پہلی ہی آیت کے الفاظ انا فتحنا لک فتحا مبینا سے ماخوذ ہے۔ یہ محض اس سورت کا نام ہی نہیں بلکہ مضمون کے لحاظ سے بھی اس کا عنوان ہے کیونکہ اس میں اس فتح عظیم پر کلام کیا گیا ہے جو صلح حدیبیہ کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کو عطا فرمائی تھی۔
روایات اس پر متفق ہیں کہ اس کا نزول ذی القعدہ ۶ھ میں اس وقت ہوا تھا جب آپ کفار مکہ سے صلح حدیبیہ کا معاہدہ کرنے کے بعد مدینہ منورہ واپس تشریف لے جا رہے تھے
جن واقعات کے سلسلے میں یہ سورت نازل ہوئی ان کی ابتدائی اس طرح ہوئی ہے کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ مکہ معظمہ تشریف لے گئے ہیں اور وہاں عمرہ ادا فرمایا ہے۔ پیغمبر کا خواب ظاہر ہے کہ محض خواب و خیال نہ ہو سکتا تھا وہ تو وحی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے اور آگے چل کر آیت ۲۷ میں اللہ تعالیٰ نے توثیق کر دی ہے کہ یہ خواب ہم نے اپنے رسول کو دکھایا تھا۔ اس لیے در حقیقت یہ نرا خواب نہ تھا بلکہ ایک الٰہی اشارہ تھا جس کی پیروی کرنا حضور کے لیے ضروری تھا۔
بظاہر اسباب اس ہدایت پر عمل کرنے کی کوئی صورت ممکن نظر نہ آتی تھی۔ کفار قریش نے ۶ سال سے مسلمانوں کے لیے بیت اللہ کا راستہ بند کر رکھا تھا اور اس پوری مدت میں کسی مسلمان کو انہوں نے حج اور عمرے تک کے لیے حدود حرم کے قریب نہ پھٹکنے دیا تھا۔ اب آخر یہ کیسے توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو صحابہ کی ایک جمعیت کے ساتھ مکہ میں داخل ہونے دیں گے۔ عمرے کا احرام باندھ کر جنگی ساز و سامان ساتھ لیے ہوئے نکلنا گویا خود لڑائی کو دعوت دینا تھا اور غیر مسلح جانے کے معنی اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان خطرے میں ڈالنے کے تھے۔ ان حالات میں کوئی شخص یہ نہ سمجھ سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے اس اشارے پر عمل کیا جائے تو کیسے۔
مگر پیغمبر کا منصب یہ تھا کہ اس کا رب جو حکم بھی اس کو دے وہ بے کھٹکے اس پر عمل کر گذرے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بلا تامل اپنا خواب صحابہ کرام کو سنا کر سفر کی تیاری شروع کر دی۔ آس پاس کے قبائل میں بھی آپ نے اعلان عام کرا دیا کہ ہم عمرے کے لیے جا رہے ہیں جو ہمارے ساتھ چلنا چاہے وہ آ جائے۔ جن لوگوں کی نگاہ ظاہری اسباب پر تھی انہوں نے سمجھا کہ یہ لوگ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ ان میں سے کوئی آپ کے ساتھ چلنے پر آمادہ نہ ہوا۔ مگر جو اللہ اور اس کے رسول پر سچا ایمان رکھتے تھے انہیں اس امر کی کوئی پروا نہ تھی کہ انجام کیا ہو گا۔ ان کے لیے بس یہ کافی تھا کہ اللہ کا اشارہ ہے اور اس کا رسول تعمیلِ حکم کے لیے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اس کے بعد کوئی چیز ان کو رسول خدا کا ساتھ دینے سے روک نہ سکتی تھی۔ ۱۴۰۰ صحابی حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معیت میں اس نہایت خطرناک سفر پر جانے کے لیے تیار ہو گئے۔
ذی القعدہ ۶ھ کے آغاز میں یہ مبارک قافلہ مدینہ سے روانہ ہوا۔ ذوالحلیفہ پہنچ کر سب نے عمرے کا احرام باندھا۔ قربانی کے لیے ۷۰ اونٹ ساتھ لیے جن کی گردنوں میں ھدی کی علامت کے طور پر قلاوے پڑے ہوئے تھے۔ پرتلوں میں صرف ایک ایک تلوار رکھ لی جس کی تمام زائرین حرم کو عرب کے معروف قاعدے کے مطابق اجازت تھی اور اس کے سوا کوئی سامان جنگ ساتھ نہ لیا۔ اس طرح یہ قافلہ لبیک لبیک کی صدائیں بلند کرتا ہوا بیت اللہ کی طرف چل پڑا۔
اس وقت مکہ اور مدینے کے تعلقات کی جو نوعیت تھی، عرب کا بچہ بچہ اس کو جانتا تھا۔ ابھی پچھلے سال ہی تو شوال ۵ھ میں قریش نے قبائل عرب کی متحدہ طاقت کے ساتھ مدینے پر چڑھائی کی تھی اور غزوہ احزاب کا مشہور معرکہ پیش آ چکا تھا۔ اس لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اتنے بڑے قافلے کے ساتھ اپنے خون کے پیاسے دشمنوں کے گھر کی طرف روانہ ہوئے تو پورے عرب کی نگاہیں اس عجیب سفر کی طرف مرکوز ہو گئیں اور لوگوں نے یہ بھی دیکھ لیا کہ یہ قافلہ لڑنے کے لیے نہیں جا رہا ہے بلکہ ماہ حرام میں، احرام باندھ کر، ھدی کے اونٹ ساتھ لیے ہوئے بیت اللہ کا طواف کرنے جا رہا ہے اور قطعی طور پر غیر مسلح ہے۔
قریش کے لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس اقدام نے سخت پریشانی میں ڈال دیا۔ ذی القعدہ کا مہینہ ان حرام مہینوں میں سے تھا جو صد ہا برس سے عرب میں حج و زیارت کے لیے محترم سمجھے جا تے تھے۔ اس مہینے میں جو قافلہ احرام باندھ کر حج یا عمرے کے لیے جا رہا ہو اسے روکنے کا کسی کو حق نہ تھا، حتیٰ کہ کسی قبیلے سے اس کی دشمنی بھی ہو تو عرب کے مسلمہ قوانین کی رو سے وہ اپنے علاقے سے اس کے گزرنے میں مانع نہ ہو سکتا تھا۔ قریش کے لوگ اس الجھن میں پڑ گئے کہ اگر ہم مدینے کے اس قافلے پر حملہ کر کے اسے مکہ معظمہ میں داخل ہونے سے روکتے ہیں تو پورے ملک میں اس پر شور مچ جائے گا۔ عرب کا ہر شخص پکار اٹھے گا کہ یہ سراسر زیادتی ہے۔ تمام قبائل عرب یہ سمجھیں گے کہ ہم خانہ کعبہ کے مالک بن بیٹھے ہیں۔ ہر قبیلہ اس تشویش میں مبتلا ہو جائے گا کہ آئندہ کسی کو حج اور عمرہ کرنے دینا یا نہ کرنے دینا اب ہماری مرضی پر موقوف ہے، جس سے بھی ہم ناراض ہو گے اسے بیت اللہ کی زیارت کرنے سے اسی طرح روک دیں گے جس طرح آج مدینے کے ان زائرین کو روک رہے ہیں۔ یہ ایسی غلطی ہو گی کہ جس سے سارا عرب ہم سے منحرف ہو جائے گا۔ لیکن اگر ہم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اتنے بڑے قافلے کے ساتھ بخیریت اپنے شہر میں داخل ہو جانے دیتے ہیں تو پورے ملک میں ہماری ہوا اکھڑ جائے گی اور لوگ کہیں گے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مرعوب ہو گئے۔ آخر کار بڑی شش و پنج کے بعد ان کی جاہلانہ حمیت ہی ان پر غالب آ کر رہی اور انہوں نے اپنی ناک کی خاطر یہ فیصلہ کر لیا کہ کسی قیمت پر بھی اس قافلے کو شہر میں داخل نہیں ہونے دینا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بنی کب کے ایک شخص کو مخبر کی حیثیت سے آگے بھیج رکھا تھا تاکہ وہ قریش کے ارادوں اور ان کی نقل و حرکت سے آپ کو بروقت مطلع کرتا رہے۔ جب آپ عسفان پہنچے تو اس نے آکر آپ کو اطلاع دی کہ قریش کے لوگ پوری تیاری کے ساتھ ذی طویٰ کے مقام پر پہنچ گئے ہیں اور خالد بن ولید کو انہوں نے ۲۰۰ سواروں کے ساتھ کراع الغمیم کی طرف آگے بھیج دیا ہے تاکہ وہ آپ کا راستہ روکیں۔ قریش کی چال یہ تھی کہ کسی نہ کسی طرح آنحضرت کے ساتھیوں سے چھیڑ چھاڑ کر کے ان کو اشتعال دلائیں اور پھر اگر لڑائی ہو جائے تو پورے ملک میں یہ مشہور کر دیں کہ یہ لوگ دراصل آئے تھے لڑنے کے لیے، مگر بہانہ انہوں نے عمرے کا کیا تھا اور احرام محض دھوکہ دینے کے لیے باندھ رکھا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ اطلاع پاتے ہی فوراً راستہ بدل دیا اور ایک نہایت دشوار گذار راستہ سے سخت مشقت اٹھا کر حدیبیہ کے مقام پر پہنچ گئے جو عین حرم کی سرحد پر واقع تھا۔ یہاں بنی خزاعہ کا سردار بدیل بن ورقا اپنے قبیلے کے چند آدمیوں کے ساتھ آپ کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ آپ کس غرض کے لیے آئے ہیں؟ آپ نے فرمایا ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے، صرف بیت اللہ کی زیارت اور اس کا طواف ہمارے پیش نظر ہے۔ یہی بات ان لوگوں نے جا کر قریش کے سرداروں کو بتا دی اور ان کو مشورہ دیا کہ وہ ان زائرین حرم کا راستہ نہ روکیں۔ مگر وہ اپنی ضد پر اڑے رہے اور انہوں نے احابیش کے سردار حلی بن علقمہ کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بھیجا تاکہ وہ آپ کو واپس جانے پر آمادہ کرے۔ سردارانِ قریش کا مقصد یہ تھا کہ جب محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی بات نہ مانیں گے تو وہ ان سے ناراض ہو کر پلٹے گا اور پھر احابیش کی پوری طاقت ہمارے ساتھ ہو گی۔مگر جب اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ سارا قافلہ احرام بند ہے، ھدی کے اونٹ سامنے کھڑے ہیں جن کی گردنوں میں قلاوے پڑے ہوئے ہیں، اور یہ لوگ لڑنے کے لیے نہیں بلکہ بیت اللہ کا طواف کرنے کے لیے آئے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کوئی بات کیے بغیر مکہ کی طرف پلٹ گیا اور اس نے جا کر قریش کے سرداروں سے صاف صاف کہہ دیا کہ یہ لوگ بیت اللہ کی عظمت مان کر اس کی زیارت کے لیے آئے ہیں اگر تم ان کو روکو گے تو احابیش اس کام میں تمہارا ساتھ ہرگز نہ دیں گے۔ ہم تمہارے حلیف اس لیے نہیں بنے ہیں کہ تم حرمتوں کو پامال کرو اور ہم اس میں تمہاری حمایت کریں۔
پھر قریش کی طرف سے عروہ بن مسعود ثقفی آیا اور اس نے اپنے نزدیک بڑی اونچ نیچ سمجھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس بات پر آمادہ کرنا چاہا کہ آپ مکہ میں داخل ہونے کے ارادے سے باز آجائیں، مگر آپ نے اس کو بھی وہی جواب دیا جو بنی خزاعہ کے سردار کو دیا تھا کہ ہم لڑائی کے ارادے سے نہیں آئے ہیں بلکہ بیت اللہ کی تعظیم کرنے والے بن کر ایک دینی فریضہ بجا لانے کے لیے آئے ہیں۔ واپس جا کر عروہ نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں بھی گیا ہوں، مگر خدا کی قسم، میں نے اصحاب محمد کو جس طرح محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا فدائی دیکھا ہے ایسا منظر کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کے ہاں بھی نہیں دیکھا۔ ان لوگوں کا حال تو یہ ہے کہ محمد وضو کرتے ہیں تو ان کے اصحاب پانی کا ایک قطرہ تک زمین پر نہیں گرنے دیتے اور سب اپنے جسم پر کپڑوں پر مل لیتے ہیں۔ اب تو لوگ سوچ لو کہ تمہارا مقابلہ کس سے ہے۔
اس دوران جبکہ ایلچیوں کی آمدورفت اور گفت و شنید کا یہ سلسلہ جاری تھا، قریش کے لوگ بار بار یہ کوشش کرتے رہے کہ چپکے سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کیمپ پر چھاپے مار کر صحابہ کو اشتعال دلائیں اور کسی نہ کسی طرح ان سے کوئی ایسا اقدام کرا لیں جس سے لڑائی کا بہانہ ہاتھ آ جائے۔ مگر ہر مرتبہ صحابہ کے صبر و ضبط اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حکمت و فراست نے ان کی ساری تدبیروں کو ناکام کر دیا۔ ایک دفعہ ان کے چالیس پچاس آدمی رات کے وقت آئے اور مسلمانوں کے پڑاؤ پر پتھر اور تیر برسانے لگے۔ صحابہ نے ان سب کو گرفتار کر کے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے پیش کر دیا۔ مگر آپ نے ان سب کو چھوڑ دیا۔ ایک اور موقع پر تنعیم کی طرف سے ۸۰ آدمی عین نماز فجر کے وقت آئے اور انہوں نے اچانک چھاپہ مار دیا۔ یہ لوگ بھی پکڑے گئے، مگر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں بھی رہا کر دیا۔ اس طرح قریش کی اپنی ہر چال اور ہر تدبیر میں ناکامی ہوتی چلی گئی۔
آخر کار حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود اپنی طرف سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ایلچی بنا کر مکہ بھیجا اور ان کے ذریعے سے سرداران قریش کو یہ پیغام دیا کہ ہم جنگ کے لیے نہیں بلکہ زیارت کے لیے ھدی ساتھ لے کر آئے ہیں، طواف اور قربانی کر کے واپس چلے جائیں گے۔ مگر وہ لوگ نہ مانے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ ہی میں روک لیا۔ اس دوران یہ خبر اڑ گئی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ قتل کر دیے گئے ہیں، اور ان کے واپس نہ آنے سے مسلمانوں کو یقین ہو گیا کہ یہ خبر سچی ہے۔ اب مزید تحمل کا کوئی موقع نہ تھا۔ مکہ میں داخلہ کی بات تو دوسری تھی، اس کے لیے طاقت کا استعمال ہر گز پیش نظر نہ تھا۔ مگر جب نوبت سفیر کے قتل تک پہنچ گئی تو پھر اس کے سوا کوئی چارہ باقی نہ رہا کہ مسلمان جنگ کے لیے تیار ہو جائیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے تمام ساتھیوں کو جمع کیا اور ان سے اس بات پر بیعت لی کہ اب یہاں سے ہم مرتے دم تک پیچھے نہ ہٹیں گے۔ موقع کی نزاکت نگاہ میں ہو تو آدمی سمجھ سکتا ہے کہ یہ کوئی معمولی بیعت نہ تھی۔ مسلمان صرف ۱۴۰۰ تھے اور کسی سامان جنگ کے بغیر آئے تھے۔ اپنے مرکز سے ڈھائی سو میل دور، عین مکہ کی سرحد پر ٹھیرے ہوئے تھے، جہاں دشمن اپنی پوری طاقت کے ساتھ ان پر حملہ آور ہو سکتا تھا اور گرد و پیش سے اپنے حامی قبیلوں کو لا کر بھی انہیں گھیرے میں لے سکتا تھا۔ اس کے باوجود ایک شخص کے سوا پورا قافلہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ پر مرنے مارنے کی بیعت کرنے کے لیے بلا تامل آمادہ ہو گیا۔ اس سے بڑھ کر ان لوگوں کو اخلاص ایمانی اور راہ خدا میں ان کی فدائیت کا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے۔ یہی وہ بیعت ہے جو بیعت رضوان کے نام سے تاریخ اسلام میں مشہور ہے۔
بعد میں معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کی خبر غلطی تھی۔ وہ خود بھی واپس آ گئے اور قریش کی طرف سے سہیل بن عمرو کی قیادت میں ایک وفد بھی صلح کی بات چیت کرنے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کیمپ میں پہنچ گیا۔ اب قریش اپنی اس ضد سے ہٹ گئے تھے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اور آپ کے ساتھیوں کو سرے سے مکہ میں داخل ہی نہ ہونے دیں گے۔ البتہ اپنی ناک بچانے کے لیے ان کا صرف یہ اصرار تھا کہ آپ اس سال واپس چلے جائیں، آئندہ سال آپ عمرے کے لیے آ سکتے ہیں۔ طویل گفت و شنید کے بعد جن شرائط پر صلح نامہ لکھا گیا وہ یہ تھیں:
۱. دس سال تک فریقین کے درمیان جنگ بند رہے گی، اور ایک دوسرے کے خلاف خفیہ اور علانیہ کوئی کاروائی نہ کی جائے گی۔
۲. اس دوران قریش کا جو شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر بھاگ کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جائے گا اسے آپ واپس کر دیں گے اور آپ کے ساتھیوں میں سے جو شخص قریش کے پاس چلا جائے گا اسے وہ واپس نہ کریں گے۔
۳. قبائل عرب میں سے جو قبیلہ بھی فریقین میں سے کسی ایک کا حلیف بن کر اس معاہدے میں شامل ہونا چاہے گا اسے اس کا اختیار ہو گا۔
۴. محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سال واپس جائیں گے اور آئندہ سال وہ عمرے کے لیے آ کر تین دن مکہ میں ٹھیر سکتے ہیں، بشرطیکہ پرتلوں میں صرف ایک ایک تلوار لے کر آئیں اور کوئی سامان حرب ساتھ نہ لائیں۔ ان تین دنوں میں اہل مکہ ان کے لیے شہر خالی کر دیں گے (تاکہ کسی تصادم کی نوبت نہ آئے)۔ مگر واپس جاتے ہوئے وہ یہاں کے کسی شخص کو اپنے ساتھ لے جانے کے مجاز نہ ہوں گے۔
جس وقت اس معاہدے کی شرائط طے ہو رہی تھیں، مسلمانوں کا پورا لشکر سخت مضطرب تھا۔ کوئی شخص بھی ان مصلحتوں کو نہیں سمجھ رہا تھا جنہیں نگاہ میں رکھ کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ شرائط قبول فرما رہے تھے۔ کسی کی نظر اتنی دور رس نہ تھی کہ اس صلح کے نتیجے میں جو خیر عظیم رونما ہونے والی تھی اسے دیکھ سکے۔ کفار قریش اسے اپنی کامیابی سمجھ رہے تھے اور مسلمان اس پر بے تاب تھے کہ ہم آخر دب کر یہ ذلیل شرائط کیوں قبول کریں۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے بالغ النظر مدبر تک کا یہ حال تھا کہ وہ کہتے ہیں کہ مسلمان ہونے کے بعد کبھی میرے دل میں شک نے راہ نہ پائی تھی،مگر اس موقع پر میں بھی اس سے محفوظ نہ رہ سکا۔ وہ بے چین ہو کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کہا "کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے رسول نہیں ہیں؟ کیا ہم مسلمان نہیں ہیں؟ کیا یہ لوگ مشرک نہیں ہیں؟ پھر آخر ہم اپنے دین کے معاملے میں یہ ذلت کیوں اختیار کریں؟" انہوں نے جواب دیا "اے عمر! وہ اللہ کے رسول ہیں اور اللہ ان کو ہر گز ضائع نہ کرے گا"۔ پھر ان سے صبر نہ ہوا ، جا کر یہی سوالات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بھی کیے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی ان کو ویسا ہی جواب دیا جیسا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے دیا تھا۔ بعد میں حضرت عمر مدتوں اس پر نوافل اور صدقات ادا کرتے رہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس گستاخی کو معاف فرما دے جو اس روز ان سے شان رسالت میں ہو گئی تھی۔
سب سے زیادہ دو باتیں اس معاہدے میں لوگوں کو بری طرح کَھل رہی تھیں۔ ایک شرط نمبر ۲ جس کے متعلق لوگ کہتے تھے کہ یہ صریح نامساوی شرط ہے۔ اگر مکہ سے بھاگ کر آنے والوں کو ہم واپس کریں تو مدینہ سے بھاگ کر جانے والے کو کیوں نہ واپس کریں؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر فرمایا جو ہمارے ہاں سے بھاگ کر ان کے پاس چلا جائے وہ آخر ہمارے کس کام کا ہے؟ اللہ اسے ہم سے دور ہی رکھے۔ اور جو ان کے ہاں سے بھاگ کر ہمارے پاس آ جائے اسے اگر ہم واپس کر دیں گے تو اللہ اس کے لیے خلاصی کی کوئی اور صورت پیدا فرما دے گا۔ دوسری چیز جو لوگوں کے دلوں میں کھٹک رہی تھی وہ چوتھی شرط تھی۔ مسلمان یہ سمجھ رہے تھے کہ اسے ماننے کے معنی یہ ہیں کہ تمام عرب کے سامنے گویا ہم ناکام واپس جا رہے ہیں۔ مزید براں یہ سوال بھی دلوں میں خلش پیدا کر رہا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خواب میں دیکھا تھا کہ ہم مکہ میں طواف کر رہے ہیں،مگر یہاں تو ہم طواف کیے بغیر واپس جانے کی شرط مان رہے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پر لوگوں کو سمجھا کہ خواب میں آخر اسی سال طواف کرنے کی صراحت تو نہ تھی۔ شرائطِ صلح کے مطابق اس سال نہیں تو اگلے سال انشاء اللہ طواف ہو گا۔
جلتی پر تیل کا کام جس واقعہ نے کیا وہ یہ تھا کہ عین اس وقت جب صلح کا معاہدہ لکھا جا رہا تھا، سہیل بن عمرو کے اپنے صاحبزادے ابو جندل، جو مسلمان ہو چکے تھے اور کفار مکہ نے ان کو قید کر رکھا تھا، کسی نہ کسی طرح بھاگ کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کیمپ میں پہنچ گئے۔ ان کے پاؤں میں بیڑیاں تھیں اور جسم پر تشدد کے نشانات تھے۔ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے فریاد کی کہ مجھے اس حبس بے جا سے نجات دلائی جائے۔ صحابہ کرام کے لیے یہ حالت دیکھ کر ضبط کرنا مشکل ہو گیا۔ مگر سہیل بن عمرو نے کہا کہ صلح نامے کی تحریر چاہے مکمل نہ ہوئی ہو، شرائط تو ہمارے اور آپ کے درمیان طے ہو چکی ہیں، اس لیے اس لڑکے کو میرے حوالے کیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی حجت تسلیم فرما لی اور ابو جندل ظالموں کے حوالے کر دیے گئے۔
صلح سے فارغ ہو کر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اب یہیں قربانی کر کے سر منڈواؤ اور احرام ختم کر دو۔ مگر کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین مرتبہ حکم دیا، مگر صحابہ پر اس وقت رنج و غم اور دل شکستگی کا ایسا شدید غلبہ تھا کہ انہوں نے اپنی جگہ سے حرکت نہ کی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پورے دور رسالت میں اس ایک موقع کے سوا کبھی یہ صورت پیش نہ آئی تھی کہ آپ صحابہ کو حکم دیں اور وہ اس کی تعمیل کے لیے دوڑ نہ پڑیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس پر سخت صدمہ ہوا اور آپ نے اپنے خیمے میں جا کر ام المومنین حضرت ام سلمہ سے اپنی کبیدہ خاطری کا اظہار فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا کہ آپ بس خاموشی کے ساتھ تشریف لے جا کر خود اپنا اونٹ ذبح فرمائیں اور حجام کو بلا کر اپنا سر منڈوا لیں۔ اس کے بعد لوگ خود بخود آپ کے عمل کی پیروی کریں گے اور سمجھ لیں گے کہ جو فیصلہ ہو چکا ہے وہ اب بدلنے والا نہیں ہے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور آپ کے فعل کو دیکھ کر لوگوں نے بھی قربانیاں کر لیں، سر منڈوا لیے یا بال ترشوا لیے اور احرام سے نکل آئے۔ مگر دل ان کے غم سے کٹے جا رہے تھے۔
اس کے بعد جب یہ قافلہ حدیبیہ کی صلح کو اپنی شکست اور ذلت سمجھتا ہوا مدینہ کی طرف واپس جا رہا تھا، اس وقت ضجنان کے مقام پر (یا بقول بعض کراع الغمیم کے مقام پر) یہ سورت نازل ہوئی، جس نے مسلمانوں کو بتایا کہ یہ صلح جس کو وہ شکست سمجھ رہے ہیں دراصل فتح عظیم ہے۔ اس کے نازل ہونے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو جمع کیا اور فرمایا آج مجھ پر وہ چیز نازل ہوئی ہے جو میرے لیے دنیا و مافیہا سے زیادہ قیمتی ہے۔ پھر یہ سورت آپ نے تلاوت فرمائی اور خاص طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بلا کر اسے سنایا کیونکہ وہ سب سے زیادہ رنجیدہ تھے۔
اگرچہ اہل ایمان تو اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد سن کر ہی مطمئن ہو گئے تھے، مگر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ اس صلح کے فوائد ایک ایک کرتے کھلتے چلے گئے یہاں تک کہ کسی کو بھی اس امر میں شک نہ رہا کہ فی الواقع یہ صلح ایک عظیم الشان فتح تھی۔
۱. اس میں پہلی مرتبہ عرب میں اسلامی ریاست کا وجود باقاعدہ تسلیم کیا گیا۔ اس سے پہلے تک عربوں کی نگاہ میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کی حیثیت محض قریش اور قبائل عرب کے خلاف خروج کرنے والے ایک گروہ کی تھی اور ان کو برادری باہر (Outlaw) سمجھتے تھے۔ اب خود قریش ہی نے آپ سے معاہدہ کر کے سلطنت اسلامی کے مقبوضات پر آپ کا اقتدار مان لیا اور قبائل عرب کے لیے یہ دروازہ بھی کھول دیا کہ ان دونوں سیاسی طاقتوں میں سے جس کے ساتھ چاہیں حلیفانہ معاہدات کر لیں۔
۲. مسلمانوں کے لیے زیارت بیت اللہ کا حق تسلیم کر کے قریش نے آپ سے آپ گویا یہ بھی مان لیا کہ اسلام کوئی بے دینی نہیں ہے جیسا کہ وہ اب تک کہتے چلے آ رہے تھے، بلکہ عرب کے مسلمہ ادیان میں سے ایک ہے اور دوسرے عربوں کی طرح اس کے پیرو بھی حج و عمرہ کے مناسک ادا کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس سے اہل عرب کے دلوں کی وہ نفرت کم ہو گئی جو قریش کے پروپیگنڈا سے اسلام کے خلاف پیدا ہو گئی تھی۔
۳. دس سال کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ ہو جانے سے مسلمانوں کو امن میسر آ گیا اور انہوں نے عرب تمام اطراف و نواح میں پھیل کر اس تیزی سے اسلام کی اشاعت کی کہ صلح حدیبیہ سے پہلے پورے ۱۹ سال میں اتنے آدمی مسلمان نہ ہوئے تھے جتنے اس کے بعد دو سال کے اندر ہو گئے۔ یہ اسی صلح کی برکت تھی کہ یا تو وہ وقت تھا جب حدیبیہ کے مقام پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ۱۴۰۰ آدمی آئے تھے، یا دو ہی سال کے بعد جب قریش کی عہد شکنی کے نتیجے میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ پر چڑھائی کی تو دس ہزار کا لشکر آپ کے ہمرکاب تھا۔
۴. قریش کی طرف سے جنگ بند ہو جانے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ موقع مل گیا کہ اپنے مقبوضات میں اسلامی حکومت کو اچھی طرح مستحکم کر لیں اور اسلامی قانون کے اجراء سے مسلم معاشرے کو ایک مکمل تہذیب و تمدن بنا دیں۔ یہی و ہ نعمت عظمیٰ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورہ مائدہ کی آیت ۳ میں فرمایا کہ "آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے"۔
۵. قریش سے صلح کے بعد جنوب کی طرف سے اطمینان نصیب ہو جانے کا فائدہ یہ بھی ہوا کہ مسلمانوں نے شمالِ عرب اور وسطِ عرب کی تمام مخالف طاقتوں کو با آسانی مسخر کر لیا۔ صلح حدیبیہ پر تین ہی مہینے گذرے تھے کہ یہودیوں کا سب سے بڑا گڑھ خیبر فتح ہو گیا اور اس کے بعد فدک، وادی القریٰ، تیما اور تبوک کی یہودی بستیاں اسلام کے زیر نگیں آتی چلی گئیں۔ پھر وسطِ عرب کے وہ تمام قبیلے بھی، جو یہود و قریش کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھتے تھے، ایک ایک کر کے تابع فرمان ہو گئے۔ اس طرح حدیبیہ کی صلح نے دو ہی سال کے اندر عرب میں قوت کا توازن اتنا بدل دیا کہ قریش اور مشرکین کی طاقت دب کر رہ گئی اور اسلام کا غلبہ یقینی ہو گیا۔
یہ تھیں وہ برکات جو مسلمانوں کو اس صلح سے حاصل ہوئیں جسے وہ اپنی ناکامی اور قریش اپنی کامیابی سمجھ رہے تھے۔ سب سے زیادہ جو چیز اس صلح میں مسلمانوں کو ناگوار ہوئی تھی اور جسے قریش اپنی جیت سمجھا تھا کہ مکہ سے بھاگ کر مدینہ جانے والوں کو واپس کر دیا جائے گا اور مدینہ سے بھاگ کر مکہ جانے والوں کو واپس نہ کیا جائے گا۔ مگر تھوڑی ہی مدت گذری تھی کہ یہ معاملہ بھی قریش پر الٹا پڑا اور تجربہ نے بتا دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نگاہِ دور رس نے اس کے کن نتائج کو دیکھ کر یہ شرط قبول کی تھی۔ صلح کے کچھ دنوں بعد مکہ سے ایک مسلمان ابو بصیر قریش کی قید سے بھاگ نکلے اور مدینہ پہنچے۔ قریش نے ان کی واپسی کا مطالبہ کیا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معاہدے کے مطابق انہیں ان لوگوں کے حوالے کر دیا جو ان کی گرفتاری کے لیے مکہ سے بھیجے گئے تھے۔ مگر مکہ جاتے ہوئے راستے میں وہ پھر ان کی گرفت سے بچ نکلے اور ساحل بحیرہ احمر کے اس راستے پر جا بیٹھے جس سے قریش کے تجارتی قافلے گزرتے تھے۔ اس کے بعد جس مسلمان کو بھی قریش کی قید سے بھاگ نکلنے کا موقع ملتا وہ مدینہ جانے کے بجائے ابو بصیر کر ٹھکانے پر پہنچ جاتا، یہاں تک کہ ۷۰ آدمی جمع ہو گئے اور انہوں نے قریش کے قافلوں پر چھاپے مار مار کر ان کا ناطقہ تنگ کر دیا۔ آخر کار قریش نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے درخواست کی کہ ان لوگوں کو مدینہ بلا لیں اور حدیبیہ کے معاہدے کی وہ شرط آپ سے آپ ساقط ہو گئی۔
یہ تاریخی پس منظر نگاہ میں رکھ کر اس سورت کو پڑھا جائے تو اسے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔
۱۔ صلح حدیبیہ کے بعد جب فتح کا یہ مژدہ سنایا گیا تو لوگ حیران تھے کہ آخر اس صلح کو فتح کیسے کہا جاسکتا ہے۔ ایمان کی بنا پر اللہ تعالیٰ کے ارشاد کو مان لینے کی بات تو دوسری تھی۔ مگر اس کے فتح ہونے کا پہلو کسیکی سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔ حضرت عمرؓ نے یہ آیت سن کر پوچھا: یا رسول اللہ، کیا یہ فتح ہے؟ حضورؐ نے فرمایا ہاں(ابن جریر)۔ ایک اور صحابی حاضر ہوئے اور انہوں نے بھی یہی سوال کیا۔ آپ نے فرمایا ای والذی نفس محمد بیدہٖ انہٗ لفتح ۔’’ قسم ہےاس ذات کیجس کے ہاتھ میں محمدؐ کی جان ہے، یقیناً یہ فتح ہے‘‘(مسند احمد۔ابوداؤد)۔ مدینہ پہنچ کر ایک اور صاحب نے اپنے ساتھیوں سے کہا ’’ یہ کیسی فتح ہے؟ ہم بیت اللہ جانے سےروک دیے گئے، ہماری قربانی کے اونٹ بھی آگے نہ جا سکے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حدیبیہ ہی میں رک جانا پڑا ، اور اس صلح کی بدولت ہمارے دو مظلوم بھائیوں (ابو جندل اور ابو بصیر) کو ظالموں کے حوالہ کر دیا گیا‘‘۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم تک یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا’’ بڑی غلط بات کہی گئی ہے یہ ۔ حقیقت میں تو یہ بہت بڑی فتح ہے۔ تم مشرکوں کے عین گھر پر پہنچ گئے اور انہوں نے آئندہ سال عمرہ کرنے کی درخواست کر کے تمہیں واپس جانے پر راضی کیا ۔ انہوں نے تم سےخود جنگ بند کر دیتے اور صلح کر لینے کی خواہش کی حالانکہ ان کے دلوں میں تمہارے لیے جیسا کچھ بغض ہے وہ معلوم ہے۔ اللہ نے تم کو ان پر غلبہ عطا کر دیا ہے۔ کیا وہ دن بھول گئے جب احد میں تم بھاگے جا رہے تھے اور میں تمہیں پیچھے سے پکار رہا تھا ؟ کیا وہ دن بھول گئے جب جنگ احزاب میں ہر طرف سے دشمن چڑھ آئے تھے اور کلیجے منہ کو آ رہے تھے‘‘؟ (بیہقی بروایت عروہ بن زبیر)۔ مگر کچھ زیادہ مدت نہ گزری تھی کی اس صلح کا فتح ہونا بالکل عیاں ہوتا چلا گیا اور ہر خاص و عام پر یہ بات پوری طرح کھل گئی کہ فری الواقع اسلام کی فتح کا آغاز صلح حدیبیہ ہی سے ہوا تھا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت جابر بن عبداللہ، اور حضرت براء بن عازب، تینوں حضرات سے قریب قریب ایک ہی معنی میں یہ قول منقول ہوا ہے کہ ’’ لوگ فتح مکہ کو فتح کہتے ہیں ، حالانکہ ہم اصل فتح حدیبیہ کو سمجھتے ہیں‘‘(بخاری، مسلم ،مسند احمد ، ابن جریر)۔
۲۔ جس موقع و محل پر یہ فقرہ ارشاد ہوا ہے اس نگاہ میں رکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں جن کوتاہیوں سے در گزر کرنے کا ذکر ہے ان سے مراد وہ خامیاں ہیں جو اسلام کی کامیابی و سر بلندی کے لیے کام کرتے ہوئے اس سعی و جہد میں رہ گئی تھیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت میں پچھلے ۱۹ سال سے مسلمان کر رہے تھے۔ یہ خامیاں کسی انسان کے علم میں نہیں ہیں، بلکہ انسانی عقل تو اس جدوجہد میں کوئی نقص تلاش کرنے سے قطعی عاجز ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں کمال کا جو بلند ترین معیار ہے اس کے لحاظ سےاس میں کچھ ایسی خامیاں تھیں جن کی وجہ سے مسلمانوں کو اتنے جلدی مشرکین عرب پر فیصلہ کن فتح حاصل نہ ہو سکتی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ ان خامیوں کے ساتھ اگر تم جدوجہد کرتے رہتے تو عرب کے مسخر ہونے میں ابھی عرصۂ دراز کار تھا، مگر ہم نے ان ساری کمزوریوں اور کوتاہیوں سے در گزر کر کے محض اپنے فضل سے ان کی تلافی کر دی اور حدیبیہ کے مقام پر تمہارے لیے اس فتح و ظفر کا دروازہ کھول دیا جو معمول کے مطابق تمہاری اپنی کوششوں سے نصیب نہ ہوسکتی تھی۔
اس مقام پر یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ کسی مقصد کے لیے ایک جماعت جو کوشش کر رہی ہو اس کی خامیوں کے لیے اس جماعت کے قائد و رہنما ہی کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ خامیاں قائد کی ذاتی خامیاں ہیں۔ در اصل وہ اس جدوجہد کی کمزوریاں ہوتی ہیں جو پوری جماعت بحیثیت مجموعی کر رہی ہوتی ہے۔ مگر خطاب قائد سے کیا جاتا ہے کہ آپ کے کام میں یہ کمزوریاں ہیں۔
تاہم چونکہ روئے سخن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف ہے، اور فرمایا یہ گیا ہے کہ اللہ نے آپ کی ہر اگلی پچھلی کوتاہی کو معاف فرما دیا ، اس لیے ان عام الفاظ سے یہ مضمون بھی نکل آیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے رسول پاک کی تمام لغزشیں (جو آپ کے مقام بلند کے لحاظ سے لغزشیں تھیں) بخش دی گئیں ۔ اسی بنا پر جب صحابہ کرام حضورؐ کو عبادت میں غیر معمولی مشقتیں اٹھاتے ہوئے دیکھتے تھے تو عرض کرتے تھے کہ آپ کے تو اب اگلے پچھلے قصور معاف ہو چکے ہیں، پھر آپ اپنی جان پر اتنی سختی کیوں اٹھاتے ہیں؟ اور آپؐ جواب میں فرماتے تھے : افلا اکون عبداً ا شکوراً۔‘‘کیا میں ایک شکر گزار بندہ نہ بنوں‘‘؟ (احمد، بخاری، مسلم ، ابوداؤد)۔
۳۔ نعمت کی تکمیل سے مراد یہ ہے کہ مسلمان اپنی جگہ ہر خوف، ہر مزاحمت اور ہر بیرونی مداخلت سے محفوظ ہو کر پوری طرح اسلامی تمدن و تہذیب اور اسلامی قوانین و احکام کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے آزاد ہو جائیں ، اور ان کو یہ طاقت بھی نصیب ہو جائے کہ وہ دنیا میں اللہ کا کلمہ بلند کر سکیں۔ کفر و فسقو کا غلبہ، جو بندگی رب کی راہ میں مانع اور اعلائے کلمۃ اللہ کی سعی میں مزاحم ہو، اہل ایمان کے لیے سب سے بڑی مصیبت ہے جسے قرآن ’’فتنہ‘‘ قرار دیتا ہے۔ اس فتنے سے خلاصی پاکر جب ان کو ایک ایسا دارالاسلام میسر آ جائے جس میں اللہ کا پورا دین نے کم و کاست نافذ ہو، اور اس کے ساتھ ان کو ایسے ذرائع و وسائل بھی بہم پہنچ جائیں جن سے وہ خدا کی زمین پر کفر و فسق کی جگہ ایمان و تقویٰ کا سکہ رواں کر سکیں، تو یہ ان پر اللہ نعمت کا اتمام ہے ۔ یہ نعمت چونکہ مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی بدولت حاصل ہوئی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضورؐ ہی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ہم تم پر اپنی نعمت کی تکمیل کر دینا چاہتے تھے، اس لیے یہ فتح ہم نے تم کو عطا کر دی۔
۴۔ اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سیدھا راستہ دکھانے کا مطلب آپ کو فتح و کامرانی کا راستہ دکھانا ہے دوسرے الفاظ میں اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ کے مقام پر صلح کا یہ معاہدہ کرا کے آپؐ کے لیے وہ راہ ہموار کر دی اور وہ تدبیر آپ کو سجھا دی جس سے آپ اسلام کی مزاحمت کرنے والی تمام طاقتوں کو مغلوب کر لیں۔
۵ ۔ دوسرا ترجمہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ’’ تم کو بے مثل نصرت بخشے‘‘۔ اصل میں لفظ نصراً عزیزاً استعمال ہوا ہے۔ عزیز کے معنی زبردست کے بھی ہیں اور بے نظیر ، بے مثل اور نادر کے بھی ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اس صلح کے ذریعہ سے اللہ نے آپ کی ایسی مدد کی ہے جس سے آپ کے دشمن عاجز ہو جائیں گے۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ شاذ و نادر ہی کبھی کسی کی مدد کا ایسا عجیب طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ بظاہر جو چیز لوگوں کو محض ایک صلح نامہ اور وہ بھی دب کر کیا ہوا صلح نامہ نظر آتی ہے، وہی ایک فیصلہ کن فتح بن جانے والی ہے۔
۶ ۔ ’’ سکینت ‘‘ عربی زبان میں سکون و اطمینان اور ثبات قلب کو کہتے ہیں، اور یہاں اللہ تعالیٰ مومنوں کے دل میں اس کے نازل کیے جانے کو اس فتح کا ایک اہم سبب قرار دے رہا ہے جو حدیبیہ کے مقام پر اسلام اور مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔ اس وقت کے حالات پر تھوڑا سا غور کرنے سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے کہ وہ کس قسم کی سکینت تھی جو اس پورے زمانے میں مسلمانوں کے دلوں میں اتاری گئی اور کیسے وہ اس فتح کا سبب بنی۔ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمرے کے لیے مکہ معظمہ جانے کا ارادہ ظاہر فرمایا، اگر مسلمان اس وقت خوف زدگی میں مبتلا ہو جاتے اور منافقین کی طرح یہ سوچنے لگتے کہ یہ تو صریحاً موت کے منہ میں جانا ہے، یا جب راستے میں یہ اطلاع ملی کہ کفار قریش لڑنے مرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں، اس وقت اگر مسلمان اس گھبراہٹ میں مبتلا ہو جاتے کہ ہم کسی جنگی ساز و سامان کے بغیر دشمن کا مقابلہ کیسے کر سکیں گے، اور اس بنا پر ان کے اندر بھگدڑ مچ جاتی، تو ظاہر ہے کہ وہ نتائج کبھی رو نما نہ ہوتے جو حدیبیہ میں رو نما ہوئے۔ پھر جب حدیبیہ کے مقام پر کفار نے مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روکا ، اور جب انہوں نے چھاپے اور شبخون مار مار کر مسلمانوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی، اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی اطلاع ملی، اور جب ابو جندل مظلومیت کی تصویر بنے ہوئے مجمع عام میں آ کھڑے ہوئے ، ان میں سےہر موقع ایسا تھا کہ اگر مسلمان اشتعال میں آ کر اس نظم ضبط کو توڑ ڈالتے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قائم کیا تھا تو ساا کام خراب ہو جاتا۔ سب سے زیادہ یہ کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان شرائط پر صلح نامہ طے کرنے لگے جو مسلمانوں کی پوری جماعت کو سخت ناگوار تھیں، اس وقت اگر وہ حضور کی نافرمانی کرنے پر اتر آتے تو حدیبیہ کی فتح عظیم شکست عظیم میں تبدیل ہو جاتی ۔ اب یہ سراسر اللہ ہی کا فضل تھا کہ ان نازک گھڑیوں میں مسلمانوں کو رسول پاکؐ کی رہنمائی پر، دین حق کی صداقت پر اور اپنے مشن کے بر حق ہونے پر کامل اطمینان نصیب ہوا ۔ اسی کی بنا پر انہوں نے ٹھنڈے دل سے یہ فیصلہ کیا کہ اللہ کی راہ میں جو کچھ بھی پیش آئے سب گوارا ہے۔اسی کی بنا پر وہ خوف ، گھبراہٹ ، اشتعال، مایوسی ، ہر چیز سے محفوظ رہے۔ اسی کی بدولت ان کے کیمپ میں پورا نظم و ضبط بر قرار رہا۔ اور اسی کی وجہ سے انہوں نے شرائط صلح پر سخت کبیدہ خاطر ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فیصلہ پر سر تسلم خم کر دیا۔ یہی وہ سکینت تھی جو اللہ نے مومنوں کے دلوں میں اتاری تھی ، اور اسی کی یہ برکت تھی کہ عمرے کے لیے نکلنے کا خطرناک ترین اقدام بہترین کامیابی کا موجب بن گیا۔
۷ ۔ یعنی ایک ایمان تو وہ تھا جو اس مہم سے پہلے ان کو حاصل تھا، اور اس پر مزید ایمان انہیں اس وجہ سے حاصل ہوا کہ اس مہم کے سلسلے میں جتنی شدید آزمائشیں پیش آتی چلی گئیں ان میں سے ہر ایک میں وہ اخلاص، تقویٰ اور اطاعت کی روش پر ثابت قدم رہے۔ یہ آیت بھی منجملہ ان آیات کے ہے جن سےمعلوم ہوتا ہے کہ ایمان ایک جامد و ساکن حالت نہیں ہے، بلکہ اس میں ترقی بھی ہوتی ہے اور تنزل بھی ۔ اسلام قبول کرنے کے بعد سے مرتے دم تک مومن کو زندگی میں قدم قدم پر ایسی آزمائشوں سے سابقہ پیش آتا رہتا ہے جن میں اس کے لیے یہ سوال فیصلہ طلب ہوتا ہے کہ آیا وہ اللہ کے دین کی پیروی میں اپنی جان، مال ، جذبات ، خواہشات، اوقات، آسائشوں اور مفادات کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ ایسی ہر آزمائش کے موقع پر اگر وہ قربانی کی راہ اختیار کر لے تو اس کے ایمان کو ترقی اور بالیدگی نصیب ہوتی ہے، اور اگر منہ موڑ جائے تو اس کا ایمان ٹھٹھر کر رہ جاتا ہے، یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آ جاتا ہے جب وہ ابتدائی سرمایہ ایمان بھی خطرے میں پڑ جاتا ہے جسے لیے ہوئے وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوا تھا۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، تفسیر سورہ انفال ، حاشیہ ۲، جلد چہارم ، الاحزاب ، حاشیہ ۳۸)۔
۸ ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے پاس تو ایسے لشکر ہیں جن سے وہ کفار کو جب چاہے تہس نہس کر دے ، مگر اس نے کچھ جان کر اور حکمت ہی کی بنا پر ایہ ذمہ داری اہل ایمان پر ڈالی ہے کہ وہ کفار کے مقابلہ میں جد و جہد اور کشمکش کر کے اللہ کے دین کا بول بالا کریں۔ اسی سے ان کے لیے درجات کی ترقی اور آخرت کی کامیابیوں کا دروازہ کھلتا ہے جیسا کہ آگے کی آیت بتا رہی ہے۔
۹ ۔ قرآن مجید میں بالعموم اہل ایمان کے اجر کا ذکر مجموعی طور پر کیا جاتا ہے ، مردوں اور عورتوں کو اجر ملنے کی الگ الگ تصریح نہیں کی جاتی۔ لیکن یہاں چونکہ یکجائی ذکر پر اکتفا کرنے سے یہ گمان پیدا ہوسکتا تھا کہ شاید یہ اجر صرف مردوں کے لیے ہو،اس لیے اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کے متعلق الگ صراحت کر دی کہ وہ بھی اس اجر میں مومن مردوں کے ساتھ برابر کی شریک ہیں ۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ جن خدا پرست خواتین نے اپنے شوہروں، بیٹوں ، بھائیوں اور باپوں کو اس خطرناک سفت پر جانے سے روکنے اور آہ و فغان سے ان کے حوصلے پست کرنے کے بجائے ان کی ہمت افزائی کی، جنہوں نے ان کے پیچھے ان کے گھر ، ان کے مال ، ان کی آبرو اور ان کے بچوں کی محافظ بن کر انہیں اس طرف سے بے فکر کر دیا، جنہوں نے اس اندیشے سے بھی کوئی واویلا نہ مچائی کہ چودہ سو صحابیوں کے ایک لخت چلے جانے کے بعد کہیں گرد و پیش کے کفار و منافقین شہر پر نہ چڑھ آئیں ، وہ یقیناً گھر بیٹھنے کے باوجود جہاد کے اجر میں اپنے مردوں کے ساتھ برابر کی شریک ہونی ہی چاہیے تھیں۔
۱۰ ۔ یعنی بشری کمزوریوں کی بنا پر جو کچھ بھی قصور ان سے سر زد ہو گئے ہوں انہیں معاف کر دے ، جنت میں داخل کرنے سے پہلے ان قصوروں کے ہر اثر سے ان کو پاک کر دے، اور جنت میں وہ اس طرح داخل ہوں کہ کوئی داغ ان کے دامن پر نہ ہو جس کی وجہ سے وہ وہاں شرمندہ ہوں۔
۱۱۔ اطراف مدینہ کے منافقین کو تو اس موقع پر یہ گمان تھا، جیسا کہ آگے آیت ۱۲ میں بیان ہوا ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھی اس سفر سے زندہ واپس نہ آسکیں گے۔ رہے مکہ کے مشرکین اور ان کے ہم مشرب کفار، تو وہ اس خیال میں تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ کے ساتھیوں کو عمر ے سے روک کر وہ گویا آپ کو زک دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔ ان دونوں گواہوں نے یہ جو کچھ بھی سوچا تھا اس کی تہ میں در حقیقت اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ بد گمانی کام کر رہی تھی کہ وہ اپنے نبی کی مدد نہ کرے گا اور حق و باطل کی اس کشمکش میں باطل کو حق کا بول نیچا کرنے کی کھلی چھوٹ دے دے گا۔
۱۲ ۔ یعنی جس انجام بد سے وہ بچنا چاہتے تھے اور جس سے بچنے کے لیے انہوں نے یہ تدبیریں کی تھیں، اسی کے پھیر میں وہ آ گئے اور ان کی وہی تدبیریں اس انجام کو قریب لانے کا سبب بن گئیں۔
۱۳ ۔ یہاں اس مضمون کو ایک دوسرے مقصد کے لیے دہرایا گیا ہے۔ آیت نمبر ۴ میں اسے اس غرض کے لیے بیان کیا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے مقابلے میں لڑنے کا کام اپنے فوق الفطری لشکروں سے لینے کے بجائے مومنین سے اس لیے لیا ہے کہ وہ ان کو نوازنا چاہتا ہے۔ اور یہاں اس مضمون کو دوبارہ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو سزا دینا چاہے اس کی سرکوبی کے لیے وہ اپنے بے شمار لشکروں میں سے جس کو چاہے استعمال کر سکتا ہے، کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اپنی تدبیروں سے وہ اس کی سزا کو ٹال سکے۔
۱۴ ۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے شاہد کا ترجمہ ’’ اظہار حق کنندہ ‘‘ فرمایا ہے اور دوسرے مترجمین اس کا ترجمہ ’’ گواہی دینے والا‘‘ کرتے ہیں۔ شہادت کا لفظ ان دونوں مفہومات پر حاوی ہے۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو: تفہیم القرآن، جلد چہارم ، تفسیر سوری احزاب ، حاشیہ نمبر ۸۲ ۔
۱۵ ۔ تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ احزاب، حاشیہ ۸۳ ۔
۱۶ ۔ بعض مفسرین جے تُعَزِّ رُوْہُ اور تُوَقِّرُوْہُ کی ضمیروں کا مرجع رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اور تُسَبِّحُوہُ کی ضمیر کا مرجع اللہ تعالیٰ کو قرار دیا ہے۔ یعنی ان کے نزدیک آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’’ تم رسول کا ساتھ دو اور اس کی تعظیم و توقیر کرو، اور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو‘‘۔ لیکن ایک ہی سلسلہ کلام میں ضمیروں کے دو الگ الگ مرجع قرار دینا، جبکہ اس کے لیے کوئی قرینہ موجود نہیں ہے، درست نہیں معلوم ہوتا ۔ اسی لیے مفسرین کے ایک دوسرے گروہ نے تمام ضمیروں کا مرجع اللہ تعالیٰ ہی کو قرار دیا ہے اور ان کے نزدیک عبارت کا مطلب یہ ہے کہ ’’ تم اللہ کا ساتھ دو، اسکی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہے‘‘۔
صبح و شام تسبیح کرنےسے مراد صرف صبح و شام ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت تسبیح کرتے رہنا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں بات کا شہرہ مشرق و مغرب میں پھیلا ہوا ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ صرف مشرق اور مغرب کے لوگ اس بات کو جانتے ہیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ساری دنیا میں اس کا چرچا ہو رہا ہے۔
۱۷ ۔ اشارہ ہے اس بیعت کی طرف جو مکہ معظمہ میں حضرت عثمانؓ کے شہید ہو جانے کی خبر سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام سے حدیبیہ کے مقام پرلی تھی ۔ بعض روایات کی رو سے یہ بیعت علیٰ الموت تھی، اور بعض روایات کے مطابق بیعت اس بات پر لی گئی تھی کہ ہم میدان جنگ سے پیٹھ نہ پھیریں گے۔ پہلی بات حضرت سلمہ بن اکوَع سے مروی ہے، اور دوسرے حضرات ابن عمر ، جابر بن عبداللہ اور معقِل بن یسار سے۔ مآل دونوں کا ایک ہی ہے۔ صحابہ نے رسول پاکؐ کے ہاتھ پر بیعت اس بات کی کی تھی کہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کا معاملہ اگر صحیح ثابت ہوا تو وہ سب یہیں اور اسی وقت قریش سے نمٹ لیں گے خواہ نتیجہ میں وہ سب کٹ ہی کیوں نہ مریں۔ اس موقع پر چونکہ یہ امر ابھی یقینی نہیں تھا کہ حضرت عثمان واقعی شہید ہو چکے ہیں یا زندہ ہیں ، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی طرف سے خود اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر بیعت میں شریک فرمایاس ۔ حضورؐ کا ان کی طرف سے خود بیعت کرنا لازماً یہ معنی رکھتا ہے کہ حضور کو ان پر پوری طرح یہ اعتماد تھا کہ اگر وہ موجود ہوتے تو یقیناً بیعت کرتے۔
۱۸ ۔ یعنی جس ہاتھ پر لوگ اس وقت بیعت کر رہے تھے وہ شخص رسول کا ہاتھ نہیں بلکہ اللہ کے نمائندے کا ہاتھ تھا اور یہ بیعت رسول کے واسطہ سے در حقیقت اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہو رہی تھی۔
۱۹ ۔ اس مقام پر ایک لطیف نکتہ نگاہ میں رہنا چاہیے۔ عربی زبان کے عام قاعدے کی رو سے یہاں عٰھَدَعَلَیْہِ اللہَ پڑھا جانا چاہیے تھا، لیکن اس عام قاعدے سے ہٹ کر اس جگہ عَلَیْہُ اللہَ پڑھا جاتا ہے۔ علامہ آلوسی نے اس غیر معمولی اِعراب کے دو وجوہ بیان کیے ہیں ۔ ایک یہ کہ اس خاص موقع پر اس ذات کی بزرگی اور جلالت شان کا اظہار مقصود ہے جو کے ساتھ یہ عہد استوار کیا جا رہا تھا اس لیے یہاں عَلَیْہِ کے بجائے عَلَیْہُ ہی زیادہ مناسب ہے۔ دوسرے یہ کہ عَلَیْہِ میں ’’ہ‘‘ دراصل ھُوَ کی قائم مقام ہے اور اس کا اصلی اعراب پیش ہی تھا نہ کہ زیر ۔ لہٰذا یہاں اس کے ٓسلی اعراب کو باقی رکھنا وفائے عہد کے مضمون سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔
۲۰ ۔ یہ اطراف مدینہ کے ان لوگوں کا ذکر ہے جنہیں عمرے کی تیاری شروع کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساتھ چلنے کی دعوت دی تھی، مگر وہ ایمان کا دعویٰ رکھنے کے باوجود صرف اس لیے اپنے گھروں سے نہ نکلے تھے کہ انہیں اپنی جان عزیز تھی ۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اَسلم،مُزَینہ، جُہَینہ ،غِفار، اَشْجع، دِیل وغیرہ قبائل کے لوگ تھے۔
۲۱ ۔ اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ تمہارے مدینہ پہنچنے کے بعد یہ لوگ اپنے نہ نکلنے کے لیے جو عذر اب پیش کریں گے وہ محض ایک جھوٹا بہانہ ہو گا ، ورنہ ان کے دل جانتے ہیں کہ وہ در اصل کیوں بیٹھ رہے تھے ۔ دوسرے یہ کہ ان کا اللہ کے رسول سے دعائے مغفرت کی درخواست کرنا محض زبانی جمع خرچ ہو گا۔ اصل میں وہ نہ اپنی اس حرکت پر نادم ہیں، نہ انہیں یہ احساس ہے کہ انہوں نے رسول کا ساتھ نہ دے کر کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے، اور نہ ان کے دل میں مغفرت کی کوئی طلب ہے۔ اپنے نزدیک تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اس خطرناک سفر پر نہ جا کر بڑی عقلمندی کی ہے۔ اگر انہیں واقعی اللہ اور اس کی مغفرت کی کوئی پرسا ہوتی تو وہ گھر بیٹھے ہی کیوں رہتے۔
۲۲ ۔ یعنی اللہ کا فیصلہ تو اس علم کی بنا پر ہو گا جو وہ تمہارے عمل کی حقیقت کے متعلق رکھتا ہے۔ اگر تمہارا عمل سزا کا مستحق ہو اور میں تمہارے لیے مغفرت کی دعا کر دوں تو میری یہ دعا تمہیں اللہ کی سزا سے نہ بچا دے گی۔ اور اگر تمہارا عمل سزا کا مستحق نہ ہو اور میں تمہارے حق میں استغفار نہ کروں تو میرا استغفار نہ کرنا تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا دے گا ۔ اختیار میرا نہیں بلکہ اللہ کا ہے، اور اس کو کسی کی زبانی باتیں دھوکا نہیں دے سکتیں۔ اس لیے تمہارے ظاہری قول کو میں سچ مان بھی لوں اور اس بنا پر تمہارے حق میں دعائے مغفرت بھی کر دوں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
۲۳ ۔ یعنی تم اس بات پر بہت خوش ہوئے کہ رسول اور اس کا ساتھ دینے والے اہل ایمان جس خطرے کے منہ میں جا رہے ہیں اس سے تم نے اپنے آپ کو نچا لیا ۔ تمہاری نگاہ میں یہ بڑی دانشمندی کا کام تھا۔ اور تمہیں اس بات پر بھی خوش ہوتے ہوئے کوئی شرم نہ آئی کہ رسول اور اہل ایمان ایک ایسی مہم پر جا رہے ہیں جس سے وہ بچ کر نہ آئیں گے۔ ایمان کا دعویٰ رکھتے ہوئے بھی تم اس پر مضطرب نہ ہوئے بلکہ اپنی یہ حرکت تمہیں بہت اچھی معلوم ہوئی کہ تم نے اپنے آپ کو رسول کے ساتھ اس خطرے میں نہیں ڈالا۔
۲۴ ۔ اصل الفاظ ہیں کُنْتُمْ قَوْماً بُوْراً ۔ بور جمع ہے بائر کی۔ اور بائر کے دو معنی ہیں ایک، فاسد ، بگڑا ہوا آدمی ، جو کسی بھلے کام کے لائق نہ ہو، جس کی نیت میں فساد ہو۔ دوسرے ہالک، بد انجام ، تباہی کے راستے پر جانے والا۔
۲۵ ۔ یہاں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو صاف الفاظ میں کافر اور ایمان سےخالی قرار دیتا ہے جو اللہ اور اس کے دین کے معاملہ میں مخلص نہ ہوں اور آزمائش کا وقت آنے پر دین کی خاطر اپنی جان و مال اور اپنے مفاد کو خطرے میں ڈالنے سے جی چرا جائیں۔ لیکن یہ خیال رہے کہ یہ وہ کفر نہیں ہےجس کی بنا پر دنیا میں کسی شخص یا گروہ کو خارج از اسلام قرار دے دیا جائے، بلکہ وہ کفر ہے جس کی بنا پر آخرت میں وہ غیر مومن قرار پائے گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں کو ، جن کے بارے میں یہ نازل ہوئی تھی، خارج از اسلام قرار نہیں دیا اور نہ ان سے وہ معاملہ کیا جو کفار سے کیا جاتا ہے۔
۲۶ ۔ اوپر کی شدید تنبیہ کے بعد اللہ کے غفور و رحیم ہونے کا ذکر اپنے اندر نصیحت کا ایک لطیف پہلو رکھتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اب بھی اپنی غیر مخلصانہ روش کو چھوڑ کر تم لوگ اخلاص کی راہ پر آ جاؤ تو اللہ کو تم غفور و رحیم پاؤ گے۔ وہ تمہاری پچھلی کوتاہیوں کو معاف کر دے گا اور آئندہ تمہارے ساتھ وہ معاملہ کرے گا جس کے تم اپنے خلوص کی بنا پر مستحق ہو گے۔
۲۷ ۔ یعنی عنقریب وہ وقت آنے والا ہے جب یہی لوگ ، جو آج خطرے کی مہم پر تمہارے ساتھ جانے سے جی چُرا گئے تھے، تمہیں ایک ایسی مہم پر جاتے دیکھیں گے جس میں ان کو آسان فتح اور بہت سے اموال غنیمت کے حصول کا امکان نظر آئے گا، اور اس وقت یہ خود دوڑے آئیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ لے چلو۔ یہ وقت صلح حدیبیہ کے تین ہی مہینے بعد آگیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر پر چڑھائی کی اور بڑی آسانی کے ساتھ اسے فتح کر لیا۔ اس وقت ہر شخص کو یہ بات صاف نظر آ رہی تھی کہ قریش سے صلح ہو جانے کے بعد اب خیبر ہی کے نہیں ، بلکہ تَیما ، فَدَک، وادی القریٰ، اور شمالی حجاز کے دوسرے یہودی بھی مسلمانوں کی طاقت کا مقابلہ نہ کر سکیں گے اور یہ ساری بستیاں پکّے پھل کی طرح اسلامی حکومت کی گود میں آ گریں کی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان آیات میں پیشگی خبر دار کر دیا کہ اطراف مدینہ کے یہ موقع پرست لوگ ان آسان فتوحات کو حاصل ہوتے دیکھ کر ان میں حصہ بٹا لینے کے لیے آ کھڑے ہوں گے، مگر تم انہیں صاف جواب دے دینا کہ ان میں حصہ لینے کا موقع تمہیں ہر گز نہ دیا جائے گا، بلکہ یہ ان لوگوں کا حق ہے جو خطرات کے مقابلے میں سرفروشی کے لیے آگے بڑھے تھے۔
۲۸ ۔ اللہ کے فرمان سے مراد یہ فرمان ہے کہ خیبر کی مہم پر حضور کے ساتھ صرف انہی لوگوں کو جانے کی اجازت دی جائے گی جو حدیبیہ کی مہم پر آپ کے ساتھ گئے تھے اور بیعت رضوان میں شریک ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے خیبر کے اموال غنیمت ان ہی کے لیے مخصوص فرما دیے تھے جیسا کہ آگے آیت ۱۸ میں بصراحت ارشاد ہوا ہے۔
۲۹ ۔ ’’ اللہ پہلے یہ فرما چکا ہے‘‘ کے الفاظ سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ اس آیت سے پہلے کوئی حکم اس مضمون کا آیا ہوا ہو گا جس کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے، اور چونکہ اس سورہ میں اس مضمون کا کوئی حکم اس آیت سے پہلے نہیں ملتا اس لیے انہوں نے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر اسے تلاش کرنا شروع کیا، یہاں تک کہ سورہ توبہ کی آیت ۸۴ انہیں مل گئی جس میں یہی مضمون ایک اور موقع پر ارشاد ہوا ہے۔ لیکن در حقیقت وہ آیت اس کی مصداق نہیں ہے، کیونکہ وہ غزوہ تبوک کے سلسلے میں نازل ہوئی تھی جس کا زمانہ نزول سورہ فتح کے زمانہ نزول سے تین سال بعد کا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اس آیت کا اشارہ خود اسی سورہ کی آیات ۱۸ ۔ ۱۹ کی طرف ہے ، اور اللہ کے پہلے فرما چکنے کا مطلب اس آیت سے پہلے فرمانا نہیں ہے بلکہ مخلَّفین کے ساتھ اس گفتگو سے پہلے فرمانا ہے۔ مخلَّفین کے ساتھ یہ گفتگو ، جس کے متعلق یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو پیشگی ہدایات دی جا رہی ہیں، خیبر کی مہم پر جانے کے وقت ہونے والی تھی ، اور یہ پوری سورۃ ، جس میں آیات ۱۸ ۔ ۱۹ بھی شامل ہیں، اس سے تین مہینے پہلے حدیبیہ سے پلٹتے وقت راستے میں نازل ہو چکی تھیں ۔ سلسلہ کلام کو غور سےدیکھیے تو معلوم ہو جائے گا کہ یہاں اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو یہ ہدایت دے رہا ہے کہ جب تمہارے مدینہ واپس ہونے کے بعد یہ پیچھے رہ جانے والے لوگ آ کر تم سے یہ عذرات بیان کریں تو ان کو یہ جواب دینا، اور خیبر کی مہم پر جاتے وقت جب وہ تمہارے ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کریں تو ان سے یہ کہنا۔
۳۰ ۔ اصل الفاظ ہیں اَوْیُسْلِمُوْنَ ۔ اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں اور دونوں ہی مراد ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اسلام قبول کر لیں ۔ دوسرے یہ کہ وہ اسلامی حکومت کی اطاعت قبول کر لیں۔
۳۱ ۔ یعنی جس آدمی کے لیے شریک جہاد ہونے میں واقعی کوئی صحیح عذر مانع ہو اس پر تو کوئی گرفت نہیں، مگر ہٹے کٹے لوگ اگر بہانے بنا کر بیٹھ رہیں تو ان کو اللہ اور اس کے دین کے معاملہ کیں مخلص نہیں مانا جا سکتا اور انہیں یہ موقع نہیں دیا جاسکتا کہ مسلم معاشرے میں شامل ہونے کے فوائد تو سمیٹتے رہیں ، مگر جب اسلام کے لیے قربانیاں دینے کو وقت آئے تو اپنی جان و مال کی خیر منائیں۔
اس مقام پر یہ بات جان لینی چاہیے کہ شریعت میں جن لوگوں کو شریک جہاد ہونے سے معاف رکھا گیا ہے وہ دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو جسمانی طور پر جنگ کے قابل نہ ہوں، مثلاً کم سن لڑکے، عورتیں، مجنون، اندھے ، ایسے مریض جو جنگی خدمات انجام نہ دے سکتے ہوں ، اور ایسے معذور جو ہاتھ یا پاؤں بیکار ہونے کی وجہ سےجنگ میں حصہ نہ لے سکیں ۔ دوسرے وہ لوگ جن کے لیے کچھ اور معقول اسباب سے شامل جہاد ہونا مشکل ہو، مثلاً غلام، یا وہ لوگ جو لڑنے کے لیے تو تیار ہوں مگر ان کے لیے آلات جنگ اور دوسرے ضروری وسائل فراہم نہ ہوسکیں، یا ایسے قرض دار جنہیں جلدی سے جلدی اپنا قرض ادا کرنا ہو اور قرض خواہ انہیں مہلت نہ دے رہا ہو، یا ایسے لوگ جن کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک زندہ ہو اور وہ اس کا محتاج ہو کہ اولاد اس کی خبر گیری کرے۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ والدین اگر مسلمان ہوں تو اولاد کو ان کی اجازت کے بغیر جہاد پر نہ جانا چاہیے، لیکن اگر وہ کافر ہوں تو ان کے روکنے سے کسی شخص کا رک جانا جائز نہیں ہے۔
۳۲ ۔ یہاں پھر اسی بیعت کا ذکر ہے جو حدیبیہ کے مقام پر صحابہ کرام سے لی گئی تھی۔ اس بیعت کو بیعت رضوان کہا جاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ خوش خبری سنائی ہے کہ وہ ان لوگوں سے راضی ہو گیا جنہوں نے اس خطرناک موقع پر جان کی بازی لگا دینے میں ذرہ برابر تامل نہ کیا اور رسولؐ کے ہاتھ پر سرفروشی کی بیعت کر کے اپنے صادق الایمان ہونے کا صریح ثبوت پیش کر دیا ۔ وقت وہ تھا کہ مسلمان صرف ایک ایک تلوار لیے ہوئے آئے تھے۔ صرف چودہ سو کی تعداد میں تھے۔ جنگی لباس میں بھی نہ تھے بلکہ احرام کی چادریں باندھے ہوئے تھے۔ اپنے جنگی مستقر(مدینہ) سے ڈھائی سو میل دور تھے ، اور دشمن کا گڑھ ، جہاں سے وہ ہر قسم کی مدد لا سکتا تھا، صرف ۱۳ میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ اگر اللہ اور اس کے رسول اور اس کے دین کے لیے ان لوگوں کے اندر خلوص کی کچھ بھی کمی ہوتی تو وہ اس انتہائی خطرناک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ چھوڑ جاتے اور اسلام کی بازی ہمیشہ کے لیے ہر جاتی ۔ ان کے اپنے اخلاص کے سوا کوئی خارجی دباؤ ایسا نہ تھا جس کی بنا پر وہ اس بیعت کے لیے مجبور ہوتے ۔ ان کا اس وقت خدا کے دین کے لیے مرنے مارنے پر آمادہ ہو جانا اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ وہ اپنے ایمان میں صادق و مخلص اور خدا اور رسولؐ کی وفاداری میں درجہ کمال پر فائز تھے ۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ سند خوشنودی عطا فرمائی ۔ اور اللہ کی سند خوشنودی عطا ہو جانے کے بعد اگر کوئی شخص ان سے ناراض ہو، یا ان پر زبان طعن دراز کرے تو اس ما معاوضہ ان سے نہیں بلکہ اللہ سے ہے۔ اس پر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جس وقت اللہ نے ان حضرات کو یہ خوشنودی کی سند عطا کی تھی اس وقت تو یہ مخلص تھے مگر بعد میں یہ خدا اور رسول کے بے وفا ہو گئے، وہ شاید اللہ سے یہ بد گمانی رکھتے ہیں کہ اسے یہ آیت نازل کرتے وقت ان کے مستقبل کی خبر نہ تھی، اس لیے محض اس وقت کی حالت دیکھ اس نے یہ پروانہ انہیں عطا کر دیا ، اور غالباً اسی بے خبری کی بنا پر اسے اپنی کتاب پاک میں بھی درج فرما دیا تاکہ بعد میں بھی، جب یہ لوگ بے وفا ہو جائیں ، ان کے بارے میں دنیا یہ آیت پڑھتی رہے اور اس خدا کے علم غیب کی داد دیتی رہے جس نے معاذاللہ ان بیوفاؤں کو یہ پروانہ خوشنودی عطا کیا تھا۔
جس درخت کے نیچے یہ بیعت ہوئی تھی اس کے متعلق حضرت نافع مولیٰ بن عمر کی یہ روایت عام طور پر مشہور ہو گئی ہے کہ لوگ اس کے پاس جا جا کر نمازیں پڑھنے لگے تھے، حضرت عمرؓ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے لوگوں کو ڈانٹا اور اس درخت کو کٹوا دیا (طبقات ابن سعد ، ج ۲، ص ۱۰۰ )۔ لیکن متعدد روایات اس کے خلاف بھی ہیں ۔ ایک روایت خود حضرت نافع ہی سے طبقات ابن سعد میں یہ منقول ہوئی ہے کہ بیعت رضوان کے کئی سال بعد صحابہ کرام نے اس درخت کو تلاش کیا مگر اسے پہچان نہ سکے اور اس امر میں اختلاف ہو گیا کہ وہ درخت کونسا تھا( ص ۱۰۵)۔ دوسری روایت بخاری و مسلم اور طبقات ابن سعد میں حضرت سعید بن المسیب کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے والد بیعت رضوان میں شریک تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ دوسرے سال جب ہم لوگ عمرۃالقضاء کے لیے گئے تو ہم اس درخت کو بھول چکے تھے، تلاش کرنے پر بھی ہم اسے نہ پاسکے ۔ تیسری روایت ابن جریر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ اپنے عہد خلافت میں جب حدیبیہ کے مقام سے گزرے تو انہوں نے دریافت کیا کہ وہ درخت کہاں ہے جس کے نیچے بیعت ہوئی تھی۔ کسی نے کہا فلاں درخت ہے اور کسی نے کہا فلاں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے فرمایا، چھوڑو، اس تکلف کی کیا حاجت ہے۔
۳۳ ۔ یہاں سکنیت سے مراد دل کی وہ کیفیت ہے جس کی بنا پر ایک شخص کسی مقصد عظیم کے لیے ٹھنڈے دل سے پورے سکون و اطمینان کے ساتھ اپنے آپ کو خطرے کے منہ میں جھونک دیتا ہے اور کسی خوف یا گھبراہٹ کے بغیر فیصلہ کر لیتا ہے کہ یہ کام بہر حال کرنے کا ہے خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو۔
۳۴ ۔ یہ اشارہ ہے خیبر کی فتح اور اس کے اموال غنیمت کی طرف ۔ اور یہ آیت اس امر کی تصریح کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ انعام صرف ان لوگوں کے لیے مخصوص فرما دیا تھا جو بیعت رضوان میں شریک تھے، ان کے سوا کسی کو اس فتح اور ان غنائم میں شریک ہونے کا حق نہ تھا۔ اسی بنا پر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صفر ۷ھ میں خیبر پر چڑھائی کرنے کے لیے نکلے تو آپ نے صرف ان ہی کو اپنے ساتھ لیا۔ اس میں شک نہیں کہ بعد میں حضورؐ نے حبش سے واپس آنے والے مہاجرین اور بعض ڈوسی اور اشعری صحابیوں کو بھی اموال خیبر میں سے کچھ حصہ عطا فرمایا، مگر وہ یا تو خمس میں سے تھا، یا اصحاب رضوان کی رضا مندی سے دیا گیا ۔ کسی کو حق کے طور پر اس مال میں حصہ دار نہیں بنایا گیا۔
۳۵ ۔ اس سے مراد وہ دوسری فتوحات ہیں جو خیبر کے بعد مسلمانوں کو مسلسل حاصل ہوتی چلی گئیں ۔
۳۶ ۔ اس سے مراد ہے صلح حدیبیہ جس کو سورۃ کے آغاز میں فتح مبین قرار دیا گیا ہے۔
۳۷ ۔ یعنی کفار قریش کو یہ ہمت اس نے نہ دی کہ وہ حدیبیہ کے مقام پر تم سے لڑ جاتے ، حالانکہ تمام ظاہری حالات کے لحاظ سے وہ بہت زیادہ بہتر پوزیشن میں تھے، اور جنگی نقطہ نظر سے تمہارا پلہ ان کے مقابلہ میں بہت کمزور نظر آتا تھا۔ مزید براں اس سے مراد یہ بھی ہے کہ کسی دشمن طاقت کو اس زمانے میں مدینے پر بھی حملہ آور ہونے کی جرأت نہ ہوئی ، حالانکہ چودہ سو مردانِ جنگی کے نکل جانے کے بعد مدینے کا محاذ بہت کمزور ہو گیا تھا اور یہود و مشرکین اور منافقین اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔
۳۸ ۔ نشانی اس بات کی کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں ثابت قدم رہتا ہے اور اللہ کے بھروسے پر حق اور راستی کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اسے اللہ کس کس طرح اپنی تائید و نصرت سے نوازتا ہے۔
۳۹ ۔ یعنی تمہیں مزید بصیرت اور یقین حاصل ہو، اور آئندہ تم اسی طرح اللہ اور رسول کی اطاعت پر قائم رہو اور اللہ کے اعتماد پر راہ حق میں پیش قدمی کرتے چلے جاؤ، اور یہ تجربات تمہیں یہ سبق سکھا دیں کہ خدا کا دین جس اقدام کا تقاضا کر رہا ہو، مومن کا کام یہ ہے کہ خدا کے بھروسے پر وہ اقدام کر ڈالے، اس حیص بیص میں لگ جائے کہ میری طاقت کتنی ہے اور باطل کی طاقتوں کا زور کتنا ہے۔
۴۰ ۔ اغلب یہ ہے کہ یہ اشارہ فتح مکہ کی طرف ہے۔ یہی رائے قتادہ کی ہے اور اسی کو ابن جریر نے ترجیح دی ہے۔ ارشاد الٰہی کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تو مکہ تمہارے قابو میں نہیں آیا ہے مگر اللہ نے اسے گھیرے میں لے لیا ہے اور حدیبیہ کی اس فتح کے نتیجے میں وہ بھی تمہارے قبضے میں آ جائے گا۔
۴۱ ۔ یعنی حدیبیہ میں جنگ کو اللہ نے اس لیے نہیں روکا کہ وہاں تمہارے شکست کھا جانے کا امکان تھا، بلکہ اس کی مصلحت کچھ دوسری تھی جسے آگے کی آیتوں میں بیان کیا جا رہا ہے ۔ اگر وہ مصلحت مانع نہ ہوتی، اور اللہ تعالیٰ اس مقام پر جنگ ہو جانے دیتا تو یقیناً کفار ہی کو شکست ہوتی اور مکہ معظمہ اسی وقت فتح ہو جاتا۔
۴۲ ۔ اس جگہ اللہ کی سنت سے مراد یہ ہے کہ جو کفار اللہ کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اللہ ان کو ذلیل و خوار کرتا ہے۔ اور اپنے رسول کی مدد فرماتا ہے۔
۴۳ ۔ یعنی جس خلوص اور بے نفسی کےساتھ تم لوگ دین حق کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے پر آمادہ ہو گئے تھے اور جس طرح بے چون و چرا رسول کی اطاعت کر رہے تھے، اللہ اسے بھی دیکھ رہا تھا، اور یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ کفار سراسر زیادتی کر رہے ہیں ۔ اس صورت حال کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہیں اور اسی وقت تمہارے ہاتھوں سے ان کی سرکوبی کرا دی جاتی ۔ لیکن اس کے باوجود ایک مصلحت تھی جس کی بنا پر اللہ نے تمہارے ہاتھ ان سے اور ان کے ہاتھ تم سے روک دیے۔
۴۴ ۔ یہ تھی وہ مصلحت جس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے حدیبیہ میں جنگ نہ ہوتے دی۔ اس مصلحت کے دو پہلو ہیں ۔ ایک یہ کہ مکہ معظمہ میں اس وقت بہت سے مسلمان مردو زن ایسے موجود تھے جنہوں نے یا تو اپنا ایمان چھپا رکھا تھا ، یا جن کا ایمان معلوم تھا، مگر وہ اپنی بے بسی کی وجہ سے ہجرت نہ کر سکتے تھے اور ظلم و ستم کے شکار ہو رہے تھے۔ اس حالت میں اگر جنگ ہوتی اور مسلمان کفار کو رگیدتے ہوئے مکہ معظمہ میں داخل ہوتے تو کفار کے ساتھ ساتھ یہ مسلمان بھی نادانستگی میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے مارے جاتے جس سے مسلمانوں کو اپنی جگہ بھی رنج و افسوس ہوتا اور مشرکین عرب کو بھی یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ لوگ تو لڑائی میں خود اپنے دینی بھائیوں کو بھی مارنے سے نہیں چوکتے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان بے بس مسلمانوں پر رحم کھا کر، اور صحابہ کرام کو رنج اور بد نامی سے بچانے کی خاطر اس موقع پر جنگ کو ٹال دیا ۔ دوسرا پہلو اس مصلحت کا یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ قریش کو ایک خونریز جنگ میں شکست دلوا کر مکہ فتح کرانا نہ چاہتا تھا بلکہ اس کے پیش نظر یہ تھا کہ دو سال کے اندر ان کو ہر طرف سے گھیر کر اس طرح بے بس کر دے کہ وہ کیسی مزاحمت کے بغیر مغلوب ہو جائیں، اور پھر پورا کا پورا قبیلہ اسلام قبول کر کے اللہ کی رحمت میں داخل ہو جاتے ، جیسا کہ فتح مکہ کے موقع پر ہوا۔
اس مقام پر یہ فقہی بحث پیدا ہوتی ہے کہ اگر ہماری اور کافروں کی جنگ ہو رہی ہو اور کافروں کے قبضے میں کچھ مسلمان مرد ، عورتیں ، بچے اور بوڑھے ہوں جنہیں وہ ڈھال بنا کر سامنے لے آئیں ، یا کافروں کے جس شہر پر ہم چڑھائی کر رہے ہوں وہاں مسلمان آبادی بھی موجود ہو، یا کافروں کا کوئی جنگی جہاز ہماری زد میں ہو اور اس کے اندر کافروں نے کچھ مسلمانوں کو بھی رکھ چھوڑا ہو، تو کیا ایسی صورت میں ہم ان پر گولہ باری کرسکتے ہیں؟ اس کے جواب میں مختلف فقہاء نے جو فیصلے دیے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:
امام مالکؒ کہاتے ہیں کہاس حالت میں گولہ باری نہیں کرنی چاہیے، اور اس کے لیے وہ اسی آیت کو دلیل قرار دیتے ہیں ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بچانے کے لیے ہی تو حدیبیہ میں جنگ کو روک دیا(احکام القرآن لا بن العربی)۔ لیکن فی الواقع یہ ایک کمزور دلیل ہے۔ آیت میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے کہ جس سے یہ بات نکلتی ہو کہ ایسی حالت میں حملہ کرنا حرام و ناجائز ہے، بلکہ زیادہ سے زیادہ اس سے جو بات نکلتی ہے وہ یہ ہے کہ اس حالت میں مسلمانوں کو بچانے کے لیے حملہ سے اجتناب کیا جاسکتا ہے جب کہ اجتناب سے یہ خطرہ نہ کہ کفار کو مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہو جائے گا، یا ان پر ہمارے فتح یاب ہونے کے مواقع باقی نہ رہیں گے۔
امام ابو حنیفہؒ ، امام ابو یوسفؒ ، امام زُفَرؒ اور امام محمدؒ کہتے ہیں کہاں حالات میں گولہ باری کرنا بالکل جائز ہے، حتی کہ اگر کفار مسلمانوں کے بچوں کو ڈھال بنا کر سامنے لا کھڑا کریں تب بھی ان پر گولی چلانے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اور جو مسلمان اس حالت میں مارے جائیں ان کے خون کا کوئی کفارہ اور کوئی دِیَت مسلمانون پر واجب نہیں ہے۔ (احکام القرآن للجصاص کتاب السیرللامام محمد، باب قطع الماء عن اہل الحرب)۔
امام سفیان ثوری بھی اس حالت میں گولہ باری کو جائز رکھتے ہیں، مگر وہ کہتے ہیں کہ جو مسلمان اس حالت میں مارے جائیں ان کی دیت تو نہیں ، البتہ کفارہ مسلمانوں پر واجب ہے (احکام القرآن للجصاص)۔
امام اوزاعی اور لَیث بن سعد کہتے ہیں کہ اگر کفار مسلمانوں کو ڈھال بنا کر سامنے لے آئیں تو ان پر گولی نہیں چلانی چاہیے۔ اسی طرح اگر ہمیں معلوم ہو کہ ان کے جنگی جہاز میں خود ہمارے قیدی بھی موجود ہیں، تو اس حالت میں اس کو غرق نہ کرنا چاہیے۔ لیکن اگر ہم ان کے کسی شہر پر حملہ کریں اور ہمیں معلوم ہو کہ اس شہر میں مسلمان بھی موجود ہیں تو اس پر گولہ اری کرنا جائز ہے، کیوں کہ یہ امر یقینی نہیں ہے کہ ہمارا گولہ مسلمانوں ہی پر جا کر گرے گا ، اور اگر کوئی مسلمان اس گولہ باری کا شکار ہو جائے تو یہ ہماری طرف سے بالقصد مسلمان کا قتل نہ ہو گا بلکہ نادانستگی میں ایک حادثہ ہو گا(احکام القرآن للجصاص)۔
امام شافعیؒ کا مذہب یہ ہے کہ اگر اس حالت میں گولہ باری کرنا نا گزیر نہ ہو تو مسلمانوں کو ہلاکت سے بچانے کی کوشش کرنا بہتے ہے۔ اگرچہ اس صورت میں گولہ باری کرنا حرام نہیں مگر وہ ضرور ہے۔ لیکن اگر جی الواقع اس کی ضرورت ہو، اور اندیشہ ہو کہ اگر ایسا نہ کیا جائے گا تو یہ کفار کے لیے جنگی حیثیت سے مفید اور مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہو گا تو پھر گولہ باری کرنا جائز ہے۔ مگر اس حالت میں بھی مسلمانوں کو بچانے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے۔ مزید براں امام شافعی یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر معرکہ قتال میں کفار کسی مسلمان کو ڈھال بنا کر آگے کریں اور کوئی مسلمان اسے قتل کر دے تو اس کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ قاتل معلوم تھا کہ یہ مسلمان ہے، اور دوسری صورت یہ کہ اسے معلوم نہ تھا کہ یہ مسلمان ہے۔ پہلی صورت میں دیت اور کفارہ دونوں واجب ہیں، اور دوسری صورت میں صرف کفارہ واجب ہے(مغنی المحتاج)۔
۴۵ ۔ جاہلانہ حمیت سے مراد یہ ہے کہ ایک شخص محض اپنی ناک کی خاطر یا اپنی بات کی پچ میں جان بوجھ کر ایک ناروا کام کرے ۔ کفار مکہ خود جانتے اور مانتے تھے کہ ہر شخص کو حج اور عمرے کے لیے بیت اللہ کی زیارت کا حق حاصل ہے، اور کسی کو اس مذہبی فریضے سے روکنے کا حق نہیں ہے۔ یہ عرب کا قدیم ترین مسلّم آئین تھا۔ لیکن اپنے آپ کو سراسر ناحق پر اور مسلمانوں کو بالکل بر سر حق جاننے کے باوجود انہوں نے محض اپنی ناک کی خاطر مسلمانوں کو عمرے سے روکا۔ خود مشرکین میں سے جو راستی پسند تھے وہ بھی یہ کہہ رہے تھے کہ جو لوگ احرام باندھ کر ہدی کے اونٹ ساتھ لیے ہوئے عمرہ کرنے آئے ہیں ان کو روکنا ایک بے جا حرکت ہے۔ مگر قریش کے سردار صرف اس خیال سے مزاحمت پر اڑے رہے کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم اتنی بڑی جمیعت کے ساتھ مکہ میں داخل ہو گئے تو تمام عرب میں ہماری ناک کٹ جائے گی۔ یہی ان کی حمیت جاہلیہ تھی۔
۴۶ ۔ یہاں سکینت سے مراد ہے صبر اور وقار جس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور مسلمانوں نے کفار قریش کی اس جاہلانہ حمیت کا مقابلہ کیا ۔ وہ ان کی اس ہٹ دھرمی اور صریح زیادتی پر مشتعل ہو کر آپے سے باہر نہ ہوئے، اور ان کے جواب میں کوئی بات انہوں نےایسی نہ کی جو حق سے متجاوز اور راستی کے خلاف ہو، یا جس سے معاملہ بخیر و خوبی سلجھنے کے بجائے اور زیادہ بگڑ جائے۔
۴۷ ۔ یہ اس سوال کا جواب ہے جو بار بار مسلمانوں کے دلوں میں کھٹک رہا تھا ۔ وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خواب تو یہ دیکھا تھا کہ آپ مسجد حرام میں داخل ہوئے ہیں اور بیت اللہ کا طواف کیا ہے، پھر یہ کیا ہوا کہ ہم عمرہ کیے بغیر واپس جا رہے ہیں۔ اس کے جواب میں اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرما دیا تھا کہ خواب میں اسی سال عمرہ ہونے کی تصریح تو نہ تھی، مگر اس کے باوجود ابھی تک کچھ نہ کچھ خلش دلوں میں باقی تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود یہ وضاحت فرمائی کہ وہ خواب ہم نے دکھایا تھا، اور وہ بالکل سچا تھا ، اور وہ یقیناً پورا ہو کر رہے گا۔
۴۸ ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے خود اپنے وعدے کے ساتھ ’’ ان شاء اللہ‘‘ کے الفاظ جو استعمال فرمائے ہیں، اس پر ایک معترض یہ سوال کرسکتا ہے کہ جب یہ وعدہ اللہ تعالیٰ خود ہی فرما رہا ہے تو اس کو اللہ کے چاہنے سے مشروط کرنے کے کیا معنی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں یہ الفاظ اس معنی میں استعمال نہیں ہوئے ہیں کہ اگر اللہ نہ چاہے گا تو اپنا یہ وعدہ پورا نہ کرے گا ۔ بلکہ در اصل ان کا تعلق اس پس منظر سے ہے جس میں یہ وعدہ فرمایا گیا ہے۔ کہ کفار مکہ نے جس زعم کی بنا پر مسلمانوں کو عمرے سے روکنے کا یہ سارا کھیل کھیلا تھا وہ یہ تھا کہ جس کو ہم عمرہ کرنے دینا چاہیں گے وہ عمرہ کر سکے گا، اور جب ہم اسے کرنے دیں گے اسی وقت وہ کر سکے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ ان کی مشیت پر نہیں بلکہ ہماری مشیت پر موقوف ہے۔ اس سال عمرے کا نہ ہو سکنا اس لیے نہیں ہوا کہ کفار مکہ نے یہ چاہا تھا کہ وہ نہ ہو، بلکہ یہ اس لیے ہوا کہ ہم نے اس کے نہ ہونے دینا چاہا تھا ۔ اور آئندہ یہ عمرہ اگر ہم چاہیں گے تو ہو گا خواہ کفار چاہیں یا نہ چاہیں۔ اس کے ساتھ ان الفاظ میں یہ معنی بھی پوشیدہ ہیں کہ مسلمان بھی جو عمرہ کریں گے تو اپنے زور سے نہیں کریں گے بلکہ اس بنا پر کریں گے کہ ہماری مشیت یہ ہو گی کہ وہ عمرہ کریں۔ ورنہ ہماری مشیت اگر اس کے خلاف ہو تو ان کا یہ بل ہوتا نہیں ہے کہ خود عمرہ کر ڈالیں۔
۴۹ ۔ یہ وعدہ اگلے سال ذی القعدہ ۷ھ میں پورا ہوا ۔ تاریخ میں یہ عمرہ ’’عمرۃ القضاء’‘ کے نام سے مشہور ہے۔
۵۰ ۔ یہ الفاظ اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ عمرے اور حج میں سر منڈوانا لازم نہیں ہے بلکہ بال ترشوانا بھی جائز ہے۔ البتہ مر منڈوانا افضل ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس پہلے بیان فرمایا ہے او بال ترشوانے کا ذکر بعد میں کیا ہے۔
۵۱ ۔ اس مقام پر یہ بات ارشاد فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ حدیبیہ میں جب معاہدہ صلح لکھا جانے لگا تھا اس وقت کفار مکہ نے حضور کے اسم گرامی کے ساتھ رسول اللہ کے الفاظ لکھنے پر اعتراض کیا تھا اور ان کے اصرار پر حضورؐ نے خود معاہدے کی تحریر میں سے یہ الفاظ مٹا دیے تھے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ہمارے رسول کا رسول ہونا تو ایک حقیقت ہے جس میں کسی کے ماننے یا نہ ماننےسے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اس کو اگر کچھ لوگ نہیں مانتے تو نہ مانیں۔ اس کے حقیقت ہونے پر صرف ہماری شہادت کافی ہے۔ ان کے انکار کردینےسے یہ حقیقت بدل نہیں جائے گی، بلکہ ان کے علی الرَّغم اس ہدایت اور س دین حق کو پوری جنس دین پر غلبہ حاصل ہو کر رہے گا جسےلے کر یہ رسول ہماری طرف سے آیا ہے، خواہ یہ منکرین سے روکنے کے لیے کتنا ہی زور مار کر دیکھ لیں۔
’’پوری جنس دین‘‘سے مراد زندگی کے وہ تمام نظام ہیں جو ’’ دین‘‘ کی نوعیت رکھتے ہیں۔ اس کی مفصل تشریح ہم اس سے پہلے تفہیم القرآن، جلد چہارم ، تفسیر سورہ زمر، حاشیہ ۳، اور تفسیر سورہ شوریٰ حاشیہ ۲۰ میں کر چکے ہیں ۔ یہاں جو بات اللہ تعلایٰ نے صاف الفاظ میں ارشاد فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کا مقصد محض اس دین کی تبلیغ نہ تھا بلکہ اسے دین کی نوعیت رکنے والے تمام نظامات زندگی پر غالب کر دینا تھا۔ دوسرے الفاظ میں آپ یہ دین اس لیے نہیں لائے تھے کہ زندگی کے سارےشعبوں پر غلبہ تو ہو کسی دین باطل کا اور اس کی قہر مانی کے تحت یہ دین ان حدود کے اندر سکڑ کر رہے جن میں دین غالب اسے جینے کی اجازت دے دے۔ بلکہ اسے آپ اسلیے لائے تھے کہ زندگی کا غالب دین یہ ہو اور دوسرا کوئی دین اگر جیے بھی تو ان حدود کے اندر جیے جن میں یہ اسے جینے کی اجازت دے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القران، جلد چہارم، تفسیر سورہ زمر، حاشیہ۴۸)۔
۵۲ ۔ اصل الفاظ میں اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّار، ۔ عربی زبان میں کہتے ہیں فُلانٌ شَدِیْدٌ عَلَیْہِ، فلاں شخص اس پر شدید ہے، یعنی اس کو رام کرنا اور اپنے مطلب پر لانا اس کے لیے مشکل ہے۔ کفار پر اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے سخت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ساتھ درشتی اور تند خوئی سے پیش آتے ہیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان کی پختگی، اصول کی مضبوطی، سیرت کی طاقت، اور ایمانی فراست کی وجہ سے کفار کے مقابلے میں پتھر کی چٹان کا حکم رکھتے ہیں۔ وہ موم کی ناک نہیں ہیں کہ انہیں کافر جدھر چاہیں موڑ دیں۔ وہ نرم نہیں ہیں کہ کافر انہیں آسانی کے ساتھ چبا جائیں۔ انہیں کسی خوف سے دبا یا نہیں جاسکتا ۔ انہیں کسی ترغیب سے خریدا نہیں جاسکتا۔ کافروں میں یہ طاقت نہیں ہے کہ انہیںاس مقصد عظیم سے ہٹ دیں جس کے لیے وہ سر دھڑ کی بازی لگا کر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ دینے کے لیے اٹھے ہیں۔
۵۳ ۔ یعنی ان کی سکٹی جو کچھ بھی ہے دشمنان دین کے لیے ہے، اہل ایمان کے لیے نہیں ہے۔ اہل ایمان کے مقابلے میں وہ نرم ہیں، رحیم و شفیق ہیں، ہمدرد و غمگسار ہیں۔ اصول اور مقصد کے اتحاد نے ان کے اندر ایک دوسرے کے لیے محبت اور ہم رنگی و ساز گاری پیدا کر دی ہے۔
۵۴ ۔ اس سے مراد پیشانی کا وہ گٹہ نہیں ہے جو سجدے کرنے کی وجہ سے بعض نمازیوں کے چہرے پر پڑ جاتا ہے۔ بلکہ اس سےمراد خدا ترسی ، کریم النفسی، شرافت اور حسن اخلاق کے وہ آثار ہیں جو خدا کے آگے جھکنے کی وجہ سے فطرۃً آدمی کے چہرے پر نمایا ں ہو جاتے ہیں۔ انسان کا چہرہ ایک کھلی کتاب ہوتا ہے جس کے صفحات پر آدمی کے نفس کی کیفیات بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں۔ ایک متکبر انسان کا چہرہ ایک متواضع اور منکسرالمزاج آدمی کے چہرے سےمختلف ہوتا ہے۔ ایک بد اخلاق آدمی کا چہرہ ایک نیک نفس اور خوش خلق آدمی کے چہرے سے الگ پہچانا جاتا ہے۔ ایک لفنگے اور بد کار آدمی کی صورت اور ایک شریف پاک باز آدمی کی سورت میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ ساتھی تو ایسے ہیں کہ ان کو دیکھتے ہی ایک آدمی بیک نظر یہ معلوم کر سکتا ہے کہ یہ خیر الخلائق ہیں، کیونکہ خدا پرستی کا تور ان کے چہروں پر چمک رہا ہے ۔ یہ وہی چیز ہے جس کے متعلق امام مالکؒ بیان کرتے ہیں کہ جب صحابہ کرام کی فوجیں شام کی سر زمین میں داخل ہوئیں تو شام کے عیسائی کہتے تھے کہ مسیح کے حواریوں کی جو شان ہم سنتے تھے یہ تو اسی شان کے لوگ نظر آتے ہیں۔
۵۵ ۔ غالباً یہ اشارہ کتاب استثناء، باب ۳۳ ، آیات ۲۔۳ کی ظرف ہے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد مبارک کا ذکر کرتے ہوئے آپ کے صحابہ کے لیے’’ قدسیوں‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے سوا اگر صحابہ کرام کی کوئی صفت توراۃ میں بیان ہوئی تھی تو وہ اب موجود محرف توراۃ میں نہیں ملتی۔
۵۶۔ یہ تمثیل حضرت عیسیٰ علیہالسلام کے ایک وعظ میں بیان ہوئی ہے جسےبائیبل کے عہد نامہ جدید میں اس طرح نقل کیا گیا ہے۔
’’اور اس نے کہا خدا کی بادشاہی ایسی ہے جیسےکوئی آدمی زمین میں بیج ڈالے اور رات کو سوئے اور ن کو جاگے اور وہ بیج اس طرح اگے اور بڑھے کہ وہ نہ جانے۔ زمین آپ سےآپ پھل لاتی ہے۔ پتی،پھر بالیں ، پھر بالوں میں تیار دانے، پھر جب اناج پک چکا تو وہ فی الفور درانتی لگاتا ہے کیونکہ کاٹنے کا وقت آ پہنچا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ رائی کے دانے کے مانند ہے کہ جب زمین میں بویا جاتا ہےتو زمین کےسب بیجوں سے چھوٹا ہوتا ہے۔ مگر جب بو دیا گیا تو اگ کر سب ترکاریوں سے بڑا ہو جاتا ہے اور ایسی بڑی ڈالیاں نکالتا ہے کہ ہوا کے پرندےاس کے سائے میں بسیر کرسکتےہیں۔‘‘ (مرقس،بابا۴، آیات ۲۶ تا ۳۲۔ اس وعظ کا آخری حصہ انجیل متی ، باب۱۳، آیات ۳۱۔۳۲ میں بھی ہے)۔
۵۷ ۔ ایک گروہ اس آیت میں مِنْھُمْ کی مِنْ کو تبعیض کے معنی میں لیتا ہے اور آیت کا ترجمہ یہ کرتا ہے کہ ’’ان میںسےجو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اللہ نے ان سےمغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے‘‘۔ اس طرح یہ لوگ صحابہ پر طعن کا راستہ نکالتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اس آیت کی رو سے صحابہ میں سے بہت سے لوگ مومن و صالح نہ تھے ۔ لیکن یہ تفسیر اسی سورۃ کی آیات ۴۔۵۔۱۸ اور ۲۶ کے خلاف پڑتی ہے، اور خود اس آیت کے ابتدائی فقروں سے بھی مطابقت نہیں رکھتی ۔ آیات ۴۔۵۔ میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام صحابہ کے دلوں میں سکنیت نازل کیے جانے اور ان کے ایمان میں اضافہ ہونے کا ذکر فرمایا ہے جو حدیبیہ میں حضور کے ساتھ تھے، اور بالا استثناء ان سب کو جنت میں داخل ہونے کی بشارت دی ہے ۔ آیت ۱۸ میں اللہ تعالیٰ نے ان سب لوگوں کے حق میں اپنی خوشنودی کا اظہار فرمایا ہے جنہوں نے درخت کے نیچے حضور سے بیعت کی تھی، اور اس میں بھی کوئی استثناء نہیں ہے۔ آیت ۲۶ میں بھی حضورؐ کے تمام ساتھیوں کے لیے مومنین کا لفظ استعمال کیا ہے، ان کے اوپر اپنی سکینت نازل کرنے کی خبر دی ہے، اور فرمایا ہے کہ یہ لوگ کلمہ تقویٰ کی پابندی کے زیادہ حق دار اور اسکے اہل ہیں۔ یہاں بھی یہ نہیں فرمایا کہ ان میں سے جو مومن ہیں صرف ان ہی کے حق میں یہ خبر دی جا رہی ہے۔ پھر خود اس آیت کے بھی ابتدائی فقروں میں جو تعریف بیان کی گی ہے وہ ان سب لوگوں کے لیے ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے۔ الفاظ یہ ہیں کہ جو لوگ بھی آپ کے ساتھمیں وہ ایسے اور ایسے ہیں۔ اس کے بعد یکایک آخری فقرے پر پہنچ کر یہ ارشاد فرمانے کا آخر کیا موقع ہو سکتا تھا کہ ان میں سےکچھ لوگ مومن و صالح تھے اور کچھ نہ تھے۔ اس لیے یہاں منْ کو تبعیض کے معنی میں لینا نظم کلام کے خلاف ہے۔ در حقیقت یہاں مِنْ بیان کےلیےہےجس طرح آیت فَاجْتَنِبُو ا الرِّجْسَ مِنَ الْاوثَانِ (بتوں کی گندگی سےبچو) میں مِنْ تبعیض کے لیے نہیں بلکہ لازماً بیان ہی کے لیے ہے، ورنہ آیت کے معنی یہ ہو جائیں گے کہ ’’ بتوں میں سےجا نا پاک ہیں ان سے پرہیز کرو، اور اس سےنتیجہ یہ نکلے گا کہ کچھ بت پاک بھی قرار پائیں گے جن کی پرستش سےپرہیز لازم نہ ہو گا۔