تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ المؤمنون

(سورۃ المؤمنون ۔ سورہ نمبر ۲۳ ۔ تعداد آیات ۱۱۸)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     بے شک فلاح پا لی ان ایمان والوں نے

۲۔۔۔     (جو صحیح عقائد کے ساتھ ساتھ یہ صفات بھی اپنے اندر رکھتے ہیں کہ) وہ خشوع اور خضوع سے کام لیتے ہیں اپنی نماز میں

۳۔۔۔     جو دور و نفور رہتے ہیں لغو اور بے کار باتوں سے ۔

۴۔۔۔     جو پابندی کرتے ہیں ادائیگی زکوٰۃ کی۔

۵۔۔۔     اور جو حفاظت کرتے ہیں اپنی شرم گاہوں کی۔

۶۔۔۔     بجز اپنی بیویوں کے یا ان عورتوں کے جو ان کی ملکِ یمین میں ہوں کہ ان پر کوئی الزام نہیں ۔

۷۔۔۔     پس جو کوئی اس کے علاوہ کسی اور جگہ شہوت رانی کا طلب گار ہو گا تو ایسے لوگ یقیناً حد سے بڑھنے والے ہیں

۸۔۔۔     اور جو لوگ پاس و لحاظ رکھتے ہیں اپنی امانتوں اور اپنے عہد و پیماں کا

۹۔۔۔     اور جو محافظت و پاسداری کرتے ہیں اپنی نمازوں کی۔

۱۰۔۔۔     یہی لوگ ہیں وراثت پانے والے

۱۱۔۔۔     جو وارث ہوں گے فردوسِ بریں کے ۔ جہاں ہمیشہ رہنا نصیب ہو گا ان خوش نصیبوں کو

۱۲۔۔۔     اور بلاشبہ ہم ہی نے پیدا کیا انسان کو مٹی کے ست اور خلاصہ سے ۔

۱۳۔۔۔     پھر ہم ہی نے اس کو رکھا ایک مدت تک ایک بوند کی شکل میں ایک محفوظ قرارگاہ میں ۔

۱۴۔۔۔     پھر اس نطفے کو ہم نے ایک لوتھڑا بنا دیا۔ پھر اس لوتھڑے کو ایک بوٹی بنا دیا۔ پھر اس بوٹی کی ہم نے ہڈیاں بنائیں ۔ پھر ان ہڈیوں پر ہم نے گوشت چڑھا دیا۔ پھر ان سب تبدیلیوں کے بعد اس میں روح ڈال کر ہم نے اسے ایک اور ہی مخلوق بنا کر کھڑا کیا۔ سو بڑا ہی برکت والا ہے وہ اﷲ جو سب سے بہتر بنانے والا ہے ۔

۱۵۔۔۔     پھر اس کے بعد تم سب کو اے لوگوں بہر حال مرنا ہے

۱۶۔۔۔     پھر تم سب کو قیامت کے روز یقیناً دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا

۱۷۔۔۔     اور بلاشبہ ہم ہی نے بنائے تمہارے اوپر اے لوگوں سات عظیم الشان راستے اور ہم غافل و بے خبر نہیں تھے اپنی مخلوق اور اس کی ضروریات اور مصلحتوں سے

۱۸۔۔۔     اور ہم ہی نے آسمان سے پانی اتارا ایک خاص اندازے کے ساتھ۔ پھر ہم ہی نے اس کو ٹھہرا دیا زمین پر میں اپنی قدرتِ کاملہ اور حکمتِ بالغہ سے اور بلاشبہ ہم جب چاہیں اور جیسے چاہیں اس کو لے جانے پر بھی پوری قدرت رکھتے ہیں

۱۹۔۔۔     پھر ہم ہی نے اس کے ذریعے اگائے تمہارے لیے طرح طرح کے باغ کھجوروں انگوروں وغیرہ قسما قسم پھلوں کے ۔ جن میں تمہارے لیے طرح طرح کے لذیذ پھل بھی بکثرت پائے جاتے ہیں اور انہی سے تم لوگ کھاتے اور اپنی روزی بھی حاصل کرتے ہو۔

۲۰۔۔۔     اور زیتون کا ایک ایسا عظیم الشان درخت بھی ہم ہی نے پیدا کیا جو کہ سینا پہاڑ کے آس پاس خاص طور اور بکثرت اگتا ہے کھانے والوں کے لیے تیل اور سالن لے کر

۲۱۔۔۔     اور بلاشبہ تمہارے لیے ان مویشیوں میں بھی بڑا سامانِ عبرت ہے ۔ ہم تمہیں اس میں سے جو کہ ان پیٹوں میں ہے دودھ جیسا لذیذ اور مفید مشروب پلاتے ہیں اور تمہارے لیے ان میں اور بھی طرح طرح کے بکثرت فائدے ہیں اور انہی میں سے تم لوگ کھاتے بھی ہو

۲۲۔۔۔     اور ان پر اور ان کشتیوں پر تم لوگ لدے پھرتے بھی ہو

۲۳۔۔۔     اور بلاشبہ ہم ہی نے اس سے پہلے بھیجا نوح کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ اے میری قوم کے لوگوں تم سب اﷲ ہی کی بندگی کرو کہ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ۔ تو کیا تم لوگ ڈرتے نہیں ہو؟

۲۴۔۔۔      اس پر آپ کی قوم کے وہ سردار جو کفر پر کمربستہ ہو چکے تھے ، کہنے لگے کہ یہ شخص تو تم ہی جیسا ایک انسان ہے جو تم پر برتری حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ اور اگر اﷲ کو کوئی رسول بھیجنا منظور ہوتا تو وہ ضرور آسمان سے کوئی نوری فرشتے بھیج دیتا۔ یہ بات تو ہم نے اپنے پہلے باپ دادوں میں کبھی نہیں سنی کہ کوئی بشر بھی پیغمبر بن کر آ سکتا ہے ۔

۲۵۔۔۔     اس لیے اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک ایسا شخص ہے جسے کچھ جنون ہو گیا ہے پس تم لوگ اس کے بارے میں صبر و انتظار سے کام لو ایک وقت تک۔

۲۶۔۔۔     نوح نے ان سے مایوس ہو جانے کے بعد عرض کیا اے میرے رب ان لوگوں نے جو مجھے جھٹلایا ہے تو اس پر تو ہی میری نصرت فرما۔

۲۷۔۔۔     اس پر ہم نے نوح کو وحی کے ذریعے بتایا کہ تم ایک کشتی بناؤ ہماری نگرانی میں اور ہماری وحی و ہدایت کے مطابق پھر جب آ پہنچے ہمارا حکم اور ابل پڑے فلاں تنور تو تم سوار ہو جانا اس کشتی میں ہر قسم کے جانوروں میں سے ایک ایک جوڑا لے کر اور اپنے گھر والوں کو بھی اپنے ساتھ لے لینا بجز ان کے جن کے غرق ہونے کے بارے میں ہمارا فیصلہ پہلے ہی طے ہو چکا ہے اور خبردار مجھ سے ان لوگوں کے بارے میں بات نہیں کرنا جو اڑے رہے اپنے ظلم پر کہ انہوں نے اب بہر حال غرق ہو کر رہنا ہے ۔

۲۸۔۔۔     پھر جب کشتی میں بیٹھ جاؤ تم بھی اور وہ سب بھی جو عقیدہ و ایمان کے اعتبار سے تمہارے ساتھ ہیں تو یوں کہو کہ سب تعریفیں اس اﷲ کے لیے ہیں جس نے ہمیں نجات دی ان ظالم لوگوں سے

۲۹۔۔۔     اور یہ دعا بھی کرنا کہ اے میرے رب مجھے اتاریو بابرکت اتارنا کہ تو ہی ہے سب سے بہتر اتارنے والا۔

۳۰۔۔۔     بے شک اس قصے میں بڑی بھاری نشانیاں ہیں اور کھرا کھوٹا ظاہر کرنے کے لیے ہم آزمائش کر کے ہی رہتے ہیں ۔

۳۱۔۔۔     پھر ان کے بعد ہم نے اٹھا کھڑا کیا ایک اور قوم کو۔

۳۲۔۔۔     پھر ان میں بھی ہم نے انہی میں کا ایک رسول بھیجا اس نے بھی ان کو یہی دعوت دی کہ تم سب لوگ اﷲ ہی کی بندگی کرو۔ اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تم لوگ ڈرتے نہیں ہو؟

۳۳۔۔۔     تو اس کے جواب میں ان کی قوم کے ان سرداروں نے جو کہ اَڑے ہوئے تھے اپنے کفر و باطل پر اور جنہوں نے جھٹلا دیا تھا آخرت کی پیشی کو اور جن کو ہم نے خوشحالی دے رکھی تھی دنیاوی زندگی میں ۔ انہوں نے کہا کہ یہ شخص اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک بشر اور انسان ہے تم ہی جیسا۔ وہی کچھ کھاتا ہے جو تم کھاتے ہو اور وہی کچھ پیتا ہے جو تم لوگ پیتے ہو

۳۴۔۔۔     اور اگر تم لوگ اپنے ہی جیسے ایک آدمی کے کہنے پر چلنے لگے تو یقیناً اس صورت میں تم لوگ بڑے ہی خسارے اور گھاٹے میں رہو گے ۔

۳۵۔۔۔     کیا یہ شخص تم سے یہ کہتا ہے کہ جب تم مر کر مٹی ہو جاؤ گے اور ہڈیوں کا پنجر بن کر رہ جاؤ گے تو تم قبروں سے زندہ کر کے نکالے جاؤ گے ؟

۳۶۔۔۔     دور بہت دور ہے وہ وعدہ جو تم لوگوں سے کیا جا رہا ہے ۔

۳۷۔۔۔     زندگی تو بس ہماری یہی دنیاوی زندگی ہے جس میں ہم مرتے اور جیتے ہیں اور بس اور ہم دوبارہ اٹھائے جانے والے نہیں ہے ۔

۳۸۔۔۔     یہ تو ایک ایسا شخص ہے جس نے اﷲ پر جھوٹ باندھا ہے اور ہم اس کو کبھی ماننے والے نہیں ہیں ۔

۳۹۔۔۔     اس ضد اور ہٹ دھرمی پر اس پیغمبر نے دعا کی کہ اے میرے رب اب تو ہی میری مدد فرما اس لیے کہ یہ لوگ تو میری تکذیب ہی پر کمربستہ ہو چکے ہیں

۴۰۔۔۔     اس کے رب نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ عنقریب ہی ان کو سخت ندامت اور شرمندگی اٹھانا ہو گی۔

۴۱۔۔۔      آخرکار آ پکڑا ان کو اس ہولناک آواز نے جو ان کے لیے مقدر ہو چکی تھی حق کے ساتھ، سو ہم نے ان سب کو کچرا بنا کر رکھ دیا، سو بڑی پھٹکار ہے ایسے ظالم لوگوں کے لیے

۴۲۔۔۔      پھر ان کے بعد ہم نے اور کئی قومیں پیدا کیں ،

۴۳۔۔۔      کوئی بھی قوم اپنی مقررہ مدت سے نہ آگے بڑھ سکی، اور نہ ہی وہ اس کے بعد ٹھہر سکی،

۴۴۔۔۔      پھر ہم نے پے درپے اپنے رسول بھیجے مگر ان سب کا حال یہی رہا کہ جب بھی کبھی کسی قوم کے پاس اس کا رسول آیا تو اس نے اس کی تکذیب ہی کی، جس کے نتیجے میں ہم بھی ایک کے بعد ایک قوم کو ہلاک کرتے چلے گئے اور ہم نے ان سب کو قصے کہانیاں بنا کر رکھ دیا سو بڑی پھٹکار ہے ان لوگوں کیلیے جو ایمان نہیں لاتے ،

۴۵۔۔۔      پھر ہم نے موسیٰ اور ان کے بھائی ہارون کو بھی رسول بنا کر بھیجا، اپنی نشانیوں اور کھلی سند کے ساتھ،

۴۶۔۔۔      فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف، مگر انہوں نے بھی اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا (اور وہ حق کے منکر ہو گئے ) اور وہ تھے بھی بڑے سرکش لوگ،

۴۷۔۔۔     چنانچہ انہوں نے کہا کیا ہم اپنے ہی جیسے دو آدمیوں پر ایمان لے آئیں ؟ اور وہ بھی اس حال میں کہ ان کی قوم کے لوگ ہماری غلامی کر رہے ہیں

۴۸۔۔۔     سو انہوں نے جھٹلا دیا ان دونوں کو اور ان کے پیغام حق کو جس کے نتیجے میں بالآخر وہ بھی شامل ہو گئے ہونے والوں میں

۴۹۔۔۔     اور بلاشبہ ہم نے موسیٰ کو بھی وہ کتاب بخشی تھی تاکہ وہ لوگ اس سے راہنمائی حاصل کریں

۵۰۔۔۔      اور ہم نے مریم کے بیٹے کو اور اس کی ماں کو بھی بنایا تھا ایک عظیم الشان نشانی اور ان دونوں کو ہم نے جگہ دی تھی ایک ایسی بلند سرزمین پر لے جا کر جو ٹھہرنے کے قابل اور سرسبز و شاداب بھی،

۵۱۔۔۔      اے پیغمبرو، تم کھاؤ پیو پاکیزہ چیزوں میں سے اور کام کرو نیک بلاشبہ میں ان تمام کاموں کو جو تم لوگ شب و روز کرتے ہو پوری طرح جانتا ہوں ،

۵۲۔۔۔     اور بلاشبہ تمہاری یہ امت دین و ایمان کے لحاظ سے ایک ہی امت ہے جس کی اساس یہ ہے کہ میں ہی رب ہوں تم سب کا پس تم سب مجھ ہی سے ڈرو

۵۳۔۔۔      مگر ان لوگوں نے اپنے دین کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا، ہر گروہ اسی ٹکڑے پر مگن اور مست ہے جو اس کے پاس ہے

۵۴۔۔۔     پس تم چھوڑ دو ان کو ان کی مدہوشی میں کہ یہ اسی میں پڑے رہیں ایک وقت تک

۵۵۔۔۔     کیا انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم ان کو مال اور اولاد میں جو کچھ ترقی دئیے چلے جا رہے ہیں

۵۶۔۔۔     وہ کوئی ان کے لیے بھلائیوں میں جلدی کر رہے ہیں ؟ ہرگز نہیں بلکہ یہ لوگ شعور نہیں رکھتے اصل حقیقت کا۔

۵۷۔۔۔     بے شک بھلائیوں میں سبقت کرنے والے لوگ وہ ہیں جو کہ اپنے رب کی عظمت و ہیبت سے لرزاں و ترساں رہتے ہیں

۵۸۔۔۔     جو اپنے رب کی آیتوں پر سچے دل سے ایمان رکھتے ہیں

۵۹۔۔۔      جو اپنے رب کے ساتھ کسی طرح کا شرک نہیں کرتے ،

۶۰۔۔۔      اور جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ دیتے ہیں اﷲ کی راہ میں جو کچھ کہ ان کو دینا ہوتا ہے تو ان کے دل ڈر رہے ہوتے ہیں ، اس عقیدہ و احساس کی بناء پر کہ ان کو بہر حال اپنے رب کے پاس ہی لوٹ کر جانا ہے ،

۶۱۔۔۔     یہی لوگ ہیں جو دوڑتے ہیں بھلائیوں کی طرف اور یہی ہیں سبقت کر کے انکو پا لینے والے

۶۲۔۔۔      ہم کسی بھی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور ہمارے پاس ایک ایسی کتاب ہے (یعنی ہر شخص کا نامہ عمل) جو کہ (ہر ایک کا حال) ٹھیک ٹھیک بتا دے گی، اور ان پر ذرہ برابر کوئی ظلم نہ ہو گا،

۶۳۔۔۔     مگر یہ لوگ ہیں کہ ان کے دل اس سے غفلت اور مدہوشی میں پڑے ہیں اور اس فساد عقیدہ کے علاوہ ان کے کچھ اور اعمال بھی ایسے ہیں جن کو یہ لوگ کرتے رہتے ہیں

۶۴۔۔۔      اور یہ لوگ ایسے ہی غفلت و مدہوشی میں پڑے رہیں گے یہاں تک کہ جب ہم عذاب میں پکڑیں گے ان کے خوشحال اور عیش پرست لوگوں کو تو ان کا سب نشہ ہرن ہو جائے گا اور یہ چلانے لگیں گے ،

۶۵۔۔۔      اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ اب چلاؤ مت کیونکہ ہماری طرف سے اب تمہاری کوئی مدد نہیں ہونے کی،

۶۶۔۔۔      تم وہی تو ہو کہ اس سے پہلے جب میری آیتیں تم کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی تھیں ، تو تم اپنے کبر و غرور میں الٹے پاؤں پھر جایا کرتے تھے ،

۶۷۔۔۔      اپنی بڑائی کا گھمنڈ کرتے ہوئے اس قرآن کو مشغلہ بناتے ہوئے اور بکواس کرتے ہوئے ،

۶۸۔۔۔      تو کیا ان لوگوں نے کبھی اس کلام پر غور نہیں کیا یا ان کے پاس کوئی ایسی انوکھی چیز آ گئی ہے ، جو ان کے پہلے بڑوں کے پاس نہیں آئی تھی؟

۶۹۔۔۔     یا انہوں نے اپنے رسول کو نہیں پہچانا تو انجان ہونے کی وجہ سے یہ اس کے منکر ہو رہے ہیں ؟

۷۰۔۔۔     کیا یہ لوگ اتنی ظالمانہ اور احمقانہ بات کہتے ہیں کہ اس شخص کو جنون ہو گیا ہے ؟ نہیں ان میں سے کوئی وجہ بھی نہیں ہو سکتی بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ رسول ان کے پاس حق لے کر آئے ہیں اور ان لوگوں کی اکثریت کو حق کا نور ہی ناگوار ہے

۷۱۔۔۔      اور اگر بفرض محال کہیں حق ان کی خواہشات کے پیچھے چلنے لگتا تو کبھی کے تباہ و برباد ہو چکے ہوتے یہ آسمان اور زمین اور وہ سب مخلوق جو کہ ان کے اندر موجود ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ہم ان کے پاس ان کا ذکر لائے ہیں ، مگر یہ ایسے بدبخت اور بے انصاف ہیں کہ اپنے ذکر ہی سے منہ موڑے ہوئے ہیں ،

۷۲۔۔۔      کیا آپ اے پیغمبر ان سے کوئی اجرت مانگ رہے ہیں ؟ تو اس کا بھی کوئی سوال نہیں کیونکہ آپ کے رب کا اجر تو بہر حال سب سے بہتر ہے اور وہی ہے سب سے بہتر دینے والا،

۷۳۔۔۔      اور آپ یقیناً بلا رہے ہیں ان لوگوں کو حق و ہدایت کے سیدھے راستے کی طرف،

۷۴۔۔۔      اور بلاشبہ جو لوگ اپنی دنیاوی لذتوں پر فریفتہ ہو کر آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ، وہ قطعی طور پر سیدھی راہ سے ہٹے ہوئے ہیں

۷۵۔۔۔      اور اگر ہم ان پر رحم کر کے ان سے وہ تکلیف دور کر دیں جو ان کو پہنچی ہوتی ہے تو یہ یقیناً شکر گزار بننے کی بجائے الٹا اپنی سرکشی میں بھٹکتے ہوئے برابر اسی میں لگے رہیں گے ،

۷۶۔۔۔     چنانچہ اس حقیقت کا ایک شاہد یہ ہے کہ ہم نے ان کو عذاب میں پکڑا پھر بھی یہ نہ تو اپنے رب کے سامنے جھکے اور نہ ہی انہوں نے اس کے حضور عاجزی کی

۷۷۔۔۔     یہاں تک کہ جب ہم نے ان پر کھول دیا کوئی دروازہ کسی سخت عذاب کا تو اس وقت یکایک کٹ کر رہ گئیں ان کی سب آرزوئیں اور امیدیں

۷۸۔۔۔     اور وہ اﷲ وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے کان آنکھیں اور دل پیدا کیے مگر تم لوگ کم ہی شکر ادا کرتے ہو۔

۷۹۔۔۔     اور وہ وحدہٗ لاشریک وہی تو ہے جس نے پھیلا دیا تم کو اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے زمین میں اور آخرکار تم سب کو اس کے حضور لے جایا جائے گا اکٹھا کر کے

۸۰۔۔۔     اور وہ وہی ہے جو زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے اور اسی کے قبضہ قدرت میں ہے رات اور دن کا ادلنا بدلنا تو کیا تم لوگ عقل سے کام نہیں لیتے ؟

۸۱۔۔۔      مگر اس سب کے برعکس یہ لوگ وہی کچھ کہتے ہیں جو کہ ان کے پیش رو کہتے آئے ہیں ،

۸۲۔۔۔     یعنی یوں کہتے ہیں کہ کیا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا ہمیں واقعی پھر زندہ کر کے اٹھایا جائے گا؟

۸۳۔۔۔      یہ وعدہ تو ہم سے اور اس سے پہلے ہمارے باپ دادا سے بھی مدتوں سے ہوتا چلا آیا ہے پس یہ اگلے لوگوں سے چلے آنے والے افسانوں کے سوا کچھ نہیں ،

۸۴۔۔۔      آپ ان سے ذرا یہ تو پوچھو کہ کس کی ہے یہ زمین اور جو کچھ کہ اس کے اندر ہے ، اگر تم جانتے ؟

۸۵۔۔۔      اس کے جواب میں یہ لوگ ضرور بالضرور یہی کہیں گے کہ اﷲ ہی کا ہے یہ سب کچھ، کہو کیا پھر بھی تم لوگ ہوش میں نہیں آتے ؟

۸۶۔۔۔     ان سے کہو کہ کون ہے رب ساتوں آسمانوں کا اور رب عرش عظیم کا؟

۸۷۔۔۔      تو اس کے جواب میں بھی انہوں نے ضرور یہی کہنا ہے کہ یہ سب کچھ اﷲ  ہی کے لیے ہے ، کہو کہ کیا پھر بھی تم لوگ ڈرتے نہیں ہو؟

۸۸۔۔۔      نیز پوچھو ان سے کہ کون ہے وہ ہستی جس کے ہاتھ میں ہے باگ ڈور ہر چیز کی؟ وہ جس کو چاہتا ہے پناہ دیتا ہے اور اس کے مقابلے میں کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا، بتاؤ اگر تم جانتے ہو

۸۹۔۔۔     تو اس کے جواب میں بھی یہ لوگ ضرور یہی کہیں گے کہ یہ سب کچھ اﷲ ہی کی شان ہے کہو ظالمو! پھر کہاں سے تم پر جادو کیا جاتا ہے

۹۰۔۔۔      اور یہ پہلوں کے افسانے نہیں بلکہ ہم تو ان کے پاس حق لے کر آئے ہیں اور یہ یقیناً پرلے درجے کے جھوٹے لوگ ہیں ،

۹۱۔۔۔     ﷲ نے نہ تو کسی کو اپنی اولاد بنایا ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ دوسرا کوئی خدا ہے ، اگر ایسا ہوتا تو اس صورت میں ہر خدا اپنی مخلوق کو لے کر الگ ہو جاتا اور ان میں سے ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتا، اﷲ پاک ہے ان سب باتوں سے جو یہ لوگ بناتے ہیں ،

۹۲۔۔۔      ایک برابر جاننے والا نہاں و عیاں کا، وہ بالاتر ہے اس شرک سے جو یہ لوگ کرتے ہیں

۹۳۔۔۔      اپنے رب کے حضور اے پیغمبر اس طرح عرض کرو کہ اے میرے رب اگر تو دکھا دے مجھے یعنی میرے جیتے جی لے آئے وہ عذاب جس کا ان لوگوں سے وعدہ کیا جا رہا ہے ،

۹۴۔۔۔     تو میرے رب ایسی صورت میں مجھے ان ظالم لوگوں میں شامل نہ کیجیئو،

۹۵۔۔۔      اور بلاشبہ ہم اس پر پوری طرح قادر ہیں کہ وہ آپ کو وہ عذاب دکھا دیں جس کا ہم ان سے وعدہ کر رہے ہیں ،

۹۶۔۔۔     پر آپ یہی برتاؤ کیے جاؤ کہ برائی کو اس طریقہ سے دفع کرو جو سب سے اچھا ہو ہم خوب جانتے ہیں ان سب باتوں کو جو یہ لوگ بناتے ہیں

۹۷۔۔۔      اپنے رب کے حضور اس طرح عرض کرو کہ اے ، میرے رب میں تیری پناہ مانگتا ہوں شیطانوں کی اکساہٹوں سے

۹۸۔۔۔      اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں اے میرے رب، اس سے کہ وہ شیاطین میرے پاس آئیں ،

۹۹۔۔۔     یہ بد عقیدہ و بدکردار لوگ اسی طرح رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو آ پہنچتی ہے موت تو اس کی آنکھیں کھلتی ہیں اور وہ کہنے لگتا ہے کہ اے میرے رب مجھے واپس لوٹا دے

۱۰۰۔۔۔     تاکہ میں نیک عمل کر سکوں اس دنیا میں جسے میں چھوڑ آیا ہوں ایسا ہرگز ہونے کا نہیں یہ تو محض ایک حسرت بھری بات ہو گی جسے وہ کہے جا رہا ہو گا، اور ان کے آگے ایک پردہ حائل ہے ، اس دن تک جس میں یہ لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے ،

۱۰۱۔۔۔      پھر اس دن کی آمد پر جب صور میں پھونک مار دی جائے گی، تو ہول و ہیبت کے اس عالم میں نہ تو ان کے درمیان کوئی رشتہ رہے گا اور نہ ہی وہ آپس میں ایک دوسرے سے کوئی حال ہی پوچھیں گے ،

۱۰۲۔۔۔     پھر جس کے ایمان و اعمال صالحہ کا پلڑا بھاری ہو گا تو وہی لوگ ہوں گے فلاح پانے والے

۱۰۳۔۔۔      اور جس کا پلڑا ہلکا ہوا تو وہی ہوں گے وہ لوگ جنہوں نے خود خسارے میں ڈال دیا ہو گا اپنی جانوں کو، ان کو ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہنا ہو گا،

۱۰۴۔۔۔     جہاں آگ جھلس رہی ہو گی ان کے چہروں کو اور وہاں پر نہایت بری طرح بگڑی ہوں گی ان کی شکلیں

۱۰۵۔۔۔      اس وقت ان سے کہا جائے گا کہ کیا تم وہی نہیں وہ کہ میری آیتیں تم کو پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی تھیں ، پر تم لوگ ان کو جھٹلاتے ہی چلے جا رہے تھے ؟

۱۰۶۔۔۔      کہیں گے اے ہمارے رب، ہم پر غالب آ گئی تھی ہماری بدبختی اور واقعی ہم گمراہ لوگ تھے

۱۰۷۔۔۔      اے ہمارے رب، اب ہمیں یہاں سے نکال دے (اور دنیا میں اب ھر کام کرنے کی فرصت و مہلت عطا فرما دے ) پھر اگر ہم دوبارہ قصور کریں تو جو مرضی سزا دے کیونکہ اس صورت میں ہم بلاشبہ ظالم ہوں گے ،

۱۰۸۔۔۔      ارشاد ہو گا پھٹکارے ہوئے پڑے رہو تم لوگ اسی جہنم میں اور مجھ سے کوئی بات مت کرو،

۱۰۹۔۔۔     تم لوگ وہی تو ہو کہ میرے کچھ بندے جب یوں کہتے تھے کہ اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لے آئے پس تو ہماری بخشش فرما دے اور ہم پر رحم فرما کہ تو ہی ہے سب سے بڑا رحم کرنے والا

۱۱۰۔۔۔     تو تم ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے ، یہاں تک کہ ان سے تمہارے اس مذاق نے تمہیں میری یاد بھی بھلا دی تھی اور تم ان سے ہنسی ہی کرتے رہے

۱۱۱۔۔۔      مگر انہوں نے صبر و استقامات کا دامن نہ چھوڑا، جس پر آج میں نے ان کو ان کے صبر کا پھل دیا کہ وہی ہیں کامیاب اور فائز المرام

۱۱۲۔۔۔     پھر اﷲ ان سے پوچھے گا کہ اچھا یہ تو بتاؤ کہ تم لوگ زمین میں کتنے برس رہے ؟

۱۱۳۔۔۔      تو اس پر وہ کہیں گے کہ ایک دن یا دن کا بھی کچھہ ہی حصہ ٹھہرے ہوں گے ، کچھ صحیح یاد نہیں پس آپ خود ہی پوچھ لیں گنتی کرنے والوں سے

۱۱۴۔۔۔     ارشاد ہو گا کہ آخرت کے مقابلے میں دنیا میں تم لوگ واقعی بہت ہی کم ٹھہرے ہو کاش کہ تم لوگ یہ حقیقت اس وقت جان لیتے

۱۱۵۔۔۔     تو کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تم کو یوں ہی بے کار پیدا کیا ہے ؟ اور تمہیں ہمارے پاس لوٹ کر نہیں آنا؟

۱۱۶۔۔۔      پس بڑا ہی بلند ہے اﷲ تعالیٰ جو کہ بادشاہ حقیقی ہے ، اس کے سوا کوئی بھی عبادت کے لائق نہیں وہی مالک ہے عرشی کریم کا

۱۱۷۔۔۔      اور جو کوئی اس سب کے باوجود اللہ کے ساتھ کسی بھی اور ایسے خود ساختہ اور فرضی معبود کو پکارے گا جس کے لیے اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو سوائے اس کے نہیں کہ اس کا حساب اس کے رب کے یہاں ہی ہو گا، یہ قطعی اور یقینی امر ہے کہ کافر کبھی فلاح نہیں پا سکیں گے

۱۱۸۔۔۔     اور اے پیغمبر آپ یوں کہا کریں کہ اے میرے رب، بخشش فرما، اور رحم فرما کہ تو ہی ہے سب سے بڑا رحم کرنے والا۔

تفسیر

 

۱.      فلاح دراصل اس اصل اور حقیقی کامیابی کو کہا جاتا ہے جو دنیا سے لے کر آخرت کے حقیقی اور اَبَدی جہاں تک ممتد ہوتی ہے، کہ اس سے انسان کو اس دنیا میں حیات طیبہ یعنی پاکیزہ زندگی کی عظیم الشان سعادت نصیب ہوتی ہے۔ اور اسی سے اس کو آخرت کی اس حقیقی اور ابدی زندگی میں نعمتوں بھری جنت سے سرفرازی کی وہ سب سے بڑی سعادت نصیب ہو گی جو کہ ابَدی اور سدا بہار نعمت ہے اور جو نعمتوں کی نعمت اور اصل اور حقیقی کامیابی ہے۔ اور قرآن حکیم کے دوسرے مختلف مقامات کی طرح یہاں پر اس آیت کریمہ سے بھی اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اس فوز و فلاح اور حقیقی کامیابی سے سرفرازی کی اصل اساس ایمان ہے۔ کہ اس کے بغیر اللہ تعالیٰ کے یہاں کسی بھی عمل کا نہ کوئی وزن ہے اور نہ قدر و قیمت، ایمان کے ذکر کے بعد ان خاص صفات کا ذکر فرمایا گیا ہے جو اس کا تقاضا اور وسیلہ فلاح ہیں۔

۲.      خشوع کے اصل معنی عاجزی و فروتنی اور تذلل و نیاز مندی کے ہوتے ہیں، سو اس لفظ سے نماز کی اصل روح کی طرف اشارہ فرما دیا گیا کہ اسی پر مذکورہ فلاح کا مدار و انحصار ہے۔ سو اس لفظ سے اس اہم حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ نماز سے صرف نمازی کا سر اور اس کی کمر ہی اللہ کے آگے نہ جھکے۔ بلکہ اس کا دل بھی اللہ کے آگے سرافگندہ ہو جائے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس سے اہل ایمان کی نمازوں کے رکوع و سجود وغیرہ ایک ایک چیز سے دل کی خشوع کا ثبوت اور اس کی شہادت ملتی ہے۔

۳.      لغو کا اطلاق عرف و محاورہ میں اگرچہ بے مقصد اور بیکار چیز کے لئے ہوتا ہے، لیکن اصل اور حقیقت کے اعتبار سے اس سے مراد ہر وہ قول وفعل ہوتا ہے جو انسان کو اس کے اصل مقصد یعنی رضائے الٰہی سے غافل کر دے، خواہ وہ مباح ہو یا غیر مباح، سو اس سے زندگی پر نماز کے اثر کو واضح فرما دیا گیا۔ کہ خشوع والی نماز کا لازمی اثر انسان کی زندگی پر یہ پڑتا ہے کہ اس سے انسان فضول لایعنی اور غیر ضروری چیزوں سے پرہیز و احتراز کرنے لگتا ہے، اور اس کو ہمیشہ اور ہر حال میں اسی کی فکر لگی رہتی ہے کہ میں نے اپنے رب کے حضور حاضر ہو کر اپنے کئے کرائے کا پورا حساب دینا، اور اس کا صلہ وبدلہ پانا ہے، اسی لئے وہ ہر قسم کے لایعنی اور بے مقصد کاموں سے بچنے کی فکر و کوشش کرتا ہے، وباللہ التوفیق

۴.      چوتھی صفت فلاح پانے والے ان بندگان خدا کی یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ وہ ادائیگی زکوٰۃ کی پابندی کرتے ہیں۔ سو نماز کے بعد دوسری بڑی عبادت زکوٰۃ ہے جو بندے کو بندوں سے مربوط کرتی ہے اور اس کے قلب و باطن کو دنیا اور مال کی محبت سے پاک کرتی، اور اس کے مال میں خیر و برکت اور بڑھوتری کا ذریعہ بنتی ہے، اور اس کی کئی طرح کی آفات سے حفاظت کرتی ہے، اور جس بندے کا تعلق خلق اور خالق دونوں سے صحیح بنیادوں پر استوار ہو جائے وہی فلاح یعنی حقیقی کامیابی سے سرفرازی کا مستحق اور سزاوار ہے اسی لئے ان دونوں عبادتوں کا ذکر بالعموم ایک ساتھ آتا ہے۔

۹.      اس سے نماز کی اہمیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فلاح پانے والے اہل ایمان کی صفات کا ذکر یہاں پر نماز ہی سے شروع ہوا، اور اسی پر ختم ہو رہا ہے۔ شروع میں نماز کا ذکر اس کی حقیقی روح یعنی خشوع کے اعتبار سے ہوا۔ اور اس کی خیرات سے سرفرازی کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ اس کے اندر خشوع و خضوع کی روح بھی پائی جاتی ہو، اور اس کی برابر حفاظت اور رکھوالی بھی کی جاتی ہو۔ یہ باغ جنت کا پودا ہے جس کی بھرپور نگرانی اور رکھوالی کی ضرورت ہے، غفلت و لاپرواہی اور بے قدری و ناشکری اس کے اثرات کو زائل کر دینے والی چیز ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی رضا کی راہوں پر گامزن رہنے کی توفیق بخشے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین

۱۴.    سو اس سے اس تأثر اور نتیجہ کو بیان اور واضح فرما دیا گیا جو انسانی خلقت کے تمام مراحل میں غور کرنے والے کے سامنے آتا ہے، کہ جس اللہ نے وجودِ انسانی کی تخلیق و تکوین کے مختلف مراحل میں اپنی قدرت و حکمت اور رحمت و عنایت کی یہ مختلف شانیں دکھلائیں۔ وہ بڑا ہی برکت والا ہے۔ کہ اس نے مائے مہین یعنی ذلیل و بے قدرے پانی کے ایک قطرہ کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ کس قدرت و حکمت اور رحمت و عنایت سے اس نے پانی کی اس بوند کو رحم مادر میں رکھا۔ اور کس طرح ایک مدت کے بعد اس کو ایک عظیم الشان گوہر آبدار بنا کر نکالا۔ اور اس کو ایسی اعلیٰ صلاحیتوں سے سرفراز اور مالا مال فرمایا کہ وہ فرشتوں کا مسجود اور زمین میں خداوند قدوس کی خلافت و نیابت کا اہل بن گیا۔

۱۶.    سو جس طرح تمہاری اس تخلیق و پیدائش اور اس کے مختلف مراحل میں تمہارے ارادہ و اختیار کا کوئی عمل دخل نہیں، اسی طرح تمہارے مرنے اور مرنے کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کے مراحل میں سے کسی میں بھی تمہارے ارادے اور اختیار کا کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔ تمہیں اپنے وقت مقرر پر بہر حال مرنا اور اس جہان فانی کو چھوڑنا ہے، اور پھر ایک وقت پر تمہیں بہر حال دوبارہ زندہ ہو کر اٹھنا ہے، اور تم نے زندگی بھر کے اپنے کئے کرائے کا حساب دینا اور اس کا پھل پانا ہے، جس قادر مطلق نے تم لوگوں کو اس پُر حکمت طریقے سے پیدا فرمایا اور تمہیں وجود بخشا۔ اس کے لئے تمہارا دوبارہ پیدا کرنا نہ کچھ مشکل ہے۔ اور نہ ہی باعث تعجب جیسے اس نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا فرمایا ایسے ہی وہ تمہیں دوسری مرتبہ پیدا فرمائے گا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس حقیقت کی تصریح کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کَمَا بَدَأکُمْ تَعُوْدُوْنَ۔

۲۲.    یعنی بات صرف انہی فوائد و منافع کی نہیں جن کی طرف یہاں پر اجمالی اشارہ کیا گیا ہے۔ بلکہ تمہارے لئے ان کے اندر اور بھی بڑے عظیم الشان منافع اور فوائد ہیں سو یہ تمہارے لئے ہر اعتبار سے، اور سراسر فوائد اور منافع کا ذریعہ اور سامان ہیں۔ اور ان کی ایک ایک چیز تمہارے لئے نفع اور فائدے کا ذریعہ ہے یہ تمہاری سواری اور بار برداری کے کام آتے ہیں، تمہارے لئے طرح طرح کے سامان اٹھا کر وہاں وہاں پہنچاتے ہیں جہاں تک تم لوگ جان توڑ مشقت کے بغیر نہیں پہنچ سکتے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا وَتَحْمِلُ اَثْقَالَکُمْ اِلیٰ بَلَدٍ لَّمْ تَکُوْنُوْا بَالِغِیْہِ اِلاَّ بِشِقِّ الْاَنْفُسِ الایٰۃ (النحل، ۷) اس کے علاوہ یہ تمہاری کاشتکاری میں تمہارے کام آتے ہیں ان کے گوشت اور پوست۔ انکے بال اور ان کی کھالیں اور ان کی گوبر اور مینگنیاں تک تمہارے کام آتی ہیں، یہ تمہارے لئے غذائی ذخیرے ہیں اور ذخیرے بھی ایسے عظیم الشان اور بے مثال کہ یہ تمہارے ارادے اور خواہش کے مطابق خود بخود چلتے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں تم ان سے ترو تازہ گوشت بھی کھاتے اور ان کے گوشتوں کو لوگ طرح طرح سے سٹور کر کے اپنی سفری ضرورتوں اور آنے والے مختلف وقتوں کے لئے محفوظ بھی کر لیتے ہو۔ اور انہی سے اور ان کے مختلف اجزاء سے تم لوگ طرح طرح کے کاروبار کر کے اپنی روزی بھی کماتے ہو۔ سو تم لوگ ذرہ سوچو کہ یہ کتنی عظیم الشان عنایتیں ہیں جن سے حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، نے تم لوگوں کو نوازا ہے، اور محض اپنے فضل و کرم سے نوازا ہے، پھر بھی اس کی ناشکری اور نافرمانی؟ یہ کتنی بڑی بے انصافی اور کس قدر ظلم عظیم ہے؟ والعیاذ باللّٰہ، فَارْزُقْنَا اَللّٰہُمَّ التوفیق لِذِکْرِکَ وَشْکُرْکَ، بِکُلِّ حالٍ مِّن الاحوال وَفِیْ کُلِّ مَوْطِنٍ مِّنَ الْمَوَاطِنٍ فی الحیاۃ، یاذاالجلال والاکرام،

۲۳.    سو اس سے ایک تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ حضرت نوح کی بعثت اور تشریف آوری بھی صرف ان کی اپنی قوم ہی کی طرف ہوتی تھی۔ نہ کہ سب قوموں کی طرف سب قوموں کی طرف اور سب زمانوں کے لئے بعثت و تشریف آوری صرف امام الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی کی ہوئی ہے۔ آنجناب سے قبل جو بھی انبیاء ورسل تشریف لائے ان کی بعثت و تشریف آوری صرف ان کی اپنی قوم اور اپنے زمانے ہی کے لئے ہوتی تھی اور بس، جیسا کہ صحیح حدیث میں اس کی تصریح فرمائی گئی ہے۔ دوسری حقیقت اس سے یہ واضح فرما دی گئی کہ حضرت نوح نے اپنی قوم کو سب سے پہلے توحید خداوندی ہی کی دعوت دی۔ کہ یہی چیز اصل اور اساس ہے دین حق اور وحی سماوی کی اس لئے ہر پیغمبر نے اپنی بعثت کے بعد سب سے پہلے اپنی قوم کو اسی کی دعوت دی، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارہ اصول کلی اور ضابطہ عام کے طور پر ارشاد فرمایا گیا وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلاَّ نُوْحِیْ اِلَیْہِ اَنَّہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اَنَا فَاعَبُدُوْنِ(الانبیاء۔۲۵)

۲۴.    سو اس سے ایک تو اس بات کو واضح فرما دیا گیا کہ حضرت نوح کی تکذیب اور ان کی دعوت کا انکار سب سے پہلے آپ کی قوم کے سرداروں اور بڑوں نے کیا اور یہی صورت حال ہر پیغمبر کو پیش آئی۔ اور اس کی دو بڑی اور بنیادی وجہیں تھیں، ایک ان لوگوں کا کبر و غرور کہ وہ اپنی دنیاوی ترقی اور اپنے مال و دولت کی وجہ سے اپنے آپ کو بڑی چیز سمجھتے تھے اس لئے دعوت حق کو سننا اور ماننا وہ اپنی توہین جانتے تھے۔ سو استکبار یعنی اپنی بڑائی کا غرور اور گھمنڈ باعث محرومی ہے، والعیاذُ باللہ، اور دوسری بڑی وجہ ان کے اس کفر و انکار کی یہ ہوتی تھی کہ وہ دعوت حق کو قبول کرنے میں اپنی جھوٹی سیادت و قیادت اور من گھڑت بڑائی اور کھڑ پہنچی کا خاتمہ سمجھتے تھے۔ اس لئے وہ اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔ سو انہوں نے اپنے کفر و انکار اور اپنی تکذیب حق کے جواز میں پہلی بات تو یہ کہی کہ یہ شخص تو تم ہی جیسا ایک بشر اور انسان ہے تو پھر یہ اللہ کا رسول کس طرح ہو سکتا ہے؟ یعنی وہی غلط فہمی جو اعجوبہ پرست انسان کو ہمیشہ رہی۔ یعنی یہ کہ رسالت اور بشریت کے درمیان تضاد اور منافات ہے، لہٰذا یہ دونوں وصف یکجا نہیں ہو سکتے۔ اعجوبہ پرست اور فطرت کے تقاضوں سے منحرف انسان کو یہ غلط فہمی ہمیشہ رہی کل بھی تھی اور آج بھی ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ کل کے اس اعجوبہ پرست انسان نے حضرات انبیاء ورسل کی بشریت طاہرہ کی بناء پر ان کی نبوت رسالت کا انکار کیا، اور آج کا بر خود غلط انسان ان کی نبوت و رسالت کو ماننے کا دعوی کر کے ان کی بشریت کا انکار کرتا ہے، اور وہ صاف و صریح طور پر کہتا ہے کہ پیغمبر بشر نہیں ہوتے۔ حالانکہ اصل اور حقیقت یہی ہے کہ حضرات انبیاء کرام بیک وقت بشر اور انسان بھی ہوتے ہیں، اور نبی و رسول بھی، اپنی اصل اور حقیقت کے اعتبار سے تو وہ بشر اور انسان ہی ہوتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے انتخاب اور اجتنباء کی بناء پر نبی و رسول بھی، اور یہی تقاضا ہے عقل اور نقل دونوں کا، جیسا کہ اس کو دوسرے مختلف مقامات پر اس حقیقت کو طرح طرح سے واضح فرمایا گیا ہے قوم نوح کے ان کافر اور منکر سرداروں نے آنجناب پر دوسرا اعتراض یہ کیا کہ یہ شخص تم لوگوں پر بڑائی حاصل کرنا چاہتا ہے یعنی ان بدبختوں نے آنجناب کی نیت پر حملہ کیا۔ اور تیسری بات ان لوگوں نے اپنے انکار اور اعتراض کے ضمن میں یہ کہی کہ یہ شخص جو کچھ ہم سے کہتا ہے وہ ہم نے اپنے بڑوں اور باپ دادا سے کبھی نہیں سنا۔ یعنی اس کی باتیں ہماری تاریخ و روایات اور ہماری ثقافت کے خلاف ہیں، لہٰذا ہم ان کو ماننے اور قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ سو اس طرح وہ اپنے کفر و انکار پر اڑ گئے حق بات کو سننے اور ماننے کے لئے کسی بھی طور پر تیار نہ ہوئے۔ جس کے نتیجے میں آخرکار وہ اپنے انتہائی ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے والعیاذُ باللہ العظیم،

۳۱.    قَرْن سے اصل مراد ایک دور کے لوگ ہوتے ہیں اسی لئے اس کا اطلاق قوم اور امت پر بھی ہوتا ہے سو مطلب اس ارشاد کا یہ ہے کہ قوم نوح کی ہلاکت اور تباہی کے بعد ہم نے حضرت نوح اور ان کے ان ساتھیوں کی نسل سے جو کہ ان کے ساتھ کشتی میں سوار تھے دوسری مختلف قومیں اٹھائیں۔ جیسے عاد اور ثمود وغیرہ سورہ اعراف میں قوم نوح کے جانشین کی حیثیت سے قوم عاد ہی کا ذکر فرمایا گیا ہے، اور ان کے بعد قوم ثمود کا، پس قَرْن کا اصل اور اولیں مصداق یہی لوگ ہیں، اور ان کے بعد آئیں، سو قوموں کو اٹھانا مٹانا، اور ان کی جگہ دوسروں کو لابسانا سب کچھ اسی وحدہٗ لاشریک کے قبضہ قدرت و اختیار میں، اور اسی حکمت اور مشیت کے تابع ہے، سبحانہ و تعالیٰ،

۳۲.    یعنی ان قوموں میں سے ہر قوم کے اندر انہی میں سے ایک رسول بھیجا گیا مِنْہُمْ (انہی میں سے) کی تصریح سے اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ ان کے وہ رسول خود انہی قوموں سے اور انسان اور بشر تھے اور یہ اللہ پاک کی ایک مستقل سنت اور دائمی دستور رہا ہے کہ ہر قوم کے اندر انہی میں سے رسول بھیجا گیا یعنی کسی جن یا فرشتے کو کبھی کسی قوم کے لئے رسول بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ کیونکہ جن یا فرشتے کی اتباع اور پیروی انسان کے لئے ممکن نہ تھی سو یہ اللہ پاک کا اپنے بندوں پر ایک خاص، اور عظیم الشان احسان تھا کہ اس نے ان کی ہدایت و راہنمائی کے لئے انہی میں سے رسول بھیجا تاکہ لوگ اس کی اتباع اور پیروی کر سکیں۔ سو ان قوموں کے رسولوں نے ان کو سب سے پہلے یہی اصولی اور بنیادی تعلیم دی اور ان کو یہی ہدایت فرمائی کہ تم سب لوگ ایک اللہ ہی کی عبادت و بندگی کرو۔ کہ معبود برحق تم سب کا بہر حال وہی وحدہٗ لاشریک ہے، اور پھر ان کے ضمیروں پر دستک دیتے ہوئے ان سے فرمایا کہ کیا تم لوگ اس سے ڈرتے اور اس کی گرفت و پکڑ سے بچتے نہیں ہو؟ کہ اس کے سوا اپنے خود ساختہ اور من گھڑت معبودوں کی پوجا کرتے ہو۔ یعنی تم لوگوں کو ڈرنا، اور اپنے انتہائی ہولناک انجام سے بچنے کی فکر کرنی چاہیے، قبل اس سے کہ اس کی فرصت اور موقع تمہارے ہاتھ سے نکل جائے، اور تمہیں تمہارے ہولناک انجام میں دھر لیا جائے۔

۳۴.    یعنی وہی بات جو قوم نوح کے کافر سرداروں نے حضرت نوح کی دعوت حق کے جواب میں کہی تھی۔ وہی ان کی قوم کے کافروں سرداروں نے اپنے رسول کی دعوت کے جواب میں کہی یعنی یہ کہ یہ رسول جب تم ہی جیسا بشر اور انسان ہے۔ اور تمہاری ہی طرح کھانا کھاتا۔ اور پانی پیتا ہے تو پھر یہ خدا کا رسول کس طرح ہو سکتا ہے۔ پس تم لوگوں نے اگر اپنے ہی جیسے ایک انسان کی اطاعت کر لی تو یقیناً تم لوگ سخت خسارے میں پڑ جاؤ گے اور یہ منکر انسان کی مت ماری کا ایک عجیب نمونہ و مظہر رہا کہ یہ اپنے ہاتھوں کے گھڑے ہوئے بے جان پتھروں اور بے حقیقت مورتیوں کو تو خدا ماننے کو تیار ہو گیا۔ لیکن اللہ پاک کے چنے ہوئے مقدس انسانوں کو رسول ماننے کے لئے تیار نہیں ہوا کہ یہ ہمارے ہی جیسے انسان ہیں، والعیاذُ باللہ۔

۳۷.    یعنی یہی دنیا دُوں اور اس کی چند روزہ عیش ہی سب کچھ ہے جس کو یہ مل گئی اس کو سب کچھ مل گیا، نہیں تو کچھ بھی نہیں، سو دنیا پرست انسان کا یہی نظریہ جب تھا اور یہی اب ہے۔ کہ ایسے لوگوں کے نزدیک مادہ ومعدہ کے تقاضوں اور بطن و فرج کی خواہشات کی تکمیل ہی سب کچھ ہے سو منکرین قیامت جو بعث بعد الموت۔ اور وقوع قیامت کا انکار کرتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ ان کے پاس اس انکار کے لئے کوئی دلیل موجود ہے ایسی کوئی دلیل نہیں ہے۔ نہ ہو سکتی ہے، پس صرف ان کا اچنبھا اور استبعاد ہے اور ظاہر ہے کہ یہ کوئی دلیل نہیں ہو سکتی۔ لیکن یہ لوگ اسی استبعاد کی بناء پر قیامت کی اس حقیقت کبری کا ارتکاب کرتے ہیں جس سے ان کا سب سلسلہ حیات ہی غلط ہو گیا، اور ایسے لوگ اندھے اور اوندھے بن کر رہ گئے، والعیاذُ باللہ العظیم

۴۱.    سو بڑی دوری اور پھٹکار ہے ان ظالموں کے لئے جنہوں نے اللہ کے دین کو قبول کر کے اس کی رحمتوں کے مستحق بننے کے بجائے الٹا اس کا انکار کر کے اور اس سے منہ موڑ کر ہلاکت و تباہی کا راستہ اختیار کیا اور بالآخر وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے لعنت و پھٹکار کے مورد و مستحق بنے۔ سو دین حق سے منہ موڑنا۔ والعیاذ باللہ ظلم ہے کہ ایسے لوگ اپنے خالق و مالک کے حکم و ارشاد سے منہ موڑ کر اس کے حق اطاعت و عبادت کے بارے میں ظلم کرتے ہیں، نیز یہ ظلم ہے ان لوگوں کے خود اپنی جانوں کے حق میں کہ اپنے اس کفر و انکار کے نتیجے اور اس کی پاداش میں ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور عنایتوں کی ناقدری کر کے اور ان سے منہ موڑ کر اپنے آپ کو ہمیشہ کے اور دائمی عذاب میں مبتلا کرتے ہیں والعیاذُ باللہ

۴۳.    یعنی اس کے بعد ہم ہر قوم کے اندر انکی ہدایت و راہنمائی کے لئے خود انہی میں سے انکے لئے رسول بھیجتے رہے۔ جو ان کو حق و ہدایت کی دعوت دیتے رہے لیکن انہوں نے بھی اپنے رسولوں کی تکذیب ہی کی۔ جس کے نتیجے میں ہر قوم اپنی مدت پوری کرنے کے بعد اپنے کیفر کردار کو پہنچتی رہی۔ نہ کسی قوم کو اس کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہلاک کیا گیا، اور نہ کسی کو اس کی اجل معین پوری ہونے کے بعد کوئی مہلت ملی۔ اور قوموں کے عذاب کے لئے اس مدت کی تعیین و تحدید اس کے اخلاقی زوال کے پیمانے کے اعتبار سے مقرر ہوتی ہے۔ اور اس حقیقت کو خدا ہی جانتا ہے کہ کس قوم کا اخلاقی زوال کب اس حد تک کو پہنچتا ہے جب وہ اپنے آخری انجام سے دوچار ہوتی ہے اور اس کے بعد اس کے وجود سے خداوند قدوس کی دھرتی کو پاک کرنا ضروری ہو جاتا ہے، سو اس میں ان منکر لوگوں کے لئے بڑی تنبیہ ہے جو استہزاء و مذاق کے طور پر اللہ تعالیٰ کے عذاب کے لئے جلدی مچاتے ہیں کہ تم لوگوں کا پیمانہ جب لبریز ہو جائے گا۔ اور تمہاری مدت مقررہ جب پوری ہو جائے گی تو تم پر وہ عذاب مانگے بغیر خود بخود آکر رہے گا۔ اور تمہیں ایک منٹ کی بھی مہلت نہیں ملے گی، بس تم اس کے لئے جلدی مچانے کے بجائے اس سے بچنے کی فکر کرو،

۴۶.    یعنی انہوں نے بھی دعوت حق کے مقابلے میں اسی استکبار سے کام لیا۔ جس سے دوسرے انبیائے کرام کے مکذبین و منکرین نے لیا تھا، اور وَکَانُوْا عَالِیْنَ کے جملے سے ان کے قومی مزاج کی خصوصیت کو واضح فرما دیا گیا کہ ان کا یہ استکبار ان کے کسی وقتی ہیجان یا اشتعال کا نتیجہ نہیں تھا، بلکہ وہ لوگ تھے ہی بڑے سرکش اور ہٹ دھرم و متکبر لوگ، چنانچہ فرعونی تکبر آج تک ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے، اور مزید بر آن مطلق العنان حکمرانی اور ڈکٹیٹر شپ نے ان کے اس طبعی اور موروثی مزاج کو اور بھی زیادہ بگاڑ دیا تھا۔ اور فرعونیوں کے اسی مزاج کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا تو ان سے فرمایا تھا، اِذْہَبْ اِلیٰ فِرْعَوْنَ اِنَّہ طَغیٰ، کہ جاؤ تم فرعون کے پاس کہ وہ یقیناً بڑا سرکش ہو گیا ہے۔ اور مزید برآں ان کی اس فرعونیت اور سرکشی میں اضافہ اس بات نے کیا کہ حضرت موسیٰ کی قوم ان کی غلام تھی۔ چنانچہ انہوں نے اس حقیقت کے بیان و اظہار کے لئے صاف طور پر کہا کہ کیا ہم اپنے ہی جیسے دو انسانوں پر ایمان لے آئیں جبکہ ان کی قوم ہماری غلامی کر رہی ہے؟ یعنی ایسے کبھی نہیں ہو سکتا۔ سو انہوں نے اسی کبر و غرور اور عناد و استکبار کی بناء پر حضرت موسیٰ اور ہارون کو جھٹلایا جس کے نتیجے میں آخرکار وہ اپنے آخری اور انتہائی ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم

۵۴.    یعنی تمام انبیاء ورسل ایک ہی طریقے اور ایک ہی دین پر تھے۔ ان سب کی دعوت ایک یعنی توحید خداوندی کی دعوت تھی۔ اور ان سب کا دین ایک ہی دین یعنی اسلام تھا، جو کہ دین فطرت ہے جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَامُ یعنی دین تو اللہ تعالیٰ کے یہاں اسلام ہی ہے، اور جس کی اساس و بنیاد یہ ہے کہ معبود برحق اللہ وحدہٗ لاشریک ہی ہے۔ پس تقویٰ و خوف بھی اسی کا چاہیے اور عبادت و بندگی بھی اسی کی اور صرف اسی کی بجا لائی جائے۔ مگر ان کے بعد لوگوں نے اپنی اپنی اہواء و اغراض کے مطابق اور باہمی عناد و ہٹ دھرمی اور ضدم ضدا کی بناء پر اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جس گروہ کے ہاتھ جو ٹکڑا لگا وہ اسی پر مست و مگن ہو گیا۔ اور اس حد تک کہ وہ دوسرے کسی کی بات کو سننے ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتا تھا۔ سو ایسے ہٹ دھرموں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان کو انکی غفلت و مدہوشی ہی میں پڑا رہنے دو۔ یہاں تک کہ یہ اپنے آخری انجام کو پہنچ کر رہیں، والعیاذُ باللہ العظیم

۵۶.    اور اسی بناء پر یہ لوگ اپنے دنیاوی مال و دولت اور اولاد و انصار کی بناء پر مست ہیں۔ اور اپنے تئیں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ٹھیک اور درست ہیں، حالانکہ یہ سراسر محرومی اور ہلاکت کی راہ پر ہیں، کیونکہ ایمان و یقین کی دولت سے محرومی ہر خیر سے محرومی اور سب سے بڑا خسارہ ہے۔ اور یہ خداوند قدوس کی طرف سے استدراج کے شکنجے میں کسے جا رہے ہیں جیسے دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِّنْ حَیْثُ لَایَعْلَمُوْنَ (القلم، ۲۴) سو کفر و انکار کے ساتھ دنیاوی مال و دولت کا ملنا خوشی کا مقام نہیں۔ بلکہ یہ نہایت ہی ہولناک انجام کا پیش خیمہ ہے، والعیاذُ باللہ العظیم،

۶۱.    سو ان آیات کریمات سے ایک تو اس حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں کامیابی اور فائز المرامی کی اساس و بنیاد ذات پات یا کسی قوم قبیلے پر نہیں۔ بلکہ انسان کے اپنے کردار و عمل اور اس کے اخلاق و صفات پر ہے۔ کیونکہ کسی قوم یا قبیلے سے ہونا یا کسی ذات پات سے تعلق رکھنا انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا۔ اور غیر اختیاری امور معیار فضیلت نہیں بن سکتے، بلکہ فضیلت و شرف کا مدار و انحصار انسان کے اپنے ایمان و عقیدہ اور عمل و کردار پر ہے، اور یہاں پر فائز المرام لوگوں کی جن صفات کو ذکر فرمایا گیا، ان میں سے پہلی صفت یہ ہے کہ وہ اپنے رب کی عظمت اور اس کے خوف و خشیت سے ڈرتے رہتے ہیں۔ سو خوف و خشت خداوندی اصلاح احوال اور فوز و فلاح سے سرفرازی کے لئے اولین اساس ہے۔ اس کے بعد دوسری صفت ان کی یہ بیان فرمائی گئی کہ وہ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں، اور تیسری صفت یہ کہ وہ اپنے رب کے ساتھ شرک نہیں کرتے۔ اور چوتھی صفت یہ کہ وہ جو کچھ دیتے اور خرچ کرتے ہیں وہ اپنے رب کی رضا و خوشنودی کے لئے کرتے ہیں، اور ان کے دل ڈر رہے ہوتے ہیں کہ انہوں نے بہر حال لوٹ کر اپنے رب کے یہاں جانا ہے۔ سو ایسے خوش نصیبوں کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہی ہیں وہ خوش نصیب لوگ جو نیکیوں اور بھلائیوں کی راہ میں آگے بڑھتے اور اس میں سبقت لے جانے والے ہیں، اور یہی ہیں وہ جو اپنی ان نیکیوں کے ثمرات پا کر رہیں گے۔ وباللّٰہ التوفیق لما یُحِبُّ ویرید، وعلیٰ ما یُحِبُّ ویرید، بِکُلِّ حَالٍ مِّنَ الاحوال، وفی کل موطنٍ مِّنَ المواطن فی الحیاۃ،

۶۶.    اور اپنے کبر و غرور کے نشے میں تم لوگ حق بات کو سننے اور ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے۔ جبکہ اپنی بگڑی بنانے کا وقت تمہارے لئے وہی تھا جو تم لوگوں نے ضائع کر دیا۔ اب نہ وہ وقت واپس آ سکتا ہے اور نہ ہی تم لوگوں کی کہیں سے کوئی مدد ہو سکتی ہے پس اب تم اپنے کئے کرائے کا بھگتان بھگتو، سو یہ وہی بات ہے جو ایسے منکرین نے ہمیشہ گرفتارِ بلا ہونے کے بعد کہی، اور ان کو اس موقع پر یہی جواب دیا گیا۔ فرعون نے بھی جب وہ سمندر کی موجوں کی لپیٹ میں آیا چیخ اور چلا کر یہی بات کہی تھی کہ میں اس خدا پر ایمان لایا ہو ںجس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں، مگر اس کو بھی اس وقت ایسا ہی رُسوا کن جواب ملا تھا۔ کہ اب تمہارے اس ایمان کی کوئی قدر و قیمت نہیں۔ سو مطلوب و مقصود وہ ایمان ہے جو بالغیب یعنی بن دیکھے ہو۔ اس لئے عذاب دیکھ لینے اور اپنے انجام کو پہنچ جانے کے بعد کے ایمان کی اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں کہ وہ ایمان بالغیب نہیں بلکہ ایمان بالمشاہدہ ہے جو کہ نہ مطلوب ہے اور نہ مفید۔

۶۷.    اس آیت کریمہ میں مستکبرین کے لفظ کے بعد بِہٖ کا جار مجرور اس بات کا قرینہ ہے کہ یہاں پر یہ لفظ مذاق اور استہزاء کے معنی کو بھی متضمن ہے اور ضمیر مجرور کا مرجع قرآن بھی ہو سکتا ہے اور رسول بھی کہ یہ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں، اس لئے ان میں سے ایک کا انکار دوسرے کے انکار اور ایک کا مذاق اڑانا دوسرے کے مذاق اڑانے کو مستلزم ہے اور سامِرًا کے معنی افسانہ خواں اور قصہ گو کے ہیں۔ یہاں پر یہ لفظ بعد والے فعل یعنی تَہْجُرُوْنَ کا مفعول بھی ہو سکتا ہے، اور بِہٖ کی ضمیر مجرور سے حال بھی بن سکتا ہے۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ہماری خوشنودی کے حصول اور اس سے سرفرازی کا وقت وہ تھا، جبکہ ہمارے بندوں کے ذریعے تم لوگوں کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائی جاتی تھیں، کہ تم راہِ حق و ہدایت کو اپناؤ مگر اس وقت تم اپنے کبر و غرور میں ایسے مست و مگن تھے کہ حق بات کو سننے ماننے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے تھے، بلکہ الٹا تم ہمارے رسول کو افسانہ خواں اور قصہ گو اور ہماری اتاری ہوئی کتاب ہدایت کو قصوں، کہانیوں، اور افسانوں، کا مجموعہ (اساطیرالاولین) قرار دیا کرتے تھے، اور سبق لینے کے بجائے الٹا تم حق کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ سو وہ انتہائی قیمتی موقع اور وقت تو تم نے اس طرح ضائع کر دیا۔ اب چیخنے چلانے کا کیا فائدہ؟ اب تم اپنے کئے کرائے کا بھگتان بھگتو، اور ہمیشہ کے لئے بھگتتے ہی رہو۔ کہ یہ سب کچھ تمہارا اپنا ہی کیا کرایا ہے۔

۷۴.    سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ پیغمبر جس راہ کی دعوت دے رہے ہیں وہ بہر حال حق اور صدق ہے۔ اور وہ عقل و نقل دونوں کا تقاضا ہے، اور وہ حقیقی فوز و فلاح سے سرفرازی کی راہ اور واحد راہ ہے اس میں کسی قسم کی کوئی کجی یا انحراف نہیں ہے کجی اور انحراف جو بھی کچھ ہے وہ انہی لوگوں میں ہے جو اس راہ حق و صواب سے منہ موڑے ہوئے ہیں، اور وہ آخرت کے روز جزاء پر ایمان نہیں رکھتے۔ کہ ایسے لوگ اپنی خواہشات کو چھوڑ کر راہ حق و ہدایت کو اپنانے کے لئے تیار نہیں ہوتے، بلکہ وہ خواہشات ہی کے پیچھے چلتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ وہ ہلاکت و تباہی کے ہولناک گڑھے میں جا گرتے ہیں۔ سو آخرت پر ایمان و یقین سے محرومی دارین کی ہلاکت و تباہی کا باعث ہے کہ اس کے بعد انسان اپنے حقیقی نفع و نقصان کے فہم و ادراک ہی سے عاری ہو جاتا ہے۔ والعیاذُ باللہ العظیم، اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر حال میں اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں ہی پر چلنا نصیب فرمائے، اور نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین

۷۶.    اَخَذْنَاہُمْ میں ضمیر منصوب ہُمْ کا مرجع موجودہ کفار و منکرین نہیں۔ بلکہ اس کا مرجع ان کے ہم مشرب وہ منکرین ہیں جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں، اور جو اپنے اپنے دور میں اسی طرح کے کفر و انکار پر مصر تھے سو اس سے موجودہ دور کے منکرین کو تاریخ کے درس سے تنبیہ فرمائی گئی۔ اور اس حقیقت کو اجاگر فرمایا گیا ہے کہ اس قماش کے منکر و متکبر لوگ تنبیہات سے سبق نہیں لیتے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہتے ہیں سو ایسے لوگوں کو تنبیہی عذابوں سے پکڑا گیا لیکن نہ ان کے دلوں میں شکستگی اور نرمی پیدا ہوئی اور نہ انہوں نے دعا و گریہ اور عاجزی و تضرع سے کام لیا۔ اور نہ ان کی اکڑی ہوئی گردنوں میں خم آیا۔ یہاں تک کہ وہ اپنے آخری اور ہولناک انجام کو پہنچ کر رہے، والعیاذُ باللہ جل وعلا۔ سو تنبیہی عذاب بھیجنا بھی قدرت کی رحمت و عنایت کا ایک نمونہ و مظہر ہوتا ہے۔ تاکہ اس کے نتیجے میں ایسے لوگ سنبھل جائیں اور حق کی طرف رجوع کر کے دائمی ہلاکت و تباہی اور آخرت کے عذاب سے بچ جائیں، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِنَ الْعَذَابِ الْاَدْنیٰ دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ (السجدۃ۔۲۱)

۷۷.    یعنی جب ایسے منکر اور مغرور لوگوں نے تنبیہی جھڑکیوں سے کوئی سبق نہ لیا، بلکہ وہ اپنے کبر و غرور اور عناد و ہٹ دھرمی ہی پر اڑے رہے یہاں تک ان کے لئے مقرر اور طے شدہ عذاب کا وقت آگیا تو ہم نے ان پر سخت عذاب کا دروازہ کھول دیا، جس کے نتیجے میں ان کے تمام سہارے ختم ہو گئے اور ان کی تمام امیدیں یک قلم ہَباءً منثوراً ہو کر رہ گئیں۔ آیت کریمہ میں عذاب شدید سے مراد وہی عذاب ہے جو سنت الٰہی اور دستور خداوندی کے مطابق ہر اس قوم پر آیا جو اپنے کفر و انکار اور تکذیب حق کے جرم پر اڑی رہی۔ اور وہ حق کو اپنانے اور قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوئی، والعیاذُ باللہ

۷۷.    سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت سے سرفرازی اور سرشاری کے لئے تم لوگوں کو کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں، بلکہ تم خود اپنے اندر ہی صحیح طور پر غور کر لو تو حقیقت پوری طرح واضح ہو جائے گی تم ذرہ سوچو کہ تم لوگوں کو کانوں، آنکھوں، اور دلوں، کی ان عظیم الشان نعمتوں سے آخر کس نے نوازا؟ جو خود تمہارے وجود کے اندر موجود ہیں، اور جن سے تم لوگ ہمیشہ اور برابر مستفید و فیضیاب ہوتے رہتے ہو؟ سو وہی ہے اللہ وحدہ، لاشریک۔ خالق کل اور مالک مطلق، اور وہی ہے معبود برحق، سبحانہ و تعالیٰ۔ پھر اسی سے تم لوگ اس بارہ بھی سوچو اور غور کرو کہ ان نعمتوں سے آخر اس نے تم لوگوں کو کیوں نوازا؟ اور ان کا صحیح مصرف اور حق کیا ہے؟ سو تمہیں جو کان بخشے گئے تو ان کا تقاضا یہ ہے کہ تم لوگوں کو حق و ہدایت کی جو باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو تم گوش ہوش سے سنو۔ اور ان کو حرز جان بناؤ اور اس نے جو تم لوگوں کو آنکھوں کی نعمت سے نوازا ہے تو اس کا تقاضا یہ ہے تم قدرت کی ان عظیم الشان نشانیوں کو دیکھو اور ان میں نگاہ عبرت و بصیرت ڈالو، جو آفاق وانفس میں ہر طرف پھیلی بکھری ہیں، اور جن کی طرف تمہیں طرح طرح سے توجہ دلائی جا رہی ہے، سو تم اپنے دل و دماغ سے ان نتائج و ثمرات میں غور و فکر سے کام لو، جو ان سے برآمد ہوتے ہیں مگر تم لوگ ہو کہ حق کو ماننے کے لئے دلیل کے بجائے ڈنڈے کا مطالبہ کرتے ہو۔ اور رحمت خداوندی سے سرفرازی کے بجائے اس کے عذاب کو طلب کر رہے ہو، والعیاذُ باللہ العظیم،

۷۷.    سو اس سے مشرکین کے دل و دماغ پر ایک اور دستک کے طور پر ان کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ ان سے پوچھو کہ بھلا کون ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کی باگ ڈور ہے جس سے وہ اس کو تھامے اور روکے ہوئے ہے؟ اور اس کی شان یہ ہے کہ وہ جس کو چاہے پناہ دے، لیکن دوسرے کسی کے بس میں نہیں کہ وہ اس کی گرفت و پکڑ سے کسی کو چھڑا اور بچا سکے؟ اگر ایسی کسی ہستی کے بارے میں تم لوگوں کو کسی طرح کا علم و آگہی ہے تو بتاؤ، اور اس کا نام لو جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا قُلْ سَمُّوْہُمْ الایٰۃ (الرعد۔۳۳) اور ظاہر ہے کہ ایسی دوسری کوئی بھی ہستی نہیں سوائے اللہ وحدہٗ لاشریک کے۔ بس وہی ہے معبود برحق، سبحانہ و تعالیٰ

۷۹.    یعنی اس سوال کے جواب میں بھی یہ لوگ یہی کہیں گے کہ یہ سب اختیارات بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ہیں، وہی ہے جس کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہر چیز کی زمام اقتدار و اختیار ہے اور اسی کی شان ہے کہ وہ جس کو چاہے پناہ دے، اور کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں جو اس کے مقابلے میں کسی کو پناہ دے سکے۔ اور کسی کو اس کی گرفت و پکڑ سے چھڑا سکے تو پھر تمہاری مت آخر کہاں ماری جاتی ہے اور تم پر یہ جادو کیسے کیا جا رہا ہے کہ تم اس کے ساتھ اور بھی معبود مانتے اور ان کی پوجا پاٹ کرتے ہو، سو تم لوگ مقدمات تو سب مانتے ہو مگر اس نتیجے کو تسلیم نہیں کرتے جو کہ بدیہی طور پر ان پر مرتب ہوتا ہے، اور جس کو ماننا لازمی ہو جاتا ہے۔

۹۴.    سو اس ارشاد میں ایک طرف تو پیغمبر کے کمال عبدیت کی شان کا اظہار ہو رہا ہے، کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے رب کے حضور اس طرح عاجزانہ دعا کرتے ہیں کہ اگر تو میرے جیتے جی ان ظالموں پر وہ عذاب لانے والا ہے جس سے ان کو خبردار کیا جا رہا ہے تو اے میرے رب مجھے ان ظالموں میں شامل نہ کیجیو۔ بلکہ مجھے اپنے دامن رحمت ہی کے نیچے رکھیو۔ اور دوسری طرف اس میں آنجناب کے مکذبین کے لئے آخری انذار بھی ہے کہ اب ان لوگوں پر اللہ کا عذاب آیا ہی چاہتا ہے، اور ان کے آخری انجام کا وقت کچھ زیادہ دور نہیں، چنانچہ ایسے ہی ہوا، اور آپ کے دشمن آپکی زندگی ہی میں اپنے انجام کو پہنچ کر رہے، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم جب اس دنیا سے تشریف لے گئے تو جَاءَ الْحَقِّ وَزَہَقَ الْبَاطِلْ کا اعلان فرما کر ہی تشریف لے گئے۔ یعنی یہ کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا، اور باطل تو ہی مٹنے والی چیز۔

۹۶.    سو اس میں پیغمبر کے لئے صبر و برداشت کی تعلیم و تلقین ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان لوگوں کے دلآزار اور دکھ دہ رویہ و سلوک کے جواب میں صبر و برداشت اور عفو و درگزر ہی سے کام لیتے رہیں، جیسا کہ اس سے پہلے لیتے رہے، ان کے برے سلوک کے جواب میں اچھے سلوک ہی کا مظاہرہ کرتے رہیں، جو ہر زہ سرائیاں اور بدتمیزیاں و شرانگیزیاں یہ لوگ کر رہے ہیں وہ سب ہمارے علم میں ہیں ہم ان کو اچھی طرح سے جانتے ہیں، یعنی ہم ان سے خود ہی نبٹ لیں گے آپ کو ان کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ سو اللہ پر بھروسہ و اعتماد سب سے بڑی سپر اور ڈھال ہے۔

۹۷.    اس ارشاد سے اس صبر و برداشت اور عفو و درگزر کے حصول اور اس سے سرفرازی کے لئے دعا کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے، جس کا حکم و ارشاد اوپر فرمایا گیا ہے سو ارشاد فرمایا گیا کہ آپ ہمیشہ یہ دعا کرتے رہیں کہ اے میرے رب! میں شیطانوں کے وسوسوں اور ان کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اور اس بات سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ یہ میرے پاس آئیں، یعنی بحث و جدال اور شر و فساد کیلئے، اور شیاطین سے مراد عام ہیں۔ خواہ وہ شیاطین انس میں سے ہوں، یا شیاطین جن میں سے۔ اللہ سب سے اپنی پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین،

۱۰۰.  یعنی دنیا میں واپسی کی اپنی جس خواہش کا اظہار وہ کرے گا۔ وہ کبھی پوری نہیں ہو گی۔ اور اس کو دنیا کی طرف کسی بھی طرح لوٹایا نہیں جائے گا۔ حیات دنیا کی وہ فرصت جو ان لوگوں کو آخرت کی کمائی اور وہاں کے عمل کے لئے بخشی گئی تھی، وہ ان کے ہاتھ سے نکل چکی ہو گی۔ اب اس نے کسی بھی قیمت پر ان کو واپس نہیں ملنا۔ اور اس مہلت حیات کے ختم ہو جانے کے بعد ان کے آگے ایک ایسا پردہ حائل ہو جائے گا جو اسی دن ان سے ہٹے گا جبکہ ان کو قبروں سے دوبارہ اٹھایا جائے گا، تاکہ یہ اپنے زندگی بھر کے کئے کرائے کا حساب دیں۔ اور اس کا صلہ و بدلہ اور اس کا دائمی پھل پاس کیں۔ سو ان لوگوں کے مونہوں سے نکلنے والی یہ بات محض ایک بات ہو گی، جس کا کوئی اثر اور نتیجہ برآمد ہونے والا نہیں سوائے اس کے کہ اس سے انکی آتش یاس و حسرت ہی میں اضافہ ہوتا جائے، والعیاذُ باللہ جل وعلا

۱۰۳.  سو اس یوم حساب میں کسی کو اس کا حسب و نسب کچھ کام نہیں آ سکے گا، بلکہ ہر کسی کا فیصلہ اس کے اپنے عمل و کردار ہی پر موقوف ہو گا، اس لئے ان کے اعمال کو ترازو میں تولا جائے گا پس جن لوگوں کے نیکیوں کے پلڑے بھاری ہونگے، وہی حقیقی فوز و فلاح سے سرفرازی ہونگے، اور وہ اَبَدی و دائمی نعمتوں میں رہیں گے، اور اس کے برعکس جن کے نیکیوں کے پلڑے ہلکے ہونگے وہی وہ ہونگے جنہوں نے اپنی جانوں کو خود خسارے میں ڈالا ہو گا، سو انہوں نے اپنے کئے کرائے کے نتیجے میں دوزخ کی اس دہکتی بھڑکتی آگ میں ہمیشہ کے لئے رہنا ہو گا۔ جہاں کہ وہ ہولناک آگ ان کو جھلس رہی ہو گی۔ اور یہ اس میں انتہائی بدحال ہونگے، اور اس حد تک کہ اس دنیا میں اس کا پوری طرح تصور کرنا بھی کسی کے لئے ممکن نہیں، والعیاذُ باللہ العظیم

۱۰۷.  سو دوزخ میں پڑے ان بدبختوں کی چیخ و پکار کے جواب میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو کہا جائے گا کہ تم لوگوں کو دنیا میں تمہارے اس ہولناک انجام سے پوری طرح خبردار کر دیا گیا تھا۔ مگر تم لوگ وہاں پر اس کو ماننے اور انکی روشنی میں اپنی اصلاح کرنے کے بجائے ان کی تکذیب ہی کرتے رہے، حق کو تم لوگوں نے مان کر نہ دیا، تب وہ اقرار جرم کرتے ہوئے کہیں گے کہ اے ہمارے رب واقعی ہم لوگوں پر ہماری بدبختی غالب آ گئی تھی جس کے نتیجے میں ہم نے حق کو مان کر نہ دیا۔ اور ہم گمراہ کے گمراہ ہی رہے، پس اب ہمیں اے ہمارے رب ایک مرتبہ پھر دنیا میں جانے کا موقع دے دے۔ اب اگر ہم نے ایسا کیا تو یقیناً ہم بڑے اور پکے قصور وار ہونگے۔ سو اس اپیل و درخواست کے جواب میں حق تعالیٰ کی طرف سے ان کو کہا جائے گا کہ جاؤ، دفع ہو جاؤ اسی حال میں پڑے رہو، اور مجھ سے بات مت کرو۔خَسَاءَ اصل میں کتے کو دھتکارنے کے لئے بولا جاتا ہے۔ سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ ان کی اس عرض و التجا کے جواب میں ان کو اس قدر تذلیل و رسوائی کا جواب دیا جائے گا۔ کیونکہ انہوں نے دنیا میں حق کو مانا اور قبول نہیں کیا تھا۔ بلکہ الٹا وہاں پر یہ لوگ حق والوں کا مذاق اڑاتے، اور ان کی تذلیل و تحقیر کا ارتکاب کرتے رہے، یہاں تک کہ دنیائے فانی کی وہ فرصت محدود و مختصر جو ان کو دراصل آخرت ہی کی تیاری کے لئے دی گئی تھی، تمام ہو گئی، اور یہ اپنے اس آخری اور ہولناک انجام سے دوچار ہو کر رہے، جس سے چھٹکارے کی پھر کوئی صورت ان کے لئے ممکن نہ ہو گی، والعیاذُ باللہ العظیم

۱۱۱.  سو اس سے ان اشقیاء کی اس تذلیل کے سبب کو واضح فرما دیا گیا جس کا ذکر ابھی اوپر ہوا، اور جس کی بناء پر اللہ تعالیٰ ان کو اپنے سے بات کرنے سے بھی روک دے گا، اور ان سے فرمائے گا کہ اب تم لوگ میرے سامنے زبان بھی نہ کھولو۔ کہ تم ایسے شقی اور بدبخت لوگ ہو کہ جب میرے بندوں کی ایک جماعت میرے حضور اپنی بخشش اور رحمت کی دعا کیا کرتی تھی، تو تم ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے اور ان کی ہنسی اور مذاق میں تم لوگ اتنے مشغول اور منہمک رہا کرتے تھے کہ اس کی بناء پر تم میری یاد ہی سے غافل ہو گئے تھے اور تم کو یہ بھی یاد نہ رہا تھا کہ آخرکار تم نے ایک روز میرے حضور بھی حاضر ہونا۔ اور اپنے کئے کرائے کی جوابدہی کرنی ہے سو ان بندگانِ صدق و صفا کو تو میں نے ان کے صبر و استقامت کے نتیجے میں یہ صلہ اور بدلہ دیا کہ وہ اب ہمیشہ کی فائز المرامی سے سرفراز ہو گئے۔ اور تم اب ہمیشہ کے عذاب میں جلتے بھنتے رہو، والعیاذُ باللہ العظیم

۱۱۷.  سو اس سے اس سورہ کریمہ کے خاتمے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے توسط سے آپ کی امت کے تمام اہل حق کو اپنے رب کے حضور دعا و درخواست کی تعلیم و تلقین فرمائی گئی ہے، کہ آپ ہمیشہ اپنے رب کے حضور یہ دعاء و درخواست کرتے رہیں کہ اے میرے رب میری بخشش فرما، اور مجھ پر رحم فرما، یعنی گذشتہ کمزوریاں اور کوتاہیاں معاف فرما دے اور آئندہ کے لئے ہمیشہ اپنی رحمت و عنایت کے سائے میں رکھ، کہ تو ہی ہے سب سے بڑا رحم فرمانے والا، اور حضرت حق جَلَّ مَجْدُہ، کی طرف سے اس دعا کی تعلیم و تلقین کا مطلب یہ ہے کہ اس میں اس کی قبولیت کا وعدہ ہے سو یہ بندہ ناچیز بھی اس موقع پر اپنے رب کے حضور یہ دعا کرتا ہے اور بصد صدق و اخلاص اور عاجزی و لجاجت سے کرتا ہے فَاغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ یَا رَبِّیْ بِمَحْضِ مَنِّکَ و کرمکَ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ فَارْحَمْنِیْ رَحْمَۃً تُغْنِیْنِیْ بِہَا عَنْ رَحْمَۃِ مَنْ سِّوَاکَ یَاذَالْجَلَالِ وَالْاکرام، وبہذا قد تم التفسیر المختصر لسورۃ المؤمنون، والحمد للہ جل وعلا