تفہیم القرآن

سُوۡرَةُ الجَاثیَة

نام

آیت ۲۸ کے فقرے  وَتَرٰی کُلَّ اُمَّۃٍ جَاثِیَۃً سے ماخوذ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ وہ سورۃ جس میں لفظ جاثیہ آیا ہے۔

زمانہ نزول : اس سورۃ کا زمانہ نزول بھی کسی معتبر روایت میں بیان نہیں ہوا ہے۔ مگر اس کے مضامین سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ سورہ دُخان کے بعد قریبی زمانے میں نازل ہوئی ہے۔ دونوں سورتوں کے مضامین میں ایسی مشابہت ہے جس سے یہ دونوں توام نظر آتی ہیں۔ 

موضوع اور مباحث

اس کا موضوع توحید و آخرت کے متعلق کفار مکہ کے شبہات و اعتراضات کا جواب دینا اور اس رویے پر ان کو متنبہ کرنا ہے جو انہوں نے قرآن کی دعوت کے مقابلے میں اختیار کر رکھا تھا۔

کلام کا آغاز توحید کے دلائل سے کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں انسان کے اپنے وجود سے لے کر زمین و آسمان تک ہر طرف پھیلی ہوئی بے شمار نشانیوں کی طرف اشارہ کر کے بتایا گیا ہے کہ تم جدھر بھی نگاہ اٹھا کر دیکھو، ہر چیز اسی توحید کی شہادت دے رہی ہے جسے ماننے سے تم انکار کر رہے ہو۔ یہ طرح طرح کے حیوانات، یہ شب و روز، یہ بارشیں اور ان سے اگنے والی نباتات، یہ ہوائیں، اور یہ انسان کی اپنی پیدائش، ان ساری چیزوں کو اگر کوئی شخص آنکھیں کھول کر دیکھے اور کسی تعصب کے بغیر اپنی عقل کو سیدھے طریقہ سے استعمال کر کے ان پر غور کرے تو یہ نشانیاں سے اس امر کا یقین دلانے کے لیے بالکل کافی ہیں کہ یہ کائنات بے خدا نہیں ہے، نہ بہت سے خداؤں کی خدائی میں چل رہی ہے، بلکہ ایک ہی خدا نے اسے بنایا ہے، اور وہی اکیلا اس کا مدبر اور فرماں روا ہے۔ البتہ اس شخص کی بات دوسرے ہے جو نہ ماننے کی قسم کھا کر بیٹھ گیا ہو، یا شکوک و شبہات ہی میں پڑے رہنے کا فیصلہ کر چکا ہو۔ اسے دنیا میں کہیں سے بھی یقین و ایمان کی دولت حاصل نہیں ہو سکتی۔  

آگے چل کر دوسرے رکوع کی ابتدا میں پھر فرمایا گیا ہے کہ انسان اس دنیا میں جتنی چیزوں سے کام لے رہا ہے، اور جو بے حد حساب اشیاء اور قوتیں اس کائنات میں اس کے مفاد کی خدمت کر رہی ہیں، وہ آپ سے آپ کہیں سے نہیں آ گئی ہیں، نہ دیویوں اور دیوتاؤں نے انہیں فراہم کیا ہے، بلکہ وہ ایک ہی خدا ہے جس نے یہ سب کچھ اپنے پاس سے اس کو بخشا اور اس کے لیے مسخر کر دیا ہے۔ کوئی شخص صحیح  غور و فکر سے کام لے تو اس کی اپنی عقل ہی پکار اٹھے گی کہ وہی خدا انسان کا محسن ہے اور اسی کا یہ حق ہے کہ انسان اس کا شکر گزار ہو۔

اس کے بعد کفار مکہ کو اس ہٹ دھرمی، استکبار، استہزاء  اور اصرار علی الکفر پر سخت ملامت کی گئی ہے جس سے وہ قرآن کی دعوت کا مقابلہ کر رہے تھے، اور انہیں خبردار کیا گیا ہے  کہ یہ قرآن وہی نعمت لے کر آیا ہے جو پہلے بنی اسرائیل کو دی گئی تھی، جس کی بدولت وہ تمام اقوام علام پر فضیلت کے مستحق ہوئے تھے۔ انہوں نے جب اس نعمت کی ناقدری کی اور دین میں اختلاف کر کے اسے کھو دیا، تو اب یہ دولت تمہارے ہاں بھیجی گئی ہے۔ یہ ایک ایسا ہدایت نامہ ہے جو دین کی صاف شاہراہ انسان کو دکھاتا ہے۔ جو لوگ اپنی جہالت و حماقت سے اس کو رد کریں گے وہ اپنی ہی تباہی کا سامان کریں گے۔ اور خدا کی تائید و رحمت کے مستحق صرف وہ لوگ ہوں گے جو اس کی پیروی قبول کر کے تقویٰ کی روش پر قائم ہو جائیں۔

اسی سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے متبعین کو ہدایت کی گئی ہے کہ یہ خدا سے بے خوف لوگ تمہارے ساتھ جو بیہودگیاں کر رہے ہیں ان پر در گزر اور تحمل سے کام لو۔ تم صبر کرو گے تو خدا خود ان سے نمٹے گا اور تمہیں اس صبر کا اجر عطا فرمائے گا۔

پھر عقیدہ آخرت کے متعلق کفار کے جاہلانہ خیالات پر کلام کیا گیا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ زندگی بس اسی دنیا کی زندگی ہے، اس کے بعد کوئی دوسرے زندگی نہیں ہے۔ ہم گردش ایام سے بس اسی طرح مرتے ہیں جس طرح ایک گھڑی چلتے چلتے رک جائے۔ موت کے بعد کوئی روح باقی نہیں رہتی جسے قبض کیا جاتا ہو اور پھر کسی وقت دوبارہ لا کر انسانی جسم میں پھونک دیا جائے۔ اس چیز کا اگر تمہیں دعویٰ ہے تو ہمارے مرے ہوئے آبا و اجداد کو زندہ کر کے دکھاؤ۔ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے پے در پے چند دلائل ارشاد فرمائے ہیں:

ایک یہ کہ تم یہ بات کسی علم کی بنا پر نہیں کہہ رہے ہو بلکہ محض گمان کی بنیاد پر اتنا بڑا حکم لگا بیٹھے ہو۔ کیا فی الواقع تمہیں یہ علم ہے کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے اور روحیں قبض نہیں کی جاتیں بلکہ فنا ہو جاتی ہیں؟

دوسرے یہ کہ تمہارے اس دعوے کی بنیاد زیادہ سے زیادہ بس یہ ہے کہ تم نے کسی مرنے والے کو اٹھ کر دنیا میں آتے نہیں دیکھا ہے۔ کیا یہ بات اتنا بڑا دعویٰ کر دینے کے لیے کافی ہے کہ مرنے والے پھر کبھی نہیں اٹھیں گے؟ کیا تمہارے تجربے اور مشاہدے میں کسی چیز کا نہ آنا یہ معنی رکھتا ہے کہ تمہیں اس چیز کے نہ ہونے کا علم حاصل ہے؟

تیسرے یہ کہ یہ بات سراسر عقل اور انصاف کے خلاف ہے کہ نیک اور بد، فرمانبردار اور نافرمان، ظالم اور مظلوم، آخرت کار سب یکساں کر دیے جائیں، کسی بھلائی کا کوئی اچھا نتیجہ اور کسی برائی کا کوئی برا نتیجہ نہ نکلے، نہ کسی مظلوم کی داد رسی ہو اور نہ کوئی ظالم اپنے کیے کی سزا پائے، بلکہ سب ایک ہی انجام سے دوچار ہوں۔ خدا کی اس کائنات کے متعلق جس نے یہ تصور قائم کیا ہے اس نے بڑا ہی غلط تصور قائم کیا ہے۔ اس تصور کو ظالم اور بد کار لوگ تو اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ وہ اپنے افعال کا برا نتیجہ نہیں دیکھنا چاہتے، لیکن خدا کی یہ خدائی اندھیر نگری نہیں ہے بلکہ یہ ایک برحق نظام ہے جس میں نیک و بد کو بالآخر یکساں کر دینے کا ظلم ہر گز نہیں ہو سکتا۔

چوتھے یہ کہ انکار آخرت کا عقیدہ اخلاق کے لیے سخت تباہ کن ہے۔ اس کو اختیار وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنے نفس کے بندے بنے ہوئے ہیں، اور اس لیے کرتے ہیں کہ انہیں بندگیٔ نفس کی کھلی چھوٹ مل جائے۔ پھر جب وہ اس عقیدے کو اختیار کر لیتے ہیں تو یہ انہیں گمراہ سے گمراہ تر کرتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہاں کی اخلاقی حِس بالکل مردہ ہو جاتی ہے اور ہدایت کے تمام دروازے ان کے لیے بند ہو جاتے ہیں۔

یہ دلائل دینے کے بعد اللہ تعالیٰ پورے زور کے ساتھ فرماتا ہے کہ جس طرح تم آپ سے آپ زندہ نہیں ہو گئے ہو، بلکہ ہمارے زندہ کرنے سے زندہ ہوئے ہو، اسی طرح تم آپ سے آپ نہیں مر جاتے، بلکہ ہمارے موت دینے سے مرتے ہو، اور ایک وقت یقیناً ایسا آنا ہے جب تم سب بیک وقت جمع کیے جاؤ گے۔ اس بات کو اگر آج تم اپنی جہالت و نادانی سے نہیں مانتے تو نہ مانو، جب وہ وقت آ جائے گا تو تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اپنے خدا کے حضور پیش ہو اور تمہاری پورا نامہ اعمال بے کم و کاست تیار ہے جو تمہارے ایک ایک کرتوت کی شہادت دے رہا ہے۔ اس وقت تم کو معلوم ہو جائے گا کہ عقیدہ آخرت کا یہ انکار اور اس کا یہ مذاق جو تم اُڑا رہے ہو، تمہیں کس قدر مہنگا پڑا ہے۔ 

ترجمہ و تفسیر

شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے
ح۔ م۔  اس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست اور حکیم ہے (۱)۔
حقیقت یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں بے شمار نشانیاں ہیں ایمان لانے والوں کے لیے (۲)۔ اور  تمہاری اپنی پیدائش میں، اور ان حیوانات میں جن کو اللہ (زمین میں) پھیلا رہا ہے، بڑی نشانیاں ہیں  ان لوگوں کے لیے جو یقین لانے والے ہیں(۳)، اور اس رزق میں (۵) جسے اللہ آسمان سے نازل فرماتا ہے پھر اس کے ذریعہ سے مردہ زمین کو جِلا اٹھاتا ہے (۶)، اور ہواؤں کی گردش میں (۷) بہت نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں جنہیں ہم تمہارے سامنے ٹھیک ٹھیک بیان کر رہے ہیں۔ اب آخر اللہ اور اس کی آیات کے بعد اور کون سی بات ہے جس پر یہ لوگ ایمان لائیں گے (۸)۔
تباہی ہے ہر اس جھوٹے بد اعمال شخص کے لیے جس کے سامنے اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں، اور وہ ان کو سنتا ہے، پھر پورے استکبار کے ساتھ اپنے کفر پر اس طرح اَڑا رہتا ہے کہ گویا اس نے ان کو سنا ہی نہیں(۹)۔ ایسے شخص کو درد ناک عذاب کا مُژدہ سنا دو۔ ہماری آیات میں سے کوئی بات جب اس کے علم میں آتی ہے تو وہ ان کا مذاق بنا لیتا ہے (۱۰)۔ ایسے سب لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔ ان کے آگے جہنم ہے (۱۱)۔ جو کچھ بھی انہوں نے دنیا میں کمایا ہے اس میں سے کوئی چیز ان کے  کسی کام نہ آئے گی، نہ ان کے وہ سرپرست ہی ان کے لیے کچھ کر سکیں گے جنہیں اللہ کو چھوڑ کر انہوں نے اپنا ولی بنا رکھا ہے (۱۲)۔ ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔
یہ قرآن سراسر ہدایت ہے، اور ان لوگوں کے لیے بلا کا درد ناک عذاب ہے جنہوں نے اپنے رب کی آیات کو ماننے سے انکار کیا۔ ع

 

۱۔ یہ اس سورے کی مختصر تمہید ہے جس میں سامعین کو دو باتوں سے خبردار کیا گیا ہے۔ ایک یہ کہ کتاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اپنی تصنیف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر نازل ہو رہی ہے۔ دوسرے یہ کہ اسے وہ خدا نازل کر رہا ہے جو زبردست بھی ہے اور حکیم بھی۔ اس کا زبردست ہونا اس بات کا متقاضی ہے کہ انسان اس کے فرمان سے سرتابی کی جرأت نہ کرے، کیونکہ نافرمانی کر کے وہ اس کی سزا سے کسی طرح بچ نہیں سکتا۔ اور اس کا حکیم ہونا اس کا متقاضی ہے کہ انسان پورے اطمینان کے ساتھ برضا و رغبت اس کی ہدایات اور اس کے احکام کی پیروی کرے، کیونکہ اس کی کسی تعلیم کے غلط یا نا مناسب یا نقصان وہ ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

۲۔ تمہید کے بعد اصل تقریر کا آغاز اس طرح کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ پس منظر میں اہل مکہ کے وہ اعتراضات ہیں جو وہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی پیش کردہ تعلیم پر کر رہے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ آخر محض ایک شخص کے کہنے سے ہم اتنی بڑی بات کیسے مان لیں کہ جن بزرگ ہستیوں کے آستانوں سے آج تک ہماری عقیدتیں وابستہ رہی ہیں وہ سب ہیچ ہیں اور خدائی بس ایک خدا کی ہے۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ جس حقیقت کو ماننے کی دعوت تمہیں دی جا رہی ہے اس کی سچائی کے نشانات سے تو سارا عالم بھر پڑا ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھو۔ تمہارے اندر اور تمہارے باہر ہر طرف نشانیاں ہی نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جو شہادت دے رہی ہیں کہ یہ ساری کائنات ایک خدا اور ایک ہی خدا کی تخلیق ہے اور وہی اکیلا اس کا مالک، حاکم اور مدبر ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہ تھی کہ آسمان و زمین میں نشانیاں کس چیز کی ہیں۔ اس لیے کہ سارا جھگڑا ہی اس وقت اس بات پر چل رہا تھا کہ مشرکین اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے خداؤں اور معبودوں کو بھی ماننے پر اصرار کر رہے تھے، اور قرآن کی دعوت یہ تھی کہ ایک خدا کے سوا نہ کوئی خدا ہے نہ معبود۔ لہٰذا بے کہے یہ بات آپ ہی آپ موقع و محل سے ظاہر ہو رہی تھی کہ نشانیوں سے مراد توحید کی صداقت اور شرک کے بطلان کی نشانیاں ہیں۔

پھر یہ جو فرمایا  کہ’’ یہ نشانیاں ایمان لانے والوں کے لیے ہیں ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ بجائے خود تو یہ نشانیاں سارے ہی انسانوں کے لیے ہیں، لیکن انہیں دیکھ کر صحیح نتیجے پر وہی لوگ پہنچ سکتے ہیں جو ایمان لانے کے لیے تیار ہوں غفلت میں پڑے ہوئے لوگ، جو جانوروں کی طرح جیتے ہیں، اور ہٹ دھرم لوگ، جو نہ ماننے کا تہیہ کے بیٹھے ہیں، ان کے لیے ان نشانیوں کا ہونا اور نہ ہونا یکساں ہے۔ چمن کی رونق اور اس کا حسن و جمال تو آنکھوں والے کے لیے ہے۔ اندھا کسی رونق اور کسی حسن و جمال کا ادراک نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے چمن کا وجود ہی بے معنی ہے۔

۳۔ یعنی جو لوگ انکار کا فیصلہ کر چکے ہیں، یا جنہوں نے شک ہی کی بھول بھلیوں میں بھٹکنا اپنے لیے پسند کر لیا ہے ان کا معاملہ تو دوسرا ہے، مگر جن لوگوں کے دل کے دروازے یقین کے لیے بند نہیں ہوئے ہیں وہ جب اپنی پیدائش پر، اور اپنے وجود کی ساخت پر، اور زمین میں پھیلے ہوئے انواع و اقسام کے حیوانات پر غور کی نگاہ ڈالیں گے تو انہیں بے شمار علامات ایسی نظر آئیں گی جنہیں دیکھ کر یہ شبہ کرنے کی ادنیٰ سی گنجائش بھی نہ رہے گی کہ شاید یہ سب کچھ کسی خدا کے بغیر بن گیا ہو، یا شاید اس کے بنانے میں ایک سے زیادہ خداؤں کا دخل ہو۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد اول، ص ۵۳۷۔ ۵۳۸۔ جلد دوم، ص ۵۲۶۔ ۵۲۷۔ جلد سوم، ص ۲۰۱ تا ۲۰۴۔ ۲۶۹۔ ۴۵۸۔ ۵۰۲۔ ۵۰۳۔ ۵۹۳۔ ۵۹۴۔ ۷۴۲ تا ۷۴۶۔ ۷۶۵۔ ۷۶۶۔ جلد چہارم، السجدہ، حواشی ۱۴ تا ۱۸۔ یٰس، آیات ۷۱ تا ۷۳۔ الزمر، آیت ۶۔ المومن، حواشی ۹۷۔ ۹۸۔ ۱۱۰)۔

۴۔ رات اور دن کا یہ فرق و اختلاف اس اعتبار سے بھی نشانی ہے کہ دونوں پوری با قاعدگی کے ساتھ ایک دوسرے کے بعد آتے ہیں، اور اس اعتبار سے بھی کہ ایک روشن ہے اور دوسرا تاریک، اور اس اعتبار سے بھی کہ ایک مدت تک بڑی تدریج دن بڑا اور رات چھوٹی ہوتی چلی جاتی ہے، پھر ایک وقت جا کر دونوں برابر ہو جاتے ہیں۔ یہ مختلف قسم کے فرق و اختلاف جو رات اور دن میں پائے جاتے ہیں اور ان سے جو عظیم حکمتیں وابستہ ہیں، وہ اس بات کی صریح علامت ہیں کہ سورج اور زمین اور موجودات زمین کا خالق ایک ہی ہے، اور ان دونوں کرّوں کو ایک ہی زبردست اقتدار نے قابو میں رکھا ہے، اور وہ کوئی اندھا بہرا بے حکمت اقتدار نہیں ہے بلکہ ایسا حکیمانہ اقتدار ہے جس نے یہ اٹل حساب قائم کر کے اپنی زمین کو زندگی کی ان بے شمار انواع کے لیے موزوں جگہ بنا دیا ہے جو نباتات، حیوانات اور انسان کی شکل میں اس نے یہاں پیدا کی ہیں۔ (تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد دوم، ص ۲۹۶۔ ۲۹۷۔ جلد سوم، ص، ۶۰۶۔ ۶۵۹۔ جلد چہارم، لقمان، آیت ۲۹، حاشیہ ۵۰۔ یٰس، آیت ۳۷، حاشیہ ۳۲)

۵۔ رزق سے مراد یہاں بارش ہے، جیسا کہ بعد کے فقرے سے صاف معلوم ہو جاتا ہے۔

۶۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد سوم، ص ۲۷۰۔ ۲۷۱۔ ۴۵۵۔ ۴۵۶۔ ۴۷۹۔   ۴۸۹۔ ۵۹۰۔ ۷۴۸۔ ۷۴۹۔ ۷۶۳۔ جلد چہارم، یٰس حواشی ۲۶ تا ۳۱۔

۷۔ ہواؤں کی گردش سے مراد مختلف اوقات میں زمین کے مختلف حصوں پر اور مختلف بلندیوں پر مختلف ہوائیں چلنا ہے جن سے موسموں کی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔ دیکھنے کی چیز صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ زمین کے اوپر ایک وسیع کرہ ہوائی پایا جاتا ہے جس کے اندر وہ تمام عناصر موجود ہیں جو زندہ مخلوقات کو سانس لینے کے لیے درکار ہیں، اور ہوا کے اسی لحاف نے زمین کی آبادی کو بہت سی آفات سماوی سے بچا رکھا ہے۔ اس کے ساتھ دیکھنے کی چیز یہ بھی ہے کہ یہ ہوا محض بالائی فضا میں بھر کر نہیں رہ گئی ہے بلکہ وقتاً فوقتاً مختلف طریقوں سے چلتی رہتی ہے۔ کبھی ٹھنڈی ہوا چلتی ہے اور کبھی گرم۔ کبھی بند ہو جاتی ہے اور کبھی چلنے لگتی ہے۔ کبھی ہلکی چلتی ہے تو کبھی تیز، اور کبھی آندھی اور طوفان کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ کبھی خشک ہوا چلتی ہے اور کبھی مرطوب۔ کبھی بارش لانے والی ہو چلتی ہے اور کبھی اس کو اڑا لے جانے والی چل پڑتی ہے۔ یہ طرح طرح کی ہوائیں کچھ یوں ہی اندھا دھند نہیں چلتیں بلکہ ان کا ایک قانون اور ایک نظام ہے جو شہادت دیتا ہے کہ یہ انتظام کمال درجہ حکمت پر مبنی ہے اور اس سے بڑے اہم مقاصد پورے ہو رہے ہیں۔ پھر اس کا بڑا گہرا تعلق اس سردی اور گرمی سے ہے جو زمین اور سورج کے درمیان بدلتی ہوئی مناسبتوں کے مطابق گھٹتی اور بڑھتی رہتی ہے، اور مزید براں اس کا نہایت گہرا تعلق موسمی تغیرات اور بارشوں کی تقسیم سے بھی ہے۔ یہ ساری چیزیں پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ کسی اندھی فطرت نے اتفاقاً یہ انتظامات نہیں کر دیے ہیں، نہ سورج اور زمین اور ہوا اور پانی اور نباتات اور حیوانات کے الگ الگ مدبر ہیں، بلکہ لازماً ایک ہی خدا ان سب کا خالق ہے اور اسی کی حکمت نے ایک مقصد عظیم کے لیے یہ انتظام قائم کیا ہے، اور اسی کی قدرت سے یہ پوری باقاعدگی کے ساتھ ایک مقرر قانون پر چل رہا ہے۔

۸۔ یعنی جب اللہ کی ہستی اور اس کی وحدانیت پر خود اللہ ہی کے بیان کیے ہوئے یہ دلائل سامنے آ جانے کے بعد بھی یہ لوگ ایمان نہیں لاتے تو اب کیا چیز ایسی آ سکتی ہے جس سے انہیں دولت ایمان نصیب ہو جائے۔ اللہ کا کلام تو وہ آخری چیز ہے جس کے ذریعہ سے کوئی شخص یہ نعمت پا سکتا ہے۔ اور ایک ان دیکھی حقیقت کا یقین دلانے کے لیے زیادہ سے زیادہ جو معقول دلائل ممکن ہیں وہ اس کلام پاک میں پیش کریے گئے ہیں۔ اس کے بعد اگر کوئی نکار ہی کرنے پر تلا ہوا ہو تو انکار کرتا رہے۔ اس کے انکار سے حقیقت نہیں بدل جائے گی۔

۹۔ با الفاظ دیگر فرق اور بہت بڑا فرق ہے اس شخص میں جو نیک نیتی کے ساتھ کی آیات کو کھلے دل سے سنتا اور سنجیدگی کے ساتھ ان پر غور کرتا ہے، اور اس شخص میں جو انکار کا پیشگی فیصلہ کر کے سنتا ہے اور کسی غور و فکر کے بغیر اپنے اسی فیصلے پر قائم رہتا ہے جو ان آیات کو سننے سے پہلے وہ کر چکا تھا۔ پہلی قسم کا آدمی اگر آج ان آیات کو سن کر ایمان نہیں لا رہا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ کافر رہنا چاہتا ہے، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مزید اطمینان کا طالب ہے۔ اس لیے اگر اس کے ایمان لانے میں دیر بھی لگ رہی ہے تو یہ بات عین متوقع ہے کہ کل کوئی دوسری آیت اس کے دل میں اتر جائے اور سہ مطمئن ہو کر مان لے لیکن دوسرے قسم کا آدمی کبھی کوئی آیت سن کر بھی ایمان نہیں لا سکتا۔ کیونکہ ہو پہلے ہی آیات الہٰی کے لیے اپنے دل کے دروازے بند کر چکا ہے۔ اس حالت میں بالعموم وہ لوگ مبتلا ہوتے ہیں جن کے اندر تین صفات موجود ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ جھوٹے ہوتے ہیں، اس لیے صداقت ان کو اپیل نہیں کرتی۔ دوسرے یہ کہ وہ بد عمل ہوتے ہیں، اس لیے کسی ایسی تعلیم و ہدایت کو مان لینا انہیں سخت ناگوار ہوتا ہے جو ان پر اخلاقی پابندیاں عائد کرتی ہو۔ تیسرے یہ کہ وہ اس گھمنڈ میں مبتلا ہوتے ہیں کہ ہم سب کچھ جانتے ہیں ہمیں کوئی کیا سکھائے گا، اس لیے اللہ کی جو آیات انہیں سنائی جاتی ہیں ان کو وہ سرے سے کسی غور فکر کا مستحق ہی نہیں سمجھتے اور ان کے سننے کا حاصل بھی وہی کچھ ہوتا ہے جو نہ سننے کا تھا۔

۱۰۔ یعنی اس ایک آیت کا مذاق اڑانے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ تمام آیات کا مذاق اڑانے لگتا ہے۔ مثلاً جب وہ سنتا ہے کہ قرآن میں فلاں بات بیان ہوئی ہے تو اسے سیدھے معنی میں لینے کے بجائے پہلے تو اسی میں کوئی ٹیڑھ تلاش کر کے نکال لاتا ہے تا کہ است مذاق کا موضوع بنائے، پھر اس کا م مذاق اڑانے کے بعد کہتا ہے : اجی ان کے کیا کہتے ہیں، وہ تو روز ایک سے ایک نرالی بات سنا رہے ہیں، دیکھو فلاں آیت میں انہیں نے یہ دلچسپ بات کہی ہے، اور فلاں آیت کے لطائف کا تو جواب ہی نہیں ہے۔

۱۱۔ اصل الفاظ ہیں مِنْ وَّ رَ آ ئِھِمْ جَھَنَّمُ۔ وراء کا لفظ عربی زبان میں ہر اس چیز کے لیے بولا جاتا ہے جو آدمی کی نظر سے اوجھل ہو، خواہ وہ آگے ہو یا پیچھے۔ اس لیے دوسرے ترجمہ ان الفاظ کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’’ ان کے پیچھے جہنم ہے۔ ‘‘ اگر پہل معنی لیے جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ وہ بے خبر منہ اٹھائے اس راہ پر دوڑے جا رہے ہیں اور انہیں احساس نہیں ہے کہ آگے جہنم ہے جس میں وہ جا کر گرنے والے ہیں۔ دوسرے معنی لینے کی صورت میں  مطلب یہ ہو گا کہ وہ آخرت سے بے فکر ہو کر اپنی اس شرارت میں مشغول ہیں اور انہیں پتہ نہیں ہے کہ جہنم ان کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔

۱۲۔ یہاں ولی کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ ایک وہ دیویاں اور دیوتا اور زندہ یا مردہ پیشوا جن کے متعلق مشرکین نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ جو شخص اس کا متوسل ہو وہ خواہ دنیا میں کچھ ہی کرتا ہے، خدا کے ہاں اس کی پکڑ نہ ہو سکے گی، کیونکہ ان کی مداخلت اسے خدا کے غضب سے بچا لے گی۔ دوسرے، وہ سردار اور لیڈر اور امراء و حکام جنہیں خدا سے بے نیاز ہو کر لوگ اپنا رہنما اور مطاع بناتے ہیں، اور آنکھیں بند کر کے ان کی پیروی کرتے ہیں، اور انہیں خوش کر نے کے لیے خدا کو نا خوش کرنے میں تامل نہیں کرتے یہ آیت ایسے لوگوں کو خبر دار کرتی ہے کہ جب اس روش کے نتیجے میں جہنم سے ان کو سابقہ پیش آئے گا تو ان دونوں قسم کے سر پرستوں میں سے کوئی بھی انہیں بچانے کے لیے آگے نہ بڑھے گا (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم تفسیر سورہ الشوریٰ، حاشیہ نمبر ۶)

 

وہ اللہ ہی توہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کیا تاکہ اس کے حکم سے کشتیاں اس میں چلیں (۱۳) اور تم اس کا فضل تلاش کرو (۱۴)  اور شکر گزار ہو۔ اس نے زمین اور آسمانوں کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کر دیا(۱۵)، سب کچھ اپنے پاس سے (۱۶)ـــــــــ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں(۱۷)۔
اے نبیؐ، ایمان لانے والوں سے کہہ دو کہ جو لوگ اللہ کی طرف سے برے دن آنے کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے (۱۸)، ان کی حرکتوں پر درگزر سے کام لیں تاکہ اللہ خود ایک گروہ کو اس کی کمائی کا بدلہ دے (۱۹) جو کوئی نیک عمل کرے گا اپنے ہی لیے کرے گا، اور جو برائی کرے گا وہ آپ ہی اس کا خمیازہ بھگتے گا۔ پھر جاتا تو سب کو اپنے رب ہی کی طرف ہے۔
 اس سے پہلے بنی اسرائیل کو ہم نے کتاب اور حکم(۲۰) اور نبوت عطا کی تھی۔ ان کو ہم نے عمدہ سامان زیست سے نوازا، دنیا بھر کے لوگوں پر انہیں فضیلت عطا کی(۲۱)، اور  دین کے معاملہ میں انہیں واضح ہدایات دے دیں۔ پھر جو اختلاف ان کے درمیان رو نما ہوا وہ (نا واقفیت کی وجہ سے نہیں بلکہ) علم آ جانے کے بعد ہوا اور اس بنا پر ہوا کہ وہ آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنا چاہتے تھے (۲۲)۔ اللہ قیامت کے روز ان معاملات کا فیصلہ فرما دے گا جن میں ہو اختلاف کرتے رہے ہیں۔ اس کے بعد اب اے نبیؐ، ہم نے تم کو دین کے معاملہ میں ایک صاف شاہراہ (شریعت ) پر قائم کیا ہے (۲۳)۔ لہٰذا تم اسی پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے۔ اللہ کے مقابلے میں وہ تمہارے کچھ بھی کام نہیں آ سکتے (۲۴)۔ ظالم لوگ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، اور  متقیوں کا ساتھی اللہ ہے۔ یہ بصیرت کی روشنیاں ہیں سب لوگوں کے لیے اور ہدایت اور رحمت ان لوگوں کے لیے جو یقین لائیں(۲۵)۔
کیا (۲۶) وہ لوگ جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کی ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم انہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کر دیں گے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہو جائے؟ بہت بُرے حکم ہیں جو یہ لوگ لگاتے ہیں(۲۷) ع

 

۱۳۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہم القرآن، جلد دوم، ص، ۶۳، جلد چہارم، لقمان، حاشیہ ۵۵، المومن، حاشیہ۔ ۱۱، الشوریٰ، حاشیہ ۵۴۔

۱۴۔ یعنی سمندر میں تجارت، ماہی گیری، غواصی، جہاز رانی اور دوسرے ذرائع سے رزق حلال کرنے کی کوشش کرو۔

۱۵۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۴۸۸، جلد چہارم، لقمان، حاشیہ ۳۵۔

۱۶۔ اس فقرے کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کا یہ عطیہ دنیا بادشاہوں کا سا عطیہ نہیں ہے جو رعیت سے حاصل کیا ہوا مال رعیت ہی میں سے کچھ لوگوں کو بخش دیتے ہیں، بلکہ کائنات کی ساری نعمتیں اللہ کی اپنی پیدا کردہ ہیں اور اس نے اپنی طرف سے یہ انسان کو عطا فرمائی ہیں۔ دوسرے یہ کہ نہ ان کی نعمتوں کے پیدا کرنے میں کوئی اللہ کا شریک، نہ انہیں انسان کے  لیے مسخر کرنے میں کسی اور ہستی کا کوئی دخل، تنہا اللہ ہی ان کا خالق بھی ہے اور اسی نے اپنی طرف سے وہ انسان کو عطا کی ہیں۔

۱۷۔ یعنی اس تسخیر میں اور ان چیزوں کو انسان کے لیے نافع بنانے میں غور و فکر کرنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں۔ یہ نشانیاں اس حقیقت کی طرف کھلا کھلا اشارہ کر رہی ہیں کہ زمین سے لے کر آسمانوں تک کائنات کی تمام اشیاء اور قوتوں کا خالق و مالک اور مدبر و منتظم ایک ہی خدا ہے جس نے ان کو ایک قانون کا تابع بنا رکھا ہے۔ اور وہی خدا  انسان کو رب ہے جس نے اپنی قدرت اور حکمت اور رحمت سے ان تمام اشیاء اور وقتوں کو انسان کی زندگی، اس کی معیشت، اس کی آسائش، اس کی ترقی اور اس کی تہذیب و تمدن کے لیے ساز گار و مدد گار بنایا ہے۔ اور تنہا وہی خدا انسان کی عبودیت اور شکر گزاری اور نیاز مندی کا مستحق ہے نہ کہ کچھ دوسری ہستیاں جن کے نہ ان اشیاْ اور قوتوں کے پیدا کرنے میں کوئی حصہ، نہ انہیں انسان کے لیے مسخر کرنے اور نافع بنانے میں کوئی دخل۔

۱۶۔ اصل لفاظ ہیں اَ لَّذِیْنَ لَا یَرْ جُوْنَ اَیَّا مَ اللہِ۔ لفظی ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’ جو لوگ اللہ کے دنوں کی توقع  نہیں رکھتے ‘‘۔ لیکن عربی محاورے میں ایسے مواقع پر ایام سے مراد محض دن نہیں بلکہ ہو یادگار دن ہوتے ہیں جن میں  اہم تاریخی واقعات پیش آئے ہوں۔ مثلاً ایام العرب کا لفظ تاریخ عرب کے اہم واقعات اور قبائل عرب کی ان بڑی بڑی لڑائیوں کے لیے بولا جاتا ہے جنہیں بعد کی نسلیں صدیوں تک یاد کرتی رہی ہیں۔ یہاں ایام اللہ سے مراد کسی قوم کے وہ برے دن ہیں جب اللہ کا غضب اس پر ٹوٹ پڑے اور اپنے کرتوتوں کی پاداش میں وہ تباہ کر کے رکھ دی جائے۔ اسی معنی کے لحاظ سے ہم نے اس فقرے کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ’’ جو لوگ اللہ کی طرف سے برے دن آنے کا کوئی اندیشہ نہیں رکھتے، ‘‘ یعنی جن کو یہ خیال نہیں ہے کہ کبھی وہ دن بھی آئے گا جب ہمارے ان افعال پر ہماری شامت آئے گی، اور اسی غفلت نے ان کو ظلم و ستم پر دلیر کر دیا ہے۔

۱۹۔ مفسرین نے اس آیت کے دو مطلب بیان کیے ہیں، اور آیت کے لفاظ میں دونوں معنوں کی گنجائش ہے۔ ایک یہ کہ اہل ایمان اس ظالم گروہ کی زیادتیوں پر در گزر سے کان لیں تاکہ اللہ ان کو اپنی طرف سے ان کے صبر و حلم اور ان کی شرافت کی جزا دے اور راہ خدا میں جو اذیتیں انہوں نے برداشت کی ہیں نا کا اجر عطا فرمائے۔

دوسرا مطلب یہ ے کہ اہل ایمان اس گروہ سے درگزر کریں تاکہ اللہ خود اس کی زیادتیوں کا بدلہ اسے دے۔

بعض مفسرین نے اس آیت کو منسوخ قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت تک تھا جب تک مسلمانوں کو جنگ کی اجازت نہ دی گئی تھی۔ پھر جب اس کی اجازت آ گئی تو یہ حکم منسوخ ہو گیا۔ لیکن آیت کے لفاظ پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ نسخ کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔ ’’ در گزر‘‘ کا لفظ اس معنی میں کبھی نہیں بولا جاتا کہ جب آدمی کسی کی زیادتیوں کا بدلہ لینے پر قادر نہ ہو تو اس سے درگزر کرے، بلکہ اس موقع پر صبر، تحمل اور برداشت کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان الفاظ کو چھوڑ کر جب یہاں در گزر کا لفظ استعمال کیا گیا ہے تو اس سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اہل ایمان انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود ان لوگوں کی زیادتیوں کا جواب دینے سے پرہیز کریں جنہیں خدا سے بے خوفی نے اخلاق و آدمیت کی حدیں توڑ ڈالنے پر جری کر دیا ہے۔ اس حکم کا کوئی تعارض ان آیات سے نہیں ہے جن میں مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی گئی ہے۔ جنگ کی اجازت کا تعلق اس حالت سے ہے جب مسلمانوں کی حکومت کسی کافر قوم کے خلاف باقاعدہ کار روائی کرنے کی کوئی معقول وجہ پائے۔ اور عفو و درگزر کا حکم ان عام حالات کے لیے ہے جن میں اہل ایمان کو خدا سے بے خوف لوگوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سے سابقہ پیش آئے اور وہ انہیں اپنی زبان و قلم اور اپنے برتاؤ سے طرح طرح کی اذیتیں دیں۔ اس حکم کا مقصود یہ ہے کہ مسلمان اپنے مقام بلند سے نیچے اتر کر ان پست اخلاق لوگوں سے الجھنے اور جھگڑنے اور ان کی ہر بیہودگی کا جواب دینے پر نہ اتر آئیں۔ جب تک شرافت اور معقولیت کے ساتھ کسی الزام یا اعتراض کو جواب دینا یا کسی زیادتی کی مدافعت کرنا ممکن ہو، اس سے پرہیز نہ کیا جائے۔ مگر جہاں بات ان حدود سے گزرتی نظر آئے وہاں چپ سادھ لی جائے اور معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا جائے۔ مسلمان ان سے خود الجھیں گے تو اللہ ان سے نمٹنے کے لیے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دے گا۔ در گزر سے کام لیں گے تو اللہ خود ظالموں سے نمٹے گا اور مظلوموں کو ان کے تحمل کا اجر عطا فرمائے گا۔

۲۰۔ حکم سے مراد تین چیزیں ہیں۔ ایک، کتاب کا علم و فہم اور دین کی سمجھ۔ دوسرے، کتاب کے منشا کے مطابق کام کرنے کی حکمت۔ تیسرے، معاملات میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت۔

۲۱۔ یہ مطلب نہیں ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انہیں تمام دنیا والوں پر فضیلت عطا کر دی، بلکہ  اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں دنیا کی تمام قوموں میں سے بنی اسرائیل کو اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لیے چن لیا تھا کہ وہ کتاب اللہ کے حامل ہوں اور خدا پرستی کے علمبردار بن کر اٹھیں۔

۲۲۔ تشریح کے لیے  ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص ۱۶۲۔ ۱۶۳۔ ۲۳۹۔ ۲۴۰۔ جلد چہارم، الشوریٰ، حواشی نمبر ۲۲۔ ۲۳۔

۲۳۔ مطلب یہ ہے کہ جو کام پہلے بنی اسرائیل کے سپرد کیا گیا تھا وہ اب تمہارے سپرد کیا گیا ہے۔ انہوں نے علم پانے کے باوجود اپنی نفسا نفسی سے دین میں ایسے اختلافات بر پا کیے، اور آپس میں ایسی گروہ بندیاں کر ڈالیں جن سے وہ اس قابل نہ رہے کہ دنیا کو خدا کے راستے پر بلا سکیں۔ اب اسی دین کی صاف شاہراہ پر تمہیں کھڑا کیا گیا ہے تا کہ تم وہ خدمت انجام دو جسے بنی اسرائیل چھوڑ بھی چکے ہیں اور ادا کرنے کے اہل بھی نہیں رہے ہیں۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو جلد چہارم، الشوریٰ، آیات ۱۳ تا ۱۵ مع حواشی ۲۰ تا ۲۶ )

۲۴۔ یعنی اگر تم انہیں راضی کرنے کے لیے اللہ کے دین میں کسی قسم کا رد و بدل کرو گے تو اللہ کے مواخذہ سے وہ تمہیں نہ بچا سکیں گے۔

۲۵۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب اور یہ شریعت دنیا کے تمام انسانوں کے لیے وہ روشنی پیش کرتی ہے جو حق اور باطل کا فرق نمایاں کرنے والی ہے۔ مگر اس سے ہدایت وہی لوگ پاتے ہیں جو اس کی صداقت پر یقین لائیں، اور انہی کے حق میں یہ رحمت ہے۔

۲۶۔ توحید کی دعوت کے بعد اب یہاں سے آخرت پر کلام شروع ہو رہا ہے۔

۲۷۔ یہ آخرت کے بر حق ہونے پر اخلاقی استدلال ہے۔ اخلاق میں خیر و شر اور اعمال میں نیکی و بدی کے فرق کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اچھے اور برے لوگوں کا انجام یکساں نہ ہو، بلکہ اچھوں کو ان کی اچھائی کا اچھا بدلہ ملے اور برے اپنی برائی کا برا بدلہ پائیں۔ یہ بات اگر نہ ہو، اور نیکی و بدی کا نتیجہ ایک ہی جیسا ہو گو سرے سے اخلاق میں خولی و زشتی کی تمیز ہی بے معنی ہو جاتی ہے اور خدا پر بے انصافی کا الزام عائد ہوتا ہے۔ جو لوگ دنیا میں بدی کی راہ چلتے ہیں وہ تو ضرور یہ چاہتے ہیں کہ کوئی جزا و سزا نہ ہو، کیونکہ یہ تصور ہی ان کے عیش کو منغّص کر دینے والا ہے۔ لیکن خداوند عالم کی حکمت اور اس کے عدل سے یہ بات بالکل بعید ہے کہ وہ نیک و بد سے ایک جیسا معاملہ کرے اور کچھ نہ دیکھے کہ مومن صالح نے دنیا میں کس طرح زندگی بسر کی ہے اور کافر و فاسق یہاں کیا گل کھلاتا رہا ہے۔ ایک شخص عمر بھر اپنے اوپر خلاق کی پابندیاں لگائے رہا۔ حق والوں کے حق ادا کرتا رہا۔ نا جائز فائدوں اور لذتوں سے اپنے آپ کو محروم کیے رہا۔ اور حق و صداقت کی خاطر طرح طرح کے نقصانات برداشت کرتا رہا۔ دوسرے شخص نے اپنی خواہشات ہر ممکن طریقے سے پوری کیں، نہ خدا کا حق پہچانا اور نہ بندوں کے حقوق پر دست درازی کرنے سے باز آیا۔ جس طرح سے بھی اپنے لیے فائدے اور لذتیں سمیٹ سکتا تھا، سمیٹتا چلا گیا۔ کیا خدا سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ان دونوں قسم کے آدمیوں کی زندگی کے اس فرق کو وہ نظر انداز کر دے گا؟ مرتے دم تک جن کا جینا یکساں نہیں رہا ہے، موت کے بعد اگر ان کا انجام یکساں ہو تو خدا کی خدائی میں اس سے بڑھ کر اور کیا بے انصافی ہو سکتی ہے؟(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص ۲۶۳۔ ۲۶۴۔ ۳۶۸۔ ۵۴۱، جلد سوم ۲۰۵۔ ۲۰۶۔ ۶۰۰۔ ۷۳۱ تا ۷۳۴۔ جلد چہارم، تفسیر سورہ، صٓ، آیت ۲۸۔ حاشیہ نمبر ۳۰)

 

اللہ نے تو آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا ہے (۲۸) اور اس لیے کیا ہے کہ ہر متنفس کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے۔ لوگوں پر ظلم ہر گز نہ کیا جائے گا۔ (۲۹)
پھر کیا تم نے کبھی اس شخص کے حال پر بھی غور کیا جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا خدا بنا لیا (۳۰) اور اللہ نے علم کے باوجود (۳۱) اسے گمراہی میں پھینک دیا اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا؟(۳۲) اللہ کے بعد اب اور کون ہے جو اسے ہدایت دے؟ کیا تم لوگ کوئی سبق نہیں لیتے؟(۳۳)۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ’’ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زندگی ہے، یہیں ہمارا مرنا اور جینا ہے اور گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہلاک کرتی ہو’’۔ در حقیقت اس معاملہ میں ان کے پاس کوئی علم نہیں ہے۔ یہ محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں(۳۴)۔ اور جب ہماری واضح آیات انہیں سنائی (۳۵)جاتی ہیں تو ان کے پاس کوئی حجت اس کے سوا نہیں ہوتی کہ اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو اگر تم سچے ہو(۳۶)۔ اے نبیؐ، ان سے کہو اللہ ہی تمہیں زندگی بخشا ہے، پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے (۳۷)۔ پھر وہی تم کو اس قیمت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں (۳۸)، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں(۳۹)۔ ع 
 

۲۸۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین اور آسمان کی تخلیق کھیل کے طور پر نہیں کی ہے بلکہ یہ ایک با مقصد حکیمانہ نظام ہے۔ اس نظام میں یہ بات بالکل ناقابل تصور ہے کہ اللہ کے دی ہوئے اختیارات اور ذرائع و وسائل کو صحیح طریقہ سے استعمال کر کے جن لوگوں نے اچھا کارنامہ انجام دیا ہو، اور انہیں غلط طریقے سے استعمال کر کے جن دوسرے لوگوں نے ظلم و فساد برپا کیا ہو، یہ دونوں قسم کے انسان آخر کار مر کر مٹی ہو جائیں اور اس موت کے بعد کائنات ایک کھلنڈرے کا کھلونا ہو گی  نہ کہ ایک حکیم کا بنایا ہوا با مقصد نظام (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، ص ۵۵۱۔ جلد دوم، ص ۲۶۴۔ ۲۶۵۔ ۴۷۹۔ ۴۸۰۔ ۵۲۵۔ ۵۲۶۔ جلد سوم، ص ۷۰۳۔ ۷۳۳)۔

۲۹۔ اس سیاق و سباق میں اس فقرے کا صاف مطلب یہ ہے کہ اگر نیک انسانوں کو ان کی نیکی کا اجر نہ ملے، اور ظالموں کو ان کے ظلم کی سزا نہ دی جائے، اور مظلوموں کی کبھی داد رسی نہ ہو تو یہ ظلم ہو گا۔ خدا کی خدائی میں ایسا ظلم ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح خدا کے ہاں ظلم کی یہ دوسری صورت بھی کبھی رونما نہیں ہو سکتی کہ کسی نیک انسان کو اس کے استحقاق سے کم اجر دیا جائے، یا کسی بد انسان کو اس کے استحقاق سے زیادہ سزا دے دی جائے۔

۳۰۔ خواہش نفس کو خدا بنا لینے سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنی خواہش کا بندہ بن کر رہ جائے۔ جس کام کو اس کا دل چاہے اسے کر گزرے، خواہ خدا نے اسے حرام کیا ہو، اور جس کام کو اس کا دل نہ چاہے اسے نہ کرے، خواہ خدا نے اسے فرض کر دیا ہو۔ جب آدمی اس طرح کسی کی اطاعت کرنے لگے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا معبود خدا نہیں ہے بلکہ وہ ہے جس کی وہ اس طرح اطاعت کر رہا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ زبان سے اس کو اپنا اِلٰہ اور معبود کہتا ہو یا نہ کہتا ہو، اور اس کا بت بنا کر اس کی پوجا کرتا ہو یا نہ کرتا ہو۔ اس لیے کہ ایسی بے چوں چرا اطاعت ہی اس کے معبود بن جانے کے لیے کافی ہے اور اس عملی شرک کے بعد ایک آدمی صرف اس بنا پر شرک کے جرم سے بری نہیں ہو سکتا کہ اس نے اپنے اس  مطاع کو زبان سے معبود نہیں کہا ہے اور سجدہ اس کو نہیں کیا ہے۔ اس آیت کی یہی تشریح دوسرے اکابر مفسرین نے بھی کی ہے۔ ان جریر اس کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ اس نے اپنی خواہش نفس کو معبود بنا لیا۔ جس چیز کی نفس نے خواہش کی اس کا ارتکاب کر گزرا۔ نہ اللہ کے حرام کیے ہوئے کو حرام کیا، نہ اس کے حلال کیے ہوئے کو حلال کیا۔ ‘‘ ابوبکر جصاص اس کے معنی یہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ وہ خواہش نفس کی اس طرح اطاعت کرتا ہے جیسے کوئی خدا کی اطاعت کرے ‘‘۔ زمخشری اس کی تشریح یوں کرتے ہیں کہ ’’ وہ خواہش نفس کا نہایت فرمانبردار ہے۔ جدھر اس کا نفس اسے بلاتا ہے اسی طرف وہ چلا جاتا ہے، گویا وہ اس کی بندگی اس طرح کرتا ہے جیسے کوئی شخص اپنے خدا کی بندگی کرے۔ ‘‘ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، ص ۴۵۳۔ جلد چہارم، تفسیر سورہ سبا، حاشیہ ۶۳۔ یٰس، حاشیہ ۵۳۔ الشوریٰ، حاشیہ ۳۸)

۳۱۔ اصل الفاظ ہیں اَضَلَّہُ اللہُ عَلیٰ عِلْمِہ۔ ایک مطلب ان الفاظ کا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ شخص عالم ہونے کے باوجود اللہ کی طرف سے گمراہی میں پھینکا گیا، کیونکہ وہ خواہش نفس کا بندہ بن گیا تھا۔ دوسری مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہا اللہ نے اپنے اس علم کی بنا پر کہ وہ اپنے نفس کی خواہش کو اپنا خدا بنا بیٹھا ہے، اسے گمراہی میں پھینک دیا۔

۳۲۔ اللہ کے کسی کو گمراہی میں پھینک دینے اور اس کے دل اور کانوں پر مہر لگا دینے اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دینے کی تشریح اس سے پہلے ہم متعدد مقامات پر اس کتاب میں کر چکے ہیں۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، ص ۵۲۔ ۵۵۔ ۵۳۱۔ ۵۳۸۔ جلد دوم، ص ۶۱۔ ۶۲۔ ۲۲۱۔ ۲۲۲۔ ۲۲۴۔ ۳۰۱۔ ۴۵۸۔ ۴۵۹۔ ۴۷۰۔ ۴۷۱۔ ۴۸۶۔ ۵۷۵۔ ۵۷۶۔ ۶۱۹۔ ۵۶۰۔ جلد سوم، ص، ۷۶۷، جلد چہارم، فاطر، آیت ۸، حواشی ۱۶۔ ۱۷، المومن، حاشیہ ۵۴۔

۳۳۔  جس سیاق و سباق میں یہ آیت آئی ہے اس سے یہ بات خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ آخرت کا انکار دراصل وہی لوگ کرتے ہیں جو خواہشات نفس کی بندگی کرنا چاہتے ہیں اور عقیدہ آخرت کو اپنی اس آزادی میں مانع سمجھتے ہیں۔ پھر جب وہ آخرت کا انکار کر دیتے ہیں تو ان کی بندگی نفس اور زیادہ بڑھتی چلی جاتی ہے اور وہ اپنی گمراہی میں روز بروز زیادہ ہی بھٹکتے چلے جاتے ہیں۔ کوئی برائی ایسی نہیں ہوتی جس کے ارتکاب سے وہ باز رہ جائیں۔ کسی کا حق مارنے میں انہیں تامل نہیں ہوتا۔ کسی ظلم اور زیادتی کا موقع پا جانے کے بعد ان سے یہ توقع ہی نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس سے صرف اس لیے رک جائیں گے کہ حق و انصاف کا کوئی احترام ان کے دلوں میں ہے جن واقعات کو دیکھ کر کوئی انسان عبرت حاصل کر سکتا ہے، وہی واقعات ان کی آنکھوں کے سامنے بھی آتے ہیں، مگر وہ ان سے الٹا یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں اور ہمیں یہی کچھ کرنا چاہیے۔ کوئی کلمہ نصیحت ان پر کار گر نہیں ہوتا۔ جو دلیل بھی کسی انسان کو برائی سے روکنے کے لیے مفید ہو سکتی ہے، وہ ان کے دل کو اپیل نہیں کرتی، بلکہ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ساری دلیلیں اپنی اسی بے قید آزادی کے حق میں نکالتے چلے جاتے ہیں، اور ان کے دل و دماغ کسی اچھی فکر کے بجائے شب و روز اپنی اغراض و خواہشات ہر ممکن طریقے سے پوری کرنے کی ادھیڑ بن ہی میں لگے رہتے ہیں۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ عقیدہ آخرت کا انکار انسانی اخلاق کے لیے تباہ کن ہے۔ آدمی کو آدمیت کے دائرے میں اگر کوئی چیز رکھ سکتی ہے تو وہ صرف یہ احساس ہے کہ ہم غیر ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ ہمیں خدا کے حضور اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی ہو گی۔ اس احساس سے خالی ہو جانے کے بعد کوئی شخص بڑے سے بڑا ع الم بھی ہو تو وہ جانوروں سے بد تر رویہ اختیار کیے بغیر نہیں رہتا۔

۳۴۔ یعنی کوئی ذریعہ  علم ایسا نہیں ہے جس سے ان کو بتحقیق یہ معلوم ہو گیا ہو کہ اس زندگی کے بعد انسان کے لی کوئی دوسرے زندگی نہیں ہے، اور یہ بات بھی انہیں معلوم ہو گئی ہو کہ انسان کی روح کسی خدا کے حکم سے قبض نہیں کی جاتی ہے بلکہ آدمی محض گردش ایام سے مر کر فنا ہو جاتا ہے۔ منکرین آخرت یہ باتیں کسی علم کی بنا پر نہیں بلکہ محض گمان کی بنا پر کرتے ہیں۔ علمی حیثیت سے اگر وہ بات کریں تو زیادہ سے زیادہ جو کچھ کہہ سکتے ہیں وہ بس یہ ہے کہ ’’ ہم نہیں جانتے کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہے یا نہیں‘‘، لیکن یہ ہر گز نہیں کہہ سکتے کہ ’’ ہم جانتے ہیں کہ اس زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے۔ ‘‘ اسی طرح علمی طریقہ پر وہ یہ جاننے کا دعویٰ نہیں کر سکتے کہ آدمی کی روح خدا کے حکم سے نکالی نہیں جاتی ہے بلکہ وہ محض اس طرح مر کر ختم ہو جاتا ہے جیسے ایک گھڑی چلتے چلتے رک جائے۔ زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ کہہ سکتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ ہم ان دونوں میں سے کسی کے متعلق یہ نہیں جانتے کہ فی الواقع کیا صورت پیش آتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب  انسانی ذرائع علم کی حد تک زندگی بعد موت کے ہونے یا نہ ہونے، اور قبض روح واقع ہونے یا گردش ایام سے آپ ہی آپ مر جانے کا یکساں احتمال ہے، تو آخر کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ امکان آخرت کے احتمال کو چھوڑ کر حتمی طور پر انکار آخرت کے حق میں فیصلہ کر ڈالتے ہیں۔ کیا اس کی وجہ اس کے سوا کچھ اور ہے کہ دراصل اس مسئلے کا آخری فیصلہ وہ دلیل کی بنا پر نہیں بلکہ اپنی خواہش کی بنا پر کرتے ہیں؟ چونکہ اس کا دل یہ نہیں چاہتا کہ مرنے کے بعد کوئی زندگی ہو اور موت کی حقیقت نیستی اور عدم نہیں بلکہ خدا کی طرف سے قبض روح ہو، اس لیے وہ اپنے دل کی مانگ کو اپنا عقیدہ بنا لیتے ہیں اور دوسری بات کا انکار کر دیتے ہیں۔

۳۵۔ یعنی وہ آیات جن میں آخرت کے امکان پر مضبوط عقلی دلائل دیے  گئے  ہیں، اور جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس کا ہونا عین حکمت و انصاف کا تقاضا ہے اور اس کے نہ ہونے سے یہ سارا نظام عالم بے معنی ہو جاتا ہے۔

۳۶۔ دوسرے الفاظ میں ان کی اس حجت کا مطلب یہ تھا کہ جب کوئی ان سے یہ کہے کہ موت کے بعد دوسری زندگی ہو گی تو اسے لازماً قبر سے ایک مردہ اٹھا کر ان کے سامنے لے آنا چاہیے۔ اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو وہ یہ نہیں مان سکتے کہ مرے ہوئے انسان کسی وقت از سر نو زندہ کر کے اٹھائے جانے والے ہیں۔ حالانکہ یہ بات سے سے کسی نے بھی ان سے نہیں کہی تھی کہ اس دنیا میں متفرق طور پر وقتاً فوقتاً مردوں کو دوبارہ زندہ کیا جاتا رہے گا۔ بلکہ جو کچھ کہا گیا تھا وہ یہ تھا کہ قیامت کے بعد اللہ تعالیٰ بیک وقت تمام انسانوں کو از سر نو زندہ کرے گا اور ان سب کے اعمال کا محاسبہ کر کے جزا اور سزا کا فیصلہ فرمائے گا۔

۳۷۔ یہ جواب ہے ان کی اس بات کا کہ موت گردش ایام سے آپ ہی آپ آ جاتی ہے۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ نہ تمہیں زندگی اتفاقاً ملتی ہے، نہ تمہارے موت خود بخود واقع ہو جاتی ہے۔ ایک خدا ہے جو تمہیں زندگی دیتا ہے اور وہی اسے سلب کرتا ہے۔

۳۸۔ یہ جواب ہے ان کی اس بات کا کہ اٹھا لاؤ ہمارے باپ دادا کو۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ یہ اب نہیں ہو گا، اور متفرق طور پر نہیں ہو گا، بلکہ ایک دن سب انسانوں کے جمع کرنے کے لیے مقرر ہے۔

۳۹۔ یعنی جہالت اور قصور فکر و نظر ہی لوگوں کے انکار آخرت کا اصل سبب ہے، ورنہ حقیقت میں تو آخرت کا ہونا نہیں بلکہ، اس کا نہ ہونا بعید از عقل ہے۔ کائنات کے نظام اور خود اپنے وجود پر کوئی شخص صحیح طریقہ سے غور کرے تو اسے خود محسوس ہو جائے گا کہ آخرت کے آنے میں کسی شک کی گنجائش نہیں۔

 
 
 زمین اور آسمانوں کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے (۴۰)، اور جس روز قیامت کی گھڑی آ کھڑی ہو گی اس دن باطل پرست خسارے میں پڑ جائیں گے۔
اس وقت تم ہر گروہ کو گھٹنوں کے بل گِرا دیکھو گے۔ (۴۱) ہر گروہ کو پکار جائے گا کہ آئے اور اپنا نامۂ اعمال دیکھے۔ اس سے کہا جائے گا: ’’ آج تم لوگوں کو ان اعمال کا بدلہ دیا جائے گا جو تم کرتے رہے تھے۔ یہ ہمارا تیار کرایا ہو ا اعمال نامہ ہے جو تمہارے اوپر ٹھیک ٹھیک شہادت دے رہا ہے، جو کچھ بھی تم کرتے تھے اسے ہم لکھواتے جا رہے تھے ‘‘(۴۲)۔ پھر جو لوگ ایمان لائے تھے اور نیک عمل کرتے رہے تھے انہیں ان کا رب اپنی رحمت میں داخل کرے گا اور یہی صریح کامیابی ہے۔ اور جن لوگوں نے کفر کیا تھا ان سے کہا جائے گا ’’کیا میری آیات تم کو نہیں سنائی جاتی تھیں؟ مگر تم نے تکبر کیا(۴۳)اور مجرم بن کر رہے۔ اور جب کہا جاتا تھا کہ اللہ کا وعدہ برحق ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شک نہیں، تو تم کہتے تھے کہ ہم نہیں جانتے قیامت کیا ہوتی ہے، ہم تو بس ایک گمان سا رکھتے ہیں، یقین ہم کو نہیں ہے ’’(۴۴)۔ اس وقت ان پر ا ن کے اعمال کی برائیاں کھل(۴۵) جائیں گی اور وہ اسی چیز کے پھیر میں آ جائیں گے جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ اور ان سے کہہ دیا جائے گا کہ ’’ آج ہم بھی اسی طرح تمہیں بھلا ئے دیتے ہیں جس طرح تم اس دن کی ملاقات کو بھول گئے تھے۔ تمہارا ٹھکانا اب دوزخ ہے اور کوئی تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے۔ یہ تمہارا انجام اس لیے ہوا ہے کہ تم نے اللہ کی آیات کا مذاق بنا لیا تھا اور تمہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا تھا۔ لہٰذا آج نہ یہ لوگ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور نہ ان سے کہا جائے گا کہ معافی مانگ کر اپنے رب کو راضی کرو‘‘ (۴۶)۔
پس تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو زمین اور آسمانوں کا مالک اور سارے جہان والوں کا پروردگار ہے۔ زمین اور آسمانوں میں بڑائی اسی کے لیے ہے اور وہی زبردست اور دانا ہے۔ ع

 

۴۰۔ سیاق و سباق کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو اس فقرے سے خود بخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ جو خدا اس عظیم الشان کائنات پر فرمانروائی کر رہا ہے اس کی قدرت سے یہ بات ہر گز بعید نہیں ہے کہ جن انسانوں کو وہ پہلے پیدا کر چکا ہے انہیں دوبارہ وجود میں لے آئے۔

۴۱۔ یعنی وہاں میدان حشر کا ایسا ہَول اور عدالت الہٰی کا ایسا رعب طاری ہو گا کہ بڑے بڑے ہیکڑ لوگوں کی اکڑ بھی  ختم ہو جائے گی اور عاجزی کے ساتھ سب گھٹنوں کے بل گرے ہوں گے۔

۴۲۔ لکھوانے کی صرف یہی ایک ممکن صورت نہیں ہے کہ کاغذ پر قلم سے لکھوایا جائے۔ انسانی اقوال و افعال کو ثبت کرنے اور دوبارہ ان کو بعینہ اس کی شکل میں پیش کر دینے کی متعدد دوسری صورتیں اسی دنیا میں خود انسان دریافت کر چکا ہے، اور ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ آگے اس کے اور کیا امکانات پوشیدہ ہیں جو کبھی انسان ہی کی گرفت میں آ جائیں گے۔ اب یہ کون جان سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کس کس طرح انسان کی  ایک ایک بات، اور اس کی حرکات و سکنات میں سے ایک ایک چیز، اور اس کی نیتوں اور ارادوں اور خواہشات اور خیالات میں سے ہر مخفی سے مخفی شے کو ثابت کرا رہا ہے، اور کس طرح وہ ہر آدمی، ہر گروہ اور ہر قوم کا پورا کارنامہ حیات بے کم و کاست اس کے سامنے لا رکھے گا۔

۴۳۔ یعنی اپنے گھمنڈ میں تم نے یہ سمجھا کہ اللہ کی آیات کو مان کر مطیع فرمان بن کر مطیع فرمان بن جانا تمہاری شان سے فرو تر ہے، اور تمہارا مقام بندگی کے مقام سے بہت اونچا ہے۔

۴۴۔ اس سے پہلے آیت ۲۴ میں جن لوگوں کا ذکر گزر چکا ہے وہ آخرت کا قطعی اور کھلا انکار کرنے والے تھے۔ اور یہاں ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جو اس کا یقین رکھتے اگر چہ گمان کی حد تم اس کے امکان سے منکر نہیں ہیں۔ بظاہر ان دونوں گروہوں میں اس لحاظ سے بڑا فرق ہے کہ ایک بالکل منکر ہے اور دوسرا اس کے ممکن ہونے کا گمان رکھتا ہے۔ لیکن نتیجے اور انجام کے لحاظ سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ اس لیے کہ آخرت کے انکار اور اس پر یقین نہ ہونے کے اخلاقی نتائج بالکل ایک جیسے ہیں۔ کوئی شخص خواہ آخرت کو نہ مانتا ہو، یا اس کا یقین نہ رکھتا ہو، دونوں صورتوں میں لازماً وہ خدا کے سامنے اپنی جواب دہی کے احساس سے خالی ہو گا، اور یہ عدم احساس اس کو لازماً فکر و عمل کی گمراہیوں میں مبتلا کر کے رہے گا۔ صرف آخرت کا یقین ہی دنیا میں آدمی کے رویے کو درست رکھ سکتا ہے۔ یہ اگر نہ ہو تو شک اور انکار، دونوں اسے ایک ہی طرح کی غیر ذمہ دارانہ روش پر ڈال دیتے ہیں۔ اور چونکہ یہی غیر ذمہ دارانہ روش آخرت کی بد انجامی کا اصل سبب ہے، اس لیے دوزخ میں جانے سے انکار کرنے والا بچ سکتا ہے، نہ یقین رکھنے والا۔

۴۵۔ یعنی وہاں ان کو پتہ چل جائے گا کہ اپنے جن طور طریقوں اور عادات و خصائل اور اعمال و مشاغل کو وہ دنیا میں بہت خوب سمجھتے تھے وہ سب ناخوب تھے۔ اپنے آپ کو غیر جوابدہ فرض کر کے انہوں نے ایسی بنیادی غلطی کر ڈالی جس کی وجہ سے ان کا پورا کارنامہ حیات ہی غلط ہو کر رہ گیا۔

۴۶۔ یہ آخری فقرہ اس انداز میں ہے جیسے کوئی آقا اپنے کچھ خادموں کو ڈانٹنے کے بعد دوسروں سے خطاب کر  کے کہتا ہے کہ اچھا، اب ان نالائقوں کی یہ سزا ہے۔