آیت ۲۸ کے فقرے وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ سے ماخوذ ہے، یعنی وہ سورہ جس میں اس خاص مومن کا ذکر آیا ہے۔
ابن عباس اور جابر بن زید کا بیان ہے کہ یہ سورۃ زمر کے بعد متصلاً نازل ہوئی ہے اور اس کا جو مقام قرآن مجید کی موجودہ ترتیب میں ہے وہی ترتیب نزول کے اعتبار سے بھی ہے۔
جن حالات میں یہ سورہ نازل لوئی ہے اُن کی طرف صاف اشارات اِس کے مضمون میں موجود ہیں۔ کفار مکہ نے اُس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف دو طرح کی کارروائیا ں شروع کر رکھی تھیں۔ ایک یہ کہ ہر طرف جھگڑے اور بحثیں چھیڑ کر، طرح طرح کے اُلٹے سیدھے سوالات اّٹھا کر، اور نت نئے الزامات لگا کر قرآن کی تعلیم اور اسلام کی دعوت اور خود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں اتنے شبہات اور وسوسے لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دیے جائیں کہ ان کو صاف کرتے کرتے آخر کار حضورؐ اور اہل ایمان زچ ہو جائیں۔ دوسرے یہ کہ آپ کو قتل کر دینے کے لیے زمین ہموار کی جائے۔ چنانچہ اس غرض کے لیے وہ پیہم سازشیں کر رہے تھے، اور ایک مرتبہ تو عملاً انہوں نے اس کا اقدام کر بھی ڈالا تھا۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن عُمرو بن عاص کی روایت ہے کہ ایک روز نبی صلی اللہ علیہ و سلم حرم میں نماز پڑھ رہے تھے۔ یکایک عُقبہ بن ابی مُعَیط آگے بڑھا اورس نے آپ کی گردن میں کپڑا ڈال کر اسے بَل دینا شروع کر دیا تاکہ گلا گھونٹ کر آپؐ کو مار ڈالے مگر عین وقت پر حضرت ابوبکر پہنچ گئے اور انہوں نے دھکا دے کر اسے ہٹا دیا۔ حضرت عبداللہ کا بیان ہے کہ جس وقت ابو بکر صدّیق اُس ظالم سے کشمکش کر رہے تھے اس وقت اُن کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ اَتَقْتُلُوْنَ رَجُلاً اَنْ یَّقُوْلَ رَ بِّیَ اللہ (کیا تم ایک شخص کو صرف اِس قصور میں مارے ڈالتے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے؟)۔ تھوڑے اختلاف کے ساتھ یہ واقعہ سیرت ابن ہشام میں بھی منقول ہو ا ہے اور نَسَائی اور ابن ابی حاتم نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
صورت حال کے اِن دونوں پہلوؤں کو آغاز تقریر ہی میں صاف صاف بیان کر دیا گیا ہے اور پھر آگے کی پوری تقریر انہی دونوں پر ایک انتہائی مؤثر اور سبق آموز تبصرہ ہے۔
قتل کی سازشوں کے جواب میں مومنِ آل فرعون کا قصّہ سنایا گیا ہے ( آیت ۲۳ تا ۵۵) اور اس قصے کے پیرائے میں تین گروہوں کو تین مختلف سبق دیے گئے ہیں :
۱۔ کفّار کو بتایا گیا ہے کہ جو تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کرنا چاہتے ہو یہی کچھ اپنی طاقت کے بھروسے پر فرعون حضرت موسیٰ کے ساتھ کرنا چاہتے تھا، اب کیا یہ حرکتیں کر کے تم بھی اُسی انجام سے دوچار ہونا چاہتے ہو جس سے وہ دوچار ہوا؟
۲۔ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے پیروؤں کو سبق دیا گیا ہے کہ یہ ظالم بظاہر خواہ کتنے ہی بالا دست اور چہرہ دست ہوں، اور ان کے مقابلہ میں تم خواہ کتنے ہی کمزور اور بے بس ہو، مگر تمہیں یقین رکھنا چاہیے کہ جس خدا کے دین کا بول بالا کرنے کے لیے تم کام کر رہے ہو اس کی طاقت ہر دوسری طاقت پر بھاری ہے۔ لہٰذا جو بڑی خوفناک دھمکی بھی یہ تمہیں دے سکتے ہیں، اس کے جواب میں بس خدا کی پناہ مانگ لو اور اس کے بعد بالکل بے خوف ہو کر اپنے کام میں لگ جاؤ۔ خدا پرست کے پاس ظالم کی ہر دھمکی کا بس ایک جواب ہے، اور وہ ہے اِنِّیْ عُذْتُ بِرَبّیِ وَ بِرَبِّکُمْ مِّنْ کُلِّ مُتَکَبِّرٍ لَّا یُؤْمِنُ بِیَوْمِ الْحِسَابِ۔ اس طرح خدا کے بھروسے پر خطرات سے بے پروا ہو کر کام کرو گے تو آخر کار اس کی نصرت آ کر رہے گی اور آج کے فرعون بھی وہی کچھ دیکھ لیں گے جو کل کے فرعون دیکھ چکے ہیں۔ وہ وقت آنے تک ظلم و ستم کے جو طوفان بھی اُمڈ کر آئیں انہیں صبر کے ساتھ تمہیں برداشت کرنا ہو گا۔
۳۔ ان دو گروہوں کے علاوہ ایک تیسرا گروہ بھی معاشرے میں موجود تھا، اور وہ ان لوگوں کا گروہ تھا جو دلوں میں جان چکے تھے کہ حق محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہے اور کفّار قریش سراسر زیادتی کر رہے ہیں۔ مگر یہ جان لینے کے باوجود وہ خاموشی کے ساتھ حق و باطل کی اس کشمکش کا تماشا دیکھ رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر اُن کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہے اور انہیں بتایا ہے کہ جب حق کے دشمن علانیہ تمہاری آنکھوں کے سامنے اتنا بڑا ظالمانہ اقدام کرنے پر تُل گئے ہیں تو حیف ہے تم پر اگر اب بھی تم بیٹھے تماشا ہی دیکھتے رہو۔ اس حالت میں جس شخص کا ضمیر بالکل مر نہ چکا ہو اُسے تو اُٹھ کر وہ فرض انجام دینا چاہیے جو فرعون کے بھرے دربار میں اُس کے اپنے درباریوں میں سے ایک راستباز آدمی نے اُس وقت انجام دیا تھا جب فرعون نے حضرت موسیٰ کو قتل کرنا چاہا تھا۔ جو مصلحتیں تمہیں زبان کھولنے سے باز رکھ رہی ہیں، یہی مصلحتیں اُس شخص کے آگے بھی راستہ روک کر کھڑی ہوئی تھیں۔ مگر اُس نے اُفَوِّ ضُ اَمْرِیْ اِلَی اللہ کہہ کر ان ساری مصلحتوں کو ٹھکرا دیا، اور اس کے بعد دیکھ لو کہ فرعون اُس کا کچھ نہ بگاڑ سکا۔
اب رہا کفار کا وہ مجادلہ جو حق کو نیچا دکھانے کے لیے مکہ معظمہ میں شب و روز جاری تھا، تو اس کے جواب میں ایک طرف دلائل سے توحید اور آخرت کے اُن عقائد کا بر حق ہونا ثابت کیا گیا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور کفار کے درمیان اصل بنائے نزاع تھے، اور یہ حقیقت صاف کھول کر رکھ دی گئی ہے کہ یہ لوگ کسی علم اور کسی دلیل و حجت کے بغیر سچائیوں کے خلاف خواہ مخواہ جھگڑ رہے ہیں۔ دوسرے طرف اُ ن اصل محرکات کو بے نقاب کیا گیا ہے جن کی بنا پر سردارانِ قریش اس قدر سرگرمی کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف بر سر پیکار تھے۔ بظاہر انہوں نے یہ ڈھونگ رچا رکھا تھا کہ حضورؐ کی تعلیم اور آپؐ کے دعوائے نبوت پر انہیں حقیقی اعتراضات ہیں جن کی وجہ سے وہ ان باتوں کو نہیں مان رہے ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ ان کے لیے محض ایک جنگ اقتدار تھی۔ آیت ۵۶ میں یہ بات کسی لاگ لپیٹ کے بغیر اُن سے صاف کہہ دی گئی ہے کہ تمہارے انکار کی اصل وجہ وہ کبر ہے جو تمہارے دلوں میں بھرا ہوا ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ اگر لوگ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت تسلیم کر لیں گے تو تمہاری بڑائی قائم نہ رہ سکے گی۔ اسی وجہ سے تم ان کو زک دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہو۔
اسی سلسلے میں کفار کو پے در پے تنبیہات کی گئی ہیں کہ اگر اللہ کی آیات کے مقابلے میں مجادلہ کرنے سے باز نہ آؤ گے تو اُسی انجام سے دوچار ہو گے جس سے پچھلی قومیں دوچار ہو چکی ہیں اور اس سے بدتر انجام تمہارے لیے آخرت میں مقدر ہے۔ اُس وقت تم پچھتاؤ گے، مگر اس وقت کا پچھتانا تمہارے لیے کچھ بھی نافع نہ ہو گا۔
۱: یہ تقریر کی تمہید ہے جس کے ذریعہ سے سامعین کو پہلے ہی خبردار کر دیا گیا ہے کہ یہ کلام جو اُن کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے کسی معمولی ہستی کا کلام نہیں ہے، بلکہ اس خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے جس کی یہ اور یہ صفات ہیں۔ پھر پے در پے اللہ تعالیٰ کی چند صفات بیان کی گئی ہیں جو آگے کے مضمون سے گہری مناسبت رکھتی ہیں :اوّل یہ کہ وہ’’ زبردست‘‘ ہے، یعنی سب پر غالب ہے۔ اس کا جو فیصلہ بھی کسی کے حق میں ہو، نافذ ہو کر رہتا ہے، کوئی اس سے لڑ کر جیت نہیں سکتا، نہ اس کی گرفت سے بچ سکتا ہے۔ لہٰذا اس کے فرمان سے منہ موڑ کر اگر کوئی شخص کامیابی کی توقع رکھتا ہو، اور اس کے رسول سے جھگڑا کر کے یہ امید رکھتا ہو کہ وہ اسے نیچا دکھا دے گا، تو یہاس کی اپنی حماقت ہے۔ ایسی توقعات کبھی پوری نہیں ہو سکتیں۔ دوسرے صفت یہ کہ وہ ’’ سب کچھ جاننے والا ‘‘ ہے۔ یعنی وہ قیاس و گمان کی بنا پر کوئی بات نہیں کرتا بلکہ ہر چیز کا براہ راست علم رکھتا ہے، اس لیے ماورائے حسّ و ادراک حقیقتوں کے متعلق جو معلومات وہ دے رہا ہے، صرف وہی صحیح ہو سکتی ہیں، اور ان کو نہ ماننے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خواہ مخواہ جہالت کی پیروی کرے۔ اسی طرح وہ جانتا ہے کہ انسان کی فلاح کس چیز میں ہے اور کون سے اصول و قوانین اور احکام اس کی بہتری کے لیے ضروری ہیں۔ اس کی ہر تعلیم حکمت اور علم صحیح پر مبنی ہے جس میں غلطی کا امکان نہیں ہے۔ لہٰذا اُس کی ہدایات کو قبول نہ کرنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی خود اپنی تباہی کے راستے پر جانا چاہتا ہے۔ پھر انسانوں کی حرکات و سکنات میں سے کوئی چیز اُسسے چھپی نہیں رہ سکتی، حتّیٰٰ کہ وہ ان نیتوں اور ارادوں تک کو جانتا ہے۔ جو انسانی افعال کے اصل محرک ہوتے ہیں۔ اس لیے انسان کسی بہانے اس کی سزا سے بچ کر نہیں نکل سکتا۔ تیسری صفت یہ کہ وہ ’’ گناہ معاف کرنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے ‘‘۔ یہ امید اور ترغیب دلانے والی صفت ہے جو اس غرض سے بیان کی گئی ہے کہ جو لوگ اب تک سرکشی کرتے رہے ہیں وہ مایوس نہ ہوں، بلکہ یہ سمجھتے ہوئے اپنی روش پر نظر ثانی کریں کہاگر اب بھی وہ اس روش سے باز آ جائیں تو اللہ کے دامن رحمت میں جگہ پا سکتے ہیں۔ اس جگہ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ گناہ معاف کرنا اور توبہ قبول کرنا لازماً ایک ہی چیز کے دو عنوان نہیں ہیں، بلکہ بسا اوقات توبہ کے بغیر بھی اللہ کے ہاں گناہوں کی معافی ہوتی رہتی ہے۔ مثلاً ایک شخص خطائیں بھی کرتا رہتا ہے اور نیکیاں بھی، اور اس کی نیکیاں اس کی خطاؤں کے معاف ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہیں، خواہ اُسے ان خطاؤں پر توبہ و استغفار کرنے کا موقع نہ ملا ہو، بلکہ وہ انہیں بھول بھی چکا ہو۔ اسی طرح ایک شخص پر دنیا میں جتنی بھی تکلیفیں اور مصیبتیں اور بیماریاں اور طرح طرح کی رنج و غم پہنچانے والی آفات آتے ہیں، وہ سب اس کی خطاؤں کا بدل بن جاتی ہیں۔ اسی بنا پر گناہوں کی معافی کا ذکر توبہ قبول کرنے سے الگ کیا گیا ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ توبہ کے بغیر خطا بخشی کی یہ رعایت صرف اہل ایمان کے لیے ہے اور اہل ایمان میں بھی صرف اُن کے لیے جو سرکشی و بغاوت کے ہر جذبے سے خالی ہوں اور جن سے گناہوں کا صدور بشری کمزوری کی وجہ سے ہوا ہو نہ کہ استکبار اور معصیت پر اصرار کی بنا پر۔ چوتھی صفت یہ کہ وہ ’’ سخت سزا دینے والا‘‘ ہے۔ اس صفت کا ذکر کر کے لوگوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ بندگی کی راہ اختیار کرنے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ جتنا رحیم ہے، بغاوت و سرکشی کا رویہ اختیار کرنے والوں کے لیے اتنا ہی سخت ہے۔ جب کوئی شخص یا گروہ اُن تمام حدوں سے گزر جاتا ہے جہاں تک وہ اس کے درگزر اور اس کی خطا بخشی کا مستحق ہو سکتا ہے، تو پھر وہ اس کی سزا کا مستحق بنتا ہے، اور اس کی سزا ایسی ہولناک ہے کہ صرف ایک احمق انسان ہی اُس کو قابل برداشت سمجھ سکتا ہے۔ پانچویں صفت یہ کہ وہ ’’ صاحب فضل ‘‘ ہے، یعنی کشادہ دست، غنی اور فیاض ہے۔ تمام مخلوقات پر اس کی نعمتوں اور اس کے احسانات کی ہمہ گیر بارش ہر آن ہو رہی ہے۔ بندوں کو جو کچھ بھی مل رہا ہے اُسی کے فضل و کرم سے مل رہا ہے۔ ان پانچ صفات کے بعد دو حقیقتیں واشگاف طریقہ سے بیان کر دی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ معبود فی الحقیقت اُس کے سوا کوئی نہیں ہے، خواہ لوگوں نے کتنے ہی دوسرے جھوٹے معبود بنا رکھے ہوں۔ دوسری یہ کہ جانا سب کو آخر کار اسی کی طرف ہے۔ کوئی دوسرا معبود لوگوں کے اعمال کا حساب لینے والا اور ان کی جزا و سزا کا فیصلہ کرنے والا نہیں ہے۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر اگر کوئی دوسروں کو معبود بنائے گا تو اپنی اس حماقت کا خمیازہ خود بھگتے گا۔
۲: جھگڑا کرنے سے مراد ہے کج بحثیاں کرنا۔ مین میخ نکالنا۔ الٹے سیدھے اعتراضات جڑنا۔ سیاق و سباق سے الگ کر کے کوئی ایک لفظ یا فقرہ لے اُڑانا اور اس سے طرح طرح کے نکتے پیدا کر کے شبہات و الزامات کی عمارتیں کھڑی کرنا۔ کلام کے اصل مدعا کو نظر انداز کر کے اس کو غلط معنی پہنانا تاکہ آدمی نہ خود بات کو سمجھے نہ دوسروںکو سمجھنے دے۔ یہ طرز اختلاف لازماً صرف وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جن کا اختلاف بدنیتی پر مبنی ہوتا ہے۔ نیک نیت مخالف اگر بحث کرتا بھی ہے تو تحقیق کی غرض سے کرتا ہے اور اصل مسائل زیر بحث پر گفتگو کر کے یہ اطمینان کرنا چاہتا ہے کہ ان مسائل میں اس کا اپنا نقطہ نظر درست ہے یا فریق مخالف کا۔ اس قسم کی بحث حق معلوم کرنے کے لیے ہوتی ہے نہ کہ کسی کو نیچا دکھانے کے لیے۔ بخلاف اس کے بد نیت مخالف کا اصل مقصد سمجھنا اور سمجھانا نہیں ہوتا بلکہ وہ فریق ثانی کو زک دینا اور زچ کرنا چاہتا ہے اور بحث کے میدان میں اس لیے اُترنا ہے کہ دوسرے کی بات کسی طرح چلنے نہیں دینی ہے۔ اسی وجہ سے وہ کبھی اصل مسائل کا سامنا نہیں کرتا بلکہ ہمیشہ اطراف ہی میں چھاپے مارتا رہتا ہے۔
۳: ’’ کفر‘‘ کا لفظ یہاں دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک کفران نعمت۔ دوسرے انکار حق۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی آیات کے مقابلہ میں یہ طرز عمل صرف وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جو اس کے احسانات کو بھول گئے ہیں اور جنہیں یہ احساس نہیں رہا ہے کہ اسی کی نعمتیں ہیں جن کے بل پر وہ پل رہے ہیں۔ دوسرے معنی کے لحاظ سےمطلب یہ ہے کہ یہ طرز عمل صرف وہی لوگ اختیار کرتے ہیں جنہوں نے حق سے منہ موڑ لیا ہے اور اسے نہ ماننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سیاق و سباق کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ یہاں کفر کرنے والے سے مراد ہر وہ شخص نہیں ہے جو مسلمان نہ ہو۔ اسلیے کہ جو غیر مسلم اسلام کو سمجھنے کی غرض سے نیک نیتی کے ساتھ بحث کرے اور تحقیق کی غرض سے وہ باتیں سمجھنے کی کوشش کرے جن کے سمجھنے میں اسے زحمت پیش آ رہی ہو، اگرچہ اسلام قبول کرنے سے پہلے تک اصطلاحاً ہوتا وہ بھی کافر ہی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ اس پر وہ بات راست نہیں آتے جس کی اس آیت میں مذمت کی گئی ہے۔
۴: پہلے فقرے اور دوسرے فقرے کے درمیان ایک خلا ہے جسے ذہن سامع پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ فحوائے کلام سے یہ بات خود بخود مترشح ہوتی ہے کہ اللہ عزّوجلّ کی آیات کے مقابلے میں جو لوگ جھگڑالو پن کا طرز عمل اختیار کرتے ہیں، وہ سزا سے کبھی بچ نہیں سکتے۔ لامحالہ ایک نہ ایک روز ان کی شامت آنی ہے۔ اب اگر تم دیکھ رہے ہو کہ وہ لوگ یہ سب کچھ کر کے بھی خدا کی زمین میں اطمینان سے دندناتے پھر رہے ہیں، اور ان کے کاروبار خوب چمک رہے ہیں، اور ان کی حکومتیں بڑی شان سے چل رہی ہیں، اور وہ خوب داد عیش دے رہے ہیں، تو اس دھوکے میں نہ پڑ جاؤ کہ وہ خدا کی پکڑ سے بچ نکلے ہیں، یا خدا کی آیات سے جنگ کوئی کھیل ہے جسے تفریح کے طور پر کھیلا جا سکتاہے اور اس کا کوئی بُرا نتیجہ اس کھیل کے کھلاڑیوں کو کبھی نہ دیکھنا پڑے گا۔ یہ تو دراصل ایک مہلت ہے جو خدا کی طرف سے ان کو مل رہی ہے۔ اس مہلت سے غلط فائدہ اٹھا کر جو لوگ جس قدر زیادہ شرارتیں کرتے ہیں ان کی کشتی اسی قدر زیادہ بھر کر ڈوبتی ہے۔
۵: یعنی دنیا میں جو عذاب اُن پر آیا وہ ان کی آخری سزا نہ تھی بلکہ اللہ نے یہ فیصلہ بھی ان کے حق میں کر دیا ہے کہ ان کو واصل بجہنم ہونا ہے۔ ایک دوسرا مطلب اس آیت کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس طرح پچھلی قوموں کی شامت آ چکی ہے اسی طرح اب جولوگ کفر کر رہے ہیں ان کے حق میں بھی اللہ کا یہ فیصلہ طے شدہ ہے کہ واصل بجہنم ہونے والے ہیں۔
۶: یہ بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھیوں کی تسلی کے لیے ارشاد ہوئی ہے۔ وہ اسوقت کفار مکہ کی زبان درازیاں اور چیرہ دستیاں، اور ان کے مقابلہ میں اپنی بے بسیدیکھ دیکھ کر سخت دل شکستہ ہو رہے تھے۔ اس پر فرمایا گیا کہ ان گھٹیا اور رذیل لوگوں کی باتوں پر تم رنجیدہ کیوں ہوتے ہو، تمہارا مرتبہ تو وہ ہے کہ عرش الہٰی کے حامل فرشتے، اور عرش کے گرد و پیش حاضر رہنے والے ملائکہ تک تمہارے حامی ہیں اور تمہارے حق میں اللہ تعالیٰ کے حضور سفارشیں کر رہے ہیں۔ عام فرشتوں کے بجائے عرش الٰہی کے حمل اور اس کے گرد و پیش رہنے والے فرشتوں کا ذکر یہ تصور دلانے کے لیے کیا گیا ہے کہ سلطنت خداوند ی کے عام اہل کار تو درکنار وہ ملائکہ مقربین بھی جواس سلطنت کے ستون ہیں اور جنہیں فرمانروائے کائنات کے ہاں قرب کا مقام حاصل ہے، تمہارے ساتھ گہری دلچسپی و ہمدردی رکھتے ہیں۔ پھر یہ جو فرمایا گیا کہ یہ ملائکہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمان لانے والوں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان کا رشتہ ہی وہ اصل رشتہ ہے جس نے عرشیوں اور فرشیوں کو ملا کر ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے اور اسی تعلق کی وجہ سے عرش کے قریب رہنے والے فرشتوں کو زمین پر بسنے والے اُن خاکی انسانوں سے دلچسپی پیدا ہوئی ہے جو انہی کی طرح اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ فرشتوں کے اللہ پر ایمان رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کفر کر سکتے تھے، مگر انہوں نے اسے چھوڑ کر ایمان اختیار کیا، بلکہ اس کا مطلب یہ کہ وہ اللہ وحدہٗ لاشریک ہی کا اقتدار مانتے ہیں، کوئی دوسری ہستی ایسی نہیں ہے جو انہیں حکم دینے والی ہو اور وہ اس کے آگے سر اطاعت جھکاتے ہوں۔ یہی مسلک جب ایمان لانے والے انسانوں نے بھی اختیار کر لیا تو اتنے بڑے اختلافِ جنس اور بُعدِ مقام کے باوجود ان کے اور فرشتوں کے درمیان ہم مشربی کا مضبوط تعلق قائم ہو گیا۔
۷:یعنی اپنے بندوں کی کمزوریاں اور لغزشیں اور خطائیں تجھ سے چھپی ہوئی نہیں ہیں، بے شک تو سب کچھ جانتا ہے مگر تیرے علم کی طرح تیرا دامن رحمت بھی تو وسیع ہے، اسلیے ان کی خطاؤں کو جاننی کے باوجود ان غریبوں کو بخش دے۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بربنائے رحمت ان سے لوگوں کو بخش دے جن کو بربنائے علم تو جانتا ہے کہ انہوں نے سچے دل سے توبہ کی ہے فی الواقع تیرا راستہ اختیار کر لیا ہے۔
۸: معاف کرنا اور عذاب دوزخ سے بچا لینا اگرچہ صریحاً لازم و ملزوم ہیں اور ایک بات کا ذکر کر دینے کے بعد دوسری بات کہنے کی بظاہر کوئی حاجت نہیں رہتی۔ لیکن اس طرز بیان سے دراصل اہل ایمان کے ساتھ فرشتوں کی گہری دلچسپی کا اظہار ہوتا ہے۔ قاعدے کی بات ہے کہ کسی معاملے میں جس شخص کے دل کو لگی ہوئی ہوتی ہے وہ جب حاکم سے گزارش کرنے کا موقع پا لیتا ہے تو پھر وہ اِلحاح کے ساتھ ایک ہی درخواست کو بار بار طرح طرح سے پیش کرتا ہے اور ایک بات بس ایک دفعہ عرض کر دے اس کی تسلی نہیں ہوتی۔
۹:یعنی نافرمانی چھوڑ دی ہے، سرکشی سے باز آ گئے ہیں اور فرمانبرداری اختیار کر کے زندگی کے اس راستے پر چلنے لگے ہیں جو تو نے خود بتایا ہے۔
۱۰: اس میں بھی وہی الحاح کی کیفیت پائی جاتی ہے جس کی طرف اوپر حاشیہ نمبر ۸ میں ہم نے اشارہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ معاف کرنا اور دوزخ سے بچا لینا آپ سے آپ جنت میں داخل کرنے کو مستلزم ہے، اور پھر جس جنت کا اللہ نے خود مومنین سے وعدہ کیا ہے، بظاہر اسی کے لیے مومنین کے حق میں دعا کرنا غیر ضروری معلوم ہوتا ہے، لیکن اہل ایمان کے لیے فرشتوں کے دل میں جذبۂ خیر خواہی کا اتنا جوش ہے کہ وہ اپنی طرف سےان کے حق میں کلمہ خیر کہتے ہی چلے جاتے ہیں حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ سب مہربانیاں ان کے ساتھ کرنے والا ہے۔
۱۱: یعنی ان کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے ان کے ماں باپ اور بیویوں اور اولاد کو بھی ان کے ساتھ جمع کر دے۔ یہ وہی بات ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود بھی ان نعمتوں کے سلسلےمیں بیان فرمائی ہے جو جنت میں اہل ایمان کو دی جائیں گی۔ ملاحظہ ہو سورہ رعد آیت۲۳۔ اور سورہ طور آیت ۲۱۔ سورہ طور والی آیت میں یہ تصریح بھی ہے کہ اگر ایک شخص جنت میں بلند درجے کا مستحق ہو اور اس کے والدین اور بال بچے اس مرتبے کے مستحق نہ ہوں تو اس کو نیچے لا کر ان کے ساتھ ملانے کے بجائے اللہ تعالیٰ ان کو اٹھا کر اس کے درجے میں لے جائے گا۔
۱۲: ’’ سیّئات‘‘ (برائیوں ) کا لفظ تین مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور تینوں ہی یہاں مراد ہیں۔ ایک، غلط عقائد اور بگڑے ہوئے اخلاق اور بُرے اعمال۔ دوسرے، گمراہی اور اعمال بد کا وبال۔ تیسرے آفات اور مصائب اور اذیتیں خواہ وہ اس دنیا کی ہوں، یا عالم برزخ کی، یا روز قیامت کی۔ فرشتوں کی دعا کا مقصود یہ ہے کہ ان کو ہراس چیز سے بچا جو ان کے حق میں بُری ہو۔
۱۳: روز قیامت کی بُرائیوں سے مراد میدان حشر کا ہَول، سائے اور ہر قسم کی آسائشوں سےمحرومی، محاسبے کی سختی، تمام خلائق کے سامنے زندگی کے راز فاش ہونے کی رسوائی، اور دوسرےوہ تمام ذلتیں اور سختیاں ہیں جن سے وہاں مجرمین کو سابقہ پیش آنے والا ہے۔
۱۴۔ یعنی کفار جب قیامت کے روز دیکھیں گے کہ انہوں نے دنیا میں شرد و دہریت، انکار آخرت اور رسولوں کی مخالفت پر اپنے پورے کارنامۂ حیات کی بنیاد رکھ کر کتنی بڑی حماقت کی ہے، اور اس حماقت کی بدولت اب وہ کس انجام بد سے دوچار ہوئے ہیں، تو وہ اپنی انگلیاں چبائیں گے اور جھنجھلا جھنجھلا کر اپنے آپ کو خود کوسنے لگیں گے۔ اس وقت فرشتے ان سے پکار کر کہیں گے کہ آج تو تمہیں اپنے اوپر بڑا غصّہ آ رہا ہے، مگر کل جب تمہیں اس انجام سے بچانے کے لیے اللہ تعالیٰ کے انبیاء اور دوسرے نیک لوگ راہ راست کی طرف دعوت دیتے تھے اور تم ان کی دعوت کو ٹھکراتے تھے اس وقت اللہ تعالیٰ کا غضب اس سے زیادہ تم پر بھڑکتا تھا۔
۱۵۔ دو دفعہ موت اور دو دفعہ زندگی سے مراد و ہی چیز ہے جس کا ذکر سورہ بقرہ، آیت ۲۸ میں کیا گیا ہے کہ تم خدا کے ساتھ کیسے کفر کرتے ہو جبکہ تم بے جان تھے، اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر وہ تمہیں موت دے گا اور پھر دوبارہ زندہ کر دے گا۔ کفار ان میں سے پہلی تین حالتوں کا تو انکار نہیں کرتے، کیونکہ وہ مشاہدے میں آتی ہیں اور اس بنا پر ناقابل انکار ہیں مگر حالت پیش آنے کا انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ ان کے مشاہدے میں ابھی تک نہیں آئی ہے اور صرف انبیاء علیہم السلام ہی نے اس کی خبر دی ہے۔ قیامت کے روز جب عملاً وہ چوتھی حالت بھی مشاہرے میں آ جائے گی تب یہ لوگ اقرار کریں گے کہ واقعی وہی کچھ پیش آ گیا جس کی ہمیں خبر دی گئی تھی۔
۱۶۔ یعنی ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس دوسری زندگی کا انکار کر کے ہم نے سخت غلطی کی اور اس غلط نظریے پر کام کر کے ہماری زندگی گناہوں سے لبریز ہو گئی۔
۱۷۔ یعنی کیا اب اس کا کوئی امکان ہے کہ ہمارے اعترافِ گناہ کو قبول کر کے ہمیں عذاب کی اس حالت سے نکال دیا جائے جس میں ہم مبتلا ہو گئے ہیں۔
۱۸۔ یعنی فیصلہ اب اسی اکیلے خدا کے ہاتھ میں ہے جس کی خدائی پر تم راضی نہ تھے، اور ان دوسروں کا فیصلے میں کوئی دخل نہیں ہے جنہیں خدائی کے اختیارات میں حصّہ دار قرار دینے پر تمہیں بڑا اصرار تھا۔ (اس مقام کو سمجھنے کے لیے سورہ زمر آیت ۴۵ اور اس کا حاشیہ ۶۴ بھی نگاہ میں رہنا چاہیے )۔ اس فقرے میں آپ سے آپ یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ اب اس عذاب کی حالت سے تمہارے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں ہے، کیونکہ تم نے صرف آخرت ہی کا انکار نہیں کیا تھا بلکہ اپنے خالق و پروردگار سے تم کو چڑ تھی اور اس کے ساتھ دوسروں کو ملائے بغیر تمہیں چین نہ آتا تھا۔
۱۹۔ نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ اس کائنات کا صانع اور مدبر منتظم ایک خدا اور ایک ہی خدا ہے۔
۲۰۔ رزق سے مراد یہاں بارش ہے، کیونکہ انسان کو جتنی اقسام کے رزق بھی دنیا میں ملتے ہیں ان سب کا مدار آخر کار بارش پر ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنی بے شمار نشانیوں میں سے تنہا اس ایک نشانی کو پیش کر گے لوگوں کو توجہ دلاتا ہے کہ صرف اسی ایک چیز کے انتظام پر تم غور کرو تو تمہاری سمجھ میں آ جائے کہ نظام کائنات کے متعلق جو تصور تم کو قرآن میں دیا جا رہا ہے وہی حقیقت ہے۔ یہ انتظام صرف اسی صورت میں قائم ہو سکتا تھا جبکہ زمین اور اس کی مخلوقات اور پانی اور ہا اور سورج اور حرارت و برودت سب کا خالق ایک ہی خدا ہو۔ اور یہ انتظام صرف اسی صورت میں لاکھوں کروڑوں برس تک پیہم ایک باقاعدگی سے چل سکتا ہے جس نے زمین میں انسان اور حیوانات اور نباتات کو جب پیدا کیا تو ٹھیک ٹھیک ان کی ضروریات کے مطابق پانی بھی بنایا اور پھر اس پانی کو باقاعدگی سے ساتھ روئے زمین پر پہنچانے اور پھیلانے کے لیے یہ حیرت انگیز انتظامات کیے۔ اب اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خدا کا انکار کرے، یا اس کے ساتھ کچھ دوسرے ہستیوں کو بھی خدائی میں شریک ٹھیرائے۔
۲۱۔ یعنی خدا سے پھرا ہوا آدمی، جس کی عقل پر غفلت یا تعصب کا پردہ پڑا ہوا ہو، کسی چیز کو دیکھ کر بھی کوئی سبق نہیں لے سکتا۔ اس کی حیوانی آنکھیں یہ تو دیکھ لیں گی کہ ہوئیں چلیں، بادل آئے، کڑک چمک ہوئی، اور بارش ہوئی۔ مگر اس کا انسانی دماغ کبھی یہ نہ سوچے گا کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے، کون کر رہا ہے اور مجھ پر اس کے کیا حقوق ہیں۔
۲۲۔ دین کو اللہ کے لیے خالص کرنے کی وضاحت سورہ زمر حاشیہ نمبر ۳ میں کی جا چکی ہے۔
۲۳۔ یعنی تمام کو موجودات سے اس کا مقام بدر جہا بلند ہے۔ کوئی ہستی بھی جو اس کائنات میں موجود ہے، خواہ وہ کوئی فرشتہ ہو یا نبی یا ولی، یا اور کوئی مخلوق، اس کا مقام دوسری مخلوقات کے مقابلے میں چاہے کتنا ہی ارفع و اشرف ہو، مگر اللہ تعالیٰ کے بلند ترین مقام سے اس کے قریب ہونے تک کا تصور نہیں کیا جا سکتا کجا کہ خدائی صفات و اختیارات میں اس کے شریک ہونے کا گمان کیا جا سکے۔
۲۴۔ یعنی ساری کائنات کا بادشاہ فرمانروا ہے۔ کائنات کے تخت سلطنت کا مالک ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، صفحات ۳۶۔ ۲۶۲۔ ۴۴۱۔ جلد سوم، ص ۸۷)
۲۵۔ روح سے مراد وحی اور نبوت ہے (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، صفحات ۵۲۴۔ ۶۳۹) اور یہ ارشاد کہ اللہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے یہ روح نازل کرتا ہے، اس معنی میں ہے کہ اللہ کے فضل پر کسی کا اجارہ نہیں ہے۔ جس طرح کوئی شخص یہ اعتراض کرنے کا حق نہیں رکھتا کہ فلاں شخص کو حسن کیوں دیا گیا اور فلاں شخص کو حافظہ یا ذہانت کی غیر معمولی قوت کیوں عطا کی گئی، اسی طرح کسی کو یہ اعتراض کرنے کا بھی حق نہیں ہے کہ منصب نبوت کے لیے فلاں شخص ہی کو کیوں چنا گیا اور جسے ہم چاہتے تھے اسے کیوں نہ نبی بنایا گیا۔
۲۶۔ یعنی جس روز تمام انسان اور جن اور شیاطین بیک وقت اپنے رب کے سامنے جمع ہوں گے اور ان کے اعمال کے سارے گواہ بھی حاضر ہوں گے۔
۲۷۔ یعنی دنیا میں تو بہت سے بر خود غلط لوگ اپنی بادشاہی و جبّاری کے ڈنکے پیٹتے رہے، اور بہت سے احمق ان کی بادشاہیاں اور کبریائیاں مانتے رہے، اب بتاؤ کہ بادشاہی فی الواقع کس کی ہے؟ اختیارات کا اصل مالک کون ہے؟ اور حکم کس کا چلتا ہے؟ یہ ایسا مضمون ہے جسے اگر کوئی شخص گوش ہوش سے سنے تو خواہ وہ کتنا ہی بڑا بادشاہ یا آمر مطلق بنا بیٹھا ہو، اس کا زہرہ آب ہو جائے اور ساری جبّاریت کی ہوا اس کے دماغ سے نکل جائے۔ اس موقع پر تاریخ کا یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ سامانی خاندان کا فرمانروا انصر بن احمد(۳۳۱۔ ۳۰۱) جب نیشاپور میں داخل ہوا تو اس نے ایک دربار منعقد کیا اور تخت پر بیٹھنے کے بعد فرمائش کی کہ کاروائی کا افتتاح قرآن مجید کی تلاوت سے ہو۔ یہ سن کر ایک بزرگ آگے بڑھے اور انہیں نے یہی رکوع تلاوت کیا۔ جس وقت وہ اس آیت پر پہنچے تو نصر پر ہیبت طاری ہو گئی۔ لرزتا ہوا تخت سے اُترا، تاج سے اُتار کر سجدے میں گر گیا اور بولا اے رب، بادشاہی تیری ہی ہے نہ کہ میری۔
۲۸۔ یعنی کسی نوعیت کا ظلم بھی نہ ہو گا۔ واضح رہے کہ جزاء کے معاملہ میں ظلم کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی اجر کا مستحق ہو اور وہ اس کو نہ دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ وہ جتنے اجر کا مستحق ہو اس سے کم دیا جائے۔ تیسرے یہ کہ وہ سزا کا مستحق نہ ہو مگر اسے سزا د ڈالی جائے۔ چوتھے یہ کہ جو سزا کا مستحق ہو اسے سزا نہ دی جائے۔ پانچویں یہ کہ جو سزا کا مستحق ہو ا سے زیادہ سزا دے دی جائے۔ چھٹے یہ کہ مظلوم کا منہ دیکھتا رہ جائے اور ظالم اس کی آنکھوں کی سامنے صاف بر ی ہو جائے۔ ساتویں یہ کہ ایک کے گناہ میں دوسرا پکڑ لیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ ان تمام نوعیتوں میں سے کسی نوعیت کا ظلم بھی اس کی عدالت میں نہ ہونے پائے گا۔
۲۹۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کو حساب لینے میں کوئی دیر نہیں لگے گی۔ وہ جس طرح کائنات کی ہر مخلوق کو بیک وقت رزق دے رہا ہے اور کسی کی رزق رسانی کے انتظام میں اس کو ایسی مشغولیت نہیں ہوتی کہ دوسروں کو رزق دینے کی اسے فرصت نہ ملے، وہ جس طرح کائنات کی ہر چیز کو نیک وقت دیکھ رہا ہے، ساری آوازوں کو بیک وقت سن رہا ہے، تمام چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے معاملات کی بیک وقت تدبیر کر رہا ہے، اور کوئی چیز اس کی توجہ کو اس طرح جذب نہیں کر لیتی کہ اسی وقت وہ دوسری چیزوں کی طرف توجہ نہ کر سکی، اسی طرح وہ ہر ہر فرد کا بیک وقت محاسبہ بھی کر لے گا اور ایک مقدمے کی سماعت کرنے میں اسے ایسی مشغولیت لاحق نہ ہو گی کہ اسی وقت دوسرے بے شمار مقدمات کی سماعت نہ کر سکے۔ پھر اس کی عدالت میں اس بنا پر بھی کوئی تاخیر نہ ہو گی کہ واقعات مقدمہ کی تحقیق اور اس کے لیے شہادتیں فراہم ہونے میں وہاں کوئی مشکل پیش آئے۔ حاکم عدالت براہ راست خود تمام حقائق سے واقف ہو گا۔ ہر فریق مقدمہ اس کے سامنے بالکل بے نقاب ہو گا۔ اور واقعات کی کھلی کھلی ناقابل انکار شہادتیں چھوٹی سے چھوٹی جزئی تفصیلات تک کے ساتھ بلا تاخیر پیش ہو جائیں گی۔ اس لیے ہر مقدمے کا فیصلہ جھٹ پٹ ہو جائے گا۔
۳۰۔ قرآن مجید میں لوگوں کو بار بار یہ احساس دلایا گیا ہے کہ قیامت ان سے کچھ دور نہیں ہے کہ بلکہ قریب ہی لگی کھڑی ہے اور ہر لمحہ آ سکتی ہے۔ کہیں فرمایا اَتیٰ اَمْرُاللہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ(النحل:۱)۔ کہیں ارشاد ہوا اِقْتَرَبَلِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَ (الانبیاء :۱) کہیں متنبہ کیا گیا اِقْتَرَبَتِ السَّاعَۃُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ (القمر:۱)۔ کہیں فرمایا گیا اَزِفَتِ الْاٰ زِفَۃُ لَیْسَ لَھَا مِنْ دُوْنِ اللہِ کَاشِفَۃٌ (النجم:۵۷)۔ ان ساری باتوں سے مقصود لوگوں کو متنبہ کرنا ہے کہ قیامت کو دور کی چیز سمجھ کر بے خوف نہ رہیں اور سنبھلنا ہے تو ایک لمحہ ضائع کیے بغیر سنبھل جائیں۔
۳۱۔ اصل میں لفظ حَمَیْم استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد کسی شخص کا ایسا دوست ہے جو اس کو پٹتے دیکھ کر جوش میں آئے اور اسے بچانے کے لیے دوڑے۔
۳۲۔ یہ بات برسبیل تنزل، کفار کے عقیدہ شفاعت کی تردید کرتے ہوئے فرمائی گئی ہے۔ حقیقت میں تو وہاں ظالموں کا کوئی شفیع سرے سے ہو گا ہی نہیں، کیونکہ شفاعت کی اجازت اگر مل بھی سکتی ہے تو اللہ کے نیک بندوں کو مل سکتی ہے، اور اللہ کے نیک بندے کبھی کافروں اور مشرکوں اور فساق و فجار کے دوست نہیں ہو سکتے کہ وہ انہیں بچانے کے لیے سفارش کا خیال بھی کریں۔ لیکن چونکہ کفار و مشرکین اور گمراہ لوگوں کا بالعموم یہ عقیدہ رہا ہے، اور آج بھی ہے، کہ ہم جن بزرگوں کے دامن گرفتہ ہیں وہ کبھی ہمیں دوزخ میں نہ جانے دیں گے بلکہ اَڑ کر کھڑے ہو جائیں گے اور بخشوا کر ہی چھوڑیں گے، اس لیے فرمایا گیا کہ وہاں ایسا شفیع کوئی بھی نہ ہو گا جس کی بات مانی جائے اور جس کی سفارش اللہ کو لازماً قبول ہی کرنی پڑے۔
۳۳۔ یعنی تمہارے معبودوں کی طرح وہ کوئی اندھا بہرا خدا نہیں ہے جسے کچھ پتہ نہ ہو کہ جس آدمی کے معاملے کو وہ فیصلہ کر رہا ہے اس کے کیا کرتوت تھے۔
۳۴۔ مبیّنات سے مراد تین چیزیں ہیں۔ ایک، ایسی نمایاں علامات اور نشانیاں جو ان کے مامور من اللہ ہونے پر شاہد تھیں۔ دوسرے، ایسی روشن دلیلیں جو ان کی پیش کردہ تعلیم کے حق ہونے کا ثبوت دے رہی تھیں۔ تیسرے، زندگی کے مسائل و معاملات کے متعلق ایسی واضح ہدایات جنہیں دیکھ کر ہر معقول آدمی یہ جان سکتا تھا کہ ایسی پاکیزہ تعلیم کوئی جھوٹا خود غرض آدمی نہیں دے سکتا۔
۳۵۔ حضرت موسیٰ کے قصے کی دوسرے تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو جلد اول صفحات ۷۵تا ۷۹۔ ۴۲۵۔ ۴۵۹۔ جلد دوم ۶۴ تا ۸۸۔ ۳۰۱ تا ۳۱۰۔ ۳۳۰ ۳۶۵ ۳۶۶۔ ۳۷۰۔ ۳۸۲۔ ۳۸۳۔ ۴۷۱ تا ۴۷۴۔ ۶۴۲ تا ۶۴۹۔ جلد سوم، ۳۴ تا ۴۰۔ ۷۱۔ ۷۲۔ ۸۵۔ ۸۸ تا ۱۲۱ ۲۷۹۔ ۲۸۰۔ ۴۸۰ تا ۴۹۸۔ ۵۵۷ تا ۵۶۰۔ ۶۱۰۔ ۶۱۳ تا ۶۳۹۔ جلد چہارم، سورہ احزاب، آیت ۶۹۔ الصافات، آیات ۱۱۴ تا ۱۲۲۔
۳۶۔ ہامان کے متعلق مخالفین کے اعتراضات کا جواب اس سے پہلے سورہ قصص کے حواشی میں دیا جا چکا ہے (جلد سوم، صفحہ ۶۱۵)
۳۷۔ یعنی ایسی صریح علامات کے ساتھ جن سے یہ امر مشتبہ نہیں رہ جاتا تھا کہ وہ اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں اور ان کی پشت پر اللہ ربّ العٰلمین کی طاقت ہے۔ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ کے قصّے کی جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں ان پر ایک غائر نگاہ ڈالنے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ کونسی علامات تھیں جن کو یہاں ان کے مامور من اللہ ہونے کی کھلی سند قرار دیا جا رہا ہے۔ اول تا یہ عجیب بات تھی کہ جو شخص چند سال پہلے فرعون کی قوم کے ایک آدمی کو قتل کر کے ملک سے فرار ہو گیا تھا اور جس کے وارنٹ نکلے ہوئے تھے وہ اچانک ایک لاٹھی لیے ہوئے سیدھا فرعون کے بھرے دربار میں درّانہ چلا آتا ہے اور دھڑلّے کے ساتھ بادشاہ اور اس کے اعیانِ سلطنت کو مخاطب کر کے دعوت دیتا ہے کہ وہ اسے اللہ ربّ العا لمین کا نمائندہ تسلیم کر کے اس کی ہدایات پر عمل کریں، اور کسی کو اس پر ہاتھ ڈالنے کی جرأت نہیں ہوتی۔ حالانکہ حضرت موسیٰ جس قوم سے تعلق رکھتے تھے وہ اس بری طرح غلامی کے جوتے تلے پس رہی تھی کہ اگر الزام قتل کی بنا پر ان کو فوراً گرفتار کر لیا جاتا تو اس بات کا کوئی اندیشہ نہ تھا کہ ان کی قوم بغاوت تو در کنار، احتجاج ہی کے لیے زبان کھول سکے گی۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عصا اور یدِ بیضاء کے معجزے دیکھنے سے بھی پہلے فرعون اور اس کے اہل دربار محض حضرت موسیٰ کی آمد ہی سے مرعوب ہو چکے تھے اور پہلی نظر ہی میں انہیں محسوس ہو گیا تھا کہ یہ شخص کسی اور ہی طاقت کے بل بوتے پر آیا ہے۔ پھر جو عظیم الشان معجزے پے درپے ان کے ہاتھ سے صادر ہوئے ان میں سے ہر ایک یہ یقین دلانے کے لیے کافی تھا کہ یہ جادو کا نہیں، خدائی طاقت ہی کا کرشمہ ہے۔ آخر کس جادو کے زور سے ایک لاٹھی فی الواقع ازدہا بن سکتی ہے؟ یا ایک پورے ملک میں قحط پڑ سکتا ہے؟ یا لاکھوں مربع میل کے علاقے میں ایک نوٹس پر طرح طرح کے طوفان آ سکتے ہیں اور ایک نوٹس پر وہ ختم ہو سکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کے بیان کے مطابق فرعون اور اس کی سلطنت کے تمام ذمّہ دار لوگ، زبان سے چاہے انکار کرتے رہے ہوں، مگر دل ان کے پوری طرح جان چکے تھے کہ حضرت موسیٰ فی الواقع اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوئے ہیں۔ (تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم ص ۶۵ تا ۶۸۔ جلد سوم، ص ۱۰۰ تا ۱۰۸۔ ۴۸۶ تا ۴۹۴۔ ۵۶۰)۔
۳۸۔ یعنی جب پے درپے معجزات اور نشانیاں دکھا کر حضرت موسیٰ نے یہ بات ان پر پوری طرح ثابت کر دی کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے رسول ہیں اور مضبوط دلائل سے اپنا بر سرِ حق ہونا پوری طرح واضح کر دیا۔
۳۹۔ سورہ اعراف، آیت ۱۲۸ میں یہ بات گزر چکی ہے کہ فرعون کے درباریوں نے اس سے کہا تھا کہ آخر موسیٰؑ کو کھلی چھٹی کب تک دی جائے گی، اور اس نے کہا تھا کہ میں عنقریب بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنے اور لڑکیوں کو جیتا چھوڑ دینے کا حکم دینے والا ہوں (تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۷۱۔ ۷۲)۔ اب یہ آیت بتاتی ہے کہ فرعون کے ہاں سے آخر کار یہ حکم جاری کر دیا گیا۔ اس سے مقصود یہ تھا کہ حضرت موسیٰ کے حامیوں اور پیروؤں کو اتنا خوف زدہ کر دیا جائے کہ وہ ڈر کے مارے ان کا ساتھ چھوڑ دیں۔
۴۰۔ اصل الفاظ ہیں وَمَا کَیْدُ الْکٰفِرِیْنَ اِلَّا فِی ضِلٰلٍ۔ اس فقرے کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان کافروں کی جو چال بھی تھی، گمراہی اور ظلم و جور اور مخالفت حق ہی کی راہ میں تھی، یعنی حق واضح ہو جانے اور دلوں میں قائل ہو جانے کے باوجود وہ اپنی ضد میں بڑھتے ہی چلے گئے اور صداقت کو نیچا دکھانے کے لیے انہوں نے کوئی ذلیل سے ذلیل تدبیر اختیار کرنے میں بھی باک نہ کیا۔
۴۱۔ یہاں سے جس واقعہ کا بیان شروع ہو رہا ہے وہ تاریخ بنی اسرائیل کا ایک نہایت اہم واقعہ ہے جسے خود بنی اسرائیل بالکل فراموش کر گئے ہیں۔ بائیبل اور تَلْمود، دونوں اس کے ذکر سے خالی ہیں، اور دوسری اسرائیلی روایات میں بھی اس کا کوئی نام و نشان نہیں پایا جاتا۔ اس قصے کو جو شخص بھی پڑھے گا، بشرطیکہ وہ اسلام اور قرآن کے خلاف تعصب میں اندھا ہو چکا ہو، وہ یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکے گا کہ دعوتِ حق کے نقطۂ نظر سے یہ قصہ بہت بڑی قدر و قیمت رکھتا ہے، اور بجائے خود یہ بات بعید از عقل و قیاس بھی نہیں ہے کہ حضرت موسیٰ کی شخصیت، ان کی تبلیغ، اور ان کے ہاتھوں ظہور پذیر ہونے والے حیرت انگیز معجزات سے متاثر ہو کر خود فرعون کے اعیان سلطنت میں سے کوئی شخص دل ہی دل میں ایمان لے آیا ہو اور فرعون کو ان کے قتل پر آمادہ دیکھ کر وہ ضبط نہ کر سکا ہو۔ لیکن مغربی مستشرقین، علم و تحقیق کے لمبے چوڑے دعووں کے باوجود، تعصب میں اندھے ہو کر جس طرح قرآن صداقتوں پر خاک ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام میں مضمون ’’موسیٰ‘‘ کا مصنف اس قصے کے متعلق لکھتا ہے :
’’قرآن کی یہ کہانی کہ فرعون کے دربار میں ایک مومن موسیٰ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے، پوری طرح واضح نہیں ہے (سورہ۴۰ آیت ۲۸)۔ کیا ہمیں اس کا تقابل اس قصّے سے کرنا چاہیے جو ہگّا دا میں بیان ہوا ہے اور جس کا مضمون یہ ہے کہ یتھر و نے فرعون کے دربار میں عفو سے کام لینے کا مشورہ دیا تھا ‘‘؟
گویا ان مدعیان تحقیق کے ہاں یہ بات تو طے شدہ ہے کہ قرآن کی ہر بات میں ضرور کیڑے ہی ڈالنے ہیں۔ اب اگر اس کے کسی بیان پر حرف زنی کی کوئی بنیاد نہیں ملتی تو کم از کم یہی شوشہ چھوڑ دیا جائے کہ یہ قصہ پوری طرح واضح نہیں ہے، اور چلتے چلتے یہ شک بھی پڑھنے والوں کے دل میں ڈال دیا جائے کہ ہَگّا دا میں یتھروکا جو قصہ حضرت موسیٰ کی پیدائش سے پہلے کا بیان ہوا ہے وہ کہیں سے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) نے سن لیا ہو گا، اور اسے لا کر یہاں اس شکل میں بیان کر دیا ہو گا۔ یہ ہے ’’ علمی تحقیق‘‘ کا وہ انداز جو ان لوگوں نے اسلام اور قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے معاملے میں اختیار کر رکھا ہے۔
۴۲۔ اس فقرے میں فرعون یہ تاثر دینے کی کوشش کرتا ہے کہ گویا کچھ لوگوں نے اسے روک رکھا ہے جن کی وجہ سے وہ حضرت موسیٰ کو قتل نہیں کر رہا ہے، ورنہ اگر وہ مانع نہ ہوتے تو وہ کبھی کا انہیں ہلاک کر چکا ہوتا۔ حالانکہ دراصل باہر کی کوئی طاقت اسے روکنے والی نہ تھی، اس کے اپنے دل کا خوف ہی اس کو اللہ کے رسول پر ہاتھ ڈالنے سے روکے ہوئے تھا۔
۴۳۔ یعنی، مجھے اس سے انقلاب کا خطرہ ہے، اور اگر یہ انقلاب برپا نہ بھی کرتے تو کم از کم یہ خطرہ تو ہے ہی کہ اس کی کاروائیوں سے ملک میں فساد رونما ہو گا، لہٰذا بغیر اس کے کہ یہ کوئی مستلزم سزائے موت کرے، محض تحفظ امن عام(Maintenance of Public order) کی خاطر اسے قتل کر دینا چاہیے۔ رہی یہ بات کہ اس شخص کی ذات سے فی الواقع امن عام کو خطرہ ہے یا نہیں، تو اس کے لیے صرف ہز میجسٹی کا اطمینان کافی ہے۔ سرکارِ عالی اگر مطمئن ہیں کہ یہ خطرناک آدمی ہے تو مان لیا جانا چاہیے کہ واقعی خطرناک اور گردن زدنی ہے۔
اس مقام پر ’’ دین بدل ڈالنے ‘‘ کا مطلب بھی اچھی طرح سمجھ لیجیے جس کے اندیشے سے فرعون حضرت موسیٰ کو قتل کر دینا چاہتا تھا۔ یہاں دین سے مراد نظام حکومت ہے اور فرعون کے قول کا مطلب یہ ہے کہ انی اخاف ان یغیر سلطانکم (روح المعانی، ج ۲۴ ص ۵۶)۔ بالفاظ دیگر، فرعون اور اس کے خاندان کے اقتدارِ اعلیٰ کی بنیاد پر مذہب و سیاست اور تمدّن و معیشت کا جو نظام مصر میں چل رہا تھا وہ ملک کا دین تھا، اور فرعون کو حضرت موسیٰ کی دعوت سے اسی دین کے بدل جانے کا خطرہ تھا۔ لیکن ہر زمانے کے مکار حکمرانوں کی طرح اس نے بھی یہ نہیں کہا کہ مجھے اپنے ہاتھ سے اقتدار نکل جانے کا خوف ہے اس لیے میں موسیٰ کو قتل کرنا چاہتا ہوں، بلکہ صورت معاملہ کو اس نے اس طرح پیش کیا کہ لوگو، خطرہ مجھے نہیں، تمہیں لاحق ہے، کیونکہ موسیٰ کی تحریک اگر کامیاب ہو گئی تو تمہارا دین بدل جائے گا۔ مجھے اپنی فکر نہیں ہے۔ میان تو تمہاری فکر میں گھلا جا رہا ہوں کہ میرے سایہ اقتدار سے محروم ہو کر تمہارا کیا بنے گا۔ لہٰذا جس ظالم کے ہاتھوں یہ سایہ تمہارے سر سے اٹھ جانے کا اندیشہ ہے اسے قتل کر دینا چاہیے کیونکہ وہ ملک اور قوم کا دشمن ہے۔
۴۴۔ یہاں دو برابر کے احتمال ہیں، جن میں سے کسی کو کسی پر ترجیح دینے کے لیے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے۔ ایک احتمال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ اس وقت دربار میں خود موجود ہوں، اور فرعون نے ان کی موجودگی میں انہیں قتل کر دینے کا ارادہ ظاہر کیا ہو، اور حضرت نے اس کو اور اس کے درباریوں کو خطاب کر کے اسی وقت بر ملا یہ جواب دے دیا ہو۔ دوسرا احتمال یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کی غیر موجودگی میں فرعون نے اپنی حکومت کے ذمہ دار لوگوں کی کسی مجلس میں یہ خیال ظاہر کیا ہو، اور اس گفتگو کی اطلاع آنجناب کو اہل ایمان میں سے کچھ لوگوں نے پہنچائی ہو، اور اسے سن کر آپ نے اپنے پیروؤں کی مجلس میں یہ بات ارشاد فرمائی ہو۔ ان دونوں صورتوں میں سے جو صورت بھی ہو، حضرت موسیٰ کے الفاظ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ فرعون کی دھمکی ان کے دل میں ذرہ برابر بھی خوف کی کوئی کیفیت پیدا نہ کر سکی اور انہوں نے اللہ کے بھروسے پر اس کی دھمکی اسی کے منہ پر مار دی۔ اس واقعہ کو جس موقع پر قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے، اس سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے بھی یہی جواب ان سب ظالموں کو ہے جو یوم الحساب سے بے خوف ہو کر آپ کو قتل کر دینے کی سازشیں کر رہے ہیں۔
۴۵۔ یعنی اس نے ایسی کھلی کھلی نشانیاں تمہیں دکھا دی ہیں جن سے یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ہو چکی ہے کہ وہ تمہارے رب کا بھیجا ہوا رسول ہے۔ مومن آل فرعون کا اشارہ ان نشانیوں کی طرف تھا جن کی تفصیلات اس سے پہلے گزر چکی ہیں (تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۶۵۔ ۶۸۔ ۶۹۔ ۷۲۔ ۷۳۔ ۶۴۷۔ ۶۴۸۔ جلد سوم، ص ۱۰۰ تا ۱۰۷۔ ۴۸۷ تا ۴۹۳۔ ۵۶۰)۔
۴۶۔ یعنی اگر ایسی صریح نشانیوں کے باوجود تم اسے جھوٹا سمجھتے ہو تب بھی تمہارے لیے مناسب یہی ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، کیونکہ دوسرا احتمال، اور نہایت قومی احتمال یہ بھی ہے کہ وہ سچا ہو اور اس پر ہاتھ ڈال کر تم خدا کے عذاب میں مبتلا ہو جاؤ۔ اس لیے اگر تم اسے جھوٹا بھی سمجھتے ہو تا اس سے تعرض نہ کرو۔ وہ اللی کا نام لے کر جھوٹ بول رہا ہو گا تو اللہ خود اس سے نمٹ لے گا۔ قریب قریب اسی طرح کی بات اس سے پہلے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی فرعون سے کہہ چکے تھے۔ وَاِنْلَّمْ تُؤْ مِنُوْ الِیْ فَا عْتَزِلُوْنِ (الدخان : ۲۱) ’’ اگر تم میری بات نہیں مانتے تو مجھ میرے حال پر چھوڑ دو۔ ‘‘
یہاں یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ مومن آل فرعون نے گفتگو کے آغاز میں کھل کر یہ ظاہر نہیں کیا تھا کہ وہ حضرت موسیٰ پر ایمان لے آیا ہے، بلکہ ابتداءً وہ اسی طرح کلام کرتا رہا کہ وہ بھی فرعون ہی کے گروہ کا ایک آدمی ہے اور محض اپنی قوم کی بھلائی کے لیے بار کر رہا ہے۔ مگر جب فرعون اور اس کے درباری کسی طرح راہ راست پر آتے نظر نہ آئے تو آخر میں اس نے اپنے ایمان کا راز فاش کر دیا، جیسا کہ پانچویں رکوع میں اس کی تقریر سے ظاہر ہوتا ہے۔
۴۷۔ اس فقرے دو مطلب ممکن ہیں، اور غالباً مومن آل فرعون نے قصداً یہ ذو معنی بات اسی لیے کہی تھی کہ ابھی وہ کھل کر اپنے خیالات ظاہر کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ ایک ہی شخص کی ذات میں راست روی جیسی خوبی اور کذب و افتا جیسی بری جمع نہیں ہو سکتیں۔ تم علانیہ دیکھ رہے ہو کہ موسیٰ ایک نہایت پاکیزہ سیرت اور کمال درجہ کا بلند کردار انسان ہے۔ اب آخر یہ بات تمہارے دماغ میں کیسے سماتی ہے کہ ایک طرف تو اہ اتنا بڑا جھوٹا ہو کہ اللہ کا نام لے کر نبوت کا بے بنیاد دعویٰ کر بیٹھے، اور دوسری طرف اللہ اسے اتنے اعلیٰ درجے کے اخلاق عطا فرمائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ تم لوگ اگر حد سے تجاوز کر کے موسیٰ علیہ السلام کی جان لینے کے درپے ہو گے اور ان پر جھوٹے الزامات عاید کر کے اپنے نا پاک منصوبے عمل میں لاؤ گے تو یاد رکھو کہ اللہ تمہیں ہر گز کامیابی کا راستہ نہ دکھائے گا۔
۴۸۔ یعنی کیوں اللہ کی دی ہوئی اس نعمت غلبہ و اقتدار کی ناشکری کر کے اس کے غضب کو اپنے اوپر دعوت دیتے ہو؟
۴۹۔ فرعون کے اس جواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی تک وہ یہ راز نہیں پا سکا تھا کہ اس کے دربار کا یہ امیر دل میں مومن ہو چکا ہے، اسی لیے اس نے اس شخص کی بات پر کسی ناراضی کا اظہار تو نہیں کیا، البتہ یہ واضح کر دیا کہ اس کے خیالات سننے کے بعد بھی اپنی رائے بدلنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
۵۰۔ یعنی اللہ کو بندوں سے کوئی عداوت نہیں ہے کہ وہ خواہ مخواہ انہیں ہلاک کر دے، بلکہ وہ ان پر عذاب اسی وقت بھیجتا ہے جبکہ وہ حد سے گزر جاتے ہیں، اور اس وقت ان پر عذاب بھیجنا عین تقاضائے عدل و انصاف ہوتا ہے۔
۵۱۔ یعنی تمہاری گمراہی اور پھر اس پر ہٹ دھرمی کا حال یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام سے پہلے تمہارے ملک میں یوسف علیہ السلام آئے جن کے متعلق تم خود مانتے ہو کہ وہ بلند ترین اخلاق کے حامل تھے، اور اس بات کا بھی تمہیں اعتراف ہے کہ انہوں نے بادشاہ وقت کے خواب کی صحیح تعبیر دے کر تمہیں سات برس کے اس خوفناک قحط کی تباہ کاریوں سے بچا لیا جو ان کے دور میں تم پر آیا تھا، اور تمہاری ساری قوم اس بات کی بھی معترف ہے کہ ان کے دور حکومت سے بڑھ کر عدل و انصاف اور خیر و برکت کا زمانہ کبھی مصر کی سر زمین نے نہیں دیکھا، مگر ان کی ساری خوبیاں جانتے اور مانتے ہوئے بھی تم نے ان کے جیتے جی ان پر ایمان لا کر نہ دیا، اور جب ان کی وفات ہو گئی تو تم نے کہا کہ اب بھلا ایسا آدمی کہاں پیدا ہو سکتا ہے۔ گویا تم ان کی خوبیوں کے معترف ہوئے بھی تو اس طرح کی بعد کے آنے والے ہر نبی کا انکار کرنے کے لیے اسے ایک مستقل بہانا بنا لیا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہدایت بہرحال تمہیں قبول نہیں کرنی ہے۔
۵۲۔ بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آگے کے یہ چند فقرے اللہ تعالیٰ نے مومن آل فرعون کے قول پر بطور اضافہ و تشریح ارشاد فرمائے ہیں۔
۵۳۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے گمراہی میں انہی لوگوں کو پھینکا جاتا ہے جن میں یہ تین صفات موجود ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنی بد اعمالیوں میں حد سے گزر جاتے ہیں اور پھر انہیں فسق و فجور کی ایسی چاٹ لگ جاتی ہے کہ اصلاح اخلاق کی کسی دعوت کو قبول کرنے کے لیے وہ آمادہ نہیں ہوتے۔ دوسرے یہ کہ انبیاء علیہم السلام کے معاملہ میں ان کا مستقل رویہ شک کا رویہ ہوتا ہے۔ خدا کے نبی ان کے سامنے خواہ کیسے ہی بینات لے آئیں، مگر وہ ان کی نبوت میں بھی شک کرتے ہیں اور ان حقائق کو بھی ہمیشہ شک ہی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جو توحید اور آخرت کے متعلق انہوں نے پیش کیے ہیں۔ تیسرے یہ کہ وہ کتاب اللہ کی آیات پر معقولیت کے ساتھ غور کرنے کے بجائے کج بحثوں سے ان کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کج بحثیوں کی بنیاد نہ کسی عقلی دلیل پر ہوتی ہے، نہ کسی آسمانی کتاب کی سند پر، بلکہ از اول تا آخر صرف ضد اور ہٹ دھرمی ہی ان کی واحد بنیاد ہوتی ہے۔ یہ تین عیوب جب کسی گروہ میں پیدا ہو جاتے ہیں تو پھر اللہ اسے گمراہی کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے جہاں سے دنیا کی کوئی طاقت اسے نہیں نکال سکتی۔
۵۴۔ یعنی کسی کے دل پر ٹھپہ بلا وجہ نہیں لگا دیا جاتا۔ یہ لعنت کی مہر صرف اسی کے دل پر لگائی جاتی ہے جس میں تکبر اور جباریت کی ہوا بھر چکی ہو۔ تکبر سے مراد ہے آدمی کا جھوٹا پندار جس کی بنا پر وہ حق کے آگے سر جھکانے کو اپنی حیثیت سے گری ہوئی بات سمجھتا ہے۔ اور جباریت سے مراد خلق خدا پر ظلم ہے جس کی کھلی چھوٹ حاصل کرنے کے لیے آدمی شریعت الٰہیہ کی پابندیاں قبول کرنے سے بھاگتا ہے۔
۵۵۔ مومن آل فرعون کی تقریر کے دوران میں فرعون اپنے وزیر ہامان کو مخاطب کر کے یہ بات کچھ انداز میں کہتا ہے کہ گویا وہ اس مومن کے کلام کو کسی التفات کے قابل نہیں سمجھتا، اس لیے متکبرانہ شان کے ساتھ اس کی طرف سے منہ پھیر کر ہامان سے کہتا ہے کہ ذرا میرے لیے ایک اونچی عمارت تو بنوا، دیکھوں تو سہی کہ یہ موسیٰ جس خدا کی باتیں کر رہا ہے وہ کہاں رہتا ہے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، ص ۶۳۶ تا ۶۳۸)
۵۶۔ یعنی اس دنیا کی عارضی دولت و خوشحالی پر پھول کر تم جو اللہ کو بھول رہے ہو، یہ تمہاری نادانی ہے۔
۵۷۔ یعنی ان کے شریک خدا ہونے کا میرے پاس کوئی علمی ثبوت نہیں ہے، پھر آخر آنکھیں بند کر کے میں اتنی بڑی بات کیسے مان لوں کہ خدائی میں ان کی بھی شرکت ہے اور مجھے اللہ کے ساتھ ان کی بھی بندگی کرنی ہے۔
۵۸۔ اس فقرے کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان کو نہ دنیا میں یہ حق پہنچتا ہے اور نہ آخرت میں کہ ان کی خدائی تسلیم کرنے کے لیے خلق خدا کو دعوت دی جائے۔ دوسرے یہ کہ انہیں تو لوگوں نے زبردستی خدا بنایا ہے ورنہ وہ خود نہ اس دنیا میں خدائی کے مدعی ہیں، نہ آخرت میں یہ دعویٰ لے کر اٹھیں گے کہ ہم بھی تو خدا تھے، تم نے ہمیں کیوں نہ مانا۔ تیسرے یہ کہ ان کو پکارنے کا کوئی فائدہ نہ اس دنیا میں ہے نہ آخرت میں، کیونکہ وہ بالکل بے اختیار ہیں اور انہیں پکارنا قطعی لا حاصل ہے۔
۵۹۔ ’’حد سے گزر جانے ‘‘ کا مطلب حق سے تجاوز کرنا ہے۔ ہر وہ شخص جو اللہ کے سوا دوسروں کی خدائی مانتا ہے یا خود خدا بن بیٹھتا ہے، یا خدا سے باغی ہو کر دنیا میں خود مختاری کا رویہ اختیار کرتا ہے، اور پھر اپنی ذات پر، خلق خدا پر اور دنیا کی ہر اس چیز پر جس سے اس کو سابقہ پیش آئے، طرح طرح کی زیادتیاں کرتا ہے، وہ حقیقت میں عقل اور انصاف کی تمام حدوں کو پھاند جانے والا انسان ہے۔
۶۰۔ اس فقرے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ باتیں کہتے وقت اس مومن شخص کو پورا یقین تھا کہ اس حق گوئی کی پاداش میں فرعون کی پوری سلطنت کا عتاب اس پر ٹوٹ پڑے گا اور اسے محض اپنے اعزازات اور مفادات ہی سے نہیں، اپنی جان تک سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ مگر یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس نے محض اللہ کے بھروسے پر اپنا وہ فرض انجام دے دیا جسے اس نازک موقع پر اس کے ضمیر نے اس کا فرض سمجھا تھا۔
۶۱۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص فرعون کی سلطنت میں اتنی اہم شخصیت کا مالک تھا کہ بھرے دربار میں فرعون کے رو در رو یہ حق گوئی کر جانے کے باوجود علانیہ اس کو سزا دینے کی جرأت نہ کی جا سکتی تھی، اس وجہ سے فرعون اس کے حامیوں کو اسے ہلاک کرنے کے لیے خفیہ تدبیریں کرنی پڑیں، مگر ان تدبیروں کو بھی اللہ نے نہ چلنے دیا۔
۶۲۔ اس طرز بیان سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ مومن آل فرعون کی حق گوئی کا یہ واقعہ حضرت موسیٰ اور فرعون کی کشمکش کے بالکل آخری زمانے میں پیش آیا تھا۔ غالباً اس طویل کشمکش سے دل برداشتہ ہو کر آخر کار فرعون نے حضرت موسیٰ کو قتل کر دینے کا ارادہ کیا ہو گا۔ مگر اپنی سلطنت کے اس با اثر شخص کی حق گوئی سے اس کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا ہو گا کہ موسیٰ علیہ السلام کے اثرات حکومت کے بالا ئی طبقوں تک میں پہنچ گئے ہیں۔ اس لیے اس نے فیصلہ کیا ہو گا کہ حضرت موسیٰ کے خلاف یہ انتہائی اقدام کرنے سے پہلے ان عناصر کا پتہ چلایا جائے جو سلطنت کے امراء اور اعلیٰ عہدہ داروں میں اس تحریک سے متأثر ہو چکے ہیں، اور ان کی سرکوبی کر لینے کے بعد حضرت موسیٰ پر ہاتھ ڈالا جائے۔ لیکن ابھی وہ ان تدبیروں میں لگا ہی ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کو ہجرت کا حکم دے دیا، اور ان کا پیچھا کرتے ہوئے فرعون اپنے لشکروں سمیت غرقاب ہو گیا۔
۶۳۔ یہ آیت اس عذاب برزخ کا صریح ثبوت ہے جس کا ذکر بکثرت احادیث میں عذاب قبر کے عنوان سے آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ یہاں صاف الفاظ میں عذاب کے دو مرحلوں کا ذکر فرما رہا ہے، ایک کم تر درجے کا عذاب جو قیامت کے آنے سے پہلے فرعون اور آل فرعون کو اب دیا جا رہا ہے، اور وہ یہ ہے کہ انہیں صبح و شام دوزخ کی آگ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جسے دیکھ کر وہ ہر وقت ہول کھاتے رہتے ہیں کہ یہ ہے وہ دوزخ جس میں آخر کار ہمیں جانا ہے۔ اس کے بعد جب قیامت آ جائے گی تو انہیں وہ اصلی اور بڑی سزا دی جائے گی جو ان کے لیے مقدر ہے، یعنی وہ اسی دوزخ میں جھونک دیے جائیں گے جس کا نظارہ انہیں غراب ہو جانے کے وقت سے آج تک کرایا جا رہا ہے اور قیامت کی گھڑی تک کرایا جاتا رہے گا۔ اور یہ معاملہ صرف فرعون و آل فرعون کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے۔ تمام مجرموں کو موت کی ساعت سے لے کر قیامت تک وہ انجام بد نظر آتا رہتا ہے جو ان کا انتظار کر رہا ہے، اور تمام نیک لوگوں کو اس انجام نیک کی حسین تصویر دکھائی جاتی رہتی ہے جو اللہ نے ان کے لیے مہیا کر رکھا ہے۔ بخاری، مسلم اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’ان احد کم اذا مات عرض علیہ مقعدہ بالغداۃ و العشی، ان کان من اھل الجنۃ فمن اھل الجنۃ، وان کان من اھل النار فمن اھل النار، فیقال ھٰذا مقعدک حتیٰ یبعثک اللہ عزوجل الیہ یوم القیٰمۃ‘‘ تم میں سے جو شخص بھی مرتا ہے اسے صبح و شام اس کی آخری قیام گاہ دکھائی جاتی رہتی ہے، خواہ وہ جنتی ہو یا دوزخی۔ اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں تو اس وقت جائے گا جب اللہ تجھے قیامت کے روز دوبارہ اٹھا کر اپنے حضور بلائے گا۔ ‘‘(مزید تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القران جلد اول، صفحہ ۳۸۶۔ جلد دوم، ص ۱۵۰۔ ۵۳۵ تا ۵۳۸۔ جلد سوم، ص ۲۹۹۔ ۳۰۰۔ جلد چہارم، سورہ یٰسٓ، حاشیہ ۲۲۔ ۲۳)
۶۴۔ یہ بات وہ اس امید پر نہیں کہیں گے کہ ہمارے یہ سابق پیشوا یا حاکم یا رہنما فی الواقع ہمیں عذاب سے بچا سکیں گے یا اس میں کچھ کمی کرا دیں گے۔ اس وقت تو ان پر یہ حقیقت کھل چکی ہو گی کہ یہ لوگ یہاں ہمارے کسی کام آنے والے نہیں ہیں۔ مگر وہ انہیں ذلیل کرنے کے لیے ان سے کہیں گے کہ دنیا میں تو حضور بڑے طنطنے سے اپنی سرداری ہم پر چلاتے تھے، اب یہاں اس آفت سے بھی تو ہمیں بچایئے جو آپ ہی کی بدولت ہم پر آئی ہے۔
۶۵۔ یعنی ہم اور تم، دونوں ہی سزا یافتہ ہیں، اور اللہ کی عدالت سے جس کو جو سزا ملنی تھی مل چکی ہے۔ اس کے فیصلے کو بدلنا، یا اس کی دی ہوئی سزا میں کمی بیشی کر دینا اب کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔
۶۶۔ یعنی جب واقعہ یہ ہے کہ رسول تمہارے پاس بینات لے کر آ چکے تھے اور تم اس بنا پر سزا پاکر یہاں آئے ہو کہ تم نے ان کی بات ماننے سے انکار(کفر)کر دیا تھا، تو اب ہمارے لیے تمہارے حق میں اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں ہے، کیونکہ ایسی دعا کے لیے کوئی نہ کوئی عذر تو ہونا چاہیے، اور تم اپنی طرف سے ہر معذرت کی گنجائش پہلے ہی ختم کر چکے ہو۔ اس حالت میں تم خود دعا کرنا چاہو تو کر دیکھو۔ مگر ہم یہ پہلے ہی تمہیں بتائے دیتے ہیں کہ تمہاری طرح کفر کر کے جو لوگ یہاں آئے ہوں ان کی دعا بالکل لا حاصل ہے۔
۶۷۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، الصافّات، حاشیہ نمبر ۹۳۔
۶۸۔ یعنی جب اللہ کی عدالت قائم ہو گی اور اس کے حضور گواہ پیش کیے جائیں گے۔
۶۹۔ یعنی موسیٰ کو ہم نے فرعون کے مقابلے پر بھیج کر بس یونہی ان کے حال پر نہیں چھوڑ دیا تھا، بلکہ قدم قدم پر ہم ان کی رہنمائی کرتے رہے یہاں تک کی انہیں کامیابی کی منزل تک پہنچا دیا۔ اس ارشاد میں ایک لطیف اشارہ اس مضمون کی طرف ہے کہ اے محمد (صلی اللہ علیک و سلم )، ایسا ہی معاملہ ہم تمہارے ساتھ بھی کریں گے۔ تم کو بھی مکے کے شہر اور قریش کے قبیلے میں نبوت کے لیے اٹھا دینے کے بعد ہم نے تمہارے حال پر نہیں چھوڑ دیا ہے کہ یہ ظالم تمہارے ساتھ جو سلوک چاہیں کریں، بلکہ خود تمہاری پشت پر موجود ہیں اور تمہاری رہنمائی کر رہے ہیں۔
۷۰۔ یعنی جس طرح موسیٰ کا انکار کرنے والے اس نعمت و برکت سے محروم رہ گئے اور ان پر ایمان لانے والے بنی اسرائیل ہی کتاب کے وارث بنائے گئے، اسی طرح اب جو لوگ تمہارا انکار کریں گے وہ محروم ہو جائیں گے اور تم پر ایمان لانے والوں ہی کو یہ سعادت نصیب ہو گی کہ قرآن کے وارث ہوں اور دنیا میں ہدایت کے علمبردار بن کر اٹھیں۔
۷۱۔ یعنی جو حالات تمہارے ساتھ پیش آ رہے ہیں ان کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرتے چلے جاؤ۔
۷۲۔ اشارہ ہے اس وعدے کی طرف جو ابھی ابھی اوپر کے اس فقرے میں کیا گیا تھا کہ ’’ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں ‘‘۔
۷۳۔ جس سیاق و سباق میں یہ بات ارشاد ہوئی ہے اس پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس مقام پر ’’ قصور‘‘ سے مراد بے صبری کی وہ کیفیت ہے جو شدید مخالفت کے اس ماحول میں خصوصیت کے ساتھ اپنے ساتھیوں کی مظلومی دیکھ دیکھ کر، بنی صلی اللہ علیہ و سلم کے اندر پیدا ہو رہی تھی۔ آپ چاہتے تھے کہ جلدی سے کوئی معجزہ ایسا دکھا دیا جائے جس سے کفار قائل ہو جائیں، یا اللہ کی طرف سے اور کوئی ایسی بات جلدی ظہور میں آ جائے جس سے مخالفت کا یہ طوفان ٹھنڈا ہو جائے۔ یہ خواہش بجائے خود کوئی گناہ نہ تھی جس پر کسی توبہ و استغفار کی حاجت ہوتی، لیکن جس مقام بلند پر اللہ تعالیٰ نے حضور کو سرفراز فرمایا تھا اور جس زبردست اولوالعزمی کا وہ مقام مقتقضی تھا، اس کے لحاظ سے یہ ذرا سی بے صبری بھی اللہ تعالیٰ کو آپ کے مرتبے سے فرو تر نظر آئی، اس لیے ارشاد ہوا کہ اس کمزوری پر اپنے رب سے معافی مانگو اور چٹان کی سی مضبوطی کے ساتھ اپنے موقف پر قائم ہو جاؤ جیسا کہ تم جیسے عظیم المرتبت آدمی کو ہونا چاہیے۔
۷۴۔ یعنی یہ حمد و تسبیح ہی وہ ذریعہ ہے جس سے اللہ کے لیے کام کرنے والوں کو اللہ کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ صبح و شام حمد و تسبیح کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ دائماً اللہ کو یاد کرتے رہو۔ دوسرے یہ کہ ان مخصوص اوقات میں نماز ادا کرو۔ اور یہ دوسرے معنی لینے کی صورت میں اشارہ نماز کے ان پانچوں اوقات کی طرف ہے جو اس سورت کے نزول کے کچھ مدت بعد تمام اہل ایمان پر فرض کر دیے گئے۔ اس لیے کہ عَشِی کا لفظ عربی زبان میں زوال آفتاب سے لے کر رات کے ابتدائی حصے تک کے لیے بولا جاتا ہے جس میں ظہر سے عشاء تک کی چاروں نمازیں آ جاتی ہیں۔ اور اِبکار صبح کی پو پھٹنے سے طلوع آفتاب تک کے وقت کو کہتے ہیں جو نماز فجر کا وقت ہے (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص ۵۰۔ ۷۳۔ ۷۴۔ ۱۸۲۔ جلد دوم، ص ۳۷۱۔ ۵۱۹۔ ۵۸۷۔ ۵۸۸۔ ۶۳۴ تا ۶۳۷۔ جلد سوم، ص ۱۳۸۔ ۴۲۰۔ ۴۲۱۔ ۷۰۳ تا ۷۰۸۔ ۷۴۰ تا ۷۴۲۔ ۷۵۴ تا ۷۵۵)
۷۵۔ یعنی ان لوگوں کی بے دلیل مخالفت اور ان کی غیر معقول کج بحثیوں کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ اللہ کی آیات میں جو سچائیاں اور خیر و صلاح کی باتیں ان کے سامنے پیش کی جا رہی ہیں وہ ان کی سمجھ میں نہیں آتیں اس لیے یہ نیک نیتی کے ساتھ ان کو سمجھنے کی خاطر بحثیں کرتے ہیں، بلکہ ان کے اس رویہ کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کا غرور نفس یہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ان کے ہوتے عرب میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشوائی و رہنمائی تسلیم کر لی جائے اور بالآخر ایک روز انہیں خود بھی اس شخص کی قیادت ماننی پڑے جس کے مقابلے میں یہ اپنے آپ کو سرداری کا زیادہ حقدار سمجھتے ہیں۔ اسی وجہ سے یہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بات کسی طرح نہ چلنے پائے، اور اس مقصد کے لیے انہیں کوئی ذلیل سے ذلیل حربہ استعمال کرنے میں بھی کوئی تامّل نہیں ہے۔
۷۶۔ دوسرے الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ جس کو اللہ نے بڑا بنایا ہے وہی بڑا بن کر رہے گا، اور یہ چھوٹے لوگ اپنی بڑائی قائم رکھنے کی جو کوششیں کر رہے ہیں وہ سب آخر کار ناکام ہو جائیں گی۔
۷۷۔ یعنی جس طرح فرعون کی دھمکیوں کے مقابلے میں اللہ واحدِ قہار کی پناہ مانگ کر موسیٰ بے فکر ہو گئے تھے، اسی طرح سرداران قریش کی دھمکیوں اور سازشوں کے مقابلے میں تم بھی اس کی پناہ لے لو اور پھر بے فکر ہو کر اس کا کلمہ بلند کرنے میں لگ جاؤ۔
۷۸۔ اوپر کے ساڑھے تین رکوعوں میں سرداران قریش کی سازشوں پر تبصرہ کرنے کے بعد اب یہاں سے خطاب کا رخ عوام کی طرف پھر رہا ہے اور ان کو یہ سمجھایا جا رہا ہے کہ جن حقائق کو ماننے کی دعوت محمد صلی اللہ علیہ و سلم تم کو دے رہے ہیں وہ سراسر معقول ہیں، ان کا مان لینے ہی میں تمہاری بھلائی ہے اور نہ ماننا تمہارے اپنے لیے تباہ کن ہے۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے آخرت کے عقیدے کو لے کر اس پر دلائل دیے گئے ہیں، کیونکہ کفار کو سب سے زیادہ اچنبھا اسی عقیدے پر تھا اور اسے وہ بعید از فہم خیال کرتے تھے۔
۷۹۔ یہ امکان آخرت کی دلیل ہے۔ کفار کا خیال تھا کہ مرنے کے بعد انسان کا دوبارہ جی اٹھنا غیر ممکن ہے۔ اس کے جواب میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں وہ در حقیقت نادان ہیں۔ اگر عقل سے کام لیں تو ان کے لیے یہ سمجھنا کچھ بھی مشکل نہ ہو کہ جس خدا نے یہ عظیم الشان کائنات بنائی ہے اس کے لیے انسانوں کو دوبارہ پیدا کر دینا کوئی دشوار کام نہیں ہو سکتا۔
۸۰۔ یہ وجوب آخرت کی دلیل ہے۔ اوپر کے فقرے میں بتایا گیا تھا کہ آخرت ہو سکتی ہے، اس کا ہونا غیر ممکن نہیں ہے۔ اور اس فقرے میں بتایا جا رہا ہے کہ آخرت ہونی چاہیے، عقل اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہو، اور اس کا ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا خلاف عقل و انصاف ہے۔ آخر کوئی معقول آدمی اس بات کو کیسے درست مان سکتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں اندھوں کی طرح جیتے ہیں اور اپنے برے اخلاق و اعمال سے خدا کی زمین کو فساد سے بھر دیتے ہیں وہ اپنی اس غلط روش کا کوئی برا انجام نہ دیکھیں، اور اسی طرح وہ لوگ بھی جو دنیا میں آنکھیں کھول کر چلتے ہیں اور ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں اپنی اس اچھی کار کردگی کا کوئی اچھا نتیجہ دیکھنے سے محروم رہ جائیں؟ یہ بات اگر صریحاً خلاف عقل و انصاف ہے تو پھر یقیناً انکار آخرت کا عقیدہ بھی عقل و انصاف کے خلاف ہی ہونا چاہیے، کیونکہ آخرت نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ نیک و بد دونوں آخر کار مر کر مٹی ہو جائیں اور ایک ہی انجام سے دوچار ہوں۔ اس صورت میں صرف عقل و انصاف ہی کا خون نہیں ہوتا بلکہ خلاق کی بھی جڑ کٹ جاتی ہے۔ اس لیے کہ اگر نیکی اور بدی کا انجام یکساں ہے تو پھر بد بڑا عقل مند ہے کہ مرنے سے پہلے اپنے دل کے سارے ارمان نکال گیا اور نیک سخت بے وقوف ہے کہ خواہ مخواہ اپنے اوپر طرح طرح کی اخلاقی پابندیاں عائد کیے رہا۔
۸۱۔ یہ وقوع آخرت کا قطعی حکم ہے جو استدلال کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف علم ہی کی بنا پر لگایا جا سکتا ہے، اور کلام وحی کے سوا کسی دوسرے کلام میں یہ بات اس قطعیت کے ساتھ بیان نہیں ہو سکتی۔ وحی کے بغیر محض عقلی استدلال سے جو کچھ کہا جا سکتا ہے وہ بس اسی قدر ہے کہ آخرت ہو سکتی ہے، اور اس کو ہونا چاہیے۔ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہنا کہ آخرت یقیناً ہو گی اور ہو کر رہے گی، یہ صرف اس ہستی کے کہنے کی بات ہے جسے معلوم ہے کہ آخرت ہو گی، اور وہ ہستی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں پہنچ کر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قیاس و استدلال کے بجائے خالص علم پر دین کی بنیاد اگر قائم ہو سکتی ہے تو وہ صرف وحی الہیٰ کے ذریعہ ہی سے ہو سکتی ہے۔
۸۲۔ آخرت کے بعد اب توحید پر کلام شروع ہو رہا ہے جو کفار اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے درمیان دوسرے بنائے نزاع تھی۔
۸۳۔ یعنی دعائیں قبول کرنے اور نہ کرنے کے جملہ اختیارات میرے پاس ہیں، لہٰذا تم دوسروں سے دعائیں نہ مانگو بلکہ مجھ مانگو۔ اس آیت کی روح کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے تین باتیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہییں :
اول یہ کہ دعا آدمی صرف اس ہستی سے مانگتا ہے جس کو وہ سمیع و بصیر اور فوق الفطری اقتدار (Supernatural powers)کا مالک سمجھتا ہے، اور دعا مانگنے کا محرک دراصل آدمی کا یہ اندرونی احساس ہوتا ہے کہ عالم اسباب کے تحت فطری ذرائع و وسائل اس کی کسی تکلیف کو رفع کرنے یا کسی حاجت کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں یا کافی ثابت نہیں ہو رہے ہیں، اس لیے سکی فوق الفطری اقتدار کی مالک ہستی سے رجوع کرنا نا گزیر ہے۔ بآواز بلند ہی نہیں، چپکے چپکے بھی بکارتا ہے، بلکہ دل ہی دل میں اس سے مدد کی التجائیں کرتا ہے۔ یہ سب کچھ لازماً اس عقیدے کی بنا پر ہوتا ہے کہ وہ ہستی اس کو ہر جگہ ہر حال میں دیکھ رہی ہے۔ اس کے دل کی بات بھی سن رہی ہے۔ اور اس کو ایسی قدرت مطلقہ حاصل ہے کہ اسے پکارنے والا جہاں بھی ہو وہ اس کی مدد کو پہنچ سکتی ہے اور اس کی بگڑی بنا سکتی ہے۔ دعا کی اس حقیقت کو جان لینے کے بعد یہ سمجھنا آدمی کے لیے کچھ بھی مشکل نہیں رہتا کہ جو شخص اللہ کے سوا کسی اور ہستی کو مدد کے لیے پکارتا ہے وہ در حقیقت قطعی اور خالص اور صریح شرک کا ارتکاب کرتا ہے، کیونکہ وہ اس ہستی کے اندر ان صفات کا اعتقاد رکھتا ہے جو صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفات ہیں۔ اگر وہ اس کو ان خدائی صفات میں اللہ کا شریک نہ سمجھتا تو اس سے دعا مانگنے کا تصور تک کبھی اس کے ذہن میں نہ آ سکتا تھا۔
دوسری بات جو اس سلسلے میں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ کسی ہستی کے متعلق آدمی کا اپنی جگہ یہ سمجھ بیٹھنا کہ وہ اختیارات کی مالک ہے، اس سے یہ لازم نہیں آ جاتا کہ وہ فی الواقع مالک اختیارات ہو جائے۔ مالک اختیارات ہونا تو ایک امر واقعی ہے جو کسی کے سمجھنے یا نہ سمجھنے پر موقوف نہیں ہے۔ جو در حقیقت اختیارات کا مالک ہے وہ بہر حال مالک ہی رہے گا، خواہ آپ اسے مالک سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ اور جو حقیقت میں مالک نہیں ہے، اس کو محض یہ بات کہ آپ نے اسے مالک سمجھ لیا ہے، اختیارات میں ذرہ برابر بھی کوئی حصّہ نہ دلوا سکے گی۔ اب یہ بات ایک امر واقعی ہے کہ قادر مطلق اور مدبر کائنات اور سمیع و بصیر ہستی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی ہے اور وہی کُلی طور پر اختیارات کا مالک ہے۔ دوسری کوئی ہستی بھی اس پوری کائنات میں ایسی نہیں ہے جو دعائیں سننے اور ان پر قبولیت یا عدم قبولیت کی صورت میں کوئی کار روائی کرنے کے اختیارات رکھتی ہو۔ اس امر واقعی کے خلاف اگر لوگ اپنی جگہ کچھ انبیاء اور اولیاء اور فرشتوں اور جِنوں اور سیاروں اور فرضی دیوتاؤں کو اختیارات میں شریک سمجھ بیٹھیں تو اس سے حقیقت میں ذرہ برابر بھی کوئی فرق رو نما نہ ہو گا۔ مالک مالک ہی رہے گا اور بے اختیار بندے، بندے ہی رہیں گے۔
تیسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں سے دعا مانگنا بالکل ایسا ہے جیسے کوئی شخص درخواست لکھ کر ایوان حکومت کی طرف جائے مگر اصل حاکم ذی اختیار کو چھوڑ کر وہاں جو دوسرے سائلین اپنی حاجتیں لیے بیٹھے ہوں انہی میں سے کسی ایک کے آگے اپنی درخواست پیش کر دے اور پھر ہاتھ جوڑ جوڑ کر اس سے التجائیں کرتا چلا جائے کہ حضور ہی سب کچھ ہیں، آپ ہی کا یہاں حکم چلتا ہے، میری مراد آپ ہی بر لائیں گے تو بر آئے گی۔ یہ حرکت اول تو بجائے خود سخت حماقت و جہالت ہے لیکن ایسی حالت میں یہ انتہائی گستاخی بھی بن جاتی ہے جبکہ اصل حاکم ذی اختیار سامنے موجود ہو اور عین اس کی موجود گی میں اسے چھوڑ کر کسی دوسرے کے سامنے درخواستیں اور التجائیں پیش کی جا رہی ہوں۔ پھر یہ جہالت اپنے کمال پر اس وقت پہنچ جاتی ہے جب وہ شخص جس کے سامنے درخواست پیش کی جا رہی ہو خود بار بار اس کو سمجھائے کہ میں تو خود تیری ہی طرح کا ایک سائل ہوں، میرے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے، اصل حاکم سامنے موجود ہیں، تو ان کی سرکار میں اپنی درخواست پیش کر، مگر اس کے سمجھانے اور منع کرنے کے باوجود یہ احمق کہتا ہی چلا جائے کہ میرے سرکار تو آپ ہیں، میرا کام آپ ہی بنائیں گے تو بنے گا۔
ان تین باتوں کو ذہن میں رکھ کر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کو سمجھنے کی کوشش کیجیے کہ مجھے پکارو، تمہاری دعاؤں کا جواب دینے والا میں ہوں، انہیں قبول کرنا میرا کام ہے۔
۸۴۔ اس آیت میں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ ایک یہ کہ دعا اور عبادت کو یہاں مترادف الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ دعائیں عبادت اور جانِ عبادت ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ سے دعا نہ مانگنے والوں کے لیے ’’گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ سے دعا مانگنا عین تقاضائے بندگی ہے، اور اس سے منہ موڑنے کے معنی یہ ہیں کہ آدمی تکبر میں مبتلا ہے اس لیے اپنے خالق و مالک کے آگے اعتراف عبودیت کرنے سے کتراتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ارشادات میں آیت کے ان دونوں مضامین کو کھول کر بیان فرما دیا ہے۔ حضرت نعمان بن بشیر کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا انْ الدعاء ھوا لعبادۃ ثم قرأ ادعونی استجب لکم۔ ..... یعنی دعا عین عبادت ہے، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرائی(احمد، ترمذی، ابو داؤد و، نسائی، ابن ماجہ، بن ابی حتم، ابن جریر)۔ حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا الدعاء مخ العبادۃ، ’’ دعا مغز عبادت ہے ‘‘ (ترمذی)۔ حضرت ابوہریرہؓ فرمانے ہیں کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا من لم یسأل اللہ یغضب علیہ، ’’ جو اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس پر غضبناک ہوتا ہے۔ ‘‘ (ترمذی)
اس مقام پر پہنچ کر وہ عقدہ بھی حل ہو جاتا ہے جو بہت سے ذہنوں میں اکثر الجھن ڈالتا رہتا ہے۔ لوگ دعا کے معاملے پر اس طرح سوچتے ہیں کہ جب تقدیر کی برائی اور بھلائی اللہ کے اختیار میں ہے اور وہ اپنی غالب حکمت و مصلحت کے لحاظ سے جو فیصلہ کر چکا ہے وہی کچھ لازماً رونما ہو کر رہنا ہے تو پھر ہمارے دعا مانگنے کا حاصل کیا ہے۔ یہ ایک بڑی غلط فہمی ہے جو آدمی کے دل سے دعا کی ساری اہمیت نکال دیتی ہے، اور اس باطل خیال میں مبتلا رہتے ہوئے اگر آدمی دعا مانگے بھی تو اس کی دعا میں کوئی روح باقی نہیں رہتی۔ قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت اس غلط فہمی کو دو طریقوں سے رفع کرتی ہے۔ اولاً، اللہ تعالیٰ بالفاظ صریح فرما رہا ہے کہ ’’ مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا‘‘ اس سے صاف معلوم ہوا کہ قضا اور تقدیر کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس نے ہماری طرح معاذاللہ، خود اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بھی باندھ دیے ہوں اور دعا قبول کرنے کے اختیارات اس سے سلب ہو گئے ہوں۔ بندے تو بلا شبہ اللہ کے فیصلوں کو ٹالنے یا بدل دینے کی طاقت نہیں رکھتے، مگر اللہ تعالیٰ خود یہ طاقت ضرور رکھتا ہے کہ کسی بندے کی دعائیں اور التجائیں سن کر اپنا فیصلہ بدل دے۔ دوسری بات جو اس آیت میں بیان کی گئ یہ وہ یہ ہے کہ دعا خواہ قبول ہو یا نہ ہو، بہر حال ایک فائدے اور بہت بڑے فائدے سے وہ کسی صورت میں بھی خالی نہیں ہوتی، اور وہ یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کے سامنے اپنی حاجتیں پیش کر کے اور اس سے دعا مانگ کر اس کی آقائی و بالا دستی کا اعتراف اور اپنی بندگی و عاجزی کا اقرار کرتا ہے۔ یہ اظہار عبودیت بجائے خود عبادت، بلکہ جان عبادت ہے جس کے اجر سے بندہ کسی حال میں بھی محروم نہ رہے گا قطع نظر اس سے کہ وہ خاص چیز اس کو عطا کی جائے یا نہ کی جائے جس کے لیے اس نے دعا کی تھی۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات میں ان دونوں مضامین کی بھی پوری وضاحت ہمیں مل جاتی ہے۔ پہلے مضمون پر حسب ذیل احادیث روشنی ڈالتی ہیں :
حضرت سلمان فارسی کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : لا یرو القضاءَ الاالدعاء(ترمذی)۔ ’’قضا کو کوئی چیز نہیں ٹال سکتی مگر دعا۔ ‘‘ یعنی اللہ کے فیصلے کو بدل دینے کی طاقت کسی میں نہیں ہے، مگر اللہ خود اپنا فیصلہ بد ل سکتا ہے، اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب بندہ اس سے دعا مانگتا ہے۔
حضرت جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ما من احدید عو بدعاءٍ الّا اٰتا ہ اللہ ماسأں اوکف عنہ من السرء مثلہ مالم یدع اباثمٍ او قطیعۃ رحمٍ (ترمذی)۔ ’’ آدمی جب کبھی اللہ سے دعا مانگتا ہے، اللہ اسے یاتو وہی چیز دیتا ہے جس کی اس نے دعا کی تھی یا اسی درجے کی کوئی بلا اس پر آنے سے روک دیتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے ‘‘۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون ایک دوسرے حدیث میں ہے جو حضرت ابو سعید خدریؓ نے حضورؐ سے روایت کی ہے۔ اس میں آپ کا ارشاد یہ ہے کہ مامن مسلم یدعوبدعوۃٍ لیس فیھا اثم ولا قطیعۃ رحمٍ الا اعطاہ اللہ احدیٰ ثلٰث، اما ان یعجل لہ، و اما ان یَدَّ خِر ھا لہٗ فی الاٰخرۃ واما ان یصرف عنہ من اسوء مثلھا (مسند احمد ) ’’ ایک مسلمان جب بھی کوئی دعا مانگتا ہے، بشرطیکہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ ہو، تو اللہ تعالیٰ اسے تین صورتوں میں سے کسی ایک صورت میں قبول فرماتا ہے۔ یا تو اس کی وہ دعا اسی دنیا میں قبول کر لی جاتی ہے۔ یا اسے آخرت میں اجر دینے کے لیے محفوظ رکھ لیا جاتا ہے۔ یا اسی درجہ کی کسی آفت کو اس پر آنے سے روک دیا جاتا ہے۔ ‘‘
حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا : اذا دعا احد کم فلا یقل اللھم اغفرلی ان شئت، ارحمنی ان شئت، ارزقنی ان شئت، وَلْیَعْزِم مسئلتہٗ (بخاری)۔ ’’جب تم میں سے کوئی شخص دعا مانگے تو یوں نہ کہے کہ خدایا مجھے بخش دے اگر تو چاہے، مجھ پر رحم کر اگر تو چاہے، مجھے رزق دے اگر تو چاہے، بلکہ اسے قطعیت کے ساتھ کہنا چاہیے کہ خدایا میری فلاں حجت پوری کر‘‘۔ دوسرے روایت حضرت ابو ہریرہؓ ہی سے ان الفاظ میں آئی ہے کہ آپ نے فرمایا ادعواللہ وانتم موقنون بالاجابۃ (ترمذی)’’ اللہ سے دعا مانگو اس یقین کے ساتھ کہ وہ قبول فرمائے گا۔ ‘‘
ایک اور روایت میں حضرت ابوہریرہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ : یستجاب للعبد مالم یدعُ با ثم او قطیعۃ رحم مالم یستعجل، قیل یارسول اللہ ما الا ستعجال؟ قال یقول قد دعوت وقد دعوت فلم اَرَیُستجاب لی فیستحسر عند ذٰلک وید ع الد ع الدعاْ(مسلم)۔ ‘‘ بندے کی دعا قبول کی جاتی ہے بشرطیکہ وہ کسی گناہ کی یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے، اور جلد بازی سے کام نہ لے۔ عرض کیا گیا جلد بازی کیا ہے یا رسول اللہ؟ فرمایا جلد بازی یہ ہے کہ آدمی کہے میں نے بہت دعا کی، مگر میں دیکھتا ہوں کہ میری دعا قبول نہیں ہوتی، اور یہ کہہ کر آدمی تھک جائے اور دعا مانگنی چھوڑ دے۔ ‘‘
دوسرے مضمون کو حسب ذیل احادیث واضح کرتی ہیں :
حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا لیس شئ اکرم علی اللہ من الدعاء (ترمذی۔ ابن ماجہ ) ’’ اللہ کی نگاہ میں دعا سے بڑھ کر کوئی چیز با وقعت نہیں ہے ‘‘۔
حضرت ابن مسعودؓ کی روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا : سلوااللہ من فضلہ فان اللہ یحبّ ان یسأ ل (ترمذی)۔ ’’ اللہ سے اس کا فضل مانگو کیونکہ اللہ اسے پسند فرماتا ہے کہ اس سے مانگا جائے۔ ’’
حضرت ابن عمر اور حضرت مُعاذ بن جَبَل کا بیان ہے کہ حضورؐ نے فرمایا: ان الدعاء ینطع ممّا نزل و ممّا لم ینزل فعلیکم عباداللہ بالدعاء (ترمذی۔ مسند احمد ) ’’ دعا بہر حال نافع ہے ان بلاؤں کے معاملے میں بھی جو نازل ہو چکی ہیں اور ان کے معاملے میں بھی جو نازل نہیں ہوئیں۔ پس اے بندگان خدا تم ضرور دعا مانگا کرو‘‘۔
حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ حضورؐ نے ارشاد فرمایا : یسأ ل احد کم ربہ حاجتہٗ کلّہ حتیٰ یسأ ل شسع بعلہٖ اذا انقطع (ترمذی) ’’ تم میں سے ہر شخص کو اپنی حاجت خدا سے مانگنی چاہیے، حتیٰ کہ اگر اس کی جوتی کا تسمہ بھی ٹوٹ جائے تو خدا سے دعا کرے۔ ‘‘ یعنی جو معاملات بظاہر آدمی کو اپنے اختیار میں محسوس ہوتے ہیں ان میں بھی تدبیر کرنے سے پہلے اسے خدا سے مدد مانگنی چاہیے، اس لیے کہ کسی معاملے میں بھی ہماری کوئی تدبیر خدا کی توفیق و تائید کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی، اور تدبیر سے پلے دعا کے معنی یہ ہیں کہ بندہ ہر وقت اپنی عاجزی اور خدا کی بالا دستی کا اعتراف کر رہا ہے۔
۸۵۔ یہ آیت دو اہم مضامین پر مشتمل ہے۔ اوّلاً اس میں رات اور دن کو دلیل توحید کے طور پر پیش کیا گیا ہے، کیونکہ ان کا باقاعدگی کے ساتھ آنا یہ معنی رکھتا ہے کہ زمین اور سورج پر ایک ہی خدا حکومت کر رہا ہے، اور ان کے الٹ پھیر کا انسان اور دوسری مخلوقات ارضی کے لیے نافع ہونا اس بات کی صریح دلیل ہے کہ وہی ایک خدا ان سب اشیاء کا خالق بھی ہے اور اس نے یہ نظام کمال درجہ حکمت کے ساتھ اس طرح بنایا ہے کہ وہ اس کی پیدا کردہ مخلوقات کے لیے نافع ہو۔ ثانیاً، اس میں خدا کے منکر اور خدا کے ساتھ شرک کرنے والوں کو یہ احساس دلایا گیا ہے کہ خدا نے رات اور دن کی شکل میں یہ کتنی بڑی نعمت ان کو عطا کی ہے، اور وہ کتنے سخت ناشکرے ہیں کہ اس کی اس نعمت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شب و روز اس سے غداری و بے وفائی کیے چلے جاتے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، صفحات ۲۹۶ تا ۲۹۸۔ جلد سوم، صفحات ۴۶۱۔ ۶۰۶۔ ۶۵۹۔ ۷۴۷ جلد چہارم، لقمان، آیت ۲۹، حاشیہ ۵۰۔ یٰس، آیت ۳۷، حاشیہ ۳۲)۔
۸۶۔ یعنی رات اور دن کے الٹ پھیر نے ثابت کیا کہ وہی تمہاری اور ہر چیز کا خالق ہے۔ اور یہ الٹ پھیر تمہاری زندگی کے لیے جو عظیم فوائد و منافع اپنے اندر رکھتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ وہ تمہارا نہایت مہربان پروردگار ہے۔ اس کے بعد لامحالہ یہ بات خود بخود ثابت ہو جاتی ہے کہ تمہارا حقیقی معبود بھی وہی ہے۔ یہ بات سراسر عقل اور انصاف کے خلاف ہے کہ خالق اور پروردگار تو ہو اللہ، اور تمہارے معبود بن جائیں دوسرے۔
۸۷۔ یعنی کون تم کو یہ الٹی پٹی پڑھا رہا ہ کہ جو نہ خالق ہیں نہ پروردگار وہ تمہاری عبادت کے مستحق ہیں۔
۸۸۔ یعنی ہر زمانے میں عوام الناس صرف اس وجہ سے ان بہکانے والوں کے فریب میں آتے رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے رسولوں کے ذریعہ سے حقیقت سمجھانے کے لیے جو آیات نازل کیں، لوگوں نے ان کو نہ مانا۔ نتیجہ یہ ہو کہ وہ ان خود غرض فریبیوں کے جال میں پھنس گئے جو اپنی دُکان چمکانے کے لیے جعلی خداؤں کے آستانے بنائے بیٹھے تھے۔
۸۹۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد سوم، صفحات ۵۹۰ تا ۵۹۲۔
۹۰۔ یعنی تمہیں کھلی فضا میں نہیں چھوڑ دیا گیا کہ عالم بالا کی آفات بارش کی طرح برس کر تم کو تہس نہس ک دیں، بلکہ زمین کے اوپر ایک نہایت مستحکم سماوی نظام (جو دیکھنے والی آنکھ کو گنبد کی طرح نظر آتا ہے ) تعمیر کر دیا جس سے گزر کر کوئی تباہ کن چیز تم تک نہیں پہنچ سکتی، حتیٰ کہ آفاق کی مہلک شعاعیں تک نہیں پہنچ سکتیں، اور اسی وجہ سے تم امن و چین کے ساتھ زمین پر جی رہے ہو۔
۹۱۔ یعنی تمہارے پیدا کرنے سے پہلے تمہارے لیے اس قدر محفوظ اور پر امن جائے قرار مہیا کی۔ پھر تمہیں پیدا کیا تو اس طرح کہ ایک بہترین جسم، نہایت موزوں اعضاء اور نہایت اعلیٰ درجہ کی جسمانی و ذہنی قوتوں کے ساتھ تم کو عطا کیا۔ یہ سیدھا قامت، یہ ہاتھ اور یہ پاؤں، یہ آنکھ ناک اور یہ کان، یہ بولتی ہوئی زبان اور یہ بہترین صلاحیتوں کا مخزن دماغ تم خود بنا کر نہیں لے آئے تھے، نہ تمہاری ماں اور تمہارے باپ نے انہیں بنایا تھا، نہ کوئی نبی یا ولی یا دیوتا میں یہ قدرت تھی کہ انہیں بناتا۔ ان کا بنانے والا وہ حکیم و رحیم قادر مطلق تھا جس نے انسان کو وجود میں لانے کا جب فیصلہ کیا تو اسے دنیا میں کام کرنے کے لیے ایسا بے نظیر جسم دے کر پیدا کیا۔ پھر پیدا ہونے ہی اس کی مہربانی سے تم نے اپنے لیے پاکیزہ رزق کا ایک وسیع خوانِ یغما بچھا ہوا پا یا۔ کھانے اور پینے کا ایسا پاکیزہ سامان جو زہریلا نہیں بلکہ صحت بخش ہے، کڑوا کسیلا اور بد مزہ نہیں بلکہ خوش ذائقہ ہے، سڑا بُسا اور بد بو دار نہیں بلکہ خوش رائحہ ہے، بے جان پھوک نہیں بلکہ ان حیاتینوں اور مفید غذائی مادّوں سے مالا مال ہے جو تمہارے جسم کی پرورش اور نشو و نما کے لیے موزوں ترین ہیں۔ یہ پانی، یہ غلے، یہ ترکاریاں، یہ پھل، یہ دودھ، یہ شہد، یہ گوشت، یہ نمک مرچ اور مسالے، جو تمہارے، جو تمہارے تغذیے کے لیے اس قدر موزوں اور تمہیں زندگی کی طاقت ہی نہیں، زندگی کا لطف دینے کے لیے بھی اس قدر مناسب ہیں، آخر کس نے اس زمین پر اتنی افراط کے ساتھ مہیا کیے ہیں، اور کس نے یہ انتظام کیا ہے کہ غذا کے ی بے حساب خزانے زمین سے پے در پے نکلتے چلے آئیں اور ان کی رسد کا سلسلہ کبھی ٹوٹنے نہ پائے؟ یہ رزق کا انتظام نہ ہوتا اور بس تم پیدا کر دیے جاتے تو سوچو کہ تمہاری زندگی کا کیا رنگ ہوتا۔ کیا یہ اس بات کا صریح ثبوت نہیں ہے کہ تمہارا پیدا کرنے والا محض خالق ہی نہیں بلکہ خالق حکیم اور ربّ رحیم ہے؟ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، ص ۳۲۳۔ ۳۲۴۔ جلد سوم، ص ۵۸۹ تا ۵۹۸)
۹۲۔ یعنی اصلی اور حقیقی زندگی اسی کی ہے۔ اپنے بل پر آپ زندہ وہی ہے۔ ازلی و ابدی حیات اس کے سوا کسی کی بھی نہیں ہے۔ باقی سب کی حیات عطائی ہے، عارضی ہے، موت آشنا اور فنا در آغوش ہے۔
۹۳۔ تشریح کے لی ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، الزُّمُر، حاشیہ ۳۔ ۴۔
۹۴۔ یعنی کوئی دوسرے نہیں ہے جس کی حمد و ثنا کے گیت گائے جائیں اور جس کے شکرانے بجا لائے جائیں۔
۹۵۔ یہاں پھر عبادت اور دعا کو ہم معنی استعمال کیا گیا ہے۔
۹۶۔ یعنی کوئی پیدا ہونے سے پہلے اور کوئی جوانی کو پہنچنے سے پہل اور کوئی بڑھاپے کو پہنچنے سے پہلے مر جاتا ہے۔
۹۷۔ وقت مقرر سے مراد یا تو موت کا وقت ہے، یا وہ وقت جب تمام انسانوں کو دوبارہ اٹھ کر اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے پہلی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ ہر انسان کو زندگی کے مختلف مرحلوں سے گزارتا ہوا اس ساعت خاص تک لے جاتا ہے جو اس نے ہر ایک کی واپسی کے لیے مقرر کر رکھی ہے۔ اُس وقت سے پہلے ساری دنیا مل کر بھی کسی کو مارنا چاہے تو نہیں مار سکتی، اور وہ وقت آ جانے کے بعد دنیا کی ساری طاقتیں مل کر بھی کسی کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں تو کامیاب نہیں ہو سکتیں۔ دوسرے معنی لینے کی صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ یہ ہنگامہ ہستی اس لیے برپا نہیں کیا گیا ہے کہ تم مر کر مٹی میں مل جاؤ اور فنا ہو جاؤ، بلکہ زندگی کے ان مختلف مرحلوں سے اللہ تم کو اس لیے گزارتا ہے کہ تم سب اس وقت پر جو اس نے مقرر کر رکھا ہے، اس کے سامنے حاضر ہو۔
۹۸۔ یعنی زندگی کے ان مختلف مراحل سے تم کو اس لیے نہیں گزارا جاتا کہ تم جانوروں کی طرح جیو اور انہی کی طرح مر جاؤ، بلکہ اس لیے گزارا جاتا ہے کہ تم اس عقل سے کام لو جو اللہ نے تمہیں عطا کی ہے اور اس نظام کو سمجھو جس میں خود تمہارے اپنے وجود پر یہ احوال گزرتے ہیں۔ زمین کے بے جان مادوں میں زندگی جیسی عجیب و غریب چیز کا پیدا ہونا، پھر نطفے کے ایک خورد بینی کیڑے سے انسان جیسی حیرت انگیز مخلوق کا سجود میں آنا، پھر ماں کے پیٹ میں استقرار حمل کے وقت سے وضع حمل تک اندر ہی اندر اس کا اس طرح پرورش پانا کہ اس کی جنس، اس کی شکل و صورت، اس کے جسم کی ساخت، اس کے ذہن کی خصوصیات، اور اس کی قوتیں اور صلاحیتیں سے کچھ وہیں متعین ہو جائیں اور ان کی تشکیل پر دنیا کی کوئی طاقت اثر انداز نہ ہو سکے، پھر یہ بات کہ جسی اسقاط حمل کا شکار ہونا ہے اس کا اسقاط ہی ہو کر رہتا ہے، جسے بچپن میں مرنا ہے وہ بچپن ہی میں مرتا ہے خواہ وہ کسی بادشاہ ہی کا بچہ کیوں نہ ہو، اور جسے جوانی یا بڑھاپے کی کسی عمر تک پہنچنا ہے وہ خطرناک سے خطرناک حالات سے گزر کر بھی، جن میں بظاہر موت یقینی ہونی چاہیے، اس عمر کو پہنچ کر رہتا ہے، اور جسے عمر کے جس خاص مرحلے میں مرنا ہے اس میں وہ دنیا کے کسی بہترین ہسپتال کے اندر بہترین ڈاکٹروں کے زیر علاج رہتے ہوئے بھی مر کر رہتا ہے، یہ ساری باتیں کیا اس حقیقت کی نشاندہی نہیں کر رہی ہیں کہ ہماری اپنی حیات و ممات کا سر رشتہ کسی قادر مطلق کے ہاتھ میں ہے؟ اور جب امر واقعہ یہی ہے کہ ایک قادر مطلق ہماری موت و زیست پر حکمراں ہے تو پھر کوئی نبی یا ولی یا فرشتہ یا ستارہ اور سیارہ آخر کیسے ہماری بندگی و عبادت کا مستحق ہو گیا؟ کسی بندے کو یہ مقام کب سے حاصل ہوا کہ ہم اس سے دعائیں مانگیں اور اپنی قسمت کے بننے اور بگڑنے کا مختار اس کو مان لیں؟ اور کسی انسانی طاقت کا یہ منصب کیسے ہو گیا کہ ہم اس کے قانون اور اس کے امر و نہی اور اس کے خود ساختہ حلال و حرام کی بے چون و چرا اطاعت کریں؟ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد سوم، ص ۲۰۳۔ ۲۰۴)۔
۹۹۔ مطلب یہ ہے کہ اوپر والی تقریر کے بعد بھی کیا تمہاری سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ ان لوگوں کی غلط بینی اور غلط روی کا اصل سر چشمہ کہاں ہے اور کہاں سے ٹھوکر کھا کر یہ اس گمراہی کے گڑھے میں گرے ہیں؟ (واضح رہے کہ یہاں تم کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص مخاطب ہے جو ان آیات کو پڑھے یا سنے )
۱۰۰۔ یہ ہے ان کے ٹھوکر کھانے کی اصل وجہ۔ ان کا قرآن کو اور اللہ کے رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات کو نہ ماننا اور اللہ کی آیات پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کے بجائے جھگڑالو پن سے ان کا مقابلہ کرنا، یہی وہ بنیادی سبب ہے جس نے ان کو بھٹکا دیا ہے اور ان کے لیے سیدھی راہ پر آنے کے سارے امکانات ختم کر دیے ہیں۔
۱۰۱۔ یعنی جب وہ پیاس کی شدت سے مجبور ہو کر پانی مانگیں گے تو دوزخ کے کارکن ان کو زنجیروں سے کھینچتے ہوئے ایسے چشموں کی طرف لے جائیں گے جن سے کھولتا ہوا پانی نکل رہا ہو گا۔ اور پھر جب وہاں سے پی کر فارغ ہوں گے تو پھر وہ انہیں کھینچتے ہوئے واپس لے جائیں گے اور دوزخ کی آگ میں جھونک دیں گے۔
۱۰۲۔ یعنی اگر وہ واقعی خدایا خدائی میں شریک تھے، اور تم اس امید پر ان کی عبادت کرتے تھے کہ وہ برے وقت پر تمہارے کام آئیں گے تو ان کیوں وہ آ کر تمہیں نہیں چھڑاتے؟
۱۰۳۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دنیا میں شرک نہیں کرتے تھے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ اب ہم پر یہ بات کھل گئی ہے کہ ہم جنھیں دنیا میں پکارتے تھے وہ کچھ بھی نہ تھے، ہیچ تھے، لاشے تھے۔
۱۰۴۔ یعنی تم نے صرف اتنے ہی پر اکتفا نہ کیا کہ جو چیز حق نہ تھی اس کی تم نے پیروی کی، بلکہ تم اس غیر حق پر ایسے مگن سے کہ جب حق تمہارے سامنے پیش کیا گیا تو تم نے اس کی طرف التفات نہ کیا اور الٹے اپنی باطل پرستی پر اتراتے رہے۔
۱۰۵۔ یعنی جو لوگ جھگڑالو پن سے تمہارا مقابلہ کر رہے ہیں اور ذلیل ہتھکنڈوں سے تمہیں نیچا دکھانا چاہتے ہیں ان کی باتوں اور ان کی حرکتوں پر صبر کرو۔
۱۰۶۔ یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم ہر اس شخص کو جس نے تمہیں زک دینے کی کوشش کی ہے اسی دنیا میں اور تمہاری زندگی ہی میں سزا دے دیں۔ یہاں کوئی سزا پائے، بہر حال وہ ہماری گرفت سے بچ کر نہیں جا سکتا۔ مر کر تو اسے ہمارے پاس ہی آنا ہے۔ اس وقت وہ اپنے کرتوتوں کی بھر پور سزا پالے گا۔
۱۰۷۔ یہاں سے ایک اور موضوع شروع ہو رہا ہے۔ کفار مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے تھے کہ ہم آپ کو اس وقت تک خدا کا رسول نہیں مان سکتے جب تک آپ ہمارا منہ مانگا معجزہ ہمیں نہ دکھا دیں۔ آگے کی آیات میں ان کی اسی بات کو نقل کیے بغیر اس کا جواب دیا جا رہا ہے۔ (جس قسم کے معجزات کا وہ لوگ مطالبہ کرتے تھے ان کے چند نمونوں کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد دوم، صفحات ۳۲۷۔ ۴۹۸۔ ۶۴۲۔ جلد سوم، ص ۴۴۵)۔
۱۰۸۔ یعنی کسی نبی نے بھی کبھی ا پنی مرضی سے کوئی معجزہ نہیں دکھایا ہے، اور نہ کوئی نبی خود معجزہ دکھانے پر قادر تھا۔ معجزہ تو جب بھی کسی نبی کے ذریعہ سے ظاہر ہوا ہے اس وقت ظاہر ہوا ہے جب اللہ نے یہ چاہا کہ اس کے ہاتھ سے کوئی معجزہ کسی منکر قوم کو دکھایا جائے۔ یہ کفار کے مطالبے کا پہلا جواب ہے۔
۱۰۹۔ یعنی معجزہ کبھی کھیل کے طور پر نہیں دکھایا گیا ہے۔ وہ تو ایک فیصلہ کن چیز ہے۔ اس کے ظاہر ہو جانے کے بعد جب کوئی قوم نہیں مانتے تو پھر اس کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے۔ تم محض تماش بینی کے شوق میں معجزے کا مطالبہ کر رہے ہو، مگر تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ اس طرح دراصل تم خود تقاضے کر کر کے اپنی شامت بلا رہے ہو۔ یہ کفار کے اس مطالبہ کا دوسرا جواب ہے، اور اس کی تفصیلات اس سے پہلے قرآن میں متعدد مقامات پر گزر چکی ہیں (ملاحظہ ہو جلد دوم، ص ۴۹۸۔ ۵۱۰۔ ۶۲۶۔ جلد سوم، ۱۴۸۔ ۱۴۹۔ ۴۴۵۔ ۴۴۶۔ ۴۹۸۔ ۴۹۹)
۱۱۰۔ مطلب یہ ہے کہ اگر تم محض تماشا دیکھنے اور دل بہلانے کے لیے معجزے کا مطالبہ نہیں کر رہے ہو، بلکہ تمہیں صرف یہ اطمینان کرنے کی ضرورت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم جنّاتوں کو ماننے کی دعوت تمہیں دے رہے ہیں (یعنی توحید اور آخرت) وہ حق ہیں یا نہیں، تو اس کے لیے خدا کی یہ نشانیاں بہت کافی ہیں جو ہر وقت تمہارے مشاہدے اور تجربے میں آ رہی ہیں۔ حقیقت کو سمجھنے کے لیے ان نشانیوں کے ہوتے کسی اور نشانی کی کیا حاجت رہ جاتی ہے۔ یہ معجزات کے مطالبے کا تیسرا جواب ہے۔ یہ جواب بھی اس سے پہل ے متعدد مقامات پر قرآن میں دیا گیا ہے اور ہم اس کی تشریح اچھی طرح کر چکے ہیں (ملاحظہ ہو جلد اول، صفحات ۵۳۷۔ ۵۳۸۔ جلد دوم ۳۱۵۔ ۴۴۷۔ تا ۴۴۹۔ جلد سوم، ۴۷۷ تا ۴۷۹)۔
زمین پر جو جانور انسان کی خدمت کر رہے ہیں، خصوصاً گائے، بیل، بھینس، بھیڑ، بکری، اونٹ اور گھوڑے، ان کو بنانے والے نے ایسے نقشے پر بنایا ہے کہ یہ بآسانی انسان کے پالتو خدم بن جاتے ہیں، اور ان سے اس کی بے شمار ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ ان پر سواری کرتا ہے۔ ان سے بار برداری کا کام لیتا ہے۔ انہیں کھیتی باڑی کے کام میں استعمال کرتا ہے۔ ان کا دودھ نکال کر اسے پیتا بھی ہے اور اس سے دہی، لسّی، مکھن، گھی، کھویا، پنیر، اور طرح طرح کی مٹھائیاں بناتا ہے۔ ان کا گوشت کھاتا ہے۔ ان کی چربی استعمال کرتا ہے۔ ان کے اون اور بال اور کھال اور آنتیں اور ہڈی اور خون اور گوبر، ہر چیز اس کے کام آتی ہے۔ کیا یہ اس بات کا کھلا ثبوت نہیں ہے کہ انسان کے خالق نے زمین پر اس کو پیدا کرنے سے بھی پہلے اس کی ان بے شمار ضروریات کو سامنے رکھ کر یہ جانور اس خاص نقشے پر پیدا کر دیے تھے تاکہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے؟
پھر زمین کا تین چوتھائی حصّہ پانی سے لبریز ہے اور صرف ایک چوتھائی خشکی پر مشتمل ہے۔ خشک حصوں کے بھی بہت سے چھوٹے اور بڑے رقبے ایسے ہیں جن کے درمیان پانی حائل ہے۔ کرہ زمین کے ان خشک علاقوں پر انسانی آبادیوں کا پھیلنا اور پھر ان کے درمیان سفر و تجارت کے تعلقات کا قائم ہونا اس کے بغیر ممکن نہ تھا کہ پانی اور سمندروں اور ہواؤں کو ایسے قوانین کا پابند بنایا جاتا جن کی بدولت جہاز رانی کی جا سکتی، اور زمین پر وہ سر و سامان پیدا کیا جاتا جسے استعمال کر کے انسان جہاز سازی پر قادر ہوتا۔ کیا یہ اس بات کی صریح علامت نہیں ہے کہ ایک ہی قادر مطلق ربّ رحیم و حکیم ہے جس نے انسان اور زمین اور پانی اور سمندروں اور ہواؤں اور ان تمام چیزوں کو جو زمین پر ہیں اپنے خاص منصوبے کے مطابق بنایا ہے۔ بلکہ اگر انسان صرف جہاز رانی ہی کے نقطہ نظر سے دیکھے تو اس میں تاروں کے مواقع اور سیاروں کی باقاعدہ گردش سے جو مدد ملتی ہے وہ اس بات کی شہادت دیتی ہے کہ زمین ہی نہیں، آسمان کا خالق بھی وہی ایک رب کریم ہے۔
اس کے بعد اس بات پر بھی غور کیجیے کہ جس خدائے حکیم نے اپنی اتنی بے شمار چیزیں انسان کے تصرف میں دی ہیں اور اس کے مفاد کے لیے یہ کچھ سر و سامان فراہم کیا ہے، کیا بسلامتی ہوش و حواس آپ اس کے متعلق یہ گمان کر سکتے ہیں کہ وہ معاذاللہ ایسا آنکھ کا اندھا اور گانٹھ کا پورا ہو گا کہ وہ انسان کو یہ سب کچھ دے کر کبھی اس سے حساب نہ لے گا۔
۱۱۱۔ یہ خاتمہ کلام ہے۔ اس حصے کو پڑھتے وقت آیات ۴۔ ۵۔ اور آیت ۲۱ پر ایک دفعہ پھر نگاہ ڈال لیں۔
۱۱۲۔ یعنی اپنے فلسفے اور سائنس، اپنے قانون، اپنے دنیوی علوم، اور اپنے پیشواؤں کے گھڑے ہوئے مذہبی افسانوں (Mythology)اور دینیات (Theology)ہی کو انہوں نے اصل علم سمجھا اور انبیاء علیہم السلام کے لائے ہوئے علم کو ہیچ سمجھ کر اس کی طرف کوئی التفات نہ کیا۔
۱۱۳۔ یہ کہ توبہ اور ایمان بس اسی وقت تک نافع ہیں جب تک آدمی اللہ کے عذاب کا موت کی گرفت میں نہ آ جائے۔ عذاب آ جانے یا موت کے آثار شروع ہو جانے کے بعد ایمان لانا یا تو بہ کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہے۔