تیسری آیت کے لفظ ذِی المَعَارِج سے ماخوذ ہے۔ زمانۂ نزول اس کے مضامین شہادت دیتے ہیں کہ اس کا نزول بھی قریب قریب اُنہی حالات میں ہوا ہے جن میں سورہ الحاقّہ نازل ہوئی تھی۔
اس میں اُن کفار کو تنبیہ اور نصیحت کی گئی ہے جو قیامت اور آخرت اور دوزخ اور جنت کی خبروں کا مذاق اڑاتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو چلینج دیتے تھے۔ کہ اگر تم سچے ہو اور تمہیں جھُٹلا کر ہم عذابِ جہنم کے مستحق ہو چکے ہیں تو لے آؤ وہ قیامت جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔ اس سورة کی ساری تقریر اسی چیلنج کے جواب میں ہے۔
ابتدا میں ارشاد ہوا کہ مانگنے والا عذاب مانتا ہے۔ وہ عذاب انکار کرنے والوں پر ضرور واقع ہو کر رہے گا۔اور جب وہ واقع ہو گا تو اسے کوئی دفع نہ کر سکے گا، مگر وہ اپنے وقت پر واقع ہو گا۔ اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ لہٰذا اِن کے مذاق اڑانے پر صبر کرو۔ یہ اُسے دور دیکھ رہے ہیں اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں۔
پھر بتا یا گیا کہ قیامت جس کے جلدی لے آنے کا مطالبہ یہ لوگ ہنسی اور کھیل کے طور پر کر رہے ہیں کیسی سخت چیز ہے اور جب وہ آئے گی تو اِن مجرمین کا کیسا بُرا حشر ہو گا۔ اُس وقت یہ اپنے بیوی بچوں، اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں تک کو فدیہ میں دے ڈالنے کے لیے تیار ہو جائیں گے تا کہ کسی طرح عذاب سے بچ نکلیں، مگر نہ بچ سکیں گے۔
اس کے بعد لوگوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ اُس روز انسانوں کی قسمت فیصلہ سراسر اُن ے عقیدے اور اخلاق و اعمال کی بنیا پر کیا جائے گا۔ جن لوگوں نے دنیا میں حق سے منہ موڑا ہے اور مال سمیٹ سمیٹ کر اور سنیت سنیت کر رکھا ہے و ہ جہنم کے مستحق ہوں گے۔ ا ور جنہوں ن یہاں خدا کے عذاب کا خوف کیا ہے، آخرت کو مانا ہے، نماز کی پابندی کی ہے، اپنے مال سے خدا کے محتاج بندوں کا حق ادا کیا ہے، بدکاریوں سے دامن پاک کر رکھا ہے، امانت میں خیانت نہیں کی ہے، عہد و پیمان اور قول و قرار کا پاس کیا ہے اور گواہی میں راست بازی پر قائم رہے ہیں وہ جنت میں عزت کی جگہ پائیں گے۔
آخر میں مکہ کہ ان کفار کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھ کر آپ کا مذاق اڑانے کے لیے چاروں طرف سے ٹوٹے پڑتے تھے، خبر دار کیا گیا ہے کہ اگر تم نہ مانو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ دوسرے لوگوں کو لے آئے گا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تلقین کی گئی ہے کہ اِن کے تمسخُر کی پروا نہ کریں، یہ اگر قیامت ہی کی ذلت دیکھنے پر مُصر ہیں تو انہیں اپنے بیہودہ مشغلوں میں پڑا رہنے دیں، اپنا بُرا انجام یہ خود دیکھ لیں گے۔
1: اصل الفاظ ہیں سَاَلَ سَا ئِلٌ۔ بعض مفسرین نے یہاں سوال کو پوچھنے کے معنی میں لیا ہے اور وہ آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ پوچھنے والے نے پوچھا ہے کہ وہ عذاب، جس کی ہمیں خبر دی جا رہی ہے، کس پر واقع ہو گا؟ اور اللہ تعالیٰ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ وہ کافروں پر واقع ہو گا۔ لیکن اکثر مفسرین نے اس جگہ سوال کو مانگنے اور مطالبہ کر نے کے معنی میں لیا ہے۔ نسائی اور دوسرے محدثین نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ روایت نقل کی ہے اور حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے کہ نَضربن حارِث بن کلدہ نے کہا تھا اَللّٰھُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ھُوَالْحَقُّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلیْنَا حِجَارَةًمِّنَ السَّمَاءِ اَوِئْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ ہ۔(الانفال، آیت ۳۲)۔’’خدایا اگر یہ واقعی تیری ہی طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پھتر برسا دے یا ہم پر درد ناک عذاب لے آ۔‘‘اس کے علاوہ متعدد مقامات پر قرآن مجید میں کفارِ مکہ کے اس چیلنج کا ذکر کیا گیا ہے کہ جس عذاب سے تم ہمیں ڈراتے ہو وہ لے کیوں نہیں آتے۔ مثال کے طور پر حسبِ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں : یونس، آیات ۴۶ تا ۴۸۔ الانبیاء، ۳۶ تا ۴۱۔ النمل، ۲۷ تا۷۲۔ سبا، ۲۶ تا ۳۰۔ یٰس، ۴۵ تا ۵۲۔الملک، ۲۴ تا ۲۷۔
2: اصل میں لفظ ذِی المَعَارِجِ استعمال ہوا ہے۔ معارج، معرَج کی جمع ہے جس کے معنی زینے، یا سیڑھی، یا ایسی چیز کے ہیں جس کے ذریعے سے اوپر چڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ کو معارِج والا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ذات بہت بالا و بر تر ہے اور اس کے حضور باریاب ہونے کے لیے فرشتوں کو پے در پے بلندیوں سے گزرنا ہوتا ہے، جیسا کہ بعد والی آیت میں بیان فرمایا گیا ہے۔
3: روح سے مراد جبریل علیہ السلام ہیں اور ملائکہ سے الگ اُن کا ذکر اُن کی عظمت پر دلالت کرتا ہے۔ سورہ شُعراء میں فرمایا گیا ہے کہ نَزَّلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ عَلیٰ قَلْبِکَ(اس قرآن کو روحِ امین لے کر تمہارے دل پر نازل ہوئے ہیں )۔ اور سورہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے قُلْ مَن ْکَانَ عَدُوًّالِّجبرِْیْلَ فَاِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلیٰ قَلْبِکَ( کہو کہ جو شخص جبریل کا اس لیے دشمن ہو کہ اس نے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے۔ ۔۔۔)۔ ان دونوں آیتوں کو ملا کر پڑھنے سے معلوم ہو جاتا ہے کہ روح سے مراد جبریل ہی ہیں۔
4: یعنی بات وہ نہیں ہے جو اِنہوں نے سمجھ رکھی ہے۔
5: سورہ حج، آیت ۴۷ میں ارشاد ہوا ہے ’’ یہ لوگ تم سے عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں۔ اللہ ہر گز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا، مگر تیرے رب کے ہاں کا ایک دن تمہارے شمار کے ہزار برس کے برابر ہوا کرتا ہے ‘‘۔ سورہ السجدہ، آیت ۵ میں فرمایا گیا ہے ’’ وہ آسمان سے زمین تک دنیا کے معاملات کی تدبیر کرتا ہے، پھر (اُس کی رُوداد)اوپر اُس کے حضور جاتی ہے ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمہارے شمارے شمار سے ایک ہزار سال ہے ‘‘ اور یہاں عذاب کے مطالبہ کے جواب میں اللہ تعالیٰ کے ایک دن کی مقدار پچاس ہزار سال بتائی گئی ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تلقین کی گئی ہے کہ جو لوگ مذاق کے طور پر عذاب کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کی باتوں پر صبر کریں اور اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ یہ لوگ اُس کو دُور سمجھتے ہیں اور ہم اُسے قریب دیکھ رہے ہیں۔ ان سب ارشادات پر مجموعی نگاہ ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لوگ اپنے ذہن اور اپنے دائرہ فکر و نظر کی تنگی کے باعث خدا کے معاملات کو اپنے وقت کے پیمانوں سے ناپتے ہیں، اور اُنہیں سو پچاس برس کی مدت بھی بڑی لمبی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک ایک اسکیم ہزار ہزار سال اور پچاس پچاس ہزار سال کی ہوتی ہے۔ اور مدت بھی محض بطورِ مثال ہے، ورنہ کائناتی منصوبے لاکھوں اور کروڑوں اور اربوں سال کے بھی ہوتے ہیں۔ انہی منصوبوں میں سے ایک اہم منصوبہ وہ ہے جس کے تحت زمین پر نوعِ انسانی کو پیدا کیا گیا ہے اور اس کے لیے ایک وقت مقرر کر دیا گیا ہے کہ فلاں ساعتِ خاص تک یہاں اس نوع کو کام کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ کوئی انسان یہ نہیں جان سکتا کہ یہ منصوبہ کب شروع ہوا، کتنی مدت اس کی تکمیل کے لیے طے کی گئی ہے، کون سی ساعت اس کے اختتام کے لیے مقرر کی گئی ہے جس پر قیامت برپا کی جائے گی، اور کون سا وقت اس غرض کے لیے رکھا گیا ہے کہ آغازِ آفرینش سے قیامت تک پیدا ہونے والے سارے انسانوں کو بیک وقت اٹھا کر اُن کا حساب لیا جائے۔ اس منصوبے کے صرف اُس حصے کو ہم کسی حد تک جانتے ہیں جو ہمارے سامنے گزر رہا ہے یا جس کے گزشتہ ادوار کی کوئی جزوی سی تاریخ ہمارے پاس موجود ہے۔ رہا اُس کا آغاز و انجام، تو اسے جاننا تو درکنار، اسے سمجھنا بھی ہمارے بس سے باہر ہے، کجا کہ ہم اُن حکمتوں کو سمجھ سکیں جو اس کے پیچھے لے آیا جائے، اور اگر ایسا نہیں کیا جاتا تواُسے اس بات کی دلیل قرار دیتے ہیں کہ انجام کی بات ہی سرے سے غلط ہے، وہ درحقیقت اپنی ہی نادانی کا ثبوت پیش کرتے ہیں (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الحج، حواشی ۹۲۔۹۳۔ جلد چہارم، السجدہ، حاشیہ ۹)۔
6: یعنی ایسا صبر جو ایک عالی ظرف انسان کے شایان شان ہے۔
7: اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ یہ لوگ اُسے بعید از امکان سمجھتے ہیں اور ہمارے نزدیک وہ قریب الوقوع ہے۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ قیامت کو بڑی دور کی چیز سمجھتے ہیں اور ہماری نگاہ میں وہ اس قدر قریب ہے گویا کل پیش آنے والی ہے۔
8: مفسرین میں سے ایک گروہ نے اس فقرے کا تعلق فِیْ یَوْ مٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَةٍ سے مانا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ پچاس ہزار سال کی مدت جس دن کی بتائی گئی ہے اُس سے مراد قیامت کا دن ہے۔ مسند احمد اور تفسیر ابن جریر میں حضرت ابو سعید خُدری سے روایت نقل کی گئی ہے ہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ا س آیت کے متعلق عرض کیا گیا کہ وہ تو بڑا ہی طویل دن ہو گا۔ اس پر آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میرے جان ہے، دنیا میں ایک فرض نماز پڑھتے ہیں جتنا وقت لگتا ہے مومن کے لیے وہ دن اس سے بھی زیادہ ہلکا ہو گا‘‘۔ یہ روایت اگر صحیح سند سے منقول ہوتی تو پھر اس کے سوا اس آیت کی کوئی دوسرے تاویل نہیں کی جا سکتی تھی۔ لیکن اس کی سند میں درّاج اور اس کے شیخ ابو الہثیم، دونوں ضعیف ہیں۔
10: چونکہ پہاڑوں کے رنگ مختلف ہیں، اس لیے جب وہ اپنی جگہ سے اکھڑ کر اور بے وزن ہو کر اُڑنے لگیں گے تو ایسے معلوم ہوں گے جیسے رنگ برنگ کا دھُنکا ہو اون اڑ رہا ہو۔
11: یعنی ایسا نہ ہو گا کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ نہیں رہے ہوں گے اس لیے نہ پوچھیں گے نہیں، ہر ایک آنکھوں سے دیکھ رہا ہو گا کہ دوسرے پر کیا بن رہی ہے اور پھر وہ اسے نہ پوچھے گا، کیونکہ اس کو اپنی ہی پڑی ہو گی۔
12: یہاں بھی سورہ الحاقّة آیات ۳۳۔۳۴ کی طرح آخرت میں آدمی کے بُرے انجام کے دو وجوہ بیان کیے گئے ہیں۔ ایک حق سے انحراف اور ایمان لانے سے انکار۔ دوسرے دنیا پرستی اور بخل، جس کی بنا پر آدمی مال جمع کرتا ہے اور اسے کسی بھلائی کے کام میں خرچ نہیں کرتا۔
13: جس بات کو ہم اپنی زبان میں یوں کہتے ہیں کہ ’’یہ بات انسان کی سر شت میں ہے، ‘‘ یا ’’یہ انسان کی فطری کمزوری ہے، ‘‘اسی کو اللہ تعالیٰ اس طرح بیان فرماتا ہے کہ ’’انسان ایسا پیدا کیا گیا ہے۔ ‘‘اس مقام پر یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ قرآن مجید میں بکثرت مواقع پر نوع انسانی کی عام اخلاقی کمزوریوں کا ذکر کرنے کے بعد ایمان لانے والے اور راہِ راست اختیار کر لینے والے لوگوں کوا س سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے، اور یہی مضمون آگے کی آیات میں بھی آ رہا ہے۔ اس سے یہ حقیقت خود بخود واضح ہو جاتی ہے کہ یہ پیدائشی کمزوریاں ناقابلِ تغیُّر و تبدُّل نہیں ہیں، بلکہ انسان اگر خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت کو قبول کر کے اپنے نفس کی اصلاح کے لیے عملاً کوشش کرے تو وہ ان کو دور کر سکتا ہے، اور اگر وہ نفس کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دے تو یہ اُس کے اندر راسخ ہو جاتی ہیں (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الانبیاء، حاشیہ ۴۱۔جلد چہارم، الزُّمر، حواشی ۲۳۔۲۸۔ الشوریٰ، حاشیہ ۷۵)۔
14: کسی شخص کا نماز پڑھنا لازماً یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتاب اور آخرت پر ایمان بھی رکھتا ہے اور اپنے اس ایمان کے مطابق عمل بھی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
15: یعنی کسی قسم کی سُستی اور آرام طلبی، یا مصروفیت، یا دلچسپی اُن کی نماز کی پابندی میں مانع نہیں ہیں۔ جب نماز کا وقت آ جائے تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنے خدا کی عبادت بجا لانے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ عَلیٰ صَلَاتھِِم دَآئِمُونَ کے ایک اور معنی حضرت عُقبہ بن عامر نے یہ بیان کیے ہیں کہ وہ پورے سکون اور خشوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں۔ کوّے کی طرح ٹھونگیں نہیں مارتے۔ مارا مار پڑھ کر کسی نہ کسی طرح نماز سے فارغ ہو جانے کی کوشش نہیں کرتے۔ اور نماز کے دوران میں اِدھر اُدھر التفات بھی نہیں کرتے۔ عربی محاورے میں ٹھیرے ہوئے پانی کو ماءِ دائم کہا جاتا ہے۔ اُسی سے یہ تفسیر ماخوذ ہے۔
16: سورہ ذاریات آیت ۱۹ میں فرمایا گیا ہے کہ ’’اُن کے مالوں میں سائل اور محروم کا حق ہے۔ ‘‘اور یہاں فرمایا گیا ہے کہ ’’ان کے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک مقرر حق ہے۔ ‘‘بعض لوگوں نے اس سے یہ سمجھا ہے کہ مقرر حق سے مراد فرض زکوٰۃ ہے، کیونکہ اُسی میں نصاب اور شرح، دونوں چیزیں مقرر کر دی گئی ہیں۔ لیکن یہ تفسیر اس بنا پر قابلِ قبول نہیں ہے کہ سورہ معارج بالاتفاق مکی ہے، اور زکوٰۃ ایک مخصوص نصاب اور شرح کے ساتھ مدینہ میں فرض ہوئی ہے۔ اس لیے مقرر حق کا صحیح مطلب یہ ہے کہ انہوں نے خود اپنے مالوں میں سائل اور محروم کا ایک حصہ طے کر رکھا ہے جسے وہ اُن کا حق سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ یہی معنی حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر، مجاہد، شَعبِی اور ابراہیم نَخَعی نے بیان کیے ہیں۔ سائل سے مراد پیشہ ور بھیک مانگنے والا نہیں بلکہ وہ حاجت مند شخص ہے جو کشی سے مدد مانگے۔ اور محروم سے مراد ایسا شخص ہے جو بے روزگار ہو، یا روزی کمانے کی کوشش کرتا ہو مگر اس کی ضروریات پوری نہ ہوتی ہوں، یا کسی حادثے یا آفت کا شکار ہو کر محتاج ہو گیا ہو، یا روزی کمانے کے قابل ہی نہ ہو۔ ایسے وگوں کے متعلق جب معلوم ہو جائے کہ وہ واقعی محروم ہیں تو ایک خدا پرست انسان اس بات کا انتظار نہیں کرتا کہ وہ اس سے مدد مانگیں، بلکہ اُن کی محرومی کا علم ہوتے ہی وہ خود آگے بڑھ کر ا ن کی مدد کرتا ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، تفسیر سورہ ذاریات، حاشیہ ۱۷)۔
17: یعنی دنیا میں اپنے آپ کو غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ نہیں سمجھتے، بلکہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن انہیں اپنے خدا کے حضور حاضر ہو کر اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا۔
18: بالفاظ دیگر ان کا حال کفار کی طرح نہیں ہے جو دنیا میں ہر قسم کے گناہ اور جرائم اور ظلم و ستم کر کے بھی خدا سے نہیں ڈرتے، بلکہ وہ اپنی حد تک اخلاق اور اعمال میں نیک رویہ اختیار کرنے کے با وجود خدا سے ڈرتے رہتے ہیں اور یہ اندیشہ اُن کو لاحق رہتا ہے کہ کہیں خدا کی عدالت میں ہماری کوتاہیاں ہماری نیکیوں سے بڑھ کر نہ نکلیں اور ہم سزا کے مستحق نہ قرار پا جائیں (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، المومنون، حاشیہ۵۴۔جلد پنجم، الذاریات، حاشیہ ۱۹)۔
19: شرم گاہوں کی حفاظت سے مراد زنا سے پرہیز بھی ہے اور عریانی سے پرہیز بھی(تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، المومنون، حاشیہ۶۔النور، حواشی۳۰۔۳۲۔جلد چہارم، الاحزاب
20: تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلدسوم، المومنون، حاشیہ۷۔
21: امانتوں سے مراد وہ امانتیں بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بندوں کے سپرد کی ہیں اور وہ امانتیں بھی جو انسان کسی دوسرے انسان پر اعتماد کر کے اس کے حوالے کرتا ہے۔ اسی طرح عہد سے مراد وہ عہد بھی ہیں جو بندہ اپنے خدا سے کرتا ہے، اور وہ عہد بھی جو بندے ایک دوسے سے کرتے ہیں۔ ان دونوں قسم کی امانتوں اور دونوں قسم کے عہد و پیمان کا پاس و لحاظ ایک مومن کی سیرت کے لازمی خصائص میں سے ہے۔ حدیث میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے سامنے جو تقریر بھی فرماتے اس میں یہ بات ضرور ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ اَلا، لا ایمانَ لمن لا امانتہ لہٗ ولا دینَ لمن لاعھدَ لہٗ۔’’خبردار رہو، جس میں امانت نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں، اور جو عہد کا پابند نہیں اس کا کوئی دین نہیں ‘‘(بَیہقَی فی شُعَب الایمان)۔
22: یعنی نہ شہادت چھپاتے ہیں، نہ اس میں کوئی کمی بیشی کرتے ہیں۔
23: اس سے نماز کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ جس بلند سیرت و کردار کے لوگ خدا کی جنت کے مستحق قرار دیے گئے ہیں ان کی صفات کا ذکر نماز ہی سے شروع اور اسی پر ختم کیا گیا ہے۔ نمازی ہونا اُن کی پہلی صفت ہے، نماز کا ہمیشہ پابند رہنا ا ن کی دوسری صفت، اور نماز کی حفاظت کرنا اُن کی آخری صفت۔ نماز کی حفاظت سے بہت سی چیزیں مراد ہیں۔ وقت پر نماز ادا کرنا۔ نماز سے پہلے یہ اطمینان کر لینا کہ جسم اور کپڑے پاک ہیں۔ با وضو ہونا اور وضو میں اعضاء کو اچھی طرح دھونا۔ ارکان اور واجبات اور مستجباتِ نماز کو ٹھیک ٹھیک ادا کرنا۔ نماز کے آداب کو پوری طرح ملحوظ رکھنا۔خدا کی نا فرمانیاں کر کے اپنی نمازوں کو ضائع نہ کرنا۔ یہ سب چیزیں نماز کی حفاظت میں شامل ہیں۔
24: یہ اُن لوگوں کا ذکر ہے جو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعوت و تبلیغ اور تلاوتِ قرآن کی آواز سن کر مذاق اڑانے اور آوازے کسنے کے لیے چاروں طرف سے دوڑ پڑتے تھے۔
25: مطلب یہ ہے کہ خدا کی جنت تو اُن لوگوں کے لیے ہے جن کی صفات ابھی ابھی بیان کی جا چکی ہیں۔ اب کیا یہ لوگ جو حق بات سننا تک گوارا نہیں کرتے اور حق کی آواز کو دبا دینے کے لیے یوں دوڑے چلے آرہے ہیں، جنت کے امید وار ہو سکتے ہیں ؟ کیا خدا نے اپنی جنت ایسے ہی لوگوں کے لیے بنائی ہے ؟ اس مقام پر سورة القلم کی آیات۳۴۔۴۱ بھی پیش نظر رکھنی چاہییں جن میں کفارِ مکہ کو اُن کی اِس بات کا جواب دیا گیا ہے کہ آخرت اگر ہوئی بھی تو وہاں وہ اُسی طرح مزے کریں گے جس طرح دنیا میں کر رہے ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لانے والے اُسی طرح خستہ حال رہیں گے جس طرح آج دنیا میں ہیں۔
26: اس مقام پر اس فقرے کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ مضمونِ سابق کے ساتھ اس کا تعلق مانا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ جس مادے سے یہ لوگ بنے ہیں اس کے لحاظ سے تو سب انسان یکساں ہیں۔ اگر وہ مادہ ہی انسان کے جنت میں جانے کا سبب ہو تو نیک و بد، ظالم و عادل، مجرم اور بے گناہ، سب ہی کو جنت میں جانا چاہیے۔ لیکن معمولی عقل ہی یہ فیصلہ کرنے کے لیے کافی ہے کہ جنت کا استحقاق انسان کے مادہ تخلیق کی بنا پر نہیں بلکہ صرف اُس کے اوصاف کے لحاظ سے پیدا ہو سکتا ہے۔ اور اگر اس فقرے کو بعد کے مضمون کی تمہید سمجھا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو ہمارے عذاب سے محفوظ سمجھ رہے ہیں اور جو شخص انہیں ہماری پکڑ سے ڈراتا ہے اس کا مذاق اڑاتے ہیں، حالانکہ ہم اِن کو دنیا میں بھی جب چاہیں عذاب دے سکتے ہیں اور موت کے بعد دوبارہ زندہ کر کے بھی جب چاہیں اٹھا سکتے ہیں۔ یہ خود جانتے ہیں کہ نطفے کی ایک حقیر سی بُوند سے اِن کی تخلیق کی ابتدا کر کے ہم نے ان کو چلتا پھرتا انسان بنایا ہے۔ اگر اپنی اِس خلقت پر یہ غور کرتے تو اُنہیں کبھی یہ غلط فہمی لاحق نہ ہوتی کہ اب یہ ہماری گرفت سے باہر ہو گئے ہیں، یا ہم اِنہیں دوبارہ پیدا کرنے پر قادر نہیں ہیں۔
27: یعنی بات وہ نہیں ہے جو اِنہوں نے سمجھ رکھی ہے۔
28: یہاں اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کی قسم کھا ئی ہے۔ مشرقوں اور مغربوں کا لفظ اس بنا پر استعمال کیا گیا ہے کہ سال کے دوران میں سورج ہر روز ایک نئے زاویے سے طلوع اور نئے زاویے پر غروب ہوتا ہے۔ نیز زمین کے مختلف حصوں پر سورج الگ الگ اوقات میں پے در پے طلوع اور غروب ہوتا چلا جاتا ہے۔ ان اعتبارات سے مشرق اور مغرب ایک نہیں ہیں بلکہ بہت سے ہیں۔ ایک دوسرے اعتبار سے شمالی اور جنوب کے مقابلے میں ایک جہت مشرق ہے اور دوسری جہت مغرب۔ اس بنا پر سورہ شعراء، آیت ۲۸، اور سورہ مزمل، آیت۱۹ میں رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ایک اور لحاظ سے زمین کے دو مشرق اور مغرب ہیں، کیونکہ جب زمین کے ایک نصف کُرے پر سورج غروب ہوتا ہے تو دوسرے پر طلوع ہوتا ہے۔ اس بنا پر سورہ رحمٰن، آیت ۱۷ میں رَبُّ الْمَشْرِقَینِ وَرَبُّ الْمَغْرِبَینِ کے الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد پنجم، الرحمٰن، حاشیہ۱۷)۔
29: یہ ہے وہ بات جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے رب المشارق و المغارب ہونے کی قسم کھائی ہے۔ اس کے معنی یہ ہے کہ ہم چونکہ مشرقوں اور مغربوں کے مالک ہیں اس لیے پوری زمین ہمارے قبضہ قدرت میں ہے اور ہماری گرفت سے بچ نکلنا تمہارے بس میں نہیں ہے۔ ہم جب چاہیں تمہیں ہلاک کر سکتے ہیں اور تمہاری جگہ کسی دوسری قوم کو اٹھا سکتے ہیں جو تم سے بہتر ہو۔
30: اصل الفاظ ہیں اِلیٰ نُصُبٍ یُّوفِضُونَ۔ نصب کے معنی ہیں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ ان میں سے بعض نے اس سے مراد بُت لیے ہیں اور اُن کے نزدیک اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ داورِ محشر کی مقرر کی ہوئی جگہ کی طرف اِس طرح دوڑے جا رہے ہو نگے جیسے آج وہ اپنے بتوں کے استحصانوں کی طرف دوڑتے ہیں۔ اور بعض دوسرے مفسرین نے اس سے مراد وہ نشان لیے ہیں جو دوڑ کا مقابلہ کرنے والوں کے لیے لگائے جاتے ہیں تا کہ ہر ایک دوسرے سے پہلے مقرر نشان پر پہنچنے کی کوشش کرے۔