خزائن العرفان

سُوۡرَةُ المؤمنون

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف ۱)

۱                 سورۂ مؤمنون مکیّہ ہے، اس میں چھ ۶رکوع اور ایک سو اٹھارہ آیتیں ہیں اور ایک ہزار آٹھ سو چالیس ۱۸۴۰ کلمے اور چار ہزار آٹھ سو دو حرف ہیں۔

 (۱)  بیشک مراد کو پہنچے  ایمان والے  

(۲ )  جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے  ہیں (ف ۲)

۲                 ان کے دلوں میں خدا کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضا ساکِن ہوتے ہیں۔ بعض مفسِّرین نے فرمایا کہ نماز میں خشوع یہ ہے کہ اس میں دل لگا ہوا اور دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور گوشۂ چشم سے کسی طرف نہ دیکھے اور کوئی عبث کام نہ کرے اور کوئی کپڑا شانوں پر نہ لٹکائے اس طرح کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں اور آپس میں ملے نہ ہوں اور انگلیاں نہ چٹخائے اور اس قسم کے حرکات سے باز رہے۔ بعض نے فرمایا کہ خشوع یہ ہے کہ آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے۔

(۳ )  اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے  (ف ۳)

۳                 ہر لہو و باطل سے مُجتنِب رہتے ہیں۔

(۴ )  اور وہ کہ زکوٰۃ دینے  کا کام کرتے  ہیں (ف ۴)

۴                 یعنی اس کے پابند ہیں اور مداومت کرتے ہیں۔

(۵ )  اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے  ہیں۔

(۶ )  مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے  ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں (ف ۵)

۵                 اپنی بی بیوں اور باندیوں کے ساتھ جائز طریقے پر قربت کرنے میں۔

(۷ )  تو جو ان دو کے  سوا کچھ اور  چاہے  وہی حد سے  بڑھنے  والے  ہیں (ف ۶)

۶                 کہ حلال سے حرام کی طرف تجاوز کرتے ہیں۔

مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ ہاتھ سے قضائے شہوت کرنا حرام ہے۔ سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایک اُمّت کو عذاب کیا جو اپنی شرمگاہوں سے کھیل کرتے تھے۔

(۸ )  اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے  عہد کی رعایت کرتے  ہیں (ف ۷)

۷                 خواہ وہ امانتیں اللہ کی ہوں یا خَلق کی اور اسی طرح عہد خدا کے ساتھ ہوں یا مخلوق کے ساتھ سب کی وفا لازم ہے۔

(۹ )  اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے  ہیں (ف ۸)

۸                 اور انہیں ان کے وقتوں میں ان کے شرائط و آداب کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور فرائض و واجبات اور سنن و نوافل سب کی نگہبانی رکھتے ہیں۔

(۱۰ )  یہی لوگ وارث ہیں۔

(۱۱ )  کہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

(۱۲ )  اور  بیشک ہم نے  آدمی کو چنی ہوئی (انتخاب کی) مٹی سے  بنایا، (ف ۹)

۹                 مفسِّرین نے فرمایا کہ انسان سے مراد یہاں حضرت آدم ہیں۔

(۱۳ )  پھر اسے  (ف ۱۰) پانی کی بوند کیا ایک مضبوط ٹھہراؤ  میں (ف ۱۱)

۱۰               یعنی اس کی نسل کو۔

۱۱               یعنی رِحم میں۔

(۱۴ )  پھر ہم نے  اس پانی کی بوند کو خون کی پھٹک کیا پھر خون کی پھٹک کو  گوشت کی بوٹی پھر گوشت کی بوٹی کو ہڈیاں پھر ان ہڈیوں پر گوشت پہنایا، پھر اسے  اور صورت میں اٹھان دی (ف ۱۲) تو بڑی برکت والا ہے  اللہ سب سے  بہتر بتانے  والا۔

۱۲               یعنی اس میں روح ڈالی، اس بے جان کو جان دار کیا، نُطق اور سمع اور بصر عنایت کی۔

(۱۵ )  پھر اس کے  بعد تم ضرور (ف ۱۳) مرنے  والے  ہو۔

۱۳               اپنی عمریں پور ی ہونے پر۔

(۱۶ )  پھر تم سب قیامت کے  دن (ف ۱۴) اٹھائے  جاؤ گے۔

۱۴               حساب و جزا کے لئے۔

(۱۷ )  اور بیشک ہم نے  تمہارے  اوپر سات راہیں بنائیں (ف ۱۵) اور ہم خلق سے  بے  خبر نہیں (ف ۱۶)

۱۵               ان سے مراد سات آسمان ہیں جو ملائکہ کے چڑھنے اترنے کے رستے ہیں۔

۱۶               سب کے اعمال، اقوال، ضمائر کو جانتے ہیں کوئی چیز ہم سے چھپی نہیں۔

(۱۸ )  اور ہم نے  آسمان سے  پانی اتارا (ف ۱۷) ایک اندازہ پر (ف ۱۸) پھر اسے  زمین میں ٹھہرایا اور بیشک ہم اس کے  لے  جانے  پر قادر ہیں (ف ۱۹)

۱۷               یعنی مینہ برسایا۔

۱۸               جتنا ہمارے علم و حکمت میں خَلق کی حاجتوں کے لئے چاہیے۔

۱۹               جیسا اپنی قدرت سے نازِل فرمایا ایسا ہی اس پر بھی قادر ہیں کہ اس کو زائل کر دیں تو بندوں کو چاہیے کہ اس نعمت کی شکر گزاری سے حفاظت کریں۔

(۱۹ )  تو اس سے  ہم نے  تمہارے  باغ پیدا کیے  کھجوروں اور انگوروں کے  تمہارے  لیے  ان میں بہت سے  میوے  ہیں (ف ۲۰) اور ان میں سے  کھاتے  ہو (ف ۲۱)

۲۰               طرح طرح کے۔

۲۱               جاڑے اور گرمی وغیرہ موسموں میں اور عیش کرتے ہو۔

(۲۰ )  اور وہ پیڑ پیدا کیا کہ طور سینا سے  نکلتا ہے  (ف ۲۲) لے  کر اگتا  ہے  تیل اور کھانے  والوں کے  لیے  سالن (ف ۲۳)

۲۲               اس درخت سے مراد زیتون ہے۔

۲۳               یہ اس میں عجیب صفت ہے کہ وہ تیل بھی ہے کہ منافع اور فوائد تیل کے اس سے حاصل کئے جاتے ہیں، جلایا بھی جاتا ہے، دوا کے طریقہ پر بھی کام میں لایا جاتا ہے اور سالن کا بھی کام دیتا ہے کہ تنہا اس سے روٹی کھائی جا سکتی ہے۔

(۲۱ )  اور بیشک تمہارے  لیے  چوپایوں میں سمجھنے  کا مقام ہے، ہم تمہیں پلاتے  ہیں اس میں سے  جو ان کے  پیٹ میں ہے  (ف ۲۴) اور تمہارے  لیے  ان میں بہت فائدے  ہیں (ف ۲۵) اور ان سے  تمہاری خوراک ہے  (ف ۲۶)

۲۴               یعنی دودھ خوشگوار موافقِ طبع جو لطیف غذا ہوتا ہے۔

۲۵               کہ ان کے بال، کھال، اُون وغیرہ سے کام لیتے ہو۔

۲۶               کہ انہیں ذبح کر کے کھا لیتے ہو۔

(۲۲ )  اور ان پر (ف ۲۷) اور کشتی پر (ف ۲۸) سوار کیے  جاتے  ہو۔

۲۷               خشکی میں۔

۲۸               دریاؤں میں۔

(۲۳ )  اور بیشک ہم نے  نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے  کہا  اے  میری قوم اللہ کو پوجو اس کے  سوا تمہارا  کوئی خدا نہیں، تو کیا تمہیں ڈر نہیں (ف ۲۹)

۲۹               اس کے عذاب کا جو اس کے سوا اوروں کو پوجتے ہو۔

(۲۴ ) تو اس کی قوم کے  جن سرداروں نے  کفر کیا بولے  (ف ۳۰) یہ تو نہیں مگر تم جیسا آدمی چاہتا ہے  کہ تمہارا بڑا بنے  (ف ۳۱) اور اللہ چاہتا (ف ۳۲) تو فرشتے  اتارتا ہم نے  تو یہ اگلے  باپ داداؤں میں نہ سنا (ف ۳۳)

۳۰               اپنی قوم کے لوگوں سے کہ۔

۳۱               اور تمہیں اپنا تابع بنائے۔

۳۲               کہ رسول بھیجے اور مخلوق پرستی کی مُمانعت فرمائے۔

۳۳               کہ بشر بھی رسول ہوتا ہے۔ یہ ان کی کمال حماقت تھی کہ بشر کا رسول ہونا تو تسلیم نہ کیا پتھروں کو خدا مان لیا اور انہوں نے حضرت نوح علیہ السلام کی نسبت یہ بھی کہا۔

(۲۵ )  وہ تو  نہیں مگر ایک دیوانہ مرد تو کچھ زمانہ تک اس کا انتظار کیے  رہو (ف ۳۴)

۳۴               تا آنکہ اس کا جُنون دور ہو، ایسا ہوا تو خیر ورنہ اس کو قتل کر ڈالنا۔ جب حضرت نوح علیہ السلام ان لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہوئے اور ان کے ہدایت پانے کی امید نہ رہی تو حضرت۔

(۲۶ )  نوح نے  عرض کی اے  میرے  رب! میری مدد فرما (ف ۳۵) اس پر کہ انہوں نے  مجھے  جھٹلایا۔

۳۵               اور اس قوم کو ہلا ک کر۔

(۲۷ )  تو ہم نے  اسے  وحی بھیجی کہ ہماری نگاہ کے  سامنے  (ف ۳۶) اور ہمارے  حکم سے  کشتی بنا پھر جب ہمارا حکم آئے  (ف ۳۷) اور تنور ابلے  (ف ۳۸) تو اس میں بٹھا لے  (ف ۳۹) ہر جوڑے  میں سے  دو (ف ۴۰) اور اپنے  گھر والے  (ف ۴۱) مگر ان میں سے  وہ جن پر بات پہلے  پڑ چکی (ف ۴۲) اور ان ظالموں کے  معاملہ میں مجھ سے  بات نہ کرنا (ف ۴۳) یہ ضرور ڈبوئے  جائیں گے۔

۳۶               یعنی ہماری حمایت و حفاظت میں۔

۳۷               ان کی ہلاکت کا اور آثارِ عذاب نمودار ہوں۔

۳۸               اور اس میں سے پانی برآمد ہو تو یہ علامت ہے عذاب کے شروع ہونے کی۔

۳۹               یعنی کشتی میں حیوانات کے۔

۴۰               نر اور مادہ۔

۴۱               یعنی اپنی مؤمنہ بی بی اور ایماندار اولاد یا تمام مؤ منین۔

۴۲               اور کلامِ ازلی میں ان کا عذاب و ہلاک معیّن ہو چکا۔ وہ آپ کا ایک بیٹا تھا کنعان نام اور ایک عورت کہ یہ دونوں کافِر تھے۔ آپ نے اپنے تین فرزندوں سام، حام، یافث اور ان کی بی بیوں کو اور دوسرے مؤمنین کو سوار کیا، کل لوگ جو کشتی میں تھی ان کی تعداد اٹھتر ۷۸ تھی نصف مرد اور نصف عورتیں۔

۴۳               اور ان کے لئے نجات نہ طلب کرنا، دعا نہ فرمانا۔

(۲۸ )  پھر جب ٹھیک بیٹھ لے  کشتی پر تُو اور تیرے   ساتھ  والے  تو کہہ سب خوبیاں اللہ کو جس نے  ہمیں ان ظالموں سے  نجات دی۔

(۲۹ )  اور عرض کر (ف ۴۴) کہ اے  میرے  رب مجھے  برکت وا لی جگہ اتار اور  تو سب سے  بہتر اتارنے  والا ہے۔

۴۴               کشتی سے اترتے وقت یا اس میں سوار ہوتے وقت۔

(۳۰ )  بیشک اس میں (ف ۴۵) ضرو ر نشانیاں (ف ۴۶) اور بیشک ضرور ہم جانچنے  والے  تھے  (ف ۴۷)

۴۵               یعنی حضرت نوح علیہ السلام کے واقعے میں اور اس میں جو دشمنانِ حق کے ساتھ کیا گیا۔

۴۶               اور عبرتیں اور نصیحتیں اور قدرتِ الٰہی کے دلائل ہیں۔

۴۷               اس قوم کے حضرت نوح علیہ السلام کو اس میں بھیج کر اور ان کو وعظ و نصیحت پر مامور فرما کر تاکہ ظاہر ہو جائے کہ نُزولِ عذاب سے پہلے کون نصیحت قبول کرتا اور تصدیق و اطاعت کرتا ہے اور کون نافرمان تکذیب و مخالفت پر مُصِر رہتا ہے۔

(۳۱ )  پھر ان کے  (ف ۴۸) بعد ہم نے  اور سنگت (قوم) پیدا کی (ف ۴۹)

۴۸               یعنی قومِ نوح کے عذاب و ہلاک کے۔

۴۹               یعنی عاد و قومِ ہود۔

(۳۲ )  تو ان میں ایک رسول انہیں میں سے  بھیجا (ف ۵۰) کہ اللہ کی بندگی کرو اس کے  سوا تمہارا کوئی خدا نہیں، تو کیا تمہیں ڈر نہیں (ف ۵۱)

۵۰               یعنی ہود علیہ السلام اور ان کی معرفت اس قوم کو حکم دیا۔

۵۱               اس کے عذاب کا کہ شرک چھوڑو اور ایمان لاؤ۔

(۳۳ ) اور بولے  اس قوم کے  سردار جنہوں نے  کفر کیا اور آخرت کی حاضری (ف ۵۲) کو جھٹلایا اور ہم نے  انہیں دنیا کی زندگی میں چین دیا (ف ۵۳) کہ یہ تو نہیں مگر جیسا آدمی جو تم کھاتے  ہو اسی میں سے  کھاتا ہے  اور جو تم پیتے  ہو اسی میں سے  پیتا ہے  (ف ۵۴)

۵۲               اور وہاں کے ثواب و عذاب وغیرہ۔

۵۳               یعنی بعض کُفّار جنہیں اللہ تعالیٰ نے فراخیِ عیش اور نعمتِ دنیا عطا فرمائی تھی اپنے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کے نسبت اپنی قوم کے لوگوں سے کہنے لگے۔

۵۴               یعنی یہ اگر نبی ہوتے تو ملائکہ کی طرح کھانے پینے سے پاک ہوتے۔ ان باطن کے اندھوں نے کمالاتِ نبوّت کو نہ دیکھا اور کھانے پینے کے اوصاف دیکھ کر نبی کو اپنی طرح بشر کہنے لگے، یہ بنیاد ان کی گمراہی کی ہوئی چنانچہ اسی سے انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ آپس میں کہنے لگے۔

(۳۴ ) اور اگر تم کسی اپنے  جیسے  آدمی کی اطاعت کرو جب تو تم ضرور گھاٹے  میں ہو۔

(۳۵ )  کیا تمہیں یہ وعدہ دیتا ہے  کہ تم جب مر جاؤ گے  اور مٹی اور ہڈیاں ہو جاؤ گے  اس کے  بعد پھر (ف ۵۵) نکالے  جاؤ گے۔

۵۵               قبروں سے زندہ۔

(۳۶ )  کتنی دور ہے  کتنی دور ہے   جو تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے  (ف ۵۶)

۵۶               یعنی انہوں نے مرنے کے بعد زندہ ہونے کو بہت بعید جانا اور سمجھا کہ ایسا کبھی ہونے والا ہی نہیں اور اسی خیالِ باطل کی بنا پر کہنے لگے۔

(۳۷ )  وہ تو نہیں مگر ہماری دنیا کی زندگی (ف ۵۷) کہ ہم مرتے  جیتے  ہیں (ف ۵۸)  اور ہمیں اٹھنا نہیں (ف ۵۹)

۵۷               اس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ اس دنیوی زندگی کے سوا اور کوئی زندگی نہیں صرف اتنا ہی ہے۔

۵۸               کہ ہم میں کوئی مرتا ہے، کوئی پیدا ہوتا ہے۔

۵۹               مرنے کے بعد اور اپنے رسولِ کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نسبت انہوں نے یہ کہا۔

(۳۸ )  وہ تو نہیں مگر ایک مرد جس نے  اللہ پر جھوٹ باندھا (ف ۶۰) اور ہم اسے  ماننے  کے  نہیں (ف ۶۱)

۶۰               کہ اپنے آپ کو اس کا نبی بتایا اور مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کی خبر دی۔

۶۱               پیغمبر علیہ السلام جب ان کے ایمان سے مایوس ہوئے اور انہوں نے دیکھا کہ قوم انتہائی سرکشی پر ہے تو ان کے حق میں بددعا کی اور بارگاہِ الٰہی میں۔

(۳۹ ) عرض کی کہ اے  میرے  رب میری مدد فرما اس پر کہ انہوں نے  مجھے  جھٹلایا۔

(۴۰ )  اللہ نے  فرمایا کچھ دیر جاتی ہے  کہ یہ صبح کریں گے  پچھتاتے  ہوئے  (ف ۶۲)

۶۲               اپنے کُفر و تکذیب پر جب کہ عذابِ الٰہی دیکھیں گے۔

(۴۱ )  تو انہیں آ لیا سچی چنگھاڑ نے  (ف ۶۳) تو ہم نے  انہیں گھاس کوڑا کر دیا (ف ۶۴) تو دور ہوں (ف ۶۵) ظالم لوگ۔

۶۳               یعنی وہ عذاب و ہلاک میں گرفتار کئے گئے۔

۶۴               یعنی وہ ہلاک ہو کر گھاس کوڑے کی طرح ہو گئے۔

۶۵               یعنی خدا کی رحمت سے دور ہوں انبیاء کی تکذیب کرنے والے۔

(۴۲ )  پھر ان کے  بعد ہم نے  اور سنگتیں (قومیں ) پیدا کیں (ف ۶۶)

۶۶               مثل قومِ صالح اور قومِ لوط اور قومِ شعیب وغیرہ کے۔

(۴۳ ) کوئی امت  اپنی میعاد سے  نہ پہلے  جائے  نہ پیچھے  رہے  (ف ۶۷)

۶۷               جس کے لئے ہلاک کا جو وقت مقرر ہے وہ ٹھیک اسی وقت ہلاک ہو گی اس میں کچھ بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہو سکتی۔

(۴۴ ) پھر ہم نے  اپنے  رسول بھیجے  ایک پیچے  دوسرا جب کسی امت کے  پاس اس کا رسول آیا انہوں نے  اسے  جھٹلایا (ف ۶۸) تو ہم نے  اگلوں سے  پچھلے  ملا دیے  (ف ۶۹) اور انہیں کہانیاں کر ڈالا (ف ۷۰) تو دور ہوں وہ لوگ کہ ایمان نہیں لاتے۔

۶۸               اور اس کی ہدایت کو نہ مانا اور اس پر ایمان نہ لائے۔

۶۹               اور بعد والوں کو پہلوں کی طرح ہلاک کر دیا۔

۷۰               کہ بعد والے افسانہ کی طرح انکا حال بیان کیا کریں اور ان کے عذاب و ہلاک کا بیان سببِ عبرت ہو۔

(۴۵ )  پھر ہم نے  موسیٰ  اور اس کے  بھائی ہارون کو اپنی آیتوں اور روشن سند (ف ۷۱) کے  ساتھ بھیجا۔

۷۱               مثل عصا و یدِ بیضا وغیرہ معجزات۔

(۴۶ )  فرعون اور اس کے  درباریوں کی طرف تو انہوں نے  غرور کیا (ف ۷۲) اور وہ لوگ غلبہ پائے  ہوئے  تھے، (ف ۷۳)

۷۲               اور اپنے تکبُّر کے باعث ایمان نہ لائے۔

۷۳               بنی اسرائیل پر اپنے ظلم و ستم سے جب حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام نے انہیں ایمان کی دعوت دی۔

(۴۷ ) تو بولے  کیا ہم ایمان لے  آئیں اپنے  جیسے  دو آدمیوں پر (ف ۷۴) اور ان کی قوم ہماری بندگی کر رہی ہے، (ف ۷۵)

۷۴               یعنی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون پر۔

۷۵               یعنی بنی اسرائیل ہمارے زیرِ فرمان ہیں تو یہ کیسے گوارا ہوکہ اسی قوم کے دو۲ آدمیوں پر ایمان لا کر ان کے مطیع بن جائیں۔

(۴۸ ) تو انہوں نے  ان دونوں کو جھٹلایا تو ہلاک کیے  ہوؤں میں ہو گئے  (ف ۷۶)

۷۶               اور غرق کر ڈالے گئے۔

(۴۹ ) اور بیشک ہم نے  موسیٰ کو کتاب عطا فرمائی (ف ۷۷) کہ ان کو (ف ۷۸) ہدایت ہو۔

۷۷               یعنی توریت شریف فرعون اور اس کی قوم کی ہلاکت کے بعد۔

۷۸               یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل کو۔

(۵۰ )  اور ہم نے  مریم اور اس کے  بیٹے  کو (ف ۷۹) نشانی کیا اور انہیں ٹھکانا دیا ایک بلند زمین (ف ۸۰) جہاں بسنے  کا مقام (ف ۸۱) اور نگاہ کے  سامنے  بہتا پانی۔

۷۹               یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے پیدا فرما کر اپنی قدرت کی۔

۸۰               اس سے مراد یا بیت المقدس ہے یا دمشق یا فلسطین، کئی قول ہیں۔

۸۱               یعنی زمین ہموار، فراخ، پھلوں والی جس میں رہنے والے بآسائش بسر کرتے ہیں۔

(۵۱ )  اے  پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ (ف ۸۲) اور اچھا کام کرو، میں تمہارے  کاموں کو جانتا ہوں (ف ۸۳)

۸۲               یہاں پیغمبروں سے مراد یا تمام رسول ہیں اور ہر ایک رسول کو ان کے زمانہ میں یہ ندا فرمائی گئی یا رسولوں سے مراد خاص سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں یا حضرت عیسیٰ علیہ السلام، کئی قول ہیں۔

۸۳               ان کی جزاء عطا فرماؤں گا۔

(۵۲ )  اور بیشک یہ تمہارا دین ایک ہی دین ہے  (ف ۸۴) اور میں تمہارا رب ہوں تو مجھ سے  ڈرو۔

۸۴               یعنی اسلام۔

(۵۳ )  تو ان کی امتوں نے  اپنا کام آپس میں ٹکڑے  ٹکڑے  کر لیا (ف ۸۵) ہر گروہ جو اس کے  پاس ہے  اس پر خوش ہے، (ف ۸۶)

۸۵               اور فرقے فرقے ہو گئے یہودی، نصرانی، مجوسی وغیرہ۔

۸۶               اور اپنے ہی آپ کو حق پر جانتا ہے اور دوسروں کو باطل پر سمجھتا ہے اس طرح ان کے درمیان دینی اختلافات ہیں، اب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو خطاب ہوتا ہے۔

(۵۴ )  تو تم ان کو چھوڑ دو ان کے  نشہ میں (ف ۸۷) ایک وقت تک (ف ۸۸)

۸۷               یعنی ان کے کُفر و ضلال اور ان کی جہالت و غفلت میں۔

۸۸               یعنی ان کی موت کے وقت تک۔

(۵۵ )  کیا یہ خیال کر رہے  ہیں کہ  وہ جو ہم ان کی مدد کر رہے  ہیں مال اور بیٹوں سے  (ف ۸۹)

۸۹               دنیا میں۔

(۵۶ )  یہ جلد جلد ان کو بھلائیاں دیتے  ہیں (ف ۹۰) بلکہ انہیں خبر نہیں (ف ۹۱)

۹۰               اور ہماری یہ نعمتیں ان کے اعمال کی جزاء ہیں یا ہمارے راضی ہونے کی دلیل ہیں، ایسا خیال کرنا غلط ہے واقعہ یہ نہیں ہے۔

۹۱               کہ ہم انہیں ڈھیل دے رہے ہیں۔

(۵۷ ) بیشک وہ جو اپنے   رب کے  ڈر سے  سہمے  ہوئے  ہیں (ف ۹۲)

۹۲               انہیں اس کے عذاب کا خوف ہے۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ مؤمن نیکی کرتا ہے اور خدا سے ڈرتا ہے اور کافِر بدی کرتا ہے اور نڈر رہتا ہے۔

(۵۸ )  اور وہ جو اپنے  رب کی آیتوں پر ایمان لاتے  ہیں (ف ۹۳)

۹۳               اور اس کی کتابوں کو مانتے ہیں۔

(۵۹ )  اور وہ جو اپنے  رب کا کوئی شریک نہیں کرتے۔

(۶۰ )  اور وہ جو دیتے  ہیں جو کچھ دیں (ف ۹۴) اور ان کے  دل ڈر رہے  ہیں یوں کہ ان کو اپنے  رب کی طرف پھرنا ہے، (ف ۹۵)

۹۴               زکوٰۃ و صدقات یا یہ معنیٰ ہیں کہ اعمالِ صالحہ بجا لاتے ہیں۔

۹۵               ترمذی کی حدیث میں ہے کہ حضرت اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ کیا اس آیت میں ان لوگوں کا بیان ہے جو شرابیں پیتے ہیں اور چوری کرتے ہیں ؟ فرمایا اے صدیق کی نور دیدہ ایسا نہیں یہ ان لوگوں کا بیان ہے جو روزے رکھتے ہیں، صدقے دیتے ہیں اور ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں یہ اعمال نا مقبول نہ ہو جائیں۔

(۶۱ )  یہ لوگ بھلائیوں میں جلدی کرتے  ہیں اور یہی سب سے  پہلے  انہیں پہنچے  (ف ۹۶)

۹۶               یعنی نیکیوں کو، معنیٰ یہ ہیں کہ وہ نیکیوں اور اُمّتوں پر سبقت کرتے ہیں۔

(۶۲ )  اور ہم کسی جان پر بوجھ نہیں رکھتے  مگر اس کی طاقت بھر اور ہمارے  پاس ایک کتاب ہے  کہ حق بولتی ہے  (ف ۹۷) اور ان پر ظلم نہ ہو گا،(ف ۹۸)

۹۷               اس میں ہر شخص کا عمل مکتوب ہے اور وہ لوحِ محفوظ ہے۔

۹۸               نہ کسی کی نیکی گھٹائی جائے گی نہ بدی بڑھائی جائے گی، اس کے بعد کُفّار کا ذکر فرمایا جاتا ہے۔

(۶۳ )  بلکہ ان کے  دل اس سے  (ف ۹۹) غفلت میں ہیں اور ان کے  کام ان کاموں سے  جدا ہیں (ف ۱۰۰) جنہیں وہ کر رہے  ہیں۔

۹۹               یعنی قرآن شریف سے۔

۱۰۰             جو ایمانداروں کے ذکر کئے گئے۔

(۶۴ )  یہاں تک کہ جب ہم نے  ان کے  امیروں کو عذاب میں پکڑا (ف ۱۰۱) تو جبھی وہ فریاد کرنے  لگے، (ف ۱۰۲)

۱۰۱             اور وہ روز بروز تہ تیغ کئے گئے اور ایک قول یہ ہے کہ اس عذاب سے مراد فاقوں اور بھوک کی وہ مصیبت ہے جو سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا سے ان پر مسلّط کی گئی تھی اور اس قحط سے ان کی حالت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ وہ کتّے اور مردار تک کھا گئے تھے۔

۱۰۲             اب ان کا جواب یہ ہے کہ۔

(۶۵ )  آج فریاد نہ کرو، ہماری طرف سے  تمہاری مدد نہ ہو گی۔

(۶۶ )  بیشک میری آیتیں (ف ۱۰۳) تم پر پڑھی جاتی تھیں تو تم اپنی ایڑیوں کے  بل الٹے  پلٹتے  تھے  (ف ۱۰۴)

۱۰۳             یعنی آیاتِ قرآنِ مجید۔

۱۰۴             اور ان آیات کو نہ مانتے تھے اور ان پر ایمان نہ لاتے تھے۔

(۶۷ )  خدمت حرم پر بڑائی مارتے  ہو (ف ۱۰۵) رات کو وہاں بیہودہ کہانیاں بکتے   (ف ۱۰۶)

۱۰۵             اور یہ کہتے ہوئے کہ ہم اہلِ حرم ہیں اور بیت اللہ کے ہمسایہ ہیں، ہم پر کوئی غالب نہ ہو گا ہمیں کسی کا خوف نہیں۔

۱۰۶             کعبۂ معظّمہ کے گرد جمع ہو کر اور ان کہانیوں میں اکثر قرآن پاک پر طعن اور اس کو سحر اور شعر کہنا اور سید عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شان میں بے جا باتیں کہنا ہوتا تھا۔

(۶۸ )  حق کو چھوڑے  ہوئے  (ف ۱۰۷) کیا انہوں نے  بات کو سوچا نہیں (ف ۱۰۸) یا ان کے  پاس وہ آیا جو ان کے  باپ دادا کے  پاس نہ آیا تھا (ف ۱۰۹)

۱۰۷             یعنی نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اور آپ پر ایمان لانے کو اور قرآنِ کریم کو۔

۱۰۸             یعنی قرآنِ پاک میں غور نہیں کیا اور اس کے اعجاز پر نظر نہیں ڈالی جس سے انہیں معلوم ہوتا کہ یہ کلام حق ہے اس کی تصدیق لازم ہے اور جو کچھ اس میں ارشاد فرمایا گیا وہ سب حق اور واجب التسلیم ہے اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صدق و حقانیت پر اس میں دلالاتِ واضحہ موجود ہیں۔

۱۰۹             یعنی رسول کا تشریف لانا ایسی نرالی بات نہیں ہے جو کبھی پہلے عہد میں ہوئی ہی نہ ہو اور وہ یہ کہہ سکیں کہ ہمیں خبر ہی نہ تھی کہ خدا کی طرف سے رسول آیا بھی کرتے ہیں، کبھی پہلے کوئی رسول آیا ہوتا اور ہم نے اس کا تذکرہ سنا ہوتا تو ہم کیوں اس رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نہ مانتے، یہ عذر کرنے کا موقع بھی نہیں ہے کیونکہ پہلی اُمّتوں میں رسول آچکے ہیں اور خدا کی کتابیں نازِل ہو چکی ہیں۔

(۶۹ )  یا انہوں نے  اپنے  رسول کو نہ پہچانا  (ف ۱۱۰) تو وہ اسے  بیگانہ سمجھ رہے  ہیں (ف ۱۱۱)

۱۱۰             اور حضور کی عمر شریف کے جملہ احوال کو نہ دیکھا اور آپ کے نسبِ عالی اور صدق و امانت اور وفورِ عقل و حسنِ اخلاق اور کمالِ حلم اور وفا و کرم و مُروّت وغیرہ پاکیزہ اخلاق و محاسنِ صفات اور بغیر کسی سے سیکھے آپ کے علم میں کامل اور تمام جہان سے اعلم اور فائق ہونے کو نہ جانا کیا ایسا ہے ؟۔

۱۱۱             حقیقت میں یہ بات تو نہیں بلکہ وہ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اور آپ کے اوصاف و کمالات کو خوب جانتے ہیں اور آپ کے برگزیدہ صفات شہرۂ آفاق ہیں۔

(۷۰ ) یا کہتے  ہیں اسے  سودا ہے  (ف ۱۱۲) بلکہ وہ تو ان کے  پاس حق لائے  (ف ۱۱۳) اور ان میں اکثر حق برا لگتا ہے  (ف ۱۱۴)

۱۱۲             یہ بھی سرا سر غلط اور باطل ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ آپ جیسا دانا اور کامل العقل شخص ان کے دیکھنے میں نہیں آیا۔

۱۱۳             یعنی قرآنِ کریم جو توحیدِ الٰہی و احکامِ دین پر مشتمل ہے۔

۱۱۴             کیونکہ اس میں ان کے خواہشاتِ نفسانیہ کی مخالفت ہے اس لئے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے صفات و کمالات کو جاننے کے باوجود حق کی مخالفت کرتے ہیں۔ اکثر کی قید سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حال ان میں بیشتر لوگوں کا ہے چنانچہ بعض ان میں ایسے بھی تھے جو آپ کو حق پر جانتے تھے اور حق انہیں بُرا بھی نہیں لگتا تھا لیکن وہ اپنی قوم کی موافقت یا اُن کے طعن و تشنیع کے خوف سے ایمان نہ لائے جیسے کہ ابو طالب۔

(۷۱ )  اور اگر حق (ف ۱۱۵) ان کی خواہشوں کی پیروی کرتا (ف ۱۱۶) تو ضرور آسمان اور  زمین اور جو کوئی ان میں ہیں سب تباہ ہو جاتے  (ف ۱۱۷) بلکہ ہم تو ان کے  پاس وہ چیز لائے  (ف ۱۱۸) جس میں ان کی ناموری تھی تو وہ اپنی عزت سے  ہی منہ پھیرے  ہوئے  ہیں۔

۱۱۵             یعنی قرآن شریف۔

۱۱۶             اس طرح کہ اس میں وہ مضامین مذکور ہوتے جن کی کُفّار خواہش کرتے ہیں جیسے کہ چند خدا ہونا اور خدا کے بیٹا اور بیٹیاں ہونا وغیرہ کُفریات۔

۱۱۷             اور تمام عالم کا نظام درہم برہم ہو جاتا۔

۱۱۸             یعنی قرآنِ پاک۔

(۷۲ )  کیا تم ان سے  کچھ اجرت مانگتے  ہو (ف ۱۱۹) تو تمہارے  رب کا اجر سب سے  بھلا اور وہ سب سے  بہتر روزی دینے  والا (ف ۱۲۰)

۱۱۹             انہیں ہدایت کرنے اور راہِ حق بتانے پر۔ ایسا تو نہیں اور وہ کیا ہیں اور آپ کو کیا دے سکتے ہیں تم اگر اجر چاہو۔

۱۲۰             اور اس کا فضل آپ پر عظیم اور جو جو نعمتیں اس نے آپ کو عطا فرمائی وہ بہت کثیر اور اعلیٰ تو آپ کو ان کی کیا پرواہ پھر جب وہ آپ کے اوصاف و کمالات سے واقف بھی ہیں، قرآنِ پاک کا اعجاز بھی ان کی نگاہوں کے سامنے ہے اور آپ ان سے ہدایت و ارشاد کا کوئی اجر و عوض بھی طلب نہیں فرماتے تو اب انہیں ایمان لانے میں کیا عذر رہا۔

(۷۳ )  اور بیشک تم انہیں سیدھی راہ کی طرف بلاتے  ہو (ف ۱۲۱)

۱۲۱             تو ان پر لازم ہے کہ آپ کی دعوت قبول کریں اور اسلام میں داخل ہوں۔

(۷۴ ) اور بیشک جو آخرت پر ایما ن نہیں لاتے   ضرور سیدھی راہ سے  (ف ۱۲۲) کترائے  ہوئے  ہیں۔

۱۲۲             یعنی دینِ حق سے۔

(۷۵ )  اور اگر ہم ان پر رحم کریں اور جو مصیبت (ف ۱۲۳) ان پر پڑی ہے  ٹال دیں تو ضرور بھٹ پنا (احسان فراموشی) کریں گے  اپنی سرکشی میں بہکتے  ہوئے  (ف ۱۲۴)

۱۲۳             ہفت سالہ قحط سالی کی۔

۱۲۴             یعنی اپنے کُفر و عناد اور سرکشی کی طرف لوٹ جائیں گے اور یہ تملُّق و چاپلوسی جاتی رہے گی اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مؤمنین کی عداوت اور تکبُّر جو ان کا پہلا طریقہ تھا وہی اختیار کریں گے۔ شانِ نُزول : جب قریش سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا سے سات برس کے قحط میں مبتلا ہوئے اور حالت بہت ابتر ہو گئی تو ابوسفیان ان کی طرف سے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کیا آپ اپنے خیال میں رحمۃ للعالمین بنا کر نہیں بھیجے گئے ؟ سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بے شک، ابوسفیان نے کہا کہ بڑوں کو تو آپ نے بدر میں تہِ تیغ کر دیا اولاد جو رہی وہ آپ کی بددعا سے اس حالت کو پہنچی کہ مصیبت قحط میں مبتلا ہوئی، فاقوں سے تنگ آگئی، لوگ بھوک کی بے تابی سے ہڈیاں چاپ گئے، مُردار تک کھا گئے میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں اور قرابت کی، آپ اللہ سے دعا کیجئے کہ ہم سے اس قحط کو دور فرمائے۔ حضور نے دعا کی اور انہوں نے اس بلا سے رہائی پائی۔ اس واقعہ کے متعلق یہ آیتیں نازِل ہوئیں۔

(۷۶ )  اور بیشک ہم نے  انہیں عذاب میں پکڑا (ف ۱۲۵) تو نہ وہ اپنے  رب کے  حضور میں جھکے  اور نہ گڑگڑاتے  ہیں (ف ۱۲۶)

۱۲۵             قحط سالی کے یا قتل کے۔

۱۲۶             بلکہ اپنے تمرُّد و سرکشی پر ہیں۔

(۷۷ )  یہاں تک کہ جب ہم نے  ان پر کھولا کسی سخت عذاب کا دروازہ (ف ۱۲۷) تو وہ  اب اس میں ناامید پڑے  ہیں۔

۱۲۷             اس عذاب سے یا قحط سالی مراد ہے جیسا کہ روایتِ مذکور ہ شانِ نُزول کا مقتضیٰ ہے یا روزِ بدر کا قتل، یہ اس قول کی بنا پر ہے کہ واقعۂ قحط واقعۂ بدر سے پہلے ہوا اور بعض مفسِّرین نے کہا کہ اس سخت عذاب سے موت مراد ہے، بعض نے کہا کہ قیامت۔

(۷۸ )  اور وہی ہے  جس نے  بنائے  تمہارے  لیے  کان اور آنکھیں اور دل (ف ۱۲۸) تم بہت ہی کم حق مانتے  ہو (ف ۱۲۹)

۱۲۸             تاکہ سنو اور دیکھو اور سمجھو اور دینی اور دنیوی منافع حاصل کرو۔

۱۲۹             کہ تم نے ان نعمتوں کی قدر نہ جانی اور ان سے فائدہ نہ اٹھایا اور کانوں، آنکھوں اور دلوں سے آیاتِ الٰہیہ کے سننے، دیکھنے، سمجھنے اور معرفتِ الٰہی حاصل کرنے اور مُنعمِ حقیقی کا حق پہچان کر شکر گزار بننے کا نفع نہ اٹھایا۔

(۷۹ )  اور وہی ہے  جس نے  تمہیں زمین میں پھیلایا اور  اسی کی طرف اٹھنا ہے  (ف ۱۳۰)

۱۳۰             روزِ قیامت۔

(۸۰ )  اور وہی جٕلائے  اور مارے  اور اسی کے  لیے  ہیں رات اور دن کی تبدیلیاں (ف ۱۳۱) تو کیا تمہیں سمجھ نہیں (ف ۱۳۲)

۱۳۱             ان میں سے ہر ایک کا دوسرے کے بعد آنا اور تاریکی و روشنی اور زیادتی و کمی میں ہر ایک کا دوسرے سے مختلف ہونا یہ سب اس کی قدرت کے نشان ہیں۔

۱۳۲             کہ ان سے عبرت حاصل کرو اور ان میں خدا کی قدرت کا مشاہدہ کر کے مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کو تسلیم کرو اور ایمان لاؤ۔

(۸۱ )  بلکہ انہوں نے  وہی کہی جو اگلے  (ف ۱۳۳) کہتے  تھے۔

۱۳۳             یعنی ان سے پہلے کافِر۔

(۸۲ )  بولے  کیا جب ہم مرجائیں اور مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں کیا پھر نکالے  جائیں گے۔

(۸۳ )  بیشک یہ وعدہ ہم کو اور ہم سے  پہلے  ہمارے  باپ دادا کو دیا گیا یہ تو نہیں مگر وہی اگلی داستانیں (ف ۱۳۴)

۱۳۴             جن کی کچھ بھی حقیقت نہیں۔ کُفّار کے اس مقولہ کا رد فرمانے اور ان پر حُجُّت قائم فرمانے کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ارشاد فرمایا۔

(۸۴ ) تم فرماؤ کس کا مال ہے  زمین اور جو کچھ اس میں ہے  اگر تم جانتے  ہو (ف ۱۳۵)

۱۳۵             اس کے خالِق و مالک کو تو بتاؤ۔

(۸۵ )  اب کہیں گے  کہ اللہ کا (ف ۱۳۶) تم فرماؤ پھر کیوں نہیں سوچتے  (ف ۱۳۷)

۱۳۶             کیونکہ بجُز اس کے کوئی جواب ہی نہیں اور مشرکین اللہ تعالیٰ کی خالقیت کے مُقِر بھی ہیں جب وہ یہ جواب دیں۔

۱۳۷             کہ جس نے زمین کو اور اس کی کائنات کو ابتداءً پیدا کیا وہ ضرور مُردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہے۔

(۸۶ )  تم فرماؤ کون ہے  مالک سوتوں آسمانوں کا اور مالک بڑے  عرش کا۔

(۸۷ )  اب کہیں گے  یہ اللہ ہی کی شان ہے، تم فرماؤ پھر کیوں نہیں ڈرتے  (ف ۱۳۸)

۱۳۸             اس کے غیر کو پوجنے اور شرک کرنے سے اور اس کے مُردوں کو زندہ کرنے پر قادر ہونے کا انکار کرنے سے۔

(۸۸ ) تم فرماؤ کس کے  ہاتھ ہے  ہر چیز کا قابو (ف ۱۳۹) اور وہ پناہ دیتا ہے  اور اس کے  خلاف کوئی پناہ نہیں دے  سکتا اگر تمہیں علم ہو (ف ۱۴۰)

۱۳۹             اور ہر چیز پر حقیقی قدرت و اختیار کس کا ہے ؟۔

۱۴۰             تو جواب دو۔

(۸۹ )  اب کہیں گے  یہ اللہ ہی کی شان ہے، تم فرماؤ پھر کس جادو کے  فریب میں پڑے  ہو (ف ۱۴۱)

۱۴۱             یعنی کس شیطانی دھوکے میں ہو کہ توحید و طاعتِ الٰہی کو چھوڑ کر حق کو باطل سمجھ رہے ہو جب تم اقرار کرتے ہو کہ قدرتِ حقیقی اسی کی ہے اور اس کے خلاف کوئی کسی کو پناہ نہیں دے سکتا تو دوسرے کی عبادت قطعاً باطل ہے۔

(۹۰ )  بلکہ ہم ان کے  پاس حق لائے  (ف ۱۴۲) اور وہ بیشک جھوٹے  ہیں (ف ۱۴۳)

۱۴۲             کہ اللہ کے نہ اولاد ہو سکتی ہے نہ اس کا شریک یہ دونوں باتیں مَحال ہیں۔

۱۴۳             جو اس کے لئے شریک اور اولاد ٹھہراتے ہیں۔

(۹۱ )  اللہ نے  کوئی بچہ اختیار نہ کیا (ف ۱۴۴) اور نہ اس کے  ساتھ کوئی دوسرا خدا (ف ۱۴۵) یوں ہوتا تو ہر خدا  اپنی مخلوق لے  جاتا (ف ۱۴۶)  اور ضرور ایک دوسرے  پر اپنی تعلی چاہتا (ف ۱۴۷) پاکی ہے  اللہ کو ان باتوں سے  جو یہ بناتے  ہیں (ف ۱۴۸)

۱۴۴             وہ اس سے منزّہ ہے کیونکہ نوع اور جنس سے پاک ہے اور اولاد وہی ہو سکتی ہے جو ہم جنس ہو۔

۱۴۵             جو اُلُوہیت میں شریک ہو۔

۱۴۶             اور اس کو دوسرے کے تحتِ تصرُّف نہ چھوڑتا۔

۱۴۷             اور دوسرے پر اپنی برتری اور اپنا غلبہ پسند کرتا کیونکہ متقابل حکومتیں اسی کی مقتضی ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ دو خدا ہونا باطل ہے خدا ایک ہی ہے اور ہر چیز اسی کے تحتِ تصرُّف ہے۔

۱۴۸             کہ اس کے لئے شریک اور اولاد ٹھہراتے ہیں۔

(۹۲ )  جاننے  والا ہر نہاں و عیاں کا تو اسے  بلندی ہے  ان کے  شرک سے۔

(۹۳ )  تم عرض کرو کہ اے  میرے  رب! اگر  تو مجھے  دکھائے  (ف ۱۴۹) جو انہیں وعدہ دیا جاتا ہے۔

۱۴۹             وہ عذاب۔

(۹۴ )  تو اے  میرے  رب! مجھے  ان ظالموں کے  ساتھ نہ کرنا (ف ۱۵۰)

۱۵۰             اور ان کا قرین اور ساتھی نہ بنانا یہ دعا بہ طریقِ تواضع و اظہارِ عبدیت ہے باوجودیکہ معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ان کا قرین اور ساتھی نہ کریگا اسی طرح انبیائے معصومین استغفار کیا کرتے ہیں باوجود یکہ انہیں اپنی مغفرت اور اکرامِ خداوندی کا علم یقینی ہوتا ہے، یہ سب بہ طریقِ تواضع و اظہارِ بندگی ہے۔

(۹۵ )  اور بیشک ہم قادر ہیں کہ تمہیں دکھا دیں جو انہیں وعدہ دے  رہے  ہیں (ف ۱۵۱)

۱۵۱             یہ جواب ہے ان کُفّار کا جو عذابِ موعود کا انکار کرتے اور اس کی ہنسی اڑاتی تھے انہیں بتایا گیا کہ اگر تم غور کرو تو سمجھ لو گے کہ اللہ تعالیٰ اس وعدہ کے پورا کرنے پر قادر ہے پھر وجہِ انکار اور سببِ استہزاء کیا اور عذاب میں جو تاخیر ہو رہی ہے اس میں اللہ کی حکمتیں ہیں کہ ان میں سے جو ایمان لانے والے ہیں وہ ایمان لے آئیں اور جن کی نسلیں ایمان لانے والی ہیں ان سے وہ نسلیں پیدا ہو لیں۔

(۹۶ )  سب سے  اچھی بھلائی سے  برائی کو دفع کرو (ف ۱۵۲) ہم خوب جانتے  ہیں جو باتیں یہ بناتے  ہیں (ف ۱۵۳)

۱۵۲             اس جملۂ جمیلہ کے معنیٰ بہت وسیع ہیں، اس کے یہ معنیٰ بھی ہیں کہ توحید جو اعلیٰ بہتری ہے اس سے شرک کی برائی کو دفع فرمائے اور یہ بھی کہ طاعت و تقویٰ کو رواج دے کر معصیت اور گناہ کی برائی دفع کیجئے اور یہ بھی کہ اپنے مکارمِ اخلاق سے خطا کاروں پر اس طرح عفو و رحمت فرمائے جس سے دین میں کوئی سُستی نہ ہو۔

۱۵۳             اللہ اور اس کے رسول کی شان میں، تو ہم اس کا بدلہ دیں گے۔

(۹۷ ) اور تم عرض کرو کہ اے  میرے  رب تیری پناہ  شیاطین کے  وسوسو ں سے  (ف ۱۵۴)

۱۵۴             جن سے وہ لوگوں کو فریب دے کر معاصی اور گناہوں میں مبتلا کرتے ہیں۔

(۹۸ ) اور اے  میرے  رب تیری پناہ کہ وہ میرے  پاس آئیں۔

(۹۹ )  یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آئے  (ف ۱۵۵) تو کہتا ہے  کہ اے  میرے  رب مجھے  واپس پھر دیجئے، (ف ۱۵۶)

۱۵۵             یعنی کافِر وقتِ موت تک تو اپنے کُفر و سرکشی اور خدا اور رسول کی تکذیب اور مرنے کے بعد زندہ کئے جانے کے انکار پر مُصِر رہتا ہے اور جب موت کا وقت آتا ہے اور اس کو جہنّم میں اس کا جو مقام ہے دکھایا جاتا ہے اور جنّت کا وہ مقام بھی دکھایا جاتا ہے کہ اگر وہ ایمان لاتا تو یہ مقام اسے دیا جاتا۔

۱۵۶             دنیا کی طرف۔

(۱۰۰ ) شاید اب میں کچھ بھلائی کماؤں اس میں جو چھوڑ آیا ہوں (ف ۱۵۷) ہشت یہ تو ایک بات ہے  جو وہ اپنے  منہ سے  کہتا ہے  (ف ۱۵۸) اور ان کے  آگے  ایک آڑ ہے  (ف ۱۵۹) اس دن تک جس دن اٹھائے  جائیں گے۔

۱۵۷             اور اعمالِ نیک بجا لا کر اپنی تقصیرات کا تدارُک کروں اس پر اس کو فرمایا جائے گا۔

۱۵۸             حسرت و ندامت سے یہ ہونے والی نہیں اور اس کا کچھ فائدہ نہیں۔

(۱۰۱ )  تو جب صُور پھونکا جائے  گا (ف ۱۶۰) تو نہ ان میں رشتے  رہیں گے  (ف ۱۶۱) اور نہ ایک دوسرے  کی بات پوچھے  (ف ۱۶۲)

۱۵۹             جو انہیں دنیا کی طرف واپس ہونے سے مانع ہے اور وہ موت ہے۔ (خازن) بعض مفسِّرین نے کہا کہ برزخ وقتِ موت سے وقتِ بعث تک کی مدت کو کہتے ہیں۔

۱۶۰             پہلی مرتبہ جس کو نفخۂ اُولیٰ کہتے ہیں جیسا کہ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے۔

۱۶۱             جن پر دنیا میں فخر کیا کرتے تھے اور آپس کے نسبی تعلقات منقطع ہو جائیں گے اور قرابت کی مَحبتیں باقی نہ رہیں گی اور یہ حال ہو گا کہ آدمی اپنے بھائی اور ماں اور باپ اور بی بی اور بیٹوں سے بھاگے گا۔

۱۶۲             جیسے کہ دنیا میں پوچھتے تھے کیونکہ ہر ایک اپنے ہی حال میں مبتلا ہو گا پھر دوسری بار صُور پھُونکا جائے گا اور بعدِ حساب لوگ ایک دوسرے کا حال دریافت کریں گے۔

(۱۰۲ ) تو جن کی تولیں (ف ۱۶۳) بھاری ہولیں وہی مراد کچھ پہنچے۔

۱۶۳             اعمالِ صالحہ اور نیکیوں سے۔

(۱۰۳ )  اور جن کی تولیں ہلکی پڑیں (ف ۱۶۴) وہی ہیں جنہوں نے  اپنی جانیں گھاٹے  میں ڈا لیں ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔

۱۶۴             نیکیاں نہ ہونے کے باعث اور وہ کُفّار ہیں۔

(۱۰۴ )  ان کے  منہ پر آگ لپیٹ مارے  گی اور وہ اس میں منہ چڑائے  ہوں گے  (ف ۱۶۵)

۱۶۵             ترمذی کی حدیث میں ہے کہ آگ ان کو بھون ڈالے گی اور اوپر کا ہونٹ سُکڑ کر نصف سر تک پہنچے گا اور نیچے کا ناف تک لٹک جائے گا، دانت کھلے رہ جائیں گے (خدا کی پناہ) اور ان سے فرمایا جائے گا۔

(۱۰۵ )  کیا تم پر میری آیتیں نہ پڑھی جاتی تھیں (ف ۱۶۶) تو تم انہیں جھٹلاتے  تھے۔

۱۶۶             دنیا میں۔

(۱۰۶ )  کہیں گے  اے  ہمارے  رب ہم پر ہماری بدبختی غالب آئی اور ہم گمراہ لوگ تھے۔

(۱۰۷ )  اے  رب ہمارے  ہم کو دوزخ سے  نکال دے  پھر اگر ہم ویسے  ہی کریں تو ہم ظالم ہیں (ف ۱۶۷)

۱۶۷             ترمذی کی حدیث میں ہے کہ دوزخی لوگ جہنّم کے داروغہ مالک کو چالیس برس تک پکارتے رہیں گے اس کے بعد وہ کہے گا کہ تم جہنّم ہی میں پڑے رہو گے پھر وہ پروردگار کو پکاریں گے اور کہیں گے اے ربّ ہمارے ہمیں دوزخ سے ا ور یہ پکار ان کی دنیا سے دونی عمر کی مدّت تک جاری رہے گی، اس کے بعد انہیں یہ جواب دیا جائے گا جو اگلی آیت میں ہے (خازن) اور دنیا کی عمر کتنی ہے، اس میں کئی قول ہیں بعض نے کہا کہ دنیا کی عمر سات ہزار برس ہے، بعض نے کہا بارہ ہزار برس، بعض نے کہا تین لاکھ ساٹھ برس واللہ تعالیٰ اعلم (تذکرہ قرطبی)۔

(۱۰۸ )  رب فرمائے  گا دھتکارے  (خائب و خاسر) پڑے  رہو اس میں اور مجھ سے  بات نہ کرو (ف ۱۶۸)

۱۶۸             اب ان کی امیدیں منقطع ہو جائیں گی اور یہ اہلِ جہنّم کا آخر کلام ہو گا پھر اس کے بعد انہیں کلام کرنا نصیب نہ ہو گا، روتے، چیختے، ڈکراتے، بھونکتے رہیں گے۔

(۱۰۹ ) بیشک میرے  بندوں کا ایک گروہ کہتا تھا اے  ہمارے  رب! ہم ایمان لائے  تو ہمیں بخش دے  اور ہم پر رحم کر اور تو سب سے  بہتر رحم کرنے  والا ہے۔

(۱۱۰ )  تو تم نے  انہیں ٹھٹھا بنا لیا (ف ۱۶۹) یہاں تک کہ انہیں بنانے  کے  شغل میں (ف ۱۷۰) میری یاد بھول گئے  اور تم ان سے  ہنسا کرتے۔

۱۶۹             شانِ نُزول : یہ آیتیں کُفّارِ قریش کے حق میں نازِل ہوئیں جو حضرت بلال و حضرت عمار و حضرت صہیب و حضرت خبّاب وغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم فقراء اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے تمسخُر کرتے تھے۔

۱۷۰             یعنی ان کے ساتھ تمسخُر کرنے میں اتنے مشغول ہوئے کہ۔

(۱۱۱ )  بیشک آج میں نے  ان کے  صبر کا انہیں یہ بدلہ دیا کہ وہی کامیاب ہیں۔

(۱۱۲ )  فرمایا (ف ۱۷۱) تم زمین میں کتنا ٹھہرے  (ف ۱۷۲) برسوں کی گنتی سے

۱۷۱             اللہ تعالیٰ نے کُفّار سے۔

۱۷۲             یعنی دنیا میں اور قبر میں۔

(۱۱۳ )، بولے  ہم ایک دن رہے  یا دن کا حصہ (ف ۱۷۳) تو گننے  والوں سے  دریافت فرما  (ف ۱۷۴)

۱۷۳             یہ جواب اس وجہ سے دیں گے کہ اس دن کی دہشت اور عذاب کی ہیبت سے انہیں اپنے دنیا میں رہنے کی مدّت یاد نہ رہے گی اور انہیں شک ہو جائے گا اسی لئے کہیں گے۔

۱۷۴             یعنی ان ملائکہ سے جن کو تو نے بندوں کی عمریں اور ان کے اعمال لکھنے پر مامور کیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے۔

(۱۱۴ )  فرمایا تم نہ ٹھہرے  مگر تھوڑا  (ف ۱۷۵) اگر تمہیں علم ہوتا۔

۱۷۵             بہ نسبت آخرت کے۔

(۱۱۵ )  تو کیا یہ سمجھتے  ہو کہ ہم نے  تمہیں بیکار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں (ف ۱۷۶)

۱۷۶             اور آخرت میں جزا کے لئے اٹھنا نہیں بلکہ تمہیں عبادت کے لئے پیدا کیا کہ تم پر عبادت لازم کریں اور آخرت میں تم ہماری طرف لوٹ کر آؤ تو تمہیں تمہارے اعمال کی جزا دیں۔

(۱۱۶ )  تو بہت بلندی والا ہے  اللہ سچا بادشاہ کوئی معبود نہیں سوا اس کے  عزت والے  عرش کا مالک۔

 (۱۱۷ ) اور جو اللہ کے  ساتھ کسی دوسرے  خدا  کو پوجے  جس کی اس کے  پاس کوئی سند نہیں (ف ۱۷۷) تو اس کا حساب اس کے  رب کے  یہاں ہے،  بیشک کافروں کا چھٹکارا  نہیں۔

۱۷۷             یعنی غیر اللہ کی پرستِش مَحض باطل بے سند ہے۔

(۱۱۸ )  اور تم عرض کرو، اے  میرے  رب بخش دے  (ف ۱۷۸) اور رحم فرما اور تو سب سے  برتر رحم کرنے  والا۔

۱۷۸             ایمان والوں کو۔