دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ المعَارج

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

نام

 

آیت ۳ میں ذی المعارج( بلندیوں والے ) کا ذکر ہوا ہے اس مناسبت سے اس سورہ کا نام ’ المعارج‘ ہے ۔

 

زمانۂ نزول

 

مکی ہے اورمضامین سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابتدائی دور کے اخیر میں نازل ہوئی ہوگی۔

 

مرکزی مضمون

 

قیامت کے لیے جلدی مچانے والوں کو متنبہ کرنا ہے ۔

 

نظمِ کلام

 

آیت ۱  تا ۷ میں قیامت کے عذاب کے لیے جلدی مچانے والوں کو خبردار کر دیاگیا ہے کہ وہ عذاب آکر رہے گا اور ٹھیک اپنے وقت پر آئے گا۔

 

آیت ۸ تا ۱۸ میں قیامت کے احوال بیان کئے گئے ہیں کہ وہ کیسی سخت گھڑی ہوگی۔

 

آیت ۱۹ تا ۲۵ میں انسان کی عام کمزوری بیان کرتے ہوئے یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ کمزوری عبادت ( نماز) کے دریعہ ہی دور ہوتی ہے اور وہ اوصاف پیدا وہتی ہیں جو انسان کو جنت کا مستحق بناتی ہیں

 

آیت ۲۶ تا ۴۴ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانے والوں اور قرآن سنانے سے روکنے کے لیے آپ پر ٹوٹ پڑنے والوں کو سخت تنبیہ کی گئی ہے ۔

ترجمہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

 

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔۔۔ مانگنے والے نے مانگا وہ عذاب جو واقع ہونے والا ہے ۔ ۱*

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔ کافروں پر ۔ کوئی اس کو دفع کرنے والا ہیں ۔ ۲*

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ  (عذاب) اللہ کی طرف سے ہوگا جو بلندیوں والا ہے ۔ ۳*

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔ فرشتے اور روح (جبرئیل) اس کی طرف چڑھ کر جاتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے ۔ ۴*

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔ تو صبر کرو صبرِ جمیل۔ ۵*

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ اسے دور سمجھتے ہیں ۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم اسے قریب دیکھ رہے ہیں ۔ ۶*

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن آسمان پگھلی ہوئی دھات کی طرح ہوجائے گا۔ ۷*

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پہاڑ (دھنکی ہوئی) اون کی طرح۔ ۸*

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کوئی دوست اپنے دوست کو نہ پوچھے گا۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ وہ انہیں دکھائے جائیں گے ۔ ۹* مجرم چا ہے گا کہ اس دن کے عذاب سے چھٹکارا پانے کے لیے فدیے میں دے اپنے بیٹوں کو،

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی بیوی اور اپنے بھائی کو،

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اپنے خاندان کو جو اسے پناہ دیتا تھا۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔ او رروئے زمین کے سب لوگوں کو اور اپنے کو بچا لے ۔ ۱۰*

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں ۔۱۱* وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہوگی۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کھال کو ادھیڑ لے گی۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنی طرف بلائے گی ہر اس شخص کو جس نے  (حق سے) پیٹھ پھیری تھی اور منہ موڑا تھا۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔ مال جمع کیا تھا اور سینت سینت کر رکھا تھا۔ ۱۲*

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔ انسان بے صبرا پیدا کیا گیا ہے ۔ ۱۳*

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔ جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے ۔

 

۲۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب اسے آسائش حاصل ہوتی ہے تو بخیل بنتا ہے ۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر نمازی اس سے بچے ہوئے ہیں ۔۱۴*

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اپنی نماز کی پابندی کرتے ہیں ۔ ۱۵*

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔ جن کے مالوں میں ایک مقرر حق ہے ۔ ۱۶*

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔ سائل اور محروم کا۔ ۱۷*

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔ جو روزِ جزا کو سچ مانتے ہیں ۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اپنے رب کے عذاب سے ڈرتے ہیں ۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ان کے رب کا عذاب بے خوف ہونے کی چیز نہیں ۔ ۱۸*

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔ بجز اپنی بیویوں اور اپنی مملوکہ عورتوں  (لونڈیوں) کے کہ اس بارے میں ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ ۱۹*

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ جو لوگ اس کے علاوہ کچھ اور چاہیں تو وہ حد سے تجاوز کرنے والے ہیں ۔ ۲۰*

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھتے ہیں ۔ ۲۱*

 

۳۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اپنی شہادتوں کو ادا کرتے ہیں ۔ ۲۲*

 

۳۴۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں ۔ ۲۳*

 

۳۵۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی لوگ جنتوں میں عزت کے ساتھ رہیں گے ۔ ۲۴*

 

۳۶۔۔۔۔۔۔۔۔تو  (اے نبی!) ان کافروں کو کیاہوگیا ہے کہ وہ تمہاری طرف دوڑے چلے آ رہے ہیں ۔ ۲۵*

 

۳۷۔۔۔۔۔۔۔۔ دائیں اور بائیں سے گروہ در گروہ۔

 

۳۸۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا ان میں سے ہر شخص یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ نعمت بھری جنت میں داخل کر دیا جائے گا؟

 

۳۹۔۔۔۔۔۔۔۔ ہرگز نہیں ۔ ۲۶* ہم نے ان کو پیدا کیا ہے اس چیز سے جسے وہ جانتے ہیں ۔ ۲۷*

 

۴۰۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں ۔ ۲۸* میں قسم کھاتا ہوں مشرقوں اور مغربوں کے رب کی کہ ہم قادر ہیں ۔ ۲۹*

 

۴۱۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بات پر کہ ہمان کی جگہ ان سے بہتر لوگ لے آئیں اور ہم عاجز رہنے والے نہیں ہیں ۔ ۳۰*

 

۴۲۔۔۔۔۔۔۔۔ لہٰذا انہیں چھوڑ دو کہ یہ باتیں بناتے اور کھیلتے رہیں یہاں تک کہ یہ اپنے اس دن سے دو چار ہوں جس کا ان سے وعدہ کیا جا رہا ہے ۔ ۳۱*

 

۴۳۔۔۔۔۔۔۔۔ جس دن یہ اپنی قبروں سے اس سرعت کے ساتھ نکلیں گے کہ گویا ایک نشانہ کی طرف بھاگ رہے ہیں ۔ ۳۲*

 

۴۴۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی نگاہیں جھکی ہوئی ہوں گی۔ ذلت ان پر چھائی ہوگی ۔ یہ ہے وہ دن جس کا ان سے وعدہ کیا جارہا تھا۔

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔۔۔  کافر ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے تھے کہ آپ قیامت کے جس عذاب سے ہمیں ڈرا رہے ہیں وہ لے آؤ۔ یہ بات وہ عذاب کا مذاق اڑانے کے لیے کہتے تھے ۔ ان کے اسی مطالبہ کے جواب میں فرمایا گیا کہ جو عذاب تم طلب کرتے ہو وہ واقعہ ہو کر رہنے والا ہے ۔ تمہیں ایک یقینی بات سے باخبر کیاگیا ہے ۔ اب اگر تم اس کا مذاق اڑانا چاہتے ہو تو اڑاؤ اپنا انجام دیکھ لوگے ۔

 

۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قیامت کا ظہور ہو کر رہے گا اور اس روز کافروں پر لازماً عذاب مسلط ہوگا۔ یہ بات بالکل اٹل ہے اور کسی طرح ٹلنے والی نہیں ۔

 

۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی عذاب کا یہ فیصلہ اللہ کی بارگاہ سے ہو چکا ہے جس کی عظمت کی شان یہ ہے کہ اس کی بارگاہ تک پہنچنے کے لیے بلندیوں پر بلندیاں طے کرنا پڑتی ہیں ۔ اس بالاتر ہستی کی عظمت کا تمہیں احساس ہوتا تو اس سے ڈرتے اور اس کے عذاب سے پناہ مانگتے ۔

 

۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ آیت متشابہات میں سے ہے جس کی تاویل اللہ ہی جانتا ہے اور ایسی آیتوں کی اصل حقیقت معلوم کرنے کی کاوش فتنہ کا موجب ہے ۔ اہل ایمان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ان پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی تاویل کے پیچھے نہیں پڑتے ۔ حضر ت ابن عباس سے جب اس آیت کا مطلب پوچھا گیا تو انہوں نے صاف کہا کہ میں نہیں جانتا۔( تفسیر طبری ج ۲۹ ص ۴۵)

 

رہا اس آیت سے مقصود تو اللہ کی عظمت کا تصور پیش کرنا ہے اور قیامت کے لیے جلدی مچانے والوں پر واضح کرنا ہے کہ اس دن کا عذاب اس ہستی کی طرف سے ہوگا جو عظیم المرتبت ہے اور جس کی بارگاہ میں پہنچنے کے لیے فرشتوں کو بھی کتنے مدارج اور کتنی بلندیاں طے کرنا پڑتی ہیں ۔ اس عظمت والے خدا کی طرف سے جو عذاب ہوگا اس کی سختی کے تصور ہی سے انسان کانپ اٹھے مگر یہ منکرین ہیں کہ اس کا مذاق اذا کر اس کے لانے کا مطالبہ کررہے ہیں ۔

 

اس موقع پر سورۂ حج نوٹ ۸۴ اور سورۂ سجدہ نوٹ ۸ بھی پیشِ نظر رہے ۔

 

۵۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت ہے کہ ان منکرین کی باتوں پر صبر کرو اور ایسا خوبصورت صبر کہ ان کی باتوں کا گویا تم پر کوئی اثر ہوا ہی نہیں ہے ۔

 

۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قیامت کے بارے میں ان کا خیال یہ ہے کہ اول تو وہ ہوگی نہیں اور اگر ہوئی بھی تو وہ بہت دور کی بات ہے جبکہ اللہ کے نزدیک اسے لازماً واقع ہونا ہے اور وہ عنقریب وقوع میں آنے والی ہے ۔ جو مہلت انسان کو دی گئی ہے وہ بہت تھوڑی ہے ۔

 

۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی آسمان کا مادہ گرم ہو کر دھات کی طرح پگھلنے لگے گا۔

 

۸۔۔۔۔۔۔۔۔  تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ قارعہ نوٹ ۵۔

 

۹۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی قیامت کے دن ایک دوست دوسرے دوست کو دیکھ رہا ہوگا لیکن اس کی طرف کوئی توجہ نہ کرے گا۔ اسے اپنی ہی پڑی ہوگی۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔۔۔  قیامت کے دن مجرم یہ چا ہے گا کہ اگر وہ اپنے عزیز و اقارب کو بلکہ دنیا بھر کے لوگوں کو فدیہ میں دے کر اپنے کو چھڑاسکتا ہے تو چھڑالے لیکن اس کے پاس نہ فدیہ دینے کے لیے کچھ ہوگا اورنہ اس سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا۔

 

اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دنانسان کی بے بسی کا جو عالم ہوگا اس سے اسے پہلے ہی خبردار کر دیا ہے تاکہ جو شخص اپنے عزیز واقارب، اپنے خاندان اور اپنی قوم Nationکے لیے آخرت کو پسِ پشت ڈال کر دنیا کو مقصود بناتا ہے وہ ہوش کے ناخن لے ۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی منکرینِ قیامت کا یہ خیال بالکل غلط اور باطل ہے کہ جہنم جیسی چیز سے انہیں کوئی سابقہ پیش نہیں آئے گا۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ اس کے بخل کی تصویر ہے کہ مال کو جمع کرنے اور بڑھانے کی فکر تو اسے ہوئی لیکن اس میں محتاجوں کا جو حق اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا تھا اس سے وہ بے پرواہ رہا۔ مال اللہ تعالیٰ نے اس لیے نہیں دیا تھا کہ اپنی تجوریاں بھر کر رکھے بلکہ اس لیے دیا تھا کہ اس سے ضروری مصارف پورے کئے جائیں جن میں محتاجوں اور غریبوں کا حق بھی ہے ۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی انسان کی یہ فطری کمزوری ہے کہ وہ بہت جلد ہمت ہار جاتا ہے اور حوصلہ کا ثبوت نہیں دیتا۔ آگے کی آیتوں میں اس کی اس کمزوری کو واضح کیاگیا ہے ۔ لیکن یہ کمزوری ایسی نہیں ہے کہ اسے دور نہ کیا جاسکتاہو۔ تربیت کے ذریعہ اسے ضرور دور کیا جاسکتا ہے اور یہ تربیت جیسا کہ آگے واضح کیاگیا ہے نماز کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔ امتحانی زندگی کے لیے یہ ضروری تھا کہ اس کے اندر کچھ ایسی کمزوریاں رکھ دی جائیں جن کو وہ اپنے عمل سے دورکرسکے ۔ یہ کمزوریاں ایسی نہیں ہیں کہ ان پر انسان قابو نہ پاسکے اور مجبور ہو کر رہ جائے ۔ اگر انسان کی خلقت میں مجبوری کی نوعیت کی کمزوریاں ہوتیں تو نمازیوں کو اس سے مستثنیٰ نہیں کیا جاتا۔ جب کہ آیت ۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔ میں انہیں مستثنیٰ کیاگیا ہے ۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی نماز پڑھنے والے اپنی اس فطری کمزوری پر قابوپالیتے ہیں ۔ وہ نہ تکلیف پہنچنے پر واویلا مچاتے ہیں اور نہ آسائش کے حاصل ہونے پر محتاجوں کا حق ادا کرنے سے بخل برتتے ہیں ۔ واضح رہے کہ نماز کا یہ اثر ان لوگوں کی زندگیوں میں نمایاں ہوتا ہے جو شعور کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی نماز کبھی ناغہ نہیں کرتے بلکہ پابندی کے ساتھ ادا کرتے ہیں ۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔۔۔  مراد زکوٰۃ ہے جس کی تفصیلات اگرچہ بعد کے دور میں بیان ہوئی ہیں لیکن اس کے اجمالی احکام پہلے سے چلے آ رہے تھے ۔ تورات میں بھی وہ یکی( عشر) ادا کرنے کا حکم موجود ہے ۔ اور حضرت اسمعٰیل نے بھی زکوٰۃ کا حکم دیاتھا اس لیے ان کی نسل میں یہ حکم چلا آ رہا تھا علاوہ ازیں صاحبِ مال کے مال میں محتاجوں کا حق ایک معروف حق ہے جس کو انسان اپنی عقل اور فطرت سے جانتا ہے گو اس کی تفصیلات جاننے کا ذریعہ شریعت ہی ہے ۔ اس لیے جس وقت یہ تفصیلات نازل نہیں ہوئی تھیں شریعت کا اجمالی حکم موجود تھا اور بھوکوں کو کھانا کھلانا اور محتاجوں کو صدقہ دینا ایک ایسا حق ہے جس سے انسان کی فطرت اچھی طرح آشنا ہے ۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔۔۔  اس کی تشریح سورۂ ذاریات نوٹ ۳۰ میں گزر چکی۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی آدمی یہ خیال نہ کرے کہ میں اللہ کے عذاب سے ہر طرح محفوظ ہوں بلکہ اسے یہ کھٹکا لگا رہنا چاہیے کہ معلوم نہیں مجھ سے کیا قصور سرزد ہوجائے اور اللہ کا عذاب مجھے اپنی لپیٹ میں لے لے عذاب کا یہی خوف آدمی کو محتاط بناتا ہے ۔

 

۱۹۔۔۔۔۔۔۔۔  اس کی تشریح سورۂ مومنون نوٹ ۶  میں گزر چکی ۔

 

۲۰۔۔۔۔۔۔۔۔  اس کی تشریح سورۂ مومنون نوٹ  اور  ۹  میں گزر چکی ۔

 

۲۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اپنی شہادتوں کو عدل اور راستی کے ساتھ ادا کرتے ہیں ۔ شہادتوں میں توحید اور رسالت کی شہادت بدرجہ اولیٰ شامل ہے اور وہ گواہیاں بھی جو انسان اور انسان کے درمیان معاملات کے تعلق سے دی جاتی ہیں ۔

 

۲۳۔۔۔۔۔۔۔۔  نمازکی حفاظت میں وقت پر نماز ادا کرنا اور کوئی نماز قضا نہ کرنا، ٹھیک سے وضو کرنا، نماز کے ارکان کو اطمینان اور وقار کے ساتھ ادا کرنا، اپنی توجہ اللہ کیطرف مرکوز رکھنا۔ قرأت قرآن اور نماز کے اذکار پر دھیان دینا، خیالات کو ادھر ادھر بھٹکنے نہ دینا اور خشوع اور خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا اور نماز کے سلسلہ کی تمام ضروری باتوں کو پورا کرنا شامل ہے ۔مثلاً مردوں کے لیے جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا وغیرہ۔

 

اوپر اہلِ ایمان کے جو اوصاف بیان ہوئے ان کا آغاز نماز سے ہوا اوراختتام بھی نماز پر ہورہا ہے جس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہ اوصاف نماز ہی کا فیضان ہیں اور نماز ہی ا ن کی ضامن ہے ۔

 

۲۴۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جنت مفت میں ملنے والی چیز نہیں ہے بلکہ ان کو ملے گی جو اپنے کو ان اوصاف سے آراستہ کر کے اس کا مستحق بنائیں گے ۔

 

پھل وہی کاٹتا ہے جو محنت کر کے درخت لگاتا ہے ۔ صرف خواہش کرنے سے نہ درخت اگتا ہے اور نہ پھل حاصل ہوتے ہیں ۔ جنت بھی اعمال ہی کا ثمرہ ہے اس لیے محنت ضروری ہے ۔

 

۲۵۔۔۔۔۔۔۔۔  نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب قرآن پڑھ کر سناتے تو کافر آواز سن کر قرآن کا مذاق اڑانے کے لیے آپ کی طرف دوڑے چلے آتے ۔ ان کی اسی حرکت کی تصویر ان آیتوں میں پیش کی گئی ہے ۔

 

۲۶۔۔۔۔۔۔۔۔  یہ کافروں کے اس خیال کی تردید ہے کہ آخرت برپا ہوگی ہی نہیں اوراگر وہ برپا ہوہی گئی تو ان کو جنت ہی ملے گی کیونکہ دنیا میں ان کو مال و دولت کی فراوانی کے ساتھ جاہ و حشمت بھی ملی ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ ان سے خوش ہے لہٰذا وہ آخرت میں بھی اللہ کی نعمتوں کے مستحق ہوں گے ۔

 

۲۷۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جب ہم نے ان کو پانی کی ایک حقیر بوند سے پیدا کیا ہے تو ان میں یہ گھمنڈ کہاں سے آ گیا کہ وہ خدا کے مقابل اکڑنے لگتے ہیں ؟ اگر وہ اپنی پیدائش پر غور کرتے تو انہیں اپنی بے مائگی کا احساس ہوتا اور وہ اپنے خالق کے آگے جھکتے ۔

 

۲۸۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی ان کا احساس برتری اور اپنے خالق کے مقابل ان کا گھمنڈ بالکل بے معنی ہے ۔

 

۲۹۔۔۔۔۔۔۔۔  مشرق اور مغرب ایک نہیں بلکہ کئی ہیں اور ان سب کا رب اللہ ہی ہے ۔ جس طرح زمین کے مشرق و مغرب ہیں اسی طرح چاند ، سیاروں اور ستاروں کے بھی مشرق و مغرب ہیں اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کائنات میں کتنے مشرق اور کتنے مغرب ہیں ۔ ان سب کا مالک ظاہر ہے اللہ کے سوا کوئی نہیں اور یہ حقیقت اس کے قادر مطلق ہونے پر دلالت کرتی ہے ۔

 

۳۰۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جب اللہ کی قدرت لا محدود ہے تو اس کے لیے یہ کیا مشکل ہے کہ انسانوں کے مرکھپ جانے کے بعد ان کو دوبارہ پیدا کر دے ؟ وہ نہ صرف اسی ساختModelمیں ان کو دوبارہ ڈھال سکتا ہے بلکہ اگر چا ہے تو ان کی جگہ ان سے بہتر ساخت Modelکے لوگ بھی وجود میں لاسکتا ہے ۔ اس کی قدرت انسان کو موجودہ شکل میں پیدا کر کے ختم نہیں ہوئی کہ وہ اسے دوبارہ پیدا کرنے یا اس سے بہتر مخلوق کو وجود میں لانے سے عاجز ہو۔

 

۳۱۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی اگر وہ ان روشن حقیقتوں کو قبول نہیں کرتے اور ان کا مذاق اڑانے ہی میں لگے ہوئے ہیں تو انہیں ان کے حال پرچھوڑدو۔ قیامت کے دن ان کو اصل حقیقت کا پتہ چل جائے گا۔

 

۳۲۔۔۔۔۔۔۔۔  یعنی جب قیامت کا دوسرا صور پھونکا جائے گا تو یہ لوگ جو دوبارہ جی اٹھنے کا انکار کررہے ہیں قبروں سے بڑی تیزی کے ساتھ نکل کھڑے ہوں گے اور ایسے دوڑیں گے جیسے مقررہ نشانہ تک پہنچنے کے لیے لوگ دوڑپڑتے ہیں ۔

 

قبروں سے نکلنے کا مطلب زمین کا پھٹ جانا اور اس سے باہر نکل آنا ہے ۔ قیامت تک پیدا ہونے والے انسان جو مرکر مٹی میں مل چکے تھے خدا کا حکم ہوتے ہی دوبارہ زندہ ہو کر زمین سے نکل پڑیں گے اور گھبراہٹ کے عالم میں تیز بھاگ رہے ہوں گے ۔

 

٭٭٭٭٭