تفہیم القرآن

سورة صٓ

نام

آغاز ہی کے حرف  ص   سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے۔  

زمانۂ نزول

جیسا کہ آگے چل کر بتایا جائے گا، بعض روایات کی رو سے یہ سورۃ اس زمانے میں نازل ہوئی  تھی جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ معظمہ میں  علانیہ دعوت کا آغاز کیا تھا اور قریش کے سرداروں میں اس  پر کھلبلی مچ گئی تھی۔ اس لحاظ سے اس کا زمانہ نزول تقریباً نبوت کا چوتھا سال قرار پاتا ہے۔  بعض دوسرے روایات اسے حضرت عمر کے ایمان لانے کے بعد کا واقعہ بتاتی ہیں،  اور معلوم ہے کہ وہ ہجرت حبشہ کے بعد ایمان لائے تھے۔  ایک اور سلسلہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابوطالب کے آخری مرض کے زمانہ میں وہ معاملہ پیش آیا تھا جس پر یہ سورۃ نازل ہوئی۔ اسے اگر صحیح مانا جائے تو اس کا زمانہ نزول نبوت کا دسواں یا گیارہواں سال ہے۔

تاریخی پس منظر  : امام احمد، نسائی، ترمذی، ابن جریر، ابن ابی شیبہ، ابن ابی حاتم اور محمد بن اسحاق وغیرہ نے جو روایات نقل کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ جب ابو طالب بیمار ہوئے اور قریش کے سرداروں نے محسوس کیا کہ اب یہ ان کا آخری وقت ہے تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا کہ چل کر شیخ سے بات کرنی چاہیے۔  وہ ہمارا اور اپنے بھتیجے کا جھگڑا چکا جائیں تو اچھا ہے۔  کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا انتقال ہو جائے  اور ان کے بعد ہم محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے ساتھ کوئی سخت معاملہ کریں اور عرب کے لوگ ہمیں طعنہ دیں کہ جب تک شیخ زندہ تھا، یہ لوگ اس کا لحاظ کرتے رہے،  اب اس کے مرنے کے بعد ان لوگو ں نے اس کے بھتیجے پر ہاتھ ڈالا ہے۔  اس رائے پر سب کا اتفاق ہو گیا اور تقریباً ۲۵ سرداران قریش، جن میں ابو جہل، ابو سفیان، امیہ بن خلف، عاص بن وائل، اسود بن المطلب، عقنہ بن ابی معیط، عتبہ اور شیبہ شامل تھے،  ابو طالب کے پاس پہنچے۔  ان لوگوں نے پہلے تو حسب معمول نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف اپنی شکایات بیان کیں،  پھر کہا ہم آپ کے سامنے ایک انصاف کی بات پیش کرنے آئے ہیں۔  آپ کا بھتیجا ہمیں ہمارے دین پر چھوڑ دے اور ہم اسے اس کے دین پر چھوڑے دیتے ہیں۔  وہ جس معبود کی عبادت کرنا چاہے کرے،  ہمیں اس سے کوئی تعرض نہیں،  مگر وہ ہمارے معبودوں کی مذمت نہ کرے اور یہ کوشش نہ کرتا پھرے کہ ہم اپنے معبودوں کو چھوڑ دیں۔  اس شرط پر آپ ہم سے اس کی صلح کرا دیں۔  ابو طالب نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بلایا اور آپ سے کہا کہ بھتیجے،  یہ تمہاری قوم کے لوگ میرے پاس آئے ہیں۔  ان کی خواہش ہے  کہ تم ایک  منصفانہ بات پر ان سے اتفاق کر لو تاکہ تمہارا اور ان کا جھگڑا ختم ہو جائے۔  پھر انہیں نے وہ بات حضورؐ کو بتائی جو سرداران قریش نے ان سے  کہی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب میں فرمایا، چچا جان، میں تو ان کے سامنے ایک ایسا کلمہ پیش کرتا ہوں جسے اگر یہ مان لیں تو عرب ان کا تابع فرمان اور عجم اور کا باج گزار ہو جائے ( حضورؐ کے اس ارشاد کو مختلف راویوں نے مختلف الفاظ میں نقل کیا ہے۔  ایک روایت یہ ہے کہ آپ نے فرمایا  انید اھم علیٰ کلمۃ واحدۃ یقولو نھا تدین لھم بھا العرت و تؤدّی الیھم بھا العجم الجزیرۃ۔ دوسری روایت میں الفاظ یہ ہیں : ادعو ھم الیٰ ان یتکلمو ا بکلمۃ تدین لھم بھا العرب ویملکون بھا لعجم۔ ایک اور روایت میں ہے کہ آپؐ نے ابو طالب کے بجائے قریش کے لوگوں کو خطاب کر کے فرمایا : کلمۃ واحدۃ تعطو نیھا تملکون بھا العرب و تدین لکم بھا لعجم   اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں : ارأیتم ان اعطیتکم کلمۃ تکلمتم بھا ملکتم بھا العرب و دانت لکم بھا العجم۔ ان  لفظی اختلافات کے باوجود مدعا سب کا یکساں ہے،  یعنی حضورؐ نے ان سے کہا کہ اگر میں ایک ایسا کلمہ تمہارے سامنے پیش کروں جسے قبول کر کے تم عرب و عجم کے مالک ہو جاؤ گے تو بتاؤ کہ یہ زیادہ بہتر بات ہے یا وہ جسے تم انصار کی بات کہہ کر میرے سامنے پیش کر رہے ہو؟ تمہاری بھلائی اس کلمے کو مان لینے میں ہے یا اس میں کہ جس حالت میں تم پڑے ہو اس میں تم کو پڑا رہنے دوں اور بس اپنی جگہ آپ ہی اپنے خدا کی عبادت کرتا رہوں؟یہ)۔ یہ سن کر پہلے تو وہ لوگ سٹ پٹا گئے۔  ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آخر کیا کہہ کر ایسے ایک مفید کلمے تو رد کر دیں۔  پھر کچھ سنبھل کر بولے،  تم ایک کلمہ کہتے ہو، ہم ایسے دس کلمے کہنے کس تیار ہیں،  مگر یہ تو بتاؤ کہ وہ کلمہ کیا ہ؟ آپ نے فرمایا  لَآ اِلٰہَ اِلَّا ا للہ۔ اس پر وہ سب یک بارگی اٹھ کھڑے ہوئے اور وہ باتیں کہتے ہوئے نکل گئے جو اس سورۃ کے ابتدائی حصے میں اللہ تعالیٰ نے نقل کی ہیں۔  

ابن سعد نے طبقات میں یہ سارا قصہ اسی طرح بیان کیا ہے جس طرح اوپر مذکور ہوا، مگر ان کی روایت کے مطابق یہ ابو طالب کی مرض وفات کا نہیں بلکہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حضورؐ نے دعوتِ عام کی ابتدا کی تھی اور مکہ میں پے در پے یہ خبریں پھیلنی شروع ہو گئی تھیں کہ آج فلاں آدمی مسلمان ہوا اور کل فلاں۔  اس وقت سرداران قریش یکے بعد دیگرے کئی وفد ابو طالب کے پاس  لے کر پہنچے تھے تاکہ وہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو اس تبلیغ سے روک دیں اور انہی وفود میں سے ایک وفد کے ساتھ یہ گفتگو ہوئی تھی۔

زَمخشری، رازی نیسا بوری اور بعض دوسرے مفسرین کہتے ہیں کہ یہ وفد ابو طالب کے پاس اس وقت گیا تھا جب حضرت عمرؓ کے ایمان لانے پر سرداران قریش بوکھلا گئے تھے،  لیکن کتب روایت میں سے کسی میں اس کا حوالہ ہمیں نہیں مل سکا ہے اور نہ ان مفسرین نے اپنے ماخذ کا حوالہ دیا ہے۔  تا ہم اگر یہ صحیح ہو تو یہ ہے سمجھ میں آنے والی بات۔ اس لیے کہ کفار قریش پہلے ہی یہ دیکھ کر گھبرائے ہوئے تھے کہ اسلام کی دعوت لے کر ان کے درمیان سے ایک ایسا شخص اُٹھا ہے جو اپنی شرافت، نے داغ سیرت اور دانائی و سنجیدگی کے اعتبار سے ساری قوم میں اپنا جواب نہیں رکھتا۔ اور پھر اس کا دست راست ابو بکر جیسا آدمی ہے جسے مکے اور اس کے اطراف کا بچہ بچہ ایک نہایت شریف، راستباز اور ذکی انسان کی حیثیت سے جانتا ہے۔  اب جو انہوں نے دیکھا ہو گا کہ عمر بن خطاب جیسا جری اور صاحب عزم آدمی بھی ان دونوں سے جا ملا ہے تو یقیناً انہیں محسوس ہوا ہو گا کہ خطرہ حدّ برداشت سے گزرتا جا رہا ہے۔  

موضوع اور مباحث

اوپر جس مجلس کا ذکر کیا گیا ہے اسی پر تبصرے سے اس سورۃ کا آغاز ہوا ہے۔  کفار اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی گفتگو کو بنیاد بنا کر اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ان لوگوں کے انکار کی اصل وجہ دعوت اسلامی کا کوئی نقص نہیں ہے بلکہ ان کا اپنا تکبر اور حسد اور تقلید اعمیٰ پر اصرار ہے۔  یہ اس کے لیے تیار نہیں ہیں کہ اپنی ہی برادری کے ایک آدمی کو خدا کا  نبی مان کر اس کی پیروی قبول کر لیں۔  یہ انہی جاہلانہ تخیلات پر جمے رہنا چاہتے ہیں جن پر انہوں نے اپنے قریب کے زمانے کے لوگوں کو پایا ہے،  اور جب اس جہالت کے پردے کو چاک کر کے ایک شخص ان کے سامنے اصل حقیقت کو پیش کرتا ہے تو یہ اس پر کان کھڑے کرتے ہیں اور اسے عجیب بات بلکہ نرالی اور  انہونی بات قرار دیتے ہیں۔  ان کے نزدیک توحید اور آخرت کا تخیل محض ناقابل قبول ہی نہیں ہے بلکہ ایک ایسا تخیل ہے جس کا بس مذاق ہی اُڑایا جا سکتا ہے۔  

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورہ کے ابتدائی حصے میں بھی اور آخری فقروں میں بھی کفار کو صاف صاف متنبہ کیا ہے کہ جس شخص کا تم آج مذاق اڑا رہے ہو اور جس کی رہنمائی قبول کرنے سے تم کو آج سخت انکار ہے،  عنقریب وہی غالب آ کر رہے گا اور وہ وقت دور نہیں ہے جب اسی شہر مکہ میں،  جہاں تم اس کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہو، اس کے آگے تم سب سرنگوں نظر آؤ گے۔  

پھر پے در پے ۹ پیغمبروں کا ذکر کر کے،  جن میں حضرت داؤد و سلیمانؑ کا قصہ زیادہ مفصل ہے،  اللہ تعالیٰ نے یہ بات معین کے ذہن نشین کرائی ہے کہ اس کا قانون عدل بالکل بے لاگ ہے،  اس کے ہاں انسان کا صحیح رویہ ہی مقبول ہے،  بے جا بات خواہ کوئی بھی کرے وہ اس پر گرفت کرتا ہے،  اور اس کے ہاں وہی لوگ پسند کیے جاتے ہیں جو لغزش پر اصرار نہ کریں بلکہ اس پر متنبہ ہوتے ہی تائب ہو جائیں اور دنیا میں آخرت کی جواب دہی کو یاد رکھتے ہوئے زندگی بسر کریں۔  

اس کے بعد فرماں بردار بندوں اور سرکش بندوں کے اس انجام کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو وہ علم آخرت میں دیکھنے والے ہیں اور اس سلسلے میں کفار کو دو باتیں خاص طور پر بتائی گئی ہیں۔  ایک یہ کہ آج جن سرداروں اور پیشواؤں کے پیچھے جاہل لوگ اندھے بن کر ضلالت کی راہ پر چلے جا رہے ہیں،  کل وہی جہنم میں اپنے پیروؤں  سے پہلے پہنچے ہوئے ہوں گے اور دونوں ایک دوسرے کو کوس رہے ہوں گے۔  دوسرے یہ کہ آج جن اہل ایمان کو یہ لوگ ذلیل و خوار سمجھ رہے ہیں،  کل یہ آنکھیں پھاڑ  پھاڑ کر حیرت کے ساتھ دیکھیں گے  کہ ان کا جہنم میں کہیں نام و نشان تک نہیں ہے اور یہ خود اس کے عذاب میں گرفتار ہیں۔  

آخر میں قصہ آدم و ابلیس کا ذکر فرمایا گیا ہے اور اس سے مقصود کفار قریش کو یہ بتانا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے آگے جھکنے سے جو تکبر تمہیں مانع ہو رہا ہے  وہی تکبر آدم کے آگے جھکنے سے ابلیس کو بھی مانع ہوا تھا۔ خدا نے جو مرتبہ آدم کو دیا تھا اس پر ابلیس نے حسد کیا اور حکم خدا کے مقابلے میں سرکشی اختیار کر کے لعنت کا مستحق ہوا۔ اسی طرح جو مرتبہ خدا نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو دیا ہے اس پر تم حسد کر رہے ہو اور اس بات کے لیے تیار نہیں ہو کہ جسے خدا نے رسول مقرر کیا ہے اس کی اطاعت کرو، اس لیے جو انجام ابلیس کا ہونا ہے وہی آخر کار تمہارا بھی ہونا ہے۔  

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
ص(۱)، قسم ہے نصیحت بھرے (۲)قرآن کی، بلکہ یہی لوگ، جنہوں نے ماننے سے انکار کیا ہے،  سخت تکبُّر اور ضد میں مبتلا ہیں (۳)۔ ان سے پہلے ہم ایسی کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر چکے ہیں (اور جب ان کی شامت آئی ہے ) تو سہ چیخ اٹھے ہیں،  مگر وہ وقت بچنے کا نہیں ہوتا۔
ان لوگوں کو اس بات پر بڑا تعجب ہوا کہ ایک ڈراتے والا خود انہی میں سے آ گیا(۴)۔ منکرین کہنے لگے کہ ’’ یہ ساحر(۵) ہے،  سخت جھوٹا ہے،  کیا اس نے سارے خداؤں کی جگہ بس ایک ہو خدا بنا ڈالا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے ‘‘۔ اور سرداران قوم یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ (۶)’’چلو اور ڈٹے رہو اپنے معبودوں کی عبادت پر۔ یہ بات (۷) تو کسی اور ہی غرض سے کہی جا رہی ہے (۸)۔ یہ بات ہم نے زمانہ قریب کی ملت میں کسی سے نہیں سنی(۹)۔ یہ کچھ نہیں ہے مگر ایک من گھڑت بات۔ کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا جس پر اللہ کا ذکر نازل کر دیا گیا‘‘؟
اصل بات یہ ہے کہ یہ میرے ’’ ذکر ‘‘پر شک کر رہے ہیں، (۱۰) اور یہ ساری باتیں اس لیے کر رہے ہیں کہ انہوں نے میرے عذاب کا مزا چکھا نہیں ہے۔  کیا تیرے داتا اور غالب پروردگار کی رحمت کے خزانے ان کے قبضے میں ہیں؟کیا یہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان کی چیزوں کے مالک ہیں؟ اچھا تو یہ عالم اسباب کی بلندیوں پر چڑھ کر دیکھیں !(۱۱)
یہ تو جتھوں میں سے ایک چھوٹا سا جتھا ہے جو اسی جگہ شکست کھانے والا ہے (۱۲)۔ ان سے پہلے نوحؑ کی قوم، اور عاد، اور  میخوں والا فرعون (۱۳)، اور ثمود، اور قوم لوط، اور اَیکہ والے جھٹلا چکے ہیں۔  جتھے وہ تھے۔  ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا اور میری عقوبت کا فیصلہ اس پر چسپاں ہو کر رہا۔ ع

 

۱۔ اگرچہ تمام حروفِ مقطعات کی طرح  ص  کے مفہوم کا تعین بھی مشکل ہے،  لیکن ابن عباس اور ضحاک کا یہ قول بھی کچھ دل کو لگتا ہے کہ اس سے مراد ہے صادقٌ فی قولِہٖ، یا صَدَق محمدٌ  یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم صادق ہیں،  جو کچھ کہہ رہے ہیں سچ کہہ رہے ہیں۔  صاد کے حروف کو ہم اردو  میں بھی اسی سے ملتے چلتے معنی میں استعمال کرتے ہیں۔  مثلاً کہتے ہیں میں اس پر صادر کرتا ہوں،  یعنی اس کی تصدیق کرتا ہوں،  یا اسے صحیح قرار دیتا ہوں۔

۲۔  اصل الفاظ ہیں ذی الذکر۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔  ایک ذی شرف، یعنی قرآن بزرگ۔ دوسرے ذی ا لتذکیر، یعنی نصیحت سے لبریز قرآن، یا بھولا ہوا سبق یاد دلانے والا اور غفلت سے چونکانے والا قرآن۔

۳۔ اگر ص کی وہ تاویل قبول کی جائے جو ابن عباس اور ضحاک نے بیان کی ہے تو اس چملے کا مطلب یہ ہو گا کہ ’’ قسم ہے اس قرآنِ بزرگ، یا اس نصیحت سے لبریز قرآن کی محمد صلی اللہ علیہ و سلم سچی بات پیش کر رہے ہیں،  مگر جو لوگ اندار پر جمے ہوئے ہیں وہ دراصل ضد اور تکبر میں مبتلا ہیں۔ ‘‘ اور اگر  ص  کو ان حروف مقطعات میں سے سمجھا جائے جن کا مفہوم متعین نہیں کیا جا سکتا، تو پھر قسم کا جواب محذوف ہے جس پر ’’بلکہ ‘‘ اور اس کے بعد کا فقرہ خود روشنی ڈالتا ہے۔  یعنی پوری عبارت پھر یوں ہو گی کہ ’’ ان منکرین کے انکار کی وجہ یہ نہیں ہے کہ جو دین ان کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے اس میں کوئی خلل ہے۔  یا محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے سامنے اظہار حق میں کوئی کوتاہی کی ہے،  بلکہ اس کی وجہ صرف ان کی جھوٹی شیخی، ان کی جاہلانہ نحوست اور ان کی ہٹ دھرمی ہے،  اور اس پر یہ نصیحت بھرا قرآن شاہد ہے جسے دیکھ کر ہر غیر متعصب آدمی تسلیم کرے گا کہ اس میں فہمائش کا حق پوری طرح ادا کر دیا گیا ہے ‘‘

۴۔ یعنی یہ ایسے احمق لوگ ہیں کہ جب ایک دیکھا بھا لا آدمی خود ان کی اپنی جنس، اپنی قوم اور اپنی ہی برادری میں سے ان کو خبردار کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے تو ان کو یہ عجیب بات معلوم ہوئی۔ حالانکہ عجیب بات اگر ہوتے تو یہ ہوتی کہ انسانوں کو خبردار کرنے کے لیے آسمان سے کوئی اور مخلوق بھیج دی جاتی، یا ان کے درمیان یکایک ایک اجنبی آدمی کہیں باہر سے آ کھڑا ہوتا اور نبوت کرنا شروع کر دیتا۔ اس صورت میں تو بلاشبہ یہ لوگ بجا طور پر یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ عجیب حرکت ہمارے ساتھ کی گئی ہے،  بھلا جو انسان ہی نہیں ہے وہ ہمارے حالات اور جذبات اور ضروریات کو کیا جانے گا کہ ہماری رہنمائی کر سکے،  یا جو اجنبی آدمی اچانک ہمارے درمیان آ گیا ہے اس کی صداقت کو آخر ہم کیسے جانچیں اور کیسے معلوم کریں کہ یہ بھروسے کے قابل آدمی ہے یا نہیں،  اس کی سیرت و کردار کو ہم نے کب دیکھا ہے کہ اس کی بات کا اعتبار کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کر سکیں۔  

۵۔ حضورؐ کے لیے ساحر کا لفظ وہ لوگ اس معنی میں بولتے تھے کہ یہ شخص کچھ ایسا جادو کرتا ہے جس سے آدمی دیوانہ ہو کر اس کے پیچھے لگ جاتا ہے۔  کسی تعلق کے کٹ جانے اور کوئی نقصان پہنچ جانے کی پروا نہیں کرتا۔ باپ کو بیٹا اور بیٹے کو باپ چھوڑ بیٹھتا ہے۔ بیوی شوہر کو چھوڑ دیتی ہے اور شوہر بیوی سے جدا ہو جاتا ہے۔  ہجرت کی نوبت آئے تو دامن جھاڑ کر وطن سے نکل کھڑا ہوتا ہے۔  کاروبار بیٹھ جائے اور سارے برادری بائیکا ٹ کر دے تو اسے بھی گوارا کر لیتا ہے۔ سخت جسمانی اذیتیں بھی انگیز کر جاتا ہے،  مگر اس شخص کا کلمہ پڑھنے سے کسی طرح باز نہیں آتا۔ (مرید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن  جلد سوم، ص ۱۴۵۔ ۱۴۶)۔

۶۔ اشارہ ہے ان سرداروں کی طرف جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بات سن کر اب طالب کی مجلس سے اٹھ گئے تھے۔

۷۔ یعنی حضورؐ کا یہ کہنا کہ کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کے قائل ہو جاؤ تو عرب و عجم سب تمہارے تابع فرمان ہو جائیں گے۔  

۸۔ ان مطلب یہ تھا کہ اس دال میں کچھ کالا نظر آتا ہے،  دراصل یہ دعوت اس غرض سے دی جا رہی ہے کہ ہم محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے تابع فرمان ہو جائیں اور یہ ہم پر اپنا حکم چلائیں۔  

۹۔ یعنی قریب کے زمانے میں ہمارے اپنے بزرگ بھی گزرے ہیں،  عیسائی اور یہودی بھی ہمارے ملک اور آس پاس کے ملکوں میں موجود ہیں،  اور مجوسیوں سے ایران و عراق اور مشرقی عرب بھرا پڑا ہے۔  کسی نے بھی ہم سے یہ نہیں کہا کہ انسان بس ایک اللہ رب العالمین کو مانے اور دوسرے کسی کو نہ مانے۔  ‘آخر ایک اکیلے خدا پر کون اکتفا کرتا ہے۔  اللہ کے پیاروں کو تو سب ہی مان رہے ہیں۔  ان کے آستانوں پر جا کر ماتھے رگڑ رہے ہیں۔  نذریں دے رہے ہیں۔  دعائیں مانگ رہے ہیں۔  کہیں سے اولاد ملتی ہے۔  کہیں سے رزق ملتا ہے۔  کوی آستانے پر جو مراد مانگو بر آتے ہے۔  ان کے تصرّفات کو ایک دنیا مان رہی ہے اور ان سے فیض پانے والے بتا رہے ہیں کہ ان درباروں سے لوگوں کی کس کس طرح مشکل کشائی و حاجت روائی ہوتی ہے۔  اب اس شخص سے ہم یہ نرالی بات سن رہے ہیں،  جو کبھی کسی سے نہ سنی تھی، کہ ان میں  سے کسی کا بھی خدائی میں کوئی حصہ نہیں اور پوری کی پوری خدائی بس ایک اکیلے اللہ ہی کی ہے۔  

۱۰۔ با الفاظ دیگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیک و سلم )یہ لوگ دراصل تمہیں نہیں جھٹلا رہے ہیں بلکہ مجھے جھٹلا رہے ہیں۔   تمہاری صداقت پر تو پہلے  کبھی انہوں نے شک نہیں کیا تھا۔ آج یہ شک جو کیا جا رہا ہے یہ دراصل میرے ’’ ذکر‘‘ کی وجہ سے ہے۔  میں نے ان کو نصیحت کرنے کی خدمت جب تمہارے سپرد کی تو یہ اسی شخص کی صداقت میں شک کرنے لگے جس کی راستبازی کی پہلے قسمیں کھایا کرتے تھے۔  یہی مضمون سورہ انعام آیت ۳۳ میں بھی گزر چکا ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، ص ۵۳۴)۔

۱۱۔ یہ کفار کے اس قول کا جواب ہے کہ ’’ کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا جس پر اللہ کا ذکر نازل کریا گیا۔ ‘‘ اس پر اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ نبی ہم کس کو بنائیں اور کسے نہ بنائیں،  اس کا فیصلہ کرنا ہمارا اپنا کام ہے۔  یہ لوگ آخر کب سے اس فیصلے کے مختار ہو گئے۔  اگر یہ اس کے مختار بننا چاہتے ہیں تو کائنات کی فرمانروائی کے منصب پر قبضہ کرنے کے لیے عرش پر پہنچنے کی کوشش کریں تاکہ جسے یہ اپنی رحمت کا مستحق سمجھیں اس پر وہ نازل نہ ہو۔ یہ مضمون متعدد مقامات پر قرآن مجید میں بیان ہوا ہے،  کیونکہ کفار قریش بار بار کہتے تھے کہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کیسے نبی بن گئے،  کیا خدا کو قریش کے بڑے بڑے سرداروں میں سے کوئی اس کام کے لیے نہ ملا تھا (ملاحظہ ہو سورہ بنی اسرائیل، آیت ۱۰۰۔ الزخرف، آیات ۳۱۔ ۳۲)

۱۲۔ ’’ اسی جگہ‘‘ کا اشارہ مکہ معظمہ کی طرف ہے۔  یعنی جہان یہ لوگ  یہ باتیں بنا رہے ہیں،  اسی جگہ ایک دن یہ شکست کھانے والے ہیں اور یہیں وہ وقت آنے والا ہے جب یہ منہ لٹکائے اسی شخص کے سامنے کھڑے ہوں گے جسے آج یہ حقیر سمجھ کر نبی تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔  

۱۳۔ فرعون کے لیے ’’ ذی الاوتاد ‘‘ (میخوں والا ) یا تو اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ اس کی سلطنت ایسی مضبوط تھی گویا میخ پر ٹھکی ہوئی ہو۔ یا اس بنا پر کہ اس کے کثیر التعداد لشکر جہاں ٹھیرتے تھے وہاں ہر طرف خیموں کی میخیں ہی میخیں ٹھکی نظر آتی تھیں۔  یا اس بنا پر کہ وہ جس سے ناراض ہوتا تھا اسے میخیں ٹھنک کر عذاب دیا کرتا تھا۔ اور ممکن ہے کہ میخوں سے مراد اہرام مصر ہوں جو زمین کے اندر میخ کی طرح ٹھکے ہوئے ہیں۔  

 

یہ لوگ بھی بس ایک دھماکے کے منتظر ہیں جسکے بعد کوئی دوسرا دھماکا نہ ہو گا۔ (۱۴)۔ اور  یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب، یوم الحساب سے پہلے ہی ہمارا حصہ ہمیں جلدی سے دے دے (۱۵)۔
اے نبی، صبر کرو ان باتوں پر جو یہ لوگ بناتے  ہیں (۱۶)، اور ان کے سامنے ہمارے بندے داؤد کا قصہ بیان کرو(۱۷) جو بڑی قوتوں کا مالک تھا(۱۸)۔ ہر معاملہ میں اللہ کی طرف رجوع کرنے والا تھا۔ ہم نے پہاڑوں کو اس کے ساتھ مسخر کر رکھا تھا کہ صبح و شام وہ اس کے ساتھ تسبیح کرتے تھے۔  پرندے سمٹ آتے اور سب کے سب اس کی تسبیح کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے (۱۹)۔ ہم نے اس کی سلطنت مضبوط کر دی تھے،  اس کو حکمت عطا کی تھے اور فیصلہ کن بات کہنے کی صلاحیت بخشی تھی(۲۰)۔ پھر تمہیں کچھ خبر پہنچی ہے ان مقدمے والوں کی جو دیوار چڑھ کر اس کے بالا خانے میں گھس آئے تھے؟(۲۱)۔ جب وہ داؤد کے پاس پہنچا تو وہ نہیں دیکھ کر گھبرا گیا(۲۲)۔ انہوں نے کہا ’’ڈریے نہیں،  ہم دو فریق مقدمہ ہیں جن میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے۔  آپ ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کے ساتھ فیصلہ کر دیجئے،  بے انصافی نہ کیجئے اور ہمیں راہ راست بتایئے۔  یہ میرا بھائی ہے، (۲۳) اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہی دُنبی ہے۔  اس نے مجھ سے کہا کہ یہ ایک دنبی بھی میرے حوالے کر دے اور اس نے گفتگو میں مجھے دبا لیا‘‘(۲۴)۔ داؤد نے جواب دیا : ’’ اس شخص نے اپنی دنبیوں کے ساتھ تیری دنبی ملا لینے کا مطالبہ کر کے یقیناً تجھ پر ظلم کیا(۲۵)، اور واقعہ یہ ہے کہ مل جل کر ساتھ رہنے والے لوگ اکثر ایک دوسرے پر زیادتیاں کرتے رہتے ہیں،  بس وہی لوگ اس سے بچے ہوئے ہیں جو ایمان رکھتے اور عمل صالح کرتے ہیں،  اور ایسے لوگ کم ہی ہیں ‘‘(یہ بات کہتے کہتے )داؤد سمجھ گیا کہ یہ تو ہم نے دراصل اس کی آزمائش کی ہے،  چنانچہ اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدے میں گر گیا اور رجوع کر لیا(۲۶)۔ تب ہم نے اس کا وہ قصور معاف کیا اور یقیناً ہمارے ہاں اس کے لیے تقرب کا مقام اور بہتر انجام ہے (۲۸)۔ (ہم نے اس سے کہا)’’ اے داؤد ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے،  لہٰذا تو لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ حکومت کر اور خواہش نفس کی پیروی نہ کر کہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بھٹکا دے گی۔ جو لوگ اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں یقیناً ان کے لیے سخت سزا ہے کہ وہ یوم الحساب کو بھول گئے ‘‘(۲۸) ع

 

۱۴۔ یعنی عذاب کا ایک ہی کڑکا انہیں ختم کر دینے کے لیے کافی ہو گا۔ کسی دوسرے کڑکے کی حاجت پیش نہ آئے گی۔ دوسرا مفہوم اس فقرے کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد پھر انہیں کوئی افاقہ نصیب نہ ہو گا، اتنی دیر کی بھی مہلت نہ ملے گی جتنی دیر اُونٹنی کا دودھ نچوڑتے وقت ایک دفعہ سونتے ہوئے تھن میں دوبارہ سونتنے تک دودھ اترنے میں لگتی ہے۔  

۱۵۔ یعنی اللہ کے عذاب کا حال تو ہے وہ جو ابھی بیان کیا گیا، اور ان نادانوں کا حال یہ ہے کہ یہ نبی سے مذاق کے طور پر کہتے ہیں کہ جس یوم الحساب سے تم ہمیں ڈراتے ہو اس کے آنے تک ہمارے معاملے کو نہ ٹالو بلکہ ہمارا حساب ابھی چُکوا دو، جو کچھ بھی ہمارے حصے کی شامت لکھی ہے وہ فوراً ہی آ جائے۔  

۱۶۔ اشارہ ہے کفار مکہ کی ان باتوں کی طرف جن کا ذکر اوپر گزر چکا ہے،  یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم  کے متعلق ان کی یہ بکواس کہ یہ شخص ساحر اور کذاب ہے،  اور ان کا یہ اعتراض کہ اللہ میاں کے پاس رسول بنانے کے لیے کیا بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا۔ اور یہ الزام کہ اس دعوت توحید سے اس شخص کا مقصد کوئی مذہبی تبلیغ نہیں ہے بلکہ اس کی نیت کچھ اور ہی ہے۔  

۱۷۔ اس فقرے کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو۔ ‘‘ پہلے ترجمے کے لحاظ سے مطلب یہ ہے کہ اس قصے میں ان لوگوں کے لیے ایک سبق ہے۔  اور دوسرے ترجمے کے لحاظ سے مراد یہ ہے کہ اس قصے کی یاد خود تمہیں صبر کرنے میں مدد دے گی۔ چونکہ یہ قصہ بیان کرنے سے دونوں ہی باتیں مقصود ہیں،  اس لیے الفاظ ایسے استعمال کیے گئے ہیں جو دونوں مفہوموں پر دلالت کرتے ہیں (حضرت داؤد کے قصے کی تفصیلات اس سے پہلے حسب ذیل مقامات پر گزر چکی ہیں : تفہیم القرآن جلد اول، صفحہ ۱۹۱۔ جلد دوم، صفحات ۵۹۷ و ۶۲۴۔ جلد سوم، صفحات ۱۷۳ تا ۱۷۶ و ۵۶۰۔ ۵۶۱۔ جلد چہارم، حواشی سورہ صفحہ نمبر ۱۴ تا ۱۶)

۱۸۔ اصل الفاظ ہیں ذَالْاَیْد، ’’ ہاتھوں والا‘‘۔ ہاتھ کا لفظ صرف عربی زبان ہی میں نہیں،  دوسرے زبانوں میں بھی وقت و قدرت کے لیے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔  حضرت داؤد کے لیے جب ان کی صفت کے طور پر یہ فرمایا گیا کہ وہ ’’ ہاتھوں والے ’’ تھے تو اس کا مطلب لازماً یہی ہو گا کہ وہ بڑی قوتوں کے مالک تھے۔  ان قوتوں  سے بہت سی قوتیں مراد ہوسکتی ہیں۔  مثلاً جسمانی طاقت، جس کا مظاہرہ انہوں نے جالوت سے جنگ کے موقع پر کیا تھا۔ فوجی اور سیاسی طاقت، جس سے انہوں نے گرد و پیش کی مشرک قوموں کو شکست دے کر ایک مضبوط اسلامی سلطنت قائم کر دی تھی۔ اخلاقی طاقت، جس کی بدولت انہوں نے بادشاہی میں فقیری کی اور ہمیشہ اللہ سے ڈرتے اور اس کے حدود کی پابندی کرتے رہے۔  اور عبادت کی طاقت، جس کا حال یہ تھا کہ حکومت و فرمانروائی اور جہاد فی سبیل اللہ کی مصروفیتوں کے باوجود، صحیحین کی روایت کے مطابق، وہ ہمیشہ ایک دن بیچ روزہ رکھتے تھے اور روزانہ ایک تہائی رات نماز میں گزارتے تھے۔  امام بخاریؒ نے اپنی تاریخ میں حضرت ابوالدّرواء کے حوالہ وے نقل کیا ہے کہ جب حضرت داؤد کا ذکر آتا تھا تو نبی صلی اللہ و الیہ و سلم فرمایا کرتے تھے کَا نَ اَعْبَدَ الْبَشَرِ، ‘‘ وہ سب سے زیادہ عبادت گزار آدمی تھے۔ ’’

۱۹۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، صفحات ۱۷۴۔ ۱۷۵۔

۲۰۔ یعنی ان کا کلام الجھا ہوا نہ تھا کہ ساری تقریر سن کر بھی آدمی نہ سمجھ سکے کہ کہنا کیا چاہتے ہیں،  بلکہ وہ جس معاملہ پر بھی گفتگو کرتے،  اس کے تمام بنیادی نکات کو منقح کر کے رکھ دیتے،  اور اصل فیصلہ طلب مسئلے کو ٹھیک ٹھیک متعین کر کے اس کا بالکل دو ٹوک جاب دے دیتے تھے۔  یہ بات کسی شخص کو اس وقت تک حاصل نہیں ہوتے جب تک وہ عقل و فہم اور قادرالکلامی کے اعلیٰ مرتبہ پر پہنچا ہوا نہ ہو۔

۲۱۔ حضرت داؤد کا ذکر جس غرض کے لیے اس مقام پر کیا گیا ہے اس سے مقصود دراصل یہی قصہ سنانا ہے جو یہاں سے شروع ہوتا ہے۔  اس سے پہلے ان کی جو صفات عالیہ بطور تمہید بیان کی گئی ہیں ان کا مقصد صرف یہ بتانا تھا کہ داؤد علیہ السلام، جن کے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا ہے،  کس مرتبے کے انسان تھے۔

۲۲۔ گھبرانے کی وجہ یہ تھی کہ دو آدمی فرمانروائے وقت کے پاس اس کی خلوت گاہ میں سیدھے راستے سے جانے کے بجائے یکایک دیوار چڑھ کر جا پہنچے تھے۔

۲۳۔ بھائی سے مراد حقیقی بھائی نہیں بلکہ اور قومی بھائی ہے۔  

۲۴۔ آگے کی بات سمجھنے کے لیے یہ بات نگاہ میں رہنی ضروری ہے کہ استغاثہ  کا یہ فریق یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ اس شخص نے میری وہ ایک دُنبی چھین لی اور اپنی دُنبیوں میں ملا لی، بلکہ یہ کہہ رہا ہے کہ یہ مجھ سے میری دنبی مانگ رہا ہے،  اور اس نے گفتگو میں مجھ دبا لیا ہے،  کیونکہ یہ بڑی شخصیت کا آدمی ہے اور میں ایک غریب آدمی ہوں،  میں اپنے اندر اتنی سکت نہیں پاتا کہ اس کا مطالبہ رد کر دوں۔

۲۵۔ یہاں کسی کو یہ شبہ نہ ہو کہ حضرت داؤد نے ایک ہی فریق کی بات سن کر اپنا فیصلہ کیسے دے دیا۔ اصل بات یہ ہے کہ جب مدعی کی شکایت پر مدعا علیہ خاموش رہا اور اس کی تردید میں کچھ نہ بولا تو یہ خود ہی اس کے اقرار کا ہم معنی تھا۔ اس بنا پر حضرت داؤد نے یہ رائے قائم کی کہ واقعہ وہی کچھ ہے جو مدعی بیان کر رہا ہے۔  

۲۶۔ اس امر میں اختلاف ہے کہ اس مقام سجدہ تلاوت واجب ہے یا نہیں۔  امام شافعی کہتے ہیں کہ یہاں سجدہ واجب نہیں ہے بلکہ یہ تو ایک نبی کی توبہ ہے۔  اور امام ابوحنیفہ وجوب کے قائل ہیں۔  اس سلسلے میں  ابن عباس سے تین روایتیں محدثین نے نقل کی ہیں۔  عکرمہ کی روایت یہ ہے کہ ابن عباس نے فرمایا ’’ یہ ان آیات میں سے نہیں ہے جن پر سجدہ لازم ہے مگر میں نے اس مقام پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو سجدہ کرتے دیکھا ہے۔ ‘‘ (بخاری، ابوداؤد، ترمذی، نسائی، مسند احمد)۔ دوسری روایات جو ان سے سعید بن جُبیر نے نقل کی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’ سورہ ص میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سجدہ کیا اور فرمایا: داؤد علیہ السلام نے توبہ کے طور پر سجدہ کیا تھا اور ہم شکر کے طور پر سجدہ کرتے ہیں ‘‘ یعنی اس بات پر کہاں کی توبہ قبول ہوئی (نسائی)۔ تیسری روایت جو مجاہد نے ان سے نقل کی ہے اس میں وہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں  اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم دیا ہے کہ اُلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللہُ فَبھُِدٰ ھُمُ اقْتَدِہ، ’’ یہ وہ لوگ تھے جن کو اللہ نے راہ راست دکھائی تھی، لہٰذا تم ان کے طریقے کی پیروی کرو‘‘۔ اب چونکہ حضرت داؤد بھی ایک نبی تھے اور انہوں نے اس موقع پر سجدہ کیا تھا اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بھی ان کے اقتدا میں یہاں سجدہ فرمایا (بخاری)۔ یہ تین بیانا ت تو حضرت ابن عباس کے ہیں۔  اور حضرت ابوسعید خدری کا بیان یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ خطبہ میں سورہ ص پڑے اور جب آپؐ اس آیت پر پہنچے تو آپؐ نے منبر پر سے اتر کر سجدہ کیا اور آپؐ کے ساتھ سب حاضرین نے بھی سجدہ کیا۔ پھر ایک دوسرے موقع پر اسی طرح آپؐ نے یہی سورہ پڑھی تو اس آیت کو سنتے ہی لوگ سجدہ کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔  حضورؐ نے فرمایا’’ یہ ایک نبی کی توبہ ہے،  مگر میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ سجدے کے لیے تیار ہو گئے ہو‘‘ ــــــ   یہ فرما کر آپؐ منبر سے اترے اور سجدہ کیا اور سب حاضرین نے بھی کیا (ابوداؤد)۔ ، ان روایات سے اگرچہ وجوب سجدہ کی قطعی دلیل تو نہیں ملتی، لیکن کم از کم اتنی بات تو ضرور ثابت ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مقام پر اکثر سجدہ فرمایا ہے،  اور سجدہ نہ کرنے کی بہ بنسبت وجوب کے حکم کا پلڑا جھکا دیتی ہے۔  

ایک اور مضمون جو اس آیت سے نکلتا ہے،  یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں خَرَّرَا کِعاً(رکوع میں کر پڑا) کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں،  مگر تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد خَرَّ سَاجِداً (سجدہ میں گر پڑا ) ہے۔  اسی بنا پر امام ابو حنیفہؒ اور ان کے اصحاب نے یہ رائے ظاہر فرمائی ہے کہ نماز یا غیر نماز میں آیت سجدہ سن کر یا پڑھ کر آدمی سجدے کے بجائے صرف رکوع بھی کر سکتا ہے،  کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے رکوع کا لفظ استعمال کر کے سجدہ مراد لیا ہے تو معلوم ہو ا کہ رکوع سجدے کا قائم مقام ہو سکتا ہے۔  فقہائے شافعیہ میں سے امام خَطَّابی کی بھی یہی رائے ہے۔  یہ رائے اگرچہ بجائے خود صحیح اور معقول ہے،  لیکن نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام کے عمل میں ہم کو ایسی کوئی نظیر نہیں ملی کہ آیت سجدہ پر سجدہ کرنے کے بجائے رکوع ہی کر لینے پر اکتفا کیا گیا ہو۔ لہٰذا اس رائے پر عمل صرف اس صورت میں کرنا چاہیے جب سجدہ کرنے میں کوئی امر مانع ہو۔ اسے معمول بنا لینا درست نہیں ہے،  اور خود امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا منشا بھی یہ نہیں ہے کہ اسے معمول بنایا جائے،  بلکہ وہ صرف اس کے جواز کے قائل ہیں۔

۲۷۔ اس سے معلوم ہو ا کہ حضرت داؤد سے قصور ضرور ہوا  تھا، اور وہ کوئی ایسا قصور تھا جو دنبیوں والے مقدمے سے کسی طرح کی مماثلت رکھتا تھا اسی لیے اس کا فیصلہ سناتے ہوئے معاً ان کو یہ خیال آیا کہ یہ میری آزمائش ہوئی ہے،  لیکن اس قصور کی نوعیت ایسی شدید نہ تھی کہ اسے معاف نہ کیا جاتا، یا اگر معاف کیا بھی جاتا تو وہ اپنے مرتبہ سے بلند سے گرا دیے جاتے۔  اللہ تعالیٰ یہاں خود تصریح فرما رہا ہے کہ جب انہوں نے سجدے میں گر کر توبہ کی تو نہ صرف یہ کہ انہیں معاف کر دیا گیا، بلکہ دنیا اور آخرت میں ان کو جو بلند مقام حاصل تھا اس میں بھی کوئی فرق نہ آیا۔

۲۸۔ یہ وہ تنبیہ ہے جو اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے توبہ قبول کرنے اور بلندیِ درجات کی بشارت دینے کے ساتھ حضرت داؤد کو فرمائی۔ اس سے یہ بات خود بخود ظاہر ہو جاتی ہے کہ جو فعل ان سے صادر ہوا تھا اس کے اندر خواہش نفس کا کچھ دخل تھا، اس کا حاکمانہ اقتدار کے نامناسب استعمال سے بھی کوئی ایسا فعل تھا جو حق کے ساتھ حکومت کرنے والے کسی فرماں روا کو زیب نہ دیتا تھا۔

یہاں پہنچ کر تین سوالات ہمارے سامنے آتے ہیں۔  اول یہ کہ وہ فعل کیا تھا؟ دوسرے یہ کہ اس سیاق و سباق میں اس کا ذکر کس مناسبت سے کیا گیا ہے؟

جن لوگوں نے بائیبل (عیسائیوں اور یہودیوں کی کتاب مقدس )کا مطالعہ کیا ہے ان سے یہ با پوشیدہ نہیں ہے کہ اس متاب میں حضرت داؤد پر اُوریاہ حِتّی (Orian the Hittite)کی بیوی سے زنا کرنے،  اور پھر اوریاہ کو ایک جنگ میں قصداً ہلاک کروا کر اس کی بیوی سے نکاح کر لینے کا صاف صاف الزام لگایا گیا ہے،  اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہی عورت، جس نے ایک شخص کی بیوی ہوتے ہوئے اپنے آپ کو داؤد کے حوالے کیا تھا، حضرت سلیمان علیہ السلام کی ماں تھی۔ یہ پورا قصہ بائیبل کی کتاب سموئیل دوم،  باب ۱۱۔ ۱۲ میں نہایت تفصیل کے ساتھ درج ہے۔  نزول قرآن سے صدیوں پہلے یہ بائیبل میں درج ہو چکا تھا۔ دنیا بھر کے یہودیوں اور عیسائیوں میں سے جو بھی اپنی کتاب مقدس کی تلاوت کرتا، یا اسے سنتا تھا، وہ اس قصے سے نہ صرف واقف تھا بلکہ اس پر ایمان بھی لاتا تھا۔ انہی لوگو ں کے ذریعہ سے یہ دنیا میں مشہور ہوا اور آج تک حال یہ ہے کہ مغربی ممالک میں بنی اسرائیل اور عبرانی مذہب کی تاریخ پر کوئی کتاب ایسی نہیں لکھی جاتی جس میں حضرت داؤد کے خلاف اس الزام کو دہرایا نہ جاتا ہو۔ اس مشہور قصے میں یہ بات بھی ہے کہ:

’’خداوند نے نَاتَن کو داؤد کے پاس بھیجا۔ اس نے اس کے پاس آ کر اس سے کہا کسی شہر میں دو شخص تھے۔  ایک امیر، دوسرے غریب۔ اس امیر کے پاس بہت سے ریوڑ اور گلّے تھے۔  پر اس غریب کے پاس بھیڑ کی ایک پٹھیا کے سوا کچھ نہ تھا جسے اس نے خرید کر پالا تھا۔ اور وہ اس کے اور اس کے بال بچوں کے ساتھ بڑھی تھی۔ وہ اسی نوالے میں کھاتی اور اس کے پیالہ سے پیتی اور اس کی گود میں سوتی تھی اور اس کے لیے بطور بیٹی کے تھی۔ اور اس امیر کے ہاں کوئی مسافر آیا۔ سو اس نے مسافر کے لیے جو اس کے ہاں آیا تھا پکانے کو اپنے ریوڑ اور گلّے میں سے کچھ نہ لیا بلکہ اس غریب کی بھیڑ لے لی اور اس شخص کے لیے جو اس کے ہاں آیا تھا پکائی۔ تب داؤد کا غضب اس شخص پر  بشدت بھڑکا اور اس نے ناتن سے کہا کہ خداوند کی حیات کی قسم، وہ شخص جس نے یہ کام کیا واجب القتل ہے۔  اس شخص کو اس بھیڑ کا چوگنا بھرنا پڑے گا کیونکہ اس نے ایسا کام کیا اور اسے ترس نہ آیا۔ تب ناتن نے داؤد  سے کہا کہ وہ شخص تو ہی ہے ـــــــ تو نے  حتّی اوریاہ کو تلوار سے مارا اور اس کی بیوی لے لی تاکہ وہ تیری بیوی بنے اور اس کو بنی غمّون کی تلوار سے قتل کروایا۔ ‘‘ (۲۔ سموئیل، باب ۱۲۔ فقرات ۱ تا ۱۱)

اس قصے اور اس کی اس شہرت کی موجودگی میں یہ ضرورت باقی نہ تھی کہ قرآن مجید میں اس کے متعلق کوئی تفصیلی بیان دیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ کا یہ قاعدہ ہے بھی نہیں کہ وہ اپنی کتاب پاک میں ایسی باتوں کو کھول کر بیان کرے۔ اس لیے یہاں پردے پردے ہی میں اس کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ اصل واقعہ کیا تھا اور اہل کتاب نے اسے بنا کیا دیا ہے۔  اصل واقعہ جو قرآن مجید کے مذکورہ بالا بیان سے صاف سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام نے اوریاہ (یا جو کچھ  بھی اس شخص کا نام رہا ہو) سے محض یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔  اور چونکہ یہ خواہش ایک عام آدمی کی طرف سے نہیں بلکہ ایک جلیل القدر فرمانروا اور ایک زبردست دینی عظمت رکھنے والی شخصیت کی طرف سے رعایا کے ایک فرد کے سامنے ظاہر کی گئی تھی، اس لیے وہ شخص کسی ظاہری جبر کے بغیر بھی اپنے آپ کو اسے قبول کرنے پر مجبور پا رہا تھا۔ اس موقع پر، قبل اس کے کہ وہ حضرت داؤد کی فرمائش کی تعمیل کرتا، قوم کے دو نیک آدمی اچانک حضرت داؤد کے پاس پہنچ گئے اور انہوں نے ایک فرضی مقدمے کی صورت میں یہ معاملہ ان کے سامنے پیش کر دیا۔ حضرت داؤد ابتداء میں تو یہ سمجھے کہ یہ واقعی کوئی مقدمہ ہے۔  چنانچہ انہوں نے اسے سن کر اپنا فیصلہ سنا دیا۔ لیکن زبان سے فیصلہ کے الفاظ نکلتے ہی ان کے ضمیر نے تنبیہ کی کہ یہ تمثیلی پوری طرح ان کے اور اس شخص کے معاملہ پر چسپاں ہوتی ہے،  اور جس فعل کو وہ ظلم قرار دے رہے ہیں اُس کا صدور خود اُن سے اُس شخص کے معاملہ میں ہو رہا ہے۔  یہ احساس دل میں پیدا ہوتے ہی وہ سجدے میں گر گئے اور توبہ کی اور اپنے اس فعل سے رجوع فرما لیا۔

بائیبل میں اس واقعہ کی وہ گھناؤنی شکل کیسے بنی؟ یہ بات بھی تھوڑے سے غور کے بعد سمجھ میں آجاتی ہے۔  معلوم ایسا ہوتا ہے کہ حضرت داؤد کو اُس خاتون کی خوبیوں کا کسی ذریعہ سے علم ہو گیا تھا اور ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ ایسی لائق عورت ایک معمولی افسر کی بیوی ہونے کے بجائے ملک کی ملکہ ہونی چاہیے۔  اس خیال سے مغلوب ہو کر انہوں نے اس کے شوہر سے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اسے طلاق دے دے۔  اس میں کوئی قباحت انہوں نے اس لیے محسوس نہ کی کہ بنی اسرائیل کے ہاں یہ کوئی معیوب بات نہ سمجھی جاتی تھی۔ ان کے ہاں یہ ایک معمولی بات تھی۔ ان کے ہاں یہ ایک معمولی بات تھی کہ ایک شخص اگر کسی کی بیوی کو پسند کرتا تو بے تکلف اس سے درخواست کر دیتا تھا  کہ اسے میرے لیے چھوڑ دے۔  ایسی درخواست پر کوئی برا نہ مانتا تھا۔ بلکہ بسا اوقات دوست ایک دوسرے کے پاس خاطر سے بیوی کو خود طلاق دے دیتے تھے تاکہ دوسرا اس سے شادی کر لے۔  لیکن یہ بات کرتے وقت حضرت داؤد کو اس امر کا احساس نہ ہوا کہ ایک عام آدمی کی طرف سے اس طرح کی خواہش کا اظہار تو جبر و ظلم کے عنصر سے خالی ہو سکتا ہے،  مگر ایک فرمانروا کی طرف سے جب ایسی خواہش ظاہر کی جائے  تو وہ جبر سے کسی طرح بھی خالی نہیں ہو سکتی۔ اس پہلو کی طرف جب اس تمثیلی مقدمہ کے ذریعہ سے ان کو توجہ دلائی گئی تو وہ بلا تامّل اپنی اس خواہش سے دست بردار ہو گئے اور بات آئی گئی ہو گئی۔ مگر بعد میں کسی وقت جب ان کی کسی خواہش اور کوشش کے بغیر اس خاتون کا شوہر ایک جنگ میں شہید ہو گیا، اور انہوں نے اس سے  نکاح کر لیا، تو یہودیوں کے خبیث ذہن نے افسانہ تراشی شروع کر دی، اور یہ خبیث نفس اس وقت اور زیادہ تیزی سے کام کرنے لگا جب بنی اسرائیل کا ایک گروہ حضرت سلیمانؑ کا دشمن ہو گیا (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، صفحہ ۵۸۲)۔ ان محرکات کے زیر اثر یہ قصہ تصنیف کر ڈالا گیا کہ حضرت داؤد نے معاذاللہ  اوریاہ کی بیوی کو اپنے محل کی چھت پر سے اس حالت میں دیکھ لیا تھا کہ وہ برہنہ نہا رہی تھی۔ انہوں نے اس کو اپنے ہاں بلوایا اور اس سے زنا کا ارتکاب کی جس سے وہ حاملہ ہو گئی۔ پھر انہوں نے اوریاہ کو بنی عمّون کے مقابلہ پر جنگ میں بھیج دیا اور فوج کے کمانڈر ہوآب کو حکم دیا کہ اسے لڑائی میں ایسی جگہ مقرر کر دے جہاں وہ لازماً مارا جائے۔  اور جب وہ مارا گیا تو انہوں نے اس کی بیوی سے شادی کر لی، اور اسی عورت کے پیٹ سے سلیمان (علیہ السلام ) پیدا ہوئے۔  یہ تمام جھوٹے الزامات ظالموں نے اپنی ’’ کتاب مقدس‘‘ میں ثبت کر دیے ہیں تاکہ نسلاً بعد نسل اسے پڑھتے رہیں اور اپنی قوم کے ان دو بزرگ ترین انسانوں کی تذلیل کرتے رہیں جو حضرت موسیٰ کے بعد ان کے سب سے بڑے محسن تھے۔  

قرآن مجید کے مفسرین میں سے ایک گروہ نے تو ان افسانوں کو قریب قریب جوں کا توں قبول کر لیا ہے جو بنی اسرائیل کے ذریعہ سے ان تک پہنچے ہیں۔  اسرائیلی روایات کا صرف اتنا حصہ انہوں نے ساقط کیا ہے جس میں حضرت داؤد پر زنا کا الزام لگایا گیا تھا اور عورت کے حاملہ ہو جانے کا ذکر تھا۔ باقی سارا قصہ ان کی نقل کردہ روایات میں اسی طرح پایا جاتا ہے جس طرح وہ بنی اسرائیل میں مشہور تھا۔ دوسرے گروہ نے سرے سے اس واقعہ ہی کا انکار کر دیا ہے کہ حضرت داؤد سے کوئی ایسا فعل صادر ہوا تھا جو دنبیوں والے مقدمہ سے کوئی مماثلت رکھتا ہو۔ اس کے بجائے وہ اپنی طرف سے اس قصے کی ایسی تاویلات کرتے ہیں جو بالکل بے بنیاد ہیں،  جن کا کوئی ماخذ نہیں ہے اور خود قرآن کے سیاق و سباق سے بھی وہ کوئی مناسبت نہیں رکھتیں۔  لیکن مفسرین ہی میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو ٹھیک بات تک پہنچا ہے اور قرآن کے واضح اشارات سے قصے کی اصل حقیقت پا گیا ہے۔  مثال کے طور پر چند اقوال ملاحظہ ہوں :

مسروق اور سعید بن جبیر، دونوں حضرت عبداللہ بن عباس کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ’’حضرت داؤد نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا تھا کہ اس عورت کے شوہر سے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ اپنی بیوی کو میرے لیے چھوڑ دے ‘‘۔ (ابن جریر)

علامہ زَمَخشری اپنی کشّا ف میں لکھتے ہیں کہ ’’ جس شکل میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کا قصہ بیان فرمایا ہے اس سے تو یہی ظاہر ہوتا  ہے کہ انہوں نے اس شخص سے صرف یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ وہ اُن کے لیے پنی بیوی کو چھوڑ دے۔ ‘‘

علامہ ابوبکر جصّاص اس رائے کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ عورت اس شخص کی منکوحہ نہیں بلکہ صرف مخطوبہ یا منسوبہ تھی، حضرت داؤد نے اسی عورت سے نکاح کا پیغام دے دیا، اس پر اللہ تعالیٰ کا عتاب ہو ا کیونکہ انہوں نے اپنے مومن بھائی کے پیغام پر پیغام دیا تھا حالانکہ ان کے گھر میں پہلے سے کئی بیویاں موجود تھیں (احکام القرآن )۔  بعض دوسرے مفسرین نے بھی یہی رائے ظاہر کی ہے۔  لیکن یہ بات قرآن کے بیان سے پوری مطابقت نہیں رکھتی۔ قرآن مجید میں مقدمہ پیش کرنے والے کے جو الفاظ نقل ہوئے ہیں ہو ہ یہ ہیں کہ لِیْ نَعْجَۃٌ  وَّاحِدَۃٌ فَقَالَ اَکْفِلْنِیْھَا۔ ’’میرے پاس بس ایک ہی دُنبی ہے اور یہ کہتا ہے کہ اسے میرے حوالہ کر دے ‘‘۔ یہی بات حضرت داؤد نے بھی اپنے فیصلہ کیں ارشاد فرمائی کہ فَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِکَ۔ ’’ اس بت تیری دنبی مانگنے میں تجھ پر ظلم کیا۔ ‘‘ یہ تمثیل حضرت داؤد اور اوریاہ کے معاملہ پر اسی صورت میں چسپاں ہو سکتی ہے جبکہ وہ عورت اس شخص کی بیوی ہو۔ پیغام پر پیغام دینے کا معاملہ ہوتا تو پھر تمثیل  یوں ہوتی کہ ’’ ایک دنبی لینا چاہتا تھا اور اس نے کہا کہ یہ بھی میرے لیے چھوڑ دے۔ ‘‘

قاضی ابوبکر ابن العربی احکام القرآن میں اس مسئلے پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ اصل واقعہ بس یہی ہے کہ حضرت داؤد نے اپنے آدمیوں میں سے ایک شخص سے کہا کہ میرے لیے اپنی بیوی چھوڑ دے،  اور سنجیدگی کے ساتھ یہ مطالبہ کیا ــــــ  قرآن میں یہ بات نہیں ہے کہ وہ شخص ان کے اس مطالبہ پر اپنی بیوی سے دست پردار ہو گیا اور حضرت داؤد نے اس عورت سے اس کے بعد شادی بھی کر لی اور حضرت سلیمانؑ اسی بطن سے پیدا ہوئے ــــــ جس بات پر عتاب ہوا وہ اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ انہوں نے ایک عورت کے شوہر سے یہ چاہا کہ وہ ان کی خاطر اسے چھوڑ دے ــــــــ یہ فعل خواہ فی الجملہ جائز ہی ہو مگر منصب نبوت سے بعید تھا، اسی لیے ان پر عتاب بھی ہوا اور ان کو نصیحت بھی کی گئی۔ ‘‘

یہی تفسیر اس سیاق و سباق سے بھی مناسبت رکھتی ہے جس میں یہ قصہ بیان کیا گیا ہے۔  سلسلہ کلام پر غور کرنے سے یہ با ت صاف معلوم ہوتے ہے کہ قرآن مجید میں اس مقام پر یہ قصہ دو اغراض کے لیے بیان کیا گیا ہے۔  پہلی غرض نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو صبر کی تلقین کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے آپ کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ ’’ جو باتیں یہ لوگ تم پر بناتے ہیں ان پر صبر کرو، اور  ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو‘‘۔ یعنی تمہیں تو ساحر اور کذاب ہی کہا جا رہا ہے،  لیکن ہمارے بندے داؤد پر تو ظالموں نے زنا اور سازشی قتل تک کے الزامات لگا دیے،  لہٰذا ان لوگوں سے جو کچھ بھی تم کو سننا پڑے اسے برداشت کرتے رہو۔ دوسری غرض کفار کو یہ بتانا ہے کہ تم لوگ ہر محاسبے سے  بے خوف ہو کر دنیا میں  طرح طرح کی زیادتیاں کرتے چلے جاتے ہو، لیکن جس خدا کی خدائی میں تم یہ حرکتیں کر رہے ہو وہ کسی کو بھی محاسبہ کیے بغیر نہیں چھوڑتا، حتیٰ کہ بو بندے اس کے نہایت محبوب و مقرب ہوتے ہیں،  وہ بھی اگر ایک ذرا سی لغزش کے مرتکب ہو جائیں تو خداوند عالم ان سے سخت مواخذہ کرتا ہے۔  اس مقصد کے لیے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے فرمایا گیا کہ ان کے سامنے ہمارے بندے داؤد کا قصہ بیان کرو جو ایسی اور ایسی خوبیوں کا مالک تھا، مگر جب اس سے ایک بے جا بات  سرزد ہو گئی تو دیکھو کہ ہم نے اسے کس طرح سرزنش کی۔

اس سلسلہ میں ایک غلط فہمی اور باقی رہ جاتی ہے جسے رفع کر دینا ضروری ہے۔ تمثیل میں مقدمہ پیش کرنے  والے نے یہ جو کہا ہے کہ اس شخص کے پاس ۹۹ دنبیاں ہیں اور میرے پاس ایک ہی دنبی ہے جسے یہ مانگ رہا ہے،  اس سے بظاہر یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید حضرت داؤد پاس ۹۹ بیویاں تھیں اور وہ ایک عورت حاصل کر کے ۱۰۰ کا عدد پورا کرنا چاہتے تھے۔  لیکن دراصل تمثیل کے ہر ہر جُّز ء کا حضرت داؤد اور اوریاہ  حتّی کے معاملے لفظ بہ لفظ چسپاں ہونا ضروری نہیں ہے۔  عام محاورے میں دس، بیس، پچاس وغیرہ اعداد کا ذکر صرف کثرت کو بیان کرنے کے لیے کیا جاتا ہے  نہ کہ ٹھیک تعداد بیان کرنے لے لیے۔  ہم جب کسی سے کہتے ہیں کہ دس مرتبہ تم سے فلاں بات کہہ دی تو اس کا مطلب یہ  نہی ہوتا کہ دس بار گِن کر وہ بات کہی گئی ہے،  مطلب یہ ہوتا ہے بارہا وہ بات کہی جا چکی ہے۔  ایسا ہی معاملہ یہاں بھی ہے۔  تمثیلی مقدمہ میں وہ شخص حضرت داؤد کو یہ احساس دلانا چاہتا تھا کہ آپ کے پاس متعدد بیویاں ہیں،  اور پھر بھی آپ دوسرے شخص کی بیوی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔  یہی بات مفسر نیسابوری نے حضرت حسنؓ بصری سے نقل کی ہے کہ  لم یکن لداؤد تسع وتسعون امرأۃ  وانما ھٰذا مثل، ’’ حضرت داؤد کی ۹۹ بیویاں نہ تھیں بلکہ یہ صرف ایک تمثیل ہے۔ ‘‘

(اس قصے پر تفصیلی بحث ہم نے اپنی کتاب تفہیمات حصہ دوم میں کی ہے۔  جو اصحاب ہماری بیان کردہ تاویل کی ترجیح کے مفصل دلائل معلوم کرنا چاہتے ہیں وہ اس کتاب کے صفحات ۲۹ تا ۴۴ ملاحظہ فرمائیں۔ )

 

ہم نے اس آسمان اور زمین کو، اور اس دنیا کو جو ان کے درمیان ہے فضول پیدا نہیں کر دیا ہے (۲۹)۔ یہ تو ان لوگوں کا گمان ہے جنہوں نے کفر کیا ہے،  اور ایسے کافروں کے لیے بر بادی ہے جہنم کی آگ سے۔  کیا ہم متقیوں کو ہم فاجروں جیسا کر دیں؟(۳۰)۔۔۔ یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے (۳۱) جو (اے محمدؐ) ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقول و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔
اور داؤد کو ہم نے سلیمانؑ (جیسا بیٹا ) عطا کیا(۳۲)، بہترین بندہ، کثرت سے اپنے رب کی طرف رجوع کرنے والا۔ قابل ذکر ہے وہ موقع جب شام کے وقت اس ک سامنے خوب سدھے ہوئے تیز  رو گھوڑے پیش کئے گئے (۳۳) تو اس نے کہا’’ میں نے اس مال کی محبت اپنے رب کی یاد کی وجہ سے اختیار کی ہے ‘‘ یہاں تک کہ جب وہ گھوڑے نگاہ سے اوجھل ہو گئے تو (اس نے حکم دیا کہ ) انہیں میرے پاس واپس لاؤ، پھر لگا ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے (۳۵)۔ اور (دیکھو کہ ) سلیمانؑ کو بھی ہم نے آزمائش میں ڈالا اور اس کی کرسی پر ایک جسد لا کر ڈال دیا۔ پھر اس نے رجوع کیا اور کہا کہ ’’ اے میرے رب، مجھے معاف کر دے اور مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزاوار نہ ہو، بیشک تو ہی اصل داتا ہے ‘‘ (۳۶)۔ تب ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا جو اس کے حکم سے نرمی کے ساتھ چلتی تھی جدھر وہ چاہتا تھا (۳۷)، اور شیاطین کو مسخر کر دیا، ہر طرح کے معمار اور غوطہ خور اور دوسرے جو پابند سلاسل تھے (۳۸)۔ (ہم نے اس سے کہا)’’یہ ہماری بخشش ہے،  تجھے اختیار ہے جسے چاہے دے اور جس سے چاہے روک لے،  کوئی حساب نہیں ‘‘ (۳۹)۔ یقیناً اس کے لیے ہمارے ہاں تقرُّب کا مقام اور بہتر انجام ہے (۴۰)۔ ع

 

۲۹۔ یعنی محض کھیل کے طور پر پیدا نہیں کر دیا ہے کہ اس میں کوئی حکمت نہ ہو،  کوئی غرض اور مقصد نہ ہو، کوئی عدل اور انصاف نہ ہو، اور کسی اچھے یا بُرے فعل کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو۔ یہ ارشاد پچھلی تقریر کا ماحصل بھی ہے اور آگے کے مضمون کی تمہید بھی۔ پچھلی تقریر کے بعد یہ فقرہ ارشاد فرمانے سے مقصود یہ حقیقت سامعین سے ذہن نشین کرانا ہے کہ انسان یہاں شترِ بے مہار کی طرح نہیں چھوڑ دیا گیا ہے،  نہ یہ دنیا اندھیر نگری ہے کہ یہاں جس کا جو کچھ جی چاہے کرتا رہے اور اس پر کوئی باز پُرس نہ ہو۔ آگے کے مضمون کی تمہید کے طور پر اس فقرے سے کلام کا آغاز کر کے یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ جو شخص جزا و سزا کا قائل نہیں ہے اور اپنی جگہ یہ سمجھے بیٹھا رہے کہ نیک و بد سب آخر کار مر کر مٹی ہو جائیں گے،  کسی سے کوئی محاسبہ نہ ہو گا، نہ کسی کو بھلائی یا بُرائی کا کوئی بدلہ ملے گا، وہ دراصل دنیا کو ایک کھلونا اور اس کے بنانے والے کو کھلنڈرا سمجھتا ہے اور اس کا خیال یہ ہے کہ خالق کائنات نے دنیا بنا کر اور اس میں انسان کو پیدا کر کے ایک فعل عبث کا ارتکاب کیا ہے۔  یہی بات قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف طرقوں سے ارشاد فرمائی گئی ہے۔  مثلاً فرمایا:

اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُم عَبَثاً وَّ اَنَّکُمْ اِلِیْنَا لَا تُرْ جَعُوْنَ (المومنون:۱۱۵)

کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تم کو فضول پیدا کر دیا ہے اور تم ہمارے طرف پلٹائے جانے والے نہیں ہو؟

وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا لٰعِبِیْنَ o مَا خَلَقْنٰھُمَا اِلَّا بِا لْحَقِّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَھُم لَا یَعْلَمُوْنَ o اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ مِیْقَا تھُُمْ اَجْمَعِیْنَo (الدُّ خان: ۳۸۔ ۴۰)

ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور کائنات کو جو ان کے درمیان ہے کھیل کے طور پر پیدا نہیں کیا ہے۔  ہم نے ان کو بر حق پیدا کیا ہے مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔  درحقیقت فیصلے کا دن ان سب کے لیے حضری کا وقت مقرر ہے۔  

۳۰۔ یعنی کیا تمہارے نزدیک یہ بات معقول ہے کہ نیک اور بد دونوں آخر کار یکساں ہو جائیں؟ کیا یہ تصور تمہارے لیے اطمینان بخش ہے کہ کسی نیک انسان کو اس کی نیکی کا کوئی صلہ اور کسی بد آدمی کو اس کی بدی کا کوئی بدلہ نہ ملے؟ ظاہر بات ہے کہ اگر آخرت نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی محاسبہ نہ اور انسانی افعال کی کوئی جزا و سزا نہ ہو تو اس سے اللہ کی حکمت اور اس کے عدل دونوں کی نفی ہو جاتی ہے اور کائنات کا پورا نظام ایک اندھا نظام بن کر رہ جانا ہے۔  اس مفروضے پر تو دنیا میں بھلائی لے لیے کوئی محرّک اور بُرائی سے روکنے کے لیے کوئی مانع سرے سے باقی ہی نہیں رہ جا تا ہے۔  خدا کی خدائی اگر معاذاللہ ایسی ہی اندھیر نگری ہو تو پھر وہ شخص بے وقوف ہے جو اس زمین پر تکلیفیں اُٹھا کر خود صالح زندگی بسر کرتا ہے اور خلقِ خدا کی اصلاح کے لیے کام کرتا ہے،  اور وہ شخص عقلمند ہے جو ساز گار مواقع پا کر ہر طرح کی زیادتیوں سے فائدے سمیٹے اور ہر قوم کے فسق و فجور سے لطف اندوز ہوتا ہے۔  

۳۱۔ برکت کے لغوی معنی ہیں ’’ افزائش خیر و سعادت‘‘۔ قرآن مجید کو برکت والی کتاب کہنے کے معنی یہ ہیں کہ یہ انسان کے لیے نہایت مفید کتاب ہے۔  اس کی زندگی کو درست کرنے کے لیے بہترین ہدایات دیتی ہے،  اس کی پیروی میں آدمی کا نفع ہی نفع ہے،  نقصان کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔  

۳۲۔ حضرت سلیمان کا ذکر اس سے پہلے حسب ذیل مقامات پر گزر چکا ہے : تفہیم القرآن جلد اول، ص ۹۷۔ جلد دوم،  ص، ۵۹۷۔ ۵۹۸۔ جلد سوم، ص ۱۷۳ تا ۱۷۸۔ ۵۶۰ تا ۵۸۲۔ سورہ سبا، آیات ۱۲۔ ۱۴۔

۳۳۔ اصل الفاظ ہیں الصَّا فِنَا تُ الْجِیَا دُ۔ اس سے مراد ایسے گھوڑے ہیں جو کھڑے ہوں تو نہایت سکون کے ساتھ کھڑے رہیں،  کوئی اچھل کود نہ کریں،  اور جب دوڑیں تو نہایت تیز دوڑیں۔  

۳۴۔ اصل میں لفظ خَیْر  استعمال ہوا ہے جو عربی زبان میں مال کثیر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے،  اور گھوڑوں کے لیے بھی مجازاً استعمال کیا جاتا ہے۔  حضرت سلیمان علیہ السلام نے ان گھوڑوں کو چونکہ راہ خدا میں جہاد کے لیے رکھا تھا، اس لیے انہوں نے ’’ خیر ‘‘ کے لفظ سے ان کو تعبیر فرمایا۔

۳۵۔ ان آیات کے ترجمہ اور تفسیر میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔  

ایک گروہ ان کا مطلب یہ بیان کرتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام گھوڑوں کے معاینے اور ان کو دَوڑ کے ملاحظہ میں اس قدر مشغول ہوئے کہ نماز عصر بھول گئے،  یا بقول بعض اپنا کوئی خاص وظیفہ پڑھنا بھول گئے جو وہ عصر  و مغرب کے درمیان پڑھا کرتے تھے،  یہاں تک کہ سورج چھپ گیا۔ تب انہوں  نے حکم دیا کہ ان گھوڑوں کو واپس لاؤ، اور جب وہ واپس آئے تو حضرت سلیمانؑ نے تلوار لے کر ان کا ٹنا، یا بالفاظ دیگر، اللہ کے لیے ان کو قربان کرنا شروع کر دیا کیونکہ وہ ذکر الٰہی  سے غفلت کے موجب بن گئے تھے۔  اس مطلب کے لحاظ سے ان آیات کا ترجمہ یہ کیا گیا ہے۔ : ’’تو اس نے کہا، میں نے اس مال کی محبت کو ایسا پسند کیا کہ اپنے رب کی یاد (نماز عصر، یا وظیفہ خاص) سے غافل ہو گیا، یہاں تک کہ (سورج پردۂ مغرب میں ) چھُپ گیا۔  (پھر اس نے حکم دیا کہ) واپس لاؤ ان (گھوڑوں ) کو (اور جب وہ واپس آئے ) تو لگا اُن کی پنڈلیوں اور گردنوں پر (تلوار کے ) ہاتھ چلانے ‘‘۔ یہ تفسیر اگرچہ بعض اکابر مفسرین نے کی ہے،  لیکن یہ اس وجہ سے قابل ترجیح نہیں ہے کہ اس میں مفسر کو تین باتیں اپنی طرف سے بڑھانی پڑتی ہیں جن کا کوئی ماخذ نہیں ہے۔  اوّلاً وہ فرض کرتا ہے کہ حضرت سلیمان کی نماز عصر اس شغل میں چھوٹ گئی، یا ان کا کوئی خاص وظیفہ چھوٹ گیا جو وہ اس وقت پڑھا کرتے تھے۔  حالانکہ قرآن کے الفاظ صرف یہ ہیں،  اِنِّی اَحْبَیْتُ حُبَّ الْخَیْرِ عَنْ ذِکْرِ رَبِّی۔ ان الفاظ کا ترجمہ یہ تو گیا جا سکتا ہے کہ ’’ میں نے اس مال کو اتنا پسند کیا کہ اپنے رب کی یاد سے غافل ہو گیا، ‘‘ لیکن ان میں نماز عصر یا کوئی خاص وظیفہ مراد لینے کے لیے کوئی قرینہ نہیں ہے۔  ثانیاً وہ یہ بھی فرض کرتا ہے کہ سورج چھپ گیا، حالانکہ وہاں سورج کا کوئی ذکر نہیں ہے بلکہ حَتّیٰ تَوَ ا رَتْ بِا لْحِجَاب کے الفاظ پڑ ھ کر آدمی کا ذہن بال تامُّل الصَّا فِنَا تُ الْجِیَاد  کی طرف پھرتا ہے جن کا ذکر پچھلی آیت میں ہو چکا ہے۔  ثانیاً وہ یہ بھی فرض کرتا ہے کہ حضرت سلیمان نے گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں پر خالی مسح نہیں کیا بلکہ تلوار سے مسح کیا، حالانکہ قرآن میں مَسْحاً بِا لسَّیْفِ کے الفاظ نہیں ہیں،  اور کوئی قرینہ بھی ایسا موجود نہیں ہے جس کی بنا پر مسح سے مسح بالسُیف مراد لیا جا سکے۔  ہمیں اس طریق تفسیر سے اُصولی اختلاف ہے۔ ہمارے نزدیک قرآن کے الفاظ سے زائد کوئی مطلب لینا چار ہی صورتوں میں درست ہو سکتا ہے۔  یا تو قرآن ہی کی عبارت میں اس کے لیے کوئی قرینہ موجود ہو، یا قرآن میں کسی دوسرے مقام پر اس کی طرف کوئی اشارہ ہو، یا کسی صحیح حدیث میں اس اجمال کی شرح ملتی ہو، یا اس کا اور کوئی قابِل اعتبار ماخذ ہو، مثلاً تاریخ کا معاملہ ہے تو تاریخ میں اس اجمال کی تفصیلات ملتی ہوں،  آثار کائنات کا ذکر ہے تو مستند علمی تحقیقات سے اس کی تشریح ہو رہی ہو، اور احکام شرعیہ کا معاملہ ہے تو فقہ اسلامی کے مآخذ اس کی وضاحت کر رہے ہوں۔  جہاں ان میں سے کوئی چیز بھی نہ ہو وہاں محض بطور خود ایک قصہ تصنیف کر کے قرآن کی عبارت میں شامل کر دینا ہمارے نزدیک صحیح نہیں ہے۔  

ایک گروہ نے مذکورہ بالا ترجمہ و تفسیر سے تھوڑا سا اختلاف کیا ہے۔  وہ کہتے ہیں کہ  حَتّیٰ تَوَا رَت ْ بِا لْحِجَابِ  اور رُدُّ وْ ھَا عَلَیَّ، دونوں کی ضمیر سورج ہی کی طرف پھرتی ہے۔  یعنی جب نماز عصر فوت ہو گئی اور سورج پردۂ مغرب میں چھُپ گیا تو حضرت سلیمانؑ نے کارکنان قضا و قدر سے کہا کہ پھیر لاؤ سورج کو تاکہ عصر کا وقت واپس آ جائے اور میں نماز ادا کر لوں،  چنانچہ سورج پلٹ آیا اور انہوں نے نماز پڑھ لی۔ لیکن یہ تفسیر اوپر والی تفسیر سے بھی زیادہ ناقابل قبول ہے۔  اس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ سورج کو واپس لانے پر قادر نہیں ہے،  بلکہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا قطعاً کوئی ذکر نہیں فرمایا ہے،  حالانکہ حضرت سلیمانؑ کے لیے اتنا بڑا معجزہ صادر ہوا ہوتا تو وہ ضرور قابل ذکر ہونا چاہیے تھا۔ اور اس لیے بھی کہ سورج کا غروب ہو کر پلٹ آنا ایسا غیر معمولی واقعہ ہے کہ اگر وہ در حقیقت پیش آیا ہوتا تو دنیا کی تاریخ اس کے ذکر سے پر ہرگز خالی نہ رہتی۔ اس تفسیر کی تائید میں یہ حضرات بعض احادیث بھی پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سورج کا غروب ہو کر دوبارہ پلٹ آنا ایک ہی دفعہ کا واقعہ  نہیں ہے بلکہ یہ کئی دفعہ پیش آیا ہے۔  قصہ معراج میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے سورج کے واپس لائے جانے کا ذکر ہے۔  غزوہ خندق کے موقع پر بھی حضورؐ کے لیے وہ واپس لایا گیا۔ اور حضرت علیؓ کے لیے جب کہ حضورؐ کی گود میں سر رکھے سو رہے تھے اور ان کی نماز عصر قضا ہو گئی تھی، حضورؐ  نے سورج کی واپسی کی دعا فرمائی تھی اور وہ پلٹ آیا تھا۔ لیکن ان روایات سے استدلال اس تفسیر سے بھی زیادہ کمزور ہے جس کی تائید کے لیے انہیں پیش کیا گیا ہے۔  حضرت علیؓ کے متعلق جو روایت بیان کی جاتی ہے اس کے تمام طُرُق اور رجال پر تفصیلی بحث کر کے ابن تمییہؒ نے اسے موضوع ثابت کیا ہے۔  امام احمدؒ فرماتے ہیں کہ اس کی کوئی اصل نہیں ہے،  اور ابن جَوزی کہتے ہیں کہ وہ بلا شک و شبہ موضوع ہے۔  غزوہ خندق کے موقع پر سورج کی واپسی والی روایت بھی بعض محدثین کے نزدیک ضعیف اور بعض کے نزدیک موضوع ہے،  رہی قصّۂ معراج والی روایت، تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم کفار مکہ سے شبِ معراج کے حالات بیان فرما رہے تھے تو کفار نے آپ سے ثبوت طلب کیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ بیت المقدس کے راستے میں فلاں مقام پر ایک قافلہ ملا تھا جس کے ساتھ فلاں واقعہ پیش آیا تھا۔ کفّار نے پوچھا وہ قافلہ کس روز مکہ پہنچے گا۔ آپؐ نے فرمایا فلاں روز۔ جب وہ دن آیا تو قریش کے لوگ دن بھر قافلہ کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ شام ہونے کو آ گئی۔ اس موقع پر حضورؐ نے دعا کی کہ دن اس وقت تک غروب نہ ہو جب تک قافلہ نہ آ جائے۔  چنانچہ فی الواقع سورج ڈوبنے سے پہلے وہ پہنچ گیا۔ اس واقعہ کو بعض راویوں نے اس طرح بیان کیا ہے کہ اس روز دن میں ایک گھنٹہ کا اضافہ کر دیا گیا اور سورج اتنی دیر تک کھڑا رہا۔ سوال یہ ہے کہ اس قسم کی روایات کیا اتنے بڑے غیر معمولی واقعہ کے ثبوت میں کافی شہادت ہیں؟ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں،  سورج کا پلٹ آنا، یا گھنٹہ بھر رکا رہنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔  ایسا واقعہ اگر فی الواقع پیش آ گیا ہوتا تو دنیا بھر میں اس کی دھوم مچ گئی ہوتی۔ بعض اخبارِ آحاو تک اس کا ذکر کیسے محدود رہ سکتا تھا؟

مفسرین کا تیسرا گروہ ان آیات کا وہی مفہوم لیتا ہے جو ایک خالی الذہن آدمی اس ک الفاظ پڑھ کر اس سے سمجھ سکتا ہے۔  اس تفسیر کے مطابق واقعہ بس اس قدر ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے جب علیٰ درجے کے اصیل گھوڑوں کا ایک دستہ پیش کیا گیا تو انہیں نے فرمایا، یہ مال مجھے کچھ اپنی بڑائی کی غرض سے یا اپنے نفس کی خاطر محبوب نہیں ہے بلکہ ان چیزوں سے دلچسپی کو میں اپنے رب کا کلمہ بلند کرنے کے لیے پسند کرتا ہوں۔  پھر انہوں نے ان گھوڑوں کی دوڑ کرائی یہاں تک کہ وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔ اس کے بعد انہیں نے ان کو واپس طلب فرمایا اور جب وہ آئے تو بقول ابن عباس، جعل یسمح اعراف الخیل و عرا قیبھا  حُبًّ لھا، ’’حضرت ان کی گردنوں پر اور ان کی پنڈلیوں پر محبت سے ہاتھ پھیرنے لگے ‘‘۔  یہی تفسیر ہمارے نزدیک صحیح ہے،  کیوں کہ یہ قرآن مجید کے الفاظ سے پوری مطابقت رکھتی ہے اور  مطلب کی تکمیل کے لیے اس میں ایسی کوئی بات بڑھانی نہیں پڑتی جو نہ قرآن میں ہو، نہ کسی صحیح حدیث میں اور نہ بنی اسرائیل کی تاریخ میں۔  

یہ بات بھی اس موقع پر نگاہ رہنی چاہیے کہ اس واقعہ کا ذکر اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان کے حق میں  نِعْمَ الْعَبْدُ اِنَّہٗ اَوَّابٌ  (بہترین بندہ، اپنے رب کی طرف کثرت سے رجوع کرنے والا) کے تعریفی کلمات ارشاد فرمانے کے معاً بعد کیا ہے۔  اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مقصود دراصل یہ بتانا ہے کہ دیکھو، وہ ہمارا ایسا اچھا بندہ تھا، بادشاہی کا سر و سامان اس کو دنیا کی خاطر نہیں بلکہ ہماری خاطر پسند تھا، اپنے شاندار رسالے کو دیکھ کر دنیا پرست فرمانرواؤں کی طرح اس نے ڈینگیں نہ ماریں بلکہ اس وقت بھی ہم ہی اسے یاد آئے۔  

۳۶۔ سلسلہ کلام کے لحاظ سے اس جگہ اصل مقصد یہی واقعہ بیان کرنا ہے اور پچھلی آیات اسی کے لیے بطور تمہید ارشاد ہوئی ہیں۔  جس طرح پہلے حضرت داؤد کی تعریف کی گئی، پھر اس واقعہ کا ذکر کیا گیا جس میں وہ مبتلائے فتنہ ہو گئے تھے،  پھر بتایا گیا کہ اللہ جل شانہ نے اپنے ایسے محبوب بندے کو بھی محاسبہ کیے بغیر نہ چھوڑا، پھر ان کی یہ شان دکھائی گئی کہ فتنے پر متنبہ ہوتے ہی وہ تائب ہو گئے اور اللہ کے آگے جھک کر انہوں نے اپنے اس فعل سے رجوع کر لیا، اسے طرح یہاں بھی ترتیبِ کلام یہ ہے کہ پہلے حضرت سلیمان علیہ السلام کے مرتبہ بلند اور شانِ بندگی کا ذکر کیا گیا ہے،  پھر بتایا گیا ہے کہ ان کو بھی آزمائش میں ڈالا گیا پھر ان کی یہ شان بندگی دکھائی گئی ہے کہ جب ان کی کرسی پر ایک جسد لا کر ڈال دیا گیا تو وہ فوراً ہی پانے لغزش پر متنبہ ہو گئے اور اپنے رب سے معافی مانگ کر انہوں نے اپنی اس بات سے رجوع کر لیا جس کی وجہ سے وہ فتنے میں پڑے تھے۔  بالفاظِ دیگر اللہ تعالیٰ ان دونوں قصوں سے بیک وقت دو باتیں ذہن نشین کرانا چاہتا ہے۔  ایک یہ کہ  اس کے بے لاگ  محاسبے سے انبیا ء تک نہیں بچ سکے ہیں،  تابدیگراں چہ رسد۔ دوسرے یہ کہ بندے کے لیے صحیح رویہ قصور کر کے اکڑنا نہیں ہے بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ جس وقت بھی اسے اپنی غلطی کا احساس ہو جائے اسی وقت وہ عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے آگے جھک جائے۔  اسی رویہ کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان بزرگوں کی لغزشوں کو محض معاف ہی نہیں کیا بلکہ ان کو اور زیادہ الطاف و عنایات سے نوازا۔

یہاں پھر یہ سول پیدا ہوتا ہے وہ فتنہ کیا تھا جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام پڑ گئے تھا؟ اور ان کی کرسی پر ایک جَسَد لا کر ڈال دینے کا کیا مطلب ہے ؟ اور اس جَسَد کا لا کر ڈالا جانا ان کے لیے کس نوعیت کی تنبیہ تھی جس پر انہوں نے توبہ کی؟ اس کے جواب میں مفسرین نے چار مختلف مسلک اختیار کیے ہیں۔  

ایک گروہ نے ایک لمبا چوڑا افسانہ بیان کیا ہے جس کی تفصیلات میں ان کے درمیان بہت کچھ اختلافات ہیں۔  مگر سب کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ سے یا تو یہ قصور ہوا تھا کہ ان کے محل میں ایک بیگم چالیس دن تک بت پرستی کرتی رہی اور وہ اس سے بے خبر رہے،  یا یہ کہ وہ چند روز تک گھر میں بیٹھ رہے اور کسی مظلوم کی داد رسی نہ کی۔ اس پر ان کو یہ سزا ملی کہ ایک شیطان کسی نہ کسی طرح ان کی وہ انگوٹھی اُڑا لے گیا جس کی بدولت وہ جن و انس اور ہواؤں پر حکومت کرتے تھے۔  انگوٹھی ہاتھ سے جاتے ہی حضر ت سلیمانؑ کا سارا اقتدار چھن گیا اور وہ چالیس دن تک دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرے۔  اور اس دوران میں وہ شیطان، سلیمانؑ بنا ہوا حکمرانی کرتا رہا۔ سلیمانؑ کی کرسی پر ایک جسد  لا کر ڈال دینے سے مراد یہی شیطان ہے جو کرسی پر بیٹھ گیا تھا۔ بعض حضرات یہاں تک بھی کہہ گزرتے ہیں کہ اس زمانے میں اس شیطان سے حرمِ سلیمانی کی خواتین تک کی عصمت محفوظ نہ رہی۔ آخر کار سلطنت کے اعیان و اکابر اور علماء کو اس کی کاروائیاں دیکھ کر شک ہو گیا کہ یہ سلیمان نہیں ہے۔  چنانچہ انہوں نے اس کے سامنے  توراۃ کھولی اور وہ ڈر کر بھاگ نکلا۔ راستے میں انگوٹھی اس کے ہاتھ سے سمندر میں گر گئی، یا خود اُسی نے پھینک دی، اور اسے ایک مچھلی نے نگل لیا۔ پھر اتفاق سے وہ مچھلی سلیمان کو مل گئی۔ اسے پکانے کے لیے انہوں نے اس کا پیٹ جو چاک کیا تو انگوٹھی نکل آئی اور اس کا ہاتھ آنا تھا کہ جن و انس سب سلام کرتے ہوئے ان کے سامنے حاضر ہو گئے ـــــــــــ  یہ پورا افسانہ از سر تا پا خرافات پر مشتمل ہے جنہیں نو مسلم اہل کتاب نے تلمود اور دوسرے اسرائیلی روایات سے اخذ کر کے مسلمانوں میں پھیلا دیا تھا اور حیرت ہے کہ ہمارے ہاں کے بڑے بڑے لوگوں نے ان کو قرآن کے مجملات  کی تفصیلات  سمجھ کر اپنی زبان سے نقل کر دیا۔ حالانکہ نہ انگشتری سلیمانی کی کوئی حقیقت ہے،  نہ حضرت سلیمان کے کمالات کسی انگشتری کے کرشمے تھے،  نہ شیاطین کو اللہ نے یہ قدرت دی ہے کہ انبیاء کی شکل بنا کر آئیں اور خلقِ خدا کو گمراہ کریں،  اور نہ اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ کسی نبی کے قصور کی سزا ایسی فتنہ انگیز شکل میں سے جس سے شیطان نبی بن یر ایک پوری اُمت کا ستیاناس کر دے۔  سب سے بڑی بات یہ ہے کہ قرآن خود اس تفسیر کی تردید کر رہا ہے۔  آگے آیات میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب یہ آزمائش حضرت سلیمان کو پیش آئی اور انہوں نے ہم سے معافی مانگ لی تب ہم نے ہوا اور شیاطین کو ان کے لیے مسخر کر دیا۔ لیکن یہ تفسیر اس کے برعکس یہ بتا رہی ہے کہ شیاطین پہلے ہی انگشتری کے طفیل حضرت سلمان کے تابع فرمان تھے۔  تعجب ہے کہ جن بزرگوں نے یہ تفسیر بیان کی ہے انہوں نے یہ بھی نہ دیکھا کہ بعد کی آیات کیا کہہ رہی ہیں۔  

دوسرا گروہ کہتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ کے ہاں ۲۰ سال کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوا۔ شیاطین کو خطرہ ہوا کہ اگر سلیمانؑ کے بعد یہ بادشاہ ہو گیا تو ہم پھر اسی غلامی میں مبتلا رہیں گے،  اس لیے انہوں نے اسے قتل کر دینے کی ٹھانی۔ حضرت سلیمانؑ کو اس کا علم ہو گیا اور انہوں نے اس لڑکے کو بادلوں میں چھپا دیا تا کہ وہیں اس کی پرورش ہوتی رہے۔  یہی وہ فتنہ تھا جس میں حضرت مبتلا ہوئے تھے کہ انہوں نے اللہ پر توکل کرنے کے بجائے بادلوں کی حفاظت پر اعتماد کیا۔ اس کی سزا ان کو دی گئی کہ وہ بچہ مر کر ان کی کرسی پر آ گرا ــــــــــــ  یہ افسانہ بھی بالکل بے سر و پا اور صریح قرآن کے خلاف ہے،  کیونکہ اس میں بھی یہ رفض کر لیا گیا ہے کہ ہوائیں اور شیاطین پہلے سے حضرت سلیمانؑ کے لیے مسخر تھے،  حالانکہ قرآن صاف الفاظ میں ان کی تسخیر کو اس فتنے کے بعد کا واقعہ بتا رہا ہے۔  

تیسرا گروہ کہتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے ایک روز قسم کھائی کہ آج رات میں اپنی ستّر بیویوں کے پاس جاؤں گا اور ہر ایک سے ایک مجاہد فی سبیل اللہ پیدا ہو گا، مگر یہ بات کہتے ہوئے انہوں نے اِنشاء اللہ نہ کہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ صرف ایک بیوی حاملہ ہوئیں اور ان سے بھی ایک ادھورا بچہ پیدا ہوا جسے دائی نے لا کر حضرت سلیمانؑ کی کرسی پر ڈال دیا۔ یہ حدیث حضرت ابو ہریرہؓ نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کی ہے اور سے بخاری و مسلم اور دوسرے محدثین نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے۔  خود بخاری میں مختلف مقامات پر یہ روایت جن طریقوں سے نقل کی گئی ہے ان میں سے کسی میں بیویوں کی تعداد ۶۰ بیان کی گئی ہے،  کسی میں ۷۰، کسی میں ۹۰، کسی میں ۰۰، اور کسی میں ۱۰۰۔ جہاں تک اسناد کا تعلق ہے،  ان میں سے اکثر روایات کی سند قوی ہے،  اور با عتبارِ روایت اس کی صحت میں کلام نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن حدیث کا مضمون صریح عقل کے خلاف ہے اور پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح ہر گز نہ فرمائی ہو گی جس طرح وہ نقل ہوئی ہے۔  بلکہ آپ نے غالباً یہود کی یاوہ گوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے کسی موقع پر اسے بطور مثال بیان فرمایا ہو گا، اور سامع کو یہ غلط فہمی لاحق ہو گئی کہ اس بات کو حضورؐ خود بطور واقعہ بیان فرما رہے ہیں۔  ایسی روایات کو محض صحت سند کے زور پر لوگوں کے حلق سے اُتروانے کی کوشش کرنا دین کو  مضحکہ بنانا ہے۔   ہر شخص خود حساب لگا کر دیکھ سکتا ہے کہ جاڑے کی طویل ترین رات میں بھی عشا اور فجر کے درمیان دس گیارہ گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ اگر بیویوں کی کم سے کم تعداد ۶۰ ہی مان لی جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام اس رات بغیر دم لیے فی گھنٹہ ۶ بیویوں کے حساب سے مسلسل دس گھنٹے یا گیارہ گھنٹے مباشرت کرتے چلے گئے۔  کیا یہ عملاً ممکن بھی ہے؟ اور کیا یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ حضورؐ نے یہ بات واقعے کے طور پر بیان کی ہو گی؟ پھر حدیث میں یہ بات کہیں نہیں بیان کی گئی ہے کہ قرآن مجید میں حضرت سلیمان کی کرسی پر جس  جسد کے ڈالے جانے کا ذکر آیا ہے اس سے مراد یہی ادھورا بچہ ہے۔  اس لیے یہ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ حضورؐ نے یہ واقعہ اس آیت کی تفسیر  کے طور پر بیان فرمایا تھا۔ علاوہ بریں اس بچے کی پیدائش پر حضرت سلیمانؑ کا استغفار کرنا تو سمجھ میں آتا ہے،  مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ انہوں نے استغفار کے ساتھ یہ دعا کیوں مانگی کہ ’’ مجھے وہ بادشاہی دے جو میرے بعد کسی کے لیے سزا وار نہ ہو۔ ‘‘

ایک اور تفسیر جس کو امام رازی ترجیح دیتے ہیں یہ ہے کہ حضرت سلیمان کسی سخت مرض میں مبتلا ہو گئے تھے،  یا کسی خطرے کی وجہ سے اس قدر متفکر تھے کہ گھلتے گھلتے وہ بس ہڈی اور چمڑا رہ گئے تھے۔  لیکن یہ تفسیر قرآن کے الفاظ کا ساتھ نہیں دیتی۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’ ہم نے سلیمان کو آزمائش میں ڈالا اور اس کی کر دی پر ایک جسد لا کر ڈال دیا، پھر اس نے رجوع کیا۔ ‘‘ ان الفاظ کو پڑھ کر کوئی شخص بھی یہ نہیں سمجھ سکتا کہ اس جسد سے مراد خود حضرت سلیمان ہیں۔  ان سے تو صاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ آزمائش میں ڈالے جانے سے مراد کوئی قصور ہے جو آنجناب سے صادر ہوا تھا۔ اس قصور پر آپ کو تنبیہ اس شکل میں فرمائی گئی کہ آپ کی کرسی پر ایک جسد لا ڈالا گیا، اور اس پر جب آپ کو اپنے قصور کا احساس ہوا تو آپ نے رجوع فرما لیا۔

حقیقت یہ ہے کہ مقام قرآن مجید کے مشکل ترین مقامات میں سے ہے اور حتمی طور پر اس کی کوئی تفسیر بیان کرنے کے لیے ہمیں کوئی یقینی بنیاد نہیں ملتی۔ لیکن حضرت سلیمان کی دعا کے یہ الفاظ کہ ’’ اے میرے رب، مجھے معاف کر دے اور مجھ کو وہ بادشاہی دے جو میرے بعد  کسی کے لیے سزاوار نہ ہو’’، اگر تاریخ بنی اسرائیل کی روشنی میں پڑھے جائیں تو بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے دل میں غالباً یہ خواہش تھی کہ ان کے بعد ان کا بیٹا جانشین ہو اور حکومت و فرمانروائی آئندہ انہی کی نسل میں باقی رہے۔  اسی چیز کو اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں ’’ فتنہ ‘‘ قرار دیا اور اس پر وہ اس وقت متنبہ ہوئے جب ان کا ولی عہد رَجُبعام ایک ایسا نالائق نوجوان بن کر اُٹھا  جس کے لچھن صاف بتا رہے تھے کہ وہ داؤد و سلیمان علیہما السلام کی سلطنت چار دن بھی نہ سنبھال سکے گا۔ ان کی کرسی پر ایک جَسَد لا کر ڈالے جانے کا مطلب غالباً یہی ہے کہ جس بیٹے کو وہ اپنی کرسی پر بٹھا نا چاہتے تھے وہ ایک کندہ نا تراش تھا۔ تب انہوں نے اپنی اس خواہش سے رجوع کیا، اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ کر درخواست کی کہ بس یہ بادشاہی مجھی پر ختم ہو جائے،  میں اپنے بعد اپنی نسل میں بادشاہی جاری رہنے کی تمنا سے باز آیا۔ بنی اسرائیل کی تاریخ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمانؑ نے اپنے بعد کسی کے لیے بھی جانشینی کی نہ وصیت کی اور نہ کسی کی اطاعت کے لیے لوگوں کو پابند کیا۔ بعد میں ان کے اعیانِ سلطنت نے رجبعام کو تخت پر بٹھایا، مگر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ بنی اسرائیل کے دس قبیلے شمالی فلسطین کاعلاقہ لے کر الگ ہو گئے اور صرف یہوواہ کا قبیلہ بیت المقدس کے تخت سے وابستہ رہ گیا۔

۳۷۔ اس کی تشریح سورہ انبیاء کی تفسیر میں گزر چکی ہے (تفہیم القرآن جلد سوم، ص ۱۷۶۔ ۱۷۷ )۔ البتہ یہاں ایک بات وضاحت طلب ہے۔  سورہ انبیاء میں جہاں حضرت سلیمانؑ کے لیے ہو ا کو مسخر کرنے کا ذکر کیا گیا ہے وہاں الریح عَاصفتۃً (باد تند) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں،  اور یہاں اسی ہوا کے متعلق فرمایا گیا ہے تَجْرِیْ بِاَ مْرِ ہٖ رُخَآ ءً  (وہ اس کے حکم سے نرمی کے ساتھ چلتی تھی)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہوا بجائے خود تو باد تند تھی، جیسی کہ بادبانی جہازوں کو چلانے کے لیے درکار ہوتی ہے،  مگر حضرت سلیمانؑ کے لیے وہ اس معنی میں نرم بنا دی گئی تھی کہ جدھر ان تجارتی بیڑوں کو سفر کرتے کی ضرورت ہوتی تھی اسی طرف وہ چلتی تھی۔

۳۸۔ تشریح کے  لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، صفحہ ۱۷۶۔ ۱۷۸۔ ۵۶۲۔ ۵۶۳۔ ۵۶۶۔ ۵۶۸۔ ۵۷۵۔ ۵۷۶۔ شیاطین سے مراد جِن ہیں۔  اور ’’ پابند سلاسل شیاطین‘‘ سے مراد وہ خدمت گار شیاطین ہیں جنہیں شرارت کی پاداش میں مقید کر دیا جاتا تھا۔ ضروری نہیں ہے کہ وہ بیڑیاں اور زنجیریں جن سے یہ شیاطین باندھے جاتے تھے، لوہے کی ہی بنی ہوئی ہوں اور قیدی انسانوں کی طرح وہ بھی لوگوں کو علانیہ بندھے ہوئے نظر آتے ہوں۔  بہر حال انہیں کسی ایسے طریقہ سے مقید کیا جاتا تھا جس سے وہ بھاگنے اور شرارت کرنے پر قادر نہ رہتے تھے۔  

۳۹۔ اس آیت کے  تین مطلب ہو سکتے ہیں۔  ایک یہ کہ یہ ہماری بے حساب بخشش ہے،  تمہیں اختیار ہے کہ جسے چاہو دو اور سے چاہے نہ دو۔ دوسرے یہ کہ یہ ہماری بخشش ہے،  جسے چاہو دو نہ دو، دینے یا نہ دینے پر تم سے کوئی محاسبہ نہ ہو گا۔ ایک اور مطلب بعض مفسرین نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ شیاطین کلیۃً تمہارے تصرف میں دے دیے گئے ہیں،  ان میں سے جسے چاہو رہا کر دو اور جسے چاہو روک رکھو، اس پر کوئی محاسبہ تم سے نہ ہو گا۔

۴۰۔ اس ذکر سے اصل مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بندے کی اکڑ جتنی مبغوض ہے،  اس کی عاجزی کی ادا اتنی ہی محبوب ہے۔  بندہ اگر قصور کرے اور تنبیہ کرنے پر اُلٹا اور زیادہ اکڑ جائے تو انجام وہ ہوتا ہے جو آگے آدم و ابلیس کے اصے میں بیان ہو رہا ہے۔  اس کے برعکس ذرا لغزش بھی اگر بندے سے ہو جائے اور وہ توبہ کر کے عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے آگے جھک جائے تو اس پر وہ نوازشات فرمائی جاتی ہیں جو داؤد و سلیمان علیہما السلام پر فرمائی گئیں۔  حضرت سلیمانؑ نے استغفار کے بعد جو دعا کی تھی، اللہ تعالیٰ نے اسے لفظ بلفظ پورا کیا اور ان کو فی الواقع ایسی بادشاہی دی جو نہ ان سے پہلے کسی کو ملی نہ تھی، نہ ان کے بعد آج تک کسی کو عطا کی گئی۔ ہواؤں پر تصرُّف اور جِنوں پر  حکمرانی ایک ایسی غیر معمولی طاقت ہے جو انسانی تاریخ میں صرف حضرت سلیمان ہی کو بخشی  گئی ہے،  کوئی دوسرا اس میں ان کا شریک نہیں ہے۔  

 

اور ہمارے بندے ایّوبؑ کا ذکر کرو(۴۱)، جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ شیطان نے مجھے سخت تکلیف اور عذاب میں ڈال دیا ہے (۴۲)۔ (ہم نے اسے حکم دیا) اپنا پاؤں زمین پر مار، یہ ہے ٹھنڈا پانی نہانے کے لیے اور پینے کے لیے (۴۳)۔ ہم نے اسے اس کے اہل و عیال واپس دیے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور (۴۴)، اپنی طرف سے رحمت کے طور پر، اور عقل و فکر رکھنے والوں کے لیے درس کے طور پر(۴۵)۔ (اور ہم نے اس سے کہا) تنکوں کا ایک مُٹھا لے اور اس سے مار دے،  اپنی قسم نہ توڑ(۴۶)۔  ہم نے اسے صابر پایا، بہترین بندہ، اپنے رب کی طرف بہت رجوع کرنے والا(۴۷)۔
اور ہمارے بندوں،  ابراہیمؑ اور اسحاقؑ اور یعقوبؑ کا ذکر کرو۔ بڑی قوت عمل رکھنے والے اور دیدہ ور لوگ تھے (۴۸)۔ ہم نے ان کو ایک خالص صفت کی بنا پر برگزیدہ کیا تھا، اور وہ دار آخرت کی یاد تھی(۴۹)۔ یقیناً ہمارے ہاں ان کا شمار چنے ہوئے نیک اشخاص میں ہے۔  اور اسماعیلؑ اور اَلْیَسْع (۵۰) اور ذوالکِفل(۵۱) کا ذکر کرو، یہ سب نیک لوگوں میں سے تھے۔  
یہ ایک ذکر تھا۔ (اب سنو کہ ) متقی لوگوں کے لیے یقیناً بہترین ٹھکانا ہے،  ہمیشہ رہنے والی جنتیں جن دے دروازے ان کے لیے کھلے ہوں گے (۵۲)۔ ان میں تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے،  خوب خوب فواکہ اور مشروبات طلب کر رہے ہوں گے،  اور ان کے پاس شرمیلی ہم سن بیویاں ہوں گی (۵۳)۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں حساب کے دن عطا کرنے کا تم سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔  یہ ہمارا رزق ہے جو کبھی ختم ہونے سالا نہیں۔
یہ تو ہے متقیوں کا انجام۔ اور سرکشوں کے لیے بدترین ٹھکانا ہے،  جہنم جس میں وہ جھلسے جائیں گے،  بہت ہی بری قیام گاہ۔ یہ ہے ان کے لیے،  پس وہ مزا چکھیں کھولتے ہوئے پانی اور پیپ (۵۴) لہو اور اسے قسم کی دوسری تلخیوں کا۔ (وہ جہنم کی طرف اپنے پیروؤں کو آتے دیکھ کر آپس میں کہیں گے )’’ یہ ایک لشکر تمہارے پاس گھسا چلا آ رہا ہے،  کوئی خوش آمدید ان کے لیے نہیں ہے،  یہ آگ میں جھلسنے والے ہیں ‘‘۔ وہ ان کو جواب دیں گے ’’نہیں بلکہ تم ہی جھلسے جا رہے ہو کوئی خیر مقدم تمہارے لیے نہیں۔ تم ہی تو یہ انجام ہمارے آگے لائے ہو، کیسی بری ہے یہ جائے قرار ‘‘ پھر وہ کہیں گے ’’اے ہمارے رب، جس نے ہمیں اس انجام کو پہنچانے کا بندوبست  کیا اس کو دوزخ کا دوہرا عذاب دے ‘‘۔ اور وہ آپس میں کہیں گے ’’ کیا بات ہے،  ہم ان لوگوں کو کہیں نہیں دیکھتے جنہیں ہم دنیا میں برا سمجھتے تھے؟ (۵۵) ہم نے یونہی ان کا مذاق بنا لیا تھا، یا وہ کہیں نظروں سے اوجھل ہیں ‘‘؟ بے شک یہ بات سچی ہے،  اہل دوزخ میں یہی کچھ جھگڑے ہونے والے ہیں۔ ع

 

۴۱۔ یہ چوتھا مقام ہے جہاں حضرت ایوبؑ کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔  اس سے پہلے سورہ نساء آیت ۱۶۳، سورہ انعام آیت ۸۴، سورہ انبیاء آیات ۸۳۔ ۸۴ میں ان کا ذکر گزر چکا ہے اور ہم تفسیر سورہ انبیاء میں ان کے حالات کی تفصیل بیان کر چکے ہیں۔ (تفہیم القرآن، جلد سوم، صفحات ۱۷۸ تا ۱۸۱)

۴۲۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ شیطان نے مجھے بیماری میں مبتلا کر دیا ہے اور میرے اوپر مصائب نازل کر دیے ہیں،  بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ بیماری کی شدت، مال و دولت کے ضیاع، اور اعزّہ و اقربا کے منہ موڑ لینے سے میں جس تکلیف اور عذاب میں مبتلا ہوں اس سے بڑھ کر تکلیف اور عذاب میرے لیے یہ ہے کہ شیطان اپنے وسوسوں سے مجھ تنگ کر رہا ہے،  وہ ان حالات میں مجھے اپنے رب سے مایوس کرنے کی کوشش کرتا ہے،  مجھ  اپنے رب کا ناشکرا بنانا چاہتا ہے،  اور اس بات کے درپے ہے کہ میں دامن صبر ہاتھ سے چھوڑ بیٹھوں۔  حضرت ایوب کی فریاد کا یہ مطلب ہمارے نزدیک دو وجوہ سے قابل ترجیح ہے،  ایک یہ کہ قرآن مجید کی رو سے اللہ تعالیٰ نے شیطان کو صرف وسوسہ اندازی ہی کی  طاقت عطا فرمائی ہے،  یہ اختیارات اس کو نہیں دیے ہیں کہ اللہ کی بندگی کرنے والوں کو بیمار ڈال دے اور انہیں جسمانی اذیتیں دے کر بندگی کی راہ سے ہٹنے پر مجبور کرے۔  دوسرے یہ کہ سورہ انبیاء میں جہاں حضرت ایوبؑ اپنی بیماری کی شکایت اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیں وہاں شیطان کا کوئی ذکر نہیں کرتے بلکہ صرف یہ عرض کرتے ہیں کہ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرَّ ا حِمِیْنَ، ’’ مجھے بیماری لگ گئی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے۔ ‘‘

۴۳۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے حکم سے زمین پر پاؤں مارتے ہی ایک چشمہ نکل آیا جس کا پانی پینا اور اس میں غسل کرنا حضرت ایوبؑ کے مرض کا علاج تھا۔ اغلب یہ ہے کہ حضرت ایوبؑ کسی سخت جلدی مرض میں مبتلا تھے۔  بائیبل کا بیان بھی یہی ہے کہ سر سے پاؤں تک ان کا سارا جسم پھوڑوں سے بھر گیا تھا۔

۴۴۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بیماری میں حضرت ایوب کی بیوی کے سوا اور سب نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا حتیٰ کہ اولاد تک ان سے منہ موڑ گئی تھی۔ اسی چیز کی طرف اللہ تعالیٰ اشارہ فرما رہا ہے کہ جب ہم نے ان کو شفا عطا فرمائی تو سارا خاندان ان کے پاس پلٹ آیا، اور پھر ہم نے ان کو مزید اولاد عطا کی۔

۴۵۔ یعنی اس میں ایک صاحب عقل آدمی کے لیے یہ سبق ہے کہ انسان کو نہ اچھے حالات میں خدا کو بھول کر سرکش بننا چاہیے اور نہ بُرے حالات میں اس سے مایوس ہونا چاہیے۔  تقدیر کی بھلائی اور بُرائی سراسر وحدہٗ  لاشریک کے اختیار میں ہے۔  وہ چاہے تو آدمی کے بہترین حا لات کو بدترین حالات میں تبدیل کر دے،  اور چاہے تو بُرے سے بُرے حالات سے اس کو بخیریت گزار کر بہترین حالت پر پہنچا دے۔  اس لیے بندہ عاقل کو ہر حالت میں اسی پر توکل کرنا چاہیے اور اسی سے آس لگانی چاہیے۔  

۴۶۔ ان الفاظ پر غور کرنے سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ حضرت ایوب نے بیماری کی حالت میں ناراض ہو کر کسی کو مارنے کی قسم کھا لی تھی، (روایات یہ ہیں کہ بیوی کو مارنے کی قسم کھائی تھی) اور اس قسم ہی میں انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ تجھے اتنے کوڑے ماروں گا۔ جب اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت عطا فرما دی اور حالت مرض کا وہ غصہ دور ہو گیا جس میں یہ قسم کھائی گئی تھی، تو ان کو یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ قسم پوری کرتا ہوں تو خواہ مخواہ ایک بے گناہ کو مارنا پڑے گا، اور قسم توڑتا ہوں تو یہ بھی ایک گناہ کا ارتکاب ہے۔  اس مشکل سے اللہ تعالیٰ نے ان کو اس طرح نکالا کہ انہیں حکم دیا، ایک جھاڑو لو جس میں اتنے ہی تنکے ہوں جتنے کوڑے تم نے مارنے کی قسم کھائی تھی، اور اس جھاڑو سے اس شخص کو بس ایک ضرب لگا دو، تاکہ تمہاری قسم بھی پوری ہو جائے اور اسے ناروا  تکلیف بھی نہ پہنچے۔  

بعض فقہاء اس رعایت کو حضرت ایوبؑ کے لیے خاص سمجھتے ہیں،  اور بعض فقہا ء کے نزدیک دوسرے لوگ بھی اس رعایت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔  پہلی رائے ابن عساکر نے حضرت عبداللہ بن عباس سے اور ابوبکر جَصّاص نے مجاہر سے نقل کی ہے،  اور امام مالکؒ کی بھی یہی رائے ہے۔  دوسرے رائے کو امام ابو حنیفہؒ، امام ابو یوسف، امام محمد، امام زُفَر اور امام شافعیؒ نے اختیار کیا ہے۔  وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص، مثلاً اپنے خادم کو دس کوڑے مارنے کی قسم کھا بیٹھا ہو اور بعد میں دسوں کوڑے ملا کر اسے صرف ایک ضرب اس طرح لگا دے کہ ہر کوڑے کا کچھ نہ کچھ حصہ اس شخص کو ضرور لگ جائے،  تو اس کی قسم پوری ہو جائے گی۔

متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسی زانی پر حد جاری کرنے کے معاملے میں بھی اس آیت کا بتایا ہو ا طریقہ استعمال فرمایا ہے جو اتنا بیمار یا اتنا ضعیف ہو کہ سو درّوں کی مار برداشت نہ کر سکے۔  علامہ ابو بکر جصاص نے حضرت سعید بن عبادہ سے روایت نقل کی ہے کہ قبیلہ بنی ساعد میں ایک شخص سے زنا کا ارتکاب ہوا اور وہ ایسا مریض تھا کہ بس ہڈی اور چمڑا رہ گیا تھا۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم  نے حکم دیا کہ  خذوا عثکالاً فیہ مأۃ شمر اخ فاضربوہ بھا ضربۃ  واحدۃ، ’’ کھجور کا  ایک ٹہنا لو جس میں سو شاخیں ہوں اور اس سے بیک وقت اس شخص کو ماردو‘‘ (احکام القرآن)۔ مُسند احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، طبرانی، عبدالرزاق اور دوسری کتب حدیث میں بھی اس کی تائید کرنے والی کئی حدیثیں موجود ہیں جن سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مرض اور ضعیف پر حد جاری کرنے کے لیے یہی طریقہ مقرر فرمایا تھا۔ البتہ فقہاء نے اس کے لیے یہ شرط لگائی ہے کہ ہر شاخ یا ہر تنکا کچھ نہ کچھ مجرم کو لگ جانا چاہیے،  اور ایک ہی ضرب سہی، مگر وہ کسی نہ کسی حد تک مجرم کو چوٹ لگانے والی بھی ہونی چاہیے۔  یعنی محض چھو دینا کافی نہیں ہے،  بلکہ مارنا ضروری ہے۔  

یہاں یہ بحث بھی پیدا ہوتی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک بات کی قسم کھا بیٹھا ہو اور بعد میں معلوم ہو کہ وہ نامناسب بات ہے تو اسے کیا کرنا چاہیے۔  نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک روایت یہ ہے کہ آپ نے فرمایا اس صورت میں آدمی کو وہی کام کرنا چاہیے جو بہتر ہو اور یہی کفارہ ہے۔  دوسری روایت حضورؐ سے یہ ہے کہ اس نامناسب کام کے بجائے آدمی وہ کام کرے جو اچھا ہو اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے۔  یہ آیت اسی دوسرے روایت کی تائید کرتی ہے۔  کیونکہ ایک نامناسب کام نہ کرنا ہی اگر قسم کا کفارہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ حضرت ایوبؑ سے یہ نہ فرماتا کہ تم ایک جھاڑو مار کر اپنے قسم پوری کر لو، بلکہ یہ فرماتا کہ تم یہ مناسب کام نہ کرو اور اسے نہ کرنا ہی تمہاری قسم کا کفارہ ہے۔  

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آدمی نے جس بات کی قسم کھائی ہو اسے فوراً پورا کرنا ضروری نہیں ہے۔  حضرت ایوبؑ نے قسم بیماری کی حلت میں کھائی تھی اور اسے پورا تندرست ہونے کے بعد کیا، اور تندرست ہونے کے بعد بھی فوراً ہی نہیں کر دیا۔

بعض لوگوں نے اس آیت کو حیلہ شرعی کے لیے دلیل قرار دیا ہے۔  اس میں شک نہیں کہ وہ ایک حیلہ ہی تھا جو حضرت ایوبؑ کو بتایا گیا تھا، لیکن وہ کسی فرض سے بچنے کے لیے نہیں بلکہ ایک بُرائی سے بچنے کے لیے بتایا گیا تھا۔ لہٰذا شریعت میں صرف وہی حیلے جائز ہیں جو آدمی کو اپنی ذات سے یا کوئی  دوسرے شخص سے ظلم اور گناہ اور برائی کو دفع کرنے کے لیے اختیار کیے جائیں۔  ورنہ حرام کو حلال کرنے یا فرائض کو ساقط کرنے یا نیکی سے بچنے کے لیے حیلہ سازی گناہ در گناہ ہے۔  بلکہ اس کے ڈانڈے کفر سے جا ملتے ہیں۔  کیونکہ جو شخص ان کی ناپاک اغراض کے لیے حیلہ کرتا ہے وہ گویا خدا کو دھوکا دینا چاہتا ہے۔  مثلاً جو شخص زکوٰۃ سے بچنے کے لیے سال ختم ہونے سے پہلے اپنا مال کسی اور کی طرف منتقل کر دیتا ہے وہ محض ایک فرض ہی سے فرار نہیں کرتا۔ وہ یہ بھی سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے اس ظاہری فعل سے دھوکا کھا جائے گا اور اسے فرض سے سبکدوش سمجھ لے گا۔ جن فقہاء نے اس  طرح کے حیلے اپنی کتابوں میں درج کیے ہیں ا ن کا یہ نہیں ہے کہ احکام شریعت سے جان چھڑا نے کے لیے یہ حیلہ بازیاں کرنی چاہییں۔  بلکہ ان کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گناہ کو قانونی شکل دے کر بچ نکلے تو قاضی یا حاکم اس پر گرفت نہیں کر سکتا، اس کا معاملہ خدا کے حوالے ہے۔  

۴۷۔ حضرت ایوبؑ   کا ذکر اس سیاق سباق میں یہ بتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ اللہ کے نیک جب مصائب و شدائد میں مبتلا ہوتے ہیں تو اپنے رب سے شکوہ سنج نہیں ہوتے بلکہ صبر کے ساتھ اس کی ڈالی ہوئی آزمائشوں کو برداشت کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں۔  ان کا یہ طریقہ نہیں ہوتا کہ اگر کچھ مدت تک خدا سے دعا مانگتے رہنے پر بلا نہ ٹلے تو پھر اس سے مایوس ہو کر دوسروں کے آستانوں پر ہاتھ پھیلانا شروع کر دیں۔  بلکہ وہ خوب سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ملنا ہے اللہ ہی کے ہاں سے ملنا ہے،  اس لیے مصیبتوں کا سلسلہ چاہے کتنا ہی دراز ہو، وہ اُسی کی رحمت کے امیدوار بنے رہتے ہیں۔  اسی لیے وہ ان الطاف و عنایات سے سرفراز ہوتے ہیں جن کی مثال حضرت ایوبؑ کی زندگی میں ملتی ہے۔  حتیٰ کہ اگر وہ کبھی مضطرب ہو کر کسی اخلاقی مخمصے میں پھنس بھی جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں بُرائی سے بچانے کے لیے ایک راہ نکال دیتا ہے جس طرح اس نے حضرت ایوبؑ کے لیے نکال دی۔

۴۸۔ اصل الفاظ ہیں  اُو لِی الْاَ یْدِ یْ وَالْاَبْصَارِ (ہاتھوں والے اور نگاہوں والے )۔ ہاتھ سے مراد، جیسا کہ ہم اس سے پہلے بیان کر چکے ہیں،  قوت و قدرت ہے۔  اور ان انبیاء کو صاحب قوت و قدرت کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ نہایت با عمل لوگ تھے،  اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے اور معصیتوں سے بچنے کی زبردست طاقت رکھتے تھے،  اور دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کرنے کے لیے انہوں نے بڑی کوششیں کی تھیں۔  نگاہ سے مراد آنکھوں کی بینائی نہیں بلکہ دل کی بصیرت ہے۔  وہ حق ہیں اور حقیقت شناس لوگ تھے۔  دنیا میں اندھوں کی طرح نہیں چلتے تھے بلکہ آنکھیں کھول کر علم و معرفت کی پوری روشنی میں ہدایت کا سیدھا راستہ دیکھتے ہوئے چلتے تھے۔  ان الفاظ میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ جو لوگ بد عمل اور گمراہ ہیں وہ درحقیقت ہاتھوں اور آنکھوں،  دونوں سے محروم ہیں۔  ہاتھ والا حقیقت میں وہی ہے  اللہ کی راہ میں کام کرے اور آنکھوں والا دراصل وہی ہے جو حق کی روشنی اور باطل کی تاریکی میں امتیاز کرے۔  

۴۹۔ یعنی ان کی تمام سرفرازیوں کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان کے اندر دنیا طلبی اور دنیا پرستی کا شائبہ تک نہ تھا، ان کی ساری فکر و سعی آخرت  کے لیے تھی، وہ خود بھی اس کو یاد رکھتے تھے اور دوسروں کو بھی یاد دلاتے تھے۔  اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو وہ مرتبے دیے جو دنیا بنانے کی فکر میں منہمک رہنے والے لوگوں کو کبھی نصیب نہ ہوئے۔  اس سلسلے میں یہ لطیف نکتہ بھی نگاہ میں رہنا چاہیے کہ یہاں اللہ تعالیٰ نے آخرت کے لیے صرف  الدّار (وہ گھر، یا  اصل گھر ) کا لفظ استعمال فرمایا  ہے۔  اس سے یہ حقیقت ذہن نشین کرنی مطلوب ہے کہ یہ دنیا سرے سے انسان کا گھر ہے ہی نہیں،  بلکہ یہ صرف ایک گزر گاہ ہے،  ایک مسافر خانہ ہے،  جس سے آدمی کو بہر حال رخصت ہو جانا ہے۔  اصل گھر وہی آخرت کا گھر ہے۔  جو شخص اس کو  سنوارنے کی فکر کرتا ہے وہی صاحب بصیرت ہے اور اللہ کے نزدیک لامحالہ اسی کو پسندیدہ انسان ہونا چاہیے۔  رہا وہ شخص جو اس مسافر خانے میں اپنی چند روزہ قیام گاہ کو سجانے کے لیے وہ حرکتیں کرتا ہے جن سے آخرت کا اصل گھر اس کے لیے اُجڑ جائے  وہ عقل کا اندھا ہے اور فطری بات ہے کہ ایسا آدمی اللہ کو پسند نہیں آ سکتا۔

۵۰۔ قرآن مجید میں ان کا ذکر صرف دو جگہ آیا ہے۔  ایک سورہ انعام آیت ۸۶ میں۔  دوسرے اس جگہ۔ اور دونوں مقامات پر کوئی تفصیل نہیں ہے بلکہ صرف انبیائے کرام کے سلسلے میں ان کا نام لیا گیا ہے۔  وہ بنی اسرائیل کے اکابر انبیاء  میں سے تھے۔  دریائے اُردُن کے کنارے ایک مقم ایبل محولہ (Abel  Meholah)کے رہنے والے تھے۔  یہودی اور عیسائی ان کو اِلِیشَع (Elisha ) کے نام سے یاد کرتے ہیں۔  حضرت الیاس علیہ السلام جس زمانے میں جزیرہ نمائے سینا میں پناہ گزیں تھے،  ان کو چند اہم کاموں کے لیے شام و فلسطین کی طرف واپس آنے کا حکم دیا گیا، جن میں سے ایک کام یہ تھا یہ حضرت الیسع کو اپنی جانشینی کے لیے تیار کریں۔  اس فرمان کے مطابق جب حضرت الیاس ان کی بستی پر پہنچے تو دیکھا کہ یہ بارہ جوڑی بیل آگے لے زمین جوت رہے ہیں اور خود بارہویں جوڑی کے ساتھ ہیں۔  انہوں نے ان کے پاس سے گزرتے ہوئے ان پر اپنی چادر ڈال دی اور یہ کھیتی باڑی چھوڑ کر ساتھ ہولیے (سلاطین، باب ۱۹، فقرات ۱۵۔ تا۔ ۲۱)۔ تقریباً دس بارہ سال یہ ان کے زیر تربیت رہے پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کو اٹھا لیا تو یہ ان کی جگہ مقرر ہوئے۔  (۲ سلاطین، باب ۲)۔ بائیبل کی کتاب ۲ سلاطین میں باب ۲ سے ۱۳ تک  ان کا تذکرہ بڑی تفصیل کے ساتھ درج ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شمالی فلسطین کی اسرائیلی سلطنت جب شرک و بت پرستی اور اخلاقی نجاستوں میں غرق ہوتی چلی گئی تو آخر کا انہوں نے یاہو بن یہوسفط بن مسّی کو اس خانوادہ شاہی کے خلاف کھڑا کیا جس کے کرتوتوں سے اسرائیل میں یہ برائیاں پھیلی تھیں،  اور اس نے نہ صرف بعل پرستی کا خاتمہ کیا، بلکہ اس بدکردار خاندان کے بچے بچے کو قتل کر دیا۔ لیکن اس اصلاحی انقلاب سے بھی وہ برائیاں پوری طرح نہ مت سکیں جو اسرائیل کی ر گ رگ میں اُتر چکی تھیں،  اور حضرت الیسع کی وفات کے بعد تو انہوں نے طوفانی شکل اختیار کر لی، یہاں تک کہ سامریہ پر اشوریوں کے پے در پے حملے شروع ہو گئے (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو  تفہیم القرآن جلد دوم، ص ۵۹۷۔ اور تفسیر سورہ صافات، حاشیہ نمبر ۷۰۔ ۷۱)

۵۱۔ حضرت ذولکفل کا ذکر بھی قرآن مجید میں دو ہی جگہ آیا ہے۔  ایک سورہ انبیاء۔ دوسرے یہ مقام۔ ان کے متعلق ہم اپنی تحقیق سورہ انبیاء میں بیان کر چکے ہیں۔  (تفہیم القرآن : جلد سوم، ص ۱۸۱، ۱۸۲)

۵۲۔ اصل الفاظ ہیں مُفَتَّحَۃً لَّھُمُ الْاَبْوَابُ۔ اس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔  ایک یہ کہ ان جنتوں میں وہ بے روک ٹوک پھریں گے،  کہیں ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہ ہو گی۔ دوسرے یہ جنت کے دروازے کھولنے کے لیے کسی کوشش کی حاجت نہ ہو گی بلکہ وہ مجد اُن کی خواہش پر خود بخود کھل جائیں گے۔  تیسرے یہ کہ جنت کے انتظام پر جو فرشتے مقرر ہو گے وہ اہل جنت کو دیکھتے ہی ان کے لیے دروازے کھول دیں گے۔  یہ تیسرا مضمون قرآن مجید میں ایک اور مقام پر زیادہ صاف الفاظ میں بیان فرمایا گیا ہے :  حَتّیٰ اِذَا جَآءُ وْ ھَا وَ فُتِحَتْ اَبْوَا بھَُا وَقَالَ لَھُمْ خَزَ نَتھَُا سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَا دْخُلُوْ ھَا خٰلِدِیْنَ۔ ’’ یہاں تک کہ جب وہ وہاں پہنچیں گے اور اس کے دروازے پہلے ہی کھولے جاچکے ہوں گے تو جنت کے منتظمین ان سے کہیں گے کہ سلام علیکم، خوش آمدید، ہمیشہ کے لیے اس میں داخل ہو جایئے ‘‘۔ (الزمر۔ ۷۳)۔

۵۳۔ ہم سِن بیویوں کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ آپس میں ہم سِن ہوں گی، اور یہ بھی کہ وہ اپنے شوہروں کی ہم سِن ہوں گی۔

۵۴۔ اصل میں لفظ غَسَّاق استعمال ہو ا ہے جس کے کئی معنی اہل لغت نے بیان کیے ہیں۔  ایک معنی جسم سے نکلنے والی رطوبت کے ہیں جو پیپ، لہو، کچ لہو  وغیرہ کی شکل میں ہو، اس میں آنسو بھی شامل ہیں۔  دوسرے معنی انتہائی سرد چیز کے ہیں۔  اور تیسرے معنی انتہائی بدبو دار متعفّن چیز کے۔  لیکن اس لفظ کا عام استعمال پہلے ہی معنی میں ہوتا ہے،  اگرچہ باقی دونوں معنی بھی لغت کے اعتبار سے درست ہیں۔  

۵۵۔ مراد ہیں وہ اہل ایمان جن کو یہ کفار دنیا میں برا سمجھتے تھے۔  مطلب یہ کہ وہ حیران ہو ہو کر ہر طرف دیکھیں گے کہ اس جہنم میں ہم اور ہمارے پیشوا تو موجود ہیں مگر ان لوگوں کا یہاں کہیں پتہ نشان تک نہیں ہے جن کی ہم دنیا میں برائیاں کرتے تھے اور خدا، رسول، آخرت کی باتیں کرنے پرجن کا مذاق ہماری مجلسوں میں اُڑایا جاتا تھا۔

 

(اے نبیؐ )(۵۶) ان سے کہو، ’’ میں تو بس خبردار کر دینے والا ہوں (۵۷)۔ کوئی حقیقی معبود نہیں مگر اللہ جو یکتا ہے،  سب پر غالب، آسمانوں اور زمین کا مالک اور ان ساری چیزوں کا مالک جو ان کے درمیان ہیں،  زبردست اور درگزر کرنے والا‘‘۔ ان سے کہو‘‘ یہ ایک بڑی خبر ہے جس کو سن کر تم منہ پھیرتے ہو‘‘(۵۸)۔
(ان سے کہو) ’’ مجھے اس وقت کی کوئی خبر نہ تھی جب ملاء اعلیٰ میں جھگڑا ہو رہا تھا۔ مجھ کو تو وحی کے ذریعہ سے یہ باتیں صرف اس لیے بتائی جاتی ہیں کہ میں کھلا کھلا خبردار کرنے والا ہوں ‘‘ جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا(۵۹)’’ میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں (۶۰)، پھر جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں (۶۱)تو تم اس کے آگے سجدے میں  گر جاؤ‘‘۔ اس حکم کے مطابق فرشتے سب کے سب سجدے میں گر گئے،  مگر ابلیس نے اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا اور وہ کافروں میں سے ہو گیا (۶۳)۔ رب نے فرمایا’’ اے ابلیس، تجھے کیا چیز اس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے؟(۶۴) تو بڑا بن رہا ہے  یا تو ہے ہی کچھ اونچے درجے کی ہستیوں میں سے ‘‘؟ اس نے جواب دیا’’ میں اس سے بہتر ہوں،  آپ نے مجھ کو آگ سے پیدا کیا ہے اور  اس کو مٹی سے ‘‘، فرمایا ’’ اچھا تو یہاں سے نکل جا، (۶۵) تو مردود ہے (۶۶)اور تیرے اوپر یوم الجزاء تک میری لعنت ہے ‘‘(۶۷)۔ وہ بولا’’ ا ے میرے رب، یہ بات ہے تو پھر مجھے اس وقت تک کے لیے مہلت ہے جس کا وقت مجھے معلوم ہے ‘‘ اس نے کہا ’’ تیری عزت کی قسم، میں ان سب لوگو ں کو بہکا کر رہوں گا، بجز تیرے ان بندوں کے جنہیں تو نے خالص کر لیا ہے ’’(۶۸)۔ فرمایا ‘‘ تو حق یہ ہے،  اور میں حق ہی کہا کرتا ہوں،  کہ میں جہنم کو تجھ سے (۶۹) اور ان سب لوگوں سے بھر دوں گا جو ان انسانوں میں سے تیری پیروی کریں گے ’’(۷۰)۔
(اے نبیؐ ) ان سے کہہ دو کہ میں اس تبلیغ پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا (۷۱)، اور نہ میں بناوٹی لوگوں میں سے ہوں (۷۲)۔ یہ تو ایک نصیحت ہے تمام جہان والوں کے لیے۔  اور تھوڑی مدت ہی گزرے گی کہ تمہیں اس کا حال خود معلوم ہو (۷۳)جائے گا۔ ع

 

۵۶۔ اب کلام کا رُخ پھر اسی مضمون کی طرف پھر رہا ہے جس سے تقریر کا آغاز ہوا تھا۔ اِس حصّے کو پڑھتے ہوئے پہلے رکوع سے مقابلہ کرتے جائیے،  تاکہ بات پوری سمجھ میں آ سکے۔  

۵۷۔ آیت نمبر ۴ میں فرمایا گیا تھا کہ یہ لوگ اس بات پر بڑے اچنبھے کا اظہار کر رہے ہیں کہ ایک خبردار کرنے والا خود ان کے درمیان سے اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔  یہاں فرمایا جا رہا ہے کہ ان سے کہو میرا کام بس تمہیں خبردار کر دینا ہے۔  یعنی  میں کوئی فوجدار نہیں ہوں کہ زبردستی تمہیں  غلط راستے سے ہٹا کر سیدھے راستے کی طرف کھینچوں۔  میرے سمجھانے سے اگر تم نہ مانو گے تو اپنا ہی نقصان کرو گے۔  بے خبر ہی رہنا گار تمہیں پسند ہے تس اپنی غفلت میں سرشار پڑے رہو، اپنا انجام خود  دیکھ لو گے۔

۵۸۔ یہ جواب ہے کفار کی اس بات کا جو آیت نمبر ۵ میں گزری ہے کہ ’’ کیا اس شخص نے سارے خداؤں کی جگہ بس ایک خدا بنا ڈالا؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے ‘‘۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ تم چاہے کتنی ہی ناک بھوں چڑھاؤ، مگر یہ ہے ایک حقیقت جس کی خبر میں تمہیں دے رہا ہوں،  اور تمہارے ناک بھوں چڑھانے سے یہ حقیقت بدل نہیں سکتی۔

اس جواب میں صرف بیان حقیقت ہی نہیں ہے بلکہ اس کے حقیقت ہونے کی دلیل بھی اسی میں موجود ہے۔  مشرکین کہتے تھے کہ معبود بہت سے ہیں جن میں سے ایک اللہ بھی ہے،  تم نے سارے معبودوں کو ختم کر کے بس ایک معبود کیسے بنا ڈالا؟ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ معبود حقیقی صرف ایک اللہ ہی ہے،  کیونکہ وہ سب پر غالب ہے،  زمین و آسمان کا مالک ہے،  اور کائنات کی ہر چیز  اس کی مِلک ہے۔  اس کے ماسوا اس کائنات میں جن ہستیوں کو تم نے معبود بنا رکھا ہے ان میں سے کوئی ہستی بھی ایسی نہیں ہے جو اس سے مغلوب اور اس کی مملوک نہ ہو۔ یہ مغلوب اور مملوک ہستیاں اس غالب اور مالک کے ساتھ خدائی میں شریک کیسے ہو سکتی ہیں اور آخر کس حق کی بنا پر انہیں معبود قرار دیا جا سکتا ہے۔

۵۹۔ یہ جھگڑے کی تفصیل ہے جس کی طرف اوپر کی آیت میں اشارہ کیا گیا ہے اور جھگڑے سے مراد شیطان کا خدا سے جھگڑا ہے جیسا کہ آگے کے بیان سے ظاہر ہو رہا ہے۔  اس سلسلے میں یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہیے کہ ’’ ملاءِ اعلیٰ‘‘ سے مراد فرشتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے شیطان کا مکالمہ دو بدو نہیں بلکہ کسی فرشتے ہی کے توسط سے ہوا ہے۔  اس لیے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ بھی ملاء اعلیٰ میں شامل تھا۔ جو قصہ یہاں بیان کیا جا رہا ہے وہ اس سے پہلے حسب ذیل مقامات پر گزر چکا ہے : تفہیم القرآن جلد اول، ص ۶۱ تا ۶۹۔ جلد دوم، صفحات ۱۰ تا ۱۸۔ ۵۰۴ تا ۵۰۷۔ ۶۲۷ تا ۶۳۰۔ جلد سوم صفحات ۲۹۔ ۳۰۔ ۱۲۹ تا ۱۳۶۔

۶۰۔ بَشَر کے لغوی معنی ہیں جسم کثیف جس کی ظاہری سطح کسی دوسری چیز سے ڈھکی ہوئی نہ ہو۔ انسان کی تخلیق کے بعد تو یہ لفظ انسان ہی کے لیے استعمال ہونے لگا ہے۔  لیکن تخلیق سے پہلے اس کا ذکر لفظ بشر سے کرنے اور اس کو مٹی سے بنانے کا صاف مطلب یہ ہے کہ ’’ میں مٹی کا ایک پُتلا بنانے والا ہوں جو بال و پر سے عاری ہو گا۔ یعنی جس کی جلد دوسرے حیوانات کی طرح اُون، یا صوف یا بالوں اور پروں سے ڈھکی ہوئی نہ ہو گی۔ ‘‘

۶۱۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم ص ۵۰۴۔ ۵۰۵۔ جلد چہارم، السجدہ حاشیہ ۱۶۔

۶۲۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول ص ۶۴۔ ۶۵۔ جلد دوم، ص ۱۰ تا ۱۲۔

۶۳۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، ص ۶۶۔ جلد سوم، ص ۳۰۔

۶۴۔ یہ الفاظ تخلیق انسانی کے شرف پر دلالت کرنے کے لیے استعمال کیے گئے ہیں۔  بادشاہ کا اپنے خدّام سے کوئی کام کرانا یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ ایک معمولی کام تھا جو خدّام سے کرا لیا گیا۔ بخلاف اس کے بادشاہ کا کسی کام کو بنفسِ نفیس انجام دینا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ ایک افضل و اشرف کام تھا۔ پس اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جسے میں نے خود بلاواسطہ بنایا ہے اس کے آگے جھکنے سے تجھے کس چیز نے روکا؟

’’ دونوں ہاتھوں ‘‘ کے لفظ سے غالباً اس امر کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس نئی مخلوق میں اللہ تعالیٰ کی شانِ تخلیق کے دو اہم پہلو پائے جاتے ہیں۔  ایک یہ کہ اسے جسم حیوانی عطا کیا گیا جس کی بنا پر وہ حیوانات کی جنس میں سے ایک نوع ہے۔  دوسرے یہ کہ اس کے اندر وہ روح ڈال دی گئی جس کی بنا پر وہ اپنی صفات میں تمام ارضی مخلوقات سے اشرف  و افضل ہو گیا۔

۶۵۔ یعنی اس مقام سے جہاں آدم کے آگے فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم ہوا اور جہاں ابلیس نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا۔

۶۶۔ اصل میں لفظ ’’ رَجِیْم ‘‘ استعمال ہوا ہے جس کے لغوی معنی ہیں ’’ پھینکا ہوا ‘‘  یا ’’ مارا ہوا ‘‘۔ اور محاورے میں یہ لفظ اس شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جسے مقام عزت سے گرا دیا گیا ہو اور ذلیل و خوار کر کے رکھ دیا گیا ہو۔ سورہ اعراف میں یہی مضمون ان الفاظ میں ادا کیا گیا ہے : فَا خْرُجْ اِنَّکَ مِنَ الصَّا غِرِیْنَ، ’’ پس تو نکل جا، تو ذلیل ہستیوں میں سے ہے ‘‘۔

۶۷۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یوم الجزاء کے بعد اُس پر لعنت نہ ہو گی۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یوم الجزا ء تک تو وہ اس نافرمانی کی پاداش میں مبتلائے لعنت رہے گا، اور یوم الجزاء کے بعد وہ اپنے ان کرتوتوں کی سزا بھگتے گا جو تخلیق آدمؑ کے وقت سے لے کر قیامت تک اس سے سرزد ہوں گے۔  

۶۸۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ’’ میں تیرے چیدہ بندوں کو بہکاؤں گا نہیں، ‘‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’ تیرے چیدہ بندوں پر میرا بس نہ چلے گا۔ ‘‘

۶۹۔ ’’ تجھ سے ‘‘ کا خطاب صرف شخص ابلیس ہی کی طرف نہیں ہے بلکہ پوری جنس شیاطین کی طرف ہے،  یعنی ابلیس اور اس کا وہ پورا گروہ شیاطین جو اس کے ساتھ مل کر نوع انسانی کو گمراہ کرنے میں لگا رہے گا۔

۷۰۔ یہ پورا قصہ سرداران قریش کے اس قول کے جواب میں سنایا گیا ہے کہ أاُنْزِلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ مِنْ بَیْنِنَا، ’’ کیا ہمارے درمیان بس یہی ایک شخص رہ گیا تھا جس پر ذکر نازل کیا گیا ‘‘؟ اس کا ایک جواب تو وہ تھا جو آیات نمبر ۹ اور ۱۰ میں دیا گیا تھا کہ کیا خدا کی رحمت کے خزانوں کے تم مالک ہو، اور کیا آسمان  و زمین کی بادشاہی تمہاری ہے اور یہ فیصلہ کرنا تمہارا کام ہے کہ خدا کا نبی کسے بنایا جائے اور کسے نہ بنایا جائے؟ دوسرا جواب یہ ہے،  اور اس میں سرداران قریش کو بتایا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ میں تمہارا حسد اور اپنی بڑائی کا گھمنڈ، آدم علیہ السلام کے مقابلے میں ابلیس کے حسد اور گھمنڈ سے ملتا جلتا ہے۔  ابلیس نے بھی اللہ تعالیٰ کے اس حق کو ماننے سے انکار کیا تھا کہ جسے وہ چاہے اپنا خلیفہ بنائے،  اور تم بھی اُس کے اس حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہو کہ جسے وہ چاہے اپنا رسول بنائے۔  اس نے آدم کے آگے جھُکنے کا حکم نہ مانا اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اتباع کا حکم نہیں مان رہے ہو۔ اس کے ساتھ تمہاری یہ مشابہت س اس حد پر ختم نہ ہو جائے گی، بلکہ تمہارا انجام بھی پھر وہی ہو گا جو  اس کے لیے مقدر ہو چکا ہے،  یعنی دنیا میں خدا کی لعنت، اور آخرت میں جہنم کی آگ۔

اس کے ساتھ اس قصے کے ضمن میں دو باتیں اور بھی سمجھائی گئی ہیں۔  ایک یہ کہ جو انسان بھی اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر رہا ہے وہ دراصل اپنے اُس ازلی دشمن، ابلیس کے پھندے میں پھنس رہا ہے جس نے آغاز آفرینش سے نوع انسانی کو اغوا کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔  دوسرے یہ کہ وہ بندہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں انتہائی مبغوض ہے جو تکبّر کی بنا پر اس کی نافرمانی کرے اور پھر اپنی اس نافرمانی کی روش پر اصرار کیے چلا جائے۔  ایسے بندے کے لیے اللہ کے ہاں کوئی معافی نہیں ہے۔

۷۱۔ یعنی میں ایک بے غرض آدمی ہوں،  اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے یہ تبلیغ نہیں کر رہا ہوں۔  

۷۲۔ یعنی میں اُن لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے جھوٹے دعوے لے کر اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور وہ کچھ بن بیٹھتے ہیں جو فی لواقع وہ نہیں ہوتے۔  یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان سے محض کفار مکہ کی اطلاع کے لیے نہیں کہوائی گئی ہے،  بلکہ اس کے پیچھے حضورؐ کی وہ پوری زندگی شہادت کے طور پر موجود ہے جو نبوت سے پہلے انہی کفار کے درمیان چالیس برس تک گزر چکی تھی۔ مکے کا بچہ بچہ یہ جانتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم ایک بناوٹی آدمی نہیں ہیں۔  پوری قوم میں کسی شخص نے بھی کبھی اُن کی زبان سے کوئی ایسی بات نہ سنی تھی جس سے یہ شبہ کرنے کی گنجائش ہوتی کہ وہ کچھ بننا چاہتے ہیں اور اپنے آپ کو نمایاں کرنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔  

۷۳۔ یعنی جو تم میں سے زندہ رہیں گے وہ چند سال کے اندر اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے کہ جو بات میں کہ رہا ہوں وہ پوری ہو کر رہی۔ اور جو مر جائیں گے ان کو موت کے دروازے سے گزرتے ہی پتہ چل جائے گا کہ حقیقت وہی کچھ ہے جو میں بیان کر رہا ہوں۔