اس سورت کا نام آیت واذ کر فی الکتب مریم سے ماخوذ ہے۔ مراد یہ ہے کہ وہ سورہ جس میں حضرت مریم کا ذکر آیا ہے۔
اس کا زمانہ نزول ہجرت حبشہ سے پہلے کاہے۔ معتبر روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ مہاجرین اسلام جب نجاشی کے دربار میں بلائے گئے تھے اس وقت حضرت جعفر نے یہی سورہ بھرے دربار میں تلاوت کی بھی۔
جس دور میں یہ سورہ نازل ہوئی اس کے حالات کی طرف ہم کسی حد تک سورہ کہف کے دیباچے میں اشارہ کر چکے ہیں لیکن وہ مختصر اشارہ اس سورے کو اور دور کی دوسری سورتوں کو سمجھنے کے لیئے کافی نہیں ہے۔ اس لیئے ہم ذرا اس وقت کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
قریش کے سردار جب تضحیک، استہزاء اطماع تخویف اور جھوٹے الزامات کی تشہیر سے تحریک اسلامی کو دبانے میں ناکام ہو گئے تو انہوں نے ظلم و ستم، مار پیٹ اور معاشی دباؤ کے ہتھیار استعمال کرنے شروع کی ے۔ ہر قبیلے کے لوگوں نے اپنے اپنے قبیلے کے نو مسلموں کو تنگ پکڑا اور طرح طرح سے ستا کر، قید کر کے بھوک پیاس کی تکلیفیں دے کر، حتی کہ سخت جسمانی اذیتیں دے دے کر انہیں اسلام چھوڑ نے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ اس سلسلے میں خصوصیت کے ساتھ غریب لوگ اور وہ غلام اور سوالی جو قریش والوں کے تحت زیر دست کی حیثیت سے رہتے تھے، بری طرح پیسے گئے۔ مثلاً بلال، عامر بن مہر، ام عبیس، زبیرہ، عمار بن یاسر اور ان کے والدین وغیرہ ہم، ان لوگوں کو مار مار کر ادھ موا کر دیا جاتا، بھوکا پیاسا بند رکھا جاتا، مکے کی تپتی ہوئی ریت چلچلاتی دھوپ میں لٹا دیا جاتا اور سینے پر بھاری پتھر رکھ کر گھنٹوں تڑپا یا جاتا۔ جو لوگ پیشہ ور تھے ان اس کام لیا جاتا اور اجرت ادا کرنے میں پریشان کیا جاتا۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت خباب بن ارت کی یہ روایت موجود ہے کہ :
'' میں مکے میں لوہار کا کام کرتا تھا، مجھ سے عاص بن دائل نے کام لیا، پھر جب میں اس سے اجرت لینے گیا تو اس نے کہا کہ تیری اجرت نہ دوں گا جب تک تو محمد کا انکار نہ کرے "
اسی طرح جو لوگ تجارت کرتے تھے ان کے کاروبار کر بر باد کرنے کی کوششیں کی جاتیں اور جو معاشرے میں کچھ عزت کا مقام رکھتے ان کو ہر طریقے سے ذلیل و رسوا کیا جاتا۔ اسی زمانے کا حال بیان کرتے ہوئے حضرت خباب کہتے ہیں کہ ایک روز نبی ﷺ کعبے کے سائے میں تشریف فرما تھے۔ میں نے آپ کی خدمت حاضر ہو کر عرض کیا " یا رسول اللہ۔ اب تو ظلم کی حد ہو گئی ہے۔ آپ خدا سے دعا فرماتے ؟ " یہ سن کر آپ کا چہرہ مبارک تمتما اٹھا اور آپ نے فرمایا " تم سے پہلے جو اہل ایمان تھے ان پر اس سے زیادہ مظالم ہو چکے ہیں۔ ان کی ہڈیوں پر لوہے کی کنگھیاں گھسی جاتی تھیں، ان کے سروں پر رکھ کر آرے چلائے جاتے پھر بھی وہ اپنے دین سے نہ پھر تے تھے۔ یقین جانو کہ اللہ اس کام کو پورا کر کے رہے گا یہاں تک کہ ایک وقت وہ آئے گا کہ ایک آدمی صنعاء سے حضر موت تک بے کھٹکے سفر کرے گا اور اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہو گا، مگر تم لوگ جلد بازی کرتے ہو" (بخاری)۔
یہ حالات جب نا قابل برداشت حد تک پہنچ گئے تو رجب ۴۵ہجری عام الفیل (شہ نبوی ) میں حضور نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ لوخرجتم الی ارض الحبشتہ فان بھا ملکالایطیلم عندہ احد وھی ارض صد حتی یجعل اللہ لکم فرجام ما انتم فیہ۔
'' اچھا ہو کہ تم لوگ نکل کر حبش چلے جاؤ۔ وہاں ایک ایسا بادشاہ ہے جس کے ہاں کسی پر ظلم نہیں ہوتا اور وہ بھلائی کی سر زمین ہے۔ جب تک اللہ تمہاری اس مصیبت کو رفع کرنے کی کوئی صورت پیدا کرے، تم لوگ وہاں ٹھیرے رہو۔''
اس ارشاد کی بنا پر پہلے گیارہ مردوں اور چار خواتین نے حبش کی راہ لی۔ قریش کے لوگوں نے ساحل تک ان کا پیچھا کیا، مگر خوش قسمتی سے شعیبہ کے بندر گاہ پر ان کو بر وقت حبش کے لیئے کشتی مل گئی اور وہ گرفتار ہونے سے بچ گئے۔ پھر چند مہینوں کے اندر مزید لوگوں نے ہجرت کی یہاں تک کہ ۸۳ مرد گیارہ عورتیں اور ۷ غیر قریشی مسلمان حبش میں جمع ہو گئے اور مکے میں نبی ﷺ کے ساتھ صرف ۴۰ آدمی رہ گئے۔
اس ہجرت سے مکے کے گھر گھر میں کہرام مچ گیا، کیونکہ قریش کے بڑے اور چھوٹے خاندانوں میں سے کوئی ایسا نہ تھا جس کے چشم و چراغ ان مہاجرین میں شامل نہ ہوں۔ کسی کا بیٹا گیا تو کسی کا داماد، کسی کی بیٹی گئی تو کسی کا بھائی اور کسی کی بہن۔ ابو جہل کے بھائی اور کسی کی بہن۔ ابو جہل کے بھائی سلمہ بن ہشام، اس کے چچا زاد بھائی ہشام بن ابی حذیفہ اور عیاش بن ابی ربیعہ اور اس کی چچا زاد بہن حضرت ام سلمہ، ابو سفیان کی بیٹی ام حبیبیہ۔ عتبہ کے بیٹے اور ہند جگر خوار کے سگے بھائی ابو حذیفہ۔ سہل بن عمرد کی بیٹی سلہلہ۔ اور اسی طرح دوسرے سردار قریش اور مشہور دشمنان اسلام کے اپنے جگر گوشے دین کی خاطر گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اسی لیئے کوئی گھر نہ تھا جو اس واقعہ سے متاثر نہ ہوا ہو۔ بعض لوگ اس کی وجہ سے اسلام دشمنی میں پلے سے زیادہ سخت ہو گئے۔ اور بعض کے دلوں پر اس کا اثر ایسا ہوا کہ آخر کار وہ مسلمان ہو کر رہے۔ چنانچہ حضرت عمر ؓ کی اسلام دشمنی پر پہلی چوٹ اسی واقعہ سے لگی۔ ان کی ایک قریبی رشتہ دار لیلی بنت حشمہ بیان کرتی ہیں کہ میں ہجرت کے لیئے اپنا سامان باندھ رہی تھی، اور میرے شوہر عامر بن ربیعہ کسی کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔ اتنے میں عمر ؓ آئے اور کھڑے ہو کر میری مشغولیت کو دیکھتے رہے کچھ دیر کے بعد کہنے لگے ''عبد اللہ کی ماں، جار ہی ہو'' ؟ میں نے کہا '' ہاں خدا کی قسم تم لوگوں نے ہمیں ستا یا۔ خدا کی زمین کھلی پڑی ہے، اب ہم کسی ایسی جگہ چلے جائیں جہاں خدا ہمیں چین دے " یہ سن کر عمر کے چہرے پر رقت کے ایسے آثار طاری ہوئے جو میں نے کبھی ان پر نہ دیکھے تھے اور وہ بس یہ کہ کر نکل گئے کہ " خدا تمہارے ساتھ ہو"۔
ہجرت کے بعد قریش کے سردار سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے طے کیا کہ عبداللہ بن ابی ربیعہ (ابو جہل کے ماں جائے بھائی ) اور عمر و بن عاص کو بہت سے قیمتی تحائف کے ساتھ حبش جائے اور یہ لوگ کیس نہ کسی طرح نجاشی کو اس بات رپ راضی کریں کہ وہ ان مہا جرین کو مکہ واپس بھیج دے۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ نے (جو خود مہاجرین حبشہ میں شامل تھیں ) یہ واقعہ بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ قریش کے یہ دونوں ماہر سیاست سفیر ہمارے تعاقب میں حبش۔ پہلے انہوں نے نجاشی کے اعیان سلطنت میں خو ہدیہ تقسیم کر کے سب کو اس بات پر راضی کر لیا کہ وہ مہاجرین کو واپس کرنے کے لیئے نجاشی پر بالاتفاق زور دیں گے۔ پھر نجاشی سے ملے اور اس کو بیش قیمت نذرانہ دینے کے بعد کہا کہ '' ہمارے شہر کے چند نادان زور دیں گے۔ پھر نجاشی سے ملے اور اس کو بیش قیمت نذرانہ دینے کے بعد کہا '' ہمارے شہر کے چند نادان لونڈے بھاگ کر آپ کے ہاں آ گئے ہیں قوم کے اشرف نے ہمیں آپ کے پاس ان کی واپسی کو درخواست کرنے کے لیئے بھیجا ہے۔ یہ لڑ کے ہمارے دین سے نکل گئے ہیں اور آپ کے دین میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے ایک نرالا دین نکال لیا نکال لیا ہے '' ان کا کالم ختم ہوتے ہی اہل در بار ہر طرف سے بولنے لگے کہ " ایسے لوگوں کو ضرور واپس کر دینا چاہیے، ان کی قوم کے لوگ زیادہ جانتے ہیں کہ ان میں کیا عیب ہے۔ انہیں رکھنا ٹھیک نہیں ہے۔ مگر نجاشی نے بگڑ کر کہا کہ " اس طرح تو میں انہیں حوالے نہیں کروں گا۔ جن لوگوں نے دوسرے ملک کو چھوڑ کر میرے ملک پر اعتماد کیا اور یہاں پناہ لینے کے لیئے آئے ان سے میں بے وفائی نہیں کر سکتا پہلے میں انہیں بلا کر تحقیق کروں گا کہ یہ لوگ ان کے بارے میں جو کچھ کہتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے " چنانچہ نجاشی نے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے دربار میں بلا بھیجا۔
نجاشی کا پیغام پا کر سب مہاجرین جمع ہوئے اور انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ بادشاہ کے سامنے کیا کہنا ہے۔ آخر سب نے بالاتفاق یہ فیصلہ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جو تعلیم ہمیں دی ہے ہم تو وہی بے کم و کاست پیش کریں گے خواہ نجاشی کریں گے خواہ نجاشی ہمیں رکھے یا نکال دے۔ دربار میں پہنچے تو چھوٹتے ہی نجاشی نے سوال کیا کہ " یہ تم لوگوں نے کیا کیا کہ اپنی قوم کا دین بھی چھوڑ اور میرے دین داخل نہ ہوئے، نہ دنیا کے دوسرے ادیان ہی میں سے کسی کو اختیار کیا ؟ آخر یہ تمہارا نیا دین ہے کیا ''؟ اس پر مہاجرین کی طرف سے جعفر بن ابی طالب نے ایک بر جستہ تقریر کی جس میں پہلے عرب جاہلیت کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی خرابیوں کی بیان کیا، پھر نبی ﷺ کی بعثت کا ذکر کر کے بتا یا کہ آپ کیا تعلیمات پیش فرماتے ہیں، پھر ان مظالم کا ذکر کیا جو آنحضور کی پیروی اختیار کرنے والوں پر قریش کے لوگ ڈھا رہے تھے، اور کلام اس بات پر ختم کیا دوسرے ملکوں کے بجائے ہم ے آپ کے ملک کا رح اس امید پر کیا ہے کہ یہاں ہم پر ظلم نہ ہو گا۔ نجاشی نے یہ تقریر سن کر کہا کہ ذرا مجھے وہ کلام تو سناؤ جو تم کہتے وہ کہ خدا کی طرف سے تمہارے نبی پر اترا ہے۔حضرت جعفر نے جواب میں سورہ مریم کا وہ ابتدائی حصہ سنا یا جو حضرت یحیی اور حضرت عیسی علیہما اسلام سے متعلق ہے۔ نجاشی اس کو سنتا رہا اور روتا رہا یہاں تک کہ اس کی ڈاڑھی تر ہو گئی جب حضرت جعفر نے تلاوت ختم کی تو اس نے کہا کہ '' یقیناً یہ کلام اور جو کچھ عیسی لائے تھے دونوں ایک ہی سر چشمے سے نکلے ہیں۔ خدا کی قسم میں تمھیں ان لوگوں کے حوالے نہ کروں گا "۔
دوسرے روز عمر و بن العاص نے نجاشی سے کہا کہ '' ذرا ان لوگوں سے بلا کر یہ تو پوچھے کہ عیسی بن مریم کے بارے میں ان کا عقیدہ کیا ہے۔ یہ لوگ ان کے متعلق ایک بڑی بات کہتے ہیں '' نجاشی نے پھر مہاجرین کو بلا بھیجا۔ مہاجرین کو پہلے سے عمر ذکی کی چال کا علم ہو چکا تھا۔ انہوں نے جمع ہو کر پھر مشورہ کیا کہ اگر نجاشی نے عیسی ؑ کے بارے میں سوال کیا تو جواب دو گے ؟ موقع بڑا نازک تھا اور سب اس سے پریشان تھے۔ مگر پھر بھی اصحاب رسول اللہ نے یہی فیصلہ کیا کہ جو کچھ ہوتا ہے ہو جائے ہم تو وہی بات کہیں گے جو اللہ نے فرمائی اور اللہ کے رسول نے سکھائی۔چنانچہ جب یہ لوگ دربار میں گئے اور نجاشی نے عمر دین العاص کا پیش کردہ سوال ان کے سامنے دہرایا تو جعفر بن ابی طالب نے اٹھ کر بلاتا مل کہا کہ " ھو عبداللہ و رسولہ و رحہ کلمتہ القاھا الی مریم لاعزراء البتول۔وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی طرف سے ایک روح اور ایک کلمہ ہیں جسے اللہ نے کنواری مریم پر القا کیا '' نجاشی نے سن کر ایک تنکا زمین سے اٹھا یا اور کہا '' خدا کی قسم جو کچھ تم نے کہا ہے عیسی اس سے تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں تھے۔'' اس کے بعد نجاشی نے قریش کے بھیجے ہوئے تمام ہدیے یہ کہ کر واپس کر دے کہ میں رشوت نہیں لیتا اور مہاجرین سے کہا کہ تم بالکل اطمینان کے ساتھ رہو۔
اس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھ کر جب ہم اس سورے کو دیکھتے ہیں تو اس میں اولیں بات نمایاں ہو کر ہمارے سامنے یہ آتی ہے کہ اگر چہ مسلمان ایک مظلوم پناہ گزیں گروہ کی حیثیت سے اپنا وطن چھوڑ کر دوسرے ملک میں جا رہے تھے، مگر اس حالت میں بھی اللہ تعالی نے ان کو دین کے معاملے میں ذرہ برابر مداہنت کرنے کی تعلیم نہ دی، بلکہ چلتے وقت زاد راہ کے طور پر یہ سورہ ان کے ساتھ کی تاکہ عیسائیوں کے ملک میں عیسی ؑ کی بالکل صحیح حیثیت پیش کریں اور انکے ابن اللہ ہونے کا صاف صاف انکار کر دیں۔
پہلے دو رکوعوں میں یحیی اور عیسی کا قصہ سنا نے کے بعد پھرتی سے رکوع میں حالات زمانہ کی مناسبت سے حضرت ابراہیم ؑ کا قصہ سنا یا گیا ہے کیونکہ ایسے ہی حالات میں وہ بھی اپنے باپ اور خاندان اور اہل ملک کے ظلم سے تنگ آ کر وطن سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ اس سے ایک طرف کفار مکہ کو یہ سبق دیا گیا ہے کہ آج ہجرت کرنے والے مسلمان ابراہیم ؑ کی پوزیشن میں ہیں اور تم لوگ ان ظالموں کی پوزیشن میں ہو جنہوں نے تمہارے باپ اور پیشواؤ ابراہیم ؑ کو گھر سے نکالا تھا۔ دوسری طرف مہاجرین کوک یہ بشارت دی گئی ہے کہ جس طرح ابراہیم ؑ وطن سے نکل کر تباہ نہ ہوئے بلکہ اور زیادہ سر بلند ہو گئے ایسا ہی انجام نیک تمہارا انتظار کر رہا ہے۔
اس کے بعد چوتھے رکوع میں دوسرے انبیاء کا ذکر کیا گیا ہے جس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ تمام انبیاء ؑ وہی دین لے کر آئے تھے جو محمد ﷺ لائے ہیں، مگر انبیاء کے گزر جانے کے بعد ان کی امتیں بگڑتی رہی ہیں اور آج مختلف امتوں میں جو گمراہیاں پائی جا رہی ہیں یہ اسی بگاڑ کا نتیجہ ہیں۔
آخر دو رکوعوں میں کفار مکہ کی گمراہیوں پر سخت تنقید کی گئی ہے اور کلام ختم کرتے ہوئے اہل ایمان کو مژدہ سنا یا گیا ہے کہ دشمنان حق کی سار ی کوششوں کے باوجود بالآخر تم محبوب خلائق ہو کر رہو گے۔
۱: تقابل کے لئے سورہ آل عمران رکوع ۴ پیش نظر رہے جس میں یہ قصہ دوسرے الفاظ میں بیان ہو چکا ہے۔ تفہیم القران ج ۱۔ص ۲۴۶۔ ۲۵۰)
۲: یہ حضرت زکریا جن کا ذکر یہاں ہو رہا ہے حضرت ہارون کے خاندان سے تھے۔ ان کو پوزیشن ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ بنی اسرائیل کے نظام کہانت (Priesthood ) کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے فلسطین پر قابض ہونے کے بعد بنی اسرائیل نے ملک کا انتظام اس طرح کیا تھا کہ حضرت یعقوب کی اولاد کے ۱۲قبیلوں میں تو سارا ملک تقسیم کر دیا گیا، اور تیرھواں قبیلہ (یعنی لاوی بن یعقوب کا گھرانا ) مذہبی خدمات کے لئے مخصوص رہا پھر بنی لاوی میں سے بھی اصل وہ خاندان جو، مقدس میں خداوند کے آگے بخور جلا نے کی خدمت ' اور پاک ترین چیزوں کی تقدیس کا کام '' کرتا تھا، حضرت ہارون کا خاندان تھا۔ باقی دوسرے بنی لاوی مقدس کے اندر نہیں جا سکتے تھے بلکہ خداوند کے گھر کی خدمت کے وقت صحنوں اور کوٹھڑیوں میں کام کرتے تھے، سبت کے دن اور عیدوں کے موقع پر سوختنی قربانیاں چڑھاتے تھے، اور مقدس کی نگرانی میں بنی ہارون کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ بنی ہارون کے چوبیس خاندان تھے جو باری باری سے مقدس کی خدمت کے لئے حاضر ہوتے۔ انہی خاندانوں میں سے ایک ابیاہ کا خاندان تھا جس کے سردار حضرت زکریا تھے۔ اپنے خاندان کی باری کے دنوں میں یہی مقدس میں جاتے اور بخور جلا نے کی خدمت انجام دیتے تھے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب توار یخ اول۔ باب ۲۳(۲۴)
۳: مطلب یہ کہ ابیاہ کے خاندان میں میرے بعد کوئی ایسا نظر نہیں آتا جو دینی اور اخلاقی حیثیت سے اس منصب کا اہل ہو جسے میں سنبھالے ہوئے ہوں۔ آگے جو نسل اٹھتی نظر آ رہی ہے جو اس کے لچھن بگڑے ہوئے ہیں۔
۴: یعنی مجھے صرف اپنی ذات ہی کا وارث مطلوب نہیں ہے بلکہ خانوادۂ یعقوب کی بھلائیوں کا وارث مطلوب ہے۔
۵: لوقا کی انجیل میں الفاظ یہ ہیں: ’’تیرے کنبے میں کسی کا یہ نام نہیں‘‘ (۱:۶۱)۔
۶: حضرت زکریا کے اس سوال اور فرشتے کے جواب کو نگاہ میں رکھیے، کیونکہ آگے چل کر حضرت مریم کے قصّے میں پھر یہی مضمون آ رہا ہے اور اس کا جو مفہُوم یہاں ہے وہی وہاں بھی ہونا چاہیے۔ حضرت زکریا نے کہا کہ میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے، میرے ہاں لڑکا کیسے ہو سکتا ہے۔ فرشتے نے جواب دیا کہ ’’ایسا ہی ہو گا‘‘، یعنی تیرے بڑھاپے اور تیری بیوی کے بانجھ ہونے کے باوجود تیرے ہاں لڑکا ہو گا۔ اور پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا حوالہ دیا کہ جس خدا نے تجھے نیست و ہست کیا اُس کی قدرت سے یہ بات بعید نہیں ہے کہ تجھ جیسے شیخ فانی سے ایک ایسی عورت کے ہاں اولاد پیدا کر دے جو عمر بھر بانجھ رہی ہے۔
۷: محراب کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، آلِ عمران، حاشیہ ۳۶۔
۸: اس واقعے کی جو تفصیلات لوقا کی انجیل میں بیان ہوئی ہیں انہیں ہم یہاں نقل کر دیتے ہیں تاکہ لوگوں کے سامنے قرآن کی روایت کے ساتھ مسیحی روایت بھی رہے۔ درمیان میں قوسین کی عبارتیں ہماری اپنی ہیں: ’’یہودیہ کے بادشاہ ہیرو دیس کے زمانے میں ( ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، بنی اسرائیل، حاشیہ ۹) ابیاہ کے فریق سے زکریا ہ نام کا ایک کاہن تھا اور اس کی بیوی ہارون کی اولاد میں سے تھی اور اس کا نام الیشبع (Elizabeth ) تھا۔ اور وہ دونوں خدا کے حضور راستباز اور خداوند کے سب احکام و قوانین پر بے عیب چلنے والے تھے۔ اور ان کے اولاد نہ تھی کیونکہ لیشبع بانجھ تھی اور وہ دونوں عمر رسیدہ تھے۔ جب وہ خدا کے حضور اپنے فریق کی باری پر کہانت کا کام انجام دیتا تھا تو ایسا ہوا کہ کہانت کے دستور کے موافق اس کے نام کا قرعہ نکلا کہ خداوند کے مَقدِس میں جا کر خوشبو جلائے۔ اور لوگوں کی ساری جماعت خوشبو جلاتے وقت باہر دعا کر رہی تھی کہ خداوند کا فرشتہ خوشبو کے مذبح کی دہنی طرف کھڑا ہوا اس کو دکھائی دیا۔ اور زکریا دیکھ کر گھبرایا اور اس پر دہشت چھا گئی۔ مگر فرشتے نے اس سے کہا اے زکریا! خوف نہ کر کیونکہ تیری دُعا سُن لی گئی (حضرت زکریا کی دُعا کا ذکر بائیبل میں کہیں نہیں ہے) اور تیرے لیے تیری بیوہ الیشبع کے بیٹا ہو گا۔ تُو اُس کا نام یوحنّا ( یعنی یحییٰ) رکھنا اور تجھے خوشی و خرمی ہو گی اور بہت سے لوگ اس کی پیدائش کے سبب سے خوش ہوں گے کیونکہ وہ خداوند کے حضور میں بزرگ ہو گا (سورۂ آلِ عمران میں اس کے لیے لفظ سَیِّدًا استعمال ہوا ہے ) اور ہرگز نہ مَے اور نہ کوئی شراب پیے گا (تَقِیًّا) اور اپنی ماں کے بطن ہی سے روح القدس ے بھر جائے گا ( واٰ تَیْنٰہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا) اور بہت سے بنی اسرائیل کو خداوند کی طرف جو اُن کا خدا ہے پھیرے گا۔ اور وہ ایلیاہ (الیاس علیہ السّلام) کی روح اور قوت میں اس کے آگے اگے چلے گا کہ والدوں کے دل اولاد کی طرف اور نافرمانوں کو راستبازوں کی دانائی پر چلنے کی طرف پھیرے اور خداوند کے لیے ایک مستند قوم تیار کرے‘‘۔ ’’زکریا نے فرشتے سے کہا کہ میں اس بات کو کس طرح جانوں؟ کیونکہ میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی عمر رسیدہ ہے۔ فرشتے نے اس سے کہا میں جبرائیل ہوں جو خدا کے حضور کھڑا رہتا ہوں اور اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تجھ سے کلام کروں اور تجھے اِن باتوں کی خوشخبری دوں۔ اور دیکھ جس دن تک یہ باتیں واقع نہ ہو لیں تو چپکا رہے گا اور بول نہ سکے گا اس لیے کہ تو نے میری باتوں کا جو اپنے وقت پر پوری ہوں گی یقین نہ کیا۔ (یہ بیان قرآن سے مختلف ہے۔ قرآن اسے نشانی قرار دیتا ہے اور لوقا کی روایت اسے سزا کہتی ہے۔ نیز قرآن صرف تین دن کی خاموشی کا ذکر کرتا ہے اور لوقا کہتا ہے کہ اس وقت سے حضرت یحییٰ کی پیدائش تک حضرت زکریا گونگے رہے) اور لوگ زکریا کی راہ دیکھتے اور تعجب کرتے تھے کہ اسے مقدس میں کیوں دیر لگی۔ جب وہ باہر آیا تو ان سے بو ل نہ سکا۔ پس انہوں نے معلوم کیا کہ اس نے مقدس میں رویا دیکھی ہے اور وہ ان سے اشارے کرتا تھا اور گونگا ہی رہا ‘‘۔
۹: بیچ میں یہ تفصیل چھوڑ دی گئی ہے کہ اس فرمانِ الہٰی کے مطابق حضرت یحییٰ پیدا ہوئے اور جوانی کی عمر کو پہنچے۔ اب یہ بتایا جا رہا ہے کہ جب وہ سن رشد کو پہنچے تو کیا کام اُن سے لیا گیا۔ یہاں صرف ایک فقرے میں اس مشن کو بیان کر دیا گیا ہے جو منصب نبوت پر مامور کرتے وقت ان کے سپرد کیا گیا تھا۔ یعنی وہ توراۃ پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہوں اور بنی اسرائیل کو اس پر قائم کرنے کی کوشش کریں۔
۱۰: ’’حکم‘‘ یعنی قوتِ فیصلہ، قوتِ اجتہاد، تفقہ فی الدین، معاملات میں صحیح رائے قائم کرنے کی صلاحیت، اور اللہ کی طرف سے معاملات میں فیصلہ دینے کا اختیار۔
۱۱: اصل میں لفظ حَنَان استعمال ہوا ہے جو قریب قریب مامتا کا ہم معنی ہے۔ یعنی ایک ماں کو جو غایت درجے کی شفقت اپنی اولاد پر ہوتی ہے، جس کی بنا پر وہ بچے کی تکلیف پر تڑپ اُٹھتی ہے، وہ شفقت حضرت یحییٰ کے دل میں بندگانِ خدا کے لیے پیدا کی گئی تھی۔
۱۲: حضرت یحییٰ کے جو حالات مختلف انجیلوں میں بکھرے ہوئے ہیں انہیں جمع کر کے ہم یہاں ان کی سیرت پاک کا ایک نقشہ پیش کرتے ہیں جس سے سُورۂ آلِ عمران اور اس سورے کے مختصر اشارات کی توضیح ہو گی۔ لوقا کے بیان کے مطابق حضرت یحییٰ، حضرت عیسیٰ سے ۶ مہینے بڑے تھے۔ ان کی والدہ اور حضرت عیسیٰ کی والدہ آپس میں قریبی رشتہ دار تھیں۔ تقریباً ۳۰ سال کی عمر میں وہ نبوت کے منصب پر عملاً مامور ہوئے اور یوحنا کی روایت کے مطابق انہوں نے شرقِ اُرْدُن کے علاقے میں دعوت الی اللہ کا کام شروع کیا۔ وہ کہتے تھے: ’’میں بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ کو سیدھا کرو‘‘۔ (یوحنا ۲۳: ۱) مرقس کا بیان ہے کہ وہ لوگوں سے گناہوں کی توبہ کراتے تھے اور توبہ کرنے والوں کو بپتسمہ دیتے تھے، یعنی توبہ کے بعد غسل کراتے تھے تاکہ روح اور جسم دونوں پاک ہو جائیں۔ یہودیہ اور یروشلم کے بکثرت لوگ ان کے معتقد ہو گئے تھے اور ان کے پاس جا کر بپتسمہ لیتے تھے ( مرقس ۴:۱-۵)۔ اسی بنا پر ان کا نام بپتسمہ دینے والا( John The Baptist ) مشہور ہو گیا تھا۔ عام طور پر بنی اسرائیل ان کی نبوت تسلیم کر چکے تھے (متی ۲۶:۲۱) مسیح علیہ السّلام کا قول تھا کہ ’’ جو عورتوں سے پیدا ہوئے ہیں ان میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں ہوا۔‘‘ (متی ۱۱:۱۱) وہ اونٹ کے بالوں کو پوشاک پہنے اور چمڑے کا پٹکا کمر سے باندھے رہتے تھے اور ان کی خوراک ٹڈیاں اور جنگلی شہد تھا (متی ۴:۳)۔ اس فقیرانہ زندگی کے ساتھ وہ منادی کرتے پھرتے تھے کہ ’’توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی قریب آ گئی ہے‘‘ (متی ۲:۳) یعنی مسیح علیہ السّلام کی دعوتِ نبوت کا آغاز ہونے والا ہے۔ اسی بنا پر ان کو عموماً حضرت مسیح کا ’’ارہاص‘‘ کہا جاتا ہے، اور یہی بات ان کے متعلق قرآن میں کہی گئی ہے کہ مُصَدِّ قًا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللہِ (آلِ عمران ۴)۔ وہ لوگوں کو روزے اور نماز کی تلقین کرتے تھے (متی ۱۴:۹ – لوقا ۳۳:۵ – لوقا ۱:۱۱)۔ وہ لوگوں سے کہتے تھے کہ ’’جس کے پا س دو کرتے ہوں وہ اُس کو جس کے پاس نہ ہو بانٹ دے اور جس کے پاس کھانا ہو وہ بھی ایسا ہی کرے۔ ‘‘ محصول لینے والوں نے پوچھا کہ اُستاد، ہم کیا کریں تو انہوں نے فرمایا ’’ جو تمہارے لیے مقرر ہے اس سے زیادہ نہ لینا۔‘‘ سپاہیوں نے پوچھا ہمارے لیے کیا ہدایت ہے ؟ فرمایا ’’ نہ کسی پر ظلم کرو اور نہ نا حق کسی سے کچھ لو اور اپنی تنخواہ پر کفایت کرو‘‘ (لوقا ۳:۱۰ – ۱۴)۔ بنی اسرائیل کے بگڑے ہوئے علماء، فریسی اور صَدُوتی ان کے پاس بپتسمہ لینے آئے تو ڈانٹ کر فرمایا ’’ اے سانپ کے بچو! تم کو کس نے جتا دیا کہ آنے والے غضب سے بھاگو؟۔۔۔۔۔۔ اپنے دلوں میں یہ کہنے کا خیال نہ کرو کہ ابراہام ہمارا باپ ہے۔۔۔۔۔۔ اب درختوں کی جڑوں پر کلہاڑا رکھا ہوا ہے، پس جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا ہو کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے‘‘ (متی ۷:۳ – ۱۰)۔ ان کے عہد کا یہودی فرمانروا، ہیرو د اینٹی پاس، جس کی ریاست میں وہ دعوتِ حق کی خدمت انجام دیتے تھے، سر تا پا رومی تہذیب میں غرق تھا اور اس کی وجہ سے سارے ملک میں فسق و فجور پھیل رہا تھا۔ اس نے خود اپنے بھائی فِلپ کی بیوی ہیرودیاس کو اپنے گھر میں ڈال رکھا تھا۔ حضرت یحییٰ نے اس پر ہیرود کو ملامت کی اور اس کی فاسقانہ حرکات کے خلاف آواز اُٹھائی۔ اس جرم میں ہیرود نے ان کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا۔ تاہم وہ ان کو ایک مقدس اور راستباز آدمی جان کر ان کا احترام بھی کرتا تھا اور پبلک میں ان کے غیر معمولی اثر سے ڈرتا بھی تھا۔ لیکن ہیرودیاس یہ سمجھتی تھی کہ یحییٰ علیہ السّلام جو اخلاقی روح قوم میں پھونک رہے ہیں وہ لوگوں کی نگاہ میں اُس جیسی عورتوں کو ذلیل کیے دے رہی ہے۔ اس لیے وہ ان کی جان کے درپے ہو گئی۔ آخر کار ہیرود کی سالگرہ کے جشن میں اس نے وہ موقع پا لیا کہ جس کی وہ تاک میں تھی۔ جشن کے دربار میں اس کی بیٹی نے خوب رقص کیا جس پر خوش ہو کر ہیرود نے کہا مانگ کیا مانگتی ہے۔ بیٹی نے اپنی فاحشہ ماں سے پوچھا کیا مانگوں ؟ ماں نے کہا کہ یحیی ٰ کا سر مانگ لے۔ چنانچہ اس نے ہیرود کے سامنے ہاتھ باندھ کر عرض کیا مجھے یوحنا بپتسمہ دینے والے کا سر ایک تھال میں رکھوا کر ابھی منگوا دیجیے۔ ہیرود یہ سُن کر بہت غمگین ہوا، مگر محبوبہ کی بیٹی کا تقاضا کیسے رد کر سکتا تھا۔ اس نے فوراً قید خانے سے یحییٰ علیہ السّلام کا سر کٹوا کر منگوایا اور ایک تھا ل میں رکھوا کر رقاصہ کی نذر کر دیا (متی ۳:۱۴ – ۱۲۔ مرقس ۱۷:۶ – ۲۹۔ لوقا ۱۹:۳ – ۲۰)۔
۱۳: تقابل کے لیے تفہیمُ القرآن، جلد اول، آل عمران، حاشیہ نمبر ۴۲، ۵۵۔ النساء حاشیہ نمبر ۱۹۰- ۱۹۱۔
۱۴: سُورۂ آلِ عمران میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت مریم کی والدہ نے اپنی مانی ہوئی نذر کے مطابق ان کو بیتُ المَقدِس میں عبادت کے لیے بٹھا دیا تھا اور حضرت زکریا نے ان کی حفاظت و کفالت اپنے ذمہ لے لی تھی۔ وہاں یہ ذکر بھی گزر چکا ہے کہ حضرت مریم بیت المَقدِس کی ایک محراب میں معتکف ہو گئی تھیں۔ اب یہاں یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ محراب جس میں حضرت مریم معتکف تھیں بیت المَقدِس کے شرقی حصّے میں واقع تھی اور انہوں نے معتکفین کے عام طریقے کے مطابق کا ایک پردہ لٹکا کر اپنے آپ کو دیکھنے والوں کی نگاہوں سے محفوظ کر لیا تھا۔ جن لوگوں نے محض بائیبل کی موافقت کی خاطر مکانًا شرقیًا سے مراد ناصرہ لیا ہے انہوں نے غلطی کی ہے، کیونکہ ناصرہ یروشلم کے شمال میں ہے نہ کہ مشرق میں۔
۱۵: جیسا کہ ہم حاشیہ نمبر ۶ میں اشارہ کر آئے ہیں، حضر ت مریم کے استعجاب پر فرشتے کا یہ کہنا کہ ’’ایسا ہی ہو گا‘‘ ہر گز اس معنی میں نہیں ہو سکتا کہ بشر تجھ کو چھوئے گا اور اس سے تیرے ہاں لڑکا پیدا ہو گا، بلکہ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ تیرے ہاں لڑکا ہو گا باوجود اس کے کہ تجھے کسی بشر نے نہیں چھُوا ہے۔ اوپر انہی الفاظ میں حضرت زکریا کا استعجاب نقل ہو چکا ہے اور وہاں بھی فرشتے نے یہی جواب دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو مطلب اس جواب کا وہاں ہے وہی یہاں بھی ہے۔ اسی طرح سورۂ ذاریات، آیات ۲۸ – ۳۰ میں جب فرشتہ حضرت ابراہیم کو بیٹے کی بشارت دیتا ہے اور حضرت سارہ کہتی ہیں کہ مجھ بوڑھی بانجھ کے ہاں بیٹا کیسے ہو گا تو فرشتہ اُن کو جواب دیتا ہے کہ کذٰلک۔ ’’ایسا ہی ہو گا‘‘۔ ظاہر ہے کہ اس سے مُراد بڑھاپے اور بانجھ پن کے باوجود ان کے ہاں اولاد ہونا ہے۔ علاوہ بریں اگر کذٰلک کا مطلب یہ لے لیا جائے کہ بشر تجھے چھوئے گا اور تیرے ہاں اسی طرح لڑکا ہو گا جیسے دنیا بھر کی عورتوں کے ہاں ہوا کرتا ہے، تو پھر بعد کے دونوں فقرے بالکل بے معنی ہو جاتے ہیں۔ اس صورت میں یہ کہنے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے کہ تیرا رب کہتا ہے کہ ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے، اور یہ کہ ہم اس لڑکے کو ایک نشانی بنانا چاہتے ہیں۔ نشانی کا لفظ یہاں صریحًا معجزے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اور اسی معنی پر یہ فقرہ بھی دلالت کرتا ہے کہ ’’ایسا کرنا میرے لیے بہت آسان ہے۔ ‘‘ لہٰذا اس ارشاد کا مطلب بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ ہم اس لڑکے کی ذات ہی کو ایک معجزے کی حیثیت سے بنی اسرائیل کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ بعد کی تفصیلات اس بات کی خود تشریح کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ذات کو کس طرح معجزہ بنا کر پیش کیا گیا۔
۱۶: دُور کے مقام سے مراد بیت لحم ہے۔ حضرت مریم کا اپنے اعتکاف سے نکل وہاں جانا ایک فطری امر تھا۔ بنی اسرائیل کے مقدس ترین گھرانے بنی ہارون کی لڑکی، اور پھر وہ بیت المقدِس میں خدا کی عبادت کے لیے وقف ہو کر بیٹھی تھی، یکایک حاملہ ہو گئی۔ اس حالت میں اگر وہ اپنی جائے اعتکاف پر بیٹھی رہتیں اور ان کا حمل لوگوں پر ظاہر ہو جاتا تو خاندان والے ہی نہیں، قوم کے دوسرے لوگ بھی ان کا جینا مشکل کر دیتے۔ اس لیے بیچاری اس شدید آزمائش میں مبتلا ہونے کے باوجود خاموشی کے ساتھ اپنے اعتکاف کا حجرہ چھوڑ کر نکل کھڑی ہوئیں تاکہ جب تک اللہ کی مرضی پوری ہو، قوم کی لعنت ملامت اور عام بدنامی سے تو بچی رہیں۔ یہ واقعہ بجائے خود اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام باپ کے بغیر پیدا ہوئے تھے۔ اگر ہو شادی شدہ ہوتیں اور شوہر ہی سے ان کے ہاں بچہ پیدا ہو رہا ہوتا توکوئی وجہ نہ تھی کہ میکے اور سسرال، سب کو چھوڑ چھاڑ کر وہ زچگی کے لیے تن تنہا ایک دور دراز مقام پر چلی جاتیں۔
۱۷: ان الفاظ سے اُس پریشانی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس میں حضرت مریم اس وقت مبتلا تھیں۔ موقع کی نزاکت ملحوظ رہے تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ان کی زبان سے یہ الفاظ دردِ زہ کی تکلیف کی وجہ سے نہیں نکلے تھے، بلکہ یہ فکر اُن کو کھائے جا رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے جس خطر ناک آزمائش میں انہیں ڈالا ہے اس سے کس طرح بخیریت عہدہ برآ ہوں۔ حمل کو تو اب تک کسی نہ کسی طرح چھپا لیا۔ اب اس بچے کو کہاں لے جائیں۔ بعد کا یہ فقرہ کہ فرشتے نے اُن سے کہا ’’غم نہ کر‘‘ اس بات کو واضح کر رہا ہے کہ حضرت مریم نے یہ الفاظ کیوں کہے تھے۔ شادی شدہ لڑکی کے ہاں جب پہلا بچہ پیدا ہو رہا ہو تو وہ چاہے تکلیف سے کتنی ہی تڑپے، اُسے رنج و غم کبھی لاحق نہیں ہوا کرتا۔
۱۸: مطلب یہ ہے کہ بچے کے معاملے میں تجھے کچھ بولنے کی ضرورت نہیں۔ اس کی پیدائش پر جو کوئی بھی معترض ہو اس کا جواب اب ہمارے ذمّے ہے (واضح رہے کہ بنی اسرائیل میں چپ کا روزہ رکھنے کا طریقہ رائج تھا)۔ یہ الفاظ بھی صاف بتا رہے ہیں کہ حضرت مریم کو اصل پریشانی کیا تھی۔ نیز یہ امر بھی قابلِ غور ہے کہ شادی شدہ لڑکی کے ہاں پہلو نٹی کا بچہ اگر دنیا کے معروف طریقہ پر پیدا ہو تو آخر اُسے چپ کا روزہ رکھنے کی کیا ضرورت پیش آسکتی ہے؟
۱۹: ‘‘ ان الفاظ کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ انہیں ظاہری معنی میں لیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ حضرت مریم کا کوئی بھائی ہارون نامی ہو۔ دوسرے یہ کہ عربی محاورے کے مطابق اُختِ ہارون کے معنی ’’ہارون کے خاندان کی لڑکی‘‘ لیے جائیں، کیونکہ عربی میں یہ ایک معروف طرزِ بیان ہے۔ مثلاً قبیلۂ مُضَر کے آدمی کو یا اخا مضر (اے مضر کے بھائی) اور قبیلۂ ہمدان کے آدمی کو یا اخا ھمد ان (اے ہمدان کے بھائی) کہہ کر پکارتے ہیں۔ پہلے معنی کے حق میں دلیلِ ترجیح یہ ہے کہ بعض روایات میں خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ معنی منقول ہوئے ہیں۔ اور دوسرے معنی کی تائید میں دلیل یہ ہے کہ موقع و محل اِس معنی کا تقاضا کرتا ہے۔ کیونکہ اس واقعہ سے قوم میں جو ہیجان برپا ہوا تھا اس کی وجہ بظاہر یہ نہیں معلوم ہوتی کہ ہارون نامی ایک گمنام شخص کی کنواری بہن گود میں بچہ لیے ہوئے آئی تھی، بلکہ جس چیز نے لوگوں کا ایک ہجوم حضرت مریم کے گرد جمع کر دیا تھا وہ یہی ہو سکتی تھی کہ بنی اسرائیل کے مقدس ترین گھرانے، خانوادۂ ہارون کی ایک لڑکی اس حالت میں پائی گئی۔ اگرچہ ایک حدیث مرفوع کی موجودگی میں کوئی دوسری تاویل اصولاً قابلِ لحاظ نہیں ہو سکتی، لیکن مسلم، نَسائی اور ترمذی وغیرہ میں یہ حدیث جن الفاظ میں نقل ہوئی ہے اس سے یہ مطلب نہیں نکلتا کہ ان الفاظ کے معنی لازماً ’’ہارون کی بہن‘‘ ہی ہیں۔ مُغیرہؓ بن شُعبہ کی روایت میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ نَجران کے عیسائیوں نے حضرت مُغیرہ کے سامنے یہ اعتراض پیش کیا کہ قرآن میں حضرت مریم کو ہارون کی بہن کہا گیا ہے، حالانکہ حضرت ہارون ان سے سینکڑوں برس پہلے گزر چکے تھے۔ حضرت مغیرہ ان کے اس اعتراض کا جواب نہ دے سکے اور انہوں نے آ کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے یہ ماجرا عرض کیا۔ اس پر حضور ؐ نے فرمایا کہ ’’ تم نے یہ جواب کیوں نہ دیا کہ بنی اسرائیل اپنے نام انبیاء اور صلحا ء کے نام پر رکھتے تھے؟‘‘ حضور کے اس ارشاد سے صرف یہ بات نکلتی ہے کہ لاجواب ہونے کے بجائے یہ جواب دے کر اعتراض رفع کیا جا سکتا تھا۔۱۹a: جو لوگ حضرت عیسیٰؑ کی معجزانہ پیدائش کے منکر ہیں وہ آخر اس بات کی کیا معقول توجیہ کر سکتے ہیں کہ حضرت مریم کے بچہ لیے ہوئے آنے پر قوم کیوں چڑھ کر آئی اور اُن پر یہ طعن اور ملامت کی بوچھاڑ اس نے کیوں کی؟
۲۰: قرآن کی معنوی تحریف کرنے والوں نے اس آِت کا یہ مطلب لیا ہے کہ ’’ہم اس سے کیا بات کریں کو کل کا بچہ ہے۔‘‘ یعنی ان کے نزدیک یہ گفتگو حضرت عیسیٰ کی جوانی کے زمانے میں ہوئی اور بنی اسرائیل کے بڑے بوڑھوں نے کہا کہ بھلا اس لڑکے سے کیا بات کریں جو کل ہمارے سامنے گہوارے میں پڑا ہوا تھا۔ مگر جو شخص موقع و محل اور سیاق و سباق پر کچھ بھی غور کرے گا وہ محسوس کر لے گا کہ یہ محض ایک مہمل تاویل ہے جو معجزے سے بچنے کے لیے کی گئی ہے۔ اور کچھ نہیں تو ظالموں نے یہی سوچا ہوتا کہ جس بات پر اعتراض کر نے کے لیے وہ لوگ آئے تھے وہ تو بچے کی پیدائش کے وقت پیش آئی تھی نہ کہ اس کے جوان ہونے کے وقت۔ علاوہ بریں سورۂ آلِ عمران کی آیت ۴۶، اور سورۂ مائدہ کی آیت ۱۱۰ دونوں اس بات کی قطعی صراحت کرتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ نے یہ کلام جوانی میں نہیں بلکہ گہوارے میں ایک نوزائیدہ بچے کی حیثیت ہی سے کیا تھا۔ پہلی آیت میں فرشتہ حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دیتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرے گا اور جوان ہو کر بھی۔ دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ خو د حضرت عیسیٰ سے فرماتا ہے کہ تو لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرتا تھا ور جوانی میں بھی۔۲۰a: یہ نہیں فرمایا کہ والدین کا حق ادا کرنے والا۔ صرف والدہ کا حق ادا کرنے والا فرمایا ہے۔ یہ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت عیسیٰ کا باپ کو ئی نہ تھا۔ اور اسی کی ایک صریح دلیل یہ ہے کہ قرآن میں ہر جگہ اُن کو عیسیٰ ابنِ مریم کہا گیا ہے۔
۲۱: ‘‘ یہ ہے وہ ’’نشانی‘‘ جو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ذات میں بنی اسرائیل کے سامنے پیش کی گئی۔ اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل کو ان کی مسلسل بد کرداریوں پر عبرتناک سزا دینے سے پہلے ان پر حجت تمام کرنا چاہتا تھا۔اس کے لیے اس نے یہ تدبیر فرمائی کہ بنی ہارون کی ایک ایسی زاہدہ و عابدہ لڑکی کو جو بیت المقدس میں معتکف اور حضرت زکریّا کے زیرِ تربیت تھی، دوشیزگی کی حالت میں حاملہ کر دیا تاکہ جب وہ بچہ لیے ہوئے آئے تو ساری قوم میں ہیجان برپا ہو جائے اور لوگوں کی توجہات یکلخت اس پر مرکوز ہو جائیں۔ پھر اس تدبیر کے نتیجے میں جب ایک ہجوم حضرت مریم پر ٹوٹ پڑا تو اللہ تعالیٰ نے اس نوزائیدہ بچے سے کلام کرایا تاکہ جب یہی بچہ بڑا ہو کر نبوت کے منصب پر سرفراز ہو تو قوم میں ہزاروں آدمی اس امر کی شہادت دینے والے موجود رہیں کہ اس کی شخصیت میں وہ اللہ تعالیٰ کا ایک حیرت انگیز معجزہ دیکھ چکے ہیں۔ اس پر بھی جب یہ قوم اس کی نبوت کا انکار کر ے اور اس کی پیروی قبول کرنے کے بجائے اسے مجرم بنا کر صلیب پر چڑھانے کی کوشش کرے تو پھر اس کو ایسی عبرتناک سزا دی جائے جو دنیا میں کسی قوم کو نہیں دی گئی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جدل اوّل، آلِ عمران، حاشیہ نمبر ۴۴، ۵۳۔ ۱، نساء حاشیہ نمبر ۲۱۲، ۲۱۳۔ جلد ِ سوم، الانبیاء، حاشیہ نمبر ۸۸ – ۸۹ – ۹۰۔ المومنون، حاشیہ نمبر ۴۳)۔
۲۲: یہاں تک جو بات عیسائیوں کے سامنے واضح کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کے متعلق ابن اللہ ہونے کا جو عقیدہ انہوں نے اختیار کر رکھا ہے وہ باطل ہے۔ جس طرح ایک معجزے سے حضرت یحییٰ کی پیدائش نے اُن کو خدا کا بیٹا نہیں بنا دیا اُسی طرح ایک دوسرے معجزے سے حضرت عیسیٰ کی پیدائش بھی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بنا پر انہیں خدا کا بیٹا قرار دے دیا جائے۔ عیسائیوں کی اپنی روایات میں بھی یہ بات موجود ہے کہ حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ، دونوں ایک ایک طرح کے معجزے سے پیدا ہوئے تھے۔ چنانچہ لوقا کی انجیل میں قرآن ہی کی طرح ان دونوں معجزوں کا ذکر ایک سلسلۂ بیان میں کیا گیا ہے۔ لیکن یہ عیسائیوں کا غلّو ہے کہ وہ ایک معجزے سے پیدا ہونے والے کو اللہ کا بندہ کہتے ہیں اور دوسرے معجزے سے پیدا ہونے والے کو اللہ کا بیٹا بنا بیٹھے ہیں۔
۲۳: یہاں عیسائیوں کو بتایا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی دعوت بھی وہی تھی جو تمام دوسرے انبیاء علیہم السّلام لے کر آئے تھے۔ انہوں نے اس کے سوا کچھ نہیں سکھایا تھا کہ صرف خدائے واحد کی بندگی کی جائے۔ اب یہ جو تم نے ان کو بندے کے بجائے خدا بنا لیا ہے اور اُنہیں عبادت میں اللہ کے ساتھ شریک کر رہے ہو، یہ تمہاری اپنی ایجاد ہے۔ تمہارے پیشوا کی یہ تعلیم ہر گز نہیں تھی۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جدل اوّل، آلِ عمران، حاشیہ نمبر ۶۸، مائدہ، حاشیہ نمبر ۱۰۰ – ۱۰۱ – ۱۳۰۔جلد چہارم الزخرف حواشی نمبر ۵۷ – ۵۸۔
۲۵: یہاں وہ تقریر ختم ہوتی ہے جو عیسائیوں کو سنانے کے لے نازل فرمائی گئی تھی۔ اِس تقریر کی عظمت کا صحیح اندازہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ آدمی اس کو پڑھتے وقت وہ تاریخی پس منظر نگاہ میں رکھے جو ہم نے اِس سُورے کے دیباچے میں بیان کیا ہے۔ یہ تقریر اُس موقع پر نازل ہوئی تھی جبکہ مکے کے مظلوم مسلمان ایک عیسائی سلطنت میں پناہ لینے کے لیے جارہے تھے، اور اس غرض کے لیے نازل کی گئی تھی کہ جب وہاں مسیح کے متعلق اسلامی عقائد کا سوال چھڑے تو یہ ’’سرکاری بیان‘‘ عیسائیوں کو سنا دیا جائے۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت اس امر کا ہو سکتا ہے کہ اسلام نے مسلمانوں کو کسی حال میں بھی حق و صداقت کے معاملے میں مداہنت برتنا نہیں سکھایا ہے۔ پھر وہ سچے مسلمان جو حبش کی طرف ہجرت کر کے گئے تھے، اُن کی قوتِ ایمانی بھی حیرت انگیز ہے کہ انہوں نے عین دربار ِ شاہی میں ایسے نازک موقع پر اُٹھ کر یہ تقریر سنادی جبکہ نجاشی کے تمام اہلِ دربار رشوت کھا کر اُنہیں ان کے دشمنوں کے سپرد کر دینے پر تُل گئے تھے۔ اُس وقت اس امر کا پورا خطرہ تھا کہ مسیحیت کے بنیادی عقائد پر اسلام کا یہ بے لاگ تبصرہ سُن کر نجاشی بھی بگڑ جائے گا اور ان مظلوم مسلمانوں کو قریش کے قصائیوں کے حوالے کر دے گا مگر اس کے باوجود انہوں نے کلمۂ حق پیش کرنے میں ذرّہ برابر تامّل نہ کیا۔
۲۶: یہاں سے خطاب کا رُخ اہلِ مکہ کی طرف پھر رہا ہے جنہوں نے اپنے نوجوان بیٹوں، بھائیوں اور دوسرے رشتہ داروں کو اُسی طرح خدا پرستی کے جرم میں گھر چھوڑ نے پر مجبور کر دیا تھا جس طرح حضرت ابراہیم ؑ کو ان کے باپ اور بھائی بندوں نے دیس نکالا دیا تھا۔ اس غر ض کے لیے دوسرے انبیاء کو چھوڑ کر خاص طور پر حضرت ابراہیم ؑ کے قصّے کا انتخاب اس لیے کیا گیا کہ قریش کے لوگ ان کو اپنا پیشوا مانتے تھے اور انہی کی اولاد ہونے پر عرب میں اپنا فخر جتا یا کرتے تھے۔
۲۷: اصل الفاظ ہیں لَا تَعْبُدِ الشَّیْطٰن، یعنی ’’شیطان کی عبادت نہ کریں‘‘۔ اگرچہ حضرت ابراہیم ؑ کے والد اور قوم کے دوسرے لوگ عبادت بُتوں کی کرتے تھے، لیکن چونکہ اطاعت وہ شیطان کی کر رہے تھے، اس لیے حضرت ابراہیم نے ان کی اِس اطاعتِ شیطان کو بھی عبادتِ شیطان قرار دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ عبادت محض پوجا اور پرستش ہی کا نام نہیں بلکہ اطاعت کا نام بھی ہے۔ نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی پر لعنت کرتے ہوئے بھی اس کی بندگی بجا لائے تو وہ اُس کی عبادت کا مجرم ہے، کیونکہ شیطان بہر حال کسی زمانے میں بھی لوگوں کا ’’معبود‘‘ (بمعنی معروف) نہیں رہا ہے بلکہ ان کے نام پر ہر زمانے میں لوگ لعنت ہی بھیجتے رہے ہیں۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الکہف، حاشیہ ۴۹ – ۵۰)۔
۲۷a: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، التوبہ، حاشیہ ۱۱۲۔
۲۸: یہ حرفِ تسلّی ہے اُن مہاجرین کے لیے جو گھروں سے نکلنے پر مجبور ہوئے تھے۔ ان کو بتایا جا رہا ہے کہ جس طرح ابراہیم علیہ السّلام اپنے خاندان سے کٹ کر برباد نہ ہوئے بلکہ اُلٹے سر بلند و سرفراز ہو کر رہے اُسی طرح تم بھی برباد نہ ہو گے بلکہ وہ عزّت پاؤ گے جس کا تصوّر بھی جاہلیت میں پڑے ہوئے کفارِ قریش نہیں کر سکتے۔
۲۹: اصل میں لفظ مُخْلَص استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں ’’خالص کیا ہوا‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ ایک ایسے شخص تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے خالص اپنا کر لیا تھا۔
۳۰: ’’رسول‘‘ کے معنی ہیں ’’فرستادہ‘‘، ’’ بھیجا ہوا‘‘۔ اس معنی کے لحاظ سے عربی زبان میں قاصد، پیغام بر، ایلچی اور سفیر کے لیے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اور قرآن میں یہی لفظ یا تو ان ملائکہ کے لیے استعمال ہوا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کارِ خاص پر بھیجے جاتے ہیں، یا پھر اُن انسانوں کو اس نام سے موسوم کیا گیا ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے خلق کی طرف اپنا پیغام پہنچانے کے لیے مامور فرمایا۔ ’’نبی‘‘ کے معنی میں اہلِ لغت کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اس کو لفظ نَبَا سے مشتق قرار دیتے ہیں جس کے معنی خبر کے ہیں، اور اس اصل کے لحاظ سے نبی کے معنی ’’خبر دینے والا‘‘ کے ہیں۔ بعض کے نزدیک اس کا مادّہ نبُو ہے، یعنی رفعت اور بلندی۔ اور اس معنی کے لحاظ سے نبی کا مطلب ہے ’’بلند مرتبہ‘‘ اور ’’عالی مقام‘‘۔ ازہری نے کسائی سے ایک تیسرا قول بھی نقل کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ لفظ دراصل نبیٔ ہے جس کے معنی طریق اور راستے کے ہیں، اور انبیاء کو نبی اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ اللہ کی طرف جانے کا راستہ ہیں۔ پس کسی شخص کو ’’رسول نبی‘‘ کہنے کا مطلب یا تو ’’عالی مقام پیغمبر‘‘ ہے، یا ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبریں دینے والا پیغمبر‘‘، یا پھر ’’وہ پیغمبر جو اللہ کا راستہ بتانے والا ہے‘‘۔ قرآن مجید میں یہ دونوں الفاظ بالعموم ہم معنی استعمال ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی شخصیت کو کہیں صرف رسول کہا گیا ہے اور کہیں صرف نبی اور کہیں رسول اور نبی ایک ساتھ۔ لیکن بعض مقامات پر رسول اور نبی کے الفاظ اس طرح بھی استعمال ہوئے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان دونوں میں مرتبے یا کام کی نوعیت کے لحاظ سے کوئی اصطلاحی فرق ہے۔ مثلاً سُورۂ حج، رکوع ۷ میں فرمایا وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّلَا نَبِیٍّ اِلَّا۔۔۔۔۔۔ ’’ ہم نے تم سے پہلے نہیں بھیجا کوئی رسول اور نہ نبی مگر۔۔۔۔۔‘‘ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ رسول اور نبی دو الگ اصطلاحیں ہیں جن کے درمیان کوئی معنوی فرق ضرور ہے۔ اسی بنا پر اہلِ تفسیر میں یہ بحث چل پڑی ہے کہ اس فرق کی نوعیت کیا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ قطعی دلائل کے ساتھ کوئی بھی رسول اور نبی کی الگ الگ حیثیتوں کو تعین نہیں کر سکا ہے۔ زیادہ سے زیادہ جو بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ رسول کا لفظ نبی کی بہ نسبت خاص ہے، یعنی ہر رسول نبی بھی ہوتا ہے، مگر ہر نبی رسول نہیں ہوتا، یا بالفاظِ دیگر انبیاء میں سے رسول کا لفظ اُن جلیل القدر ہستیوں کے لیے بولا گیا ہے جن کو عام انبیاء کی بہ نسبت زیادہ اہم منصب سپرد کیا گیا تھا۔ اِسی کی تائید اُس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ جو امام احمد نے حضرت ابو اُمامہ سے اور حاکم نے حضرت ابو ذر سے نقل کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے رسولوں کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے ۳۱۳ یا ۳۱۵ بتائی اور انبیاء کی تعداد پوچھی گئی تو آپ نے ایک لاکھ ۲۴ ہزار بتائی۔ اگرچہ اس حدیث کی سندیں ضعیف ہیں، مگر کئی سندوں سے ایک بات کا نقل ہونا اس کے ضعف کو بڑی حد تک دور کر دیتا ہے۔
۳۱: کوہِ طور کے داہنی جانب سے مراد اس کا مشرقی دامن ہے۔ چونکہ حضرت موسیٰ مَدْیَنْ سے مصر جاتے ہوئے اُس راستہ سے گزر رہے تھے جو کوہِ طور کے جنوب سے جاتا ہے، اور جنوب کی طرف سے اگر کوئی شخص طور کو دیکھے تو اس کے دائیں جانب مشرق اور بائیں جانب مغرب ہو گا، اس لیے حضرت موسیٰؑ کی نسبت سے طور کے مشرقی دامن کو ’’داہنی جانب‘‘ فرمایا گیا۔ ورنہ ظاہر ہے کہ بجائے خود پہاڑ کا کوئی دایاں یا بایاں رُخ نہیں ہوتا۔
۳۲: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، النساء، حاشیہ نمبر ۲۰۶۔
۳۳: حضرت ادریس کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک وہ بنی اسرائیل میں سے کوئی نبی تھے۔ مگر اکثریت اس طرف گئی ہے کہ وہ حضرت نوح ؑ سے بھی پہلے گزر ے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کوئی صحیح حدیث ہم کو ایسی نہیں ملی جس سے ان کی شخصیت کے تعیّن میں کوئی مدد ملتی ہو۔ البتہ قرآن کا ایک اشارہ اس خیال کی تائید کرتا ہے کہ وہ حضرت نوح ؑ سے متقدم ہیں۔ کیونکہ بعد والی آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ انبیاء جن کا ذکر اوپر گزرا ہے، آدم کی اولاد، نوح کی اولاد، ابراہیم کی اولاد اور اسرائیل کی اولاد سے ہیں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ حضرت یحییٰ، عیسیٰ اور موسیٰ علیہم السّلام تو بنی اسرائیل میں سے ہیں، حضرت اسماعیل ؑ، حضرت اسحاق ؑ اور حضرت یعقوب ؑ اولادِ ابراہیم ؑ سے ہیں اور حضرت ابراہیم ؑ اولادِ نوحؑ سے، اس کے بعد صرف حضرت ادریسؑ ہی رہ جاتے ہیں جن کے متعلق یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ اولادِ آدم ؑ سے ہیں۔ مفسّرین کا عام خیال یہ ہے کہ بائیبل میں جن بزرگ کا نام حنوک( Enoch ) بتایا گیا ہے، وہی حضرت ادریس ؑ ہیں۔ ان کے متعلق بائیبل کا بیان یہ ہے: ’’اور حنوک پینسٹھ برس کا تھا جب اس سے متوسلح پیدا ہوا اور متوسلح کی پیدائش کے بعد حنوک تین سو برس تک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔۔۔۔۔۔ اور وہ غائب ہو گیا کیونکہ خدا نے اسے اُٹھا لیا‘‘۔ ( پیدائش، باب ۵ – آیت ۲۱ – ۲۴)۔ تلمود کی اسرائیلی روایات میں ان کے حالات زیادہ تفصیل کے ساتھ بتائے گئے ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت نوح ؑ سے پہلے جب بنی آدم میں بگاڑ کی ابتدا ہوئی تو خدا کے فرشتے نے حنوک کو، جو لوگوں سے الگ تھلگ زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے، پکارا کہ ’’اے حنوک، اُٹھو، گوشۂ عزلت سے نکلو اور زمین کے باشندوں میں چل پھر کر ان کو وہ راستہ بتاؤ جس پر ان کو چلنا چاہیے اور وہ طریقے بتاؤ جن پر انہیں عمل کرنا چاہیے‘‘۔ یہ حکم پا کر وہ نکلے اور انہوں نے جگہ جگہ لوگوں کو جمع کر کے وعظ و تلقین کی اور نسلِ انسانی نے ان کی اطاعت قبول کر کے اللہ کی بندگی اختیار کر لی۔ حنوک ۳۵۳ برس تک نسلِ انسانی پر حکمراں رہے۔ ان کی حکومت انصاف اور حق پرستی کی حکومت تھی۔ ان کے عہد میں زمین پر خدا کی رحمتیں برستی رہیں۔ The Talmud Selections, PP. ۱۸-۲۱
۳۴: اس کا سیدھا سادھا مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس ؑ کو بلند مرتبہ عطا کیا تھا، لیکن اسرائیلی روایات سے منتقل ہو کر یہ بات ہمارے ہاں بھی مشہور ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس ؑ کو آسمان پر اُٹھا لیا۔ بائیبل میں تو صرف اسی قدر ہے کہ وہ غائب ہو گئے کیونکہ ’’خدا نے ان کو اُٹھا لیا‘‘، مگر تلمود میں اس کاایک طویل قصّہ بیان ہوا ہے جس کا خاتمہ اس پر ہوتا ہے کہ ’’حنوک ایک بگولے میں آتشیں رتھ اور گھوڑوں سمیت آسمان پر چڑھ گئے‘‘۔
۳۵: یعنی نماز پڑھنی چھوڑ دی، یا نماز سے غفلت اور بے پروائی برتنے لگے۔ یہ ہر اُمت کے زوال و انحطاط کا پہلا قدم ہے۔ نماز وہ اوّلین رابطہ ہے جو مومن کا زندہ اور عملی تعلق خدا کے ساتھ شب و روز جوڑے رکھتا ہے اور اسے خدا پرستی کے مرکز و محور سے بچھڑنے نہیں دیتا۔ یہ بندھن ٹوٹتے ہی آدمی خدا سے دور اور دُور تر ہوتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ عملی تعلق سے گزر کر اس کا خیالی تعلق بھی خدا کے ساتھ باقی نہیں رہتا۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے یہاں یہ بات ایک قاعدۂ کلیہ کے طور پر بیان فرمائی ہے کہ پچھلے تمام انبیاء کی اُمتوں کا بگاڑ نماز ضائع کرنے سے شروع ہو ا ہے۔
۳۶: یہ تعلق باللہ کی کمی اور اس کے فقدان کا لازمی نتیجہ ہے۔ نماز کی اضاعت سے جب دل خدا کی یاد سے غافل رہنے لگے تو جوں جوں یہ غفلت بڑھتی گئی، خواہشاتِ نفس کی بندگی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ ان کے اخلاق اور معاملات کا ہر گوشہ احکامِ الہٰی کے بجائے اپنے من مانے طریقوں کا پابند ہو کر رہا۔
۳۷: یعنی جس کا وعدہ رحمان نے اس حالت میں کیا ہے کہ وہ جنتیں ان کی نگاہ سے پوشیدہ ہیں۔
۳۸: اصل میں لفظ ’’سلام‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں عیب اور نقص سے محفوظ۔ جنت میں جو نعمتیں انسان کو میسّر ہوں گی ان میں سے ایک بڑی نعمت یہ ہو گی کہ وہاں کوئی بیہودہ اور فضول اور گندی بات سننے میں نہ آئے گی۔ وہاں کا پورا معاشرہ ایک ستھرا اور سنجیدہ اور پاکیزہ معاشرہ ہو گا جس کا ہر فرد سلیم الطبع ہو گا۔ وہاں کے رہنے والوں کو غیبتوں اور گالیوں اور فحش گانوں اور دوسری بُری آوازوں کی سماعت سے پوری نجات مِل جائے گی۔ وہاں آدمی جو کچھ بھی سُنے گا، بھلی اور معقول اور بجا باتیں ہی سنے گا۔ اِس نعمت کی قدر وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو اس دنیا میں فی الواقع ایک پاکیزہ اور ستھرا ذوق رکھتا ہو۔ کیونکہ وہی یہ محسوس کر سکتا ہے کہ انسان کے لیے ایک ایسی گندی سوسائیٹی میں رہنا کتنی بڑی مصیبت ہے جہاں کسی وقت بھی اس کے کان جھوٹ، غیبت، فتنہ وفساد، شرارت، گندگی اور شہوانیت کی باتوں سے محفوظ نہ ہوں۔ ‘‘
۳۹: یہ پورا پیراگراف ایک جملۂ معترضہ ہے جو ایک سلسلہ ٰ کلام کو ختم کر کے دوسرا سلسلۂ کلام شروع کرنے سے پہلے ارشاد ہوا ہے۔ اندازِ کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ سورۃ بڑی دیر کے بعد ایسے زمانے میں نازل ہوئی ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپؐ کے صحابہ بڑے اضطراب انگیز حالات سے گر رہے ہیں۔ حضور کو اور آپؐ کے صحابیوں کو ہر وقت وحی کا انتظار ہے تاکہ اس سے رہنمائی بھی ملے اور تسلی بھی حاصل ہو۔جوں جوں وہی آنے میں دیر ہو رہی ہے اضطراب بڑھتا جاتا ہے۔ اس حالت میں جبریل علیہ السّلام فرشتوں کے جھرمٹ میں تشریف لاتے ہیں۔ پہلے وہ فرمان سُناتے ہیں جو موقع کی ضرورت کے لحاظ سے فوراً درکا ر تھا۔ پھر آگے بڑھنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے اشارے سے یہ چند کلمات اپنی طرف سے کہتے ہیں جن میں اتنی دیر تک اپنے حاضر نہ ہونے کی معذرت بھی ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرفِ تسلی بھی، اور ساتھ ساتھ صبر و ضبط کی تلقین بھی۔ یہ صرف کلام کی اندرونی شہادت ہی نہیں ہے بلکہ متعدّد روایات بھی اس کی تصدیق کرتی ہیں جنہیں ابنِ جریر، ابنِ کثیر اور صاحب رپوح المعانی وغیرہم نے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے۔
۴۰: یعنی اس کی بندگی کے راستے پر مضبوطی کے ساتھ چلو اور اس راہ میں جو مشکلات اور مصائب بھی پیش آئیں ان کا صبر کے ساتھ مقابلہ کرو۔ اگر اس کی طرف سے یاد فرمائی اور مدد اور تسلی میں کبھی دیر لگ جایا کرے تو اس پر گھبراؤ نہیں۔ ایک مطیع فرمان بندے کی طرح ہر حال میں اس کی مشیت پر راضی رہو اور پورے عزم کے ساتھ وہ خدمت انجام دیے چلے جاؤ جو ایک بندے اور رسول کی حیثیت سے تمہارے سپرد کی گئی ہے۔
۴۱: اصل میں لفظ سَمِی استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنی ’’ہم نام‘‘ کے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تو الٰہ ہے، کیا کوئی دوسرا لٰہ بھی تمہارے علم میں ہے؟ اگر نہیں ہے اور تم جانتے ہو کہ نہیں ہے تو پھر تمہارے لیے اس کے سوا اور راستہ ہی کونسا ہے کہ اس کی بندگی کرو اور اس کے حکم کے بندے بن کر رہو۔
۴۲: یعنی اُن شیاطین کو جن کے یہ چیلے بنے ہوئے ہیں، اور جن کے سکھائے پڑھائے میں آ کر انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے، اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں جہاں ہمیں خدا کے سامنے حاضر ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہو۔
۴۴: وارد ہونے کے معنی بعض روایات میں داخل ہونے کے بیان کیے گئے ہیں، مگر ان میں سے کسی کی سند بھی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک قابلِ اعتماد ذرائع سے نہیں پہنچتی۔ اور پھر یہ بات قران مجید اور اُن کثیر التعداد صحیح احادیث کے بھی خلا ف ہے جن میں مومنین صالحین کے دوزخ میں جانے کی قطعی نفی کی گئی ہے۔ مزید برآں لغت میں بھی درود کے معنی دخول کے نہیں ہیں۔ اس لیے اس کا صحیح مطلب یہی ہے کہ جہنم پر گزر تو سب کا ہو گا مگر، جیسا کہ بعد والی آیت بتا رہی ہے، پرہیز گار لوگ اس سے بچا لیے جائیں گے اور ظالم اس میں جھونک دیے جائیں گے۔
۴۵: یعنی ان کا استدلال یہ تھا کہ دیکھ لو، دنیا میں کون اللہ فضل اور اس کی نعمتوں سے نوازا جا رہا ہے۔ کس کے گھر زیادہ شاندار ہیں؟ کس کا معیارِ زندگی زیادہ بلند ہے؟ کس کی محفلیں زیادہ ٹھاٹھ سے جمتی ہیں؟ اگر یہ سب کچھ ہمیں میسّر ہے اور تم اس سے محروم ہو تو خود سوچ لو کہ آخر یہ کیسے ممکن تھا کہ ہم باطل پر ہوتے اور یوں مزے اُڑاتے اور تم حق پر ہوتے اور اس طرح خستہ و درماندہ رہتے؟ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الکہف حواشی ۳۷، ۳۸۔
۴۶: یعنی ہر آزمائش کے موقع پر اللہ تعالیٰ ان کو صحیح فیصلے کرنے اور صحیح راستہ اختیار کرنے کی توفیق بخشتا ہے، اُن کو بُرائیوں اور غلطیوں سے بچاتا ہے اور اس کی ہدایت و رہنمائی سے وہ برابر راہِ راست پر بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
۴۷: یعنی وہ کہتا ہے کہ تم مجھے خواہ کتنا ہی گمراہ و بدکار کہتے رہو اور عذابِ الہٰی کے ڈراوے دیا کرو، میں تو آج بھی تم سے زیادہ خوشحال ہوں اور آئندہ بھی مجھ پر نعمتوں کی بارش ہوتی رہے گی۔ میری دولت دیکھو، میری وجاہت اور ریاست دیکھو، میرے نا مور بیٹوں کو دیکھو، میری زندگی میں آخر تمہیں کہاں یہ آثار نظر آتے ہیں کہ میں خدا کا مغضوب ہوں؟۔۔۔۔۔۔ یہ مکّے میں کسی ایک شخص کے خیالات نہ تھے، بلکہ کفارِ مکّہ کا ہر شیخ اور سردار اسی خبط میں مبتلا تھا۔
۴۸: یعنی اس کے جرائم کے ریکارڈ میں اس کا یہ کلمۂ غرور بھی شامل کر لیا جائے گا اور اس کا مزا بھی اسے چکھنا پڑے گا۔
۴۹: اصل میں لفظ عِزًّا استعمال ہوا ہے، یعنی وہ ان کے لیے سببِ عزّت ہوں۔ مگر عزّت سے مراد عربی زبان میں کسی شخص کا ایسا طاقت ور اور زبردست ہونا ہے کہا س پر کوئی ہاتھ نہ ڈال سکے اور ایک شخص کا دوسرے شخص کے لیے سببِ عزت بننا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اس کی حمایت پر ہو جس کی وجہ سے اس کا کوئی مخالف اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھ سکے۔
۵۰: یعنی وہ کہیں گے کہ نہ ہم نے کبھی اِن سے کہا تھا کہ ہماری عبادت کرو، اور نہ ہمیں یہ خبر تھی کہ یہ احمق لوگ ہماری عبادت کر رہے ہیں۔
۵۱: مطلب یہ ہے کہ اِن کی زیادتیوں پر تم بے صبر نہ ہو۔ اِن کی شامت قریب آ لگی ہے۔ پیمانہ بھرا چاہتا ہے۔ اللہ کی دی ہوئی مہلت کے کچھ دن باقی ہیں، اُنہیں پورا ہو لینے دو۔
۵۲: یعنی سفارش اسی کے حق میں ہو گی جس نے پروانہ حاصل کیا ہو، اور وہی سفارش کر سکے گا جسے پروانہ ملا ہو۔ آیت کے الفاظ ایسے ہیں جو دونو ں پہلوؤں پر یکساں روشنی ڈالتے ہیں۔ یہ بات کہ سفارش صرف اسی کے حق میں ہو سکے گی جس نے رحمان سے پروانہ حاصل کر لیا ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے دنیا میں ایمان لا کر اور خدا سے کچھ تعلق جوڑ کر اپنے آپ کو خدا کے عفو و درگزر کا مستحق بنا لیا ہو۔ اور یہ بات کہ سفارش وہی کر سکے گا جس کو پروانہ ملا ہو، اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں نے جن جن کو اپنا شفیع اور سفارشی سمجھ لیا ہے وہ سفارشیں کرنے کے مجاز نہ ہوں گے بلکہ خدا خود جس کو اجازت دے گا وہی شفاعت کے لیے زبان کھول سکے گا۔
۵۳: یعنی آج مکّے کی گلیوں میں وہ ذلیل و رسوا کیے جا رہے ہیں، مگر یہ حالت دیرپا نہیں ہے۔ قریب ہے وہ وقت جبکہ اپنے اعمالِ صالحہ اور اخلاقِ حسنہ کی وجہ سے وہ محبوبِ خلائق ہو کر رہیں گے۔ دل ان کے طرف کھنچیں گے۔ دنیا ان کے آگے پلکیں بچھائے گی۔ فسق و فجور، رعونیت اور کبر، جھوٹ اور ریاکاری کے بل پر جو سیادت و قیادت چلتی ہو وہ گردنوں کے چاہے جھکالے، دلوں کو مسخر نہیں کر سکتی۔ اس کے برعکس جو لوگ صداقت، دیانت، اخلاص اور حس اخلاق کے ساتھ راہِ راست کی طرف دعوت دیں، ان سے اوّل اوّل چاہے دنیا کتنی ہی اُپرائے، آخر کار وہ دلوں کو موہ لیتے ہیں اور بد دیانت لوگوں کا جھوٹ زیادہ دیر تک ان کا راستہ روکے نہیں رہ سکتا۔