خزائن العرفان

سُوۡرَةُ المعَارج

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ معارج مکّیہ ہے، اس میں دو۲ رکوع، چوالیس ۴۴ آیتیں، دو سو چوبیس۲۲۴ کلمے، نو سو انتیس۹۲۹ حرف ہیں۔

(۱) ایک  مانگنے   والا وہ عذاب مانگتا ہے۔

(۲)  جو کافروں پر ہونے  والا ہے، اس کا کوئی ٹالنے  والا نہیں (ف ۲)۔

۲                 شانِ نزول : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے جب اہلِ مکّہ کو عذابِ الٰہی کا خوف دلایا تو وہ آپس میں کہنے لگے کہ اس عذاب کے مستحق کو ن لوگ ہیں ؟ اور یہ کن پر آئے گا ؟ سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے پوچھو تو انہوں نے حضور سیّدِ عالَم محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم سے دریافت کیا۔ اس پر یہ آیتیں نازل ہوئیں اور حضور سے سوال کرنے والا نضر بن حارث تھا، اس نے دعا کی تھی کہ یارب اگر یہ قرآن حق ہو اور تیرا کلام ہو تو ہمارے اوپر آسمان سے پتّھر برسا، یا درد ناک عذاب بھیج۔ ان آیتوں میں ارشاد فرمایا گیا کہ کافر طلب کریں یا نہ کریں عذاب جو ان کے لئے مقدر ہے ضرور آنا ہے، اسے کوئی ٹال نہیں سکتا۔

(۳)  وہ ہو گا اللہ کی طرف سے  جو بلندیوں کا مالک ہے  (ف ۳)

۳                 یعنی آسمانوں کا۔

(۴)  ملائکہ اور جبریل (ف ۴) اس کی بارگاہ کی طرف عروج کرتے  ہیں (ف ۵)  وہ عذاب اس دن ہو گا جس کی مقدار پچاس ہزار برس ہے  (ف ۶)

۴                 جو فرشتوں میں مخصوص فضل و شرف رکھتے ہیں۔

۵                 یعنی اس مقامِ قرب کی طرف جو آسمان میں اس کے اوامر کا جائے نزول ہے۔

۶                 وہ روزِ قیامت ہے جس کے شدائد کافروں کی نسبت تو اتنے دراز ہوں گے اور مومن کے لئے ایک فرض نماز سے بھی سُبک تر ہو گا۔

(۵) تو تم اچھی طرح صبر کرو۔

(۶) وہ اسے  (ف ۷) دور سمجھ رہے  ہیں (ف ۸)

۷                 یعنی عذاب کو۔

۸                 اور یہ خیال کرتے ہیں کہ واقع ہونے والا ہی نہیں۔

(۷) اور ہم اسے  نزدیک دیکھ رہے  ہیں (ف ۹)

۹                 کہ ضرور ہونے والا ہے۔

(۸) جس دن آسمان ہو گا جیسی گلی چاندی۔

(۹) اور پہاڑ ایسے  ہلکے  ہو جائیں گے  جیسے  اون (ف ۱۰)

۱۰               اور ہوا میں اڑتے پھریں گے۔

(۱۰) اور کوئی دوست کسی دوست کی بات نہ پوچھے  گا (ف ۱۱)

۱۱               ہر ایک کو اپنی ہی پڑی ہو گی۔

(۱۱) ہوں گے  انہیں دیکھتے  ہوئے  (ف ۱۲) مجرم (ف ۱۳) آرزو کرے  گا، کاش! اس دن کے  عذاب سے  چھٹنے  کے  بدلے  میں دے  دے  اپنے  بیٹے۔

۱۲               کہ ایک دوسرے کو پہچانیں گے لیکن اپنے حال میں ایسے مبتلا ہوں گے کہ نہ ان سے حال پوچھیں گے، نہ بات کر سکیں گے۔

۱۳               یعنی کافر۔

(۱۲) اور اپنی جورو اور اپنا بھائی۔

(۱۳) اور اپنا کنبہ جس میں اس کی جگہ ہے۔

(۱۴) اور جتنے  زمین میں ہیں سب پھر یہ بدلہ دنیا  اسے  بچا لے۔

(۱۵) ہرگز نہیں (ف ۱۴) وہ تو بھڑکتی  آگ ہے۔

۱۴               یہ کچھ اس کے کام نہ آئے گا اور کسی طرح وہ عذاب سے بچ نہ سکے گا۔

(۱۶) کھال اتار لینے  وا لی بلا رہی ہے  (ف ۱۵)

۱۵               نام لے لے کر کہ اے کافر میرے پاس آ، اے منافق میرے پاس آ۔

(۱۷) اس کو جس نے   پیٹھ دی اور منہ پھیرا  (ف ۱۶)

۱۶               حق کے قبول کرنے اور ایمان لانے سے۔

(۱۸) اور جوڑ کر سینت  رکھا (محفوظ کر لیا) (ف ۱۷)

۱۷               مال کو، اور اس کے حقوقِ واجبہ ادا نہ کئے۔

(۱۹)  بیشک آدمی بنایا گیا ہے  بڑا بے  صبرا  حریص۔

(۲۰) جب اسے  برائی پہنچے  (ف ۱۸) تو سخت گھبرانے  والا۔

۱۸               تنگ دستی و بیماری وغیرہ کی۔

(۲۱) اور جب بھلائی پہنچے  (ف ۱۹) تو روک  رکھنے   والا (ف ۲۰)

۱۹               دولت مندی و مال۔

۲۰               یعنی انسان کی حالت یہ ہے کہ اسے کوئی ناگوار حالت پیش آتی ہے تو اس پر صبر نہیں کرتا اور جب مال ملتا ہے تو اس کو خرچ نہیں کرتا۔

(۲۲) مگر نمازی۔

(۲۳)  جو اپنی نماز کے  پابند ہیں (ف ۲۱)

۲۱               کہ فرائضِ پنجگانہ کو ان کے اوقات میں پابندی سے ادا کرتے ہیں، یعنی مومن ہیں۔

(۲۴)  اور وہ جن کے  مال میں ایک معلوم حق ہے  (ف ۲۲)

۲۲               مراد اس سے زکوٰۃ ہے جس کی مقدار معلوم ہے یا وہ صدقہ جو آدمی اپنے نفس پر معیّن کرے تو اسے معیّن اوقات میں ادا کیا کرے۔ مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ صدقاتِ مستحبّہ کے لئے اپنی طرف سے وقت معیّن کرنا شرع میں جائز اور قابلِ مدح ہے۔

(۲۵) اس کے  لیے  جو مانگے  اور  جو  مانگ بھی نہ سکے  تو محروم رہے  (ف ۲۳)

۲۳               یعنی دونوں قِسم کے محتاجوں کو دے، انہیں بھی جو حاجت کے وقت سوال کرتے ہیں اور انہیں بھی جو شرم سے سوال نہیں کرتے اور ان کی محتاجی ظاہر نہیں ہوتی۔

(۲۶) اور ہو جو انصاف کا  دن سچ جانتے  ہیں (ف ۲۴)

۲۴               اور مرنے کے بعد اٹھنے اور حشر و نشر و جزا و قیامت سب پر ایمان رکھتے ہیں۔

(۲۷)  اور وہ جو اپنے  رب کے  عذاب سے   ڈر رہے  ہیں۔

(۲۸) بیشک ان کے  رب کا عذاب  نڈر ہونے  کی چیز نہیں (ف ۲۵)

۲۵               چاہے آدمی کتنا ہی نیک، پارسا، کثیرُ الطاعۃ والعبادۃ ہو مگر اسے عذابِ الٰہی سے بے خوف ہونا نہ چاہئے۔

(۲۹)  اور ہو جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے  ہیں۔

(۳۰) مگر اپنی بیبیوں یا اپنے  ہاتھ کے   مال کنیزوں سے  کہ ان پر کچھ ملامت نہیں۔

(۳۱)  تو جو  ان  دو (ف ۲۶) کے  سوا  اور چاہے   وہی حد سے  بڑھنے   والے  ہیں (ف ۲۷)

۲۶               یعنی زوجات و مملوکات۔

۲۷               کہ حلال سے حرام کی طرف تجاوز کرتے ہیں۔

مسئلہ : اس آیت سے متعہ، لواطت، جانوروں کے ساتھ قضائے شہوت اور ہاتھ سے استمناء کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔

(۳۲) اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے  عہد کی حفاظت کرتے  ہیں (ف ۲۸)

۲۸               شرعی امانتوں کی بھی اور بندوں کی امانتوں کی بھی اور خَلق کے ساتھ جو عہد ہیں ان کی بھی اور حق کے جو عہد ہیں ان کی بھی نذریں اور قَسمیں بھی اس میں داخل ہیں۔

(۳۳)  اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم ہیں (ف ۲۹)

۲۹               صدق و انصاف کے ساتھ، نہ اس میں رشتہ داری کا پاس کرتے ہیں، نہ زبردست کو کمزور پر ترجیح دیتے ہیں، نہ کسی صاحبِ حق کا تلفِ حق گوارا کرتے ہیں۔

(۳۴) اور وہ جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے  ہیں (ف ۳۰)

۳۰               نماز کا ذکر مکرّر فرمایا گیا۔ اس میں یہ اظہار ہے کہ نماز بہت اہم ہے یا یہ کہ ایک جگہ فرائض مراد ہیں دوسری جگہ نوافل۔ اور حفاظت سے مراد یہ ہے کہ اس کے ارکان اور واجبات اور سنّتوں اور مستحبّات کو کامل طور پر ادا کرتے ہیں۔

(۳۵)  یہ ہیں جن کا باغوں میں اعزاز ہو گا  (ف ۳۱)

۳۱               بہشت کے۔

(۳۶)  تو ان کافروں کو کیا ہوا تمہاری طرف تیز  نگاہ سے  دیکھتے  ہیں (ف ۳۲)

۳۲               شانِ نزول: یہ آیت کفّار کی اس جماعت کے حق میں نازل ہوئی جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے گرد حلقے باندھ کر گروہ کے گروہ جمع ہوتے تھے اور آپ کا کلامِ مبارک سنتے اور اس کو جھٹلاتے اور استہزاء کرتے اور کہتے کہ اگر یہ لوگ جنّت میں داخل ہوں گے جیسا کہ محمّد ( مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم) فرماتے ہیں تو ہم ضرور ان سے پہلے اس میں داخل ہوں گے۔ انکے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ ان کافروں کا کیا حال ہے کہ آپ کے پاس بیٹھتے بھی ہیں اور گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھتے بھی ہیں پھر بھی جو آپ سے سنتے ہیں اس سے نفع نہیں اٹھاتے۔

(۳۷) داہنے   اور بائیں گروہ کے  گروہ۔

(۳۸)  کیا ان میں  ہر شخص یہ طمع کرتا ہے  کہ (ف ۳۳) چین کے  باغ میں داخل کیا جائے  ۔

۳۳               ایمان والوں کی طرح۔

(۳۹) ہرگز نہیں، بیشک ہم نے  انہیں اس چیز سے  بنایا جسے  جانتے  ہیں (ف ۳۴)

۳۴               یعنی نطفہ سے جیسے سب آدمیوں کو پیدا کیا تو اس سبب سے کوئی جنّت میں داخل نہ ہو گا جنّت میں داخل ہونا ایمان پر موقوف ہے۔

(۴۰) تو مجھے  قسم ہے  اس کی جو سب پُوربوں سب پچھموں کا مالک ہے  (ف ۳۵) کہ ضرور ہم قادر ہیں۔

۳۵               یعنی آفتاب کے ہر جائے طلوع اور ہر جائے غروب کا یا ہر ہر ستارہ کے مشرق و مغرب کا، مقصد اپنی ربوبیّت کی قَسم یاد فرمانا ہے۔

(۴۱) کہ ان سے  اچھے  بدل دیں (ف ۳۶)  اور ہم سے  کوئی نکل کر نہیں جا سکتا (ف ۳۷)

۳۶               اس طرح کہ انہیں ہلاک کر دیں اور بجائے ان کے اپنی فرمانبردار مخلوق پیدا کریں۔

۳۷               اور ہماری قدرت کے احاطہ سے باہر نہیں ہو سکتا۔

(۴۲) تو انہیں چھوڑ  دو ان کی بیہودگیوں میں پڑے  اور کھیلتے  ہوئے  یہاں تک کہ اپنے  اس (ف ۳۸) دن سے  ملیں جس کا انہیں وعدہ دیا جاتا ہے۔

۳۸               عذاب کے۔

(۴۳) جس دن قبروں سے  نکلیں گے  جھپٹتے  ہوئے  (ف ۳۹) گویا  وہ نشانیوں کی طرف لپک رہے  ہیں (ف ۴۰)  (۴۴) آنکھیں نیچی کیے  ہوئے  ان پر ذلت سوار،  یہ ہے  ان کا وہ دن (ف ۴۱) جس کا ان سے  وعدہ تھا (ف ۴۲)

۳۹               محشر کی طرف۔

۴۰               جیسے جھنڈے والے اپنے جھنڈے کی طرف دوڑتے ہیں۔

۴۱               یعنی روزِ قیامت۔

۴۲               دنیا میں اور وہ اس کو جھٹلاتے تھے۔