خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الصَّافات

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف ۱)

۱                 سورۂ وَالصّٰفّٰتْ مکّیہ ہے، اس میں پانچ رکوع، ایک سو بیاسی۱۸۲ آیتیں اور آٹھ سو ساٹھ۸۶۰ کلمے اور تین ہزار آٹھ سو چھبّیس ۳۸۲۶ حرف ہیں۔

(۱) قسم ان کی کہ باقاعدہ صف باندھیں (ف ۲)

۲                 اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے قَسم یاد فرمائی چند گروہوں کی یا تو مراد اس سے ملائکہ کے گروہ ہیں جو نمازیوں کی طرح صف بستہ ہو کر اس کے حکم کے منتظر رہتے ہیں یا عُلَمائے دین کے گروہ جو تہجّد اور تمام نمازوں میں صفیں باندھ کر مصروفِ عبادت رہتے ہیں یا غازیوں کے گروہ جو راہِ خدا میں صفیں باندھ کر دشمنانِ حق کے مقابل ہوتے ہیں۔ (مدارک)

(۲) پھر ان کی کہ جھڑک کر چلائیں (ف ۳)

۳                 پہلی تقدیر پر جھڑک کر چَلانے والوں سے مراد ملائکہ ہیں جو ابر پر مقرر ہیں اور اس کو حکم دے کر چَلاتے ہیں اور دوسری تقدیر پر وہ عُلَماء جو وعظ و پند سے لوگوں کو جھڑک کر دین کی راہ چَلاتے ہیں تیسری صورت میں وہ غازی جو گھوڑوں کو ڈپٹ کر جہاد میں چَلاتے ہیں۔

(۳) پھر ان جماعتوں کی، کہ قرآن پڑھیں۔

(۴)  بیشک تمہارا معبود ضرور ایک ہے۔

(۵) مالک آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان کے  درمیان ہے  اور مالک مشرقوں کا (ف ۴)

۴                 یعنی آسمان اور زمین اور ان کی درمیانی کائنات اور تمام حدود و جہات سب کا مالک وہی ہے تو کوئی دوسرا کس طرح مستحقِ عبادت ہو سکتا ہے لہذا وہ شریک سے منزّہ ہے۔

(۶) اور بیشک ہم نے  نیچے  کے  آسمان کو (ف ۵) تاروں کے  سنگھار سے  آراستہ کیا۔

۵                 جو زمین کے بہ نسبت اور آسمانوں سے قریب تر ہے۔

(۷) اور نگاہ رکھنے  کو ہر شیطان سرکش سے  (ف ۶)

۶                 یعنی ہم نے آسمان کو ہر ایک نافرمان شیطان سے محفوظ رکھا کہ جب شیاطین آسمان پر جانے کا ارادہ کریں تو فرشتے شہاب مار کر ان کو دفع کر دیں لہذا شیاطین آسمان پر نہیں جا سکتے اور۔

(۸) عالم بالا کی طرف کان نہیں لگا سکتے  (ف ۷) اور ان پر ہر طرف سے  مار پھینک ہوتی ہے  (ف ۸)

۷                 اور آسمان کے فرشتوں کی گفتگو نہیں سن سکتے۔

۸                 انگاروں کی جب وہ اس نیّت سے آسمان کی طرف جائیں۔

(۹) انہیں بھگانے  کو اور ان کے  لیے  (ف ۹) ہمیشہ کا عذاب۔

۹                 آخرت میں۔

(۱۰)  مگر جو ایک آدھ بار اُچک لے  چلا (ف ۱۰) تو روشن انگار اس کے  پیچھے  لگا، (ف ۱۱)

۱۰               یعنی اگر کوئی شیطان ملائکہ کا کوئی کلمہ کبھی لے بھاگا۔

۱۱               کہ اسے جَلائے اور ایذا پہنچائے۔

(۱۱) تو ان سے  پوچھو (ف ۱۲) کیا ان کی پیدائش زیادہ مضبوط ہے  یا ہماری اور مخلوق آسمانوں اور فرشتوں وغیرہ کی (ف ۱۳) بیشک ہم نے  ان کو چپکتی مٹی سے  بنایا (ف ۱۴)

۱۲               یعنی کُفّارِ مکّہ سے۔

۱۳               تو جس قادرِ برحق کو آسمان و زمین جیسی عظیم مخلو ق کا پیدا کر دینا کچھ بھی مشکل اور دشوار نہیں تو انسانوں کا پیدا کرنا اس پر کیا مشکل ہو سکتا ہے۔

۱۴               یہ ان کے ضعف کی ایک اور شہادت ہے کہ ان کی پیدائش کا اصل مادّہ مٹی ہے جو کوئی شدّت و قوّت نہیں رکھتی اور اس میں ان پر ایک اور برہان قائم فرمائی گئی ہے کہ چپکتی مٹی ان کا مادّۂ پیدائش ہے تو اب پھر جسم کے گل جانے اور غایت یہ ہے کہ مٹی ہو جانے کہ بعد اس مٹی سے پھر دوبارہ پیدائش کو وہ کیوں ناممکن جانتے ہیں مادّہ موجود اور صانع موجود پھر دوبارہ پیدائش کیسے محال ہو سکتی۔

(۱۲) بلکہ تمہیں اچنبھا آیا (ف ۱۵) اور وہ ہنسی کرتے  ہیں  (ف ۱۶)

۱۵               ان کے تکذیب کرنے سے کہ ایسے واضح الدلالۃ آیات وبیّنات کے باوجود وہ کس طرح تکذیب کرتے ہیں۔

۱۶               آپ سے اور آپ کے تعجّب سے یا مرنے کے بعد اٹھنے سے۔

(۱۳)  اور سمجھائے  نہیں سمجھتے۔

(۱۴) اور جب کوئی نشانی دیکھتے  ہیں (ف ۱۷) ٹھٹھا کرتے  ہیں۔

۱۷               مثل شقُّ القمر وغیرہ کے۔

(۱۵) اور کہتے  ہیں یہ تو نہیں مگر کھلا جادو۔

(۱۶) کیا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں گے  کیا ہم ضرور اٹھائے  جائیں گے۔

(۱۷) اور کیا ہمارے  اگلے   باپ دادا بھی  (ف ۱۸)

۱۸               جو ہم سے زمانہ میں مقدم ہیں۔ کُفّار کے نزدیک ان کے باپ دادا کا زندہ کیا جانا خود ان کے زندہ کئے جانے سے زیادہ بعید تھا اس لئے انہوں نے یہ کہا۔ اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے فرماتا ہے۔

(۱۸) تم فرماؤ ہاں یوں کہ ذلیل ہو کے۔

(۱۹) تو وہ (ف ۱۹) تو ایک ہی جھڑک ہے  (ف ۲۰) جبھی وہ (ف ۲۱) دیکھنے  لگیں گے۔

۱۹               یعنی بَعث۔

۲۰               ایک ہی ہولناک آواز ہے نفخۂ ثانیہ کی۔

۲۱               زندہ ہو کر اپنے افعال اور پیش آنے والے احوال۔

(۲۰) اور کہیں گے  ہائے  ہماری خرابی ان سے  کہا جائے  گا یہ انصاف کا دن ہے  (ف ۲۲)

۲۲               یعنی فرشتے کہیں گے کہ یہ انصاف کا دن ہے یہ حساب و جزا کا دن ہے۔

(۲۱) یہ ہے  وہ فیصلے  کا دن جسے  تم جھٹلاتے  تھے  (ف ۲۳)

۲۳               دنیا میں اور فرشتوں کو حکم دیا جائے گا۔

(۲۲) ہانکو ظالموں اور ان کے  جوڑوں کو (ف ۲۴) اور جو کچھ وہ پوجتے  تھے۔

۲۴               ظالموں سے مراد کافِر ہیں اور ان کے جوڑوں سے مراد ان کے شیاطین جو دنیا میں ان کے جلیس و قرین رہتے تھے ہر ایک کافِر اپنے شیطان کے ساتھ ایک ہی زنجیر میں جکڑ دیا جائے گا اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ جوڑوں سے مراد اشباہ و امثال ہیں یعنی ہر کافِر اپنے ہی قِسم کے کُفّار کے ساتھ ہانکا جائے گا، بُت پرست بُت پرستوں کے ساتھ اور آتش پرست آتش پرستوں کے ساتھ وعلیٰ ہذا القیا س۔

(۲۴) اور انہیں ٹھہراؤ (ف ۲۵) ان سے  پوچھنا ہے  (ف ۲۶)

۲۵               صراط کے پاس۔

۲۶               حدیث شریف میں ہے کہ روزِ قیامت بندہ جگہ سے ہل نہ سکے گا جب تک چار باتیں اس سے نہ پوچھ لی جائیں (۱) ایک اس کی عمر کہ کس کام میں گزری (۲) دوسرے اس کا علم کہ اس پر کیا عمل کیا (۳)تیسرے اس کا مال کہ کہاں سے کمایا کہاں خرچ کیا (۴) چوتھے اس کا جسم کہ اس کو کس کام میں لایا۔

(۲۵) تمہیں کیا ہوا  ایک دوسرے  کی مدد کیوں نہیں کرتے  (ف ۲۷)

۲۷               یہ ان سے جہنّم کے خازن بطریقِ توبیخ کہیں گے کہ دنیا میں تو ایک دوسرے کی امداد پر بہت غرّہ رکھتے تھے آج دیکھو کیسے عاجز ہو تم میں سے کوئی کسی کی مدد نہیں کر سکتا۔

(۲۶) بلکہ وہ آج گردن ڈالے  ہیں (ف ۲۸)

۲۸               عاجز و ذلیل ہو کر۔

(۲۷) اور ان میں ایک نے  دوسرے  کی طرف منہ کیا آپس میں پوچھتے  ہوئے۔

(۲۸) بولے  (ف ۲۹) تم ہمارے  دہنی طرف سے  بہکانے  آتے  تھے  (ف ۳۰)

۲۹               اپنے سرداروں سے جو دنیا میں بہکاتے تھے۔

۳۰               یعنی بزورِ قوّت ہمیں گمراہی پر آمادہ کرتے تھے۔ اس پر کُفّار کے سردار کہیں گے اور۔

(۲۹) جواب دیں گے  تم خود ہی ایمان نہ رکھتے  تھے  (ف ۳۱)

۳۱               پہلے ہی سے کافِر تھے اور ایمان سے با اختیارِ خود اعراض کر چکے تھے۔

(۳۰) اور ہمارا تم پر کچھ قابو نہ تھا (ف ۳۲) بلکہ تم سرکش لوگ تھے۔

۳۲               کہ ہم تمہیں اپنے اِتّباع پر مجبور کرتے۔

(۳۱) تو ثابت ہو گئی ہم پر ہمارے  رب کی بات (ف ۳۳) ہمیں ضرور چکھنا ہے  (ف ۳۴)

۳۳               جو اس نے فرمائی کہ میں ضرور جہنّم کو جِنّوں اور انسانوں سے بھروں گا لہذا۔

۳۴               اس کا عذاب گمراہوں کو بھی اور گمراہ کرنے والوں کو بھی۔

(۳۲) تو ہم نے  تمہیں گمراہ کیا کہ ہم خود گمراہ تھے۔

(۳۳) تو اس دن (ف ۳۵)  وہ سب کے  سب عذاب میں شریک ہیں (ف ۳۶)

۳۵               یعنی روزِ قیامت۔

۳۶               گمراہ بھی اور ان کے گمراہ کرنے والے سردار بھی کیونکہ یہ سب دنیا میں گمراہی میں شریک تھے۔

(۳۴) مجرموں کے  ساتھ ہم ایسا ہی کرتے  ہیں۔

(۳۵) بیشک جب ان سے  کہا جاتا تھا کہ اللہ کے  سوا کسی کی بندگی نہیں تو اونچی کھینچتے  (تکبر کرتے ) تھے  (ف ۳۷)

۳۷               اور توحید قبول نہ کرتے تھے شرک سے باز نہ آتے تھے۔

(۳۶) اور کہتے  تھے  کیا ہم اپنے  خداؤں کو چھوڑ دیں ایک دیوانہ شاعر کے  کہنے  سے  (ف ۳۸)

۳۸               یعنی سیدِ عالَم حبیبِ خدا محمّدِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے فرمانے سے۔

(۳۷) بلکہ وہ تو حق لائے  ہیں اور انہوں نے  رسولوں کی تصدیق فرمائی (ف ۳۹)

۳۹               دین و توحید و نفیِ شرک میں۔

(۳۸)  بیشک تمہیں ضرور دکھ کی مار چکھنی ہے۔

(۳۹)  تو تمہیں بدلہ نہ ملے  گا مگر اپنے  کیے  کا (ف ۴۰)

۴۰               اس شرک اور تکذیب کا جو دنیا میں کر آئے ہو۔

(۴۰)  مگر جو اللہ کے  چُنے  ہوئے  بندے  ہیں (ف ۴۱)

ایمان اور اخلاص والے۔

(۴۱)  ان کے  لیے  وہ روزی ہے  جو ہمارے  علم میں ہیں۔

(۴۲) میوے  (ف ۴۲) اور ان کی عزت ہو گی۔

اور نفیس و لذیذ نعمتیں، خوش ذائقہ، خوشبودار، خوش منظر۔

(۴۳) چین کے  باغوں میں۔

(۴۴)  تختوں پر ہوں گے  آمنے  سامنے  (ف ۴۳)

ایک دوسرے سے مانوس اور مسرور۔

(۴۵) ان پر دورہ ہو گا نگاہ کے  سامنے  بہتی شراب کے  جام کا (ف ۴۴)

۴۴               جس کی پاکیزہ نہریں نگاہوں کے سامنے جاری ہوں گی۔

(۴۶)  سفید رنگ (ف ۴۵) پینے  والوں کے  لیے  لذت (ف ۴۶)

۴۵               دودھ سے بھی زیادہ سفید۔

۴۶               بخلاف دنیا کی شراب کے جو بدبو دار اور بد ذائقہ ہوتی ہے اور پینے والا اس کو پیتے وقت منھ بگاڑ بگاڑ لیتا ہے۔

(۴۷) نہ اس میں خمار ہے  (ف ۴۷) اور نہ اس سے  ان کا سَر پھِرے  (ف ۴۸)

۴۷               جس سے عقل میں خلل آئے۔

۴۸               بخلاف دنیا کی شراب کے جس میں بہت سے فسادات اور عیب ہیں اس سے پیٹ میں بھی درد ہوتا ہے، سر میں بھی، پیشاب میں بھی تکلیف ہو جاتی ہے، طبیعت مالش کرتی ہے، قے آتی ہے، سر چکراتا ہے، عقل ٹھکانے نہیں رہتی۔

(۴۸) اور ان کے  پاس ہیں جو شوہروں کے  سوا دوسری طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھیں گی (ف ۴۹)

۴۹               کہ اس کے نزدیک اس کا  شوہر ہی صاحبِ حُسن اور پیارا ہے۔

(۴۹) بڑی آنکھوں  والیاں ف گویا وہ انڈے  ہیں پوشیدہ رکھے  ہوئے  (ف ۵۰)

۵۰               گرد و غبار سے پاک صاف دلکش رنگ۔

(۵۰) تو ان میں (ف ۵۱) ایک نے  دوسرے  کی طرف منہ کیا پوچھتے  ہوئے  (ف ۵۲)

۵۱               یعنی اہلِ جنّت میں سے۔

۵۲               کہ دنیا میں کیا حالات و واقعات پیش آئے۔

(۵۱) ان میں سے  کہنے  والا بولا میرا ایک ہمنشین تھا (ف ۵۳)

۵۳               دنیا میں جو مرنے کے بعد اٹھنے کا منکِر تھا اور اس کی نسبت طنز کے طریقہ پر۔

(۵۲) مجھ سے  کہا کرتا کیا تم اسے  سچ مانتے  ہو (ف ۵۴)

۵۴               یعنی مرنے کے بعد اٹھنے کو۔

(۵۳) کیا جب ہم مر کر مٹی اور ہڈیاں ہو جائیں گے  تو کیا ہمیں جزا سزا دی جائے  گی (ف ۵۵)

۵۵               اور ہم سے حساب لیا جائے گا، یہ بیان کر کے اس جنّتی نے اپنے جنّتی دوستوں سے۔

(۵۴) کہا کیا تم جھانک کر دیکھو گے  (ف ۵۶)

۵۶               کہ میرے اس ہم نشین کا جہنّم میں کیا حال ہے۔

(۵۵)  پھر جھانکا تو اسے  بیچ بھڑکتی آگ میں دیکھا (ف ۵۷)

۵۷               کہ عذاب کے اندر گرفتار ہے تو اس جنّتی نے اس سے۔

(۵۶) کہا خدا کی قسم قریب تھا کہ تو مجھے  ہلاک کر دے  (ف ۵۸)

۵۸               راہِ راست سے بہکا کر۔

(۵۷) اور میرا رب فضل نہ کرے  (ف ۵۹) تو ضرور میں بھی پکڑ کر حاضر کیا جاتا (ف ۶۰)

۵۹               اور اپنے رحمت و کرم سے مجھے تیرے اغوا سے محفوظ نہ رکھتا اور اسلام پر قائم رہنے کی توفیق نہ دیتا۔

۶۰               تیرے ساتھ جہنّم میں اور جب موت ذبح کر دی جائے گی تو اہلِ جنّت فرشتوں سے کہیں گے۔

(۵۸) تو کیا ہمیں مرنا نہیں۔

(۵۹) مگر ہماری پہلی موت (ف ۶۱) اور ہم پر عذاب نہ ہو گا (ف ۶۳)

۶۱               وہی جو دنیا میں ہو چکی۔

۶۲               فرشتے کہیں گے نہیں اور اہلِ جنّت کا یہ دریافت کرنا اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ساتھ تلذُّذ اور دائمی حیات کی نعمت اور عذاب سے مامون ہونے کے احسان پر اس کی نعمت کا ذکر کرنے کے لئے ہے اور اس ذکر سے انہیں سرور حاصل ہو گا۔

(۶۰) بیشک یہی بڑی کامیابی ہے۔

(۶۱) ایسی ہی بات کے  لیے  کامیوں کو کام کرنا چاہیے۔

(۶۲)  تو یہ مہمانی بھلی (ف ۶۳) یا تھوہڑ کا پیڑ (ف ۶۴)

۶۳               یعنی جنّتی نعمتیں اور لذّتیں اور وہاں کے نفیس و لطیف مآ کل و مشارب اور دائمی عیش اور بے نہایت راحت و سرور۔

۶۴               نہایت تلخ، انتہا کا بدبو دار، حد درجہ کا بدمزہ، سخت ناگوار جس سے دوزخیوں کی میزبانی کی جائے گی اور ان کو اس کے کھانے پر مجبور کیا جائے گا۔

(۶۳) بیشک ہم نے  اسے  ظالموں کی جانچ کیا ہے  (ف ۶۵)

۶۵               کہ دنیا میں کافِر اس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آگ درختوں کو جَلا ڈالتی تو آگ میں درخت کیسے ہو گا۔

(۶۴) بیشک وہ ایک پیڑ ہے  کہ جہنم کی جڑ میں نکلتا ہے  (ف ۶۶)

۶۶               اور اس کی شاخیں جہنّم کے درکات میں پہنچتی ہیں۔

(۶۵) اس کا شگوفہ جیسے  دیووں کے  سر (ف ۶۷)

۶۷               یعنی نہایت بد ہیئت اور قبیح المنظر۔

(۶۶) پھر بیشک وہ اس میں سے  کھائیں گے  (ف ۶۸) پھر اس سے  پیٹ بھریں گے۔

۶۸               شدّت کی بھوک سے مجبور ہو کر۔

(۶۷) پھر بیشک ان کے  لیے  اس پر کھولتے  پانی کی ملونی (ملاوٹ) ہے  (ف ۶۹)

۶۹               یعنی جہنّمی تھوہڑ سے ان کے پیٹ بھریں گے وہ جلتا ہو گا پیٹوں کو جَلائے گا، اس کی سوزش سے پیاس کا غلبہ ہو گا اور مدّت تک تو پیاس کی تکلیف میں رکھے جائیں گے پھر جب پینے کو دیا جائے گا تو گرم کھولتا پانی اس کی گرمی اور سوزش اس تھوہڑ کی گرمی اور جلن سے مل کر اور تکلیف و بے چینی بڑھائے گی۔

(۶۸) پھر ان کی بازگشت ضرور بھڑکتی آگ کی طرف ہے  (ف ۷۰)

۷۰               کیونکہ زقوم کھِلانے اور گرم پانی پلانے کے لئے، ان کو اپنے درکات سے دوسرے درکات میں لے جایا جائے گا، اس کے بعد پھر اپنے درکات کی طرف لوٹائے جائیں گے، اس کے بعد ان کے مستحقِ عذاب ہونے کی علّت ارشاد فرمائی جاتی ہے۔

(۶۹)  بیشک انہوں نے  اپنے  باپ دادا گمراہ پائے۔

(۷۰)  تو وہ انہیں کے  نشان قدم پر دوڑے  جاتے  ہیں (ف ۷۱)

۷۱               اور گمراہی میں ان کا اِتّباع کرتے ہیں اور حق کے دلائلِ واضحہ سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔

(۷۱) اور بیشک ان سے  پہلے  بہت سے  اگلے  گمراہ ہوئے  (ف ۷۲)

۷۲               اسی وجہ سے کہ انہوں نے اپنے باپ دادا کی غلط راہ نہ چھوڑی اور حُجّت و دلیل سے فائدہ نہ اٹھایا۔

(۷۲) اور بیشک ہم نے  ان میں ڈر سنانے  والے  بھیجے  (ف ۷۳)

۷۳               یعنی انبیاء علیہم السلام جنہوں نے ان کو گمراہی اور بدعملی کے بُرے انجام کا خوف دلایا۔

(۷۳) تو دیکھو ڈرائے  گیوں کا کیسا انجام ہوا  (ف ۷۴)

۷۴               کہ وہ عذاب سے ہلاک کئے گئے۔

(۷۴) مگر اللہ کے  چُنے  ہوئے  بندے  (ف ۷۵)

۷۵               ایماندار جنہوں نے اپنے اخلاص کے سبب نجات پائی۔

(۷۵) اور  بیشک ہمیں نوح نے  پکارا  (ف ۷۶) تو ہم کیا ہی اچھے  قبول فرمانے  والے  (ف ۷۷)

۷۶               اور ہم سے اپنی قوم کے عذاب و ہلاک کی درخواست کی۔

۷۷               کہ ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کے دشمنوں کے مقابلہ میں مدد کی اور ان سے پورا انتقام لیا کہ انہیں غرق کر کے ہلاک کر دیا۔

(۷۶) اور ہم نے  اسے  اور اس کے  گھر والوں کو بڑی تکلیف  سے  نجات دی۔

(۷۷) اور ہم نے  اسی کی اولاد باقی رکھی (ف ۷۸)

۷۸               تو اب دنیا میں جتنے انسان ہیں سب حضرت نوح علیہ السلام کی نسل سے ہیں۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضرت نوح علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کَشتی سے اُترنے کے بعد ان کے ہمراہیوں میں جس قدر مرد و عورت تھے سبھی مر گئے سوا آپ کی اولاد اور ان کی عورتوں کے، انہیں سے دنیا کی نسلیں چلیں، عرب اور فارس اور روم آپ کے فرزند سام کی اولاد سے ہیں اور سوڈان کے لوگ آپ کے بیٹے حام کی نسل سے اور ترک اور یاجوج ماجوج وغیرہ آپ کے صاحب زادے یافث کی اولاد سے۔

(۷۸) اور ہم نے  پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھی (ف ۷۹)

۷۹               یعنی ان کے بعد والے انبیاء علیہم السلام اور ان کی اُمّتوں میں حضرت نوح علیہ السلام کا ذکرِ جمیل باقی رکھا۔

(۷۹) نوح پر  سلام ہو جہاں والوں میں (ف ۸۰)

۸۰               یعنی ملائکہ اور جنّ و انس سب ان پر قیامت تک سلام بھیجا کریں۔

(۸۰) بیشک ہم ایسا ہی صلہ دیتے  ہیں نیکوں کو۔

(۸۱) بیشک وہ ہمارے  اعلیٰ درجہ کے  کامل الایمان بندوں میں ہے۔

(۸۲) پھر ہم نے  دوسروں کو ڈبو دیا (ف ۸۱)

۸۱               یعنی حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے کافِروں کو۔

(۸۳) اور بیشک اسی کے  گروہ سے  ابراہیم ہے  (ف ۸۲)

۸۲               یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام کے دین و ملت اور انہیں کے طریق و سنّت پر ہیں، حضرت نوح علیہ السلام و حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیان دو ہزار چھ سو چالیس برس کا زمانی فرق ہے اور دونوں حضرات کے درمیان جو عہد گزرا اس میں صرف دو نبی ہوئے حضرت ہود و حضرت صالح علیہما السلام۔

(۸۴) جبکہ اپنے  رب کے  پاس حاضر ہوا غیر سے  سلامت دل لے  کر (ف ۸۳)

۸۳               یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے قلب کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کیا اور ہر چیز سے فارغ کر لیا۔

(۸۵) جب اس نے  اپنے  باپ اور اپنی قوم سے  فرمایا (ف ۸۴) تم کیا پوجتے  ہو۔

۸۴               بطریقِ توبیخ۔

(۸۶)  کیا بہتان سے  اللہ کے  سوا  اور خدا  چاہتے  ہو۔

(۸۷) تو تمہارا  کیا گمان سے  رب العالمین پر (ف ۸۵)

۸۵               کہ جب تم اس کے سوا دوسرے کو پُوجو گے تو کیا وہ تمہیں بے عذاب چھوڑ دے گا باوجود یہ کہ تم جانتے ہو کہ وہی منعِمِ حقیقی، مستحقِ عبادت ہے۔ قوم نے کہا کہ کل کو ہماری عید ہے، جنگل میں میلہ لگے گا، ہم نفیس کھانے پکا کر بُتوں کے پاس رکھ جائیں گے اور میلہ سے واپس ہو کر تبرُّک کے طور پر ان کو کھائیں گے، آپ بھی ہمارے ساتھ چلیں اور مجمع اور میلہ کی رونق دیکھیں، وہاں سے واپس ہو کر بُتوں کی زینت اور سجاوٹ اور ا ن کا بناؤ سنگار دیکھیں، یہ تماشا دیکھنے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ آپ بُت پرستی پر ہمیں ملامت نہ کریں گے۔

(۸۸) پھر اس نے  ایک نگاہ ستاروں کو دیکھا (ف ۸۶)

۸۶               جیسے کہ ستارہ شناس نجوم کے ماہر ستاروں کے مواقعِ اتصالات و انصرافات کو دیکھا کرتے ہیں۔

(۸۹) پھر کہا میں بیمار ہونے  والا ہوں (ف ۸۷)

۸۷               قوم نجوم کی بہت معتقد تھی وہ سمجھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ستاروں سے اپنے بیمار ہونے کا حال معلوم کر لیا، اب یہ کسی متعدّی مرض میں مبتلا ہونے والے ہیں اور متعدّی مرض سے وہ لوگ بہت ڈرتے تھے۔ مسئلہ : علمِ نجوم حق ہے اور سیکھنے میں مشغول ہونا منسوخ ہو چکا۔ مسئلہ : شرعاً کوئی مرض متعدّی نہیں ہوتا یعنی ایک شخص کا مرض بعینہٖ دوسرے میں نہیں پہنچ جاتا، مادّوں کے فساد اور ہوا وغیرہ کی سَمِیّتوں کے اثر سے ایک وقت میں بہت سے لوگوں کو ایک طرح کے مرض ہو سکتے ہیں لیکن حدوث مرض کا ہر ایک میں جداگانہ ہے، کسی کا مرض کسی دوسرے میں نہیں پہنچتا۔

(۹۰) تو وہ اس پر پیٹھ دے  کر پھر گئے  (ف ۸۸)

۸۸               اپنی عید کی طرف اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چھوڑ گئے آپ بُت خانہ میں آئے۔

(۹۱) پھر ان کے  خداؤں کی طرف چھپ کر چلا تو کہا کیا تم نہیں کھاتے  (ف ۸۹)

۸۹               یعنی اس کھانے کو جو تمہارے سامنے رکھا ہے بُتوں نے اس کا کچھ جواب نہ دیا اور وہ جواب ہی کیا دیتے تو آپ نے فرمایا۔

(۹۲) تمہیں کیا ہوا کہ نہیں بولتے  (ف ۹۰)

۹۰               اس پر بھی بُتوں کی طرف سے کوئی جواب نہ ہوا، وہ بے جان پتّھرتھے جواب کیا دیتے۔

(۹۳) تو لوگوں کی نظر بچا کر انہیں دہنے  ہاتھ سے  مارنے  لگا (ف ۹۱)

۹۱               اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بُتوں کو مار مار کر پارہ پارہ کر دیا، جب کافِروں کو اس کی خبر پہنچی۔

(۹۴) تو کافر اس کی طرف جلدی کرتے  آئے  (ف ۹۲)

۹۲               اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہنے لگے کہ ہم تو ان بُتوں کو پُوجتے ہیں تم انہیں توڑتے ہو۔

(۹۵) فرمایا کیا اپنے  ہاتھ کے  تراشوں کو پوجتے  ہو۔

(۹۶) اور اللہ نے  تمہیں پیدا کیا اور تمہارے  اعمال کو (ف ۹۳)

۹۳               تو پُوجنے کا مستحق وہ ہے نہ بُت، اس پر وہ حیران ہو گئے اور ان سے کوئی جواب نہ بن آیا۔

(۹۷) بولے  اس کے  لیے  ایک عمارت چنو (ف ۹۴) پھر اسے  بھڑکتی آگ میں ڈال دو۔

۹۴               پتّھر کی تیس گز لمبی بیس گز چوڑی چار دیواری پھر اس کو لکڑیوں سے بھر دو اور ان میں آگ لگا دو یہاں تک کہ آگ زور پکڑے۔

(۹۸) تو انہوں نے  اس پر داؤں چلنا (ف ریب کرنا) چاہا ہم نے  انہیں نیچا دکھایا (ف ۹۵)

۹۵               حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس آگ میں سلامت رکھ کر چنانچہ آگ سے آپ سلامت برآمد ہوئے۔

(۹۹) اور کہا میں اپنے  رب کی طرف جانے  والا ہوں (ف ۹۶) اب وہ مجھے  راہ دے  گا (ف ۹۷)

۹۶               اس دار الکفر سے ہجرت کر کے جہاں جانے کا میرا ربّ حکم دے۔

۹۷               چنانچہ بحکمِ الٰہی آپ سرزمینِ شام میں ارضِ مقدَّسہ کے مقام پر پہنچے تو آپ نے اپنے ربّ سے دعا کی۔

(۱۰۰) الٰہی مجھے  لائق اولاد دے۔

(۱۰۱) تو ہم نے  اسے  خوشخبری سنائی ایک عقل مند لڑکے  کی۔

(۱۰۲) پھر جب وہ اس کے  ساتھ کام کے  قابل ہو گیا  کہا  اے  میرے  بیٹے  میں نے   خواب دیکھا میں تجھے  ذبح کرتا ہوں (ف ۹۸) اب تو دیکھ تیری کیا رائے  ہے  (ف ۹۹) کہا اے  میرے  باپ کی  جیئے   جس بات کا آپ کو حکم ہوتا ہے، خدا  نے  چاہتا تو قریب ہے  کہ آپ مجھے  صابر پائیں گے۔

۹۸               یعنی تیرے ذبح کا انتظام کر رہا ہوں اور انبیاء علیہم السلام کی خواب حق ہوتی ہے اور ان کے افعال بحکمِ الٰہی ہوا کرتے ہیں۔

۹۹               یہ آپ نے اس لئے کہا تھا کہ فرزند کو ذبح سے وحشت نہ ہو اور اطاعتِ امرِ الٰہی کے لئے وہ برغبت تیار ہوں چنانچہ اس فرزندِ ارجمند نے رضا ئے الٰہی پر فدا ہونے کا کمالِ شوق سے اظہار کیا۔

(۱۰۳) تو جب ان دونوں نے  ہمارے  حکم پر گردن رکھی اور باپ نے  بیٹے  کو ماتھے  کے  بل لٹایا اس  وقت کا حال نہ پوچھ (ف ۱۰۰)

۱۰۰             یہ واقعہ مِنیٰ میں واقع ہوا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرزند کے گلے پر چھری چلائی، قدرتِ الٰہی کہ چھری نے کچھ بھی کام نہ کیا۔

(۱۰۴) اور ہم نے  اسے  ندا فرمائی کہ اے  ابراہیم۔

(۱۰۵) بیشک تو نے   خواب  سچ کر دکھایا (ف ۱۰۱) ہم ایسا ہی صلہ دیتے  ہیں نیکوں کو۔

۱۰۱             اطاعت و فرمانبرداری کمال کو پہنچا دی، فرزند کو ذبح کے لئے بے دریغ پیش کر دیا بس اب اتنا کافی ہے۔

(۱۰۶) بیشک  یہ روشن جانچ تھی۔

(۱۰۷) اور ہم نے  ایک بڑا ذبیحہ اس کے  فدیہ میں دے  کر اسے  بچا لیا (ف ۱۰۲)

۱۰۲             اس میں اختلاف ہے کہ یہ فرزند حضرت اسمٰعیل ہیں یا حضرت اسحٰق علیہما السلام لیکن دلائل کی قوّت یہی بتاتی ہے کہ ذبیح حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہی ہیں اور فدیہ میں جنّت سے بکری بھیجی گئی تھی جس کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح فرمایا۔

(۱۰۸) اور ہم نے  پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھی۔

(۱۰۹) سلام ہو ابراہیم پر (ف ۱۰۳)

۱۰۳             ہماری طرف سے۔

(۱۱۰) ہم ایسا ہی صلہ دیتے  ہیں نیکوں کو۔

(۱۱۱)  بیشک وہ ہمارے  اعلیٰ درجہ کے  کامل الایمان بندوں میں ہیں۔

(۱۱۲) اور ہم نے  اسے  خوشخبری دی اسحاق کی کہ غیب کی خبریں بتانے  والا نبی ہمارے  قربِ خاص کے  سزاواروں میں (ف ۱۰۴)

۱۰۴             واقعۂ ذبح کے بعد حضرت اسحٰق کی خوشخبری اس کی دلیل ہے کہ ذبیح حضرت اسمٰعیل علیہما السلام ہیں۔

(۱۱۳) اور ہم نے  برکت اتاری اس پر اور اسحاق پر (ف ۱۰۵) اور ان کی اولاد میں کوئی اچھا کام کرنے  والا (ف ۱۰۶) اور کوئی اپنی جان پر صریح ظلم کرنے  والا (ف ۱۰۷)

۱۰۵             ہر طرح کی برکت دینی بھی اور دنیوی بھی اور ظاہری برکت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد میں کثرت کی اور حضرت اسحٰق علیہ السلام کی نسل سے بہت سے انبیاء کئے حضرت یعقوب سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک۔

۱۰۶             یعنی مومن۔

۱۰۷             یعنی کافِر۔

فائدہ : اس سے معلوم ہوا کہ کسی باپ کے صاحبِ فضائلِ کثیرہ ہونے سے اولاد کا بھی ویسا ہی ہونا لازم نہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی شانیں ہیں، کبھی نیک سے نیک پیدا کرتا ہے، کبھی بد سے بد، کبھی بد سے نیک، نہ اولاد کا بد ہونا آباء کے لئے عیب ہو، نہ آباء کی بدی اولاد کے لئے۔

(۱۱۴) اور بیشک ہم نے  موسیٰ اور ہارون پر احسان فرمایا (ف ۱۰۸)

۱۰۸             کہ انہیں نبوّت و رسالت عنایت فرمائی۔

(۱۱۵) اور انہیں اور ان کی قوم (ف ۱۰۹) کو بڑی سختی سے  نجات بخشی (ف ۱۱۰)

۱۰۹             یعنی بنی اسرائیل۔

۱۱۰             کہ فرعون اور فرعونیوں کے مظالم سے رہائی دی۔

(۱۱۶) اور ان کی ہم نے  مدد فرمائی (ف ۱۱۱) تو وہی غالب ہوئے  (ف ۱۱۲)

۱۱۱             قبطیوں کے مقابل۔

۱۱۲             فرعون اور اس کی قوم پر۔

(۱۱۷) اور ہم نے  ان دونوں کو روشن کتاب عطا فرمائی (ف ۱۱۳)

۱۱۳             جس کا بیان بلیغ اور وہ حدود و احکام وغیرہ کی جامع۔ اس کتاب سے مراد توریت شریف ہے۔

(۱۱۸) اور ان کو سیدھی راہ دکھائی۔

(۱۱۹) اور پچھلوں میں ان کی تعریف باقی رکھی۔

(۱۲۰) سلام ہو موسیٰ اور ہارون پر۔

(۱۲۱) بیشک ہم ایسا ہی صلہ دیتے  ہیں نیکوں کو۔

(۱۲۲) بیشک وہ دونوں ہمارے  اعلیٰ درجہ کے  کامل الایمان بندوں میں ہیں۔

(۱۲۳) اور بیشک الیاس پیغمبروں سے  ہے  (ف ۱۱۴)

۱۱۴             جو بَعلَبَکَّ اور ان کے نواح کے لوگوں کی طرف سے مبعوث ہوئے۔

(۱۲۴) جب اس نے  اپنی قوم سے  فرمایا کیا تم ڈرتے   نہیں (ف ۱۱۵)

۱۱۵             یعنی کیا تمہیں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں۔

(۱۲۵) کیا بعل کو پوجتے  ہو (ف ۱۱۶)  اور چھوڑتے  ہو سب سے  اچھا پیدا کرنے  والے   اللہ کو۔

۱۱۶             بعل ان کے بت کا نام تھا جو سونے کا تھا اس کی لمبائی بیس گز تھی چار منھ تھے، اس کی بہت تعظیم کرتے تھے جس مقام میں وہ تھا اس جگہ کا نام بک تھا اسی سے بَعلَبَکَّ مرکب ہوا یہ بلادِ شام میں ہے۔

(۱۲۶) جو رب ہے  تمہارا اور تمہارے  اگلے  باپ دادا کا (ف ۱۱۷)

۱۱۷             اس کی عبادت ترک کرتے ہو۔

(۱۲۷) پھر انہوں نے  اسے  جھٹلایا تو وہ ضرور پکڑے  آئیں گے  (ف ۱۱۸)

۱۱۸             جہنّم میں۔

(۱۲۸) مگر اللہ کے  چُنے  ہوئے   بندے  (ف ۱۱۹)

۱۱۹             یعنی اس قوم میں سے اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ بندے جو حضرت الیاس علیہ السلام پر ایمان لائے انہوں نے عذاب سے نجات پائی۔

(۱۲۹) اور ہم نے  پچھلوں میں اس کی ثنا باقی رکھی۔

(۱۳۰) سلام ہو ا لیاس پر۔

(۱۳۱) بیشک ہم ایسا ہی صلہ دیتے  ہیں نیکوں کو۔

(۱۳۲) بیشک وہ ہمارے  اعلیٰ درجہ کے  کامل الایمان بندوں میں ہے۔

(۱۳۳)  اور بیشک لوط پیغمبروں میں ہے۔

(۱۳۴) جبکہ ہم نے  اسے  اور اس کے  سب گھر والوں کو نجات بخشی۔

(۱۳۵)  مگر  ایک بڑھیا کہ رہ جانے  والوں میں ہوئی (ف ۱۲۰)

۱۲۰             عذاب کے اندر۔

(۱۳۶) پھر دوسروں کو ہم نے  ہلاک فرما دیا (ف ۱۲۱)

۱۲۱             یعنی حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے کفّار کو۔

(۱۳۷) اور بیشک تم (ف ۱۲۲) ان پر گزرتے  ہو صبح کو۔

۱۲۲             اے اہلِ مکّہ۔

(۱۳۸) اور رات میں (ف ۱۲۳) تو کیا تمہیں عقل نہیں (ف ۱۲۴)

۱۲۳             یعنی اپنے سفروں میں روز و شب تم ان کے آثار و منازل پر گزرتے ہو۔

۱۲۴             کہ ان سے عبرت حاصل کرو۔

(۱۳۹) اور بیشک یونس پیغمبروں سے  ہے۔

(۱۴۰) جبکہ بھری کشتی کی طرف نکل گیا (ف ۱۲۵)

۱۲۵             حضرت ابنِ عباس اور وہب کا قول ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام نے اپنی قوم سے عذاب کا وعدہ کیا تھا اس میں تاخیر ہوئی تو آپ ان سے چھُپ کر نکل گئے اور آپ نے دریائی سفر کا قصد کیا کَشتی پر سوار ہوئے دریا کے درمیان میں کَشتی ٹھہر گئی اور اس کے ٹھہرنے کا کوئی سببِ ظاہر موجود نہ تھا۔ ملّاحوں نے کہا اس کَشتی میں اپنے مولا سے بھاگا ہوا کوئی غلام ہے قرعہ ڈالنے سے ظاہر ہو جائے گا قرعہ ڈالا گیا تو آپ ہی کے نام نکلا، تو آپ نے فرمایا کہ میں ہی وہ غلام ہوں اور آپ پانی میں ڈال دیئے گئے کیونکہ دستور یہی تھا کہ جب تک بھاگا ہوا غلام دریا میں غرق نہ کر دیا جائے اس وقت تک کَشتی چلتی نہ تھی۔

(۱۴۱) تو قرعہ ڈالا تو ڈھکیلے  ہوؤں میں ہوا۔

(۱۴۲) پھر اسے  مچھلی نے  نگل لیا اور وہ اپنے  آپ کو ملامت کرتا تھا (ف ۱۲۶)

۱۲۶             کہ کیوں نکلنے میں جلدی کی اور قوم سے جدا ہونے میں امرِ الٰہی کا انتظار نہ کیا۔

(۱۴۳) تو اگر وہ تسبیح کرنے  والا نہ ہوتا (ف ۱۲۷)

۱۲۷             یعنی ذکرِ الٰہی کی کثرت کرنے والا اور مچھلی کے پیٹ میں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ط پڑھنے والا۔

(۱۴۴) ضرور اس کے  پیٹ میں رہتا جس دن تک لوگ اٹھائے  جائیں گے  (ف ۱۲۸)

۱۲۸             یعنی روزِ قیامت تک۔

(۱۴۵) پھر ہم نے  اسے  (ف ۱۲۹) میدان میں ڈال دیا اور وہ بیمار تھا (ف ۱۳۰)

۱۲۹             مچھلی کے پیٹ سے نکال کر اسی روز یا تین روز یا سات روز یا چالیس روز کے بعد۔

۱۳۰             یعنی مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے باعث آپ ایسے ضعیف و نحیف اور نازک ہو گئے تھے جیسا بچّہ پیدائش کے وقت ہوتا ہے جسم کی کھال نرم ہو گئی اور بدن پر کوئی بال باقی نہ رہا تھا۔

(۱۴۶) اور ہم نے  اس پر (ف ۱۳۱) کدو کا پیڑ اگایا (ف ۱۳۲)

۱۳۱             سایہ کرنے اور مکھیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے۔

۱۳۲             کدّو کی بیل ہوتی ہے جو زمین پر پھیلتی ہے۔ مگر یہ آپ کا معجزہ تھا کہ یہ کدّو کا درخت قد والے درختوں کی طرح شاخ رکھتا تھا اور اس کے بڑے بڑے پتّوں کے سایہ میں آپ آرام کرتے تھے۔ اور بحکمِ الٰہی روزانہ ایک بکری آتی اور اپنا تھن حضرت کے دہانِ مبارک میں دے کر آپ کو صبح و شام دودھ پلا جاتی یہاں تک کہ جسمِ مبارک کی جِلد شریف یعنی کھال مضبوط ہوئی اور اپنے موقع سے بال جمے اور جسم میں توانائی آئی۔

(۱۴۷) اور ہم نے  اسے  (ف ۱۳۳) لاکھ آدمیوں کی طرف بھیجا بلکہ زیادہ۔

۱۳۳             پہلے کی طرح سرزمینِ موصل میں قومِ نینویٰ کے۔

(۱۴۸) تو وہ ایمان لے  آئے  (ف ۱۳۴) تو ہم نے  انہیں ایک وقت تک برتنے  دیا (ف ۱۳۵)

۱۳۴             آثارِ عذاب دیکھ کر۔ (اس کا بیان سورۂ یونس کے دسویں رکوع میں گذر چکا ہے اور اس واقعہ کا بیان سورۂ انبیاء کے چھٹے رکوع میں بھی آ چکا ہے)

۱۳۵             یعنی ان کی آخرِ عمر تک انہیں آسائش کے ساتھ رکھا۔ اس واقعہ کے بیان فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے حبیبِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے فرماتا ہے کہ آپ کفّارِ مکّہ سے انکارِ بعث کی وجہ دریافت کیجئے چنانچہ ارشاد فرماتا ہے۔

(۱۴۹) تو ان سے  پوچھو کیا تمہارے  رب کے  لیے  بیٹیاں ہیں (ف ۱۳۶) اور ان کے  بیٹے  (ف ۱۳۷)

۱۳۶             جیسا کہ جہینہ اور بنی سلمہ وغیرہ کفّار کا اعتقاد ہے کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں۔

۱۳۷             یعنی اپنے لئے تو بیٹیاں گوارا نہیں کرتے، بُری جانتے ہیں اور پھر ایسی چیز کو خدا کی طرف نسبت کرتے ہیں۔

(۱۵۰)  یا ہم نے  ملائکہ کو عورتیں پیدا کیا اور وہ حاضر تھے  (ف ۱۳۸)

۱۳۸             دیکھ رہے تھے کیونکہ ایسی بے ہودہ بات کہتے ہیں۔

(۱۵۱) سنتے  ہو بیشک وہ اپنے  بہتان سے  کہتے  ہیں۔

(۱۵۲)  کہ اللہ کی اولاد ہے  اور بیشک وہ ضرور جھوٹے  ہیں۔

(۱۵۳) کیا اس نے  بیٹیاں پسند کیں بیٹے  چھوڑ کر۔

(۱۵۴) تمہیں کیا  ہے، کیسا  حکم لگاتے  ہو (ف ۱۳۹)

۱۳۹             فاسد و باطل۔

(۱۵۵) تو کیا دھیان نہیں کرتے  (ف ۱۴۰)

۱۴۰             اور اتنا نہیں سمجھتے کہ اللہ تعالیٰ اولاد سے پاک اور منزّہ ہے۔

(۱۵۶) یا تمہارے  لیے  کوئی کھلی سند ہے۔

(۱۵۷) تو اپنی کتاب لاؤ (ف ۱۴۱) اگر تم سچے  ہو۔

۱جس میں یہ سند ہو۔

(۱۵۸) اور اس میں اور جنوں میں رشتہ ٹھہرایا (ف ۱۴۲) اور بیشک جنوں کو معلوم ہے  کہ وہ (ف ۱۴۳) ضرور حاضر لائے  جائیں گے  (ف ۱۴۴)

۱جیسا کہ بعض مشرکین نے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جنّوں میں شادی کی اس سے فرشتے پیدا ہوئے(معاذ اللہ) کیسے عظیم کفر کے مرتکب ہوئے۔

۱یعنی اس بے ہودہ بات کے کہنے والے۔

۱۴۴             جہنّم میں عذاب کے لئے۔

(۱۵۹)  پاکی ہے  اللہ کو ان باتوں سے  کہ یہ بتاتے  ہیں۔

(۱۶۰) مگر اللہ کے  چُنے  ہوئے  بندے  (ف ۱۴۵)

۱۴۵             ایماندار اللہ تعالیٰ کی پاکی بیان کرتے ہیں ان تمام باتوں سے جو کفّارِ نابکار کہتے ہیں۔

(۱۶۱) تو تم اور جو کچھ تم اللہ کے  سوا پوجتے  ہو (ف ۱۴۶)

۱۴۶             یعنی تمہارے بت سب کے سب وہ اور۔

(۱۶۲) تم اس کے  خلاف کسی کو بہکانے  والے  نہیں (ف ۱۴۷)

۱۴۷             گمراہ نہیں کر سکتے۔

(۱۶۳) مگر اسے  جو بھڑکتی آگ میں جانے  والا ہے  (ف ۱۴۸)

۱۴۸             جس کی قسمت ہی میں یہ ہے کہ وہ اپنے کردارِ بد سے مستحقِ جہنّم ہو۔

(۱۶۴) اور فرشتے  کہتے  ہیں ہم میں ہر ایک کا ایک مقام معلوم ہے  (ف ۱۴۹)

۱۴۹             جس میں اپنے رب کی عبادت کرتا ہے حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ آسمانوں میں بالشت بھر بھی جگہ ایسی نہیں ہے جس میں کوئی فرشتہ نماز نہ پڑھتا ہو یا تسبیح نہ کرتا ہو۔

(۱۶۵) اور بیشک ہم پر پھیلائے  حکم کے  منتظر ہیں۔

(۱۶۶) اور بیشک ہم اس کی تسبیح کرنے  والے  ہیں۔

(۱۶۷) اور بیشک وہ کہتے  تھے  (ف ۱۵۰)

۱۵۰             یعنی مکّہ مکرّمہ کے کفّار و مشرکین سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تشریف آوری سے پہلے کہا کرتے تھے کہ۔

(۱۶۸) اگر ہمارے  پاس اگلوں کی کوئی نصیحت ہوتی (ف ۱۵۱)

۱۵۱             کوئی کتاب ملتی۔

(۱۶۹)  تو ضرور ہم اللہ کے  چُنے  ہوئے  بندے  ہوتے  (ف ۱۵۲)

۱۵۲             اس کی اطاعت کرتے اور اخلاص کے ساتھ عبادت بجا لاتے پھر جب تمام کتابوں سے افضل و اشرف معجِز کتاب انہیں ملی یعنی قرآنِ مجید نازل ہوا۔

(۱۷۰) تو اس کے  منکر ہوئے  تو عنقریب جان لیں گے  (ف ۱۵۳)

۱۵۳             اپنے کفر کا انجام۔

(۱۷۱) اور بیشک ہمارا کلام گزر چکا ہے  ہمارے  بھیجے  ہوئے  بندوں کے  لیے۔

(۱۷۲) کہ بیشک انہیں کی مدد ہو گی۔

(۱۷۳) اور بیشک ہمارا ہی لشکر (ف ۱۵۴) غالب آئے  گا۔

۱۵۴             یعنی اہلِ ایمان۔

(۱۷۴) تو ایک وقت تم ان سے  منہ پھیر لو (ف ۱۵۵)

۱۵۵             جب تک کہ تمہیں ان کے ساتھ قتال کرنے کا حکم دیا جائے۔

(۱۷۵)  اور انہیں دیکھتے  رہو کہ عنقریب وہ دیکھیں گے  (ف ۱۵۶)

۱۵۶             طرح طرح کے عذاب دنیا و آخرت میں۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو کفّار نے براہِ تمسخر و استہزاء کہا کہ یہ عذاب کب نازل ہو گا اس کے جواب میں اگلی آیت نازل ہوئی۔

(۱۷۶) تو کیا ہمارے  عذاب  کی جلدی کرتے  ہیں۔

(۱۷۷) پھر جب اترے  گا ان کے  آنگن میں تو ڈرائے  گیوں کی کیا ہی بری صبح ہو گی۔

(۱۷۸) اور ایک وقت تک ان سے  منہ پھیر لو۔

(۱۷۹) اور انتظار کرو کہ وہ عنقریب دیکھیں گے۔

(۱۸۰) پاکی ہے  تمہارے  رب کو عزت والے  رب کو ان کی باتوں سے  (ف ۱۵۷)

۱۵۷             جو کافر اس کی شان میں کہتے ہیں اور اس کے لئے شریک اور اولاد ٹھہراتے ہیں۔

(۱۸۱) اور سلام ہے  پیغمبروں پر (ف ۱۵۸)

(۱۸۲) اور سب خوبیاں اللہ کو سارے  جہاں کا رب ہے۔

۱۵۸             جنہوں نے اللہ عزَّوجلَّ کی طرف سے توحید اور احکامِ شرع پہنچائے انسانی مراتب میں سب سے اعلیٰ مرتبہ یہ ہے کہ خود کامل ہو اور دوسروں کی تکمیل کرے یہ شان انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کی ہے تو ہر ایک پر ان حضرات کا اتباع اور ان کی اقتدا لازم ہے۔