دعوۃ القرآن

سُوۡرَةُ الجُمُعَة

تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

نام

 

آیت ۹ میں جمعہ کی نماز کی اہمیت واضح کی گئی ہے ۔ اس مناسبت سے اس سورہ کا نام " اَلْجُمُعَۃُ" ہے ۔

 

زمانۂ نزول

 

مدنی ہے اور ہجرت کے کچھ عرصہ بعد ہی نازل ہوئی ہے جیسا کہ اس واقعہ سے ظاہر ہے جو اخیر میں جمعہ کے تعلق سے بیان ہوا ہے۔

 

رہی ابوہریرہ کی روایت جو بخاری وغیرہ میں بیان ہوئی ہے کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ یہ آیتیں نازل ہوئیں اور حضرت ابو ہریرہؓ کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ صلح حدیبیہ کے بعد ایمان لائے تھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ راویوں نے الفاظ ٹھیک سے یاد نہیں رکھے ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے غالباً یہ فرمایا ہوگا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے سامنے یہ آیتیں تلاوت فرمائیں لیکن راویوں نے اس بات کو آیتوں کے نازل ہونے پر محمول کیا ورنہ یہ باور کرنا مشکل ہے کہ جب صحابہ کی تعداد کثیر ہو گئی تھی تو ان کی موجودگی میں جمعہ کا وہ واقعہ پیش آیا ہوگا جس کی طرف اس سورہ میں اشارہ کیا گیا ہے ۔

 

مرکزی مضمون

 

اللہ کے اس فضل کو محسوس کرانا ہے کہ اس نے کس شان کا رسول برپا کیا ہے اور وہ کیسی بہترین تعلیم و تربیت دے رہا ہے ۔ اس کی قدر پہچانو اور اس کی تعلیمات پر عمل کرو تو تمہاری زندگیاں سنور جائیں گی اور ابدی کامیابی تمہیں حاصل ہوگی۔

 

نظمِ کلام

 

آیت ۱ تمہیدی آیت ہے جس میں اللہ کی تسبیح کے ساتھ اس کی صفات بیان ہوئی ہیں ۔

 

آیت ۲ تا ۴ میں اللہ کے اس عظیم فضل کا بیان ہے کہ امیوں میں کس شان کا رسول برپا کیاگیا ہے ۔

 

آیت ۵ تا ۸ میں یہود کی بے عملی اور غلط دعووں پر گرفت کی گئی ہے ۔

 

آیت ۹ تا ۱۱ میں مسلمانوں کو جمعہ کی نماز کا اہتمام کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ اوپر یہود کے جس طرزِ عمل کا ذکر ہوا اس سے اس بات کی طرف اشارہ کرنا بھی مقصود ہے کہ انہوں نے سبت کے احکام کی جس طرح خلاف ورزی کی اس طرح مسلمان جمعہ کے احکام کی خلاف ورزی نہ کریں ۔

 

حدیث

 

حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جمعہ کی نماز میں سورۂ جمعہ اور سورۂ منافقون پڑھا کرتے تھے ۔ ( ترمذی ابواب الجمعہ)

ترجمہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اللہ رحمن و رحیم کے نام سے

 

۱۔۔۔۔۔۔ اللہ کی تسبیح کرتی ہیں ساری چیزیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ۔ وہ بادشاہ، قدوس(پاک) ، غلبہ والا اور حکمت والا ہے ۔۱*

 

۲۔۔۔۔۔۔ اسی نے امیوں ۲* میں ایک رسول ان ہی میں سے اٹھایا جو ان کو اس کی آیتیں سناتا ہے ، ان کا تزکیہ ( ان کو پاک) کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے ۔ ۳* اس سے پہلے یہ لوگ کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے ۔ ۴*

 

۳۔۔۔۔۔۔ اور( اس کی بعثت) ان ( امیوں ) میں سے ان دوسرے لوگوں کے لیے بھی ہے جو ابھی ان سے ملے نہیں ہیں ۔ ۵* اور اللہ غالب ہے حکمت والا ہے ۔

 

۴۔۔۔۔۔۔ یہ اللہ کا فضل ہے جس سے نوازتا ہے وہ جسے چاہتا ہے ۔ ۶* اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے ۔

 

۵۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں کی مثال جن پر تورات کا بار ڈالا گیا تھا مگر انہوں نے اس کو نہیں اٹھایا اس گدھے کی سی ہے جو کتابوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہو۔ ۷* بہت بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے اللہ کی آیتوں کو جھٹلایا۔۸* اللہ ایسے ظالموں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔

 

۶۔۔۔۔۔۔ کہو اے وہ لوگو جو یہودی بن گئے ہو۔ ۹* اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ دوسروں کو چھوڑ کر تم ہی اللہ کے چہیتے ہو تو موت کی تمنا کرو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ ۱۰*

 

۷۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ ہرگز اس کی تمنا نہ کریں گے ان کرتوتوں کی وجہ سے جو وہ کر چکے ہیں ۔ ۱۱* اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے ۔

 

۸۔۔۔۔۔۔ ( ان سے ) کہو جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تمہیں آ کر رہے گی۔ ۱۲* پھر تم اس کے سامنے حاضر کئے جاؤ گے جو غیب اور حاضر سب کا جاننے والا ہے ۔ وہ تمہیں بتا دے گا کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔

 

۹۔۔۔۔۔۔ اے ایمان والو! جمعہ کے دن جب نماز کے لیے پکارا جائے ( اذان دی جائے ) تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خریدو فروخت چھوڑ دو۔ ۱۳* یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ ۱۴*

 

۱۰۔۔۔۔۔۔ پھر جب نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔ ۱۵* اور اللہ کا ذکر کثرت سے کرو تاکہ تم فلاح پاؤ ۱۶*

 

۱۱۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ جب تجارت یا لہو چیز دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑتے ہیں اور( اے نبی!) تم کو کھڑا چھوڑ دیتے ہیں ۔ ۱۷* کہو جو اللہ کے پاس ہے وہ لہو اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ بہترین رازق ہے ۔ ۱۸*

تفسیر

۱۔۔۔۔۔۔  ان صفات کی تشریح سورۂ حشر میں گزر چکی۔ اس تمہیدی آیت میں اللہ کی ان صفات کا ذکر اس مناسبت سے ہوا ہے کہ رسول کو بھیجنے والی ہستی کی صحیح معرفت حاصل ہو جائے اور لوگ اچھی طرح سمجھ لیں کہ یہ رسول فرمانروائے کائنات کی طرف سے پیغام لے کر آیا ہے لہٰذا اس پر ایمان لانا بندگانِ خدا کے لیے لازم، واجب اور فرض ہے ۔ وہ قدوس ہے اس لیے اس کے تمام فیصلے خطا سے پاک ہوتے ہیں لہٰذا جس شخص کو اس نے رسالت کے لیے چن لیا ہے وہ اس منصب کے لیے موزوں ترین شخصیت ہے اور اس کا فیصلہ بالکل صحیح اور حکیمانہ ہے ۔

 

۲  لفظ اُمّی کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ آل عمران نوٹ ۲۹ سورۂ اعراف نوٹ ۲۲۴  اور سورۂ عنکبوت نوٹ ۹۱۔

 

۳۔۔۔۔۔۔  تشریح کے لیے دیکھئے سورۂ بقرہ نوٹ ۱۴۹۔

 

۴۔۔۔۔۔۔  یعنی اس رسول کے آنے سے پہلے یہ عرب جو امّی یعنی اَن پڑھ واقع ہوئے ہیں اور جن کے پاس کتابِ الٰہی موجود نہیں تھی کھلی گمراہی میں مبتلا تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ احسان فرمایا کہ ان ہی میں سے ایک رسول ان کی ہدایت کے لیے اٹھایا جو دعائے ابراہیم اور نویدِ مسیح کا مظہر ہے اور جس کی شان یہ ہے کہ وہ ناخواندہ ہونے کے باوجود آیاتِ الٰہی کو جو اس پر نازل ہوئی ہیں پڑھ کر سناتا ہے جس سے دلوں میں ایمان کا نور پیدا ہو جاتا ہے ، ان امیوں کی ایسی تربیت کرتا ہے کہ ان کی زندگیاں سنور جاتی ہیں اور بہترین اوصاف ان کے اندر پیدا ہو جاتے ہیں ۔ کتابِ الٰہی کی ایسی تعلیم دیتا ہے کہ وہ اس کے حامل بن جاتے ہیں اور حکمت کے موتی ایسے بکھیرتا ہے کہ ان کے دامن ان کو سمیٹتے ہوئے بھر جاتے ہیں ۔ اس لیے اس رسول کی رسالت شبہ سے بالاتر ہے اور اس کی بعثت اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان ہے جس کی ناقدری بہت بڑی محرومی کا باعث ہے ۔

 

۵۔۔۔۔۔۔  یہ اس بات کی خوشخبری ہے کہ پیروانِ رسول کا حلقہ وسیع تر ہوتا چلا جائے گا اور اس میں دوسرے عرب قبائل بھی شامل ہو جائیں گے قرآن کی یہ پیشین گوئی پوری ہوئی اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی زندگی ہی میں عرب کے تمام قبیلے مسلمان ہو گئے ۔

 

واضح رہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت اگرچہ عرب کے امیوں میں ہوئی تھی لیکن جیسا کہ قرآن صراحت کرتا ہے آپ کی بعثت صرف عربوں کے لیے نہیں تھی بلکہ عرب و عجم، امی اور اہلِ کتاب سب کے لیے ہے اور کسی ایک دور کے لیے نہیں بلکہ قیامت تک تمام ادوار کے لیے ہے ۔

 

۶۔۔۔۔۔۔  امی عربوں پر یہ اللہ کا خاص فضل ہے کہ اس نے ان کے اندر ایسی شان کا رسول برپا کیا ، اس آیت کا اشارہ اس بات کی طرف بھی ہے کہ یہود کو یہ بات کسی طرح گوارا نہیں کہ رسول کی بعثت بنی اسرائیل کے علاوہ کسی اور قوم میں ہو لیکن رسالت کا منصب ان کی تمناؤں پر موقوف نہیں ہے بلکہ وہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چا ہے اس سے نوازے ۔ اس پر اعتراض کا کسی کو کیا حق؟

 

۷۔۔۔۔۔۔   سِفر ( جمع اسفار) کے معنی عربی اور عبرانی دونوں میں کتاب کے ہیں ۔ یہود کی مذہبی زبان عبرانی ہے اور تورات کے لیے ان کے یہاں اسفار کا لفظ معروف تھا اس لیے یہود کو اپنی آسمانی کتابوں کی طرف متوجہ کرنے کے لیے یہ لفظ زیادہ موزوں ہوا۔

 

یہود کی جہالت اور بے عملی کو جو تورات کا حامل ہونے کے باوجود ان کے اندر پائی جاتی تھی گدھے سے تشبیہ دی گئی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں اور وہ نہیں جانتا کہ وہ کوئی قیمتی چیز اٹھائے ہوئے ہے ۔ ایسے ہی نادان یہود ہیں کہ تورات جیسی کتابِ الٰہی کی قدر و قیمت انہوں نے نہیں پہچانی____ اگر اس کی قدر پہچانتے تو آج قرآن کی بھی قدر کرتے کہ دونوں کا نازل کرنے والا اللہ ہی ہے ۔

 

یہاں جو مثال دی گئی ہے وہ بہت بلیغ ہے اور ان مسلمانوں پر بھی چسپاں ہوتی ہے جن کو قرآن جیسی نعمت ملی ہے لیکن انہوں نے اس کی قدر نہیں پہچانی۔ نہ انہوں نے اس کا علم حاصل کیا اور نہ اس کی ہدایتوں پر عمل کیا۔

 

۸۔۔۔۔۔۔  یہود کی اس نادانی کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ آج قرآن کو جو اللہ ہی کی کتاب ہے جھٹلانے میں لگے ہوئے ہیں ۔

 

۹۔۔۔۔۔۔  اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ بنی اسرائیل کو جو دین عطا ہوا تھا وہ اسلام ہی تھا لیکن بعد میں انہوں نے اس میں ردو بدل کر کے اپنے کو مسلم کہلانے کے بجائے یہودی کہلانا پسند کیا۔

 

۱۰۔۔۔۔۔۔  یہود کا دعویٰ تھا کہ وہی بلا شرکت غیرے اللہ کے محبوب ہیں مگر اس دعوے کی قلعی اس وقت کھل گئی جب قرآن نے ان سے کہا کہ پھر موت کی تمنا کرو کیونکہ جو اللہ کے محبوب ہیں ان کے لیے جنت ہے اور جب تمہیں اپنے جنتی ہونے کا یقین ہے تو پھر تمہیں آخرت کا طلبگار بننا چاہیے نہ کہ دنیا کا حریص مگر تم تو دنیا میں زیادہ سے زیادہ جینا چاہتے ہو۔ (سورۂ بقرہ آیت ۹۶) اور بزدلی تو تمہارا شیوہ بن گئی ہے ۔ تمہارا یہ رویہ تمہارے دعوے کی خود ہی تردید کر رہا ہے ۔

 

۱۱۔۔۔۔۔۔  یعنی ان کی زندگیاں گناہوں سے لت پت ہیں اس لیے باوجود ان کے اس دعوے کے کہ وہ اللہ کے محبوب ہیں ان کے دل میں یہ کھٹک ضرور ہے کہ ہم اپنے کرتوتوں کی وجہ سے کہیں پکڑ نہ لئے جائیں اس لیے وہ آخرت کے بالمقابل دنیا ہی کو پسند کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہیں وہ چین کی بانسری بجاتے رہیں ۔

 

قرآن کے اس چیلنج کو کہ وہ موت کی تمنا کریں یہود نے قبول نہیں کیا جس سے ان کے دعوے کی تردید بھی ہوئی اور قرآن کی صداقت بھی روشن ہوئی۔

 

۱۲۔۔۔۔۔۔  یعنی موت سے کسی صورت میں بھی مفر نہیں ۔ لا محالہ اس سے تمہیں دو چار ہونا ہے پھر تم موت کے ڈر سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے سے کیوں گریز کرتے ہو۔

 

۱۳۔۔۔۔۔۔  اوپر یہود کے کردار پر گرفت کی گئی تھی اب اہل ایمان کو خطاب کر کے ان پر جمعہ کی نماز کی اہمیت و فرضیت واضح کی گئی ہے ۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہود کو سبت( سنیچر کا دن) منانے کا حکم دیا گیا تھا لیکن انہوں نے اس کی خلاف ورزی کی اب مسلمانوں کو آسان شریعت دی جا رہی ہے اور ان پر جمعہ کے دن صرف نماز جمعہ کی پابندی ہے اس تخفیف کی قدر کرتے ہوئے وہ اس کی تعمیل مستعدی کے ساتھ کریں اور یہو دکا سا طرزِ عمل اختیار نہ کریں ۔ اس موقع پر سورۂ نمل نوٹ ۱۸۴ بھی پیش نظر رہے جس میں سبت اور جمعہ کے تعلق سے حدیث نقل کی گئی ہے ۔

 

جمعہ کی نماز کا آغاز صحیح روایت کے مطابق مدینہ میں اس وقت ہوا جب کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے اور قبا میں قیام کرنے کے بعد جب شہر کی طرف جا رہے تھے تو قبیلہ بنی سالم کی آبادی سے جمعہ کے دن گزر ہوا اور آپ نے وہیں جمعہ ادا فرمایا۔ یہ پہلا جمعہ تھا اور جہاں تک اس سورہ کا تعلق ہے اس کے کچھ عرصہ بعد نازل ہوئی جب کہ وہ واقعہ پیش آیا جس کا ذکر آگے ہوا ہے ۔

 

قرآن کی یہ آیتیں نمازِ جمعہ کی تاکید کے طور پر نازل ہوئی ہیں جس کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم پہلے ہی قائم فرما چکے تھے ۔ اس سے یہ بات خود بخود واضح ہوتی ہے کہ شریعت کے احکام صرف وہی نہیں ہیں جو قرآن میں بیان ہوئی ہوئے ہیں بلکہ وہ بھی ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دئے ہیں اور اب آپ کے احکام معلوم کرنے کا ذریعہ آپ کی سنت اور احادیث صحیحہ ہیں ۔

 

جمعہ ظہر کا نعم البدل ہے اور اس کا وقت زوال آفتاب کے بعد ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جب سورج ڈھلنے لگتا تو منبر پر تشریف لاتے ، اس کے بعد اذان کہی جاتی اور جمعہ کے لیے یہی ایک اذان آپ کے زمانہ میں دی جاتی تھی، اس کے بعد آپ کھڑے ہو کر خطبہ دیتے ۔ خطبے دو ہوتے جن کے درمیان آپ تھوڑی دیر بیٹھ جایا کرتے خطبہ میں حاضرین کو خطاب کر کے حمد و ثناء ، قرآن کی تلاوت اور موعظت کی باتیں پیش کی جاتیں ۔ پھر آپ جمعہ کی فرض نماز دو رکعت جماعت کے ساتھ ادا فرماتے ۔

 

جمعہ کی نماز جماعت کی صورت ہی میں ادا کی جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے تعداد کی کوئی شرط نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ حدیث سے اسی طرح شہر کی بھی کوئی قید نہیں ہے ۔ دیہاتوں میں بھی ادا کی جا سکتی ہے البتہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ لوگ ایک ہی جگہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں جمع ہوں ۔ روایات میں آتا ہے کہ اطرافِ مدینہ کے لوگ جمعہ کے لیے مسجدِ نبوی میں حاضر ہونے کا خاص اہتمام کرتے تھے ۔

 

جمعہ کا نظم قائم کرنا اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ جمعہ اس کے بغیر ادا نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی عدم موجودگی میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا نظم قائم کریں ۔ جمعہ ہر مسلمان پر فرض ہے البتہ جیسا کہ حدیث سے واضح ہے عورتیں ، مریض، مسافر اس سے مستثنیٰ ہیں لیکن اگر ان میں سے کوئی جمعہ کی نماز میں شریک ہو جائے تو وہ ادا ہو جائے گی اور پھر اسے ظہر کی نماز ادا کرنا نہیں ہوگی۔

 

جمعہ کے لیے غسل کرنے ، دانت صاف کرنے ، اچھے کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے کا حکم نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے دیا ہے ۔ یہ اہتمام جمعہ کی شان کے اظہار کے لیے بھی ہے اور اس لیے بھی کہ جمعہ کا اجتماع صاف ستھرے اور خوشگوار ماحول میں ہو نیز افراد میں نظافت کا احساس پیدا کرنے کے لیے بھی۔

 

اس آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ جب جمعہ کی نماز کے لیے اذان دی جائے تو خرید و فروخت چھوڑ کر نماز کے لیے دوڑیں ۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں ایک ہی اذان دی جاتی تھی اس لیے اس سے مراد وہ اذان ہے جو امام کے منبر پر بیٹھ جانے کے بعد دی جاتی ہے ۔ اس اذان کے وقت سے نماز ختم ہونے تک خرید و فروخت ممنوع ہے اور ممانعت کے اس حکم میں ہر قسم کا کاروبار اور مشغولیت شامل ہے الا یہ کہ کوئی ایسی مجبوری پیش آ جائے جو شریعت کی نگاہ میں عذر قرار پاتی ہو مثلاً کسی حادثہ سے دو چار ہو جانا ، ڈاکٹر کے لیے مریض کا آپریشن اگر اسے موخر نہ کیا جا سکتا ہو وغیرہ۔ مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ اپنے ملازمین وغیرہ کو جمعہ کی نماز کے لیے رخصت دیں اور اگر حکومت غیر اسلامی ہے تو اس سے اس رخصت کا مطالبہ کریں ۔بہر صورت مسلمان ملازمین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ جمعہ کی نماز لازماً ادا کریں ۔

 

آیت میں ذکر سے مراد نماز بھی ہے اور خطبہ بھی جو جمعہ کی نماز سے پہلے دیا جاتا ہے ۔ اس سے خطبہ کی حقیقت واضح ہو  جاتی ہے کہ وہ اللہ کا ذکر اور عبادت ہے ۔ اس کے ساتھ اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ خطبہ سامعین سے خطاب ہے اس لیے ان سے خطاب کرتے ہوئے وہ باتیں سامنے لائی جانی چاہئیں جو اللہ کی یاد تازہ کرنے والی ہوں اور اپنے اندر تذکیر اور فہمائش کا پہلو رکھتی ہوں ۔ اور جب یہ خطاب ہے تو اس کا مقصد اسی صورت میں پورا ہو سکتا ہے جبکہ خطبہ عربی کے ساتھ سامعین کی زبان میں بھی دیا جائے ۔ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ( اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو) کا مطلب ہے نماز کے لیے مستعدی دکھاؤ اور اس کی طرف لپکو۔ حدیث میں کسی بھی نماز کے لیے سکون اور وقار کے ساتھ آنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔

 

۱۴۔۔۔۔۔۔  یعنی کاروبار چھوڑ کر جانا بظاہر نقصان کی صورت ہے مگر خیر و برکت اسی میں ہے اور ابدی کامیابی اللہ کی اطاعت و عبادت ہی کے ذریعہ حاصل کی جا سکتی ہے ۔

 

۱۵۔۔۔۔۔۔  یعنی نماز ختم ہو جانے پر خرید و فروخت کی پابندی ختم ہو جاتی ہے ۔ اس کے بعد تم اپنے معاش کے لیے دوڑ دھوپ کر سکتے ہو اور تمہاری یہ معاشی جدوجہد اللہ کے فضل کی تلاش میں ہونا چاہیے جس سے شکر کا جذبہ ابھرتا ہے ۔

 

اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ جمعہ کے احکام سبت کے احکام کی طرح سخت نہیں ہیں کہ کاروباری مصروفیت پورے دن کے لیے ممنوع ہو بلکہ صرف اتنے وقت کے لیے اس کی ممانعت کر دی گئی ہے جو خطبہ سننے اور نماز با جماعت ادا کرنے کے لیے ضروری ہے ۔ اس تخفیف اور آسانی کے بعد بھی اگر مسلمان جمعہ کی پابندی کو اپنے لیے گراں خیال کریں تو یہ بڑی ناقدری ہوگی۔

 

۱۶۔۔۔۔۔۔  یعنی یہ نہ سمجھو کہ اللہ کو مسجد میں یاد کر لیا اور نماز ادا کی تو کافی ہو گیا۔ اللہ کو ہر وقت یاد رکھنا ضروری ہے اس لیے زبان سے اس کا ذکر تسبیح اور حمد کے کلمات کی صورت میں بہ کثرت ہونا چاہیے ۔ چلتے پھرتے اور بازار میں لین دین کی مصروفیت کے دوران بھی۔ اس سے تمہیں ابدی کامیابی حاصل ہو سکے گی۔

 

۱۷۔۔۔۔۔۔  یہ اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جو اس سورہ کے نزول کے وقت پیش آیا تھا۔ جمعہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ دے رہے تھے کہ شام سے ایک قافلہ غلہ لے کر مدینہ کے بازار میں آیا اور ڈھول بجانے لگا۔ غلبہ کی چونکہ اس وقت شدید قلت تھی اس لیے جو لوگ خطبہ سن رہے تھے ان کی ایک تعداد یہ خیال کر کے غلہ خریدنے کے لیے چل گئی کہ وہ اس سے فارغ ہو کر نماز میں شریک ہو جائیں گے ۔اس وقت تک جمعہ کے خطبہ کی اہمیت لوگوں پر پوری طرح واضح نہیں ہو سکی تھی تاہم جمعہ کا خطبہ چھوڑ کر جانا غلط تھا اور اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے تعلق سے سوئے ادب کا پہلو بھی تھا اس لیے اس غلطی پر سخت تنبیہ کی گئی۔ یہ واقعہ بخاری کتاب الجمعہ اور دیگر کتب حدیث میں موجود ہے ۔

 

واضح رہے کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب کہ جمعہ کا سلسلہ ابھی ابھی شروع ہوا تھا اور اس کی اہمیت لوگوں پر پوری طرح واضح نہیں ہو سکی تھی بعد میں کبھی یہ صورت پیش نہیں آئی اور تربیتی مراحل سے گزرنے کے بعد صحابہ کرام کی شان وہ تھی جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے :

 

رِجَالٌ لاَّ تُلْہِے ہِیمْ تِجَارَۃٌ وَّلاَ بَیعٌ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ  "ایسے لوگ جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی۔ (نور: ۳۷)

 

آیت میں ڈھول کو لَہو سے تعبیر کیا گیا ہے اس سے گانے بجانے اور اس کے آلات کی قباحت واضح ہو جاتی ہے لَہو کے معنی غافل کر دینے والی چیز کے ہیں اور شرعاً وہ تمام چیزیں جو اللہ سے غافل کر دینے والی ہیں لہو ہیں ۔ گانا، بجانا، آلات طرب اور شطرنج اور کیرم جیسے کھیل  لہو کی تعریف میں آتے ہیں ۔ یہ چیزیں اپنی طرف اس طرح متوجہ کرتی ہیں کہ آدمی اللہ کی یاد سے غافل ہو جاتا ہے ۔

 

۱۸۔۔۔۔۔۔  یعنی جمعہ کے فریضہ کی ادائیگی کو اگر تم اپنے معاش کے حصول پر مقدم رکھو تو تمہاری یہ قربانی رائیگاں جانے والی نہیں بلکہ اس کا بہترین اجر اللہ تعالیٰ کے ہاں ملے گا۔ رہا دنیا کا رزق تو تمہیں اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے کہ حقیقی رازق وہی ہے اور اس کی اطاعت کی صورت میں وہ تم کو بہترین رزق دے گا بہترین رزق وہ ہے جو اگرچہ مقدار میں کم ہو لیکن خیر و برکت کا باعث ہو۔

 

٭٭٭٭٭