حق کی آواز کو بھی سننے اور ماننے کے لئے تیار نہ ہو سو بندے کی تخلیق اور اس کے مادہ تخلیق کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا شعار عجز و انکسار ہو۔ اور وہ حق بات کو سننے اور ماننے والا ہو نہ کہ اکڑنے والا، کہ یہ طریقہ ابلیس کا ہے جس کا مادہ تخلیق آگ ہے۔ جبکہ انسان کا مادہ تخلیق مٹی ہے جس میں عاجزی، فروتنی، عجز و انکسار، اور تحمل و برداشت، وغیرہ کی صفات و خصوصیات پائی جاتی ہیں اس لئے انسان کو ہمیشہ انہی صفات و خصوصیات کا حامل اور آئینہ دار ہونا چاہئے، وباللہ التوفیق

۲۹۔۔۔    اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ انسان کے تمام روحانی کمالات کا منبع اور سرچشمہ وہ نور الٰہی ہے جو حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ کی طرف سے اس کی فطرت میں ودیعت فرمایا گیا ہے۔ اسی لئے حضرت حق جَلَّ مَجْدہٗ نے فرشتوں سے فرمایا کہ جب میں آدم کا تسویہ کر کے اس میں اپنی روح سے پھونک دُوں تو تم سب اس کے آگے سجدہ ریز ہو جانا۔ سو اسی نور الٰہی سے بندہ خاکی کا تعلق اس کے خالق و مالک سے جڑتا ہے۔ بشرطیکہ وہ قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ اس نور الٰہی کی حفاظت کرے۔ اور اگر وہ خدا نخواستہ اس کو ضائع کر دے والعیاذُ باللہ، تو پھر وہ ایک بے چراغ گھر بن کر رہ جاتا ہے۔ جس میں تاریکی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ ہمیشہ ہر حال میں اور ہر اعتبار سے اپنی خاص رحمتوں اور عنایتوں کے سامنے رکھے، آمین

۳۳۔۔۔    سو اس سے اطاعت و فرمانبرداری اور معصیت و نافرمانی کے دو متضاد نمونے سامنے آتے ہیں چنانچہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکم و ارشاد کے مطابق فوراً سب کے سب حضرت آدم کے لئے سجدہ ریز ہو گئے، سوائے ابلیس کے کہ اس نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اور انکار بھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں کیا۔ اور پھر وہ اپنی نافرمانی پر اڑ گیا جس سے وہ ملعون و مطرود ہو گیا۔ پس اللہ تعالیٰ کے حکم و ارشاد کے آگے صدق دل سے جھکنا فرشتوں کی صفت و خصلت اور وسیلہ سعادت و سرفرازی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس اللہ کی معصیت و نافرمانی ابلیس کا طریقہ و شیوہ اور موجب لعنت ہے والعیاذُ باللہ العظیم۔ وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی ما یُحِبُّ ویرید، وہو الہادی الی سواء السبیل۔

۴۰۔۔۔    سو اس سے کئی اہم اور بنیادی حقائق سامنے آتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ اس سے ابلیس کے گستاخانہ اندازِ تخاطب کا نمونہ سامنے آتا ہے، کہ اس نے اغواء یعنی گمراہ کرنے کی نسبت حق تعالیٰ کی طرف کی۔ کہ تو نے مجھے گمراہ کیا۔ والعیاذُ باللہ، اور دوسری اہم بات اس سے یہ سامنے آتی ہے کہ شیطان نے بجائے اپنی غلطی ماننے کے اس کو درست سمجھا اور وہ اس پر اڑ گیا۔ سو اپنے جرم و قصور پر ندامت و توبہ کے بجائے اس پر اڑنا اور اصرار کرنا ابلیس کا کام ہے، والعیاذُ باللہ، جبکہ اس کے برعکس بنی آدم کا طریقہ اپنی غلطی کو تسلیم کرنا، اور اس کی معافی مانگنا ہے۔ جیسا کہ حضرت آدم نے کیا، اسی سے انسان کی خطاء معاف ہوتی ہے۔ اور وہ پھر سے اپنے رب کی عنایات کا مورد و مستحق بن جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت آدم کی مثال سے واضح ہے۔ اور تیسری بات یہ کہ دنیا کی مرغوبات اور خواہشات میں پھنس کر اور ان میں کھو کر اپنی آخرت و انجام اور اپنے مقصد حیات سے غافل ہو جانا دراصل شیطان کے جال میں پھنسنا اور اس کے تیر کا شکار ہونا ہے۔ والعیاذُ باللہ، کیونکہ اس لعین نے حضرتِ حق جَلَّ مَجْدہٗ کے سامنے اپنے اس دام تزویر کا کھلم کھلا اعلان کیا تھا کہ میں بنی آدم کو گمراہ کرنے کے لئے طرح طرح کی دلفریبیوں اور ملمع سازیوں سے کام لوں گا۔ تاکہ یہ ان میں الجھ اور پھنس کر اپنی آخرت، اپنے مقصد حیات، اور اپنے اس شرف و اعزاز کو بالکل بھول کر رہ جائیں کہ ہم مسجودِ ملائک تھے۔ اور یہ کہ شیطان نے سب کو گمراہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بجز تیرے چنے ہوئے خاص بندوں کے، کہ ان پر میرا زور نہیں چل سکے گا۔ سو اللہ والا بن جانا، اور اللہ کی پناہ میں آ جانا شیطان کے شر اور اس کے اغواء سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی مایُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حالٍ مِّنَ الاحوال۔

۴۳۔۔۔    سو اس سے ایک تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ رب تک پہنچنے کا ایک ہی راستہ ہے۔ یعنی توحید کا راستہ، اور یہاں پر صراط کے بعد عَلَیَّ لا کر اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ یہ ایسا سیدھا اور صاف راستہ ہے کہ اس پر چلنے والا سیدھا منزل مقصود تک پہنچتا ہے، کہ یہی وہ راستہ ہے جو عقل سلیم اور فطرت مستقیم کے تقاضوں کے عین مطابق ہے جبکہ اس کے سوا دوسرے تمام راستے ٹیڑھے ہیں، جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَعَلَی اللّٰہِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَمِنْہَا جَائِرٌ الآیۃ (النحل۔ ٩) اور دوسری حقیقت اس سے یہ واضح فرما دی گئی کہ اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں پر شیطان کا کوئی زور نہیں چلتا۔ اس کا زور انہی گمراہوں پر چلتا ہے جو اس کے پیچھے چلتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی ان کا انجام بھی واضح فرما دیا گیا کہ ان سب کا ٹھکانا دوزخ ہے جس میں ان سب کو داخل ہونا ہو گا کہ وہی ٹھکانا ہے ایسے سرکشوں متکبروں، منکروں، اور راہ حق سے بہکے اور بھٹکے ہوئے لوگوں کا۔ والعیاذُ باللہ العظیم۔

۴۸۔۔۔    سو اس سے اہل دوزخ کے مقابلے میں اہل جنت کا حال و مال بیان فرمایا گیا ہے۔ اور اس اہم حقیقت سے آگاہ فرما دیا گیا کہ جنت اور اس کی نعمتوں سے سرفرازی کی اساس و بنیاد تقوی و پرہیزگاری ہے۔ پس جو لوگ کفر و شرک، اور الحاد و سرکشی، سے بچ کر تقویٰ و پرہیزگاری کی روش کو اپنائیں گے انہی کو جنت کی ان نعمتوں سے سرفرازی نصیب ہو گی۔ خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور کہیں کے بھی ہوں وباللہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلی مایُحِبُّ ویرید، بکل حالٍ من الاحوال، وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ، وہو الہادی الی سواءِ الصراط

۵۳۔۔۔    یعنی حضرت ابراہیم نے جب ان اجنبی اور اوپرے چوپرے مہمانوں کو دیکھا تو دل میں ایک خوف محسوس کیا کہ پتہ نہیں یہ کون لوگ ہیں، اور کس ارادہ و نیت سے آئے ہیں؟ اس لئے فرشتوں نے انکی تسلی کے لئے ان سے فرمایا کہ آب ڈریں نہیں۔ کیونکہ ہم کوئی انسان نہیں بلکہ اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور آپ کو ایک ایسے عظیم الشان بیٹے کی خوشخبری سنانے آئے ہیں جو بڑا ہی علم والا ہو گا۔ سو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ پیغمبر نہ عالم غیب ہوتے ہیں، اور نہ مختارِ کل۔ ورنہ حضرت ابراہیم فرشتوں کی وجہ سے اس طرح خوفزدہ نہ ہوتے۔ اور جب ابوالانبیاء اور جدُّ الانبیاء حضرت ابراہیم خلیل جیسی عظیم الشان اور جلیل القدر ہستی بھی عالم غیب اور مختار کل نہیں تو پھر اور کوئی کس طرح ان صفات کا حامل ہو سکتا ہے؟ پس اس سے اہل بدعت کے غیر اللہ کے لئے علم غیب کلی اور اختیارِ کلی جیسے شرکیہ عقائد کی جڑ نکل جاتی ہے والحمد للہ جل وعلا۔

۵۶۔۔۔    سو فرشتوں کی بشارت سے اطمینان پانے کے بعد حضرت ابراہیم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے گمراہوں کے سوا اور کون مایوس ہو سکتا ہے؟ یعنی میں نے جو سوال کیا تھا وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوسی کی بناء پر نہیں تھا، بلکہ محض ظاہری حالات کی نامساعدت کی بناء پر تھا۔ کہ نا موافقت کے ایسے حالات میں اس بشارت کی تکمیل کی صورت کیا ہو گی۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس تو وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو ایمان سے محروم اور گمراہ ہوتے ہیں والعیاذ باللہ، جل وعلا

۵۷۔۔۔    سو فرشتوں کی بشارت اور ان کے اس جواب سے حضرت ابراہیم اپنے بارے میں تو مطمئن ہو گئے لیکن پھر آپ کے دل میں یہ کھٹکا پیدا ہوا کے محض ایک فرزند کی بشارت اور اس کی ولادت کی خوشخبری سنانے کے لئے اس طرح فرشتوں کی ایک جماعت کے آنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ بشارت تو ایک فرشتے سے، یا کسی اور طرح سے بھی دی جا سکتی تھی۔ پس فرشتوں کا اس طور پر اور ایک جماعت کی شکل میں آنا یقیناً کسی اور اہم مقصد ہی کے لئے ہو سکتا ہے۔ اس لئے آپ نے ان سے انکی اصل مہم کے بارے میں یہ سوال کیا۔ کہ تمہاری اصل مہم اور بڑا مقصد کیا ہے؟ اے فرستادگان الٰہی؟

۵۸۔۔۔    سو حضرت ابراہیم کے اس سوال کے جواب میں فرشتوں نے اپنی اصل مہم کو واضح کر دیا۔ اور ان کو بتایا کہ ہمیں تو دراصل ایک مجرم قوم کی طرف بھیجا گیا ہے۔ سو اس سے ایک طرف تو فرشتوں کے غیظ و غضب کا اظہار ہوتا ہے کہ انہوں نے یوں نہیں کہا کہ ہمیں قوم لوط کی طرف بھیجا گیا ہے، بلکہ یوں کہا کہ ہمیں ایک مجرم قوم کی طرف بھیجا گیا ہے، سو اسطرح انہوں نے اس بدبخت کا تعارف اور اس کا ذکر ہی مجرم کے وصف سے کیا۔ کہ یہی وصف اس قوم کا خاص عنوان اور ٹائیٹل بن گیا تھا۔ والعیاذُ باللہ اور دوسری طرف اس سے اس بدبخت قوم کی بدبختی کی انتہا بھی واضح ہو جاتی ہے، کہ ان کا تعارف ہی مجرم کے لفظ سے فرمایا گیا ہے۔ کہ ایسے مجرموں کو اللہ تعالیٰ کی زمین میں باقی رہنے کا کوئی حق نہیں، بلکہ ان سے اس کی تطہیر ضروری ہے،

۶۰۔۔۔    سو اس سے فرشتوں نے حضرت لوط کے آل اور ان کے اتباع کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کی بھی وضاحت کر دی کہ قوم لوط کو تو تباہ کر دیا جائے گا۔ لیکن حضرت لوط کے آل اور ان کے اتباع کو بچا لیا جائے گا۔ بجز ان کی بیوی کے، کہ وہ بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل رہے گی۔ سو اس سے واضح ہو جاتا کہ پیغمبر مختارِ کل نہیں ہوتے۔ جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا ماننا ہے۔ ورنہ حضرت لوط کی بیوی اس انجام سے دو چار نہ ہوتی۔ والعیاذُ باللہ جل وعلا

۶۷۔۔۔    شہر (مدینہ) سے یہاں پر مراد قوم لوط کی بستی سدوم ہے۔ سو اس بستی کے غنڈے اس خبر سے بہت خوش ہوئے کہ لوط کے گھر میں کچھ خوبصورت مہمان آئے ہوئے ہیں۔ سو وہ خوش خوش ناچتے کودتے حضرت لوط کے گھر پہنچ گئے۔ کہ آج خوب شکار ہاتھ آیا اور آج خوب ارمان نکالیں گے۔ سو اس سے ان بدبختوں کی شقاوت و بد بختی اور ان کی حرمان نصیبی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، والعیاذُ باللہ جل وعلا

۶۹۔۔۔    سو حضرت لوط نے جب دیکھا کہ شہر کے غنڈوں نے ان کے گھر پر دھاوا بول دیا ہے۔ اور ان کے مہمانوں کی عزت و آبرو خطرے میں پڑ گئی ہے، تو آنجناب نے نہایت موثر اور دلدوز انداز میں ان لوگوں کے دلوں پر دستک دی۔ ان کو اپنی عزت و آبرو کا بھی واسطہ دیا۔ اور خوف خدا کا بھی حوالہ دیا۔ چنانچہ آپ نے ان لوگوں سے فرمایا کہ یہ میرے مہمان ہیں۔ ان کی عزت و آبرو کی حفاظت مجھ پر اخلاقی طور پر فرض ہے۔ سو اگر تم لوگوں نے ان پر کسی طرح کی دست درازی کی تو میں ان کی نگاہوں میں بالکل ذلیل ہو کر رہ جاؤں گا۔ یہ کہیں گے کہ ہم کیسے شخص کے مہمان بنے کہ اس نے ہمیں غنڈوں اور بدمعاشوں کے حوالے کر دیا۔ نیز آنجناب نے ان لوگوں کو خوف خدا کی تذکیر و یاد دہانی کراتے ہوئے ان سے فرمایا کہ تم لوگ اللہ سے ڈرو۔ اور میرے مہمانوں کی بے عزتی کر کے مجھے رسوا نہ کرو، کہ میں کہیں منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہ جاؤں۔

۷۰۔۔۔    یعنی حضرت لوط کی اس بڑی موثر اور نہایت پُرسوز اپیل کا ان غنڈوں پر کوئی اثر نہ ہوا۔ اور انہوں نے نہایت گستاخانہ انداز میں آنجناب سے کہا کہ کیا ہم نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم دنیا بھر کے لوگوں کی مہمان نوازی کے دم بھرنے سے باز رہو۔ اور ایسے لوگوں کو اپنے گھر میں نہ آنے دو۔ یعنی اس ذلت و رسوائی کے ذمہ دار تم خود ہو۔ جو ہماری اس قدر صاف و صریح وارننگ کے باوجود تم نے ان خوبرو مہمانوں کو اپنے گھر میں آنے دیا۔ سو اس سے ان بدبختوں کی قسوت قلبی اور ان کی سیاہ بختی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اور یہی حال ہوتا ہے اس بدبخت قوم کا جو اپنے آخری اور ہولناک انجام کے قریب آ لگی ہوتی ہے، والعیاذُ باللہ العظیم

۷۱۔۔۔    سو حضرت لوط نے ان لوگوں کے دلوں پر ایک اور موثر اور آخری دستک کے طور پر ان سے ارشاد فرمایا کہ یہ میری بیٹیاں ہیں جو کچھ تم لوگ کرنا چاہتے ہو ان کے ساتھ کر لو۔ لیکن خدارا میرے مہمانوں کے بارے میں مجھے رسوا نہ کرو۔ سو یہ حضرت لوط کی طرف سے ان بدبختوں کے لئے کوئی پیشکش نہیں تھی۔ بلکہ یہ ان کے ضمیروں کو جھنجھوڑنے کے لئے آخری تدبیر اور ایک موثر دستک تھی۔ اگر ان لوگوں کے اندر ذرہ برابر بھی اخلاقی حس کی کوئی رمق موجود ہوتی تو وہ فوراً ہوش میں آ جاتے۔ اور اپنے بیہودہ ارادے سے یکسر باز آ جاتے مگر ان بدبختوں پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا۔ دوسرا قول و احتمال اس ارشاد کے بارے میں حضرات اہل علم کا یہ بھی ہے کہ یہاں پر بَنَاتِیْ (میری بیٹیوں) سے مراد آپ کی صلبی اور پشتی بیٹیاں نہیں، بلکہ اپنی قوم کی بیٹیاں ہیں۔ کیونکہ قوم کی بیٹیاں پیغمبر کی روحانی بیٹیاں ہوتی ہیں۔ ترجمہ کے اندر ہم نے اس کی طرف اشارہ کیا۔ جو بھی صورت ہو اس سے بہرحال یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پیغمبر نہ عالم غیب ہوتے ہیں۔ اور نہ ہی ہی مختار کل۔ جیسا کہ اہل بدعت کا کہنا ہے، کیونکہ اگر ایسی کوئی بھی بات ہوئی تو حضرت لوط کو اس قدر پریشانی کبھی لاحق نہ ہوتی۔ اور آپ کو اپنی قوم کے سامنے اسطرح لجاجت اور عاجزی کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ سو عالم غیب اور مختار کل اللہ تعالیٰ ہی کی ذات اقدس و اعلیٰ ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ، اس وحدہٗ لاشریک کے سوا اور کسی بھی ہستی کو عالم غیب اور مختارِ کل وغیرہ ماننا عقل اور نقل دونوں کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم بکل حالٍ من الاحوال،

۸۴۔۔۔    حجر کا یہ علاقہ شمالی عرب میں واقع ہے یہ قوم ثمود کا مسکن تھا اور ان کی طرف حضرت صالح کو مبعوث فرمایا گیا تھا۔ یہ لوگ سنگ تراشی کے فن میں بڑی مہارت رکھتے تھے، پہاڑوں کو تراش تراش کر ان میں بڑے مضبوط، اور نہایت شاندار گھر بنایا کرتے تھے۔ اور اپنے اس فن اور ترقی پر ان کو بڑا ناز تھا۔ اور اس بناء پر وہ بڑے کبر و غرور میں مبتلا تھے اور اسی وجہ سے وہ پیغمبر کی دعوت پر کان دھرنے کے لئے تیار نہ ہوئے، وہ بدبخت اس زعم میں مبتلا تھے کہ اگر پیغمبر کے ڈراوے کے مطابق کوئی عذاب آیا بھی تو پہاڑوں کے ان مضبوط اور پختہ مکانات میں اس کا ہم پر کیا اثر ہو سکتا ہے؟ وہ اس حقیقت سے ناواقف تھے کہ اگر عذاب الٰہی آگیا تو یہی مضبوط و مستحکم گھر ان کے لئے ہولناک قبروں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ مگر جن لوگوں کی مت مار دی جاتی ہے۔ وہ ایسے اندھے اور اسقدر اُوندھے ہو جاتے ہیں کہ ان کو حق بات سمجھنے اور اپنانے کی توفیق ہی نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ وہ اپنے آخری اور انتہائی ہولناک انجام سے دوچار ہو کر رہتے ہیں والعیاذُ باللہ العظیم، سو اس بدبخت قوم کا انجام بھی ایسے ہی ہوا۔ اور یہ اپنے ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے سو اس وقت ان کو انکی وہ ترقی کچھ کام نہ آ سکی جس کا ان کو بڑا ناز تھا۔ اور نہ ہی انکی وہ کمائی اس عذاب کے آگے کوئی بندھ باندھ سکی۔ جس پر وہ پھولے نہیں سماتے تھے، والعیاذ باللہ العظیم

۸۵۔۔۔    سو اس ارشاد سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ آسمانوں اور زمین کو اور ان دونوں کے درمیان جو بھی کچھ ہے اس سب کی تخلیق حق ہی کے ساتھ اور نہایت بامقصد ہے۔ پس یہ دنیا کوئی بازیچہ اطفال نہیں کہ لوگ اس میں جو چاہیں اور جیسا چاہیں کرتے رہیں، اور انکی کوئی پُرسش نہ ہو۔ سو ایسے نہیں، بلکہ اس کائنات کے بامقصد اور باغایت ہونے کا تقاضا اور لازمی تقاضا ہے کہ ایک ایسا یوم حساب آئے جس میں لوگوں سے ان کے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب لیا جائے۔ اور ان سے اس کی باز پرس کی جائے۔ تاکہ نیک کام کرنے والے اپنی نیکیوں کا صلہ اور بدلہ پائیں، اور بُروں کو ان کی برائیوں کی پوری سزا ملے۔ تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے پورے ہو سکیں۔ اور بدرجہ تمام و کمال پورے ہو سکیں۔ سو قیامت ایک قطعی اور شُدنی حقیقت ہے۔ جس نے اپنے وقت پر بہرحال آ کر، اور واقع ہو کر رہنا ہے۔ پس آپ مخالفین کی مخالفتوں اور شرارتوں پر خوبصورتی کے ساتھ درگزر ہی سے کام لیں۔ کہ نہ تو ان کی شرارتوں سے بد دل اور مایوس ہوں۔ نہ ان کی بیہودہ باتوں کا جواب دیں۔ اور نہ اپنے فرض دعوت و تبلیغ سے دست کش ہوں۔ بلکہ اپنے کام میں لگے رہیں، اور ان کے معاملے کو اللہ پر چھوڑ دیں۔ اگر یہ باز نہ آئے تو اپنے انجام کو خود پہنچ کر رہیں گے۔

۹۱۔۔۔    یعنی جس طرح ہم نے آپ کو سبع مثانی اور قرآن عظیم سے نوازا، اسی طرح ہم نے ان لوگوں پر بھی اپنا کلام اتارا تھا جنہوں نے اس کو حصے بخرے کر دیا۔ جو حصہ اپنی پسند اور مرضی کا ہوا اس کو مان لیا۔ اور جو اپنی مرضی اور پسند کا نہ ہوا اس کو نہ مانا۔ یہ اشارہ یہود کی طرف ہے جنہوں نے اپنے قرآن یعنی تورات کو اپنی اہوا، و اغراض، کے مطابق مختلف حصوں اور ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اپنی مرضی و خواہش کے مطابق جس کو چاہتے ظاہر کرتے، اور جس کو چاہتے چھپا دیتے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا تَجْعَلُوْنَہ قَرَاطِیْسَ تُبْدُوْنَہَا وَتُخْفُوْنَ کَثِیْرًا الایٰۃ (الانعام۔٩۲) یعنی تم لوگوں نے اپنی کتاب کو ورقے ورقے کر رکھا ہے۔ جن میں سے کچھ کو تم ظاہر کرتے ہو۔ اور بہت سوں کو تم چھپا دیتے ہو۔ سو اس میں مسلمانوں کے لئے درس عبرت ہے کہ تم لوگ یہود کے اس طریق کار سے بچ کر رہنا۔ کہیں ایسا نہ کہ اس یہودی مرض کے جراثیم تمہارے اندر بھی سرایت کر جائیں۔ والعیاذُ باللہ العظیم،

۹۶۔۔۔    سو اس سے پیغمبر کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ یہ منکرین و مکذبین جو آپ کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اور جس انجام اور عذاب سے آپ ان کو خبردار کرتے ہیں اس پر یہ ہنستے ہیں تو آپ ان کی پرواہ نہ کریں۔ ان سے نبٹنے کے لئے آپ کی طرف سے ہم کافی ہیں۔ یہ لوگ اپنے کئے کرائے کا نتیجہ و انجام عنقریب خود جان لیں گے۔ جب حقیقت حال خود واضح ہو کر ان کے سامنے آ جائے گی۔

۹۹۔۔۔    سو اس سے پیغمبر کے اس غم اور صدمے کو بھی ذکر فرمایا گیا ہے جو آنجناب کو منکرین و مکذبین کی دلآزار باتوں سے لاحق ہوتا تھا، اور اس کا علاج بھی بتا دیا گیا۔ سو ارشاد فرمایا کہ یقیناً ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ آپ کا سینہ تنگ ہو رہا ہے ان باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں، پس آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتے رہیں۔ اور ہمیشہ اپنے رب کے حضور سجدہ کرنے والوں میں شامل رہیں، اور ہمیشہ اپنے رب کی عبادت و بندگی کرتے رہیں۔ یہاں تک کہ آپ پہنچ کر رہیں اس عظیم الشان حقیقت کو جس کا آنا یقینی ہے۔ سو اپنے رب کی تسبیح و تحمید، اس کے حضور سجدہ ریزی، یعنی نماز کا اہتمام و التزام، اور اپنے رب کی عبادت و بندگی، وہ امور ہیں جو انسان کو صبر و استقامت اور تحمُّلِ مشاق کی قوت و ہمت سے سرفراز کرتے ہیں۔ فَبِاللّٰہِ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویُرید، بکُلِّ حَالٍ مِّنَ الْاَحْوال، و سبحان اللّٰہِ وبحمدہٗ و سبحان اللہ العظیم۔ ماتبقی ہذہ الاحرف والکلمات