دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ المؤمنون

تعارف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

سورہ کا آغاز اس بات سے ہوا ہے کہ مؤمنوں نے فلاح پائی۔ اس مناسبت سیاس کا نام "المؤمنون" ہے۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اور مضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ مکہ کے وسطی دور میں نازل ہوئی ہو گی۔

 

مرکزی مضمون

 

یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ کے نزدیک کامیاب ہونے والے کون لوگ ہیں اور ناکام ہونے والے کون پھر جن عقائد کے قبول کرنے پر کامیابی کا دارومدار ہے ان کا برحق ہونا بدلائل ثابت کیا گیا ہے اور ان شبہات کا ازالہ کیا گیا ہے جو اس سلسلہ میں پیش کئے جا رہے تھے۔

 

نظم کلام

 

آیت ۱  تا ۱۱  میں اہل ایمان کو کامیابی کی خوشخبری سنائی گئی ہے اور اس کامیابی کے لیے جو اوصاف ضروری ہیں ان کو بیان کیا گیا ہے۔

 

آیت ۱۲  تا ۲۲  میں اللہ کی ربوبیت پر استدلال کرتے ہوئے دوسری زندگی اور جزا و سزا کو لازم قرار دیا گیا ہے۔

 

آیت ۲۳  تا ۵۰  میں رسولوں کی دعوت کو جھٹلانے والوں کا انجام بیان کیا گیا ہے۔

 

آیت ۵۱  تا ۵۶  میں اس حقیقت کا اعلان کہ تمام انبیاء علیہم السلام کا دین ایک ہی تھا لیکن ان کے پیروؤں نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے۔ اب وہ اپنی اس غلط مذہبیت کے باوجود محض اس بنا پر کہ اللہ نے ان کو دنیا کی دولت دے رکھی ہے اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ اللہ ان سے خوش ہے اسی لیے ان پر دولت کی بارش کر رہا ہے۔

 

آیت ۵۷  تا ۶۱  میں دنیا پرستوں کے مقابلہ میں بھلائی کی طرف لپکنے والوں کے اوصاف بیان ہوئے ہیں۔

 

آیت ۶۲ تا ۶۷  میں لوگوں کو تنبیہ ہے جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں کہ ایک دن آئے گا جب وہ اپنے کئے پر پچھتائیں گے۔

 

آیت ۶۸  تا ۹۲  میں منکرین کے بعض شبہات کا جواب دیا گیا ہے۔

 

آیت ۹۳  تا ۹۸  میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو دعا کی تلقین کہ اے رب ! ان کافروں پر اگر میری موجودگی میں عذاب ا گیا تو اس سے مجھے محفوظ رکھ۔

 

آیت ۹۹  تا ۱۱۷  میں منکرین کا موت کے وقت اور پھر قیامت کے دن جو حال ہو گا اس کی تصویر اور اس بات پر اختتام کہ کافر کبھی فلاح پانے والے نہیں ہیں۔

 

آیت ۱۱۸  اختتامی آیت ہے جس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے واسطہ سے ہر اس شخص کو جو ایمان لائے یہ ہدایت ہے کہ وہ اللہ سے مغفرت اور رحمت کی دعا کرے۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اللہ رحمٰن و رحیم کے نام سے

 

 

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یقیناً کامیاب ہوئے ایمان لانے والے۔ ۱*

 

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اپنی نماز میں خشوع (عاجزی) اختیار کرتے ہیں۔ ۲*

 

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لغو باتوں سے رُخ پھیرتے ہیں۔ ۳*

 

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو زکوٰۃ ادا کرتے رہتے ہیں۔ ۴*

 

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں کے یا ان باندیوں کے جو ان کی ۵*

 

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ملکیت میں آ گئی ہوں تو ان کے بارے میں ان پر کوئی ملامت نہیں۔ ۶*

 

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں تو وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں۔ یقیناً ۷*

 

۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اپنی امانتوں ۸* اور اپنے عہد۹* کا پاس رکھتے ہیں۔

 

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ۱۰*

 

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی لوگ وارث ہونے والے ہیں۔

 

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو فردوس کے وارث ہوں گے۔ ۱۱* اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔

 

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ (نچوڑ) سے پیدا کیا۔ ۱۲*

 

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اسے نطفہ بنا کر ایک محفوظ جگہ میں رکھا۔ ۱۳*

 

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر نطفہ کو جمے ہوئے خون کی شکل دی پھر جمے ہوئے خون کو گوشت کا ٹکرا بنایا پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیوں کی شکل دی پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا ۱۴* پھر اسے ایک دوسری ہی مخلوق بنا کر کھڑا کیا۔ ۱۵* تو بڑا ہی بابرکت ہے اللہ بہترین پیدا کرنے والا ۱۶*

 

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس کے بعد تم کو لازماً مرنا ہے۔ یقیناً ۱۷*

 

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر یقیناً تم قیامت کے دن اٹھائے جاؤ گے۔ ۱۸*

 

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے تمہارے اوپر سات تہ بر تہ آسمان بنائے ۱۹* اور ہم مخلوق کی طرف سے غافل نہیں ہیں۔ ۲۰*

 

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے ایک خاص اندازہ کے ساتھ آسمان سے پانی برسایا اور اس کو زمین میں ٹھہرا دیا اور ہم اس پر قادر ہیں کہ اسے غائب کر دیں۔ ۲۱*

 

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم نے اس (پانی) کے ذریعہ تمہارے لیے کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کئے۔ تمہارے لیے ان میں بہت سے پھل ہیں جن کو تم کھاتے ہو۔

 

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ درخت بھی جو طور سینا میں پیدا ہوتا ہے۔ وہ تیل لیے ہوئے اگتا ہے۔ اور کھانے والوں کے لیے سالن۔ ۲۲*

 

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی بڑا سبق ہے۔ ہم ان چیزوں کے اندر سے جو ان کے شکم میں ہے تمہیں (دودھ) پلاتے ہیں۔ ۲۳* تمہارے لیے ان میں بہت سے فائدہ ہیں اور ان سے تم غذا بھی حاصل کرتے ہو۔ ۲۴*

 

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تم ان پر اور کشتیوں پر سوار بھی کئے جاتے ہو۔ ۲۵*

 

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔ ۲۶* اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں۔ کیا تم (اس سے) ڈرتے نہیں ! ۲۷*

 

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی قوم کے سرداروں نے جنہوں نے کفر کیا تھا کہنے لگے یہ شخص تو بس تمہارے ہی جیسا بشر ہے۔ یہ چاہتا ہے کہ تم پر برتری حاصل کرے۔ اگر اللہ (رسول بھیجنا) چاہتا تو فرشتوں کو اتار دیتا۔ ایسی بات تو ہم نے اپنے اگلے باپ دادا سے سنی ہی نہیں۔

 

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ نہیں اس شخص کو جنون ہو گیا ہے لہٰذا کچھ دن اس کے بارے میں انتظار کرو۔ ۲۸*

 

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نوح نے دعا کی اے میرے رب ! میری مدد کر اس بات پر کہ انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے۔ ۲۹*

 

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اس پر وحی کی کہ ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بناؤ۔ ۳۰* پھر جب ہمارا حکم آ جائے اور تنور ابل پڑے ۳۱* تو ہر قسم کے نر و مادہ کا جوڑا اس میں رکھ لو اور اپنے گھر والوں کو بھی ساتھ لے لو سوائے ان کے جن کے خلاف پہلے ہی فیصلہ ہو چکا ہے۔ ۳۲* اور ظالموں کے بارے میں مجھ سے کچھ نہ کہنا وہ غرق ہو کر رہیں گے۔

 

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب تم اپنے ساتھیوں کو لیکر کشتی میں سوار ہو جاؤ تو کہو شکر ہے اللہ کا جس نے ہمیں ظالم قوم سے نجات دی۔ ۳۳*

 

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دعا کرو اے رب! مجھے برکت کے ساتھ اتار ۳۴* اور تو بہترین اتارنے والا ہے۔ ۳۵*

 

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس واقعہ میں بڑی نشانیاں ہیں ۳۶* اور ایسا ضرور ہے کہ ہم (لوگوں کو) آزمائش میں ڈالیں۔ ۳۷*

 

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ان کے بعد ہم نے دوسرے دور کے لوگ پیدا کر دئے۔

 

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان ہی میں سے ایک رسول ان کی طرف بھیجا ۳۸* (اس دعوت کے ساتھ) کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ تو کیا تم ڈرتے نہیں !

 

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی قوم کے سرداروں نے جنہوں نے کفر کیا تھا اور آخرت کی پیشی کو جھٹلایا تھا اور جنہیں ہم نے دنیا کی زندگی میں آسودگی دے رکھی تھی کہنے لگے یہ تو تمہارے ہی جیسا ایک بشر ہے۔ وہی کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی پیتا ہے جو تم پیتے ہو۔

 

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم نے اپنے ہی جیسے آدمی کی اطاعت کر لی تو تم گھاٹے میں رہو گے۔

 

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو تمہیں آگاہ کرتا ہے کہ جب تم مر کر مٹی ہو جاؤ گے اور ہڈیوں کی شکل میں رہ جاؤ گے تو تمہیں نکالا جائے گا۔

 

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بعید ہے بہت بعید ہے وہ بات جس کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔ ۳۹*

 

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ زندگی تو بس اس دنیا ہی کی زندگی ہے جس میں ہم مرتے اور جیتے ہیں۔ ۴۰* اور ہمیں ہرگز اٹھایا نہ جائے گا۔

 

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو ایک ایسا شخص ہے جس نے اللہ کے نام سے جھوٹ گھڑا ہے اور ہم اس کی بات ہرگز ماننے والے نہیں ہیں۔

 

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے دعا کی ۴۱* اے رب! انہوں نے مجھے جھٹلایا ہے تو تو میری مدد فرما۔

 

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمایا قریب ہے وہ وقت جب وہ نادم ہوں گے۔

 

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چنانچہ ایک ہولناک آواز نے جو حق کے ساتھ نمودار ہوئی تھی انہیں پکڑ لیا۔ ۴۲* اور ہم نے انہیں خس و خاشاک بنا کر رکھ دیا۔ پھٹکار ہے ظالم قوم کے لیے !

 

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم نے ان کے بعد دوسری قومیں اٹھائیں۔

 

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی قوم نہ اپنے وقت سے پہلے ختم ہوتی ہے اور نہ اس کے بعد ٹھہرسکتی ہے۔

 

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم نے یکے بعد دیگرے اپنے رسول بھیجے۔ ۴۳* جب بھی کسی قوم کے پاس اس کا روسل آیا اس نے اسے جھٹلایا۔ تو ہم ایک کے بعد دوسری قوم کو ہلاک کرتے رہے اور ان کو افسانہ بنا کر چھوڑا۔ پھٹکار ہے ان لوگوں پر جو ایمان نہیں لاتے !

 

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون کو اپنی نشانیوں اور کھلی حجت کے ساتھ بھیجا۔ ۴۴*

 

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرعون اور اس کی حکومت کے سربراہوں کی طرف مگر انہوں نے تکبر کیا اور وہ سرکش لوگ تھے۔

 

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے کہا کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں جب کہ ان کی قوم ہماری غلامی کر رہی ہے۔ ۴۵*

 

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح انہوں نے ان دونوں کو جھٹلایا اور بالآخر ہلاک ہو کر رہے۔

 

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور موسیٰ کو ہم نے کتاب عطاء کی تاکہ لوگ ہدایت پائیں۔ ۴۶*

 

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ابن مریم ۴۷* اور اس کی ماں کو ہم نے ایک نشانی بنایا ۴۸* اور انہیں ایک اونچے ٹیلے پر جگہ دی جو پرسکون اور چشمہ والی تھی۔ ۴۹*

 

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے رسولو! پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ ۵۰* تم جو کچھ کرتے ہو میں اس کو اچھی طرح جانتا ہوں۔

 

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ تمہاری امت ایک ہی امت ہے ۵۱* اور میں تمہارا رب ہوں تو مجھ ہی سے ڈرو۔ ۵۲*

 

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر لوگوں نے پنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ۵۳* ہر گروہ جو اس کے پاس ہے اسی میں مگن ہے۔ ۵۴*

 

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو چھوڑ دو انہیں اپنی غفلت میں ڈوبے رہیں ایک وقت خاص تک۔ ۵۵*

 

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا یہ سمجھتے ہیں کہ ہم جو ان کو مال اور اولاد دئے جا رہے ہیں۔

 

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو کیا ان کے لیے خیر میں اضافہ کر رہے ہے۔ نہیں بلکہ ان کو (اصل حقیقت کا) شعور نہیں۔ ۵۶*

 

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اپنے رب کے خوف سے لرزاں رہتے ہیں۔ ۵۷*

 

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔

 

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو پنے رب کا شریک نہیں ٹھہراتے۔

 

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو دیتے ہیں جو کچھ بھی دیتے ہیں اس حال میں کہ ان کے دل کانپ رہے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔ ۵۸*

 

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہیں بھلائیوں میں سرگرم رہنے والے اور سبقت کر کے ان کو پا لینے والے۔ ۵۹*

 

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم کسی شخص پر اس کی مقدرت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتے۔ ۶۰* اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو (ہر ایک کا حال) ٹھیک ٹھیک بتا دیتی ہے۔ ۶۱* اور ان کے ساتھ نا انصافی نہ ہو گی۔

 

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر ان کے دل اس کی طرف سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور کچھ دوسرے کام ہیں جن میں وہ مشغول ہیں۔ ۶۲*

 

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (وہ یہی کرتے رہیں گے) یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوشحال لوگوں کو عذاب میں پکڑ لیں گے تو یہ چیخنے لگیں گے۔ ۶۳*

 

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب آہ و زاری نہ کرو ہماری طرف سے تمہیں کوئی مدد ملنے والی نہیں۔

 

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جب میری آیتیں تمہیں سنائی جاتی تھیں تو تم الٹے پاؤں بھاگ نکلتے تھے۔

 

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھمنڈ کرتے ہوئے اس کو قصہ گوئی کے لیے مشغلہ بنا کر بکواس کرتے۔ ۶۴*

 

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا انہوں نے اس کلام پر غور نہیں کیا۔ ۶۵* یا ان کے پاس ایسی چیز آ گئی ہے جو ان کے اگلے باپ داداؤں کے پاس نہیں آئی تھی؟ ۶۶*

 

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا یہ اپنے رسول کو پہچان نہ سکے اس لیے اس کے منکر ہو گئے ! ۶۷*

 

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا یہ کہتے ہیں کہ اسے جنون ہو گیا ہے۔ ۶۸* نہیں بلکہ وہ ان کے پاس حق لے کر آیا ہے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو حق ہی ناگوار ہے۔ ۶۹*

 

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر حق ان کی خواہشات کے پیچھے چلتا تو آسمان و زمین اور جو ان میں ہیں سب (کا نظام) درہم برہم ہو جاتا۔ ۷۰* حقیقت یہ ہے کہ ہم ان کے پاس ان کو یاددہانی کرانے والی چیز لائے ہیں اور وہ اپنی اس یاد دہانی سے رخ پھیرے ہوئے ہیں۔ ۷۱*

 

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم ان سے مال طلب کر رہے ہو؟ ۷۲* تمہارے لیے تو تمہارے رب کا دیا مال ہی بہتر ہے اور وہ بہترین رازق ہے۔

 

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بے شک تم انہیں سیدھی راہ کی طرف بلا رہے ہو۔

 

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے وہ راہ راست سے بھٹکے ہوئے ہیں۔ ۷۳*

 

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر ہم ان پر رحم کریں اور ان کی تکلیف دور کریں تو یہ اپنی سرکشی میں ڈھیٹ ہو کر بھٹکتے رہیں گے۔ ۷۴*

 

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے ان کو عذاب میں پکڑا مگر نہ وہ اپنے رب کے آگے جھکے اور نہ انہوں نے عاجزی کی ۷۵*

 

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں تک کہ جب ہم سخت عذاب کا دروازہ ان پر کھول دیں گے تو اس (حالت) میں وہ بالکل مایوس ہو کر رہ جائیں گے۔ ۷۶*

 

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے کان، آنکھ اور دل بنائے مگر تم کم ہی شکر ادا کرتے ہو۔ ۷۷*

 

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں پھیلایا اور اسی کی طرف تم اکٹھا کئے جاؤ گے۔

 

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہی ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے۔ رات اور دن کا الٹ پھیر اسی کے اختیار میں ہے۔ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟ ۷۸*

 

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر انہوں نے بھی وہی بات ہی جو اگلے لوگ کہہ چکے ہیں۔

 

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کہتے ہیں کیا جب ہم مر جائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں بن جائیں گے تو ہم کو پھر اٹھایا جائے گا؟

 

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ وعدہ ہم سے کیا جا رہا ہے اور اس سے پہلے ہمارے باپ دادا سے بھی کیا گیا تھا۔ ۷۹* یہ محض اگلوں کے افسانے ہیں۔

 

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے پوچھو اگر تم جانتے ہو تو بتلاؤ زمین اور اس میں بسنے والے کس کی مِلک ہیں ؟

 

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہیں گے اللہ کی۔ کہو پھر کیا تم یاددہانی حاصل نہیں کرتے !

 

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے پوچھو ساتوں آسمانوں اور عرش عظیم کا مالک کون ہے۔

 

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہیں گے اللہ۔ ۸۰* کہو پھر تم (اس سے) ڈرتے نہیں ؟

 

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان سے پوچھو اگر تم جانتے ہو تو بتلاؤ وہ کون ہے جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے اور جو پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی پناہ نہیں دے سکتا؟

 

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہیں گے یہ باتیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ کہو پھر تمہاری عقل کہاں ماری جاتی ہے !

 

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم ان کے سامنے حق لائے ہیں اور یہ بالکل جھوٹے ہیں۔ ۸۱*

 

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نے کسی کو اپنا بیٹا نہیں بنایا۔ ۸۲* اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہر خدا اپنی خلق کو لیکر الگ ہو جاتا اور وہ ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتے۔ ۸۳* پاک ہے اللہ ان باتوں سے جو یہ بیان کرتے ہیں۔

 

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ غیب اور حاضر کا جاننے والا۔ بالاتر ہے وہ ان کی مشرکانہ باتوں سے۔

 

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دعا کرو اے میرے رب! اگر تو مجھے عذاب دکھا دے جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔

 

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اے میرے رب! مجھے اس ظالم گروہ میں شامل نہ کر۔ ۸۴*

 

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور بے شک ہم اس بات پر قادر ہیں کہ جس عذاب کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے وہ تمہیں دکھا دیں۔

 

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ برائی کو اس طریقہ سے دور کرو جو بہتر ہو۔ وہ جو باتیں بناتے ہیں ان کو ہم خوب جانتے ہیں۔ ۸۵*

 

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور دعا کرو اے رب! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ ۸۶*

 

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اے میرے رب! اس بات سے بھی میں پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آ موجود ہوں۔ ۸۷*

 

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (ان کا یہی حال رہے گا) یہاں تک کہ جب کسی کی موت آ کھڑی ہو گی تو وہ کہے گا اے میرے رب! مجھے واپس بھیج دیجئے۔

 

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تاکہ جو کچھ میں نے چھوڑا ہے اس میں نیک کام کروں۔ ہرگز نہیں یہ تو محض ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے۔ ۸۸* اور ان کے آگے ایک برزخ ہو گی۔ ۸۹* اس دن تک کے لیے جب وہ اٹھائے جائیں گے۔

 

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر جب صور پھونکا جائے گا تو اس دن ان کے درمیان نہ رشتہ داریاں رہیں گی اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے۔ ۹۰*

 

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس وقت جن کی میزانیں بھاری ہوں گی وہی کامیاب ہوں گے۔ ۹۱*

 

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جن کی میزانیں ہلکی ہوں گی وہ وہی ہیں جنہوں نے اپنے کو گھاٹے میں ڈالا۔ ۹۲* جہنم میں ہمیشہ رہنے والے۔

 

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آگ ان کے چہروں کو جھلس دے گی اور ان کے منہ بگڑے ہوئے ہوں گے۔ ۹۳*

 

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا میری آیتیں تمہیں سنائی نہیں جاتی تھیں اور تم ان کو جھٹلاتے نہ تھے ؟

 

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہیں گے اے ہمارے رب! ہماری بدبختی ہم پر غالب آ گئی اور ہم گمراہ لوگ تھے۔ ۹۴*

 

۱۰۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اے ہمارے رب ! ہمیں یہاں سے نکال دے۔ اگر ہم پھر ایسا کریں تو ظالم ہوں گے۔

 

۱۰۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمائے گا پڑے رہو اسی میں دھتکارے ہوئے اور مجھ سے بات نہ کرو۔ ۹۵*

 

۱۰۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے بندوں میں سے ایک گروہ ایسا تھا جو کہتا تھا کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لائے ہیں ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما۔ تو بہترین رحم فرمانے والا ہے۔ ۹۶*

 

۱۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو تم نے ان کو مذاق بنا لیا تھا۔ یہاں تک کہ اس مشغلہ نے میری یاد سے بھی تمہیں غافل کر دیا اور تم ان کی ہنسی اڑاتے رہے۔

 

۱۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج ان کے صبر ۹۷* کا بدلہ میں نے یہ دیا کہ وہی کامیاب ہو گئے۔

 

۱۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر وہ پوچھے گا ۹۸* تم زمین میں کتنے سال رہے ؟ ۹۹*

 

۱۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کہیں گے ایک دن یا ایک دن کا بھی کچھ حصہ۔ شمار کرنے والوں سے پوچھ لیجئے۔ ۱۰۰*

 

۱۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فرمائے گا تم تھوڑی ہی مدت ٹھہرے رہے۔ کاش تم نے یہ بات جان لی ہوتی! ۱۰۱*

 

۱۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں بیکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہ جاؤ گے ؟ ۱۰۲*

 

۱۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو (ایسی بات سے) بہت بلند ہے اللہ بادشاہ حقیقی۔ ۱۰۳* اس کے سوا کوئی خدا نہیں۔ عرشِ کریم کا مالک! ۱۰۴*

 

۱۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ کسی اور خدا کو پکارے جس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو اس کا حساب اس کے رب کے پاس ہے۔ یقیناً کافر کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ ۱۰۵*

 

۱۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دعا کرو میرے رب بخش دے رحم فرما اور تو بہترین رحم فرمانے والا ہے۔ ۱۰۶*

تفسیر

۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کامیابی سے مراد آخرت کی کامیابی ہے جیسا کہ آیت ۱۱  سے واضح ہے اور قرآن کی نظر میں اصل کامیابی آخرت ہی کامیابی ہے کیونکہ وہ انعام کے طور پر ہو گی اور ہمیشہ کے لیے ہو گی۔

 

اس کامیابی کے لیے شرط اول ایمان ہے پھر وہ اوصاف جو آگے بیان ہوئے ہیں۔ واضح ہوا کہ آخرت کی کامیابی اوصاف (Merit) کی بنیاد پر ہو گی نہ کہ اسلام سے رسمی تعلق کی بنیاد پر۔

 

۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خشوع کے معنی صاحب جلال ہستی کے تصور سے لرزنے ، اس کے آگے پست ہونے اور عاجزی اختیار کرنے کے ہیں۔ نماز کی روح یہی ہے کہ بندہ پر اللہ کا خوف طاری ہو، وہ دبی آواز میں اس سے مناجات کرے اور عاجزی و بندگی کا اظہار کرے۔ کامیابی کی ضمانت ان ہی ایمان والوں کو دی گئی ہے جو خشوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔

 

خشوع کا تعلق اصلاً دل سے ہے : اَلَمْیَأنِ لِلذِئیْنَ آمَنُوْا اَنْ تخشع قُلُوْبُہُمْ لِذِکْراللّٰہ (حدید۔ ۱۶) "کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر کے آگے جھک جائیں۔"

 

اور جب دل میں خشوع ہو تو یہ کیفیت جسم پر بھی طاری ہو گی یعنی نگاہیں پست ہوں گی، آواز دبی ہوئی ہو گی، توجہ اللہ ہی کی طرف رہے گی اور سکون و اطمینان کے ساتھ پُر وقار طریقہ پر نماز ادا کی جائے گی۔ قرآن میں نماز کے جو اثرات و ثمرات بیان کئے گئے ہیں وہ ایسی ہی نماز کے اثرات و ثمرات ہیں۔

 

۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لغو باتوں سے بچنا نماز کا فیضان ہے اس لیے اس کا ذکر نماز کے متصلاً بعد ہوا۔ لغو کے معنی بے مقصد اور فضول کے ہیں۔ اس کا اطلاق حرام اور منکر کاموں ہی پر نہیں ہوتا بلکہ ان کاموں پر بھی ہوتا ہے جن کا کوئی حقیقی فائدہ یا مصلحت نہ ہو، موجودہ دور میں لغو کی ترقی یافتہ شکلوں میں بیہودہ گانے ، خیال آرائی کے مشاعرے ، قہقہوں کے پروگرام، فالتو قصے اور افسانے ، شطرنج اور کیرم کے کھیل اور میچ اور فٹ بال وغیرہ کے وہ بڑے بڑے مظاہرے شامل ہیں جو وقت اور روپے کی بربادی کا کھلا سامان ہیں اور جو ایسی ذہنیت پیدا کرتے ہیں کہ آدمی کھیل کود ہی میں لگا رہے اور آج کل ٹی وی پر ایک سے ایک بیہودہ مناظر پیش کئے جاتے ہیں مگر مخلص مومن بڑے شریف النفس ہوتے ہیں وہ ایسی چیزوں سے دلچسپی لینا تو درکنا ان پر ایک نگاہ غلط ڈالنا بھی پسند نہیں کرتے۔

 

۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مکی دور میں بھی زکوٰۃ کی ادائیگی ضروری تھی۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انعام نوٹ ۲۵۸۔

 

بعض مفسرین نے لذکوٰہ فاعلون کا مطلب یہ لیا ہے کہ وہ تزکیہ کا کام کرتے رہتے ہیں لیکن یہ سراسر تکلف ہے۔ زکوٰۃ اپنے مخصوص معنی میں قرآن کا اصطلاحی لفظ ہے اس لیے اس کو تزکیہ کے معنی میں لینا صحیح نہیں اور اگر زکوٰۃ کے ساتھ فَاعِلُوْن کا لفظ استعمال ہوا ہے تو دوسری جگہ فِعْلَ الْخَیرْاتِ (بھلائی کے کام۔ سورۂ انبیاء ۷۳) کی ترکیب بھی استعمال ہوئی ہے اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ زکوٰۃ کو یہاں مصدری معنی (تزکیہ کے معنی) میں لیا جائے۔

 

۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قضائے شہوت کے حرام طریقوں سے بچتے ہیں اور ستر (پوشیدہ اعضاء کو چھپانا) کے حدود کا لحاظ کرتے ہیں۔

 

۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس آیت میں جنسی تعلق کے جواز کی دو صورتیں بتائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی اپنی بیوی سے جنسی تعلق قائم کرے دوسرے یہ کہ وہ ان لونڈیوں سے جنسی تعلق قائم کرے جو اس کی ملکیت میں ہوں۔

 

آدمی کی بیوی وہ ہے جو اس کے عقد نکاح میں ہو۔ رہی لونڈی تو اس کے لیے مالک ہونا شرط ہے یعنی ایک شخص اسی لونڈی سے جنسی تعلق قائم کر سکتا ہے جس کا وہ واقعی مالک ہے۔ غلامی کا مسئلہ اس زمانہ میں نہ صرف یہ کہ ایک بین الاقوامی مسئلہ تھا بلکہ خود غلاموں اور لونڈیوں کی بہبود کا مسئلہ بھی متضاد تقاضے رکھتا تھا۔ جو غلام اور لونڈیاں پہلے سے چلی آ رہی تھیں ان کو اگر غلام اور لونڈیاں تسلیم (Recognize)  ہی نہیں کیا جاتا یا قانون کے ذریعہ سب کو بیک وقت آزاد کر دیا جاتا تو اس سے غلاموں اور لونڈیوں کو بظاہر راحت ہو سکتی تھی لیکن اس وقت کے حالات میں ان کے لیے معاش کا مسئلہ اور لونڈیوں کے لیے خاص طور سے رہائش اور کفالت کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کر سکتا تھا جس کے نتیجہ میں وہ بدکاری کا شکار ہو سکتی تھیں۔ اس لیے اسلام نے مکی دور میں ان کی واقعی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے لونڈیوں کے مالکوں کے لیے ان سے جنسی تعلق قائم کرنا جائز قرار دیا البتہ غلامی سے ان کی گردنیں چھڑانے کو بہت بڑی نیکی قرار دیا نیز اس کے لیے مناسب تدبیریں بھی عمل میں لائیں۔

 

لونڈیوں سے جنسی تعلق کے مسئلہ کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ بہر کیف اللہ تعالیٰ کی طرف سے صاف صاف اعلان ہے کہ اہل ایمان اپنی ملکیت کی لونڈیوں سے جنسی تعلق قائم کرنے کے معاملہ میں قابل ملامت نہیں ہیں۔ پھر کسی کو کیا حق ہے کہ وہ انہیں ملامت کرے ؟

 

۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اپنی بیوی یا لونڈی ہی سے جنسی تعلق قائم کرنا جائز ہے۔ اگر کوئی شخص اس کے علاوہ کسی اور سے جنسی تعلق قائم کرنا چاہے گا تو ایسا شخص فطری اور شرعی حدود سے تجاوز کرنے والا ہو گا۔ جنسی تعلق بیوی یا اپنی ملکیت کی باندی کے علاوہ جس عورت سے بھی قائم کیا جائے گا زنا ہو گا اور اگر مرد مرد کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتا ہے تو یہ لواطت ہو گی اور یہ سب صورتیں حرام ہیں جن کی حرمت شدید ہے۔

 

اس آیت سے متعہ (مقررہ وقت تک کے لیے کسی عور ت سے اس کی مرضی سے جنسی تعلق قائم کرنے) کی حرمت بھی ثابت ہوتی ہے کیونکہ جس سے متعہ کیا جاتا ہے وہ نہ بیوی ہوتی ہے اور نہ لونڈی۔ بیوی اس لیے نہیں کہ وہ متعہ کرنے والے شخص کے نہ عقد نکاح میں ہوتی ہے اور نہ اس پر نفقہ ،طلاق اور عدت وغیرہ کے احکام چسپاں ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ اس شخص کی میرات میں سے حصہ پا سکتی ہے۔ اور لونڈی اس لیے نہیں کہ وہ اس کا مالک نہیں ہے غرضیکہ قرآن میں متعہ کے جواز کے لیے نہ صرف یہ کہ کوئی دلیل موجود نہیں ہے بلکہ جو احکام ازدواجی زندگی سے متعلق دئے گئے ہیں ان سے اس کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ سورۂ مومنون مکی ہے جس کی مذکورہ آیت میں دو صورتیں کے علاوہ جنسی تعلق کی ہر صورت کو حرام قرار دیا گیا ہے گویا متعہ کی حرمت کا حکم مکی دور ہی سے چلا آ رہا ہے۔

 

متعہ کی ممانعت حدیث سے بھی ثابت ہے :

 

عن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نَہیَ عَنْ مُتْعَۃِ النِّآء یَوْمَ خَیْبَرَ۔ (بخاری کتاب المغازی) "حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کے دن متعہ سے منع فرمایا۔"

 

اور علماء و فقہاء کا اس کی حرمت پر اجماع ہے : "خطابی کہتے ہیں متعہ کے حرام ہونے پر گویا اجماع ہے بجز بعض شیعہ کے۔" (فتح الباری ج ۹ ص ۱۴۲)

 

"اس نکاح کے حرام ہونے پر ائمہ مذاہب کے درمیان اتفاق ہے۔" (فقہ السنۃ۔ السید سابق ج ۲ ص ۱۴۲)

 

رہیں وہ حدیثیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ آپ ؐ نے بعض غزوات کے موقع پر متعہ کی اجازت دی تھی اور بعد میں اس کو منسوخ کر دیا تو ان حدیثوں میں متضاد باتیں بیان ہوئی ہیں۔

 

جب غزوہ خبیر (۰۶ھ) کے موقع پر اس کی ممانعت کر دی گئی تھی تو فتح مکہ (۰۸ھ) کے موقع پر اس کی اجازت دینے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے ؟ اور فتح مکہ کے زمانہ میں تو دین اپنی تکمیل کو پہنچ گیا تھا اور مسلمان ایک طاقت بن چکے تھے اس لیے یہ موقع متعہ کی رعایت کا ہرگز نہیں تھا پھر ایک روایت کی رو سے یہ اجازت تین دن کے لیے دی گئی تھی اس کے بعد اس کی ممانعت کر دی گئی اور دوسری روایت کے مطابق ایک دن اس کی اجازت دی گئی اور دوسرے دن ہی اسے حرام قرار دیا گیا۔ مسلم کی روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح مکہ کے موقع پر اعلان فرمایا کہ "میں نے تمہیں عورتوں سے متعہ کرنے کی اجازت دی تھی اور اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لیے حرام ٹھہرایا ہے"

 

اور مسلم ہی کی روایت ہے کہ غزوۂ اوطاس کے موقع پر جو فتح مکہ کے بعد (شوال ۰۸ ھ میں) ہوا آپؐ نے اس کی اجازت دی پھر ممانعت فرما دی (دیکھئے صحیح مسلم کتاب النکاح) ۔

 

غزوۂ اوطاس کا واقعہ فتح مکہ کے بعد کا ہے لہٰذا لا محالہ دو میں سے ایک روایت ہی صحیح ہو سکتی ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ اعلان فرمائیں کہ متعہ قیامت تک کے لیے حرام کر دیا گیا اور پھر جب اوطاس میں جنگ ہو تو آپ اس کی اجازت بھی دیدیں۔ ایسی روایتیں ہرگز حدیث رسول نہیں ہو سکتیں جبکہ وہ قرآن کے صریح حکم سے متصادم ہوں۔ ان روایتوں کو صحیح تسلیم کرنے کی صورت میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ مکہ اور اوطاس میں وہ کون سی عورتیں تھیں جو تین دن کے لیے اور محض ایک چادر کے عوض نکاح کرنا پسند کرتی تھیں ؟ اور ان سے ربط پیدا کر نے کا کیا ذریعہ تھا۔ کیا کوئی مسلمان کسی اجنبی مسلمان خاتون سے جا کر پوچھتا تھا کہ تو تین دن کے لیے مجھ سے نکاح کرنے کے لیے آمادہ ہے ؟ پھر اگر وہ آمادہ ہو جاتی تو اس سے بغیر استبراء کے کس طرح فوراً تعلق قائم کیا جا سکتا تھا جبکہ لونڈیوں سے مباشرت کے لیے استبراء یعنی ایک ماہواری کے گزر جانے کی قید ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ متعہ کے لیے استبراء کی قید نہیں تو حمل ٹھہر جانے کی صورت میں یہ کیسے پتہ چلتا کہ یہ کس کا حمل ہے ؟ اور حمل کی صورت میں بچہ کی کفالت کی ذمہ داری اپنی ماں کے عارضی شوہر پر عائد ہوتی تھی یا نہیں ؟ اگر ہوتی تھی تو عارضی نکاح کا کیا فائدہ ہوا؟ یہ سوالات متعہ کی نا معقولیت واضح کرنے کے لیے کافی ہیں مگر مسلمانوں کا شیعہ فرقہ متعہ کے حلال ہونے کا قائل ہے۔ وہ قرآن کو چھوڑ کر روایتوں کا سہارا لیتا ہے۔ وہ روایتوں کو قرآن کی روشنی میں دیکھنے کے بجائے قرآن کو روایتوں کی روشنی میں دیکھتا ہے۔ یہی وہ ہمالیائی غلطی ہے جو قرآن کی غلط تاویل کرنے اور نا معقول باتیں ماننے پر آمادہ کرتی ہے۔

 

جہاں تک ان احادیث کی اسناد کا تعلق ہے بیشتر احادیث ایسی ہیں جن کی اسناد میں کلام کی کافی گنجائش ہے۔ طوالت کے خوف سے ہم صرف چند مثالوں پر اکتفاء کرتے ہیں۔

 

متعہ کی رخصت کے سلسلہ میں ایک حدیث صحیح مسلم میں عبدالملک بن الربیع بن سَبرہ سے مروی ہے مگر مشہور محدث یحییٰ بن معین نے اسے ضعیف کہا ہے اور ابوالحسن بن القطان کہتے ہیں ان کا عادل ہونا ثابت نہیں ہے۔ اگرچہ مسلم نے ان کی حدیث بیان کی ہے لیکن وہ قابل حجت نہیں ہے (تہذیب التہذیب لابن حجر عسقلانی ج ۶ ص ۳۹۳) بخاری اور مسلم دونوں میں حضرت عبداللہ بن مسعود کی طرف یہ بات منسوب کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوات کے موقع پر انہیں متعہ کی اجازت دی تھی۔ یہ روایت قیس بن ابی حازم سے ہے اور قیس بن ابی حازم کے بارے میں ابن المدینی کہتے ہیں کہ مجھ سے یحییٰ بن سعید نے کہا کہ وہ منکر الحدیث ہے۔ (تہذیب التہذیب ج ۸ ص ۳۸۸)

 

بخاری کی ایک حدیث حسن بن محمد نے جابر بن عبداللہ اور سلمہ بن اکوع کے واسطہ سے بیان کی ہے کہ "ان دونوں نے کہا کہ ہم ایک لشکر میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قاصد ہمارے پاس آیا اور کہا کہ تمہیں استمتاع (عورتوں سے فائدہ حاصل کرنے) کی اجازت دی گئی ہے لہٰذا استمتاع کرو۔ " (بخاری کتاب النکاح) جبکہ بخاری نے حسن بن محمد ہی کے واسطہ سے حضرت علی کی یہ روایت بیان کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کے موقع پر متعہ کی ممانعت فرما دی تھی۔ (بخاری کتاب المغازی)

 

ایک روایت ابن جریج سے ہے کہ حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے زمانے میں متعہ کیا (مسلم کتاب النکاح) یہ عبدالملک بن عبدالعزیز بن جریج ہیں ان کے بارے میں اثرم نے امام احمد کا یہ قول نقل کیا ہے کہ جب ابن جریج کہتے ہیں کہ فلاں اور فلاں نے کہا یا مجھے خبر دی گئی تو وہ منکر حدیثیں بیان کرتے ہیں جب کہتے ہیں کہ مجھے فلاح شخص نے خبر دی یا میں نے اس سے سنا تو تمہارے (اعتماد) کے لیے یہ کافی ہے اور اضحاقی نے امام ماک کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ابن جریج حاطبِ لیل (رات کی تاریکی میں لکڑیاں چننے والے یعنی رطب و یابس جمع کرنے والے) ہیں اور دار قطنی کہتے ہیں کہ ابن جریج کی تدلیس سے بچو اور یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ وہ ضعیف ہیں (تہذیب التہذیب ج ۶ص ۴۰۲تا ۴۰۶) ۔

 

اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ متعہ کی رخصت کے سلسلہ میں جب صحیحین کی روایتوں کا یہ حال ہے تو شیعوں کی بیان کردہ روایات کا کیا حال ہو گا!

 

واقعہ یہ ہے کہ ان متضاد اور الجھی ہوئی روایتوں سے جن میں سے بیشتر روایتیں اسناد کے اعتبار سے علت سے خالی نہیں ہیں یہ بات ہرگز ثابت نہیں ہوتی کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے متعہ کی رخصت دی تھی البتہ جاہلیت میں چونکہ متعہ کا طریقہ رائج تھا اس لیے آپ نے بڑی تاکید کے سا تھ اس کی ممانعت فرمائی۔ یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ کسی روایت کا صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں ہونا اسے ہرگز تقدس عطا نہیں کرتا جبکہ وہ قرآن کے صریح حکم سے متصادم ہو۔

 

ان دلائل کے بعد بھی اگر کسی کو اس بات پر اصرار ہو کہ متعہ کی رخصت اور زنا میں کیا فرق ہے نیز وہ یہ بھی واضح کرے کہ متعہ قرآن کے ازدواجی احکام کے خلاف نہیں ہے اس کے بعد ہم اپنی اس تحریر پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔

 

۸) امانتوں سے مراد وہ امانتیں بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے تفویض کی ہیں اور وہ امانتیں بھی جو لوگ ایک دوسرے کے سپرد کرتے ہیں۔

 

۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عہد سے مراد وہ عہد بھی ہے جو اللہ سے باندھا گیا ہو اور وہ عہد بھی جو لوگوں کے ساتھ کیا گیا ہو۔

 

۱۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نماز کی حفاظت میں پابندی کے ساتھ نماز پڑھنا، وقت پر ادا کرنا، اس طریقہ پر ادا کرنا جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے بتلایا ہے اور اس کے تمام شرائط و آداب کو ملحوظ رکھنا شامل ہے۔ آیت ۲  میں نماز کی اسپرٹ واضح کی گئی تھی اور یہاں نماز کے اہتمام کی تاکید کی گئی ہے۔

 

ان آیات میں اہل ایمان کے اوصاف کا ذکر نماز ہی سے شروع ہوا اور نماز ہی پر ختم ہو رہا ہے۔ یہ گویا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ اوصاف اس نماز کے ثمرات ہیں جو حسن و بخوبی کے ساتھ ادا کی جائے۔

 

۱۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فردوس کا وارث ہونا ہی وہ اصل کامیابی ہے جو اہل ایمان کے حصہ میں آئے گی۔ حدیث میں فردوس کو اعلیٰ درجہ کی جنت سے تعبیر کیا گیا ہے : صحیحین میں ہے :

 

"جب تم اللہ سے جنت مانگو تو فردوس مانگو کیونکہ وہ اعلیٰ اور بہترین درجہ کی جنت ہے اور اسی سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں۔" (ابن کثیر ج ۳ ص ۱۰۸)

 

اور فردوس کے بھی بہت سے باغ ہوں گے جیسا کہ سورۂ کہف آیت ۱۰۷ سے واضح ہے۔

 

۱۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گویا یہ مٹی کا جوہر تھا جس سے پہلے انسان کی تخلیق ہوئی اسی لیے انسان کی طبیعت میں وہ تمام خصوصیات جمع ہو گئی ہیں جو مختلف خطوں میں پائی جاتی ہیں مگر کوئی زمین نرم ہوتی ہے تو کوئی سخت اسی طرح کسی شخص کا مزاج نرم ہوتا ہے تو کسی کا سخت، مٹی کے رنگ مختلف ہوتے ہیں اور انسانوں کے رنگ بھی مختلف، مٹی میں مختلف چیزیں پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے انسان بھی مختلف صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ حجر نوٹ ۲۴) ۔

 

۱۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پہلے انسان کو مٹی سے پیدا کرنے کے بعد اس کی نسل کا سلسلہ نطفہ کے ذریعہ چلایا جو پانی کی ایک بوند ہوتا ہے اس کو رحم جیسی محفوظ جگہ میں ٹھہرانے کا اس نے سامان کیا۔

 

۱۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نطفہ جن مراحل سے گزر کر جنین (Embryo) کی شکل اختیار کر لیتا ہے اس کی تشریح سورۂ حج نوٹ ۸ تا ۱۱ میں گزر چکی۔

 

واضح رہے کہ علقہ (خون کا تھکا) وغیرہ عام مشاہدہ میں آنے والی چیزیں تھیں یعنی اسقاط کی صورت میں لوگ دیکھ لیتے تھے کہ ایک جنین ابتداء میں کیا ہوتا ہے اور بعد میں اس میں کیا کیا تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ قرآن کا استدلال اسی عام مشاہدہ میں آنے والی چیزوں سے ہے۔ رہا موجودہ علم الجنین (Embryology) جس نے حیرت انگیز انکشافات کئے ہیں تو یہ گو یا قرآن کے اشارات کی تفصیل ہے اور اس سے قرآن کی یہ دلیل اور زیادہ روشن ہو گئی ہے کہ یہ مشاہدہ قرآن کی اس خبر کے بارے میں یقین پیدا کرتا ہے کہ انسان کو اس کا رب دوبارہ اٹھائے گا۔

 

۱۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی پھر وہ مرحلہ آتا ہے کہ جنین میں روح پھونک دی جاتی ہے اور وہ سننے اور دیکھنے والا انسان بن جاتا ہے۔ کہاں تو ایک لوتھڑا تھا اور کہاں ایک مکمل انسان بن گیا۔

 

لوتھڑے کو دیکھ کر اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ایک ایسا وجود اختیار کرنے والا ہے جو زمین کی خلافت سے سر فراز ہو گا مگر چند ماہ کے اندر اندر اس میں ایسی زبردست تبدیلی رونما ہو جاتی ہے کہ وہ ایک نئی مخلوق بنکر ابھرتا ہے۔

 

۱۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ انسان کا ان مختلف حالات اور مدارج سے گزر کر انسان بننا ایک خالق کی خلاقی کا بین ثبوت ہے نیز اس سے اس کی اس شان کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ وہ بڑے کمالات والا ہے اور اس کے فیضان کرم کی کوئی انتہا نہیں۔

 

۱۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ موت کے بعد عالم برزخ میں روحوں کے ساتھ جو معاملہ ہوتا ہے اس کا ذکر یہاں نہیں کیا گیا کیونکہ یہاں قیامت کے دن اٹھائے جانے پر استدلال کرنا مقصود ہے جو جسم کے ساتھ ہو گا اور اسی روز وہ اپنے عمل کا پورا پورا بدلہ پائے گا۔

 

۱۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر انسان کا پہلی مرتبہ وجود ہوا تو دوسری مرتبہ کیوں نہیں ہو سکتا؟ اگر انسان کی موجودہ زندگی مختلف مرحلوں سے گزرنے کے بعد عطاء ہوئی ہے اور اس کے بعد بھی وہ مختلف مرحلوں سے گزرتا رہتا ہے تو یہ بات کیسے کہی جا سکتی ہے کہ موت کے بعد کوئی مرحلہ نہیں ہے ؟ زندگی تو ایک جاری رہنے والی چیز ہے مگر لوگ اس مغالطہ میں پڑے ہوئے ہیں کہ موت زندگی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیتی ہے حالانکہ موت محض ایک مرحلہ سے دوسرے مرحلہ میں داخل ہونے کا نام ہے۔

 

۱۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں لفظ طرائق استعمال ہوا ہے جو طریقہ کی جمع ہے جس کے معنی راستوں کے بھی ہیں اور تہ بر تہ ہونے کی بھی۔ عربی میں بولتے ہیں : ریشٌ طرائقٌ وہ پَر جو ایک دوسرے کے اوپر رکھے گئے ہوں۔

 

ریش طرائق اذاکان بعضہ فوق بعض (الصحاح للجوہری ج۴ ص ۱۵۱۶) اور قرآن کریم میں دوسری جگہ سَبْع سمٰوٰت طباقاً (تہ بر تہ سات آسمان سورۂ ملک آیت ۳ّ) اس لیے یہاں بھی تہ بر تہ کے معنی لینا ہی مناسب ہے۔

 

بعض مفسرین نے سات سیاروں کے مدار مراد لیے ہیں مگر اس کی تائید قرآن کی کسی آیت سے نہیں ہوتی۔

 

۲۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی سات آسمانوں سمیت پوری کائنات میں جو مخلوق بھی ہے اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔

 

۲۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پانی کے بغیر زندگی ممکن نہیں اس لیے اللہ تعالیٰ بارش کے ذریعہ پانی کے خزانے انڈیلتا رہتا ہے جو زمین میں جمع ہو کر انسان کے کام آتا ہے۔ اگر اللہ چاہے تو وہ پانی کو غائب کر سکتا ہے لہٰذا انسان کو چاہیے کہ اس کا شکر ادا کرے اور اس سے ڈرے۔

 

۲۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد زیتون کا درخت ہے جو عرب سے قریبی ملک سیناء میں کوہ طور کے پاس پیدا ہوتا ہے۔ اس کا پھل زیتون کے تیل کے لیے مشہور ہے۔ یہ تیل نہایت اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے اور اس کو سالن کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

 

۲۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کے شکم کی آلائشوں کے درمیان دودھ جیسی خالص چیز تیار کر کے ہم تمہیں پلاتے ہیں۔

 

۲۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان مویشیوں کا گوشت تمہارے کھانے کے کام آتا ہے۔

 

۲۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب اللہ کی نعمتیں اور اس کے احسانات ہیں اور ان کے ذکر سے مقصود اللہ کے رب ہونے کا احساس پیدا کرنا اور موت کے بعد اٹھائے جانے پر استدلال کرنا ہے۔

 

۲۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت نوح کی سرگزشت سورۂ اعراف اور سورۂ یونس کے علاوہ سورۂ ہود میں تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ اعراف نوٹ ۹۴ تا ۱۰۴، سورہ یونس نوٹ ۱۰۸ تا ۱۱۳ اور سورۂ ہود نوٹ ۳۸ تا ۷۳۔

 

۲۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کیا تم اس بات سے ڈرتے نہیں کہ اگر تم نے اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کی تو وہ تمہیں سخت سزا دے کیونکہ عبادت اللہ ہی کا حق ہے اور لائق عبادت صرف اللہ کی ذات ہے۔

 

۲۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نوح کی قوم دنیا کی پہلی قوم ہے جس کی طرف پہلا رسول بھیجا گیا تھا اس نے اس جس طرح رسول کا انکار کیا اور اس انکار کے لیے جن غلط باتوں کا سہارا لیا اسی طرح بعد کی قومیں بھی وہی راگ الاپتی رہی ہیں۔ رسالت کا انکار کرنے والوں نے نہ پہلے کوئی معقول بات کہی اور نہ اب کہہ رہے ہیں۔

 

۲۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب ان پر میری دعوت واضح ہو گئی اور حجت قائم ہو گئی اور وہ اپنے انکار کی روش سے باز آنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو اب تو میری اس طرح مدد فرما کہ حق نافذ ہو جائے اور باطل مٹ جائے۔

 

۳۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت نوح کی دعا قبول ہوئی اور قوم نوح کی ہلاکت کا فیصلہ ہو گیا۔ حضرت نوح کو مطلع کر دیا گیا کہ ان کی قوم پر عذاب طوفان کی شکل میں آئے گا اور تمہاری اور اہل ایمان کی نجات ایک کشتی کے ذریعہ ہو گی لہٰذا تم کشتی تیار کرو۔

 

۳۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ ہود نوٹ ۵۶۔

 

۳۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی کسی ایسے شخص کو نہیں جو کافر ہو اور اس بنا پر اس کی ہلاکت کا فیصلہ ہو چکا ہو خواہ وہ تمہارے گھر والوں ہی میں سے کیوں نہ ہو۔

 

۳۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نوح کی قوم مشرک، کافر اور مفسد قوم تھی۔ اسی مفہوم میں اسے ظالم قوم کہا گیا ہے ایسی سوسائٹی اور ایسے ماحول سے نجات اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل تھا کیونکہ اب وہ ایک پاکیزہ ماحول میں اور صاف ستھری ہوا میں زندگی بسر کر سکتے تھے اس لیے اس فضل پر اللہ کا شکر ادا کرنے کا حکم ہوا۔

 

۳۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی زمین پر میرا قدم رکھنا باعث خیر ہو۔ جو کام بھی میری رہنمائی میں انجام پائے وہ خیر کا کام ہو اور میرے وجود سے زمین میں خیر ہی خیر پھیلے۔

 

۳۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس توقع کا اظہار ہے کہ جب تو اتارے گا تو اپنی عنایتوں اور نوازشوں کے ساتھ اتارے گا۔

 

۳۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قوموں اور ملتوں کی تاریخ کا یہ اولین باب اپنے اندر بڑے سبق رکھتا ہے مثلاً یہ کہ توحید حق ہے اور شرک باطل ، خدا کی طرف سے ہدایت انسان کو رسول کے واسطہ سے ملتی ہے جو انسان ہی ہوتا ہے ، رسول کی مخالفت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دنیا میں سخت سزا دیتا ہے اور اپنے رسول اور اہل ایمان کی نجات کا سامان کرتا ہے۔ جب خدا کا فیصلہ نافذ ہوتا ہے تو حق باقی رہتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے۔

 

۳۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ دنیا آزمائش ہی کے لیے بنائی گئی ہے اس لیے یہاں کی زندگی آزمائش ہی کی زندگی ہو گی۔ وحی اور رسالت کا سلسلہ بھی آزمائش ہی کے سلسلہ کی کڑی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ یہ دیکھے کہ کون اپنی عقل سے کام لیکر اور اپنی بصیرت سے اس کے رسول کو پہچانتا ہے اور اس کے ذریعہ دی جانے والی ہدایت کو قبول کرتا ہے اور کون ہے جو اندھا بنا رہتا ہے۔

 

۳۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن نے یہ صراحت نہیں کی کہ یہ کون سی قوم تھی۔ ہو سکتا ہے یہ کوئی ایسی قوم ہو جس کے نام سے لوگ آشنا نہ ہوں مگر تذکیر کے لیے اس کا قصہ بیان کیا ہو۔

 

۳۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ انسان کے دوبارہ اٹھائے جانے کو بعید از عقل خیال کرتے تھے اور موجودہ دور کا انسان بھی اسے ایک انہونی بات خیال کرتا ہے۔ اس کے نزدیک یہ کوئی سنجیدہ بات ہی نہیں ہے کہ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہو حالانکہ بہت سی باتیں جو پہلے بعید از عقل تھیں اب قرینِ عقل بن گئی ہیں مگر دوسری زندگی کے منکرین کی ذہنیت میں کوئی فرق واقع نہیں ہوا۔

 

۴۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آج کی مادہ پرست دنیا بھی ان گمراہ قوموں ہی کے نقش قدم پر ہے۔ انہوں نے دنیا کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا ہے ، اسی کے مسائل میں وہ گم ہیں اور نہیں چاہتے کہ وہ نقد فائدے انہیں حاصل ہو رہے ہیں اس میں کوئی کمی ہو۔

 

۴۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی رسول نے بالآخر دعا کی۔

 

۴۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی بالآخر وہ عذاب کی گرفت میں آ گئے۔ یہ عذاب جس شکل میں بھی تھا ایک ہولناک آواز کے ساتھ ان پر ٹوٹ پڑا تھا اور ساتھ ہی وہ حق بھی نمودار ہوا تھا جس کا وعدہ رسول نے کیا تھا۔

 

۴۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جب دنیا میں قوموں کی کثرت ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے بھی پے درپے اپنے رسول بھیجے۔ اس وقت دنیا بین الاقوامی نہیں تھی اور نہ ایسے وسائل موجود تھے کہ ایک قوم میں رسول کی بعثت دوسری قوموں تک پیغام رسانی کا ذریعہ بن سکے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہر قوم میں رسول بھیجے۔ ان سب رسولوں کے اور ان کی قوموں کے نام قرآن میں بیان نہیں ہوئے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ جن رسولوں کے ناموں کا قرآن میں ذکر ہوا ہے ان کے علاوہ بھی بہ کثرت رسول مختلف قوموں کی طرف مختلف زمانوں میں بھیجے گئے تھے۔

 

۴۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کا قصہ تفصیل کے ساتھ سورۂ طٰہٰ میں گزر چکا۔

 

نشانیوں سے مراد معجزے ہیں جن میں عصا کے سانپ بن جانے کا معجزہ سب سے بڑا معجزہ تھا۔

 

کھلی حجت سے مراد وہ حجت ہے جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کی دعوت نیز ان کے گفتار و کردار میں بالکل نمایاں تھی اور ان کی شخصیتیں اس بات کا مظہر تھیں کہ وہ اللہ کی طرف سے مامور ہیں اور انہیں اس کی تائید حاصل ہے۔ ایک نبی کی شخصیت حجت ہی ہوتی ہے خواہ وہ کوئی معجزہ دکھائے یا نہ دکھائے۔

 

۴۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ متن میں قَومَہُمَا لَنا عابُدوْنَ (ان کی قوم ہماری عابد ہے) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ یہاں عابدون کے معنی عبادت کرنے والے کے نہیں بلکہ غلامی کرنے والے کے ہیں چنانچہ حضرت موسیٰ نے ایک موقع پر فرعون سے کہا تھا: وَ تِلْکَ نِعْمَۃٌ تُمُنُّہَا عَلَیِّ اَنْ عَبَّدتَّ بَنِیْ اِسْرَائِیلَ (شعراء:۲۲) "یہی تیرا وہ احسان ہے جو تو جتا رہا ہے اس بات پر کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا۔"

 

اس آیت میں عَبَّدتَّ کا لفظ غلام بنا لینے کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا تھا۔ ان کی اس کمتر حیثیت کا ذکر کر کے فرعون اور اس کی حکومت کے ذمہ داروں نے لوگوں کو شہ دی کہ موسیٰ اور ہارون کو اللہ کا رسول تسلیم کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ان کو ہم پر برتری حاصل ہو جائے جبکہ وہ جس قوم کے قائد ہیں وہ ہماری غلامی کر رہی ہے۔ تو کیا اب ہم اپنے غلاموں کے دین کو قبول کر لیں اور ان کے قائدوں کو اپنا قائد مان لیں ! یہی وہ تکبر تھا اور یہی وہ جاہلی عصبیت تھی جس نے فرعون اور اس کی قوم کو قبول حق سے روکا۔

 

موجودہ دور کے ایک مشہور مفسر نے لَنَا عَابدُوْنَ کے الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ جو شخص کسی کی اطاعت کرتا ہے وہ گویا اس کی عبادت کرتا ہے لیکن یہ بات اسی صورت میں صحیح ہو سکتی ہے جبکہ آدمی یہ سمجھتے ہوئے کسی کی اطاعت کر ے کہ اس کو علی الاطلاق حکم دینے کا اختیار ہے یا اس کی اطاعت کا خدا کی اطاعت کے ماتحت ہونا ضروری نہیں اسی لیے شیطان کی اندھی تقلید کو اس کی عبادت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ مگر بنی اسرائیل فرعون کی اطاعت مجبوراً کر رہے تھے اس لیے بھی کہ اس کا اقتدار ان پر قائم تھا اور اس لیے بھی کہ فرعون نے ان کو غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر رکھا تھا۔ ایسی صورت میں بنی اسرائیل کے بارے میں یہ کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ وہ فرعون کی عبادت کر رہے تھے اور فرعون نے اسی معنی میں کہا کہ یہ قوم ہماری عابد ہے اور اگر بالفرض فرعون نے یہ بات اسی مفہوم میں کہی تھی تو اس سے یہ بات کہاں ثابت ہوتی ہے کہ اس کا یہ قول صحیح تھا۔ اس نے حضرت موسیٰ کو دیوانہ بھی کہا تھا تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کی یہ بات صحیح تھی۔ اگر نہیں تو پھر فرعون کے اس قول کو کہ یہ قوم ہماری "عابد" ہے عبادت کی شرعی اصطلاح کا مفہوم متعین کرنے کے لیے کیسے دلیل بنایا جا سکتا ہے ؟

 

۴۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد تورات ہے جو حضرت موسیٰؑ کے بعد بھی طویل عرصے تک لوگوں کے لئے اللہ کی ہدایت معلوم کرنے کا ذریعہ بنی رہی۔

 

۴۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ کا ذکر ان کا نام لیے بغیر ان کی ابنیت سے کیا گیا جس سے ایک تو اس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ وہ بغیر باپ کے اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے اور دوسرے یہ کہ وہ خدا کے نہیں بلکہ مریم کے بیٹے تھے۔

 

۴۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم دونوں مل کر اللہ کی ایک نشانی تھے کیونکہ حضرت مریم بغیر شوہر کے حاملہ ہوئی تھیں اور حضرت عیسیٰ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔

 

۴۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حضرت مریم کو جب درد زہ اٹھا تو انہوں نے بیت المقدس سے دور کھجور کے تنہ کے پاس پناہ لی تھی تاکہ وہ پوشیدہ رہیں اور لوگوں کے طعن و تشنیع سے بچیں۔ یہ جگہ بڑی پرسکون تھی اور یہ ایک ٹیلہ تھا جس کے نیچے اللہ نے چشمہ جاری کر دیا تھا (دیکھئے سورۂ مریم آیت ۲۴) اس آیت کا اشارہ اسی مقام کی طرف ہے جو ان پریشان کن حالات میں اللہ کے فضل خاص سے ان کے لیے سکون و راحت کا ذریعہ بنا۔ بائبل میں حضرت عیسیٰ کی پیدائش کا مقام بیت لحم بتلایا گیا ہے۔

 

۵۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ حکم ہر رسول کو دیا گیا تھا اس لیے اس کو اس اسلوب میں بیان کیا گیا ہے کہ گویا تمام رسول مجتمع ہیں اور ان سے بیک وقت خطاب کر کے یہ ہدایت دی جا رہی ہے۔ یہ بلاغت کا اسلوب ہے۔

 

پاک چیزیں کھانے کے مفہوم میں دو باتیں شامل ہیں ایک یہ کہ وہی چیزیں کھائی جائیں جو شرعاً پاک ہیں۔ دوسرے یہ کہ ان کو جائز ذرائع سے حاصل کیا گیا ہو۔

 

یہ حکم جب رسولوں کو دیا گیا تو ان کے پیروؤں پر آپ سے آپ لازم آتا ہے کہ اس کی اتباع کریں۔ حدیث میں اس آیت کی بہترین تشریح بیان ہوئی ہے :

 

اَیُّہا النَّاسُ اِنَّ اللّٰہَ طَیِّبٌ لاَ یَقْبَلُ اِلاَّطَیِّباً وَاَنَّ اللّٰہ اَمَرَالمُومنینَ بِمَا اَمَرَبِہِ المرسلین فَقَالَ یَا ایَّہَاالرُّسُلَ کُلُوْامِنَ الطَّیِّبات وَاعْمَلُوْاصالحًا اِنّی بمَا تعمَلونَ علیمٌ وقالَ یَااَیُّہا الذِّینَ آمَنُوْاکلوا مِنْ طَیّبات مَارَرَتْنَاکمْ ثُمَّ ذَکَرَ الرجُلَ یطیل السَّفَرَ اشعَث اَغْبَرَ یَمُد یَدَیْہ الی السَّمَاءِ یاربِّ یاربِّ ومطعمہٌ حرام و مشربہ "حضرت ابوہریرہؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیزوں ہی کو قبول فرماتا ہے۔ اس نے مؤمنوں کو اس بات کا حکم دیا ہے جس کا حکم اس نے رسولوں کو دیا ہے اس کا ارشاد ہے یٰا اَیُہَا الرُّسُلُ کلوا مِنَ الطیّباتِ وَاعْمَلُوْاصالحاً اِنّی بمَاتَعمَلُونَ علیمٌ (المومنون۵) اے رسولو! پاک چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو، تم جو کچھ کرتے ہو اس کو میں جانتا ہوں۔ "نیز فرمایا یٰایُّہَالَّذِیْنَ آمَنُوا کُلُوْامِنْ طَیِّبَاتِ مَاَرزقناکم (بقرہ۔ ۲۱)" اے ایمان والو کھاؤ پاکیزہ چیزیں جو ہم نے تمہیں دی ہیں۔" راوی کہتا ہے پھر آپ نے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا جو (حج کے لیے) طویل سفر کرتا ہے ، جس کے بال (سفر کی وجہ سے) پراگندہ اور غبار آلود ہو رہے ہیں۔ وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر دعا کرتا ہے "اے میرے رب! اے میرے رب! حالانکہ اس کا کھنا، اس کا پینا اور اس کا لباس سب حرام کا ہے اور حرام کھا کر وہ پلا ہے پھر اس کی دعا کس طرح قبول ہو گی؟" (مسلم کتاب الزکوٰۃ)

 

آیت سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ پاک چیزیں کھانے میں اور نیک عمل کرنے میں گہرا ربط ہے چنانچہ صالح غذا صالح اعمال کی پرورش کرتی ہے۔

 

۵۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انبیاء نوٹ ۱۳۳۔

 

۵۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہی بات سورۂ انبیاء آیت ۹۲ میں بھی بیان ہوئی ہے البتہ وہاں فَا تَّقُوْنِ (تو مجھ سے ڈرو) کی جگہ فَاعْبدُوْنِ (تو میری عبادت کرو) ارشاد ہوا ہے۔ ہے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خدا کا خوف اور اس کی عبادت لازم و ملزوم ہیں۔ جو خدا سے ڈرتا ہو گا وہ لازماً اس کی اور صرف اس کی عبادت کرے گا۔ خدائے واحد کی عبادت نہ کرنا اس سے بے خوف ہو جانا ہے۔

 

۵۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انبیاء نوٹ ۱۳۵۔

 

۵۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ہر گروہ اپنے اپنے مذہب کو لے کر بیٹھا ہے اور اپنی مذہب پرستی میں ایسا گم ہے کہ ہوش کے ناخن لینے کے لیے تیار نہیں۔ ہر فرقہ اپنے مذہب کے بارے میں ایسی عصبیت کا شکار ہے کہ وہ اپنے موقف پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہی نہیں کرتا۔ بڑے بڑے "دانشوروں"  کا حال یہ ہے کہ جب مذہب کا معاملہ آتا ہے تو ان کی عقل ماری جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ وہ مذہبی رسوم کے طور پر صریح بے ہودہ کام کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ ان کو جتنی محبت اپنے مذہب سے ہوتی ہے اتنی محبت اپنے خدا سے نہیں ہوتی حالانکہ مذاہب کی ساری ہماہمی خدا ہی کے نام پر ہے۔

 

۵۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو لوگ اپنی غفلت ہی میں ڈوبے رہنا چاہتے ہیں اور داعی کی بات سننا نہیں چاہتے ان کو ان کے حال پر چھوڑ دینا ہی مناسب ہے۔ عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا کہ جس چیز کو وہ ناؤ سمجھ بیٹھے تھے وہ کاغذ کی تھی۔

 

۵۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی وہ اس خام خیالی میں مبتلا ہیں کہ اگر ہم کسی باطل مذہب کے پیرو ہوتے تو مال و اولاد کی جو فراوانی ہمیں حاصل ہے وہ نہ ہوتی حالانکہ ان چیزوں کا کسی کو عطا ء ہونا اس کے بر سر حق ہونے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ ان چیزوں کے ذریعہ آزمائش مقصود ہوتی ہے مگر یہ لوگ اس کا الٹا مطلب لے لیتے ہیں۔

 

۵۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ہے خدا خوفی کا معیار مطلوب کہ آدمی نہ صرف اس سے ڈرے بلکہ اس کا خوف اس پر اس طرح چھا جائے کہ اس کی ہیبت و جلال سے وہ کانپ اٹھے اور اس کے عذاب کے تصور سے اس پر لرزہ طاری ہو۔ یہ ایک مؤمن کی اہم ترین صفت ہے اور یہ کوئی منفی چیز نہیں بلکہ زبردست طاقت پیدا کرنے والی چیز ہے۔ ایسی طاقت کہ پھر دنیا کی کوئی طاقت اسے جھکا نہیں سکتی اور فرعون کو بھی منہ کی کھانا پڑتی ہے۔

 

۵۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جو صدقہ و خیرات بھی وہ کرتے ہیں اس پر اطمینان کا سانس نہیں لیتے کہ ہم اپنی ذمہ داری سے بری ہو گئے بلکہ یہ سب کچھ کرتے ہوئے بھی وہ اپنے رب کے حضور جوابدہی کے تصور سے ڈرتے رہتے ہیں کہ معلوم نہیں یہ عمل اللہ کے ہاں خالص ثابت ہو گا یا نہیں اور وہ اپنے قصوروں پر گرفت سے بچ سکیں گے یا نہیں اور وہ اپنے قصوروں پر گرفت سے بچ سکیں گے یا نہیں۔ ان کے دل کی یہ کیفیت صدقہ و خیرات ہی کے معاملہ میں نہیں ہوتی بلکہ نیکی کے دوسرے کاموں میں بھی ہوتی ہے چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ : حضرت عائشہ کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو شراب پیتے اور چوری کرتے ہیں ؟ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لَا یَا بنتَ الصِدّیقِ وَ الکنّہُم الَّذِینَ یَصُومُونَ ویُصَلّونَ ویَتصَدَّقُونَ وَہُم یَخَافُوْنَ اَنْ لاَ تُقْبَلَ مِنہُمْ (ترمذی۔ کتاب التفسیر) "نہیں اے بنت صدیق!اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو روزے رکھتے ہیں ، نماز پڑھتے ہیں اور صدقہ کرتے ہیں اس کے باوجود ڈرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ یہ قبول نہ کیا جائے۔"

 

آیت میں خاص طور سے صدقہ کے معاملہ میں اس قلبی کیفیت کا ذکر ہوا ہے کیونکہ صدقہ کرنے والا ریا، نمائش اور فخر کے فتنہ کا بآسانی شکار ہو جاتا ہے۔

 

۵۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان اوصاف کے لوگ نہ صرف خیر کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں بلکہ دوسروں کے مقابلہ میں تیز دوڑ کر ان کو پا لینے کی کوشش کرتے ہیں گویا بازی جیتنے کے لیے اصل میدان نیکی کا ہے نہ کہ ما دی ترقی اور کھیل گود وغیرہ کا۔

 

۶۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بقرہ نوٹ ۴۸۲۔

 

۶۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتاب سے مراد انسان کا نامۂ اعمال ہے اور ینطقُ (وہ بولتا ہے) کا مطلب یہ ہے کہ وہ بولتا ریکارڈ ہو گا۔

 

۶۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کو ان کاموں سے دلچسپی نہیں جو اخلاقی لحاظ سے قابل قدر، خدا کے ہاں مقبول اور فلاحِ آخرت کے ضامن ہیں بلکہ ان کو کچھ دوسرے کاموں ہی سے دلچسپی ہے۔ یہ تو کافروں کا حال بیان ہوا ہے مگر موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا حال بھی عام طور سے عجیب ہے۔ کتنے ہی لوگوں کو میچ دیکھنے سے دلچسپی ہے لیکن نماز سے نہیں جبکہ انہیں نماز قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے نہ کہ میچ دیکھنے کا۔ واہیات فلمیں دیکھنے میں وہ پوری رات گزار دیتے ہیں یہاں تک کہ عین تہجد کے وقت جو دعا اور عبادت کی مقبولیت کا وقت ہے ویڈیو دیکھنے میں مشغول رہتے ہیں۔ ان کا دل درگاہوں میں اٹکا رہتا ہے جبکہ مؤمن کا دل مسجد میں۔ یہ بدعات کا شاندار طریقہ پر اہتمام کریں گے مثلاً محرم کا شربت، کھچڑا ، نیاز ، گیارہویں ، مولود اور میلاد النبی کا جلوس وغیرہ لیکن سنتِ نبوی سے کوسوں دور رہیں گے۔ وہ فضول خرچی کریں گے اور نمائشی کاموں میں اپنی دولت لٹائیں گے لیکن بندوں کے حقوق ادا کرنے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے جی چرائیں گے۔ دنیا بھر کی کتابوں کو وہ پڑھیں گے مگر کتابِ الٰہی کے مطالعہ کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہو گا۔ ان کرتوتوں کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ آخرت کی فلاح ان ہی کے لیے ہے !

 

۶۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خوش حال لوگوں کو عذاب میں پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ کافر قوم پر جو عذاب آئے گا اس میں خوشحال لوگ نشانہ پر ہوں گے کیونکہ سوسائٹی میں فساد کو پھیلانے والے یہی لوگ تھے وہ داد عیش دیتے رہے اور اپنی دولت کو حق کی راہ سے روکنے کے لیے استعمال کرتے رہے۔ (ملاحظہ ہو سورۂ بنی اسرائیل آیت ۱۶ نوٹ ۲۰) ۔

 

۶۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے مشرکین مکہ کی اس حرکت کی طرف کہ وہ رات میں قصہ گوئی کی مجلسیں جما کر غرورِ نفس کے ساتھ قرآن کو جھٹلاتے ہیں اور اس کے خلاف خوب بکواس کرتے ہیں۔

 

۶۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اگر وہ اس کلام پر غور کرتے تو ان پر یہ حقیقت کھل جاتی کہ یہ کلام الٰہی ہے اور پھر وہ اس کی قدر کرتے مگر انہوں نے غور و فکر کے بغیر ایک متعصبانہ رائے اس کے بارے میں قائم کی ہے۔

 

یہ آیت بھی قرآن پر غور و فکر کی دعوت دیتی ہے اور یہ دعوت منکرین کو دی گئی ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن عوام و خواص سب کے سمجھنے کے لیے نازل ہوا ہے اور وہ سب کو دعوتِ فکر دیتا ہے۔ لہٰذا یہ خیال کرنا صحیح نہیں کہ یہ کتاب صرف علماء کے سمجھنے کے لیے ہے۔ موجودہ زمانہ میں ترجموں کی مدد سے قرآن کو سمجھنے کی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ آدمی اس کا مطالعہ نہ کرے۔ جو لوگ یہ کہ کر کہ قرآن کو سمجھنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں عام مسلمانوں نیز غیر مسلموں کو اس سے دور رکھنا چاہتے ہیں وہ اپنی جہالت کا ثبوت دیتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ قرآن سے ان کا راست تعلق قائم ہو جائے۔

 

۶۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کی طرف رسول کی بعثت کوئی ایسا واقعہ نہیں جو تاریخ میں پہلی مرتبہ پیش آیا ہو اور ان سے پہلے کے لوگ اس سے نا آشنا رہے ہوں۔ ابراہیم و اسمٰعیل رسول ہی تھے جو ان (عربوں) کے جد اعلیٰ ہیں اور وحی الٰہی کی ہدایت ہی پر انہوں خانۂ کعبہ کی تعمیر کی تھی اور حج کے منا سک مقرر کئے تھے۔ پھر وحی اور رسالت کو انوکھی بات سمجھنے کی وجہ؟

 

۶۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ بات بھی نہیں ہے کہ ان کو اپنے رسول کے پہچاننے میں دشواری ہو رہی ہے کیونکہ رسول کی شخصیت کا ان کو اچھی طرح تجربہ ہو چکا ہے اور اس کی صداقت ان پر اچھی طرح عیاں ہے اور اس کی شخصیت میں رسالت کی نشانیاں اس طرح نمایاں ہیں کہ کسی طرح شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

 

۶۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ حجر نوٹ ۸۔

 

۶۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے انکار کی اصل وجہ یہی ہے کہ حق ان کو پسند نہیں کیونکہ وہ ان کی خواہشات کے مطابق نہیں۔

 

۷۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کائنات کا نظام حق کی بنیاد پر چل رہا ہے اگر وہ لوگوں کی خواہشات کی بنیاد پر چلنے لگے تو درہم برہم ہو کر رہ جائے کیونکہ لوگوں کی خواہشات غلط بھی ہوتی ہیں تناقض (متضاد) بھی اور خلاف عدل بھی۔ اس دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص یا کوئی گروہ جو برسر اقتدار آتا ہے کامیابی کے ساتھ حکومت نہیں چلا پاتا کیونکہ مختلف خواہشات اور متضاد آراء حق و عدل کی جگہ لے لیتی ہیں نتیجہ یہ کہ سوسائٹی اور نظام حکومت میں بگاڑ ہی بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے۔ اس لیے انسان کو حقیقت پسند بننا چاہیے اور حقیقت کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی خواہشات کو حق کا تابع بنائے نہ کہ اس بات کا طالب ہو کہ حق اس کی خواہشات سے مطابقت پیدا کرے۔ مشرکین حق کو شرک کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ شرک باطل خواہشات کے سوا کچھ بھی نہیں اور توحید بالکل حق اور کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔

 

۷۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی قرآن ان کے لیے سر تا سر یاددہانی اور نصیحت ہے جو ان ہی کی خیر خواہی کے لیے ہے مگر جو چیز ان کی اپنی خیر خواہی کے لیے نازل ہوئی ہے اسی سے وہ منہ موڑ رہے ہیں۔

 

۷۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی (اے پیغمبرّ تم ان سے کوئی مال تو طلب کر نہیں رہے ہو کہ وہ یہ شبہ کرنے لگیں کہ یہ شخص کاہنوں (نجومیوںّ کی طرح مال بٹورنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہا ہے۔

 

۷۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو شخص بھی آخرت پر ایمان نہیں رکھتا وہ گمراہ ہے۔ آدمی کے راہِ ہدایت کو پانے کے لیے ضروری ہے کہ وہ آخرت پر ایمان لائے اور آخرت پر ایمان لانے میں قیامت کے دن اٹھایا جانا، اللہ کے حضور پیشی اور اعمال کی جزا و سزا سب پر ایمان لانا شامل ہے۔

 

۷۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی ان کی تکلیف کو اگر ہم دور کریں تو بجائے اس کے کہ وہ ہمارے شکر گزار ہوں سرکشی میں اور زیادہ بڑھتے چلے جائیں گے۔

 

اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ اس وقت کفار مکہ کسی تکلیف میں مبتلا کر دئے گئے تھے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تکلیف بھوک مری کی تھی۔

 

۷۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مراد وہ مصیبت او ر تکلیف ہے جس میں ایک نبی کی بعثت کے بعد اس کی کافر قوم کو اس لیے مبتلا کیا جاتا ہے تاکہ وہ ہوش میں آ جائے۔ قرآن میں یہ سنت متعدد مقامات پر بیان ہوئی ہے مثلاً: وَمَا ارْسَلْنَا فِی قَرْیَۃ مِنْ نَبیُ اِلاّ اَخَذْنَا اَہْلَہَا باً لبَا سَآءُ الضَرَّئِ لَعَلّہُمْ یَضَّرْعُوْنَ (اعراف:۹۴) "ور ہم نے جس بستی میں بھی کوئی نبی بھیجا اس کے باشندوں کو تنگی اور تکلیف میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کریں۔"

 

اور ایک جگہ یہ تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ انہیں برے عذاب سے پہلے دنیوی عذاب کی گرفت میں لے لیں گے تاکہ وہ اللہ کی طرف رجوع ہوں۔ حم السجدہ کی آیت ہے۔ وَلَنُذیقنہُمْ من الْعَذَابالْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاکْبَرِلَعَلَّہُمْ یَرجعُوْنَ "ہم انہیں عذابِ اکبر سے پہلے عذاب ادنیٰ کا مزا چکھائیں گے تاکہ وہ رجوع کریں۔"

 

کفار مکہ بھی اس سنت الٰہی کی زد میں آ گئے تھے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں قحط اور بھوک کی شدید تکلیف سے گزرنا پڑا۔

 

۷۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ "عذاب ادنی"  تو ان کے سنبھلنے کے لیے ہے لیکن اگر انہوں نے اس سے کوئی سبق نہیں لیا تو وہ پھر تباہ کن عذاب کی گرفت میں آ جائیں گے جو ان کے لیے دائمی محرومی اور مایوسی کا باعث ہو گا۔

 

۷۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ نحل نوٹ ۱۱۵۔

 

۷۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر تم اپنی عقل کا صحیح استعمال کرو تو توحید اور آخرت پر ایمان لے آؤ جس کی دعوت قرآن پیش کر رہا ہے۔

 

۷۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس میں یہ اعتراف موجود ہے کہ دوبارہ اٹھائے جانے کی بات ایسی نہیں جس سے ہم آشنا نہ ہوں اور اب پہلی مرتبہ ہمارے سامنے آئی ہوئی ہو بلکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ بات پہلے سے چلی آ رہی ہے اور یہ وعدہ ہمارے باپ دادا سے بھی کیا گیا تھا۔ ظاہر ہے یہ وعدہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعٰیل سے نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا رہا ہے۔

 

۸۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مشرکین مکہ کے اس جواب سے واضح ہوتا ہے کہ سات آسمانوں اور عرش عظیم کے وجود کے نہ صرف وہ قائل تھے بلکہ ان کا رب اللہ ہی کو مانتے تھے اور یہ حضرت ابراہیم اور اسمٰعیل ہی کی تعلیم کا اثر ہو سکتا ہے۔ اس بنیا دی حقیقت کو ماننے کے باوجود وہ شرک کے قائل تھے۔ یہ ان کے عقیدہ کا صریح تضاد تھا مگر وہ اس پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں تھے اور عام طور سے یہی ہوتا ہے کہ مذہب کے معاملہ میں انسان متضاد باتوں کا قائل ہو جاتا ہے حالانکہ عقل سلیم متضاد باتوں کو قبول کرنے سے انکار کرتی ہے۔

 

۸۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ حقیقتیں جن کا یہ انکار نہیں کر سکتے توحید کا واضح ثبوت ہیں نیز انسان کے دوبارہ اٹھائے جانے کے لیے دلیل بھی۔ واضح ہوا کہ قرآن کی دعوت بالکل حق ہے اور اس سے انکار کرنے والے بالکل جھوٹے ہیں۔

 

۸۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس سے مشرکین کے اس خیال کی تردید ہوتی ہے کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں۔ خدا نے جب کسی کو بیٹا نہیں بنایا تو بیٹیاں بنانے کا کیا سوال پیدا ہوتا ہے۔ نیز اس سے عیسائیوں کے بھی عقیدہ کی تردید ہوتی ہے کہ مسیح اللہ کے بیٹے ہیں۔

 

۸۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بنی اسرائیل نوٹ ۵۷۔

 

۸۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ دعا اس لیے سکھائی گئی تاکہ آپ اللہ کے عذاب سے خائف رہیں کہ یہی شانِ بندگی ہے۔

 

۸۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ لوگ تمہارا جو مذاق اڑاتے ہیں اس کا کوئی اثر قبول نہ کرو۔ ان کے شر کو زیر کرنے کا بہتر سے بہتر طریقہ اختیار کرو۔ ظاہر ہے یہ طریقہ اصلاحی اور تعمیری ہی ہو سکتا ہے۔

 

۸۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ حق کی مخالفت کا یہ طوفان جو اٹھ کھڑا ہوا ہے وہ شیطان کی شر انگیزیوں کا نتیجہ ہے۔ وہ دشمن حق بھی ہے اور دشمن انسان بھی اس لیے وہ انسان کو حق کے خلاف اکستا ہے اور جو لوگ اس کا اثر قبول کرتے ہیں وہ (His Master’s Voice) بن جاتے ہیں یعنی اپنے اس سرپرست کی بولی بولنے لگتے ہیں۔ ان کے وہ اعتراضات جو قرآن ، پیغمبر اور دوسری زندگی کے بارے میں نقل ہوئے شیطان ہی کے اشاروں پر کئے گئے ہیں جب کہ وحی الٰہی نے انسان کو اس بات سے خبردار کر دیا ہے کہ شیطان اس کا ازلی دشمن ہے لہٰذا جو شخص شیطان کے شر سے محفوظ رہنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اس سے چوکنا رہے نیز اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے۔

 

۸۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ اس بات کی دعا ہے کہ شیاطین میرے قریب بھی نہ پھٹکیں۔ شیطانوں سے شدید نفرت ہی ان کے شر اور ان کے وسوسوں سے بچنے کا سبب بنتی ہے۔

 

رَبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ہَمَزَاَتِ الشّیَاطِیْنِ وَاَعُوْذُبِکَ رَبّ اَنْ یّحْضُرُوْنِ۔ "اے میرے رب میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اے میرے رب میں اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آ موجود ہوں۔

 

اگر ایک مؤمن پورے شعور کے ساتھ یہ کلمات ادا کرتا ہے تو گویا وہ اپنے کو اللہ کی حفاظت میں دے دیتا ہے اور جو شخص اپنے کو اللہ کی حفاظت میں دیدے کوئی وجہ نہیں کہ اللہ اس کو اپنی حفاظت میں نہ لے۔

 

اس ہدایت سے وہ لوگ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے جو شیطان کے وجود ہی کے قائل نہیں ہیں۔ ان مادہ پرستوں پر شیطان کا جادو ایسا چل گیا ہے کہ ان کا اپنا وجود ہی سب کچھ ہے اب ان کو کیا ضرورت کہ شیطان کے وجود کو تسلیم کر لیں !

 

۸۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی یہ ایک خالی خولی بات ہے ورنہ اگر اس کو دنیا میں واپس بھیج دیا جائے تو وہاں پھر وہ وہی کام کرے گا جو پہلے کرتا رہا ہے۔ مزید تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ انعام نوٹ ۴۸۔

 

۸۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ برزخ کے معنی روک اور آڑ کے ہیں۔ موت کے بعد روحیں جہاں منتقل ہوتی ہیں وہ دنیا اور آخرت کے درمیان کا عالم ہے جو ایک روک اور پردہ ہے اس لیے اسے برزخ کہتے ہیں اور حدیث میں ان احوال کو جو موت کے بعد روح پر گزرتے ہیں قبر کے احوال سے تعبیر کیا گیا ہے جو انسانی نفسیات کے لحاظ سے ایک موثر تعبیر ہے ورنہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو قبر میں دفن ہوا اس پر تو یہ احوال گزرے ہیں اور جو قبر میں دفن ہی نہیں ہوا بلکہ جس کی لاش جلائی گئی یا کسی اور طریقہ سے ضائع کر دی گئی یا ممی بنا کر دنیا میں محفوظ کر دی گئی اس پر یہ احوال نہیں گزرتے۔

 

مرنے کے بعد انسان کو قیامت کے دن تک عالم برزخ میں رہنا ہے۔ قیامت کے دن اسے جسم سمیت پھر اٹھایا جائے گا اور یہ عالم آخرت ہو گا جہاں اسے ہمیشہ رہنا ہے۔

 

عالمِ برزخ میں روحوں کی منتقلی اس بات کی واضح تردید ہے کہ مرنے کے بعد انسان کسی نہ کسی روپ میں دنیا ہی میں چکر کاٹتا رہتا ہے یعنی آواگوان کا نظریہ جو ایک بے بنیاد نا معقول اور متناقض نظریہ ہے۔

 

۹۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن رشتہ داری کام نہیں آئے گی کہ باپ بیٹے کے کام آئے یا بیٹا باپ کے اور نہ کوئی کسی کا حال پوچھنے والا ہو گا کہ ہمدردی اور غمگساری کرے اور نہ ہی کوئی کسی سے مدد طلب کر سکے گا۔ ہر شخص کو اپنی نجات کی فکر لاحق ہو گی اور کسی کے لیے بھی یہ موقع نہیں ہو گا کہ وہ دوسرے کے لیے کچھ کر سکے۔ گویا قیامت کے دن نسل و نسب کے تمام رشتے بیکار ہو گئے ہوں گے۔

 

نجات کا ذریعہ ایمان اور عمل صالح ہی ہوں گے جیسا کہ بعد کی آیت سے واضح ہے۔

 

۹۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ قارعہ نوٹ ۶۔

 

۹۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ قارعہ نوٹ ۷۔

 

۹۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کتنا المناک اور کیسا ذلیل کرنے والا عذاب ہو گا ! انسان سوچے تو اللہ کے عذاب سے پناہ مانگے۔

 

۹۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی جہنم میں پہنچ کر یہ کافر اپنی گمراہی کا اعتراف کریں گے اور اپنی قسمت کو روئیں گے۔

 

۹۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اب تمہاری کوئی شنوائی ہونے والی نہیں۔ جو موقع عمل کا تھا وہ تم نے کھو دیا اب تو اپنے کئے کی سزا تم کو بھگتنا ہے۔

 

۹۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ بڑی درد بھری دعا ہے جو اہل ایمان کی زبان سے اس وقت ادا ہوئی ہے جبکہ کافر انہیں اذیت پہنچا رہے تھے۔ انہوں نے ان مذاق اڑانے والوں سے کچھ نہیں کہا بلکہ اپنے رب ہی سے رحم کی درخواست کی۔

 

۹۷۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں صبر کے مفہوم میں حق پر استقامت، تکلیفیں برداشت کرنا اور اذیت دہ باتوں پر تحمل سے کام لینا شامل ہے۔

 

۹۸۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے پوچھے گا جیسا کہ سیاقِ کلام (Context) سے ظاہر ہے۔

 

۹۹۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی دنیا میں تم نے کتنی مدت گزاری۔

 

۱۰۰۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قیامت کے دن وہ جس دنیا میں قدم رکھیں گے اس کے احوال و ظروف اس دنیا سے بالکل مختلف ہوں گے۔ اس وقت انہیں محسوس ہو گا کہ جو مدت انہوں نے دنیا میں گزاری وہ بہت مختصر تھی۔ زیادہ سے زیادہ ایک دن بلکہ اس سے بھی کچھ کم۔ اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگانا ان کے لیے مشکل ہو گا اس لیے وہ کہیں گے کہ اس کا صحیح جواب تو وہی دے سکتے ہیں جو اعداد و شمار کا علم رکھنے والے ہیں۔

 

۱۰۱۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اگر دنیا میں تم نے یہ بات جان لی ہوتی کہ دنیا میں جو مدت عمر تم گزارو گے وہ آخرت کے مقابلہ میں بہت ہی مختصر ہے تو تمہاری دنیا بدل گئی ہوتی اور اپنا قیمتی وقت برباد نہ کرتے۔

 

۱۰۲۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن کا یہ سوال رہتی دنیا تک ان تمام لوگوں سے ہے جو آخرت کے قائل نہیں۔ وہ بتائیں کہ آخرت اور جزا و سزا مستقبل کی حقیقتیں نہیں تو ایک اخلاقی حس رکھنے والی اور ذمہ داریوں کی حامل مخلوق کو پیدا کرنے کا کیا مقصد؟ اگر انسان کی تخلیق کی کوئی غایت نہیں ہے تو اس کی ساری ہماہمی بے کار ہے۔ اگر مر کر ہمیشہ کے لیے مٹی ہونا ہے تو جینے کا فائدہ ؟ دنیا میں انسان طرح طرح کی تکلیفیں اٹھاتا ہے۔ اگر صبر کا کوئی پھل ملنے والا نہیں ہے تو تکلیف کی زندگی گزارنے کا کیا حاصل؟ کیونکہ نہ وہ اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کر دے ؟ آج دنیا کے بڑے بڑے مفکر اور "دانشور" مسائل زندگی کو موضوع بحث بنائے ہوئے ہیں لیکن زندگی کا جو سب سے زیادہ بنیا دی مسئلہ ہے یعنی اس کا اصل مقصد معلوم کرنا تو اس سے وہ بالکل بے پروا ہیں اور دانش و بینش سے کام نہیں لیتے۔

 

۱۰۳۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اللہ کی ذات اس سے بہت بلند ہے کہ وہ کوئی بے مقصد کام کرے۔ یہ خیال کرنا کہ انسان جیسی اعلیٰ اور اشرف مخلوق کو اس نے بے مقصد اور بے غایت پیدا کیا ہے اس کے مرتبہ سے اس کو فروتر خیال کرنا ہے۔

 

اللہ تو بادشاہ حقیقی ہے پھر وہ اپنی اس مخلوق سے جس پر ذمہ داریوں کا بار ڈالا گیا ہے جوابدہی کے لیے اپنے حضور کیسے نہیں طلب کرے گا؟

 

۱۰۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کا عرش بڑی شان والا ہے اور وہ اپنی پوری خدائی شان کے ساتھ کائنات پر حکومت کر رہا ہے لہٰذا اس کی حکومت میں اندھیر نگری ہرگز نہیں ہو سکتی۔

 

۱۰۵۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سورہ کا آغاز اس بات سے ہوا تھا کہ مؤمنوں نے فلاح پائی اور اختتام اس بات پر ہو رہا ہے کہ کافر کبھی فلاح نہیں پا سکتے۔ اس سے اس سورہ کا مرکزی مضمون خود متعین ہو جاتا ہے۔

 

۱۰۶۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اخیر میں دعائیہ کلمات کی تلقین اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ یہ دعا (رَبِّ اغْفِرْوَارحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرَّاحِمِیْن) فلاح و سعادت کی راہ کھولنے والا ہے۔

 

٭٭٭٭٭