انداز بیان اور مضامین، دونوں سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس سورے کا زمانہ نزول مکے کا دور متوسط ہے۔ پس منظر میں صاف محسوس ہوتا ہے کہ اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور کفار کے درمیان سخت کشمکش برپا ہے، لیکن ابھی کفار کے ظلم و ستم نے پورا زور نہیں پکڑا ہے۔ آیت ۷۵۔ ۷۶ سے صاف طور پر یہ شہادت ملتی ہے کہ یہ مکے کے اس قحط کی شدت کے زمانے میں نازل ہوئی ہے جو معتبر روایات کی رو سے اسی دور متوسط میں برپا ہوا تھا۔ عروہ بن زُبیر کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت عمر ایمان لا چکے تھے۔ وہ عبدالرحمٰن بن عبدالقاری کے حوالہ سے حضرت عمرؓ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ یہ سورۃ ان کے سامنے نازل ہوئی ہے۔ وہ خود نزول وحی کی کیفیت کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر طاری ہوتے دیکھ رہے تھے، اور جب حضورؐ اس سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ مجھ پر اس وقت دس ایسی آیتیں نازل ہوئی ہیں کہ اگر کوئی ان کے معیار پر پورا اتر جائے تو یقیناً جنت میں جائے گا، پھر آپ نے اس سورے کی ابتدائی آیات سنائیں (احمد، ترمذی، نسائی، حاکم)۔
اتباع رسول کی دعوت اس سورت کا مرکزی مضمون ہے اور پوری تقریر اسی مرکز کے گرد گھومتی ہے۔
آغاز کلام اس طرح ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے اس پیغمبر کی بات مان لی ہے، ان کے اندر یہ اور یہ اوصاف پیدا ہو رہے ہیں، اور یقیناً ایسے ہی لوگ دنیا و آخرت کی فلاح کے مستحق ہیں۔
اس کے بعد انسان کی پیدائش، آسمان و زمین کی پیدائش، نباتات و حیوانات کی پیدائش، اور دوسرے آثار کائنات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، جس سے مقصود یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ توحید اور معاد کی جن حقیقتوں کو ماننے کے لیے یہ پیغمبر تم سے کہتا ہے ان کے برحق ہونے پر تمہارا اپنا وجود اور یہ پورا نظام عالم گواہ ہے۔
پھر انبیاء علیہم السلام اور ان کی امتوں کے قصے شروع کیے گئے ہیں، جو بظاہر تو قصے ہی نظر آتے ہیں، لیکن در اصل اس پیرائے میں چند باتیں سامعین کو سمجھائی گئی ہیں :
اول یہ کہ آج تم لوگ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت پر جو شبہات و اعتراضات وارد کر رہے ہو وہ کچھ نئے نہیں ہیں۔ پہلے بھی جو انبیاء دنیا میں آئے تھے، جن کو تم خود فرستادہ الہٰی مانتے ہو، ان سب پر ان کے زمانے کے جاہلوں نے یہی اعتراضات کیے تھے۔ اب دیکھ لو کہ تاریخ کا سبق کیا بتا رہا ہے۔ اعتراضات کرنے والے بر حق تھے یا انبیاء؟
دوم یہ کہ توحید و آخرت کے متعلق جو تعلیم محمد صلی اللہ علیہ و سلم دے رہے ہیں یہی تعلیم ہر زمانے کے انبیاء نے دی ہے۔ اس سے مختلف کوئی نرالی چیز آج نہیں پیش کی جا رہی ہے جو کبھی دنیا نے نہ سنی ہو۔
سوم یہ کہ جن قوموں نے انبیاء کی بات سن کر نہ دی اور ان کی مخالفت پر اصرار کیا وہ آخر کار تباہ ہو کر رہیں۔
چہارم یہ کہ خدا کی طرف سے ہر زمانے میں ایک ہی دین آتا رہا ہے اور تمام انبیاء ایک ہی امت کے لوگ تھے۔ اس دین واحد کے سوا جو مختلف مذاہب تم لوگ دنیا میں دیکھ رہے ہو یہ سب لوگوں کے طبع زاد ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی منجانب اللہ نہیں ہے۔
ان قصوں کے بعد لوگوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ دنیوی خوش حالی، مال و دولت، آل داد لاد چشم و خَدَمِ قوت و اقتدار وہ چیزیں نہیں ہیں جو کسی شخص یا گروہ کے راہ راست پر ہونے کی یقینی علامت ہوں اور اس بات کی دلیل قرار دی جائیں کہ خدا اس پر مہربان ہے اور اس کا رویہ خدا کو محبوب ہے۔ اسی طرح کسی کا غریب اور خستہ حال ہونا بھی اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ خدا اس سے اور اس کے رویے سے ناراض ہے۔ اصل چیز جس پر خد اکے ہاں محبوب یا مغضوب ہونے کا مدار ہے وہ آدمی کا ایمان اور اس کی خدا ترسی و راست بازی ہے۔ یہ باتیں اس لیے ارشاد ہوئی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کے مقابلے میں اس وقت جو مزاحمت ہو رہی تھی اس کے علم بردار سب کے سب مکے کے شیوخ اور بڑے بڑے سردار تھے۔ وہ اپنی جگہ خود بھی یہ گھمنڈ رکھتے تھے، اور ان کے زیر اثر لوگ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ نعمتوں کی بارش جن لوگوں پر ہو رہی ہے اور جو بڑھتے ہیں چلے جا رہے ہیں ان پر ضرور خدا اور دیوتاؤں کا کرم ہے۔ رہے یہ ٹوٹے مارے لوگ جو محمد کے ساتھ ہیں، ان کی تو حالت خود ہی یہ بتا رہی ہے کہ خدا ان کے ساتھ نہیں ہے، اور دیوتاؤں کی مار ہی ان پر پڑی ہوئی ہے۔
اس کے بعد اہل مکہ کو مختلف پہلوؤں سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت پر مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پھر ان کو بتایا گیا ہے کہ یہ قحط جو تم پر نازل ہوا ہے، یہ ایک تنبیہ ہے۔ بہتر ہے کہ اس کو دیکھ کر سنبھلو اور راہ راست پر آ جاؤ۔ ورنہ اس کے بعد سخت تر سزا آئے گی جس پر بلبلا اٹھو گے۔
پھر ان کو از سر نو ان آثار کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو کائنات میں اور خود ان کے اپنے وجود میں موجود ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ آنکھیں کھول کر دیکھو، جس توحید اور جس حیات بعد الموت کی حقیقت سے یہ پیغمبر تک کو آگاہ کر رہا ہ، کیا ہر طرف اس کی شہادت دینے والے آثار پھیلے ہوئے نہیں ہیں ؟ کیا تمہاری عقل اور فطرت اس کی صحت و صداقت پر گواہی نہیں دیتی ؟
پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت کی گئی ہے کہ خواہ یہ لوگ تمہارے مقابلے میں کیسا ہی برا رویہ اختیار کریں، تم بھلے طریقوں ہی سے مدافعت کرنا۔ شیطان کبھی تم کو جوش میں لا کر برائی کا جواب برائی سے دینے پر آمادہ نہ کرنے پائے۔
خاتمہ کلام پر مخالفینِ حق کو آخرت کی باز پرس سے ڈرایا گیا ہے اور انہیں متنبہ کیا گیا ہے کہ جو کچھ تم دعوت حق و راس کے پیروؤں کے ساتھ کر رہے ہو اس کا سخت حساب تم سے لیا جائے گا۔
۱: ایمان لانے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت قبول کر لی، آپ کو اپنا ہادی و رہبر مان لیا، اور اُس طریقِ زندگی کی پیروی پر راضی ہو گئے جسے آپ نے پیش کیا ہے۔ فلاح کے معنی ہیں کامیابی و خوشحالی۔ یہ لفظ خُسران کی ضد ہے جو ٹوٹے اور گھاٹے اور نا مرادی کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اَفْلَحَ الرّجل کے معنی ہیں فلاں شخص کامیاب ہوا، اپنی مراد کو پہنچا، آسودہ و خوشحال ہو گیا، اس کی کوشش بار آور ہوئی، اس کی حالت اچھی ہو گئی۔ قَدْ اَفْلَحَ ’’یقیناً فلاح پائی‘‘۔ آغازِ کلام اِن الفاظ سے کرنے کی معنویت اُس وقت تک سمجھ میں نہیں آسکتی جب تک وہ ماحول نگاہ میں نہ رکھا جائے جس میں یہ تقریر کی جا رہی تھی۔ اُس وقت ایک طرف دعوتِ اسلامی کے مخالف سردارانِ مکّہ تھے جن کی تجارتیں چمک رہی تھیں، جن کے پاس دولت کی ریل پیل تھی، جن کو دنیوی خوشحالی کے سارے لوازم میسر تھے۔ اور دوسری طرف دعوتِ اسلامی کے پیرو تھے جن میں سے اکثر تو پہلے ہی غریب اور خستہ حال تھے، اور بعض جو اچھے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے یا اپنے کاروبار میں پہلے کامیاب تھے، ان کو بھی اب قوم کی مخالفت نے بدحال کر دیا تھا۔ اس صورتِ حال میں جب تقریر کا آغاز اس فقرے سے کیا گیا کہ ’’یقیناً فلاح پائی ایمان لانے والوں نے‘‘ تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلا کہ تمہارا معیار فلاح و خسران غلط ہے، تمہارے اندازے غلط ہیں، تمہاری نگاہ دور رَس نہیں ہے، تم اپنے جس عاری و محدود خوشحالی کو فلاح سمجھ رہے ہو وہ فلاح نہیں خسران ہے، اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ماننے والوں کو جو تم ناکام و نامراد سمجھ رہے ہو وہ دراصل کامیاب و با مراد ہیں۔ اس دعوتِ حق کو مان کو انہوں نے خسارے کا سودا نہیں کیا ہے بلکہ وہ چیز پائی ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں ان کو پائدار خوشحالی سے ہم کنار کرے گی۔ اور اسے رد کر کے دراصل خسارے کا سودا تم نے کیا ہے جس کے بُرے نتائج تم یہاں بھی دیکھو گے اور دنیا سے گزر کر دوسری زندگی میں بھی دیکھتے رہو گے۔ یہی اس سورے کا مرکزی مضمون ہے اور ساری تقریر اول سے آخر تک اسی مدّعا کو ذہن نشین کرنے کے لیے کی گئی ہے۔
۳: خشوع کے اصل معنی ہیں کسی کے آگے جھک جانا، دب جانا، اظہارِ عجز و انکسار کرنا۔ اس کیفیت کا تعلق دل سے بھی ہے اور جسم کی ظاہری حالت سے بھی۔ دل کا خشوع یہ ہے کہ آدمی کسی کی ہیبت اور عظمت و جلال سے مرعوب ہو۔ اور جسم کا خشوع یہ ہے کہ جب وہ اُس کے سامنے جائے تو سر جھک جائے، اعضاء ڈھیلے پڑ جائیں، نگاہ پست ہو جائے، آواز دب جائے، اور ہیبت زدگی کے وہ سارے آثار اس پر طاری ہو جائیں جو اُس حالت میں فطرتاً طاری ہو جایا کرتے ہیں جبکہ آدمی کسی زبردست با جبروت ہستی کے حضور پیش ہو۔ نماز میں خشوع سے مراد دل اور جسم کی یہی کیفیت ہے اور یہی نماز کی اصل روح ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور ساتھ ساتھ ڈاڑھی کے بالوں سے کھیلتا جاتا ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا لوخشع قلبہ خشعت جوارحہٗ ’’اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے جسم پر بھی خشوع طاری ہوتا‘‘۔ اگر چہ خشوع کا تعلق حقیقت میں دل سے ہے اور دل کا خشوع آپ سے آپ جسم پر طاری ہوتا ہے، جیسا کہ مذکورۂ بالا حدیث سے ابھی معلوم ہوا۔ لیکن شریعت میں نماز کے کچھ ایسے آداب بھی مقرر کر دیے گئے ہیں جو ایک طرف قلبی خشوع میں مددگار ہوتے ہیں اور دوسری طرف خشوع کی گھٹتی بڑھتی کیفیات میں فعل نماز کم از کم ظاہری حیثیت سے ایک معیارِ خاص پر قائم رکھتے ہیں۔ ان آداب میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی دائیں بائیں نہ مڑے اور نہ سر اُٹھا کر اوپر کی طرف دیکھے (زیادہ سے زیادہ صرف گوشۂ چشم سے اِدھر اُدھر دیکھا جا سکتا ہے۔ حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک نگاہ سجدہ گاہ سے متجاوز نہ ہونی چاہیے، مگر مالیکہ اس بات کے قائل ہیں کہ نگا ہ سامنے کی طرف رہی چاہیے)۔ نماز میں ہلنا اور مختلف سمتوں میں جھُکنا بھی ممنوع ہے۔ کپڑوں کو بار بار سمیٹنا، یا ان کو جھاڑنا، یا اُن سے شغل کرنا بھی ممنوع ہے۔ اس بات سے بھی منع کیا گیا ہے کہ سجدے میں جاتے وقت آدمی اپنے بیٹھنے کی جگہ یہ سجدے کی جگہ صاف کرنے کی کوشش کرے۔ تن کر کھڑے ہونابہت بلند آواز سے کڑک کر قرأت کرنا، یا قرأ ت میں گانا بھی آداب نماز کے خلا ف ہے۔ زور زور سے جمائیاں لینا اور ڈکاریں مارنا بھی نماز میں بے ادبی ہے۔ جلدی جلدی مارا مار نماز پڑھنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے۔ حکم یہ ہےکہ نماز کا ہر فعل پوری طرح سکون اور اطمینان سے ادا کیا جائے اور ایک فعل، مثلاً رکوع یا سجود یا قیام یا قعود جب تک مکمل نہ ہو لے دوسرا فعل شروع نہ کیا جائے۔ نماز میں اگر کوئی چیز اذیت دے رہی ہو تو اسے ایک ہاتھ سے دفع کیا جا سکتا ہے، مگر بار بار ہاتھوں کو حرکت دینا، یا دونوں ہاتھوں کو استعمال کر نا ممنوع ہے۔ ان ظاہری آداب کے ساتھ یہ چیز بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ آدمی نماز میں جان بوجھ کر غیر متعلق باتیں سوچنے سے پرہیز کرے۔ بلا ارادہ خیالات ذہن میں آئیں اور آتے رہیں تو یہ نفسِ انسانی کی ایک فطری کمزوری ہے۔ لیکن آدمی کی پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ نماز کے وقت اس کا دل خدا کی طرف متوجہ ہو اور جو کچھ وہ زبان سے کہہ رہا ہو وہی دل سے بھی عرض کرے۔ اس دوران میں اگر بے اختیار دوسرے خیالات آ جائیں تو جس وقت بھی آدمی کو اُس کا احساس ہو اُسی وقت اسے اپنی توجہ اُن سے ہٹا کر نماز کی طرف پھیر لینی چاہیے۔
۴: ’’لغو‘‘ ہر اس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول، لایعنی اور لاحاصل ہو۔ جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو، جن سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہ ہو، جن کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو، جن سے کوئی اچھا مقصد حاصل نہ ہو، وہ سب ’’لغویات‘‘ ہیں۔ ’’معرضون‘‘ کا ترجمہ ہم نے ’’دُور رہتے ہیں‘‘ کیا ہے۔ مگر اس سے بات پوری طرح ادا نہیں ہوتی۔ آیت کا پورا مطلب یہ ہے کہ وہ لغویات کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ ان کی طرف رُخ نہیں کرتے۔ ان میں کو ئی دلچسپی نہیں لیتے۔ جہاں ایسی باتیں ہو رہی ہوں یا ایسے کام ہو رہے ہوں وہاں جانے سے پرہیز کرتے ہیں، ان میں حصّہ لینے سے اجتناب کرتے ہیں، اور اگر کہیں ان سے سابقہ پیش آ ہی جائے تو ٹل جاتے ہیں، کترا کر نِکل جاتے ہیں، یا بدرجہ آخر بے تعلق ہو رہتے ہیں۔ اسی بات کو دوسری جگہ یوں بیان کیا گیا ہے کہ وَاِذَا مَرُّوْ ا بِاللَّغْوِ مَرُّوْ ا کِرَ اماً۔ (الفرقان۔ آیت۷۲) یعنی جب کسی ایسی جگہ سے ان کا گزر ہوتا ہے جہاں لغو باتیں ہو رہی ہوں، یا لغو کام ہو رہے ہوں وہاں سے مہذب طریقے پر گزر جاتے ہیں۔ یہ چیز، جسے اس مختصر سے فقرے میں بیان کیا گیا ہے، دراصل مومن کی اہم ترین صفات میں سے ہے۔ مومن وہ شخص ہوتا ہے جسے ہر وقت اپنی ذمہ داری کا احساس رہتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور جس چیز کو زندگی اور عمر اور وقت کے مختلف ناموں سے یا د کیا جاتا ہے وہ درحقیقت ایک نپی تُلی مدّت ہے جو اسے امتحان کے لیے دی گئی ہے۔ یہ احساس اس کو بالکل اُس طالب علم کی طرح سنجیدہ اور مشغول اور منہمک بنا دیتا ہے جو امتحان کے کمرے میں بیٹھا اپنا پرچہ حل کر رہا ہو۔ جس طرح اُس طالب علم کو یہ احساس ہوتا ہے کہ امتحان کے یہ چند گھنٹے اس کی آئندہ زندگی کے لےی فیصلہ کُن ہیں، اور اس احساس کی وجہ سے وہ اُن گھنٹوں کا ایک ایک لمحہ اپنے پرچے کو صحیح طریقے سے حل کرنے کی کوشش میں صرف کر ڈالنا چاہتا ہے اور ان کا کوئی سیکنڈ فضول ضائع کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا، ٹھیک اسی طرح مومن بھی دنیا کی اس زندگی کو اُنہی کاموں میں صرف کرتا ہے جو انجام کار کے لحاظ سے مفید ہوں۔ حتیٰ کہ وہ تفریحات اور کھیلوں میں سے بھی اُن چیزوں کا انتخاب کرتا ہے جو محض تضیع وقت نہ ہوں بلکہ کسی بہتر مقصد کے لیے اُسے تیار کرنے والی ہوں۔ اُس کے نزدیک وقت ’’کانٹے‘‘ کی چیز نہیں ہوتی بلکہ استعمال کرنے کی چیز ہوتی ہے۔ علاوہ بریں مومن ایک سلیم الطبع، پاکیزہ مزاج، خوش ذوق انسان ہوتا ہے۔ بیہودگیوں سے اس کی طبیعت کو کسی قسم کا لگاؤ نہیں ہوتا۔ وہ مفید باتیں کر سکتا ہے، مگر فضول گپیں نہیں ہانک سکتا۔ وہ ظرافت اور مزاح اور لطیف مذاق کی حد تک جا سکتا ہے، مگر ٹھٹھے بازیاں نہیں کر سکتا، گندہ مذاق اور مسخرہ پن برداشت نہیں کر سکتا، تفریحی گفتگو ؤں کو اپنا مشغلہ نہیں بنا سکتا۔ اُس کے لیے تو وہ سوسائیٹی ایک مستقل عذاب ہوتتی ہے جس میں کان کسی وقت بھی گالیوں سے، غیبتوں اور تہمتوں اور جھوٹی باتوں سے، گندے گانوں اور فحش گفتگوؤں سے محفوظ نہ ہوں۔ اس کو اللہ تعالیٰ جس جنت کی امید دلاتا ہے اُس کی نعمتوں میں اے ایک نعمت یہ بھی بیان کرتا ہے کہ لَا تَسمَعُ فِیْھَا لَاغِیَہ۔ ’’وہاں تُو کوئی لغو بات نہ سُنے گا‘‘۔
۵: ’’زکوٰۃ دینے‘‘ اور ’’زکوٰۃ کے طریقے پر عامل ہونے‘‘ میں معنی کے اعتبار سے بڑا فرق ہے جسے نظر انداز کر کے دونوں کو ہم معنی سمجھ لینا صحیح نہیں ہے۔ آخر کوئی بات تو ہے جس کی وجہ سے یہاں مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے یُؤْتُوْنَ الزَّکوٰۃَ کا معروف انداز چھوڑ کر لِلزَّکٰوۃِ فَاعِلُوْنَ کا غیر معمولی طرزِ بیان اختیار کیا گیا ہے۔ عربی زبان میں زکوٰۃ کا مفہوم دو معنوں سے مرکب ہے۔ ایک ’’پاکیزگی‘‘۔ دوسرے ’’نشو نما‘‘۔ کسی چیز کی ترقی میں جو چیزیں مانع ہوں اُن کو دُور کرنا، اور اس کے اصل جوہر کو پروان چڑھانا، یہ دو تصوّرات مِل کر زکوٰۃ کا پورا تصوّر بناتے ہیں۔ پھر یہ لفظ جب اسلامی اصطلاح بنتا ہے تو اس کا اطلاق دو معنوں پر ہوتا ہے۔ ایک وہ مال جو مقصدِ تزکیہ کے لیے نکالا جائے۔ دوسرے بجائے خود تزکیہ کا فعل۔ اگر یُؤْ تُوْنَ الزَّکوٰ ۃَ کہیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ تزکیہ کی غرض سے اپنے مال کا ایک حصّہ دیتے یا ادا کرتے ہیں۔ اس طرح بات صرف مال دینے تک محدود ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر لِلزَّکٰوۃَ فَاعِلُوْنَ کہا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ تزکیہ کا فعل کرتے ہیں، اور اس صورت میں بات صرف مالی زکوٰۃ ادا کرنے تک محدود نہ رہے گی بلکہ تزکیۂ نفس، تزکیۂ اخلاق، تزکیۂ زندگی، تزکیۂ مال، غرض ہر پہلو کے تزکیے تک وسیع ہو جائے گی۔ اور مزید براں، اس کا مطلب صرف اپنی ہی زندگی کے تزکیے تک محدود نہ رہے گا بلکہ اپنے گرد و پیش کی زندگی کے تزکیے تک بھی پھیل جائے گا۔ لہٰذا دوسرے الفاظ میں اس آیت کا ترجمہ یوں ہو گا کہ ’’وہ تزکیے کا کام کرنے والے لوگ ہیں،‘‘ یعنی اپنے آپ کو بھی پاک کرتے ہیں اور دوسروں کو پاک کرنے کی خدمت بھی انجام دیتے ہیں، اپنے اندر بھی جوہرِ انسانیت کو نشو نما دیتے ہیں اور باہر کی زندگی میں بھی اس کی ترقی کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ یہ مضمون قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر بھی بیان فرمایا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ اعلیٰ میں فرمایا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰیo وَذَکَرَاسْمِ ربِّہٖ فَصَلّٰی o ’’ فلاح پائی اُس شخص نے جس نے پاکیزگی اختیار کی اور پانے ربّ کا نام یاد کر کے نماز پڑھی‘‘۔ اور سورۂ شمس میں فرمایا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا o وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا o ’’بامراد ہوا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا، اور نامراد ہوا وہ جس نے اس کو دبا دیا‘‘۔ مگر یہ آیت ان دونوں کی بہ نسبت وسیع تر مفہوم کی حامل ہے، کیونکہ وہ صرف اپنے نفس کے تزکیے پر زور دیتی ہیں، اور یہ بجائے خود فعل تز کیہ کی اہمیت بیان کرتی ہے جو اپنی ذات اور معاشرے کی زندگی، دونوں ہی کے تزکیے پر حاوی ہے۔
۶: اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اپنے جسم کے قابلِ شرم حصوں کو چھپا کر رکھتے ہیں، یعنی عریانی سے پرہیز کرتے ہیں اور اپنا ستر دوسروں کے سامنے نہیں کھولتے۔ دوسرے یہ کہ وہ اپنی عصمت و عفت کو محفوظ رکھتے ہیں، یعنی صنفی معاملات میں آزادی نہیں برتتے اور قوت شہوانی کے استعمال میں بے لگام نہیں ہوتے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، النور، حواشی ۳۰ – ۳۲)۔
۷: یہ جملۂ معترضہ ہے جو اُس غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے ارشاد ہوا ہے جو ’’شرمگاہوں کی حفاظت‘‘ کے لفظ سے پیدا ہوتی ہے۔ دنیا میں پہلے بھی یہ سمجھا جاتا رہا ہے اور آج بھی بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ قوتِ شہوانی بجائے خود ایک بڑی چیز ہے اور اس کے تقاضے پورے کرنا، خواہ جائز طریقے ہی سے کیوں نہ ہو، بہر حال نیک اور اللہ والے لوگوں کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اس غلط فہمی کو تقویت پہنچ جاتی اگر صرف اتنا ہی کہہ کر بات ختم کر دی جاتی کہ فلاح پانے والے اہلِ ایمان اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا تھا کہ وہ لنگوٹ بندر ہتے ہیں، راہب اور سنیاسی قسم کے لوگ ہوتے ہیں، شادی بیاہ کے جھگڑوں میں نہیں پڑتے۔ اس لیے ایک جملۂ معترضہ بڑھا کر حقیقت واضح کر دی گئی کہ جائز مقام پر اپنی خواہشِ نفس پوری کرنا کوئی قابلِ ملامت چیز نہیں ہے، البتہ گناہ یہ ہے کہ آدمی شہوت رانی کے لیے اس معروف اور جائز صورت سے تجاوز کر جائے۔ اس جملۂ معترضہ سے چند احکام نکلتے ہیں جن کو ہم اختصار کے ساتھ یہاں بیان کرتے ہیں۔ (۱) شرمگاہوں کی حفاظت کے حکم عام سے دو قسم کی عورتوں کو مستثنیٰ کیا گیا ہے۔ ایک ازواج، دوسرے مَا مَلَکَتْ اَیْمَانھُمْ۔ ’’ازواج‘‘ کا اطلاق عربی زبان کے معروف استعمال کی رو سے بھی اور خود قرآن کی تصریحات کے مطابق بھی صرف اُن عورتوں پر ہوتا ہے جن سے باقاعدہ نکاح کیا گیا ہو، اور یہی اس کے ہم معنی اردو لفظ ’’بیوی‘‘ کا مفہوم ہے۔ رہا لفظ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانھُمْ، تو عربی زبان کے محاورے اور قرآن کے استعمالات دونوں اس پر شاہد ہیں کہ اس کا اطلاق لونڈی پر ہوتا ہے، یعنی وہ عورت جو آدمی کی مِلک میں ہو۔ اِس طرح یہ آیت صاف تصریح کر دیتی ہے کہ منکوحہ بیوی کی طرح مملوکہ لونڈی سے بھی صنفی تعلق جائز ہے، اور اس کے جواز کی بنیاد نکاح نہیں بلکہ مِلک ہے۔ اگر اس کے لیے بھی نکاح شرط ہوتا تو اسے ا زواج سے الگ بیان کرنے کی کوئی حاجت نہ تھی کیونکہ منکوحہ ہونے کی صورت میں وہ بھی ازواج میں داخل ہوتی۔ آج کل کے بعض مفسرین جنہیں لونڈی سے تمتع کا جواز تسلیم کرنے سے انکار ہے، سورۂ نساء کی آیت وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤ مِنٰتِ (آیت ۲۵) سے استدلال کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ لونڈی سے تمتع بھی صرف نکاح ہی کر کے کیا جا سکتا ہے، کیونکہ وہاں یہ حکم دیا گیا ہےکہ اگر تمہاری مالی حالت کسی آزاد خاندانی عورت سے شادی کرنے کی متحمل نہ ہو تو کسی لونڈی سے ہی نکاح کر لو۔ لیکن اِن لوگوں کی یہ عجیب خصوصیت ہے کہ ایک ہی آیت کے ایک ٹکڑے کو مفید مطلب پا کر لے لیتے ہیں، اور اسی آیت کا جو ٹکڑا ان کے مدّعا کے خلاف پڑتا ہو اسے جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ اس آیت میں لونڈیوں سے نکاح کرنے کی ہدایت جن الفاظ میں دی گئی ہے وہ یہ ہیں:- فَا نْکِحُوْ ھُنَّ بِاِزْنِ اَھْلِھِنَّ وَاٰتُوْ ھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ بِا لْمَعْرُوْفِ، ’’پس ان (لونڈیوں) سے نکاح کر لو اُن کے سرپرستوں کی اجازت سے اور اُن کو معروف طریقہ سے ان کے مہر ادا کرو‘‘۔ یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ یہاں خود لونڈی کے مالک کا معاملہ زیرِ بحث نہیں ہے بلکہ کسی ایسے شخص کا معاملہ زیرِ بحث ہے جو آزاد عورت سے شادی کا خرچ نہ برداشت کر سکتا ہو اور اس بنا پر کسی دوسرے شخص کی مملوکہ لونڈی سے نکاح کرنا چاہے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اگر معاملہ اپنی ہی لونڈی سے نکاح کرنے کا ہوتو اس کے وہ ’’اہل‘‘ (سرپرست) کون ہو سکتے ہیں جن سے اس کو اجازت لینے کی ضرورت ہو؟ مگر قرآن سے کھیلنے والے صرف فَا نْکِحُوْ ھُنَّ کو لے لیتے ہیں اور اس کے بعد ہی بِاِ ذْنَ اَھْلِھِنَّ کے جو الفاظ موجود ہیں انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مزید برآں وہ ایک آیت کا ایسا مفہوم نکالتے ہیں جو اسی موضوع سے متعلق قرآن مجید کی دوسری آیات سے ٹکراتا ہے۔ کوئی شخص اگر اپنے خیالات کی نہیں بلکہ قرآن پاک کی پیروی کرنا چاہتا ہو تو وہ سورۂ نساء، آیت ۳ – ۲۵، سورۂ احزاب، آیت ۵۰ – ۵۲، اور سورۂ معارج، آیت ۳۰ کو سورۂ مومنون کی اس آیت کے ساتھ ملا کر پڑھے۔ اسے خود معلوم ہو جائے گا کہ قرآن کا قانون اس مسئلے میں کیا ہے۔ (اس مسئلے کی مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، النساء، حاشیہ ۴۴۔ تفہیمات جلد دوم، صفحہ ۲۹۰ تا ۳۲۴۔ رسائل و مسائل، جلد اوّل، صفحہ ۳۲۴ تا ۳۳۳)۔ (۲) اِلَّا عَلیٰٓ اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَا نھُمْ میں لفظ عَلیٰ اس بات کی صراحت کر دیتا ہے کہ اس جملۂ معترضہ میں جو قانون بیان کیا جا رہا ہے اس کا تعلق صرف مردوں سے ہے۔ باقی تمام آیات قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ سے لے کر خٰلِدُوْنَ تک، مذکّر کی ضمیروں کے باوجود مردو عورت دونوں کو شامل ہیں، کیونکہ عربی زبان میں عورتوں اور مردوں کے مجموعے کا جب ذکر کیا جاتا ہے تو ضمیر مذکر ہی استعمال کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْن کے حکم سے مستثنیٰ کرتے ہوئے عَلیٰ کا لفظ استعمال کر کے بات واضح کر دی گئی کہ یہ استثنا مردوں کے لیے ہے نہ کہ عورتوں کے لیے۔ اگر ’’ان پر‘‘ کہنے کے بجائے ’’اُن سے ‘‘ محفوظ نہ رکھنے میں وہ قابلِ ملامت نہیں ہیں کہا جاتا تو البتہ یہ حکم بھی مرد و عورت دونوں پر حاوی ہو سکتا تھا۔ یہی وہ باریک نکتہ ہے جسے نہ سمجھنے کی وجہ سے ایک عورت حضرت عمر ؓ کے زمانے میں اپنے غلام سے تمتع کر بیٹھی تھی۔ صحابۂ کرام کی مجلس شوریٰ میں جب اس کا معاملہ پیش کیا گیا تو سب نے بالاتفاق کہا کہ تاولت کتاب اللہ تعالیٰ غیر تاویلہٖ ’’ اس نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کا غلط مفہوم لے لیا‘‘۔ یہاں کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ اگر یہ استثناء مردوں کے لیے خاص ہے تو پھر بیویوں کے لیے ان کے شوہر کیسے حلال ہوئے؟ یہ شبہ اس لیے غلط ہے کہ جب بیویوں کے معاملے میں شوہروں کو حفظِ فروج کے حکم سے مستثنیٰ کیا گیا تو اپنے شوہروں کے معاملے میں بیویاں آپ سے آپ اِس حکم سے مستثنیٰ ہو گئیں۔ ان کے لیے پھر الگ کسی تصریح کی حاجت نہ رہی۔ اس طرح اس حکمِ استثنا ء کا اثر عملاً صرف مرد اور اس کی مملوکہ عورت تک محدود ہو جاتا ہے، اور عورت پر اس کا غلام حرام قرار پاتا ہے۔ عورت کے لیے اِس چیز کو حرام کرنے کی حکمت یہ ہے کہ غلام اس کی خواہش ِ نفس پوری کر سکتا ہے مگر اس کا اور گھر کا قوّام نہیں بن سکتا جس کی وجہ سے خاندانی زندگی کی چول ڈھیلی رہ جاتی ہے۔ (۳) ’’البتہ جو اُس کے علاوہ کچھ اور چاہیں وہی زیادتی کرنے والے ہیں‘‘، اِس فقرے نے مذکورۂ بالا دو جائز صورتوں کے سوا خواہشِ نفس پوری کرنے کی تمام دوسری صورتوں کو حرام کر دیا، خواہ وہ زنا ہو، یا عملِ قومِ لوط یا وطیِ بہائم یا کچھ اور۔ صرف ایک استمنا بالید(Masturbation ) کے معاملے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ امام احمد بن حنبل اس کو جائز قرار دیتے ہیں۔ امام مالک اور امام شافعی اس کو قطعی حرام ٹھیراتے ہیں۔ اور حنفیہ کے نزدیک اگرچہ یہ حرام ہے، لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر شدید غلبۂ جذبات کی حالت میں آدمی سے احیاناً اس فعل کا صدور ہو جائے تو اُمید ہے کہ معاف کر دیا جائے گا۔ (۴) بعض مفسرین نے مُتعہ کی حرمت بھی اس آیت سے ثابت کی ہے۔ ان کا استدلال یہ ہےکہ ممنوعہ عورت نہ تو بیوی کے حکم میں داخل ہے اور نہ لونڈی کے حکم میں۔ لونڈی تو وہ ظاہر ہے کہ نہیں ہے۔ اور بیوی اس لیے نہیں ہے کہ زوجیت کے لیے جتنے قانونی احکام ہیں ان میں سے کسی کا بھی اس پر اطلاق نہیں ہوتا۔ نہ وہ مرد کی وارث ہوتی ہے نہ مرد اس کا وارث ہوتا ہے۔ نہ اس کے لیے عدّت ہے۔ نہ طلاق۔ نہ نفقہ۔ نہ ایلاء اور ظہار اور لعان وغیرہ۔ بلکہ چار بیویوں کی مقررہ حد سے بھی وہ مستثنیٰ ہے۔ پس جب وہ ’’بیوی‘‘ اور ’’لونڈی‘‘ دونوں کی تعریف میں نہیں آتی تو لا محالہ وہ ’’ان کے علاوہ کچھ اور‘‘ میں شمار ہو گی جس کے طالب کو قرآن ’’حد سے گزرنے والا‘‘ قرار دیتا ہے۔ یہ استدلال بہت قوی ہے، مگر اس میں کمزوری کا ایک پہلو ایسا ہے جس کی بنا پر یہ کہنا مشکل ہے کہ متعہ کی حرمت کے بارے میں یہ آیت ناطق ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے متعہ کی حرمت کا آخری اور قطعی حکم فتح مکّہ کے سال دیا ہے، اور اس سے پہلے اجازت کے ثبوت صحیح احادیث میں پائے جاتے ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ حرمتِ متعہ کا حکم قرآن کی اس آیت ہی میں آ چکا تھا جو بالاتفاق مکّی ہے اور ہجرت سے کئی سال پہلے نازل ہوئی تھی، تو کیسے تصوّر کیا جا سکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے فتح مکّہ تک جائز رکھتے۔ لہٰذا یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ متعہ کی حرمت قرآن مجید کے کسی صریح حکم پر نہیں بلکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سنت پر مبنی ہے۔ سنت میں اس کی صراحت نہ ہوتی تو محض اس آیت کی بنا پر تحریم کا فیصلہ کر دینا مشکل تھا۔ متعہ کا جب ذکر آگیا ہے تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دو باتوں کی اور توضیح کر دی جائے۔ اوّل یہ کہ اس کی حرمت خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ثابت ہے۔ لہٰذا یہ کہنا کہ اسے حضرت عمر ؓ نے حرام کیا، درست نہیں ہے۔ حضرت عمرؓ اس حکم کے موجد نہیں تھے بلکہ صرف اسے شائع اور نافذ کرنے والے تھے۔ چونکہ یہ حکم حضورؐ نے آخر زمانے میں دیا تھا اور عام لوگوں تک نہ پہنچا تھا، اس لیے حضرت عمر ؓ نے اس کی عام اشاعت کی اور بذریعۂ قانون اس کو نافذ کیا۔ دوم یہ کہ شیعہ حضرات نے متعہ کو مطلقاً مباح ٹھیرانے کا جو مسلک اختیار کیا ہے ا س کے لیے تو بہر حال نصوص کتاب و سنت میں سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔ صدر اول میں صحابہ اور تابعین اور فقہاء میں سے چند بزرگ جو اس کے جواز کے قائل تھے وہ اسے صر ف اضطرار اور شدید ضرورت کی حالت میں جائز رکھتے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی اسے نکاح کی طرح مباح ِ مطلق اور عام حالات میں معمول بہ بنا لینے کا قائل نہ تھا۔ ابن عباس ؓ، جن کا نام قائلینِ جواز میں سب سے زیادہ نمایاں کر کے پیش کیا جاتا ہے، اپنے مسلک کی توضیح خود اِن الفاظ میں کرتے ہیں کہ ما ھی الا کالمیتۃ لا تحل الا للمضطر (یہ تو مردار کی طرح ہے کہ مضطر کے سوا کسی کے لیے حلال نہیں) اور اس فتوے سے بھی وہ اُس وقت باز آ گئے تھے جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ اباحت کی گنجائش سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر آزادانہ متعہ کرنے لگے ہیں اور ضرورت تک اسے موقوف نہیں رکھتے۔ اس سوال کو اگر نظر انداز بھی کر دیا جائے کہ ابن عباسؓ اور ان کے ہم خیال چند گنے چُنے اصحاب نے ا س مسلک سے رجُوع کر لیا تھا یا نہیں، تو اُن کے مسلک کو اختیار کرنے والا زیادہ سے زیادہ جواز بحالتِ اضطرار کی حد تک جا سکتا ہے۔ مطلق اباحت، اور بلا ضرورت تمتع، حتیٰ کہ منکوحہ بیویوں تک کی موجودگی میں بھی ممنوعات سے استفادہ کرنا تو ایک ایسی آزادی ہے جسے ذوقِ سلیم بھی گوارا نہیں کرتا کجا کہ اسے شریعت محمدیہ کی طرف منسوب کیا جائے اور ائمۂ اہلِ بیت کو اس سے متّہِم کیا جائے۔ میرا خیال ہے کہ خود شیعہ حضرات میں سے بھی کوئی شریف آدمی یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ کوئی شخص اس کی بیٹی یا بہن کے لیے نکاح کے بجائے متعہ کا پیغام دے۔ ا س کے معنی یہ ہوئے کہ جواز متعہ کے لیے معاشرے میں زنانِ بازاری کی طرح عورتوں کا ایک ایسا ادنیٰ طبقہ موجود رہنا چاہیے جس سے تمتع کرنے کا دروازہ کھلا رہے۔ یا پھر یہ کہ متعہ صرف غریب لوگوں کی بیٹیوں اور بہنوں کے لیے ہو اور اس سے فائدہ اُٹھانا خوشحال طبقے کے مردوں کا حق ہو۔ کیا خدا اور رسول کی شریعت سے اس طرح غیر منصفانہ قوانین کی توقع کی جا سکتی ہے؟ اور کیا خدا اور اس کے رسول سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کسی ایسے فعل کو مباح کر دیں گے جسے ہر شریف عورت اپنے لیے بے عزّتی بھی سمجھے اور بے حیائی بھی؟
۸: ’’امانات‘‘ کا لفظ جامع ہے اُن تمام امانتوں کے لیے جو خداوندِ عالم نے، یا معاشرے نے، یا افراد نے کسی شخص کے سپرد کی ہوں۔ اور عہد و پیمان میں وہ سارے معاہدے داخل ہیں جو انسان اور خدا کے درمیان، یا انسان اور انسان کے درمیان، یا قوم اور قوم کے درمیان استوار کیے گئے ہوں۔ مومن کی صفت یہ ہے کہ وہ کبھی امانت میں خیانت نہ کرے گا، اور کبھی اپنے قول و قرار سے نہ پھرے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اکثر اپنے خطبوں میں فرمایا کرتے تھے لا ایمان لمن لا امانۃ لہٗ ولا دین لمن لا عھد لہ، ’’جو امانت کی صفت نہیں رکھتا وہ ایمان نہیں رکھتا، اور جو عہد کا پس نہیں رکھتا وہ دین نہیں رکھتا‘‘۔ (بیہقی فی شعب الایمان )۔ بخاری و مسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا ’’ چار خصلتیں ہیں کہ جس میں وہ چاروں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں کوئی ایک پائی جائے اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے۔ جب کوئی امانت اس کے سپر د کی جائے تو خیانت کرے۔ جب بولے تو جھوٹ بولے۔ جب عہد کرے تو توڑ دے۔ اور جب کسی سے جھگڑے تو (اخلاق و دیانت کی ) ساری حدیں پھاند جائے‘‘۔
۹: اوپر خشوع کے ذکر میں ’’نماز‘‘ فرمایا تھا اور یہاں ’’نمازوں‘‘ بصیغۂ جمع ارشاد فرمایا ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ وہاں جنسِ نماز مراد تھی اور یہاں ایک ایک وقت کی نماز فرداً فرداً مراد ہے۔ ’’نمازوں کی محافظت‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اوقاتِ نماز، آدابِ نماز، ارکان و اجزائے نماز، غرض نماز سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کی پوری نگہداشت کرتے ہیں۔ جسم اور کپڑے پاک رکھتے ہیں۔ وضو ٹھیک طرح سے کرتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ کبھی بے وضو نہ پڑھ بیٹھیں۔ صحیح وقت پر نماز ادا کرنے کی فکر کرتے ہیں، وقت ٹال کر نہیں پڑھتے۔ نماز کے تمام ارکان پوری طرح سکون و اطمینان کے ساتھ ادا کرتے ہیں، ایک بوجھ کی طرح جلدی سے اتار کر بھاگ نہیں جاتے۔ اور جو کچھ نماز میں پڑھتے ہیں وہ اس طرح پڑھتے ہیں کہ جیسے بندہ اپنے خدا سے کچھ عرض کر رہا ہے، نہ اِس طرح کہ گویا ایک رٹی ہوئی عبارت کو کسی نہ کسی طور پر ہوا میں پھونک دینا ہے۔
۱۰: فردوس، جنت کے لیے معروف ترین لفظ ہے جو قریب قریب تمام انسانی زبانوں میں مشترک طور پر پایا جاتا ہے۔ سنسکرت میں پَردِیشَا، قدیم کلدانی زبان میں پَر دیسا، قدیم ایرانی (ژند) میں پیری وائزا، عبرانی میں پَردیس، ارمنی میں پَردیز، سُریانی میں فَردیسو، یونانی میں پارادائسوس، لاطینی میں پاراڈائسس، اور عربی میں فردوس۔ یہ لفظ ان سب زبانوں میں ایک ایسے باغ کے لیے بولا جاتا ہے جس کے گرد حصار کھنچا ہوا ہو، وسیع ہو، آدمی کی قیام گاہ سے متصل ہو، اور اس میں ہر قسم کے پھل، خصوصاً انگور پائے جاتے ہوں۔ بلکہ بعض زبانوں میں تو منتخب پالتو پرندوں اور جانوروں کا بھی پایا جانا اس کے مفہوم میں شامل ہے۔ قرآن سے پہلے عرب کے کلام جاہلیت میں بھی لفظ فردوس مستعمل تھا۔ اور قرآن میں اس کا اطلاق متعدد باغوں کے مجموعے پر کیا گیا ہے، جیسا کہ سورۂ کہف میں ارشاد ہوا کَانَتْ لَھُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلاً، ’’ان کی میزبانی کے لیے فردوس کے باغ ہیں‘‘۔ اس سے جو تصور ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ فردوس ایک بڑی جگہ ہے جس میں بکثرت باغ اور چمن اور گلشن پائے جاتے ہیں۔ اہلِ ایمان کے وارث ِ فردوس ہونے پر سُورۂ طٰہٰ (حاشیہ نمبر ۸۳)، اور سُورۂ انبیاء (حاشیہ نمبر ۹۹ )میں کافی روشنی ڈالی جا چکی ہے۔
۱۱: اِن آیات میں چار اہم مضمون ادا ہوئے ہیں: اوّل یہ کہ جو لوگ بھی قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بات مان کر یہ اوصاف اپنے اندر پیدا کر لیں گے اور اس رویّے کے پابند ہو جائیں گے وہ دنیا اور آخرت میں فلاح پائیں گے، قطع نظر اس سے کہ کسی قوم، نسل یا ملک کے ہوں۔ دوم یہ کہ فلاح محض اقرارِ ایمان، یا محض اخلاق اور عمل کی خوبیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ دونوں کے اجتماع کا نتیجہ ہے۔ جب آدمی خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کو مانے، پھر اس کے مطابق اخلاق اور عمل کی خوبیاں اپنے اندر پیدا کر لے، تب وہ فلاح سے ہمکنار ہو گا۔ سوم یہ کہ فلاح دنیوی اور مادّی خوشحالی اور محدود قتی کامیابیوں کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ ایک وسیع تر حالتِ خیر کا نام ہے جس کا اطلاق دنیا اور آخرت میں پائیدار و مستقل کامیابی و آسودگی پر ہوتا ہے۔ یہ چیز ایمان و عمل صالح کے بغیر نصیب نہیں ہوتی۔ اور اس کُلیے کو نہ تو گمراہوں کی وقتی خوشحالیاں اور کامیابیاں توڑتی ہیں، نہ مومنین صالحین کے عارضی مصائب کو اس کی نقیض ٹھیرایا جا سکتا ہے۔ چہارم یہ کہ مومنین کے اِن اوصاف کو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مشن کی صداقت کے لیے دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے، اور یہی مضمون آگے کی تقریر سے ان آیات کا ربط قائم کرتا ہے۔ تیسرے رکوع کے خاتمے تک کی پوری تقریر کا سلسلۂ استدلال اس طرح پر ہے کہ آغازِ میں تجربی دلیل ہے، یعنی یہ کہ اس کی تعلیم نے خود تمہاری ہی سوسائیٹی کے افراد میں یہ سیرت و کردار اور یہ اخلاق و اوصاف پیدا کر کے دکھائے ہیں، اب تم خود سوچ لو کہ یہ تعلیم حق نہ ہوتی تو ایسے صالح نتائج کس طرح پیدا کر سکتی تھی۔ اس کے بعد مشاہداتی دلیل ہے، یعنی یہ کہ انسان کے اپنے وجود میں اور گرد و پیش کی کائنات میں جو آیات نظر آتی ہیں وہ سب توحید اور آخرت کی اس تعلیم کے برحق ہونے کی شہادت دے رہی ہیں جسے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیش کرتے ہیں۔ پھر تاریخی دلائل آتے ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ نبی اور اس کے منکرین کی کشمکش آج نئی نہیں ہے بلکہ انہی بنیادوں پر قدیم ترین زمانے سے چلی آ رہی ہے اور اس کشمکش کا ہر زمانے میں ایک ہی نتیجہ برآمد ہوتا رہا ہے جس سے صاف طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ فریقین میں سے حق پر کون تھا اور باطل پر کون۔
۱۲: تشریح کے لیے ملاحظہ ہوں سورۂ حج کے حواشی نمبر ۵، نمبر۶ اور نمبر ۹۔
۱۳: یعنی کوئی خالی الذہن آدمی بچے کو ماں کے رحم میں پرورش پاتے دیکھ کر یہ تصور نہیں کر سکتا کہ یہاں وہ انسان تیار ہو رہا ہے جو باہر جا کر عقل اور دانائی اور صنعت کے یہ کچھ کمالات دکھائے گا اور ایسی ایسی حیرت انگیز قوتیں اور صلاحیتیں اس سے ظاہر ہوں گی۔ وہاں وہ ہڈیوں اور گوشت پوست کا ایک پلندا سا ہوتا ہے جس میں وضعِ حمل کے آغاز تک زندگی ابتدائی خصوصیات کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ نہ سماعت، نہ بصارت، نہ گویائی، نہ عقل و خرد، نہ اورکوئی خوبی۔ مگر باہر آ کر چیز ہی کچھ اور بن جاتا ہے جس کو پیٹ والے جنین سے کوئی مناسبت نہیں ہوتی۔ اب وہ ایک سمیع اور بصیر اور ناطق وجود ہوتا ہے۔ اب وہ تجربے اور مشاہدے سے علم حاصل کرتا ہے۔ اب اس کے اندر ایک ایسی خودی اُبھرنی شروع ہو تی ہے جو بیداری کے پہلے ہی لمحہ سے اپنی دسترس کی ہر چیز پر تحکم جتانی اور اپنا زور منوانے کی کوشش کرتی ہے۔ پھر وہ جوں جوں بڑھتا جاتا ہے اُس کی ذات میں یہ ’’چیز ے دیگر‘‘ ہونے کی کیفیت نمایاں تر اور افزوں تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ جو ان ہوتا ہے تو بچپن کی بہ نسبت کچھ اَور ہوتا ہے۔ ادھیڑ ہوتا ہے تو جوانی کے مقابلے میں کوئی اَور چیز ثابت ہوتا ہے۔ بڑھاپے کو پہنچتا ہے تو نئی نسلوں کے لیے یہ اندازہ کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ اس کا بچپن کیا تھا اور جوانی کیسی تھی۔ اتنا بڑا تغیر کم از کم ایس دنیا کی کسی دوسری مخلوق میں واقع نہیں ہوتا۔ کوئی شخص ایک طرف کسی پختہ عمر کے انسان کی طاقتیں اور قابلیتیں اور کام دیکھے، اور دوسری طرف یہ تصور کرے کہ پچاس ساٹھ برس پلے ایک روز جو بوند ٹپک کر ر حم مادر میں گری تھی اس کے اندر یہ کچھ بھرا ہوا تھا، تو بے اختیار اس کی زبان سے وہی بات نکلے گی جو آگے کے فقرے میں آرہی ہے۔
۱۴: اصل میں فَتَبَارَکَ اللہُ کے الفاظ ارشاد ہوئے ہیں جن کی پوری معنویت ترجمے میں ادا کرنا محال ہے۔ لغت اور استعاملاتِ زبان کے لحاظ سے اس میں دو مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ وہ نہایت مقدس اور منزّہ ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ اس قدر خیر اور بھلائی اور خوبی کا مالک ہے کہ جتنا تم اُس کا اندازہ کرو اُس سے زیادہ ہی اُس کو پاؤ حتیٰ کہ اس کی خیرات کا سلسلہ کہیں جا کر ختم نہ ہو۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الفرقان، حواشی نمبر ۱ اور ۱۹)۔ ان دونوں معنوں پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ تخلیقِ انسانی کے مراتب بیان کرنے کے بعد فَتَبَارَکَ اللہُ کا فقرہ محض ایک تعریفی فقرہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ دلیل کے بعد نتیجۂ دلیل بھی ہے۔ اس میں گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ جو خدا مٹی کے ست کو ترقی دے کر ایک پورے انسان کے مرتبے تک پہنچا دیتا ہے وہ اس سے بدرجہا زیادہ منزّہ ہے کہ خدائی میں کوئی اس کا شریک ہو سکے، اور اس سے بدرجہا مقدس ہے کہ اُسی انسان کو پھر پیدا نہ کر سکے، اور اس کی خیرات کا یہ بڑا ہی گھٹیا اندازہ ہے کہ بس ایک دفعہ انسان بنا دینے ہی پر اس کے کمالات ختم ہو جائیں، اس سے آگے وہ کچھ نہ بنا سکے۔
۱۵: اصل میں لفظ طرائق استعمال ہوا ہے جس کے معنی راستوں کے بھی ہیں اور طبقوں کے بھی۔ اگر پہلے معنی لیے جائیں تو غالباً اس سے مراد سات سیّاروں کی گردش کے راستے ہیں، اور چونکہ اس زمانے کا انسان سبع سیارہ ہی سے واقف تھا، اس لیے سات ہی راستوں کا ذکر کیا گیا۔ اِس کے معنی بہر حال یہ نہیں ہیں کہ ان کے علاوہ اور دوسرے راستے نہیں ہیں۔ اور اگر دوسرے معنی لیے جائیں تو سَبْعَ طَرَآئیقَ کا وہی مفہوم ہو گا جو سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا (سات آسمان طبق بر طبق) کا مفہوم ہے۔ اور یہ جو فرمایا کہ ’’تمہارے اوپر‘‘ ہم نے سات راستے بنائے، تو اس کا ایک تو سیدھا سادھا مطلب وہی ہے جو ظاہر الفاظ سے ذہن میں آتا ہے، اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم سے بھی زیادہ بڑی چیز ہم نے یہ آسمان بنائے ہیں، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا کہ لَخَلْقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ۔ ’’آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنا انسانوں کو پیدا کرنے سے زیادہ بڑا کام ہے‘‘۔ (المومن۔ آیت ۵۷)۔
۱۶: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے : ’’اور مخلوقات کی طرف سے ہم غافل نہ تھے، یا نہیں ہیں۔‘‘ متن میں جو مفہوم لیا گیا ہے اس کے لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ یہ سب کچھ جو ہم نے بنایا ہے، یہ بس یونہی کسی اناڑی کے ہاتھوں الل ٹپ نہیں بن گیا ہے، بلکہ اسے ایک سوچے سمجھے منصوبے پر پورے علم کے ساتھ بنایا گیا ہے، اہم قوانین اس میں کار فرما ہیں، ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک سارے نظامِ کائنات میں ایک مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے، اور اس کار گاہِ عظیم میں ہر طرف ایک مقصدیّت نظر آتی ہے جو بنانے والے کی حکمت پر دلالت کر رہی ہے۔ دوسرا مفہوم لینے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اس کائنات میں جتنی بھی مخلوقات ہم نے پیدا کی ہے اس کی کسی حاجت سے ہم کبھی غافل، اور کسی حالت سے کبھی بے خبر نہیں رہے ہیں۔ کسی چیز کو ہم نے اپنے منصوبے کے خلاف بننے اور چلنے نہیں دیا ہے۔ کسی چیز کی فطری ضروریات فراہم کرنے میں ہم نے کوتاہی نہیں کی ہے۔ اور ایک ایک ذرے اور پتّے کی حالت سے ہم باخبر رہے ہیں۔
۱۷: اس سے مراد اگرچہ موسمی بارش بھی ہو سکتی ہے، لیکن آیت کے الفاظ پر غور کرنے سے ایک دوسرا مطلب بھی سمجھ میں آتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ آغازِ آفرینش میں اللہ تعالیٰ نے بیک وقت اتنی مقدار میں زمین پر پانی نازل فرما دیا تھا جو قیامت تک اِس کُرے کی ضروریات کے لیے اُس کے علم میں کافی تھا۔ وہ پانی زمین ہی کے نشیبی حصّوں میں ٹھیر گیا جس سے سمندر اور بُحَیرے وجود میں آئے اور آبِ زیرِ زمین(Sub-soil Water ) پیدا ہوا۔ اب یہ اسی پانی کا اُلٹ پھیر ہے جو گرمی، سردی اور ہواؤں کے ذریعے سے ہوتا رہتا ہے، اسی کو بارشیں، برف پوش پہاڑ، دریا، چشمے اور کنوئیں زمین کے مختلف حصّوں میں پھیلاتے رہتے ہیں، اور وہی بے شمار چیزوں کی پیدائش اور ترکیب میں شامل ہوتا اور پھر ہوا میں تحلیل ہو کر اصل ذخیرے کی طرف واپس جاتا رہتا ہے۔ شروع سے آج تک پانی کے اس ذخیرے میں نہ ایک قطرے کی کمی ہوئی اور نہ ایک قطرے کا اضافہ ہی کرنے کی کوئی ضرورت پیش آئی۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پانی، جس کی حقیقت آج ہر مدرسے کے طالب علم کو معلوم ہے کہ وہ ہائیڈروجن اور آکسیجن، دو گیسوں کے امتزاج سے بنا ہے، ایک دفعہ تو اتنا بن گیا کہ اس سے سمندر بھر گئے، اور اب اس کے ذخیرے میں ایک قطرے کا بھی اضافہ نہیں ہوتا۔ کون تھا جس نے ایک وقت میں اتنی ہائیڈروجن اور آکسیجن ملا کر اس قدر پانی بنا دیا؟ اور کون ہے جو اب انہی دونوں گیسوں کو اُس خاص تناسب کے ساتھ نہیں ملنے دیتا جس سے پانی بنتا ہے، حالانکہ دونوں گیسیں اب بھی دنیا میں موجود ہیں؟ اور جب پانی بھاپ بن کر ہوا میں اُڑ جاتا ہے تو اس وقت کون ہے جو آکسیجن اور ہائیڈروجن کو الگ الگ ہو جانے سے روکے رکھتا ہے؟ کیا دہریوں کے پاس اس کا کوئی جواب ہے؟ اور کیا پانی اور ہوا گرمی اور سردی کے الگ الگ خدا ماننے والے اس کا کوئی جواب رکھتے ہیں؟
۱۸: یعنی اسے غائب کر دینے کی کوئی ایک ہی صورت نہیں ہے، بے شمار صورتیں ممکن ہیں، اور ان میں سے جس کو ہم جب چاہیں اختیار کر کے تمہیں زندگی کے اس اہم ترین وسیلے سے محروم کر سکتے ہیں۔ اس طرح یہ آیت سورۂ مُلک کی اُس آیت سے وسیع تر مفہوم رکھتی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ قُلْ اَرَاَیْتُمْ اِنْ اَصْبَحَ مَآءُکُمْ غَوْرًا فَمَنْ یَّاْ تِیْکُمْ بَمَآءٍمَّعِیْنٍ۔ ’’ان سے کہو، کبھی تم نے سوچا کہ اگر تمہارا یہ پانی زمین میں بیٹھ جائے تو کون ہے جو تمہیں بہتے چشمے لادے گا؟‘‘
۱۹: یعنی کھجوروں اور انگوروں کے علاوہ بھی طرح طرح کے میوے اور پھل۔
۲۰: ‘‘ یعنی اِن باغوں کی پیداوار سے، جو پھل، غلّے، لکڑی اور دوسری مختلف صورتوں میں حاصل ہوتی ہے، تم اپنی معاش پیدا کرتے ہو۔ مِنْھَا تَاْکُلُوْنَ میں منھا کی ضمیر جنّات کی ضمیر کی طرف پھرتی ہے نہ کہ پھلوں کی طرف۔ اور تاکلون کے معنی صرف یہی نہیں ہیں کہ ان باغوں کے پھل تم کھاتے ہو، بلکہ یہ بحیثیتِ مجمُوعی روزی حاصل کرنے کے مفہوم پر حاوی ہے۔ جس طرح ہم اُردو زبان میں کہتے ہیں کہ فلاں شخص اپنے فلاں کام کی روٹی کھاتا ہے، اُسی طرح عربی زبان میں بھی کہتے ہیں فلان یاکل من حرفتہٖ۔
۲۱: مراد ہے زیتون، جو بحرِ روم کے گردو پیش کے علاقے کی پیداوار میں سب سے زیادہ اہم چیز ہے۔ اس کا درخت ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو ہزار برس تک چلتا ہے، حتیٰ کہ فلسطین کے بعض درختوں کا قد و قامت اور پھیلاؤ دیکھ کر اندازہ کیا گیا کہ وہ حضرت عیسیٰ ؑ کے زمانے سے اب تک چلے آرہے ہیں۔ طورِ سیناء کی طرف اس کو منسُوب کر نے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہی علاقہ جس کا مشہور ترین اور نمایاں ترین مقام طورِ سینا ہے، اس درخت کا وطنِ اصلی ہے۔
۲۲: یعنی دودھ جس کے متعلق قرآن میں دوسری جگہ فرمایا گیا ہے کہ خون اور گوبر کے درمیان یہ ایک تیسری چیز ہے جو جانور کی غذا سے پیدا کر دی جاتی ہے۔ (النحل، آیت ۶۶)۔
۲۳: مویشیوں اور کشتیوں کا ایک ساتھ ذکر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہلِ عرب سواری اور بار برداری کے لیے زیادہ تر اُونٹ استعمال کرتے تھے، اور اونٹوں کے لیے ’’خشکی کے جہاز‘‘ کا استعارہ بہت پرانا ہے۔ جاہلیت کا شاعر ذوالرُّ مَّہ کہتا ہے: ؏ سفینۃ برٍّ تحت خدی زما مھا
۲۴: تقابل کے لیے ملاحظہ ہو الاعراف، آیات ۵۹ تا ۶۴۔ یونس، آیات ۷۱ تا ۷۳۔ ہُود، آیات ۲۵ تا ۴۸۔ بنی اسرائیل، آیت ۳۔ الانبیاء، آیات ۷۶ و ۷۷۔
۲۵: یعنی کیا تمہیں اپنے اصلی اور حقیقی خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی بندگی کرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا ؟ کیا تم اس بات سے بالکل بے خوف ہو کہ جو تمہارا اور سارے جہان کا مالک و فرمانروا ہے اُس کی سلطنت میں رہ کر اس کے بجائے دوسروں کی بندگی و اطاعت کرنے اور دوسروں کی ربوبیت و خداوندی تسلیم کرنے کے کیا نتائج ہوں گے؟
۲۶: یہ خیال تمام گمراہ لوگوں کی مشترک گمراہیوں میں سے ایک ہے کہ بشر نبی نہیں ہو سکتا اور نبی بشر نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے قرآن نے بار بار اس جاہلانہ تصوّر کا ذکر کر کے اس کی تردید کی ہے اور اس بات کو پورے زور کے ساتھ بیان کیا ہے کہ تمام انبیاء انسان تھے اور انسانوں کے لیے انسان ہی نبی ہونا چاہیے۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو ں الاعراف، آیات ۶۳ – ۶۹۔ یونس، آیت ۲۔ ہُود، ۲۷ – ۳۱۔ یوسف ۱۰۹۔ الرعد ۳۸۔ ابراہیم ۱۰ – ۱۱۔ النحل ۴۳۔ بنی اسرائیل ۹۴ – ۹۵۔ الکہف ۱۱۰۔ الانبیاء ۳ – ۳۴۔ المومنون ۳۳ – ۳۴ – ۴۷۔ الفرقان ۷ – ۲۰۔ الشعراء ۱۵۴ – ۱۸۶۔ یٰسین ۱۵۔ حٰم السجدہ ۶۔ مع حواشی)۔
۲۷: یہ بھی مخالفین حق کا قدیم ترین حربہ ہے کہ جو شخص بھی اصلاح کے لیے کوشش کرنے اُٹھے اُس پر فوراً یہ الزام چسپاں کر دیتے ہیں کہ کچھ نہیں بس اقتدار کا بھوکا ہے۔ یہی الزام فرعون نے حضرت موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ پر لگایا تھا کہ تم اس لیے اُٹھے ہو کہ تمہیں ملک میں بڑائی حاصل ہو جائے، تکون لکما الکبر یا ء فی الارض (یونس آیت ۷۸)۔ یہی حضرت عیسیٰؑ پر لگایا گیا کہ یہ شخص یہودیوں کا بادشاہ بننا چاہتا ہے۔ اور اسی کا شبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق سردارانِ قریش کو تھا، چنانچہ کئی مرتبہ انہوں نے آپؐ سے یہ سودا کرنے کی کوشش کی کہ اگر اقتدار کے طالب ہو تو ’’اپوزیشن‘‘ چھوڑ کر ’’حزبِ اقتدار‘‘ میں شامل ہو جاؤ، تمہیں ہم بادشاہ بنائے لیتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو لوگ ساری عمر دنیا اور اس کے مادّی فائدوں اور اس کی شان و شوکت ہی کے لیے اپنی جان کھپاتے رہتے ہیں اُن کے لیے یہ تصوّر کرنا بہت مشکل بلکہ نا ممکن ہوتا ہے کہ اسی دنیا میں کوئی انسان نیک نیتی اور بے غرضی کے ساتھ فلاحِ انسانیت کی خاطر بھی اپنی جان کھپا سکتا ہے۔ وہ خود چونکہ اپنا اثر و اقتدار جمانے کے لیے دلفریب نعرے اورا صلاح کے جھوٹے دعوے شب و روز استعمال کرتے رہتے ہیں، اس لیے یہ مکاری و فریب کاری ان کی نگاہ میں بالکل ایک فطری چیز ہوتی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ اصلاح کا نام مکر و فریب کے سوا کسی صداقت اور خلوص کے ساتھ کبھی لیا ہی نہیں جا سکتا، یہ نام جو بھی لیتا ہے ضرور وہ ان کا اپنا ہم جنس ہی ہو گا۔ اور لطف یہ ہے کہ مصلحین کے خلاف ’’اقتدار کی بھوک‘‘ کا یہ الزام ہمیشہ برسر اقتدار لوگ اور ان کے خوشامدی حاشیہ نشین ہی استعمال کرتے رہے ہیں۔ گویا خود انہیں اور ان کے آقایانِ نامدار کو جو اقتدار حاصل ہے وہ تو ان کا پیدائشی حق ہے، ا س کے حاصل کرنے اور اس پر قابض رہنے میں وہ کسی الزام کے مستحق نہیں ہیں، البتہ نہایت قابلِ ملامت ہے وہ جس کے لیے یہ ’’غذا‘‘ پیدائشی حق نہ تھی اور اب یہ لوگ اس کے اندر اس چیز کی ’’بھوک‘‘ محسوس کر رہے ہیں۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۳۶)۔ اس جگہ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جو شخص بھی رائج الوقت نظامِ زندگی کی خرابیوں کو دُور کرنے کے لیے اُٹھے گا اوار اس کے مقابلے میں اصلاحی نظر یہ و نظام پیش کرے گا، اس کے لیے بہر حال یہ بات نا گزیر ہو گی کہ اصلا ح کی راہ میں جو طاقتیں بھِ سدِّ راہ ہوں انہیں ہٹانے کی کوشش کرے اور اُن طاقتوں کو برسرِ اقتدار لائے جو اصلاحی نظریہ و نظام کو عملاً نافذ کر سکیں۔ نیز ایسے شخص کی دعوت جب بھی کامیاب ہو گی، ا س کا قدرتی نتیجہ یہی ہو گا کہ وہ لوگوں کا مقتدا و پیشوا بن جائے گا اور نئے نظام میں اقتدار کی باگیں یا تو اس کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہوں گی، یا اس کے حامیوں اور پیرووں کے ہاتھ ان پر قابض ہو ں گے۔ آخر انبیاء اور مصلحینِ عالم میں سے کون ہے جس کی کوششوں کا مقصد اپنی دعوت کو عملاً نافذ کرنا نہ تھا، ا ور کون ہے جس کی دعوت کی کامیابی نے فی الواقع اس کو پیشوا نہیں بنا دیا؟ پھر کیا یہ امر واقعی کسی پر یہ الزام چسپاں کر دینے کے لیے کافی ہے کہ وہ دراصل اقتدار کا بھوکا تھا، اور اس کی اصل غرض وہی پیشوائی تھی جو اس نے حاصل کر لی؟ ظاہر ہے کہ بد طینت دشمنانِ حق کے سوا اس سوال کا جواب کوئی بھی اثبات میں نہ دے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کے بجائے خود مطلوب ہونے اور کسی مقصد خیر کے لیے مطلوب ہونے میں زمین و آسمان کا فرق ہے، اتنا ہی بڑا فرق جتنا ڈاکو کے خنجر اور ڈاکٹر کے نشتر میں ہے۔ اگر کوئی شخص صرف اس بنا پر ڈاکو اور ڈاکٹر کو ایک کر دے کہ دونوں بالارادہ جسم چیرتے ہیں اور نتیجہ میں مال دونوں کے ہاتھ آتا ہے، تو یہ صرف اس کے اپنے ہی دماغ یا دل کا قصور ہے۔ ورنہ دونوں کی نیت، دونوں کے طریق کا ر اور دونوں کے مجموعی کردار میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ کوئی صاحبِ عقل آدمی ڈاکو کو ڈاکو اور ڈاکٹر کو ڈاکٹر سمجھنے میں غلطی نہیں کر سکتا۔
۲۷a: یہ اس امر کا کھُلا ہُوا ثبوت ہے کہ قومِ نوح ؑ اللہ تعالیٰ کے وجود کی منکر نہ تھی اور نہ اس بات کی منکر تھی کہ ربّ العالمین وہی ہے اور سارے فرشتے اس کے تابع فرمان ہیں۔ اس قوم کی اصل گمراہی شرک تھی نہ کہ انکارِ خدا۔ وہ خدائی کی صفات اور اختیارات میں اور اُس کے حقوق میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھیراتی تھی۔
۲۸: یعنی میری طرف سے اس تکذیب کا بدلہ لے۔ جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا: فَدَعَا رَبَّہٗ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَا نْتَصِرْ، ’’پس نوح نے اپنے ربّ کو پکارا کہ میں دبا لیا گیا ہوں، اب تُو ان سے بدلہ لے‘‘ (القمر آیت ۱۰)۔ اور سُورۂ نوح مین فرمایا: وَقَالَ نُوْحٌ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَی الْاَرْضِٖ مِنَ الْکَافِرِیْنَ دَیَّارًا o اِنَّکَ اِنْ تَذَرْ ھُمْ یُضِلُّوْ ا عِبَادَ کَ وَلَا یَلِدُوْ آ اِلَّا فَا جِرًا کَفَّارًا۔ ’’ اور نوح نے کہا، اے میرے پروردگار، اس زمین پر کافروں میں سے ایک بسنے والا بھی نہ چھوڑ، اگر تُو نے ان کو رہنے دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کر دیں گے اور ان کی نسل سے بدکار منکرینِ حق ہی پیدا ہوں گے‘‘ (آیت ۲۶)۔
۲۹: بعض لوگوں نے تنور سے مراد زمین لی ہے، بعض نے زمین کا بلند ترین حصّہ مراد لیا ہے، بعض کہتے ہیں کہ فَار َ التَّنُّور کا مطلب طلوعِ فجر ہے، اور بعض کی رائے میں یہ حمی الوطیس کی طرح ایک استعارہ ہے ’’ہنگامہ گرم ہو جانے‘‘ کے معنی میں۔ لیکن کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ قرآن کے الفاظ کو بغیر کسی قرینے کے مجازی معنوں میں لیا جائے جبکہ ظاہری مفہوم لینے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ یہ الفاظ پڑھ کر ابتداءً جو مفہوم ذہن میں آتا ہے وہ یہی ہے کہ کوئی خاص تنور پہلے سے نامزد کر دیا گیا تھا کہ طوفان کا آغاز اس کے نیچے سے پانی اُبلنے پر ہو گا۔ دوسرے کوئی معنی سوچنے کی ضرورت اُس وقت پیش آتی ہے کہ جبکہ آدمی یہ ماننے کے لیے تیار نہ ہوں کہ اتنا بڑا طوفان ایک تنور کے نیچے سے پانی اُبل پڑنے پر شروع ہوا ہو گا۔ مگر خدا کے معاملات عجیب ہیں۔ وہ جب کسی قوم کی شامت لاتا ہے تو ایسے رُخ سے لاتا ہے جدھر اس کا وہم و گمان بھی نہیں جا سکتا۔
۳۰: یہ کسی قوم کی انتہائی بد اطواری اور خباثت و شرارت کا ثبوت ہے کہ اس کی تباہی پر شکر ادا کرنے کا حکم دیا جائے۔
۳۱: ’’اتارنے‘‘ سے مراد محض اتارنا ہی نہیں ہے، بلکہ عربی محاورے کے مطابق اِس میں ’’میزبانی‘‘ کا مفہوم بھی شامل ہے۔ گویا اس دعا کا مطلب یہ ہے کہ خدا یا اب ہم تیرے مہمان ہیں اور تُو ہی ہمارا میزبان ہے۔
۳۲: یعنی عبرت آموز سبق ہیں جو یہ بتاتے ہیں کہ توحید کی دعوت دینے والے انبیاء حق پر تھے اور شرک پر اصرار کرنے والے کفار باطل پر، اور یہ کہ آج وہی صورتِ حال مکّہ میں درپیش ہے جو کسی وقت حضرت نوحؑ اور ان کی قوم کے درمیان تھی اور اس کا انجام بھی کچھ اُس سے مختلف ہونے والا نہیں ہے، اور یہ کہ خدا کے فیصلے میں چاہے دیر کتنی ہی لگے مگر فیصلہ آخر کار ہو کر رہتا ہے اور وہ لازماً اہلِ حق کے حق میں اور اہلِ باطل کے خلاف ہوتا ہے۔
۳۳: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’آزمائش تو ہمیں کرنی ہو تھی‘‘ یا ’’آزمائش تو ہمیں کرنی ہی ہے‘‘۔ تینوں صورتوں میں مدّعا اس حقیقت پر خبردار کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو بھی اپنی زمین اور اس کی بے شمار چیزوں پر اقتدار عطا کر کے بس یونہی اس کے حال پر نہیں چھوڑ دیتا، بلکہ اس کی آزمائش کرتا ہے اور دیکھتا رہتا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو کس طرح استعمال کر رہے ہے۔ قومِ نوح کے ساتھ جو کچھ ہُوا اسی قانون کے مطابق ہُوا، اور دوسری کوئی قوم بھی اللہ کی ایسی چہیتی نہیں ہے کہ وہ بس اسے خوانِ یغما پر ہاتھ مارنے کے لیے آزاد چھوڑ دے۔ اس معاملے سے ہر ایک کو لازماً سابقہ پیش آنا ہے۔
۳۴: بعض لوگوں نے اس سے مراد قوم ثمود لی ہے، کیونکہ آگے چل کر ذکر آ رہا ہے کہ یہ قوم صَیْحَہ کے عذاب سے تباہ کی گئی، اور دوسرے مقامات پر قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ثمود و ہ قوم ہے جس پر یہ عذاب آیا، (ہُود، ۶۷۔الحجر، ۸۳۔القمر، ۳۱)۔ بعض دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ یہ ذکر دراصل قوم عاد کا ہے، کیونکہ قرآن کی رُو سے قومِ نوح کے بعد یہی قوم اُٹھا ئی گئی تھی، وَاذْ کُرُوْ آ اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآ ءَ مِنْ م بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ (اعراف، آیت ۶۹)۔ صحیح بات یہی دوسری معلوم ہوتی ہے کہ، کیونکہ ’’قومِ نوح کے بعد‘‘ کا اشارہ اسی طرح رہنمائی کرتا ہے۔ رہا صَیْحَہ (چیخ، آوازہ، شور، ہنگامۂ عظیم) تو محض اس کی مناسبت اس قوم کو ثمود قرار دینے کے لیے کافی نہیں ہے، اس لیے کہ یہ لفظ جس طرح اُس آوازۂ تند کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ہلاکتِ عام کی موجب ہو، اُسی طرح اُس شور و ہنگامہ کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے جو ہلاکتِ عام کے وقت برپا ہوا کرتا ہے خواہ سببِ ہلاکت کچھ بھی ہو۔
۳۵: یہ خصوصیات لائقِ غور ہیں۔ پیغمبر کی مخالفت کے لیے اُٹھنے والے اصل لوگ وہ تھے جنہیں قوم کی سرداری حاصل تھی۔ ان سب کی مشترک گمراہی یہ تھی کہ وہ آخرت کے منکر تھے، اس لیے خدا کے سامنے کسی ذمہ داری و جواب دہی کا انہیں اندیشہ نہ تھا، اور اسی لیے وہ دنیا کی اِس زندگی پر فریفتہ تھے اور ’’مادّی فلاح و بہبُود‘‘ سے بلند تر کسی قدر کے قائل نہ تھے۔ پھر اس گمراہی میں جس چیز نے ان کو بالکل ہی غرق کر دیا تھا وہ خوشحالی و آسودگی تھی جسے وہ اپنے برحق ہونے کی دلیل سمجھتے تھے اور یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ وہ عقیدہ، وہ نظامِ اخلاق، اور وہ طرزِ زندگی غلط بھی ہو سکتا ہے جس پر چل کر انہیں دنیا میں یہ کچھ کامیابیاں نصیب ہو رہی ہیں۔ انسانی تاریخ بار بار اس حقیقت کو دُہراتی رہی ہے کہ دعوتِ حق کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ اِنہی تین خصوصیات کے حامل لوگ ہوئے ہیں۔ اور یہی اُس وقت کا منظر بھی تھا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکّے میں اصلاح کی سعی فرما رہے تھے۔
۳۶: یہ الفاظ صاف بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے یہ لوگ بھی منکر نہ تھے، ان کی بھی اصل گمراہی شرک ہی تھی۔ دوسرے مقامات پر بھی قرآن مجید میں اس قوم کا یہی جرم بیان کیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو الاعراف، آیت ۷۰۔ ہُود، آیات ۵۳ – ۵۴۔ حمٰ السجدہ، آیت ۱۴۔ الاحقاف، آیات ۲۱ -۲۲۔
۳۷: خشوع کے اصل معنی ہیں کسی کے آگے جھک جانا، دب جانا، اظہارِ عجز و انکسار کرنا۔ اس کیفیت کا تعلق دل سے بھی ہے اور جسم کی ظاہری حالت سے بھی۔ دل کا خشوع یہ ہے کہ آدمی کسی کی ہیبت اور عظمت و جلال سے مرعوب ہو۔ اور جسم کا خشوع یہ ہے کہ جب وہ اُس کے سامنے جائے تو سر جھک جائے، اعضاء ڈھیلے پڑ جائیں، نگاہ پست ہو جائے، آواز دب جائے، اور ہیبت زدگی کے وہ سارے آثار اس پر طاری ہو جائیں جو اُس حالت میں فطرتاً طاری ہو جایا کرتے ہیں جبکہ آدمی کسی زبردست با جبروت ہستی کے حضور پیش ہو۔ نماز میں خشوع سے مراد دل اور جسم کی یہی کیفیت ہے اور یہی نماز کی اصل روح ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ نماز پڑھ رہا ہے اور ساتھ ساتھ ڈاڑھی کے بالوں سے کھیلتا جاتا ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا لوخشع قلبہ خشعت جوارحہٗ ’’اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے جسم پر بھی خشوع طاری ہوتا‘‘۔ اگر چہ خشوع کا تعلق حقیقت میں دل سے ہے اور دل کا خشوع آپ سے آپ جسم پر طاری ہوتا ہے، جیسا کہ مذکورۂ بالا حدیث سے ابھی معلوم ہوا۔ لیکن شریعت میں نماز کے کچھ ایسے آداب بھی مقرر کر دیے گئے ہیں جو ایک طرف قلبی خشوع میں مددگار ہوتے ہیں اور دوسری طرف خشوع کی گھٹتی بڑھتی کیفیات میں فعل نماز کم از کم ظاہری حیثیت سے ایک معیارِ خاص پر قائم رکھتے ہیں۔ ان آداب میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی دائیں بائیں نہ مڑے اور نہ سر اُٹھا کر اوپر کی طرف دیکھے (زیادہ سے زیادہ صرف گوشۂ چشم سے اِدھر اُدھر دیکھا جا سکتا ہے۔ حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک نگاہ سجدہ گاہ سے متجاوز نہ ہونی چاہیے، مگر مالکیہ اس بات کے قائل ہیں کہ نگاہ سامنے کی طرف رہی چاہیے)۔ نماز میں ہلنا اور مختلف سمتوں میں جھُکنا بھی ممنوع ہے۔ کپڑوں کو بار بار سمیٹنا، یا ان کو جھاڑنا، یا اُن سے شغل کرنا بھی ممنوع ہے۔ اس بات سے بھی منع کیا گیا ہے کہ سجدے میں جاتے وقت آدمی اپنے بیٹھنے کی جگہ یہ سجدے کی جگہ صاف کرنے کی کوشش کرے۔ تن کر کھڑے ہونا بہت بلند آواز سے کڑک کر قرأت کرنا، یا قرأ ت میں گانا بھی آداب نماز کے خلا ف ہے۔ زور زور سے جمائیاں لینا اور ڈکاریں مارنا بھی نماز میں بے ادبی ہے۔ جلدی جلدی مارا مار نماز پڑھنا بھی سخت ناپسندیدہ ہے۔ حکم یہ ہےکہ نماز کا ہر فعل پوری طرح سکون اور اطمینان سے ادا کیا جائے اور ایک فعل، مثلاً رکوع یا سجود یا قیام یا قعود جب تک مکمل نہ ہو لے دوسرا فعل شروع نہ کیا جائے۔ نماز میں اگر کوئی چیز اذیت دے رہی ہو تو اسے ایک ہاتھ سے دفع کیا جا سکتا ہے، مگر بار بار ہاتھوں کو حرکت دینا، یا دونوں ہاتھوں کو استعمال کر نا ممنوع ہے۔ ان ظاہری آداب کے ساتھ یہ چیز بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ آدمی نماز میں جان بوجھ کر غیر متعلق باتیں سوچنے سے پرہیز کرے۔ بلا ارادہ خیالات ذہن میں آئیں اور آتے رہیں تو یہ نفسِ انسانی کی ایک فطری کمزوری ہے۔ لیکن آدمی کی پوری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ نماز کے وقت اس کا دل خدا کی طرف متوجہ ہو اور جو کچھ وہ زبان سے کہہ رہا ہو وہی دل سے بھی عرض کرے۔ اس دوران میں اگر بے اختیار دوسرے خیالات آ جائیں تو جس وقت بھی آدمی کو اُس کا احساس ہو اُسی وقت اسے اپنی توجہ اُن سے ہٹا کر نماز کی طرف پھیر لینی چاہیے۔
۳۷: اصل میں لفظ غُثَاء استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں وہ کوڑا کرکٹ جو سیلاب کے ساتھ بہتا ہوا آتا ہے اور پھر کناروں پر لگ لگ کر پڑا سڑتا رہتا ہے۔
۳۸: یا بالفاظِ دیگر پیغمبروں کی بات نہیں مانتے۔
۳۹: ’’نشانیوں‘‘ کے بعد ’’کھلی سند‘‘ سے مراد یا تو یہ ہے کہ ان نشانیوں کا اُن کے ساتھ ہونا ہی اس باک کی کھلی سند تھا کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں۔ یا پھر نشانیوں سے مراد عصا کے سوا دوسرے وہ تمام معجزات ہیں جو مصر میں دکھائے گئے تھے، اور کھلی سند سے مراد عصا ہے، کیونکہ اس کے ذریعہ سے جو معجزے رونما ہوئے اُن کے بعد تو یہ بات بالکل ہی واضح ہو گئی تھی کہ یہ دونوں بھائی مامور من اللہ ہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الزخرف حواشی ۴۳ – ۴۴)۔
۴۰: اصل میں وَکَانُوْ ا قَوْمًا عَالِیْنَ کے الفاظ ہیں، جن کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ بڑے گھمنڈی، ظالم اور دراز دست تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ بڑے اُونچے بنے اور انہوں نے بڑی دون کی لی۔
۴۰a: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ نمبر ۲۶۔
۴۱: اصل الفاظ ہیں ’’جن کی قوم ہماری عابد ہے‘‘۔ عربی زبان میں کسی کا ’’مطیع ِ فرمان‘‘ ہونا اور ’’اس کا عبادت گزار‘‘ ہونا، دونوں تقریباً ہم معنی الفاظ ہیں۔ جو کسی کی بندگی و اطاعت کرتا ہے وہ گویا اس کی عبادت کرتا ہے۔ اس سے بڑی اہم روشنی پڑتی ہے لفظ ’’عبادت‘‘ کے معنی پر اور انبیاء علیہم السّلام کی اِس دعوت پر کہ صرف اللہ کی عبادت کرنے اور اس کے سوا ہر ایک کی عباد ت چھوڑ دینے کی تلقین جو وہ کرتے تھے اس کا پورا مفہوم کیا تھا۔ ’’عبادت‘‘ ان کے نزدیک صرف ’’پوجا‘‘ نہ تھی۔ ان کی دعوت یہ نہیں تھی کہ صرف پوجا اللہ کی کرو، باقی بندگی و اطاعت جس کی چاہو کرتے رہو۔ بلکہ وہ انسان کو اللہ کا پرستار بھی بنانا چاہتے تھے اور مطیع فرمان بھی، اور ان دونوں معنوں کے لحاظ سے دوسروں کی عبادت کو غلط ٹھیراتے تھے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الکہف حاشیہ ۵۰)۔
۴۲: قصّۂ موسیٰؑ و فرعون کی تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ، آیات ۴۹ – ۵۰۔ الاعراف، آیات ۱۰۳ تا ۱۳۶۔ یونس آیات ۷۵ تا ۹۶۔ ہُود آیات ۹۶ تا ۹۹۔ بنی اسرائیل آیات ۱۰۱ تا ۱۰۴۔ طٰہٰ آیات ۹ تا ۸۰۔
۴۳: یہ نہیں فرمایا کہ ایک نشانی ابن مریم تھے اور ایک نشانی خود مریم۔ اور یہ بھی نہیں فرمایا کہ ابن مریم اور اس کی ماں کو دو نشانیاں بنایا۔ بلکہ فرمایا یہ کہ وہ دونوں مل کر ایک نشانی بنائے گئے۔ اس کا مطلب اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ باپ کے بغری ابنِ مریمؑ کا پیدا ہونا، اور مرد کی صحبت کے بغیر مریم ؑ کا حاملہ ہونا ہی وہ چیز ہے جو ان دونوں کو ایک نشانی بناتا ہے۔ جو لوگ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش ِ بے پدر کے منکر ہیں وہ ماں اور بیٹے کے ایک آیت ہونے کی کیا توجیہ کریں گے؟ (مزید تفصیل کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، آل عمران، حواشی ۴۴ – ۵۳۔ النساء، حواشی ۱۹۰ – ۲۱۲ – ۲۱۳۔ جلد سوم، مریم، حواشی ۱۵ تا ۲۲۔ الانبیاء، حواشی ۸۹ – ۹۰)۔ یہاں دوباتیں اور بھی قابل توجہ ہیں۔ اوّل یہ کہ حضرت عیسیٰؑ اور ان کی والدۂ ماجدہ کا معاملہ جاہل انسانوں کی ایک دوسری کمزوری کی نشان دہی کرتا ہے۔ اوپر جن انبیاء کا ذکر تھا اُن پر تو ایمن لانے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ تم بشر ہو، بھلا بشر بھی کہیں نبی ہو سکتا ہے۔ مگر حضرت عیسیٰؑ اور ان کی والدہ کے جب لوگ معتقد ہوئے تو پھر ایسے ہوئے کہ انہیں بشریت کے مقام سے اُٹھا کر خدائی کے مرتبے تک پہنچا دیا۔ دوم یہ کہ جن لوگوں نے حضرت عیسیٰؑ کی معجزانہ پیدائش، اور ان کی گہوارے والی تقریر سے اس کے معجزہ ہونے کا کھُلا کھُلا ثبوت دیکھ لینے کے باوجود ایمان لانے سے انکار کیا اور حضرت مریم پر تہمت لگائی اُن کو پھر سزا بھی ایسی دی گئی کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دنیا کے سامنے ایک نمونۂ عبرت بن گئی۔
۴۴: مختلف لوگوں نے اس سے مختلف مقامات مراد لیے ہیں۔ کوئی دمشق کہتا ہے، کوئی الرَّ مْلَہ، کوئی بیت المَقدِس، اور کوئی مصر مسیحی روایات کے مطابق حضرت مریم ؑ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے بعد ان کی حفاظت کے لیے دو مرتبہ وطن چھوڑنے پر مجبور ہوئیں۔ پہلے ہیرودیس بادشاہ کے عہد میں وہ انہیں مصر لے گئیں اور اس کی موت تک وہیں رہیں۔ پھر اَرْخِلاؤس کے عہدِ حکومت میں ان کو گلیل کے شہر ناصرہ میں پناہ لینی پڑی (متی ۲ – ۱۳ تا ۲۳ )۔ اب یہ بات یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی کہ قرآن کا اشارہ کس مقام کی طرف ہے لغت میں رَبْوَہ اس بلند زمین کو کہتے ہیں جو ہموار ہو اور اپنے گرد و پیش کے علاقے سے اُونچی ہو۔ ذاتِ قرار سے مراد یہ ہے کہ اس جگہ ضرورت کی سب چیزیں پائی جاتی ہوں اور رہنے والا وہاں بفراغت زندگی بسر کر سکتا ہو۔ اور مَعیِن سے مراد ہے بہتا ہُوا پانی یا چشمۂ جاری۔
۴۵: پچھلے دو رکوعوں میں متعدد انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد اب یٰٓاَ یّھُا الرُّسُلُ کہہ کہ تمام پیغمبروں کو خطاب کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کہیں یہ سارے پیغمبر یک جا مو جود تھے اور ان سب کو خطاب کر کے یہ مضمون ارشاد فرمایا گیا۔ بلکہ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہر زمانے میں مختلف قوموں اور مختلف ملکوں میں آنے والے انبیاء کی یہی ہدایت کی گئی تھی، اور سب کے سب اختلاف زمانہ و مقام کے باوجود ایک ہی حکم کے مخاطب تھے۔ بعد کی آیت میں چونکہ تمام انبیاء کو ایک اُمّت، ایک جماعت، ا یک گروہ قرار دیا گیا ہے، اس لیے طرزِ بیان یہاں ایسا اختیار کیا گیا کہ نگاہوں کے سامنے ان سب کے ایک گروہ ہونے کا نقشہ کھنچ جائے گا۔ گویا وہ سارے کے سارے ایک جگہ جمع ہیں اور سب کو ایک ہی ہدایت دے جا رہی ہے۔ مگر اس طرزِ کلام کی لطافت اس دَور کے بعض کُند ذہن لوگوں کی سمجھ میں نہ آ سکی اور وہ اس سے نہ نتیجہ نکال بیٹھے کہ یہ خطاب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد آنے والے انبیاء کی طرف ہے اور اس سے حضور ؐ کے بعد بھی سلسلۂ نبوت کے جاری ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ تعجب ہے، جو لوگ زبان و ادب کے ذوقِ لطیف سے اس قدر کورے ہیں وہ قرآن کی تفسیر کرنے کی جرأت کرتے ہیں۔
۴۶: پاک چیزوں سے مراد ایسی چیزیں ہیں جو بجائے خود بھی پاکیزہ ہوں، اور پھر حلال طریقے سے بھی حاصل ہوں۔ طیبات کھانے کی ہدایت کر کے رہبانیت اور دنیا پرستی کے درمیان اسلام کی راہِ اعتدال کی طرف اشارہ کیا گیا۔ مسلمان نہ تو راہب کی طرح اپنے آپ کو پاکیزہ رزق سے محروم کرتا ہے، اور نہ دنیا پرست کی طرح حرام و حلال کی تمیز کے بغیر ہر چیز پر منہ مار دیتا ہے۔ عملِ صالح سے پہلے طیبات کھانے کی ہدایت سے صاف اشارہ اس طرف نکلتا ہے کہ حرام خوری کے ساتھ عملِ صالح کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ صلاح کے لیے شرطِ اوّل یہ ہے کہ آدمی رزقِ حلال کھائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ’’ لوگو، اللہ خود پاک ہے اس لیے پاک ہی چیز کو پسند کرتا ہے‘‘۔ پھر آپؐ نے یہ آیت تلاوت فرمائی اور اس کے بعد فرمایا الرجل یطیل السفر اشعت اغبر و مطعمہ حرام و مشربہ حرام و ملبسہ حرام و غذی بالحرام یمدیدیہ الی السماء یا رب یا رب فانی یستجاب الذالک۔ ’’ایک شخص لمبا سفر کر کے غبار آلود و پراگندہ مُو آتا ہے اور آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر دعائیں مانگتا ہے، یارب، یارب، مگر حال یہ ہوتا ہے کہ روٹی اس کی حرام، کپڑے اس کے حرام، او رجسم اس کا حرام کی روٹیوں سے پلا ہوا۔ اب کس طرح ایسے شخص کی دعا قبول ہو‘‘۔ (مسلم، ترمذی، احمد من حدیث ابی ہریرہ ؓ)۔
۴۷: ’’تمہاری اُمت ایک ہی اُمت ہے‘‘، یعنی تم ایک ہی گروہ کے لوگ ہو۔ ’’امت‘‘ کا لفظ اُس مجموعہ افراد پر بولا جاتا ہے جو کسی اصلِ مشترک پر جمع ہو۔ انبیاء چونکہ اختلافِ زمانہ و مقام کے باوجود ایک عقیدے، ایک دین اور ایک دعوت پر جمع تھے، اس لیے فرمایا گیا کہ ان سب کی ایک ہی اُمّت ہے۔ بعد کا فقرہ خود بتا رہا ہے کہ وہ اصل مشترک کیا تھی جس پر سب انبیاء جمع تھے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو البقرہ، آیات ۱۳۰ تا ۱۳۳ – ۲۱۳۔ آل عمران، ۱۹ – ۲۰ – ۳۳ – ۳۴ – ۶۴ – ۷۹ تا ۸۵۔ النساء، ۱۵۰ تا ۱۵۲۔ الاعراف ۵۹ – ۶۵ – ۷۳ – ۸۵۔ یوسف، ۳۷ تا ۴۰۔ مریم، ۴۹ تا ۵۹۔ الانبیاء، ۷۱ تا ۹۳۔
۴۸: یہ محض بیان واقعہ ہی نہیں ہے بلکہ اُس استدلال کی ایک کڑی بھی ہے جو آغازِ سورہ سے چلا آ رہا ہے۔ دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جب نوح علیہ السّلام سے لے کر حضرت عیسیٰ ؑ تک تمام انبیاء یہی توحید اور عقیدۂ آخرت کی تعلیم دیتے رہے ہیں، تو لا محالہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نوعِ انسانی کا اصل دین یہی اسلام ہے، اور دوسرے تمام مذاہب جو آج پائے جاتے ہیں وہ اسی کی بگڑی ہوئی صورتیں ہیں جو اس کی بعض صداقتوں کو مسخ کر کے اور اس کے اندر بعض من گھڑت باتوں کا اضافہ کر کے بنا لی گئی ہیں۔ اب اگر غلطی پر ہیں تو وہ لوگ ہیں جو اُن مذاہب کے گرویدہ ہو رہے ہیں، نہ کہ وہ جو ان کو چھوڑ کر اصل دین کی طرف بلا رہا ہے۔
۴۹: پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک خلا ہے جسے بھرنے کے بجائے سامع کے تخیل پر چھوڑ دیا گیا ہے، کیونکہ اس کو تقریر کا پس منظر خود بھر رہا ہے۔ پس منظر یہ ہے کہ خدا کا ایک بندہ پانچ چھ سال سے لوگوں کو اصل دین کی طرف بلا رہا ہے، دلائل سے بات سمجھا رہا ہے، تاریخ سے نظیریں پیش کر رہا ہے، اس کی دعوت کے اثرات و نتائج عملاً نگاہوں کے سامنے آرہے ہیں، اور پھر اس کا ذاتی کردار بھی اس امر کی ضمانت دے رہا ہے کہ وہ ایک قابلِ اعتماد آدمی ہے۔ مگر اس کے باوجود لوگ صرف یہی نہیں کہ اُس باطل میں مگن ہیں جو اُن کو باپ دادا سے ورثے میں ملا تھا، اور صرف اِس حد تک بھی نہیں کہ وہ اُس حق کو مان کر نہیں دیتے جو روشن دلائل کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے، بلکہ وہ ہاتھ دھو کر اس داعیِ حق کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور ہٹ دھرمی، طعن، ملامت، ظلم، جھوٹ، غرض کوئی بُری سے بُری تدبیر بھی اس کی دعوت کو نیچا دکھانے کے لیے استعمال کرنے سے نہیں چُوکتے۔ اس صورت حال میں اصل دین حق کو وحدت، اور بعد کے ایجاد کردہ مذاہب کی حقیقت بیان کرنے کے بعد یہ کہنا کہ ’’چھوڑ و انہیں، ڈوبے رہیں اپنی غفلت میں‘‘، خود بخود اس معنی پر دلالت کرتا ہے کہ ’’اچھا، اگر یہ لوگ نہیں مانتے اور اپنی گمراہیوں ہی میں مگن رہنا چاہتے ہیں تو چھوڑ انہیں‘‘۔ اس ’’چھوڑو‘‘ کو بالکل لفظی معنوں میں لے کر یہ سمجھ بیٹھنا کہ ’’اب تبلیغ ہی نہ کرو‘‘، کلام کے تیوروں سے ناآشنائی کا ثبوت ہو گا۔ ایسے مواقع پر یہ بات تبلیغ و تلقین سے روکنے کے لیے نہیں بلکہ غافلوں کو جھنجھوڑنے کے لیے کہی جایا کرتی ہے۔ پھر ’’ایک وقتِ خاص تک‘‘ کے الفاظ میں ایک بڑی گہری تنبیہ ہے جو یہ بتا رہی ہے کہ غفلت کا یہ استغراق زیادہ دیر تک نہیں رہ سکے گا، ایک وقت آنے والا ہے جب یہ چونک پڑیں گے اور انہیں پتہ چل جائے گا کہ بلانے والا جس چیز کی طرف بلا رہا تھا وہ کیا تھی اور یہ جس چیز میں مگن تھے وہ کیسی تھی۔
۵۰: اس مقام پر آغازِ سورہ کی آیتوں پر پھر ایک نگاہ ڈالی لیجیے۔ اُسی مضمون کو اب پھر ایک دوسرے انداز سے دُہرایا جا رہا ہے۔ یہ لوگ ’’فلاح‘‘ اور ’’خیر‘‘ اور ’’خوشحالی‘‘ کا ایک محدود مادّی تصور رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک جس نے اچھا کھانا، اچھا لباس، اچھا گھر پا لیا، جو مال و اولاد سے نوازا گیا، اور جسے معاشرے میں نام و نمود اور رسُوخ و اثر حاصل ہو گیا، اس نے بس فلاح پائی۔ اور جو اس سے محروم رہ گیا وہ ناکام و نامراد رہا۔ اس بنیادی غلط فہمی سے وہ پھر ایک اور اس سے بھی زیادہ بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے، اور وہ یہ تھی کہ جسے اس معنی میں فلاح نصیب ہے وہ ضرور راہِ راست پر ہے، بلکہ خدا کا محبوب ہے، ورنہ کیسے ممکن تھا کہ اسے یہ کامیابیاں حاصل ہوتیں۔ اور اس کے برعکس جو اس فلاح سے ہم کو علانیہ محروم نظر آ رہا ہے وہ یقیناً عقیدے اور عمل میں گمراہ اور خدا (یا خداؤں) کے غضب میں گرفتار ہے۔ اس غلط فہمی کو،جو در حقیقت مادّہ پرستانہ نقطۂ نظر رکھنے والوں کی ضلالت کے اہم ترین اسباب میں سے ہے، قرآن میں جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے، مختلف طریقوں سے اس کی تردید کی گئی ہے، اور طرح طرح سے یہ بتایا گیا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے (مثال کے طور پر ملاحظہ ہو البقرہ، آیت ۱۲۶، ۲۱۲۔ الاعراف ۳۲۔ التوبہ ۵۵ – ۶۹ – ۸۵۔ یونس ۱۷۔ ہُود ۳ – ۲۷ تا ۳۱ – ۳۹۔ الرعد ۲۶۔ الکہف ۲۸ – ۳۲ تا ۴۳۔ ۱۰۳ تا ۱۰۵۔ مریم ۷۷ تا ۸۰۔ طٰہٰ، ۱۳۱ تا ۱۳۲۔ الانبیاء ۴۴، مع حواشی)۔ اس سلسلے میں چند اہم حقیقتیں ایسی ہیں کہ جب تک آدمی ان کو اچھی طرح نہ سمجھ لے، اس کا ذہن کبھی صاف نہیں ہو سکتا۔ اوّل یہ کہ ’’انسان کی فلاح‘‘ اِس سے وسیع تر اور بلند تر چیز ہے کہ اسے کسی فرد یا گروہ یا قوم کی محض مادّی خوشحالی اور وقتی کامیابی کے معنی میں لے لیا جائے۔ دوم یہ کہ فلاح کو اس محدود معنی میں لینے کے بعد اگر اسی کو حق و باطل اور خیر و شر کا معیار قرار دے لیا جائے تو یہ ایک ایسی بنیادی گمراہی بن جاتی ہے جس سے نکلے بغیر ایک انسان کبھی عقیدہ و فکر اور اخلاق و سیرت میں راہِ راست پا ہی نہیں سکتا۔ سوم یہ کہ دنیا فی الاصل دار الجزاء نہیں بلکہ دار الامتحان ہے۔ یہاں اخلاقی جزا و سزا اگر ہے بھی تو بہت محدود پیمانے پر اور ناقص صورت میں ہے، اور امتحان کا پہلو خود اس میں بھی موجود ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز کر کے یہ سمجھ لینا کہ یہاں جس کو جو نعمت بھی مِل رہی ہے وہ ’’انعام‘‘ ہے اور اس کا ملنا انعام پانے والے کے برحق اور صالح اور محبوب ِ ربّ ہونے کا ثبوت ہے، اور جس پر جو آفت بھی آ رہی ہے وہ ’’سزا‘‘ ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ سزا پانے والا باطل پر ہے، غیر صالح ہے، اور مغضوبِ بارگاہِ خداوندی ہے، یہ سب کچھ درحقیقت ایک بہت بڑی غلط فہمی بلکہ حماقت ہے جس سے بڑھ کر شاید ہی کوئی دوسری چیز ہمارے تصورِ حق اور معیارِ اخلاق کو بگاڑ دینے والی ہو۔ ایک طالبِ حقیقت کو اوّ ل قدم پر یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں بے شمار مختلف صورتوں سے افراد کا، قوموں کا اور تمام انسانوں کا امتحان ہو رہا ہے۔ اس امتحان کے دوران میں جو مختلف حالات لوگوں کو پیش آتے ہیں وہ جزا و سزا کے آخری فیصلے نہیں ہیں کہ انہی کو نظریات، اخلاق اور اعمال کی صحت اور غلطی کا معیار بنا لیا جائے، اور انہی کو خدا کے ہاں محبوب یا مغضوب ہو نے کی علامات قرار دے لیا جائے۔ چہارم یہ کہ فلاح کا دامن یقیناً حق اور نیکی کے ساتھ بندھا ہوا ہے، اور بلا شک و ریب یہ ایک حقیقت ہے کہ باطل اور بدی کا انجام خساران ہے۔ لیکن اس دنیا میں چونکہ باطل اور بدی کے ساتھ عارضی و نمائشی فلاح، اور اسی طرح حق اور نیکی کے ساتھ ظاہری اور وقتی خسران ممکن ہے، اور اکثر و بیشتر یہ چیز دھوکہ دینے والی ثابت ہوتی ہے، اس لیے حق و باطل اور خیر و شر کی جانچ کے لیے ایک مستقل کسوٹی کی ضرورت ہے جس میں دھوکے کا خطرہ نہ ہو۔ انبیاء علیہم السّلام کی تعلیمات اور آسمانی کتابیں ہم کو وہ کسوٹی بہم پہنچاتی ہیں، انسانی عقلِ عام(genocide) اس کی صحت کی تصدیق کرتی ہے اور معروف و منکر کے متعلق نوعِ انسانی کے مشترک وجدانی تصوّرات اُس پر گواہی دیتے ہیں۔ پنجم یہ کہ جب کوئی شخص یا قوم ایک طرف تو حق سے منحرف اور فسق و فجور اور ظلم و طغیان میں مبتلا ہو، اور دوسری طرف اس پر نعمتوں کی بارش ہو رہی ہو، تو عقل اور قرآن دونوں کی رُو سے یہ اس بات کی کھلی علامت ہے کہ خدا نے اس کو شدید تر آزمائش میں ڈال دیا ہے اور اس پر خدا کی رحمت نہیں بلکہ اس کا غضب مسلط ہو گیا ہے۔ اسے غلطی پر چوٹ لگتی تو اس کے معنی یہ ہوتے کہ خدا ابھی اس پر مہربان ہے، اسے تنبیہ کر رہا ہے اور سنبھلنے کا موقع دے رہا ہے۔ لیکن غلطی پر ’’انعام‘‘ یہ معنی رکھتا ہے کہ اسے سخت سزا دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس کی کشتی اس لیے تیر رہی ہے کہ خوب بھر کر ڈوبے۔ اس کے بر عکس جہاں ایک طرف سچی خدا پرستی ہو، اخلاق کی پاکیزگی ہو، معاملات میں راستبازی ہو، خلقِ خدا کے ساتھ حسنِ سلوک اور رحمت و شفقت ہو، اور دوسری طرف مصائب اور شدائد اس پر موسال دھار برس رہے ہوں اور چوٹوں پر چوٹیں اسے لگ رہی ہوں، تو یہ خدا کے غضب کی نہیں اس کی رحمت ہی کی علامت ہے۔ سُنا ر اس سونے کو تپا رہا ہے تا کہ خوب نِکھر جائے اور دنیا پر اس کا کامل العیار ہونا ثابت ہو جائے۔ دینا کے بازار میں اس کی قیمت نہ بھی اُٹھے تو پروا نہیں۔ سنار خود اس کی قیمت دے گا، بلکہ اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا۔ اس کے مصائب اگر غضب کا پہلو رکھتے ہیں تو خود اس کے لیے نہیں بلکہ اس کے دشمنوں ہی کے لیے رکھتے ہیں، یا پھر اس سوسائیٹی کے لیے جس میں صالحین ستائے جائیں اور فساق نواز ے جائیں۔
۵۰a: اردو زبان کی رعایت سے ہم نے آیت ۶۱ کا ترجمہ پہلے کر دیا ہے اور آیت ۵۷ تا ۶۰ کا ترجمہ بعد میں کیا ہے۔ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ آیت ۶۱ کا ترجمہ چھوٹ گیا ہے۔
۵۱: یعنی وہ دنیا میں خدا سے بے خوف اور بے خوف اور بے فکر ہو کر نہیں رہتے کہ جو دل چاہے کرتے رہیں اور کبھی نہ سوچیں کہ اوپر کوئی خدا بھی ہے جو ظلم اور زیادتی پر پکڑنے والا ہے، بلکہ ان کے دل میں ہر وقت اس کا خوف رہتا ہے اور وہی انہیں برائیوں سے روکتا رہتا ہے۔
۵۲: آیات سے مراد دونوں طرح کی آیات ہیں، وہ بھی جو خدا کی طرف سے اس کے انبیاء پیش کرتے ہیں، اور وہ بھی جو انسان کے اپنے نفس میں اور ہر طرف آفاق میں پھیلی ہوئی ہیں۔ آیاتِ کتاب پر ایمان لانا اُن کی تصدیق کر نا ہے، اور آیاتِ آفاق و اَنْفُس پر ایمان لانا اُن حقیقتوں پر ایمان لانا ہے جن پر وہ دلالت کر رہی ہیں۔
۵۳: اگرچہ آیات پر ایمان سے خود ہی یہ لازم آتا ہے کہ انسان توحید کا قائل و معتقد ہو، لیکن اس کے باوجود شرک نہ کرنے کا ذکر الگ اس لیے کیا گیا ہے کہ بسا اوقات انسان آیات کو مان کر بھی کسی نہ کسی طور کے شرک میں مبتلا رہتا ہے۔ مثلاً ریا، کہ وہ بھی ایک طرح کا مشرک ہے۔ یا انبیاء اور اولیاء کی تعلیم میں ایسا مبالغہ جو شرک تک پہنچا دے۔ یا غیراللہ سے دُعا اور استعانت۔ یا برضا و رغبت اربابٌ مِن دُون اللہ کی بندگی و اطاعت اور غیر الہٰی قوانین کا اتباع۔ پس ایمان بآیات اللہ کے بعد شرک کی نفی کا الگ ذکر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے لیے اپنی بندگی، اطاعت، اور عبودیت کو بالکل خالص کر لیتے ہیں، اس کے ساتھ کسی اور کی بندگی کا شائبہ تک لگا نہیں رکھتے۔
۵۴: عربی زبان میں ’’دینے‘‘ (ایتاء) کا لفظ صرف مال یا کوئی مادی چیز دینے ہی کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا بلکہ معنوی چیزیں دینے کے معنی میں بھی بولا جا تا ہے۔ مثلاً کسی شخص کی اطاعت قبول کر لینے کے لیے کہتے ہیں کہ اٰتیتہٗ من نفسی القبول کسی شخص کی اطاعت سے انکار کر دینے لیے کہتے ہیں اٰتیتہ من نفسی الابا ئۃ۔ پس اِس دینے کا مطلب صرف یہی نہیں ہے کہ وہ راہِ خدا میں مال دیتے ہیں، بلکہ اس کا مطلب اللہ کے حضور طاعت و بندگی پیش کرنے پر بھی حاوی ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے آیت کا پورا مفہوم یہ ہوا کہ وہ اللہ کی فرمانبرداری میں جو کچھ بھی نیکیاں کرتے ہیں، جو کچھ بھی خدمات انجام دیتے ہیں، جو کچھ بھی قربانیاں کرتے ہیں، ان پر وہ پھُولتے نہیں ہیں، غرورِ تقویٰ اور پندارِ خدا رسیدگی میں مبتلا نہیں ہوتے، بلکہ اپنے مقدور بھر سب کچھ کر کے بھی ڈرتے رہتے ہیں کہ خدا جانے یہ قبول ہو یا نہ ہو، ہمارے گناہوں کے مقابلے میں وزنی ثابت ہو یا نہ ہو، ہمارے ربّ کے ہاں ہماری مغفرت کے لیے کافی ہو یا نہ ہو۔ یہی مطلب ہےجس پر وہ حدیث روشنی ڈالتی ہے جو احمد، ترمذی، ابن ماجہ، حاکم اور ابن جریر نے نقل کی ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا ’’یا رسول اللہ! کیا اس کا مطلب یہی ہے کہ ایک شخص چوری اور زنا اور شراب نوشی کرتے ہوئے اللہ سے ڈرے‘‘ ؟ اس سوال سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ اسے یَاْ تُوْ نَ مَا اَتَوْ کے معنی میں لے رہی تھیں، یعنی ’’کرتے ہیں جو کچھ کرتے ہیں‘‘۔ جواب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لا یا بنت الصدیق ولٰکنہ الذی یصلی و یصوم و یتصدق و ھو یخاف اللہ عزّو جلّ، ’’نہیں، اے صدیق کی بیٹی، اس سے مراد وہ شخص ہے جو نماز پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے، زکوٰۃ دیتا ہے اور پھر اللہ عزّ و جلّ سے ڈرتا رہتا ہے۔‘‘ اس جواب سے پتہ چلا کہ آیت کی صحیح قرأت یَاْتُوْنَ نہیں بلکہ یُؤْ تُوْنَ ہے، اور یہ یُؤْ تُوْنَ صرف مال دینے کے محدود معنی میں نہیں ہے بلکہ طاعت بجا لانے کے وسیع معنی میں ہے۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ ایک مومن کسی قلبی کیفیت کے ساتھ اللہ کی بندگی کرتا ہے۔ اس کی مکمل تصویر حضرت عمر ؓ کی وہ حالت ہے کہ عمر بھر کی بے نظیر خدمات کے بعد جب دنیا سے رخصت ہونے لگتے ہیں تو خدا کے محاسبے سے ڈرتے ہوئے جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر آخرت میں برابر سرابر بھی چھوٹ جاؤں تو غنیمت ہے۔ حضرت حسن بصریؒ نے خوب کہا ہے کہ مومن طاعت کرتا ہے پھر بھی ڈرتا رہتا ہے، اور منافق معصیت کرتا ہے پھر بھی بے خوف رہتا ہے۔
۵۴a: واضح رہے کہ آیت ۶۱ کا ترجمہ آیات ۵۷ سے پہلے کیا جا چکا ہے۔ یہاں سے آیت ۶۲ کا ترجمہ شروع ہوتا ہے۔
۵۵: اس سیاق و سباق میں یہ فقرہ اپنے اندر بڑی گہری معنویت رکھتا ہے جسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پچھلی آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ بھلائیاں لوٹنے والے اور سبقت کر کے انہیں پا لینے والے دراصل کون لوگ ہیں اور ان کی صفات کیا ہیں۔ اس مضمون کے بعد فوراً ہی یہ فرمایا کہ ہم کسی کو اس کی مقدرت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے، یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ سیرت، یہ اخلاق اور یہ کردار کوئی فوق البشری چیز نہیں ہے۔ تم ہی جیسے گوشت پوست کے انسان اس روش پر چل کر دکھا رہے ہیں۔ لہٰذا تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم سے کسی ایسی چیز کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جو انسانی مقدرت سے باہر ہے۔ انسان کو تو مقدرت اُس رویّے کی بھی حاصل ہے جس پر تم چل رہے ہو، اور اُس کی بھی حاصل ہے جس پر تمہاری اپنی قوم کے چند اہلِ ایمان چل رہے ہیں۔ اب فیصلہ جس چیز پر ہے وہ صرف یہ ہے کہ ان دونوں امکانی رویّوں میں سے کون کس کا انتخاب کرتا ہے۔ اس انتخاب میں غلطی کر کے اگر آج تم اپنی ساری محنتیں اور کوششیں برائیاں سمیٹنے میں صرف کر دیتے ہو اور بھلائیوں سے محروم رہ جاتے ہو، تو کل اپنی اس حماقت کا خمیازہ بھگتنے سے تم کو یہ جھوٹی معذرت نہیں بچا سکے گی کہ بھلائیوں تک پہنچنے کا راستہ ہماری مقدرت سے باہر تھا۔ اُس وقت یہ عذر پیش کرو گے تو تم سے پوچھا جائے گا کہ اگر یہ راستہ انسانی مقدرت سے باہر تھا تو تم ہی جیسے بہت سے انسان اس پر چلنے میں کیسے کامیاب ہو گئے۔
۵۶: کتاب سے مراد ہے نامۂ اعمال جو ہر ایک شخص کا الگ الگ مرتب ہو رہا ہے، جس میں اُس کی ایک ایک بات، ایک ایک حرکت، خنٰی کہ خیالات اور ارادوں تک کی ایک ایک حالت ثبت کی جا رہی ہے۔ اسی کے متعلق سورۂ کہف میں فرمایا گیا ہے کہ وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَ ی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا لْکِتٰبِ لَا یُغَادِ رُ صَغِیْرَ ۃً وَّلَا کَبِیْرَ ۃً اِلَّآ اَحْصٰھَا ج وَوَ جَدُوْا مَا عَمِلُوْ ا حَاضِرًا ط وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا o ’’اور نامۂ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا، پھر تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اُس کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی، یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی یا بڑی حرکت ایسی نہیں رہ گئی جو اس میں درج نہ ہو۔ جو جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے، اور تیرا ربّ کسی پر ظلم کرنے والا نہیں ہے ‘‘۔ (آیت ۴۹)۔ بعض لوگوں نے یہاں کتاب سے مراد قرآن لے کر آیت کا مطلب خبط کر دیا ہے۔
۵۷: یعنی نہ تو کسی کے ذمے کوئی ایسا الزام تھوپا جائے گا جس کا وہ در حقیقت قصور وار نہ ہو، نہ کسی کی کوئی ایسی نیکی ماری جائے گی جس کے صلے کا وہ فی الواقع مستحق ہو، نہ کسی کو بے جا سزا دی جائے گی اور نہ کسی کو حق کے مطابق بجا انعام سے محروم رکھا جائے گا۔
۵۸: یعنی اس امر سے کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں، کہہ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں، یہ سب کچھ کہیں درج ہو رہا ہے اور کبھی اس کا حساب ہونے والا ہے۔
۵۹: ’’عیّاش‘‘ یہاں ’’مُتْرَ فِیْنَ‘‘ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ’’مترفین‘‘ اصل میں اُن لوگوں کو کہتے ہیں جو دُنیوی مال و دولت کو پاکر مزے کر رہے ہوں اور خدا و خلق کے حقوق سے غافل ہوں۔ اس لفظ کا صحیح مفہوم لفظ عیّاش سے ادا ہو جاتا ہے، بشرطیکہ اسے صرف شہوت رانی کے معنی میں نہ لیا جائے بلکہ عیش کوشی کے وسیع تر معنوں میں لیا جائے۔ عذاب سے مراد یہاں غالباً آخرت کا عذاب نہیں ہے بلکہ دنیا کا عذاب ہے جو اِسی زندگی میں ظالموں کو دیکھنا پڑے۔
۶۰: ’’اصل میں لفظ ’’جُؤَار‘‘ استعمال کیا گیا ہے جو بیل کی اُس آواز کو کہتے ہیں جو سخت تکلیف کے وقت وہ نکالتا ہے۔ یہ لفظ یہاں محض فریاد وہ فغاں کے معنی میں نہیں بلکہ اُس شخص کی فریاد و فغاں کے معنی میں بولا گیا ہے جو کسی رحم کا مستحق نہ ہو۔ اس میں تحقیر اور طنز کا انداز چھپا ہو ا ہے۔ اس کے اندر یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ ’’اچھا‘‘، اب جو اپنے کرتُوتوں کا مزا چکھنے کی نوبت آئی تو بلبلانے لگے۔‘‘
۶۱: یعنی اُس وقت ان سے یہ کہا جائے گا۔
۶۲: یعنی اس کی بات سننا تک تمہیں گوارا نہ تھا۔ یہ تک برداشت نہ کرتے تھے کہ اس کی آواز کان میں پڑے۔
۶۳: اصل میں لفظ ’’سٰمِرًا‘‘ استعمال کیا گیا ہے۔ سمر کے معنی ہیں رات کے وقت بات چیت کرنا۔ گپیں ہانکنا، قصّے کہانیاں کہنا۔ دیہاتی اور قصباتی زندگی میں یہ راتوں کی گپیں عموماً چوپالوں میں ہوا کرتی ہیں۔ اور یہی اہلِ مکّہ کا بھی دستور تھا۔
۶۴: یعنی کیا ان کے اس رویے کی وجہ یہ ہے کہ اس کلام کو انہوں نے سمجھا ہی نہیں اس لیے وہ اسے نہیں مانتے؟ ظاہر ہے کہ یہ وجہ نہیں ہے۔ قرآن کوئی چیستان نہیں ہے، کیس ناقابلِ فہم زبان میں نہیں ہے۔ کسی ایسے مضمون اور موضوع ِ کلام پر مشتمل نہیں ہے جو آدمی کی سمجھ سے بالاتر ہو۔ وہ اس کی ایک ایک بات اچھی طرح سمجھتے ہیں اور مخالفت اس لیے کرتے ہیں کہ جو کچھ وہ پیش کر رہا ہے اسے نہیں ماننا چاہتے، نہ اس لیے کہ انہوں نے سمجھنے کی کوشش کی اور سمجھ میں نہ آیا۔
۶۵: یعنی کیا کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک نرالی بات پیش کر رہا ہے جس سے انسانی کان کبھی آشنا ہی نہ ہوئے تھے؟ ظاہر ہے کہ یہ وجہ بھی نہیں ہے۔ خدا کی طرف سے انبیاء کا آنا، کتابیں لے کر آنا، توحید کی دعوت دینا، آخرت کی باز پرس سے ڈرانا، اور اخلاق کی معروف بھلائیاں پیش کرنا، اِن میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے جو تاریخ میں آج پہلی مرتبہ رونما ہوئی ہو، اور اس سے پہلے کبھی اس کا ذکر نہ سُنا گیا ہو۔ ان کے گردو پیش عراق، شام اور مصر میں انبیاء پر انبیاء آئے ہیں جنہوں نے یہی باتیں پیش کی ہیں اور یہ لوگ اس سے ناواقف نہیں ہیں۔ خود ان کی اپنی سرزمین میں ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام آئے، ہُود اور صالح اور شعیب علیہم السلام آئے، ان کے نام آج تک ان کی زبانوں پر ہیں، ان کو یہ خود فرستادۂ الہٰی مانتے ہیں، اور ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ وہ مشرک نہ تھے بلکہ خدائے واحد کی بندگی سکھاتے تھے۔ اس لیے در حقیقت اِن کے انکار کی یہ وجہ بھی نہیں ہے کہ ایک بالکل ہی انوکھی بات سُن رہے ہیں جو کبھی نہ سُنی گئی تھی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الفرقان، حاشیہ نمبر ۸۴، السجدہ حاشیہ نمبر ۵، سباء، حاشیہ نمبر ۳۵)۔
۶۶: یعنی کیا ان کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ ایک بالکل اجنبی آدمی جس سے یہ کبھی کے واقف نہ تھے، اچانک ان کے درمیان آ کھڑا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے مان لو۔ ظاہر ہے کہ یہ بات بھی نہیں ہے۔ جو شخص یہ دعوت پیش کر رہا ہے وہ ان کی اپنی برادری کا آدمی ہے۔ ا س کی نسبی شرافت ان سے مخفی نہیں۔ اس کی ذاتی زندگی ان سے چھپی ہوئی نہیں۔ بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کی سرحد تک وہ ان کے سامنے پہنچا ہے۔ اس کی صداقت سے، اس کی راستبازی سے، اس کی امانت سے، اس کی بے داغ سیرت سے یہ خوب واقف ہیں۔ اس کو خود امین کہتے رہے ہیں۔ اس کی دیانت پر ان کی ساری برادری بھروسہ کرتی رہی ہے۔ ا س کے بدترین دشمن تک یہ مانتے ہیں کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتا ہے۔ اس کی پوری جوانی عفت اور پاکدامنی کے ساتھ گزری ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ وہ نہایت شریف اور نہایت نیک آدمی ہے۔ حلیم ہے، حق پسند ہے۔ امن پسند ہے۔ جھگڑوں سے کنارہ کش ہے۔ معاملے میں کھرا ہے۔ قول و قرار کا پکا ہے۔ ظلم نہ خود کرتا ہے نہ ظالموں کا ساتھ دیتا ہے۔ کسی حق دار کا حق ادا کرنے میں اُس نے کبھی کوتاہی نہیں کی ہے۔ ہر مصیبت زدہ، بے کس، حاجت مند کے لیے اس کا دروازہ ایک رحیم و شفیق ہمدرد کا دروازہ ہے۔ پھر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ نبوّت کے دعوے سے ایک دن پہلے تک بھی کسی نے اس کی زبان سے کوئی ایسی بات نہ سنی تھی جس سے یہ شبہہ کیا جا سکتا ہو کہ کسی دعوے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اور جس روز اس نے دعویٰ کیا اس کے بعد سے آ ج تک وہ ایک ہی بات کہتا رہا ہے۔ کوئی پلٹی اُس نے نہیں کھائی ہے۔ کوئی رد و بدل اپنے دعوے اور دعوت میں اس نے نہیں کیا ہے۔ کوئی تدریجی ارتقاء اس کے دعووں میں نظر نہیں آتا کہ کوئی یہ گمان کر سکے کہ آہستہ آہستہ قدم جما جما کر دعووں کی وادی میں پیش قدمی کی جا رہی ہے۔ پھر اس کی زندگی اس بات پر بھی گواہ ہے کہ جو کچھ اس نے دوسروں سے کہا ہے وہ پہلے خود کر کے دکھایا ہے۔ اس کے قول اور عمل میں تضاد نہیں ہے۔ ا س کے پاس ہاتھی کے دانت نہیں ہیں کہ دکھانے کے اور ہوں اور چبانے کے اور۔ وہ دینے کے باٹ الگ اور لینے کے باٹ الگ نہیں رکھتا۔ ایسے جانے بوجھے اور جانچے پرکھے آدمی کے متعلق وہ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ’’صاحب دودھ کاجلا چھاچھ کو پھونک پھونک کر پیتا ہے، بڑے بڑے فریبی آتے ہیں اور دل موہ لینے والی باتیں کر کے اوّل اوّل اعتبار جما لیتے ہیں، بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ سب محض چکمہ ہی چکمہ تھا، یہ صاحب بھی یا خبر اصل میں کیا ہوں اور بناوٹ کا ملمع اترنے کے بعد کیا کچھ ان کے اندر سے نِکل آئے، ا س لیے ان کومانتے ہوئے ہمارا تو ماتھا ٹھنکتا ہے‘‘۔ (اس سلسلے میں مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، الانعام، حاشیہ نمبر ۲۱۔ یونس، حاشیہ نمبر ۲۱، بنی اسرائیل، حاشیہ نمبر ۱۰۵)۔
۶۷: یعنی کیا اِن کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ واقعی وہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مجنون سمجھتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ یہ ابھی اصل وجہ نہیں ہے، کیونکہ زبان سے چاہے وہ کچھ ہی کہتے رہیں، دلوں میں تو اُن کی دانائی وزیر کی کے قائل ہیں۔ علاوہ بریں ایک پاگل اور ایک ہوشمند آدمی کا فرق کوئی ایسا چھپا ہوا تو نہیں ہوتا کہ دونوں میں تمیز کرنا مشکل ہو۔ آخر ایک ہٹ دھرم، اور بے حیا آدمی کے سوا کون اِس کلام کو سُن کر یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ کسی دیوانے کا کلام ہے، اور اس شخص کی زندگی کو دیکھ کر یہ رائے ظاہر کر سکتا ہے کہ یہ کسی مخبوط الحواس آدمی کی زندگی ہے؟ بڑا ہی عجیب ہے وہ جنون (یا مستشرقینِ مغرب کی بکواس کے مطابق مرگی کا دَورہ) جس میں آدمی کو زبان سے قرآن جیسا کلام نکلے اور جس میں آدمی ایک تحریک کی ایسی کامیاب راہ نمائی کر ے کہ اپنے ہی ملک کی نہیں، دنیا بھر کی قسمت بدل ڈالے۔
۶۸: اس مختصر سے جملے میں ایک بڑی بات کہی گئی ہے جسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دنیا میں نادان لوگوں کی بالعموم یہ روش ہوتی ہے کہ جو شخص ان سے حق بات کہتا ہے وہ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ گویا اِن کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بات وہ کہی جائے جو ان کی خواہش کے مطابق ہو، نہ کہ وہ جو حقیقت اور واقعہ کے مطابق ہو۔ حالانکہ حقیقت بہر حال حقیقت ہی رہتی ہے خواہ وہ کسی کو پسند ہو یا نا پسند۔ تمام دنیا کی متفقہ خواہش بھی کسی واقعہ کو غیر واقعہ اور کسی امرِ حق کو غیر حق نہیں بنا سکتی، کجا کہ حقائق اور واقعات ایک ایک شخص کی خواہشات کے مطابق ڈھیلا کریں اور ہرآن بے شمار متضاد خواہشوں سے ہم آہنگ ہوتے رہیں۔ حماقت مآب ذہن کبھی یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ حقیقت اور ان کی خواہش کے درمیان اگر اختلاف ہے تو یہ قصور حقیقت کا نہیں بلکہ ان کے اپنے نفس کا ہے۔ وہ اس کی مخالفت کر کے اس کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، اپنا ہی کچھ بگاڑ لیں گے۔ کائنات کا یہ عظیم الشان نظام جن اٹل حقائق اور قوانین پر مبنی ہے ان کے زیرِ سایہ رہتے ہوئے انسان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ اپنے خیالات، خواہشات اور طرزِ عمل کو حقیقت کے مطابق بنائے، اور اس غرض کے لیے ہر وقت دلیل، تجربے اور مشاہدے سے یہ جاننے کی کوشش کرتا رہے کہ حقیقت نفس الامری کیا ہے۔ صرف ایک بے وقوف ہی یہاں یہ طرزِ عمل اختیار کر سکتا ہے کہ جو کچھ وہ سمجھ بیٹھا ہے، یا جو کچھ اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ، یا جو کچھ اپنے تعصبات کی بنا پر وہ فرض کر چکا ہے کہ ہے یا ہونا چاہیے، اُس پر جم کر رہ جائے اور اس کے خلاف کسی کی مضبوط سے مضبوط اور معقول سے معقول دلیل کو بھی سننا گوارا نہ کرے۔
۶۹: یہاں لفظ ذکر کے تین معنی ممکن ہیں اور تینوں ہی صحیح بیٹھتے ہیں: (۱) ذکر بمعنی بیانِ فطرت۔ اس لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم کسی دوسرے عالَم کی باتیں نہیں کر رہے ہیں بلکہ ان کی اپنی ہی حقیقت اور فطرت اور اس کے مقتضیات ان کے سامنے پیش کر رہے ہیں، تا کہ وہ اپنے اِس بھُولے ہوئے سبق کو یاد کریں، مگر وہ اسے قبول کرنے سے کترا رہے ہیں۔ ان کا یہ فرار کسی غیر متعلق چیز سے نہیں بلکہ اپنے ہی ذکر سے ہے۔ (۲) ذکر بمعنیٰ نصیحت۔ اس کی رُو سے آیت کی تفسیر یہ ہو گی کہ جو کچھ پیش کیا جا رہا ہے یہ انہی کے بھلے کے لیے ایک نصیحت ہے، اور ان کا یہ فرار کسی اور چیز سے نہیں اپنی ہی بھلائی کی بات سے ہے۔ (۳) ذکر بمعنیٰ شرف و اعزاز۔ اِس معنی کو اختیار کیا جائے تو آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ ہم وہ چیز ان کے پاس لائے ہیں ج سے یہ قبول کریں تو انہی کو عزت اور سرفرازی نصیب ہو گی۔ اس سے ان کی یہ روگردانی کسی اَور چیز سے نہیں، اپنی ہی ترقی اور اپنے ہی اُٹھان کے ایک زرین موقع سے روگردانی ہے۔
۷۰: یہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نبوت کے حق میں ایک اور دلیل ہے۔ یعنی یہ کہ آپ اپنے اس کام میں بالکل بے لوث ہیں۔ کوئی شخص ایمانداری کے ساتھ یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ آپ یہ سارے پاپڑ اس لیے بیل رہے ہیں کہ کوئی نفسانی غرض آپ کے پیشِ نظر ہے۔ اچھی خاصی تجارت چمک رہی تھی، اب افلاس میں مبتلا ہو گئے۔ قوم میں عزت کے ساتھ دیکھے جاتے تھے۔ ہر شخص ہاتھوں ہاتھ لیتا تھا۔ اب گالیاں اور پتھر کھا رہے ہیں، بلکہ جان تک کے لالے پڑے ہیں۔ چین سے اپنے بیوی بچوں میں ہنسی خوشی دن گزار رہے تھے۔ اب ایک ایسی سخت کشمکش میں پڑ گئے ہیں جو کسی دم قرار نہیں لینے دیتی۔ اس پر مزید یہ کہ بات وہ لے کر اُٹھے ہیں جس کی بدولت سارا ملک دشمن ہو گیا ہے، حتیٰ کہ خود اپنے ہی بھائی بند خون کے پیاسے ہو رہے ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک خود غرض آدمی کے کرنے کا کام ہے؟ خود غرض آدمی اپنی قوم اور قبیلے کے تعصبات کا عَلَم بردار بن کر اپنی قابلیت اور جوڑ توڑ سے سرداری حاصل کرنے کی کوشش کرتا، نہ کہ وہ بات لے کر اُٹھتا جو صرف یہی نہیں کہ تمام قومی تعصبات کے خلاف ایک چیلنج ہے، بلکہ سرے سے اُس چیز کی جڑ ہی کاٹ دیتی ہے جس پر مشرکینِ عرب میں اس کے قبیلے کی چودھراہٹ قائم ہے۔ یہ وہ دلیل ہے جس کو قرآن میں نہ صرف نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی، بلکہ بالعموم تمام انبیاء علیہم السّلام کی صداقت کے ثبوت میں بار بار پیش کیا گیا ہے۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو الانعام، آیت ۹۰۔ یونس ۷۲۔ ہُود، ۲۹ – ۵۱۔ یوسف ۱۰۴۔ الفرقان، ۵۷۔ شعراء، ۱۰۹ – ۱۲۷ – ۱۴۵ – ۱۶۴ – ۱۸۰۔ سباء، ۴۷۔ یٰسین، ۲۱۔ ص، ۸۶۔ الشوریٰ، ۲۳۔ النجم ۴۰ مع حواشی۔
۷۱: یعنی آخرت کے انکار نے ان کو غیر ذمہ دار، اور احساس ذمہ داری کے فقدان نے ان کو بے فکر بنا کر رکھ دیا ہے۔ جب وہ سرے سے یہی نہیں سمجھتے کہ ان کی اس زندگی کا کوئی مآل اور نتیجہ بھی ہے اور کسی کے سامنے اپنے اس پورے کارنامۂ حیات کا حساب بھی دینا ہے، تو پھر انہیں اس کی کیا فکر ہو سکتی ہے کہ حق کیا ہے اور باطل کیا۔ جانوروں کی طرح ان کی بھی غایتِ مقصود بس یہ ہے کہ ضروریات ِ نفس و جسم خوب اچھی طرح پوری ہوتی رہیں۔ یہ مقصود حاصل ہو تو پھر حق و باطل کی بحث ان کے لیے محض لا یعنی ہے۔ اور اس مقصد کے حصول میں کوئی خرابی رونما ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ وہ جو کچھ سوچیں گے وہ صرف یہ کہ اُس خرابی کا سبب کیا ہے اور اسے کس طرح دُور کیا جا سکتا ہے۔ راہِ راست اس ذہنیت کے لوگ نہ چاہ سکتے ہیں نہ پا سکتے ہیں۔
۷۲: اشارہ ہے اُس تکلیف و مصیبت کی طرف جس میں وہ قحط کی بدولت پڑے ہوئے تھے۔ اس قحط کے متعلق روایات نقل کرتے ہوئے بعض لوگوں نے دو قحطوں کے قصوں کو خلط ملط کر دیا ہے جس کی وجہ سے آدمی کو یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے یا بعد کا۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دَور میں اہلِ مکہ کو دو مرتبہ قحط سے سابقہ پیش آیا ہے۔ ایک نبوت کے آغاز سے کچھ مدت بعد۔ دوسرا ہجرت کے کئی سال بعد جبکہ ثُمامہ بن اُثال نے یَمامہ سے مکّے کی طرف غلّے کی بر آمد روک دی تھی۔ یہاں ذکر دوسرے قحط کا نہیں بلکہ پہلے قحط کا ہے۔ اس کے متعلق صحیحین میں ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ جب قریش نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت قبول کرنے سے پیہم انکار کیا اور سخت مزاحمت شروع کر دی تو حضور ؐ نے دعا کہ کہ اللھم اعنی علیہم بسبع کسبع یوسف، ’’خدایا، ان کے مقابلے میں میری مدد یوسف کے ہفت سالہ قحط جیسے سات برسوں سے کر‘‘۔ چنانچہ ایسا سخت قحط شروع ہوا کہ مردار تک کھانے کی نوبت آگئی۔ اس قحط کی طرف مکی سورتوں میں بکثرت اشارات ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الانعام، ۴۲ تا ۴۴۔ الاعراف ۹۴ تا ۹۹۔ یُونس، ۱۱ – ۱۲ – ۲۱۔ النحل، ۱۱۲ – ۱۱۳۔ الدخان، ۱۰ تا ۱۶ مع حواشی۔
۷۳: اصل میں لفظ مُبْلِسُوْن استعمال ہوا ہے جس کا پورا مفہوم مایوسی سے ادا نہیں ہوتا۔ بَلَس اور اِبْلَاس کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ حیرت کی وجہ سے دنگ ہو کر رہ جانا۔ خوف اور دہشت کے مارے دم بخود ہو جانا۔ رنج و غم کے مارے دل شکستہ ہو جانا۔ ہر طرف سے نا اُمید ہو کر ہمت توڑ بیٹھنا۔ اور اسی کا ایک پہلو مایوسی و نامرادی کی وجہ سے برافروختہ (Desperate ) ہو جانا بھِ ہے جس کی بنا پر شیطان کا نام ابلیس رکھا گیا ہے۔ اس نام میں یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ یاس اور نامرادی (Frustration ) کی بنا پر اُس کا زخمی تکبّر اس قدر بر انگیختہ ہو گیا ہے کہ اب وہ جان سے ہاتھ دھو کر ہر بازی کھیل جانے اور ہر جرم کا ارتکاب کر گزرنے پر تُلا ہوا ہے۔
۷۴: مطلب یہ ہے کہ بد نصیبو، یہ آنکھ کان اور دل و دماغ تم کو کیا اس لیے دیے گئے تھے کہ ان سے بس و ہ کام لو جو حیوانات لیتے ہیں؟ کیا ان کا صرف یہی مصرف ہے کہ تم جانوروں کی طرح جسم اور نفس کے مطالبات پورے کرنے کے ذرائع ہی تلاش کرتے رہو اور ہر وقت اپنا معیارِ زندگی بلند کرنے کی تدبیریں ہی سوچتے رہا کرو؟ کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی ناشکری ہو سکتی ہے کہ تم بنائے تو گئے تھے انسان اور بن کر رہ گئے نرے حیوان؟ جن آنکھوں سے سب کچھ دیکھا جائے مگر حقیقت کی طرف رہنمائی کرنے والے نشانات ہی نہ دیکھے جائیں، جن کانوں سے سب کچھ سُنا جائے مگر ایک سبق آموز بات ہی نہ سُنی جائے، اور جس دل و دماغ سے سب کچھ سوچا جائے مگر بس یہی نہ سوچا جائے کہ مجھے یہ وجود کیسے ملا ہے، کس لیے ملا ہے اور کیا میری زندگی کی غایت ہے، حیف ہے اگر وہ پھر ایک بیل کے بجائے ایک انسان کے ڈھانچے میں ہوں۔
۷۵: ’’علم کے ذرائع (حواس اور قوتِ فکر) اور اُن کے مصرف ِ صحیح سے انسان کی غفلت پر متنبہ کرنے کے بعد اب اُن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جن کا مشاہدہ اگر کھلی آنکھوں سے کیا جائے اور جن کی نشاندہی سے اگر صحیح طور پر استدلال کیا جائے، یا کھُلے کانوں سے کسی معقول استدلال کو سنا جائے، تو آدمی حق تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ بھی معلوم کر سکتا ہے کہ یہ کارخانۂ ہستی بے خدا، یا بہت سے خداؤں کا ساختہ و پرداختہ نہیں ہے، بلکہ توحید کی اساس پر قائم ہے۔ اور یہ بھی جان سکتا ہے کہ یہ بے مقصد نہیں ہے، نِرا کھیل اور محض ایک بے معنی طلسم نہیں ہے، بلکہ ایک مبنی بر حکمت نظام ہے جس میں انسان جیسی ذی اختیار مخلوق کا غیر جوابدہ ہونا اور بس یونہی مر کر مٹی ہو جانا ممکن نہیں ہے۔
۷۶: واضح رہے کہ یہاں توحید اور حیات بعد الموت، دونوں پر ایک ساتھ استدلال کیا جا رہا ہے، اور آگے تک جن نشانیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اُن سے شرک کے ابطال اور انکارِ آخرت کے ابطال دونوں پر دلیل لائی جا رہی ہے۔
۷۷: خیال رہے کہ اُن کا آخرت کو مستبعد سمجھنا صرف آخرت ہی کا انکار نہ تھا، خدا کی قدرت اور حکمت کا بھی انکار تھا۔
۷۸: یعنی کیوں یہ بات نہیں سمجھتے کہ پھر اس کے سوا کوئی بندگی کا مستحق بھی نہیں ہے، اور اس کے لیے زمین کی اس آبادی کو دوبارہ پیدا کر دینا بھی مشکل نہیں ہے۔
۷۹: اصل میں لفظ لِلہ استعمال ہوا ہے، یعنی ’’یہ سب چیزیں بھی اللہ کی ہیں‘‘۔ ہم نے ترجمے میں محض اُردو زبان کے حُسنِ کلام کی خاطر وہ اسلوب اختیار کیا ہے۔
۸۰: یعنی، پھر کیوں تمہیں اُس سے بغاوت کرتے اور اُس کے سوا دوسروں کی بندگی کرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا؟ اور کیوں تم کو یہ خوف لاحق نہیں ہوتا کہ آسمان و زمین کے فرمانروا نے اگر کبھی ہم سے حساب لیا تو ہم کیا جواب دیں گے؟
۸۱: اصل میں لفظ مَلَکُوْت استعمال ہوا ہے جس میں مُلک (بادشاہی) اور مِلک (مالکیت)، دونوں مفہوم شامل ہیں، اور اس کے ساتھ یہ انتہائی مبالغہ کا صیغہ ہے۔ اس تفصیل کے لحاظ سے آیت کے پیش کر دہ سوال کا پورا مطلب یہ ہے کہ ’’ ہر چیز پر کامل اقتدار کس کا ہے اور ہر چیز پر پورے پورے مالکانہ اختیارات کس کو حاصل ہیں‘‘ ؟
۸۲: اصل الفاظ ہیں اَنّٰی تُسْخَرُوْنَ، جن کا لفظی ترجمہ ہے ’’کہاں سے تم مسحور کیے جاتے ہو‘‘۔ سحر اور جادو کی حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک چیز کو اس کی اصل ماہیت اور صحیح صورت کے خلاف بنا کر دکھاتا ہے اور دیکھنے والے کے ذہن میں یہ غلط تاثر پیدا کرتا ہے کہ اُس شے کی اصلیت وہ ہے جو بناوٹی طور پر ساحر پیش کر رہا ہے۔ پس آیت میں جو سوا ل کیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ کس نے تم پر یہ سحر کر دیا ہے کہ یہ سب باتیں جاننے کے باوجود حقیقت تمہاری سمجھ میں نہیں آتی؟ کس کا جادو تم پر چل گیا ہے کہ جو مالک نہیں ہیں وہ تمہیں مالک یا اس کے شریک نظر آتے ہیں اور جنہیں کوئی اقتدار حاصل نہیں ہے وہ اصل صاحبِ اقتدار کی طرح، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تم کو بندگی کے مستحق محسوس ہوتے ہیں؟ کس نے تمہاری آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے کہ جس خدا کے متعلق خود مانتے ہو کہ اس کے مقابلے میں کوئی پناہ دینے والا نہیں ہے اُس سے غدّاری و بے وفائی کرتے ہو اور پھر بھروسہ اُن کی پناہ پر کر رہے ہو جو اُس سے تم کو نہیں بچا سکتے؟ کس نے تم کو اس دھوکے میں ڈال دیا ہے کہ جو ہر چیز کا مالک ہے وہ تم سے کبھی نہ پوچھے گا کہ تم نے میری چیزوں کو کس طرح استعمال کیا، اور جو ساری کائنات کا بادشاہ ہے وہ کبھی تم سے اس کی باز پرس نہ کرے گا کہ میری بادشاہی میں تم اپنی بادشاہیاں چلانے یا دوسروں کی بادشاہیاں ماننے کے کیسے مجاز ہو گئے؟ سوا ل کی یہ نوعیت اور زیادہ معنی خیز ہو جاتی ہے جب یہ بات پیش نظر رہے کہ قریش کے لوگ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سحر کا الزام رکھتے تھے۔ اس طرح گویا سوال کے انہی الفاظ میں یہ مضمون بھی ادا ہو گیا کہ بیوقوفو! جو شخص تمہیں اصل حقیقت (وہ حقیقت جسے تمہارے اپنے اعترافات کے مطابق حقیقت ہونا چاہیے) بتاتا ہے وہ تو تم کو نظر آتا ہے جادوگر، اور جو لوگ تمہیں رات دن حقیقت کے خلاف باتیں باور کراتے رہتے ہیں، حتیٰ کہ جنہوں نے تم کو صریح عقل اور منطق کے خلاف، تجربے اور مشاہدے کے خلاف، تمہاری اپنی اعتراف کردہ صداقتوں کے خلاف، سراسر جھوٹی اور بے اصل باتوں کا معتقد بنا دیا ہے۔ ا ُن کے بارے میں کبھی تمہیں یہ شبہہ نہیں ہوتا کہ اصل جادوگر تو وہ ہیں۔
۸۳: یعنی اپنے اس قول میں جھوٹے کہ اللہ کے سوا کسی اور کو بھی الوہیت (خدائی کی صفات، اختیارات اور حقوق، یا ان میں سے کوئی حصّہ) حاصل ہے۔ اور اپنے اس قول میں جھوٹے کہ زندگی بعد ِ موت ممکن نہیں ہے۔ اُن کا جھوٹ اُن کے اپنے اعترافات سے ثابت ہے۔ ایک طرف یہ ماننا کہ زمین و آسمان کا مالک اور کائنات کی ہر چیز کا مختار اللہ ہے، اور دوسری طرف یہ کہنا کہ خدائی تنہا اسی ی نہیں ہے بلکہ دوسروں کا بھی ( جولا محالہ اُس کے مملوک ہی ہوں گے) اُس میں کوئی حصّہ ہے، یہ دونوں باتیں صریح طور پر ایک دوسرے سے متناقض ہیں۔ اسی طرح ایک طرف یہ کہنا کہ ہم کو اور اِس عظیم الشان کائنات کو خدا نے پیدا کیا ہے، اور دوسری طرف یہ کہنا کہ خدا اپنی ہی پیدا کردہ مخلوق کو دوبارہ پیدا نہیں کر سکتا، صریحاً خلافِ عقل ہے۔ لہٰذا ان کی اپنی مانی ہوئی صداقتوں سے یہ ثابت ہے کہ شرک اور انکارِ آخرت، دونوں ہی جھوٹے عقیدے ہیں جو انہوں نے اختیار کر رکھے ہیں۔
۸۴: یہاں کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ارشاد محض عیسائیت کی تردید میں ہے۔ نہیں، مشرکین عرب بھی اپنے معبودوں کو خدا کی اولاد قرار دیتے تھے، اور دنیا کے اکثر مشرکین اس گمراہی ہیں ان کے شریک حال رہے ہیں۔ چونکہ عیسائیوں کا عقیدۂ ’’ابن اللہ‘‘ زیادہ مشہور ہو گیا ہے ا س لیے بعض اکابر مفسرین تک کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ یہ آیت اسی کی تردید میں وارد ہوئی ہے۔ حالانکہ ابتدا سے روئے سخن کفارِ مکّہ کی طرف ہے اور آخر تک ساری تقریر کے مخاطب وہی ہیں۔ اس سیاق و سباق میں یکایک عیسائیوں کی طرف کلام کا رُخ پھر جانا بے معنی ہے۔ البتہ ضمناً اس میں اُن تمام لوگوں کے عقائد کی تردید ہو گئی ہے جو خد ا سے اپنے معبودوں یا پیشواؤں کا نسب ملاتے ہیں، خواہ وہ عیسائی ہوں یا مشرکین ِ عرب یا کوئی اور۔
۸۵: یعنی یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ کائنات کی مختلف قوتوں اور مختلف حصوں کے خالق اور مالک الگ الگ خدا ہوتے اور پھر ان کے درمیان ایسا مکمل تعاون ہوتا جیسا کہ تم اس پورے نظامِ عالم کی بے شمار قوتوں اور بے حدو حساب چیزوں میں، اَن گنت تاروں اور سیّاروں میں پا رہے ہو۔ نظام کی باقاعدگی اور اجزائے نظا م کی ہم آہنگی اقتدار کی مرکزیت و وحدت پر خود دلالتت کر رہی ہے۔ اگر اقتدار بٹا ہوا ہو تا تو اصحابِ اقتدار میں اختلاف رونما ہو نا یقیناً ناگزیر تھا۔ اور یہ اختلاف ان کے درمیان جنگ اور تصادم تک پہنچے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ یہی مضمون سورۂ انبیاء میں اس طرح بیان ہوا ہے کہ لَوْ کَانَ فِیْھِمَآ اٰلِھَۃٌ اِلَّا اللہُ لَفَسَدَتَا، (آیت ۲۲) ’’ اگر زمین اور آسمان میں اللہ کے سوا دوسرے خدا بھی ہوتے تو دونوں کا نظام بگڑ جاتا‘‘۔ اور یہی استدلال سُورۂ بنی اسرائیل میں گزر چکا ہے کہ لَوْ کَانَ مَعَہٗ اٰلِھَۃٌ کَمَا یَقُوْلُوْنَ اِذًا لَّا بْتَغَوْ ا اِلٰی ذِی الْعَرْ شِ سَبِیْلًا o(آیت ۴۲) ’’اگر اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہوتے، جیسا کہ یہ لوگ کہتے ہیں، تو ضرور وہ مالکِ عرش کے مقام پر پہنچنے کی کوشش کرتے‘‘۔ ( تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جدل دوم، بنی اسرائیل، حاشیہ نمبر ۴۷۔ جلد سوم، الانبیاء، حاشیہ نمبر ۲۲)۔
۸۶: اس میں ایک لطیف اشارہ ہے اُس خاص قسم کے شرک کی طر ف جس نے پہلے شفاعت کے مشرکانہ عقیدے کی، اور پھر غیر اللہ کے لیے علمِ غیب (علم ما کان و مایکون) کے اثبات کی شکل اختیار کر لی۔ یہ آیت اِس شرک کے دونوں پہلوؤں کی تردید کر دیتی ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، طٰہٰ، حواشی ۸۵ – ۸۶۔ الانبیاء، حاشیہ ۲۷)۔
۸۷: اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کہ معاذاللہ اُس عذاب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبتلا ہو جانے کا فی الواقع کوئی خطرہ تھا، یا یہ کہ اگر آپ یہ دعا مانگتے تو اس میں مبتلا ہو جاتے۔ بلکہ اس طرح کا انداز بیان یہ تصور دلانے کے اختیار کیا گیا ہے کہ خدا کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق چیز۔ وہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا مطالبہ کیا جائے، اور اگر اللہ اپنی رحمت اور اپنے حلم کی وجہ سے اس کے لانے میں دیر کر ے تو اطمینان کے ساتھ شرارتوں اور نافرمانیوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ درحقیقت وہ ایسی خوفناک چیز ہے کہ گناہ گاروں ہی کو نہیں، نیکوکاروں کو بھی اپنی ساری نیکیوں کے باوجود اس سے پناہ مانگنی چاہیے۔ علاوہ بریں اس میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اجتماعی گناہوں کی پاداش میں جب عذاب کی چکّی چلتی ہے تو صرف بُرے لوگ ہی اس میں نہیں پِستے، بلکہ ان کے ساتھ ساتھ بھلے لوگ بھی بسا اوقات لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ لہٰذا ایک گمراہ اور بدکار معاشرے میں رہنے والے ہر نیک آدمی کو ہر وقت خدا کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔ کچھ خبر نہیں کہ کس صورت میں ظالموں پر قہر الہٰی کا کوڑا برسنا شروع ہو جائے اور کون اس کی زد میں آ جائے۔
۸۸: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، الانعام، حواشی ۷۱، ۷۲۔ جلد دوم، الاعراف، حواشی ۱۳۸ – ۱۵۰ تا ۱۵۳۔ یونس، حاشیہ ۳۹۔ الحجر، حاشیہ ۴۸۔ النحل، حواشی ۱۲۲ تا ۱۲۴۔ بنی اسرائیل، حواشی ۵۸ تا ۶۳۔ حٰم السجدہ، حواشی ۳۶ تا ۴۱۔
۸۹: اصل میں رَبِّ ارْجِعُوْنِ کے الفاظ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو خطاب کر کے جمع کے صیغے میں درخواست کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ یہ تعظیم کے لیے ہو، جیسا کہ تمام زبانوں میں طریقہ ہے۔ اور دوسری وجہ بعض لوگوں نے یہ بھی بیان کی ہے کہ یہ لفظ تکرارِ دُعا کا تصوّر دلانے کے لیے ہے، یعنی وہ اِرْجِعْنِیْ اِرْجِعْنِیْ (مجھے واپس بھیج دے، مجھے واپس بھیج دے) کا مفہوم ادا کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض مفسرین نے یہ خیال بھی ظاہر کیا ہے کہ رَبِّ کا خطاب اللہ تعالیٰ سے ہے اور ارْجِعُوْنِ کا خطاب اُن فرشتوں سے جو اس مجرم روح کو گرفتار کر کے لیے جا رہے ہوں گے۔ یعنی بات یوں ہے : ’’ہائے میرے ربّ، مجھ کو واپس کر دو‘‘۔
۹۰: یہ مضمون قرآن مجید میں متعدد مقامات پر آیا ہے کہ مجرمین موت کی سرحد میں داخل ہونے کے وقت سے لے کر آخرت میں واصل بجہنم ہونے تک، بلکہ اس کے بعد بھی، بار بار یہی درخواستیں کرتے رہیں گے کہ ہمیں بس ایک دفعہ دنیا میں اور بھیج دیا جائے، اب ہماری توبہ ہے، اب ہم کبھی نافرمانی نہیں کریں گے، اب ہم سیدھی را ہ چلیں گے (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو الانعام، آیات ۲۷، ۲۸۔ الاعراف، ۵۳۔ ابراہیم، ۴۴، ۴۵۔ المومنون، ۱۰۵ تا ۱۱۵۔ الشعراء، ۱۰۲۔ السجدہ، ۱۲ تا ۱۴۔ فاطر، ۳۷۔ الزمر، ۵۸ – ۵۹۔ المومن، ۱۰ تا ۱۲۔ الشوریٰ، ۴۴۔ مع حواشی)۔
۹۱: یعنی اس کو واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ از سرِ نو عمل کرنے کے لیے کوئی دوسرا موقع اب اسے نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دنیا میں دوبارہ امتحان کے لیے آدمی کو اگر واپس بھیجا جائے تو لا محالہ دو صورتوں میں سے ایک ہی صورت اختیار کرنی ہو گی۔ یا تو اس کے حافظے اور شعور میں وہ سب مشاہدے محفوظ ہوں جو مرنے کے بعد اس نے کیے۔ یا ان سب کو محو کر کے اسے پھر ویسا ہی خالی الذ ہن پیدا کیا جائے جیسا وہ پہلی زندگی میں تھا۔ اول الذکر صورت میں امتحان کا مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اس دنیا میں تو آدمی کا امتحان ہے ہی اس بات کا کہ وہ حقیقت کا مشاہدہ کیے بغیر اپنی عقل سے حق کو پہچان کر اسے مانتا ہے کہ نہیں، اور طاعت و معصیت کی آزادی رکھتے ہوئے ان دونوں راہوں میں سے کس راہ کو انتخاب کرتا ہے۔ اب اگر اسے حقیقت کا مشاہدہ بھی کرا دیا جائے اور معصیت کا انجام عملاً دکھا کر معصیت کے انتخاب کی راہ بھی اس پر بند کر دی جائے تو پھر امتحان گاہ میں اسے بھیجنا فضول ہے۔ ا س کے بعد کون ایمان نہ لائے گا اور کون طاعت سے منہ موڑ سکے گا۔ رہی دوسری صورت، تو یہ آزمودہ را آزمودن کا ہم معنی ہے۔ جو شخص ایک دفعہ اسی امتحان میں ناکام ہوچکا ہے اُسے پھر بعینہٖ ویسا ہی ایک اور امتحان دینے لیے بھیجنا لا حاصل ہے، کیونکہ وہ پھر وہی کچھ کرے گا جیسا پہلے کر چکا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حاشیہ ۲۲۸۔ الانعام، حواشی ۶ – ۱۳۹ – ۱۴۰۔ جلد دوم، یونس، حاشیہ ۲۶)۔
۹۲: یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’یہ تو اب اسے کہنا ہی ہے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ اس کی یہ بات قابلِ التفات نہیں ہے۔ شامت آ جانے کے بعد اب وہ یہ نہ کہے گا تو اور کیا کہے گا۔ مگر یہ محض کہنے کی بات ہے۔ پلٹے گا تو پھر وہی کچھ کرے گا جو کر کے آیا ہے۔ لہٰذا اِسے بکنے دو۔ واپسی کا دروازہ اس پر نہیں کھولا جا سکتا۔
۹۳: ’’برزخ‘‘ فارسی لفظ ’’ پردہ‘‘ کا معرّب ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ اب اِن کے اور دنیا کے درمییان ایک روک ہے جو انہیں واپس جانے نہیں دے گی، اور قیامت تک یہ دنیا اور آخرت کے درمیان کی اِس حد ِ فاصل میں ٹھیرے رہیں گے۔
۹۴: اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ باپ باپ نہ رہے گا اور بیٹا بیٹا ہ رہے گا۔بلکہ مطلب یہ ہے کہ اُس وقت نہ باپ بیٹے کے کام آئے گا نہ بیٹا باپ کے۔ ہر ایک اپنے حال میں کچھ اس طرح گرفتار ہو گا کہ دوسرے کو پوچھنے تک کا ہوش نہ ہو گا کجا کہ اس کے ساتھ کوئی ہمدردی یا اُس کی کوئی مدد کر سکے۔ دوسرے مقامات پر اس مضمون کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ وَلَا یَسْئَلُ حَمِیْمٌ حَمِیْمًا، ’’کوئی جگری دوست اپنے دوست کو نہ پوچھے گا‘‘۔ (المعارج، آیت ۱۰) اور یَوَدُّ الْمُجْرِ مُ لَوْ یَفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْ مَئیذٍم بِبَنِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَاَ خِیْہِ وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُؤْ وِیْہِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا ثُمَّ یُنْجِیْہِ، ’’اس روس مجرم کا جی چاہے گا کہ اپنی اولاد اور بیوی اور بھائی اور اپنی حمایت کرنے والے قریب ترین کنبے اور دنیا بھر کے سب لوگوں کو فدیے میں دے دے اور اپنے آپ کو عذاب سے بچا لے‘‘ (المعارج آیات ۱۱ تا ۱۴) اور یَوْ مَ یَفِرُّ الْمَرْ ءُ مِنْ اَخِیْہِ وَ اُمِّہٖ وَ اَبِیْہِ وَ صَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ لِکُلِّ امْرِ ئی مِّنْھُمْ یَوْمَئیذٍ شَانٌ یُّغْنِیْہِ، ’’وہ دن کہ آدمی اپنے بھائی اور ماں باپ اور بیوی اور اولاد سے بھاگے گا۔ اس روز ہر شخص اپنے حال میں ایسا مبتلا ہو گا کہ اسے کسی کا ہوش نہ رہے گا‘‘ (عبس، آیات ۳۴ تا ۳۷)۔
۹۵: یعنی جن کے قابلِ قدر اعمال وزنی ہوں گے۔ جن کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے سے زیادہ بھاری ہو گا۔
۹۶: آغاز سورہ میں، اور پھر چوتھے رکوع میں فلاح اور خسران کا جو معیار پیش کیا جا چکا ہے اسے ذہن میں پھر تازہ کر لیجیے۔
۹۷: اصل میں لفظ کَا لِحُوْنَ استعمال کیا گیا ہے۔ کالح عربی زبان میں اس چہرے کو کہتے ہیں جس کی کھال الگ ہو گئی ہو اور دانت باہر آ گئے ہوں جیسے بکرے کی بھُنی ہوئی سری۔ عبد اللہ بن مسعودؓ سے کسی نے کالح کے معنی پوچھے تو انہوں نے کہا اَلَمْ تَرَ اِلَی الرأ س المشیط؟ ’’ کیا تم نے بھُنی ہوئی سری نہیں دیکھی‘‘ ؟
۹۸: یعنی اپنی رہائی کے لیے کوئی عرض معروض نہ کرو۔ اپنی معذرتیں پیش نہ کرو۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیشہ کے لیے بالکل چپ ہو جاؤ۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ ان کا آخری کلام ہو گا جس کے بعد ان کی زبانیں ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گی۔ مگر یہ بات بظاہر قرآن کے خلاف پڑتی ہے کیونکہ آگے خود قرآن ہی ان کی اور اللہ تعالیٰ کی گفتگو نقل کر رہا ہے۔ لہٰذا یا تو یہ روایات غلط ہیں، یا پھر ان کا مطلب یہ ہے کہ اس کے بعد وہ رہائی کے لیے کوئی عرض معروض نہ کر سکیں گے۔
۹۹: پھر اسی مضمون کا اعادہ ہے کہ فلاح کا مستحق کون ہے اور خسران کا مستحق کون۔
۱۰۰: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، طٰہٰ، حاشیہ نمبر ۸۰۔
۱۰۱: یعنی دنیا میں ہمارے نبی تم کو بتاتے رہے کہ یہ دنیا کی زندگی محض امتحان کی چند گنی چنی ساعتیں ہیں، اِنہی کو اصل زندگی اور بس ایک ہی زندگی نہ سمجھ بیٹھو۔ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے جہاں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے۔ یہاں کے وقتی فائدوں اور عارضی لذتوں کی خاطر وہ کام نہ کرو جو آخرت کی ابدی زندگی میں تمہارے مستقبل کو برباد کر دینے والے ہوں۔ مگر اُس وقت تم نے ان کی بات سن کر نہ دی۔ تم اِس عالم ِ آخرت کا انکار کرتے رہے۔ تم نے زندگی بعدِ موت کو ایک من گھڑت افسانہ سمجھا۔ تم اپنے اِس خیال پر مُصِر رہے کہ جینا اور مرنا جو کچھ ہے بس سی دنیا میں ہے، اور جو کچھ مزے لوٹنے ہیں یہیں لوٹ لینے چاہییں۔ اب پچھتانے سے کیا ہوتا ہے۔ ہوش آنے کا وقت تو وہ تھا جب تم دنیا کی چند روزہ زندگی کے لطف پر یہاں کی ابدی زندگی کے فائدوں کو قربان کر رہے تھے۔
۱۰۲: اصل میں عَبَثًا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جس کا ایک مطلب تو ہے ’’کھیل کے طور پر‘‘۔ اور دوسرا مطلب ہے ’’کھیل کے لیے‘‘۔ پہلی صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے، ’’کیا تم نے یہ سمجھا تھا کہ ہم نے تمہیں یونہی بطور ِ تفریح بنا دیا ہے، تمہاری تخلیق کی کوئی غرض و غایت نہیں ہے، محض ایک بے مقصد مخلوق بنا کر پھیلا دی گئی ہے‘‘۔ دوسری صورت میں مطلب یہ ہو گا، ’’کیا تم یہ سمجھتے تھے کہ تم بس کھیل کود اور تفریح اور ایسی لاحاصل مصروفیتوں کے لیے پیدا کیے گئے ہو جن کا کبھی کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے‘‘۔
۱۰۳: یعنی بالا و برتر ہے اِس سے کہ فعل ِ عبث کا ارتکاب اس سے ہو، اور بالا و برتر ہے اِس سے کہ اس کے بندے اور مملوک اس کی خدائی میں اس کے شریک ہوں۔
۱۰۴: دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے اُس کے لیے اپنے اس فعل کے حق میں کوئی دلیل نہیں ہے‘‘۔
۱۰۵: یعنی وہ محاسبے اور باز پرس سے بچ نہیں سکتا۔
۱۰۶: یہ پھر اسی مضمون کا اعادہ ہے کہ اصل میں فلاح پانے والے کون ہیں اور اس سے محروم رہنے والے کون۔
۱۰۷: یہاں اِس دعا کی لطیف معنویت نگاہ میں رہے۔ ابھی چند سطر اوپر یہ ذکر آ چکا ہے کہ آخرت میں اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابۂ کرام کے دشمنوں کو معاف کرنے سے یہ کہہ کر انکار فرمائے گا کہ میرے جو بندے یہ دعا مانگتے تھے، تم ان کا مذاق اُڑا تے تھے۔ اس کے بعد اب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (اور ضمناً صحابہ کرام کو بھی ) یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ تم ٹھیک وہی دعا مانگو جس کا ہم ابھی ذکر کر آئے ہیں۔ ہماری صاف تنبیہ کے باوجود اب اگر یہ تمہارا مذاق اُڑائیں تو آخرت میں اپنے خلاف گویا خود ہی ایک مضبوط مقدمہ تیار کر دیں گے۔