تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ الصَّافات

۱ ۔۔۔     یعنی جو صف باندھ کر قطار در قطار کھڑے ہوتے ہیں، خواہ فرشتے ہوں جو حکم الٰہی سننے کو اپنے اپنے مقام پر درجہ بدرجہ کھڑے ہوتے ہیں یا عبادت گزار انسان جو نماز اور جہاد وغیرہ میں صف بندی کرتے ہیں۔ (تنبیہ) قسم محاورات میں تاکید کے لیے ہے جو اکثر منکر کے مقابلہ میں استعمال کی جاتی ہے لیکن بسا اوقات محض ایک مضمون کو مہتم بالشان ظاہر کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔ اور قرآن کریم کی قسموں کا تتبع کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ عموماً مقسم بہ مقسم علیہ کے لیے بطور ایک شاہد یا دلیل کے ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔

۲ ۔۔۔       یعنی جو فرشتے شیطانوں کو ڈانٹ کر بھگاتے ہیں تاکہ استراق سمع کے ارادہ میں کامیاب نہ ہوں یا بندوں کو نیکی کی بات سمجھا کر معاصی سے روکتے ہیں یا وہ نیک آدمی جو خود اپنے نفس کو بدی سے روکتے اور دوسروں کو بھی شرارت پر ڈانٹتے جھڑکتے رہتے ہیں۔ خصوصاً میدان جہاد میں کفار کے مقابلہ پر ان کی ڈانٹ ڈپٹ بہت سخت ہوتی ہے۔

۳ ۔۔۔       یعنی وہ فرشتے یا آدمی جو اللہ کے احکام سننے کے بعد پڑھتے اور یاد کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے بتانے کو۔

۴ ۔۔۔     بیشک آسمان پر فرشتے اور زمین پر خدا کے نیک بندے ہر زمانہ میں قولاً و فعلاً شہادت دیتے رہے ہیں کہ سب کا مالک و معبود ایک ہے اور ہم اسی کی رعیت ہیں۔

۵ ۔۔۔       شمال سے جنوب تک ایک طرف مشرقین ہیں۔ سورج کی ہر روز کی جدا اور ہر ستارے کی جدا۔ یعنی وہ نقطے جن سے ان کا طلوع ہوتا ہے اور دوسری طرف اتنی ہی مغربیں ہیں۔ شاید مغارب کا ذکر یہاں سے اس لیے نہیں کیا کہ مشارق سے بطور مقابلہ کے خود ہی سمجھ میں آ جائیں گی۔ اور ایک حیثیت سے طلوع شمس و کواکب کو حق تعالیٰ کی شان حکومت و عظمت کے ثابت کرنے میں بہ نسبت غروب کے زیادہ دخل ہے۔ واللہ اعلم۔

۶ ۔۔۔     یعنی اندھیری رات میں یہ آسمان بیشمار ستاروں کی جگمگاہٹ سے دیکھنے والوں کو کیسا خوبصورت، مزین اور پر رونق معلوم ہوتا ہے۔

۷ ۔۔۔      یعنی تاروں سے آسمان کی زینت و آرائش ہے۔ اور بعض تاروں کے ذریعہ سے جو ٹوٹتے ہیں شیطانوں کو روکنے اور دفع کرنے کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ یہ ٹوٹنے والے ستارے کیا ہیں۔ آیا کواکب نوریہ کے علاوہ کوئی مستقل نوع کواکب کی ہے یا کواکب نوریہ کی شعاعوں ہی سے ہوا متکیف ہو کر ایک طرح کی آتش سوزاں پیدا ہو جاتی ہے یا خود کواکب کے اجزاء ٹوٹ کر گرتے ہیں؟ اس میں علماء و حکماء کے مختلف اقوال ہیں بہرحال ان کی حقیقت کچھ ہی کیوں نہ ہو رجم شیطان کا کام بھی ان سے لیا جاتا ہے۔ اس کی کچھ تفصیل سورہ "حجر" کے فوائد میں گزر چکی ملاحظہ کر لی جائے۔

۸ ۔۔۔      اوپر کی مجلس سے مراد فرشتوں کی مجلس ہے۔ یعنی شیاطین کو یہ قدرت نہیں دی گئی کہ فرشتوں کی مجلس میں پہنچ کر کوئی بات وحی الٰہی کی سن آئیں۔ جب ایسا ارادہ کر کے اوپر آسمانوں کے قریب پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں تو جس طرف سے جاتے ہیں ادھر ہی سے فرشتے دھکے دے کر اور مار مار کر بھگا دیتے ہیں۔

۹ ۔۔۔       یعنی دنیا میں ہمیشہ یوں ہی مار پڑتی رہے گی اور آخرت کا دائمی عذاب الگ رہا۔

۱۰ ۔۔۔      یعنی اسی بھاگ دوڑ میں جلدی سے کوئی ایک آدھ بات اچک لایا۔ اس پر بھی فرشتے شہاب ثاقب سے اس کا تعاقب کرتے ہیں۔ اس کی تفصیل سورہ "حجر" کے شروع میں گزر چکی۔

۱۱ ۔۔۔     ۱: یعنی منکرین بعث سے دریافت کیجئے کہ آسمان، زمین، ستارے، فرشتے، شیاطین وغیرہ مخلوقات کا پیدا کرنا ان کے خیال میں زیادہ مشکل کام ہے یا خود ان کا پیدا کرنا اور وہ بھی ایک مرتبہ پیدا کر چکنے کے بعد ظاہر ہے جو خدا ایسی عظیم الشان مخلوقات کا بنانے والا ہے اسے ان کا دوبارہ بنا دینا کیا مشکل ہو گا۔

۲: یعنی ان کی اصل حقیقت ہمیں سب معلوم ہے۔ ایک طرح کے چپکتے گارے سے جس کا پتلا ہم نے تیار کیا۔ آج اس کے یہ دعوے ہیں کہ آسمان و زمین کا بنانے والا اس کے دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں۔ جس طرح پہلے تجھ کو مٹی سے بنایا دوبارہ بھی مٹی سے نکال کر کھڑا کر دیں گے۔

۱۲ ۔۔۔     یعنی تجھ کو ان پر تعجب آتا ہے کہ ایسی صاف باتیں کیوں نہیں سمجھتے اور وہ ٹھٹھا کرتے ہیں کہ یہ (نبی) کس قسم کی بے سروپا باتیں کر رہا ہے۔ (العیاذ باللہ)

۱۵ ۔۔۔     یعنی نصیحت سن کر غور و فکر نہیں کرتے اور جو معجزات و نشانات دیکھتے ہیں انہیں جادو کہہ کر ہنسی میں اڑا دیتے ہیں۔

۱۷ ۔۔۔       وہ ہی مرغے کی ایک ٹانگ گائے جاتے ہیں کہ صاحب جب ہمارا بدن خاک میں مل کر مٹی ہو گیا صرف ہڈیاں باقی رہ گئیں اور اس سے بھی بڑھ کر ہمارے باپ دادا جن کو مرے ہوئے قرن گزر گئے۔ شاید ہڈیاں بھی باقی نہ رہی ہوں، ہم کس طرح مان لیں کہ یہ سب پھر از سر نو زندہ کر کر کے کھڑے کر دیے جائیں گے۔

۱۹ ۔۔۔       یعنی ہاں ضرور اٹھائے جاؤ گے اور اس وقت ذلیل و رسوا ہو کر اس انکار کی سزا بھگتو گے۔

۲۰ ۔۔۔     یعنی ایک ڈانٹ میں سب اٹھ کھڑے ہوں گے اور حیرت و دہشت سے ادھر ادھر دیکھنے لگیں گے (یہ ڈانٹ یا جھڑکی نفخ صور کی ہو گی)

۲۱ ۔۔۔       یعنی یہ تو سچ مچ جزاء کا دن آ پہنچا جس کی انبیاء خبر دیتے اور ہم ہنسی اڑایا کرتے تھے۔

۲۲ ۔۔۔     یہ حق تعالیٰ کی طرف سے خطاب ہو گا۔

۲۳ ۔۔۔      یہ حکم ہو گا فرشتوں کو کہ ان سب کو اکٹھا کر کے دوزخ کا راستہ بتاؤ (تنبیہ) "ازواج" (جوڑوں) سے مراد ہیں ایک قسم کے گنہگار یا ان کی کافر بیویاں۔ اور "وماکانوا یعبدون من دون اللہ" سے اصنام و شیاطین وغیرہ مراد ہیں۔

۲۴ ۔۔۔      حکم کے بعد کچھ دیر ٹھہرائیں گے تاکہ ان سے ایک سوال کیا جائے جو آگے "مالکم لا تناصرون"میں مذکور ہے۔

۲۶ ۔۔۔       یعنی دنیا میں تو "نحن جمیع منتصر" کہا کرتے تھے (کہ ہم آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں) آج کیا ہوا کہ کوئی اپنے ساتھی کی مدد نہیں کرتا۔ بلکہ ہر ایک بدون کان ہلائے ذلیل ہو کر پکڑا ہوا چلا آ رہا ہے۔

۲۸ ۔۔۔      "یمین" (داہنے ہاتھ) میں عموماً زور و قوت زائد ہوتی ہے یعنی تم ہی تھے جو ہم پر چڑھے آتے تھے بہکانے کو زور دکھلا کر اور مرعوب کر کے۔ یا یمین سے مراد خیر و برکت کی جانب لی جائے یعنی تم ہی تھے کہ ہم پر چڑھائی کرتے تھے، بھلائی اور نیکی سے روکنے کے لیے۔ یہ گفتگو اتباع اور متبوعین (زبردستوں اور زیردستوں) کے درمیان ہو گی۔

۳۲ ۔۔۔     یعنی خود تو ایمان نہ لائے ہم پر الزام رکھتے ہو۔ ہمارا تم پر کیا زور تھا جو دل میں ایمان نہ گھسنے دیتے تم لوگ خود ہی عقل و انصاف کی حد سے نکل گئے کہ بے لوث ناصحین کا کہنا نہ مانا اور ہمارے بہکائے میں آ گئے اگر عقل و فہم اور عاقبت اندیشی سے کام لیتے تو ہماری باتوں پر کبھی کان نہ دھرتے۔ رہے ہم سو ظاہر ہے خود گمراہ تھے، ایک گمراہ سے بجز گمراہی کی طرف بلانے کے اور کیا توقع ہو سکتی ہے۔ ہم نے وہ ہی کیا جو ہمارے حال کے مناسب تھا لیکن تم کو کیا مصیبت نے گھیرا تھا کہ ہمارے چکموں میں آ گئے۔ بہرحال جو ہونا تھا ہو چکا۔ خدا کی حجت ہم پر قائم ہوئی اور اس کی وہ ہی بات "لأملأن جہنم منک وممن تبعک الخ"ثابت ہو کر رہی۔ آج ہم سب کو اپنی اپنی غلط کاریوں اور بد معاشیوں کا مزہ چکھنا ہے۔

۳۳ ۔۔۔      یعنی سب مجرم اور درجہ بدرجہ عذاب میں شریک ہوں گے۔ جیسے جرم میں شریک تھے۔

۳۵ ۔۔۔     یعنی ان کا کبر و غرور مانع ہے کہ نبی کے ارشاد سے یہ کلمہ (لا الہ الا اللہ) زبان پر لائیں جس سے ان کے جھوٹے معبودوں کی نفی ہوتی ہے خواہ دل میں اسے سچ ہی سمجھتے ہوں۔

۳۷ ۔۔۔     یعنی شاعروں کا جھوٹ تو مشہور ہے۔ پھر اس راستباز ہستی کو شاعر کیسے کہتے ہو جو دنیا میں خالص سچائی لے کر آیا ہے اور سارے جہان کے سچوں کی تصدیق کرتا ہے۔ کیا مجنون اور دیوانے ایسے صحیح اور پختہ اصول پیش کیا کرتے ہیں؟

۳۹ ۔۔۔       یعنی انکارِ توحید اور ان گستاخیوں کا مزہ چکھو گے جو بارگاہِ رسالت میں کر رہے ہو۔ جو کچھ کرتے تھے ایک دن سب سامنے جائے گا۔

۴۰ ۔۔۔       یعنی ان کا کیا ذکر۔ وہ تو ایک قسم ہی دوسری ہے جس پر حق تعالیٰ نوازش و کرم فرمائے گا۔

۴۲ ۔۔۔     ۱:یعنی عجیب و غریب میوے کھانے کو ملیں گے۔ جن کی پوری صفت تو اللہ ہی کو معلوم ہے ہاں کچھ مختصر سی بندوں کو بھی بتلا دی ہے جیسے فرمایا "لا مقطوعۃٍ ولا ممنوعۃٍ" (واقعہ، رکوع۱)

۲: خدا ہی جانے کیا کیا اعزاز و اکرام ہوں گے۔

۴۷ ۔۔۔     یعنی مزہ اور نشاط پورا ہو گا۔ اور دنیا کی شراب میں جو خرابیاں ہوتی ہیں ان کا نام و نشان نہ ہو گا نہ سر گرانی ہو گی نہ نشہ چڑھے گا، نہ قے آئے گی، نہ پھیپھڑے وغیرہ خراب ہوں گے، نہ اس کی نہریں خشک ہو کر ختم ہو سکیں گی۔

۴۸ ۔۔۔      یعنی شرم و ناز سے نگاہ نیچی رکھنے والی حوریں جو اپنے ازواج کے سوا کسی دوسرے کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھیں۔

۴۹ ۔۔۔      یعنی صاف و شفاف رنگ ہو گا جیسے انڈا جس کو پرند اپنے پروں میں نیچے چھپائے رکھے کہ نہ داغ لگے نہ گردو غبار پہنچے۔ یا انڈے کے اندر کی سفید تہ جو سخت چھلکے کے نیچے پوشیدہ رہتی ہے۔ اور بعض نے کہا کہ شتر مرغ کے انڈے مراد ہں جو بہت خو شرنگ ہوتے ہیں۔ بہرحال تشبیہ صفائی یا خو شرنگ ہونے میں ہے سفیدی میں نہیں۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا۔"کأنہن الیاقوت والمر جان" (رحمن، رکوع۲)

۵۳ ۔۔۔     یعنی یاران جلسہ جمع ہوں گے اور شراب طہور کا جام چل رہا ہو گا۔ اس عیش و تنعم کے وقت اپنے بعض گذشتہ حالات کا مذاکرہ کریں گے۔ ایک جتنی کہے گا کہ میاں دنیا میں میرا ایک ملنے والا تھا۔ جو مجھے آخرت پر یقین رکھنے کی وجہ سے ملامت کیا کرتا اور احمق بنایا کرتا تھا۔ اس کے نزدیک یہ بالکل مہمل بات تھی کہ ایک شخص مٹی میں مل جائے اور گوشت پوست کچھ باقی نہ رہے محض بوسیدہ ہڈیاں رہ جائیں، پھر اسے اعمال کا بدلہ دینے کے لیے از سر نو زندہ کر دیں؟ بھلا ایسی بے تکی بات پر کون یقین کر سکتا ہے؟

۵۴ ۔۔۔      یعنی وہ ساتھی یقیناً دوزخ میں پڑا ہو گا۔ آؤ ذرا جھانک کر دیکھیں کس حال میں ہے۔ (یہ اس جنتی کا مقولہ ہوا۔ اور بعض کہتے ہیں کہ یہ مقولہ اللہ کا ہے۔ یعنی حق تعالیٰ فرمائیں گے کہ تم جھانک کر اس کو دیکھنا چاہتے ہو)

۵۷ ۔۔۔     یعنی اس جنتی کو اپنے ساتھی کا حال دکھلا دیا جائے گا کہ ٹھیک دوزخ کی آگ میں پڑا ہوا ہے۔ یہ حال دیکھ کر اسے عبرت ہو گی اور اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان یاد آئے گا۔ کہے گا، کم بخت! تو نے تو مجھے بھی اپنے ساتھ برباد کرنا چاہا تھا۔ محض اللہ کے احسان نے دستگیری فرمائی جو اس مصیبت سے بچا لیا اور میرا قدم راہ ایمان و عرفان سے ڈگمگانے نہ دیا ورنہ آج میں بھی تیری طرح پکڑا ہوا آتا۔ اور اس دردناک عذاب میں گرفتار ہوتا۔

۶۱ ۔۔۔     اس وقت فرط مسرت سے کہے گا کہ کیا یہ واقعہ نہیں کہ اس پہلی موت کے سوا جو دنیا میں آ چکی اب ہم کو کبھی مرنا نہیں اور نہ کبھی اس عیش و بہار سے نکل کر تکلیف و عذاب کی طرف جانا ہے۔ خدا تعالیٰ کے فضل و رحمت سے اسی تنعم و رفاہیت میں ہمیشہ رہیں گے۔ بیشک بڑی بھاری کامیابی اسی کو کہتے ہیں اور یہ ہی وہ اعلیٰ مقصد ہے جس کی تحصیل کے لیے چاہیے کہ ہر طرح کی محنتیں اور قربانیاں گوارا کی جائیں۔

۶۴ ۔۔۔       اوپر بہشتیوں کی مہمانی کا ذکر تھا۔ یہاں سے دوزخیوں کی مہمانی کا حال سناتے ہیں۔ "زقوم" کسی درخت کا نام ہے جو سخت کڑوا، بدذائقہ ہوتا ہے۔ جیسے ہمارے یہاں تھوہر، یا سیہنڈ، دوزخ کے اندر حق تعالیٰ نے اپنی قدرت سے ایک درخت اگایا ہے اس کو یہاں "شجرۃ الزقوم" سے موسوم کیا۔ وہ ایک بلا ہے ظالموں کے واسطے آخرت میں۔ کیونکہ جب دوزخیے بھوک سے بیقرار ہوں گے تو یہ ہی کھانے کو دیا جائے گا اور اس کا حلق سے اتارنا یا اترنے کے بعد ایک خاص اثر پیدا کرنا سخت تکلیف دہ اور مستقل عذاب ہو گا اور دنیا میں بھی ایک طرح کی بلا اور آزمائش ہے کہ قرآن میں اس کا ذکر سن کر گمراہ ہوتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ سبز درخت دوزخ کی آگ میں کیونکر اگا۔ (حالانکہ ممکن ہے اس کا مزاج ہی ناری ہو جیسے آگ کا کیڑا سمندر" آگ میں زندہ رہتا ہے (اور سہارنپور کے کمپنی باغ میں بعض درختوں کی تربیت آگ کے ذریعہ ہوتی ہے) کسی نے کہا "زقوم" فلاں لغت میں کھجور اور مکھن کو کہتے ہیں انہیں سامنے دیکھ کر ایک دوسرے کو بلاتے ہیں کہ آؤ زقوم کھائیں گے۔

۶۵ ۔۔۔       یعنی سخت بدنما شیطان کی صورت یا شیاطین کہا سانپوں کو۔ یعنی اس کا خوشہ سانپ کے سر کی طرح ہو گا جیسے ہمارے ہاں ایک درخت کو اسی تشبیہ سے "ناگ پھن" کہتے ہیں۔

۶۷ ۔۔۔     "زقوم" کھا کر پیاس لگے گی تو سخت جلتا پانی پلایا جائے گا جس سے آنتیں کٹ کر باہر آ پڑیں گی۔ "فقطع امعائہم" (محمد، رکوع۲) اعاذنا اللہ منہا۔

۶۸ ۔۔۔       یعنی بہت بھوکے ہوں گے تو آگ سے ہٹا کر یہ کھانا پانی کھلا پلا کر پھر آگ میں ڈال دیں گے۔

۷۰ ۔۔۔     یعنی پچھلے کافر اگلوں کی اندھی تقلید میں گمراہ ہوئے۔ جس راہ پر انہیں چلتے دیکھا اسی پر دوڑ پڑے۔ کنواں کھائی کچھ نہ دیکھا۔

۷۴ ۔۔۔      یعنی ہر زمانہ میں انجام سے آگاہ کرنے والے آخرت کا ڈر سنانے والے آتے رہے۔ آخر جنہوں نے نہ سنا اور نہ مانا دیکھ لو! ان کا انجام کیسا ہوا۔ بس اللہ کے وہ ہی چنے ہوئے بندے محفوظ رہے جن کو خدا کا ڈر اور عاقبت کی فکر تھی۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "ڈر سب ہی کو سناتے ہیں ان میں نیک بچتے ہیں اور بد کھیتے ہیں۔" آگے بعض منذرین (بالکسر) اور منذرین (بالفتح) کے قصے سنائے جاتے ہیں۔ مکذبین کی عبرت اور مومنین کی تسلی کے لیے۔

۸۲ ۔۔۔     تقریباً ہزار سال تک حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کو سمجھاتے اور نصیحت کرتے رہے۔ مگر ان کی شرارت اور ایذاء رسانی برابر بڑھتی رہی۔ آخر حضرت نوح نے مجبور ہو کر اپنے بھیجنے والے کی طرف متوجہ ہو کر عرض کیا۔ "قدرعا ربہ انی مغلوب فانتصر" (القمر، رکوع۱) " اے پروردگار! میں مغلوب ہوں آپ میری مدد کو پہنچئے۔ دیکھ لو کہ اللہ نے ان کی پکار کیسی سنی اور مدد کو کس طرح پہنچا۔ نوح علیہ السلام کو مع ان کے گھرانے کے رات دن کی ایذاء سے بچایا۔ پھر ہولناک طوفان کے وقت ان کی حفاظت کی۔ اور تنہا اس کی اولاد سے زمین کو آباد کر دیا۔ اور رہتی دنیا تک اس کا ذکر خیر لوگوں میں باقی چھوڑا۔ چنانچہ آج تک خلقت ان پر سلام بھیجتی ہے اور سارے جہان میں "نوح علیہ السلام" کہہ کر یاد کیے جاتے ہیں۔ یہ تو نیک بندوں کا انجام ہوا۔ دوسری طرف ان کے دشمنوں کا حال دیکھو کہ سب کے سب زبردست طوفان کی نذر کر دیے گئے۔ آج ان کا نام و نشان تک باقی نہیں۔ اپنی حماقتوں اور شرارتوں کی بدولت دنیا کا بیڑا غرق کرا کر رہے۔ (تنبیہ) اکثر علماء کا قول یہ ہی ہے کہ آج تمام دنیا کے آدمی حضرت نوح علیہ السلام کے تین بیٹوں (سام، حام، یافث) کی اولاد سے ہیں۔ جامع ترمذی کی بعض احادیث میں بھی اس کا ثبوت ملتا ہے۔ والتفصیل بطلب من مظانہ۔

۸۳ ۔۔۔     انبیاء علیہم السلام اصول دین میں سب ایک راہ پر ہیں، اور ہر پچھلا پہلے کی تصدیق و تائید کرتا ہے۔ اسی لیے ابراہیم کو نوح (علیہم السلام) کے گروہ سے فرمایا۔ "وان ہذہ أمۃً واحدۃً واناربکم فاتقون" (مومنون، رکوع۴)

۸۴ ۔۔۔       یعنی ہر قسم کے اعتقادی و اخلاقی روگ سے دل کو پاک کر کے اور دنیاوی خرخشوں سے آزاد ہو کر انکسار و تواضع کے ساتھ اپنے رب کی طرف جھک پڑا۔ اور اپنی قوم کو بھی بت پرستی سے باز رہنے کی نصیحت کی۔

۸۶ ۔۔۔       یعنی یہ آخر پتھر کی مورتیاں چیز کیا ہیں جنہیں تم اس قدر چاہتے ہو کہ اللہ کو چھوڑ کر ان کے پیچھے ہو لیے۔ کیا سچ مچ ان کے ہاتھ میں جہان کی حکومت ہے؟ یا کسی چھوٹے بڑے نقصان کے مالک ہیں؟ آخر سچے مالک کو چھوڑ کر ان جھوٹے حاکموں کی اتنی خوشامد اور حمایت کیوں ہے؟

۸۷ ۔۔۔     یعنی کیا اس کے وجود میں شبہ ہے؟ یا اس کی شان و رتبہ کو نہیں سمجھتے جو (معاذ اللہ) پتھروں کو اس کا شریک ٹھہرا رہے ہو۔ یا اس کے غضب و انتقام کی خبر نہیں؟ جو ایسی گستاخی پر جری ہو گئے ہو۔ آخر بتلاؤ تو سہی تم نے پروردگار عالم کو کیا خیال کر رکھا ہے۔

۹۱ ۔۔۔       ان کی قوم میں نجوم کا زور تھا۔ حضرت ابراہیم نے ان کے دکھانے کو تاروں کی طرف نظر ڈال کر کہا کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں (اور ایسا دنیا میں کون ہے جس کی طبیعت ہر طرح ٹھیک رہے کچھ نہ کچھ عوارض اندرونی یا بیرونی لگے ہی رہتے ہیں۔ یہ ہی تکلیف اور بدمزگی کی کیا کم تھی کہ ہر وقت قوم کی ردی حالت دیکھ کر کڑھتے تھے) یا یہ مطلب تھا کہ میں بیمار ہونے والا ہوں (بیماری نام ہے مزاج کے اعتدال سے ہٹ جانے کا۔ تو موت سے پہلے ہر شخص کو یہ صورت پیش آنے والی ہے) بہرحال حضرت ابراہیم کی مراد صحیح تھی۔ لیکن ستاروں کی طرف دیکھ کر "انی سقیم"کہنے سے لوگ یہ مطلب سمجھے کہ بذریعہ نجوم کے انہوں نے معلوم کر لیا ہے کہ عنقریب بیمار پڑنے والے ہیں۔ وہ لوگ اپنے ایک تہوار میں شرکت کرنے کے لیے شہر سے باہر جا رہے تھے۔ یہ کلام سن کر حضرت ابراہیم کو ساتھ جانے سے معذور سمجھا اور تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔ ابراہیم علیہ السلام کی غرض یہ ہی تھی کہ کوئی موقع فرصت اور تنہائی کا ملے تو ان جھوٹے خداؤں کی خبر لوں۔ چنانچہ بت خانہ میں جا گھسے اور بتوں کو خطاب کر کے کہا "یہ کھانے اور چڑھاوے جو تمہارے سامنے رکھے ہوئے ہیں کیوں نہیں کھاتے۔" باوجودیکہ تمہاری صورت کھانے والوں کی سی ہے (تنبیہ) تقریر بالا سے ظاہر ہو گیا کہ حضرت ابراہیم کا "انی سقیم" کہنا مطلب واقعی کے اعتبار سے جھوٹ نہ تھا، ہاں مخاطبین نے جو مطلب سمجھا اس کے اعتبار سے خلاف واقعہ تھا۔ اسی لیے بعض احادیث صحیحہ میں اس پر لفظ کذب کا اطلاق کیا گیا ہے۔ حالانکہ فی الحقیقت یہ کذب نہیں۔ بلکہ "توریہ" ہے اور اس طرح کا "توریہ" مصلحت شرعی کے وقت مباح ہے۔ جیسے حدیث ہجرت میں "ممن الرجل"کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "من المآء" اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک سوال کے جواب میں کہا "رجل یہدینی السبیل" ہاں چونکہ یہ توریہ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے رتبہ بلند کے لحاظ سے خلاف اولیٰ تھا۔ اس لیے بقاعدہ حسنات الابرابر سئیات المقربین" حدیث میں اس کو "ذنب" قرار دیا گیا۔ واللہ اعلم۔

۹۲ ۔۔۔     جب بتوں کی طرف سے کھانے کے متعلق کچھ جواب نہ ملا تو کہنے لگا کہ تم بولتے کیوں نہیں۔ یعنی اعضاء اور صورت تو تمہاری انسانوں کی سی بنا دی لیکن انسانوں کی روح تم میں نہ ڈال سکے۔ پھر تعجب ہے کہ کھانے پینے اور بولنے والے انسان، بے حس و حرکت انسان کے سامنے سر بسجود ہوں اور اپنی مہمات میں ان سے مدد مطلب کریں؟

۹۳ ۔۔۔      یعنی زور سے مار مار کر توڑ ڈالا۔ پہلے غالباً سورہ انبیاء میں یہ قصہ مفصل گزر چکا ہے۔

۹۴ ۔۔۔     لوگ جب اپنے میلے ٹھیلے سے واپس آئے، دیکھا بت ٹوٹے پڑے ہیں۔ قرائن سے سمجھا کہ ابراہیم کے سوا یہ کسی کا کام نہیں۔ چنانچہ سب ان کی طرف جھپٹ پڑے۔

۹۶ ۔۔۔      یعنی جس کسی نے بھی توڑا۔ مگر تم یہ احمقانہ حرکت کرتے کیوں ہو؟ کیا پتھر کی بے جان مورت جو خود تم نے اپنے ہاتھوں سے تراش کر تیار کی پرستش کے لائق ہو گی؟ اور جو اللہ تمہارا اور تمہارے ہر ایک عمل و معمول کا نیز ان پتھروں کا پیدا کرنے والا ہے، اس سے کوئی سروکار نہ تھا؟ پیدا تو ہر چیز کو وہ کرے اور بندگی دوسروں کی ہونے لگے، پھر دوسرے بھی کیسے جو مخلوق در مخلوق ہیں۔ آخر یہ کیا اندھیرا ہے؟

۹۸ ۔۔۔     جب ابراہیم علیہ السلام کی معقول باتوں کا کچھ جواب نہ بن پڑا تو یہ تجویز کی کہ ایک بڑا آتش خانہ بنا کر ابراہیم کو اس میں ڈال دو۔ اس تدبیر سے لوگوں کے دلوں میں بتوں کی عقیدت راسخ ہو جائے گی اور ہیبت بیٹھ جائے گی کہ ان کے مخالف کا انجام ایسا ہوتا ہے آئندہ کوئی ایسی جرأت نہ کرے گا مگر اللہ نے ان ہی کو نیچا دکھلایا۔ ابراہیم پر آگ گلزار کر دی گئی۔ جس سے علیٰ رؤس الاشہاد ثابت ہو گیا کہ تم اور تمہارے جھوٹے معبود سب مل کر خدائے واحد کے ایک مخلص بندے کا بال بیکا نہیں کر سکتے۔ آگ کی مجال نہیں کہ رب ابراہیم کی اجازت کے بدون ایک ناخن بھی جلا سکے۔

۹۹ ۔۔۔     جب قوم کی طرف سے مایوسی ہوئی اور باپ نے بھی سختی شروع کی تو حضرت ابراہیم نے ہجرت کا ارادہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو "شام" کا راستہ دکھلایا۔

۱۰۰ ۔۔۔       یعنی کنبہ اور وطن چھوٹا تو اچھی اولاد عطا فرما، جو دینی کام میں میری مدد کرے اور اس سلسلہ کو باقی رکھے۔

۱۰۱ ۔۔۔       یہاں سے معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم نے اولاد کی دعا مانگی اور خدا نے قبول کی اور وہ ہی لڑکا قربانی کے لیے پیش کیا گیا۔ موجودہ تورات سے ثابت ہے کہ جو لڑکا حضرت ابراہیم کی دعا سے پیدا ہوا وہ حضرت اسماعیل ہیں۔ اور اسی لیے ان کا نام "اسمٰعیل" رکھا گیا۔ کیونکہ "اسمٰعیل" دو لفظوں سے مرکب ہے۔ "سمع" اور "ایل"، "سمع" کے معنی سننے کے اور "ایل" کے معنی خدا کے ہیں۔ یعنی خدا نے حضرت ابراہیم کی دعا سن لی۔ "تورات" میں ہے کہ خدا نے حضرت ابراہیم سے کہا کہ اسماعیل کے بارے میں میں نے تیری سن لی اس بناء پر آیت حاضرہ میں جس کا ذکر ہے وہ حضرت اسماعیل ہیں۔ حضرت اسحاق نہیں۔ اور ویسے بھی ذبح وغیرہ کا قصہ ختم کرنے کے بعد حضرت اسحاق کی بشارت کا جداگانہ ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ آگے آتا ہے۔ "وبشرناہ باسحق نبیا الخ" معلوم ہوا کہ "فبشرناہ بلغلامٍ حلیمٍ۔" میں ان کے علاوہ کسی دوسرے لڑکے کی بشارت مذکور ہے۔ نیز اسحاق کی بشارت دیتے ہوئے ان کے نبی بنائے جانے کی بھی خوشخبری دی گئی اور سورہ ہود میں ان کے ساتھ ساتھ یعقوب کا مژدہ بھی سنایا گیا۔ جو حضرت اسحاق کے بیٹے ہوں گے۔ "ومن ورآءِ اسحق یعقوب" (ہود، رکوع۷) پھر کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کہ حضرت اسحاق ذبح ہوں۔ گویا نبی بنائے جانے اور اولاد عطا کیے جانے سے پیشتر ہی ذبح کر دیئے جائیں۔ لامحالہ ماننا پڑے گا کہ ذبح اللہ حضرت اسماعیل ہیں جن کے متعلق بشارت ولادت کے وقت نہ نبوت عطا فرمانے کا وعدہ ہوا نہ اولاد دیے جانے کا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ قربانی کی یادگار اور اس کی متعلقہ رسوم بنی اسماعیل میں برابر بطور وراثت منتقل ہوتی چلی آئیں۔ اور آج بھی اسماعیل کی روحانی اولاد ہی (جنہیں مسلمان کہتے ہیں) ان مقدس یادگاروں کی حامل ہے۔ موجودہ تورات میں تصریح ہے کہ قربانی کا مقام "مورا" یا "مریا" تھا۔ یہود و نصاریٰ نے اس مقام کا پتہ بتلانے میں بہت ہی دور ازکار احتمالات سے کام لیا ہے حالانکہ نہایت ہی اقرب اور بے تکلف بات یہ ہے کہ یہ مقام "مردہ" ہو جو کعبہ کے سامنے بالکل نزدیک واقعہ ہے اور جہاں سعی بین الصفا والمروۃ ختم کر کے معتمرین حلال ہوتے ہیں اور ممکن ہے "بلغ معہ السعی، میں اسی سعی کی طرف ایماء ہو۔ موطا امام مالک کی ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے "مروہ" کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ قربان گاہ یہ ہے۔ غالباً وہ اسی ابراہیم و اسماعیل کی قربان گاہ کی طرف اشارہ ہو گا۔ ورنہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں لوگ عموماً مکہ سے تین میل "منیٰ" میں قربانی کرتے تھے جیسے آج تک کی جاتی ہے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم کی اصل قربان گاہ "مروہ" تھی۔ پھر حجاج اور ذبائح کہ کثرت دیکھ کر منیٰ تک وسعت دے دی گئی۔ قرآن کریم میں بھی "ہدیا بالغ الکعبۃ" اور "ثم محلہآ الی البیت العتیق" فرمایا ہے جس سے کعبہ کا قرب ظاہر ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔ بہرحال قرائن و آثار یہ ہی بتلاتے ہیں کہ "ذبیح اللہ" وہ ہی اسماعیل تھے جو مکہ میں آخر رہے اور وہیں اس کی نسل پھیلی۔ تورات میں یہ بھی تصریح ہے کہ حضرت ابراہیم کو اپنے اکلوتے اور محبوب بیٹے کے ذبح کا حکم دیا گیا تھا اور یہ مسلم ہے کہ حضرت اسماعیل حضرت اسحاق سے عمر میں بڑے ہیں۔ پھر حضرت اسحاق علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام کی موجودگی میں اکلوتے کیسے ہو سکتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہاں حضرت ابراہیم کی دعاء کے جواب میں جس لڑکے کی بشارت ملی اسے "غلام حلیم" کہا گیا ہے۔ لیکن حضرت اسحاق علیہ السلام کی بشارت جب فرشتوں نے ابتداء خدا کی طرف سے دی تو "غلام علیم" سے تعبیر کیا۔ حق تعالیٰ کی طرف سے "حلیم" کا لفظ ان پر یا کسی اور نبی پر قرآن میں کہیں اطلاق نہیں کیا گیا۔ صرف اس لڑکے کو جس کی بشارت یہاں دی گئی اور اس کے باپ ابراہیم کو یہ لقب عطا ہوا ہے۔ "ان ابراہیم لحلیم اواہ منیب" (ہود، رکوع۷) اور "ان ابراہیم لاواہ حلیم" (توبہ، رکوع۱۴) جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہی دونوں باپ بیٹے اس لقب خاص سے ملقب کرنے کے مستحق ہوئے۔ "حلیم" اور "صابر" کا مفہوم قریب قریب ہے۔ اسی "غلام حلیم" کی زبان سے یہاں نقل کیا۔ ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین" دوسری جگہ صاف فرما دیا "واسمعیل وادریس وذا الکفل کل من الصابرین" (انبیاء، رکوع۶) شاید اسی لیے سورہ "مریم" میں حضرت اسماعیل کو "صادق الوعد" فرمایا کہ "ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین" کے وعدہ کو کس طرح سچا کر دکھایا۔ بہرحال "حلیم"، "صابر"، "صادق الوعد" کے القاب کا مصداق ایک ہی معلوم ہوتا ہے۔ یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام۔ "وکان عند ربہ مرضیا" سورہ "بقرہ" میں تعمیر کعبہ کے وقت حضرت ابراہیم و اسماعیل کی زبان سے جو دعا نقل فرمائی ہے اس میں یہ الفاظ بھی ہیں۔ "ربنا واجعلنا مسلمین لک ومن ذریتنا امۃً مسلمۃً لک" بعینہ اسی مسلم کے تثنیہ کو یہاں قربانی کے ذکر میں "فلما اسلما الخ" کے لفظ سے ادا کر دیا۔ اور ان ہی دونوں کی ذریت کو خصوصی طور پر "مسلم" کے لقب سے نامزد کیا۔ بیشک اس سے بڑھ کر اسلام و تفویض اور صبر تحمل کیا ہو گا جو دونوں باپ بیٹے نے ذبح کرنے اور ذبح ہونے کے متعلق دکھلایا۔ یہ اسی "اسلما" کا صلہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی ذریت کو "امت مسلمہ" بنا دیا فللہ الحمد علی ذلک۔

۱۰۲ ۔۔۔     یعنی جب اسماعیل بڑا ہو کر اس قابل ہو گیا کہ اپنے باپ کے ساتھ دوڑ سکے اور اس کے کام آ سکے اس وقت ابراہیم نے اپنا خواب بیٹے کو سنایا تاکہ اس کا خیال معلوم کریں کہ خوشی سے آمادہ ہوتا ہے یا زبردستی کرنی پڑے گی۔ کہتے ہیں کہ تین رات مسلسل یہ ہی خواب دیکھتے رہے۔ تیسرے روز بیٹے کو اطلاع کی، بیٹے نے بلا توقف قبول کیا کہنے لگا کہ ابا جان! (دیر کیا ہے) مالک کا جو حکم ہو کر ڈالیے (ایسے کام میں مشورہ کی ضرورت نہیں۔ امر الٰہی کے امتثال میں شفقت پدری مانع نہ ہونی چاہیے) رہا میں! سو آپ انشاء اللہ دیکھ لیں گے کہ کس صبر و تحمل سے اللہ کے حکم کی تعمیل کرتا ہوں ہزاروں ہزار رحمتیں ہوں ایسے بیٹے اور باپ پر۔

۱۰۳ ۔۔۔       تاکہ بیٹے کا چہرہ سامنے ہو مبادا محبت پدری جوش مارنے لگے، کہتے ہیں یہ بات بیٹے نے سکھلائی۔ آگے اللہ نے نہیں فرمایا کہ کیا ماجرا گزرا۔ یعنی کہنے میں نہیں آتا جو حال گزرا اس کے دل پر اور فرشتوں پر۔

۱۰۵ ۔۔۔     یعنی بس بس! رہنے دے۔ تو نے خواب سچا کر دکھایا۔ مقصود بیٹے کا ذبح کرانا نہیں۔ محض تیرا امتحان منظور تھا۔ سو اس میں پوری طرح کامیاب ہوا۔

۱۰۶ ۔۔۔      یعنی ایسے مشکل حکم کر کے آزماتے ہیں، پھر ان کو ثابت قدم رکھتے ہیں۔ تب درجے بلند دیتے ہیں۔ تورات میں ہے کہ جب ابراہیم نے بیٹے کو قربان کرنا چاہا اور فرشتہ نے ندا دی کہ ہاتھ روک لو، تو فرشتے نے یہ الفاظ کہے۔ "خدا کہتا ہے کہ چونکہ تو نے ایسا کام کیا اور اپنے اکلوتے بیٹے کو بچا نہیں رکھا۔ میں تجھ کو برکت دوں گا۔ اور تیری نسل کو آسمان کے ستاروں اور ساحل بحر کی ریت کی طرح پھیلا دوں گا۔" (تورات تکوین اصحاح۲۲، آیت ۱۵)

۱۰۷ ۔۔۔      یعنی بڑے درجہ کا جو بہشت سے آیا۔ یا بڑا قیمتی، فربہ، تیار۔ پھر یہ ہی رسم قربانی کی اسماعیل علیہ السلام کی عظیم الشان یادگار کے طور پر ہمیشہ کے لیے قائم کر دی۔

۱۰۹ ۔۔۔       آج تک دنیا ابراہیم کو بھلائی اور بڑائی سے یاد کرتی ہے۔ علیٰ نبینا و علیہ الف الف سلام و تحیۃ۔

۱۱۱ ۔۔۔      یعنی ہمارے اعلیٰ درجہ کے ایماندار بندوں میں۔

۱۱۲ ۔۔۔     معلوم ہوا وہ پہلی خوشخبری اسماعیل کی تھی۔ اور سارا قصہ ذبح کا ان ہی پر تھا۔

۱۱۳ ۔۔۔      حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یہ دونوں کہا دونوں بیٹوں کو۔ دونوں سے بہت اولاد پھیلی۔ اسحاق کی اولاد میں انبیاء بنی اسرائیل ہوئے۔ اور اسماعیل کی اولاد میں عرب ہیں جن میں ہمارے پیغمبر مبعوث ہوئے۔ یعنی اولاد میں سب یکساں نہیں، اچھے بھی جو بڑوں کا نام روشن رکھیں اور برے بھی جو اپنی بدکاریوں کی وجہ سے ننگ خاندان کہلانے کے مستحق ہیں۔ (تنبیہ) عموماً مفسرین نے "ومن ذریتہما" کی ضمیر "ابراہیم و اسحاق" کی طرف راجع کی ہے۔ مگر حضرت شاہ صاحب نے اسماعیل و اسحاق کی طرف راجع کر کے مضمون میں زیادہ وسعت پیدا کر دی۔

۱۱۵ ۔۔۔     یعنی فرعون اور اس کی قوم کے ظلم و ستم سے نجات دی۔ اور "بحر قلزم" سے نہایت آسانی کے ساتھ پار کر دیا۔

۱۱۶ ۔۔۔     یعنی فرعونیوں کا بیڑا غرق کر کے بنی اسرائیل کو غالب و منصور کیا۔ اور ہالکین کے اموال و املاک کا وارث بنایا۔

۱۱۷ ۔۔۔       یعنی تورات شریف جس میں احکام الٰہی بہت تفصیل و ایضاح سے بیان ہوئے ہیں۔

۱۱۸ ۔۔۔       یعنی افعال و اقوال میں استقامت بخشی۔ اور ہر معاملہ میں سیدھی راہ پر چلایا جو عصمت انبیاء کے لوازم میں سے ہے۔

۱۲۲ ۔۔۔     یعنی ہمارے کامل ایماندار بندوں میں سے ہیں۔

۱۲۵ ۔۔۔       حضرت الیاس علیہ السلام بعض کے نزدیک حضرت ہارون کی نسل سے ہیں۔ اللہ نے ان کو ملک شام کے ایک شہر "بعلبک" کی طرف بھیجا۔ وہ لوگ "بعل" نامی ایک بت کو پوجتے تھے۔ حضرت الیاس نے ان کو خدا کے غضب اور بت پرستی کے انجام بد سے ڈرایا۔

۱۲۶ ۔۔۔     یعنی یوں تو دنیا میں آدمی بھی تحلیل و ترکیب کر کے بظاہر بہت سی چیزیں بنا لیتے ہیں۔ مگر بہتر بنانے والا وہ ہے جو تمام اصول و فروع، جواہر و اعراض اور صفات و موصوفات کا حقیقی خالق ہے۔ جس نے تم کو اور تمہارے باپ دادوں کو پیدا کیا۔ پھر یہ کیسے جائز ہو گا کہ اس احسن الخالقین کو چھوڑ کر "بعل" بت کی پرستش کی جائے اور اس سے مدد مانگی جائے۔ جو ایک ظاہری طور پر بھی پیدا نہیں کر سکتا بلکہ اس کا وجود خود اپنے پرستاروں کا رہین منت ہے۔ انہوں نے جیسا چاہا بنا کر کھڑا کر دیا۔

۱۲۷ ۔۔۔      یعنی جھٹلانے کی سزا مل کر رہے گی۔

۱۲۸ ۔۔۔      یعنی سب نے جھٹلایا۔ مگر اللہ کے چنے ہوئے بندوں نے تکذیب نہیں کی۔ لہٰذا وہ ہی سزا سے بچے رہیں گے۔

۱۳۰ ۔۔۔       "الیاس" کو "الیاسین" بھی کہتے ہیں کہ جیسے "طور سینا" کو ،طور سینین" کہہ دیا جاتا ہے یا "الیاسین" سے حضرت الیاس کے متبعین مراد ہوں۔ اور بعض نے "آل یاسین" بھی پڑھا ہے۔ تو "یاسین" ان کے باپ کا نام ہو گا۔ یا ان ہی کا نام "یاسین" اور لفظ "آل" مقحم ہو جیسے "کماصلیت علی ال ابراہیم"میں۔ یا "اللہم صل علی ال ابی اوفی"میں ہے۔ واللہ اعلم۔

۱۳۵ ۔۔۔     یعنی ان کی زوجہ جو معذبین کے ساتھ ساز باز رکھتی تھی۔

۱۳۶ ۔۔۔      یعنی لوط اور اس کے گھر والوں کے سوا دوسرے سب باشندوں پر بستی الٹ دی گئی۔ یہ قصہ پہلے کئی جگہ مفصل گزر چکا ہے۔

۱۳۸ ۔۔۔     یہ مکہ والوں کو فرمایا۔ کیونکہ "مکہ" سے "شام" کو جو قافلے آتے جاتے تھے، قوم لوط کی الٹی ہوئی بستیاں ان کے راستہ سے نظر آتی تھیں۔ یعنی دن رات ادھر گزرتے ہوئے یہ نشان دیکھتے ہیں پھر بھی عبرت نہیں ہوتی، کیا نہیں سمجھتے کہ جو حال ایک نافرمان قوم کا ہوا وہ دوسری نافرمان اقوام کا بھی ہو سکتا ہے۔

۱۴۱ ۔۔۔     کشتی دریا میں چکر کھانے لگی۔ لوگوں نے کہا اس میں کوئی غلام ہے اپنے مالک سے بھاگا ہوا۔ سب کے ناموں پر کئی مرتبہ قرعہ ڈالا۔ ہر مرتبہ ان کا نام نکلا۔ یہ قصہ سورہ "یونس" اور سورہ "انبیاء" میں مفصل گزر چکا ہے وہاں اس کی تحقیق ملاحظہ کی جائے۔

۱۴۲ ۔۔۔       الزام یہ ہی تھا کہ خطائے اجتہادی سے حکم الٰہی کا انتظار کیے بغیر بستی سے نکل پڑے اور عذاب کے دن کی تعیین کر دی۔

۱۴۴ ۔۔۔       یعنی چونکہ مچھلی کے پیٹ میں بھی اور پیٹ میں جانے سے پہلے بھی اللہ پاک کو بہت یاد کرتا تھا اس لیے ہم نے اس کو جلدی نجات دے دی۔ ورنہ قیامت تک اس کے پیٹ سے نکلنا نصیب نہ ہوتا مچھلی کی غذا بن جاتے۔ (تنبیہ) "للبث فی بطنہ"الیٰ آخرہ۔ کنایہ ہے کبھی نہ نکلنے سے۔ اور یہ واقعہ دریائے "فرات" کا ہے۔ علامہ محمود آلوسی بغدادی نے لکھا ہے کہ ہم نے خود اس دریا میں بہت بڑی بڑی مچھلیاں مشاہدہ کی ہیں تعجب نہ کیا جائے۔ پہلے گزر چکا ہے کہ شکم ماہی میں ان کی تسبیح یہ تھی۔ "لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین"

۱۴۶ ۔۔۔     مچھلی کو حکم ہوا اس نے حضرت یونس کو اپنے پیٹ سے نکال کر ایک میدان میں ڈال دیا غالباً کافی غذا و ہوا وغیرہ نہ پہنچنے کی وجہ سے بیمار اور نحیف ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ دھوپ کی شعاع اور مکھی وغیرہ کا بدن پر بیٹھنا بھی ناگوار ہوتا تھا۔ اللہ کی قدرت سے وہاں کدو کی بیل اگ آئی۔ اس کے پتوں نے ان کے جسم پر سایہ کر لیا اور اسی طرح قدرت خداوندی سے غذا وغیرہ کا سامان بھی ہو گیا۔

۱۴۷ ۔۔۔       یعنی اگر صرف عاقل بالغ گنتے تو لاکھ تھے اور اگر سب چھوٹوں بڑوں کو شامل گنتے تو زیادہ تھے یا یوں کہو کہ ایک لاکھ سے گزر کر دو لاکھ تک نہیں پہنچے تھے۔ ہزار کی کسر نہ لگاؤ تو ایک لاکھ کہہ لو۔ اور کسر لگائی جائے تو لاکھ کے اوپر چند ہزار زائد ہوں گے۔ واللہ اعلم۔

۱۴۸ ۔۔۔     یعنی ایمان و یقین کی بدولت عذاب الٰہی سے بچ گئے اور اپنی عمر مقدر تک دنیا کا فائدہ اٹھاتے رہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "وہی قوم جس سے بھاگے تھے ان پر ایمان لا رہی تھی۔ ڈھونڈتی تھی کہ یہ جا پہنچے۔ ان کو بڑی خوشی ہوئی۔ یہ قصہ پہلے گزر چکا ہے۔ سورہ "یونس" اور سورہ "انبیاء" میں دیکھ لیا جائے۔

۱۵۲ ۔۔۔      یعنی انبیاء کا حال تو سن لیا کہ حضرت نوح، ابراہیم، اسماعیل، موسیٰ، ہارون، الیاس، لوط، یونس علیہم السلام سب کی مشکلات اللہ کی امداد و اعانت سے حل ہوئیں۔ کوئی بڑے سے بڑا مقرب اس کی دستگیری سے بے نیاز نہیں۔ اب آگے تھوڑا سا فرشتوں اور جنوں کا حال سن لو۔ جن کی نسبت خدا جانے کیا کیا واہی تباہی عقیدے تراش کر رکھے ہیں۔ چنانچہ عرب کے بعض قبائل کہتے تھے کہ فرشتے خدا کی بیٹیاں ہیں۔ جب پوچھا جاتا کہ ان کی مائیں کون ہیں تو بڑے بڑے جنوں کی لڑکیوں کو بتلاتے۔ اس طرح (العیاذ باللہ) خدا کا ناطہ جنوں اور فرشتوں دونوں سے جوڑ رکھا تھا۔ آگے دونوں کا حال ذکر کیا جاتا ہے مگر اس سے پہلے بطور طوطیہ و تہمید کفار عرب کے اس لچر پوچ عقیدہ کا رد کیا گیا ہے۔ چنانچہ ابتدائے سورہ سے اپنی عظمت و وحدانیت کے دلائل اور قصص کے ضمن میں اپنی قدرت قاہرہ کے آثار بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ اب ذرا ان احمقوں سے پوچھئے کیا اتنی بڑی عظمت و قدرت والا خدا (معاذ اللہ) اپنے لیے اولاد بھی تجویز کرتا تو بیٹیاں لیتا اور تم کو بیٹے دیتا۔ ایک تو یہ گستاخی کہ خداوند قدوس کے لیے اولاد تجویز کی، اور پھر اولاد بھی کمزور اور گھٹیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ فرشتوں کو مونث (عورت) تجویز کیا۔ کیا جس وقت ہم نے فرشتوں کو پیدا کیا تھا، یہ کھڑے دیکھ رہے تھے کہ انہیں عورت بنایا گیا ہے۔ لاحول ولا قوۃ الا باللہ اس جہالت کا کیا ٹھکانا ہے۔

۱۵۵ ۔۔۔     یعنی کچھ تو سوچو۔ عیب کرنے کو بھی ہنر چاہیے۔ ایک غلط عقیدہ بنانا تھا تو ایسا بالکل ہی بے تکا تو نہ ہونا چاہیے تھا۔ یہ کون سا انصاف ہے کہ اپنے لیے تو بیٹے پسند کرو اور خدا سے بیٹیاں پسند کراؤ۔

۱۵۷ ۔۔۔      یعنی آخر یہ مہمل اور بے تکی بات نکالی کہاں سے۔ عقل و فہم اور اصول سے تو اس کو لگاؤ نہیں۔ پھر کیا کوئی نقلی سند اس عقیدہ کی رکھتے ہو۔ ایسا ہے تو بسم اللہ وہ ہی دکھلاؤ۔

۱۵۹ ۔۔۔     یعنی احمقوں نے جنوں کے ساتھ معاذ اللہ دامادی کا رشتہ قائم کر دیا۔ سبحان اللہ کیا باتیں کرتے ہیں۔ موقع ملے تو ذرا ان جنوں سے پوچھ آؤ کہ وہ خود اپنی نسبت کیاسمجھتے ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ دوسرے مجرموں کی طرح وہ بھی اللہ کے روبرو پکڑے ہوئے آئیں گے کیا داماد کا سسرال کے ساتھ یہ ہی معاملہ ہوتا ہے۔ بعض سلف نے نسب سے مراد یہ لی ہے کہ وہ لوگ شیاطین الجن کو اللہ تعالیٰ کا حریف مقابل سمجھتے تھے۔ جیسے مجوس "یزدان" اور "اہرمن" کے قائل ہیں۔ یعنی ایک نیکی کا خدا، اور دوسرا بدی کا۔

۱۶۰ ۔۔۔     یعنی جنوں میں سے ہوں یا آدمیوں میں سے اللہ کے چنے ہوئے بندے ہی اس پکڑ دھکڑ سے آزاد ہیں۔ معلوم ہوا وہاں کسی کا رشتہ ناتا نہیں۔ صرف بندگی اور اخلاص کی پوچھ ہے۔

۱۶۳ ۔۔۔       بہت لوگ سمجھتے ہیں کہ جنوں کے ہاتھ میں بدی کی اور فرشتوں کے ہاتھ میں نیکی کی باگ ہے۔ یہ جس کو چاہیں بھلائی پہنچائیں اور خدا کا مقرب بنا دیں اور وہ جسے چاہیں برائی اور تکلیف میں ڈال دیں یا گمراہ کر دیں شاید ان ہی مفروضہ اختیارات کی بناء پر انہیں اولاد یا سسرال بنایا ہو گا۔ اس کا جواب دیا کہ تمہارے اور ان کے ہاتھ میں کوئی مستقل اختیار نہیں۔ تم اور جن شیاطین کو تم پوجتے ہو سب مل کر ایک قدرت نہیں رکھتے کہ بدون مشیت ایزدی ایک متنفس کو بھی زبردستی گمراہ کر سکو۔ گمراہ وہ ہی ہو گا جسے اللہ نے اس کی سوئے استعداد کی بناء پر دوزخی لکھ دیا اور اپنی بدکاری کی وجہ سے از خود دوزخ میں پہنچ گیا۔

۱۶۴ ۔۔۔       یہ کلام اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی طرف سے گویا ان کی زبان سے فرمایا۔ جیسے بہت جگہ آدمیوں کی زبان سے دعائیں فرمائی ہیں۔ یعنی ہر فرشتہ کی ایک حد مقرر ہے۔ اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ یہ اس پر فرمایا کہ کافر کہتے ہیں فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں جنوں کی عورتوں سے پیدا ہوئیں۔ سو جنوں کو اپنا حال خوب معلوم ہے اور فرشتے یوں کہتے ہیں ان کو بھی حکم الٰہی سے ذرا تجاوز کرنے کی گنجائش نہیں۔

۱۶۵ ۔۔۔     یعنی اپنی اپنی حد پر ہر کوئی اللہ کی بندگی اور اس کا حکم سننے کے لیے کھڑا رہتا ہے۔ مجال نہیں آگے پیچھے سرک جائے۔

۱۶۶ ۔۔۔       یہاں تک فرشتوں کا کلام ختم ہوا۔ آگے اہل مکہ کا حال بیان فرماتے ہیں۔

۱۷۰ ۔۔۔     عرب لوگ انبیاء کے نام سنتے تھے ان کے علم سے خبردار نہ تھے تو یہ کہتے یعنی اگر ہم کو پہلے لوگوں کے علوم حاصل ہوتے یا ہمارے ہاں کوئی کتاب اور نصیحت کی بات اترتی تو ہم خوب عمل کر کے دکھلاتے اور معرفت و عبادت میں ترقی کر کے اللہ کے مخصوص و منتخب بندوں میں شامل ہو جاتے۔ اب جو ان کے اندر نبی یا تو پھر گئے وہ قول و قرار کچھ یاد نہ رکھا۔ سو اس انکار و انحراف کا جو انجام ہونے والا ہے عنقریب دیکھ لیں گے۔

۱۷۳ ۔۔۔      یعنی یہ بات علم الٰہی میں ٹھہر چکی ہے کہ منکرین کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ اپنے پیغمبروں کو مدد پہنچاتا ہے اور آخرکار خدائی لشکر ہی غالب ہو کر رہتا ہے خواہ درمیان میں حالات کتنے ہی پلٹے کھائیں۔ مگر آخری فتح اور کامیابی مخلص بندوں ہی کے لیے ہے۔ باعتبار حجت و برہان کے بھی اور باعتبار ظاہری تسلط و غلبہ کے بھی۔ ہاں شرط یہ ہے کہ "جند" فی الواقع "جند اللہ" ہو۔

۱۷۵ ۔۔۔      یعنی ابھی چند روز انہیں کچھ نہ کہیے۔ صبر کے ساتھ آپ ان کا حال دیکھتے رہیے اور یہ اپنا انجام لیں گے چنانچہ دیکھ لیا۔

۱۷۷ ۔۔۔       شاید "فسوف یبصرون" سن کر کہا ہو گا کہ پھر دیر کیا ہے ہم کو ہمارا انجام جلدی دکھلا دو۔ اس کا جواب دیا کہ اپنے اوپر جو آفت لائے جانے کی جلدی مچا رہے ہو، جب وہ آئے گی تو بہت برا وقت ہو گا۔ عذاب الٰہی اس طرح آئے گا جیسے کوئی دشمن گھات میں لگا ہوا ہو اور صبح کے وقت یکایک میدان میں اتر کر چھاپہ مارا جائے۔ عذاب آنے کے وقت یہ ہی حشر ان لوگوں کا ہو گا جنہیں پہلے سے ڈر سنا کر ہشیار کر دیا گیا تھا۔ چنانچہ فتح مکہ وغیرہ میں ایسا ہی ہوا۔

۱۷۹ ۔۔۔     شاید پہلا وعدہ دنیا کے عذاب کا تھا اور یہ آخرت کے عذاب کا ہو، یعنی آپ دیکھتے جائیے اب آگے چل کر آخرت میں یہ کافر کیا کچھ دیکھتے ہیں۔

۱۸۲ ۔۔۔    خاتمہ سورت پر تمام اصولی مضامین کا خلاصہ کر دیا۔ یعنی اللہ کی ذات تمام عیوب و نقائص سے پاک اور تمام محاسن و کمالات کی جامع ہے۔ سب خوبیاں اسی کی ذات میں مجتمع ہیں۔ اور انبیاء و رسل پر اس کی طرف سے سلام آتا ہے۔ جو ان کی عظمت و عصمت اور سالم و منصور ہونے کی دلیل ہے۔ (تنبیہ) احادیث سے بعد نماز اور ختم مجلس پر ان آیات کے پڑھنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے سورہ ہذا کے فوائد کو ان ہی آیات متبرکہ پر ختم کرتا ہوں۔ اے اللہ میرا خاتمہ بھی اسی عقیدہ محکم پر کیجیو۔ "سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا يَصِفُونَ۔ وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ۔ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔ تمت فوائد الصافات۔