مضامین اور طرز کلام سے مترشح ہوتا ہے کہ یہ سورت غالباً مکّی دور کے وسط میں، بلکہ شاید اس دور متوسط کے بھی آخری زمانہ میں نازل ہوئی ہے۔ اندازِ بیان صاف بتا رہا ہے کہ پس منظر میں مخالفت پوری شدت کے ساتھ برپا ہے اور نبی و اصحاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو نہایت دل شکن حالات سے سابقہ در پیش ہے۔
موضوع و مضمون: اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوتِ توحید و آخرت کا جواب جس تمسخر اور استہزاء کے ساتھ دیا جا رہا تھا، اور آپ کے دعوائے رسالت کو تسلیم کرنے سے جس شدت کے ساتھ انکار کیا جا رہا تھا، اس پر کفار مکہ کو نہایت پر زور طریقہ سے تنبیہ کی گئی ہے اور آخر میں انہیں صاف صاف خبردار کر دیا گیا ہے کہ عنقریب یہی پیغمبر، جس کا تم مذاق اُڑا رہے ہو، تمہارے دیکھتے دیکھتے تم پر غالب آ جائے گا اور تم اللہ کے لشکر کو خود اپنے گھر کے صحن میں اُترا ہوا پاؤ گے (آیت نمبر ۱۷۱ تا ۱۷۹)۔ یہ نوٹس اس زمانے میں دیا گیا تھا جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی کامیابی کے آثار دور دور کہیں نظر نہ آتے تھے۔ مسلمان (جن کو ان آیات میں اللہ کا لشکر کہا گیا ہے )بُری طرح ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے تھے۔ ان کی تین چوتھائی تعداد ملک چھوڑ کر نکل گئی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ بمشکل ۴۰۔ ۵۰ صحابہ مکہ میں رہ گئے تھا اور انتہائی بے بسی کے ساتھ ہر طرح کی زیادتیاں برداشت کر رہے تھے۔ ان حالات میں ظاہر اسباب کو دیکھتے ہوئے کوئی شخص یہ باور نہ کر سکتا تھا کہ غلبہ آخر کار محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کی مٹھی بھر سر و سامان جماعت کو نصیب ہو گا۔ بلکہ دیکھنے والے تو یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ تحریک مکے کی گھاٹیوں ہی میں دفن ہو کر رہ جائے گی۔ لیکن ۱۵۔ ۱۶ سال سے زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ فتح مکہ کے موقع پر ٹھیک وہی کچھ پیش آ گیا جس سے کفار کو خبردار کیا گیا تھا۔
تنبیہ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اس سورہ میں تفہیم اور ترغیب کا حق بھی پورے توازن کے ساتھ ادا فرمایا ہے۔ توحید اور آخرت کے عقیدے کی صحت پر منحصر دل نشین دلائل دیے ہیں، مشرکین کے عقائد پر تنقید کر کے بتایا ہے کہ وہ کیسی لغو باتوں پر ایمان لائے بیٹھے ہیں، ان گمراہیوں کے برے نتائج سے آگاہ کیا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ ایمان و عمل صالح کے نتائج کس ادر شاندار ہیں۔ پھر اسی سلسلے میں پچھلی تاریخ کی مثالیں دی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنے انبیاء کے ساتھ اور ان کی قوموں کے ساتھ کیا معاملہ رہا ہے، کس کس طرح اس نے اپنے وفادار بندوں کو نوازا ہے اور کس طرح ان کے جھٹلانے والوں کو سزا دی ہے۔
جو تاریخی قصے اس سورہ میں بیان کیے گئے ہیں ان میں سب سے زیادہ سبق آموز حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات طیّبہ کا یہ اہم واقعہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا ایک اشارہ پاتے ہی اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کرنے پر آمادہ ہو گئے تھے۔ اس میں صرف ان کفار قریش ہی کے لیے سبق نہ تھا جو حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ اپنے نسبی تعلق پر فخر کرتے پھرتے تھے، بلکہ ان مسلمانوں کے لیے بھی سبق تھا جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے تھے۔ یہ واقعہ سنا کر انہیں بتا دیا گیا کہ اسلام کی حقیقت اور اس کی اصلی روح کیا ہے، اور اسے اپنا دین بنا لینے کے بعد ایک مومن صادق کو کس طرح اللہ کی رضا پر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔
سورہ کی آخری آیات محض کفار کے لیے تنبیہ ہی نہ تھیں بلکہ ان اہل ایمان کے لیے بشارت بھی تھیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی تائید و حمایت میں انتہائی حوصلہ شکن حالات کا مقابلہ کر رہے تھے۔ انہیں یہ آیات سنا کر خوشخبری دے دی گئی کہ آغاز کار میں جن مصائب سے انہیں سابقہ پیش آ رہا ہے ان پر گھبرائیں نہیں، آخر کار غلبہ ان ہی کو نصیب ہو گا، اور باطل کے وہ علمبردار جو اس وقت غالب نظر آ رہے ہیں، انہی کے ہاتھوں مغلوب و مفتوح ہو کر رہیں گے۔ چند ہی سال بعد واقعات نے بتا دیا کہ یہ محض خالی تسلی نہ تھی بلکہ ایک ہونے والا واقعہ تھا جس کی پیشگی خبر دے کر ان کے دل مضبوط کیے گئے تھے۔
مفسرین کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ ان تینوں گروہوں سے مراد فرشتوں کے گروہ ہیں۔ اور یہی تفسیر حضرات عبداللہ بن مسعود، ابن عباس، قَتَادہ، مسروق، سعید بن جُبیر، عکرمہ، مجاہد، سدی، ابن زید اور ربیع بن انس سے منقول ہے۔ بعض مفسرین نے اس کی دوسری تفسیریں بھی کی ہیں، مگر موقع و محل سے یہی تفسیر زیادہ مناسبت رکھتی نظر آتی ہے۔
اس میں ’’ قطار در قطار صف باندھنے ‘‘ کا اشارہ اس طرف ہے کہ تمام فرشتے جو نظام کائنات کی تدبیر کر رہے ہیں، اللہ کے بندے اور غلام ہیں، اس کی اطاعت و بندگی میں صف بستہ ہیں اور اس کے فرامین کی تعمیل کے لیے ہر وقت مستعد ہیں۔ اس مضمون کا اعادہ آگے چل کر پھر آیت ۱۶۵ میں کیا گیا ہے جس میں فرشتے خود اپنے متعلق کہتے ہیں وَاِنَّا لَنَحْنُ اصَّا فُّوْنَ۔
’’ڈانٹنے اور پھٹکارنے ‘‘ سے مراد بعض مفسرین کی رائے میں یہ ہے کہ کچھ فرشتے ہیں جو بادلوں کو ہانکتے اور بارش کا انتظام کرتے ہیں۔ اگر چہ یہ مفہوم بھی غلط نہیں ہے، لیکن آگے کے مضمون سے جو مفہوم زیادہ مناسبت رکھتا ہے وہ یہ ہے کہ انہی فرشتوں میں سے ایک گروہ وہ بھی ہے جو نا فرمانوں اور مجرموں کو پھٹکارتا ہے اور اس کی یہ پھٹکار صرف لفظی ہی نہیں ہوتی بلکہ انسانوں پر وہ حوادثِ طبیعی اور آفات تاریخی کی شکل میں برستی ہے۔
’’کلام نصیحت سنانے ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ انہی فرشتوں میں وہ بھی ہیں جو امر حق کی طرف توجہ دلانے کے لیے تذکیر کی خدمت انجام دیتے ہیں، حوادثِ زمانہ کی شکل میں بھی جن سے عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کرتے ہیں، اور ان تعلیمات کی صورت میں بھی جو ان کے ذریعہ سے انبیاء پر نازل ہوتی ہیں، اور ان الہامات کی صورت میں بھی جو ان کے واسطے سے نیک انسانوں پر ہوتے ہیں۔
۲۔ یہ وہ حقیقت ہے جس پر مذکورہ صفات کے حامل فرشتوں کی قسم کھائی گئی ہے۔ گویا دوسرے الفاظ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یہ پورا نظام کائنات جو اللہ کی بندگی میں چل رہا ہے، اور اس کائنات کے وہ سارے مظاہر جو اللہ کی بندگی سے انحراف کرنے کے بُرے نتائج انسانوں کے سامنے لاتے ہیں، اور اس کائنات کے اندر یہ انتظام کہ ابتدائے آفرینش سے آج تک پے در پے ایک ہی حقیقت کی یاد دہانی مختلف طریقوں سے کرائی جا رہی ہے، یہ سب چیزیں اس با ت پر گواہ ہیں کہ انسانوں کا ’’ اِلٰہ‘‘ صرف ایک ہی ہے۔
’’اِلٰہ‘‘ کے لفظ کا اطلاق دو معنوں پر ہوتا ہے۔ ایک وہ معبود جس کی بالفعل بندگی و عبادت کی جا رہی ہو۔ دوسرے وہ معبود جو فی الحقیقت اس کا مستحق ہو کہ اس کی بندگی و عبادت کی جائے۔ یہاں الٰہ ہ لفظ دوسرے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ پہلے معنی میں تو انسانوں نے دوسرے بہت سے الٰہ بنا رکھے ہیں۔ اسی بناپرہم نے ’’ اِلٰہ‘‘ کا ترجمہ’’ معبود حقیقی‘‘ کیا ہے۔
۳۔ سورج ہمیشہ ایک ہی مطلع سے نہیں نکلتا بلکہ ہر روز ایک نئے زاویے سے طلوع ہوتا ہے۔ نیز ساری زمین پروہ بیک وقت طابع نہیں ہو جاتا بلکہ زمین کے مختلف حصوں پر مختلف اوقات میں اس کا طلوع ہوا کرتا ہے۔ ان وجوہ سے مشرق کے بجائے مشارق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، اور اس کے ساتھ مغارب کا ذکر نہیں کیا گیا، کیونکہ مشارق کا لفظ خود ہی مغارب پر دلالت کرتا ہے، تاہم ایک جگہ رَبُّ المَشَارق و المغارب کے الفاظ بھی آئے ہیں (المعارج۔ ۴۰)۔
۴۔ ان آیات میں جو حقیقت ذہن نشین کرائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کا مالک و فرمانروا ہی انسانوں کا اصل معبود ہے، اور وہی درحقیقت معبود ہو سکتا ہے، اور اسی کو معبود ہونا چاہیے۔ یہ بات سراسر عقل کے خلاف ہے کہ رب(یعنی مالک اور حاکم اور مربّی و پروردگار)کوئی ہو اور الٰہ (عبادت کا مستحق ) کوئی اور ہو جائے۔ عبادت کی بنیادی وجہ ہی یہ ہے کہ آدمی کا نفع و ضرر، اس کی حاجتوں اور ضرورتوں کا پورا ہونا، اس کی قسمت کا بننا اور بگڑنا، بلکہ بجائے خود اس کا وجود و بقا ہی جس کے اختیار میں ہے، اس کی بالا تری تسلیم کرنا اور اس کے آگے جھکنا آدمی کی فطرت کا عین تقاضا ہے۔ اس وجہ کو آدمی سمجھ لے تو خود بخود اس کی سمجھ میں یہ بات آ جاتی ہے کہ اختیارات والے کی عبادت کرنا، دونوں صریح خلافِ عقل و فطرت ہیں۔ عبادت کا استحقاق پہنچتا ہی اس کو ہے جو اقتدار رکھتا ہے۔ رہیں بے اقتدار ہستیاں تو وہ نہ اس کی مستحق ہیں کہ ان کی عبادت کی جائے، اور نہ ان کی عبادت کرنے اور ان سے دعائیں مانگنے کا کچھ حاصل ہے، کیونکہ ہماری کسی درخواست پر کوئی کار روائی کرنا سرے سے ان کے اختیار میں ہے ہی نہیں۔ ان کے آگے عاجزی و نیاز مندی کے ساتھ جھکنا اور ان سے دعا مانگنا بالکل ویسا ہی احمقانہ فعل ہے جیسے کوئی شخص کسی حاکم کے سامنے جائے اور اس کے حضور درخواست پیش کرنے کے بجائے جو دوسرے سائلین وہاں درخواستیں لیے کھڑے ہوں ان ہی میں سے کسی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو جائے۔
۵۔ آسمان دنیا سے مراد قریب کا آسمان ہے، جس کا مشاہدہ کسی دوربین کی مدد کے بغیر ہم برہنہ آنکھ سے کرتے ہیں۔ اس کے آگے جو عالم مختلف طاقتوں کی دوربینوں سے نظر آتے ہیں، اور جن عالَموں تک ابھی ہمارے وسائل مشاہدہ کی رسائی نہیں ہوئی ہے، وہ سب دور کے آسمان ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ’’ سماء‘‘ کسی متعیّن چیز کا نام نہیں ہے بلکہ قدیم ترین زمانے سے آج تک انسان بالعموم یہ لفظ عالَمِ بالا کے لیے استعمال کرتا چلا آ رہا ہے۔
۶۔ یعنی عالَم بالا محض خلا ہی نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے اس میں نفوذ کر جائے، بلکہ اس کی بندش ایسی مضبوط ہے، اور اس کے مختلف خطّے ایسی مستحکم سرحدوں سے محصور کیے گئے ہیں کہ کسی شیطان سرکش کا ان حدوں سے گزر جانا ممکن نہیں ہے۔ کائنات کے ہر تارے اور ہر سیّارے کا اپنا ایک دائرہ اور کُرہ(Sphere)ہے جس کے اندر سے کسی کا نکلتا بھی سخت دشوار ہے اور جس میں باہر سے کسی کا داخل ہونا بھی آسان نہیں ہے۔ ظاہری آنکھ سے کوئی دیکھے تو خلائے محض کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ لیکن حقیقت میں اس خلا کے اندر بے حد و حساب خطے ایسی مضبوط سرحدوں سے محفوظ کیے گئے ہیں جن کے مقابلے میں آہنی دیواروں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس کا کچھ اندازہ ان گو ناں گوں مشکلات سے کیا جا سکتا ہے جو زمین کے رہنے والے انسان کو اپنے قریب ترین ہمسائے، چاند تک پہنچنے میں پیش آ رہی ہیں۔ ایسی ہی مشکلات زمین کی دوسری مخلوق، یعنی جنوں کے لیے بھی عالمِ بالا کی طرف صعود کرنے میں مانع ہیں۔
۷۔ اس مضمون کو سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ اس وقت عرب میں کہانت کا بڑا چرچا تھا۔ جگہ جگہ کاہن بیٹھے پیشن گوئیاں کر رہے تھا، غیب کی خبریں دے دہے تھے، گم شدہ چیزوں کے پتے بتا رہے تھے، اور لوگ اپنے اگلے پچھلے حال دریافت کرنے کے لیے ان سے رجوع کر رہے تھے۔ ان کاہنوں کا دعویٰ یہ تھا کہ جن اور شیاطین ان کے قبضے میں ہیں اور وہ انہیں ہر طرح کی خبریں لا لا کر دیتے ہیں۔ اس ماحول میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم منصبِ نبوت پر سرفراز ہوئے اور آپ نے قرآن مجید کی آیات سنانی شروع کیں جن میں پچھلی تاریخ اور آئندہ پیش آنے والے حالات کی خبریں دی گئی تھیں، اور ساتھ ساتھ آپ نے یہ بھی بتایا کہ ایک فرشتہ یہ آیات میرے پاس لاتا ہے، تو آپ کے مخالفین نے فوراً آپ کے اوپر کاہن کی پھبتی کس دی اور لوگوں سے کہنا شروع کر دیا کہاں کا تعلق بھی دوسرے کاہنوں کی طرح کسی شیطان سے ہے جو عالم بالا سے کچھ سن گن لے کر ان کے پاس آ جاتا ہے اور یہ اسے وحی الہٰی بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ اس الزام کے جواب میں اللہ تعالیٰ یہ حقیقت ارشاد فرما رہا ہے کہ شیاطین کی تو رسائی ہی عالم بالا تک نہیں ہو سکتی۔ وہ اس پر قادر نہیں ہیں کہ ملاء اعلیٰ (یعنی گروہ ملائکہ) کی باتیں سن سکیں اور لا کر کسی کو خبریں دے سکیں۔ اور اگر اتفاقاً کوئی ذرا سی بھنک کسی شیطان کے کان میں پڑ جاتی ہے تو قبل اس کے کہ وہ اسے لے کر نیچے آئے، ایک تیز شعلہ اس کا تعاقب کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ملائکہ کے ذریعہ سے کائنات کا جو عظیم الشان نظام چل رہا ہے وہ شیاطین کی در اندازی سے پوری طرح محفوظ ہے۔ اس میں دخل دینا تو در کنار، اس کی معلومات حاصل کرنا بھی ان کے بس میں نہیں ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، صفحہ ۵۰۰ تا ۵۰۲)
۸۔ یہ کفار مکہ کے اس شبہ کا جواب ہے جو وہ آخرت کے بارے میں پیش کرتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ آخرت ممکن نہیں ہے، کیونکہ مرے ہوئے انسانوں کا دوبارہ پیدا ہونا محال ہے۔ اس کے جواب میں امکانِ آخرت کے دلائل پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سب سے پہلے ان کے سامنے یہ سوال رکھتا ہے کہ اگر تمہارے نزدیک مرے ہوئے انسانوں کو دو بارہ پیدا کرنا بڑا سخت کام ہے جس کی قدرت تمہارے خیال میں ہم کو حاصل نہیں ہے تو بتاؤ کہ یہ زمین و آسمان، اور یہ بے شمار اشیاء جو آسمانوں اور زمین میں ہیں، ان کا پیدا کرنا کوئی آسان کام ہے ؟ آخر تمہاری عقل کہاں ماری گئی ہے کہ خدا کے لیے یہ عظیم کائنات پیدا کرنا مشکل نہ تھا، اور جو خود تم کو ایک دفعہ پیدا کر چکا ہے، اس کے متعلق تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہاری دوبارہ تخلیق سے وہ عاجز ہے۔
۹۔ یعنی یہ انسان کوئی بڑی چیز تو نہیں ہے۔ مٹی سے بنایا گیا ہے اور پھر اسی مٹی سے بنایا جا سکتا ہے۔
لیس دار گارے سے انسان کی پیدائش کا مطلب یہ بھی ہے کہ انسان اول کی پیدائش مٹی سے ہوئی تھی اور پھر آگے نسل انسانی اُسی پہلے انسان کے نطفے سے وجود میں آئی۔ اور یہ بھی ہے کہ ہر انسان لیس دار گارے سے بنا ہے۔ اس لیے کہ انسان کا سارا مادّہ وجود زمین ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ جس نطفے سے وہ پیدا ہوا ہے وہ غذا ہی سے بنتا ہے، اور استقرارِ حمل کے وقت سے مرتے دم تک اس کی پوری ہستی جن اجزاء سے مرکب ہوتی ہے وہ سب بھی غذا ہی سے فراہم ہوتے ہیں۔ یہ غذا خواہ حیوانی ہو یا نباتی، آخر کار اس کا ماخذ وہ مٹی ہے جو پانی کے ساتھ مل کر اس قابل ہوتی ہے کہ انسان کی خوراک کے لیے غلے اور ترکاریاں اور پھل نکالے، اور ان حیوانات کو پرورش کرے جن کا دودھ اور گوشت انسان کھاتا ہے۔
پس بنائے استدلال یہ ہے کہ یہ مٹی اگر حیات قبول کرنے کے لائق نہ تھی تو تم آج کیسے زندہ موجود ہو؟ اگر اس میں زندگی پیدا کیے جانے کا آج امکان ہے، جیسا کہ تمہارا موجود ہونا خود اس کے امکان کو صریح طور پر ثابت کر رہا ہے، توکل دوبارہ اسی مٹی سے تمہاری پیدائش کیوں ممکن نہ ہو گی ؟
۱۰۔ یعنی عالم طلسمات کی باتیں ہیں۔ کوئی جادو کی دنیا ہے جس کا یہ شخص ذکر کر رہا ہے، جس میں مردے اٹھیں گے، عدالت ہو گی، جنت بسائی جائے گی اور دوزخ کے عذاب ہوں گے۔ یا پھر یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ یہ شخص دل چلوں کی سی باتیں کر رہا ہے، اس کی یہ باتیں ہی اس بات کا صریح ثبوت ہیں کہ کسی نے اس پر جادو کر دیا ہے جس کی وجہ سے بھلا چنگا آدمی یہ باتیں کرنے لگا۔
۱۱۔ یعنی اللہ جو کچھ بھی تمہیں بنانا چاہے بنا سکتا ہے۔ جب اس نے چاہا اس کے ایک اشارے پر تم وجود میں آ گئے۔ جب وہ چاہے گا اس کے ایک اشارے پر تم مر جاؤ گے۔ اور پھر جس وقت بھی وہ چاہے گا اس کا ایک اشارہ تمہیں اٹھا کھڑا کرے گا۔
۱۲۔ یعنی جب یہ بات ہونے کا وقت آئے گا تو دنیا کو دوبارہ برپا کر دینا کوئی بڑا لمبا چوڑا کام نہ ہو گا۔ بس ایک ہی جھڑکی سوتوں کو جگا اٹھا نے کے لیے کافی ہو گی۔ ’’ جھڑکی ‘‘ کا لفظ یہاں بہت معنیٰ خیز ہے، اس سے بعث بعد الموت کا کچھ ایسا نقشہ نگاہوں کے سامنے آتا ہے کہ ابتدائے آفرینش سے قیامت تک جو انسان مرے تھے وہ گویا سوتے پڑے ہیں، یکایک کوئی ڈانٹ کر کہتا ہے ’’ اٹھ جاؤ‘‘ اور بس آن کی آن میں وہ سب اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔
۱۳۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بات ان سے اہل ایمان کہیں، ہو سکتا ہے کہ یہ فرشتوں کا قول ہو، ہو سکتا ہے کہ میدان حشر کا سارا ماحول اس وقت زبان حال سے یہ کہہ رہا ہو، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ خود انہی لوگوں کا دوسرا رد عمل ہو۔ یعنی اپنے دلوں میں وہ اپنے آپ ہی کو مخاطب کر کے کہیں کہ دنیا میں ساری عمر تم یہ سمجھتے رہے کہ کوئی فیصلے کا دن نہیں آنا ہے، اب آ گئی تمہاری شامت، جس دن کو جھٹلاتے تھے وہی سامنے آ گیا۔
۱۴۔ ظالم سے مراد صرف وہی لوگ نہیں ہیں جنہوں نے دوسروں پر ظلم کیا ہو، بلکہ قرآن کی اصطلاح میں ہر وہ شخص ظالم ہے جس نے اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں بغاوت و سرکشی اور نافرمانی کی راہ اختیار کی ہو۔
۱۵۔ اصل میں لفظ ’’ ازواج‘‘ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد ان کی وہ بیویاں بھی ہو سکتی ہیں جو اس بغاوت میں ان کی رفیق تھیں، اور سہ سب لوگ بھی ہو سکتے ہیں جو انہی کی طرح باغی و سرکش اور نافرمان تھے۔ علاوہ بریں اس کا یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ایک قسم کے مجرم الگ الگ جتھوں کی شکل میں جمع کیے جائیں گے۔
۱۶۔ اس جگہ معبودوں سے مراد دو قسم کے معبود ہیں۔ ایک، وہ انسان اور شیاطین جن کی اپنی خواہش اور کوشش یہ تھی کہ لوگ خدا کو چھوڑ کر ان کی بندگی کریں۔ دوسرے وہ اصنام اور شجر و حجر وغیرہ جن کی پرستش دنیا میں کی جاتی رہی ہے۔ ان میں سے پہلی قسم کے معبود تو خود مجرمین میں شامل ہوں گے اور انہیں سزا کے طور پر جہنم کا راستہ دکھایا جائے گا۔ اور دوسری قسم کے معبود اپنے پرستاروں کے ساتھ اس لیے جہنم میں ڈالے جائیں گے کہ وہ انہیں کر ہر وقت شرمندگی محسوس کریں اور اپنی حماقتوں کا ماتم کرتے رہیں۔ ان کے علاوہ ایک تیسری قسم کے معبود وہ بھی ہیں جنہیں دنیا میں پوجا تو گیا ہے مگر خود ان کا اپنا ایما ہر گز نہ تھا کہ ان کی پرستش کی جائے، بلکہ اس کے برعکس وہ ہمیشہ انسانوں کو غیر اللہ کی پرستش سے منع کرتے رہے، مثلاً فرشتے، انبیا ء اور اولیاء۔ اس قسم کے معبود ظاہر ہے کہ ان معبودوں میں شامل نہ ہوں گے جنہیں اپنے پرستاروں کے ساتھ جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا۔
۱۷۔ پہلا فقرہ مجرمین کو خطاب کر کے ارشاد ہو گا۔ اور دوسرا فقرہ ان عام حاضرین کی طرف رخ کر کے فرمایا جائے گا جواس وقت جہنم کی روانگی کا منظر دیکھ رہے ہوں گے۔ یہ فقرہ خود بتا رہا ہے کہ اس وقت حالت کیا ہو گی۔ بڑے ہیکڑ مجرمین کے کَس بَل نکل چکے ہوں گے اور کسی مزاحمت کے بغیر وہ کان دبائے جہنم کی طرف جا رہے ہوں گے۔ کہیں کوئی ہز میجسٹی دھکے کھا رہے ہوں گے اور دربار یوں میں سے کوئی ’’ اعلیٰ حضرت ‘‘ کو بچانے کے لیے آگے نہ بڑھے گا۔ کہیں کوئی فاتح عالَم اور ڈکٹیٹر انتہائی ذلت کے ساتھ چلا جا رہا ہو گا اور اس کا لشکر جرّار خود اسے سزا کے لیے پیش کر دے گا۔ کہیں کوئی پیر صاحب یا گرو جی یا ہولی فادر واصل بجہنم ہو رہے ہوں گے اور مُریدوں میں سے کسی کو یہ فکر نہ ہو گی کہ حضرتِ والا کی توہین نہ ہونے پائے۔ کہیں کوئی لیڈر صاحب کسمپرسی کے عالم میں جہنم کی طرف رواں دواں ہوں گے اور دنیا میں جو لوگ ان کی کبریائی کے جھنڈے اٹھائے پھرتے تھے وہ سب وہاں ان کی طرف سے نگاہیں پھیر لیں گے۔ حد یہ ہے کہ جو عاشق دنیا میں اپنے معشوق پر جان چھڑکتے تھے انہیں بھی اس کے حال بد کی کوئی پروا نہ ہو گی۔ اس حالت کا نقشہ کھینچ کر اللہ تعالیٰ دراصل یہ بات ذہن نشین کرانا چاہتا ہے کہ دنیا میں انسان اور انسان کے جو تعلقات اپنے رب سے بغاوت پر مبنی ہیں وہ کس طرح آخرت میں ٹوٹ کر رہ جائیں گے، اور یہاں جو لوگ ہمچو ما دیگرے نیست کے غرور میں مبتلا ہیں، وہاں ان کا تکبر کس طرح خاک میں مل جائے گا۔
۱۸۔ اصل الفاظ ہیں کُنْتُمْ تَأ تُوْ نَنَا عَنِ الْیَمِیْنِ۔ ’’ تم ہمارے پاس یمین کی راس سے آتے تھے۔ ‘‘ یمین کا لفظ عربی زبان میں متعدد مفہومات کے لیے بولا جاتا ہے۔ اگر اس کو قوت و طاقت کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ ہم کمزور تھے اور تم ہم پر غالب تھے، اس لیے تم اپنے زور سے ہم کو گمراہی کی طرف کھینچ لے گئے۔ اگر اس کو خیر اور بھلائی کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ تم نے خیر خواہ بن کر ہمیں دھوکا دیا۔ تم ہمیں یقین دلاتے رہے کہ جس راہ پر تم ہمیں چلا رہے ہو یہی حق اور بھلائی کی راہ ہے۔ اس لیے ہم تمہارے فریب میں آ گئے۔ اور اگر اسے قَسم کے معنی میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم نے قَسمیں کھا کھا کر ہمیں اطمینان دلایا تھا کہ حق وہی ہے جو تم پیش کر رہے ہو۔
۱۹۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، سورہ سبا، حواشی نمبر ۵۱۔ ۵۲۔ ۵۳۔
۲۰۔ یعنی پیرو بھی اور پیشوا بھی، گمراہ کرنے والے بھی اور گمراہ ہونے والے بھی، ایک ہی عذاب میں شریک ہوں گے۔ نہ پیروؤں کا یہ عذر مسموع ہو گا کہ ہو خود گمراہ نہیں ہوئے تھے بلکہ کیا گیا تھا۔ اور نہ پیشواؤں کی اِس معذرت کو قبول کیا جائے گا کہ گمراہ ہونے والے خود ہی راہ راست کے طالب نہ تھے۔
۲۱۔ رسولوں کی تصدیق کے تین معنی ہیں اور تینوں ہی یہاں مراد بھی ہیں۔ ایک یہ کہ اُس نے کسی سابق رسول کی مخالفت نہ کی تھی کہ اُس رسول کے ماننے والوں کے لیے اُس کے خلاف تعصّب کی کوئی معقول وجہ ہوتی، بلکہ وہ خدا کے تمام پچھلے رسولوں کی تصدیق کرتا تھا۔ دوسرے یہ کہ وہ کوئی نئی اور نرالی بات نہیں لایا تھا بلکہ وہی بات پیش کرتا تھا جو ابتدا سے خدا کے تمام رسول پیش کرتے چلے آ رہے تھے۔ تیسرے یہ کہ وہ ان تمام خبروں کا صحیح مصداق تھا جو پچھلے رسولوں نے اُس کے بارے میں دی تھیں۔
۲۲۔ یعنی ایسا رزق جس کی تمام خوبیاں بتائی جاچکی ہیں، جس کے ملنے کا انہیں یقین ہے، جس کے متعلق انہیں یہ بھی اطمینان ہے کہ وہ ہمیشہ ملتا رہے گا، جس کے بارے میں یہ خطرہ لگا ہوا نہیں ہے کہ کیا خبر، ملے یا نہ ملے۔
۲۳۔ اس میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جنت میں کھانا غذا کے طور پر نہیں بلکہ لذت کے لیے ہو گا۔ یعنی وہاں کھانا اس غرض کے لیے نہ ہو گا کہ جسم کے تحلیل شدہ اجزاء کی جگہ دوسرے اجزاء غذا کے ذریعہ فراہم کیے جائیں، کیونکہ اس ابدی زندگی میں سرے سے اجزائے جسم تحلیل ہی نہ ہوں گے، نہ آدمی کو بھوک لگے گی جو اس دنیا میں تحلیل کے عمل کی وجہ سے لگتی ہے، اور نہ جسم اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے غذا مانگے گا۔ اسی بنا پر جنت کے ان کھانوں کے لیے ’’ فواکہ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے مفہوم میں تغذیہ کے بجائے تلذُّذ کا پہلو نمایاں ہے۔
۲۴۔ اصل میں یہاں شراب کی تصریح نہیں ہے بلکہ صرف کاًس(ساغر)کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن عربی زبان کی کاًس کا لفظ بول کر ہمیشہ شراب ہی مراد لی جاتی ہے۔ جس پیالے میں شراب کے بجائے دودھ یا پانی ہو، یا جس پیالے میں کچھ نہ ہو اسے کاُس نہیں کہتے کاُس کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب اس میں شراب ہو۔
۲۵۔ یعنی وہ شراب اس قوم کی نہ ہو گی جو دنیا میں پھلوں اور غلّوں کو سڑا کر کشید کی جاتی ہے۔ بلکہ وہ قدرتی طور پر چشموں سے نکلے گی اور نہروں کی شکل میں بہے گی۔ سورہ محمدؐ میں اسی مضمون کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے : وَاَنْھٰرٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّشَّارِبِیْنَ۔ ’’ اور شراب کی نہریں جو پینے والوں کے لیے لذت ہوں گی‘‘۔
۲۶۔ یہاں یہ نہیں بتایا گیا کہ شراب کے یہ ساغر لے کر جنّتیوں کے درمیان گردش کون کرے گا۔ اس کی تفصیل دوسرے مقامات پر ارشاد ہوئی ہے : وَ یَطُوْ فُ عَلَیْھِمْ غِلْمَانٌ لَّھُمْ کَاَنَّھُمْ لُو ءْ لُوءٌ مَّکْنُوْنٌ۔ اور ان کی خدمت کے لیے گردش کریں گے ان کے خادم لڑکے، ایسے خوبصورت جیسے صدف میں چھُپے ہوئے موتی ‘‘ (الطور، آیت ۲۴)۔ وَیَطُوْ فُ عَلَیْھِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ اِذَارَ أَیْتَھُمْ حَسِبْتَھُمْ لُوْء لُؤًا مَّنْشُوْراً۔ ’’ اور ان کی خدمت کے لیے گردش کریں گے ایسے لڑکے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہنے والے ہیں۔ تم انہیں دیکھو تو سمجھو کہ موتی بکھیر دیے گئے ہیں ‘‘ (الدہر، آیت ۱۹)۔ پھر اس کی مزید تفصیل حضرت اَنَس اور حضرت سَمُرَہ بن جُندُب کی ان روایات میں ملتی ہے جو انہوں نے نبی صلی اللہ ولیہ و سلم سے نقل کی ہیں۔ ان میں بتایا گیا ہے کہ ’’ مشرکین کے بچے اہل جنت کے خادم ہوں گے ‘‘ (ابو داؤد طَیالِسی، طبرانی، بزَّار)۔ یہ روایات اگر چہ سنداً ضعیف ہیں، لیکن متعدد دوسری احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جو بچے سنّ رشد کو نہیں پہنچے ہیں وہ جنت میں جائیں گے۔ پھر یہ بھی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جن بچوں کے والدین جنتی ہو ں گے وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہیں گے تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہو ں۔ اس کے بعد لامحالہ وہ بچے رہ جاتے ہیں جن کے ماں باپ جنّتی نہ ہوں گے۔ سو ان کے متعلق یہ بات معقول معلوم ہوتی ہے کہ وہ اہل جنت کے خادم بنا دیے جائیں۔ (اس کے متعلق تفصیلی بحث کے لیے ملاحظہ ہو فتح الباری اور عمدۃالقاری، کتاب الجنائز، باب ماقیل فی اولاد المشرکین رسائل و مسائل، جلد سوم، ص ۱۷۷ تا ۱۸۷)
۲۷۔ یعنی وہ شراب ان دونوں قسم کی خرابیوں سے خالی ہو گی جو دنیا کی شراب میں ہوتے ہیں۔ دنیا کی شراب میں ایک قسم کی خرابی یہ ہوتی ہے کہ آدمی کے قریب آتے ہی پہلے تو اس کی بدنو اور سڑاند ناک میں پہنچتی ہے پھر اس کا مزا آدمی کے ذائقے کو تلخ کرتا ہے۔ پھر حلق سے اترتے ہی وہ پیٹ پکڑ لیتی ہے۔ پھر وہ دماغ کو چڑھتی ہے اور دوران سر لاحق ہوتا ہے۔ پھر وہ جگر کو متاثر کرتی ہے اور آدمی کی صحت پر اس کے برے اثرات مترتب ہوتے ہیں۔ پھر جب اس کا نشہ اترتا ہے تو آدمی خُمار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ سب جسمانی ضرر ہیں۔ دوسری قسم کی خرابی یہ ہوتی ہے کہ اسے پی کر آدمی بہکتا ہے، اَول فَول بکتا ہے اور عَرہَدہ کرتا ہے۔ یہ شراب کے عقلی نقصانات ہیں۔ دنیا میں انسان صرف سُرور کی خاطر شراب کے یہ سارے نقصانات برداشت کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جنت کی شراب میں سرور تو پوری طرح ہو گا (لذّۃ للشاربین ) لیکن ان دونوں قسم کی خرابیوں میں سے کوئی خرابی بھی اس میں نہ ہو گی۔
۲۸۔ یعنی اپنے شوہر کے سوا کسی اور کی طرف نگاہ نہ کرنے والی۔
۲۹۔ بعید نہیں ہے کہ یہ وہ لڑکیاں ہوں و دنیا میں سنّ رشد کو پہنچنے سے پہلے مر گئی ہوں اور جن کے والدین جنت میں جانے کے مستحق نہ ہوئے ہوں۔ یہ بات اس قیاس کی بنا پر کہی جا سکتی ہے کہ جس طرح ایسے لڑکے اہل جنت کی خدمت کے لیے مقرر کر دیے جائیں گے اور وہ ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے، اسی طرح ایسی لڑکیاں بھی اہل جنت کے لیے حوریں بنا دی جائیں گی اور وہ ہمیشہ جو خیز لڑکیاں ہی رہیں گی۔ واللہ اعلم با صواب۔
۳۰۔ اصل الفاظ ہیں کَاَنَّھُنَّ بَیْضٌ مَّکْنُوْنٌ۔ ’’ گویا وہ چھپے ہوئے یا محفوظ رکھے ہوئے انڈے ہیں ‘‘ ان الفاظ کی مختلف تعبیرات اہل تفسیر نے بیان کی ہیں۔ مگر صحیح تفسیر وہی ہے جو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کی ہے۔ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے اس آیت کا مطلب حضورؐ سے پوچھا تو آپؐ نے فرمایا کہ ان کی نرمی و نزاکت اس جھلی جیسی ہو گی جو انڈے کے چھلکے اور اس کے گودے کے درمیان ہوتی ہے (ابن جریر)۔
۳۱۔ یعنی تم بھی ایسے ضعیف الاعتقاد نکلے کہ زندگی بعد موت جیسی بعید از عقل بات کو مان بیٹھے۔
۳۲۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آخرت میں انسان کی سماعت اور بینائی اور گویائی کس پیمانے کی ہو گی۔ جنت میں بیٹھا ہو ایک آدمی جب چاہتا ہے کسی ٹیلی ویژن کے آلے کے بغیر بس یوں ہی جھک کر ایک ایسے شخص کو دیکھ لیتا ہے جو اس سے نہ معلوم کتنے ہزار میل کے فاصلے پر جہنم میں مبتلائے عذاب ہے۔ پھر یہی نہیں کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں، بلکہ ان کے درمیان کسی ٹیلی فون یا ریڈیو کے توسط کے بغیر براہ راست کلام بھی ہوتا ہے۔ وہ اتنے طویل فاصلے سے بات کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی بات سنتے ہیں۔
۳۳۔ اندازِ کلام صاف بتا رہا ہے کہ اپنے اس دوزخی یار سے کلام کرتے کرتے یکایک یہ جنتی شخص اپنے آپ سے کلام کرنے لگتا ہے اور یہ تین فقر ے اس کی زبان سے اس طرح ادا ہوتے ہیں جیسے کوئی شخص اپنے آپ کو ہر توقع اور ہر اندازے سے برتر حالت میں پا کر انتہائی حیرت و استعجاب اور وفور مسرت کے ساتھ آپ ہی آپ بول رہا ہو۔ اس طرح کے کلام میں کوئی خاص شخص مخاطب نہیں ہوتا، اور نہ اس کلام میں جو سوالات آدمی کرتا ہے ان سے درحقیقت کوئی بات کسی سے پوچھنا مقصود ہوتا ہے۔ بلکہ اس میں آدمی کے اپنے ہی احساسات کا اظہار اس کی زبان سے ہونے لگتا ہے۔ وہ جنتی شخص اس دوزخی سے کلام کرتے کرتے یکایک یہ محسوس کرتا ہے کہ میری خوش قسمتی مجھے کہاں لے آئی ہے۔ اب نہ موت ہے نہ عذاب ہے۔ ساری کلفتوں کا خاتمہ ہو چکا ہے اور مجھے حیات جاوداں نصیب ہو چکی ہے۔ اسی احساس کی بنا پر وہ بے ساختہ بول اٹھتا ہے کیا اب ہم اس مرتبے کو پہنچ گئے ہیں ؟
۳۴۔ زَقّوم ایک قسم کا درخت ہے جو تہامہ کے علاقے میں ہوتا ہے۔ مزہ اس کا تلخ ہوتا ہے، بو ناگوار ہوتی ہے، اور توڑنے پر اس میں سے دودھ کا سا رس نکلتا ہے جو اگر جسم کو لگ جائے تو ورم ہو جاتا ہے۔ غالباً یہ وہی چیز ہے جسے ہمارے ملک میں تھوہر کہتے ہیں۔
۳۵۔ یعنی منکرین یہ بات سن کر قرآن پر طعن اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر استہزاء کا ایک نیا موقع پالیتے ہیں۔ وہ اس پر ٹھٹھا مار کر کہتے ہیں، لو اب نئی سنو، جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں درخت اگے گا۔
۳۶۔ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ شیطان کا سرکس نے دیکھا ہے جو زقوم کے شگوفوں کو اس سے تشبیہ دی گئی۔ دراصل یہ تخییلی نوعیت کی تشبیہ ہے اور عام طور پر زبان کے ادب میں اس سے کام لیا جاتا ہے۔ مثلاً ہم ایک عورت کی انتہائی خوبصورتی کا تصور دلانے کے لیے کہتے ہیں وہ پری ہے۔ اور انتہائی بدصورتی بیان کرنے کے لیے کہتے ہیں، وہ چڑیل ہے یا بھتنی ہے۔ کسی شخص کی نورانی شکل کی تعریف میں کہ جاتا ہے، وہ فرشتہ صورت ہے۔ اور کوئی نہایت بھیانک ہیئت کذائی میں سامنے آئے تو دیکھنے والے کہتے ہیں کہ وہ شیطان بنا چلا آ رہا ہے۔
۳۷۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل دوزخ جب بھوک پیاس سے بے تاب ہونے لگیں گے تو انہیں اس مقام کی طرف ہانک دیا جائے گا جہاں زقوم کے درخت اور کھولتے ہوئے پانی کے چشمے ہوں گے۔ پھر جب وہ وہاں سے کھا پی کر فارغ ہو جائیں گے تو انہیں دوزخ کی طرف لایا جائے گا۔
۳۸۔ یعنی انہوں نے خود اپنی عقل سے کام لے کر کبھی نہ سوچا کہ باپ دادا سے جو طریقہ چلا آ رہا ہے وہ درست بھی ہے یا نہیں۔ بس آنکھیں بند کر کے اسی ڈگر پر ہولیے جس پر دوسروں کو چلتے دیکھا۔
۳۹۔ اس مضمون کا تعلق پچھلے رکوع کے آخری فقروں سے ہے۔ ان پر غور کرنے سے سمجھ میں آ جاتا ہے کہ یہ قصے یہاں کسی غرض سے سنائے جا رہے ہیں۔
۴۰۔ اس سے مراد وہ فریاد ہے جو حضرت نوح علیہ السلام نے مدتہائے دراز تک اپنی قوم کو دعوت دین حق دینے کے بعد آخر کار مایوس ہو کر اللہ تعالیٰ سے کی تھی۔ اس فریاد کے الفاظ سورہ قمر میں اس طرح آئے ہیں فَدَ عَا رَبَّہٗ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ، ’’ اس نے اپنے رب کو پکارا کہ میں مغلوب ہو گیا ہوں، اب تو میری مدد کو پہنچ‘‘(آیت ۱۰)
۴۱۔ یعنی اس شدید اذیت سے جو ایک بد کردار اور ظالم قوم کی مسلسل مخالفت سے ان کو پہنچ رہی تھی۔ اس میں ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف بھی ہے کہ جس طرح نوح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو اس کرب عظیم سے بچایا گیا، اسی طرح آخر کار ہم محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کو بھی اس کرب عظیم سے بچا لیں گے جس میں اہل مکہ نے ان کو مبتلا کر رکھا ہے۔
۴۲۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ جو لوگ حضرت نوح کی مخالفت کر رہے تھے ان کی نسل دنیا سے ناپید کر دی گئی اور حضرت نوحؑ ہی کی نسل باقی رکھی گئی اور آگے صرف حضرت نوح علیہ السلام ہی کی اولاد سے دنیا آباد کی گئی۔ عام طور پر مفسرین نے اسی دوسرے معنی کو اختیار کیا ہے، مگر قرآن مجید کے الفاظ اس معنی میں صریح نہیں ہیں اور حقیقت اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
۴۳۔ یعنی آج دنیا میں حضرت نوحؑ کی برائی کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ طوفان نوح کے بعد سے آج تک ہزار ہا برس سے دنیا ان کا ذکر خیر کر رہی ہے۔
۴۴۔ رب کے حضور آنے سے مراد اس کی طرف رجوع کرنا اور سب سے منہ موڑ کر اسی کا رُخ کرنا ہے۔ اور ’’ قلب سلیم‘‘ کے معنی ’’صحیح سلامت د ل‘‘ کے ہیں۔ یعنی ایسا دل جو تمام اعتقادی اور اخلاقی خرابیوں سے پاک ہو، جس میں کفر و شرک اور شکوک و شبہات کا شائبہ تک نہ ہو، جس میں نافرمانی اور سرکشی کا کوئی جذبہ نہ پایا جاتا ہو، جس میں کوئی ایچ پیچ اور الجھاؤ نہ ہو، جو ہر قسم کے برے میلانات اور ناپاک خواہشات سے بالکل صاف ہو، جس کے اندر کسی کے لیے بغض و حسد یا بد خواہی نہ پائی جاتی ہو، جس کی نیت میں کوئی کھوٹ نہ ہو۔
۴۵۔ حضرت ابراہیمؑ کے اس قصّے کی مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، ص ۵۵۲ تا ۵۶۰۔ جلد سوم ص ۶۹۔ ۷۰۔ ۱۶۳ تا ۱۷۰۔ ۴۹۹ تا ۵۰۶۔ ۶۸۶ تا ۶۹۴۔
۴۶۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو آخر تم نے کیا سمجھ رکھا ہے۔ کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ یہ لکڑی پتھر کے معبود اس کے ہم جنس ہو سکتے ہیں ؟ یا اس کی صفات اور اس کے اختیارات میں شریک ہو سکتے ہیں ؟ اور کیا تم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ اس کے ساتھ اتنی بڑی گستاخی کر کے تم اس کی پکڑ سے بچے رہ جاؤ گے ؟
۴۷۔ اب ایک خاص واقعہ کا ذکر کیا جا رہا ہے جس کی تفصیلات سورہ (آیات ۵۱ تا ۷۳) اور سورہ عنکبوت (آیات ۱۶ تا ۲۷) میں گزر چکی ہیں۔
۴۸۔ ابن ابی حاتم نے مشہور تابعی مفسر قتادہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اہل عرب نَظَرَفِی النُّجُوْ مِ (اس نے تاروں پر نگاہ ڈالی) کے الفاظ محاصرے کے طور پر اس معنی میں بولا کرتے ہیں کہ اس شخص نے غور کیا، یا وہ شخص سوچنے لگا۔ علامہ ابن کثیر نے اسی قول کو ترجیح دی ہے اور ویسے بھی یہ بات اکثر مشاہدے میں آتی ہے کہ جب کسی شخص کے سامنے کوئی غور طلب معاملہ آتا ہے تو وہ آسمان کی طرف، یا اوپر کی جانب کچھ دیر دیکھتا رہتا ہے، پھر سوچ کر جواب دیتا ہے۔
۴۹۔ یہ ن تین باتوں میں سے ایک ہے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی میں یہ تین جھوٹ بولے تھے۔ حالانکہ اس بات کو جھوٹ، یا خلاف واقعہ کہنے کے لیے پہلے کسی ذریعہ سے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ تھی اور انہوں نے محض بہانے کے طور پر یہ بات بنا دی تھی۔ اگر اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے تو خواہ مخواہ اسے جھوٹ آخر کس بنا پر قرار دے دیا جائے۔ اس مسئلے پر تفصیلی بحث ہم تفہیم القرآن جلد سوم (صفحہ ۱۶۷۔ ۱۶۸) میں کر چکے ہیں، اور مزید بحث رسائل و مسائل، جلد دوم (صفحہ ۳۵ تا ۳۹) میں کی گئی ہے۔
۵۰۔ یہ فقرہ خود بخود یہ ظاہر کر رہا ہے کہ صورت معاملہ دراصل کیا تھی۔ معلوم ہوتا ہے کہ قوم کے لوگ اپنے کسی میلے میں جا رہے ہوں گے۔ حضرت ابراہیم کے خاندان والوں نے ان سے بھی ساتھ چلنے کو کہا ہو گا۔ انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر دی ہو گی کہ میری طبیعت خراب ہے، میں نہیں چل سکتا۔ اب اگر یہ بات بالکل ہی خلاف واقعہ ہوتی تو ضرور گھر کے لوگ ان سے کہتے کہ اچھے خاصے بھلے چنگے ہو، بلا وجہ بہانہ بنا رہے ہو۔ لیکن جب وہ عذر کو قبول کر کے انہیں پیچھے چھوڑ گئے تو اس سے خود ہی یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ضرور اس وقت حضرت ابراہیم کو نزلہ، کھانسی، یا کوئی اور ایسی ہی نمایاں تکلیف ہو گی جس کی وجہ سے گھر والے انہیں چھوڑ جانے پر راضی ہو گئے۔
۵۱۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مندر میں بتوں کے سامنے طرح طرح کی کھانے کی چیزیں رکھی ہوئی ہوں گی۔
۵۲۔ یہاں قصہ مختصر کر کے بیان کیا گیا ہے۔ سورہ انبیا ء میں اس کی جو تفصیل دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ جب انہوں نے آ کر اپنے مندر میں دیکھا کہ سارے بت ٹوٹے پڑے ہیں تو پوچھ گچھ شروع کی۔ کچھ لوگوں نے بتایا کہ ابراہیم نامی ایک نوجوان بت پرستی کے خلاف ایسی باتیں کرتا رہا ہے۔ اس پر مجمع نے کہا کہ پکڑ لاؤ اسے۔ چنانچہ ایک گروہ دوڑتا ہوا ان کے پاس پہنچا، اور انہیں مجمع کے سامنے لے آیا۔
۵۳۔ سورہ انبیا ء (آیت ۶۹) میں الفاظ یہ ہیں۔ قُلْنَا یٰنَا رُکُوْنِیْ بَرْ داً وَّ سَلَاماً عَلیٓ اِبْرَاہیم ( ہم نے کہا،
اے آگ ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیم کے لیے )۔ اور سورہ عنکبوت (آیت ۲۴) میں ارشاد ہوا ہے فَاَنْجٰہُ اللہُ مِنَ النَّارِ، (پھر اللہ نے اس کو آگ سے بچا لیا)۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ابراہیمؑ کو آگ میں پھینک دیا تھا، اور پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سے بسلامت نکال دیا۔ آیت کے یہ الفاظ کہ ’’ انہوں نے اس کے خلاف ایک کاروائی کرنی چاہی تھی مگر ہم نے انہیں نیچا دکھا دیا‘‘ اس معنی میں نہیں لیے جا سکتے کہ انہوں نے حضرت ابراہیمؑ کو آگ میں پھینکنا چاہا تھا مگر نہ پھینک سکے۔ بلکہ مذکورہ بالا آیات کے ساتھ ملا کر دیکھنے سے ان کا صاف مطلب یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ آگ میں پھینک کر انہیں ہلاک کر دینا چاہتے تھے مگر نہ کر سکے، اور ان کے معجزانہ طریقہ سے بچ جانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ابراہیم علیہ السلام کی بر تری ثابت ہو گئی اور مشرکین کو اللہ نے نیچا دکھا دیا۔ اس واقعہ کو بیان کرنے سے اصل مقصود قریش کے لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرنا ہے کہ جن ابراہیم علیہ السلام کی اولاد ہونے پر تم فخر کرتے ہو ان کا طریقہ وہ نہ تھا جو تم نے اختیار کر رکھا ہے، بلکہ وہ تھا جسے محمد صلی اللہ علیہ و سلم پیش کر رہے ہیں۔ اب اگر تم ان کو نیچا دکھانے کے لیے وہ چالیں چلو گے جو حضرت ابراہیم کی قوم نے ان کے ساتھ چلی تھیں تو آخر کار نیچا تم ہی دیکھو گے، محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو نیچا تم نہیں دکھا سکتے۔
۵۴۔ یعنی آگ سے بسلامت نکل آنے کے بعد جب حضرت ابراہیمؑ نے ملک سے نکل جانے کا فیصلہ کیا تو چلتے وقت یہ الفاظ کہے۔
۵۵۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اللہ کی خاطر نکل رہا ہوں کیونکہ اسی کا ہو جانے کی وجہ سے میری قوم میری دشمن ہو گئی ہے ورنہ کوئی دنیوی جھگڑا میرے اور اس کے درمیان نہ تھا کہ اس کی بنا پر مجھے اپنا وطن چھوڑنا پڑ رہا ہو۔ نیز یہ کہ میرا دنیا میں کوئی ٹھکانا نہیں ہے جس کا رخ کروں۔ تن بتقدیر بس اللہ کے بھروسے پر نکل رہا ہوں۔ جدھر وہ لے جائے گا اسی طرف چلا چاؤں گا۔
۵۶۔ اس دعا سے خود بخود یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت ابراہیمؑ اس وقت بے اولاد تھے۔ قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر جو حالات بیان کیے گئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صرف ایک بیوی اور ایک بھتیجے (حضرت لوطؑ) کو لے کر ملک سے نکلے تھے۔ اس وقت فطرۃً آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ اللہ کوئی صالح اولاد عطا فرمائے جو اس غریب الوطنی کی حالت میں آپ کا غم غلط کرے۔
۵۷۔ اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ دعا کرتے ہی یہ بشارت دے دی گئی۔ قرآن مجید ہی میں ایک دوسرے مقام پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلَی ا لْکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ ’’ شکر ہے اس خدا کا جس نے مجھے بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا فرمائے ‘‘ (سورہ ابراہیم، آیت ۳۹)۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا اور اس بشارت کے درمیان سالہا سال کا فصل تھا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کی پیدائش کے وقت حضرت ابراہیمؑ کی عمر ۸۶ برس کی تھی (پیدائش ۱۶:۱۶)، اور حضرت اسحاق کی پیدائش کے وقت سو برس کی (۶۱:۵)۔
۵۸۔ یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ ابراہیمؑ نے خواب میں یہ نہیں دیکھا تھا کہ انہوں نے بیٹے کو ذبح کر دیا ہے، بلکہ یہ دیکھا تھا کہ وہ اسے ذبح کر رہے ہیں۔ اگر چہ اس وقت وہ خواب کا مطلب یہی سمجھے تھے کہ وہ صاحبزادے کو ذبح کر دیں۔ اسی بنا پر وہ ٹھنڈے دل سے بیٹا قربان کر دینے کے لیے بالکل تیار ہو گئے تھے۔ مگر خواب دکھانے میں جو باریک نکتہ اللہ تعالیٰ نے ملحوظ رکھا تھا اسے آگے کی آیت نمبر ۱۰۵ میں اس نے خود کھول دیا ہے۔
۵۹۔ صاحبزادے سے یہ بات پوچھنے کا مدعا یہ نہ تھا کہ تو راضی ہو تو خدا کے فرمان کی تعمیل کروں۔ بلکہ حضرت ابراہیمؑ دراصل یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ جس صالح اولاد کی انہوں نے دعا مانگی تھی، وہ فی الواقع کس قدر صالح ہے۔ اگر وہ خود بھی اللہ کی خوشنودی پر جان قربان کر دینے کے لیے تیار ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ دعا مکمل طور پر قبول ہوئی ہے اور بیٹا محض جسمانی حیثیت ہی سے ان کی اولاد نہیں ہے بلکہ اخلاقی و روحانی حیثیت سے بھی ان کا سپوت ہے۔
۶۰۔ یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ پیغمبر باپ کے خواب کو بیٹے نے محض خواب نہیں بلکہ خدا کا حکم سمجھا تھا۔ اب اگر یہ فی لواقع حکم نہ ہوتا تو ضروری تھا کہ اللہ تعالیٰ صراحۃً یا اشارۃً اس امر کی تصریح فرما دیتا کہ فرزند ابراہیم نے غلط فہمی سے اس کو حکم سمجھ لیا۔ لیکن پورا سیاق و سباق ایسے کسی اشارے سے خالی ہے۔ اسی بنا پر اسلام میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ انبیاء کا خواب محض خواب نہیں ہوتا بلکہ وہ بھی وحی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے۔ ظاہر ہے کہ جس بات سے ایک اتنا بڑا قاعدہ خدا کی شریعت میں شامل ہو سکتا ہو، وہ اگر مبنی بر حقیقت نہ ہوتی بلکہ محض ایک غلط فہمی ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کی تردید نہ فرماتا۔ قرآن کو کلام الہٰی ماننے والے کے لیے یہ تسلیم کرنا محال ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ایسی بھول چوک بھی صادر ہو سکتی ہے۔
۶۱۔ یعنی حضرت ابراہیمؑ نے ذبح کرنے کے لیے بیٹے کو چِت لٹا یا بلکہ اوندھے منہ لٹایا تاکہ ذبح کرتے وقت بیٹے کا چہرہ دیکھ کر کہیں محبت و شفقت ہاتھ میں لرزش پیدا نہ کر دے۔ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ نیچے کی طرف سے ہاتھ ڈال کر چھری چلائیں۔
۶۲۔ نحویوں کا ایک گروہ کہتا ہے کہ یہاں ’’اور ‘‘ بمعنی ’’تو‘‘ ہے یعنی فقرہ یوں ہے کہ ’’جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیمؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا تو ہم نے ندا دی ‘‘۔ لیکن ایک دوسرا گروہ کہتا ہے کہ یہاں لفظ ’’جب‘‘ کا جواب محذوف ہے اور اس کو ذہن سامع پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ کیونکہ بات اتنی بڑی تھی کہ اسے الفاظ میں بیان کرنے کے بجائے تصور ہی کے لیے چھوڑ دینا زیادہ مناسب تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے دیکھا ہو گا کہ بوڑھا باپ اپنے ارمانوں سے مانگے ہوئے بیٹے کو محض ہماری خوشنودی پر قربان کر دینے کے لیے تیار ہو گیا ہے اور بیٹا بھی گلے پر چھری چلوانے کے لیے راضی ہے، تو یہ منظر دیکھ کر کیسا کچھ دریائے رحمت نے جوش مارا ہو گا، اور مالک، کو ان باپ بیٹوں پر کیسا کچھ پیار آیا ہو گا، اس کا بس تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ الفاظ میں اس کی کیفیت جتنی کچھ بھی بیان کی جائے گی وہ اس کو ادا نہیں کرے گی بلکہ اس کی اصلی شان سے کچھ گھٹ کر ہی ہو گی۔
۶۳۔ یعنی ہم نے تمہیں یہ تو نہیں دکھایا تھا کہ تم نے بیٹے کو ذبح کر دیا ہے اور اس کی جان نکل گئی ہے، بلکہ یہ دکھایا تھا کہ تم ذبح کر رہے ہو۔ تو وہ خواب تم نے پورا کر دکھایا۔ اب ہمیں تمہارے بچے کی جان یعنی مطلوب نہیں ہے۔ اصل مدعا جو کچھ تھا وہ تمہاری اس آمادگی اور تیاری سے حاصل ہو گیا ہے۔
۶۴۔ یعنی جو لوگ احسان کی روش اختیار کرتے ہیں ان کے اوپر آزمائشیں ہم اس لیے نہیں ڈالا کر تے کہ انہیں خواہ مخواہ تکلیفوں میں ڈالیں اور رنج و غم میں مبتلا کریں۔ بلکہ یہ آزمائشیں ان کی فضیلتوں کو ابھارنے کے لیے اور انہیں بڑے مرتبے عطا کرنے کے لیے ان پر ڈالی جاتی ہیں، اور پھر آزمائش کی خاطر جس مخمصے میں ہم انہیں ڈالتے ہیں اس سے بخیریت ان کو نکلوا بھی دیتے ہیں۔ چنانچہ دیکھو، بیٹے کی قربانی کے لیے تمہاری آمادگی و تیاری ہی بس اس کے لیے کافی ہو گئی کہ تمہیں وہ مرتبہ عطا کر دیا جائے جو ہماری خوشنودی پر واقعی بیٹا قربان کر دینے والے کو مل سکتا تھا۔ اس طرح ہم نے تمہارے بچے کی جان بچا دی اور تمہیں یہ مرتبۂ بلند بھی عطا کر دیا۔
۶۵۔ یعنی مقصود تمہارے ہاتھ سے تمہارے بچے کو ذبح کرا دینا نہ تھا، بلکہ اصل مقصود تمہارا امتحان لینا تھا کہ تم ہمارے مقابلے میں دنیا کی کسی چیز کو عزیز تر تو نہیں رکھتے۔
۶۶۔ ’’ بڑی قربانی‘‘ سے مراد، جیسا کہ بائیبل اور اسلامی روایات میں بیان ہوا ہے، ایک مینڈھا ہے جو اس وقت اللہ تعالیٰ کے فرشتے نے حضرت ابراہیمؑ کے سامنے پیش کیا، تاکہ بیٹے کے بدلے اس کو ذبح کر دیں۔ اسے بڑی قربانی کے لفظ سے اس لیے تعبیر کیا گیا کہ وہ ابراہیمؑ جیسے وفادار بندے کے لیے فرزند ابراہیمؑ جیسے صاب و جاں نثار لڑکے کا فدیہ تھا، اور اسے اللہ تعالیٰ نے ایک بے نظیر قربانی کی نیت پوری کرنے کا وسیلہ بنایا تھا۔ اس کے علاوہ اسے ’’ بڑی قربانی‘‘ قرار دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قیامت تک کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ سنت جاری کر دی کہ اسی تاریخ کو تمام اہل ایمان دنیا بھر میں جانور قربان کریں اور وفاداری و جاں نثاری کے اس عظیم الشان واقعہ کی یاد تازہ کرتے رہیں۔
۶۷۔ یہاں پہنچ کر یہ سوال ہمارے سامنے آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے جن صاحبزادے کو قربان کرنے کے لیے آمادہ ہوئے تھے اور جنہوں نے اپنے آپ کو خود اس قربانی کے لیے پیش کر دیا تھا، وہ کون تھے۔ اب سے پہلے اس سوال کا جواب ہمارے سامنے بائیبل کی طرف سے آتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ:
’’خدا نے ابراہام کو آزمایا اور اسے کہا اے ابراہام ـــــ تو اپنے بیٹے اضحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تو پیار کرتا ہے ساتھ لے کر موریاہ کے ملک میں جا اور وہاں اسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاؤں گا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا۔ ‘‘ (پیدائش، ۲۲:۱۔ ۲)
اس بیان میں ایک طرف تو یہ کہا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسحاق کی قربانی مانگی تھی، اور دوسری طرف یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وہ اکلوتے تھے۔ حالانکہ خود بائیبل ہی کے دوسرے بیانات سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اسحاق اکلوتے نہ تھے۔ اس کے لیے ذرا بائیبل ہی کی حسب ذیل تصریحات ملاحظہ ہوں :
’’اور ابرام کی بیوی ساری کے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ اس کی ایک مصری لونڈی تھی جس کا نام ہاجرہ تھا۔ اور ساری نے ابرام سے کہا کہ دیکھ خداوند نے مجھے تو اولاد سے محروم رکھا ہے سو تو میری لونڈی کے پاس جا، شائد اس سے میرا گھر آباد ہو۔ اور ابرام نے ساری کی بات مانی۔ اور ابرام کو ملک کنعان میں رہتے دس برس ہو گئے تھے جب اس کی بیوی ساری نے اپنی مصری لونڈی اسے دی کہ اس کی بیوی بنے اور وہ ہاجرہ کے پاس گیا اور وہ حاملہ ہوئی۔ ‘‘(پیدائش، ۱۶:۱۔ ۳)
’’خداوند کے فرشتے نے اس سے کہا کہ تو حاملہ ہے اور تیرے بیٹا پیدا ہو گا۔ اس کا نام اسمٰعیل رکھنا‘‘ (۱۶:۱۱)
’’جب ابرام سے ہاجرہ کے اسماعیل پیدا ہوا تب ابرام چھیاسی برس کا تھا‘‘(۱۶:۱۶)
اور خداوند نے ابرام سے کہا کہ ساری جو تیری بیوی ہے ــــــ اس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا ـــــــ تو اس کا نام اضحاق رکھنا ــــــ جو اگلے سال اسی وقت معین پر سارہ سے پیدا ہو گا۔ ــــــــــ تب ابرہام نے اپنے بیٹے اسماعیل کو اور ـــــــ گھر کے سب مردوں کو لیا اور اسی روز خدا کے حکم کے مطابق ان کا ختنہ کیا۔ ابرہام ننانوے برس کا تھا جب اس کا ختنہ ہوا اور جب اسماعیل کا ختنہ ہو ا تو وہ تیرہ برس کا تھا(پیدائش ۱۷:۱۵۔ ۲۵)
اور جب اس کا بیٹا اضحاق اس سے پیدا ہوا تو ابرہام سو برس کا تھا(پیدائش، ۲۱:۵)
اس سے بائیبل کی تضاد بیانی صاف کھل جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ۱۴ برس تک تنہا حضرت اسماعیل ہی حضرت ابراہیمؑ کے بیٹے تھے۔ اب اگر قربانی اکلوتے بیٹے کی مانگی گئی تھی تو وہ حضرت اسحاق کی نہیں بلکہ حضرت اسمٰعیل کی تھی۔ کیونکہ وہی اکلوتے تھے۔ اور اگر حضرت اسحاق کی قربانی مانگی گئی تھی تو پھر یہ کہنا غلط ہے کہ اکلوتے بیٹے کی قربانی مانگی گئی تھی۔
اس کے بعد ہم اسلامی روایات کو دیکھتے ہیں اور ان میں سخت اختلاف پایا جاتا ہے۔ مفسرین نے صحابہ و تابعین کی جو روایات نقل کی ہیں ان میں ایک گروہ کا قول یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ صاحبزادے حضرت اسحاق تھے، اور اس گروہ میں حسب ذیل بزرگوں کے نام ملتے ہیں :
حضرت عمر۔ حضرت علی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود۔ حضرت عباس بن عبدالمطلب۔ حضرت عبداللہ بن عباس۔ حضرت ابو ہریرہ۔ قتادہ۔ عکرمہ۔ حسن بصری۔ سعید بن جُبیر۔ مجاہد۔ شعبی۔ مسروق۔ مکحول۔ زُہری۔ عطاء۔ مُقاتل۔ سدی۔ کعب اَحبار۔ زید بن اسلم وغیرہم۔
دوسرا گروہ کہتا ہے کہ وہ حضرت اسماعیل تھا۔ اور اس گروہ میں حسب ذیل بزرگوں کے نام نظر آتے ہیں :
حضرت ابو بکر۔ حضرت علی۔ حضرت عبداللہ بن عمر۔ حضرت عبداللہ بن عباس۔ حضرت ابو ہریرہ۔ حضرت معاویہ۔ عکرمہ۔ مجاہد۔ یوسف بن مہران۔ حسن بصری۔ محمد بن کعب القرظی۔ شعبی۔ سعید بن المسیّب۔ ضحاک۔ محمد بن علی بن حسین(محمد الباقر)۔ ربیع بن انس۔ احمد بن حنبل وغیرہم۔
ان دونوں فہرستوں کا تقابل کیا جائے تو متعدد نام ان میں مشترک نظر آئیں گے۔ یعنی ایک ہی بزرگ سے دو مختلف قول منقول ہوئے ہیں۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن عباس سے عکرمہ یہ قول نقل کرتے ہیں کہ وہ صاحبزادے حضرت اسحاق تھے۔ مگر انہی سے عطاء بن ابی رباح یہ بات نقل کرتے ہیں کہ زعمت الیھود انہ اسحٰق وکذبت الیھود (یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اسحٰق تھے، مگر یہودی جھوٹ کہتے ہیں )۔ اسی طرح حضرت حسن بصری سے روایت یہ ہے کہ وہ حضرت اسحٰق کے ذبیح ہونے کے قائل تھے۔ مگر عمرو بن عُبید کہتے ہیں کہ حسن بصری کو اس امر میں کوئی شک نہیں تھا کہ حضرت ابراہیمؑ کے جس بیٹے کو ذبیح کرنے کا حکم ہوا تھا وہ اسماعیل علیہ السلام تھے۔
اس اختلافِ روایات کا نتیجہ یہ ہو ہے کہ علماء اسلام میں سے بعض پورے جزم و وثوق کے ساتھ حضرت اسحٰق کے حق میں رائے دیتے ہیں، مثلاً بن جریر اور قاضی عیاض۔ اور بعض قطعی طور پر حکم لگاتے ہیں کہ ذبیح حضرت اسماعیل تھے، مثلاً ابن کثیر۔ اور بعض مذبذب ہیں، مثلاً جلال الدین سیوطی۔ لیکن اگر تحقیق کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ امر ہر شک و شبہ سے بالا تر نظر آتا ہے کہ حضرت اسماعیل ہی ذبیح تھے۔ اس کے دلائل حسب ذیل ہیں :
۱)۔ اوپر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد گزر چکا ہے کہ اپنے وطن سے ہجرت کرتے وقت حضرت ابراہیم نے ایک صالح بیٹے کے لیے دعا کی تھی اور اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک حلیم لڑکے کی بشارت دی۔ فحوائے کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ دعا اس وقت کی گئی تھی جب آپ بے اولاد تھے۔ اور بشارت جس لڑکے کی دی گئی وہ آپ کا پہلونٹا بچہ تھا۔ پھر یہ بھی قرآن ہی کے سلسلہ کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہو ہی بچہ جب باپ کے ساتھ دوڑنے چلنے کے قابل ہوا تو اسے ذبح کرنے کا اشارہ فرمایا گیا۔ اب یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کے پہلوٹے صاحبزادے حضرت اسماعیل تھے نہ کہ حضرت اسحٰق۔ خود قرآن مجید میں صاحبزادوں کی ترتیب اس طرح بیان ہوئی ہے : اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَھَبَ لِیْ عَلَی الکِبَرِ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ (ابراہیم۔ آیت ۳۹)
۲)۔ قرآن مجید میں جہاں حضرت اسحٰق کی بشارت دی گئی ہے وہاں ان کے لیے غلامِعلیم (علم والے لڑکے ) کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ فَبَشَّرُوْہُ بِغُلَا مٍ عَلِیْمٍ (الذاریات۔ ۲۸)۔ لَا تَوْ جَلْ اِنَّا نُبَشِّرُکَ بِغُلَامٍ عَلِیْمٍ (الحجر۔ ۵۳)۔ مگر یہاں جس لڑکے کی بشارت دی گئی ہے اس کے لیے غلام حَلیم(برد بار لڑکے ) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دو صاحبزادوں کی دو نمایاں صفات الگ الگ تھیں۔ اور ذبح کا حکم غلام علیم کے لیے نہیں بلکہ غلام حلیم کے لیے تھا۔
۳)۔ قرآن مجید میں حضرت اسحٰق کی پیدائش کی خوش خبری دیتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ یہ خوشخبری بھی دے دی گئی تھی کہ ان کے ہاں یعقوبؑ جیسا بیٹا پیدا ہو گا۔ فَبَشَّرْ نَا ھَا بِاِ سْحٰقَ یَعْقُوْبَ (ہود۔ ۷۱) اب ظاہر ہے کہ جس بیٹے کی پیدائش کی خبر دینے کے ساتھ ہی یہ خبر بھی دی جا چکی ہو کہ اس کے ہاں ایک لائق لڑکا پیدا ہو گا، اس کے متعلق اگر حضرت ابراہیم کو یہ خواب دکھایا جا تا کہ آپ اسے ذبح کر رہے ہیں، تو حضرت ابراہیم اس س کبھی یہ نہ سمجھ سکتے تھے کہ اس بیٹے کو قربان کر دینے کا اشارہ فرمایا جا رہا ہے۔ علامہ ابن جریر اس دلیل کا یہ جواب دیتے ہیں کہ ممکن ہے یہ خواب حضرت ابراہیمؑ کو اس وقت دکھایا گیا ہو جب حضرت اسحاق کے ہاں حضرت یعقوبؑ پیدا ہو چکے ہوں۔ لیکن درحقیقت یہ اس دلیل کا نہایت ہی بودا جواب ہے۔ قرآن مجید کے الفاظ یہ ہیں کہ ‘‘ جب وہ لڑکا باپ کے ساتھ دوڑنے چلنے کے قابل ہو گیا ‘‘ تب یہ خواب دکھایا گیا تھا۔ ان الفاظ کو جو شخص بھی خالی الذہن ہو کر پڑھے گا اس کے سامنے آٹھ دس برس کے بچے کی تصویر آئے گی۔ کوئی شخص بھی یہ تصور نہیں کر سکتا کہ جو ان صاحب اولاد بیٹے کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے گئے ہوں گے۔
۴)۔ اللہ تعالیٰ سارا قصہ بیان کرنے کے بعد آخر میں فرماتا ہے کہ ’’ ہم نے اسے اسحاق کی بشارت دی، ایک نبی صالحین میں سے ‘‘۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہی بیٹا نہیں ہے جسے ذبح کرنے کا اشارہ کیا گیا تھا۔ بلکہ پہلے کسی اور بیٹے کی بشارت دی گئی۔ پھر جب وہ باپ کے ساتھ دوڑنے چلنے کے قابل ہوا تو اسے ذبح کرنے کا حکم ہوا۔ پھر جب حضرت ابراہیم اس امتحان میں کامیاب ہو گئے تب ان کو ایک اور بیٹے اسحاق علیہ السلام کے پیدا ہونے کی بشارت دی گئی۔ یہ ترتیب واقعات قطعی طور پر فیصلہ کر دیتی ہے کہ جن صاحبزادے کو ذبح کرنے کا حکم ہوا تھا وہ حضرت اسحاق نہ تھے، بلکہ وہ ان سے کئی برس پہلے پیدا ہو چکے تھے۔ علامہ ابن جریر اس صریح دلیل کو یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ پہلے صرف حضرت اسحاق کے پیدا ہونے کی بشارت دی گئی تھی۔ پھر جب وہ خدا کی خوشنودی پر قربان ہونے کے لیے تیار ہو گئے تو اس کا انعام اس شکل میں دیا گیا کہ ان کے نبی ہونے کی خوشخبری دی گئی۔ لیکن یہ ان کے پہلے جواب سے بھی زیادہ کمزور جواب ہے۔ اگر فی الواقع بات یہی ہوتی تو اللہ تعالیٰ یوں نہ فرماتا کہ ’’ ہم نے اس کو اسحاق کی بشارت دی، ایک نبی صالحین میں سے ‘‘۔ بلکہ ہوں فرماتا کہ ہم نے اس کو یہ بشارت دی کہ تمہارا یہی لڑکا ایک نبی ہو گا صالحین میں سے۔
معتبر روایات سے یہ ثابت ہے کہ حضرت اسماعیلؑ کے فدیہ میں جو مینڈھا ذبح کیا گیا تھا اس کے سینگ خانہ کعبہ میں حضرت عبداللہ بن زبیر کے زمانے تک محفوظ تھے۔ بعد میں جب حجاج بن یوسف نے حرم میں اب زبیر کا محاصرہ کیا اور خانہ کعبہ کو مسمار کر دیا تو وہ سینگ بھی ضائع ہو گئے۔ ابن عباس اور عامر شعبی دونوں اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ انہیں نے خود خانہ کعبہ میں یہ سینگ دیکھے ہیں (ابن کثیر )۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ قربانی کا یہ واقعہ شام میں نہیں بلکہ مکہ مکرمہ میں پیش آیا تھا، اور حضرت اسماعیل کے ساتھ پیش آیا تھا، اسی لیے تو حضرت ابراہیم و اسمٰعیل کے تعمیر کردہ خانہ کعبہ میں اس کی یاد گار محفوظ رکھی گئی تھی۔
۶)۔ یہ بات صدیوں سے عرب کی روایات میں محفوظ تھی کہ قربانی کا یہ واقعہ منیٰ میں پیش آیا تھا۔ اور یہ صرف روایت ہی نہ تھی بلکہ اس وقت سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے تم مناسک حج میں یہ کام بھی برابر شامل چلا آ رہا تھا کہ اسی مقام منیٰ میں جا کر لوگ اسی جگہ پر جہاں حضرت ابراہیمؑ نے قربانی کی تھی، جانور قربان کیا کرتے تھے۔ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے تو آپ نے بھی اس طریقے کو جاری رکھا، حتیٰ کہ آج تک حج کے موقع پر دس ذی الحجہ کو منیٰ میں قربانیاں کی جاتی ہیں۔ ساڑھے چار ہزار برس کا یہ متواتر عمل اس امر کا ناقابل انکار ثبوت ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کے وارث بنی اسماعیل ہوئے ہیں نہ کہ بنی اسحٰق۔ حضرت اسحٰق کی نسل میں ایسی کوئی رسم کبھی جاری نہیں رہی ہے جس میں ساری قوم بیک وقت قربانی کرتی ہو اور اسے حضرت ابراہیم کی قربانی کی یادگار کہتی ہو۔
یہ ایسے دلائل ہیں جن کو دیکھنے کے بعد یہ بات قابل تعجب نظر آتی ہے کہ خود امت مسلمہ میں حضرت اسحٰق کے ذبیح ہونے کا خیال آخر پھیل کیسے گیا۔ یہودیوں نے اگر حضرت اسماعیلؑ کو اس شرف سے محروم کر کے اپنے دادا حضرت اسحٰق کی طرف اسے منسوب کرنے کو کوشش کی تو یہ ایک سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ لیکن آخر مسلمانوں کے ایک گروہ کثیر نے ان کی اس دھاندلی کو کیسے قبول کر لیا؟ اس سوال بہت شافی جواب علامہ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں :
’’حقیقت تو اللہ ہی جانتا ہے، مگر بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے دراصل یہ سارے اقوال (جو حضرت اسحٰق کے ذبیح ہونے کے حق میں ہیں )کعب احبار سے منقول ہیں۔ یہ صاحب جب حضرت عمر کے زمانے میں مسلمان ہوئے تو کبھی کبھی یہ یہود و نصاریٰ کی قدیم کتابوں کے مندرجات ان کو سنایا کرتے تھے اور حضرت عمر انہیں سن لیا کرتے تھے۔ اس بنا پر دوسرے لوگ بھی ان کی باتیں سننے لگے اور سب رطب و یابس جو وہ بیان کرتے تھے انہیں روایت کرنے لگے۔ حالانکہ اس امت کو ان کے اس ذخیرۂ معلومات میں سے کسی چیز کی بھی ضرورت نہ تھی۔ ‘‘
اس سوال پر مزید روشنی محمد بن کعب قرظی کی ایک روایت سے پڑتی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری موجودگی میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ہاں یہ سوال چھڑا کہ ذبیح حضرت اسحاق تھے یا حضرت اسماعیل۔ اس وقت ایک ایسے صاحب بھی مجلس میں موجود تھے جو پہلے یہودی علماء میں سے تھے اور بعد میں سچے دل سے مسلمان ہو چکے تھے۔ انہوں نے کہا، ’’ امیرالمومنین، خدا کی قسم وہ اسمٰعیل ہی تھے، اور یہودی اس بات کو جانتے ہیں، مگر وہ عربوں سے حسد کی بنا پر یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ذبیح حضرت اسحٰق تھے ‘‘(ابن جریر)۔ ان دونوں باتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ دراصل یہ یہودی پروپیگنڈا کا اثر تھا جو مسلمانوں میں پھیل گیا، اور مسلمان چونکہ علمی معاملات میں ہمیشہ غیر متعصب رہے ہیں، اس لیے ان میں سے بہت سے لوگوں نے یہودیوں کے ان بیانات کو، جو وہ قدیم صحیفوں کے حوالہ سے تاریخی روایات کے بھیس میں پیش کرتے تھے، محض ایک علمی حقیقت سمجھ کر قبول کر لیا اور یہ محسوس نہ کیا کہ اس میں علم کے بجائے تعصب کار فرما ہے۔
۶۸۔ یہ فقرہ اس پورے مقصد پر روشنی ڈالتا ہے جس کے لیے حضرت ابراہیمؑ کی قربانی کایہ قصہ یہاں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیمؑ کے دو بیٹوں کی نسل سے دو بہت بڑی قومیں پیدا ہوئیں۔ ایک بنی اسرائیل، جن کے گھر سے دنیا کے دو بڑے مذہب (یہودیت اور نصرانیت)نکلے اور انہوں نے روئے زمین کے بہت بڑے حصے کو حلقہ بگوش بنایا۔ دوسرے بنی اسمٰعیل جو نزول قرآن کے وقت تمام اہل عرب کے مقتدا و پیشوا تھے، اور اس وقت مکہ معظمہ کے قبیلہ قریش کو ان میں سب سے زیادہ اہم مقام حاصل تھا۔ نسلِ ابراہیمی کی ان دونوں شاخوں کو جو کچھ بھی عروج نصیب ہوا وہ حضرت ابراہیم اور ان کے ان دو عظیم المرتبت صاحبزادوں کے ساتھ انتساب کی بدولت ہوا، ورنہ دنیا میں نہ معلوم ایسے ایسے کتنے خاندان پیدا ہوئے ہیں اور گوشۂ گمنامی میں جا پڑے ہیں۔ اب اللہ تعالیٰ اس خاندان کی تاریخ کا سب سے زیادہ زرین کارنامہ سنانے کے بعد ان دونوں گروہوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ تمہیں دنیا میں یہ جو کچھ شرف نصیب ہوا ہے وہ خدا پرستی اور اخلاص و فدویّت کی ان شاندار روایات کی وجہ سے ہوا ہے جو تمہارے باپ دادا ابراہیم و اسمٰعیل اور اسحاق علیہم السلام نے قائم کی تھیں۔ وہ انہیں بتاتا ہے کہ ہم نے ان کو جو برکت عطا فرمائی اور ان پر اپنے فضل و کرم کی جو بارشیں برسائیں، یہ کوئی اندھی بانٹ نہ تھی کہ بس یونہی ایک شخص اور اس کے دو لڑکوں کو چھانٹ کر نواز دیا گیا ہو، بلکہ انہوں نے اپنے مالک حقیقی کے ساتھ اپنی وفاداری کے کچھ ثبوت دیے تھے اور ان کی بنا پر وہ ان عنایات کے مستحق بنے تھے۔ اب تم لوگ محض اس فخر کی بنا پر کہ تم ان کی اولاد ہو، ان عنایات کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ ہم تو یہ دیکھیں گے کہ تم میں سے محسن کون ہے اور ظالم کون۔ پھر جو جیسا ہو گا، اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کریں گے۔
۶۹۔ یعنی اس شدید مصیبت سے جس میں وہ فرعون اور اس کی قوم کے ہاتھوں مبتلا تھے۔
۷۰۔ حضرت الیاس علیہ السلام انبیائے بنی اسرائیل میں سے تھے۔ ان کا ذکر قرآن مجید میں صرف دو ہی مقامات پر آیا ہے۔ ایک یہ مقام اور دوسرا سورہ انعام آیت ۸۵۔ موجودہ زمانہ کے محققین ان کا زمانہ ۸۷۵ اور ۸۵۰ قبل مسیح کے درمیان متعین کرتے ہیں۔ وہ جِلْ عاد کے رہنے والے تھے (قدیم زمانہ میں جِلْ عاد اس علاقے کو کہتے تھے جو آج کل موجودہ ریاست اردن کے شمالی اضلاع پر مشتمل ہے اور دریائے یرموک کے جنوب میں واقع ہے۔ ) بائیبل میں ان کا ذکر ایلیاہ تشبِی(Elijah the Tishbite) کے ناک سے کیا گیا ہے۔ ان کے مختصر حالات حسب ذیل ہیں :
حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے بیٹے رجُبْعام (Rehoboam)کی نا اہلی کے باعث بنی اسرائیل کی سلطنت کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے۔ ایک حصہ جو بیت المقدس اور جنونی فلسطین پر مشتمل تھا، آل داؤد کے قبضے میں رہا، اور دوسرا حصہ جو شمالی فلسطین پر مشتمل تھا اس میں ایک مستقل ریاست اسرائیل کے نام سے قائم ہو گئی اور بعد میں سامریہ اس کا صدر مقام قرار پایا۔ اگرچہ حالات دونوں ہی ریاستوں کے دگرگوں تھے، لیکن اسرائیل کی ریاست شروع ہی سے سخت بگاڑ کی راہ پر چل پڑی تھی جس کی بدولت اس میں شرک و بت پرستی، ظلم و ستم اور فسق و فجور کا زور بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ جب اسرائیل کے بادشاہ اخی اب (Ahab) نے صیدا (موجودہ لبنان ) کے بادشاہ کی لڑکی ایزبل (Iazebel)سے شادی کر لی تو یہ فساد اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ اس مشرک شہزادی کے اثر میں آ کر اخی اب خود بھی مشرک ہو گیا، اس نے سامریہ میں بعل کا مندر اور مذبح تعمیر کیا، خدائے واحد کی پرستش کے بجائے بعل کی پرستش رائج کرنے کی بھر پور کوشش کی اور اسرائیل کے شہروں میں علانیہ بعل کے نام پر قربانیاں کی جانے لگیں۔
یہی زمانہ تھا جب حضرت الیاس علیہ السلام یکایک منظر عام پر نمودار ہوئے اور انہوں نے جل عاد سے آ کر اخی اب کو نوٹس دیا کہ تیرے گناہوں کی پاداش میں اب اسرائیل کے ملک پر بارش کا ایک قطرہ بھی نہ برسے گا، حتیٰ کہ اوس تک نہ پڑے گی۔ خدا کے نبی کا یہ قول حرف بحرف صحیح ثابت ہوا ور ساڑھے تین سال تک بارش بالکل بند رہی۔ آخر کار اخی اب کے ہوش کچھ ٹھکانے آئے اور اس نے حضرت الیاس کو تلاش کرا کے بلوایا۔ انہوں نے بارش کے لیے دعا کرنے سے پہلے یہ ضروری سمجھا کہ اسرائیل کے باشندوں کو اللہ ربّ العالمین اور بعل کا فرق اچھی طرح بتا دیں۔ اس غرض کے لیے انہوں نے حکم دیا کہ ایک مجمع عام میں بعل کے پوجا ری بھی آ کر اپنے معبود کے نام پر قربانی کریں اور میں بھی اللہ رب العلمین کے نام پر قربانی کروں گا۔ دونوں میں سے جس کی قربانی بھی انسان کے ہاتھوں سے آگ لگائے بغیر غیبی آگ سے بھسم ہو جائے اس کے معبود کی سچائی ثابت ہو جائے گی۔ اخی اب نے یہ بات قبول کر لی۔ چنانچہ کوہ کرمل (Carmel)_ پر بعل کے ساڑھے آٹھ سو پجاری جمع ہوئے اور اسرائیلیوں کے مجمع عام میں ان کا اور حضرت الیاس علیہ السلام کا مقابلہ ہوا۔ اس مقابلے میں بعل پرستوں نے شکست کھائی اور حضرت الیاس نے سب کے سامنے یہ ثابت کر دیا کہ بعل ایک جھوٹا خدا ہے، اصل خدا وہی ایک اکیلا خدا ہے جس کے نبی کی حیثیت سے وہ مامور ہو کر آئے ہیں۔ اس کے بعد حضرت الیاس نے اسی مجمع عام میں بعل کے پجاریوں کو قتل کر ا دیا اور پھر بارش کے لیے دعا کی جو فوراً قبول ہوئی یہاں تک کہ پورا ملک اسرائیل سیراب ہو گیا۔
لیکن معجزات کو دیکھ کر بھی زن مرید اخی اب اپنی بت پرست بیوی کے شکنجے سے نہ نکلا۔ اس کی بیوی ایزبل حضرت الیاس کی دشمن ہو گئی اور اس نے قسم کھا لی کہ جس طرح بعل کے پجاری قتل کیے گئے ہیں اسی طرح الیاس علیہ السلام بھی قتل کیے جائیں گے۔ ان حالات میں حضرت الیاس کو ملک چھوڑنا پڑا اور چند سال تک وہ کوہ سینا کے دامن میں پناہ گزیں رہے۔ اس موقع پر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے جو فریاد کی تھی اسے بائیبل ان الفاظ میں نقل کرتی ہے :
’’ بنی اسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کیا اور تیرے مذبحوں کو ڈھا دیا اور تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کیا اور ایک میں ہی اکیلا بچا ہوں سو وہ میری جان لینے کے درپے ہیں ‘‘۔ (۱۔ سلاطین ۱۰:۱۹)
اسی زمانے میں بیت المقدس کی یہودی ریاست کے فرمانروا یہورام(Jehoram)نے اسرائیل کے بادشاہ اخی اب کی بیٹی سے شادی کر لی اور اس مشرک شہزادی کے اثر سے وہی تمام خرابیاں جو اسرائیل میں پھیلی ہوئی تھیں، یہودیہ کی ریاست میں بھی پھیلنے لگیں۔ حضرت الیاس نے یہاں بھی فریضۂ نبوت ادا کیا اور یہورام کو ایک خط لکھا جس کے یہ الفاظ بائیبل میں نقل ہوئے ہیں :
’’خداوند تیرے باپ داؤد کا خدا یوں فرماتا ہے : اس لیے کہ تو نہ اپنے باپ یہو سفط کی راہوں پر اور نہ یہوواہ کے بادشاہ آسا کی راہوں پر چلا بلکہ اسرائیل کے بادشاہوں کی راہ پر چلا ہے اور یہوواہ اور یروشلم کے باشندوں کو زنا کار بنایا جیسا اخی اب کے خاندان نے کیا تھا اور اپنے باپ کے گھرانے میں سے اپنے بھائیوں کو جو تجھ سے اچھے تھے قتل بھی کیا، سو دیکھ خداوند تیرے لوگوں کو اور تیری بیویوں کو اور تیرے سارے مال کو بڑی آفتوں سے مارے گا اور تو انتڑیوں کے مرض سے سخت بیمار ہو جائے گا یہاں تک کہ تیری انتڑیاں اس مرض کے سبب سے روز بروز نکلتی چلی جائیں گی(۲۔ تواریخ ۲۱:۱۲۔ ۱۵)
اس خط میں حضرت الیاس نے جو کچھ فرمایا تھا وہ پورا ہوا۔ پہلے یہورام کی ریاست بیرونی حملہ آوروں کی تاخت سے تباہ ہوئی اور اس کی بیویوں تک کو دشمن پکڑ لے گئے، پھر وہ خود انتڑیوں کے مرض سے ہلاک ہوا۔
چند سال کے بعد حضرت الیاس پھر اسرائیل تشریف لے گئے اور انہوں نے اخی اب کو، اور اس کے بعد اس کے بیٹے اَخزیاہ کو راہ راست پر لانے کی مسلسل کوشش کی، مگر جو بدی سامریہ کے شہی خاندان میں گھر کر چکی تھی وہ کسی طرح نہ نکلی۔ آخر کار حضرت کی بد دعا سے اخی اب کا گھرانا ختم ہو گیا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نی اپنے نبی کو دنیا سے اٹھا لیا۔ ان واقعات کی تفصیل کے لیے بائیبل کے حسب ذیل ابواب ملاحظہ ہوں : ۱۔ سلاطین، باب ۱۷۔ ۱۸۔ ۱۹۔ ۲۱۔ ۲۔ سلاطین باب ۱۔ ۲۔ ۳۔ تواریخ باب ۲۱۔
۷۱۔ بعل کے لغوی معنی آقا، سردار اور مالک کے ہیں۔ شوہر کے لیے بھی یہ لفظ بولا جاتا تھا اور متعدد مقامات پر خود قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے، مثلاً سورہ بقرہ آیت ۲۲۸، سورہ نساء آیت ۱۲۷، سورہ ہود آیت ۷۲، اور سورہ نور آیت ۳۱ میں۔ لیکن قدیم زمانے کی سامی اقوام اس لفظ کو الٰہ یا خداوند کے معنی میں استعمال کرتی تھیں اور انہوں نے ایک خاص دیوتا کو بعل کے نام سے موسوم کر رکھا تھا۔ خصوصیت کے ساتھ لبنان کی فنیقی قوم (Phoenicians)کا سب سے بڑا نر دیوتا کو بعل تھا اور اس کی بیوی عستارات (Ashtoreth)ان کی سب سے بڑی دیوی تھی۔ محققین کے درمیان اس امر میں اختلاف ہے کہ آیا بعل سے مراد سورج ہے یا مشتری، اور عستارات سے مراد چاند ہے یا زہرہ۔ بہرحال یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے کہ بابل سے لے کر مصر تک پورے مشرق اوسط میں بعل پرستی پھیلی ہوئی تھی، اور خصوصاً لبنان، اور شام و فلسطین کی مشرک اقوام بری طرح اس میں مبتلا تھیں۔ بنی اسرائیل جب مصر سے نکلنے کے بعد فلسطین اور مشرق اردن میں آ کر آباد ہوئے، اور توراۃ کے سخت امتناعی احکام کی خلاف ورزی کر کے انہیں نے ان مشرک قوموں کے ساتھ شادی بیاہ اور معاشرت کے تعلقات قائم کرنے شروع کر دیے، تو ن کے اندر بھی یہ مرض پھیلنے لگا۔ بائیبل کا بیان ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ اور حضرت یوشع بن جون کی وفات کے بعد ہی بنی اسرائیل میں یہ اخلاقی و دینی زوال رو نما ہونا شروع ہو گیا تھا:
’’اور بنی اسرائیل نے خدا کے آگے بدی کی اور بعلیم کی پرستش کرنے لگے ـــــــ اور وہ خداوند کو چھوڑ کر بعل اور عستارات کی پرستش کرنے لگے ‘‘ (قضاۃ ۲:َ۱۱۔ ۱۳ )
’’ سو بنی اسرائیل کنعانیوں اور حتّیوں اور اموریوں اور فِرِ زّیوں اور یبوسیوں کے درمیان بس گئے اور بیٹیوں سے آپ نکاح کرنے اور اپنی بیٹیاں ان کے بیٹوں کو سینے اور ان کے دیوتاؤں کی پرستش کرنے لگے (قضاۃ ۲:۵۔ ۲)
اس زمانہ میں بعل پرستی اسرائیلیوں میں اس قدر گھُس چکی تھی کہ بائیبل کے بیان کے مطابق ان کی ایک بستی میں علانیہ بعل کا مذبح بنا ہوا تھا جس پر قربانیاں کی جاتی تھیں۔ ایک خدا پرست اسرائیل اس حالت کو برداشت نہ کر سکا اور اس نے رات کے وقت چپکے سے یہ مذبح توڑ دیا۔ دوسرے روز ایک مجمع کثیر اکٹھا ہو گیا اور وہ اس شخص کے قتل کا مطالبہ کرنے لگا جس نے شرک کے اس اڈّے کو توڑا تھا(قضاۃ ۶:۲۵۔ ۳۲)۔ اس صورت حال کو آخر کار حضرت سموایل، طالوت، داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام نے ختم کیا اور نہ صرف بنی اسرائیل کی اصلاح کی بلکہ اپنی مملکت میں بالعموم شرک و بت پرستی کو دبا دیا۔ لیکن حضرت سلیمان کی وفات کے بعد یہ فتنہ پھر ابھرا اور خاص طور پر شمالی فلسطین کی اسرائیلی ریاست بعل پرستی کے سیلاب میں بہہ گئی۔
۷۲۔ یعنی اس سزا سے صرف وہی لوگ مستثنیٰ ہوں گے جنہوں نے حضرت الیاس کو نہ جھٹلایا اور جن کو اللہ نے اس قوم میں سے اپنی بندگی کے لیے چھانٹ لیا۔
۷۳۔ حضرت الیاس علیہ السلام کو ان کی زندگی میں تو بنی اسرائیل نے جیسا کچھ ستایا اس کی داستان اوپر گزر چکی ہے، مگر بعد میں وہ ان کے ایسے گرویدہ و شیفتہ ہوئے کہ حضرت موسیٰ کے بعد کم ہی لوگوں کو انہوں نے ان بڑھ کر جلیل القدر مانا ہو گا۔ ان کے ہاں مشہور ہو گیا کہ الیاس ہو گیا کہ الیاس علیہ السلام ایک بگولے میں آسمان پر زندہ اٹھا لیے گئے ہیں (۲ سلاطین، باب دوم) اور یہ کہ وہ پھر دنیا میں تشریف لائیں گے۔ چنانچہ بائیبل کی کتاب ملا کی میں لکھا ہے :
’’ دیکھو، خداوند کے بزرگ اور ہولناک دن کے آنے سے پہلے میں ایلیاہ نبی کو تمہارے پاس بھیجوں گا‘‘(۴:۵)
حضرت یحیٰی اور عیسیٰ علیہما السلام کی بعثت کے زمانہ میں یہودی بالعموم تین آنے والوں کے منتظر تھے۔ ایک حضرت الیاس۔ دوسرے مسیح۔ تیسرے ’’ وہ نبی‘‘(یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم)۔ جب حضرت یحییٰ کی نبوت شروع ہوئی اور انہوں نے لوگوں کو اصطباغ دنیا شروع کیا تو یہودیوں کے مذہبی پیشواؤں نے ان کے پاس جا کر پوچھا کیا تم مسیح ہو؟ انہوں نے کہا نہیں۔ پھر پوچھا کیا تم ایلیاہ ہو؟ انہوں نے کہا نہیں۔ پھر پوچھا کیا تم ’’ وہ نبی ‘‘ ہو؟ انہوں نے کہا میں وہ بھی نہیں ہوں۔ تب انہوں نے کہا اگر تم نہ مسیح ہو، نہ ایلیاہ، نہ وہ نبی، تو پھر تم بپتسمہ کیوں دیتے ہو؟ (یوحنا ۱:۱۹۔ ۲۶)۔ پر کچھ مدت بعد جب حضرت عیسیٰ علیہ و سلم کا غلغلہ بلند ہوا تو یہودیوں میں یہ خیال پھیل گیا کہ شاید ایلیاہ نبی آ گئے ہیں (مرقس ۶:۱۵۔ ۱۵) خود حضرت عیسیٰ علیہ والسلام کے حواریوں میں بھی یہ خیال پھیلا ہوا تھا کہ ایلیاہ نبی آنے والے ہیں۔ مگر حضرت نے یہ فرما کر ان کی غلط فہمی کو رفع فرمایا کہ ’’ ایلیاہ تو آ چکا، اور لوگوں نے اسے نہیں پہچانا بلکہ جو چاہا اس کے ساتھ کیا۔ ‘‘ اس سے حواری خود جان گئے کہ دراصل آنے والے حضرت یحییٰ تھے نہ کہ آٹھ سو برس پہلے گزرے ہوئے حضرت الیاس (متی ۱۱:۱۴ اور متی ۱۷:۱۰۔ ۱۳)۔
۷۴۔ اصل میں الفاظ ہیں سَلِا مٌ عَلیٰ اِلْ یَا سِیْن۔ اس کے متعلق بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ حضرت الیاس کا دوسرا نام ہے، جس طرح حضرت ابراہیم کا دوسرا نام ابراہام تھا۔ اور بعض دوسرے مفسرین کا قول ہے کہ اہل عرب میں عبرانی اسماء کے مختلف تلفظ رائج تھے، مثلاً میکال اور میکائیل اور میکائین ایک فرشتے کو کہا جاتا تھا۔ ایسا ہی معاملہ حضرت الیاس کے نام کے ساتھ بھی ہوا ہے خود قرآن مجید میں ایک ہی پہاڑ کا نام طور سینا ء بھی آیا ہے اور طور سینین بھی۔
۷۵۔ اس سے مراد حضرت لوط کی بیوی ہے جو ہجرت کا حکم آنے پر اپنے شوہر نامدار کے ساتھ نہ گئی بلکہ اپنی قوم کے ساتھ رہی اور مبتلائے عذاب ہوئی۔
۷۶۔ اشارہ ہے اس امر کی طرف کہ قریش کے تاجر شام و فلسطین کی طرف جاتے ہوئے شب و روز اس علاقے سے گزرتے تھے جہاں قوم لوط کی تباہ شدہ بستیاں واقع تھیں۔
۷۷۔ یہ تیسرا موقع ہے جہاں حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر قرآن مجید میں آیا ہے۔ اس سے پہلے سورہ یونس اور سورہ انبیاء میں ان کا ذکر گزر چکا ہے اور ہم اس کی تشریح کر چکے ہیں (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، صفحہ ۳۱۲۔ ۳۱۳۔ جلد سوم، صفحہ ۱۸۲۔ ۱۸۳)
۷۸۔ اصل میں لفظ اَبَقَ استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں صرف اس وقت بولا جاتا ہے جبکہ غلام اپنے آقا کے ہاں سے بھاگ جائے۔ الاباق ھرب العبد من سیدہ۔ ’’ اِباق کے معنی ہیں غلام کا اپنے آقا سے فرار ہو جانا (لسان العرب )
۷۹۔ ان فقروں پر غور کرنے سے جو صورت واقعہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ:
(۱)حضرت یونس جس کشتی میں سوار ہوئے تھے وہ اپنی گنجائش سے زیادہ بھری ہوئی(Overloaded)تھی۔
(۲) قرعہ اندازی کشتی میں ہوئی، اور غالباً اس وقت جب بحری سفر کے دوران میں یہ محسوس ہوا کہ بوجھ کی زیادتی کے سبب سے تمام مسافروں کی جان خطرے میں پڑ گئی ہے۔ لہٰذا قرعہ اس غرض کے لیے ڈالا گیا کہ جس کا نام قرعہ میں نکلے اسے پانی میں پھینک دیا جائے۔
(۳) قرعہ میں حضرت یونس ہی کا نام نکلا، وہ سمندر میں پھینک دیے گئے اور ایک مچھلی نے ان کو نگل لیا۔
(۴) اس ابتلا میں حضرت یونس اس لیے مبتلا ہوئے کہ وہ اپنے آقا (یعنی اللہ تعالیٰ) کی اجازت کے بغیر اپنے مقام ماموریت سے فرار ہو گئے تھے۔ اس معنی پر لفظ اَبَقَ بھی دلالت کرتا ہے جس کی تشریح اوپر حاشیہ نمبر ۷۸ میں گزرچکی ہے، اور اسی معنی پر لفظ مُلِیْم بھی دلالت کرتا ہے۔ مُلیم ایسے قصور وار آدمی کو کہتے ہیں جو اپنے قصور کی وجہ سے آپ ہی ملامت کا مستحق ہو گیا ہو، خواہ اسے ملامت کی جائے یا نہ کی جائے (یقال قد الام الر جل اذا اتیٰ ما یلام علیہ من الامر و ان لم یُلِم۔ ابن جریر)
۸۰۔ اس کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک مطلب یہ ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام پہلے ہی خدا سے غافل لوگوں میں سے نہ تھے، بلکہ ان لوگوں میں سے تھے جو دائماً اللہ کی تسبیح کرنے والے ہیں۔ دوسرے یہ کہ جب وہ مچھلی کے پیٹ میں پہنچے تو انہوں نے اللہ ہی کی طرف رجوع کیا اور اس کی تسبیح کی۔ سورہ انبیا میں ارشاد ہوا ہے فَنَا دٰ ی فِی الظُّلُمٰتِ اَن ْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَا نَکَ اِنِّی کُنْتُ مِنِ الظَّا لِمِیْنَ۔ پس ان تاریکیوں میں اس نے پکارا ’’ نہیں ہے کوئی خدا مگر تو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں قصور وار ہوں۔ ‘‘
۸۱۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ مچھلی قیامت تک زندہ رہتی اور حضرت یونس ؑ قیامت تک اس کے پیٹ میں زندہ رہتے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تک اس مچھلی کا پیٹ ہی حضرت یونسؑ کی قبر بنا رہتا۔ مشہور مفسر قتادہ نے اس آیت کا یہی مطلب بیان کیا ہے (ابن جریر)۔
۸۲۔ یعنی جب حضرت یونسؑ نے اپنے قصور کا اعتراف کر لیا اور وہ ایک بندہ مومن و قانت کی طرح اس کی تسبیح میں لگ گئے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے مچھلی نے ان کو ساحل پر اُگل دیا۔ ساحل ایک چٹیل میدان تھا جس میں کوئی روئیدگی نہ تھی، نہ کوئی ایسی چیز تھی جو حضرت یونسؑ پر سایہ کرتی، نہ وہاں غذا کا کوئی سامان موجود تھا۔
اس مقام پر بہت سے عقلیت کے مدعی حضرات یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ مچھلی کے پیٹ میں جا کر کسی انسان کا زندہ نکل آنا غیر ممکن ہے۔ لیکن پچھلی ہی صدی کے اواخر میں اس نام نہاد عقلیت کے گڑھ (انگلستان) کے سواحل سے قریب ایک واقعہ پیش آ چکا ہے جو ان کے دعوے کی تردید کر دیتا ہے۔ اگست ۱۸۹۱ء میں ایک جہاز (Sta r the East) پر کچھ مچھیرے وہیل کے شکار کے لیے گہرے سمندر میں گئے۔ وہاں انہوں نے ایک بہت بڑی مچھلی کو جو ۲۰ فیٹ لمبی، ۵ فیٹ چوڑی اور سو ٹن وزنی تھی، سخت زخمی کر دیا۔ مگر اس سے جنگ کرتے ہوئے جیمز بارٹلے نامی ایک مچھیرے کو اس کے ساتھیوں کی آنگھوں کے سامنے مچھلی نے نگل لیا۔ دوسرے روز وہی مچھلی اس جہاز کے لوگوں کو مری ہوئی مل گئی۔ انہوں نے بمشکل اسے جہاز پر چڑھایا اور پھر طویل جدوجہد کے بعد جب اس کا پیٹ چاک کیا تو بارٹلے اس کے اندر سے زندہ برآمد ہو گیا۔ یہ شخص مچھلی کے پیٹ میں پورے ۶۰ گھنٹے رہا تھا (اردو ڈائجسٹ، فروری ۱۹۶۴ء )۔ غور کرنے کی بات ہے کہ اگر معمولی حالات میں فطری طور پر ایسا ہونا ممکن ہے تو غیر معمولی حالات میں اللہ تعالیٰ کے معجزے کے طور پر ایسا ہونا کیوں غیر ممکن ہے ؟
۸۳۔ اصل الفاظ ہیں شَجَرَۃً مِّنْ یَّقْطِیْن۔ یقطین عربی زبان میں ایسے درخت کو کہتے ہیں جو کسی تنے پر کھڑا نہیں ہوتا بلکہ بیل کی شکل میں پھیلتا ہے، جیسے، کدو، تربوز، ککڑی وغیرہ بہر حال وہاں کوئی ایسی بیل معجزانہ طریقہ پر پیدا کر دی گئی تھی جس کے پتے حضرت یونس پر سایہ بھی کریں اور جس کے پھل ان کے لیے بیک وقت غذا کا کام بھی دیں اور پانی کا کام بھی۔
۸۴۔ ’’ ایک لاکھ یا اس سے زائد ‘‘ کہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ان کی تعداد میں شک تھا، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی ان کی بستی کو دیکھتا تو یہی اندازہ کرتا کہ اس شہر کی آبادی ایک لاکھ سے زائد ہی ہو گی، کم نہ ہو گی۔ اغلب یہ ہے کہ یہ وہی بستی تھی جس کو چھوڑ کر حضرت یونس بھاگے تھے۔ ان کے جانے کے بعد عذاب آتا دیکھ کر جو ایمان اس بستی کے لوگ لے آئے تھے اس کی حیثیت صرف توبہ کی تھی جسے قبول کر کے عذاب ان پر سے ٹال دیا گیا تھا۔ اب حضرت یونس علیہ السلام دوبارہ ان کی طرف بھیجے گئے تاکہ وہ نبی پر ایمان لا کر باقاعدہ مسلمان ہو جائیں۔ اس مضمون کو سمجھنے کے لیے سورہ یونس، آیت ۹۸ نگاہ میں رہنی چاہیے۔
۸۵۔ حضرت یونس کے اس قصے کے متعلق سورہ یونس اور سورہ انبیا ء کی تفسیریں جو کچھ ہم نے لکھا ہے اس پر بعض لوگوں نے اعتراضات کیے ہیں، اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں دوسرے مفسرین کے اقوال بھی نقل کر دیے جائیں۔
مشہور مفسر قَتَادہ سورہ یونس، آیت ۹۸ کی تفسیر میں فرماتے ہیں : ’’ کوئی بستی ایسی نہیں گزری ہے جو کفر کر چکی ہو اور عذاب آ جانے کے بعد ایمان لائی ہو اور پھر اسے چھوڑ دیا گیا ہو۔ اس سے صرف قوم یونس مستثنیٰ ہے۔ انہوں نے جب اپنے نبی کو تلاش کیا اور نہ پایا، اور محسوس کیا کہ عذاب قریب آ گیا ہے تو اللہ نے ان کے دلوں میں توبہ ڈال دی‘‘ (ابن کثیر، جلد ۲، ص ۴۳۳)
اسی آیت کی تفسیر علامہ آلوسی لکھتے ہیں : ’’ اس قوم کا قصہ یہ ہے کہ یونس علیہ السلام موصل کے علاقے میں نینویٰ کے لوگوں کی طرف بھیجے گئے تھے۔ یہ کافر و مشرک لوگ تھے۔ حضرت یونس نے ان کو اللہ وحدہٗ لا شریک پر ایمان لانے اور بتوں کی پرستش چھوڑ دینے کی دعوت دی۔ انہوں نے انکار کیا اور جھٹلایا۔ حضرت یونس نے ان کو خبر دی کہ تیسرے دن ان پر عذاب آ جائے گا اور تیسرا دن آنے سے پہلے آدھی رات کو وہ بستی سے نکل گئے۔ پھر دن کے وقت جب عذاب اس قوم کے سروں پر پہنچ گیاـــــــــ اور انہیں یقین ہو گیا کہ سب ہلاک ہو جائیں گے تو انہوں نے اپنے نبی کو تلاش کیا، مگر نہ پایا۔ آخر کار وہ سب اپنے بال بچوں اور جانوروں کو لے کر صحرا میں نکل آئے اور ایمان و توبہ کا اظہار کیا ــــــــ پس اللہ نے ان پر رحم کیا اور ان کی دعا قبول کر لی‘‘ (روح المعانی، جلد ۱۱، ص ۱۷۰)
سورہ انبیا ء کی آیت ۸۷ کی تشریح کرتے ہوئے علامہ آلوسی لکھتے ہیں : ’’ حضرت یونس کا ا پنی قوم سے ناراض ہو کر نکل جانا ہجرت کا فعل تھا، مگر انہیں اس کا حکم نہیں دیا گیا تھا‘‘ (روح المعانی، ج ۱۷، ص ۷۷) پھر وہ حضرت یونسؑ کی دعا کے فقرہ اِنِّی کُنْتُ مِنَ الظَّا لِمِیْن کا مطلب یوں بیان کرتے ہیں : ’’ یعنی میں قصور وار تھا کہ انبیاء کے طریقہ کے خلاف، حکم آنے سے پہلے، ہجرت کرنے میں جلدی کر بیٹھا۔ یہ حضرت یونس علیہ السلام کی طرف سے اپنے گناہ کا اعتراف اور توبہ کا اظہار تھا تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی اس مصیبت کو دور فرما دے ‘‘ (روح المعانی، ج ۱۷، ص ۷۸)
مولانا اشرف علی تھانوی کا حاشیہ اس آیت پر یہ ہے کہ ’’ وہ اپنی قوم پر جبکہ وہ ایمان نہ لائی خفا ہو کر چل دیے اور قوم پر سے عذاب ٹل جانے کے بعد بھی خود واپس نہ آئے اور اس سفر کے لیے ہمارے حکم کا انتظار نہ کیا‘‘ (بیان القرآن)
اسی آیت پر مولانا شبیر احمد عثمانی حاشیہ میں فرماتے ہیں :’’ قوم کی حرکات سے خفا ہو کر غصّے میں بھرے ہوئے شہر سے نکل گئے، حکم الٰہی کا انتظار نہ کیا اور وعدہ کر گئے کہ تین دن کے بعد تم پر عذاب آئے گا ـــــــ اِنِّ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِیْن، اپنے خطا کا اعتراف کیا کہ بے شک میں نے جلدی کی تیرے حکم کا انتظار کیے بدون بستی والوں کو چھوڑ کر نکل کھڑا ہوا۔ ‘‘
سورہ صافات کی آیات بالا کی تشریح میں امام رازی لکھتے ہیں : ’’ حضرت یونس کا تصور یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس قوم کو جس نے انہیں جھٹلایا تھا، ہلاک کرنے کا وعدہ فرمایا، یہ سمجھے کہ یہ عذاب لا محالہ نازل ہونے والا ہے، اس لیے انہوں نے صبر نہ کیا اور قوم کو دعوت دینے کا کام چھوڑ کر نکل گئے، حالانکہ ان پر واجب تھا کہ دعوت کا کام برابر جاری رکھتے، کیونکہ اس امر کا امکان باقی تھا کہ اللہ ان لوگوں کو ہلاک نہ کرے ‘‘ (تفسیر کبیر، ج ۷، ص ۱۸۵)
علامہ آلوسی اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُون پر لکھتے ہیں : ’’ ابق کے اصل معنی آقا کے ہاں سے غلام کے فرار ہونے کے ہیں۔ چونکہ حضرت یونس اپنے رب کے اذن کے بغیر اپنی قوم سے بھاگ نکلے تھے اس لیے اس لفظ کا اطلاق ان پر درست ہوا۔ ‘‘ پھر آگے چل کر لکھتے ہیں :’’ جب تیسرا دب ہوا تو حضرت یونس اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر نکل گئے۔ اب جو ان کی قوم نے ان کو نہ پایا تو وہ اپنے بڑے اور چھوٹے اور جانوروں، سب کو ل کر نکلے، اور نزول عذاب ان سے قریب تھا، پس انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور زاری کی اور معافی مانگی اور اللہ نے انہیں معاف کر دیا‘‘ (روح المعانی، جلد ۲۳، ص، ۱۳)
مولانا شبیر احمد صاحب وَھُوَ مُلِیْم کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ الزام یہی تھا کہ خطائے اجتہادی سے حکم الٰہی کا انتظار کیے بغیر بستی سے نکل پڑے اور عذاب کے دن کی تعیین کر دی۔ ‘‘
پھر سورہ القلم کی آیت فَا صْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنْ کَصَاحِبِ الْحُوْ تِ پر مولانا شبیر احمد صاحب کا حاشیہ یہ ہے ’’ یعنی مچھلی کے پیٹ میں جانے والے پیغمبر (حضرت یونس علیہ السلام ) کی طرح مکذبین کے معاملہ میں تنگ دلی اور گھبراہٹ کا اظہار نہ کیجیے ‘‘۔ اور اسی آیت کے فقرہ وَھُوَ مَکْظُوْم پر حاشیہ تحریر کرتے ہوئے مولانا فرماتے ہیں : یعنی قوم کی طرف سے غصے میں بھرے ہوئے تھے۔ جھنجھلا کر شتابی عذاب کی دعا، بلکہ پیشن کر بیٹھی۔ ‘‘
مفسرین کے ان بیانات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تین قصور تھے جن کی وجہ سے حضرت یونس پر عتاب ہوا۔ ایک یہ کہ انہوں نے عذاب کے دن کی خود ہی تعیین کر دی حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا کوئی اعلان نہ ہوا تھا۔ دوسرے یہ کہ وہ دن آنے سے پہلے ہجرت کر کے ملک سے نکل گئے، حالانکہ نبی کو اس وقت تک اپنی جگہ نہ چھوڑنی چاہیے جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہ آ جائے۔ تیسرے یہ کہ جب اس قوم پر سے عذاب ٹل گیا تو واپس نہ گئے۔
۸۶۔ یہاں سے ایک دوسرا مضمون شروع ہوتا ہے۔ پہلا مضمون آیت نمبر ۱۱ سے شروع ہوا تھا جس میں کفار مکہ کے سامنے یہ سوال رکھا گیا تھا ’’ ان سے پوچھو، کیا ان کا پیدا کرنا زیادہ مشکل کام ہے یا ان چیزوں کا جو ہم نے پیدا کر رکھی ہیں ‘‘۔ اب انہی کے سامنے یہ دوسرا سوال پیش کیا جا رہا ہے۔ پہلے سوال کا منشا کفار کو ان کی اس گمراہی پر متنبہ کرنا تھا کہ وہ زندگی بعد موت اور جزا و سزا کو غیر ممکن الوقوع سمجھتے تھے اور اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا مذاق اڑاتے تھے۔ اب یہ دوسرا سوال ان کی اس جہالت پر متنبہ کرنے کے لیے پیش کیا جا رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف اولاد منسوب کرتے تھے اور قیاسی گھوڑے دوڑا کر جس کا چاہتے تھے اللہ سے رشتہ جوڑ دیتے تھے۔
۸۷۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ عرب میں قریش، جُہینہ، بنی سَلِمہ، خزاعہ، بن مُلیح اور بعض دوسرے قبائل کا عقیدہ یہ تھا کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ان کے اس جاہلانہ عقیدے کا ذکر کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو النساء، آیت ۱۱۷۔ النحل آیات ۵۷۔ ۵۸۔ بنی اسرائیل، آیت ۴۰۔ الزخرف، آیات ۱۶ تا ۱۹۔ النجم، آیات ۲۱ تا ۲۷۔
۸۸۔ یعنی ملائکہ کو اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں قرار دینے کے لیے دو ہی بنیادیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو ایسی بات مشاہدے کی بنا پر کہی جا سکتی ہے، یا پھر اس طرح کا دعویٰ کرنے والے کے پاس کوئی کتاب الٰہی ہونی چاہیے جس میں اللہ تعالیٰ نے خود یہ فرمایا ہو کہ ملائکہ میری بیٹیاں ہیں۔ اب اگر اس عقیدے کے قائلین نہ مشاہدے کا دعویٰ کر سکتے ہیں، اور نہ کوئی کتابِ الہٰی ایسی رکھتے ہیں جس میں یہ بات کہی گئی ہو، تو اس سے بڑی جہالت و حماقت اور کیا ہو سکتی ہے کہ محض ہوائی باتوں پر ایک دینی عقیدہ قائم کر لیا جائے اور خداوند عالم کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو صریحاً مضحکہ انگیز ہیں۔
۸۹۔ اصل میں ملائکہ کے بجائے الجنّہ کا لفظ استعمال ہوا ہے، لیکن بعض اکابر مفسرین کا خیال ہے کہ یہاں جِنّ کا لفظ اپنے لغوی مفہوم (پوشیدہ مخلوق) کے لحاظ سے ملائکہ کے لیے استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ ملائکہ بھی اصلاً ایک پوشیدہ مخلوق ہی ہیں۔ اور بعد کا مضمون اسی بات کا تقاضا کرتا ہے کہ یہاں الجِنہ کے لفظ کو ملائکہ کے معنی میں لیا جائے۔
۹۰۔ اس آیت کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے :’’پس تم اور تمہاری یہ عبادت، اس پر تم کسی کو فتنے میں نہیں ڈال سکتے صرف اس کو جو ـــــــــــ ‘‘ اس دوسرے ترجمے کے لحاظ سے مطلب یہ ہو گا کہ اے گمراہو، یہ جو تم ہماری پرستش کر رہے ہو اور ہمیں اللہ رب العالمین کی اولاد قرار دے رہے ہو، اس سے تم ہم کو فتنے میں نہیں ڈال سکتے۔ اس سے تو کوئی ایسا احمق ہی فتنے میں پڑ سکتا ہے جس کی شامت سر پر سوار ہو۔ دوسرے الفاظ میں گویا فرشتے اپنے ان پرستاروں سے کہہ رہے ہیں کہ ’’ برد ایں دام بر مرغِ وگرنہ‘‘۔
۹۱۔ یعنی اللہ کی اولاد ہونا تو درکنار، ہمارا حال تو یہ ہے کہ ہم میں سے جس کاجو درجہ اور مرتبہ مقرر ہے اس سے ذرہ برابر تجاوز تک کرنے کی مجال ہم نہیں رکھتے۔
۹۲۔ یہی مضمون سورہ فاطر، آیت ۴۲ میں گزر چکا ہے۔
۹۳۔ اللہ کے لشکر سے مراد وہ اہل ایمان ہیں جو اللہ کے رسول کی پیروی کریں اور اس کا ساتھ دیں۔ نیز وہ غیبی طاقتیں بھی اس میں شامل ہیں جن کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ اہل حق کی مدد فرماتا ہے۔
اس امداد اور غلبہ کے معنی لازماً یہی نہیں ہیں کہ ہر زمانہ میں اللہ کے ہر نبی اور اس کے پہروؤں کو سیاسی غلبہ ہی حاصل ہو۔ بلکہ اس غلبے کی بہت سی صورتیں ہیں جن میں سے ایک سیاسی غلبہ بھی ہے۔ جہاں اس نوعیت کا استیلاء اللہ کے نبیوں کو حاصل نہیں ہوا ہے، وہاں بھی ان کا اخلاقی تفوّق ثابت ہو کر رہا ہے۔ جن قوموں نے ان کی بات نہیں مانی ہے اور ان کی دی ہوئی ہدایات کے خلاف راستہ اختیار کیا ہے وہ آخر کار برباد ہو کر رہی ہیں۔ جہالت رضالت کے جو فلسفے بھی لوگوں نے گھڑے اور زندگی کے جو بگڑے ہوئے اطوار بھی زبردستی رائج کیے گئے وہ سب کچھ مدت تک زور دکھانے کے بعد آخر کار اپنی موت آپ مر گئے۔ مگر جن حقیقتوں کو ہزار ہا برس سے اللہ کے نبی حقیقت و صداقت کی حیثیت سے پیش کرتے رہے ہیں وہ پہلے بھی اٹل تھیں اور آج بھی اٹل ہیں۔ انہیں اپنی جگہ سے کوئی ہلا نہیں سکا ہے۔
۹۴۔ یعنی کچھ زیادہ مدت نہ گزرے گی کہ اپنی شکست اور تمہاری فتح کو یہ لوگ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے۔ یہ بات جس طرح فرمائی گئی تھی اسی طرح پوری ہوئی۔ ان آیات کے نزول پر بمشکل ۱۴۔ ۱۵ سال گزرے تھے کہ کفار مکہ نے اپنی آنکھوں سے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا فاتحانہ داخلہ اپنے شہر میں دیکھ لیا، اور پھر اس کے چند سال بعد انہی لوگوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ اسلام نہ صرف عرب پر، بلکہ روم و ایران کی عظیم سلطنتوں پربھی غالب آ گیا۔