خزائن العرفان

سُوۡرَةُ الجُمُعَة

اللہ کے  نام سے  شروع جو نہایت مہربان رحم والا(ف ۱)

۱                 سورۂ جمعہ مدنیّہ ہے، اس میں دو۲ رکوع، گیارہ۱۱ آیتیں، ایک سو اسّی۱۸۰ کلمے، سات سو بیس ۷۲۰ حرف ہیں۔

(۱) اللہ کی پاکی بولتا ہے  جو کچھ آسمانوں میں ہے  اور جو کچھ زمین میں ہے   (ف ۲)  بادشاہ کمال  پاکی والا عزت  والا حکمت والا۔

۲                 تسبیح تین طرح کی ہے ایک تسبیحِ خلقت کہ ہر شے کی ذات اور اس کی پیدائش حضرت خالقِ قدیر جلَّ جلالہ کی قدرت و حکمت اور اس کی وحدانیّت اور تنزیہ پر دلالت کرتی ہے دوسری تسبیحِ معرفت کہ اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے مخلوق میں اپنی معرفت پیدا کرے تیسری تسبیحِ ضروری وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر ایک جوہر پر اپنی تسبیح جاری فرماتا ہے یہ تسبیح معرفت پر مرتب نہیں۔

(۲)  وہی  ہے  جس نے  اَن پڑھوں میں انہی میں سے  ایک رسول بھیجا (ف ۳)  کہ ان پر اس کی آیتیں پڑھتے  ہیں (ف ۴) اور انہیں پاک کرتے  ہیں (ف ۵) اور انہیں کتاب و حکمت کا علم عطا فرماتے  ہیں (ف ۶) اور بیشک وہ اس سے  پہلے  (ف ۷) ضرور کھلی گمراہی میں تھے  (ف ۸)

۳                 جس کے نسب و شرافت کو وہ اچھی طرح جانتے پہچانتے ہیں ان کا نامِ پاک محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم ہے حضور سیّدِ انبیاء صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی صفت نبی اُمّی ہے اس کے بہت وجوہ ہیں ایک ان میں سے یہ ہے کہ آپ امّتِ اُمِیّہ کی طرف مبعوث ہوئے کتاب شعیاء میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اُمِیّوں میں ایک اُمّی بھیجوں گا اور اس پر نبوّت ختم کر دوں گا اور ایک وجہ یہ ہے کہ آپ کی بعثت اُمُّ القریٰ یعنی مکّہ مکرّمہ میں ہوئی اور ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حضور ِ انور علیہ الصلوٰۃ والسلام لکھتے اور کتاب سے کچھ پڑھتے نہ تھے اور یہ آپ کی فضیلت تھی کہ غایتِ حضور ِ علم سے اس کی حاجت نہ تھی خط ایک صنعتِ ذہنیہ ہے جو آلٰۂ جسمانیہ سے صادر ہوتی ہے تو جو ذات ایسی ہو کہ قلمِ اعلیٰ اس کے زیرِ فرمان ہو اس کو اس کتابت کی کیا حاجت پھر حضور کا کتابت نہ فرمانا اور کتابت کا ماہر ہونا ایک معجز ۂِ عظیمہ ہے کاتبوں کو علمِ خط اور رسمِ کتابت کی تعلیم فرماتے اور اہلِ حرفت کو حرفتوں کی تعلیم دیتے اور ہر کمالِ دنیوی و اخروی میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام خَلق سے اعلم کیا۔

۴                 یعنی قرآنِ پاک سناتے ہیں۔

۵                 عقائدِ باطلہ و اخلاقِ رذیلہ و خبائثِ جاہلیّت و قبائحِ اعمال سے۔

۶                 کتاب سے مراد قرآن اور حکمت سے سنّت و فقہ ہے یا احکامِ شریعت اور اسرارِ طریقت۔

۷                 یعنی سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی تشریف آوری سے قبل۔

۸                 کہ شرک و عقائدِ باطلہ و خبائثِ اعمال میں گرفتار تھے اور انہیں مرشدِ کا مل کی شدید حاجت تھی۔

(۳) اور ان میں سے  (ف ۹) اوروں کو (ف ۱۰) پاک کرتے  اور علم عطا  فرماتے  ہیں، جو ان اگلوں سے  نہ ملے  (ف ۱۱)  اور  وہی  عزت و حکمت والا ہے۔

۹                 یعنی اُمِیّوں میں سے۔

۱۰               اوروں سے مراد یا تو عجم ہیں یا وہ تمام لوگ جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کے بعد قیامت تک اسلام میں داخل ہوں ان کو۔

۱۱               ان کا زمانہ نہ پایا ان کے بعد آئے یا فضل و شرف میں ان کے درجہ کو نہ پہنچے کیونکہ صحابہ کے بعد لوگ خواہ غوث و قطب ہو جائیں مگر فضیلتِ صحابیّت نہیں پا سکتے۔

(۴) یہ اللہ کا فضل ہے  جسے  چاہے  دے، اور اللہ بڑے  فضل والا ہے  (ف ۱۲)

۱۲               اپنے خَلق پر اس نے ان کی ہدایت کے لئے اپنے حبیب محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کو مبعوث فرمایا۔

(۵) ان کی مثال جن پر توریت رکھی گئی تھی (ف ۱۳) پھر انہوں نے  اس کی حکم برداری نہ کی (ف ۱۴) گدھے  کی مثال ہے  جو پیٹھ پر کتابیں اٹھائے  (ف ۱۵) کیا ہی بری مثال ہے  ان لوگوں کی جنہوں نے  اللہ کی آیتیں جھٹلائیں، اور اللہ ظالموں کو راہ نہیں دیتا۔

۱۳               اور اس کے احکام کا اتباع ان پر لازم کیا گیا تھا، وہ لوگ یہود ہیں۔

۱۴               اور اس پر عمل نہ کیا اور اس میں سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی نعت و صفت دیکھنے کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم پر ایمان نہ لائے۔

۱۵               اور بوجھ کے سوا ان سے کچھ بھی نفع نہ پائے اور جو علوم ان میں ہیں ان سے اصلاً واقف نہ ہو یہی حال ان یہود کا ہے جو توریت اٹھائے پھرتے ہیں اس کے الفاظ رٹتے ہیں اور اس سے نفع نہیں اٹھاتے اس کے مطابق عمل نہیں کرتے اور یہی مثال ان لوگوں پر صادق آتی ہے جو قرآنِ کریم کے معانی کو نہ سمجھیں اور اس پر عمل نہ کریں اور اس سے اعراض کریں۔

(۶) تم فرماؤ  اے  یہودیو! اگر تمہیں یہ گمان ہے  کہ تم  اللہ کے  دوست ہو اور لوگ نہیں (ف ۱۶) تو مرنے  کی آرزو کرو (ف ۱۷)  اگر تم سچے  ہو (ف ۱۸)

۱۶               جیسا کہ تم کہتے ہو کہ ہم اللہ تعالیٰ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔

۱۷               کہ موت تمہیں اس تک پہنچائے۔

(۷) اور وہ کبھی اس کی آرزو نہ کریں گے  ان کوتکوں کے  سبب جو  ان کے  ہاتھ آگے  بھیج چکے  ہیں (ف ۱۹) اور اللہ ظالموں کو جانتا ہے۔

۱۸               اپنے اس دعوے میں۔

۱۹               یعنی اس کفر و تکذیب کے باعث جوان سے صادر ہوئی ہے۔

(۸) تم فرماؤ وہ موت جس سے  تم بھاگتے  ہو وہ تو ضرور تمہیں ملنی ہے  (ف ۲۰) پھر اس کی طرف پھیرے  جاؤ گے  جو چھپا اور ظاہر سب کچھ جانتا ہے  پھر وہ تمہیں بتا دے  گا جو تم نے  کیا تھا۔

۲۰               کسی طرح اس سے بچ نہیں سکتے۔

(۹) اے  ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے  دن (ف ۲۱) تو اللہ کے  ذکر کی طرف دوڑو (ف ۲۲) اور خرید و فروخت چھوڑ دو (ف ۲۳) یہ تمہارے  لیے  بہتر ہے  اگر تم جانو۔

۲۱               روزِ جمعہ اس دن کا نام عربی زبان میں عروبہ تھا جمعہ اس کو اس لئے کہا جاتا ہے کہ نماز کے لئے جماعتوں کا اجتماع ہوتا ہے وجہِ تسمیہ میں اور بھی اقوال ہیں سب سے پہلے جس شخص نے اس دن کا نام جمعہ رکھا وہ کعب بن لُوی ہیں پہلا جمعہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے اپنے اصحاب کے ساتھ پڑھا اصحابِ سیَر کا بیان ہے کہ حضور علیہ السلام جب ہجرت کر کے مدینہ طیّبہ تشریف لائے تو بارہویں ربیع الاوّل روزِ دو  شنبہ کو چاشت کے وقت مقامِ قباء میں اقامت فرمائی دو شنبہ، سہ شنبہ، چہار شنبہ، پنج شنبہ یہاں قیام فرمایا اور مسجد کی بنیاد رکھی روزِ جمعہ مدینہ طیّبہ کا عزم فرمایا بنی سالم بن عوف کے بطنِ وادی میں جمعہ کا وقت آیا اس جگہ کو لوگوں نے مسجد بنایا سیّدِ عالَم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے وہاں جمعہ پڑھایا اور خطبہ فرمایا جمعہ کا دن سیّدُ الایام ہے جو مومن اس روز مرے حدیث شریف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو شہید کا ثواب عطا فرماتا ہے اور فتنۂ قبر سے محفوظ رکھتا ہے۔ اذان سے مراد اذانِ اوّل ہے نہ اذانِ ثانی جو خطبہ سے متصل ہوتی ہے اگرچہ اذانِ اوّل زمانۂ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں اضافہ کی گئی مگر وجوبِ سعی اور ترکِ بیع و شراء اسی سے متعلق ہے۔ (کذافی الدرالمختار)

۲۲               دوڑنے سے بھاگنا مراد نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ نماز کے لئے تیاری شروع کر دو اور ذِکْرُاللہِ سے جمہور کے نزدیک خطبہ مراد ہے۔

۲۳               مسئلہ : اس سے معلوم ہوا کہ جمعہ کی اذان ہوتے ہی خرید و فروخت حرام ہو جاتی ہے اور دنیا کے تمام مشاغل جو ذکرِ الٰہی سے غفلت کا سبب ہوں اس میں داخل ہیں اذان ہونے کے بعد سب کو ترک کرنا لازم ہے۔ مسئلہ : اس آیت سے نمازِ جمعہ کی فرضیّت اور بیع وغیرہ مشاغلِ دنیویہ کی حرمت اور سعی یعنی اہتمامِ نماز کا وجوب ثابت ہوا اور خطبہ بھی ثابت ہوا۔ مسئلہ: جمعہ مسلمان، مرد، مکلّف، آزاد، تندرست، مقیم پر شہر میں واجب ہوتا ہے نابینا اور لنگڑے پر واجب نہیں ہوتا صحتِ جمعہ کے لئے سات شرطیں ہیں۔ (۱) شہر جہاں فیصلۂ مقدمات کا اختیار رکھنے والا کوئی حاکم موجود ہو یا فنائے شہر جو شہر سے متصل ہو اور اہلِ شہر اس کو اپنے حوائج کے کام میں لاتے ہوں(۲) حاکم (۳)وقتِ ظہر (۴)خطبہ وقت کے اندر (۵)خطبہ کا قبلِ نماز ہونا اتنی جماعت میں جو جمعہ کے لئے ضروری ہے(۶)جماعت اور اس کی اقلِّ مقدار تین مرد ہیں سوائے امام کے(۷)اذنِ عام کہ نمازیوں کو مقامِ نماز میں آنے سے روکا نہ جائے۔

۲۴               یعنی اب تمہارے لئے جائز ہے کہ معاش کے کاموں میں مشغول ہو یا طلبِ علم یا عیادتِ مریض یا شرکتِ جنازہ یا زیارتِ علماء اور اس کے مثل کاموں میں مشغول ہو کر نیکیاں حاصل کرو۔

(۱۰) پھر جب نماز ہو چکے  تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو  (ف ۲۴) اور اللہ کو بہت یاد کرو اس امید پر کہ فلاح پاؤ، اور جب انہوں نے  کوئی تجارت یا کھیل دیکھا اس کی طرف چل دیے  (ف ۲۵) اور تمہیں خطبے  میں کھڑا چھوڑ گئے  (ف ۲۶) تم فرماؤ  وہ جو اللہ کے  پاس ہے  (ف ۲۷) کھیل سے  اور تجارت سے  بہتر ہے، اور اللہ کا رزق سب سے  اچھا۔

۲۵               شانِ نزول : نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم مدینہ طیّبہ میں روزِ جمعہ خطبہ فرما رہے تھے اس حال میں تاجروں کا ایک قافلہ آیا اور اور حسبِ دستور اعلان کے لئے طبل بجایا گیا زمانہ بہت تنگی اور گرانی کا تھا لوگ بایں خیال اس کی طرف چلے گئے کہ ایسا نہ ہو کہ دیر کرنے سے اجناس ختم ہو جائیں اور ہم نہ پا سکیں اور مسجد شریف میں صرف بارہ آدمی رہ گئے اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔

۲۶               مسئلہ : اس سے ثابت ہوا کہ خطیب کو کھڑے ہو کر خطبہ پڑھنا چاہئے۔

۲۷               یعنی نماز کا اجرو ثواب اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی خدمت میں حاضر رہنے کی برکت و سعادت۔