تفسیر عثمانی

سورة مؤمن / غَافر

۳۔۔۔     ۱: یعنی توبہ قبول کر کے گناہوں سے ایسا پاک و صاف کر دینا ہے۔ گویا کبھی گناہ کیا نہ تھا۔ اور مزید برآں توبہ کو مستقل طاعت قرار دے کر اس پر اجر عنایت فرماتا ہے۔

۲: یعنی بیحد قدرت و وسعت اور غنا والا جو بندوں پر انعام و احسان کی بارشیں کرتا رہتا ہے۔

۳:  جہاں پہنچ کر ہر ایک کو اپنے کیے کا بدلہ ملے گا۔

۴۔۔۔     ۱: یعنی اللہ کی باتیں اور اس کی عظمت و قدرت کے نشان ایسے نہیں جن میں کوئی جھگڑا کیا جائے۔ مگر جن لوگوں نے یہ ہی ٹھان لی ہے کہ روشن سے روشن دلائل و براہین اور کھلی کھلی باتوں کا بھی انکار کیا جائے وہ ہی سچی باتوں میں ناحق جھگڑے ڈالتے ہیں۔

۲:  یعنی ایسے منکر کا انجام تباہی اور ہلاکت ہے۔ گو فی الحال وہ شہروں میں چلتے پھرتے اور کھاتے پیتے نظر آتے ہیں اس سے دھوکا نہ کھانا چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امہال اور استدراج ہے کہ چند روز چل پھر کر دنیا کے مزے اڑا لیں، یا تجارتیں اور سازشیں کر لیں۔ پھر ایک روز غفلت کے نشہ میں پوری طرح مخمور ہو کر پکڑے جائیں گے۔ اگلی قوموں کا حال بھی یہ ہی ہوا۔

۵۔۔۔   یعنی ہر ایک امت کے شریروں نے اپنے پیغمبر کو پکڑ کر قتل کرنے یا ستانے کا ارادہ کیا اور چاہا کہ جھوٹے ڈھکوسلے کھڑے کر کے سچے دین کو شکست دیں، اور حق کی آواز کو بھرنے نہ دیں، لیکن ہم نے ان کا داؤ چلنے نہ دیا اور اس کے بجائے کہ وہ پیغمبروں کو پکڑتے ہم نے ان کو پکڑ کر سخت سزائیں دیں، پھر دیکھ لو ہماری سزا کیسی ہوئی کہ ان کی بیخ و بنیاد باقی نہ چھوڑی۔ آج بھی ان تباہ شدہ قوموں کے کچھ آثار کہیں کہیں موجود ہیں، ان ہی کو دیکھ کر انسان ان کی تباہی کا تصور کر سکتا ہے۔

۶۔۔۔    یعنی جس طرح اگلی قوموں پر عذاب آنے کی بات پوری اتر چکی، موجود الوقت منکروں پر بھی اتری ہوئی سمجھو۔ اور جس طرح پیغمبروں کے اعلان کے موافق کافروں پر دنیاوی عذاب آ کر رہا، تیرے رب کی یہ بات بھی ثابت شدہ حقیقت ہے کہ آخرت میں ان لوگوں کا ٹھکانا دوزخ ہو گا۔ (تنبیہ) بعض نے "انہم اصحب النار" کو "لانہم" کے معنی میں لے کر یہ مطلب بیان کیا ہے کہ گذشتہ منکروں کی طرح موجودہ منکروں پر بھی اللہ کی بات سچی ہے کیونکہ یہ بھی اصحاب بالنار میں سے ہیں۔

۷۔۔۔   ۱: پہلی آیات میں مجرمین و منکرین کا حال زبوں بیان ہوا تھا۔ یہاں ان کے مقابل مومنین و تائبین کا فضل و شرف بیان کرتے ہیں۔ یعنی عرش عظیم کو اٹھانے والے اور اس کے گرد طواف کرنے والے بیشمار فرشتے جن کی غذا صرف حق تعالیٰ کی تسبیح و تحمید ہے اور جو مقربین بارگاہ ہونے کی وجہ سے اعلیٰ درجہ کا ایمان و یقین رکھے ہیں، وہ اپنے پروردگار کے آگے مومنین کے لیے استغفار کرتے ہیں۔ سبحان اللہ! اس عزت افزائی اور شرف و احترام کا کیا ٹھکانا ہے کہ فرش خاک پر رہنے والے مومنین سے جو خطائیں اور لغزشیں ہو گئیں ملائکہ بارگاہِ عالی میں اس کے لیے غائبانہ معافی چاہیں۔ اور جب ان کی شان میں "ویفعلون مایومرون" آیا ہے تو وہ حق تعالیٰ کی طرف سے اس کام پر مامور ہوں گے۔

۲:  یہ فرشتوں کے استغفار کی صورت بتلائی۔ یعنی بارگاہِ احدیت میں یوں عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار آپ کا علم اور رحمت ہر چیز کو محیط ہے پس جو کوئی تیرے علم محیط میں برائیوں کو چھوڑ کر سچے دل سے تیری طرف رجوع ہو اور تیرے راستہ پر چلنے کی کوشش کرتا ہو، اگر اس سے بمقتضائے بشریت کچھ کمزوریاں اور خطائیں سرز ہو جائیں، آپ اپنے فضل و رحمت سے اس کو معاف فرما دیں۔ نہ دنیا میں ان پر دارو گیر ہو اور نہ دوزخ کا منہ دیکھنا پڑے باقی جو مسلمان توبہ و انابت کی راہ اختیار نہ کرے اس کا یہاں ذکر نہیں۔ آیت ہذا اس کی طرف سے ساکت ہے۔ بظاہر حاملین عرش ان کے حق میں دعا نہیں کرتے۔ اللہ کا ان کے ساتھ کیا معاملہ ہو گا؟ یہ دوسری نصوص سے طے کرنا چاہیے۔

۸۔۔۔     یعنی اگرچہ بہشت ہر کسی کو اپنے عمل سے ملتی ہے (جیسا کہ یہاں بھی ومن صلح کی قید سے ظاہر ہے) بدون اپنے ایمان و صلاح کے بیوی، بیٹا اور ماں باپ کام نہیں آتے لیکن تیری حکمتیں ایسی بھی ہیں کہ ایک کے سبب سے کتنوں کو ان کے عمل سے زیادہ اعلیٰ درجہ پر پہنچا دے۔ کما قال تعالیٰ۔ "والذین اٰمنوا واتبعتہم ذریتہم بایمان الحقنا بہم ذریتہم وما التنا ہم من عملہم من شی ئٍ" (طور، رکوع۱) اور گہری نظر سے دیکھا جائے تو حقیقت میں وہ بھی ان ہی کے کسی عمل قلبی کا بدلہ ہو۔ مثلاً وہ آرزو رکھتے ہوں کہ ہم بھی اسی مرد صالح کی چال چلیں۔ یہ نیت اور نیکی کی حرص اللہ کے ہاں مقبول ہو جائے یا اس مرد صالح کے اکرام و مدارات ہی کی ایک صورت یہ ہو کہ اس کے ماں باپ اور بیوی بچے بھی اس کے درجہ میں رکھے جائیں۔

۹۔۔۔     یعنی محشر میں ان کو کوئی برائی (مثلاً گھبراہٹ اور پریشانی وغیرہ) لاحق نہ ہو۔ اور یہ عظیم الشان کامیابی صرف تیری خاص مہربانی ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ بعض مفسرین نے سیأت سے اعمال سیئہ مراد لیے ہیں یعنی آگے کو انہیں برے کاموں سے محفوظ فرما دے اور ان کی خواہش ایسی کر دے کہ برائی کی طرف نہ جائیں۔ ظاہر ہے جو آج یہاں برائی سے بچ گیا اس پر تیرا فضل ہو گیا۔ وہ ہی آخرت میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرے گا۔ اس تفسیر پر یومئذٍ کا ترجمہ بجائے "اس دن" کے "اس دن" ہونا چاہیے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی تیری مہر ہی ہو کہ برائیوں سے بچے۔ اپنے عمل سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ تھوڑی بہت برائی سے کون خالی ہے۔" یہ الفاظ دونوں تفسیروں پر چسپاں ہو سکتے ہیں۔

۱۰۔۔۔   یہ قیامت کے دن کہیں گے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی آج تم اپنے (نفس سے بیزار ہو اور) اپنے جی کو پھٹکارتے ہو۔ دنیا میں جب کفر کرتے تھے (اس وقت) اللہ اس سے زیادہ تم کو پھٹکارتا تھا (اور تمہاری حرکات سے بیزار تھا) اسی کا بدلہ آج پاؤ گے" اور بعض مفسرین نے "مقتین" کا زمانہ ایک مراد لے کر یوں معنی کیے ہیں کہ تم کو دنیا میں بار بار ایمان کی طرف بلایا جاتا تھا اور تم بار بار کفر کرتے تھے۔ آج اس کی سزا بھگتنے کے وقت جس قدر تم اپنے جانوں سے بیزار ہو رہے ہو اللہ اس سے زیادہ تم سے بیزار ہے۔

۱۱۔۔۔   ۱: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "پہلے مٹی تھے یا نطفہ، تو مردے ہی تھے۔ پھر جان پڑی تو زندہ ہوئے، پھر مرے۔ پھر زندہ کر کے اٹھائے گئے۔ یہ ہیں دو موتیں اور دو حیاتیں۔ قال تعالیٰ۔ "کیف تکفرون باللہ وکنتم امواتاً فاحیاکم ثم یمیتکم ثم یحییکم ثم الیہ ترجعون" (بقرہ، رکوع۳) وقیل غیر ذلک والاظہر ہوہذا۔

۲:  یعنی انکار کیا کرتے تھے کہ مرنے کے بعد پھر جینا نہیں۔ نہ حساب کتاب ہے نہ کوئی اور قصہ۔ اسی لیے گناہوں اور شرارتوں پر جری ہوتے تھے۔ اب دیکھ لیا کہ جس طرح پہلی موت کے بعد آپ نے ہم کو زندہ کیا اور عدم سے نکال کر وجود عطا فرمایا، دوسری موت کے بعد بھی پیغمبروں کے ارشادات کے موافق دوبارہ زندگی بخشی۔ آج بعث بعد الموت کے وہ سب مناظر جن کا ہم انکار کیا کرتے تھے سامنے ہیں اور بجز اس کے چارہ نہیں کہ ہم اپنی غلطیوں اور خطاؤں کا اعتراف کریں۔

۳: یعنی افسوس اب تو بظاہر یہاں سے چھوٹ کر نکل بھاگنے کی کوئی راہ نظر نہیں آتی۔ ہاں آپ قادر ہیں کہ جہاں دو مرتبہ موت و حیات دے چکے ہیں، تیسری مرتبہ ہم کو پھر دنیا کی طرف واپس بھیج دیں۔ تاکہ اس مرتبہ وہاں سے ہم خوب نیکیاں سمیٹ کر لائیں۔

۱۲۔۔۔   یعنی بیشک اب دنیا کی طرف واپس کیے جانے کی کوئی صورت نہیں۔ اب تو تم کو اپنے اعمال سابقہ کا خمیازہ بھگتنا ہے۔ تمہارے متعلق ہلاکت ابدی کا یہ فیصلہ اس لیے ہوا ہے کہ تم نے اکیلے سچے خدا کی پکار پر کبھی کان نہ دھرا۔ ہمیشہ اس کا یا اس کی وحدانیت کا انکار ہی کرتے رہے۔ ہاں کسی جھوٹے خدا کی طرف بلائے گئے تو فوراً آمنا و صدقنا کہہ کر اس کے پیچھے ہو لیے۔ اس سے تمہاری خو اور طبیعت کی افتاد کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ اگر ہزار مرتبہ بھی واپس کیا جائے، پھر وہ ہی کفر و شرک کما کر لاؤ گے بس آج تمہارے جرم کی ٹھیک سزا یہ ہی حبس دوام ہے جو اس بڑے زبردست خدا کی عدالت عالیہ سے جاری کی گئی۔ جس کا کہیں آگے مرافعہ (اپیل) نہیں۔ اس سے چھوٹنے کی تمنا عبث ہے۔

۱۳۔۔۔     یعنی اس کی عظمت و وحدانیت کی نشانیاں ہر چیز میں ظاہر ہیں ایک اپنی روزی ہی کے مسئلہ کو آدمی سمجھ لے جس کا سامان آسمان سے ہوتا رہتا ہے تو سب کچھ سمجھ میں آ جائے۔ لیکن جب ادھر رجوع ہی نہ ہو اور غور و فکر سے کام ہی نہ لے تو کیا خاک سمجھ حاصل ہو سکتی ہے۔

۱۴۔۔۔     یعنی بندوں کو چاہیے سمجھ سے کام لیں۔ اور ایک خدا کی طرف رجوع ہو کر اسی کو پکاریں، اس کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کریں بیشک محض بندوں کے اس موحدانہ طرز عمل سے کافر و مشرک ناک بھوں چڑھائیں گے کہ سارے دیوتا اڑا کر صرف ایک ہی خدا رہنے دیا گیا۔ مگر پکا موحد وہ ہی ہے جو مشرکین کے مجمع میں توحید کا نعرہ بلند کرے۔ اور ان کے برا ماننے کی اصلا پروا نہ کرے۔

۱۵۔۔۔   ۱: "بھید کی بات" سے وحی مراد ہے جو اول انبیاء علیہم السلام پر اترتی ہے اور ان کے ذریعہ سے دوسرے بندوں کو پہنچ جاتی ہے۔ چنانچہ قیامت تک اسی طرح پہنچتی رہے گی۔

۲: یعنی جس دن تمام اولین و آخرین مل کر اللہ تعالیٰ کی پیشی میں حاضر ہوں گے اور ہر ایک شخص اپنے اچھے یا برے عمل سے ملاقات کرے گا۔

۱۶۔۔۔    ۱: یعنی قبروں سے نکل کر ایک کھلے کف دست میدان میں حاضر ہوں گے۔ جہاں کوئی آڑ پہاڑ حائل نہ ہو گا۔

۲: یعنی خوب سمجھ لو اس حاکم اعلیٰ کے دربار میں حاضر ہونا ہے جس پر تمہاری کوئی حالت پوشیدہ نہیں۔ سب ظاہر و باطن احوال کھول کر رکھ دیئے جائیں گے۔

۲: یعنی اس دن تمام وسائط و حجب اٹھ جائیں گے۔ ظاہری اور مجازی رنگ میں بھی کسی کی بادشاہت نہ رہے گی۔ اسی اکیلے شہنشاہِ مطلق کا راج ہو گا جس کے آگے ہر ایک طاقت دبی ہوئی ہے۔

۱۸۔۔۔      ۱: یعنی خوف اور گھبراہٹ سے دل دھڑک کر گلوں تک پہنچ رہے ہوں گے اور لوگ دونوں ہاتھوں سے ان کو پکڑ کر دبائیں گے کہ کہیں سانس کے ساتھ باہر نہ نکل پڑیں۔

۲: یعنی ایسا کوئی سفارشی نہیں ہو گا جس کی بات ضرور ہی مانی جائے۔ سفارش وہ ہی کر سکے گا جس کو اجازت ہو۔ اور اسی کے حق میں کرے گا جس کے لیے پسند ہو۔

۲۰۔۔۔    ۱: یعنی مخلوق سے نظر بچا کر چوری چھپے سے کسی پر نگاہ ڈالی یا کن انکھیوں سے دیکھا یا دل میں کچھ نیت کی یا کسی بات کا ارادہ یا خیال آیا، ان میں سے ہر چیز کو اللہ جانتا ہے۔ اور فیصلہ انصاف سے کرتا ہے۔

۲: یعنی فیصلہ کرنا اس کا کام ہو سکتا ہے جو سننے اور جاننے والا ہو۔ بھلا یہ پتھر کی بے جان مورتیں جنہیں تم خدا کہہ کر پکارتے ہو کیا خاک فیصلہ کریں گی۔ پھر جو فیصلہ بھی نہ کر سکے وہ خدا کس طرح ہوا۔

۲۱۔۔۔   ۱: یعنی بڑے مضبوط قلعے، عالی شان عمارتیں اور مختلف قسم کی یاد گاریں۔

۲: یعنی جب دنیا کے عذاب سے کوئی نہ بچا سکا، آخرت میں کون بچائے گا۔

۲۲۔۔۔     یعنی تم بھی ان کی طرح رسول کی تکذیب کر کے فلاح نہیں پا سکتے آخر رسوا اور ہلاک ہو گئے اور خداوند قدوس اپنے زور و قوت سے پیغمبر کو غالب و منصور فرمائے گا۔ اسی مناسبت سے آگے موسیٰ اور فرعون کا قصہ بیان کرتے ہیں۔

۲۳۔۔۔   "نشانیوں" سے معجزات اور "کھلی سند" سے شاید ان میں کے مخصوص و ممتاز معجزات مراد ہوں یا "کھلی سند" معجزات کے سوا دوسری قسم کے دلائل و براہین کو فرمایا۔ یا "آیات" سے تعلیمات و احکام اور "سلطان مبین" سے معجزات مراد لیے جائیں۔ یا "سلطان مبین" اس قوت قدسیہ اور مخصوص تائید ربانی کا نام ہو جس کے آثار پیغمبروں میں ہر دیکھنے والے کو نمایاں طور پر نظر آیا کرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔

۲۴۔۔۔     ۱: ہامان وزیر تھا فرعون کا اور قارون بنی اسرائیل میں سب سے بڑا مالدار اور تاجر تھا جو موسیٰ علیہ السلام کے خلاف فرعون کی مرضی پر چلتا تھا۔ پہلے اس کا قصہ گزر چکا۔

۲: یعنی جادوگر ہے معجزات دکھانے میں اور جھوٹا ہے دعویٰ رسالت میں۔ یہ بعض نے کہا ہو گا اور دوسروں نے اس کی تصدیق کی ہو گی۔

۲۵۔۔۔    ۱: یہ حکم اب دوسری مرتبہ موسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کے بعد دیا۔ تاکہ بنی اسرائیل کی تذلیل و توہین کریں، ان کی تعداد گھٹائیں اور ان کے دلوں میں یہ خیال جما دیں کہ یہ سب مصیبت ان پر موسیٰ کی بدولت آئی ہے۔ یہ خیال کر کے لوگ ان کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ اور دہشت انگیزی کی پالیسی کامیاب ہو جائے گی۔ آگے پتہ نہیں اس حکم پر عمل ہوا یا نہیں۔

۲: یعنی ایسے داؤ پیچ اور تدبیروں سے کیا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے مخلص بندوں کی مدد فرما کر منکرین کے سب منصوبے غلط کر دیتا ہے۔

۲۶۔۔۔   ۱: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "فرعون نے کہا مجھ کو چھوڑو۔ شاید اس کے ارکانِ سلطنت مار ڈالنے کا مشورہ نہ دیتے ہوں گے۔ کیونکہ معجزہ دیکھ کر ڈر گئے تھے، کہیں اس کا رب بدلہ نہ لے۔" فرعون خود بھی دل میں ڈرا ہوا اور سہما ہوا تھا۔ لیکن لوگوں پر اپنی قوت و شجاعت کا اظہار کرنے کے لیے انتہاء درجہ کی شقاوت اور بے حیائی سے ایسا کہہ رہا تھا۔ تاکہ لوگ سمجھیں کہ اس کو قتل سے کوئی چیز مانع نہیں۔ اور اس کے ارادہ کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔

۲: یعنی اسے زندہ چھوڑ دیا گیا تو دنیا اور دنیاوی دونوں طرح کے نقصان کا اندیشہ ہے۔ ممکن ہے یہ اپنے وعظ و تلقین سے تمہارے مذہبی طور و طریق کو جو پہلے سے چلا آتا ہے بگاڑ ڈالے یا سازش وغیرہ کا جال پھیلا کر ملک میں بدامنی پھیلا دے جس کا انجام یہ ہو کہ تمہاری (یعنی قبطیوں کی) حکومت کا خاتمہ ہو کر ملک بنی اسرائیل کے ہاتھ میں چلا جائے۔

۲۷۔۔۔   ۱: حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب ان کے مشوروں کی خبر پہنچی تو اپنی قوم سے فرمایا کہ مجھے ان دھمکیوں کی مطلق پروا نہیں۔ فرعون اکیلا تو کیا، ساری دنیا کے متکبرین و جبارین جمع ہو جائیں تب بھی میرا اور تمہارا پروردگار ان کے شر سے بچانے کے لیے کافی ہے۔ میں اپنے کو تنہا اسی کی پناہ میں دے چکا ہوں۔ وہ ہی میرا حامی و مددگار ہے کما قال تعالیٰ "لا تخافا اننی معکما اسمع واری" (طہٰ، رکوع۲)

۲: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "جس کو حساب کا یقین ہو وہ ظلم کاہے کو کرے گا۔

۲۸۔۔۔     ۱: یعنی ایک مرد مومن جس نے فرعون اور اس کی قوم سے اپنا ایمان ابھی تک مخفی رکھا تھا ذرونی اقتل موسیٰ کے جواب میں بول اٹھا کیا تم ایک شخص کا ناحق خون کرنا چاہتے ہو اس بات پر کہ وہ صرف ایک اللہ کو اپنا رب کیوں کہتا ہے۔ حالانکہ وہ اپنے دعوے کی صداقت کے کھلے کھلے نشان تم کو دکھلا چکا۔ اور اس کے قتل کی تم کو کچھ ضرورت بھی نہیں۔ بلکہ ممکن ہے تمہارے لیے مضر ہو۔ فرض کرو! وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ثابت ہوا تو اتنے بڑے جھوٹ پر ضرور اللہ اس کو ہلاک یا رسوا کر کے چھوڑے گا۔ خدا کی عادت نہیں کہ وہ ایسے کاذب کو برابر پھولنے پھلنے دے۔ دنیا کو التباس سے بچانے کے لیے یقیناً ایک روز اس کی قلعی کھول دی جائے گی۔ ایسے حالات بروئے کار آئیں گے کہ دنیا اعلانیہ اس کی رسوائی و ناکامی اور کذب و دروغ کا تماشا دیکھ لے گی۔ اور تم کو خواہی نخواہی اس کے خون میں ہاتھ رنگنے کی ضرورت نہ رہے گی اور اگر واقع وہ سچائی پر ہے تو دنیا و آخرت کے جس عذاب سے وہ اپنے مکذبین کو ڈراتا ہے یقیناً اس کا کچھ نہ کچھ حصہ تم کو ضرور پہنچ کر رہے گا۔ لہٰذا پہلی شق پر اس کے قتل میں جلدی کرنے کی ضرورت نہیں اور دوسری شق پر اس کا قتل کرنا سراسر موجب نقصان و خسران ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی اگر جھوٹا ہے تو جس پر جھوٹ بولتا ہے وہ ہی سزا دے رہے گا۔ اور شاید سچا ہو تو اپنی فکر کرو۔" (تنبیہ) یہ تقریر اس صورت میں ہے جب کسی مفتری کا کذب صریحاً ظاہر نہ ہوا ہو۔ اور اگر مدعی نبوت کا کذب و افتراء دلائل و براہین سے روشن ہو جائے تو بلاشبہ واجب القتل ہے۔ اس زمانہ میں جبکہ پیغمبر عربی صلی اللہ علیہ و سلم کا خاتم النبیین ہونا دلائل قطعیہ سے ثابت ہو چکا، اگر کوئی شخص مدعی نبوت بن کر کھڑا ہو گا تو چونکہ اس کا یہ دعویٰ ایک قطعی الثبوت عقیدہ کی تکذیب کرتا ہے۔ لہٰذا اس کے متعلق کسی قسم کے تأمل و تردد اور امہال و انتظار کی گنجائش نہ ہو گی۔

۲: یعنی موسیٰ اگر بالفرض جھوٹا ہوتا تو ہرگز اس کا اللہ راہ نہ دیتا کہ وہ برابر ایسے ایسے معجزات دکھاتا رہے اور کامیابی میں ترقی کرتا چلا جائے۔ اور اگر تم جھوٹے ہو کہ ایک سچے کو جھوٹا بتلا رہے ہو تو انجام کار اللہ تعالیٰ تم کو ذلیل و ناکام کرے گا۔

۲۹۔۔۔   ۱: یعنی اپنے سامانوں اور لشکروں پر مغرور مت بنو۔ آج تمہاری یہ شان و شکوہ ہے لیکن کل اگر خدا کے عذاب نے آ گھیرا تو کوئی بچانے والا نہ ملے گا۔ یہ سب سازو سامان یوں ہی رکھے رہ جائیں گے۔

۲: یعنی تمہاری تقریر سے میرے خیالات تبدیل نہیں ہوئے۔ جو کچھ میرے نزدیک مصلحت ہے وہ ہی تم کو سجھا رہا ہوں۔ میرے خیال میں بہتری کا راستہ یہ ہی ہے کہ اس شخص کا قصہ پہلے ہی قدم پر ختم کر دیا جائے۔

۳۱۔۔۔   یعنی اگر تم اسی طرح تکذیب و عداوت پر جمے رہے تو سخت اندیشہ ہے کہ تم کو بھی کہیں وہ ہی دن دیکھنا نہ پڑے جو پہلی قومیں اپنے انبیاء کا مقابلہ کر کے دیکھ چکی ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ہاں بے انصافی نہیں۔ اگر ایسے سخت جرائم پر تم کو یا دوسری قوموں کو اس نے تباہ کیا تو وہ عین عدل و انصاف کے تقاضا سے ہو گا۔ کون سی حکومت ہے جو اپنے سفراء کو قتل اور رسوا ہوتے دیکھتی رہے۔ اور قاتلین و معاندین سے انتقام نہ لے۔

۳۲۔۔۔    عموماً مفسرین "یوم التناد" (ہانک پکار کے دن) سے قیامت کا دن مراد لیے ہیں جبکہ محشر میں جمع ہونے اور حساب دینے کے لیے سب کی پکار ہو گی۔ اور اہل جنت اہل نار اور اہل اعراف ایک دوسرے کو پکاریں گے اور آخر میں ندا آئے گی۔ "یا اہل الجنۃ خلود لا موت ویا اہل النار خلودلا موت۔" کما وردفی الحدیث۔ لیکن حضرت شاہ صاحب نے "یوم التناد" سے وہ دن مراد لیا ہے جس میں فرعونیوں پر عذاب آیا۔ چنانچہ لکھتے ہیں۔ "ہانک پکار کا دن ان پر آیا۔ جس دن بحر قلزم میں غرق ہوئے۔ اس وقت ڈوبتے ہوئے ایک دوسرے کو پکارنے لگا۔ (شاید) یہ اس مرد مومن کو کشف سے معلوم ہوا ہو گا یا قیاس سے کہ ہر قوم پر عذاب اسی طرح آتا ہے۔

۳۳۔۔۔   ۱: یعنی محشر سے پیٹھ پھیر کر دوزخ کی طرف بھگائے جاؤ گے یا نزول عذاب کے وقت اس سے بھاگنے کی ناکام کوشش کرو گے۔

۲: یعنی میں تم کو سب نشیب و فراز پوری طرح سمجھا چکا۔ اس پر بھی تم نہ مانو تو سمجھ لو کہ تمہارے عناد و کجروی کی شامت سے اللہ تعالیٰ نے ارادہ ہی کر لیا ہے کہ تم کو تمہاری پسند کردہ غلطی اور گمراہی میں پڑا رہنے دے پھر ایسے شخص کے سمجھنے کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔

۳۴۔۔۔     یعنی چلو قصہ ختم ہوا۔ نہ یہ رسول تھا نہ اب اس کے بعد کوئی رسول آنے والا ہے۔ گویا سرے سے سلسلہ رسالت ہی کا انکار ہوا۔ لیکن حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "حضرت یوسف کی زندگی میں (مصر والے ان کی نبوت کے) قائل نہ ہوئے۔ ان کی موت کے بعد جب مصر کی سلطنت کا بندوبست بگڑا تو کہنے لگے یوسف کا قدم اس شہر پر کیا مبارک تھا۔ ایسا نبی (آئندہ) کوئی نہ آئے۔ یا وہ انکار یا یہ اقرار۔ یہ ہی اسراف اور زیادہ گوئی ہے۔" مرد مومن کی غرض یہ تھی کہ نعمت کی قدر زوال کے بعد ہوتی ہے۔ فی الحال تم کو موسیٰ کی قدر نہیں۔

۳۵۔۔۔     ۱: یعنی بدون حجت عقلیہ و نقلیہ کے اللہ کی باتوں میں جھگڑے ڈالتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر زیادتی اور بیباکی کیا ہو گی۔ اسی لیے اللہ اور اس کے ایماندار بندے ان لوگوں سے سخت بیزار ہیں جو سبب ہے ان کے انتہائی ملعون ہونے کا۔

۲: جو لوگ حق کے سامنے غرور سے گردن نہ جھکائیں اور پیغمبروں کے ارشادات سن کر سر نیچا نہ کریں آخرکار ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ اسی طرح مہر کر دیتا ہے کہ پھر قبول حق اور نفوذ خیر کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔

۳۷۔۔۔   ۱: یہ اس ملعون کی انتہائی بے شرمی اور بے باکی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے شاید اللہ تعالیٰ کی صفت علو وغیرہ کو سن کر یہ قرار دیا ہو گا کہ موسیٰ کا خدا آسمان پر رہتا ہے۔ اسی پر یہ استہزاء و تمسخر شروع کر دیا۔ سچ ہے چیونٹی کی موت آتی ہے تو پر لگ جاتے ہیں۔ سورہ "قصص" میں اس مقام کی تقریر گزر چکی۔

۲: یعنی دعوائے رسالت میں بھی اور اس دعوے میں بھی کہ سارے جہان کا کوئی اور معبود ہے۔ مجھے تو اپنے سوا دوسرا نظر نہیں آتا۔ کماقال ماعلمت لکم من الہٍ غیری۔ (قصص، رکوع۴)

۳: برے کام کرتے کرتے آدمی کی یوں ہی عقل ماری جاتی ہے اور ایسی ہی مضحکہ خیز حرکتیں کرنے لگتا ہے جس کے بعد راہ پر آنے کی کوئی صورت نہیں رہتی۔ یہ ہی حال فرعون کا ہوا۔

۴: یعنی فرعون کے جس قدر داؤ پیچ اور منصوبے یا مشورے تھے سب بے حقیقت تھے۔ خود اپنی ہی تباہی کے لیے۔ موسیٰ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا۔

۳۸۔۔۔ چونکہ فرعون نے کہا تھا و ما اھدیکم الا سبیل الرشاد اس کے جواب میں مرد مومن نے کہا کہ سبیل الرشاد (بھلائی اور بہتری کا راستہ وہ نہیں جو فرعون تجویز کرتا ہے بلکہ تم میرے پیچھے چلے آؤ تاکہ بہتری کے راستہ پر چلنا نصیب ہو

۳۹۔۔۔    یعنی فانی و زائل زندگی اور چند روزہ عیش و بہار میں پڑ کر آخرت کو نہ بھولو۔ دنیا کی زندگی بہرحال بھلی بری طرح ختم ہونے والی ہے۔ اس کے بعد وہ زندگی شروع ہو گی جس کا کبھی خاتمہ نہیں۔ عاقل کا کام یہ ہے کہ یہاں رہتے ہوئے اس کی درستی کی فکر کرے ورنہ ہمیشہ کی تکلیف میں مبتلا رہنا پڑے گا۔

 اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

۴۰۔۔۔   یہ اخروی زندگی کی تھوڑی سی تفصیل بتلا دی کہ وہ کس طرح درست ہو سکتی ہے۔ معلوم ہوا کہ وہاں ایمان اور عمل صالح درکار ہیں۔ مال و متاع کو کوئی نہیں پوچھتا اور یہ بھی ظاہر ہوا کہ اللہ کی رحمت غضب پر غالب ہے۔ عقلمند کو چاہیے کہ موقع ہاتھ سے نہ دے۔

۴۱۔۔۔     یعنی میرا اور تمہارا معاملہ بھی عجیب ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم کو ایمان کے راستہ پر لگا کر خدا کے عذاب سے نجات دلاؤں۔ اور تمہاری کوشش یہ ہے کہ اپنے ساتھ مجھے بھی دوزخ کی آگ میں دھکیل دو۔ ایک طرف سے ایسی دشمنی اور دوسری جانب سے یہ خیر خواہی۔

۴۲۔۔۔   ۱: یعنی تمہاری کوشش کا حاصل تو یہ ہے کہ میں (معاذ اللہ) خدائے واحد کا انکار کر دوں۔ اس کے پیغمبروں کو اور ان کی باتوں کو نہ مانوں اور نادان جاہلوں کی طرح ان چیزوں کو خدا ماننے لگوں جن کی الوہیت کسی دلیل اور علمی اصول سے ثابت نہیں۔ نہ مجھے خبر ہے کہ کیونکر ان چیزوں کو خدا بنا لیا گیا۔ بلکہ میں جانتا ہوں کہ اس کے خلاف پر دلائل قطعیہ قائم ہیں۔

۲: یعنی میرا منشاء یہ ہے کہ کسی طرح تمہارا سر اس خدائے واحد کی چوکھٹ پر جھکا دوں جو نہایت زبردست بھی ہے اور بہت زیادہ خطاؤں کا معاف کرنے والا بھی (مجرم کو پکڑے تو کوئی چھڑا نہ سکے اور معاف کرے تو کوئی روک نہ سکے وہ ہی اس کا مستحق ہے کہ آدمی اس کے آگے ڈر کر اور امید باندھ کر سر عبودیت جھکائے۔ یاد رکھو میں اسی خدا کی پناہ میں آ چکا ہوں جس کی طرف تمہیں بلا رہا ہوں۔)

۴۳۔۔۔   ۱: یعنی ماسوا خدا کے کوئی چیز ایسی نہیں جو دنیا یا آخرت میں ادنیٰ ترین نفع و ضرر کی مالک ہو۔ پھر اس کی بندگی اور غلامی کا بلاوا دینا جہل و حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ "ومن اضل ممن یدعوا من دون اللہ من لایستجیب لہ الی یوم القیمۃ وہم عن دعائہم غافلون واذا حشر الناس کانوا لہم اعدآء وکانوا بعبادتہم کافرین۔" (حقاف، رکوع۱) آخر ایسی عاجز اور بے بس چیزوں کی طرف آدمی کیا سمجھ کر دعوت دے اور تماشا یہ ہے کہ ان میں بہت چیزیں وہ ہیں جو خود بھی اپنی طرف دعوت نہیں دیتیں۔ بلکہ دعوت دینے کی قدرت بھی نہیں رکھتیں۔

۲: یعنی انجام کار ہر پھر کر اسی خدائے واحد کی طرف جانا ہے۔ وہاں پہنچ کر سب کو اپنی زیادتیوں کا نتیجہ معلوم ہو جائے گا۔ بتلاؤ! اس سے بڑھ کر زیادتی کیا ہو گی کہ عاجز مخلوق کو خالق کا درجہ دے دیا جائے۔

۴۴۔۔۔   ۱: یعنی آگے چل کر جب اپنی زیادتیوں کا مزہ چکھو گے، اس وقت میری نصیحت کو یاد کرو گے کہ ہاں ایک مرد خدا جو ہم کو سمجھایا کرتا تھا وہ ٹھیک کہتا تھا۔ لیکن اس وقت یاد کر کے پشیمان ہونے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔

۲: یعنی میں خدا کی حجت تمام کر چکا اور نصیحت کی بات سمجھا چکا۔ تم نہیں مانتے تو میرا تم سے کچھ مطلب نہیں۔ اب میں اپنے کو بالکلیہ خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ اسی پر میرا بھروسہ ہے۔ تم اگر مجھے ستانا چاہو گے تو وہ ہی خدا میرا حامی و ناصر ہے۔ سب بندے اس کی نگاہ میں ہیں۔ وہ میرا اور تمہارا دونوں کا معاملہ دیکھ رہا ہے۔ کسی کی کوئی حرکت اس پر پوشیدہ نہیں ایک مومن قانت کا کام یہ ہے کہ اپنی امکانی سعی کر چکنے کے بعد نتیجہ کو خدا کے سپرد کرے۔

۴۵۔۔۔     یعنی حق و باطل کی اس کشمکش کا آخری نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (اور ان کے ہمراہیوں کو جن میں یہ مومن آل فرعون بھی تھا) فرعونیوں کے منصوبوں سے محفوظ رکھا کوئی داؤ ان کا چلنے نہ دیا۔ بلکہ ان کے داؤ پیچ خود ان ہی پہ الٹ پڑے۔ جس نے حق پرستوں کا تعاقب کیا مارا گیا اور قوم کی قوم کا بیڑا بحر قلزم میں غرق ہوا۔

۴۶۔۔۔     یعنی دوزخ کا ٹھکانا جس میں وہ قیامت کے دن داخل کیے جائیں گے۔ ہر صبح و شام ان کو دکھلا دیا جاتا ہے تاکہ نمونہ کے طور پر اس آنے والے عذاب کا کچھ مزہ چکھتے رہیں۔ یہ عالم برزخ کا حال ہوا اور احادیث سے ثابت ہے کہ اسی طرح ہر کافر کے سامنے دوزخ کا اور ہر مومن کے سامنے جنت کا ٹھکانا روزانہ صبح و شام پیش کیا جاتا ہے۔ (تنبیہ) آیۃ ہذا سے صرف فرعونیوں کا عالم برزخ میں معذب ہونا ثابت ہوا تھا۔ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم کرایا گیا کہ جملہ کفار بلکہ عصاۃِ مومنین بھی برزخ میں معذب ہوتے ہیں (اعاذنا اللہ منہ) کما وردفی الاحادیث الصحیحہ۔ اور بعض آثار سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح جنتیوں میں سے شہداء کی روحیں "طیور خضر" کے "حواصل" میں داخل ہو کر جنت کی سیر کرتی ہیں، اسی طرح دوزخیوں میں سے فرعونیوں کی ارواح کو "طیور سود" کے "حواصل" میں داخل کر کے ہر صبح شام دوزخ کی طرف بھیجا جاتا ہے (البتہ ارواح کا مع ان کے اجساد کے جنت یا دوزخ میں اقامت پذیر ہونا یہ آخرت میں ہو گا) اگر یہ صحیح ہے تو فرعونیوں کے متعلق "النار یعرضون علیہا غدوا وعشیا" اور عام دوزخیوں کے متعلق حدیث "عرض علیہ مقعدہ بالغداۃ والعشیی" کے الفاظ کا تفاوت شاید اسی بناء پر ہو گا۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔

۴۷۔۔۔   یعنی دنیا میں ہم سے اپنی اطاعت اور اتباع کراتے رہے جس کی بدولت آج ہم پکڑے گئے۔ اب یہاں ہمارے کچھ تو کام آؤ۔ آخر بڑوں کو چھوڑوں کی تھوڑی بہت خبر لینی چاہیے۔ دیکھتے نہیں ہم آج کس قدر مصیبت میں ہیں کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ اس مصیبت کا کوئی جزو ہم سے ہلکا کر دو۔

۴۸۔۔۔     یعنی جو دنیا میں بڑے بنتے تھے جواب دیں گے کہ آج ہم اور تم سب اسی مصیبت میں مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے ہر ایک کے جرم کے موافق سزا کا فیصلہ سنا دیا ہے جو بالکل قطعی اور اٹل ہے۔ اب موقع نہیں رہا کہ کوئی کسی کے کام آئے۔ ہم اپنی ہی مصیبت کو ہلکا نہیں کر سکتے، پھر تمہارے کیا کام آ سکے ہیں۔

۴۹۔۔۔   یعنی اپنے سرداروں کی طرف سے مایوس ہو کر ان فرشتوں سے درخواست کریں گے جو دوزخ کے انتظام پر مسلط ہیں کہ تم ہی اپنے رب سے کہہ کر کوئی دن تعطیل کر کرا دو جس میں ہم پر سے عذاب کچھ ہلکا ہو جایا کرے۔

۵۰۔۔۔   یعنی اس وقت ان کی بات نہ مانی اور انجام کی فکر نہ کی جو کچھ کام چلتا۔ اب موقع ہاتھ سے نکل چکا۔ کوئی سعی سفارش یا خوشامد درآمد کام نہیں دے سکتی۔ پڑے چیختے چلاتے رہو۔ نہ ہم ایسے معاملات میں سفارش کر سکتے ہیں، نہ تمہاری چیخ و پکار سے کوئی فائدہ ہے۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "دوزخ کے فرشتے کہیں گے سفارش کرنا ہمارا کام نہیں۔ ہم تو عذاب دینے پر مقرر ہیں۔ سفارش کا کام رسولوں کا، رسولوں سے تم برخلاف ہی تھے۔" (تنبیہ) آیہ ہذا سے معلوم ہوا کہ آخرت میں کافروں کی دعا کا کوئی اثر نہ ہو گا۔ باقی دنیا میں کافر کے مانگنے پر اللہ تعالیٰ کوئی چیز دے دیں وہ دوسری بات ہے جیسے ابلیس کو قیامت تک کی مہلت دے دی۔

۵۱۔۔۔    ۱: یعنی دنیا میں ان کا بول بالا کرتا ہے۔ جس مقصد کے لیے وہ کھڑے ہوتے ہیں اللہ کی مدد سے اس میں کامیابی ہوتی ہے۔ حق پرستوں کی قربانیاں کبھی ضائع نہیں جاتیں۔ درمیان میں کتنے ہی اتار چڑھاؤ ہوں اور کیسے ہی امتحانات پیش آئیں مگر آخرکار مشن کامیاب ہو کر رہتا ہے۔ علمی حیثیت سے حجت و برہان میں تو وہ ہمیشہ ہی منصور رہتے یہیں۔ لیکن مادی فتح اور ظاہری عزت و رفعت بھی آخرکار ان ہی کو حاصل ہوتی ہے۔ سچائی کے دشمن کبھی معزز نہیں رہ سکتے۔ ان کا علو اور عروج محض ہنڈیا کا جھاگ اور سوڈے کا ابال ہوتا ہے۔ انجام کار مومنین قانتین کے مقابلہ میں ان کو پست اور ذلیل ہونا پڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان سے اپنے اولیاء کا انتظام لیے بدون نہیں چھوڑتا۔ لیکن واضح رہے کہ آیت میں جن مومنین کے لیے وعدہ کیا گیا ہے شرط یہ ہے کہ حقیقی مومن اور رسولوں کے متبع ہوں۔ کما قال تعالیٰ "وانتم الاعلون ان کنتم مومنین۔" (آل عمران، رکوع۱۴) مومنین کی خصلتیں قرآن میں جابجا مذکور ہیں چاہیے کہ مسلمان اس کسوٹی پر اپنے کو کس کر دیکھ لیں۔

۲: یعنی میدان حشر میں جبکہ اولین و آخرین جمع ہوں گے حق تعالیٰ اپنے فضل سے علیٰ الاشہاد ان کی سربلندی اور عزت و رفعت کو ظاہر فرمائے گا۔ دنیا میں تو کچھ شبہ بھی نہ رہ سکتا ہے اور التباس ہو جاتا ہے وہاں ذرا بھی ابہام و التباس باقی نہ رہے گا۔

۵۲۔۔۔   یعنی ان کی کوئی مدد اور دستگیری نہ ہو گی۔ یہ مقبولین کے بالمقابل مطرودین کا انجام بیان فرما دیا۔

۵۴۔۔۔     یعنی دنیا ہی میں دیکھ لو کہ فرعون اور اس کی قوم کو باوجود اس قدر طاقت و جبروت کے حق کی دشمنی نے کس طرح ہلاک و برباد کر کے چھوڑا۔ اور موسیٰ علیہ السلا کی برکت و راہنمائی سے بنی اسرائیل کی مظلوم اور کمزور قوم کو کس طرح ابھارا اور اس عظیم الشان کتاب (تورات) کا وارث بنایا۔ جو دنیا کے عقلمندوں کے لیے شمع ہدایت کا کام دیتی تھی۔

۵۵۔۔۔     یعنی آپ بھی تسلی رکھیے، جو وعدہ آپ کے ساتھ ہے ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ خداوند قدوس دارین میں آپ کو اور آپ کے طفیل میں آپ کے متبعین کو سربلند رکھے گا۔ ضرورت اس کی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کے شدائد و مصائب پر صبر کریں۔ اور جس سے جس درجہ کی تقصیر کا امکان ہو اس کی معافی خدا سے چاہتے رہیں اور ہمیشہ رات دن صبح و شام اپنے پروردگار کی تسبیح و تحمید کا قولاً و فعلاً ورد رکھیں۔ظاہر و باطن میں اس کی یاد سے غافل نہ ہوں۔ پھر اللہ کی مدد یقینی ہے۔ یہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو مخاطب بنا کر ساری امت کو سنایا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دن میں سو سو بار استغفار کرتے۔ ہر بندے کی تقصیر اس کے درجہ کے موافق ہے اسی لیے ہر کسی کو استغفار کرنا ضروری ہے۔

۵۶۔۔۔   ۱: یعنی جو لوگ اللہ کی دلائل توحید اور کتب سماویہ اور اس کے پیغمبروں کے معجزات و ہدایات میں خواہ مخواہ جھگڑتے اور بے سند باتیں نکال کر حق کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں ان کے ہاتھ میں کچھ حجت و دلیل نہیں۔ نہ فی الواقع ان کھلی ہوئی چیزوں میں شک و شبہ کا موقع ہے۔ صرف شیخی اور غرور مانع ہے کہ حق کے سامنے گردن جھکائیں اور پیغمبر کا اتباع کریں۔ وہ اپنے کو بہت اونچا کھینچتے ہیں۔ چاہتے یہ ہیں کہ پیغمبر سے اوپر ہو کر رہیں۔ یا کم از کم اس کے سامنے جھکنا نہ پڑے لیکن یاد رکھیں کہ وہ اس مقصد کو کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ پیغمبر کے سامنے سر اطاعت جھکانا پڑے گا۔ ورنہ سخت ذلیل و رسوا ہوں گے۔

۲: یعنی اللہ کی پناہ مانگ کہ وہ ان مجادلین کے خیالات سے بچائے اور ان کے شر سے محفوظ رکھے۔ آگے بعض مسائل کی تحقیق ہے جن میں وہ لوگ جھگڑتے تھے۔ مثلاً بعث بعد الموت (موت کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا) کہ اس کو وہ محال سمجھتے تھے یا توحید باری جس کا انکار کرتے تھے۔

۵۷۔۔۔   یعنی بظاہر مادی حیثیت سے آسمان و زمین کی عظمت و جسامت کے سامنے انسان کی کیا حقیقت ہے لیکن مشرکین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا وہ ہی خداوند قدوس ہے۔ پھر جس نے اتنی بڑی مخلوقات کو پیدا کیا اسے آدمیوں کا پہلی بار یا دوسری بار پیدا کر دینا کیا مشکل ہو گا۔ تعجب ہے کہ ایسی موٹی بات کو بہت لوگ نہیں سمجھتے۔

۵۸۔۔۔   یعنی ایک اندھا جسے حق کا سیدھا راستہ نہیں سوجھتا، اور ایک آنکھوں والا جو نہایت بصیرت کے ساتھ صراطِ مستقیم کو دیکھتا اور سمجھتا ہے، کیا دنوں برابر ہو سکتے ہیں؟ یا ایک نیکو کار مومن اور کافر بدکار کا انجام یکساں ہو سکتا ہے؟ اگر ایسا نہیں تو ضرور ایک دن چاہیے جب ان کا باہمی فرق کھلے۔ اور دونوں کے علم کے ثمرات اپنی اکمل ترین صورت میں ظاہر ہوں۔ مگر افسوس کہ تم اتنا بھی نہیں سوچتے۔

۶۰۔۔۔    ۱: یعنی میری ہی بندگی کرو کہ اس کی جزاء دوں گا مجھ ہی سے مانگو کہ تمہارا مانگنا خالی نہ جائے گا۔

۲:بندگی کی شرط ہے اپنے رب سے مانگنا۔ نہ مانگنا غرور ہے۔ اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ بندوں کی پکار کو پہنچتا ہے۔ یہ بات تو بیشک برحق ہے، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر بندے کی ہر دعا قبول کیا کرے۔ یعنی جو مانگے وہ ہی چیز دے دے۔ نہیں اس کی اجابت کے بہت سے رنگ ہیں جو احادیث میں بیان کر دیے گئے ہیں۔ کوئی چیز دینا اس کی مشیت پر موقوف اور حکمت کے تابع ہے۔ کمال قال فی موضع آخر "فیکشف ماتدعون الیہ ان شآء" (انعام، رکوع۴) بہرحال بندہ کا کام ہے مانگنا اور یہ مانگنا خود ایک عبادت بلکہ مغز عبادت ہے۔

۶۱۔۔۔   ۱: رات کی ٹھنڈ اور تاریکی میں عموماً لوگ سوتے اور آرام کرتے ہیں۔ جب دن ہوتا ہے تو تازہ دم ہو کر اس کے اجالے میں اپنے کاروبار میں مشغول ہو جاتے ہیں اس وقت دیکھنے بھالنے اور چلنے پھرنے کے لیے مصنوعی روشنیوں کی چنداں ضرورت نہیں پڑتی۔

۲: یعنی منعم حقیقی کی حق شناسی یہ تھی کہ قول و فعل اور جان و دل سے اس کا شکر ادا کرتے۔ بہت سے لوگ شکر کے بجائے شرک کرتے ہیں۔

۶۲۔۔۔     یعنی رات دن کی سب نعمتیں اس کی طرف سے مانتے ہو، تو بندگی بھی صرف اسی کی ہونی چاہیے۔ اس مقام پر پہنچ کر تم کہاں بھٹک جاتے ہو کہ مالک حقیقی تو کوئی ہو اور بندگی کسی کی کی جائے۔

۶۴۔۔۔   ۱: یعنی قبہ کی طرح بنایا۔

۲: سب جانوروں سے انسان کی صورت بہتر اور سب کی روزی سے اس کی روزی ستھری ہے۔

۶۵۔۔۔   ۱: جس پر کسی حیثیت سے کبھی فنا اور موت طاری نہیں ہوئی نہ ہو سکتی ہے۔ اور ظاہر ہے جب اس کی حیات ذاتی ہوئی، تو تمام لوازم حیات بھی ذاتی ہوں گے۔

۲: کمالات اور خوبیاں سب وجود حیات کے تابع ہیں۔ جو حی علی الاطلاق ہے وہ ہی عبادت کا مستحق اور تمام کمالات اور خوبیوں کا مالک ہو گا۔ اسی لیے ہوالحی کے بعد "الحمد للہ رب العالمین" فرمایا جیسا کہ پہلی آیت میں نعمتوں کا ذکر کر کے "فتبارک اللہ رب العالمین" فرمایا تھا۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ "لا الہ الا الہ" کے بعد الحمدللہ رب العالمین کہنا چاہیے۔ اس کا ماخذ یہ ہی آیت ہے۔

۶۶۔۔۔    یعنی کھلے کھلے نشانات دیکھنے کے بعد کیا حق ہے کہ کوئی آدمی خدائے واحد کے سامنے سر عبودیت نہ جھکائے اور خالص اسی کا تابع فرمان نہ ہو۔

۶۷۔۔۔   ۱: یعنی تمہارے باپ آدم کو، یا تم کو، اس طرح کہ نطفہ جس غذا کا خلاصہ ہے وہ خاک سے ہی پیدا ہوتی ہے۔

۲: یعنی بنی آدم کی اصل ایک پانی کی بوند (قطرہ منی) ہے جو آگے چل کر جما ہوا خون بنا دیا گیا۔

۳: یعنی بچہ سے جوان اور جوان سے بوڑھا ہوتا ہے۔ اور بعض آدمی جوانی یا بڑھاپے سے پہلے ہی گزر جاتے ہیں۔ بہرحال سب کو ایک معین میعاد اور لکھے ہوئے وعدے تک پہنچنا ہے۔ موت اور حشر سے کوئی مستثنیٰ نہیں۔ ہر آنکہ زاد بنا چار بایدش نوشیدزجامِ دہر مئے کل من علیہا فان

۴: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "یعنی سوچو اتنے احوال (اور دَور) تم پر گزرے۔ ممکن ہے ایک حال اور بھی گزرے۔ وہ مر کر جینا ہے۔" آخر اسے کیوں محال سمجھتے ہو۔

۶۸۔۔۔   یعنی اس کی قدرت کاملہ اور شان کن فیکون کے سامنے یہ کیا مشکل ہے کہ موت کے بعد تمہیں دوبارہ زندہ کر دے۔

۷۰۔۔۔     کہ اس تکذیب کا نتیجہ کیا ہوتا ہے۔

۷۱۔۔۔   زنجیر کا ایک سرا طوق میں اٹکا ہوا اور دوسرا فرشتوں کے ہاتھ میں ہو گا۔ اس طرح مجرموں اور قیدیوں کی مانند لائے جائیں گے۔

۷۲۔۔۔   یعنی دوزخ میں کبھی جلتے پانی کا اور کبھی آگ کا عذاب دیا جائے گا۔ (اعاذنا اللہ منہما)

۷۴۔۔۔    ۱: یعنی اس وقت ان میں سے کوئی کام نہیں آتا۔ ہو سکے تو ان کو مدد کے لیے بلاؤ۔

۲: یعنی ہم سے گئے گزرے ہوئے۔ شاید اس وقت عابدین اور معبودین الگ الگ کر دیے جائیں گے یا ضلوا عناکا مطلب یہ ہو کہ گو موجود ہیں، مگر جب ان سے کوئی فائدہ نہیں تو ہوئے نہ ہوئے برابر ہیں۔

۳:  اکثر مفسرین نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ ہم جن کو دنیا میں پکارتے تھے، اب کھلا کہ وہ واقع میں کچھ چیز نہ تھے۔ گویا یہ بطور حسرت و افسوس کے اپنی غلطی کا اعتراف ہو گا۔ لیکن حضرت شاہ صاحب کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ مشرکین اول منکر ہو چکے تھے کہ ہم نے شریک ٹھہرائے ہی نہیں۔ اب گھبرا کر منہ سے نکل جائے گا ضلوا عنا جس میں شریک ٹھہرانے کا اعتراف ہو گا۔ پھر کچھ سنبھل کر انکار کر دیں گے کہ ہم نے خدا کے سوا کسی کو پکارا ہی نہیں۔

۴: یعنی جس طرح یہاں انکار کرتے کرتے بچل گئے اور گھبرا کر اقرار کر لیا۔ یہ ہی حال ان کافروں کا دنیا میں تھا۔

۷۵۔۔۔     یعنی دیکھ لیا، ناحق کی شیخی اور غرور و تکبر کا انجام یہ ہوتا ہے اب وہ اکڑفوں کدھر گئی۔

۷۶۔۔۔   یعنی ہر قسم کے مجرم اس دروازے سے جو ان کے لیے تجویز شدہ ہے۔

۷۷۔۔۔     یعنی اللہ نے ان کو عذاب دینے کا جو وعدہ فرمایا ہے، وہ یقیناً پورا ہو کر رہے گا۔ ممکن ہے کوئی وعدہ آپ کی موجودگی میں پورا ہو (جیسا کہ "بدر" اور "فتح مکہ" وغیرہ میں ہوا) یا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد۔ بہرحال یہ ہم سے بچ کر کہیں نہیں جا سکتے۔ سب کا انجام ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اس زندگی کے بعد عذاب کی تکمیل اس زندگی میں ہو گی۔ چھٹکارا کسی صورت سے نہیں۔

۷۸۔۔۔   ۱: یعنی بعض کا تفصیلی حال تجھ سے بیان کیا بعض کا نہیں کیا۔ (اور ممکن ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد ان کا بھی مفصل حال بیان کر دیا ہو) بہرحال جن کے نام معلوم ہیں ان پر تفصیلاً اور جن کے نام وغیرہ معلوم نہیں ان پر اجمالاً ایمان لانا ضروری ہے۔ "لاتفرق بین احدٍ من رسلہ

۲: یعنی اللہ کے سامنے سب عاجز ہیں۔ رسولوں کو یہ بھی اختیار نہیں کہ جو معجزہ چاہیں دکھلا دیا کریں، صرف وہ ہی نشانات دکھلا سکتے ہیں جس کی اجازت حق تعالیٰ کی طرف سے ہو۔

۳: یعنی جس وقت اللہ کا حکم پہنچتا ہے رسولوں اور ان کی قوموں کے درمیان منصفانہ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اس وقت رسول سرخرو اور کامیاب ہوتے ہیں۔ اور باطل پرستوں کے حصہ میں ذلت و خسران کے سوا کچھ نہیں آتا۔

۸۰۔۔۔   ۱: مثلاً ان کے چمڑے، بال اور اون وغیرہ سے طرح طرح کے فائدے اٹھاتے ہو۔

۲:سواری کرنا بجائے خود ایک مقصد ہے اور سواری کے ذریعہ سے انسان بہت مقاصد دینی و دنیاوی حاصل کرتا ہے۔

۳: یعنی خشکی میں جانوروں کی پیٹھ پر اور دریا میں کشتیوں پر لدے پھرتے ہو۔

۸۱۔۔۔   یعنی اس قدر کھلے نشان دیکھنے پر بھی آدمی کہاں تک انکار ہی کرتا چلا جائے گا (اور ابھی کیا معلوم اللہ اور کتنے نشان دکھلائے گا)

۸۲۔۔۔     یعنی پہلے بہت قومیں گزر چکیں جو جتھے میں اور زور و قوت میں ان سے بہت زیادہ تھیں انہوں نے ان سے کہیں بڑھ کر زمین پر اپنی یادگاریں اور نشانیاں چھوڑیں، لیکن جب خدا کا عذاب آیا تو وہ زور و طاقت اور سازو سامان کچھ بھی کام نہ آ سکا۔ یوں ہی تباہ و برباد ہو کر رہ گئے۔

۸۳۔۔۔     یعنی وجوہ معاش اور مادی ترقیات کا جو علم ان کے پاس تھا اور جن غلط عقیدوں پر دل جمائے ہوئے تھے اسی پر اتراتے رہے۔ اور انبیاء علیہم السلام کے علوم و ہدایت کو حقیر سمجھ کر مذاق اڑاتے رہے۔ آخر ایک وقت آیا جب ان کو اپنی ہنسی مذاق کی حقیقت کھلی، اور ان کا استہزاء و تمسخر خود ان ہی پر الٹ پڑا۔

۸۴۔۔۔   یعنی جس وقت آفت آنکھوں کے سامنے آ گئی اور عذاب الٰہی کا معائنہ ہونے لگا تب ہوش آیا اور ایمان و توبہ کی سوجھی۔ اب پتہ چلا کہ اکیلے خدائے بزرگ ہی سے کام چلتا ہے۔ جن ہستیوں کو خدائی کا درجہ دے رکھا تھا سب عاجز اور بیکار ہیں۔ ہماری سخت حماقت اور گستاخی تھی کہ ان چیزوں کو تخت خدائی پر بٹھا دیا۔

۸۵۔۔۔     ۱: یعنی اب پچھتانے اور تقصیر کا اعتراف کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ ایمان و توبہ کا وقت گزر چکا۔ عذاب دیکھ لینے پر تو ہر کسی کو بے اختیار یقین آ جاتا ہے۔ مگر یہ یقین موجب نجات نہیں۔ نہ اس یقین کی بدولت آیا ہوا عذاب ٹل سکتا ہے۔ قال تعالیٰ "ولیست التوبۃ للذین یعملون السیأات حتی اذا حضر احدہم الموت قال انی تبت الان ولا الذین یموتون وہم کفار" (نسا، رکوع۳) وقال فی قصۃ فرعون "آلئن وقد عصیت قبل وکنت من المفسدین۔" وفی الحدیث "ان اللہ تعالیٰ یقبل توبۃ العبد مالم یغرغر۔"

۲: یعنی ہمیشہ سے یوں ہی ہوتا رہا ہے کہ لوگ اول انکار و استہزاء سے پیش آتے ہیں پھر جب عذاب میں پکڑے جاتے ہیں اس وقت شور مچاتے اور اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں۔ اللہ کی عادت یہ ہے کہ اس بے وقت کی توبہ کو قبول نہیں فرماتا۔ آخر منکرین اپنے جرائم کی پاداش میں خراب و برباد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اللہم احفظنا من الخسران۔ واحفظنا من غضبک وسخطک فی الدنیا والاخرۃ (تم سورۃ المومنون وللہ الحمد والمنۃ)