تفسیر مدنی

سُوۡرَةُ الجُمُعَة

(سورۃ الجمعۃ ۔ سورہ نمبر ۶۲ ۔ تعداد آیات ۱۱)

 

اللہ کے (پاک) نام سے شروع کرتا ہوں جو کہ بڑا مہربان، نہایت ہی رحم فرمانے والا ہے ۔

 

۱۔۔۔     اللہ کی پاکی بیان کرتا ہے وہ سب کچھ جو کہ آسمانوں میں ہے اور وہ سب کچھ بھی جو کہ زمین میں ہے جو کہ بادشاہ ہے ہر طرح سے پاک سب پر غالب اور انتہائی حکمت والا ہے

۲۔۔۔     وہ (اللہ) وہی ہے جس نے (عرب کے ) اِن اَن پڑھوں میں ان ہی میں سے ایک ایسا عظیم الشان رسول بھیجا جو کہ پڑھ پڑھ کر سناتا (سمجھاتا) ہے ان کو اس کی آیتیں اور وہ سنوارتا (نکھارتا) ہے ان کے باطن کو اور سکھاتا (پڑھاتا) ہے ان کو کتاب و حکمت (کے مطالب و معانی کے انمول خزانے ) جب کہ یہ لوگ اس سے قبل یقیناً پڑے تھے کھلی گمراہی میں

۳۔۔۔     نیز (اس رسول کی تشریف آوری) ان دوسرے تمام لوگوں کے لئے بھی ہے جو ابھی تک ان سے نہیں ملے اور وہی (اللہ) ہے سب پر غالب نہایت حکمت والا

۴۔۔۔     یہ اللہ کا فضل ہے وہ اس کو جسے چاہتا ہے عطا فرما دیتا ہے اور اللہ بڑا ہی فضل کرنے والا ہے

۵۔۔۔     مثال ان لوگوں کی جن سے اٹھوائی گئی تورات (اور ان کو اس پر عمل کا پابند کیا گیا) مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا (اور اس پر عمل نہ کیا) اس گدھے کی سی ہے جس کی پیٹھ پر لدی ہوں بہت سی (بھاری بھر کم) کتابیں بڑی ہی بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے جھٹلایا اللہ کی آیتوں کو اور اللہ نہیں نوازتا ہدایت (کی دولت عظیم) سے ایسے ظالم لوگوں کو

۶۔۔۔     (ان سے ) کہو کہ اے وہ لوگوں جو یہودی بن گئے ہو اگر تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تم اللہ کے دوست (اور پیار ے ) ہو باقی لوگوں کو چھوڑ کر تو تم تمنا کرو موت کی اگر تم سچے ہو (اپنے قول و قرار میں )

۷۔۔۔     مگر وہ کبھی بھی اس کی تمنا نہیں کریں گے بوجہ اپنے ان کرتوتوں کے جو وہ خود اپنے ہاتھوں آگے بھیج چکے ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے ایسے ظالموں کو

۸۔۔۔     (ان سے ) کہو کہ یہ قطعی حقیقت ہے کہ جس موت سے تم لوگ بھاگتے ہو وہ بہر طور تمہیں آ کر رہے گی پھر تم سب کو آخرکار بہر حال لوٹ کر جانا ہے اس (ذات اقدس و اعلیٰ) کے حضور جو ایک برابر جانتا ہے نہاں اور عیاں کو تب وہ خبر کر دے گا تم کو ان سب کاموں کی جو تم لوگ (زندگی بھر) کرتے رہے تھے

۹۔۔۔     اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو جب اذان دی جائے نماز کے لئے جمعہ کے دن تو تم دوڑ پڑا کرو اللہ کے ذکر (اور اس کی یاد دلشاد) کی طرف اور چھوڑ دیا کرو تم خرید و فروخت (اور ہر طرح کے کاروبار) کو یہ تمہارے لئے کہیں زیادہ بہتر ہے اگر تم جانو

۱۰۔۔۔     پھر جب ادا کر دی جائے نماز تو تم لوگ پھیل جایا کرو (اللہ کی) زمین میں اور تلاش کیا کرو اللہ کا فضل (اور اس کی مہربانی یعنی تمہیں اس کی اجازت ہے ) اور یاد کرتے رہا کرو تم لوگ (ہمیشہ اور ہر حال میں اور) کثرت کے ساتھ (اپنے ) اللہ کو تاکہ تم فلاح پا سکو

۱۱۔۔۔     اور (ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ) جب انہوں نے دیکھ لیا کوئی سامان تجارت یا کسی طرح کا کوئی (کھیل) تماشہ تو ٹوٹ پڑے اس پر اور چھوڑ دیا آپ کو کھڑا (اے پیغمبر سو ان سے ) کہو کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہر حال کہیں بہتر (اور بڑھیا) ہے ایسے (کھیل) تماشے اور سامانِ تجارت سے اور اللہ سب سے اچھا روزی دینے والا ہے

تفسیر

 

۴۔۔۔   اور اتنے بڑے فضل والا کہ جس کی کوئی حد و انتہاء اور کنارہ نہیں، اور اپنے اسی فضل بے پایاں اور کرم بے نہات کی بناء پر اس نے امیوں کے اندر اور پوری دنیا کی ہدایت و راہنمائی کے لئے ایسا عظیم الشان رسول مبعوث فرمایا جو ان کے دارین کر سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کی راہوں کی راہنمائی کرتا، اور انکی تعلیم دیتا ہے، اور وہ اپنے فضل سے جس کو چاہے نوازے وَاللّٰہُ یَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہٖ مَنْ یَّشَاءُ کہ وہی جانتا ہے کہ اس کے فضل کا اہل اور مستحق کون ہے؟ اور کون ہو سکتا ہے؟ کہ وہی وحدہٗ لاشریک ہے جس کا علم بھی کامل ہے اور اس کی حکمت بھی کامل سبحانہ و تعالیٰ اس لئے اس کے فضل و کرم اور انعام و احسان پر نہ کسی کی اجارہ داری ہے نہ ہو سکتی ہے اور نہ ہی کسی کو اس پر کوئی سوال و اعتراض کرنے کا حق حاصل ہو سکتا ہے، پس یہود بے بہبود کا حضرت خاتم الانبیاء علیہ وعلیہم الصلوٰۃ والسلام کی بعثت و تشریف پر اعتراض کرنا خود ان لوگوں کی اپنی حماقت اور مت ماری کا ثبوت ہے لیکن یہ اس بارے جتنا بھی حسد چاہیں کر لیں اس سے یہ اپنا ہی نقصان کریں گے، حق اور اہل حق کا کچھ نہیں بگاڑیں گے کہ حسد سب سے پہلے اسی کو جلاتا ہے جو حسد کرتا ہے، اور وہ اس کو اس ٹھنڈی اور غیر مرئی آگ میں جلاتا ہے جو اس ظاہری اور نظر آنے والی آگ سے کہیں بڑھ کر سخت المناک، اور نقصان دہ ہوتی ہے، والعیاذ باللہ جل و علا

۵۔۔۔   اس سے یہود کے بت پندار پر ضرب لگائی گئی ہے کہ یہ جو اس گھمنڈ میں مبتلا ہیں کہ کتاب و شریعت کے حامل اور علمبردار یہی ہو سکتے ہیں ان کے ہوتے ہوئے کسی اور کو اس کا حق نہیں پہنچتا، تو یہ ان لوگوں کا زعم فاسد اور گمان باطل ہے اس کو یہ اپنے دماغ سے نکال دیں، کہ اب ان کی مثال تو اس گدھے کی سی ہے جس نے کتابوں کا ایک بھاری بوجھ تو اٹھا رکھا ہو، مگر اس کو اس کا کچھ پتہ نہ ہو، کہ اس کی پیٹھ پر کیا لدا ہوا ہے، اور یہ ایک ظاہر اور واضح بات ہے کیونکہ ان کتابوں کے احکام کی ان لوگوں نے تکذیب کر دی جن پر عمل کی ذمہ داری ان پر ڈالی گئی تھی۔ اس لئے ان کے اجر و ثواب سے تو یہ محروم ہو گئے۔ البتہ ان کا زور اور گناہ ان پر باقی رہ گیا، اور یہ اس مشہور مثل کے مصداق بن کر رہ گئے۔ چارپائے کہ برو کتاب چند اور حُمِّلُوْا کے لفظ سے اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ جس تورات کے حامل ہونے کا آج ان لوگوں اس قدر زعم و گھمنڈ اور اتنا ناز ہے اس کو انہوں نے اس وقت بھی شوق و رغبت سے قبول نہیں کیا تھا جس وقت وہ ان کو عطاء ہوئی تھی بلکہ اس وقت بھی اس کو ان پر لادا گیا تھا۔ اور انہوں نے اپنے عمل و کردار سے اس کی آیتوں کی تکذیب کی تھی اور بڑی بُری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیتوں کی تکذیب کی۔ اور اللہ ایسے ظالم لوگوں کو ہدایت کی دولت سے نہیں نوازتا۔ کیونکہ ہدایت کی دولت عظمیٰ سے سرفرازی کی اولین شرط اور بنیا دی تقاضا طلب صادق اور قدر نعمت ہے جس سے یہ لوگ محروم ہیں بلکہ انہوں نے تو اس سے بھی بڑھ کر یہ کیا کہ اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا۔ جس کے نتیجے میں یہ اس کی لعنت مورد و مستحق بنے۔ اور انہوں نے اللہ کے آخری رسول کی تکذیب کی تو پھر ان کو اپنی بڑائی کے زعم کا آخر کیا حق پہنچتا ہے؟ اور کیسے اور کیونکر؟ سو جو لوگ اللہ کی آیتوں کی تکذیب کر کے بڑی بُری مثال کے مصداق بن چکے ہوں، ان کو آخر یہ بات کس طرح زیب دے سکتی ہے کہ وہ اپنی بڑائی اور تقدس کا دعویٰ کریں؟ اور اس زعم اور گھمنڈ میں مبتلا ہو جائیں کہ ان کے سوا کتاب وشریعت کا کوئی اہل اور حامل ہو ہی نہیں سکتا؟

۷۔۔۔   اس سے ان لوگوں کی بزدلی اور موت سے ان کے خوف کو بھی واضح فرما دیا گیا، اور اس کے سبب اور باعث کو بھی اور ساتھ ہی ان کو ان کے لازمی نتیجہ اور حتمی انجام سے بھی آگاہی بخش دی گئی۔ سو ان کی بزدلی اور موت سے ان کے خوف کے ذکر و بیان کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہ کبھی بھی موت کی تمنا نہیں کریں گے، بلکہ دوسرے مقام پر اس ضمن میں اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ یہ لوگ تو سب سے بڑھ کر زندگی کے حریص ہیں حتی کہ کھلے مشرکوں سے بھی کہیں بڑھ کر، یعنی یہ ان لوگوں سے بھی بڑھ کر دنیاوی زندگی کے حریص ہیں جو کہ اخروی زندگی کے سرے سے قائل ہی نہیں ان میں سے تو ہر کوئی یہ چاہتا اور اس کی تمنا کرتا ہے کہ اس کو ہزار برس کی زندگی مل جائے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے وَلَتَجِدَنَّہُمْ اَحْرَصَ النَّاسِ عَلیٰ حَیٰوۃٍ وَّمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا یَوَدُّ اَحَدُہُمْ لَوْ یُعَمَّرُ اَلْفَ سَنَۃٍ الایٰۃ (البقرۃ،٩۶) اور دنیاوی زندگی کے لئے ان کے اس حرص اور لالچ کے سبب اور باعث کے ذکر کے سلسلے میں ارشاد فرمایا گیا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْہِمْ یعنی یہ لوگ موت کی تمنا نہیں کر سکیں گے بوجہ اپنے ان کرتوتوں کے جو انہوں نے اپنے ہاتھوں آگے بھیج رکھے ہیں کہ یہ لوگ حضرت انبیاء ورسل کے قاتل و مکذب، اور تورات کے محرف و مبدل ہیں اللہ کی امانتوں میں خیانت کرنے والے اور ان نشانات ہدایت کو مٹانے والے ہیں جن کی حفاظت و پاسداری کی ذمہ داری ان کو سونپی گئی تھی تو پھر یہ موت کی تمنا کریں تو کس طرح کریں؟ اور اپنے رب کے حضور حاضر ہوں تو کس منہ کے ساتھ حاضر ہوں؟ پھر ان کے اس انجام کو واضح فرما دیا گیا جس کے یہ لوگ اپنی اس کمائی کے نتیجے اور اس کی پاداش میں مستحق ہیں سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ ایسے ظالموں کو پوری طرح جانتا ہے پس یہ اس کے مواخذے اور اس کے عذاب و عقاب سے کسی طرح بچ اور چھوٹ نہیں سکیں گے بلکہ انہوں نے آخرکار اور اپنے وقت مقرر پر بہر حال اس کے حضور حاضر ہونا ہے اور اپنے کئے کرائے کا بدلہ پانا اور پورا پورا بدلہ پانا ہے۔

۱۱۔۔۔   کہ رازق سب کا بہر حال وہی وحدہٗ لاشریک ہے اور رزق و روزی کے سب ذرائع و وسائل اور جملہ اختیارات، بہر حال اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہیں جس کو جو کچھ اور جتنا کچھ ملتا ہے اور جس طرح اور جس شکل میں بھی ملتا ہے وہ سب بہر حال اسی واہب مطلق کی طرف سے اور اسی کی رحمت و عنایت سے ملتا ہے پس بندے کے ذمہ صرف یہ امر ہے کہ وہ حسب ضرورت و موقع اپنے بس کی حد تک اس کے لئے کوشش کرے اور پھر نتیجہ اسی پر چھوڑ دے سبحانہ و تعالیٰ اور یہ حقیقت ہمیشہ پیش نظر رکھے کہ جو کچھ اس خالق و مالک کے پاس ہے وہ دنیاوی مال و دولت اور اسباب لہو و لعب اور سامان تجارت سے کہیں بڑھ کر بہتر ہے پس وہ دنیاوی مال و دولت کے بجائے اصل مقصد اس کی رضا کو ہی بنائے، کیونکہ دنیا اور اس کی ہر چیز عارضی اور فانی ہے اور آخرت اور وہاں کی ہر چیز اَبَدی اور دائمی ہے، جس طرح کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا مَاعِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ بَاقٍ الایۃ (النحل،٩۶) یعنی جو کچھ تم لوگوں کے پاس ہے اس نے بہر حال ختم ہو جانا ہے، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ ہمیشہ باقی رہے گا، پس دنیا کا بڑے سے بڑا نقصان کر کے بھی اگر خدا و رسول کی خوشنودی حاصل ہو جائے تو یہ سودا پھر بھی سراسر نفع کا سودا ہے، کہ اس کے نتیجے میں آخرت کی اَبَدی بادشاہی سے سرفرازی نصیب ہو گی، و باللہ التوفیق لما یحب و یرید، وعلی مایحب و یرید،