تفسیر عثمانی

سُوۡرَةُ یُونس

شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان نہایت رحم والا ہے

۱ ۔۔۔  یہ آیتیں ایسی مضبوط و محکم کتاب کی ہیں جس کی ہر بات پکی ہے۔ الفاظ اس لیے کہ ہمیشہ تبدیل و تحریف سے محفوظ رہیں گے۔ علوم اس لیے کہ تمام تر عقل و حکمت کے موافق ہیں۔ احکام اس وجہ سے کہ آئندہ کوئی دوسری ناسخ کتاب آنے والی نہیں۔ اخبارو قصص اس طرح کہ ٹھیک ٹھیک واقعہ کے مطابق ہیں۔ اور ایسا کیوں نہ ہو، جب کہ خدائے علیم و حکیم نے اس کو اپنے علم کامل کے زور سے اتارا ہے۔

۲ ۔۔۔ ۱: یعنی اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ انسانوں کی اصلاح و ہدایت کے لیے حق تعالیٰ ایک انسان ہی کو مامور فرما دے اور اس کی طرف وہ پیغام بھیجے جس کی دوسروں کو بلاواسطہ خبر نہ ہو۔ وہ تمام لوگوں کو خدا کی نافرمانی کے مہلک نتائج و عواقب سے آگاہ کرے۔ اور خدا کی بات ماننے والوں کو بشارت پہنچائے کہ رب العزت کے یہاں اعمالِ صالحہ کی بدولت ان کا کتنا اونچا مرتبہ اور کیسا بلند پایہ ہے۔ اور کیسی سعادت و فلاح ازل سے ان کے لیے لکھی جا چکی ہے۔

۲: نی وحی قرآنی کو فوق العادت موثر و بلیغ ہونے کی وجہ سے جادو اور اس کے لانے والے کو جادوگر کہتے ہیں۔

۳ ۔۔۔  ۱: یعنی اتنے وقت میں جو چھ دن کے برابر تھا۔ اور ایک دن ابن عباس کی تفسیر کے موافق ایک ہزار سال کا لیا جائے گا۔ گویا چھ ہزار سال میں زمین و آسمان وغیرہ تیار ہوئے۔ بلاشبہ حق تعالیٰ قادر تھا کہ آنِ واحد میں ساری مخلوق کو پیدا کر دیتا۔ لیکن حکمت اسی کو مقتضی ہوئی کہ تدریجاً پیدا کیا جائے۔ شاید بندوں کو سبق دینا ہو کہ قدرت کے باوجود ہر کام سوچ سمجھ کر تأنّی اور متانت سے کیا کریں۔ نیز تدریجی تخلیق میں بہ نسبت دفعتاً پیدا کرنے کے اس بات کا زیادہ اظہار ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ فاعل بالاضطرار نہیں بلکہ ہر چیز کا وجود بالکلیہ اس کی مشیت و اختیار سے وابستہ ہے جب چاہے، جس طرح چاہے پیدا کرے۔

۲:  سورہ "اعراف" کے ساتویں رکوع کے شروع میں اسی طرح کی آیت گزر چکی اس کا فائدہ ملاحظہ کیا جاوے۔

۳:  یعنی مخلوق کے تمام کاموں کی تدبیر و انتظام اسی کے ہاتھ میں ہے۔

۴:  یعنی شریک اور حصہ دار تو اس کی خدائی میں کیا ہوتا، سفارش کے لیے بھی اس کی اجازت کے بدون لب نہیں ہلا سکتا۔

۵: یعنی دھیان کرو کہ ایسے رب کے سوا جس کی صفات اوپر بیان ہوئیں دوسرا کون ہے جس کی بندگی اور پرستش کی جا سکے۔ پھر تم کو کیسے جرأت ہوتی ہے کہ اس خالق و مالک شہنشاہِ مطلق اور حکیم برحق کے پیغاموں اور پیغامبروں کو محض اوہام و ظنوں کی بناء پر جھٹلانے لگو۔

۴ ۔۔۔  ۱: یعنی اسی سے تم سب کا آغاز ہوا، اور اسی کی طرف انجام کار سب کو جانا ہے۔ پھر اس کے احکام و سفراء سے سرتابی کرنا کیسے روا ہو سکتا ہے۔

۲:  یعنی چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی ضائع نہ ہو۔

۵ ۔۔۔  ۱: بعض کے نزدیک "نور" عام ہے "ضیاء" سے "ضیاء" خاص اس نور کو کہتے ہیں جو زیادہ تیز اور چمکدار ہو۔ بعض نے کہا کہ جس کی روشنی ذاتی ہو، وہ ضیاء اور جس کی دوسرے سے مستفاد ہو، وہ "نور" ہے۔ سورج کی روشنی البتہ سورج سے مستفاد ہے۔ اور بعض محققین نے دونوں میں یہ فرق بتلایا ہے کہ "نور" مطلق روشنی کو کہتے ہیں۔ "ضیاء" اور "ضوء" اس کے انتشار (پھیلاؤ) کا نام ہے۔ سورج کی روشنی کا پھیلاؤ چونکہ زیادہ ہے۔ اس لیے "ضیاء" سے تعبیر فرمایا۔ واللہ اعلم بمرادہ۔

۲:  یعنی روزانہ بتدریج گھٹتا بڑھتا ہے۔ "وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاہُ مَنَازِلَ حَتّیٰ عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْم" (یٰس، رکوع ۳، آیت ۳۹) علمائے ہیئت نے اس کے دورے کی تقسیم کر کے اٹھائیس منزلیں مقرر کی ہیں۔ جو بارہ بروج پر منقسم ہیں۔ قرآن میں خاص ان کی مصطلحات مراد نہیں، مطلق سیر و مسافت کے مدارج مراد ہیں۔

۳:  یعنی برسوں کی گنتی اور مہینوں اور دنوں کے چھوٹے موٹے حساب سب چاند سورج کی رفتار سے وابستہ کر دیے ہیں۔ اگر چاند سورج نہ ہوں تو دن رات، قمری اور شمسی مہینے، اور سال وغیرہ کیسے متعین ہوں۔ حالانکہ علاوہ دنیاوی زندگی اور معاشی کاروبار کے بہت سے احکام شرعیہ میں بھی تعین اوقات کی ضرورت ہے۔

۴:  یعنی فلکیات کا سلسلہ یوں ہی کیف ما اتفق نہیں۔ بلکہ بڑے عظیم الشان نظام و تدبیر کے ماتحت اور ہزارہا فوائد و حِکَم پر مشتمل ہے۔

۵:  یعنی سمجھ دار لوگ مصنوعات کے اس نظام کو دیکھ کر خداوند قادر و حکیم کی ہستی کا سراغ پاتے ہیں۔ اور مادیات کے انتظام سے روحانیات کے متعلق بھی اندازہ کر لیتے ہیں کہ وہاں کی دنیا میں کیسے کیسے چاند سورج خدا نے پیدا کیے ہوں گے۔ انہی کو انبیاء و مرسلین کہہ لیجئے۔

۶ ۔۔۔   بلاشبہ دنیا کی ہر چھوٹی بڑی چیز میں خدا کی ہستی اور وحدانیت کے دلائل موجود ہیں۔وَفِی کُلِّ شَیْ ءٍ لَہُ ایٰۃٌ تَدُلُّ عَلَی اَنَّہُ وَاحِدٌ سورہ بقرہ میں پارہ سیقول کے ربع کے قریب ایک آیت گزر چکی جس میں زیادہ بسط و تفصیل سے ان نشانہائے قدرت کا بیان ہوا ہے۔

۷ ۔۔۔  یعنی دنیا میں ایسا دل لگایا کہ آخرت کی اور خدا کے پاس جانے کی کچھ خبر ہی نہ رہی۔ اسی چند روزہ حیات کو مقصود و معبود بنا لیا۔ اور قدرت کی جو نشانیاں اوپر بیان ہوئیں، ان میں کبھی غور و تامل نہ کیا کہ ایسا مضبوط اور حکیمانہ نظام یوں ہی بیکار نہیں بنایا گیا۔ ضرور اس سارے کارخانہ کا کوئی خاص مقصد ہو گا۔ پھر جس نے پہلی مرتبہ ایسی عجیب و غریب مخلوقات پیدا کر دی، اس کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے۔

۸ ۔۔۔  یعنی دل و دماغ سے، زبان سے، ہاتھ پاؤں سے، جو کچھ انہوں نے کمائی کی اس کا بدلہ دوزخ کی آگ ہے۔

۹ ۔۔۔ یعنی ایمان کی بدولت اور اس کی روشنی میں حق تعالیٰ مومنین کو مقصد اصلی (جنت) تک پہنچائے گا۔

۱۰ ۔۔۔  ۱: جنتی جنت کی نعمتوں اور خدا کے فضل و احسان کو دیکھ کر "سبحان اللہ" پکاریں گے۔ اور جب خدا سے کچھ مانگنے کی خواہش ہو گی، مثلاً کوئی پرندہ یا پھل دیکھا اور ادھر رغبت ہوئی تو سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ کہیں گے۔ اتنا سنتے ہی فرشتے وہ چیز فوراً حاضر کر دیں گے۔ گویا یہ ہی ایک لفظ تمام دعاؤں کے قائم مقام ہو گا۔ دنیا میں بھی بڑے آدمیوں کے یہاں دستور ہے کہ مہمان اگر کسی چیز کو پسند کر کے صرف تعریف کر دے تو غیور میزبان کوشش کرتا ہے کہ وہ چیز مہمان کے لیے مہیا کرے۔

۲:  جنتی ملاقات کے وقت ایک دوسرے کو سلام کریں گے۔ جیسے دنیا میں مسلمانوں کا دستور ہے، نیز فرشتوں کا جنتیوں کو سلام کرنا، بلکہ خود خداوند رب العزت کی طرف سے تحفہ سلام کا آنا قرآن میں منصوص ہے۔ سَلَامُ، قَوْلًا مِنْ رَّبِّ رَّحِیْمٍ(یس، رکوع ۴، آیت ۵۸) وَالْمَلآَئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ باَبٍ سَلاَمُ، عَلَیکُمْ بِماَ صَبَرّتُمْ (الرعد، رکوع ۳، آیت ٢۴،٢۳)

۳:  جنت میں پہنچ کر جب دنیاوی تفکرات و کدورات کا خاتمہ ہو جائے گا اور محض سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ کہنے پر ہر چیز حسب خواہش ملتی رہے گی تو ان کی ہر دعا کا خاتمہ "اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ" پر ہو گا اور طبعاً ایسا ہی ہونا چاہیے۔

۱۱ ۔۔۔  دو آیت پہلے فرمایا تھا جو لوگ غفلت میں پڑے ہیں اور ہمارے ملنے کی امید نہیں رکھتے۔ ان کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ یہاں یہ بتلانا ہے کہ خدا ایسے مجرموں کو دنیا میں فوراً نہیں پکڑتا بلکہ مہلت دیتا ہے۔ حالانکہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ کبھی بے باک و بے حیا بن کر خود اپنے اوپر جلد عذاب آنے کا مطالبہ کرتے ہیں مثلاً کہتے ہیں اَللَّہُمَّ اِنْ کَانَ ہٰذَا ہُوَ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ" (انفال، رکوع ۴، آیت ۳٢) کبھی دنیاوی حوادث سے تنگ آ کر اپنے یا اپنی اولاد وغیرہ کے حق میں بد دعائیں کرنے لگتے ہیں۔ جیسا کہ تجربہ سے ظاہر ہے۔ اب اگر خدا تعالیٰ ان کی درخواست و دعاء کے موافق فوراً ہاتھوں ہاتھ کوئی عذاب یا برائی اس قدر جلد ان کو پہنچا دے جتنی جلد وہ بھلائی کے پہنچنے کی خواہش رکھتے ہیں تو بدی کے وبال سے ایک منٹ بھی فرصت نہ پائیں اور رشتہ حیات اسی وقت منقطع ہو جائے، مگر خدا کے یہاں نیکی و بدی دونوں میں حسب مصلحت تاخیر و تحمل ہوتا ہے، تاکہ نیک لوگ تربیت پائیں اور بدکار غفلت میں پڑے رہ کر پیمانہ شرارت لبریز کر لیں۔

۱۲ ۔۔۔  یعنی انسان اول بے باکی سے خود عذاب طلب کرتا اور برائی اپنی زبان سے مانگتا ہے۔ مگر کمزور اور بودا اتنا ہے کہ جہاں ذرا تکلیف پہنچی گھبرا کر ہمیں پکارنا شروع کر دیا۔ جب تک مصیبت رہی کھڑے، بیٹھے، لیٹے ہر حالت میں خدا کو پکارتا رہا۔ پھر جہاں تکلیف ہٹا لی گئی، سب کہا سنا بھول گیا۔ گویا خدا سے کبھی کوئی واسطہ نہ تھا۔ وہ ہی غرور غفلت کا نشہ، وہ ہی اکڑفوں رہ گئی۔ جس میں پہلے مبتلا تھا۔ حدیث میں ہے کہ تو خدا کو اپنے عیش و آرام میں یاد رکھ، خدا تجھ کو تیری سختی اور مصیبت میں یاد رکھے گا۔ مومن کی شان یہ ہے کہ کسی وقت خدا کو نہ بھولے۔ سختی پر صبر اور فراخی پر خدا کا شکر ادا کرتا رہے۔ یہ ہی وہ چیز ہے جس کی توفیق مومن کے سوا کسی کو نہیں ملتی۔

۱۳ ۔۔۔ یعنی اگر ان کی درخواست کے موافق جلدی عذاب نہ آئے یا تکلیف و مصیبت آ کر ٹل جائے تو بے فکر نہیں ہونا چاہیے۔ ظلم و شرارت اور بے ایمانی کی سزا جلد یا بدیر مل کر رہے گی۔ سنت اللہ قدیم سے یہ ہی ہے کہ جب لوگ انبیاء و مرسلین کے کھلے نشان دیکھنے کے بعد بھی ظلم و تکذیب پر کمر بستہ رہے اور کسی طرح ایمان و تسلیم کی طرف نہ جھکے تو آسمانی عذاب نے ان کو ہلاک کر ڈالا۔ ہمیشہ مجرموں کو کسی نہ کسی رنگ میں سزا ملتی رہی۔

۱۴ ۔۔۔ یعنی پہلوں کی جگہ اب تم کو زمین پر بسایا تاکہ دیکھا جائے کہ تم کہاں تک خالق و مخلوق کے حقوق پہچانتے ہو۔ اور خدا کے پیغمبروں کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہو۔ نیک و بد جیسے عمل کرو گے اسی کے مناسب تم سے برتاؤ کیا جائے گا۔ آگے اس معاملہ کا ذکر ہے جو قرآن کریم یا پیغمبر علیہ السلام یا خداوند قدوس کے ساتھ انہوں نے کیا۔

۱۵ ۔۔۔  قرآن کی عام پند و نصیحت تو بہت سے پسند کرتے لیکن بت پرستی یا ان کے مخصوص عقائد و رسوم کا رد ہوتا تو وحشت کھاتے اور ناک بھوں چڑھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کہتے کہ اپنے خدا سے کہہ کر یا تو دوسرا قرآن لے آئیے جس میں یہ مضامین نہ ہوں اور اگر یہ ہی قرآن رہے تو اتنے حصہ میں ترمیم کر دیجئے جو بت پرستی وغیرہ سے متعلق ہے۔ جن لوگوں نے پتھر کی مورتیوں پر خدائی اختیارات تقسیم کر رکھے تھے، ان کی ذہنیت سے کچھ مستبعد نہیں کہ ایک پیغمبر کو اس طرح کے تصرفات و اختیارات کا مالک فرض کر لیں۔ یا یہ کہنا بھی محض الزام و استہزاء کے طور پر ہو گا۔ بہرحال اس کا تحقیقی جواب آگے مذکور ہے۔

۲:  یعنی کسی فرشتہ یا پیغمبر کا یہ کام نہیں کہ اپنی طرف سے کلامِ الٰہی میں ترمیم کر کے ایک شوشہ بھی تبدیل کر سکے۔ پیغمبر کا فرض یہ ہے کہ جو وحی خدا کی طرف سے آئے بلا کم و کاست اس کے حکم کے موافق چلتا رہے۔ وہ خدا کی وحی کا تابع ہوتا ہے۔ خدا اُس کا تابع نہیں ہوتا کہ جیسا کلام تم چاہو، خدا کے یہاں سے لا کر پیش کر دے۔ وحی الٰہی میں ادنیٰ سے ادنیٰ تصرف اور قطع و برید کرنا بڑی بھاری معصیت ہے، پھر جو معصوم بندے سب سے زیادہ خدا کا ڈر رکھتے ہیں (انبیاء علیہم السلام) وہ ایسی معصیت و نافرمانی کے قریب کہاں جا سکتے ہیں۔ "اِنِّی اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّی عَذَابَ یَومٍ عَظِیمٍ۔" میں گویا ان بیہودہ فرمائش کرنے والوں پر تعریض ہو گئی کہ ایسی سخت نافرمانی کرتے ہوئے تم کو بڑے دن کے عذاب سے ڈرنا چاہیے۔

۱۶ ۔۔۔   یعنی جو خدا چاہتا ہے وہ ہی تمہارے سامنے پڑھتا ہوں اور جتنا وہ چاہتا ہے میرے ذریعہ سے تم کو خبردار کرتا ہے۔ اگر وہ اس کے خلاف چاہتا تو میری کیا طاقت تھی کہ خود اپنی طرف سے ایک کلام بنا کر اس کی طرف منسوب کر دیتا۔ آخر میری عمر کے چالیس سال تمہاری آنکھوں کے سامنے گزرے۔ اس قدر طویل مدت میں تم کو میرے حالات کے متعلق ہر قسم کا تجربہ ہو چکا۔ میرا صدق و عفاف، امانت و دیانت وغیرہ اخلاق حسنہ تم میں ضرب المثل رہے۔ میرا اُمّی ہونا اور کسی ظاہری معلم کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہ کرنا ایک معروف و مسلم واقعہ ہے۔ پھر چالیس برس تک جس نے نہ کوئی قصیدہ لکھا ہو، نہ مشاعروں میں شریک ہوا ہو، نہ کبھی کتاب کھولی ہو نہ قلم ہاتھ میں لیا ہو، نہ کسی درسگاہ میں بیٹھا ہو دفعتاً ایسا کلام بنا لائے جو اپنی فصاحت و بلاغت، شوکت و جزالت، جدّت اسلوب اور سلاست و روانی سے جن و انس کو عاجز کر دے۔ اس کے علوم و حقائق کے سامنے تمام دنیا کے معارف ماند پڑ جائیں۔ ایسا مکمل اور عالمگیر قانون ہدایت نوع انسان کے ہاتھوں میں پہنچائے جس کے آگے سب پچھلے قانون ردی ہو جائیں۔ بڑی بڑی قوموں اور ملکوں کے مردہ قالب میں روح تازہ پھونک کر ابدی حیات اور نئی زندگی کا سامان بہم پہنچائے۔ یہ بات کس کی سمجھ میں آ سکتی ہے۔ تم کو سوچنا چاہیے کہ جس پاک سرشت انسان نے چالیس برس تک کسی انسان پر جھوٹ نہ لگایا ہو، کیا وہ ایک دم ایسی جسارت کر سکتا ہے کہ معاذ اللہ خداوند قدوس پر جھوٹ باندھنے اور افتراء کرنے لگے؟ ناچار ماننا پڑے گا کہ جو کلام الٰہی تم کو سناتا ہوں، اس کے بنانے یا پہنچانے میں مجھے اصلاً اختیار نہیں۔ خدا جو کچھ چاہتا ہے میری زبان سے تم کو سناتا ہے۔ ایک نقطہ یا زیر زبر تبدیل کرنے کا کسی مخلوق کو حق حاصل نہیں۔

۱۷ ۔۔۔ یعنی گنہگاروں اور مجرموں کو حقیقی کامیابی اور بھلائی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اب تم خود فیصلہ کر لو کہ ظالم و مجرم کون ہے اگر (بفرضِ محال) میں جھوٹ بنا کر خدا کی طرف منسوب کرتا ہوں تو مجھ سا ظالم کوئی نہیں ہو سکتا۔ لیکن گذشتہ آیت میں جو دلیل بیان کی گئی اس سے ثابت ہو چکا کہ یہ احتمال بالکل باطل ہے۔ پس جب میرا سچا ہونا ثابت ہے اور تم جہل یا عناد سے خدا کے کلام کو جھٹلا رہے ہو تو اب زمین کے پردہ پر تم سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہو سکتا۔

۱۸ ۔۔۔  ۱: وہ معاملہ تو خدا اور پیغمبر کے ساتھ تھا۔ اب ان کی خدا پرستی کا حال سنیے کہ خدا کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جن کے قبضہ قدرت میں نفع و ضرر کچھ بھی نہیں۔ جب پوچھا جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ بیشک بڑا خدا تو ایک ہے جس نے آسمان زمین پیدا کیے مگر ان اصنام (بتوں) وغیرہ کو خوش رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ یہ سفارش کر کے بڑے خدا سے دنیا میں ہمارے اہم کام درست کرا دیں گے اور اگر موت کے بعد دوسری زندگی کا سلسلہ ہوا تو وہاں بھی ہماری سفارش کریں گے باقی چھوٹے موٹے کام جو خود ان کے حدود اختیار میں ہیں ان کا تعلق تو صرف ان ہی سے ہے۔ بناء ً علیہ ہم کو ان کی عبادت کرنی چاہیے۔

۲: یعنی بتوں کا شفیع ہونا اور شفیع کا مستحق عبادت ہونا دونوں دعوے غلط اور بے اصل ہیں اور ظاہر ہے کہ خدا کے علم میں وہ ہی چیز ہو گی جو واقعی ہو۔ لہٰذا تعلیم الٰہی کے خلاف ان غیر واقعی اور خود تراشیدہ اصول کو حق بجانب ثابت کرنا گویا خدا تعالیٰ کو ایسی چیزوں کے واقعی ہونے کی خبر دینا ہے جن کا وقوع آسمان و زمین میں کہیں بھی اسے معلوم نہیں یعنی کہیں ان کا وجود نہیں۔ ہوتا تو اس کے علم میں ضرور ہوتا۔ پھر اس سے منع کیوں کرتا۔

۱۹ ۔۔۔ ممکن تھا مشرکین کہتے کہ خدا نے تمہارے دین میں منع کیا ہو گا ہمارے دین میں منع نہیں کیا۔ اس کا جواب دے دیا کہ اللہ کا دین ہمیشہ سے ایک ہے۔ اعتقاداتِ حقّہ میں کوئی فرق نہیں۔ درمیان میں جب لوگ بہک کر جدا جدا ہو گئے۔ خدا نے ان کے سمجھانے اور دین حق پر لانے کو انبیاء بھیجے۔ کسی زمانہ اور کسی ملت میں خدا نے شرک کو جائز نہیں رکھا باقی لوگوں کے باہمی اختلافات کو زبردستی اس لیے نہیں مٹایا گیا کہ پہلے سے خدا کے علم میں یہ بات طے شدہ تھی کہ یہ دنیا دارِ عمل (موقع واردات) ہے۔ قطعی اور آخری فیصلہ کی جگہ نہیں۔ یہاں انسانوں کو کسب و اختیار دے کر قدرے آزاد چھوڑا گیا ہے کہ وہ جو راہِ عمل چاہیں اختیار کریں۔ اگر یہ بات پیشتر طے نہ ہو چکی ہوتی تو سارے اختلافات کا فیصلہ ایک دم کر دیا جاتا۔

۲۰ ۔۔۔  یعنی جن نشانیوں کی وہ فرمائش کرتے تھے، ان میں سے کوئی نشانی کیوں نہ اتری؟ جواب کا حاصل یہ ہے کہ صداقت کے نشان پہلے بہتیرے دیکھ چکے ہو۔ فرمائشی نشان دکھلانا ضروری نہیں نہ چنداں مفید ہے۔ آئندہ جو خدا کی مصلحت ہو گی وہ نشان دکھلائے گا۔ اس کا علم خدا ہی کو ہے کہ مستقبل میں کس شان اور نوعیت کے نشان ظاہر کرے گا۔ سو تم منتظر رہو، ہم بھی انتظار کرتے ہیں۔ "موضح القرآن" میں ہے۔ "یعنی اگر کہیں کہ ہم کا ہے سے جانیں کہ تمہاری بات سچ ہے، فرمایا کہ آگے دیکھو حق تعالیٰ اس دین کو روشن کرے گا اور مخالف ذلیل ہوں گے برباد ہو جائیں گے سو ویسا ہی ہوا۔ سچ کی نشانی ایک بار کافی ہے اور ہر بار مخالف ذلیل ہوں تو فیصلہ ہو جائے۔ حالانکہ فیصلے کا دن دنیا میں نہیں۔

۲۱ ۔۔۔  اہل مکہ پر حق تعالیٰ نے سات سال کا قحط مسلط کیا۔ جب ہلاکت کے قریب پہنچ گئے تو گھبرا کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے دعاء کی درخواست کی اور وعدہ کیا کہ یہ عذاب اٹھ جائے تو ہم ایمان لے آئیں گے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعاء سے خدا نے سماں کر دیا، قحط کی بلاء دور ہوئی تو پھر وہی شرارتیں کرنے لگے، خدا کی آیتوں کو جھٹلاتے اور اس کی قدرت و رحمت پر نظر نہ رکھتے۔ بلکہ انعامات الٰہیہ کو ظاہری اسباب و حیل اور محض بے اصل خیالات و اوہام کی طرف نسبت کرنے لگتے۔ اس کا جواب دیا کہ اچھا تم خوب مکر و فریب اور حیلہ بازی کر لو۔ مگر یہ یاد رہے کہ تمہاری حیلہ بازیاں ایک ایک کر کے لکھی جا رہی ہیں۔ وہ سارا دفتر قیامت کے دن تمہارے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ پھر جب تمہاری کوئی حیلہ بازی فرشتوں سے مخفی نہیں، خدا کے علم محیط سے کہاں باہر رہ سکتی ہے۔ تم اپنے مکر و حیلہ سازی پر مغرور ہو، حالانکہ خدا کا جوابی مکر (تدبیر خفی) تمہارے مکر و تدبیر سے کہیں تیز اور سریع الاثر ہے وہ مجرم کی باگ اتنی ڈھیلی چھوڑ دیتا ہے کہ مجرم کو نشہ غفلت میں چور ہو کر سزا کا تصور بھی نہیں آتا۔ جب پیمانہ شقاوت لبریز ہو جاتا ہے تو دفعتاً پکڑ کر ٹینٹوا دبا دیتا ہے۔ لہٰذا عاقل کو چاہیے کہ خدا کی نرمی، بردباری اور خوش کن حالات کو دیکھ کر مغرور نہ ہو، نہ معلوم نرمی کے بعد کیسی سخت آنے والی ہے۔ جیسے آگے بحری سفر کی مثال میں بیان فرمایا۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ "سختی کے وقت آدمی کی نظر اسباب سے اٹھ کر صرف اللہ پر رہتی ہے، جہاں سخت گھڑی گزری اور کام بن گیا پھر خدا کو بھول کر اسباب پر آ رہتا ہے۔ ڈرتا نہیں کہ خدا پھر ویسی ہی تکلیف اور سختی کا ایک سبب کھڑا کر دے۔ اسی کے ہاتھ میں سب اسباب کی باگ ہے۔ چنانچہ آگے دریائی سفر کی مثال میں اس کی ایک صورت بیان فرمائی۔

۲۳ ۔۔۔  ۱: یعنی ابتداء میں ہوا خوشگوار اور موافق تھی۔ مسافر ہنستے کھیلتے آرام سے چلے جا رہے تھے کہ یکایک ایک زور کا طوفانی جھکڑ چلنے لگا اور چاروں طرف سے پانی کے پہاڑ اُٹھ کر کشتی (یا جہاز) سے ٹکرانے لگے۔ جب سمجھ لیا کہ ہر طرف سے موت کے منہ میں گھِرے ہوئے ہیں۔ بھاگنے اور نکلنے کی کوئی سبیل نہیں، تو سارے فرضی معبودوں کو چھوڑ کر خدائے واحد کو پکارنے لگے جو اصل فطرت انسانی کا تقاضا تھا، ہر چیز سے مایوس ہو کر خالص خدا کی بندگی اختیار کی اور بڑے پکے عہد و پیمان باندھے کہ اگر مصیبت سے خدا نے نجات دی تو ہمیشہ اس کے شکر گذار رہیں گے۔ کوئی بات کفرانِ نعمت کی نہ کریں گے لیکن جہاں ذرا امن نصیب ہوا ساحل پر قدم رکھتے ہی شرارتیں اور ملک میں اودھم مچانا شروع کر دیا، تھوڑی دیر بھی عہد پر قائم نہ رہے۔ (تنبیہ) اس آیت میں ان مدعیانِ اسلام کے لیے بڑی عبرت ہے جو جہاز کے طوفان میں گھِر جانے کے وقت بھی خدائے واحد کو چھوڑ کر غیر اللہ کو مدد کے لیے پکارتے ہیں۔ فتح مکہ کے بعد ابوجہل کا بیٹا عکرمہ مسلمان نہ ہوا تھا۔ مکہ سے بھاگ کر بحری سفر اختیار کیا۔ تھوڑی دور جا کر کشتی کو طوفانی ہواؤں نے گھیر لیا، ناخدا نے مسافروں سے کہا کہ ایک خدا کو پکارو۔ یہاں تمہارے معبود کچھ کام نہ دیں گے۔ عکرمہ نے کہا کہ یہ ہی تو وہ خدا ہے جس کی طرف محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) ہم کو بلاتے ہیں۔ اگر دریا میں رب محمد کے بدون نجات نہیں مل سکتی تو خشکی میں بھی اس کی دستگیری اور اعانت کے بغیر نجات پانا محال ہے۔ اے خدا! اگر تو نے اس مصیبت سے نکال دیا تو میں واپس ہو کر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں ہاتھ دوں گا۔ مجھے امید ہے کہ وہ اپنے اخلاق کریمہ سے میری تقصیرات کو معاف فرمائیں گے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مشرف با اسلام ہوئے۔ رضی اللہ عنہ۔

۲:  یعنی تمہاری شرارت کا وبال تمہیں پڑے گا۔ اگر چند روز شرارتیں کر کے فرض کرو کچھ دنیا کا نفع حاصل کر ہی لیا تو انجام کار پھر خدا کی طرف لوٹنا ہے۔ وہاں تمہارا سب کیا دھرا آگے آئے گا۔ خداوند رب العزت سزا دے کر بتلا دے گا کہ تمہارے کرتوت کیسے تھے۔

۲۴ ۔۔۔  ۱: بعض نے فَاخْتَلَطَ بِہٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ کے معنی کثرت پیداوار کے لیے ہیں۔ کیونکہ جب زمین کی پیداوار زیادہ قوی ہوتی ہے تو گنجان ہو کر ایک جز دوسرے سے مل جاتا اور لپٹ جاتا ہے۔ بعض نے "بہ" کی "ب" کو مصاحبت کے لیے لے کر یہ معنی کیے ہیں کہ زمین کا سبزہ پانی کے ساتھ رل مل جاتا ہے۔ کیونکہ نباتات اجزائے مائیہ کو اپنے اندر جذب کرتے ہیں، جس طرح کھانا انسان کا جزو بدن بنتا ہے۔ ایسے ہی پانی، گویا نباتات کی غذا بنتی ہے۔ مترجم رحمۃ اللہ کے صنیع سے مترشح ہوتا ہے کہ اختلاط سے یہ مراد لے رہے ہیں کہ زمین اور پانی کے ملنے سے جو سبزہ نکلتا ہے اس میں آدمی کی اور جانوروں کی خوراک مخلوط (رلی ملی) ہوتی ہے۔ مثلاً گیہوں کے درخت میں دانہ ہے جو انسان کی غذا بنتی ہے اور بھوسہ بھی ہے جو جانوروں کی خوراک ہے۔ اسی طرح درختوں میں پھل اور پتے لگتے ہیں جن میں سے ہر ایک کے کھانے والے علیحدہ ہیں۔

۲:  یعنی مختلف الوان و اشکال کی نباتات میں زمین کو پر رونق اور مزین کر دیا اور کھیتی وغیرہ ایسی تیار ہو گئی کہ مالکوں کو کامل بھروسہ ہو گیا کہ اب اس سے پورا فائدہ اٹھانے کا وقت آگیا ہے۔

۳:  یعنی ناگہاں خدا کے حکم سے دن میں یا رات میں کوئی آفت پہنچی (مثلاً بگولا آگیا، یا اولے پڑ گئے یا ٹڈی دل پہنچ گیا۔ و علیٰ ہذا القیاس) اس نے تمام زراعت کا ایسا صفایا کر ڈالا، گویا کبھی یہاں ایک تنکا بھی نہ اُگا تھا۔ ٹھیک اسی طرح حیات دنیا کی مثال سمجھ لو کہ خواہ کتنی ہی حسین و تر و تازہ نظر آئے، حتی کہ بیوقوف لوگ اس کی رونق و دلربائی پر مفتون ہو کر اصلی حقیقت کو فراموش کر دیں لیکن اس کی یہ شادابی اور زینت و بہجت محض چندہ روزہ ہے جو بہت جلد زوال و فناء کے ہاتھوں نسیًا منسیًا ہو جائے گی۔ حضرت شاہ صاحب نے اس مثال کو نہایت لطیف طرز میں خاص انسانی حیات پر منطبق کیا ہے یعنی پانی کی طرح روح آسمان (عالم بالا) سے آئی، کالبد خاکی میں مل کر قوت پکڑی، دونوں کے ملنے سے آدمی بنا، پھر کام کیے انسانی اور حیوانی دونوں طرح کے۔ جب ہر ہنر میں پورا ہوا اور اس کے متعلقین کو اس پر بھروسہ ہو گیا، ناگہاں موت آ پہنچی۔ جس نے ایک دم میں سارا بنا بنایا کھیل ختم کر دیا۔ پھر ایسا بے نام نشان ہوا گویا کبھی زمین پر آباد ہی نہ ہوا تھا (فائدہ) لَیْلاً اَوْنَہَاراً (رات کو یا دن کو) شاید اس لیے فرمایا کہ رات کا وقت غفلت کا ہے اور دن میں لوگ عموماً بیدار ہوتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب خدا کا حکم آ پہنچے، پھر سوتا ہو یا جاگتا، غافل ہو یا بیدار کوئی شخص کسی حالت میں اس کو روک نہیں سکتا۔

۲۵ ۔۔۔   یعنی دنیا کی زائل و فانی زندگی پر مت ریجھو۔ دار السلام (جنت) کی طرف آؤ۔ خدا تم کو سلامتی کے گھر کی طرف بلا رہا ہے اور وہاں تک پہنچنے کا راستہ بھی دکھلاتا رہا ہے۔ وہ ہی گھر ہے جہاں کے رہنے والے ہر قسم کے رنج و غم، پریشانی، تکلیف، نقصان، آفت اور فنا و زوال وغیرہ سے صحیح و سالم رہیں گے۔ فرشتے ان کو سلام کریں گے۔ خود رب العزّت کی طرف سے تحفہ سلام پہنچے گا۔

۲۶ ۔۔۔  ۱: بھلے کام کرنے والوں کو وہاں بھلی جگہ ملے گی (یعنی جنت) اور اس سے زیادہ بھی کچھ ملے گا۔ یعنی حق تعالیٰ کی رضاء اور اس کا دیدار "زیادۃ" کی تفسیر "دیدار مبارک" سے کئی احادیث صحیحہ میں وارد ہوئی ہے اور بہت سے صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم سے منقول ہے۔ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت پڑھی اور فرمایا کہ جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہو چکیں گے تو ایک پکارنے والا پکارے گا "اے اہل جنت! تمہارے لیے ایک وعدہ خدا کا باقی ہے جو اب پورا کرنا چاہتا ہے۔ جنتی کہیں گے کہ وہ کیا ہے؟ کیا خدا نے اپنے فضل سے ہماری حسنات کا پلہ بھاری نہیں کر دیا۔ کیا اس نے ہمارے چہروں کو سفید اور نورانی نہیں بنایا؟ کیا اس نے ہم کو دوزخ سے بچا کر جنت جیسے مقام میں نہیں پہنچایا؟ (یہ سب کچھ تو ہو چکا، آگے کون سی چیز باقی رہی) اس پر حجاب اٹھا دیا جائے گا۔ اور جنتی حق تعالیٰ کی طرف نظر کریں گے۔ پس خدا کی قسم کوئی نعمت جو ان کو عطا ہوئی ہے دولت دیدار سے زیادہ محبوب نہ ہو گی نہ اس سے بڑھ کر کوئی چیز ان کی آنکھیں ٹھنڈی کر سکے گی۔ رزقنا اللہ سبحانہ، وتعالیٰ بمنہ وفضلہ۔

۲: یعنی عرصاتِ محشر میں جو جس طرح کفار فجار کے چہروں پر سخت ذلت و ظلمت چھائی ہو گی۔ جنتیوں کے چہرے اس کے خلاف ہوں گے۔ سیاہی اور رسوائی کیسی وہاں تو نور ہی نور اور رونق ہی رونق ہو گی۔

۲۷ ۔۔۔ ۱:   یعنی ہدی سے زائد نہ ہو گا۔ کم سزا دیں یا بعض برائیوں کو بالکل معاف کر دیں ان کو اختیار ہے۔

۲:  یعنی ان کے چہرے اس قدر سیاہ و تاریک ہوں گے گویا اندھیری رات کی تہیں ان پر جما دی گئی ہیں (اعاذنا اللہ منہا)

۲۸ ۔۔۔  یعنی جن کو تم نے اپنے خیال میں خدا کا شریک ٹھہرا رکھا تھا، یا جن کو خدا کے بیٹے بیٹیاں کہتے تھے، مثلاً مسیح علیہ السلام جو نصاریٰ کے نزدیک "ابن اللہ" بلکہ "عین اللہ" تھے یا " ملائکۃﷲ" یا"احبارو رُہبان" کہ انہیں بھی ایک حیثیت سے خدائی کا منصب دے رکھا تھا، یا اصنام و اوثان جن پر مشرکین مکہ نے خدائی کے اختیارات تقسیم کر رکھے تھے، سب کو حسب مراتب اپنی اپنی جگہ کھڑے ہونے کا حکم ہو گا۔

۲۹ ۔۔۔  یعنی اسی وقت عجیب افراتفری اور نفسی نفسی ہو گی۔ عابدین و معبودین میں جدائی پڑ جائے گی اور دنیا میں اپنے اوہام و خیالات کے موافق جو رشتے جوڑ رکھے تھے، سب توڑ دیے جائیں گے۔ اس ہولناک وقت میں جبکہ مشرکین کو اپنے فرضی معبودوں سے بہت کچھ توقعات تھیں، وہ صاف جواب دے دیں گے کہ تمہارا ہم سے کیا تعلق۔ تم جھوٹ بکتے ہو کہ ہماری بندگی کرتے تھے (تم اپنے عقیدہ کے موافق جس چیز کو پوجتے تھے اس کے لیے وہ خدائی صفات تجویز کرتے تھے، جو فی الواقع اس میں موجود نہیں تھیں تو حقیقت میں وہ عبادت اور بندگی واقعی "مسیح" یا "ملائکہ" کی نہ ہوئی اور نہ حقیقت میں بے جان مورتیوں کی پوجا تھی۔ محض اپنے خیال اور وہم یا شیطان لعین کی پرستش کو فرشتے یا نبی یا نیک انسان یا کسی تصویر وغیرہ کے نامزد کر دیتے تھے) خدا گواہ ہے کہ ہماری رضاء یا اذن سے تم نے یہ حرکت نہیں کی۔ ہم کو کیا خبر تھی کہ انتہائی حماقت و سفاہت سے خدا کے مقابلہ میں ہمیں معبود بنا ڈالو گے۔ (تنبیہ) یہ گفتگو اگر حضرت "مسیح" وغیرہ ذوی العقول مخلوق کی طرف سے مانی جائے تو کوئی اشکال نہیں۔ اور "اصنام" (بتوں) کی جانب سے ہو تو کچھ بعید نہیں کہ حق تعالیٰ مشرکین کی انتہائی مایوسی اور حسرت ناک درماندگی کے اظہار کے لیے اپنی قدرت کاملہ سے پتھر کی مورتیوں کو گویا کر دے۔ "قَالُوا اَنْطَقَنَا اللّٰہُ الَّذِیْ اَنْطَقَ کُلَّ شَیْء" (حم السجدہ، رکوع ۳ آیت ٢۱)

۳۰ ۔۔۔  یعنی جھوٹے اور بے اصل توہمات سب رفو چکر ہو جائیں گے۔ ہر شخص بہ رائ العین مشاہدہ کر لے گا کہ اس سچے مالک کے سوا رجوع کرنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ اور ہر ایک انسان کو اپنے تمام برے بھلے اعمال کا اندازہ ہو جائے گا کہ کتنا وزن رکھتے ہیں۔

۳۱ ۔۔۔   ۱:آسمان کی طرف سے بارش اور حرارتِ شمس وغیرہ پہنچتی ہے اور زمینی مواد اس کے ساتھ ملتے ہیں تب انسان کی روزی مہیا ہوتی ہے۔

۲:  یعنی ایسے عجیب و غریب محیر العقول طریقہ سے کس نے کان اور آنکھ پیدا کی۔ پھر ان کی حفاظت کا سامان کیا۔ کون ہے جو ان تمام قوائے انسانی کا حقیقی مالک ہے کہ جب چاہے عطا فرما دے اور جب چاہے چھین لے۔

۳: مثلاً "نطفہ” یا "بیضہ" سے جاندار کو، پھر جاندار سے نطفہ اور بیضہ کو نکالتا ہے۔ یا روحانی اور معنوی طور پر جو شخص یا قوم مردہ ہو چکی اس میں سے زندہ دل افراد پیدا کرتا ہے اور زندہ قوموں کے اخلاف پر ان کی بدبختی سے موت طاری کر دیتا ہے۔

۴:  یعنی دنیا کے تمام کاموں کی تدبیر و انتظام کون کرتا ہے۔

۳۲ ۔۔۔  مشرکین کو بھی اعتراف تھا کہ یہ امور کلیہ اور عظیم الشان کام اللہ کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔ اس لیے فرمایا کہ جب اصل خالق و مالک اور تمام عالم کا مدبر اسی کو مانتے ہو، پھر ڈرتے نہیں کہ اس کے سوا دوسروں کو معبود بناؤ۔ معبود تو وہ ہی ہونا چاہیے، جو خالق کل، مالک الملک، رب مطلق اور تصرف علی الاطلاق ہو۔ اس کا اقرار کر کے کہاں الٹے پاؤں واپس جا رہے ہو۔ جب سچا وہ ہی ہے تو سچ کے بعد بجز جھوٹ کے کیا رہ گیا۔ سچ کو چھوڑ کر جھوٹے اوہام میں بھٹکنا عاقل کا کام نہیں ہو سکتا۔

۳۳ ۔۔۔ یعنی اللہ نے ازل سے ان متمرد سرکشوں کی قسمت میں ایمان نہیں لکھا۔ جس کا سبب علم الٰہی میں ان کی سرکشی اور نافرمانی ہے۔ اس طرح خدا کی لکھی ہوئی بات ان پر فسق و نافرمانی کی وجہ سے راست آئی۔

۳۴ ۔۔۔  یہاں تک "مبدأ" کا ثبوت تھا۔ اب "معاد" کا ذکر ہے۔ یعنی جب اعتراف کر چکے کہ زمین، آسمان، سمع و بصر، موت و حیات، سب کا پیدا کرنے والا اور تھامنے والا وہ ہی ہے تو ظاہر ہے کہ مخلوق کو مرنے کے بعد دوبارہ پیدا کرنا اور دوہرا دینا بھی اسی کا فعل ہو سکتا ہے پھر انبیاء علیہم السلام کی زبانی جب وہ خود اس دہرانے کی خبر دیتا ہے تو اس کی تسلیم میں کیا عذر ہے "مبدأ" کا اقرار کر کے "معاد" کی طرف سے کہاں پلٹے جاتے ہو۔

۳۵ ۔۔۔  "مبدأ" و "معاد" کے بعد درمیانی وسائط کا ذکر کرتے ہیں۔ یعنی جس طرح اول پیدا کرنے والا اور دوبارہ چلانے والا وہ ہی خدا ہے، ایسے ہی "معاد" کی صحیح راہ بتلانے والا بھی کوئی دوسرا نہیں۔ خدا ہی بندوں کی صحیح اور سچی راہنمائی کر سکتا ہے۔ مخلوق میں کوئی بڑا ہو یا چھوٹا، سب اسی کی راہنمائی کے محتاج ہیں۔ اسی کی ہدایت و راہنمائی پر سب کو چلنا چاہئے۔ بت مسکین تو کس شمار میں ہیں جو کسی کی راہنمائی سے بھی چلنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ بڑے بڑے مقربین (انبیاء و ملائکہ علیہم السلام) بھی برابر یہ اقرار کرتے آئے ہیں کہ خدا کی ہدایت و دستگیری کے بدون ہم ایک قدم نہیں اٹھا سکتے۔ ان کی راہنمائی بھی اسی لیے بندوں کے حق میں قابل قبول ہے کہ خدا بلاواسطہ ان کی راہنمائی فرماتا ہے۔ پھر یہ کس قدر نا انصافی ہے کہ انسان اس ہادئ مطلق کو چھوڑ کر باطل اور کمزور سہارے ڈھونڈے یا مثلاً احبار و رہبان، برہمنوں اور مہنتوں کی راہنمائی پر اندھا دھند چلنے لگے۔

۳۶ ۔۔۔  جب معلوم ہو چکا کہ "مبدی"، "معید" اور "ہادی" وہ ہی اللہ ہے تو اس کے خلاف شرک کی راہ اختیار کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کے ہاتھ میں کون سی دلیل و برہان ہے جس کی بناء پر "توحید" کے مسلک قویم و قدیم کو چھوڑ کر ضلالت کے گڑھے میں گرے جا رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے پاس سوائے ظنون و اوہام اور اٹکل پچو باتوں کے کوئی چیز نہیں۔ بھلا اٹکل کے تیر حق و صداقت کی بحث میں کیا کام دے سکتے ہیں۔

۳۷ ۔۔۔   ۱: پچھلی آیات میں فرمایا تھا کہ مشرکین محض ظن و تخمین کی پیروی کرتے ہیں۔ حالانکہ پیروی کے قابل اس کی بات ہے جو صحیح راستہ بتلائے۔ اسی مناسبت سے یہاں قرآن کریم کا ذکر شروع کیا کہ آج دنیا میں وہی ایک کتاب صحیح راستہ بتلانے والی اور ظنون و اوہام کے مقابلہ میں سچ حقائق پیش کرنے والی ہے۔ اس کے علوم و معارف، احکام و قوانین اور معجزانہ فصاحت و جزالت پر نظر کر کے کہنا پڑتا ہے کہ یہ قرآن وہ کتاب نہیں جو خداوند قدوس کے سوا کوئی دوسرا شخص بنا کر پیش کر سکے۔ پورا قرآن تو بجائے خود رہا اس کی ایک سورت کا مثل لانے سے بھی تمام جن و انس عاجز ہیں جیسا کہ آگے آتا ہے۔

۲:  قرآن کا کلام الٰہی ہونا اس سے ظاہر ہے کہ وہ تمام کتب سماویہ سابقہ کی سچائی پر مہر تصدیق ثبت کرتا، ان کے اصل مضامین کی حفاظت اور ان کی پیشین گوئیوں کی صداقت کا اعلانیہ اظہار کرتا ہے۔

۳: یعنی احکام الٰہیہ اور ان حقائق و معارف کو جو پچھلی کتابوں میں نہایت اجمالی طور پر مذکور تھیں کافی تفصیل سے بیان کرتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کتاب میں عاقل کے لیے شک و شبہ کی قطعاً گنجائش نہیں۔ ایسا جامع، بلیغ، پر حکمت اور نور صداقت سے بھرا ہوا کلام رب العالمین ہی کا ہو سکتا ہے۔

۳۸ ۔۔۔  یعنی اگر میں بنا لایا ہوں تو تم بھی میری طرح بشر ہو سب مل کر ایک سورت جیسی سورت بنا لاؤ۔ ساری مخلوق کو دعوت دو، جن و انس کو جمع کر لو، تمام جہان کے فصیح و بلیغ، پڑھے لکھے اور اَن پڑھ اکٹھے ہو کر ایک چھوٹا سا کلام قرآن کی مانند پیش کر دو تو سمجھ لیا جائے گا کہ قرآن بھی کسی بشر کا کلام ہے جس کا مثل دوسرے لوگ لا سکتے ہیں۔ مگر محال ہے کہ ابدالآباد تک کوئی مخلوق ایسا حوصلہ کر سکے۔ قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جس میں تہذیب اخلاق، تمدن و معاشرت، حکومت و سیاست، معرفت و روحانیت، تزکیہ نفوس، تنویرِ قلوب، غرضیکہ وصول الی اللہ اور تنظیم و رفاہیۃ خلائق کے وہ تمام قوانین و طریق موجود ہیں، جن سے آفرینشِ عالم کی غرض پوری ہوتی ہے۔ اور جن کی ترتیب و تدوین کی ایک امی قوم کے امی فرد سے کبھی امید نہیں ہو سکتی تھی۔ پھر ان تمام علوم و ہدایات کا تکفل کرنے کے ساتھ اس کتاب کی غلغلہ انداز فصاحت و بلاغت، جامع و موثر اور دلربا طرز بیان، دریا کا سا تموج، سہل ممتنع سلاست و روانی، اسالیب کلام کا تفنن اور اس کی لذت و حلاوت اور شہنشاہانہ شان و شکوہ یہ سب چیزیں ایسی ہیں جنہوں نے بڑے زور و شور اور بلند آہنگی سے سارے جہان کو مقابلہ کا چیلنج دے دیا ہے۔ جس وقت سے قرآن کے جمال جہاں آراء نے غیب کی نقاب الٹی اور اولادِ آدم کو اپنے سے روشناس کیا، اس کا برابر یہ ہی دعویٰ رہا کہ میں خدائے قدوس کا کلام ہوں۔ اور جس طرح خدا کی زمین جیسی زمین، خدا کے سورج جیسا سورج، اور خدا کے آسمان جیسا آسمان پیدا کرنے سے دنیا عاجز ہے، اسی طرح خدا کے قرآن جیسا قرآن بنانے سے بھی دنیا عاجز رہے گی۔ قرآن کے مٹانے کی لوگ سازشیں کریں گے، مکر گانٹھیں گے، مقابلہ کے جوش میں کٹ مریں گے۔ اپنی مدد کے لیے دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو دعوت دیں گے۔ کوئی حیلہ، کوئی تدبیر، کوئی داؤ پیچ اٹھا نہ رکھیں گے، اپنے کو اور دوسروں کو مصیبت میں ڈالیں گے۔ سارے مصائب و دوا ہی کا تحمل ان کے لیے ممکن ہو گا مگر قرآن کی چھوٹی سی سورت کا مثل لانا ممکن نہ ہو گا۔ "قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ اْلِانْسُ وَالْجِنُّ عَلیٰ اَنْ یَّاتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْآنِ لَایَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْکَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا (بنی اسرائیل، رکوع ۱۰، آیت:۸۸)

۳۹ ۔۔۔  ۱: یعنی قرآن کو "مفتریٰ" کہنا سمجھ کر نہیں، محض جہل و سفاہت اور قلت تدبر سے ہے۔ تعصب و عناد انہیں اجازت نہیں دیتا کہ ٹھنڈے دل سے قرآن کے حقائق اور وجوہ اعجاز میں غور کریں۔ بد فہمی یا قوائے فکریہ کے ٹھیک استعمال نہ کرنے کی وجہ سے جب قرآن پاک کے دلائل و عجائب کو پوری طرح نہیں سمجھ سکے، تو جھٹلانا شروع کر دیا۔

۲:  بعض مفسرین نے "تاویل" کے معنی "تفسیر" کے لیے ہیں۔ یعنی مطالب قرآن ان کے دماغ میں نہیں اترے اور بعض نے قرآنی پیشین گوئیاں مراد لی ہیں۔ یعنی تکذیب کی ایک وجہ بعض سادہ لوحوں کے حق میں یہ بھی ہے کہ مستقبل کے متعلق قرآن نے جو خبریں دی ہیں۔ ان کے وقوع کا ابھی وقت نہیں آیا۔ لہٰذا وہ منتظر ہیں کہ ان کا ظہور کب ہوتا ہے۔ مگر سوچنا چاہیے کہ یہ وجہ تکذیب کی کیسے ہو سکتی ہے؟ زائد از زائد توقف کی وجہ ہو تو ہو۔

۴۰ ۔۔۔  یعنی آگے چل کر ان میں کچھ لوگ مسلمان ہونے والے ہیں۔ انہیں چھوڑ کر جو باقی لوگ شرارت پر قائم رہیں گے، خدا سب کو خوب جانتا ہے۔ موقع پر مناسب سزا دے گا۔

۴۱ ۔۔۔  یعنی اگر دلائل و براہین سننے کے بعد بھی یہ لوگ آپ کی تکذیب کریں تو کہہ دیجئے کہ ہم اپنا فرض ادا کر چکے، تم سمجھانے پر نہیں مانتے تو اب میرا تمہارا راستہ الگ الگ ہے۔ تم اپنے عمل کے ذمہ دار ہو میں اپنے عمل کا۔ ہر ایک کو اس کے عمل کا ثمرہ مل کر رہے گا۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ (معاذ اللہ) "اگر اللہ کا حکم غلط پہنچاؤں تو میں گنہگار ہوں، اور میں سچ لاؤں تم نہ مانو تو گناہ تم پر ہے۔ بہرحال ماننے میں کسی طرح تمہارا نقصان نہیں۔

۴۳ ۔۔۔  بعض لوگ بظاہر قرآن شریف اور آپ کا کلام مبارک سنتے ہیں اور آپ کے معجزات و کمالات دیکھتے ہیں مگر دیکھنا سننا وہ نافع ہے جو دل کے کانوں اور دل کی آنکھوں سے ہو۔ یہ آپ کے اختیار میں نہیں کہ آپ دل کے بہروں کو اپنی بات سنا دیں۔ بحالیکہ وہ سخت بہرہ پن کی وجہ سے قطعاً کسی کلام کو نہ سمجھ سکتے ہوں یا دل کے اندھوں کو راہِ حق دکھلا دیں جبکہ انہیں کچھ بھی نہ سوجھتا ہو۔ "موضح القرآن" میں ہے۔ "یعنی کان رکھتے ہیں یا نگاہ کرتے ہیں اس توقع پر کہ آپ ہمارے دل پر تصرف کر دیں جیسا بعضوں پر ہو گیا، سو یہ بات اللہ کے ہاتھ ہے۔ "بعض مفسرین نے لَایَعْقِلُوْنَ سے مطلق عقل کی اور لایبصرون سے بصیرت کی نفی مراد لی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ایسے اندھے، بہرے جو علاوہ نہ سننے اور نہ دیکھنے کے ہر قسم کی سمجھ بوجھ سے محروم ہیں۔ ان کو آپ کس طرح سنا اور دکھا کر منوا سکتے ہیں۔

۴۴ ۔۔۔   یعنی جن کے دل میں اثر نہیں ہوتا، یہ ان ہی کی تقصیر ہے۔ خود اپنی بے اعتدالیوں اور غلط کاریوں سے انہوں نے قوائے ادراکیہ کو تباہ کر لیا ہے۔ ورنہ اصل فطرت سے ہر آدمی کو خدا نے سمجھنے اور قبول کرنے کی استعداد بخشی ہے۔

۴۵ ۔۔۔  ۱: یعنی محشر کے ہولناک اہوال و حوادث کو دیکھ کر عمر بھر کا عیش و آرام اس قدر حقیر و قلیل نظر آئے گا گویا دنیا میں ایک گھڑی سے زیادہ ٹھہرے ہی نہ تھے اور افسوس کریں گے کہ ساری عمر کیسی فضول اور بیکار گزری، جیسے آدمی گھنٹہ دو گھنٹہ یوں ہی گپ شپ میں بیکار گزار دیتا ہے۔ نیز وہاں کی زہرہ گداز مصائب کو دیکھ کر خیال کریں گے کہ گویا دنیا میں کچھ مدت قیام ہی نہ ہوا جو یہ وقت آ لیا۔ گھڑی دو گھڑی ٹھہرے اور یہاں آ پھنسے۔ کاش وہاں کی مدت قیام کچھ طویل ہوتی تو یہ دن اس قدر جلد نہ دیکھنا پڑتا۔ بعض مفسرین نے کہا کہ برزخ (قبر) میں ٹھہرنے کی مدت کو ایک گھڑی کے برابر سمجھیں گے۔ واللہ اعلم۔

۲: مگر کچھ مدد نہ کر سکیں گے نفسی نفسی پڑی ہو گی۔ بھائی بھائی کے اور بیٹا باپ کے کام نہ آئے گا۔ فَلاَ اَنْسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَّلاَ یتَسَآَءَلُوْنَ (المومنون، رکوع ۶، آیت :۱۰۱) یَوْمَ یَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہٖ وَاَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیہِ( عبس، رکوع ۱، آیت:۳۴،۳۵،۳۶)

۳:  باقی جنہوں نے لقاء اللہ کی تصدیق کی اور سیدھی راہ پر چلے وہ سراسر فائدہ میں ہیں۔

۴۶ ۔۔۔  یعنی ہم نے کفار کو عذاب دینے اور اسلام کو غالب و منصور کرنے کے جو وعدے کیے ہیں، خواہ ان میں سے بعض وعدے کسی حد تک آپ کی موجودگی میں پورے کر کے دکھلا دیے جائیں، جیسے "بدر" وغیرہ میں دکھلا دیا۔ یا آپ کی وفات ہو جائے۔ اس لیے آپ کے سامنے ان میں سے بعض کا ظہور نہ ہو۔ بہرصورت یہ یقینی ہے کہ وہ سب پورے ہو کر رہیں گے۔ اگر کسی مصلحت سے دنیا میں ان کفار کو سزا نہ دی گئی تو آخرت میں ملے گی۔ ہم سے بچ کر کہاں بھاگ سکتے ہیں۔ سب کو ہماری طرف لوٹ کر آنا ہے اور ان کے تمام اعمال ہمارے سامنے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ "غلبہ اسلام کچھ حضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے روبرو ہوا، اور باقی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد خلفاء" کے ہاتھوں سے۔ گویا نَتَوَفَّیَنَّکَ میں اس طرف اشارہ ہے۔ واللہ اعلم۔

۴۷ ۔۔۔  پہلے اس امت اور اس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ذکر تھا۔ اب عام اقوام و امم کا ضابطہ بتلاتے ہیں کہ ہر جماعت اور فرقہ کے پاس خدا کے احکام پہنچانے والے بھیجے گئے ہیں جن کو "رسول" کہیے۔ تاکہ خدا کی حجت تمام ہو، اتمام حجت سے پہلے کسی کو عذاب نہیں دیا جاتا۔ لوگ عمل پہلے سے کرتے ہیں۔ مگر دنیا میں ان کو سزا رسول پہنچنے اور حجت تمام کرنے کے بعد دی جاتی ہے۔ خدا کے یہاں یہ ظلم اور اندھیر نہیں کہ بدون پیشتر سے آگاہ کرنے اور ملزم ثابت ہونے کے مجرموں کو فیصلہ سنا دیا جائے۔ قیامت میں بھی باقاعدہ پیشی ہو گی، فرد جرم لگائیں گے، گواہ پیش ہوں گے، ہر قوم کے ساتھ ان کے پیغمبر موجود ہوں گے۔ ان کے بیانات وغیرہ کے بعد نہایت انصاف سے فیصلہ ہو گا۔ "وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّہَا وَوُضِعَ الْکِتٰبُ وَجِایْءَ َ بِا لنَّبِیِّینَ وَالشُّہَدَآءِ وَقُضِیَ بَیْنَہُمْ بِالْحَقِّ وَہُمْ لَایُظْلَمُوْنَ۔" (الزمر، رکوع ۷، آیت:۶۹) مجاہد وغیرہ نے آیت کو قیامت کے احوال پر حمل کیا ہے۔

۴۸ ۔۔۔  یعنی عذاب آنے کی جو دھمکیاں دیتے ہو، محض جھوٹ اور بے اصل ہیں۔ اگر واقعی تم سچے ہو تو لے کیوں نہیں آتے۔ آخر یہ وعدہ کب پورا ہو گا۔

۴۹ ۔۔۔  یعنی عذاب وغیرہ بھیجنا خدا کا کام ہے، میرے قبضہ اور اختیار میں نہیں۔ میں خود اپنے نفع نقصان کا صرف اسی قدر مالک ہوں جتنا اللہ چاہے۔ پھر دوسروں پر کوئی بھلائی برائی وارد کرنے کا مستقل اختیار مجھے کہاں سے ہوتا۔ ہر قوم کی ایک مدت اور میعاد خدا کے علم میں مقرر ہے۔ جب میعاد پوری ہو کر اس کا وقت پہنچ جائے گا، ایک سیکنڈ کا تخلف نہ ہو سکے گا۔ غرض عذاب کے لیے جلدی مچانے سے کچھ فائدہ نہیں۔ خدا کے علم میں جو وقت طے شدہ ہے اس سے ایک منٹ آگے پیچھے نہیں سرک سکتے۔ زمخشری کے نزدیک لَایسْتَأْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَایَسْتَقْدِمُوْنَ اس سے کنایہ ہے کہ عذاب کا اپنے وقت معین پر آنا اٹل ہے۔ کنایہ میں حقیقتِ تقدم و تأخر کا نفیاً یا اثباتاً اعتبار نہیں فتنبہ لہٗ۔

۵۰ ۔۔۔  یعنی رات کو سوتے ہوئے یا دن میں جب تم دنیا کے دھندوں میں مشغول ہو، اگر اچانک خدا کا عذاب آ جائے تو مجرم جلدی کر کے کیا بچاؤ کر سکیں گے؟ جب بچاؤ نہیں کر سکتے پھر وقت پوچھنے سے کیا فائدہ؟ مترجم رحمۃ اللہ نے مَاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْہُ الْمُجْرِمُوْنَ کا یہ ترجمہ حضرت شاہ صاحب کے مذاق کے موافق کیا ہے عموماً مفسرین نے یہ مطلب لیا ہے کہ عذاب الٰہی کے آنے میں کون سی ایسی خوشی اور مزے کی بات ہے، جس کی وجہ سے مجرمین جلدی طلب کر رہے ہیں۔ یا یہ کہ تعجب کا مقام ہے کہ مجرمین کیسی سخت خوفناک چیز کے لیے جلدی مچا رہے ہیں۔ حالانکہ ایک مجرم کے لائق تو یہ تھا کہ وہ آنے والی سزا کے تصور سے کانپ اٹھتا اور ڈر کے مارے ہلاک ہو جاتا۔ (البحر المحیط)

۵۱ ۔۔۔   یعنی عذاب کے لیے جلدی کرنا اس بناء پر ہے کہ انہیں اس کے آنے کا یقین نہیں۔ اس وقت یقین ہوتا تو فائدہ ہو سکتا تھا کہ بچنے کی کوشش کرتے۔ عذاب آ چکنے کے بعد یقین آیا تو کیا فائدہ ہو گا۔ اس وقت خدا کی طرف سے کہہ دیا جائے گا کہ اچھا اب قائل ہوتے ہو، اور پہلے سے جھٹلاتے رہے۔ کیونکہ تقاضا کرنا بھی جھٹلانے اور مذاق اڑانے کی نیت سے تھا۔ اس وقت اقرار کرنے سے کچھ نفع نہیں۔ فَلَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَا قَالُوْآ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَحْدَہٗ وَکَفَرْنَا بِمَا کُنَّا بِہٖ مُشْرِکِیْنَ فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُہُمْ اِیْمَانُہُمْ لَمَّا رَاَوْا بَاْسَنَاسُنَّۃَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِہٖ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْکَافِرُوْنَ (المومنون، رکوع ۹، آیت:۸۴،۸۵)

۵۲ ۔۔۔  جو کفر و شرک اور تکذیب کرتے رہے تھے، اب ہمیشہ اس کا مزا چکھتے رہو۔ یہ قیامت میں کہا جائے گا۔

۵۳ ۔۔۔  یعنی غفلت کے نشہ میں چور ہو کر تعجب سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ سچ ہے کہ ہم موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور دائمی عذاب کا مزہ چکھیں گے؟ کیا واقعی ریزہ ریزہ ہو کر اور خاک میں مل کر پھر ازسر نو ہم کو موجود کیا جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرما دیجئے کہ تعجب کی کیا بات ہے، یہ چیز تو یقیناً ہونے والی ہے۔ تمہارا مٹی میں مل جانا اور پارہ پارہ ہو جانا خدا کو اس سے عاجز نہیں کر سکتا کہ پہلے کی طرح تمہیں دوبارہ پیدا کر دے اور شرارتوں کا مزہ چکھائے۔ ممکن نہیں کہ اس کے قبضہ سے نکل بھاگو اور فرار ہو کر (معاذ اللہ) اسے عاجز کر سکو۔ (تنبیہ) اس آیت کے مشابہ دو آیتیں قرآن کریم میں ہیں۔ ایک سورہ "سبا" میں وَقاَلَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَاْتِیْنَا السَّاعَۃُ قُلْ بَلیٰ وَرَبِّیْ لَتَاْتِیَنَّکُمْ۔ دوسری "تغابن" میں زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا قُلْ بَلیٰ وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ۔ یہ دونوں قیامت اور معاد کے متعلق ہیں ان ہی کی مناسبت سے حافظ ابن کثیر نے آیت حاضرہ کو معاد کے متعلق رکھا ہے۔

۵۴ ۔۔۔ ۱: یعنی اگر روئے زمین کے خزانے فرض کروا سکے قبضہ میں ہوں تو کوشش کرے کہ یہ سب دے کر خدا کے عذاب سے اپنے آپ کو بچا لے۔

۲:  دل میں اپنی حرکتوں پر پشیمان ہوں گے اور چاہیں گے لوگوں پر پشیمانی کا اظہار نہ ہو مگر تابکے۔ کچھ دیر آثار ندامت ظاہر نہ ہونے دیں گے۔ آخر بے اختیار ظاہر ہو کر رہیں گے۔ اس وقت کہیں گے۔ "یَحَسْرَتیٰ عَلیٰ مَافَرَّطْتُّ فِیْ جَنْبِ اللّٰہِ اور یاوَیْلَنَا قَدْ کُنّا فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ہٰذَا۔

۵۵ ۔۔۔  ۱: یعنی سارے جہان میں حکومت صرف اللہ کی ہے۔ انصاف ہو کر رہے گا۔ کوئی مجرم نہ کہیں بھاگ سکتا ہے، نہ رشوت دے کر چھوٹ سکتا ہے۔

۲: یعنی سوء استعداد، بدفہمی اور غفلت سے اکثر لوگ ان حقائق کو نہیں سمجھتے۔ اسی لیے جو زبان پر آئے بک دیتے ہیں اور جو جی میں آئے کرتے ہیں۔

۵۶ ۔۔۔ جِلانا اور مارنا جب اسی کا فعل ہے تو دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے۔

۵۷ ۔۔۔  یہ سب صفات قرآن کریم کی ہیں۔قرآن اول سے آخر تک نصیحت ہے جو لوگوں کو مہلک اور مضر باتوں سے روکتا ہے۔ دلوں کی بیماریوں کے لیے نسخہ شفا ہے۔ وصول الی اللہ اور رضائے خداوندی کا راستہ بتاتا ہے، اور اپنے ماننے والوں کو دنیا و آخرت میں رحمت الٰہیہ کا مستحق ٹھہراتا ہے۔ بعض محققین کے نزدیک اس آیت میں نفس انسانی کے مراتب کمال کی طرف اشارہ ہے۔ یعنی جو شخص قرآن کریم سے تمسک کرے ان تمام مراتب پر فائز ہو سکتا ہے۔ (۱) اپنے ظاہر کو نالائق افعال سے پاک کرنا۔ لفظ "موعظت" میں ا سکی طرف اشارہ ہے (٢) باطن کو عقائد فاسدہ اور ملکات رویہ سے خالی کرنا جو "شِفَآءٌ لِّمَا فِیْ الصُّدُوْرِ" سے مفہوم ہوتا ہے۔ (۳) نفس کو عقائد حقہ اور اخلاق فاضلہ سے آراستہ کرنا، جس کے لیے لفظ "ہدی" زیادہ مناسب ہے، (۴) ظاہر و باطن کی درستی کے بعد انوارِ رحمت الٰہیہ کا نفس پر فائض ہونا، جو لفظ "رحمت" کا مدلول ہے۔ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ نے جو تقریر کی ہے اس میں ان چار لفظوں سے شریعت، طریقت، حقیقت اور نبوت و خلافت کی طرف علی الترتیب اشارہ کیا ہے۔ یہاں اس کی تفصیل کا موقع نہیں اور نہ اس قسم کے مضامین خالص تفسیر کی مد میں آ سکتے ہیں۔

۵۸ ۔۔۔   ۱: رح" (خوش ہونا) محمود بھی ہے اور مذموم بھی۔ کسی نعمت پر اس حیثیت سے خوش ہونا کہ اللہ کے فضل و رحمت سے ملی ہے، محمود ہے۔ جیسے یہاں فرمایا۔ بِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا" اور حُطام دنیا پر خوش ہونا اور اکڑنا خصوصاً یہ خیال کر کے ہم کو اپنی لیاقت سے حاصل ہوئی ہے، سخت مذموم ہے۔ قارون اپنے مال و دولت کی نسبت کہتا تھا "اِنَّمَا اُوْتِیْتُہ، عَلیٰ عِلْمٍ عِنْدِیْ" اس کو فرمایا لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ وَابْتَغِ فِیْمَا اٰتَاکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا الخ۔

۲:  یعنی اصل چیز خدا کا فضل و رحمت ہے، انسان کو اسی کی تلاش کرنی چاہیے مال و دولت، جاہ و حشم، سب اس کے مقابلہ میں ہیچ ہیں۔

۵۹ ۔۔۔  یعنی قرآن جو نصیحت، شفاء اور ہدایت و رحمت بن کر آیا ہے وہ ہی استناد اور تمسک کرنے کے لائق ہے۔ احکام الٰہیہ کی معرفت اور حلال و حرام کی تمیز اسی سے ہو سکتی ہے۔ یہ کیا واہیات ہے کہ خدا نے تو تمہارے انتفاع کے لیے ہر قسم کی روزی پیدا کی۔ پھر تم نے محض اپنی آراء وا ہواء سے اس میں سے کسی چیز کو حلال، کسی کو حرام ٹھہرا لیا۔ بھلا تحلیل و تحریم کا تم کو کیا حق ہے؟ کیا تم یہ کہنے کی جرأت کر سکتے ہو کہ خدا تعالیٰ نے ایسا حکم دیا، یا یوں ہی خدا پر افتراء کر رہے ہو۔ اگلی آیت میں صاف اشارہ کر دیا کہ بجز افتراء علی اللہ کے اور کچھ نہیں۔ (تنبیہ) جن چیزوں کو حلال و حرام کیا تھا، ان کا مفصل تذکرہ "مائدہ" اور "انعام" میں گزر چکا۔

۶۰ ۔۔۔  ۱: یعنی یہ لوگ روز قیامت کے متعلق کیا خیال کر رہے ہیں کہ کیا معاملہ ان کے ساتھ ہو گا سخت پکڑے جائیں گے، یا سستے چھوٹ جائیں گے۔ عذاب بھگتنا پڑے گا یا نہیں۔ کن خیالات میں پڑے ہیں۔ یاد رکھیں جو دردناک سزا ملنے والی ہے وہ ٹل نہیں سکتی۔

۲:  یعنی خدا اپنے فضل سے دنیا میں بہت کچھ مہلت دیتا ہے۔ بہت سی تقصیرات سے درگزر کرتا ہے۔ لیکن بہت لوگ نرمی اور اغماض کو دیکھ کر بجائے شکر گذار ہونے کے اور زیادہ دلیر اور بے خوف ہو جاتے ہیں۔ آخر سزا دینی پڑتی ہے

حلمِ حق باتو مواساہاکند چوں نتو ازحد بگزری رسواکند

۶۱ ۔۔۔  پہلے قرآن کریم کے اوصاف بیان کیے تھے وہ سراپا نورِ ہدایت، شفائے قلوب، نعمت عظمیٰ اور رحمتِ کبریٰ ہیں۔ پھر اشارہ کیا کہ ہدایت و بصیرت کی ایسی صاف روشنی کو چھوڑ کر لوگ اپنے اوہام و خیالات کے اندھیرے میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور خدا پر افتراء کر کے اس کے فضل و انعام کی ناقدری کرتے ہیں۔ اس آیت میں متنبہ کیا کہ لوگ کس حال میں ہیں اور پیغمبر علیہ السلام کی کیا شان ہے۔ آپ شب و روز مالکِ حقیقی کی وفاداری، ہمدردی خلائق کی جن شون عظیمہ کے مظہر بنتے ہیں، خصوصاً آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی جو امتیازی شان قرآن پڑھنے پڑھانے کے وقت ظاہر ہوتی ہے یعنی قرآن کے ذریعے سے جو جہاد آپ کر رہے ہیں وہ سب خدا کے حضور میں ہے اور لوگ جو کچھ اچھا یا برا معاملہ کرتے ہیں وہ سب بھی خدا کی نظر کے سامنے ہیں۔ جس وقت مخلوق کوئی کام شروع کرتی اور اس میں مشغول و منہمک ہو جاتی ہے، خواہ اسے خدا کا تصور نہ آئے۔ لیکن خدا اس کو برابر دیکھ رہا ہے۔ فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہ، یَرَاکَ زمین و آسمان میں کہیں ایک ذرہ برابر یا اس سے چھوٹی بڑی چیز نہیں جو خدا تعالیٰ کے علم محیط سے غائب ہو۔ بلکہ علم الٰہی سے نیچے اتر کر تمام "مَاکَانَ وَمَایَکُوْنُ" کا حال "کتاب مبین" (لوح محفوظ) میں ثبت ہے۔ جسے "عالم تدبیر" میں "صحیفہ علم الٰہی کہنا چاہیے۔ جب حق تعالیٰ پر کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ چیز پوشیدہ نہیں تو ان مکذبین معاندین کے معاملات و احوال کیسے مخفی رہ سکتے ہیں، پھر روزِ جزاء کی کارروائی کے متعلق یہ کیا خیال کر رہے ہیں۔ وہ خوب سمجھ لیں کہ ان کی ہر چھوٹی بڑی حرکت خدا کے سامنے ہے وہاں کوئی خیانت اور چوری نہیں چل سکے گی۔ ہر عمل کی سزا مل کر رہے گی۔ اور جس طرح دشمنوں کے معاملات اس کے سامنے ہیں، ان کے بالمقابل دوستوں کا ذرہ ذرہ حال بھی اس کے علم میں ہے، اگلی آیات میں ان کو بشارت سنائی گئی۔

۶۲ ۔۔۔  ابن کثیر نے روایات حدیثیہ کی بناء پر اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ "اولیاء اللہ" (خدا کے دوستوں) کو آخرت میں اہوال محشر کا کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ دنیا کے چھوٹ جانے پر غمگین ہوں گے۔ بعض مفسرین نے آیت کو کچھ عام رکھا ہے یعنی ان پر اندیشہ ناک حوادث کا وقوع نہ دنیا میں ہو گا نہ آخرت میں۔ اور نہ کسی مطلوب کے فوت ہونے پر وہ مغموم ہوتے ہیں گویا خوف سے خوف حق یا غم سے غمِ آخرت کی نفی مراد نہیں بلکہ دنیا میں دنیاوی خوف و غم کی نفی مراد ہے جس کا احتمال مخالفت اعداء وغیرہ سے ہو سکتا ہے، وہ مومنین کاملین کو نہیں ہوتا۔ ہر وقت ان کا اعتماد اللہ پر ہوتا ہے اور تمام واقعات تکوینیہ کے خالی از حکمت نہ ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں۔ اس اعتماد و اعتقاد کے استحضار سے انہیں خوف و غم نہیں ستاتا۔ میرے نزدیک "لَاخَوْفُ عَلَیْہِمْ" کا مطلب یہ لیا جائے کہ "اولیاء اللہ" پر کوئی خوفناک چیز (ہلاکت یا معتدبہ نقصان) دنیا و آخرت میں واقع ہونے والی نہیں۔ اگر فرض کیجئے دنیا میں صورتاً کوئی نقصان پیش بھی آئے تو چونکہ نتیجہ وہ ان کے حق میں نفع عظیم کا ذریعہ بنتا ہے اس لیے اس کو معتدبہ نقصان نہیں کہا جا سکتا۔ رہا کسی سبب دنیاوی یا اخروی کی وجہ سے ان کو کسی وقت خوف لاحق ہونا، وہ آیت کی اس تقریر کے منافی نہ ہو گا کیونکہ آیت نے صرف یہ خبر دی ہے کہ ان پر کوئی خوفناک چیز نہ پڑے گی، یہ نہیں کہا کہ انہیں کسی وقت خوف لاحق نہ ہو گا۔ شاید لا یحزنون کے مناسب لایخافون نہ فرمانے اور لاخوف علیہم کی تعبیر اختیار کرنے میں یہ ہی نکتہ ہو۔ باقی لا یحزنون کا تعلق میرے خیال میں مستقبل سے ہے، یعنی موت کے وقت اور موت کے بعد غمگین نہ ہوں گے جیسا کہ فرمایا۔ تَتَنَزَّلُ عَلَیْہِمُ الملائکۃ الا تَخَافُوْا وَلَاتَحْزَنُوْا (حم السجدہ، رکوع ۴، آیت:۳۰) اور فرمایا لَایَحْزُنُہُمُ الْفَزَعُ الْاَکْبَرُ وَتَتَلَقّٰہُ الملائکۃ (الانبیاء، رکوع ۷، آیت:۱۰۳) واللہ تعالیٰ اعلم بمرادہ۔

۶۳ ۔۔۔  یہ "اولیاء اللہ" کی تعریف فرمائی یعنی مومن متقی خدا کا ولی ہوتا ہے پہلے کئی مواقع میں معلوم ہو چکا ہے کہ ایمان و تقویٰ کے بہت سے مدارج ہیں۔ پس جس درجہ کا ایمان و تقویٰ کسی میں موجود ہو گا۔ اسی درجہ میں ولایت کا ایک حصہ اس کے لیے ثابت ہو گا۔ پھر جس طرح مثلاً دس بیس روپیہ بھی مال ہے اور پچاس، سو، ہزار دو ہزار، لاکھ دو لاکھ روپیہ بھی لیکن عرف عام میں دس بیس روپے کے مالک کو "مالدار" نہیں کہا جاتا۔ جب تک معتدبہ مقدار مال و دولت موجود نہ ہو۔ اسی طرح سمجھ لیجئے کہ ایمان و تقویٰ کسی مرتبہ میں ہو، وہ ولایت کا شعبہ ہے اور اس حیثیت سے سب مومنین فی الجملہ "ولی" کہلائے جا سکتے ہیں لیکن عرف میں "ولی" اسی کو کہا جاتا ہے جس میں ایک خاص اور ممتاز درجہ ایمان و تقویٰ پایا جاتا ہو۔ احادیث میں کچھ علامات و آثار اس ولایت کے ذکر کیے گئے ہیں۔ مثلاً ان کو دیکھنے سے خدا یاد آنے لگے یا مخلوق خدا سے ان کو بے لوث محبت ہو، عارفین نے اپنے اپنے مذاق کے موافق "ولی" کی تعریفیں کی ہیں جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔

۶۴ ۔۔۔  ۱: اولیاء اللہ کے لیے دنیا میں کئی طرح کی بشارتیں ہیں مثلاً حق تعالیٰ نے انبیاء کی زبانی جو لَاخَوْفُ، عَلَیْہِمْ وغیرہ کی بشارت دی ہے، یا فرشتے موت کے قریب ان کو کہتے ہیں اَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ (حم السجدہ، رکوع ۴، آیت:۳۰) یا کثرت سے سچے اور مبارک خواب انہیں نظر آتے ہیں یا ان کی نسبت دوسرے بندگانِ خدا کو دکھائی دیتے ہیں جو حدیث صحیح کے موافق نبوت کے چھیالیس اجزاء میں سے ایک جزو ہے۔ یا ان کے معاملات میں خدا کی طرف سے خاص قسم کی تائید و امداد ہوتی ہے یا خواص میں اور کبھی خواص سے گزر کر عوام میں بھی ان کو مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ اور لوگ ان کی مدح و ثناء اور ذکر خیر کرتے ہیں۔ یہ سب چیزیں دنیاوی بشارت کے تحت میں درجہ بدرجہ آ سکتی ہیں۔ مگر اکثر روایات میں لَہُمُ الْبُشْریٰ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کی تفسیر رویائے صالحہ سے کی گئی ہے۔ واللہ اعلم۔ رہی بشارت اخروی، وہ خود قرآن میں منصوص ہے۔ بُشْراکم الیوم جنات تجری من تحتھا الانھار اور حدیث میں بھی یہی تفسیر منقول ہے۔

۲: یعنی اللہ کی باتیں اور اس کے وعدے سب پختہ اور اٹل ہیں۔ جو بشارتیں دی ہیں ضرور پہنچ کر رہیں گی۔

۶۵ ۔۔۔   اوپر سے اعدائے مکذبین کا ذکر چلا آتا تھا۔ ان کے بالمقابل دوستوں کا تذکرہ فرمایا اور ان کو دارین میں محفوظ رہنے کی بشارت سنائی۔ اسی سلسلہ میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم احمقوں اور شریروں کی باتوں سے رنجیدہ نہ ہوں، غلبہ اور زور سب خدا کے لیے ہے وہ اپنے زور تائید سے حق کو غالب و منصور اور مخالفین کو ذلیل و رسوا کر کے چھوڑے گا وہ ان کی سب باتیں سنتا اور سب حالات جانتا ہے۔

۶۶ ۔۔۔  یعنی کل زمین و آسمان میں خدائے واحد کی سلطنت ہے، سب جن و انس اور فرشتے اسی کے مملوک و مخلوق ہیں۔ مشرکین کا غیر اللہ کو پکارنا اور انہیں خدائی کا حصہ دار بنانا، محض اٹکل کے تیر اور واہی تباہی خیالات ہیں۔ ان کے ہاتھ میں نہ کوئی حقیقت ہے نہ حجت و برہان، خالی اوہام و ظنون کی اندھیریوں میں پڑے ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔

۶۷ ۔۔۔  دن رات اور اندھیرے اجالے کا پیدا کرنے والا وہی ایک خدا ہے۔ اسی سے خیر و شر اور تمام متقابل اشیاء کی پیدائش کو سمجھ لو۔ اس میں "مجوس" کے شرک کا رد ہو گیا۔ اور ادھر بھی لطیف اشارہ کر دیا کہ جس طرح رات کی تاریکی کے بعد خدا روز روشن کو لاتا ہے اور دن کے اُجالے میں وہ چیزیں نظر آتی ہیں جو شب کی ظلمت میں دکھائی نہ دیتی تھیں۔ ایسے ہی مشرکین کے اوہام و ظنون کی اندھیریوں کا پردہ چاک کرنے کے لیے اس نے قرآن کریم کا آفتاب چمکایا جو لوگوں کو وصول الی اللہ کا ٹھیک راستہ دکھانے والا ہے۔

۶۸ ۔۔۔ اس میں عیسائیوں کے شرک کا رد ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہتے تھے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اگر وہ واقعی طور پر مسیح کو خدا کا (معاذ اللہ) صلبی بیٹا سمجھتے ہیں تو اس سے بڑھ کر کیا گستاخی ہو گی۔ خداوند قدوس بالبداہت بیوی بچوں سے پاک ہے۔ اور اگر بیٹے سے مراد متبنی ہے تو خدا کو اس کی ضرورت کیا پیش آئی کہ ایک مخلوق کو متبنی بنائے۔ کیا معاذ اللہ اسے اولاد کی حسرت اور بیٹا نہ ہونے کا غم تھا؟ یا فکر تھی کہ اس کے بعد مال و دولت کا وارث اور اس کا نام روشن کرنے والا کون ہو گا؟ یا یہ کہ بڑھاپے اور حرج مرج میں کس سے سہارا ملے گا؟ (العیاذ باللہ) وہ تو سب سے بے نیاز ہے اور سب ہر وقت اس کے محتاج ہیں۔ اسے بیٹے پوتے یا متبنی وغیرہ کی احتیاج کہاں ہو سکتی ہے؟ سب چیزیں اس کی مملوک و مخلوق ہیں۔ پھر مالک و مملوک اور خالق و مخلوق کے درمیان ان نسبتی رشتوں کی کہاں گنجائش ہے۔ یہ بڑی سخت بات ہے کہ خدا کی نسبت محض جہالت سے ایسی جھوٹی اور بے سند باتیں کہی جائیں۔

۷۰ ۔۔۔  یعنی خدا پر جھوٹ باندھنے والے خواہ دنیا میں کیسی ہی طاقت رکھتے ہوں اور اپنے سازو سامان پر مغرور ہوں لیکن انہیں حقیقی بھلائی اور کامیابی ہرگز نصیب نہیں ہو سکتی۔ تھوڑے دن دنیا کے مزے اڑا لیں، انجام کار ان کا معاملہ خدا کی طرف رجوع ہو گا۔ جہاں سے اپنے جرائم کی پاداش میں نہایت سخت عذاب کا مزہ چکھیں گے۔

۷۱ ۔۔۔  ۱: یعنی اہل مکہ کو نوح اور اس کی قوم کا حال سُنا۔ تاکہ معلوم ہو کہ مکذبین و مفترین کو حقیقی کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ ان کی اچھل کود اور چمک دمک محض چند روزہ ہے جو انجام کار ہلاکت ابدی پر منتہی ہوتی ہے۔ اہل مکہ کو قوم نوح کا قصہ سن کر عبرت حاصل کرنا چاہیے کہ اگر وہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ و سلم کی تکذیب و عداوت اور اپنی شرکیات سے باز نہ آئے تو ان کا انجام بھی ویسا ہی ہو سکتا ہے جو نوح کی تکذیب کرنے والوں کا ہوا۔ نیز اس واقعہ کے بیان کرنے میں پیغمبر علیہ السلام کو تسلی دینا ہے کہ آپ ان لوگوں کی دشمنی اور شرارت سے زیادہ دلگیر نہ ہوں۔ ہر نبی کو اس قسم کے حالات کا مقابلہ کرنا پڑا ہے پھر آخر میں حق ہی غالب ہو کر رہا اور حق و صداقت کے دشمن تباہ و برباد کر دیئے گئے۔ عام سامعین کو ان واقعات کے ایسے مفصل بیان سے یہ سبق ملتا ہے کہ نبی عربی صلی اللہ علیہ و سلم باوجود امی ہونے اور کسی مخلوق کے سامنے ایک منٹ کے لیے بھی زانوئے تلمذ تہ نہ کرنے کے پچھلی قوموں کے اس قدر صحیح اور پختہ احوال بیان فرماتے ہیں جو بظاہر بدون تعلیم اور طویل استفادہ کے ممکن نہیں، ناچار ماننا پڑے گا کہ آپ کا معلم کوئی انسان نہیں بلکہ سب انسانوں کا پیدا کرنے والا ہے۔ یہ تو آپ کی سچائی کی ایک دلیل ہو گی۔

۲: یعنی تمہاری خوشی نا خوشی یا موافقت و مخالفت کی مجھے ذرہ برابر پروا نہیں تمام پیغمبروں کی طرح میرا بھروسہ صرف خدائے واحد پر ہے اگر تم میری نصیحت و فہمائش سے برا مانو تو مانا کرو۔ میں اپنے فرائض منصبی کے ادا کرنے میں قصور نہیں کر سکتا۔ تم برا مان کر مجھ سے دشمنی کرو اور نقصان پہنچانا چاہو تو یہ چیز میرے ارادوں پر قطعاً اثر ڈالنے والی نہیں۔ جو کچھ تمہارے امکان میں ہے شوق سے کر گزرو میرے خلاف مشورہ کر کے کوئی تجویز پختہ کر لو۔ اپنے رفقائے کار بلکہ فرضی معبودوں کو بھی جمع کر کے ایک غیر مشکوک اور غیر مشتبہ رائے پر قائم ہو جاؤ۔ پھر متفقہ طاقت سے اسے جاری کر ڈالو، ایک منٹ کی مہلت بھی مجھ کو نہ دو پھر دیکھ لو کہ پیغمبرانہ استقامت و توکل کا پہاڑ تمام دنیا کی طاقتوں اور تدبیروں کو کچل کر کس طرح پاش پاش کر ڈالتا ہے۔

۷۲ ۔۔۔  یعنی تمہارے مقابلہ میں نہ جانی و بدنی تکالیف سے گھبراتا ہوں اور نہ مالی نقصان کی کوئی فکر ہے کیونکہ میں نے خدمت تبلیغ و دعوت کا کچھ معاوضہ تم سے کبھی طلب نہیں کیا جو یہ اندیشہ ہو کہ تمہاری نا خوشی سے میری تنخواہ بند ہو جائے گی یا کم از کم تم کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ میری ساری جدوجہد مال کی حرص اور روپیہ کے لالچ سے تھی۔ میں جس کا کام کر رہا اور حکم بجا لا رہا ہوں اسی کے ذمہ میری اجرت ہے جب میں اس کا فرمانبردار ہوں اور خدمت مفوضہ بے خوف و خطر انجام دیتا ہوں تو کیسے ممکن ہے کہ وہ اپنے فضل و رحمت کے دروازے مجھ پر نہ کھولے رکھے۔

۷۳ ۔۔۔   یعنی جس کے پاس چشم عبرت ہو وہ دیکھ لے کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیا ہوا۔ ان لوگوں کو سینکڑوں برس نوح علیہ السلام نے نصیحت کی، نفع و ضرر سے آگاہ کیا جب کوئی بات موثر نہ ہوئی بلکہ الٹا عناد و فرار بڑھتا گیا۔ اس وقت خدا نے سخت طوفان پانی کا بھیجا۔ سب مکذبین غرقاب کر دیئے گئے۔ صرف نوح علیہ السلام اور چند نفوس جو ان کے ساتھ کشتی پر سوار تھے محفوظ رہے۔ ان ہی سے آگے نسل چلی۔ اور ڈوبنے والوں کی جگہ یہ ہی آباد ہوئے۔ نوح علیہ السلام کا کچھ قصہ سورہ اعراف میں گزر چکا ہے۔

۷۴ ۔۔۔  ۱: یعنی نوح کے بعد ہود صالح لوط ابراہیم شعیب وغیرہ انبیاء کو اپنی اپنی قوم کی طرف کھلے ہوئے نشانات دے کر بھیجا، لیکن جس جہالت اور کفر کی حالت میں وہ لوگ اپنے اپنے پیغمبر کی بعثت سے پہلے تھے اور جن چیزوں کو پیشتر سے جھٹلاتے چلے آرہے تھے، یہ توفیق نہ ہوئی کہ انبیاء کے تشریف لانے اور سمجھانے کے بعد ان کو مان لیتے۔ بلکہ جن اصول صحیحہ کی تکذیب پہلے قوم نوح کر چکی تھی، ان سبھوں نے بھی ان کے ماننے سے انکار کر دیا۔ اور جب پہلی مرتبہ منہ سے "نہ" نکل گئی، ممکن نہ تھا کہ پھر کبھی "ہاں" نکل سکے، اسی بے ایمانی اور تکذیب حق پر آخر تک اڑے رہے۔

۲: جو لوگ تکذیب و عداوتِ حق میں حد سے نکل جاتے ہیں ان کے دلوں میں مہر لگنے کی یہ ہی صورت ہوتی ہے کہ اول تکذیب کرتے ہیں، پھر اس پر ضد اور اصرار کرتے محض دشمنی اور عناد کی روش اختیار کر لیتے ہیں۔ یہاں تک کے دل کی کلیں بگڑ جاتی ہیں اور قبول حق کی استعداد باقی نہیں رہتی۔

۷۵ ۔۔۔  یعنی جرائم پیشہ لوگ تھے۔ نافرمانی کی خو قبولِ حق کی اجازت کہاں دیتی۔ تکبر مانع ہوا کہ خدا کی نشانیوں کو دیکھ کر اس کے سفراء کے سامنے گردن جھکائیں۔ "وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْھَا اَنْفُسُہُمْ ظُلْماً وَّعُلُوًّا" (النمل، رکوع ۱، آیت :۱۴) یہ ہی تکبر تھا۔ جس نے فرعون سے یہ الفاظ کہلوائے۔ اَلَمْ نُرَبِّکَ فِیْنَا وَلِیْداً وَّلَبِثْتَ فِیْنَا مِنْ عُمُرِکَ سِنِیْنَ (شعراء، رکوع ٢، آیت:۱۸)

۷۶ ۔۔۔  یعنی "عصا" اور "ید بیضا" وغیرہ کے معجزات دیکھ کر اور موسیٰ علیہ السلام کی نہایت پر تاثیر باتیں سن کر کہنے لگے کہ یہ سب کھلا ہوا جادو ہے کیونکہ ان کے خیال میں تمام فوق العادت چیزوں کا آخری درجہ "جادو" ہی ہو سکتا تھا۔

۷۷ ۔۔۔  یعنی حق کو جادو کہتے ہو، کیا جادو ایسا ہوتا ہے؟ اور کیا جادو کرنے والے نبوت کا دعویٰ کر کے حق و باطل کی کشمکش سے کامیاب نکل سکتے ہیں۔ سحر اور معجزہ میں تمیز نہ کر سکنا ان کوتاہ فہموں کا کام ہے جو سونے اور پیتل میں تمیز نہ کر سکیں۔ پیغمبر کے روشن چہرے، پاکیزہ اخلاق، نورِ تقویٰ، پر شوکت و عظمت احوال میں بدیہی شہادت اس کی موجود ہوتی ہے کہ جادوگری اور شعبدہ بازی سے انہیں کوئی دور کی نسبت بھی نہیں۔ پھر پیغمبر کو "ساحر" کہنا کس درجہ بے حیائی یا دیوانگی ہے۔

۷۸ ۔۔۔   یعنی معاذ اللہ تم دنیا کے حریص اور بدنیت ہو، ایک سیاسی تحریک کو مذہبی رنگ میں پیش کرتے ہو۔ تمہاری غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ مذہبی حیثیت سے ایک انقلاب عظیم برپا کر کے اس ملک میں اپنی حکومت اور سرداری جماؤ۔ اور یہاں کے قدیم سرداروں (قبطیوں) کو برطرف کر دو۔ سو یاد رہے کہ یہ خواہش پوری ہونے والی نہیں۔ ہم لوگ ہرگز تمہاری بات نہ مانیں گے نہ تمہاری بزرگی کبھی تسلیم کریں گے۔

۷۹ ۔۔۔  یہ موسیٰ علیہ السلام کی تقریر کا جواب تھا۔ یعنی رہا سحر اور معجزہ کا جھگڑا، اس کا ہم عملاً تصفیہ کیے دیتے ہیں کہ اس ملک کے بڑے بڑے ماہر جادوگر اکٹھے کیے جائیں، پھر آپ ان کے خوارق کے مقابل اپنے معجزات دکھلائیں، دنیا مشاہدہ کر لے گی کہ تم پیغمبر ہو یا (معاذ اللہ) جادوگر ہو۔ اس کے لیے فرعون نے تمام ملک میں گشتی جاری کر دی اور آدمی بھیج دیے کہ مشّاق اور ماہر جادوگر جہاں کہیں ہوں فوراً حاضر کیے جائیں۔ اس کا مفصل واقعہ سورہ "اعراف" میں گزر چکا، وہاں ملاحظہ کر لیا جائے۔

۸۰ ۔۔۔  دوسری جگہ مذکور ہے کہ ساحرین نے موسیٰ علیہ السلام سے دریافت کیا تھا کہ اپنا کرتب دکھلانے میں تم پہل کرتے ہو یا ہم کریں اس کے جواب میں موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ جو تم کو دکھلانا ہے دکھلاؤ کیونکہ باطل کی پوری زور آزمائی اور نمائش کے بعد حق کا آنا اور باطل کو نیچا دکھا کر ملیامیٹ کر دینا زیادہ موثر اور غلبہ حق کو زیادہ واضح کرنے والا ہے۔

۸۱ ۔۔۔  ۱: ساحرین نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں زمین پر پھینک دیں اور تخیل و نظر بندی سے دیکھنے والوں کو ایسا معلوم ہونے لگا گویا تمام میدان زندہ سانپوں سے بھرا ہوا ہے۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ "جادو" یہ ہے وہ جادو نہ تھا جسے فرعون اور اس کے خوشامدیوں نے جادو کہا تھا۔

۲:  یعنی بس تم اپنی قوت صرف کر چکے، اب سنبھل جانا کہ خدا اپنی قدرت و رحمت سے یہ سب بنا بنایا کھیل بگاڑتا ہے جو میرے مقابلہ میں پھر کبھی نہیں سنور سکے گا۔ کیونکہ خدا کی عادت و حکمت کے خلاف ہے کہ مصلح و مفسد کے مقابلہ کے وقت جبکہ اس سے مقصود خالص اتمام حجت ہو مفسدوں اور شریروں کی بات سنوار دے اور کلمہ حق کو پست و مغلوب کر دے۔

۸۳ ۔۔۔  ۱: "بنی اسرائیل" فرعونیوں کے ہاتھوں سخت مصیبت اور ذلت اٹھا رہے تھے اور پرانی پیشین گوئیوں کے مطابق منتظر تھے کہ فرعون کے مظالم کا خاتمہ کرنے اور اس کی سلطنت کا تختہ الٹنے والا "اسرائیلی" پیغمبر مبعوث ہو۔ موسیٰ علیہ السلام ٹھیک اسی شان سے تشریف لائے جس کا انہیں انتظار تھا۔ اس لیے تمام "بنی اسرائیل" قدرتی طور پر موسیٰ علیہ السلام کی بعثت کو نعمت عظمیٰ سمجھتے تھے، وہ دل سے حضرت موسیٰ کو سچا جانتے اور ان کی عزت کرتے تھے۔ مگر اکثر آدمی فرعونی سرداروں سے خوفزدہ تھے، اسی لیے ابتداء میں شرعی طور پر ایمان نہیں لائے وقت کے منتظر رہے کہ جس وقت حق کا غلبہ ہو گا مسلمان ہو جائیں گے۔ بنی اسرائیل کے تھوڑے سے نوجوانوں نے ہمت کر کے باوجود فرعونیوں سے خائف ہونے کے اپنے اسلام کا اظہار و اعلان کر دیا۔ چند گنے چنے قبطی بھی جو فرعون کی قوم سے تھے۔ مشرف بایمان ہوئے۔ اخیر میں جب موسیٰ علیہ السلام کا اثر اور حق کا غلغلہ بڑھتا گیا، تب پوری قوم بنی اسرائیل کی جو تقریباً چھ لاکھ بالغ مردوں پر مشتمل تھی مسلمان ہو گئی۔ یہاں ابتداء کا قصہ بیان ہوا ہے۔

۲:  ان کے سرداروں سے مراد یا تو فرعون کے حکاّم و عماّل ہیں، یا بنی اسرائیل کے وہ سردار مراد ہیں جو خوف یا طمع وغیرہ کی وجہ سے اپنے ہم قوموں کو فرعون کی مخالفت سے ڈراتے دھمکاتے تھے اور بچلا دینے کا مطلب یہ ہے کہ فرعون ایمان لانے کی خبر سن کر سخت ایذائیں پہنچائے جن سے گھبرا کر ممکن ہے بعض ضعیف القلب راہِ حق سے بچل جائیں۔

۳: یعنی ان کا خوف کھانا بھی کچھ بیجا نہ تھا، کیونکہ اس وقت ملک میں فرعون کی مادی طاقت بہت بڑھ چڑھ کر تھی اور اس کا ظلم و عدوان اور کفر طغیان حد سے متجاوز ہو چکا تھا۔ کمزوروں کو ستانے کے لیے اس نے بالکل ہاتھ چھوڑ رکھا تھا۔

۸۴ ۔۔۔  یعنی گھبرانے اور خوف کھانے کی ضرورت نہیں۔ ایک فرمان بردار مومن کا کام اپنے مالک کی طاقت پر بھروسہ کرنا ہے جسے خدا کی لامحدود قدرت و رحمت پر یقین ہو گا، وہ یقیناً ہر معاملہ میں خدا پر اعتماد کرے گا اور اس اعتماد کا اظہار جب ہی ہو سکتا ہے کہ بندہ اپنے کو بالکلیہ خدا کے سپرد کر دے، اسی کے حکم پر چلے اور تمام جدوجہد میں صرف اسی پر نظر رکھے۔

۸۵ ۔۔۔   موسیٰ علیہ السلام کی نصیحت پر انہوں نے اخلاص کا اظہار کیا کہ بیشک ہمارا بھروسہ خالص خدا پر ہے۔ اسی سے دعا کرتے ہیں کہ ہم کو ان ظالموں کا تختہ مشق نہ بنائے اس طرح کہ یہ ہم پر اپنے زور و طاقت سے ظلم ڈھاتے رہیں اور ہم ان کا کچھ نہ بگاڑ سکیں۔ ایسی صورت میں ہمارا دین بھی خطرہ میں ہے۔ اور ان ظالموں یا دوسرے دیکھنے والوں کو یہ ڈینگ مارنے کا موقع ملے گا کہ اگر ہم حق پر نہ ہوتے تو تم پر ایسا تسلط و تفوق کیوں حاصل ہوتا اور تم اس قدر پست و ذلیل کیوں ہوتے۔ یہ خیال ان گمراہوں کو اور زیادہ گمراہ کر دے گا۔ گویا ایک حیثیت سے ہمارا وجود ان کے لیے فتنہ بن جائے گا۔

۸۶ ۔۔۔ یعنی ان کی غلامی اور محکومی سے ہم کو نجات دے اور دولتِ آزادی سے مالا مال فرما۔

۸۷ ۔۔۔  ۱: حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں۔ "جب فرعون کی ہلاکت کا وقت قریب آیا تو حکم ہوا کہ اپنی قوم بنی اسرائیل کو ان میں شامل نہ رکھو اپنا محلہ جُدا بساؤ کہ آگے ان پر آفتیں آنے والی ہیں۔ اس وقت تمہاری قوم ظاہری طور پر بھی آفتوں سے الگ تھلگ رہے۔ مفسرین نے "تَبَوَّاٰ لِقَوْمِکُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا" سے مراد یہ لی ہے کہ اپنے مکانوں میں ٹھہرے رہو اور ان میں سے بعض کو عبادت کے لیے مخصوص کر لو۔

۲:  فرعون نے مسجدیں اور عبادت گاہیں خراب کر دی تھیں کوئی باہر نکل کر خدا کی عبادت نہ کر سکتا تھا۔ بحالت مجبوری حکم ہوا کہ مکان میں کوئی جگہ نماز کے لیے رکھو جو قبلہ رو ہو۔ نماز ترک مت کرو کہ اسی کی برکت سے خدا کی مدد آتی ہے۔ وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِوَ الصَّلٰوۃِ ہجرت سے پہلے مکہ میں ایسا ہی حال مسلمانوں کا تھا۔

۳:  دنیا میں فتح و نصرت کی اور آخرت میں نجات و رضائے الٰہی کی۔

۸۸ ۔۔۔  ۱: یعنی ہر قسم کا سامان رونق و آسائش کا دیا۔ مثلاً حسن صورت، سواری، عمدہ پوشاک، اثاث البیت وغیرہ اور مال و دولت کے خزانے، سونے چاندی وغیرہ کی کانیں عطا فرمائیں۔

۲:  اگر لِیُضِلُّوْا میں لام تعلیل لیا جائے تو مطلب یہ ہے کہ تکوینی طور پر یہ سامان ان نابکاروں کو اس لیے دیا گیا کہ مغرور ہو کر خود گمراہ ہوں اور دوسروں کو گمراہ کرنے میں خرچ کریں۔ بڑی آزادی سے دل کھول کر زور لگا لیں، آخر میں دیکھ لیں گے کہ وہ کچھ بھی کام نہ آیا۔ جب خالق خیر و شر کا اللہ ہے اور ظاہر ہے کہ اس کا کوئی فعل خالی از حکمت نہیں ہو سکتا۔ لامحالہ "خلق شر" میں بھی مجموعہ عالم کے اعتبار سے کوئی حکمت ضرور ہو گی۔ وہ ہی حکمت شریروں کو اس قدر سامان دیے جانے میں سمجھ لیجئے۔ کُلاًّ نُّمِدُّ ہٰؤُلَآءِ وَہٰؤُلَآءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّکَ(بنی اسرائیل، رکوع ٢، آیت:٢۰) اِنَّمَا نُمْلِیْ لَہُمْ لِیَزْدَادُوْا اِثْمًا (آل عمران، رکوع ۱۸، آیت:۱۷۸) بعض مفسرین نے "لِیُضِلُّوْا"میں "لام عاقبتہ" لیا ہے جیسے فَالْتَقَطَہ، اٰلُ فِرْعَوْنَ لِیَکُوْنَ لَہُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًا میں "لام عاقبتہ" ہے۔ اس وقت مطلب یہ ہو گا کہ یہ سامان دیا تو اس لیے تھا کہ امور خیر میں خرچ کریں اور نعمتوں کو لے کر منعم حقیقی کو پہچانیں۔ اس کے شکر گزار بندے بنیں مگر اس کے برخلاف انہوں نے اپنی بدبختی سے خدا کی نعمتوں کو لوگوں کے بہکانے اور گمراہ کرنے میں ایسا بے دریغ خرچ کیا گویا وہ اسی کام کے لیے ان کو دی گئی تھیں، اس تفسیر پر کوئی اشکال وارد نہیں ہوتا۔

۳:  جب موسیٰ علیہ السلام مدت دراز تک ہر طرح ہدایت کر چکے اور عظیم الشان معجزات دکھلا چکے مگر معاندین کا جحود و عناد بڑھتا ہی رہا۔ حتیٰ کہ تجربہ اور طول صحبت یا وحی الٰہی سے پوری طرح ثابت ہو گیا کہ یہ لوگ کبھی ایمان لانے والے نہیں، تب ان کی ہلاکت کی دعاء فرمائی، تاکہ ان کی گندگی سے دنیا جلد پاک ہو اور دوسروں کے لیے ان کی بد انجامی درس عبرت بنے۔ آپ نے بددعاء کی کہ خداوندا! ان کے اموال کو تباہ اور ملیامیٹ کر دے اور ان کے دلوں پر سخت گرہ لگا دے جن میں کبھی ایمان و یقین نفوذ نہ کرے۔ بس اسی وقت یقین حاصل ہو جب اپنی آنکھوں سے عذاب الیم کا مشاہدہ کر لیں یہ دعاء ان کے حق میں ایسی سمجھو جیسے ابلیس کو "لعنۃ اللہ" یا کفار کو"خَذَلَہُمُ اللّٰہُ" کہا جاتا ہے۔ حالانکہ ان کی ملعونیت و خذلان کا قطعی فیصلہ پیشتر سے کیا جا چکا ہے۔ حضرت شاہ صاحب نے آیت کی تقریر دوسری طرز سے کی ہے فرماتے ہیں "سچے ایمان کی ان سے امید نہ تھی مگر جب کچھ آفت پڑتی تو جھوٹی زبان سے کہتے کہ اب ہم مانیں گے اس میں عذاب تھم جاتا کام فیصل نہ ہوتا۔ دعاء اس واسطے مانگی کہ یہ جھوٹا ایمان نہ لائیں دل ان کے سخت رہیں تاکہ عذاب پڑ چکے اور کام فیصل ہو۔

۸۹ ۔۔۔  ۱: روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ دعا کرتے تھے اور ہارون علیہ السلام آمین کہتے جاتے تھے۔ اس لحاظ سے "دعوتکما" فرمایا۔

۲:  یعنی اپنا کام استقلال اور ثابت قدمی سے انجام دیتے رہو۔ اگر قبول دعاء کے آثار دیر سے ظاہر ہوں تو نادان لوگوں کی طرح شتابی مت کرو، وقت مقدر پر یہ ہی ہو کر رہے گا۔ گھبرانے سے کچھ حاصل نہیں۔

۹۱ ۔۔۔  موسیٰ علیہ السلام کئی لاکھ بنی اسرائیل کو لے کر مصر سے نکلے، فرعون کو خبر ہوئی تو ایک لشکر جرار لے کر تعاقب کیا۔ تاکہ اس کے پنجہ ظلم سے چھوٹنے نہ پائیں۔ بنی اسرائیل جب بحر قلزم کے کنارے پہنچے تو سخت پریشان ہوئے، آگے سمندر اور پیچھے فرعون کا لشکر دباتا چلا آ رہا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام نے تسلی دی اور حق تعالیٰ کے حکم سے لاٹھی دریا پر ماری۔ سمندر کا پانی ادھر ادھر کھڑا ہو گیا اور درمیان میں خدا نے بارہ راستے خشک بنا دیئے۔ یہ پار ہوئے، ادھر فرعون لشکر سمیت سمندر کے کنارے پہنچ گیا۔ خشک راستے دیکھ کر سب نے اسی میں گھوڑے ڈال دیے جب ایک ایک کر کے تمام فوج دریا کے وسط میں پہنچی، پانی کو حکم ہوا کہ مل جائے فوراً پانی کے طبقات مل گئے، سب لشکر اور سامان موجوں کی نذر ہو گیا۔ فرعون نے دیکھا کہ اب ڈوبتا ہوں اس وقت گھبرا کر ایمان و اسلام کا لفظ زبان پر لایا کہ شاید بنی اسرائیل کا خدا "ایمان" کا لفظ سن کر دریا کی موجوں سے باہر نکال دے۔ اس پر خدا کی طرف سے ارشاد ہوا اٰلْئٰنَ وَقَدْعَصَیْتَ قَبْلُ الخ یعنی ساری عمر مخالف ہو کر گمراہی پھیلاتا اور شرارتیں کرتا رہا۔ اب عذاب دیکھ کر یقین لایا اس وقت کا یقین کیا معتبر ہے۔ فَلَمْ یَکُ یَنْفَعُہُمْ اِیْمَانُہُمْ لَمَّارَاَ وْا بَاْسَنَا سُنَّتَ اللّٰہِ الَّتِیْ قَدْخَلَتْ فِیْ عِبَادِہٖ وَخَسِرَ ہُنَالِکَ الْکَافِرُوْنَ(المومن، رکوع ۹، آیت:۸۵) (تنبیہ) قبض روح اور معائنہ عذاب کے وقت ایمان لانا "ایمان غرغرہ" یا "ایمان باس" یا "ایمان یاس" کہلاتا ہے۔ جو "اہل السنت و الجماعت" کے نزدیک نافع نہیں شیخ عبدالوہاب شعرانی نے "کتاب الیواقیت والجواہر" میں توحات مکیہ" سے عبارت نقل کی ہے۔ جس میں ایمان فرعون کی بابت یہ ہی تصریح ہے اور دیباچہ میں لکھا ہے کہ توحات کے" نسخوں میں ملحدین و زنادقہ نے بہت سی عبارتیں مدسوس کر دی ہیں میرے پاس جو نہایت مستند و معتبر نسخہ توحات" کا ہے اس میں ان عبارتوں کا پتہ نہیں واللہ اعلم۔ (فائدہ) اخیر وقت میں فرعون سے لفظ "امنت" کہلا کر حضرت موسیٰ کی دعاء فَلاَ یؤْمِنُوْا حَتّیٰ یَرَوُا الْعَذَابَ الْاَلِیْمَ کی مقبولیت کا خدا نے مشاہدہ کرا دیا۔

۹۲ ۔۔۔  "موضح القرآن" میں ہے کہ جیسا بے وقت ایمان لایا، بے فائدہ، ویسا ہی اللہ نے مرے پیچھے اس کا بدن دریا میں سے نکال کر ٹیلے پر ڈال دیا کہ "بنی اسرائیل" دیکھ کر شکر کریں اور پیچھے آنے والے اس کے حال سے عبرت پکڑیں۔ ورنہ اس کو بدن کے بچنے سے کیا فائدہ۔ جیسا بے فائدہ ایمان تھا ویسی ہی بے فائدہ نجات مل گئی۔ جدید تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ فرعون کی لاش آج تک محفوظ چلی آتی ہے لیکن الفاظ قرآنی کی صحت اس کے ثبوت پر موقوف نہیں (اتفاق) بنی اسرائیل کے نجات پانے اور فرعون کے غرق ہونے کا واقعہ "عاشوراء" کے دن ہوا۔ اور اتفاق سے آج بھی جب بندہ یہ سطریں لکھ رہا ہے "یوم عاشوراء ۱۳۴۸ ہجری ہے۔ خدا ہم کو دنیا و آخرت میں اپنے عذاب سے محفوظ رکھے اور دشمنانِ دین کا بیڑا غرق کرے۔ آمین۔

۹۳ ۔۔۔  ۱: یعنی فرعونیوں کو ہلاک کر کے اول ملک مصر دیا۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد عمالقہ کو نکال کر ملک شام دیا گیا۔ دونوں ملک سر سبز و شاداب ہیں جہاں ستھری اور لذیذ چیزوں کی افراط ہے۔ غرض یہ ہے کہ بنی اسرائیل حلال و طیب نعمتوں سے مالا مال کر دیئے گئے۔

۲: یعنی مادی انعام و اکرام کے ساتھ دینی و روحانی نعمت سے سرفراز فرمایا کہ تورات شریف کا علم دیا۔ جس میں دین کے اصول و فروع بیان ہوئے تھے۔ اور اگلے پچھلوں کے متعلق خبریں تھیں ان واضح حقائق سے خبردار ہونے کے بعد لائق نہ تھا کہ ایسی صاف چیزوں میں اختلاف کر کے آپ میں پھوٹ ڈالیں اور فرقہ بندی کی نحوست میں گرفتار ہوں۔ مگر باوجود علم صحیح اور خبر صادق پہنچ جانے کے طرح طرح کے اختلافات پیدا کیے اور پھوٹ ڈال کر رہے۔ بعض احکام میں اپنے پیغمبر (موسیٰ السلام) سے بھی کٹ حجتی کی جیسا کہ ذبح بقر کے واقعہ میں گزرا۔ بعد میں آنے والے پیغمبروں خصوصاً خاتم النبیین صلی اللہ علیہ و سلم کی بعض نے تصدیق اور اکثروں نے تکذیب کی، حالانکہ ان کے متعلق بہت سی پیشین گوئیوں پر مطلع ہو چکے تھے۔ بلکہ بعثت محمدی سے پہلے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد کے منتظر تھے اور مشرکین سے کہتے تھے کہ ہم پیغمبر آخرالزماں کے ساتھ ہو کر تمہاری خبر لیں گے۔ نہ صرف اسی مسئلہ میں اختلاف ہوا بلکہ خود اپنے مذہب میں تحریف کر کے اصول و فروع بدل ڈالے اور رفتہ رفتہ بیسیوں فرقے پیدا ہو گئے۔ مسیح علیہ السلام سے تین سو برس بعد قسطنطین اعظم جو ایک فلسفی مزاج بادشاہ تھا، از راہِ نفاق دین نصرانیت میں داخل ہوا تو پادریوں نے اس کی خاطر جدید قوانین وضع کیے اور نئی شریعت بنائی۔ اس نے ان کے لیے بڑے بڑے گرجا اور معاہد و مشاہد تعمیر کرائے اور اس نئے دین مسیحی کی جو اصل مسیحیت کو بگاڑ کر تیار کیا گیا تھا خوب اشاعت ہوئی بجز چند تارک الدنیا راہبوں کے جو بستیوں سے الگ جنگلوں اور پہاڑوں میں جا رہے تھے۔ کوئی شخص اصلی دین مسیحی پر قائم نہ رہا تھا۔ صلیب کی پرستش، مشرق کی طرف نماز پڑھنا، کلیساؤں میں مسیح و مریم وغیرہ کی تصاویر پوجنا، خنزیر وغیرہ کو حلال کرنا اور اسی طرح کی تحریفات نے حقیقی مسیحیت کو بالکل مسخ کر ڈالا۔ اور یہ ہی مسخ شدہ مسیحیت ساری دنیا میں پھیل گئی۔ یہ زمانہ تھا جب ملک شام، بیت المقدس، جزیرہ اور بلادِ روم پر "نصاریٰ" کا تسلط تھا، تاآنکہ فاروق اعظم کے عہد میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان ممالک کو نصاریٰ کے قبضہ سے نکالا۔ وللہ الحمد والمنہ

۹۷ ۔۔۔  بظاہر یہ خطاب پیغمبر علیہ السلام کو ہے لیکن حقیقت میں آپ کو مخاطب بنا کر دوسروں کو سنانا مقصود ہے جو ایک امی کی زبان سے ایسے عظیم الشان حقائق و واقعات سن کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں اور جہل و تعصب کی وجہ سے ان کی واقعیت میں شک و تردد کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ ورنہ ظاہر ہے کہ آپ خود اپنی لائی ہوئی چیزوں میں کیسے شک و شبہ کر سکتے تھے اور جس کی طرف تمام دنیا کو دعوت دیتے اور پہاڑ سے زیادہ مضبوط یقین سننے والوں کے قلوب میں پیدا کر دیتے تھے، اس کو خود اپنی زبان سے کیسے جھٹلاتے۔ چند آیات کے بعد صاف فرما دیا قُلْ یَااَیُّہَا النَّاسُ اِن کُنْتُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْ دِیْنِیْ الخ یہ آیت صاف بتلا رہی ہے کہ شک کرنے والے دوسرے لوگ تھے جن کے مقابلہ میں آپ اپنے غیر متزلزل اور اٹل عقیدہ کا اعلان کر رہے ہیں۔ بہرحال ان آیات میں پیغمبر کی زبان سے قرآن کے ہر ایک مخاطب کو متنبہ کیا کہ کفر و تکذیب کی بیماری شک سے شروع ہوتی ہے۔ اگر تم کو قرآن کے بیان کردہ واقعات میں شک و شبہ پیدا ہو تو اس کا فوراً علاج کرو۔ یعنی جو لوگ کتب سابقہ کا علم رکھتے ہیں، ان سے تحقیق کر لو۔ آخر ان میں کچھ آدمی سچے اور انصاف پسند بھی ہیں۔ وہ بتائیں گے کہ نبی امی نے جو کچھ بیان فرمایا کہاں تک درست ہے۔ بلاشبہ جو کچھ آپ لائے وہ سچ کے سوا کچھ نہیں، وہ پروردگار کا اتارا ہوا ہے جس میں شک و تردد کی قطعاً گنجائش نہیں۔ اگر بیہودہ شکوک کا علاج نہ کیا جائے تو چند روز میں شک ترقی کر کے امتراء(جدل) اور "امتراء" ترقی کر کے تکذیب کی حد تک جا پہنچے گا جس کا نتیجہ خسران و خرابی کے سوا کچھ نہیں۔ تکذیب کے بعد ایک اور درجہ ہے۔ جہاں پہنچ کر دل پر مہر لگ جاتی ہے تکذیب کرتے کرتے قبول حق کی استعداد بھی برباد ہو جاتی ہے۔ ایسا شخص اگر دنیا جہان کے سارے نشان دیکھ لے تب بھی ایمان نہ لائے۔ اسے عذاب الیم دیکھ کر ہی یقین آئے گا۔ جبکہ اس یقین سے کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ (فائدہ) کَلِمَۃُ رَبِّکَ(رب کی بات) سے مراد غالباً وہ ہے جو دوسری جگہ فرمایا۔ "لَاَمْلَئنَّ جَہَنَمَّ مِنَ الْجِنَّۃِ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ" یعنی دوزخ کو جن و انس سے بھروں گا۔ جن لوگوں پر بدبختی، سوءِ استعداد اور شامت اعمال سے یہ بات علم الٰہی میں ثابت ہو چکی۔ یہاں ان کا ذکر ہے۔

۹۸ ۔۔۔  یعنی جتنی بستیاں تکذیب انبیاء اور شرارتوں کی وجہ سے مستوجب عذاب ٹھہریں، ان میں سے کسی کو ایسی طرح ایمان لانے کی نوبت نہ آئی جو عذاب الٰہی سے نجات دیتا۔ صرف یونس علیہ السلام کی قوم کی ایک مثال ہے جس نے ایمان لا کر اپنے کو آسمانی عذاب سے بال بال بچا لیا جو بالکل ان کے سروں پر منڈلا رہا تھا۔ خدا نے ایمان کی بدولت دنیاوی زندگی میں ان پر سے آنے والی بلا ٹال دی اور جس وقت تک انھیں دنیا میں رہنا تھا یہاں کے فوائد و برکات سے منتفع کیا۔ مفسرین نے نقل کیا ہے کہ حضرت یونس علیہ السلام سرزمین موصل میں اہل نینوا کی طرف مبعوث ہوئے وہاں کے لوگ بت پرست تھے۔ یونس علیہ السلام لگاتار سات سال تک پند و نصیحت کرتے رہے انہوں نے ایک نہ سنی یوماً فیوماً انکار و تکذیب بڑھاتا رہا۔ آخر حضرت یونس نے تنگ آ کر انکو آگاہ کیا کہ (باز نہ آئے تو) تین دن کے اندر عذاب آنے والا ہے۔ جب تیسری شب آئی یونس علیہ السلام آدھی رات گزرنے پر بستی سے نکل کھڑے ہوئے صبح ہوتے ہی آثار عذاب کے نظر آنے لگے آسمان پر نہایت ہولناک اور سیاہ بادل چھا گیا جس سے دھواں نکلتا تھا۔ وہ ان کے مکانوں سے قریب ہوتا جاتا تھا حتیٰ کہ ان کی چھتیں بالکل تاریک ہو گئیں۔ یہ آثار دیکھ کر جب انہیں ہلاکت کا یقین ہو گیا تو یونس کی تلاش ہوئی وہ نہ ملے تو سب لوگ عورتوں بچوں سمیت بلکہ مواشی اور جانوروں کو بھی ساتھ لے کر جنگل میں نکل آئے اور سچے دل سے خدا کی طرف رجوع ہوئے۔ خوف سے چیخیں مارتے تھے اور بڑے اخلاص و تضرع سے خدا کو پکار رہے تھے۔ چاروں طرف آہ و بکاء کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں اور کہتے جاتے تھے کہ "أمنا بما جاءَ بہ یونس" جو کچھ یونس علیہ السلام لائے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے ان کے تضرع و بکاء پر رحم فرمایا اور آثار عذاب جو پیدا ہو چکے تھے اٹھا لیے گئے۔ یہاں پہنچ کر علمائے سلف کے دو قول ہیں۔ اکثر علماء کہتے ہیں کہ ابھی اصلی عذاب کا معائنہ ان کو نہ ہوا تھا۔ صرف علامات و آثار نظر آئے تھے۔ ایسے وقت کا ایمان شرعاً معتبر اور نافع ہے۔ "ایمان بأس" جو معتبر و مقبول نہیں اس سے مراد یہ ہے کہ عین عذاب کو دیکھ کر اور اس میں پھنس کر ایمان لائے جیسے فرعون نے سمندر کی موجوں میں پھنس کر اقرار کیا تھا۔ بعض علماء کے نزدیک قوم یونس کا ایمان بھی فرعون کی طرح "ایمان بأس" تھا جو عام ضابطہ کے موافق نافع نہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن حق تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے خلاف قاعدہ بطور استثناء اس قوم کا یہ ایمان معتبر رکھا۔ فرعون کے ایمان کی طرح رد نہیں فرمایا۔ پھر اختلاف ہوا ہے کہ آیا ان کے ایمان کا معتبر ہونا صرف دنیاوی زندگی تک محدود تھا کہ دنیا میں آنے والا عذاب ٹل گیا۔ یا آخرت میں بھی موجب نجات ہو گا۔"ابن کثیر" نے دوسرے احتمال کو ترجیح دی ہے یعنی دنیا اور آخرت دونوں جگہ مفید و معتبر ہو گا۔ واللہ اعلم۔ حضرت شاہ صاحب نے نہایت لطیف و دقیق طرز میں آیت کی تفسیر کی ہے۔ یعنی دنیا میں عذاب دیکھ کر یقین لانا کسی کو کام نہیں آیا، مگر قوم یونس کو، اس واسطے کہ ان پر حکم عذاب کا نہ پہنچا تھا۔ حضرت یونس کی شتابی سے محض صورت عذاب کی نمودار ہوئی تھی (تاکہ ان کی نظر میں حضرت یونس کی بات جھوٹی نہ ہو) وہ ایمان لائے پھر بچ گئے اور صورت عذاب ہٹا لی گئی۔ اسی طرح مشرکین مکہ کہ فتح مکہ میں فوج اسلام ان پر پہنچی قتل و غارت کے لیے۔ لیکن ان کا ایمان قبول ہو گیا اور امان ملی۔، حضرت یونس کے قصہ کا بقیہ " سورۃ الصَّآفَّات "وغیرہ میں آئے گا۔

۹۹ ۔۔۔  یعنی آپ کو یہ قدرت نہیں کہ زبردستی کسی کے دل میں ایمان اُتار دیں۔ خدا چاہتا تو بیشک سب آدمیوں کے دلوں میں ایمان ڈال سکتا تھا۔ مگر جیسا کہ پہلے متعدد مواضع میں تقریر کی جا چکی ہے، ایسا کرنا اس کی تکوینی حکمت و مصلحت کے خلاف تھا، اس لیے نہیں کیا۔

۱۰۰ ۔۔۔ خدا کی مشیت و توفیق اور حکم تکوینی کے بدون کوئی ایمان نہیں لا سکتا۔ اور یہ حکم و توفیق ان ہی کے حق میں ہوتی ہے جو خدا کے نشانات میں غور کریں اور عقل و فہم سے کام لیں۔ جو لوگ سوچنے سمجھنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتے انہیں خدا تعالیٰ کفر و شرک کی گندگی میں پڑا رہنے دیتا ہے۔

۱۰۱ ۔۔۔ یعنی سوچنے اور غرور کرنے والوں کے لیے آسمان و زمین میں خدا کی قدرت و حکمت اور توحید و تفرید کے کیا کچھ نشان موجود ہیں۔ بلکہ ذرہ ذرہ اور پتہ پتہ اس کی توحید پر دلالت کرتا ہے۔ لیکن جو کسی بات کو ماننا اور تسلیم کرنا نہیں چاہتے ان کے لیے یہ سب نشانات و دلائل بیکار ہیں اور ڈرانے والے پیغمبروں کی تنبیہ و تخویف بھی غیر موثر ہے۔

۱۰۲ ۔۔۔  ایسی ضدی اور معاند قوم کے لیے جو کسی دلیل اور نشان کو نہ مانے، اور کچھ باقی نہیں بجز اس کے کہ گذشتہ مکذبین پر جو آفات و حوادث نازل ہوئے ہیں، ان کا یہ بھی انتظار کریں۔ سو بہتر ہے تم اور ہم دونوں مل کر اس وقت کا انتظار کرتے ہیں تاکہ صادق و کاذب کا آخری فیصلہ سامنے آ جائے۔

۱۰۳ ۔۔۔ یعنی جیسے پہلی قوموں کے ساتھ ہماری عادت رہی ہے کہ مکذبین کو ہلاک کر کے پیغمبروں اور مؤمنین کو بچایا۔ اسی طرح موجودہ اور آئندہ مومنین کی نسبت ہمارا وعدہ ہے کہ ان کو نجات دیں گے آخرت میں عذاب الیم سے اور دنیا میں کفار کے مظالم اور سختیوں سے ہاں شرط یہ ہے کہ مؤمنین مؤمنین ہوں۔ یعنی وہ صفات و خصال رکھتے ہوں جو قرآن و حدیث میں مؤمنین کی بیان ہوئیں ہیں۔

۱۰۶ ۔۔۔  یعنی اگر میرا طریقہ اور مسلک دینی تمہاری سمجھ میں نہیں آیا۔ اس لیے اس کی نسبت شکوک و شبہات میں پھنسے ہوئے ہو، تو میں تمہیں اپنے دین کا اصل اصول (جو توحید خالص ہے) سمجھائے دیتا ہوں۔ خلاصہ یہ ہے کہ میں تمہارے ان فرضی معبودوں کی عبادت سے سخت نفور اور بیزار ہوں جس کے اختیار کرنے کا امکان بھی کبھی میری طرف سے دل میں نہ لانا۔ میری عبادت خالص اس خداوند قدوس کے لیے ہے جس کے قبضہ میں تمہاری سب کی جانیں ہیں کہ جب تک چاہے انہیں جسموں میں چھوڑے رکھے اور جب چاہے ایک دم میں کھینچ لے گویا موت و حیات کا رشتہ جس کے ہاتھ میں ہے بندگی اسی کی ہو سکتی ہے۔ نہ صرف یہ کہ جوارح سے اس کی بندگی کی جائے، ضروری ہے کہ دل میں اس کی توحید و تفرید پر پورا یقین و ایمان ہو اور ظاہر و باطن میں اسی دین حنیف پر جو ابراہیم خلیل اللہ کا دین ہے پوری ہمت اور توجہ سے مستقیم رہ کر شرک جلی وخفی کا تسمہ نہ لگا رہنے دیا جائے۔ جس طرح عبادت صرف اسی کی کریں، استعانت کے لیے بھی اسی کو پکاریں، کیونکہ ہر قسم کا نفع نقصان اور بھلائی برائی تنہا اسی کے قبضہ میں ہے۔ مشرکین کی طرح ایسی چیزوں کو مدد کے لیے پکارنا جو کسی نفع نقصان کی مالک نہ ہوں سخت بے موقع بات بلکہ ظلم عظیم (یعنی شرک) کا ایک شعبہ ہے۔ اگر بفرض محال نبی سے ایسی حرکت صادر ہو تو ان کی عظیم الشان شخصیت کو لحاظ کرتے ہوئے ظلم اعظم ہو گا۔

۱۰۷ ۔۔۔  جب ان چیزوں کو پکارنے سے منع کیا جن کے قبضہ میں تمہارا بھلا برا کچھ نہیں تو مناسب ہوا کہ اس کے بالمقابل مالک علی الاطلاق کا ذکر کیا جائے جو تکلیف و راحت اور بھلائی برائی کے پورے سلسلہ پر کامل اختیار اور قبضہ رکھتا ہے جس کی بھیجی ہوئی تکلیف کو دنیا میں کوئی نہیں ہٹا سکتا۔ اور جس پر فضل و رحمت فرمانا چاہے، کسی کی طاقت نہیں کہ اسے محروم کر سکے۔

۱۰۸ ۔۔۔  یعنی حق واضح طور پر دلائل و براہین کے ساتھ پہنچ چکا، جس کے قبول نہ کرنے کا کوئی معقول عذر کسی کے پاس نہیں خدا کی آخری حجت بندوں پر تمام ہو گئی۔ اب ہر ایک اپنا نفع نقصان سوچ لے جو خدا کی بتلائی ہوئی راہ پر چلے گا دنیا و آخرت میں کامیاب ہو گا۔ جو اسے چھوڑ کر ادھر ادھر بھٹکتا پھرے گا خود پریشان اور ذلیل و خوار رہے گا اپنے بھلے برے کو خوب سمجھ کر ہر شخص اپنے مستقبل کا انتظام کر لے اور جو راستہ پسند ہو اختیار کرے پیغمبر کوئی مختار بنا کر نہیں بھیجے گئے جو تمہارے افعال کے ذمہ دار اور جواب دہ ہوں۔ ان کا کام صرف آگاہ کر دینے اور راستہ بتلا دینے کا ہے۔ اس پر چلنا، چلنے والے کے اختیار میں ہے۔

۱۰۹ ۔۔۔ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر یہ لوگ حق کو قبول نہ کریں تو اپنے کو ان کے غم میں نہ گھلائیں۔ آپ خدا کے احکام کی پیروی کرتے رہیے اور تبلیغ وغیرہ کے کام میں لگے رہیے۔ اور جو شدائد اس راستہ میں پہنچیں ان پر صبر کیجئے۔ مخالفین کی ایذاء رسانیوں کا تحمل کرتے رہنا چاہیے۔ یہاں تک کہ خدا آپ کے اور ان کے درمیان بہترین فیصلہ کر دے یعنی حسب وعدہ آپ کو منصورو غالب کرے یا جہاد کا حکم بھیج دے۔ تَمَّ سُورَۃُ یُوْنُسَ عَلَیْہِ السَّلَامُ بِمَنِّہٖ تَعَالیٰ وَفَضْلِہٖ فَلِلّٰہِ الْحَمْدُ عَلیٰ ذٰلِک۔