پہلی ہی آیت کے لفظ اَلْقِیٰمَۃ کو اس سُورہ کا نام قرار دیا گیا ہے ، اور یہ صرف نام ہی نہیں ہے۔بلکہ اس سُورہ کا عنوان بھی ہے۔ کیونکہ اس میں قیامت ہی پر بحث کی گئی ہے۔
اگرچہ کسی روایت سے اِس کا زمانہ نزول معلوم نہیں ہوتا ، لیکن اِس کے مضمون میں ایک داخلی شہادت ایسی موجود ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل ابتدائی زمانہ کی نازل شدہ سورتوں میں سے ہے۔ آیت ۱۵ کے بعد یکایک سلسلہ کلام توڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا جاتا ہے کہ’اس وحی کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دو، اِس کو یاد کرا دینا اور پڑھوا دینا ہمارے ذمّہ ہے، لہٰذا جب ہم اِسے پڑھ رہے ہوں اس وقت تم اس کی قرأت کو غور سے سنتے رہو، پھر اس کا مطلب سمجھا دنیا بھی ہمارے ہی ذمّہ ہے‘۔ اس کے بعد آیت ۲۰ سے پھر وہی مضمون شروع ہو جاتا ہے جو ابتدا سے آیت ۱۵ تک چلا آ رہا تھا۔ یہ جملہ معترضہ اپنے موقع و محل سے بھی اور روایات کی رُو سے بھی اِس بنا پر دورانِ کلام میں وارد ہوا ہے کہ جس وقت حضرت جبریلؑ یہ سورہ حضورؐ کو سنا رہے تھے اُس وقت آپ اِس اندیشے سے کہ کہیں بعد میں بھول نہ جائیں، اس کے الفاظ اپنی زبان مبارک سے دُہراتے جا رہے تھے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اُس زمانہ کا ہے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نزولِ وحی کا نیا نیا تجربہ ہو رہا تھا اور ابھی آپ کو وحی اخذ کرنے کی عادت اچھی طرح نہیں پڑی تھی۔ قرآن مجید میں اس کی دو مثالیں اور بھی ملتی ہیں۔ ایک سورہ طٰہٰ میں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے فرمایا گیا ہے وَلاَ تَجْعَلْ بِالْقُرْاٰنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یُّقْضٰیٓ اِلَیْکَ وَحْیُہٗ،’اور دیکھو، قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کرو جب تک کہ تمہاری طرف اس کی وحی تکمیل کو نہ پہنچ جائے‘(آیت۱۱۴)۔دوسرے سورہ اعلیٰ میں جہاں حضور ؐ کو اطمینان دلا یا گیا ہے کہ سَنُقْرِ ئُکَ فَلاَ تَنْسیٰ،’ہم عنقریب تم کو پڑھو ا دیں گے پھر تم بھولو گے نہیں‘(آیت۶)۔ بعد میں جب حضور ؐ کو وحی اخذ کرنے کی اچھی طرح مشق ہو گئی تو اِس طرح کی ہدایات دینے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اسی لیے قرآن میں اِن تین مقامات کے سوا اِس کی کوئی اور مثال نہیں ملتی۔
یہاں سے آخرِ کلام اللہ تک جو سُورتیں پائی جاتی ہیں ان میں سے اکثر اپنے مضمون اور انداز بیان سے اُس زمانہ کی نازل شدہ معلوم ہوتی ہیں جب سورہ مُدثِّر کی ابتدائی سات آیات کے بعد نزول قرآن کا سلسلہ بارش کی طرح شروع ہوا اور پے در پے نازل ہونے والی سُورتوں میں ایسے پُرزور اور مؤثر طریقہ سے نہایت جامع اور مختصر فقروں میں اسلام اور اس کے بنیادی عقائد اور اخلاقی تعلیمات کو پیش کیا گیا اور اہل مکہ کو ان کی گمراہیوں پر متنبہ کیا گیا جس سے قریش کے سردار بَوکھلا گئے اور پہلا حج آنے سے پہلے حضورؐ کو زک دینے کی تدبیریں سوچنے کے لیے انہوں نے وہ کانفرنس منعقد کی جس کا ذکر ہم سورہ مدّثِر کے دیباچہ میں کر چکے ہیں۔
اس سُورہ میں منکرینِ آخرت کو خطاب کر کے ان کے ایک ایک شبہ اور ایک ایک اعتراض کا جواب دیا گیا ہے، بڑے مضبوط دلائل کے ساتھ قیامت اور آخرت کے امکان، وقوع اور وجوب کا ثبوت دیا گیا ہے، اور یہ بھی صاف صاف بتا دیا گیا ہے کہ جو لوگ بھی آخرت کا انکار کرتے ہیں ان کے انکار کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ ان کی عقل اسے ناممکن سمجھتی ہے، بلکہ اس کا اصل محِرّک یہ ہے کہ ان کی خوا ہشاتِ نفس اسے ماننا نہیں چاہتیں۔ اس کے ساتھ لوگوں کو خبر دار کر دیا گیا ہے کہ جس وقت کے آنے کا تم انکار کر رہے ہو وہ آ کر رہے گا، تمہارا سب کیا دھرا تمہارے سامنے لا کر رکھ دیا جائے گا، اور حقیقت میں تو اپنا نامہ اعمال دیکھنے سے بھی پہلے تم میں سے ہر شخص کو خود معلوم ہوگا کہ وہ دنیا میں کیا کر کے آیا ہے، کیونکہ کوئی شخص بھی اپنے آپ سے ناواقف نہیں ہوتا، خواہ وہ دنیا کو بہکانے اور اپنے ضمیر کو بہلانے کے لیے اپنی حرکات کے لیے کتنے ہی بہانے اور عذرات تراشتا رہے۔
1: کلام کی ابتدا نہیں سے کرنا خود بخود اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پہلے سے کوئی بات چل رہی تھی جس کی تردید میں یہ سُورۃ نازل ہوئی ہے اور آگے کا مضمون آپ ہی ظاہر کر دیتا ہے کہ وہ بات قیامت اور آخرت کی زندگی کے بارے میں تھی جس کا اہلِ مکہ انکار کر رہے تھے بلکہ ساتھ ساتھ مذاق بھی اڑا رہے تھے۔ اس طرزِ بیان کو اِس مثال سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے کہ ا گر آپ محض رسول کی صداقت کا اقرار کرنا چاہتے ہوں تو آپ کہیں گے ’’خدا کی قسم رسول برحق ہے ‘‘۔ لیکن اگر کچھ لوگ رسول کی صداقت کا انکار کر رہے ہوں تو آپ جواب میں اپنی بات یُوں شروع کر یں گے کہ ’’نہیں ، خدا کی قسم رسول بر حق ہے ‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو وہ صحیح نہیں ہے، میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اصل بات یہ ہے۔
2: قرآن مجید میں نفسِ انسانی کی تین قسموں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک وہ نفس جو انسان کو برائیوں پر اکساتا ہے۔ اس کا نام نفس اَمارہ ہے۔ دوسرا نفس جو غلط کام کرنے یا غلط سوچنے یا بُری نیت رکھنے پر نادم ہو تا ہے اور انسان کو اس پر ملامت کرتا ہے۔ اس کا نام نفسِ لوّامہ ہے اور اسی کو ہم آج کل کی اصطلاح میں ضمیر کہتے ہیں۔ تیسرا وہ نفس جو صحیح راہ پر چلنے اور غلط راہ چھوڑ دینے میں اطمینان محسوس کرتا ہے۔ اس کا نام نفسِ مطمئنّہ ہے۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن اور ملامت کرنے والے نفس کی قسم جس بات پر کھائی ہے اُسے بیان نہیں کیا ہے کیونکہ بعد کا فقرہ خود اس بات پر دلالت کر رہا ہے۔ قسم اِس بات پر کھائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو مرنے کے بعد دوبارہ ضرور پیدا کرے گا اور وہ ایسا کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بات پر اِن دو چیزوں کی قسم کس مناسبت سے کھائی گئی ہے ؟ جہاں تک روزِ قیامت کا تعلق ہے، اُس کی قسم کھانے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا آنا یقینی ہے۔ پوری کائنات کا نظام اِس بات پر گواہی دے رہا ہے کہ یہ نظام نہ ازلی ہے نہ ابدی۔ اِس کی نوعیت ہی خود یہ بتا رہی ہے کہ یہ نہ ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ باقی رہ سکتا ہے۔ انسان کی عقل پہلے بھی اِس گمانِ بے اصل کے لیے کوئی مضبوط دلیل نہ پاتی تھی کہ یہ ہر آن بدلنے والی دنیا کبھی قدیم اور غیر فانی بھی ہو سکتی ہے، لیکن جتنا جتنا اِس دنیا کے متعلق انسان کا علم بڑھتا جاتا ہے اُتنا ہی زیادہ یہ امر خود انسان کے نزدیک بھی یقینی ہوتا چلا جاتا ہے کہ اِس ہنگامہ ہست و بود کی ایک ابتدا ہے جس سے پہلے یہ نہ تھا، اور لازماً اس کی ایک انتہا بھی ہے جس کے بعد یہ نہ رہے گا۔ اس کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے وقوع پر خود قیامت ہی کی قسم کھائی ہے، اور یہ ایسی ہی قسم ہے جیسے ہم کسی شکی انسان کو جو اپنے موجود ہونے ہی میں شک کر رہا ہو، خطاب کر کے کہیں کہ تمہاری جان کی قسم تم موجود ہو، یعنی تمہارا وجود خود تمہارے موجود ہونے پر شاہد ہے۔ لیکن روز قیامت کی قَسم صرف اِس امر کی دلیل ہے کہ ایک دن یہ نظام کائنات درہم برہم ہو جائے گا۔ رہی یہ بات کہ اس کے بعد پھر انسان دوبارہ اٹھایا جائے گا اور اس کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہو گا اور وہ اپنے کیے کا اچھا یا بُرا نتیجہ دیکھے گا، تو اس کے لیے دوسری قسم نفسِ لوّامہ کی کھائی گئی ہے۔ کوئی انسان دنیا میں ایسا موجود نہیں ہے جو اپنے اندر ضمیر نام کی ایک چیز نہ رکھتا ہو۔ اِس ضمیر میں لازماً بھلائی اور بُرائی کا ایک احساس پایا جاتا ہے، اور چاہے انسان کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، اس کا ضمیر اسے کوئی برائی کرنے اور بھلائی نہ کرنے پر ضرور ٹوکتا ہے قطع نظر اس سے کہ اس نے بھلائی اور بُرائی کا جو معیار بھی قرار دے رکھا ہو وہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط۔ یہ اِس بات کی صریح دلیل ہے کہ انسان نرا حیوان نہیں ا ہے بلکہ ایک اخلاقی وجود ہے، اس کے اندر فطری طور پر بھلائی اور بُرائی کی تمیز پائی جاتی ہے، وہ خود اپنے آپ کو اپنے اچھے اور بُرے افعال کا ذمہ دار سمجھتا ہے، اور جس بُرائی کا ارتکاب اُس نے دوسرے کے ساتھ کیا ہو اس پر اگر وہ اپنے ضمیر کی ملامتوں کو دبا کر خوش بھی ہولے، تو اس کے بر عکس صورت میں جبکہ اُسی برائی کا ارتکاب کسی دوسرے نے اُس کے ساتھ کیا ہو، اس کا دل اندر سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ اِس زیادتی کا مرتکب ضرور سزا کا مستحق ہونا چاہیے۔ اب اگر انسان کے وجود میں اِس طرح کے ایک نفسِ لوّامہ کی موجود گی ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے، تو پھر یہ حقیقت بھی ناقابلِ انکار ہے کہ یہی نفسِ لوّامہ زندگی بعدِ موت کی ایک ایسی شہادت ہے جو خود انسان کی فطرت میں موجود ہے۔ کیونکہ فطرت کا یہ تقاضا کہ اپنے جن اچھے اور بُرے اعمال کا انسان ذمہ دار ہے اُن کی جزا یا سزا اُس کو ضرور ملنی چاہیے، زندگی بعد موت کے سوا کسی دوسری صورت میں پُورا نہیں ہو سکتا۔ کوئی صاحبِ عقل آدمی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ مرنے کے بعد اگر آدمی معدوم ہو جائے ہو اُس کی بہت سی بھلائیاں ایسی ہیں جن کے اجر سے وہ لازماً محروم رہ جائے گا، اور اس کی بہت سی بُرائیاں ایسی ہیں جن کی منصفانہ سزا پانے سے وہ ضرور بچ نکلے گا۔ اس لیے جب تک آدمی اِس بیہودہ بات کا قائل نہ ہو کہ عقل رکھنے والا انسان ایک غیر معقول نظامِ کائنات میں پیدا ہو گیا ہے، اور اخلاقی احساسات رکھنے والا انسان ایک ایسی دنیا میں جنم لے بیٹھا ہے جو بنیا دی طور پر اپنے پُورے نظام میں اخلاق کا کوئی وجود ہی نہیں رکھتی، اُس وقت تک وہ حیات بعدِ موت کا انکار نہیں کر سکتا۔ اسی طرح تنا سُخ یا آواگون کا فلسفہ بھی فطرت کے اِس مطالبے کا جواب نہیں ہے۔ کیونکہ اگر انسان اپنے اخلاقی اعمال کی سزا یا جزا پانے کے لیے پھر اسی دنیا میں جنم لیتا چلا جائے تو ہر جنم میں وہ پھر کچھ مزید اخلاقی اعمال کرتا چلا جائے گا جو نئے سرے سے جزا وسزا کے متقاضی ہوں گے اور اس لامتناہی سلسلے میں بجائے اس کے کہ اس کا حساب کبھی چُک سکے، اُلٹا اس کا حساب بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ اس لیے فطرت کا یہ تقاضا صرف اسی صورت میں پُورا ہوتا ہے کہ اِس دنیا میں انسان کی صرف ایک زندگی ہو، اور پھر پُوری نوعِ انسانی کا خاتمہ ہو جانے کے بعد ایک دوسری زندگی ہو جس میں انسان کے اعمال کا ٹھیک ٹھیک حساب کر کے اسے پوری جزا اور سزا دے دی جائے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہمہ القرآن، جلد دوم، الاعراف، حاشیہ۳۰)۔
3: اوپر کی دو دلیلیں ، جو قسم کی صور ت میں بیان کی گئی ہیں، صرف دو باتیں ثابت کرتی ہیں۔ ایک یہ کہ دنیا کا خاتمہ (یعنی قیامت کا پہلا مرحلہ )ایک یقینی امر ہے۔ دوسرے یہ کہ موت کے بعد دوسری زندگی ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر انسان کے ایک اخلاقی وجود ہونے کے منطقی اور فطری تقاضے پُورے نہیں ہو سکتے، اور یہ امر ضرور واقع ہونے والا ہے، کیونکہ انسان کے اندر ضمیر کی موجودگی اِس پر گواہی دے رہی ہے۔ اب یہ تیسری دلیل یہ ثابت کرنے کے لیے پیش کی گئی ہے کہ زندگی بعدِ موت ممکن ہے۔ مکہ میں جو لوگ اس کا انکار کرتے تھے وہ بار بار یہ کہتے تھے کہ آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں کو مرے ہوئے سینکڑوں ہزاروں برس گزر چکے ہوں، جن کے جسم کا ذرہ ذرہ خاک میں مل کر پراگندہ ہو چکا ہو، جن کی ہڈیاں تک بوسیدہ ہو کر نہ معلوم زمین میں کہاں کہاں منتشر ہو چکی ہوں ، جن میں سے کوئی جل مرا ہو، کوئی درندوں کے پیٹ میں جا چکا ہو، کوئی سمندر میں غرق ہو کر مچھلیوں کی غذا بن چکا ہو، ان سب کے اجزائے جسم پھر سے جمع ہو جائیں اور ہر انسان پھر وہی شخص بن کر اٹھ کھڑا ہو جو دس بیس ہزار برس پہلے کبھی وہ تھا؟ اس کا نہایت معقول اور انتہائی پر زور جواب اللہ تعالیٰ نے اِس مختصر سے سوال کی شکل میں دے دیا ہے کہ ’’کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو کبھی جمع نہ کر سکیں گے ‘‘؟یعنی اگر تم سے یہ کہا گیا ہوتا کہ تمہارے یہ منتشر اجزائے جسم کسی وقت آپ سے آپ جمع ہو جائیں گے اور تم آپ سے آپ اسی جسم کے ساتھ جی اٹھو گے، تو بلا شبہ تمہارا اِس نا ممکن سمجھنا بجا ہوتا۔مگر تم سے تو کہا یہ گیا ہے کہ یہ کام خود نہیں ہو گا بلکہ اللہ تعالیٰ ایسا کرتے گا۔ اب کیا تم واقعی یہ سمجھ رہے ہو کہ کائنات کا خالق، جسے تم خود بھی خالق مانتے ہو، اِس کام سے عاجز ہے ؟ یہ ایسا سوال تھا جس کے جواب میں کوئی شخص جو خدا کو خالقِ کائنات مانتا ہو، نہ اُس وقت یہ کہہ سکتا تھا اور نہ آج یہ کہہ سکتا ہے کہ خدا بھی یہ کام کرنا چاہے تو نہیں کر سکتا۔ اور اگر کوئی نے وقوف ایسی بات کہے تو اس سے پوچھا جا سکتا ہے کہ تم آج جس جسم میں اِس وقت موجود ہو اس کے بے شمار اجزاء کو ہوا اور پانی اور مٹی اور نہ معلوم کہا ں کہاں سے جمع کر کے اُسی خدا نے کیسے یہ جسم بنا دیا جس کے متعلق تم یہ کہہ رہے ہو کہ وہ پھر ان اجزاء کو جمع نہیں کر سکتا؟
4: یعنی بڑی بڑی ہڈیوں کو جمع کر کے تمہارا ڈھانچہ پھر سے کھڑا کر دینا تو درکنار، ہم تو اس بات پر بھی قادر ہیں کہ تمہارے نازک ترین اجزائے جسم حتیٰ کہ تمہاری انگلیوں کی پوروں تک پھر ویسا ہی بنا دیں جیسی وہ پہلے تھیں۔
5: اِس چھوٹے سے فقرے میں منکرینِ آخرت کے اصل مرض کی صاف صاف تشخیص کر دی گئی ہے۔ اِن لوگوں کو جو چیز آخرت کے انکار پر آمادہ کرتی ہے وہ دراصل یہ نہیں ہے کہ فی الواقع وہ قیامت اور آخرت کو نا ممکن سمجھتے ہیں، بلکہ اُن کے اِس انکار کی اصل وجہ یہ ہے کہ آخرت کو ماننے سے لازماً اُن پر کچھ اخلاقی پابندیاں عائد ہوتی ہیں، اور انہیں یہ پابندیاں ناگوار ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ اب تک زمین میں بے نَتھے بیل کی طرح پھرتے رہے ہیں اُسی طرح آئندہ بھی پھر تے رہیں۔ جو ظلم، جو بے ایمانیاں، جو فسق و فجور، جو بد کر داریاں برتنے سے نہ روکنے پائے کہ ایک دن انہیں اپنے خدا کے سامنے حاضر ہو کر اپنے اِن اعمال کی جواب دہی کرنی پڑے گی۔ اس لیے دراصل اُن کی عقل اُنہیں آخرت پر ایمان لانے سے نہیں روک رہی ہے بلکہ ان کی خوا ہشاتِ نفس اِس میں مانع ہیں۔
6: یہ سوال استفسار کے طور پر نہیں بلکہ انکار اور استہزاء کے طور پر تھا۔ یعنی وہ یہ پوچھنا نہیں چاہتے تھے کہ قیامت کس روز آئے گی، بلکہ مذاق کے طور پر کہتے تھے کہ حضرت !جس دن کی آپ کو خبر دے رہے ہیں آخر وہ آتے آتے رہ کہاں گیا ہے ؟
7: اصل میں بَرِقَ الْبَصَرُ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں جن کے لُغوی معنی بجلی کی چمک سے آنکھوں کے چُندھیا جانے کے ہیں۔ لیکن عربی محاورے میں یہ الفاظ اسی معنی کے لیے مخصوص نہیں ہیں بلکہ خوف زدگی، حیرت، یا کسی اچانک حادثہ سے دوچار ہو جانے کی صورت میں اگر آدمی ہَکَ دَک رہ جائے اور اس کی نگاہ اُس پریشان کن منظر کی طرف جم کر رہ جائے جو اس کو نظر آ رہا ہو تو اس کے لیے بھی یہ الفاظ بولے جاتے ہیں۔ اِسی مضمون کو قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ یُوں بیان کیا گیا ہے۔ :اِنَّمَا یُؤَ خِّرُ ھُمْ لِیَوْمٍتَشْخَصُ فِیْہِ الْاَ بْصَارُ، ’’اللہ تو انہیں ٹال رہا ہے اُس دن کے لیے جب آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی‘‘(ابراہیم، ۴۲)۔
8: یہ قیامت کے پہلے مرحلے میں نظامِ عالم کے درہم برہم ہو جانے کی کیفیت کا ایک مختصر بیا ن ہے۔ چاند کے بے نور ہو جانے اور چاند سورج کے مل کر ایک ہو جانے کا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ صرف چاند ہی کی روشنی ختم نہ ہو گی جو سورج سے ماخوذ ہے بلکہ خود سورج بھی تاریک ہو جائے گا اور بے نُور ہو جانے میں دونوں یکساں ہو جائیں گے۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ زمین یکایک اُلٹی چل پڑے گی اور اُس دن چاند اور سُورج دونوں بیک وقت مغرب سے طلوع ہوں گے۔ اور ایک تیسرا مطلب یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ چاند یک لخت زمین کی گرفت سے چھوٹ کر نکل جائے گا اور سورج میں جا پڑے گا۔ ممکن ہے کہ اس کا کوئی اور مفہوم بھی ہو جس کو آج ہم نہیں سمجھ سکتے۔
9: اصل میں الفاظ ہیں بِمَا قَدَّمَ وَ اَخَّرَ۔ یہ بڑا جامع فقرہ ہے جس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں اور غالباً وہ سب ہی مراد ہیں۔ ایک معنی اس کے یہ ہیں کہ آدمی کو اُس روز یہ بھی بتا دیا جائے گا کہ اپنی دنیا کی زندگی میں مرنے سے پہلے کیا نیکی یا بدی کما کر اُس نے اپنی آخرت کے لیے آگے بھیجی تھی اور یہ حساب بھی اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا کہ اپنے اچھے یا بُرے اعمال کے کیا اثرات وہ اپنے پیچھے دنیا میں چھوڑ آیا تھا جو اس کے بعد مدتہائے دراز تک آنے والی نسلوں میں چلتے رہے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ اسے وہ سب کچھ بتا دیا جائے گا جو اُسے کر نا چاہیے تھا مگر اُس نے نہیں کیا اور جو کچھ نہ کرنا چاہیے تھا مگر اُس نے کر ڈالا۔ تیسرے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ اس نے پہلے کیا اور جو کچھ بعد میں کیا اس کا پُورا حساب تاریخ وار اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ چوتھے معنی یہ ہیں کہ جو نیکی یا بدی اس نے کی وہ بھی اسے بتا دی جائے گی اور جس نیکی یا بدی کے کرنے سے وہ باز رہا اُس سے بھی اسے آگاہ کر دیا جائے گا۔
10: یعنی آدمی کا نامہ اعمال اس کے سامنے رکھنے کی غرض درحقیقت یہ نہیں ہو گی کہ مجرم کو اس کا جُرم بتا یا جائے، بلکہ ایسا کرن تو اس وجہ سے ضروری ہو گا کہ انصاف کے تقاضے بر سرِ عدالت جرم کا ثبوت پیش کیے بغیر پُورے نہیں ہوتے۔ ورنہ ہر انسان خوب جانتا ہے کہ وہ خود کیا ہے۔ اپنے آپ کو جاننے کے لیے وہ اِس کا محتاج نہیں ہو تا کہ کوئی دوسرا اُسے بتائے کہ وہ کیا ہے۔ ایک جھوٹا دنیا بھر کو دھوکہ دے سکتا ہے، لیکن اسے خود تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ ایک چور لاکھ حیلے اپنی چوری کو چھپانے کے لیے اختیار کر سکتا ہے، مگر اس کے اپنے نفس سے تو یہ بات مخفی نہیں ہوتی کہ وہ چور ہے۔ ایک گمراہ آدمی ہزار دلیلیں پیش کر کے لوگوں کو یہ یقین دلا سکتا ہے۔ کہ وہ جس کفر یا دہریّت یا شرک کا قائل ہے وہ درحقیقت اس کی ایماندارانہ رائے ہے، لیکن اس کا اپنا ضمیر تو اس سے بے خبر نہیں ہوتا کہ ان عقائد پر وہ کیوں جما ہوا ہے اور ان کی غلطی سمجھنے اور تسلیم کرنے سے دراصل کیا چیز اسے روک رہی ہے۔ ایک ظالم، ایک بد دیانت، ایک بد کر دار، ایک حرام خور، اپنی بد اعمالیوں کے لیے طرح طرح کی معذرتیں پیش کر کے خود اپنے ضمیر تک کا منہ بند کرنے کی کوشش کر سکتا ہے تا کہ وہ اسے ملامت کرنے سے باز آ جائے اور یہ مان لے کہ واقعی کچھ مجبوریاں، کچھ مصلحتیں ، کچھ ضرورتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے وہ یہ سب کچھ کر رہا ہے، لیکن اس کے با وجود اُس کو یہ علم تو بہر حال ہوتا ہی ہے کہ اس نے کس پر کیا ظلم کیا ہے، کس کا حق مارا ہے، کس کی عصمت خراب کی ہے، کس کو دھوکا دیا ہے، اور کِن ناجائز طریقوں سے کیا کچھ حاصل کیا ہے۔ اس لیے آخرت کی عدالت میں پیش ہوتے وقت ہر کافر، ہر منافق، ہر فاسق وف اجر اور مجرم خود جانتا ہو گا کہ وہ کیا کر کے آیا ہے اور کس حیثیت میں آج اپنے خدا کے سامنے کھڑا ہے۔
11: یہاں سے لے کر ’’پھر اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ہی ذمّہ ہے ‘‘تک کی پُوری عبارت ایک جملہ معترضہ ہے جو سلسلہ کلام کو بیچ میں توڑ کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مخاطب کر کے ارشاد فرمائی گئی ہے، جیسا کہ ہم دیباچہ مین بیان کر آئے ہیں ، نبوت کے ابتدائی دور میں ، جبکہ حضورؐ کو وحی اخذ کرنے کی عادت اور مشق پوری طرح نہیں ہوئی تھی، آپ پر جب وحی نازل ہوتی تھی تو آپ کو یہ اندیشہ لاحق ہو جاتا تھا کہ جبریل علیہ السلام جو کلامِ الہیٰ آپ کو سنا رہے ہیں وہ آپ کو ٹھیک ٹھیک یاد رہ سکے گا یا نہیں، اس لیے آپ وحی سننے کے ساتھ ساتھ اسے یاد کرنے کی کوشش کرنے لگتے تھے۔ ایسی ہی صورت اُس وقت پیش آئی جب حضرت جبریل سورہ قیامہ کی یہ آیات آپ کو سنا رہے تھے۔ چنانچہ سلسلہ کلام توڑ کر آپ کو ہدایت فرمائی گئی کہ آپ وحی کے الفاظ یاد کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ غور سے سنتے رہیں، اسے یاد کرا دینا اور بعد میں ٹھیک ٹھیک آپ سے پڑھوا دینا ہمارے ذمّہ ہے، آپ مطمئن رہیں کہ اس کلام کا ایک لفظ بھی آپ نہ بھولیں گے نہ کبھی اسے ادا کرنے میں غلطی کر سکیں گے۔ یہ ہدایت فرمانے کے بعد پھر اصل سلسلہ کلام ’’ہر گز نہیں، اصل بات یہ ہے ‘‘ سے شروع ہو جاتا ہے۔ جو لوگ اِس پس منظر سے واقف نہیں ہیں وہ اس مقام پر اِن فقروں کو دیکھ کر یہ محسوس کر تے ہیں کہ اس سلسلہ کلام میں یہ بالکل بے جوڑ ہیں۔ لیکن اِس پس منظر کو سمجھ لینے کے بعد کلام میں کوئی بے ربطی محسوس نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک استاد درس دیتے دیتے یکایک یہ دیکھے کہ طالب علم کسی اور طرف متوجہ ہے اور وہ درس کا سلسلہ توڑ کر طالب علم سے کہے کہ توجہ سے میری بات سنو اور اس کے بعد آگے پھر اپنی تقریر شروع کر دے۔ یہ درس اگر جوں کا تُوں نقل کر کے شائع کر دیا جائے تو جو لوگ اس واقعہ سے واقف نہ ہوں گے وہ اس سلسلہ تقریر میں اِس فقرے کو بے جوڑ محسوس کریں گے۔ لیکن جو شخص اُس اصل واقعہ سے واقف ہو گا جس کی بنا پر یہ فقرہ درمیان میں آیا ہے وہ مطمئن ہو جائے گا کہ درس فی الحقیقت جُوں کا تُوں نقل کیا گیا ہے، اُسے نقل کرنے میں کوئی کمی بیشی نہیں ہوئی ہے۔ اوپر اِن آیات کے درمیان یہ فقرے بطور جملہ معترضہ آنے کی جو توجیہ ہم نے کی ہے وہ محض قیاس پر مبنی نہیں ہے، بلکہ معتبر روایات میں اس کی یہی وجہ بیان ہوئی ہے۔ مسند احمد، بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن جریر، طبرانی، بیہقی اور دوسرے محدثین نے متعدد سندوں سے حضرت عبد للہ بن عباس کی یہ روایت نقل کی ہے کہ جب حضورؐ پر قرآن نازل ہوتا تھا تو آپ اِس خوف سے کہ کہیں کوئی چیز بھول نہ جائیں، جبریل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ وحی کے الفاظ دُہرانے لگتے تھے۔ اس پر فرمایا گیا کہ لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَآ نَکَ لِتَعْجَلَ بِہٖ۔۔۔۔۔ یہی بات شَعْبِی، ابنِ زید، ضَحّاک، حسن بصری، قتادہ، مجاہد اور دوسرے اکابر مفسرین سے منقول ہے۔
12: اگر چہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جبریل علیہ السّلام قرآن پڑھ کر سُناتے تھے، لیکن چونکہ وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پڑھتے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’جب ہم اِسے پڑھ رہے ہوں ‘‘۔
13: اِس سے گمان ہوتا ہے، اور بعض اکابر مفسرین نے بھی اِس گمان کا اظہار کیا ہے، کہ غالباً ابتدائی زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نزولِ وحی کے دوران ہی میں قرآن کی کسی آیت یا کسی لفظ یا کسی حکم کا مفہوم بھی جبریل علیہ السلام سے دریافت کر لیتے تھے، اس لیے حضور ؐ کو نہ صرف یہ ہدایات کی گئی کہ جب وحی نازل ہو رہی ہو اس وقت آپ خاموشی سے اس کو سنیں، اور نہ صرف یہ اطمینان دلایا گیا کہ اُس کا لفظ ٹھیک ٹھیک آپ کے حافظہ میں محفوظ کر دیا جائے گا اور قرآن کو آپ ٹھیک اُسی طرح پڑھ سکیں گے جس طرح وہ نازل ہوا ہے۔ بلکہ ساتھ ساتھ یہ وعدہ بھی کیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کے ہر حکم اور ہر ارشاد کا منشا اور مدّعا بھی پُوری طرح آپ کو سمجھا دیا جائے گا۔ یہ ایک بڑی اہم آیت ہے جس سے چند ایسی اصلی باتیں ثابت ہوتی ہیں جنہیں اگر آدمی اچھی طرح سمجھ لے تو اُن گمراہیوں سے بچ سکتا ہے جو پہلے بھی بعض لوگ پھیلاتے رہے ہیں اور آج پھیلا رہے ہیں۔ اوّلاً، اِس سے صریح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر صرف وہی وحی نازل نہیں ہوتی تھی جو قرآن میں درج ہے، بلکہ اس کے علاوہ بھی وحی کے ذریعہ سے آپ کو ایسا علم دیا جاتا تھا جو قرآن میں درج نہیں ہے۔ اس لیے کہ قرآن کے احکام و فرامین، اُس کے اشارات، اُس کے الفاظ اور اس کی مخصوص اصطلاحات کا جو مفہوم و مدعا حضورؐ کو سمجھایا جاتا تھا وہ اگر قرآن ہی میں درج ہوتا تو یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہ تھی کہ اس کا مطلب سمجھا دینا یا اس کی تشریح کر دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے، کیونکہ وہ تو پھر قرآن ہی میں مل جاتا۔ لہٰذا یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مطالبِ قرآن کی تفہیم و تشریح جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کی جاتی تھی وہ بہر حال الفاظِ قرآن کے ما سواتھی۔ یہ وحیِ خَفِی کا ایک اور ثبوت ہے جو ہمیں قرآن سے ملتا ہے (قرآن مجید سے اس کے مزید ثبوت ہم نے اپنی کتاب’’سنّت کی آئینی حیثیت‘‘ میں صفحات۹۴۔۹۵۔ اور صفحات۱۱۸تا۱۲۵ میں پیش کر دیے ہیں ) ثانیاً، قرآن کے مفہوم و مدعا اور اس کے ا حکام کی یہ تشریح جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتائی گئی تھی آخر اِسی لیے تو بتائی گئی تھی کہ آپ اپنے قول اور عمل سے اُس کے مطابق لوگوں کو قرآن سمجھائیں اور اس کے احکام پر عمل کرنا سکھاَئیں۔ اگر یہ اُس کا مدعا نہ تھا اور یہ تشریح آپ کو صرف اس لیے بتائی گئی تھی کہ آپ اپنی ذات کی حد تک اس علم کو محدود رکھیں تو یہ ایک بے کار کام تھا، کیونکہ فرائض نبوت کی ادائیگی میں اِس سے کوئی مدد نہیں مل سکتی تھی۔ اس لیے صرف ایک بیوقوف آدمی ہی یہ کہ سکتا ہے کہ تشریح علم سرے سے کوئی تشریعی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے خود سورہ نحل آیت ۴۴ میں فرمایا ہے وَاَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُمَیِّنَ لِلنّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ، ’’اور اے نبی، یہ ذکر ہم نے تم پر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کے سامنے اُس تعلیم کی تشریح و توضیح کر تے جا ؤ جو اُن کے لیے اُتار ی گئی ہے ‘‘۔تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، النحل، حاشیہ۴۰۔اور قرآن میں چار جگہ اللہ تعالی ٰ نے صراحت فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کام صرف کتاب اللہ کی آیات سنا دینا ہی نہ تھا بلکہ اِس کتاب کی تعلیم دنیا بھی تھا۔(البقرہ، آیات ۱۲۹، ۱۵۱۔آلِ عمران، ۱۶۴۔الجمعہ، ۲۔ ان سب آیات کی تشریح ہم’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ میں صفحہ ۷۴سے ۷۷ تک تفصیل کے ساتھ کر چکے ہیں ) اس کے بعد کوئی ایسا آدمی جو قرآن کو مانتا ہو اس بات کو تسلیم کرنے سے کیسے انکار کر سکتا ہے کہ قرآن کی صحیح و مستند، بلکہ فی الحقیقت سرکاری تشریح صرف وہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے قول اور عمل سے فرما دی ہے، کیونکہ وہ آپ کی ذاتی تشریح نہیں ہے بلکہ خود قرآن کے نازل کرنے والے خدا کی بتائی ہوئی تشریح ہے۔ اس کو چھوڑ کر یا اُس سے ہٹ کر جو شخص بھی قرآن کی کسی آیت یا اس کے کسی لفظ کا کوئی من مانا مفہوم بیا ن کرتا ہے وہ ایسی جسارت کرتا ہے جس کا ارتکاب کوئی صافِ ایمان آدمی نہیں کر سکتا۔ ثالثاً، قرآن کا سر سری مطالعہ بھی اگر کسی شخس نے کیا ہو تو وہ یہ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس میں بکثرت باتیں ایسی ہیں جنہیں ایک عربی داں آدمی محض قرآن کے الفاظ پڑھ کر یہ نہیں جا ن سکتا کہ اُن کا حقیقی مدعا کیا ہے اور اُن مں ت جو حکم بیان کیا گیا ہے اس پر کیسے عمل کیا جائے۔ مثال کے طور پر لفظ صلوٰۃ ہی کو لے لیجیے۔ قرآن مجید میں ایمان کے بعد اگر کسی عمل پر سب سے زیادہ زور دی گیا ہے تو وہ صلوٰۃ ہے۔ لیکن محض عربی لغت کی مدد سے کوئی شخص اس کا مفہوم تک متعیّن نہیں کر سکتا۔ قرآن میں اس کا ذکر بار بار دیکھ کر زیادہ سے زیادہ جو کچھ وہ سمجھ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ عربی زبان کے اِس لفظ کو کسی خاص اصطلاحی معنی میں استعمال کیا گیا ہے، اور اس ے مراد غالباً کوئی خاص فعل کیا ہے اور کس طرح اسے ادا کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اگر قرآن کے بھیجنے والے نے اپنی طرف سے ایک معلّم کو مقرر کر کے اپنی اِس اصطلاح کا مفہوم اُسے ٹھیک ٹھیک نہ بتا یا ہوتا اور صلوٰۃ کے حکم کی تعمیل کر نے کا طریقہ پُوری وضاحت کے ساتھ اے نہ سکھا دیا ہوتا، تو کیا صرف قرآن کو پڑھ کر دینا میں کوئی دو مسلمان بھی ایسے ہو سکتے تھے جو حکمِ صلوٰۃ پر عمل کرنے کی کسی ایک شکل پر متفق ہو جاتے ؟ آج ڈیڑھ ہزار برس سے مسلمان جس طرح نماز کے حکم پر یکساں عمل کر رہے ہیں، اس کی وجہ یہی تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر صرف قرآن کے الفاظ ہی وحی نہیں فرمائے تھے بلکہ ان الفاظ کا مطلب بھی اپ کو پوری طرح سمجھادیا تھا، اور اسی مطلب کی تعلیم آپ اُن سب لوگوں کو دیتے چلے گئے جنہوں نے قرآن کو اللہ کی کتاب اور آپ کو اللہ کا رسول مان لیا۔ رابعاً، قرآن کے الفاظ کی جو تشریح اللہ نے اپنے رسولؐ کو بتائی اور رسولؐ نے اپنے قول اور عمل سے اس کی جو تعلیم امّت کو دی، اس کو جاننے کا ذریعہ ہمارے پاس حدیث و سنّت کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ حدیث سے مراد وہ روایات ہیں جو حضورؐ کی قولی و عملی تعلیم سے مُسلم معاشرے کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں رائج ہوا، جس کی تفصیلات معتبر روایتوں سے بھی بعد کی نسلوں کو اگلی نسلوں سے ملیں، اور بعد کی نسلون نے اگلی نسلوں میں اس پر عمل درآمد ہوتے بھی دیکھا۔ اِس ذریعہ علم کو قبول کرنے سے جو شخص انکار کر تا ہے وہ گویا یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَا نَہٗ فرما کر قرآن کا مطلب اپنے رسول کو سمجھا دینے کی جو ذمّہ داری لی تھی۔ اسے پورا کرنے میں معاذ اللہ وہ ناکام ہو گیا، کیونکہ یہ ذمّہ داری محض رسولؐ کو ذاتی حیثیت سے مطلب سمجھا نے کے لیے نہیں لی گئی تھی، بلکہ اس غرض کے لیے لی گئی تھی کہ رسولؐ کے ذریعہ سے اُمّت کر کتابِ الہیٰ کا مطلب سمجھا یا جائے، اور حدیث و سنّت کے ماخذِ قانون ہونے کا انکار کرتے ہی آپ سے آپ یہ لازم آ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اِس ذمہ دار کو پُورا نہیں کر سکا ہے، اعاذبا اللہ من ذالک۔ اس کے جواب میں جو شخص یہ کہتا ہے کہ بہت سے لوگوں نے حدیثیں گھڑ بھی تو لی تھیں، اُس سے ہم کہیں گے کہ حدیثوں کا گھڑا جانا خود اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ آغازِ اسلام میں پُوری امّت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال و اعمال کو قانون کا درجہ دیتی تھی، ورنہ آخر گمراہی پھیلانے والوں کو جھوٹی حدیثیں گھڑنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ جعل ساز لوگ وہی سکّے تو جعلی بناتے ہیں جن کا بازار میں چلن ہو۔ جن نوٹوں کی بازار میں کوئی قیمت نہ ہو انہیں کون بیوقوف جعلی طور پر چھاپے گا؟ پھر ایسی بات کہنے والوں کو شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ اِس امّت نے اول روز سے اِس بات کا اہتمام کیا تھا کہ جس ذات پاکؐ کے اقوال و افعال قانون کا درجہ رکھتے ہیں اس کی طرف کوئی غلط بات منسوب نہ ہونے پائے، اور جتنا جتنا غلط باتوں کے اُس ذات کی طرف منسوب ہونے کا خطرہ بڑھتا گیا اتنا ہی اِس امّت کے خیر خواہ اِس بات کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کر تے چلے گئے کہ صحیح کو غلط سے ممیّز کیا جائے۔ صحیح و غلط روایات کی تمیز کا یہ علم ایک بڑا عظیم الشان علم ہے جو مسلمانوں کے سوا دنیا کی کسی قوم نے آج تک ایجاد نہیں کیا ہے۔ سخت بد نصیب ہیں وہ لوگ جو اس علم کو حاصل کیے بغیر مغربی مستشرقین کے بہکائے میں آ کر حدیث و سنت کو نا قابلِ اعتبار ٹھیراتے ہیں اور نہیں جانتے کہ اپنی اِس جاہلانہ جسارت سے وہ اسلام کو کتنا بڑا نقصان پہنچا رہے ہیں۔
14: یہاں سلسلہ کلام پھر اُسی مضمون کے ساتھ جُڑ جاتا ہے جو بیچ کے جملہ معترضہ سے پہلے چلا آ رہا تھا۔ ہر گز نہیں کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے انکارِ آخرت کی اصل وجہ یہ نہیں ہے کہ تم خالقِ کائنات کو قیامت بر پا کرنے اور موت کے بعد دوبارہ زندہ کر دینے سے عاجز سمجھتے ہو، بلکہ اصل وجہ یہ ہے۔
15: وہ انکار آخرت کی دوسری وجہ ہے پہلی وجہ آیت نمبر ۵ میں بیان کی گئی تھی کہ انسان چونکہ فجور کی کھُلی چھوٹ چاہتا ہے اور ان اخلاقی پابندیو سے بچنا چاہتا ہے جو آخرت کو ماننے سے لازماً اس پر عائد ہوتی ہے اس لیے دراصل خواہشات نفس اسے انکار آخرت پر اُبھارتی ہے اور پھر وہ عقلی دلیلیں بگاڑتا ہے تا کہ اپنے اس انکار کو معقول ثابت کرے اب دوسری وجہ یہ بیان کی جا رہی ہے منکرینِ آخرت چونکہ تنگ نظر اور کوتاہ بیں ہیں اس لیے اُن کی نگاہ میں ساری اہمیت انہیں نتاَئج کی ہیں جو اسی دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں اور اُن نتائج کو وہ کوئی اہمیت نہیں دیتے جو آخرت میں ظاہر ہونے والے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جو فائدہ یا زلت یا خوشیاں حاصل ہو جائے اسی کی طلب میں ساری محنتیں اور کوششیں کھپا دینی چاہیں کیونکہ اسے پا لیا تو گویا سب کچھ پا لیا، خواہ آخرت میں اس کا انجام کتنا ہی برا ہو۔ اسی طرح ان کا خیال یہ ہے کہ جو نقصان یا تکلیف یا رنج و غم یہاں پہنچ جائے وہی دراصل بچنے کے قابل چیز ہے، قطعِ نظر اس سے کے اُس کو بر داشت کر لینے کا کتنا ہی بڑا اجر آخرت میں مل سکتا ہو وہ نقد سودا چاہتے ہیں آخرت جیسی دور کی چیز کے لیے وہ نہ آج کے کسی نفع کو چھوڑ سکتے ہیں نہ کسی نقصان کو گوارہ کر سکتے ہیں اس اندازِ فکر کے ساتھ جب وہ آخرت کے مسئلے پر عقلی بحثیں کرتے ہیں تو دراصل وہ خالص عقلیت نہیں ہوتی بلکہ اس کے پیچھے یہ اندازِ فکر کام کر رہا ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کا فیصلہ بہر حال یہی ہوتا ہے کہ آخرت کو نہیں ماننا ہے، خواہ اندرسے ان کا ضمیر پکار پکار کر کہہ رہا ہوں کہ آخرت کے امکان وقوع اور وجوب کی جو دلیلیں قرآن میں دی گئی ہیں وہ نہایت معقول ہیں اور اس کے خلاف جو استدلال وہ کر رہے ہیں وہ نہایت بودا ہے۔
16: یعنی خوشی سے دمک رہے ہوں گے، کیونکہ جس آخرت پر وہ ایمان لائے تھے وہ ٹھیک اُن کے یقین کے مطابق سامنے موجودگی، اور جس آخرت پر ایمان لا کر انہوں نے دنیا کے ناجائز فائدے چھوڑے اور بر حق نقصان بر داشت کیے تھے اس کو فی الواقع اپنی آنکھوں کے سامنے بر پا ہوتے دیکھ کر انہیں یہ اطمینان حاصل ہو جائے گا کہ انہوں نے اپنے رویّہ زندگی کے متعلق بالکل صحیح فیصلہ کیا تھا، اب وہ وقت آ گیا ہے جب وہ اس کا بہترین انجام دیکھیں گے۔
17: مفسرین میں سے بعض نے اسے مجازی معنی میں لیا ہے وہ کہتے ہیں کہ کسی کی طرف دیکھنے کے الفاظ محاورے کے طور پر اُس سے توقعات وابسطہ کرنے، اس کے فیصلہ کا انتظار کرنے، اس کے کرم کا امید وار ہونے کے معنی میں بولے جاتے ہیں، حتیٰ کہ ایک اندھا بھی یہ کہتا ہے کہ میری نگاہ میں تو فلاں شخص کی طرف لگی ہوئی ہے کہ وہ میرے لیے کیا کرتا ہے۔ لیکن بکثرت احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کی جو تفسری منقول ہے وہ یہ ہے کہ آخرت میں اللہ کے مقرم بندوں کو اپنے رب کا دیدار نصیب ہو گا۔ بخاری کی روایت ہے کہ اِنَّکُمْ سَتَرَوْنَ رَبَّکُمْ عِیَاناً۔’’تم اپنے رب کو علانیہ دیکھو گے۔ ‘‘مسلم اور ترمذی میں حضرت صُہیب کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا جب جنتی لوگ جنت میں داخل ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان سے دریافت فرمائے گا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں مزید کچھ دُوں ؟ وہ عرض کریں گے کہ تم نے ہمارے چہرے روشن نہیں کر دیے ؟ کیا آپ نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کر دیا اور جہنم سے بچا نہیں لیا؟ اس پر اللہ تعالیٰ پر دہ ہٹا دے گا اور ان لوگوں کو جو کچھ انعامات ملے تھے ان میں سے کوئی انعام بھی انہیں اس سے زیادہ محبوب نہ ہو گا کہ وہ اپنے رب کی دیدسے مشرف ہوں، اور یہی وہ مزید انعام ہے جس کے متعلق قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْ الْحُسْنیٰ وَزِیَادَۃ یعنی ’’جن لوگوں نے نیک عمل کیا ان کے لیے اچھا اجر ہے اور اس پر مزید بھی ‘‘۔(یونس۔۲۶)بخاری ومسلم میں حضرت ابو سعید خُدری اور حضرت ابو ہُریرہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ، کیا ہم قیامت کے روز اپنے رب کو دیکھیں گے ؟ حضورؐ نے فرمایا کیا تمہیں سورج اور چاند کو دیکھنے میں کوئی دقّت ہوتی ہے جبکہ بیچ میں بادل بھی نہ ہوں ؟ لوگوں نے عرض کیا، نہیں ۔ آپ نے فرمایا اس طرح تم اپنے رب کو دیکھو گے۔ اس مضمون سے ملتی جلتی ایک اور روایت بخاری ومسلم میں حضرت جریر بن عبداللہ سے مروی ہے۔ مسند احمد، ترمذی، دارقُطنی، ابنِ جریر ابن المنذر، طبرانی، بَیْقَہی، ابن ابی شَیْبہ اور بعض دوسرے محدثین نے تھوڑے لفظی اختلافات کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمر کی روایت نقل کی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ اہلِ جنت میں کم سے کم درجہ کو جو آدمی ہو گا وہ اپنی سلطنت کی وصیت دو ہزار سال کی مسافت تک دیکھے گا، اور ان میں سب سے زیادہ فضیلت رکھنے والے لوگ ہر روز دو مرتبہ اپنے رب کو دیکھیں گے پھر حضورؐ نے یہی آیت پڑھی کہ’’اُس روز کچھ چہرے ترو تازہ ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے ‘‘۔ابن ماجہ میں حضرت جابر بن عبد اللہ کی روایت ہے کہ اللہ ان کی طرف دیکھے گا اور وہ اللہ کی طرف دیکھیں گے، پھر جب تک اللہ ان سے پر دہ نہ فرما لے گا اس وقت تک وہ جنت کی کسی نعمت کی طرف توجہ نہ کریں گے اور اسی کی طرف دیکھتے رہے گے۔ یہ اور دوسری بہت سی روایات ہیں جن کی بنا پر اہلسنت قریب قریب بالاتفاق اس آیت کا یہی مطلب لیتے ہیں کہ آخرت میں اہلِ جنت اللہ تعالیٰ کے دیدار سے مشرف ہوں گے۔ اور اس کی تاکید قرآن مجید کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے کہ کَلَّآ اِنَّھُمْ عَنْ رَّبّھِِمْ یَوْمَئِذ لَّمَحْجُوْبُوْنَ’’ہر گز نہیں، وہ (یعنی فُجّار) اس روز اپنے رب کی دید سے محروم ہوں گے ‘‘(المُطففین۔۱۵)۔اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ محرومی فُجّار کے لیے ہو گی نہ کہ ابرار کے لیے
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر انسان خدا کو دیکھ کیسے سکتا ہے ؟ دیکھنے کے لیے تو لازم ہے کہ کوئی چیز کسی خاص جہت، مقام، شکل اور رنگ میں سامنے موجود ہو، روشنی کی شعاعیں اُس سے مُنعکس ہو کر انسان کی آنکھ پر پڑیں اور آنکھ سے دماغ کے مرکز بینائی تک اس کو تصویر منتقل ہو۔ کیا اللہ رب العالمین کی ذات کے متعلق اِس طرح قابلِ دید ہونے کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ انسان اس کو دیکھ سکے ؟ لیکن یہ سوال دراصل ایک بڑی غلط فہمی پر مبنی ہے۔ اس میں دو چیزوں کے درمیان فرق نہیں کیا گیا ہے۔ ایک چیز ہے دیکھنے کی حقیقت اور دوسری چیز ہے دیکھنے کا فعل صادر ہونے کی خاص صورت جس سے ہم اِس دنیا میں آشنا ہیں۔ دیکھنے کی حقیقت یہ ہے کہ دیکھنے والے میں بنا ئی کی صفت موجود ہو، وہ نابینا نہ ہو، اور دیکھی جانے والی چیز اُس پر عیاں ہو، اس سے مخفی نہ ہو۔ لیکن دنیا میں ہم کو جس چیز کا تجربہ اور مشاہدہ ہوتا ہے وہ صرف دیکھنے کی وہ خاص صورت ہے جس سے کوئی انسان یا حیوان بالفصل کسی چیز کو دیکھا کرتا ہے، اور اس کے لے لا محالہ یہ ضروری ہے کہ دیکھنے والے کے جسم میں آنکھ نامی ایک عضو موجود ہو، اُس عضو میں بینائی کی طاقت پائی جاتی ہو، اُس کے سامنے ایک ایسی محدُود مجسمّ رنگ دار چیز حاضر ہو جس سے روشنی کی شعاعیں منعکس ہو کر آنکھ پر پڑیں، اور آنکھ میں اس کی شکل سما سکے۔ اب اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ دیکھنے کی حقیقت کا عملی ظہور صرف اُسی خاص صورت میں ہو سکتا ہے جس سے ہم اِس دنیا میں واقف ہیں تو یہ خود اُس کے اپنے دماغ کی تنگی ہے، ورنہ درحقیقت خدا کی خدائی میں دیکھنے کی ایسی بیشمار صورتیں ممکن ہیں جن کا ہم تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔ اس مسئلے میں جو شخص الجھتا ہے وہ خود بتاَئے کہ اس کا خدا بینا ہے یا نابینا؟ اگر وہ بینا ہے اور اپنی ساری کائنات اور اس کی ایک ایک چیز کو دیکھ رہا ہے تو کیا وہ اسی طرح آنکھ نامی ایک عضو سے دیکھ رہا ہے جس سے دنیا میں انسان و حیوان دیکھ رہے ہیں ، اور اس سے بینائی کے فعل کا صُدور اُسی طریقے سے ہو رہا ہے جس طرح ہم سے ہوتا ہے ؟ ظاہر ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہے، اور جب اس کا جواب نفی میں ہے تو آخر کسی صاحب عقل و فہم انسان کو یہ سمجھنے میں کیوں مشکل پیش آتی ہے کہ آخرت میں اہلِ جنت کو اللہ تعالیٰ کا دیدار اس مخصوص شکل میں نہیں ہو گا جس میں انسان دنیا میں کسی چیز کو دیکھتا ہے، بلکہ وہاں دیکھنے کی حقیقت کچھ اور ہو گی جس کام ہم یہاں ادراک نہیں کر سکتے ؟ واقعہ یہ ہے کہ آخرت کے معاملات کو ٹھیک ٹھیک سمجھ لینا ہمارے اس سے زیادہ مشکل ہے جتنا ایک دو برس کے بچے کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ازدواجی زندگی کیا ہوتی ہے حالانکہ جوان ہو کر اسے خود اُس سے سابقہ پیش آنا ہے۔
18: اس ’’ہرگز نہیں ‘‘کا تعلق اسی سلسلۂ کلام سے ہے جو اوپر سے چلا آرہا ہے، یعنی تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ تمہیں مر کر فنا ہو جانا ہے اور اپنے رب کے حضور واپس جانا نہیں ہے۔
19: اصل میں لفظ رَاق استعمال ہوا ہے جو رُقیہ سے بھی ماخوذ ہو سکتا ہے جس کے معنی تعویذ گنڈے اور جھاڑ پھونک کے ہیں ، اورَتی سے بھی، جس کے معنی چڑھنے کے ہیں ۔ اگر پہلے معنی لیے جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ آخر وقت میں جب مریض کے تیمار داری ہر دوا دارو سے مایوس ہو جائیں گے تو کہیں گے کہ ارے کسی جھاڑ پھونک کرنے والے ہی کو تلاش کرو جو اس کی جان بچا لے۔ اور اگر دوسرے معنی لیے جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ اس وقت فرشتے کہیں کہ اس روح کو کیسے لے کر جانا ہے ؟ ملائکہ عذاب کو یا ملائکہ رحمت کو ؟ بالفاظ دیگر اسی وقت یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ یہ مرنے والاکس حیثیت میں عالمِ آخرت کی طرف جا رہا ہے نیک انسان ہو گا تو ملائکہ رحمت ہی سے لے جائیں گے، اور بد انسان ہو گا تو رحمت کے فرشتے اس کے قریب بھی نہ پھٹکیں گے اور عذاب کے فرشتے اسے گرفتار کر کے لے جائیں گے۔
20: مفسرین میں سے بعض نے لفظ ساق(پنڈلی) کو عام لُغوی معنی میں لیا ہے اور اس کے لحاظ سے مردہ یہ ہے کہ مرنے کے وقت جب ٹانگیں سوُکھ کر ایک دوسری سے جڑ جائیں گی۔ اور بعض نے عربی محاورے کے مطابق ایسے شدت اور سختی اور مصیبت کے معنی میں لیا ہے، یعنی اس وقت دو مصیبتیں ایک ساتھ جمع ہو جائیں گی، ایک دنیا اور اس کی ہر چیز سے جدا ہو جانے کی مصیبت اور دوسری عالمِ آخرت میں ایک مجرم کی حیثیت سے گرفتار ہو کر جانے کی مصیبت، جس سے ہر کافر و منافق اور ہر فاسق و فاجر کو سابقہ پیش آئے گا۔
21: مطلب یہ ہے کہ جو شخص آخرت کو ماننے کے لیے تیار نہ تھا اس نے وہ سب کچھ سُنا جو اوپر کی آیات میں بیان کیا گیا ہے، مگر پھر بھی وہ اپنے انکار ہی پر اڑا رہا اور یہ آیات سننے کے بعد اکڑتا ہوا اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ مجاہد، قتادہ اور ابنِ زید کہتے ہیں کہ یہ شخص ابوجہل تھا۔ آیت کے الفاظ سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کوئی ایک شخص تھا جس نے سورہ قیامہ کی مذکورہ بالا آیات سننے کے بعد یہ طرزِ عمل اختیار کیا۔ اس آیت کے یہ الفاظ کہ ’’ اس نے نہ سچ مانا اور نہ نماز پڑھی‘‘ خاص طور پر توجہ کے مستحق ہیں۔ ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اور اس کی کتاب کی صداقت تسلیم کرنے کا اوّلین اور لازمی تقاضا یہ ہے کہ آدمی نماز پڑھے۔ شریعت الہیٰ کے دوسرے احکام کی تعمیل کی نوبت تو بعد ہی میں آتی ہے، لیکن ایمان کے اقرار کے بعد کچھ زیادہ مدّت نہیں گزرتی کہ نماز کا وقت آ جاتا ہے اور اُسی وقت یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ آدمی نے زبان ے جس چیز کے ماننے کا اقرار کیا ہے وہ واقعی اس کے دل کی آواز ہے یا محض ایک ہوا ہے جو اُس نے چند الفاظ کی شکل میں مُنہ سے نکال دی ہے۔
22: مفسرین نے اَوْلیٰ لَکَ کے متعدد معنی بیان کیے ہیں۔ تُف ہے تجھ پر۔ ہلاکت ہے تیرے لیے۔ خرابی، یا تباہی، یا کمبختی ہے تیرے لیے۔ لیکن ہمارے نزدیک موقع و محل کے لحاظ سے اس کا مناسب ترین مفہوم وہ ہے جو حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے کہ ’’جب تو اپنے خالق کفر کرنے کی جُرأت کر چکا ہے تو پھر تجھ جیسے آدمی یہی چال زیب دیتی ہے جو تو چل رہا ہے۔ ‘‘یہ اسی طرح کا طنزیہ کلام ہے جسے قرآن مجید میں ایک اور جگہ فرمایا گیا ہے کہ دوزخ میں عذاب دیتے ہوئے مجرم انسان سے کہا جائے گا کہ ذُقْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ، ’’لے چکھ اس کا مزا، بڑا زبردست عزت دار آدمی ہے تو۔ ‘‘(الدخان، ۔۴۹)
23: اب کلام کو ختم کرتے ہوئے اسی مضمون کا اعادہ کیا جا رہا ہے جس سے کلام کا آغاز کیا گیا تھا، یعنی زندگی بعدِ موت ضروری بھی ہے اور ممکن بھی۔
24: عربی زبان میں اِبِل سُدی اُس اونٹ کے لیے بولتے ہیں جو یونہی چھوٹا پھر رہا ہو، جدھر چاہے چڑھتا پھرے، کوئی اس کی نگرانی کرنے والا نہ ہو۔ اسی معنی میں ہم شُتر بے مہار کا لفظ بولتے ہیں ۔ پس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کیا انسان نے اپنے آپ کو شُتر بے مہار سمجھ رکھا ہے کہ اس کے خالق نے اس زمین میں غیر ذمّہ دار بنا کر چھوڑ دیا ہو ؟ کوئی فرض اس پر عائد نہ ہو؟ کوئی چیز اس کے لیے ممنوع نہ ہو؟ اور کوئی وقت ایسا آنے والا نہ ہو جب اس سے اس کے اعمال کی باز پُرس کی جائے ؟ یہی بات ایک دوسرے مقام پر قرآن مجید میں اس طرح بیان کی گئی ہے کے قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کفار سے فرمائے گا: اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْ جَعُوْنَ۔’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول ہی پیدا کیا ہے اور تمہیں کبھی ہماری طرف پلٹ کر نہیں آنا ہے ؟‘‘(المومنون۔۱۱۵)۔ ان دونوں مقامات پر زندگی بعدِ موت کے واجب ہونے کی دلیل سوال کی شکل میں پیش کی گئی ہے۔ سوال کا مطلب یہ ہے کہ کیا واقعی تم نے اپنے آپ کو جانور سمجھ رکھا ہے ؟ کیا تمہیں اپنے اور جانور میں یہ کھلا فرق نظر نہیں آتا کہ وہ بے اختیار ہیں اور تم با اختیار، اس کے افعال میں اخلاقی حُسن و قبح کا سوال پیدا نہیں ہوتا اور تمہارے افعال میں یہ سوال لازماً پیدا ہوتا ہے ؟ پھر تم نے اپنے متعلق یہ کیسے سمجھ لیا کہ جس طرح جانور غیر ذمہ دار اور غیر جواب دہ ہیں۔ اسی طرح تم بھی ہو؟ جانوروں کے دوبارہ زندہ کر کے نہ اُٹھائے جانے کی مقبول وجہ تو سمجھ میں آتی ہے کہ اس نے صرف اپنی جِبِلت کے لگے بندھے تقاضے پورے کیے ہیں، اپنی عقل سے کام لے کر کوئی فلسفہ تصنیف نہیں کیا، کوئی مذہب ایجاد نہیں کیا، کسی معبود نہیں بنایا نہ خود کسی کا معبود بنا، کوئی کام ایسا نہیں کیاجسے نیک یا بد کہا جا سکتا ہو، کوئی اچھی یا بُری سنت جاری نہیں کی جس کے اثرات نسل در نسل چلتے رہیں اور وہ ان پر کسی اجر یا سز ا کا مستحق ہو۔ لہٰذا وہ اگر مر کر فنا ہو جائے تو یہ سمجھ میں آنے کے قابل بات ہے کیونکہ اس پر اپنے کسی عمل کی ذمہ داری عائد ہی نہیں ہوتی جس کی بازپُرس کے لیے اسے دوبارہ زندہ کر کے اٹھانے کی کوئی حاجت ہو۔ لیکن تم حیات بعدِ موت سے کیسے معاف کیے جا سکتے ہو جبکہ عین اپنی موت کے وقت تک تم ایسے اخلاقی افعال کرتے رہتے ہو جن کے نیک یا بد ہونے اور جزا یا سزا کے مستو جب ہونے کا تمہاری عقل خود حکم لگاتی ہے ؟ جس آدمی نے کسی بے گناہ قتل کیا اور فوراً ہی اچانک کسی حادثے کا شکار ہو گیا، کیا تمہارے نزدیک اس کونِلوُہ free) (Scot چھوٹ جانا چاہیے اور اس ظالم کا بدلہ اسے کبھی نہ ملنا چاہیے ؟ جو آدمی دنیا میں کسی ایسے فساد کا بیج بو گیا جس کا خمیازہ اس کے بعد صدیوں تک انسانی نسل بھگتی رہیں، کیا تمہاری عقل واقعی اس بات پر مطمئن ہے کہ اسے بھی کسی بھُنگے یا ٹڈے کی طرح مر کر فنا ہو جانا چاہیے اور کبھی اٹھ کر اپنے ان کرتوتوں کی جواب دہی نہیں کرنی چاہیے جن کی بدولت ہزاروں لاکھوں انسانوں کی زندگیاں خراب ہوئیں ؟ جس آدمی نے عمر بھر حق و انصاف اور خیر و صلاح کے لیے اپنی جان لڑائی ہو اور جیتے جی مصیبتیں ہی بھگتا رہا ہو کیا تمہارے خیال میں وہ بھی حشرات الارض ہی کی قسم کی کوئی مخلوق ہے جسے اپنے اس اعمال کی جزا پانے کا کوئی حق نہیں ہے ؟
25: یہ حیات بعدِ موت کے امکان کی دلیل ہے۔ جہاں تک اُن لوگوں کا تعلق ہے جو یہ مانتے ہیں کہ ابتدائی نطفے سے تخلیق ک آغاز کر کے پُور ا انسان بنا دینے تک کا سارا فعل اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت اور حکمت کا کرشمہ ہے ان کے لیے تو فی الحقیقت اس دلیل کا کوئی جواب ہے ہی نہیں، کیونکہ وہ خواہ کتنی ہی ڈھِٹائی برتیں، ان کی عقل تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر سکتی کہ جو خدا اس طرح انسان کو دنیا میں پیدا کرتا ہے وہ دوبارہ بھی اسی انسان کو وجود میں لے آنے پر قادر ہے۔ رہے وہ لوگ جو اس صریح حکیمانہ فعل کو محض اتفاقات کا نتیجہ قرار دیتے ہیں، وہ اگر ہٹ دھرمی پر تُلے ہوئے نہیں ہیں تو آخر ان کے پاس اس بات کی کیا توجیہ ہے کہ آغازِ آفرینش سے آج تک دنیا کے ہر حصے اور ہر قوم میں کس طرح ایک ہی نوعیت کے تخلیقی فعل کے نتیجے میں لڑکوں اور لڑکیوں کی پیدائش مسلسل اِس تناسب سے ہوتی چلی جا رہی ہے کہ کہیں کسی زمانے میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی انسانی آبادی میں صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں ہی پیدا ہوتی چلی جائیں اور آئندہ اُس کی نسل چلنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے ؟ کیا یہ بھی اتفاقاً ہی ہوئے چلا جا رہا ہے ؟ اتنا بڑا دعویٰ کر بیٹھے کہ لندن اور نیویارک، ماسکو اور پیکنگ اتفاقاً آپ سے آپ بن گئے ہیں (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، الروم، حواشی۲۷ تا ۳۰۔جلد چہارم، الشوریٰ، حاشیہ ۷۷)۔ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب اس آیت کو پڑھتے تھے تو اللہ تعالیٰ کے اِس سوال کے جواب میں کبھی بَلیٰ (کیو ں نہیں )، کبھی سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ فبلی (پاک ہے تیری ذات، خداوند، کیوں نہیں ) اور کبھی سُبْحَانَکَ وَبَلیٰ فرمایا کرتے تھے (ابن جریر، ابن ابی حاتم، ابو داؤد)۔ ابو داؤد میں حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا جب تم سورہ تین میں آیت اَلَیْسَ اللہُ بِاَحْکَمِ الْحَاکِمِیْن (کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟) پڑھو تو کہو بَلیٰ وَاَنَا عَلیٰ ذَالِکَ مِنَ الشَّا ھِدِیْنَ (کیوں نہیں ، میں اِس پر گواہی دینے والوں میں سے ہوں )۔ اور جب سورہ قیامہ کی یہ آیت پڑھو تو کہو بَلیٰ۔ اور جب سورہ مرسَلات کی آیت فَبِاَیِّ حَدِیْثٍۢ بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ (اس قرآن کے بعد یہ لوگ اور کس بات پر ایمان لائیں گے ؟) پڑھو تو کہو اٰمَنَّا بِا للہِ ( ہم اللہ پر ایمان لائے )۔ اسی مضمون کی روایات امام احمد، ترمذی، ابن المُنذر، ابن مردُوْیہ، بَیْقَہی اور حاکم نے بھی نقل کی ہیں۔