تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الزّخرُف

نام

آیت ۳۵ کے لفظ : وَزُخْرُ فاً سے ماخوذ ہے۔  مطلب یہ ہے کہ وہ سورہ جس میں لفظ زُخْرُفْ آیا ہے۔  

زمانۂ نزول

کسی معتبر روایت سے معلوم نہیں ہوسکا ہے۔  لیکن اس کے مضامین پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سورہ بھی اسی زمانے میں نزول ہوئی ہے جس میں المومن، حٰم السجدہ اور الشوریٰ نازل ہوئیں۔ یہ ایک ہی سلسلے کی سورتیں معلوم ہوتی ہیں جن کا نزول اس وقت سے شروع ہوا جب کفار مکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جان کے درپے ہو گئے تھے۔  شب و روز اپنی محفلوں میں بیٹھ بیٹھ کر مشورے کر رہے تھے کہ آپ کو کس طرح ختم کیا جائے، اور ایک حملہ آپ کی جان پر ہو بھی چکا تھا۔ اس صورت حال کی طرف آیات ۷۹۔ ۸۰۔ میں صاف اشارہ موجود ہے۔  

موضوع اور مباحث

اس سورے میں پورے زور کے ساتھ قریش اور اہل عرب کے ان جاہلانہ عقائد و اوہام پر تنقید کی گئی ہے جن پر وہ اصرار کیے چلے جا رہے تھے،  اور نہایت محکم و دل نشین طریقے سے ان کی نا معقولیت کا پردہ فاش کیا گیا ہے،  تا کہ معاشرے کا ہر فرد، جس کے اندر کچھ بھی معقولیت موجود ہو، یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے کہ آخر یہ کیسی جہالتیں ہیں جن سے ہماری قوم بری طرح چمٹی ہوئی ہے،  اور جو شخص ہمیں ان کے چکر سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے اس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئی ہے۔  

کلام کا آغاز اس طرح کیا گیا ہے کہ تم لوگ اپنی شرارتوں کے بل پر یہ چاہتے ہو کہ نزول روک دیا جائے، مگر اللہ نے کبھی اشرار کی وجہ سے انبیاء کی بعثت اور کتابوں کی تنزیل نہیں روکی ہے،  بلکہ ان ظالموں کو ہلاک کر دیا ہے جس اس کی ہدایت کا راستہ روک کر کھڑے ہوئے تھے۔  یہی کچھ وہ اب بھی کرے گا۔ آگے چل کر آیات ۴۱۔ ۴۳۔ اور ۷۹۔ ۸۰ میں یہ مضمون پھر دہرایا گیا ہے۔  جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی جان کے درپے تھے ان کو سناتے ہوئے حضور سے فرمایا گیا ہے کہ تم خواہ زندہ رہو یا نہ رہو، ان ظالموں کو ہم سزا دے کر رہیں گے۔  اور خود ان لوگوں کو صاف صاف متنبہ کر دیا گیا ہے کہ اگر تم نے ہمارے نبی  کے خلاف ایک اقدام کا فیصلہ کر لیا ہے تو ہم بھی پھر ایک فیصلہ کن قدم اٹھائیں گے۔  

اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ وہ مذہب کیا ہے جسے یہ لوگ سینے سے لگائے ہوئے ہیں، اور وہ دلائل کیا ہیں جن کے بل بوتے پر یہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

خود مانتے ہیں کہ زمین و آسمان کا، اور ان کا اپنا اور ان کے معبودوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے۔  یہ بھی جانتے اور مانتے ہیں کہ جن نعمتوں سے یہ فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ سب اللہ کی دی ہوئی ہیں۔ پھر بھی دوسروں کو اللہ کے ساتھ خدائی میں شریک کرنے پر اصرار کیے چلے جاتے ہیں۔

بندوں کو اللہ کی اولاد قرار دیتے ہیں۔ اور اولاد بھی بیٹیاں جنہیں خود اپنے لیے ننگ و عار سمجھتے ہیں۔ فرشتوں کو انہوں نے دیویاں قرار دے رکھا ہے۔  ان کے بت عورتوں کی شکل کے بنا رکھے ہیں۔ انہیں زنانہ کپڑے اور زیور پہناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی بیٹیاں ہیں۔ ان کی عبادت کرتے ہیں اور ان ہی سے منتیں اور مرادیں مانگتے ہیں۔ آخر انہیں کیسے معلوم ہوا کہ فرشتے عورتیں ہیں ؟

ان جہالتوں پر ٹوکا جاتا ہے تو تقدیر کا بہانہ پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر اللہ ہمارے اس کام کو پسند نہ کرتا تو ہم کیسے ان بتوں کی پرستش کر سکتے تھے۔  حالانکہ اللہ کی پسند اور نا پسند معلوم ہونے کا ذریعہ اس کی کتابیں ہیں نہ کہ وہ کام جو دنیا میں اس کی مشیت کے تحت ہو رہے ہیں۔ مشیت کے تحت تو ایک بت پرستی ہی نہیں،  چوری،  زنا، ڈاکہ، قتل، سب ہی کچھ ہو رہا ہے۔  کیا اس دلیل سے ہر اس برائی کو جائز و برحق قرار دیا جائے گا جو دنیا میں ہو رہی ہے ؟

پوچھا جاتا ہے کہ اپنے اس شرک کے لیے تمہارے پاس اس غلط دلیل کے سوا کوئی اور سند بھی ہے،  تو جواب دیتے ہیں کہ باپ دادا سے یہ کام یوں ہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔  گویا ان کے نزدیک کسی مذہب کے حق ہونے کے لیے یہ کافی دلیل ہے۔  حالانکہ ابراہیم علیہ السلام،  جن کی اولاد ہونے پر ہی ان کے سارے فخر و امتیاز کا مدار  ہے،  باپ دادا کے مذہب کو لات کار کر گھر سے نکل گئے تھے اور انہوں نے اسلاف کی ایسی اندھی تقلید کو رد کر دیا تھا جس کا ساتھ کوئی دلیل معقول نہ دیتی ہو۔ پھر اگر ان لوگوں کو اسلاف کی تقلید ہی کرنی تھی تو اس کے لیے بھی اپنے بزرگ ترین اسلاف، ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کو چھوڑ کر انہوں نے اپنے جاہل ترین اسلاف کا انتخاب کیا !

ان سے کہا جاتا ہے  کہ کیا کبھی کسی نبی نے اور خدا کی طرف سے آئی ہوئی کسی کتاب نے بھی یہ تعلیم دی ہے کہ اللہ کے ساتھ دوسرے بھی عبادت کے مستحق ہیں، تو یہ عیسائیوں کے اس فعل کو دلیل میں پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے عیسیٰ ابن مریم کو ابنُ اللہ مانا اور ان کے پرستش کی۔  حالانکہ سوال یہ نہ تھا کہ کسی نبی کی امت نے شرک کیا ہے یا نہیں، بلکہ یہ تھا کہ خود کسی نبی نے شرک کی تعلیم دی ہے۔  ؟ عیسیٰ ابن مریمؑ نے کب کہا تھا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں اور تم میری عبادت کرو۔ ان کی اپنی تعلیم تو وہی تھی جو دنیا کے ہر بنی نے دی ہے کہ میرا رب بھی اللہ ہے اور تمہارا رب بھی،  اسی کی تم عبادت کرو۔

محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت تسلیم کرنے میں انہیں تامل ہے تو اس بنا پر کہ ان پاس مال و دولت اور ریاست وجاہت تو ہے ہی نہیں۔ کہتے ہیں کہا اگر خدا ہمارے ہاں کسی کو نبی بنانا چاہتا تو ہمارے دونوں شہروں (مکہ و طائف ) کے بڑے آدمیوں میں سے کسی کو بناتا۔  اسی بنا پر فرعون نے بھی حضرت موسیٰ کو حقیر جانا تھا اور کہا تھا کہ آسمان کا بادشاہ اگر مجھ زمین کے بادشاہ کے پاس کوئی ایلچی بھیجتا تو اسے سونے کے کنگن پہنا کر، فرشتوں کی ایک فوج اس کی اردلی میں دے کر بھیجتا۔ یہ فقیر کہاں سے آ کھڑا ہوا ؟ فضیلت مجھے حاصل ہے کہ مصر کی بادشاہی میری ہے اور دریائے نیل کی نہریں میری ماتحتی میں چل رہی ہیں۔ یہ شخص میرے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے کہ نہ مال رکھتا ہے نہ اقتدار۔

اس طرح کفار کی ایک ایک  جاہلانہ بات پر تنقید  کرنے اور اس کے نہایت معقول و مد لل جوابات دینے کے بعد آخر میں صاف صاف کہا گیا ہ کہ نہ خدا کی کوئی اولاد ہے،  نہ آسمان و زمین کے خدا الگ الگ ہیں، نہ اللہ کے ہاں کوئی ایسا شفیع ہے جو جان بوجھ کر گمراہی اختیار کرنے والوں کے اس کی سزا سے بچا سکے اللہ کی ذات اس سے منزّہ ہے کہ کوئی اس کی اولاد ہو۔ وہی اکیلا ساری کائنات کا خدا ہے،  باقی سب اس کے بندے ہیں نہ کہ اس کے ساتھ خدائی صفات و اختیارات میں شریک۔ اور شفاعت اس کے ہاں صرف وہی کر سکتے ہیں جو خود حق پرست ہوں، اور ان ہی کے لیے کر سکتے ہیں جنہوں نے دنیا میں حق پرستی اختیار کی ہو۔ 

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
حٓ۔  مٓ۔  قسم ہے اس واضح کتاب کی کہ ہم نے اسے عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم لوگ اسے سمجھو (۱)۔ اور دو حقیقت یہ امّ الکتاب میں ثبت ہے (۲)، ہمارے ہاں بڑی بلند مرتبہ اور حکمت سے لبریز کتاب(۳)۔
اب کیا ہم تم سے پیزار ہو کر یہ درس نصیحت تمہارے ہاں بھیجنا چھوڑ دیں صرف اس لیے کہ تم حد سے گزر ہوئے لوگ ہو؟(۴) پہلے گزری ہوئی قوموں میں بھی بارہا ہم نے نبی بھیجے ہیں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی نبی ان کے ہاں آیا ہو اور انہوں نے اس کا مذاق نہ اڑایا ہو(۵)۔ پھر جو لوگ ان سے بدر جہا زیادہ طاقتور تھے انہیں ہم نے ہلاک کر دیا،  پچھلی قوموں کی مثالیں گزر چکی ہیں(۶)۔
اگر تم ان لوگوں سے پوچھو زمین اور آسمانوں کو کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ انہیں اسے زبردست علیم ہستی نے پیدا کیا ہے۔ وہی نا جس نے تمہارے لیے اس زمین کو گہوارہ بنا یا (۷) اور اس میں تمہاری خاطر راستے بنا دیے تاکہ تم اپنی منزل مقصود کی راہ پا سکو(۹)۔ جس نے ایک خاص مقدار میں آسمان سے پانی اُتارا(۱۰) اور اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کو جِلا  اُٹھایا  اسی طرح ایک روز تم زمین سے برآمد کیے جاؤ گے (۱۱)۔  وہی جس نے یہ تمام جوڑے پیدا کیے (۱۲)، اور جس نے تمہارے لیے کشتیوں اور جانوروں کو سواری بنایا تاکہ تم ان کی پشت پر چڑھو اور جب ان پر بیٹھو تو اپنے رب کا احسان یاد کرو اور کہو کہ ’’ پاک ہے وہ جس نے ہمارے لیے ان چیزوں کو مسخر کر دیا ورنہ ہم انہیں قابو میں لانے کی طاقت نہ رکھتے تھے (۱۳)، اور ایک روز ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے ‘‘ (۱۴)۔
(یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ) ان لوگوں نے اس کے بندوں میں سے بعض کو اس کا جز بنا ڈالا (۱۵)، حقیقت یہ ہے کہ انسان کھلا احسان فراموش ہے۔ ع

 

۱۔ قرآن مجید کی قسم جس بات پر کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف ’’ہم‘‘ ہیں نہ کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم۔ اور قسم کھانے کے لیے قرآن کی جس صفت کا انتخاب کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یہ ’’کتاب مبین‘‘ ہے۔  اس صفت کے ساتھ قرآن کے کلام الٰہی ہونے پر خود قرآن کی قسم کھانا آپ سے آپ یہ معنی دے رہا ہے کہ لوگو، یہ کھلی کتاب تمہارے سامنے موجود ہے،  اسے آنکھیں کھول کر دیکھو، اس کے صاف صاف غیر مبہم مضامین، اس کی زبان،  اس کا ادب،  اس کی حق و باطل کے درمیان ایک واضح خط امتیاز کھینچ دینے والی تعلیم، یہ ساری چیزیں اس حقیقت کی صریح شہادت دے رہی ہیں کہ اس کا مصنف خداوند عالم کے سوال کوئی دوسرا ہو نہیں سکتا۔  

پھر یہ جو فرمایا کہ ’’ ہم نے اسے عربی زبان کا قرآن بنایا ہے تاکہ تم اسے سمجھو، ‘‘ اس کے دو مطلب ہیں۔  ایک یہ کہ یہ کسی غیر زبان میں نہیں ہے،  بلکہ تمہاری اپنی زبان میں ہے،  اس لیے اسے جانچنے پرکھنے اور اس کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے میں تمہیں کوئی دقت پیش نہیں آ سکتی۔  یہ کسی عجمی زبان میں ہوتا تو تم یہ عذر کر سکتے تھے کہ ہم اس کے کلام الٰہی ہونے یا نہ ہونے کی جانچ کیسے کریں جب کہ ہماری سمجھ ہی میں یہ نہیں آ رہا ہے۔  لیکن اس عربی قرآن کے متعلق تم یہ عذر کسے کر سکتے ہو۔ اس کا ایک ایک لفظ تمہارے لیے واضح  ہے۔  اس کی ہر عبارت اپنی زبان اور اپنے مضمون،  دونوں کے لحاظ سے تم پر روشن ہے۔  خود دیکھ لو کہ کیا یہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا یا کسی دوسرے عرب کا کلام ہو سکتا ہے۔  دوسرا مطلب اس ارشاد کا یہ ہے کہ اس کتاب کی زبان ہم نے عربی اس لیے رکھی ہے کہ ہم عرب قوم کو مخاطب کر رہے ہیں اور وہ عربی زبان کے قرآن ہی کو سمجھ سکتی ہے۔  عربی میں قرآن نازل کرنے کی اس صریح وجہ کو نظر انداز کر کے جو شخص صرف اس بنا پر اسے کلام الٰہی کے بجائے کلام محمدؐ قرار دیتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی مادری زبان بھی عربی ہے تو وہ بڑی زیادتی کرتا ہے۔  (ان دوسرے مطلب کو سمجھنے کے لیے تفہیم القرآن،  جلد چہارم، سورہ حٰم السجدہ، آیت ۴۴ مع حاشیہ نمبر ۵۴ ملاحظہ فرمائیں)

۲۔ ’’ امّ الکتاب ‘‘ سے مراد ہے ’’ اصل الکتاب‘‘ یعنی وہ کتاب جس سے تمام انبیاء علیہم السلام پر نازل ہونے والی کتابیں ماخوذ ہیں۔ اسی کو سورہ واقعہ میں : کِتَابٌ  مَّکْنُوْنٌ (پوشیدہ اور محفوظ کتاب) کہا گیا ہے،  اور سورہ بُروج میں اس کے لیے لوح محفوظ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، یعنی ایسی لوح جس کا لکھا مِٹ نہیں سکتا اور جو ہر قسم کی در اندازی سے محفوظ ہے۔  قرآن کے متعلق یہ فرم کر کہ یہ ’’ امّ الکتاب‘‘ میں ہے  ایک اہم حقیقت پر متنبہ فرمایا گیا ہے۔  اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف زمانوں میں مختلف ملکوں اور قوموں کی ہدایت کے لیے مختلف انبیاء پر مختلف زبانوں کتابیں نازل ہوتی رہی ہیں، کگر ان سے میں دعوت ایک ہی عقیدے کی طرف دی گئی ہے،  حق ایک ہی سچائی کو قرار دیا گیا ہے،  خیر و شر کا ایک ہی معیار پیش کیا گیا ہے،  اخلاق و تہذیب کے یکساں اصول بیان کیے گئے ہیں اور فی ا لجملہ ایک ہی دین ہے جسے یہ سب کتابیں لے کر آئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب کی اصل ایک ہے اور صرف عبارتیں مختلف ہیں۔ ایک ہی معنی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک بنیادی کتاب میں ثبت ہیں اور جب کبھی ضرورت پیش آئی ہے،  اس نے کسی نبی کو مبعوث کر کے وہ معنی حال اور موقع کی مناسبت سے ایک خاص عبارت اور خاص زبان میں نازل فرما دیے ہیں۔  اگر بالفرض اللہ تعالیٰ کا فیصلہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو عرب کے بجائے کسی اور قوم میں پیدا کرنے کا ہوتا تو یہی قرآن وہ حضورؐ پر اسی قوم کی زبان میں نازل کرتا۔ اس میں بات اسی قوم اور ملک کے حالات کے لحاظ سے کی جاتی، عبارتیں کچھ اور ہوتیں، زبان بھی دوسری ہوتی، لیکن بنیادی طور پر تعلیم و ہدایت یہی ہوتی، اور وہ یہی قرآن ہوتا (اگرچہ قرآن عربی نہ ہوتا اسی مضمون کو سورہ شعراء میں یوں ادا کیا گیا ہے : وَ اِنَّہٗ  لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ............ بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ وَّ اِ نَّہٗ  لَفِیْ زُبُرِ الْاَ وَّ لِیْنَ (۱۹۲۔ ۱۹۶)۔ ’’ یہ رب العٰلمین کی نازل کردہ کتاب ہے ............. صاف صاف عربی زبان میں،  اور یہ اگلے لوگوں کی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ ‘‘(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم،  صفحات ۵۳۴۔  ۵۳۵)

۳۔ اس فقرے کا تعلق کتاب مبین سے بھی ہے اور امّ الکتاب سے بھی۔  یعنی یہ تعریف قرآن کی بھی ہے اور اس اصل کتاب کی بھی جس سے قرآن منقول یا ماخوذ ہے۔  اس تعریف سے یہ بات ذہن نشین کرنی مقصود ہے کہ کوئی شخص اپنی نادانی سے اس کتاب کی قدر و منزلت نہ پہچانے اور اس کی حکیمانہ تعلیم سے فائدہ نہ اٹھائے تو یہ اس کی اپنی بد قسمتی ہے۔  کوئی اگر اس کی حیثیت کو گرانے کی کوشش کرے اور اس کی باتوں میں کیڑے ڈالے تو یہ اس کی اپنی رذالت ہے۔  کسی کی ناقدری سے یہ بے قدر نہیں ہو سکتی، اور کسی کے خاک ڈالنے سے اس کی حکمت چھپ نہیں سکتی۔ یہ تو بجائے خود ایک بلند مرتبہ کتاب ہے جسے اس کی بے نظیر تعلیم،  اس کی معجزانہ بلاغت،  اس کی بے عیب حکمت اور اس کے عالی شان مصنف کی شخصیت نے بلند کیا ہے۔  یہ کسی کے گرائے کیسے گر جائے گی۔ آگے چل کر آیت ۴۴ میں ریش کو خاص طور پر اور اہل عرب کو بالعموم یہ بتایا گیا ہے کہ جس کتاب کی تم اس طرح نا قدری کر رہے ہو اس کے نزول نے تم کو ایک بہت بڑے شرف کا موقع عطا کیا ہے جسے اگر تم نے کھو دیا تو خدا کے سامنے تمہیں سخت جوابدہی کرنی ہو گی۔ (ملاحظہ ہو حاشیہ ۳۹)

۴۔  اس ایک فقرے میں وہ پوری داستان سمیٹ دی گئی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے اعلان نبوت کے وقت سے لے کر ان آیات کے نزول تم پچھلے چند برس میں ہو گزری تھی۔ یہ فقرہ ہمارے سامنے یہ تصویر کھینچتا ہے کہ ایک قوم صدیوں سے سخت جہالت،  پستی اور بد حالی میں مبتلا ہے۔  یکایک اللہ تعالیٰ کی نظر عنایت اس پر ہوتی ہے۔  وہ اس کے اندر ایک بہترین رہنما اٹھاتا ہے اور اسے جہالت کی تاریکیوں سے  نکالنے کے لیے خود اپنا کلام نازل کرتا ہے،  تاکہ وہ غفلت سے بیدار ہو،  جاہلانہ اوہام کے چکر سے نکلے اور حقیقت سے آگاہ ہو کر زندگی کا صحیح راستہ اختیار کر لے۔  مگر اس قوم کے نادان لوگ اور اس کے خود غرض قبائلی سردار اس رہنما کی پیچھے ہاتھ دھو کر  پڑ جاتے ہیں اور اسے ناکام کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ جوں جوں سال پر سال گزرتے جاتے ہیں، ان کی عداوت اور شرارت بڑھتی چلی جاتی ہے،  یہاں تک کہ وہ اسے قتل کر دینے کی ٹھان لیتے ہیں۔ اس حالت میں ارشاد ہو رہا ہے کہ کیا تمہاری اس نالائقی  کی وجہ سے ہم تمہاری اصلاح کی کوشش چھوڑ دیں ؟ اس درس نصیحت کا سلسلہ روک دیں ؟ اور تمہیں اسی پستی میں پڑا رہنے دیں جس میں تم صدیوں سے گرے ہوئے ہو ؟ کیا تمہارے نزدیک واقعی ہماری رحمت کا تقاضا یہی ہونا چاہیے ؟ تم نے کچھ سوچا بھی خدا کے فضل کو ٹھکرانا اور حق سامنے آ جانے کے بعد باطل پر اصرار کرنا تمہیں کس انجام سے دوچار کرے گا۔ ؟

۵۔ یعنی یہ بیہودگی اگر نبی اور کتاب کے بھیجنے میں مانع ہوتی تو کسی قوم میں بھی کوئی نبی نہ آتا،  نہ کوئی کتاب بھیجی جاتی۔

۶۔ یعنی خاص لوگوں کی بیہودگی کا نتیجہ یہ کبھی نہیں ہوا کہ پوری نوع انسانی کو نبوت اور کتاب کی رہنمائی سے محروم کر  دیا جاتا،  بلکہ اس کا نتیجہ ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ جو لوگ باطل پرستی کے نشے اور اپنی وقت کے گھمنڈ میں بد مست ہو کر انبیاء کا مذاق اڑانے سے باز نہ آئے انہیں آخر کار تباہ کر دیا گیا۔ پھر جب اللہ کا قہر ٹوٹ پڑا تو جس وقت کے بل پر یہ قریش کے چھوٹے چھوٹے سردار اکڑ رہے ہیں اس سے ہزاروں گُنی زیادہ طاقت رکھنے والے بھی مچھر اور پسّو کی طرح مسل کر رکھ دیئے  گئے۔

۷۔ دوسرے مقامات پر تو زمین کو فرش سے تعبیر کیا گیا ہے مگر یہاں اس کے لیے گہوارے کا لفظ استعمال فرمایا گیا ہے۔  یعنی جس طرح ایک بچہ اپنے پنگھوڑے میں آرام سے لیٹا ہوتا ہے،  ایسے آرام کی جگہ تمہارے لیے اس عظیم الشان کُرے کو بنا دیا جو فضا میں معلق ہے۔  جو ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے اپنے محور پر گھوم رہا ہے۔  جو ۶۶۶۰۰ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے رواں دواں ہے۔  جسکے پیٹ میں وہ آگ بھری ہے کہ پتھروں کو پگھلا دیتی ہے اور آتش فشانوں کی شکل میں لاوا اُگل کر کبھی کبھی تمہیں بھی اپنی شان دکھا دیتی ہے۔  مگر اس کے باوجود تمہارے خالق نے اسے اتنا پر سکون بنا دیا ہے کہ تم آرام سے اس پر سوتے ہو اور تمہیں ذرا جھٹکا تک نہیں لگتا۔ تم اس پر رہتے ہو اور تمہیں یہ محسوس تک نہیں ہوتا کہ یہ کرہ معلق ہے اور تم اس پر سر کے بل لٹکے ہوئے ہو۔  تم اطمینان سے اس پر چلتے پھرتے ہو اور تمہیں یہ خیال تک نہیں آ تا کہ تم بندوق کی گولی سے بھی زیادہ تیز رفتار گاڑی پر سوار ہو، حالانکہ اس کی ایک معمولی سی جھر جھری کبھی زلزلے کی شکل میں آ کر تمہیں خبر دے دیتی ہے کہ یہ کس بلا کا خوفناک دیو ہے جسے اللہ نے تمہارے لیے مسخر کر رکھا ہے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد سوم، صفحات ۵۹۰ تا ۵۹۲)

۸۔  پہاڑوں کے بیچ بیچ میں درّے، اور پھر کوہستانی اور میدانی علاقوں میں دریا وہ قدرتی راستے ہیں جو اللہ نے زمین کی پشت پر بنا دیے  ہیں۔ انسان ان ہی کی مدد سے کرہ زمین پر پھیلا ہے۔  اگر پہاڑی سلسلوں کو کسی شگاف کے بغیر بالکل ٹھوس دیوار کی شکل میں کھڑا کر دیا جاتا اور زمین میں کہیں دریا، ندیاں، نالے نہ ہوتے تو آدمی جہاں پیدا ہوا تھا اسی علاقے میں مقید ہو کر رہ جاتا۔ پھر اللہ مزید فضل یہ فرمایا کہ تمام روئے زمین کو یکساں بنا کر نہیں رکھ دیا، بلکہ اس میں قسم قسم کے ایسے امتیازی نشانات (Land marks) قائم کر دیے جن کی مدد سے انسان مختلف علاقوں کو پہچانتا ہے اور ایک علاقے اور دوتے علاقے کا فرق محسوس کرتا ہے۔  یہ دوسرا اہم ذریعہ ہے جس کی بدولت انسان کے لیے زمین میں نقل و حرکت آسان ہوئی۔  اس نعمت کی قدر آدمی کو اس وقت معلوم ہوتی ہے جب اسے کسی لق و دق صحرا میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے،  جہاں سینکڑوں میل تک زمین ہر قسم کے امتیازی نشانات سے خالی ہوتی ہے اور آدمی کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہاں سے کہاں پہنچا ہے اور آگے کدھر جائے۔

یہ فقرہ بیک وقت دو معنی دے رہا ہے۔  ایک معنی یہ کہ تم ان قدرتی راستوں اور ان نشانات راہ کی مدد سے اپنا راستہ معلوم کر سکو اور اس جگہ تک پہنچ سکو جہاں جانا چاہتے ہو۔  دوسرے معنی یہ کہ الل جل شانہ کی اس کاری گری کو دیکھ کر تم ہدایت حاصل کر سکو، حقیقت نفس الامری کو پا سکو،  اور یہ سمجھ سکو کہ زمین میں یہ انتظام اَلل ٹپ نہیں ہو گیا ہے،  نہ بہت سے خداؤں نے مل کر یہ تدبیر کی ہے بلکہ ایک رب حکیم ہے جس نے اپنی مخلوق کی ضروریات کا ملحوظ رکھ کر پہاڑوں اور میدانوں میں یہ راستے بنائے ہیں اور زمین کے ایک ایک خطے کو بے شمار طریقوں سے ایک الگ شکل دی ہے جس کی بدولت انسان ہر خطے کو دوسرے سے ممیز کر سکتا ہے۔  

۱۰۔  یعنی ہر علاقے کے لیے بارش کی ایک اوسط مقدار مقرر کی جو مدت ہائے دراز تک سال بہ سال ایک ہی ہموار طریقے سے چلتی رہتی ہے۔  اس میں ایسی بے قاعدگی نہیں رکھی کہ کبھی سال میں دو انچ بارش ہو اور کبھی دو سو انچ ہو جائے۔  پھر وہ اس کو مختلف زمانوں میں اور مختلف اوقات میں جگہ جگہ پھیلا کر اس طرح برساتا ہے کہ بالعموم وہ وسیع پیمانے پر زمین کی بار آوری کے لیے نافع ہوتی ہے۔  اور یہ بھی اس کی حکمت ہی ہے کہ زمین کے بعض حصوں کو اس نے بارش سے قریب قریب بالکل محروم کر کے بے آب و گیاہ صحرا بنا دیے ہیں،  اور بعض دوسرے حصوں میں وہ کبھی قحط ڈال دیتا ہے اور کبھی طوفانی بارش کر دیتا ہے تاکہ آدمی یہ جان سکے کہ زمین کے آباد علاقوں میں بارش اور اس کے عام باقاعدگی کتنی بڑی نعمت ہے،  اور یہ بھی اس کو یاد رہے کہ اس نظام پر کوئی دوسری طاقت حکمراں ہے جس کے فیصلوں کے آگے کسی کی کچھ پیش نہیں جاتی۔  کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ ایک  ملک میں بارش کے عام اوسط کو بدل سکے،  یا زمین کے وسیع علاقوں پر اس کی تقسیم میں فرق ڈال سکے،  یا کسی آتے ہوئے طوفان کو روک سکے،  یا روٹھے ہوئے بادلوں کو منا کر اپنے ملک کی طرف کھینچ لائے اور انہیں برسنے پر مجبور کر دے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، صفحات ۵۰۲۔ ۵۰۳۔ جلد سوم،  ص ۲۷۰۔ ۲۷۲)۔

۱۱۔  یہاں پانی کے ذریعہ سے زمین کے اندر روئیدگی کی پیدائش کو بیک وقت دو چیزوں کی دلیل قرار دیا گیا ہے۔  ایک یہ کہ یہ کام خدائے واحد کی قدرت و حکمت سے ہو رہے ہیں، کوئی دوسرا اس کار خدائی میں اس کا شریک نہیں ہے۔  دوسرے یہ کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی ہو سکتی ہے اور ہو گی۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، ص ۵۴۹۔ ۵۵۰۔ جلد سوم،  ص ۲۰۲۔ ۲۰۵۔ ۵۸۹۔ ۵۹۰۔ ۷۴۲۔ ۷۴۳۔ ۷۴۸۔ ۷۴۹۔ جلد چہارم، سورہ فاطر، حاشیہ ۱۹، سورہ یٰسٓ،  حاشیہ ۲۹)۔

۱۲۔ جوڑوں سے مراد صرف نوع انسانی کے زن و مرد،  اور حیوانات و نباتات کے نر و مادہ ہی نہیں ہیں، بلکہ دوسری بے شمار چیزیں بھی ہیں جن کو خالق نے ایک دوسرے کا جوڑ بنایا ہے اور جن کے اختلاط یا امتزاج سے  دنیا میں نئی نئی چیزیں وجود میں آتی ہیں۔ مثلاً عناصر میں بعض سے جوڑ لگتا ہے اور بعض کا بعض سے نہیں لگتا۔ جن کا جوڑ ایک دوسرے سے لگتا ہے،  ان ہی کے ملنے سے طرح طرح کی ترکیبیں واقع ہو رہی ہیں۔ یا مثلاً بجلی میں منفی اور مثبت بجلیاں ایک دوسرے کا جوڑ ہیں اور ان کی باہمی کشش ہی دنیا میں عجیب عجیب کرشموں کی موجب بن رہی ہے۔  یہ اور دوسرے ان گنت جوڑ ے جو قسم قسم کی مخلوقات کے اندر اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں،  ان کی ساخت،  اور ان کی باہمی مناسبتوں،  اور ان کے تعامل کی گوناگوں شکلوں، اور ان کے ملنے سے پیدا ہونے والے نتائج پر اگر انسان غور کرے تو اس کا دل یہ گواہی دیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ سارا کارخانہ عالم کسی ایک ہی زبردست صانع حکیم کا بنا یا ہوا ہے،  اور اسی کی تدبیر سے یہ چل رہا ہے۔  صرف ایک عقل کا اندھا ہی یہ فرض کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی حکیم کے بغیر ہوا اور ہو رہا ہے،  یا اس میں ایک سے زیادہ خداؤں کی دخیل کاری کا کوئی امکان ہے۔  

۱۳۔ یعنی زمین کی تمام مخلوقات میں سے تنہا انسان کو کشتیاں اور جہاز چلانے اور سواری کے لیے جانور استعمال کرنے کی یہ مقدرت اللہ تعالیٰ نے اس لیے تو نہیں دی تھی کہ وہ غلے کی بوریوں کی طرح ان پر لد جائے اور کبھی نہ سوچے کہ آخر وہ کون ہے جس نے ہمارے لیے بحر ذخّار میں کشتیاں دوڑانے کے امکانات پیدا کیے،  اور جس نے جانوروں کی بے شمار اقسام میں سے بعض کو اس طرح پیدا کیا کہ وہ ہم سے بدر جہا زیادہ طاقتور ہونے کے باوجود ہمارے تابع فرمان بن جاتے ہیں اور ہم ان پر سوار ہو کر جدھر چاہتے ہیں انہیں لیے پھرتے ہیں۔  ان نعمتوں سے فائدہ اٹھانا اور نعمت دینے والے کو فراموش کر دینا،  دل کے مردہ اور عقل و ضمیر کے بے حس ہونے کی علامت ہے۔  ایک زندہ اور حساس قلب و ضمیر رکھنے والا انسان تو ان سواریوں پر جب بیٹھے گا تو اس کا سل احساس نعمت اور شکر نعمت کے جذبے سے لبریز ہو جائے گا۔ وہ پکار اٹھے گا کہ پاک ہے وہ ذات جس نے میرے لی ان چیزوں کو مسخر کیا۔ پاک ہے اس سے کہ اس کی ذات و صفات اور اختیارات میں کوئی اس کا شریک ہو۔ پاک ہے اس کمزوری سے کہ اپنی خدائی کا کام خود چلانے سے وہ عاجز ہو اور دوسرے مدد گار خداؤں کی اسے حاجت پیش آئے۔  پاک ہے اس سے کہ میں ان نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے میں اس کی ساتھ کسی اور کو شریک کروں۔

اس آیت کے منشا کی بہترین عملی تفسیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے وہ اذکار ہیں جو سواریوں پر بیٹھتے وقت آپؐ کی زبان مبارک پر جاری ہوتے تھے۔  حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضورؐ جب سفر پر جانے کے لیے سواری پر بیٹھتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے،  پھر  یہ آیت پڑھتے،  اور اس کے بعد یہ دعا مانگا کرتے تھے۔  : اللھم انی اسأ لُکَ فی سفری ھٰذا لابرَّ و التقویٰ،  ومن العمل ماثرضیٰ،  اللھم ھون انالسفر، واطْو، لَنا البعید،  اللھم انت الصاحب فی السفر،  الخلیفۃُ فی الاھل، اللھم اَصْحِبْا فی سفر نا واخْلُفْنَا فی اھلنا (مسند احمد،  مسلم، ابوداؤد نسائی،  دارمی، ترمذی)۔  ’’ خدایا میں تجھ سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے اس سفر میں مجھے نیکی اور تقویٰ اور ایسے عمل کی توفیق دے جو تجھے پسند ہو۔ خدایا ہمارے لیے سفر کو آسان کر دے اور لمبی مسافت کو لپیٹ دے،  خدایا تو ہی سفر کا ساتھی اور ہمارے پیچھے ہمارے اہل و عیال کا نگہبان ہے،  خدایا ہمارے سفر میں ہمارے ساتھ اور پیچھے ہمارے گھر والوں کی خبر گیری فرما۔ ‘‘

حضرت علی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بسم اللہ کہہ کر رکاب میں پاؤں رکھا،  پھر سوار ہونے کے بعد فرمایا : الحمد للہ،  سبحان الذی سخر لنا ھٰذا ..........،  پھر تین مرتبہ الحمد للہ اور تین دفعہ اللہ اکبر کہا،  پھر فرمایا سبحانک، لا اِلٰہ الا انت،  قد ظلمتُ نفسی فاغفرلی۔ اس کے بعد آپ ہنس دیے۔  میں نے پوچھا یا رسول اللہ آپ ہنسے کس بات پر ؟ فرمایا،  بندہ جب ربِّ اغْفِرْ لِیْ کہتا ہے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کو اس کی یہ بات بڑی پسند آتی ہے،  وہ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جانتا ہے کہ میرے سوا مغفرت کرنے والا کوئی نہیں ہے۔  (احمد، ابوداؤد،  ترمذی،  نسائی وغیرہ)۔  

ایک صاحب ابو مجلز بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں جانور پر سوار ہوا اور میں نے آیت سُبحَانَ الَّذِیْ سَخَّرَلَنَا ھٰذَا  پڑھی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا اس طرح کرنے کا تمہیں حکم دیا گیا ہے ؟میں نے عرض کیا پھر کیا کہوں ؟ فرمایا کہو کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے ہمیں اسلام کی ہدایت دی، شکر ہے اس کا کہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو بھیج کر ہم پر احسان فرمایا،  شکر ہے اس کا کہ اس نے ہمیں اس بہترین امت میں داخل کیا جو خلق خدا کے لیے نکالی گئی ہے،  اس کے بعد یہ آیت پڑھو(ابن جریر۔  احکام القرآن للجصّاص)۔

۱۴۔ مطلب یہ ہے کہ ہر سفر پر جاتے ہوئے یاد کر لو  کہ آگے ایک بڑا اور آخری سفر بھی درپیش ہے۔  اس کے علاوہ چونکہ ہر سواری کو استعمال کرنے میں یہ امکان بھی ہوتا ہے کہ شاید کوئی حادثہ اسی سفر کو آدمی کا آخری سفر بنا دے،  اس لیے بہتر ہے کہ ہر مرتبہ وہ اپنے رب کی طرف واپسی کو یاد کر کے چلے تاکہ اگر مرنا ہی ہے تو بے خبر نہ مرے۔  

یہاں تھوڑی دیر ٹھیر کر ذرا اس تعلیم کے اخلاقی نتائج کا بھی اندازہ کر لیجیے۔  کیا آپ یہ تصور کر سکتے ہیں کہ جو شخص کسی سواری پر بیٹھتے وقت سمجھ بوجھ کر پورے شعور کے ساتھ اس طرح اللہ کو اور اس کے حضور اپنی واپسی اور جواب دہی کو یاد کر کے چلا ہو وہ آگے جا کر کسی فسق و فجور یا کسی ظلم ستم کا مرتکب ہو گا ؟ کیا کسی فاحشہ سے ملاقات کے لیے،  یا کسی کلب میں شراب خوری اور قمار بازی کے لیے جانے وقت بھی کوئی شخص یہ کلمات زبان سے نکال سکتا ہے یا ان کا خیال کر سکتا ہے ؟ کیا کوئی حاکم یا سرکاری افسر، یا تاجر، جو یہ کچھ سوچ کر اور اپنے منہ سے کہہ کر گھر سے چلا ہو، اپنی جائے عمل پر پہنچ کر لوگوں کے حق مار سکتا ہے ؟ کیا کوئی سپاہی بے گناہوں کا خون بہانے اور کمزوروں کی آزادی پر ڈاکہ مارنے کے لیے جاتے وقت بھی اپنے ہوائی جہاز یا ٹینک پر قدم رکھتے ہوئے یہ الفاظ زبان پر لا سکتا ہے ؟ اگر نہیں، تو یہی ایک چیز ہراس نقل و حرکت پر بند باندھ دینے کے لی کافی ہے جو معصیت کے لیے ہو۔

۱۵۔ جُزء بنا دینے سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے کسی بندے کو اس کی اولاد قرار دیا جائے، کیونکہ اولاد و لامحالہ باپ کی ہم جنس اور اس کے وجود کا یک جزء ہوتی ہے،  اور کسی شخص کو اللہ کا بیٹا یا بیٹی کہنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ اسے اللہ کی ذات میں شریک کیا جا رہا ہے۔  اس کے علاوہ کسی مخلوق کو اللہ کا جزء بنانے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اسے ان صفات اور اختیارات کا حامل قرار دیا جائے جو اللہ ہی کے ساتھ مخصوص ہیں،  اور اسی تصور کے تحت اس سے دعائیں مانگ جائیں، یا اس کے  آگے عبودیت کے مراسم ادا کیے جائیں،  یا اس کی تحریم و تحلیل کو شریعت واجب الاتباع ٹھیرا لیا جائے۔  کیونکہ اس صورت میں آدمی اُلوہیت  و ربوبیت کا اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان بانٹتا ہے اور اس کا ایک جز بندوں کے حوالے کر دیتا ہے۔  

 

 

کیا اللہ نے اپنی مخلوق میں سے اپنے لیے بیٹیاں انتخاب کیں اور تمہیں بیٹوں سے نوازا ؟ اور حال یہ ہے کہ جس اولاد کو یہ لوگ اس خدائے رحمان کی طرف منسوب کرتے ہیں اس کی ولادت کا مژدہ جب خود ان میں سے کسی کو دیا جاتا ہے تو اس کے منہ پر سیاہی چھا جاتی ہے اور وہ غم سے پھر جاتا ہے (۱۶)۔ کیا اللہ کے حصے میں ہو اولاد آئی جو زیوروں میں پالی جاتی ہے اور بحث و حجت میں اپنا مدعا پوری طرف واضح بھی نہیں کر سکتی؟(۱۷)
انہوں نے فرشتوں کو، جو خدائے رحمان کے خاص بندے ہیں (۱۸)، عورتیں قرار دے لیا۔ کیا ان کے جسم کی ساخت انہوں نے دیکھی ہے ؟(۱۹) ان کی گواہی لکھ لی جائے گی اور انہیں اس کی جوابدہی کرنی ہو گی۔
یہ کہتے ہیں’’ اگر خدائے رحمٰن چاہتا (کہ ہم ان کی عبادت نہ کریں ) تو ہم کبھی ان کو نہ پوجتے ’‘۔ (۲۰) یہ اس معاملے کی حقیقت کو قطعی نہیں جانتے،  محض تیر تکّے لڑاتے ہیں۔ کیا ہم نے اس سے پہل کوئی کتاب ان کو دی تھی جس کی سند (اپنی اس ملائکہ پرستی کے لیے ) یہ اپنے پاس رکھتے ہوں؟ (۲۱) نہیں، بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پا یا ہے اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں(۲۲)۔ اسی طرح تم سے پہلے جس بستی میں بھی ہم کوئی نذیر بھیجا،  اس کے کھاتے پیتے لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک طریقے پر پا یا ہے  اور ہم انہی کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں (۲۳)۔ ہر نبی نے ان سے پوچھا،  کیا تم اسی ڈگر پر چلے جاؤ گے خواہ میں اس راستے سے زیادہ صحیح راستہ تمہیں بتاؤں جس پر تم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ؟ انہوں نے سارے رسولوں کو یہی جواب دیا کہ جس دین کی طرف بلانے کے لیے تم بھیجے گئے ہو ہم اس کے کافر ہیں۔ آخر کار ہم نے ان کی خبر لے ڈالی اور دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا کیا انجام ہوا۔ ع

 

۱۶۔ یہاں مشرکین عرب کی نا معقولیت کو پوری طرح بے نقاب کر کے رکھ دیا گیا ہے۔  وہ کہتے تھے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ ان کے بت انہوں نے عورتوں کی  شکل کے بنا رکھے تھے،  اور یہی ان کی وہ دیویاں تھیں جن کی پرستش کی جاتے تھی۔  اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اول تو تم نے یہ جاننے اور ماننے کے باوجود کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ  ہے اور ان زمین کو اسی نے تمہارے لیے گواہ بنایا ہے،  اور وہی آسمان سے پانی برساتا ہے،  اور اسی نے یہ جانور تمہاری خدمت کے لیے پیدا کیے ہیں، اس کے ساتھ دوسروں کو معبود بنایا۔  حالانکہ جنہیں تم معبود بنا رہے ہو وہ خدا نہیں بلکہ بندے ہیں۔ پھر مزید غضب یہ کیا کہ بعض بندوں کو صفات ہی میں نہیں بلکہ اللہ کی ذات میں بھی اس کا شریک بنا ڈالا اور یہ عقیدہ ایجاد کیا کہ وہ اللہ کی اولاد ہیں۔ اس پر بھی تم نے بس نہ کیا اور اللہ کے لیے وہ اولاد تجویز کی جسے تم خود اپنے لیے ننگ و عار سمجھتے ہو۔ بیٹی گھر میں پیدا ہو جائے تو تمہارا منہ کالا ہو جاتا ہے،  خون کا سا گھونٹ پیکر رہ جاتے ہو، بلکہ بعض اوقات زندہ بچی کو دفن کر دیتے ہو۔ یہ اولاد تو آئی اللہ کے حصے میں۔ اور بیٹے،  جو تمہارے نزدیک فخر کے قابل اولاد ہیں، مخصوص ہو گئے تمہارے لیے ؟ اس پر تمہارا دعویٰ یہ ہے کہ ہم اللہ کے ماننے والے ہیں۔

۱۷۔ بالفاظ دیگر جو نرم و نازک اور ضعیف و کمزور اولاد ہے وہ تم نے اللہ کے حصے میں ڈالی، اور خم ٹھونک کر میدان میں اترنے والی اولاد خود لے اڑے۔  

اس آیت سے عورتوں  کے زیور کے جواز کا پہلو نکلتا ہے،  کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے زیور کو ایک فطری چیز  قرار دیا ہے۔  یہی بات احادیث سے بھی ثابت ہے۔  امام احمد، ابو داؤد اور نسائی حضرت علیؓ سے روایت کرتے ہیں کہ بنی صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک ہاتھ میں ریشم اور دوسرے ہاتھ میں سونا لے کر فرمایا یہ دونوں چیزیں لباس میں استعمال کرنا میری امت کے مردوں پر حرام ہے۔  ترمذی اور نسائی نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت نقل کی ہے کہ حضور نے فرمایا کہ ریشم اور سونا میری امت کی عورتوں کے لیے حلال اور مردوں پر حرام کیا گیا۔  علامہ ابو بکر  جصاص نے احکام القرآن میں اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے حسب ذیل روایات نقل کی ہیں :

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت زید بن حارثہ کے صاحبزادے اسامہ بن زید کو چوٹ لگ گئی اور خون بہنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان سے اپنی اولاد جیسی محبت تھی۔ آپ ان کا خون چوس کر تھوکتے جاتے اور ان کو یہ کہہ کہہ کر بہلاتے جاتے کہ اسامہ اگر بیٹی ہوتا تو ہم اسے زیور پہنا تے،  اسامہ اگر بیٹی ہوتا تو ہم اسے اچھے اچھے کپڑے پہناتے۔  

حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا :لبس الحریر والذھب حرام علی ذکور امتی و حلال لا نا ثھا، ’’ ریشمی کپڑے اور سونے کے زیور پہننا میری امت کے مردوں پر حرام اور عورتوں کے لیے حلال ہے۔ ‘‘حضرت عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ دو عورتیں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور وہ سونے کے کنگن پہنے ہوئے تھیں۔ آپ نے فرمایا کیا تم پسند کرتی ہو کہ اللہ تمہیں ان کے بدلے آگ کے کنگن پہنائے ؟ انہوں نے عرض کیا نہیں۔ آپ نے فرمایا تو ان کا حق ادا کرو، یعنی ان کی زکوٰۃ نکالو۔

حضرت عائشہ کا قول ہے کہ زیور پہنے میں مضائقہ نہیں بشرطیکہ اس کی زکوٰۃ ادا کی جائے۔  

حضرت عمرؓ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو لکھا کہ تمہاری عملداری میں جو مسلمان عورتیں رہتی ہیں ان کو حکم دو کہ اپنے زیوروں کی زکوٰۃ نکالیں۔

امام ابو حنیفہ نے عمرو بن دینار کے حوالہ سے یہ  روایات نقل کی ہیں کہ حضرت عائشہ نے اپنی بہنوں کو اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنی بیٹیوں کو سونے کے زیور پہنائے تھے۔  

ان تمام روایات کو نقل کرنے کے بعد علامہ جصاص لکھتے ہیں کہ  ’’ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ سے جو روایات عورتوں کے لیے سونے اور ریشم کے حلال ہونے کے متعلق وارد ہوئی ہیں وہ عدم جواز کی روایات سے زیادہ مشہور اور نمایاں ہیں۔ اور آیت مذکورہ بالا بھی اس کے جواز پر دلالت کر رہی ہے۔  پھر امت کا عمل بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کے زمانے سے ہمارے زمانے (یعنی چوتھی صدی کے آخری دور) تک یہی رہا ہے،  بغیر اس کے کہ کسی نے اس پر اعتراض کیا ہو۔ اس طرح کے مسائل میں اخبار آحاد کی بنا پر کوئی اعتراض تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘

۱۸۔ یعنی مذکر یا مونث ہونے سے مبرا ہیں۔ یہ مفہوم فحوائے کلام سے خود بخود مترشح ہو رہا ہے۔  

۱۹۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ کیا نا کی پیدائش کے وقت یہ  موجود تھے ‘‘؟

۲۰۔ یہ اپنی گمراہی پر تقدیر سے ان کا استدلال تھا جو ہمیشہ سے غلط کار لوگوں کا شیوہ رہا ہے۔  ان کا کہنا یہ تھا کہ ہمارا فرشتوں کی عبادت کرنا اسی لیے تو ممکن ہوا کہ اللہ نے ہمیں یہ کام کرنے دیا۔  اگر وہ نہ چاہتا کہ ہم یہ فعل کریں تو  ہم کسے کر سکتے تھے پھر مدت ہائے دراز سے ہمارے ہاں یہ کام ہو رہا ہے اور اللہ کی طرف سے اس پر کوئی عذاب نازل نہ ہوا۔ اس کے  معنی یہ ہیں کہ اللہ کو ہمارا یہ کام نا پسند نہیں ہے۔  

۲۱۔ مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی جہالت سے یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ دنیا میں ہو رہا ہے وہ چونکہ اللہ کی  مشیت کے تحت ہو رہا ہے،  اس لیے ضرور اس کو اللہ کی رضا بھی حاصل ہے۔  حالانکہ اگر یہ استدلال صحیح ہو تو دنیا میں صرف ایک شرک ہی تو نہیں ہو رہا ہے۔  چوری،  ڈاکہ،  قتل،  زنا،  رشوت،  بد عہدی، اور ایسے ہی دوسرے بے شمار جرائم بھی ہو رہے ہیں جنہیں کوئی شخص بھی نیکی اور بھلائی نہیں سمجھتا۔  پھر کیا اسی طرز استدلال کی بنا پر یہ بھی کہا جائے گا کہ یہ تمام افعال حلال و طیب ہیں،  کیونکہ اللہ اپنی دنیا میں انہیں ہونے دے رہا ہے،  اور جب وہ انہیں ہونے دے رہا ہے،  تو ضرور وہ ان کو پسند بھی کرتا ہے ؟ اللہ کی پسند اور نا پسند معلوم ہونے کا ذریعہ وہ واقعات نہیں ہیں جو دنیا میں ہو رہے ہیں،  بلکہ اللہ کی کتاب ہے جو اس کے رسول کے ذریعہ سے آتی ہے  اور جس میں للہ خود بتاتا ہے کہ اسے کونسے عقائد،  کون سے عمال،  اور کون سے اخلاق پسند ہیں اور کون سے نا پسند۔  پس اگر قرآن سے پہلے آئی ہوئی کوئی کتاب ان لوگوں کے پاس ایسی موجود ہو جس میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہو کہ فرشتے بھی میرے ساتھ تمہارے معبود ہیں  اور تم کو ان کی عبادت بھی کرنی چاہیے،  تو یہ لوگ اس کا حوالہ دیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص  ۵۷۰۔ ۵۷۳۔ ۵۷۴۔ ۵۸۷۔ ۵۹۴ تا ۵۹۶۔  جلد دوم،  ص ۲۰۔ ۳۱۳۔ ۳۷۳۔ ۳۷۴۔ ۴۶۱۔ ۵۲۸۔ ۵۳۹۔ ۵۴۰۔ ۵۶۸۔ جلد چہارم، الزمر، حاشیہ ۲۰۔ الشوریٰ، حاشیہ ۱۱)۔  

۲۲۔ یعنی ان کے پاس کسی کتاب الہیٰ کی کوئی سند نہیں ہے بلکہ سند صرف یہ ہے کہ باپ دادا سے یونہی ہوتا چلا آ رہا ہے،  لہٰذا ہم بھی انہی کی تقلید میں فرشتوں کو دیویاں بنائے بیٹھے ہیں۔

۲۳۔ یہ بات قابل غور ہے کہ انبیاء کے مقابلے میں اٹھ کر باپ دادا کی تقلید کا جھنڈا بلند کرنے والے ہر زمانے میں اپنی قوم کے کھاتے پیتے لوگ ہی کیوں رہے ہیں ؟ آخر کیا وجہ ہے کہ وہی حق کی مخالفت میں پیش پیش اور قائم شدہ جاہلیت کو برقرار رکھنے کی کوشش میں  سرگرم رہے، اور وہی عوام کو بہکا اور بھڑکا کر انبیاء علیہم السلام کے خلاف فتنے اٹھاتے رہے ؟ اس کے بنیادی وجوہ دو تھے۔  ایک یہ کہ کھاتے پیتے اور خوشحال طبقے اپنی دنیا بنانے اور اس سے لطف اندوز ہونے میں اس قدر منہمک ہوتے ہیں کہ حق اور باطل کی، بزعم خویش،  دُور از کار بحث میں سر کھپانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔  ان کی تن آسانی اور ذہنی کاہلی انہیں دین کے معاملے میں انتہائی بے فکر،  اور اس کے ساتھ عملاً قدامت پسند (Conservative ) بنا دیتی ہے تاکہ جو حالت پہلے سے قائم چلی آ رہی ہے وہی، قطع نظر اس سے کہ وہ حق ہے یا باطل،  جوں کی  توں قائم رہے اور کسی نئے نظام کے متعلق سوچنے کی زحمت نہ اٹھانی پڑے۔  دوسرے یہ کہ قائم شدہ نظام سے ان کے مفاد پوری طرح وابستہ ہو چکے ہوتے ہیں، اور انبیاء علیہم السلام کے پیش کردہ نظام کو دیکھ کر پہلی ہی نظر میں وہ بھانپ جاتے ہیں کہ یہ آئے گا تو ان کی چودھراہٹ کی بساط بھی لپیٹ کر رکھ دی جائے گی اور ان کے لیے اکل حرام اور فعل حرام کی بھی کوئی آزادی باقی نہ رہے گی۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، ص۵۷۹۔ جلد دوم،  ص ۴۰۔  ۴۵۔ ۴۹۔ ۵۶۔ ۶۶۔ ۷۱۔ ۳۳۳۔ ۳۳۸۔ ۶۰۶۔ جلدسوم، ص۲۷۳۔ ۲۷۴۔ ۲۷۷۔ ۲۷۹۔  ۲۸۰۔ ۲۸۸۔ جلد چہارم، سبا آیت ۳۴، حاشیہ ۵۴)۔  

 

یاد کرو وہ وقت جب ابراہیمؑ نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ (۲۴)’’ تم جن کی بندگی کرتے ہو میرا ان سے کوئی تعلّق نہیں۔  میرا تعلق صرف اس سے ہے جس نے مجھے پیدا کیا،  وہی میری رہنمائی کرے گا‘‘(۲۵)۔ اور ابراہیمؑ یہی کلمہ (۲۶) اپنے پیچھے اپنی اولاد میں چھوڑ گیا تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں(۲۷)۔ (اس کے باوجود جب یہ لوگ دوسروں کی بندگی کرتے لگے تو میں نے ان کو مٹا نہیں دیا)بلکہ میں انہیں اور ان کے باپ دادا کو متاع حیات دیتا رہا یہاں تک کہ ان کے پاس حق،  اور کھول کھول کر بیان کرنے والا رسول آ گیا(۲۸)۔ مگر جب وہ حق ان کے پاس آیا تو انہوں نے کہہ دیا کہ یہ تو جادو ہے اور ہم اس کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔
کہتے ہیں، یہ قرآن دونوں شہروں کے بڑے آدمیوں میں سے کسی پر کیوں نہ نازل کیا گیا؟(۳۰)کیا تیرے رب کی رحمت یہ لوگ تقویم کرتے ہیں؟ دنیا کی زندگی میں ان کی گزر بسر کے ذرائع تو ہم نے ان کے درمیان تقسیم کیے ہیں، اور ان میں سے کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں پر ہم نے بدر جہا فوقیت دی ہے تاکہ یہ ایک دوسرے سے خدمت لیں(۳۱)۔ اور تیرے رب کی رحمت اس دولت سے زیادہ قیمتی ہے جو (ان کے رئیس ) سمیٹ رہے ہیں(۳۲)۔ اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ سارے لوگ ایک ہر طریقے کے ہو جائیں گے تو خدائے رحمان سے کفر کرنے والوں کے گھروں کی چھتیں، اور ان کی سیڑھیاں جن سے وہ اپنے بالا خانوں پر چڑھتے ہیں، اور ان کے دروازے،  اور ان کے تخت جن پر وہ تکیے لگا کر بیٹھتے ہیں،  سب چاندی اور سونے کے بنوا دیتے (۳۳)۔ یہ تو محض حیات  دنیا کی متاع ہے،  اور آخرت تیرے رب کے ہا ں صرف متقین کے لیے ہے۔ ع

 

۲۴۔ تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص ۱۱۰ تا ۱۱۴۔ ۵۵۲ تا ۵۶۰۔ جلد دوم، ص ۴۸۸ تا ۴۹۱۔ جلد سوم،  ۶۹۔ ۶۰۔ ۱۶۳ تا ۱۷۰۔ ۴۹۹ تا ۵۰۵۔ ۶۸۶ تا ۶۹۴۔  جلد چہارم ل الصافات، آیات ۸۳ تا ۱۰۰، حواشی ۴۴ تا ۵۵۔  

۲۵۔ ان الفاظ میں حضرت ابراہیمؑ نے محض اپنا عقیدہ ہی بیان نہیں کیا بلکہ اس کی دلیل بھی دے دی۔  دوسرے معبودوں سے تعلق نہ رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ نہ انہوں نے پیدا کیا ہے،  نہ وہ کسی معاملہ میں صحیح رہنمائی کرتے ہیں، نہ کر سکتے ہیں۔ اور صرف اللہ وحدہٗ  لاشریک سے تعلق جوڑنے کی وجہ یہ ہے کہ نہ وہی پیدا کرنے والا ہے اور وہی انسان کی صحیح رہنمائی کرتا ہے اور کر سکتا ہے۔  

۲۶۔ یعنی یہ بت کہ خالق کے سوا کوئی معبود ہونے کا مستحق نہیں ہے۔  

۲۷۔ یعنی جب بھی راہ راست سے ذرا قدم ہٹے تو یہ کلمہ ان کی رہنمائی یے لیے موجود رہے اور وہ اسی کی طرف پلٹ آئیں۔ اس واقعہ کو جس غرض کے لیے یہاں بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ کفار قریش کی نا معقولیت کو پوری طرح بے نقاب کر دیا جائے اور انہیں اس بات پر شرم دلائی جائے کہ تم نے اسلاف کی تقلید اختیار کی بھی تو اس کے لیے اپنے بہترین اسلاف کو چھوڑ کر اپنے بد ترین اسلاف کا انتخاب کیا۔  عرب میں قریش کی مشیخت جس بنا پر چل رہی تھی  وہ تو یہ تھی کہ وہ حضرت ابراہیم و اسماعیل کی اولاد تھے اور ان کے بنائے ہوئے کعبے کی مجاوری کر رہے تھے۔  اس لیے انہیں پیروی ان کی کرنی چاہیے تھی نہ کہ اپنے ان جاہل اسلاف کی جنہوں نے حضرت ابراہیم و اسماعیل کے طریقے کو چھوڑ کر گرد و پیش کی بت پرست قوموں سے شرک سیکھ لیا،  پھر اس واقعہ کو بیان کر کے ایک اور پہلو سے بھی ان گمراہ لوگوں کی غلطی واضح کی گئی ہے۔  وہ یہ ہے کہ حق و باطل کی تمز کیے بغیر اگر آنکھیں بند کر کے باپ دادا کی تقلید کرنا درست ہوتا تو سب سے پہلے حضرت ابراہیمؑ یہ کام کرتے۔  مگر انہوں نے صاف صاف اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہہ دیا کہ میں تمہارے اس جاہلانہ مذہب کی پیروی نہیں کر سکتا جس میں تم نے اپنے خالق کو چھوڑ کر ان ہستیوں کو معبود بنا رکھا ہے جو خالق نہیں ہیں۔ اس سے معلوم ہو کہ حضرت ابراہیمؑ تقلید آبائی کے قائل نہ تھے،  بلکہ ان کا مسلک یہ تھا کہ باپ دادا کی پیروی کرنے سے پہلے آدمی کو آنکھیں کھول کر دیکھنا چاہیے کہ وہ صحیح راستے پر ہیں بھی یا نہیں، اور اگر دلیل معقول سے یہ ظاہر ہو کہ وہ غلط راستے پر جا رہے ہیں تو ان کی پیروی چھوڑ کر وہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو دلیل کی رو سے حق ہو۔

۲۸۔ اصل میں  رَسُولٌ مُّبِیْن کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کا دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا رسول آ گیا جس کا رسول ہونا بالکل ظاہر و باہر تھا۔ جس کی نبوت سے پہلے کی زندگی اور بعد کی زندگی صاف شہادت دے رہی تھی کہ وہ یقیناً خدا کا رسول ہے۔  

۲۹۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، ص ۱۴۵۔ ۱۴۶۔ جلد چہارم، تفسیر سورہ ص،  حاشیہ ۵۔

۳۰۔ دونوں شہروں سے مراد مکہ اور طائف ہیں۔ کفار کا یہ کہنا تھا کہ واقعی خدا کو کوئی رسول بھیجنا ہوتا اور وہ اس پر اپنی کتاب نازل کرنے کا ارادہ کرتا تو ہمارے ان مرکزی شہروں میںسے کسی بڑے آدمی کو اس غرض کے لیے منتخب کرتا۔  رسول بنانے کے لیے اللہ میاں کو ملا بھی تو وہ شخص جو یتیم پیدا ہوا، جس کے حصے میں کوئی میراث نہ آئی،  س نے بکریاں چرا کر جوانی گزار دی،  جواب گزرا اوقات بھی کرتا ہے تو بیوی کے مال سے تجارت کر کے، اور جو کسی قبیلے کا شیخ یا کسی خانوادے کا سربراہ نہیں ہے۔  کیا مکہ میں ولید بن مغیرہ اور عتبہ بن ربیعہ جیسے نامی گرامی سردار موجود نہ تھے ؟ کیا طائف میں عروہ بن مسعود، حبیب بن عمرہ، کنانہ بن عبد عمرو،  اور ابن عبد یالیل جیسے رئیس موجود نہ تھے ؟ یہ تھا ان لوگوں کا استدلال۔  پہلے تو وہ یہی ماننے کے لیے تیار نہ تھے کہ کوئی بشر بھی رسول ہو سکتا ہے۔ مگر جب قرآن مجید میں پے در پے دلائل دے کر ان کے اس خیال کا پوری طرح ابطال کر دیا گیا، اور ان سے کہا گیا کہ اس سے پہلے ہمیشہ بشر ہی رسول ہو کر آتے رہے ہیں،  اور انسانوں  کی ہدایت کے لیے بشر ہی رسول ہو سکتا ہے نہ کہ غیر بشر،  اور جو رسول بھی دنیا میں آئے ہیں وہ یکایک آسمان سے نہیں اتر آئے تھے بلکہ انہی انسانی بستیوں میں پیدا ہوئے تھے،  بازاروں میں چلتے پھرتے تھے،  بال بچوں والے تھے اور کھانے پیتے سے مبرا نہ تھے (ملاحظہ ہو الجحل، آیت،  ۴۳۔ بنی اسرائیل،  ۹۴۔ ۹۵۔ یوسف،  ۱۰۹۔ الفرقان، ۷۔ ۲۰۔ الانبیا، ۷۔ ۸۔ الرعد، ۳۸)، تو انہوں نے یہ دوسری پیترا بدلا کہ اچھا،  بشر ہی رسول سہی، مگر وہ کوئی بڑا آدمی ہونا چاہیے۔  مالدار ہو، با اثر ہو، بڑے جتھے والا ہو، لوگوں میں اس کی شخصیت کی دھاک بیٹھی ہوئی ہو۔ محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) اس مرتبے کے لیے کیسے موزوں ہو سکتے ہیں ؟

۳۱۔ یہ ان کے اعتراض کا جواب ہے جس کے اندر چند مختصر الفاظ میں بہت سی اہم باتیں ارشاد ہوئی ہیں:

پلی بات یہ کہ تیرے رب کی رحمت تقوم کرنا ان کے سپرد کب سے ہو گیا ؟ کیا یہ طے کرنا نا کا کام ہے کہ اللہ اپنی رحمت سے کس کو نوازے اور کس کو نہ نوازے ؟ (یہاں رب کی رحمت سے مراد اس کی رحمت عام ہے جس میں سے ہر ایک کو کچھ نہ کچھ ملتا رہتا ہے )۔

دوسرے بات یہ کہ نبوت تو خیر بہت بڑی چیز ہے،  دنیا میں زندگی بسر کرنے کے جو عام ذرائع ہیں،  ان کی تقسیم بھی ہم نے اپنے ہو ہاتھ میں رکھی اور کے حوالے نہیں کر دی۔  ہم کسی کو حسین اور کسی کو بدصورت، کسی کو خوش آواز اور کسی کو بد آواز، کسی کو قوی ہیکل اور کسی کو کمزور کسی کو ذہن اور کسی کو کند ذہن،  کسی قوی الحافظہ اور کسی کو نسیان میں مبتلا، کسی کو سلیم الاعضاء اور کسی کو اپاہج  یا اندھا یا گونگا بہرا، کسی کو امیر زادہ اور کسی کو فقیر زادہ، کسی کو ترقی یافتہ قوم کا فرد اور کسی کو غلام یا پس ماندہ قوم کا فرد پیدا کرتے ہیں۔ اس پیدائشی قسمت میں کوئی ذرہ برابر بھی دخل نہیں دے سکتا۔  جس کو جو کچھ ہم نے بنا دیا ہے وہی کچھ بننے پر وہ مجبور ہے۔  اور ان مختلف پیدائشی حالتوں کا جو اثر بھی کسی کی تقدیر پر پڑتا ہے اسے بدل دینا کسی کے بس میں نہیں ہے۔  پھر  انسانوں کے درمیان رزق،  طاقت،  عزت،  شہرت،  دولت، حکومت وغیرہ کی تقسیم بھی ہم ہی کر رہے ہیں۔  جس کو ہماری طرف سے اقبال نصیب ہوتا ہے اسے کوئی گرا نہیں سکتا، اور جس پر ہماری طرف سے اِدبار  آ جاتا ہے اسے گرنے سے کوئی بچا نہیں سکتا۔  ہمارے فیصلوں کے مقابلے میں انسانوں کی ساری تدبیریں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔ اس عالمگیر خدائی انتظام میں یہ لوگ کہاں فیصلہ کرنے چلے ہیں کہ کائنات کا مالک کسے اپنا نبی بنائے اور کسے نہ بنائے۔

تیسری بات  کہ اس خدائی انتظام میں یہ مستقل قاعدہ ملحوظ رکھا گیا ہے کہ سب کچھ ایک ہی کو، یا سب کچھ سب کو نہ دے دیا جائے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو۔ ہر طرف تمہیں بندوں کے درمیان ہر پہلو میں تفاوت ہی تفاوت نظر آئے گا۔  کسی کو ہم نے کوئی چیز دی ہے تو دوسرے کسی چیز سے اس کو محروم کر دیا ہے،  اور وہ کسی اور کو عطا کردی ہے،  یہ اس حکمت کی بنا پر کیا گیا ہے کہ کوئی انسان دوسروں سے بے نیاز نہ ہو، بلکہ ہر  ایک کسی نہ کسی معاملہ میں دوسرے کا محتاج رہے۔  اب یہ کیسا احمقانہ خیال تمہارے دماغ میں سمایا ہے کہ جسے ہم نے ریاست اور وجاہت دی ہے اسی کو نبوت بھی دے دی جائے ؟ کیا اسی طرح تم یہ بھی کہو گے کہ عقل، علم، دولت،  حسن،  طاقت،  اقتدار، اور دوسرے تمام کمالات ایک ہی میں جمع کر دیے جائیں، اور جس کو ایک چیز نہیں ملی ہے اسے دوسری بھی کوئی چیز نہ دی جائے؟

۳۲۔ یہاں رب کی رحمت سے مراد اس کی رحمت خاص،  یعنی نبوت ہے۔  مطلب یہ ہے کہ تم اپنے جن رئیسوں کو ان کی دولت و وجاہت اور مشیخت کی وجہ سے بڑی چیز سمجھ رہے ہو، وہ اس دولت کے قابل نہیں ہیں جو محمد بن عبداللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو دی گئی ہے۔  یہ دولت اس دولت سے بدرجہا زیادہ اعلیٰ درجے کی ہے اور اس کے لیے موزونیت  کا معیار کچھ اور ہے۔  تم نے اگر یہ سمجھ رکھا ہے کہ تمہارا ہر چودھری اور سیٹھ نبی بننے کا اہل ہے تو یہ تمہارے اپنے ہی ذہن کی پستی ہے۔  اللہ سے اس نادانی کی توقع کیوں رکھتے ہو ؟

۳۳۔ یعنی یہ سیم و زر، جس کا کسی کو مل جانا تمہاری نگاہ میں نعمت کی انتہا اور قدر و قیمت کی معراج ہے،  اللہ کی نگاہ میں اتنی حقیر چیز ہے کہ اگر تمام انسانوں کے کفر کی طرف ڈھلک پڑنے کا خطرہ نہ ہوتا تو وہ ہر کافر کا کھر سونے چاندی کا بنا دیا  جاتا۔ اس جنس فرومایہ  کی فراوانی آخر کب  سے انسان کی شرافت اور پاکیزگی نفس اور طہارت روح کی دلیل بن گئی  ؟ یہ مال تو ان خبیث ترین انسانوں کے پاس بھی پایا جاتا ہے جن کے گھناؤنے کردار کی سڑاند سے سارا معاشرہ متعفن ہو کر رہ جاتا ہے۔  اسے تم نے آدمی کی بڑائی کا معیار بنا رکھا ہے۔  

 

جو شخص رحمان کے ذکر (۳۴) سے تغافل برتتا ہے،  ہم اس پر ایک شیطان مسلط کر دیتے ہیں اور وہ اس کا رفیق بن جاتا ہے۔ یہ شیاطین ایسے لوگو ں کو راہ راست پر آنے سے روکتے ہیں،  اور وہ اپنی جگہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ٹھیک جا رہے ہیں۔  آخر کار جب یہ شخص ہمارے ہاں پہنچے گا تو اپنے شیطان سے کہے گا، ’’ کاش میرے اور تیرے درمیان مشرق و مغرب کا بُعد ہوتا تُو تو بد ترین ساتھی نکلا‘‘۔  اس وقت ان لوگوں سے کہا جائے گا کہ جب تم ظلم کر چکے تو آج یہ بات تمہارے لیے کچھ بھی نافع نہیں ہے کہ تم اور تمہارے شیاطین عذاب میں مشترک ہیں(۳۵)۔
اب کیا اے نبیؐ، تم بہروں کو سناؤ گے ؟ یا اندھوں اور صریح گمراہی میں پڑے ہوئے لوگوں کو راہ دکھاؤ گے ؟ (۳۶) اب تو ہمیں ان کو سزا دینی ہے خواہ تمہیں دنیا سے اٹھا لیں، یا تم کو آنکھوں سے ان کا وہ انجام دکھا دیں جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے،  ہمیں ان پر پوری قدرت حاصل ہے (۳۷)۔ تم بہر حال اس کتاب کو مضبوطی سے تھامے رہو جو وحی کے ذریعہ سے تمہارے پاس بھیجی گئی ہے،  یقیناً تم سیدھے راستے پر ہو(۳۸)۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب تمہارے لیے اور تمہاری قوم کے لیے ایک بہت بڑا شرف ہے اور عنقریب تم لوگوں کو اس کی جواب دہی کرنی ہو گی(۳۹)۔ تم سے پہلے ہم نے جتنے رسول بھیجے تھے ان سب سے پوچھ دیکھو،  کیا ہم نے خدائے رحمان کے سوا کچھ دوسرے معبود بھی مقرر کیے تھے کہ ان کی بندگی کی جائے؟ (۴۰)۔ ع

 

۳۴۔ وسیع المعنیٰ لفظ ہے۔  رحمان کے  ذکر سے مراد اس کی یاد بھی ہے،  اس کی طرف سے آئی ہوئی نصیحت بھی، اور یہ قرآن بھی۔

۳۵۔ یعنی اس امر میں تمہارے لیے تسلی کا کوئی پہلو نہیں ہے کہ تمہیں غلط راہ پر ڈالنے والے کو سزا مل رہی ہے،  کیونکہ وہی سزا  گمراہی قبول کرنے کی پاداش میں تم بھی پا رہے ہو۔

۳۶۔ مطلب  یہ ہے کہ جو سننے کے لیے تیار ہوں اور جنہوں نے حقائق کی طرف سے آنکھیں بند نہ کر لی ہوں،  ان کی طرف توجہ کرو، اور اندھوں کو دکھانے اور بہروں کو سنانے کی کوشش میں اپنی جان نہ کھپاؤ،  نہ اس غم میں اپنے آپ کو گھلاتے رہو کہ تمہارے یہ بھائی بن کیوں راہ راست پر نہیں آتے اور کیوں اپنے آپ کو خدا کے عذاب کا مستحق بنا رہے ہیں۔

۳۷۔ اس ارشاد کا مطلب اس ماحول کو نگاہ میں رکھنے سے ہی اچھی طرح سمجھ میں آ سکتا ہے جس میں یہ بات فرمائی گئی ہے۔  کفار مکہ یہ سمجھ رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات ہی ان کے لیے مصیبت بنی ہوئی ہے،  یہ کانٹا درمیان سے نکل جائے تو پھر سب اچھا ہو جائے گا۔ اسی گمان فاسد کی بنا پر وہ شب و روز بیٹھ بیٹھ کر مشورے کرتے تھے کہ آپ کو کسی نہ کسی طرح ختم کر دیا جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ ان کی طرف سے رخ پھیر کر اپنے نبی کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تمہارے رہنے یا نہ رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تم زندہ رہو گے تو تمہاری آنکھوں کے سامنے ان کی شامت آئے گی، اٹھا لیے جاؤ گے تو تمہارے پیچھے ان کی خبر لی جائے گی۔ شامت اعمال اب ان کی دامنگیر ہو چکی ہے جس سے یہ بچ نہیں سکتے۔  

۳۸۔ یعنی تم اس فکر میں نہ پڑو کہ ظلم اور بے ایمانی کے ساتھ حق کی مخالفت کرنے والے اپنے کیے کی کیا اور کب سزا پاتے ہیں، نہ اس بات کی فکر کرو کہ اسلام کو تمہاری زندگی میں فروغ حاصل ہوتا ہے یا نہیں۔  تمہارے لیے بس یہ اطمینان کافی ہے کہ تم حق پر ہو۔ لہٰذا نتائج کی فکر کیے بغیر اپنا فرض انجام دیتے چلے جاؤ اور یہ اللہ پر چھوڑ دو کہ وہ باطل کا سر تمہارے سامنے نیچا کرتا ہے یا تمہارے پیچھے۔

۳۹۔  یعنی اس سے بڑھ کر کسی شخص کی کوئی خوش قسمتی نہیں ہو سکتی کہ تمام انسانوں میں سے اس کو اللہ اپنی کتاب نازل کرنے کے لیے منتخب کرے اور کسی قوم کے حق میں بھی اس سے بڑی کسی خوش قسمتی کا تصور نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کی دوسری سب قوموں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ اس کے ہاں اپنا نبی پیدا کرے اور اس کی زبان میں اپنی کتاب نازل کرے اور اسے دنیا میں پیغام خداوندی کی حامل بن کر اٹھنے کا موقع دے۔  اس شرف عظیم کا احساس اگر قریش اور اہل عرب کو نہیں ہے اور وہ اس ناقدری کرنا چاہتے ہیں تو ایک وقت آئے گا جب انہیں اس کی جواب دہی کرنی ہو گی۔

۴۰۔  رسولوں سے پوچھنے کا مطلب ان کی لائی ہوئی کتابوں سے معلوم کرنا ہے۔  جس طرح : فَاِنْتَنَا زَعْتُمْ فِیْ شَیْ ءٍ فَرُدُّ وْ ہُ اِلَی اللہِ وَ ا لرَّ سُوْلِ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی معاملہ میں اگر تمہارے درمیان نزاع ہو تو اسے اللہ اور رسول کے پاس لے جاؤ،  بلکہ یہ ہے کہ اس میں اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کی طرف رجوع کرو، اسی طرح رسولوں سے پوچھنے کا مطلب بھی یہ نہیں ہے کہ جو رسول دنیا سے تشریف لے جا چکے ہیں ان سب کے پاس جا کر دریافت کرو، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ خدا کے رسول دنیا میں جو تعلیمات چھوڑ گئے ہیں ان سب میں تلاش کر کے دیکھ لو، آخر کس نے یہ بات سکھائی تھی کہ اللہ جل شانہ کے سوا بھی کوئی عبادت کا مستحق ہے ؟

 

(۴۱)ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے (۴۲)ساتھ فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت کے پاس بھیجا،  اور اس نے جا کر کہا کہ میں ربّ العالمین کا رسول ہوں۔  پھر جب اس نے ہماری نشانیاں ان کے سامنے پیش کیں تو وہ ٹھٹھے مارنے لگے۔  ہم ایک پر ایک ایسی نشانی ان کو دکھاتے چلے گئے جو پہلی سے بڑھ چڑھ کر تھی،  اور ہم نے ان کو عذاب میں دھر لیا تاکہ وہ اپنی روش سے باز آئیں (۴۳)۔ ہر عذاب کے موقع پر وہ کہتے،  اے ساحر، اپنے رب کی طرف سے جو منصب تجھے حاصل ہے اس کی بنا پر ہمارے لیے اس سے دعا کر، ہم ضرور راہ راست پر آ جائیں گے۔  مگر جوں ہی کہ ہم ان پر سے عذاب ہٹا دیتے وہ اپنی بات سے پھر جاتے تھے (۴۴) ایک روز فرعون نے اپنی قوم کے درمیان پکار کر کہا، (۴۵)’’ لوگو،  کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے،  اور یہ نہریں میرے نیچے نہیں بہ رہی ہیں؟کیا تم لوگوں کو نظر نہیں آتا؟(۴۶)میں بہتر ہوں یا یہ شخص جو ذلیل و حقیر ہے (۴۷) اور اپنی بات بھی کھول کر بیان نہیں کر سکتا؟ (۴۸)کیوں نہ اس پر سونے کے کنگن اتارے گئے ؟ یا فرشتوں کا ایک دستہ اس کی اردلی میں نہ آیا؟‘‘(۴۹)
اس نے اپنی قوم کو ہلکا سمجھا اور انہوں نے اس کی اطاعت کی، در حقیقت وہ تھے ہی فاسق لوگ(۵۰)۔ آخر کار جب انہوں نے ہمیں غضب ناک کر دیا تو ہم نے ان سے انتقام لیا اور ان کو اکٹھا غرق کر دیا اور بعد والوں کے لیے پیش رو اور نمونہ عبرت بنا کر رکھ(۵۱) دیا۔ ع

 

۴۱۔  یہ قصہ یہاں تین مقاصد کے لیے بیان کیا گیا ہے۔  ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ جب کسی ملک اور کسی قوم میں اپنا نبی بھیج کر اسے وہ موقع عطا فرا تا ہے جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے اب اہل عرب کو اس نے عطا فرمایا ہے،  اور وہ اس کی قدر کرنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے بجائے اس حماقت کا ارتکاب کرتی ہے جس کا ارتکاب فرعون اور اس کی قوم نے کیا تھا تو پھر اس کا وہ انجام ہوتا ہے جو تاریخ میں نمونہ عبرت بن چکا ہے۔  دوسرے یہ کہ فرعون نے بھی اپنی بادشاہی اور اپنی شوکت و حشمت اور دولت و ثروت پر فخر کر کے موسیٰ علیہ السلام کو اسی طرح حقیر سمجھا تھا جس طرح اب کفار قریش اپنے سرداروں کے مقابلے میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو حقیر سمجھ رہے ہیں۔ مگر خدا کا فیصلہ کچھ اور تھا جس نے آخر بتا دیا کہ اصل میں حقیر و ذلیل کون تھا۔ تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی آیات کے ساتھ مذاق  اور اس کی تنبیہات  کے مقابلے میں ہیکڑی دکھانا کوئی سستا سودا نہیں ہے بلکہ یہ سودا بہت مہنگا پڑتا ہے۔  اس کا خمیازہ جو بھگت چکے ہیں ان کی مثال سے سبق نہ لو گے تو خود بھی ایک روز وہی خمیازہ بھگت کر رہو گے۔  

۴۲،  اب سے مراد وہ ابتدائی نشانیاں ہیں جنہیں لے کر حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے دربار میں گئے تھے،  یعنی عصا اور ید بیضا (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، ص ۶۵ تا ۶۸۔ جلد سوم،  ص ۹۱۔ ۱۰۰۔ ۴۸۷ تا ۴۹۰۔ ۵۵۹۔ ۵۶۰۔ ۶۳۳)۔  

۴۳۔ ان نشانیوں سے مراد وہ نشانیاں ہیں جو بعد میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے ان کو دکھائیں،  اور وہ یہ تھیں:

(۱)جادوگروں سے اللہ کے نبی کا بر سر عام مقابلہ ہوا اور وہ شکست کھا کر ایمان لے آئے تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم،  ص ۶۷ تا ۷۰۔ جلد سوم،  ص ۱۰۰ تا ۱۰۷۔  ۴۸۹ تا ۴۹۴۔

(۲) حضرت موسیٰ کے پیشگی اعلان کے مطابق مصر کی سر زمین میں شدید قحط برپا ہو گیا اور وہ ان کی دعا پر ہی دور ہوا۔

(۳) ان کے پیشگی اعلان کے بعد سارے ملک میں ہولناک بارشوں اور ژالہ باری اور گرج اور کڑک کے طوفان آ ئے جنہوں نے بستیوں اور کھیتوں کو تباہ کر ڈالا،  اور یہ بلا بھی ان کی دعا سے  ہی دفع ہو ئ۔  

(۴)  پورے ملک پر ان کے اعلان کے مطابق ٹڈی دَلوں کا خوفناک حملہ ہوا اور یہ آفت بھی اس وقت تک نہ ٹلی جب تک انہوں نے اسے ٹالنے کے لیے اللہ سے دعا نہ کی۔

(۵) ملک بھر میں ان کے اعلان کے مطابق جُوئیں اور سُر سریاں پھیل گئیں جن سے ایک طرف آدمی اور جانور سخت مبتلا ئے عذاب ہوئے اور دوسرے طرف غلوں کی گودام تباہ ہو گئے۔  یہ عذاب بھی اس وقت ٹلا جب حضرت موسیٰ سے درخواست کر کے دعا کرائی گئی۔  

(۶) ملک کے گوشے گوشے میں ان کی قبل از وقت تنبیہ کے مطابق مینڈکوں کا سیلاب امنڈ آیا جس نے پوری آبادی کا ناطقہ تنگ کر دیا۔  اللہ کی یہ فوج بھی حضرت موسیٰ کی دعا کے بغیر واپس نہ گئی۔

(۷) ٹھیک ان کے اعلان کے مطابق خون کا عذاب رونما ہوا،  جس سے تمام نہروں، کنوؤں،  تالابوں اور حوضوں کا پانی خون میں تبدیل ہو گیا،  مچھلیاں مرگئیں، ہر جگہ پانی کے ذخیروں میں عفونت پیدا ہو گئی، اور پورے ایک ہفتے تک مصر کے لوگ صاف پانی کو ترس گئے۔  یہ آفت بھی اس وقت ٹلی جب اس سے نجات پا نے کے لیے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے دعا کرائی گئی۔  تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد دوم، ص ۷۲۔ ۷۳۔ جلد سوم، ص ۵۶۰۔ ۵۶۱۔ جلد چہارم،  المومن،  حاشیہ ۳۷۔

بائیبل کی کتاب خروج، باب ۷۔ ۸۔ ۹۔ ۱۰ اور ۱۲ میں بھی ان عذابوں کی مفصل رو داد درج ہے،  مگر وہ گپ اور حقیقت کا مجموعہ ہے۔  اس میں کہا گیا ہے کہ جب خون کا عذاب آیا تو جادوگروں نے بھی ویسا ہی لا کر دکھایا۔  مگر جب جوؤں کا عذاب آیا تو جادوگر جواب میں جوئیں پیدا نہ کر سکے اور انہوں نے کہا کہ یہ خدا کا  کام ہے۔  پھر اس سے بھی زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب مینڈکوں کا سیلاب اٹھا تو جادوگر بھی جواب میں مینڈک چڑھا لائے،  لیکن اس کے باوجود فرعون نے حضرت موسیٰ ہی سے یہ درخواست کی کہ اللہ سے دعا کر کے اس عذاب کو دفع کراییئے۔  سوال یہ ہے کہ جب ادو گر مینڈک چڑھا لانے پر قادر تھے تو فرعون نے ان ہی کے ذریعہ سے یہ عذاب کیوں نہ دور کرا لیا ؟ اور آخر یہ معلوم کیسے ہوا کہ مینڈکوں کی اس فوج میں اللہ کے مینڈک کون سے ہیں اور جادو گروں کے مینڈک کون سے ؟ یہی سوال خون کے بارے میں بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت موسیٰ کی تنبیہ کے مطابق ہر طرف پانی کے ذخیرے خون میں تبدیل ہو چکے تھے  تو جادوگروں نے کس پانی کو خون بنایا اور کیسے معلوم ہوا کہ فلاں جگہ کا پانی جادوگروں کے کرتب سے خون بنا ہے ؟ ایسی ہی باتوں سے صاف معلوم ہو جا تا ہے کہ بائیبل خالص کلام الٰہی پر مشتمل نہیں ہے بلکہ اس کو جن لوگوں نے تصنیف کیا ہے انہوں نے اس کے اندر اپنی طرف سے بھی بہت کچھ ملا دیا ہے۔  اور غضب یہ ہے کہ یہ مصنفین کچھ تھے بھی واجبی سی عقل کے لوگ جنہیں بات گھڑنے کا سلیقہ بھی نصیب نہ تھا۔  

۴۴۔ فرعون اور اس کی قوم کے سرداروں کی ہٹ دھرمی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ جب وہ خدا کے عذاب سے تنگ آ کر حضرت موسیٰ سے اس کے ٹلنے کی دعا کرانا چاہتے تھے اس وقت بھی وہ آپ کو پیغمبر کہنے کے بجائے جادوگر ہی کہہ کر خطاب کرتے تھے۔  حالانکہ وہ جادو کی حقیقت سے نا واقف نہ تھے،  اور ان سے یہ بات چھپی ہوئی نہ تھی کہ یہ کرشمے کسی جادو سے رونما نہیں ہو سکتے۔  ایک جادوگر زیادہ سے زیادہ جو کچھ کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک محدود رقبے میں جو لوگ اس کے سامنے موجود ہوں ان  کے ذہن پر ایسا اثر ڈالے جس سے وہ یہ محسوس کرنے لگیں کہ پانی خون بن گیا ہے،  یا مینڈک اُبلے پڑ رہے ہیں، یا ٹڈی دل چڑھے چلے آ رہے ہیں۔ اور اس محدود رقبے کے اندر بھی کوئی  پانی حقیقت میں خون نہ بن جائے گا بلکہ اس دائرے سے نکلتے ہی پانی کا پانی رہ جائے گا۔ کوئی مینڈک فی الواقع پیدا نہ ہو گا بلکہ اسے پکڑ کر آپ اس دائرے سے باہر لے جائیں گے تو آپ کے ہاتھ  میں مینڈک کے بجائے صرف ہوا ہو گی۔  ٹڈی دَل بھی محض خیالی دل ہو گا،  کسی کھیت کو وہ نہ چاٹ سکے گا۔  رہی یہ بات کہ ایک پورے ملک میں قحط بر پا ہو جائے،  یا تمام ملک کی نہریں اور چشمے اور کنوئیں  خون سے بھر جائیں،  یا ہزار ہا میل کے رقبے پر ٹدی دل ٹوٹ پڑیں اور وہ لاکھوں ایکڑ کے کھیت صاف کر جائیں، یہ کام نہ آج تک کبھی کوئی جادوگر  کر سکا ہے،  نہ جادو کے زور سے کبھی یہ ہو سکتا ہے۔  ایسے جادو گر کسی بادشاہ کے پاس ہوتے تو اسے فوج رکھنے اور جنگ کی مصیبتیں جھیلنے کی کیا ضرورت تھی،  جادو کے زور سے وہ ساری دنیا کو مسخر کر سکتا تھا۔ بلکہ جادو گروں کے پاس یہ طاقت ہوتی تو وہ بادشاہوں کی ملازمت ہی کیوں کرتے ؟ خود بادشاہ نہ بن بیٹھتے ؟

مفسرین کو بالعموم یہ پریشانی پیش آئی ہے کہ جب عذاب سے نجات پانے کے لیے فرعون اور اس کے درباری حضرت موسیٰ سے دعا کی درخواست کرتے تھے اس وقت وہ ان کو ’’ اے ساحر ‘‘ کہہ کر کیسے خطاب کرتے تھے۔  مصیبت کے وقت مدد کی التجا کرنے والا تو خوشامد کرتا ہے نہ کہ مذمت۔  اسی وجہ سے انہوں نے یہ تاویل کی ہے کہ جادو اس زمانے کے اہل مصر کے نزدیک بڑا با وقعت  علم تھا اور ’’ اے ساحر ‘‘ کہہ کر در اصل وہ حضرت موسیٰکی مذمت نہ کرتے تھے بلکہ اپنے نزدیک  عزت کے ساتھ وہ گویا ان کو ’’ اے عالم ‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔  لیکن یہ تاویل اس بنا پر بالکل غلط ہے کہ قرآن میں دوسرے مقامات پر جہاں جہاں بھی فرعون کے وہ اقوال نقل کیے گئے ہیں جن میں اس نے حضرت موسیٰ کو جادو گر اور ان کے پیش کردہ معجزات کو جادو کہا ہے،  وہاں مذمت اور تحقیر کا اندازہ صاف ظاہر ہوتا ہے،  اور صریحاً یہ نظر آتا ہے کہ اس کے نزدیک جادو ایک جھوٹی چیز تھی جس کا الزام حضرت موسیٰ پر رکھ کر وہ آپ کو جھوٹا مدعی نبوت قرار دیتا تھا۔  اس لیے یہ ماننے کے قابل بات نہیں ہے کہ یکایک اس مقام پر اس کی نگاہ میں ’’ ساحر‘‘ ایک با عزت عالم کا لقب بن گیا ہو۔ رہا یہ سوال کہ جب دعا کی درخواست کرتے وقت بھی وہ علانیہ حضرت موسیٰ کی توہین کرتا تھا تو آپ اس کی درخواست قبول ہی کیوں کرتے تھے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آنجناب کے پیش نظر اللہ کے  حکم سے ان لوگوں پر حجت تمام کرنا تھا۔  عذاب ٹالنے کے لیے ان کا آپ سے دعا کی درخواست کرنا خود یہ ثابت کر رہا تھا کہ اپنے دلوں میں وہ جان چکے ہیں کہ یہ عذاب کیوں آ رہے ہیں، کہاں سے آ رہے ہیں، اور کون انہیں ٹال سکتا ہے۔  اس کے باوجود جب وہ ہٹ دھرمی کے ساتھ آپ کو ساحر کہتے تھے،  اور عذاب ٹل جانے کے بعد راہ راست قبول کرنے کے وعدے سے پھر جاتے تھے،  تو در حقیقت وہ اللہ کے نبی کا کچھ نہ بگاڑتے تھے بلکہ اپنے خلاف اس مقدمے کو اور زیادہ مضبوط کرتے چلے جاتے تھے جس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ نے ان کے کلی استیصال کی شکل میں آخر  کر دیا۔ ان کا آپ کو ساحر کہنا یہ معنی نہیں رکھتا کہ وہ در حقیقت اپنے دل میں بھی یہ سمجھتے تھے کہ یہ عذاب ان پر جادو کے زور سے آ رہے ہیں۔ بلکہ اپنے دلوں میں وہ خوب سمجھتے تھے کہ یہ اللہ رب العالمین کی نشانیاں ہیں،  اور پھر جان بوجھ کر ان کا انکار کرتے تھے۔  یہی بات ہے جو سورہ نمل میں فرمائی گئی ہے کہ : وَحَجّدُ وْ ا بِھَا وَاسْتَیْقَنَتُھَا اَنْفُسُھُمْظُلْماً وَّ عُلُوَّ ا (آیت ۱۴)۔ ‘‘ ان کے دل اندر سے قائل ہو چکے تھے مگر انہوں نے ظلم اور تکبر کی بنا پر ان نشانیوں کا انکار کیا۔ ‘‘

۴۵۔ غالباً پوری قوم میں پکارنے کی عملی صورت یہ رہی ہو گی کہ فرعون نے جو بات اپنے دربار میں سلطنت کے اعیان و اکابر اور قوم کے بڑے بڑے سرداروں کو مخاطب کر کے کہی تھی، اسی کو منادیوں کے ذریعہ سے پورے ملک کے شہروں  اور قریوں میں نشر کرایا گیا ہو گا۔ بے چارے کے پاس اس زمانہ میں یہ ذرائع نہ تھے کہ خوشامدی پریس،  خانہ ساز خبر رساں ایجنسیوں اور سرکاری ریڈیو سے منادی کراتا۔

۴۶۔ منادی کا یہ مضمون ہی صاف بتا رہا ہے کہ ہز میجسٹی کے پاؤں تلے زمین نکلی جا رہی تھے۔  حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پے در پے معجزات نے ملک کے عوام کا عقیدہ اپنے دیوتاؤں پر سے متزلزل کر دیا تھا۔  اور فراعنہ کا باندھا ہوا وہ سارا طلسم ٹوٹ گیا تھا جس کے ذریعہ سے خداؤں کا اوتار بن کر یہ  خاندان مصر اپنی خداوندی چلا رہا تھا۔ اسی صورت حال کو دیکھ کر فرعون چیخ اٹھا کہ کم بختو، تمہیں آنکھوں سے نظر نہیں آتا کہ اس ملک میں بادشاہی کس کی ہے اور دریائے نیل سے نکلی ہوئی یہ نہریں جن پر تمہاری ساری معیشت کا انحصار ہے،  کس کے حکم سے جاری ہیں؟ یہ ترقیات (Developments) کے کام تو میرے اور میرے خاندان کے لیے ہوئے ہیں، اور تم گرویدہ ہو رہے ہو اس فقیر کے۔  

۴۷۔ یعنی جس کے پاس نہ مال و دولت ہے نہ اختیار و اقتدار۔ وہی اعتراض جو کفار قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کیا تھا۔  

۴۸۔ بعض مفسرین نے یہ خیال کیا ہے کہ فرعون کا اعتراض اس لُکنت پر تھا جو حضرت موسیٰ کی زبان میں بچپن سے تھی۔ لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔  سورہ طٰہٰ میں گزر چکا ہے کہ حضرت موسیٰ کو جب نبوت کے منصب پر سرفراز کیا جا رہا تھا اس وقت انہوں نے حق تعالیٰ سے درخواست کی تھی کہ میری زبان کی گرہ کھول دیجیے تاکہ لوگ میری بات اچھی طرح سمجھ لیں، اور اسی وقت ان کی دوسری درخواستوں کے ساتھ یہ درخواست بھی قبول کر لی گئی تھی (آیات ۲۷ تا ۳۶ )۔ پھر قرآن مجید میں مختلف مقامات پر حضرت موسیٰ کی جو تقریریں نقل کی گئی ہیں وہ کمال درجے کی طاقت لسانی پر دلالت کرتی ہیں۔  لہٰذا فرعون کے اعتراض کی بنا کوئی لکنت نہ تھی جو آنحضرت کی زبان میں ہو، بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ شخص نہ معلوم کیا الجھی باتیں کرتا ہے،  مابدولت کی سمجھ میں تو کبھی اس کا مدعا آیا نہیں۔

۴۹۔ قدیم زمانے میں جب کسی شخص کو کسی علاقے کی گورنری، یا کسی غیر ملک کی سفارت کے منصب پر مقرر کیا جاتا تو بادشاہ کی طرف سے اس کو خلعت عطا ہوتا تھا جس میں سونے کے کڑے یا کنگن بھی شامل ہوتے تھے،  اور اس کے ساتھ سپاہیوں، چوبداروں اور خدام کا ا یک دستہ بھی ہوتا تھا تاکہ اس کا رعب اور دبدبہ قائم ہو اور اس بادشاہ کی شان و شوکت کا اظہار ہو جس کی طرف سے وہ مامور ہو کر آ رہا ہے۔  فرعون کا مطلب یہ تھا کہ اگر واقعی موسیٰ (علیہ السلام ) کو آسمان کے بادشاہ نے ایں جانب کے پاس اپنا سفیر بنا کر بھیجا تھا تو اسے خلعت شاہی ملا ہوتا اور فرشتوں کے پرے کے پرے اس کے ساتھ آئے ہوتے۔  یہ کیا بات ہوئی کہ ایک ملنگ ہاتھ میں لاٹھی لیے آ کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میں رب العالمیں کا رسول ہوں۔

۵۰۔ اس مختصر سے فقرے میں ایک بہت بڑی حقیقت بیان کی گئی ہے۔  جب کوئی شخص کسی ملک میں اپنی مطلق العنانی چلانے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے لیے کھلم کھلا ہر طرح کی چالیں چلتا ہے،  ہر فریب اور مکر و دغا سے کام لیتا ہے،  کھلے بازار میں ضمیروں کی خرید و فروخت کا کاروبار چلاتا ہے،  اور جو بکتے نہیں انہیں بے دریغ کچلتا اور روندتا ہے،  تو خواہ زبان سے وہ یہ بات نہ کہے مگر اپنے عمل سے صاف ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ در حقیقت اس ملک کے باشندوں کو عقل اور خلاق اور مردانگی کے لحاظ سے ہلکا سمجھتا ہے،  اور اس نے ان کے متعلق یہ رائے قائم کی ہے کہ میں ان بے وقوف،  بے ضمیر اور بزدل لوگوں کو جدھر چاہوں ہانک کر لے جا سکتا ہوں۔ پھر جب اس کی یہ تدبیریں کامیاب ہو جاتی ہیں اور ملک کے باشندے اس کے دست بستہ غلام بن جاتے ہیں تو وہ اپنے عمل سے ثابت کر دیتے ہیں کہ اس خبیث نے جو کچھ انہیں سمجھا تا، واقعی وہ وہی کچھ ہیں۔ اور ان کے اس ذلیل حالت میں مبتلا ہونے کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ بنیادی طور پر ’’ فاسق‘‘ ہوتے ہیں۔ ان کو اس سے کچھ بحث نہیں ہوتی کہ حق کیا ہے اور باطل کیا۔ انصاف کیا ہے اور ظلم کیا۔ سچائی اور دیانت اور شرافت قدر کے لائق ہے یا جھوٹ اور بے ایمانی اور رذالت۔  ان مسائل کے بجائے ان کے لیے اصل اہمیت صرف اپنے ذاتی مفاد کی ہوتی ہے جس کے لیے وہ ہر ظالم کا ساتھ دینے،  ہر جبار کے آگے رہنے،  ہر باطل کو قبول کرنے،  اور ہر صدائے حق کو دبانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔  

۵۱۔ یعنی جو اِن کے انجام سے سبق نہ لیں اور انہی کی روش پر چلیں اُن کے لیے وہ پیش رو ہیں، اور جو سبق لینے والے ہیں ان کے لیے نمونہ عبرت۔  

 

اور جو ں ہی کہ ابن مریم کی مثال دی گئی،  تمہاری قوم کے لوگوں نے اس پر غل مچا دیا اور لگے کہنے کہ ہمارے معبود اچھے ہیں یا وہ؟(۵۲) یہ مثال وہ تمہارے سامنے محض کج بحثی کے لیے لائے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ ہیں ہی جھگڑالو لوگ۔  ابن مریمؑ اس کے سوا کچھ  نہ تھا کہ ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا اور بنی اسرائیل کے لیے اپنی قدرت کا ایک نمونہ بنا دیا(۵۳)۔ ہم چاہیں تو تم سے فرشتے پیدا کر دیں(۵۴) جو زمین میں تمہارے جانشین ہوں۔ اور وہ در اصل قیامت کی ایک نشانی ہے (۵۵)، پس تم اس میں شک نہ کرو اور میری بات مان لو، یہی سیدھا راستہ ہے،  ایسا نہ ہو شیطان تم کو اس سے روک (۵۶)دے کہ وہ تمہاری کھلا دشمن ہے۔  اور جب عیسیٰ صریح نشانیاں لیے ہوئے آیا تھا تو اس نے کہا تھا کہ ’’ میں تم لوگوں کے پاس حکمت لے کر آیا ہوں، اور اس لیے آیا ہوں کہ تم پر بعض ان باتوں کی حقیقت کھول دوں جن میں تم اختلاف کر رہے ہو، لہٰذا تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو، حقیقت یہ ہے کہ اللہ ہی میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ اسی کی تم عبادت کرو، یہی سیدھا راستہ ہے (۵۷)‘‘۔ مگر (اس کی اِس صاف تعلیم کے باوجود) گروہوں نے آپس میں اختلاف کیا(۵۸)، پس تباہی ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے ظلم کیا ایک درد ناک دن کے عذاب سے۔  

کیا یہ لوگ اب بس اسی چیز کے منتظر ہیں کہ اچانک ان پر قیامت آ جائے اور  انہیں خبر بھی نہ ہو ؟ وہ دن جب آئے گا تو متقین کو چھوڑ کر باقی سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں (۵۹) گے۔ ع 

 

۵۲۔ اس سے پہلے آیت  ۴۵ میں یہ بات  گزر چکے ہے کہ ’’ تم سے پہلے جو رسو، ہو گزرے ہیں ان سب سے پوچھ دیکھو کیا ہم نے خدائے رحمٰن کے سوا کچھ دوسرے معبود بھی، مقرر کیے تھے کہ ان کی بندگی کی جائے‘‘؟ یہ تقریر جب اہل مکہ کے سامنے ہو رہی تھی تو ایک شخص نے،  جس کا نام روایت میں عبداللہ ابن الز بعریٰ آیا ہے،  اعتراض جڑ دیا کہ کیوں صاحب،  عیسائی مریمؑ کے بیٹے کو خدا کا بیٹا قرار دے کر اس کی عبادت کرتے ہیں یا نہیں ؟ پھر ہمارے معبود کیا برے ہیں ؟ اس پر کفار کے مجمع       سے ایک زور کا قہقہہ  بلند ہوا اور نعرے لگنے شروع ہو گئے کہ وہ مارا، پکڑے گئے،  اب بولو اس کا کیا جواب ہے۔  لیکن ان کی اس بیہودگی پر سلسلہ کلام توڑا نہیں گیا، بلکہ جو مضمون چلا آ رہا تھا، پہلے اسے مکمل کیا گیا، اور پھر اس سوال کی طرف توجہ کی گئی جو معترض نے اٹھایا تھا۔ (واضح رہے کہ اس واقعہ کو تفسیر کی کتابوں میں مختلف طریقوں سے روایت کیا گیا ہے جن میں بہت کچھ اختلاف ہے۔  لیکن آیت کے سیاق و سباق اور ان روایات پر غور کرنے کے بعد ہمارے نزدیک واقعہ کی صحیح صورت وہی ہے جو ابھی ہم نے بیان کی ہے )۔  

۵۳۔ قدرت کا نمونہ بنانے سے مراد حضرت عیسیٰ کو بے باپ کے پیدا کرنا،  اور پھر ان کو وہ معجزے عطا کرنا ہے جو نہ ان سے پہلے کسی کو دیے گئے تھے نہ ان کے بعد۔  وہ مٹی کا پرندہ بناتے اور اس میں پھونک مارتے تو وہ جیتا جاگتا پرندہ بن جاتا۔ وہ مادر زاد اندھے کو بینا کر دیتے۔  وہ کوڑھ کے مریض کو تندرست کر دیتے۔  حتیٰ کہ وہ مردے جِلا دیتے تھے۔  اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ محض اس غیر معمولی پیدائش اور ان عظیم معجزات کی وجہ سے ان کو بندگی سے بالا تر سمجھنا اور خدا کا بیٹا قرار دے کر ان کی عبادت کرنا غلط ہے۔  ان کی حیثیت ایک بندے سے زیادہ کچھ نہ تھی جسے ہم نے اپنے انعامات سے نواز کر اپنی قدرت کا نمونہ بنا دیا تھا۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص، ۲۵۰ تا ۲۵۲۔ ۲۵۹۔ ۴۱۷۔ ۴۵۷  ۴۶۰۵۱۳۔ جلد سوم ۶۳ تا ۶۷۔ ۱۸۴۔ ۱۸۵۔ ۲۸۰۔ ۲۸۱ )۔  

۵۴۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم میں سے بعض کو فرشتہ بنا دیں۔

۵۵۔ اس فقرے کا یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ قیامت کے علم کا ایک ذریعہ ہے۔  یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’ وہ ‘’‘ سے کیا چیز مراد ہے ؟ حضرت حسن بصری اور سعید بن جبیر کے نزدیک اس سے مراد قرآن ہے،  یعنی قرآن سے آدمی یہ علم حاصل کر سکتا ہے کہ قیامت آئے گی۔  لیکن یہ تفسیر سیاق و سباق سے بالکل غیر متعلق ہے۔  سلسلہ کلام میں کوئی قرینہ ایسا موجود نہیں ہے جس کی بنا پرا یہ کہا جا سکے کہ اشارہ قرآن کی طرف ہے۔  دوسرے مفسرین قریب قریب بالاتفاق یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ بن ریم ہیں اور یہی سیاق سباق کے لحاظ سے درست ہے۔  اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنجناب کو قیامت کی نشانی یا قیامت کے علم کا ذریعہ کس معنی میں فرمایا گیا ہے ؟ ابن عباس، مجاہد،  عکرمہ، قتادہ، سدی،  ضحاک، ابواالعالیہ اور ابو مالک کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ کا نزول ثانی ہے جس  کی خبر بکثرت احادیث میں وارد ہوئی ہے،  اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ جب دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ قیامت اب قریب ہے۔  لیکن ان بزرگوں کی جلالت قدر کے باوجود یہ ماننا مشکل ہے کہ اس آیت میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کو قیامت کی نشانی یا اس کے علم کا ذریعہ کہا گیا ہے۔  اس لیے کہ بعد کی عبارت یہ معنی لینے میں مانع ہے۔   ان کا دوبارہ آنا تو قیامت کے علم کا ذریعہ صرف ان لوگوں کے لیے بن سکتا ہے جو اس زمانہ میں موجود ہوں یا اس کے بعد پیدا ہوں۔ کفار مکہ کے لیے آخر وہ کیسے ذریعہ علم قرار پا سکتا تھا کہ ان کو خطاب کر کے یہ کہنا صحیح ہوتا کہ ’’ پس تم اس میں شک نہ کرو‘‘۔ لہٰذا ہمارے نزدیک صحیح تفسیر وہی ہے جو  بعض دوسرے مفسرین نے کی ہے کہ یہاں حضرت عیسیٰ کے بے باپ پیدا ہونے اور ان کے مٹی سے پرندہ بنانے اور مردے جِلانے کو قیامت کے امکان کی ایک دلیل قرار دیا گیا ہے،  اور ارشاد خداوندی کا منشا یہ ہے کہ جو خدا باپ کے بغیر بچہ پیدا کر سکتا ہے،  اور جس خدا کا ایک بندہ مٹی کے پُتلے میں جان ڈال سکتا اور مردوں کو زندہ کر سکتا ہے اس کے لیے آخر تم اس بات کو کیوں ناممکن سمجھتے ہو کہ وہ تمہیں اور تمام انسانوں کو مرنے بعد دوبارہ زندہ کر دے۔  

۵۶۔  یعنی قیامت پر ایمان لانے سے روک دے۔  

۵۷۔  یعنی عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ میں خدا ہوں یا خدا کا بیٹا ہوں اور تم میری عبادت کرو، بلکہ ان کی دعوت وہی تھی جو دوسرے تمام انبیاء کی دعوت تھی اور اب جس کی طرف محمد صلی اللہ علیہ و سلم تم کو بلا رہے ہیں۔  (تشریح  کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اول، ص ۲۵۳ تا ۲۵۵۔  ۲۶۰۔ ۴۲۸۔ ۵۱۵۔  ۵۱۶۔ جلد سوم، ص ۶۶ تا ۶۸ )۔

 ۵۸۔ یعنی ایک گروہ نے ان کا انکار کیا تو مخالفت میں اس حد تک پہنچ گیا کہ ان پر ناجائز ولادت کی تہمت لگائی  اور ان کو اپنے نزدیک سولی پر چڑھوا کر چھوڑا۔ دوسرے گروہ نے ان کا اقرار کیا تو عقیدت میں بے تحاشا غلو کر کے ان کو خدا بنا بیٹھا اور پھر ایک انسان کے خدا ہونے کا مسئلہ اس کے لیے ایسی گتھی بنا جسے سلجھاتے سلجھاتے اس میں بے شمار فرقے بن گئے۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن،  جلد اول، ص ۴۲۷تا ۴۳۰۔ ۴۵۶۔ ۴۵۷۔ ۴۹۱  تا ۴۹۵۔  ۵۱۵۔ ۵۱۶۔ )۔  

۵۹۔ دوسرے الفاظ میں صرف وہ دو ہستیاں باقی رہ جائیں گی جو دنیا میں نیکی اور خدا ترسی پر قائم ہیں۔ دوسرے تمام دوستیاں دشمنی میں تبدیل ہو جائیں گی، اور آج گمراہی،  ظلم و ستم اور  معصیت میں جو لوگ ایک دوسرے کے یار و مدد گار بنے ہوئے ہیں،  کل قیامت کے روز وہی ایک دوسرے پر الزام ڈالنے اور اپنی جان چھڑانے کی کوشش کر رہے ہوں گے۔  یہ مضمون قرآن مجید میں بار بار جگہ جگہ بیان کیا گیا ہے تاکہ ہر شخص اسی دنیا میں اچھی طرح سوچ لے کہ کن لوگوں کا ساتھ دینا اس کے لیے مفید ہے اور کن کا ساتھ تباہ کن۔  

 

اس روز ان لوگوں سے جو ہماری آیات پر ایمان لائے تھے اور مطیع فرمان بن کر رہے تھے کہا جائے گا کہ ’’ اے میرے بندو،  آج تمہارے لیے کوئی خوف نہیں اور نہ تمہیں کوئی غم لاحق ہو گا۔ داخل ہو جاؤ جنت میں تم اور تمہاری بیویاں(۶۰)، تمہیں خوش کر دیا جائے گا‘‘۔ ان کے آگے سونے کے تھال اور ساغر گردش کریں گے اور ہر من بھاتی اور نگاہوں کو لذت دینے والی چیز وہاں موجود ہو گی۔ ان سے کہا جائے گا، ’’ تم اب یہاں ہمیشہ رہو گے۔  تم اس جنت کے وارث اپنے ان اعمال کی وجہ سے ہوئے ہو جو تم دنیا میں کرتے رہے۔  تمہارے لیے یہاں بکثرت فواکہ موجود ہیں تم کھاؤ گے ‘‘۔ رہے مجرمین،  تو وہ ہمیشہ جہنم کے عذاب میں مبتلا رہیں گے،  کبھی ان کے عذاب میں کمی نہ ہو گی، اور وہ اس میں مایوس پڑے ہوں گے۔  ان پر ہم نے ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کرتے رہے۔  وہ پکاریں گے،  ’’ اے مالک(۶۱)، تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے تو اچھا ہے ‘‘۔ وہ جواب دے گا، ’’ تم یوں ہی پڑے رہو گے،  ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے تھے مگر تم میں سے اکثر کو حق ہی ناگوار تھا(۶۲)‘‘۔
کیا ان لوگوں نے کوئی اقدام کرنے کا فیصلہ کر لیا (۶۳) ہے ؟ اچھا تو ہم بھی پھر ایک فیصلہ کیے لیتے ہیں۔ کیا انہوں  نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم ان کی راز کی باتیں اور ان کی سرگوشیاں سنتے نہیں ہیں ؟ ہم سب کچھ سن رہے ہیں اور ہمارے فرشتے ان کے پاس ہی لکھ رہے ہیں۔
ان سے کہو، ’’ اگر واقعی رحمان کی کوئی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے عبادت کرنے والا میں ہوتا(۶۴)‘‘۔ پاک ہے آسمانوں اور زمین کا فرماں روا عرش کا مالک، ان ساری باتوں سے جو یہ لوگ اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ اچھا، انہیں اپنے باطل خیالات میں غرق اور اپنے کھیل میں منہمک رہنے دو، یہاں تک کہ یہ اپنا وہ دن دیکھ لیں جس کا انہیں خوف دلایا جا رہا ہے۔  
وہی ایک آسمان میں بھی خدا ہے اور زمین میں بھی خدا، اور وہی حکیم و علیم ہے (۶۵)۔ بہت بالا و برتر ہے وہ جس کے قبضے میں زمین اور آسمانوں اور ہر اس چیز کی بادشاہی ہے جو زمین و آسمان کے درمیان پائی جاتی ہے (۶۶)۔ اور وہی قیامت کی گھڑی کا علم رکھتا ہے،  اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو(۶۷)۔
اس کو چھوڑ کر یہ لوگ جنہیں پکارتے ہیں وہ کسی شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے،  الّا یہ کہ کوئی علم کی بنا پر حق کی شہادت دے (۶۸)۔
اور اگر تم ان سے پوچھو کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ اللہ نے (۶۹)۔ پھر کہاں سے یہ دھوکا کھا رہے ہیں، قسم ہے رسولؐ کے اس قول کی  کہ اے رب،  یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے (۷۰)۔
اچھا، اے نبی،  ان سے درگزر کرو اور کہہ دو کہ سلام ہے تمہیں(۷۱)، عنقریب انہیں معلوم ہو جائے گا۔

 

۶۰۔ اصل میں ازواج کا لفظ استعمال ہوا ہے جو بیویوں کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے بھی جو کسی شخص کے ہم مشرب،  ہم جولی،  اور ہم جماعت ہوں۔  یہ وسیع المعنی لفظ اسی لیے استعمال کیا گیا ہے تاکہ اس کے مفہوم کیں دونوں داخل ہو جائیں۔  اہل ایمان کی مومن بیویاں بھی ان کے ساتھ ہوں گی اور ان کے مومن دوست بھی جنت میں ان کے رفیق ہوں گے۔  

۶۱۔  مالک سے مراد ہے جہنم کا داروغہ جیسا کہ فحوائے کلام سے خود ظاہر ہو رہا ہے۔  

۶۲۔  یعنی ہم نے حقیقت تمہارے سامنے کھول کر رکھ دی، مگر  تم حقیقت کے بجائے افسانوں کے دلدادہ تھے اور سچائی تمہیں سخت ناگوار تھی۔  اب اپنے اس احمقانہ انتخاب کا انجام دیکھ کر بلبلاتے کیوں ہو ؟ ہو سکتا ہے کہ یہ داروغہ جہنم ہی کے جواب کا ایک حصہ ہو، اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس کا جواب ’’ تم یوں ہی پڑے رہو گے ‘‘ پر ختم ہو گیا ہو اور یہ دوسرا فقرہ اللہ تعالیٰ کا  اپنا ارشاد ہو۔  پہلی صورت میں داروغہ جہنم کا یہ قول کہ ’’ ہم تمہارے پاس حق لے کر آئے تھے ‘‘ ایسا ہی ہے جیسے حکومت نے یہ کام کیا یا یہ حکم دیا۔  

۶۳۔ اشارہ ہے ان باتوں کی طرف جو سرداران قریش اپنی خفیہ مجلسوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خلاف کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے کے لیے کر رہے تھے۔  

۶۴۔ مطلب یہ ہے کہ میرا کسی کو خدا کی اولاد نہ ماننا،  اور جنہیں تم اس کی اولاد قرار دے رہے ہو ان کی عبادت سے انکار کر نا کسی ضد اور ہٹ دھرمی کی بنا پر نہیں ہے۔  میں جس بنا پر اس سے انکار کرتا ہوں وہ صرف یہ ہے کہ کوئی خدا کا بیٹا یا بیٹی نہیں ہے اور تمہارے یہ عقائد حقیقت کے خلاف ہیں۔ ورنہ میں تو خدا کا ایسا وفادار بندہ ہوں کہ اگر بالفرض حقیقت یہی ہوتی تو تم سے پہلے میں بندگی میں سر جھکا دیتا۔

۶۵۔  یعنی آسمان اور زمین کے خدا الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ ساری کائنات کا ایک ہی خدا ہے۔  اسی کی حکمت اس پورے نظام کائنات میں کار فرما ہے،  اور وہی تمام حقائق کا علم رکھتا ہے۔

 ۶۶۔  یعنی اس کی ہستی اس سے بدر جہا بلند و بر تر ہے کہ کوئی خدائی میں اس کا شریک ہو اور اس عظیم کائنات کی فرماں روائی میں کچھ بھی دخل رکھتا ہو۔  زمین و آسمان میں جو بھی ہیں،  خواہ وہ انبیاء ہو یا اولیا،  فرشتے ہوں یا جن یا ارواح، ستارے ہوں یا سیارے،  سب اس کے بندے اور غلام اور تابع فرمان ہیں۔ ان کا کسی خدائی صفت سے متصف یا خدائی اختیار کا حامل ہونا قطعی نا ممکن ہے۔  

۶۷۔  یعنی دنیا میں تم خواہ کسی کو اپنی حامی و سرپرست بناتے پھرو، مگر مرنے کے بعد تمہارا سابقہ اسی ایک خدا سے پڑنا ہے اور اسی کی عدالت میں تم کو اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہے۔  

۶۸۔  اس فقرے کے کئی مفہوم ہیں :

ایک یہ کہ لوگوں نے جن جن کو دنیا میں معبود بنا رکھا ہے وہ سب اللہ کے حضور شفاعت کرنے والے نہیں ہیں۔ ان میں سے جو گمراہ و بد راہ تھے وہ تو خود وہاں مجرم کی حیثیت سے پیش ہوں گے۔  البتہ وہ لوگ ضرور دوسروں کی شفاعت کرنے کے قابل ہوں گے جنہوں نے علم کے ساتھ (نہ کہ بے جا نے بوجھے ) حق کی شہادت دی تھی۔

دوسرے یہ کہ جنہیں شفاعت کرنے کا اختیار حاصل ہو گا وہ بھی صرف ان لوگوں کی شفاعت کر سکیں گے جنہوں نے دنیا میں جان بوجھ کر (نہ کہ غفلت و بے خبری کے ساتھ) حق کی شہادت دی ہو۔  کسی ایسے شخص کی شفاعت نہ وہ خود کریں گے نہ کرنے کے مجاز ہوں گے جو دنیا میں حق سے برگشتہ رہا تھا،  یا بے سمجھے بوجھے : اشھد ان لا ا لٰہ الا اللہ  بھی کہتا رہا اور دوسرے الہٰوں کی بندگی بھی کرتا رہا۔

تیسرے یہ کہ کوئی شخص اگر یہ کہتا ہے کہ اس نے جن کو معبود بنا رکھا ہے وہ لازماً شفاعت کے اختیارات رکھتے ہیں، اور انہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں ایسا زور حاصل ہے کہ جسے چاہیں بخشوا لیں قطع نظر اس سے کہ اس کے اعمال و عقائد کیسے ہی ہوں، تو وہ غلط کہتا ہے۔  یہ حیثیت اللہ کے ہاں کسی کو بھی حاصل نہیں  ہے۔  جو شخص کسی کے لیے ایسی شفاعت کے اختیارات کا دعویٰ کرتا ہے وہ اگر علم کی بنا پر اس بات کی مبنی بر حقیقت شہادت دے سکتا ہو تو ہمت کر کے آگے آئے۔  لیکن اگر وہ ایسی شہادت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے،  اور یقیناً نہیں ہے،  تو خواہ مخواہ سنی سنائی باتوں پر، یا محض قیاس و وہم و گمان کی بنیاد پر ایسا ایک عقیدہ گھڑ لینا سراسر لغو،  اور اس خیالی بھروسے پر اپنی عاقبت کو خطرے میں ڈال لینا قطعی حماقت ہے۔  

اس آیت سے ضمناً دو بڑے اہم اصول بھی مستنبط ہوتے ہیں۔ اولاً اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کے بغیر حق کی شہادت دینا چاہے دنیا میں معتبر ہو، مگر اللہ کے ہاں معتبر نہیں ہے۔  دنیا میں تو جو شخص کلمہ شہادت زبان سے ادا کرے گا،  ہم اس کو مسلمان مان لیں گے اور اس کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کرتے رہیں گے جب تک وہ کھلم کھلا کفر صریح کا ارتکاب نہ کرے۔  لیکن اللہ کے ہاں صرف وہی شخص اہل ایمان میں شمار ہو گا جس نے اپنی بساط علم و عقل کی حد تک یہ جانتے اور سمجھتے ہوئے لا الٰہ الا اللہ کہا ہو کہ وہ کس چیز کا انکار اور کس چیز کا اقرار کر رہا ہے۔  

ثانیاً،  اس سے قانون شہادت کا یہ قاعدہ نکلتا ہے کہ گواہی کے لیے علم شرط ہے۔  گواہ جس واقعہ کی گواہی دے رہا ہو اس کا اگر اسے علم نہیں ہے تو اس کی گواہی بے معنی ہے۔  یہی بات نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک فیصلے سے بھی معلوم ہوتی ہے۔  آپ نے ایک گواہ سے فرمایا کہ : اِذارأیت مثل الشمس فاشہد و لّا فدع (احکام القرآن للجصّاص) ’’ اگر تو نے واقعہ کو خود اپنی آنکھوں سے اس طرح دیکھا ہے جیسے تو سورج کو دیکھ رہا ہے تو گواہی دے ورنہ رہنے گے۔ ‘‘

۶۹۔  اس کے دو مطلب ہیں۔  ایک یہ کہ اگر تم ان سے پوچھو کہ خود ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو کہیں گے کہ اللہ نے۔  دوسرے یہ کہ اگر تم ان سے پوچھو کہ ان کے معبودوں کا خالق کون ہے تو یہ کہیں گے کہ اللہ۔  

۷۰۔  یہ قرآن مجید کی نہایت مشکل آیات میں سے ہے جس میں نحو کا یہ  نہایت پیچیدہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ : وَقِیْلِہٖ میں واؤ کیسا ہے اور اس لفظ کا تعلق اوپر سلسلہ کلام میں کس چیز کے ساتھ ہے۔  مفسرین نے اس پر بہت کچھ کلام کیا ہے مگر کوئی تشفی بخش بات مجھے ان کے ہاں نہیں ملی۔  میرے نزدیک سب سے زیادہ صحیح بات وہی ہے جو شاہ عبدالقادر  صاحبؒ کے ترجمے سے مترشح ہوتی ہے،  یعنی اس میں واؤ عطف کا نہیں بلکہ قسمیہ ہے،  اور اس کا تعل : فَاَ نّیٰ یُؤْ فَکُوْنَ سے ہے،  اور قِیْلِہٖ کی ضمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف پھرتی ہے جس پر : یَا رَبِّ اِنَّ ھٰٓؤُ لَآ ءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْ مِنُوْنَ کا فقرہ صریح دلالت کر رہا ہے۔  آیت کا مطلب یہ ہے کہ :

قسم ہے رسول کے اس قول کی کہ ’’ اے رب یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے ‘‘،  کیسی عجیب ہے ان لوگوں کی فریب خوردگی کہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا اور ان کے معبودوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور پھر بھی خالق کو چھوڑ کر مخلوق ہی کی عبادت پر اصرار کیے جاتے ہیں۔

رسول کے اس قول کی قسم کھانے کا مدعا یہ ہے کہ ان لوگوں کی یہ روش صاف ثابت کیے دے رہی ہے کہ فی الواقع یہ ہٹ دھرم ہیں، کیونکہ ان کے رویے کا غیر معقول ہونا ان کے اپنے اعتراف سے ظاہر ہے،  اور ایسا غیر معقول رویہ صرف وہی شخص اختیار کر  سکتا ہے جو نہ ماننے کا فیصلہ کیے بیٹھا ہو۔ بالفاظ دیگر یہ قسم اس معنی میں ہے کہ بالکل ٹھیک کہا رسول نے،  فی الواقع یہ مان کر دینے والے لوگ نہیں ہیں۔  

۷۱۔  یعنی ان کی سخت باتوں اور تضحیک و استہزاء پر نہ ان کے لیے بد دعا کرو اور نہ ان کے جواب میں کوئی سخت بات کہو، بس سلام کر کے ان سے الگ ہو جاؤ۔