تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ المعَارج

۲ ۔۔۔      حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "یعنی پیغمبر نے تم پر عذاب مانگا ہے وہ کسی سے نہ ہٹایا جائے گا۔" یا عذاب مانگنے والے کفار ہوں جو کہا کرتے تھے کہ آخر جس عذاب کا وعدہ ہے وہ جلدی کیوں نہیں آتا، اے اللہ! اگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا کہنا سچ ہے تو ہم پر آسمان سے پتھروں کی بارش کر دے۔ یہ باتیں انکار و تمسخر کی راہ سے کہتے تھے اس پر فرمایا کہ عذاب مانگنے والے ایک ایسی آفت مانگ رہے ہیں جو بالیقین ان پر پڑنے والی ہے کسی کے روکے رک نہیں سکتی۔ کفار کی انتہائی حماقت یا شوخ چشمی ہے جو ایسی چیز کا اپنی طرف سے مطالبہ کرتے ہیں ۔

۳ ۔۔۔      یعنی فرشتے اور مومنین کی روحیں تمام آسمانوں کو درجہ بدرجہ طے کر کے اس کی بارگاہِ قرب تک چڑھتی ہیں ، یا اس کے بندے اس کے حکموں کی تابعداری میں جان و دل سے کوشش کر کے اور اچھی خصلتوں سے آراستہ ہو کر قرب و وصول کے روحانی مرتبوں اور درجوں سے ترقی کرتے ہوئے اس کی حضوری سے مشرف ہوتے ہیں اور وہ درجے مسافت کی دوری اور نزدیکی میں مختلف اور متفاوت ہیں ۔ بعض ایسے ہیں کہ ایک پلک مارنے میں ان کے سبب سے ترقی ہو سکتی ہے جیسے اسلام کا کلمہ زبان سے کہنا، اور بعض ایسے ہیں کہ ایک ساعت میں ان سے ترقی حاصل ہوتی ہے جیسے نماز ادا کرنا، اور بعض سے پورے ایک دن میں ، جیسے روزہ، یا ایک مہینہ میں ، جیسے پورے رمضان کے روزے، یا ایک سال میں جیسے حج ادا کرنا و علی ہذا القیاس۔ اور اسی طرح فرشتوں اور روحوں کا عروج جو کسی کام پر مقرر ہیں اس کام سے فراغت پانے کے بعد مختلف و متفاوت ہے اور اس خداوند قدس کی تدبیہ و انتظام کا اتار چڑھاؤ بے شمار درجے رکھتا ہے۔

 ۴ ۔۔۔      ۱: یعنی فرشتے اور لوگوں کی روحیں پیشی کے لیے حاضر ہوں گی۔

۲:  پچاس ہزار برس کا دن قیامت کا ہے۔ یعنی پہلی مرتبہ صور پھونکنے کے وقت سے لے کر بہشتیوں کے بہشت میں ، اور دوزخیوں کے دوزخ میں قرار پکڑنے تک پچاس ہزار برس کی مدت ہو گی اور کل فرشتے اور تمام قسم کی مخلوقات کی روحیں اس تدبیر میں بطور خدمت گار کے شریک ہوں گی۔ پھر اس بڑے کام کے سرانجام کی مدت گزرنے پر ان کو عروج ہو گا۔ (تنبیہ) حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا "خدا کی قسم ایماندار آدمی کو وہ (اتنا لمبا) دن ایسا چھوٹا معلوم ہو گا جتنی دیر میں ایک نماز فرض ادا کر لیتا ہے۔"

۵ ۔۔۔      یعنی یہ کافر اگر از راہِ انکار و تمسخر عذاب کے لیے جلدی مچائیں ، تب بھی آپ جلدی نہ کریں بلکہ صبر و استقلال سے رہیں ، نہ تنگدل ہوں ، نہ حرف شکایت زبان پر آئے آپ کا صبر اور ان کا تمسخر ضرور رنگ لائے گا۔

۷ ۔۔۔     یعنی ان کے خیال میں قیامت کا آنا بعید از مکان اور دور از عقل ہے۔ اور ہم کو اس قدر قریب نظر آ رہی ہے گویا آئی رکھی ہے۔

۸ ۔۔۔      بعض نے "مہل" کا ترجمہ تیل کی تلچھٹ سے کیا ہے۔

۹ ۔۔۔       اون مختلف رنگ کی ہوتی ہے اور پہاڑوں کی رنگتیں بھی مختلف ہیں ۔ کما قال تعالیٰ "وَمِنَ الْجِبَالِ جُدُدٌ بِیْضٌ وَحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہَا وَغَرَابِیْبُ سُوْدٌ۔" (فاطر، رکوع۴، آیت:۲۷) دوسری جگہ فرمایا "کَالْعِہْنِ الْمَنْفُوْشِ" (القارعہ) یعنی پہاڑ دھنکی ہوئی اون کی طرح اڑتے پھریں گے۔

۱۱ ۔۔۔       حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں "سب نظر آ جائیں گے۔ یعنی دوستی ان کو نکمی تھی۔" ایک دوسرے کا حال دیکھے گا۔ مگر کچھ مدد و حمایت نہ کر سکے گا۔ ہر ایک کو اپنی پڑی ہو گی۔

۱۵ ۔۔۔      یعنی چاہے گا کہ بس چلے تو سارے کٹم بلکہ ساری دنیا کو فدیہ میں دے کر اپنی جان بچا لے۔ مگر یہ ممکن نہ ہو گا۔

۱۶ ۔۔۔      یعنی وہ آگ مجرم کو کہاں چھوڑتی ہے۔ وہ تو کھال اتار کر اندر سے کلیجہ نکال لیتی ہے۔

۱۸ ۔۔۔      یعنی دوزخ کی طرف سے ایک کشش اور پکار ہو گی۔ بس جتنے لوگ دنیا میں حق کی طرف سے پیٹھ پھیر کر چل دیے تھے اور عملِ صالح کی طرف سے اعراض کرتے اور مال سمیٹنے اور سینت کر رکھنے میں مشغول رہے تھے۔ وہ سب دوزخ کی طرف کھنچے چلے آئیں گے۔ بعض آثار میں ہے کہ دوزخ اول زبان قال سے پکارے گی "اِلَیَّ یَا کَافِرْ، اِلَیَّ یَا مُنَافِقِ، اِلَیَّ یَا جَامِعُ الْمَالِ" (یعنی او کافر! او منافق! او مال سمیٹ کر رکھنے والے! ادھر آ) لوگ ادھر ادھر بھاگیں گے۔ اس کے بعد ایک بہت لمبی گردن نکلے گی جو کفار کو چن چن کر اس طرح اٹھا لے گی جیسے جانور زمین سے دانہ اٹھا لیتا ہے۔ (العیاذ باللہ)

۲۱ ۔۔۔     یعنی کسی طرف پختگی اور ہمت نہیں دکھلاتا۔ فقر فاقہ، بیماری اور سختی آئے تو بے صبر ہو کر گھبرا اٹھے، بلکہ مایوس ہو جائے گویا اب کوئی سبیل مصیبت سے نکلنے کی باقی نہیں رہی اور مال و دولت تندرستی اور فراخی ملے تو نیکی کے لیے ہاتھ نہ اٹھے، اور مالک کے راستہ میں خرچ کرنے کی توفیق نہ ہو۔ ہاں وہ لوگ مستثنیٰ ہیں جن کا ذکر آگے آتا ہے۔

۲۳ ۔۔۔     یعنی گنڈے دار نہیں بلکہ مداومت و التزام سے نماز پڑھتے ہیں اور نماز کی حالت میں نہایت سکون کے ساتھ برابر اپنی نماز ہی کی طرف متوجہ رہتے ہیں ۔

۲۵ ۔۔۔      سورۃ "المومنون" میں اس کی تفسیر گزر چکی۔

۲۶ ۔۔۔     یعنی اس یقین کی بناء پر اچھے کام کرتے ہیں جو اس دن کام آئیں ۔

۲۷ ۔۔۔       یعنی اس سے ڈر کر برائیوں کو چھوڑتے ہیں ۔

۲۸ ۔۔۔     یعنی اللہ کا عذاب ایسی چیز نہیں کہ بندہ اس کی طرف سے مامون اور بے فکر ہو کر بیٹھ رہے۔

۳۱ ۔۔۔     یعنی بیوی اور باندی کے سوا جو اور کوئی جگہ قضائے شہوت کے لیے ڈھونڈے وہ حد اعتدال اور حد جواز سے باہر قدم نکالتا ہے۔

۳۲ ۔۔۔     اس میں اللہ کے اور بندوں کے سب حقوق آ گئے۔ کیونکہ آدمی کے پاس جس قدر قوتیں ہیں سب اللہ کی امانت ہیں ۔ ان کو اسی کی بتلائے ہوئے مواقع میں خرچ کرنا چاہیے۔ اور جو قول و قرار ازل میں باندھ چکا ہے اس سے پھرنا نہیں چاہیے۔

۳۳ ۔۔۔      یعنی ضرورت پڑے تو بلا کم و کاست اور بے رو رعایت گواہی دیتے ہیں ۔ حق پوشی نہیں کرتے۔

۳ ۴ ۔۔۔      یعنی نمازوں کے اوقات اور شروط و آداب کی خبر رکھتے ہیں اور اس کی صورت و حقیقت کو ضائع ہونے سے بچاتے ہیں ۔

۳۵ ۔۔۔       جنتیوں کی یہ آٹھ صفتیں ہوئیں جن کو نماز سے شروع ہی پر ختم کیا گیا ہے۔ تا معلوم ہو کہ نماز اللہ کے ہاں کس قدر مہتم بالشان عبادت ہے جس میں یہ صفات ہوں گی وہ "ہلوع" (کچے دل کا) نہ ہو گا بلکہ عزم و ہمت والا ہو گا۔

۳۹ ۔۔۔      ۱: یعنی قرآن کی تلاوت اور جنت کا ذکر سن کر کفار ہر طرف سے ٹولیاں بنا کر تیری طرف امڈے چلے آتے ہیں ۔ پھر ہنسی اور ٹھٹھا کرتے ہیں ، کیا اس کے باوجود یہ بھی طمع رکھتے ہیں کہ وہ سب جنت کے باغوں میں داخل کیے جائیں گے؟ جیسا کہ وہ کہا کرتے تھے کہ اگر ہم کو لوٹ کر خدا کی طرف جانا ہوا تو وہاں بھی ہمارے لیے بہتری ہی بہتری ہے۔ ہرگز نہیں ۔ اس خداوند عادل و حکیم کے ہاں ایسا اندھیرا نہیں ہو سکتا۔ (تنبیہ) ابن کثیر نے ان آیات کا مطلب یہ لیا ہے کہ تیری طرف کے ان منکروں کو کیا ہوا کہ تیزی کے ساتھ دوڑے چلے جاتے ہیں داہنے اور بائیں ، غول کے غول، یعنی قرآن سن کر ایسے کیوں بدکتے اور بھاگتے ہیں ۔ پھر کیا اس وحشت و نفرت کے باوجود یہ بھی توقع رکھتے ہیں کہ ان میں ہر شخص بے کھٹکے جنت میں جا گھسے گا؟ ہرگز نہیں ۔ وہذا کما قال تعالیٰ "فَمَالَہُمْ عَنِ التَّذْکِرَۃِ مُعْرِضِیْنَ کَاَنَّہُمْ حُمُرُ مُّسْتَنْفِرَۃٌ فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرۃٍ" (مدثر، رکوع۲، آیت: ۴۹،۵۰،۵۱)

۲: یعنی مٹی جیسی حقیر یا مٹی جیسی گھناؤنی چیز سے پیدا ہوا وہ کہاں لائق ہے بہشت کے۔ مگر ہاں جب ایمان کی بدولت پاک و صاف اور معظم و مکرم ہو۔ اور ممکن ہے "اِنَّا خَلَقْنَا ہُمْ مِمَّا یَعْلَمُوْنَ۔" سے اشارہ ہو۔ اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا" کی طرف جو چند آیات پہلے اسی سورت میں آ چکی ہیں ۔ یعنی وہ پیدا تو ہوا ہے ان صفات پر اور "اِلَّا الْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ہُمْ" الخ کے استثناء میں اپنے کو شامل نہ کیا۔ پھر بہشت کا مستحق کیسے ہو، اس تقدیر پر "مِمَّا یَعْلَمُوْنَ" کی ترکیب "خُلِقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَجَلٍ" کے قبیل سے ہو گی۔

 ۴۰ ۔۔۔      آفتاب ہر روز ایک نئے نقطہ سے طلوع ہوتا اور نئے نقطہ پر غروب ہوتا ہے۔ ان کو "مشارق" و "مغارب" کہا۔

 ۴۱ ۔۔۔      یعنی جب ان کی جگہ ان سے بہتر لا سکتے ہو تو خود ان کو دوبارہ کیوں پیدا نہیں کر سکتے؟ کیا وہ ہمارے قابو سے نکل کر کہیں جا سکتے ہیں ؟ "یَاخَیْرًا مِنْہُمْ" سے مراد ان ہی کا دوبارہ پید ا کرنا ہو۔ کیونکہ عذاب ہو یا ثواب، دوسری زندگی اس زندگی سے بہرحال اکمل ہو گی۔ یا یہ مطلب ہو کہ ان کفارِ مکہ کو ہنسی ٹھٹھا کرنے دیجئے، ہم خدمت اسلام کے لیے اس سے بہتر قوم لے آئیں گے چنانچہ "قریش" کی جگہ اس نے "انصارِ مدینہ" کو کھڑا کر دیا۔ اور مکہ والے پھر بھی اس کے قابو سے نکل کر کہیں نہ جا سکے۔ آخر اپنی شرارتوں کے مزے چکھنے پڑے (تنبیہ) مشارق و مغارب کی قسم شاید اس لیے کھائی کہ خدا ہر روز مشرق و مغرب کو بدلتا رہتا ہے اس کو تمہارا تبدیل کرنا کیا مشکل ہے۔

 ۴۲ ۔۔۔     یعنی تھوڑے دن کی ڈھیل ہے۔ پھر سزا ہونی یقینی ہے۔

 ۴۳ ۔۔۔       یعنی کسی خاص نشان اور علامت کی طرف جیسے تیزی سے دوڑتے ہیں اور ایک دوسرے سے پہلے پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یا نصب سے بت مراد ہوں جو کعبہ کے گرد کھڑے کیے ہوئے تھے۔ ان کی طرف بھی بہت عقیدت اور شوق کے ساتھ لپکتے ہوئے جاتے تھے۔

 ۴ ۴ ۔۔۔     یعنی قیامت کا دن۔