خزائن العرفان

سورة مؤمن / غَافر

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا (ف ۱)

۱                 سورۂ مؤمن اس کا نام سورۂ غافر بھی ہے، یہ سورت مکّیہ ہے سوائے دو آیتوں کے جو   اَ لَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْ اٰۤیٰتِ اللہِ سے شروع ہوتی ہیں، اس سورت میں نو ۹رکوع اور پچاسی ۸۵آیتیں اور ایک ہزار ایک سو ننانوے ۱۱۹۹کلمے اور چار ہزار نو سو ساٹھ۴۹۶۰ حرف ہیں۔

(۱) حٰمٓ

(۲) یہ کتاب اتارنا ہے  اللہ کی طرف سے  جو عزت والا، علم والا۔

(۳) گناہ بخشنے  والا اور توبہ قبول کرنے  والا (ف ۲) سخت عذاب کرنے  والا (ف ۳) بڑے  انعام والا (ف ۴) اس کے  سوا کوئی معبود نہیں، اسی کی طرف پھرنا ہے  (ف ۵)

۲                 ایمان داروں کی۔

۳                 کافروں پر۔

۴                 عارفوں پر۔

۵                 بندوں کو آخرت میں۔

(۴) اللہ کی آیتوں میں جھگڑا نہیں کرتے  مگر کافر (ف ۶) تو اے  سننے  والے  تجھے  دھوکا نہ دے  ان کا شہروں میں اہلے گہلے  (اِتراتے ) پھرنا (ف ۷)

۶                 یعنی قرآنِ پاک میں جھگڑا کرنا کافر کے سوا مومن کا کام نہیں۔ ابوداؤد کی حدیث میں ہے سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا کہ قرآن میں جھگڑا کرنا کفر ہے۔ جھگڑے اور جدال سے مراد آیاتِ الٰہیہ میں طعن کرنا اور تکذیب و انکار کے ساتھ پیش آنا ہے اور حلِّ مشکلات و کشفِ مُعضَلات کے لئے علمی و اصولی بحثیں جدال نہیں بلکہ اعظم طاعات میں سے ہیں،کفّار کا جھگڑا کرنا آیات میں یہ تھا کہ وہ کبھی قرآنِ پاک کو سِحر کہتے،کبھی شِعر، کبھی کہانت، کبھی داستان۔

۷                 یعنی کافروں کا صحت و سلامتی کے ساتھ مُلک مُلک تجارتیں کرتے پھرنا اور نفع پانا تمہارے لئے باعثِ تردّد نہ ہو کہ یہ کفر جیسا عظیم جُرم کرنے کے بعد بھی عذاب سے امن میں رہے کیونکہ ان کا انجام کار خواری اور عذاب ہے، پہلی امّتوں میں بھی ایسے حالات گزر چکے ہیں۔

(۵) ان سے  پہلے  نوح کی قوم اور ان کے  بعد کے  گروہوں (ف ۸) نے  جھٹلایا، اور ہر امت نے  یہ قصد کیا کہ اپنے  رسول کو پکڑ لیں (ف ۹) اور باطل کے  ساتھ جھگڑے  کہ اس سے  حق کو ٹال دیں (ف ۱۰) تو میں نے  انہیں پکڑا، پھر کیسا ہوا میرا عذاب (ف ۱۱)

۸                 عاد و ثمود و قومِ لوط وغیرہ۔

۹                 اور انہیں قتل اور ہلاک کر دیں۔

۱۰               جس کو انبیا لائے ہیں۔

۱۱               کیا ان میں کوئی اس سے بچ سکا۔

(۶) اور یونہی تمہارے  رب کی بات کافروں پر ثابت ہو چکی ہے  کہ وہ دوزخی ہیں۔

(۷) وہ جو عرش اٹھاتے  ہیں (ف ۱۲) اور جو اس کے  گرد ہیں (ف ۱۳) اپنے  کی تعریف کے  ساتھ اس کی پاکی بولتے  (ف ۱۴) اور اس پر ایمان لاتے  (ف ۱۵) اور مسلمانوں کی مغفرت مانگتے  ہیں (ف ۱۶) اے  رب ہمارے  تیرے  رحمت و علم میں ہر چیز کی سمائی ہے  (ف ۱۷) تو انہیں بخش دے  جنہوں نے  توبہ کی اور تیری راہ پر چلے  (ف ۱۸) اور انہیں دوزخ کے  عذاب سے  بچا لے۔

۱۲               یعنی ملائکۂ حاملینِ عرش جو اصحابِ قرب اور ملائکہ میں اشرف و افضل ہیں۔

۱۳               یعنی جو ملائکہ کہ عرش کا طواف کرنے والے ہیں انہیں کرّوبی کہتے ہیں اور یہ ملائکہ میں صاحبِ سیادت ہیں۔

۱۴               اور سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ کہتے۔

۱۵               اور اس کی وحدانیّت کی تصدیق کرتے۔ شہر بن حوشب نے کہا کہ حاملینِ عرش آٹھ ہیں ان میں سے چار کی تسبیح یہ ہے سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ لَکَ الْحَمْدُ عَلیٰ حِلْمِکَ بَعْدَعِلْمِکَ اور چار کی یہسُبحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ لَکَ الْحَمْدُ عَلیٰ عَفْوِکَ بَعْدَ قُدْرَتِکَ۔

۱۶               اور بارگاہِ الٰہی میں اس طرح عرض کرتے ہیں۔

۱۷               یعنی تیری رحمت اور تیرا علم ہر چیز کو وسیع ہے۔ فائدہ : دعا سے پہلے عرضِ ثنا سے معلوم ہوا کہ آدابِ دعا میں سے یہ ہے کہ پہلے اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی جائے پھر مراد عرض کی جائے۔

۱۸               یعنی دِینِ اسلام پر۔

(۸) اے  ہمارے  رب!  اور انہیں بسنے  کے  باغوں میں داخل کر  جن کا تو نے  ان سے  وعدہ فرمایا ہے  اور ان کو جو نیک ہوں  ان کے  باپ دادا اور بیبیوں اور اولاد میں (ف ۱۹) بیشک تو ہی عزت و حکمت والا ہے۔

۱۹               انہیں بھی داخل کر۔

(۹) اور انہیں گناہوں کی شامت سے  بچا لے، اور جسے  تو اس دن گناہوں کی شامت سے  بچائے  تو بیشک تو نے  اس پر رحم فرمایا، اور یہی بڑی کامیابی ہے۔

(۱۰) بیشک جنہوں نے  کفر کیا ان کو ندا کی جائے  گی (ف ۲۰) کہ ضرور تم سے  اللہ کی بیزاری اس سے  بہت زیادہ ہے  جیسے  تم آج اپنی جان سے  بیزار ہو جب کہ تم (ف ۲۱) ایمان کی طرف بلائے  جاتے  تو تم کفر کرتے۔

۲۰               روزِ قیامت جب کہ وہ جہنّم میں داخل ہوں گے اور ان کی بدیاں ان پر پیش کی جائیں گی اور وہ عذاب دیکھیں گے تو فرشتے ان سے کہیں گے۔

۲۱               دنیا میں۔

(۱۱) کہیں گے  اے  ہمارے  رب تو نے  ہمیں دوبارہ مردہ کیا اور  دوبارہ زندہ کیا (ف ۲۲) اب ہم اپنے  گناہوں پر مُقِر ہوئے  تو آگ سے  نکلنے  کی بھی کوئی راہ ہے  (ف ۲۳)

۲۲               کیونکہ پہلے نطفۂ بے جان تھے اس موت کے بعد انہیں جان دے کر زندہ کیا پھر عمر پوری ہونے پر موت دی پھر بعث کے لئے زندہ کیا۔

۲۳               اس کا جواب یہ ہو گا کہ تمہارے دوزخ سے نکلنے کی کوئی سبیل نہیں اور تم جس حال میں ہو جس عذاب میں مبتلا ہو اور اس سے رہائی کی کوئی راہ نہیں پا سکتے۔

(۱۲) یہ اس پر ہوا کہ جب ایک اللہ  پکارا جاتا تو تم کفر کرتے  (ف ۲۴) اور ان کا شریک ٹھہرایا جاتا تو تم مان لیتے  (ف ۲۵) تو حکم اللہ کے  لیے  ہے  جو سب سے  بلند بڑا۔

۲۴               یعنی اس عذاب اور اس کے دوام و خلود کا سبب تمہارا یہ فعل ہے کہ جب توحیدِ الٰہی کا اعلان ہوتا اورلَا اِ لٰہَ اِلَّا اللہُ کہا جاتا تو تم اس کا انکار کرتے اور کفر اختیار کرتے۔

۲۵               اور اس شرک کی تصدیق کرتے۔

(۱۳)  وہی ہے  کہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے  (ف ۲۶) اور تمہارے  لیے  آسمان سے  روزی اتارتا ہے  (ف ۲۷) اور نصیحت نہیں مانتا (ف ۲۸) مگر جو رجوع لائے  (ف ۲۹)

۲۶               یعنی اپنی مصنوعات کے عجائب جو اس کے کمالِ قدرت پر دلالت کرتے ہیں مثل ہوا اور بادل اور بجلی وغیرہ کے۔

۲۷               مینہ برسا کر۔

۲۸               اور ان نشانیوں سے پند پذیر نہیں ہوتا۔

۲۹               تمام امور میں اللہ تعالیٰ کی طرف اور شرک سے تائب ہو۔

(۱۴) تو اللہ کی بندگی کرو نرے  اس کے  بندے  ہو کر (ف ۳۰) پڑے  برا مانیں کافر۔

۳۰               شرک سے کنارہ کش ہو کر۔

(۱۵) بلند درجے  دینے  والا (ف ۳۱) عرش کا مالک ایمان کی جان وحی ڈالتا ہے  اپنے  حکم سے  اپنے  بندوں میں جس پر چاہے  (ف ۳۲) کہ وہ ملنے  کے  دن سے  ڈرائے  (ف ۳۳)

۳۱               انبیاء و اولیاء و علماء کو جنّت میں۔

۳۲               یعنی اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے منصبِ نبوّت عطا فرماتا ہے اور جس کو نبی بناتا ہے اس کا کام ہوتا ہے۔

۳۳               یعنی خَلقِ خدا کو روزِ قیامت کا خوف دلائے جس دن اہلِ آسمان اور اہلِ زمین اور اوّلین و آخرین ملیں گے اور روحیں جسموں سے اور ہر عمل کرنے والا اپنے عمل سے ملے گا۔

(۱۶) جس دن وہ بالکل ظاہر ہو جائیں گے  (ف ۳۴) اللہ پر ان کا کچھ حال چھپا نہ ہو گا (ف ۳۵) آج کسی کی بادشاہی ہے  (ف ۳۶) ایک  اللہ  سب پر  غالب  کی،(ف ۳۷)

۳۴               قبروں سے نکل کر اور کوئی عمارت یا پہاڑ اور چھُپنے کی جگہ اور آڑ نہ پائیں گے۔

۳۵               نہ اعمال، نہ اقوال، نہ دوسرے احوال اور اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز کبھی نہیں چھُپ سکتی لیکن یہ دن ایسا ہو گا کہ ان لوگوں کے لئے کوئی پردہ اور آڑ کی چیز نہ ہو گی جس کے ذریعہ سے وہ اپنے خیال میں بھی اپنے حال کو چھُپا سکیں اور خَلق کی فنا کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔

۳۶               اب کوئی نہ ہو گا کہ جواب دے۔ خود ہی جواب میں فرمائے گا کہ اللہ واحدِ قہّار کی، اور ایک قول یہ ہے کہ روزِ قیامت جب تمام اوّلین و آخرین حاضر ہوں گے تو ایک ندا کرنے والا ندا کرے گا آج کس کی بادشاہی ہے ؟ تمام خَلق جواب دے گی  لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَہَّارِاللہ واحدِ قھّار کی، جیسا کہ آگے ارشاد ہوتا ہے۔

۳۷ٍٍ               مومن تو یہ جواب بہت لذّت کے ساتھ عرض کریں گے کیونکہ وہ دنیا میں یہی اعتقاد رکھتے تھے، یہی کہتے تھے اور اسی کی بدولت انہیں مرتبے ملے اور کفّار ذلّت و ندامت کے ساتھ اس کا اقرار کریں گے اور دنیا میں اپنے منکِر رہنے پر شرمندہ ہوں گے۔

(۱۷) آج  ہر  جان  اپنے  کے ٴ  کا بدلہ  پاے ٴ  گی  (ف  ۳۸)  آج کسی پر زیادتی نہیں، بیشک اللہ جلد حساب لینے  والا ہے۔

۳۸               نیک اپنی نیکی کا اور بد اپنی بدی کا۔

(۱۸) اور انہیں ڈراؤ اس نزدیک آنے  وا لی آفت کے  دن سے  (ف ۳۹) جب دل گلوں کے  پاس آ جائیں گے  (ف ۴۰) غم میں بھرے، اور ظالموں کا نہ کوئی دوست نہ کوئی سفارشی جس کا کہا مانا جائے  (ف ۴۱)

۳۹               اس سے روزِ قیامت مراد ہے۔

۴۰               شدّتِ خوف سے نہ باہر ہی نکل سکیں، نہ اندر ہی اپنی جگہ واپس جا سکیں۔

یعنی کافر شفاعت سے محروم ہوں گے۔

(۱۹) اللہ جانتا ہے   چوری چھپے  کی نگاہ (ف ۴۲) اور جو کچھ سینوں میں چھپا ہے  (ف ۴۳)

یعنی نگاہوں کی خیانت اور چوری، نا محرم کو دیکھنا اور ممنوعات پر نظر ڈالنا۔

یعنی دلوں کے راز، سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔

(۲۰) اور اللہ سچا فیصلہ فرماتا ہے، اور اس کے  سوا جن کو (ف ۴۴) پوجتے  ہیں وہ کچھ فیصلہ نہیں کرتے  (ف ۴۵) بیشک اللہ ہی سنتا اور دیکھتا ہے  (ف ۴۶)

۴۴               یعنی جن بتوں کو یہ مشرکین۔

۴۵               کیونکہ نہ وہ علم رکھتے ہیں، نہ قدرت، تو ان کی عبادت کرنا اور انہیں خدا کا شریک ٹھہرانا بہت ہی کھُلا باطل ہے۔

۴۶               اپنی مخلوق کے اقوال و افعال اور جملہ احوال کو۔

(۲۱) تو کیا انہوں نے  زمین میں سفر نہ کیا کہ دیکھتے  کیسا انجام ہوا ان سے  اگلوں کا (ف ۴۷) ان کی قوت اور زمین میں جو نشانیاں چھوڑ گئے  (ف ۴۸) ان سے  زائد تو اللہ نے  انہیں ان کے  گناہوں پر پکڑا، اور اللہ سے  ان کا کوئی بچانے  والا نہ ہوا (ف ۴۹)

۴۷               جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی تھی۔

۴۸               قلعے اور محل اور نہریں اور حوض اور بڑی بڑی عمارتیں۔

۴۹               کہ عذابِ الٰہی سے بچا سکتا۔ عاقل کا کام ہے کہ دوسرے کے حال سے عبرت حاصل کرے اس عہد کے کافر یہ حالات دیکھ کر کیوں عبرت حاصل نہیں کرتے ؟ کیوں نہیں سوچتے کہ پچھلی قومیں ان سے زیادہ قوی و توانا اور صاحبِ ثروت و اقتدار ہونے کے باوجود اس عبرت ناک طریقہ پر تباہ کر دی گئیں یہ کیوں ہوا ؟

(۲۲) یہ اس لیے  کہ ان کے  پاس ان کے  رسول روشن نشانیاں لے  کر آئے  (ف ۵۰) پھر وہ کفر کرتے  تو اللہ نے  انہیں پکڑا، بیشک اللہ زبردست عذاب والا ہے۔

۵۰               معجزات دکھاتے۔

(۲۳) اور بیشک ہم نے  موسیٰ کو اپنی نشانیوں اور روشن سند کے  ساتھ بھیجا۔

(۲۴) فرعون اور ہامان اور قارون کی طرف تو وہ بولے  جادوگر ہے  بڑا جھوٹا (ف ۵۱)

۵۱               اور انہوں نے ہماری نشانیوں اور برہانوں کو جادو بتایا۔

(۲۵) پھر جب وہ ان پر ہمارے  پاس سے  حق لایا (ف ۵۲) بولے  جو اس پر ایمان لائے  ان کے  بیٹے  قتل کرو اور عورتیں زندہ رکھو (ف ۵۳) اور کافروں کا داؤ نہیں مگر بھٹکتا پھرتا (ف ۵۴)

۵۲               یعنی نبی ہو کر پیامِ الٰہی لائے تو فرعون اور فرعونی۔

۵۳               تاکہ لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اتباع سے باز آئیں۔

۵۴               کچھ بھی کار آمد نہیں، بالکل نکمّا اور بے کار، پہلے بھی فرعونیوں نے بحکمِ فرعون ہزار ہا قتل کئے مگر قضائے الٰہی ہو کر رہی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پروردگارِ عالَم نے فرعون کے گھر بار میں پالا، اس سے خدمتیں کرائیں، جیسا وہ داؤں فرعونیوں کا بے کار گیا ایسے ہی اب ایمان والوں کو روکنے کے لئے پھر دوبارہ قتل شروع کرنا بے کار ہے۔ حضرت موسیٰ علی نبیّنا و علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات کے دِین کا رواج اللہ تعالیٰ کو منظور ہے اسے کون روک سکتا ہے۔

(۲۶) اور فرعون بولا (ف ۵۵) مجھے  چھوڑو میں موسیٰ کو قتل کروں (ف ۵۶) اور وہ اپنے  رب کو پکارے  (ف ۵۷) میں ڈرتا ہوں  کہیں وہ تمہارا دین بدل دے  (ف ۵۸) یا زمین میں فساد چمکائے  (ف ۵۹)

۵۵               اپنے گروہ سے۔

۵۶               فرعون جب کبھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قتل کرنے کا ارادہ کرتا تو اس کی قوم کے لوگ اس کو اس سے منع کرتے اور کہتے کہ یہ وہ شخص نہیں ہے جس کا تجھے اندیشہ ہے یہ تو ایک معمولی جادوگر ہے، اس پر تو ہم اپنے جادو سے غالب آ جائیں گے، اور اگر اس کو قتل کر دیا تو عام لوگ شبہ میں پڑ جائیں گے کہ وہ شخص سچّا تھا، حق پر تھا، تو دلیل سے اس کا مقابلہ کرنے میں عاجز ہوا، جواب نہ دے سکا تو تو نے اسے قتل کر دیا۔ لیکن حقیقت میں فرعون کا یہ کہنا کہ مجھے چھوڑ دو میں موسیٰ کو قتل کروں خالص دھمکی ہی تھی، اس کو خود آپ کے نبیِ برحق ہونے کا یقین تھا اور وہ جانتا تھا کہ جو معجزات آپ لائے ہیں وہ آیاتِ الٰہیہ ہیں، سِحر نہیں لیکن یہ سمجھتا تھا کہ اگر آپ کے قتل کا ارادہ کرے گا تو آپ اس کو ہلاک کرنے میں جلدی فرمائیں گے، اس سے یہ بہتر ہے کہ طولِ بحث میں زیادہ وقت گزار دیا جائے اگر فرعون اپنے دل میں آپ کو نبیِ برحق نہ سمجھتا اور یہ نہ جانتا کہ ربّانی تائیدیں جو آپ کے ساتھ ہیں ان کا مقابلہ ناممکن ہے تو آپ کے قتل میں ہر گز تأمّل نہ کرتا کیونکہ وہ بڑا خونخوار، سفّاک، ظالم، بیدرد تھا، ادنیٰ سی بات میں ہزار ہا خون کر ڈالتا تھا۔

۵۷               جس کا اپنے آپ کو رسول بتاتا ہے تاکہ اس کا رب اس کو ہم سے بچائے۔ فرعون کا یہ مقولہ اس پر شاہد ہے کہ اس کے دل میں آپ کا اور آپ کی دعاؤں کا خوف تھا وہ اپنے دل میں آپ سے ڈرتا تھا ظاہری عزّت بنی رکھنے کے لئے یہ ظاہر کرتا تھا کہ وہ قوم کے منع کرنے کے باعث حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل نہیں کرتا۔

۵۸               اور تم سے فرعون پرستی بت چھڑا دے۔

۵۹               جدال و قتال کر کے۔

(۲۷) اور موسیٰ نے  (ف ۶۰)  کہا میں تمہارے  اور اپنے  رب کی پناہ لیتا ہوں ہر متکبر سے  کہ حساب کے  دن پر یقین نہیں لاتا (ف ۶۱)

۶۰               فرعون کی دھمکیاں سن کر۔

۶۱               حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کی سختیوں کے جواب میں اپنی طرف سے کوئی کلمہ تعلِّی کا نہ فرمایا بلکہ اللہ تعالیٰ سے پناہ چاہی اور اس پر بھروسہ کیا، یہی خدا شناسوں کا طریقہ ہے اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر ایک بَلا سے محفوظ رکھا، ان مبارک جملوں میں کیسی نفیس ہدایتیں ہیں، یہ فرمانا کہ میں تمہارے اور اپنے رب کی پناہ لیتا ہوں اور اس میں ہدایت ہے، رب ایک ہی ہے، یہ بھی ہدایت ہے کہ جو اس کی پناہ میں آئے اس پر بھروسہ کرے اور وہ اس کی مدد فرمائے کوئی اس کو ضرر نہیں پہنچا سکتا۔ یہ بھی ہدایت ہے کہ اسی پر بھروسہ کرنا شانِ بندگی ہے اور تمہارے رب فرمانے میں یہ بھی ہدایت ہی کہ اگر تم اس پر بھروسہ کرو تو تمہیں بھی سعادت نصیب ہو۔

(۲۸) اور بولا فرعون والوں  میں سے  ایک مرد مسلمان کہ اپنے  ایمان کو چھپاتا تھا کیا ایک مرد کو اس پر مارے  ڈالتے  ہو کہ وہ کہتا ہے  کہ میرا رب اللہ ہے  اور بیشک  وہ روشن نشانیاں تمہارے  پاس تمہارے  رب کی طرف سے  لائے  (ف ۶۲) اور اگر بالفرض وہ غلط کہتے  ہیں تو ان کی غلط گوئی کا  وبال ان پر، اور اگر وہ سچے  ہیں تو تمہیں پہنچ جائے  گا کچھ وہ جس کا تمہیں وعدہ دیتے  ہیں (ف ۶۳) بیشک اللہ راہ نہیں دیتا اسے  جو حد سے  بڑھنے  والا بڑا جھوٹا ہو (ف ۶۴)

۶۲               جن سے ان کا صدق ظاہر ہو گیا، یعنی نبوّت ثابت ہو گئی۔

۶۳               مطلب یہ ہے کہ دو حال سے خالی نہیں یا یہ سچّے ہوں گے یا جھوٹے، اگر جھوٹے ہوں تو ایسے معاملہ میں جھوٹ بول کر اس کے وبال سے بچ نہیں سکتے، ہلاک ہو جائیں گے۔ اور اگر سچّے ہیں تو جس عذاب کا تمہیں وعدہ دیتے ہیں اس میں سے بالفعل کچھ تمہیں پہنچ ہی جائے گا۔ کچھ پہنچنا اس لئے کہا کہ آپ کا وعدۂ عذاب دنیا و آخرت دونوں کو عام تھا اس میں سے بالفعل عذاب دینا ہی پیش آنا تھا۔

۶۴               کہ خدا پر جھوٹ باندھے۔

(۲۹) اے  میری قوم!  آج بادشاہی تمہاری ہے  اس زمین میں غلبہ رکھتے  ہو (ف ۶۵) تو اللہ کے  عذاب سے  ہمیں کون بچا لے  گا اگر ہم پر آئے  فرعون بولا میں تو تمہیں وہی سمجھاتا ہوں جو میری سوجھ ہے  (ف ۶۶) اور میں تمہیں وہی بتاتا ہوں جو بھلائی کی راہ ہے۔

۶۵               یعنی مصر میں تو ایسا کام نہ کرو کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب آئے اگر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا۔

۶۶               یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دینا۔

(۳۰)  اور وہ ایمان والا بولا اے  میری قوم! مجھے  تم پر (ف ۶۷) اگلے  گروہوں کے  دن کا سا خوف  ہے  (ف ۶۸)

۶۷               حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تکذیب کرنے اور ان کے درپے ہونے سے۔

۶۸               جنہوں نے رسولوں کی تکذیب کی۔

(۳۱) جیسا دستور گزرا نوح کی قوم اور عاد اور ثمود اور ان کے  بعد اوروں کا (ف ۶۹) اور اللہ بندوں پر ظلم نہیں چاہتا (ف ۷۰)

۶۹               کہ انبیاء علیہم السلام کی تکذیب کرتے رہے اور ہر ایک کو عذابِ الٰہی نے ہلاک کیا۔

۷۰               بغیر گناہ کے ان پر عذاب نہیں فرماتا اور بغیر اقامتِ حجّت کے ان کو ہلاک نہیں کرتا۔

(۳۲) اور اے  میری قوم میں تم پر اس دن سے  ڈراتا ہوں جس دن پکار مچے  گی (ف ۷۱)

۷۱               وہ قیامت کا دن ہو گا، قیامت کے دن کو یَوْمُ التَّنَاد یعنی پکار کا دن اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس روز طرح طرح کی پکاریں مچی ہوں گی، ہر شخص اپنے سرگروہ کے ساتھ اور ہر جماعت اپنے امام کے ساتھ بلائی جائے گی، جنّتی دوزخیوں کو اور دوزخی جنّتیوں کو پکاریں گے، سعادت و شقاوت کی ندائیں کی جائیں گی کہ فلاں سعید ہوا اب کبھی شقی نہ ہو گا اور فلاں شقی ہو گیا اب کبھی سعید نہ ہو گا اور جس وقت موت ذبح کی جائے گی اس وقت ندا کی جائے گی کہ اے اہلِ جنّت اب دوام ہے موت نہیں ہے اور اے اہلِ دوزخ اب دوام ہے موت نہیں۔

(۳۳) جس دن پیٹھ دے  کر بھاگو گے  (ف ۷۲) اللہ سے  (ف ۷۳)  تمہیں کوئی بچانے  والا نہیں، اور جسے  اللہ گمراہ کرے  اس کا کوئی راہ دکھانے  والا نہیں۔

۷۲               موقفِ حساب سے دوزخ کی طرف۔

۷۳               یعنی ا س کے عذاب سے۔

(۳۴) اور بیشک اس سے  پہلے  (ف ۷۴) تمہارے  پاس یوسف روشن نشانیاں لے  کر آئے  تو تم ان کے  لائے  ہوئے  سے  شک ہی میں رہے، یہاں تک کہ جب انہوں نے  انتقال فرمایا تم بولے  ہرگز اب اللہ کوئی رسول نہ بھیجے  گا (ف ۷۵) اللہ یونہی گمراہ کرتا ہے  اسے  جو حد سے  بڑھنے  والا شک لانے  والا ہے  (ف ۷۶)

۷۴               یعنی حضر ت موسیٰ علیہ السلام سے قبل۔

۷۵               یہ بے دلیل بات تم نے یعنی تمہارے پہلوں نے خود گڑھی تاکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد آنے والے انبیاء کی تکذیب کرو اور انہیں جھٹلاؤ تو تم کفر پر قائم رہے، حضرت یوسف علیہ السلام کی نبوّت میں شک کرتے رہے اور بعد والوں کی نبوّت کے انکار کے لئے تم نے یہ منصوبہ بنا لیا کہ اب اللہ تعالیٰ کوئی رسول ہی نہ بھیجے گا۔

۷۶               ان چیزوں میں جن پر روشن دلیلیں شاہد ہیں۔

(۳۵) وہ جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑا کرتے  ہیں (ف ۷۷) بغیر کسی سند کے، کہ  انہیں ملی ہو،  کس قدر سخت بیزاری کی بات ہے  اللہ کے  نزدیک  اور ایمان لانے  والوں کے  نزدیک، اللہ یوں ہی مہر کر دیتا ہے  متکبر سرکش کے  سارے  دل پر (ف ۷۸)

۷۷               انہیں جھٹلا کر۔

۷۸               کہ اس میں ہدایت قبول کرنے کا کوئی محل باقی نہیں رہتا۔

(۳۶) اور فرعون بولا (ف ۷۹)  اے  ہامان! میرے  لیے  اونچا محل بنا شاید میں پہنچ جاؤں راستوں تک۔

۷۹               براہِ جہل و فریب اپنے وزیر سے۔

(۳۷) کا ہے  کے  راستے  آسمان کے  تو موسیٰ کے  خدا کو جھانک کر دیکھوں اور بیشک میرے  گمان میں تو وہ جھوٹا ہے  (ف ۸۰) اور یونہی فرعون کی نگاہ میں اس کا برا کام (ف ۸۱) بھلا کر دکھا گیا (ف ۸۲) اور وہ راستے  میں روکا گیا، اور فرعون کا داؤ (ف ۸۳) ہلاک ہونے  ہی کو تھا۔

۸۰               یعنی موسیٰ میرے سوا اور خدا بتانے میں، اور یہ بات فرعون نے اپنی قوم کو فریب دینے کے لئے کہی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ معبودِ برحق صرف اللہ تعالیٰ ہے اور فرعون اپنے آپ کو فریب کاری کے لئے معبود ٹھہراتا ہے۔ (اس واقعہ کا بیان سورۂ قصص میں گزر چکا ہے)

۸۱               یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا اور اس رسول کو جھٹلانا۔

۸۲               یعنی شیطانوں نے وسوسے ڈال کر اس کی برائیاں اس کی نظر میں بھلی کر دکھائیں۔

۸۳               جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آیات کو باطل کرنے کے لئے اس نے اختیار کیا۔

(۳۸) اور وہ ایمان والا بولا، اے  میری قوم! میرے  پیچھے  چلو میں تمہیں بھلائی کی راہ بتاؤں۔

(۳۹) اے  میری قوم! یہ دنیا کا جینا تو کچھ برتنا ہی ہے  (ف ۸۴)  اور  بیشک  وہ  پچھلا  ہمیشہ رہنے   کا  گھر ہے، (ف ۸۵)

۸۴               یعنی تھوڑی مدّت کے لئے نا پائیدار نفع ہے جس کو بقا نہیں۔

۸۵               مراد یہ ہے کہ دنیا فانی ہے اور آخرت باقی و جاودانی اور جاودانی ہی بہتر۔ اس کے بعد نیک اور بد اعمال اور ان کے انجام بتائے۔

(۴۰)  جو بُرا  کام  کرے   تو اسے   بدلہ  نہ  ملے   گا مگر  اتنا  ہی  اور  جو  اچھا  کام کرے  مرد  خواہ  عورت اور جو  مسلمان تو وہ جنت میں داخل کیے  جائیں گے  وہاں بے  گنتی رزق پائیں گے  (ف ۸۷)

۸۶               کیونکہ اعمال کی مقبولیّت ایمان پر موقوف ہے۔

۸۷               یہ اللہ تعالیٰ کا فضلِ عظیم ہے۔

(۴۱) اور اے  میری قوم مجھے  کیا ہوا میں تمہیں بلاتا ہوں نجات کی طرف (ف ۸۸) اور تم مجھے  بلاتے  ہو دوزخ کی طرف (ف ۸۹)

۸۸               جنّت کی طرف ایمان و طاعت کی تلقین کر کے۔

۸۹               کفرو شرک کی دعوت دے کر۔

(۴۲) مجھے  اس طرف بلاتے  ہو کہ اللہ کا انکا کروں اور ایسے  کو اس کا شریک کروں جو میرے  علم میں نہیں، اور میں تمہیں اس عزت والے  بہت بخشنے  والے  کی طرف بلاتا ہوں۔

(۴۳) آپ ہی ثابت ہوا کہ جس کی طرف مجھے  بلاتے  ہو (ف ۹۰) اسے  بلانا کہیں کام کا نہیں دنیا میں نہ آخرت میں (ف ۹۱) اور یہ ہمارا پھرنا اللہ کی طرف ہے  (ف ۹۲) اور یہ کہ حد سے  گزرنے  والے  (ف ۹۳) ہی دوزخی ہیں۔

۹۰               یعنی بت کی طرف۔

۹۱               کیونکہ وہ جماد، بے جان ہے۔

۹۲               وہی ہمیں جزا دے گا۔

۹۳               یعنی کافر۔

(۴۴) تو جلد وہ وقت آتا ہے  کہ جو میں تم سے  کہہ رہا ہوں،  اسے  یاد کرو گے  (ف ۹۴) اور میں اپنے  کام اللہ کو سونپتا ہوں، بیشک اللہ بندوں کو دیکھتا ہے  (ف ۹۵) 

۹۴               یعنی نزولِ عذاب کے وقت تم میری نصیحتیں یاد کرو گے اور اس وقت کا یاد کرنا کچھ کام نہ دے گا، یہ سن کر ان لوگوں نے اس مومن کو دھمکایا کہ اگر تو ہمارے دِین کی مخالفت کرے گا تو ہم تیرے ساتھ بُرے پیش آئیں گے، اس کے جواب میں اس نے کہا۔

۹۵               اور ان کے اعمال و احوال کو جانتا ہے پھر وہ مومن ان میں سے نکل کر پہاڑ کی طرف چلا گیا اور وہاں نماز میں مشغول ہو گیا، فرعون نے ہزار آدمی اس کی جستجو میں بھیجے، اللہ تعالیٰ نے درندے اس کی حفاظت پر مامور کر دیئے جو فرعونی اس کی طرف آیا درندوں نے اسے ہلاک کیا اور جو واپس گیا اور اس نے فرعون سے حال بیان کیا فرعون نے اس کو سولی دے دی تاکہ یہ حال مشہور نہ ہو۔

(۴۵) تو اللہ نے  اسے  بچا لیا ان کے  مکر کی برائیوں سے  (ف ۹۶) اور فرعون والوں کو برے  عذاب نے   آ گھیرا، (ف ۹۷)

۹۶               اور اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہو کر نجات پائی اگرچہ وہ فرعون کی قوم کا تھا۔

۹۷               دنیا میں تو یہ عذاب کہ وہ فرعون کے ساتھ غرق ہو گئے اور آخرت میں دوزخ۔

(۴۶)  آگ جس پر  صبح و شام پیش کیے  جاتے  ہیں (ف ۹۸) اور جس دن قیامت قائم ہو گی، حکم ہو گا فرعون والوں کو سخت تر عذاب میں داخل کرو۔

۹۸               اس میں جَلائے جاتے ہیں۔ حضرت ابنِ مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے فرمایا فرعونیوں کی روحیں سیاہ پرندوں کے قالب میں ہر روز دو ۲مرتبہ صبح و شام آگ پر پیش کی جاتی ہیں اور ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ آگ تمہارا مقام ہے اور قیامت تک ان کے ساتھ یہی معمول رہے گا۔ مسئلہ : اس آیت سے عذابِ قبر کے ثبوت پر استدلال کیا جاتا ہے۔ بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے کہ ہر مرنے والے پر اس کا مقام صبح و شام پیش کیا جاتا ہے جنّتی پر جنّت کا اور دوزخی پر دوزخ کا اور اس سے کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا ٹھکانہ ہے تاآنکہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ تجھ کو اس کی طرف اٹھائے۔

(۴۷) اور (ف ۹۹) جب وہ آگ میں باہم جھگڑیں گے  تو کمزور ان سے  کہیں گے   جو بڑے  بنتے  تھے  ہم تمہارے  تابع تھے  (ف ۱۰۰) تو کیا تم ہم سے  آگ کا کوئی حصہ گھٹا لو گے۔

۹۹               ذکر فرمائیے اے سیّدِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم اپنی قوم سے جہنّم کے اندر کفّار کے آپس میں جھگڑنے کا حال کہ۔

۱۰۰             دنیا میں اور تمہاری بدولت ہی کافر بنے۔

(۴۸) وہ تکبر والے  بولے  (ف ۱۰۱) ہم سب آگ میں ہیں (ف ۱۰۲) بیشک اللہ بندوں میں فیصلہ فرما چکا (ف ۱۰۳)

۱۰۱             یعنی کافروں کے سردار جواب دیں گے۔

۱۰۲             ہر ایک اپنی مصیبت میں گرفتار، ہم میں سے کوئی کسی کے کام نہیں آ سکتا۔

۱۰۳             ایمانداروں کو اس نے جنّت میں داخل کر دیا اور کافروں کو جہنّم میں، جو ہونا تھا ہو چکا۔

(۴۹) اور جو آگ میں ہیں اس کے  داروغوں سے  بولے  اپنے  رب سے  دعا کرو ہم پر عذاب کا ایک دن ہلکا کر دے، (ف ۱۰۴)

۱۰۴             یعنی دنیا کے ایک دن کی مقدار تک ہمارے عذاب میں تخفیف رہے۔

(۵۰) انہوں نے  کہا کیا تمہارے  پاس تمہارے  رسول نشانیاں نہ لاتے  تھے  (ف ۱۰۵) بولے  کیوں نہیں (ف ۱۰۶) بولے  تو تمہیں دعا کرو (ف ۱۰۷) اور کافروں کی دعا نہیں، مگر بھٹکتے  پھرنے  کو۔

۱۰۵             کیا انہوں نے ظاہر معجزات پیش نہ کئے تھے ؟ یعنی اب تمہارے لئے جائے عذر باقی نہ رہی۔

۱۰۶             یعنی کافر انبیاء کے تشریف لانے اور اپنے کفر کرنے کا اقرار کریں گے۔

۱۰۷             ہم کافر کے حق میں دعا نہ کریں گے اور تمہارا دعا کرنا بھی بےکار ہے۔

(۵۱) بیشک ضرور ہم اپنے  رسولوں کی مدد کریں گے  اور ایمان والوں کی (ف ۱۰۸) دنیا کی زندگی میں اور جس دن گواہ کھڑے  ہوں گے  (ف ۱۰۹)

۱۰۸             ان کو غلبہ عطا فرما کر اور حجّتِ قویّہ دے کر اور ان کے دشمنوں سے انتقام لے کر۔

۱۰۹             وہ قیامت کا دن ہے کہ ملائکہ رسولوں کی تبلیغ اور کفّار کی تکذیب کی شہادت دیں گے۔

(۵۲)  جس دن ظالموں کو ان کے  بہانے  کچھ کام نہ دیں گے  (ف ۱۱۰) اور ان کے  لیے  لعنت  ہے  اور ان کے  لیے  بُرا گھر (ف ۱۱۱)

۱۱۰             اور کافروں کا کوئی عذر قبول نہ کیا جائے گا۔

۱۱۱             یعنی جہنّم۔

(۵۳) اور بیشک ہم نے  موسیٰ کو رہنمائی عطا فرمائی (ف ۱۱۲) اور بنی اسرائیل کو کتاب کا  وارث کیا (ف ۱۱۳)

۱۱۲             یعنی توریت و معجزات۔

۱۱۳             یعنی توریت کا یا ان کے انبیاء پر نازل شدہ تمام کتابوں کا۔

(۵۴) عقلمندوں کی ہدایت اور نصیحت کو تو اے  محبوب۔

(۵۵) تم صبر کرو (ف ۱۱۴) بیشک اللہ کا وعدہ سچا  ہے  (ف ۱۱۵) اور اپنوں کے  گناہوں کی معافی  چاہو (ف ۱۱۶) اور اپنے  رب کی تعریف کرتے  ہوئے  صبح اور شام اس کی پاکی بولو (ف ۱۱۷)

۱۱۴             اپنی قوم کی ایذا پر۔

۱۱۵             وہ آپ کی مدد فرمائے گا آپ کے دِین کو غالب کرے گا آپ کے دشمنوں کو ہلاک کرے گا۔ کلبی نے کہا کہ آیتِ صبر آیتِ قتال سے منسوخ ہو گئی۔

۱۱۶             یعنی اپنی امّت کے۔ (مدارک)

۱۱۷             یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت پر مداومت رکھو۔ اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا اس سے پانچوں نمازیں مراد ہیں۔

(۵۶) وہ جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑا کرتے  ہیں بغیر کسی سند کے  جو انہیں ملی ہو (ف ۱۱۸) ان کے  دلوں میں نہیں مگر ایک بڑائی کی ہوس (ف ۱۱۹) جسے  نہ پہنچیں گے  (ف ۱۲۰) تو تم اللہ کی پناہ مانگو (ف ۱۲۱) بیشک وہی سنتا دیکھتا ہے۔

۱۱۸             ان جھگڑا کرنے والوں سے کفّارِ قریش مراد ہیں۔

۱۱۹             اور ان کا یہی تکبّر ان کے تکذیب و انکار اور کفر کے اختیار کرنے کا باعث ہوا کہ انہوں نے یہ گوارا نہ کیا کہ کوئی ان سے اونچا ہو، اس لئے سیّدِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے عداوت کی بایں خیالِ فاسد کہ اگر آپ کو نبی مان لیں گے تو اپنی بڑائی جاتی رہے گی اور امّتی اور چھوٹا بننا پڑے گا اور ہوَس رکھتے ہیں بڑے بننے کی۔

۱۲۰             اور بڑائی میسّر نہ آئے گی بلکہ حضور کی مخالفت و انکار ان کے حق میں ذلّت اور رسوائی کا سبب ہو گا۔

۱۲۱             حاسِدوں کے مَکر و کید سے۔

(۵۷) بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش آدمیوں کی پیدائش سے  بہت بڑی (ف ۱۲۲) لیکن بہت لوگ نہیں جانتے  (ف ۱۲۳)

۱۲۲             یہ آیت منکِرینِ بعث کے رد میں نازل ہوئی ان پر حجّت قائم کی گئی کہ جب تم آسمان و زمین کی پیدائش پر باوجود ان کی اس عظمت اور بڑائی کے اللہ تعالیٰ کو قادر مانتے ہو تو پھر انسان کو دوبارہ پیدا کر دینا اس کی قدرت سے کیوں بعید سمجھتے ہو۔

۱۲۳             بہت لوگوں سے مراد یہاں کفّار ہیں اور ان کے انکارِ بعث کا سبب ان کی بے علمی ہے کہ وہ آسمان و زمین کی پیدائش پر قادر ہونے سے بعث پر استدلال نہیں کرتے تو وہ مثل اندھے کے ہیں اور جو مخلوقات کے وجود سے خالق کی قدرت پر استدلال کرتے ہیں وہ مثل بینا کے ہیں۔

(۵۸) اور اندھا اور انکھیارا  برابر نہیں (ف ۱۲۴) اور نہ وہ جو ایمان لائے  اور اچھے  کام کیے   اور  بدکار (ف ۱۲۵) کتنا کم دھیان کرتے  ہو۔

۱۲۴             یعنی جاہل و عالِم یکساں نہیں۔

۱۲۵             یعنی مومنِ صالح اور بد کار یہ دونوں بھی برابر نہیں۔

(۵۹) بیشک قیامت ضرور آنے  وا لی ہے  اس میں کچھ شک نہیں لیکن بہت لوگ ایمان نہیں لاتے  (ف ۱۲۶)

۱۲۶             مرنے کے بعد زندہ کئے جانے پر یقین نہیں کرتے۔

(۶۰) اور تمہارے  رب نے  فرمایا مجھ سے  دعا کرو میں قبول کروں گا (ف ۱۲۷) بیشک وہ جو میری عبادت سے  اونچے  کھینچتے  (تکبر کرتے ) ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے  ذلیل ہو کر۔

۱۲۷             اللہ تعالیٰ بندوں کی دعائیں اپنی رحمت سے قبول فرماتا ہے اور ان کے قبول کے لئے چند شرطیں ہیں ایک اخلاص دعا میں، دوسرے یہ ہے کہ قلب غیر کی طرف مشغول نہ ہو، تیسرے یہ کہ وہ دعا کسی امرِ ممنوع پر مشتمل نہ ہو، چوتھے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر یقین رکھتا ہو، پانچویں یہ کہ شکایت نہ کرے کہ میں نے دعا مانگی قبول نہ ہوئی جب ان شرطوں سے دعا کی جاتی ہے قبول ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ دعا کرنے والے کی دعا قبول ہوتی ہے یا تو اس کی مراد دنیا ہی میں اس کو جلد دے دی جاتی ہے یا آخرت میں اس کے لئے ذخیرہ ہوتی ہے یا اس کے گناہوں کا کَفّارہ کر دیا جاتا ہے۔ آیت کی تفسیر میں ایک قول یہ بھی ہے کہ دعا سے مراد عبادت ہے اور قرآنِ کریم میں دعا بمعنیٰ عبادت بہت جگہ وارد ہے۔ حدیث شریف میں ہے : اَلدُّعَآ ءُ ھُوَ الْعِبَادَۃُ (ابوداؤد و ترمذی) اس تقدیر پر آیت کے معنیٰ یہ ہوں گے کہ تم میری عبادت کرو میں تمہیں ثواب دوں گا۔

(۶۱) اللہ ہے  جس نے  تمہارے  لیے  رات بنائی کہ اس میں آرام پاؤ اور دن بنایا آنکھیں کھولتا (ف ۱۲۸) بیشک اللہ لوگوں پر فضل والا ہے  لیکن بہت آدمی شکر نہیں کرتے۔

۱۲۸             کہ اس میں اپنے کام باطمینان انجام دو۔

(۶۲) وہ ہے  اللہ تمہارا رب ہر چیز کا بنانے  والا اس کے  سوا کسی کی بندگی نہیں تو کہاں اوندھے  جاتے  ہو (ف ۱۲۹)

۱۲۹             کہ اس کو چھوڑ کر بتوں کی عبادت کرتے ہو اور اس پر ایمان نہیں لاتے باوجود یہ کہ دلائل قائم ہیں۔

(۶۳) یونہی اوندھے  ہوتے  ہیں (ف ۱۳۰) وہ جو اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے  ہیں (ف ۱۳۱)

۱۳۰             اور حق سے پھرتے ہیں باوجود دلائل قائم ہونے کے۔

۱۳۱             اور ان میں حق جویانہ نظرو تأمّل نہیں کرتے۔

(۶۴) اللہ ہے  جس نے  تمہارے  لیے  زمین ٹھہراؤ بنائی (ف ۱۳۲) اور آسمان چھت (ف ۱۳۳) اور تمہاری تصویر کی تو تمہاری صورتیں اچھی بنائیں (ف ۱۳۴) اور تمہیں ستھری چیزیں (ف ۱۳۵) روزی دیں یہ ہے  اللہ تمہارا  رب، تو بڑی برکت والا ہے  اللہ رب سارے  جہان کا۔

۱۳۲             کہ وہ تمہاری قرار گاہ ہو زندگی میں بھی اور بعدِ موت بھی۔

۱۳۳             کہ اس کو مثل قبّہ کے بلند فرمایا۔

۱۳۴             کہ تمہیں راست قامت، پاکیزہ رو، متناسب الاعضاء کیا، بہائم کی طرح نہ بنایا کہ اوندھے چلتے۔

۱۳۵             نفیس مآ کل و مشارب۔

(۶۵) وہی زندہ ہے  (ف ۱۳۶) اس کے  سوا کسی کی بندگی نہیں تو اسے  پوجو نرے  اسی کے  بندے  ہو کر، سب خوبیاں اللہ کو جو سارے  جہاں کا رب۔

۱۳۶             کہ اس کی فنا محال ہے۔

(۶۶) تم فرماؤ میں منع کیا گیا ہوں کہ انہیں پوجوں جنہیں تم اللہ کے  سوا پوجتے  ہو (ف ۱۳۷) جبکہ میرے  پاس روشن دلیلیں (ف ۱۳۸)  میرے  رب کی طرف سے  آئیں اور مجھے  حکم ہوا ہے  کہ رب العالمین کے  حضور گردن رکھوں۔

۱۳۷             شانِ نزول :کفّارِ نابکار نے براہِ جہالت و گمراہی اپنے دِینِ باطل کی طرف حضور ِ پُر نور سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو دعوت دی تھی اور آپ سے بت پرستی کی درخواست کی تھی، اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔

۱۳۸             عقل و وحی کی توحید پر دلالت کرنے والی۔

(۶۷) وہی ہے  جس نے  تمہیں (ف ۱۳۹) مٹی سے  بنایا پھر (ف ۱۴۰) پانی کی بوند سے  (ف ۱۴۱) پھر خون کی پھٹک سے  پھرتمہیں نکالتا ہے  بچہ  پھر تمہیں باقی رکھتا ہے  کہ اپنی جوانی کو پہنچو (ف ۱۴۲) پھر اس لیے  کہ بوڑھے  ہو اور تم میں کوئی پہلے  ہی اٹھا لیا جاتا ہے  (ف ۱۴۳) اور اس لیے  کہ تم ایک مقرر وعدہ تک پہنچو (ف ۱۴۴) اور اس لیے  کہ سمجھو (ف ۱۴۵)

۱۳۹             یعنی تمہارے اصل اور تمہارے جدِّ اعلیٰ حضرت آدم علیہ السلام کو۔

۱۴۰             بعد حضرت آدم علیہ السلام کے ان کی نسل کو۔

۱یعنی قطر ۂ مَنی سے۔

۱اور تمہاری قوّت کامل ہو۔

۱یعنی بڑھاپے یا جوانی کو پہنچنے سے قبل ہی، یہ اس لئے کیا کہ تم زندگانی کرو۔

۱۴۴             زندگانی کے وقتِ محدود تک۔

۱۴۵             دلائلِ توحید کو اور ایمان لاؤ۔

(۶۸) وہی ہے  کہ جِلاتا ہے  اور مارتا ہے  پھر جب کوئی حکم فرماتا ہے  تو اس سے  یہی کہتا ہے  کہ ہو جا جبھی وہ ہو جاتا ہے  (ف ۱۴۶)

۱۴۶             یعنی اشیاء کا وجود اس کے ارادہ کا تابع ہے کہ اس نے ارادہ فرمایا اور شے موجود ہوئی، نہ کوئی کلفت ہے، نہ مشقّت ہے، نہ کسی سامان کی حاجت، یہ اس کے کمالِ قدرت کا بیان ہے۔

(۶۹) کیا تم نے  انہیں نہ دیکھا جو اللہ کی آیتوں میں جھگڑے  ہیں (ف ۱۴۷) کہاں پھیرے  جاتے  ہیں (ف ۱۴۸)

۱۴۷             یعنی قرآنِ پاک میں۔

۱۴۸             ایمان اور دِینِ حق سے۔

(۷۰) وہ جنہوں نے  جھٹلائی کتاب (ف ۱۴۹) اور جو ہم نے  اپنے  رسولوں کے  ساتھ بھیجا،(ف ۱۵۰) وہ عنقریب جان جائیں گے  (ف ۱۵۱)

۱۴۹             یعنی کفّار جنہوں نے قرآن شریف کی تکذیب کی۔

۱۵۰             اس کی بھی تکذیب کی اور اس کے رسولوں کے ساتھ جو چیز بھیجی، اس سے مراد یا تو وہ کتابیں ہیں جو پہلے رسول لائے یا وہ عقائدِ حقّہ جو تمام انبیاء نے پہنچائے مثل توحیدِ الٰہی اور بعث بعدِ موت کے۔

۱۵۱             اپنی تکذیب کا انجام۔

(۷۱) جب ان کی گردنوں میں طوق ہوں گے  اور زنجیریں (ف ۱۵۲) گھسیٹے  جائیں گے۔

۱۵۲             اور ان زنجیروں سے۔

(۷۲) کھولتے  پانی میں، پھر آگ میں دہکائے  جائیں گے  (ف ۱۵۳)

۱۵۳             اور وہ آگ باہر سے بھی انہیں گھیرے ہو گی اور ان کے اندر بھی بھری ہو گی۔ (اللہ تعالیٰ کی پناہ)

(۷۳) پھر ان سے  فرمایا جائے  گا کہاں گئے  وہ جو تم شریک بناتے  تھے  (ف ۱۵۴)

۱۵۴             یعنی وہ بت کیا ہوئے جن کی تم عبادت کرتے تھے۔

(۷۴) اللہ کے  مقابل، کہیں گے  وہ تو ہم سے  گم گئے  (ف ۱۵۵) بلکہ ہم پہلے  کچھ پوجتے  ہی نہ تھے  (ف ۱۵۶) اللہ یونہی گمراہ کرتا ہے  کافروں کو۔

۱۵۵             کہیں نظر ہی نہیں آتے۔

۱۵۶             بتوں کی پرستش کا انکار کر جائیں گے، پھر بت حاضر کئے جائیں گے اور کفّار سے فرمایا جائے گا کہ تم اور تمہارے یہ معبود سب جہنّم کا ایندھن ہو، بعض مفسّرین نے فرمایا :کہ جہنّمیوں کا یہ کہنا کہ ہم پہلے کچھ پوجتے ہی نہ تھے اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ اب ہمیں ظاہر ہو گیا کہ جنہیں ہم پوجتے تھے وہ کچھ نہ تھے کہ کوئی نفع یا نقصان پہنچا سکتے۔

(۷۵) یہ (ف ۱۵۷) اس کا بدلہ ہے  جو تم زمین میں باطل پر خوش ہوتے  تھے  (ف ۱۵۸) اور اس کا بدلہ ہے  جو تم اتراتے  تھے۔

۱۵۷             یعنی یہ عذاب جس میں تم مبتلا ہو۔

۱۵۸             یعنی شرک و بت پرستی و انکارِ بعث پر۔

(۷۶) جاؤ جہنم کے  دروازوں میں اس میں ہمیشہ رہنے، تو کیا ہی برا ٹھکانا مغروروں کا (ف ۱۵۹)

۱۵۹             جنہوں نے تکبّر کیا اور حق کو قبول نہ کیا۔

(۷۷) تو تم صبر کرو بیشک اللہ کا وعدہ (ف ۱۶۰) سچا ہے، تو اگر ہم تمہیں دکھا دیں (ف ۱۶۱) کچھ وہ چیز جس کا انہیں وعدہ دیا جاتا ہے  (ف ۱۶۲) یا تمہیں پہلے  ہی وفات دیں بہرحال انہیں ہماری ہی طرف پھرنا (ف ۱۶۳)

۱۶۰             کفّار پر عذاب فرمانے کا۔

۱۶۱             تمہاری وفات سے پہلے۔

۱۶۲             انواعِ عذاب سے مثل بدر میں مارے جانے کے جیسا کہ یہ واقع ہوا۔

۱۶۳             اور عذابِ شدید میں گرفتار ہونا۔

(۷۸) اور بیشک ہم نے  تم سے  پہلے  کتنے  رسول بھیجے  کہ جن میں کسی کا احوال تم سے  بیان فرمایا (ف ۱۶۴) اور کسی کا احوال نہ بیان فرمایا (ف ۱۶۵) اور کسی رسول کو نہیں پہنچتا کہ  کوئی نشانی لے  آئے  بے  حکم خدا کے، پھر جب اللہ کا حکم آئے  گا (ف ۱۶۶) سچا فیصلہ فرما دیا جائے  گا (ف ۱۶۷) اور باطل والوں کا وہاں خسارہ۔

۱۶۴             اس قرآن میں صراحت کے ساتھ۔

۱۶۵             قرآن شریف میں تفصیلاً و صراحتہً۔ (مرقاۃ) اور ان تمام انبیاء علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ نے نشانی اور معجزات عطا فرمائے اور ان کی قوموں نے ان سے مجادلہ کیا اور انہیں جھٹلایا، اس پر ان حضرات نے صبر کیا۔ اس تذکرہ سے مقصود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تسلّی ہے کہ جس طرح کے واقعات قوم کی طرف سے آپ کو پیش آرہے ہیں اور جیسی ایذائیں پہنچ رہی ہیں پہلے انبیاء کے ساتھ بھی یہی حالات گزر چکے ہیں انہوں نے صبر کیا آپ بھی صبر فرمائیں۔

۱۶۶             کفّار پر عذاب نازل کرنے کی بابت۔

۱۶۷             رسولوں کے اور ان کی تکذیب کرنے والوں کے درمیان۔

(۷۹) اللہ ہے  جس نے  تمہارے  لیے  چوپائے  بنائے  کہ کسی پر سوار ہو اور کسی کا گوشت کھاؤ۔

(۸۰) اور تمہارے  لیے   ان میں کتنے  ہی فائدے  ہیں (ف ۱۶۸) اور اس لیے  کہ تم ان کی پیٹھ پر اپنے  دل کی مرادوں کو پہنچو (ف ۱۶۹) اور ان پر (ف ۱۷۰) اور کشتیوں پر (ف ۱۷۱) سوار ہوتے  ہو۔

۱۶۸             کہ ان کے دودھ اور اُون وغیرہ کام میں لاتے ہو اور ان کی نسل سے نفع اٹھاتے ہو۔

۱۶۹             یعنی اپنے سفروں میں اپنے وزنی سامان ان کی پیٹھوں پر لاد کر ایک مقام سے دوسرے مقام پر لے جاتے ہو۔

۱۷۰             خشکی کے سفروں میں۔

۱۷۱             دریائی سفروں میں۔

(۸۱) اور وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے  (ف ۱۷۲) تو اللہ کی کونسی نشانی کا انکار کرو گے  (ف ۱۷۳)

۱۷۲             جو اس کی قدرت و وحدانیّت پر دلالت کرتی ہیں۔

۱۷۳             یعنی وہ نشانیاں ایسی ظاہر و باہر ہیں کہ ان کے انکار کی کوئی صورت ہی نہیں۔

(۸۲) کیا انہوں نے  زمین میں سفر نہ کیا کہ دیکھتے  ان سے  اگلوں کا کیسا انجام ہوا، وہ ان سے  بہت تھے  (ف ۱۷۴) اور ان کی قوت (ف ۱۷۵) اور زمین میں نشانیاں ان سے  زیادہ (ف ۱۷۶) تو ان کے  کیا کام آیا جو انہوں نے  کمایا، (ف ۱۷۷)

۱۷۴             تعداد ان کی کثیر تھی۔

۱۷۵             اور جسمانی طاقت بھی ان سے زیادہ تھی۔

۱۷۶             یعنی ان کے محل اور عمارتیں وغیرہ۔

۱۷۷             معنیٰ یہ ہیں کہ اگر یہ لوگ زمین میں سفر کرتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ منکِرینِ متمرّ دین کا کیا انجام ہوا اور وہ کس طرح ہلاک و برباد ہوئے اور ان کی تعداد ان کے زور اور ان کے مال کچھ بھی ان کے کام نہ آسکے۔

 (۸۳) تو جب ان کے  پاس ان کے  رسول روشن دلیلیں لائے، تو وہ اسی پر خوش رہے  جو ان کے  پاس دنیا کا علم تھا (ف ۱۷۸) اور انہیں پر الٹ پڑا جس کی ہنسی بناتے  تھے  (ف ۱۷۹)

۱۷۸             اور انہوں نے علمِ انبیاء کی طرف التفات نہ کیا، اس کی تحصیل اور اس سے انتفاع کی طرف متوجّہ نہ ہوئے بلکہ اس کو حقیر جانا اور اس کی ہنسی بنائی اور اپنے دنیوی علم کو جو حقیقت میں جہل ہے، پسند کرتے رہے۔

۱۷۹             یعنی اللہ تعالیٰ کا عذاب۔

(۸۴)  پھر جب انہوں نے  ہمارا عذاب دیکھا بولے  ہم ایک اللہ پر ایمان لائے  اور جو اس کے  شریک کرتے  تھے  ان کے  منکر ہوئے  (ف ۱۸۰)

۱۸۰             یعنی جن بتوں کو اس کے سوا پوجتے تھے ان سے بیزار ہوئے۔

(۸۵) تو ان کے  ایمان نے  انہیں کام نہ دیا جب انہوں  نے  ہمارا عذاب دیکھ لیا، اللہ کا دستور جو اس کے  بندوں میں گزر چکا (ف ۱۸۱) اور وہاں کافر  گھاٹے  میں رہے  (ف ۱۸۲)

۱۸۱             یہی ہے کہ نزولِ عذاب کے وقت ایمان لانا نافع نہیں ہوتا، اس وقت ایمان قبول نہیں کیا جاتا اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے کہ رسولوں کے جھٹلانے والوں پر عذاب نازل کرتا ہے۔

۱۸۲             یعنی ان کا گھاٹا اور ٹوٹا اچھی طرح ظاہر ہو گیا۔